ہفتہ، 29 نومبر، 2014

ہندوستان کی نئی نسل کیا کہتی ہے اپنے بارے میں

ہندوستان کی نئی غزل زیر بحث ہے، حالانکہ زیادہ تر کے نزدیک یہ بحث چھیڑنی مناسب نہیں، مگر ادب میں اس طرح کے جھگڑے لگائے رکھنے کا مجھے شوق ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس چھوٹے سے سوال کے جواب میں میرے بلاگ کے لیے قریب تمام ہی اہم معاصر جدید ترین نسل کے غزل گو شعرا اور ناقدین نے جواب دیا ہے۔ اپنی اونچائی کا شور مچانے کے ساتھ ساتھ ہم کتنی گہرائی میں ہیں، اس کا اندازہ لگانا بھی بہت ضروری ہے ۔ اس سوال کا جواب میں نے علی اکبر ناطق، عادل رضا منصوری اور زاہد امروز سے بھی طلب کیا تھا، مگر ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا، لیکن ادریس بابر، جو کہ پاکستان کی نئی غزل کا ادبی طور پر ایک بہت ہی کامیاب اور بڑا نام ہیں، ایک چھوٹے سے جواب کے ساتھ اس محفل میں حاظر ہیں، ان کے جواب میں ان کا خود پر اور ہندوستان کی نئی غزل گو پر اعتماد جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ ابھیشیک شکلا کچھ کسرنفسی سے کام لے رہے ہیں، مگر یہ ان کا حق ہے، سالم سلیم کی بات بھی صاف ہے کہ وہ نئی نسل کے ابھی تک شائع شدہ مجموعوں میں کسی قسم کا انحراف نہیں دیکھ سکے ہیں، جسے وہ صحیح معنوں میں نئی غزل کی اپنی شناخت کہہ سکیں۔ امیر امام جدیدیت زدہ شاعری پر اعتراض کرتے ہوئے جدید تر نسل سے اپنی توقعات کو ظاہر کررہے ہیں۔ معید رشیدی نے سوال کےجواب میں الٹا بزرگوں سے ہی سوال کرڈالا ہے۔ امیر حمزہ ثاقب اور غالب ایاز دونوں نئی نسل کی زبان دانی کے حوالے سے کچھ کہہ رہے ہیں، تالیف حیدر کا جواب بھی اعتماد کی ایک کڑی ہے، مگر وہ موجودہ نسل میں صرف ادب لکھ پڑھ لینے کو ہی بجائے خود ایک بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں۔ اور زمرد مغل، جن کی تنقیدی رائے اس نسل کے لیے ایک بڑا سوال ہے کہ وہ ابھی تک اس میں کوئی بہت اہم تخلیقی صلاحیت دریافت کرنے سے قاصر ہیں، چنانچہ یہ جوابات دلچسپ ہیں، کوئی اگر اسے اپنے رسالے یا اخبار میں شائع کرنا چاہے تو بلاگ کے حوالے کے ساتھ شائع کرسکتا ہے۔ اس طرح کے سلسلے ذہنوں میں جھانکنے کے بھی کام آتے ہیں، اور ذہنوں کو مانجھنے کے بھی۔ دیکھیے کیا اس پر بھی کوئی بات ہوتی ہے۔



سوال:کیا آپ کو لگتا ہے کہ ہندوستان کی جدید ترین غزل گو نسل انفرادی یا اجتماعی طور پر اپنی گزشتہ نسل سے الگ اور بہتر شاعری کررہی ہے؟کیوں اور کیسے؟

 
ابھیشیک شکلا:نئی نسل، جس کے زیادہ تر شعرا کی کتابیں بھی ابھی نہیں آئی ہیں(ان کے بارے میں)یہ سوال کرنا کہ وہ اپنی کوئی الگ راہ نکال پائے ہیں یا انہی پامال رستوں کے سفر پر ہیں ، جن سے ہوکر ان کی پچھلی اور بے حد شاندار پیڑھی گزری ہے، میں سمجھتا ہوں کہ مناسب نہیں فی الحال۔حالانکہ کتاب آنا بھی کوئی شرط نہیں۔مگر یہ نسل ابھی تجربے کررہی ہے، استفادہ کررہی ہے۔میں اپنے بارے میں بالکل صاف ہوں کہ میں نے ابھی تک کوئی ایسی بات نہیں کہی کسی شعر میں کہ جسے بہت نئی یا انوکھی بات کہا جاسکے۔بلکہ میں یہ تک کہوں گا کہ میرے لیے جدیدیت کا دور ابھی ختم پر بھی نہیں۔زبان کا وہی رچاؤ، وہی ڈکشن،تقریباً وہی کنٹنٹ گھوم پھر کر دیکھنے کو ملتا ہے۔مگر مجھے اس بات کا بھی پورا یقین ہے کہ ایکسپلور کرنے کے اس پروسز ہی سے نئی راہ نکلے گی کہ اس کے علاوہ کوئی طریقہ ہی نہیں۔
 
 ادریس بابر:جی ہاں، کیونکہ مجھے ایسا لگتا ہے۔
 
 امیر امام:سوال خاصا پیچیدہ بھی ہے اور مزیدار بھی ۔۔۔۔کیونکہ اگر کوئی صرف فیصلہ کن بیانات دینے کا عادی ہے تو الگ بات ، ورنہ کون سی شاعری بہتر ہے اور کون سی کم بہتر اس کے بارے میں میرے نزدیک رائے صرف ایک آدمی کی ذاتی رائے ہوتی ہے اور ستم ظریفی یہ کہ وہ آدمی اپنی ذاتی رائے کو دنیائے ادب کی رائے تصور کر لیتا ہے۔یہی معاملہ انفرادیت کا بھی ہے۔۔۔اگر کوئی آدمی بھرے بازارمیں برہنہ نکل آئے تو ایک طرح سے منفرد تو وہ بھی ہوا لیکن کیا وہ مثبت انفرادیت ہوگی۔۔۔پیش نظر سوال پر آگے بڑھنے سے پہلے اس نکتے کو سمجھ لینا نہایت ضروری ہے۔میرے نزدیک انفرادیت وہ ہے جو اپنی گزشتہ غیر ضروری روایات کو ترک کرتے ہوئے اور ضروری روایات کو اپناتے ہوئے اپنی انفرادیت کے ساتھ ظاہر ہو، یہی بات شاعری پر بھی لاگو ہوتی ہے۔تو نہ تو اس نسل سے پہلے کے تمام شعرا اپنی پچھلی نسل سے بہتر اور منفرد تھے اور نہ ہی جدید ترین نسل کے سارے شعرا اس پیمانے پر کھرے اترتے ہیں۔اس نسل میں بھی کچھ ہی کی شاعری میں وہ دم تھا کہ جس کو پڑھ کر یہ لگے کہ بڑی شاعری ، گزشتہ تمام بڑی شاعری کا ایک گلدستہ ہوتی ہے، اور یہ جب کسی ایک شاعر کے کلام میں ظاہر ہوتی ہے تو اس کی انفرادیت کا سبب ٹھہرتی ہے ورنہ ا س سے پچھلی نسل میں بھینسا بھینس تک گھسا دیے گئے لیکن ان کی شاعری کو ادھڑی ہوئی زمین کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔بھینسا بھینس کی دھماچوکڑی سے اس سے زیادہ کچھ امید کرنی بھی نہیں چاہیے۔اس نسل کی شاعری میں بھی آخروہی شاعری ،شاعری نکلی یا ابھی نکلنی ہے کہ جسے پڑھتے ہوئے گزشتہ بڑی شاعری کے تمام رنگ آپس میں مل کر ایک نیا رنگ بن گئے۔مثال کے طور پر عرفان صدیقی،منیر نیازی، جون ایلیا اور شہریار وغیرہ کا نام لیا جاسکتا ہے۔یہی بات اردو کی جدید تر نسل پر بھی لاگو ہوتی ہے۔کسی ایک کا نام لینا کسی دوسرے کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔۔۔تو کسی کا نام نہ لیتے ہوئے عرض کروں کہ یہ لوگ اسی کارواں کو آگے لے جارہے ہیں، جس کی راہیں گزشتہ بڑے ادیبوں نے ہموار کی ہیں اور بڑا ادب کبھی حرف آخر نہیں ہوتابلکہ آنے والوں کے لیے نئی راہیں مسخر کرتا ہے۔شکریہ
 
امیر حمزہ ثاقب:جدید تر نسل کے تخلیقی رویے کی بابت ذاتی طور پر مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ اپنا امتیاز کسی مخصوص نظریاتی اساس پر قایم نہیں کرتی جیسا کہ اس کے پیش رووں نے کیا ۔اس نسل نے اپنا ایک نیا شعری محاورہ دریافت کرلیا ہے ۔روایت سے اکتساب اورقدیم تہذیبی ورثے اور قدروں کومعاصر صورتِ حال کا تناظر فراہم کرنے میں یہ نسل ایک نیا لسانی پیٹرن وضع کرنے میں کامیاب ہے ۔نئی تراکیب سازی میں اس کے وجود اور وجود کے جوہر کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔الفاظ کے انتخاب میں یہ نسل محتاط بھی ہے اور آزاد بھی ۔محتاط یوں کہ اسے زبان کی نزاکتوں کا علم ہے اور آزاد یوں کہ’ درونِ ذات ‘کی پیچیدگیوں کے بیان میں جو عارفانہ اور قلندرانہ آہنگ اس نے حاصل کیا ہے وہ زبان کی حدبندیوں سے آگے نکلنے سے عبارت ہے ۔اس نسل کی تخلیقی توانائی سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتااورایسی کوئی بھی کوشش مبنی بر تعصب تو ہوسکتی ہے مبنی بر انصاف نہیں ۔انصاف کے ٹھیکیداروں کو اب اس نسل کے تئیں سنجیدہ ہوجانا چاہیے ۔
 
تالیف حیدرؔ:جو نسل لفظ تشکیل دینا اور معنوی ادراک کی ترسیل کرنا جانتی ہے وہ اپنے اگلوں سے تحسین کی خواہش مند نہیں ہوتی۔کیوں کہ اسے علم ہوتا ہے کہ سنجیدگی سے پڑھنے والوں میں کسی طرح کا نسلی تعصب نہیں پایا جاتا۔نئے تقاضے جن معاملات کا اظہار چاہتے ہیں ظاہر ہے کہ اس کاتفہم نئی نسل کو ہی ہوگا، اگر کسی ایسے شخص کو جو گذشتہ پچاس سال سے پڑھتا اور لکھتا چلا آرہاہو اوروہ ایسے اظہار کے ہنر سے واقف ہے جس سے نئے پڑھنے والوں کا ذہن متاثر ہوتا ہے تو وہ بھی اسی نسل سے تعلق رکھتا ہے، لیکن میری ذاتی رائے (جو گذشتہ نسلوں کی علمی و ادبی کارگزاریوں کے مشاہدات پر مشتمل ہے )کے مطابق یہ مشکل کام ہے۔اس لئے یہ سوال کرنا کہ نئی نسل اپنی شاعری سے کون سا کارنامہ انجام دے رہی ہے یہ کوئی بہت زیادہ اہمیت کا حامل نہیں۔ نئی نسل شعر کہہ رہی ہے ،افسانہ لکھ رہی ہے اور تخلیقی اظہار کا فن جانتی ہے ۔اس لئے یہ نئے ادب کو ترتیب دے سکتی ہے۔تو اگر ہم سے اگلوں کو یہ نہیں لگتا کہ نیا ادب ترتیب دینا اور جدید تقاضوں کو سمجھ کر ان کا متاثر کن اظہار کرنا کوئی کارنامہ ہے تو یہ سوال خود اگلی تمام نسلوں پر بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ آخر انہوں نے اپنی زندگی میں کون سا کارنامہ انجام دیا۔
 

زمرد مغل:جب بھی ہم نسلی تناظر میں تخلیقات کامطالعہ کرتے ہیں تو ہم اوسط درجے کی شاعری کی بات کررہے ہوتے ہیں اور اوسط درجے کی شاعری انفرادیت قائم نہیں کرتی۔ہاں گزشتہ نسل میں بھی چند غزل گو ایسے ہیں، جن میں شارق کیفی، شہرام سرمدی، مغل فاروق پروازجنہوں نے اچھوتے موضوعات کے ساتھ اپنے انفرادی لب و لہجے کو قائم رکھا ہے۔ہندوستان کی جدید ترین نسل پر آپ کا اس قدر اصرار مجھے پھر سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ میں اس کا مطالعہ پھر سے کروں۔مگر جہاں تک میں نے نئی، جسے آپ جدید ترین نسل کہتے ہیں، کی شاعری کو پڑھا ہے ۔کم سے کم ہندوستان میں تو ابھی تک مجھے کوئی ایسا شاعر نہیں ملا جسے میں مستقبل کا احمد مشتاق، ساقی فاروقی، ظفر اقبال ،عرفان صدیقی، زیب غوری، شہریار، محمد علوی، منیر نیازی سمجھوں۔اور جدید ترین نسل پر اس قدر زور کیوں۔مجھے یہ بحث اپنے آپ میں ایک طرح کی زد اور رد عمل کی نفسیات کے تحت اٹھائی گئی بحث معلوم ہوتی ہے ۔اختر الایمان نے کہا تھا کہ نسلیں گدھے اور گھوڑوں کی ہوتی ہیں۔
 
سالم سلیم:گزشتہ نسل کا مفہوم بہت واضح نہیں ہے کہ ماضی قریب یا ماضی بعید کی بات ہورہی ہے۔میری ذاتی رائے میں تازہ ترین نسل میں تمام تخلیقی امکانا ت پوشیدہ ہیں مگر اس جوہر کا اظہار ابھی خاطر خواہ نہیں ہوسکا ہے۔کچھ مجموعے سامنے آئے ہیں مگر یہی کتابیں نئی نسل کی بھرپور نمائندگی تو نہیں کرتیں۔ان مجموعوں میں اپنے اصل تجربے اور باطن کے کرب کا مکمل اظہار موجود ہے مگر اتفاق سے یہ شاعری مکمل انحراف کے خانے میں نہیں آتی۔یہ انحراف معنوی اور لفظی دونوں سطحوں پر ناگزیر ہے۔البتہ تصنیف حیدر نے کچھ غزلیں ضرور کہی ہیں جن میں انحراف کی آگ بلند ہے۔مگر ان کی بھی ان غزلوں کو شائع ہونا باقی ہے جبھی ایک مجموعی تاثر بن سکتا ہے۔
 

غالب ایاز:میں سمجھتا ہوں کہ نئی نسل کی شاعری میں ایک خوشگوار متانت ہے اور یہ افراط و تفریط سے پاک ہے۔نئی نسل کے شاعروں پر نہ تو کسی منشور کی پابندی ہے اور نہ وہ مختلف نظر آنے کے مرض میں مبتلا ہیں۔ان کے سامنے امکانات کی ایک نئی دنیا آباد ہے۔نئی نسل فکر و خیال کے نئے علاقے فتح کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے اور اس رستے میں نہ وہ زبان سے کھلواڑ کررہی ہے اور نہ غیر مضامین شعر سے شاعری کو بوجھل کررہی ہے ۔نئی نسل نے ایسی زبان کو فروغ دیا ہے جس میں جدت تو ہے مگر اجنبیت نہیں۔
 
معید رشیدی:نئی نسل کی شاعری پر کوئی حتمی فیصلہ کرنا قبل ازوقت ہے۔نئی نسل کی شاعری پر اعتراض کرنے والے یہ بتائیں کہ وہ نئے پن سے کیا مراد لیتے ہیں۔نیا پن کیا ہے؟ساتھ ہی یہ بھی بتائیں کہ اس میں پرانا پن کتنا ہے۔ہر عہد کی شاعری کچھ نئی کچھ پرانی ہوتی ہے۔اگر زندگی پرانی نہیں ہوئی ہے تو ہمار ی شاعری بھی پرانی نہیں ہوئی ہے۔

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *