منگل، 9 دسمبر، 2014

علی اکبر ناطق سے دس سوالات



علی اکبر ناطق کی نظموں کو بہتر طور پر ہندوستان میں اشعر نجمی کے رسالے 'اثبات'نے متعارف کروایا۔میں نے ان کی شاعری پڑھی اور اس کا بے حد قائل ہوا۔حالانکہ ان پر شمس الرحمٰن فاروقی نے بھی لکھا اور دوسرے بہت سے اہم ادیبوں نے بھی، مگر وہ اپنی بے پروائی کے ساتھ اپنے قدم بڑھاتے رہے، ناطق کی کہانیاں مجھے اتنی زیادہ پسند نہیں ہیں، جتنی ان کی شاعری ہے،شاید اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ناطق کی کہانیوں کا ماحولیاتی عنصر میرے لیے بے حد اجنبی ہے، لیکن جن کہانیوں پر انتظار حسین تعریفی جملے برسائیں اور اجمل کمال جنہیں اپنے رسالے میں جگہ دیں، ضرور ان کی ادبی اہمیت کا کچھ اہم جواز ہوگا۔خوشی مجھے اس بات کی ہے کہ ان جوابات کے ذریعے مجھے معلوم ہوا کہ وہ خود کو بھی بطور شاعر اول حیثیت دیتے ہیں ، جیسا کہ انہوں نے کہا کہ 'شاعری شاید میں خود کے لیے کرتا ہوں اور کہانیاں دوسروں کے لے لکھتا ہوں' ۔لیکن ادھران کے ناول'نولکھی کوٹھی'نے بھی بڑا ہنگامہ مچایا ہوا ہے۔ یہ ناول ابھی تک میں نے نہیں پڑھا ہے۔لیکن 'گرانٹا'جیسے رسالوں میں ناطق کے انٹرویوز اور دوسرے اہم ادبی افراد کے ذریعے ناطق کے اس ناول کی تعریف لگاتار پڑھنے میں آرہی ہے۔آکسفورڈ اور پینگوئن جیسے بڑے اشاعتی اداروں نے جس طرح ناطق کی کتابوں کو شائع کرنے کا ارادہ کیا ، اس سے وہ بہت جلد دوسری زبانوں کے بڑے ادبی حلقوں میں بھی متعارف ہوئے ہیں۔ ان کی شخصیت اپنی ایک 'ترنگ'کے ساتھ اردو والوں میں موجود ہے۔ایک جانب ملنسار، مخلص،خود اعتمادی سے لبریز اور دوسری طرف صاف گو، بے لاگ اور بے پروا علی اکبر ناطق سے کیے گئے دس سوال جوابوں سمیت حاضر ہیں۔امید ہے کہ یہ آپ کو پسند آئیں گے۔





تصنیف حیدر: آپ کے جتنے دوست ہیں اتنے ہی دشمن ۔ اس کی وجہ آپ کیاسمجھتے ہیں؟

علی اکبر ناطق:تصنیف صاحب آپ کے پہلے ہی سوال سے مجھے حیرت اس لیے ہوئی کہ آپ کو میرے دشمنوں اور دوستوں کی تعداد کا صحیح اندازہ ایک دوسرے ملک میں اتنی دور بیٹھ کر کیسے ہو گیا ؟اِ دھر پاک میں بھی کئی احباب اسی قسم کا سوال پوچھتے ہیں ۔جس کا مَیں کبھی خاطر خواہ جواب نہیں دے پایا ،یا مَیں نے اِس پر کبھی غور ہی نہیں کیا اگر کبھی غور کیا بھی تو ایسے خیالات سے کترا کے نکل جاتا ہوں۔خیر اگر یہ پردہ کُھل ہی گیا ہے تو آج دو ایک سبب بتا ہی دوں۔ مَیں نے میٹرک سے اُو پر کی تمام تعلیم پرائیویٹ حاصل کی۔ پروفیسروں کے لیکچروں سے دُور،کلاس روموں کی چخ چخ سے پرے ،ادبی سکالروں اور بوڑھے دانشوروں کے آگے زانوئے تلمذ تہ کیے بغیراور نام نہاد ادبی تھیوریاں پیش کرنے والے نقادوں کے پُر مغز مضامین کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ،جن کے مطابق یہ حضرات بڑی سے بڑی تخلیقات کے خلاصے پلک جھپکنے میں کر کے ایک طرف رکھ دیتے ہیں ۔اب یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ جو لونڈا ،نہ کسی ریگولر یونیورسٹی میں پڑھا ہو نہ وہاں کے پڑھے ہوؤں اور پڑھانے والوں کو ٹھینگے پر لکھتا ہو،اور حد یہ کہ اُنہیں نالائق بھی کہتا ہو،اُسے آسانی سے مان لیا جاتا ۔اگر وہ مجھے مان لیں تو اُن کے بے شمار لائق فائق شاگردوں کی کھیپ کہاں منہ چھپائے گی۔ وہ خود اور اُن کی تھیوریاں کس کنویں میں ڈالی جائیں گی ؟ دو،اپنی عمر کے اولین تیس سال مَیں نے کسی ادیب اور شاعر کی شکل تک نہیں دیکھی ،حتیٰ کہ اُس بوڑھے شاعر کی بھی جو میرے اپنے شہر کا تھا ۔نہ معاصر شعراکے ساتھ بیٹھا اُٹھا،نہ اُن کے ساتھ کہیں مشاعرہ پڑھا ،نہ خالی چائے کی میزوں پہ بیٹھ کر ادبی سیانوں کے دانشورانہ لقمے چبائے ۔ اور نہ بیگار میں پکڑے ہوئے مشاعرہ بازوں کے بستے اُٹھائے۔پھر آپ ہی بتائیے تصنیف میاں یہ سارے خدائی فوجدارکیسے اِس عاجز نیم خواندہ ، غیر مہذب، پینڈواور گنوار لڑکے کوادب کی پاک صاف مملکت میں برداشت کر لیتے ۔ اور مَیں تو ایسا گُستاخ نکلا ،کہ ہرنوع کی ادبی فصل میں اُن کے اجارہ داروں کی اجازت کے بغیر ہی منہ مارنے لگا ۔ نہ کسی کو اپنا مسودہ دکھایا ،نہ کسی جہاں دیدہ مشقِ سخن کرنے والے سے مشورہ طلب کیا۔ اُس پر ستم یہ کے آپ جیسے سر پھرے مجھے اہمیت دیے چلے جاتے ہیں ۔ گالیاں نہ پڑیں تو کیا پھولوں کے ہار گلے میں ڈالے جائیں۔لیکن ایک بات ضرور ہے کہ دوستوں کی تعداد اِ ن ادبی گُرگوں سے بہت زیادہ ہے ۔میرا کامل یقین ہے کہ میرے دوست اِن نام نہاد ادیبوں اور شاعروں اور نقادوں سے کہیں زیادہ پڑھنے والے ،ادب کو سمجھنے والے ، دوستی میں مخلص اور جینوئن ادیب یا شاعر کی عزت کرنے والے ہیں ۔یہی بات دشمنوں کو بُری لگتی ہے۔ایک دفعہ اسی پس منظر میں میرے ایک دوست ڈاکڑسعید الرحمٰن ،جس نے اسڑیلیا سے انگریزی ادب میں ڈاکڑیٹ کی ہے،نے کہا تھا، ناطق ،حسد کرنے والوں کو در اصل تجھ سے کوئی مسئلہ نہیں ،اُن کو مسئلہ اُن لوگوں سے ہے جو تیری تعریف کرتے ہیں ۔ اور اب تو وہ مدیر بھی حاسدوں میں شامل ہو چکے ہیں جو مجھے چھاپنے میں کبھی پیش پیش تھے۔شاید مَیں نے اُن کی برخور داری میں نے کوتاہی کی ہے۔ البتہ اشعر نجمی اور قاسم یعقوب آج بھی میرے چاہنے والے اور مجھے شہرت میں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور مَیں اُن کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ خیر آپ فکر نہ کریں اِدھر ایک دشمن بنتا ہے تو دوسری طرف ہزار دوست نکل آتا ہے۔

تصنیف حیدر:علی اکبر ناطق پہلے خود کو کیا کہلوانا چاہے گاشاعر یا افسانہ نگار؟ کیوں ؟

علی اکبر ناطق: شاعر،، کیوں کا جواب یہ ہے کہ شاعری میرا اول و آخر ہے ۔اس کا آسان جواب پانے کا طریقہ یہ ہے کہ اگر میرا خدا مجھے مجبور کر دے کہ دونوں میں کوئی ایک صنف اختیار کر لو اور ایک ترک کر دو تو میں شاعری اختیار کر لوں گا۔ مجھے شاعری میں موت کے نزدیک لے جانے والی اُداسی ، زندگی کے قریب لے جانے والی خوشی اور بے خودی میں لے جانے والی سرشاری ملتی ہے۔ شاید افسانہ میں دوسروں کے لیے لکھتا ہوں اور شاعری اپنے لیے کرتا ہوں ۔

تصنیف حیدر:آپ پر ایک الزام ہے کہ آپ خود پر تنقید برداشت نہیں کرتے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟

علی اکبر ناطق:یہ ہوائی کسی دُشمن نے اُڑائی ہو گی۔بھائی جتنی تنقید اور بے سروپا تنقید مَیں برداشت کرتا ہوں اتنی شاید ہی کوئی کرتا ہو۔تنقید تو رہی ایک طرف مَیں تو گالیاں اور جوتے تک کھا چکا ہوں۔ توہینِ مذہب کے فتوے دے کر قتل کروانے کی کوشش کی جا چکی ہے ۔تمام ادبی اداروں میں میرا داخلہ ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔ (ناطق تو یار سِرے سے گھامڑ ہے ۔ ادب کی الف ب تک نہیں جانتا۔ ابے جاہل ہے ۔اجی چھوڑیے صاحب ، نرا گنوار ہے۔ یار یہودی ایجنٹ ہے ۔ بھائی ،،را،، سے پیسے کھائے بیٹھا ہے۔گدھا ہے گدھا ۔ اِسے تو یہ تک نہیں پتا بینگن کا بھُرتہ کیسے بنتا ہے یہ افسانہ کیا لکھے گا۔ناطق شیعہ ہے اور اُنہی نے اُٹھا رکھا ہے۔ وہ تو ڈھنگ خط نہیں لکھ سکتا ،آپ کہتے ہیں اُس نے ناول لکھا ہے ، بھائی میں نہیں مانتا ،کسی سے لکھوا لیا ہو گا۔ ناطق شاعری خود نہیں کرتا، اُسے کون نظمیں لکھ کر دیتا ہے یہ مَیں جانتا ہوں ۔بھائی سارا پی آر کا نتیجہ ہے۔ اُس کے تعلقات بہت ہیں ۔وہ اصل میں ایک خاص قسم کے طبقے کا نمائندہ ہیاس لیے وہ اِ سے اٹھاتے رہتے ہیں ورنہ کیا ہم شاعری نہیں کرتے گھاس کاٹتے ہیں ۔اگر میرے افسانوں کو غور سے دیکھا جائے تو ناطق کے افسانے اُن کے پاسک بھی نہیں لیکن میری پی آر نہیں ،اس لیے کوئی مجھے پوچھتا نہیں ۔ یار اس کے افسانوں میں کون سے پر لگے تھے کہ آکسفورڈ تک اُڑ کر چلے گئے ۔ سیدھی بات ہے یہ سب یہودیوں کی سازش ہیورنہ یہ ناطق جانگلوں تو سب بکواس لکھتا ہے) لیجیے صاحب، یہ ہے وہ تنقید جو مجھ پر ہوتی ہے اور بقول آپ کے ،جو مَیں برداشت نہیں کرتا ۔ بھائی ،اگر مجھ پر کوئی تنقید کرتا تو رونا کیا تھا۔زیف سید ، منظر نقوی ، شیراز حیدر ڈاکڑ سعید الر حمٰن ،جاوید ملک ،اُسامہ صدیق،سید اقبال ترمذی،ادریس بابر ،اشفاق عامر ، قاسم یعقو ب، عابد خورشید ،غافر شہزاد ، سید حیدر شاہ،جہانزیب، عدنان بشیر، ارسلان راٹھور،یہ سب میرے روزانہ کے ملنے اور بیٹھنے والے دوست ہیں ۔ کبھی اِن سے بھی تو پوچھیے جو میری تخلیقات کا کس بے دردی سے اپر یشن کرتے ہیں اور مَیں کس بُرد باری سے اُن کو اسٹریچر پر پڑا دیکھتا ہوں۔ اب اگر لوگ گالیاں دینے کو تنقید سمجھیں اور میری تخلیقات کو بغیر پڑھے اُن پرایسے ایسے حکم لگائیں تو خود ہی بتائیے ،مَیں کیا کروں ؟نتیجہ یہ کہ مَیں اُن کو لفٹ نہیں کرواتا ۔اُن کو گھاس نہیں ڈالتا ۔اور اُن کی دانش کو دور ہی سے سلام کر کے نکل جاتا ہوں ،جس کا اُنہیں صدمہ پہنچتا ہے اور وہ کہہ دیتے ہیں ناطق اپنے اُوپر تنقید برداشت نہیں کرتا ۔

تصنیف حیدر:شمس الر حمٰن فاروقی کو ایک بڑے اعزاز کے لیے نامزد کیا گیا ہے ۔آپ کے نزدیک اُن کا ناول کیا واقعی اتنا اہم ہے۔

علی اکبر ناطق:میں سمجھتا ہوں اُن کا ناول اردو ادب کا ایک نایاب سرمایہ ہے ۔ یہ ناول اس قدر اہم ہے جس قدر اس میں دکھایا جانے والا عہد اہم ہے ۔ در اصل ناول نام ہی اُس چیز کا ہے کہ وہ زندگی کا ایک ایسا باب قاری کے سامنے رکھ دے جس کے حوالے سے ہم گزری ہوئی ،جاری اور آنے والی تہذیب کی آیات واضح دیکھ سکیں اور اُس کی پیچیدگیوں کو جان لیں ۔اگر ناول نگار یہ سب دکھانے میں کامیاب ہو جائے تو یہ بڑا کام ہے ۔ مَیں نے فاروقی صاحب کا ناول(کئی چاند تھے سرِ آسماں ) اول تا آخر انتہائی دلچسپی سے پڑھا اور بہت کچھ حاصل کر کے اُٹھا ۔یہ ناول لکھ کر فاروقی صاحب نے قاری پر بہت بڑا احسان کیا ہے جس پر مَیں اُنہیں سلام پیش کرتا ہوں ۔ وہ واقعی اس چیز کے مستحق ہیں ۔

تصنیف حیدر: آپ غزل زیادہ نہیں کہتے ۔کیا غزل کے ذریعے اچھی شاعری کا امکان صفر کے برابر ہے؟

علی اکبر ناطق:میرا خیال ہے اردو شاعری کو جتنا غزل نے مالا مال کیا ہے کسی اور صنف نے اتنی خدمت نہیں کی ۔ اردو میں غزل ہی ایسا ذریعہ اظہار ہے جس سے برصغیر کا بچہ بچہ واقف ہے اور اِسے گنگناتا ہے۔اور خواص ایک طرف عوام میں بھی کوئی شخص ایسا نہیں جسے کسی نہ کسی غزل کا کوئی شعر یاد نہ ہو۔جہاں تک آئندہ امکان کا سوال ہے تو مَیں کبھی بھی غزل سے نا امید نہیں ہوا ۔ اصل میں کسی بھی صنف کا اعتبار اس پر ہوتا ہے کہ اُس کو اختیار کرنے والا کتنا صاحبِ کمال ہے۔جب کائنات اتنی وسیع ہے تو غزل میں استعمال ہونے والے مضامین کیسے کم پڑ سکتے ہیں ۔نت نئی دریافت ہونے والی چیزیں اُس کے اظہار کے نئے پیرایوں سے خود بخود روشناس کراتی چلی جاتی ہیں ۔ آج بھی عمدہ اور جدیدغزل لکھنے والے لوگوں کی ایک پوری کھیپ نظر آتی ہے، جن میں ادریس بابر، اشفاق عامر ، منظر نقوی، عدنان بشیر ،ذولفقار عادل ، انعام ندیم ،تصنیف حیدر ،فرحت احساس،لیاقت جعفری،معید رشیدی موجود ہیں ۔البتہ کچھ نالائق لوگ اور متشاعر جن میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے ،ضرور اس صنف سخن کی تنزلی کا باعث ہیں۔یہ لوگ غزل اور شاعری کی حقیقت سے تو سِرے سے واقف نہیں لیکن خود کو میر کہلوانے پر مصر ضرور ہیں اور اسی جہالت میں بے لطف لفظوں کا بھاڑ جھونکے جا رہے ہیں ۔ کہنے سننے سے یہ باز نہیں آتے ۔ اصل میں اِ نہیں مارا ہے دن رات کے مشاعروں اور شعر کی فہم نہ رکھنے والے اُن سامعین نے ،جو خود بھی یہی کچھ بکنا چاہتے ہیں اور ایک دوسرے سے داد کے خواہاں ہیں ۔غزل پر عامیانہ تنقید کرنے والوں کو دراصل انہی کی غزلیں پڑھ کر اور سُن کر اس صنفِ سخن میں مزید امکان نظر نہیں آتا ۔رہا میری غزل گوئی کا معاملہ ۔یہ سچ ہے کہ مَیں نے غزلیں بہت کم کہی ہیں لیکن میری ایک کتاب غزل کی بہر حال ہو چکی ہے ۔ اُسے میں جلد قارئین کے سامنے لاؤں گا۔ چونکہ میں مشاعرے نہیں پڑھتا اس لیے میری وہ غزلیں کسی کی نظر میں نہیں آئیں اور رسالوں میں مَیں نے چھپوائیں نہیں ۔ آئندہ میرا ارادہ غزل ہی کی کتاب لانے کا ہے ۔گھبرائیے نہیں ۔

تصنیف حیدر:اچھی شاعری آپ کے نزدیک کیا ہے ۔کیا شاعری کا مستقبل بہتر ہے؟

علی اکبر ناطق:اچھی شاعری ڈرامہ بازی سے پرے ، اُن الفاظ کی ا صوات اور رنگوں سے مل کر بنتی ہے جو کانوں کے راستے سے بصارت کو منظر، سانس کو خو شبو اور دلوں کو سر خوشی بخش دیں ۔جس کو پڑھنے اور سننے سے انسان کو کائنات سے محبت ہو جائے اور خوبصورت چیزوں سے عشق ہو جائے۔ اچھی شاعری محض الفاظ اور اور اس کی بازی گری نہیں ہے ۔ قافیوں کی نقالی اور بھونڈی تر کیبوں سے دور اچھی شاعری نفاست کے ساتھ سجائے ہوئے اصلی پھولوں کے گلدستے ہوتے ہیں جن سے خوشبو بھی آتی ہے نظر کو بھلے بھی لگتے ہیں ۔یہ تو دل سے دل تک کا سفر ہے۔ رہا شاعری کا مستقبل ، تو یہ مستقبل قیامت تک رہے گا ۔ ہم نہ ہوں گے تو کوئی ہم سا ہوگا۔ہاں اگر انسانوں کی جگہ عورتوں کے بطن سے لوہے کی مشینیں پیدا ہونے لگ جائیں تو اور بات ہے ۔ تصنیف صاحب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا دنیا میں فنکاروں اور دل والوں کو پیدا کرنا چھوڑ دے گا۔ اگر یہ ہو گیا تو یاد رہے دنیا بھی نہیں رہے گی ۔ صاحبِ دل پیدا ہوں گے تو شاعری کیسے مر جائے گی ۔ اور اس کا مستقبل کیسے خطرے میں پڑ سکتا ہے ۔ البتہ یہ بات ہر دور میں کہی جاتی رہی ہے کہ ٓآرٹ خطرے میں ہے ، مصوری خطرے میں ہے ، موسیقی خطرے میں ہے۔ شاعری خطرے میں ہے ۔ خطاطی خطرے میں ہے ۔ زبان خطرے میں ہے ۔ارے میاں کوئی شے خطرے میں نہیں ہے ۔ ہاں آہستہ آہستہ تقاضوں کے مطابق اُس میں تبدیلی ضرور آتی رہتی ہے اور یہی شے اُس فن کی بقا کا باعث بھی ہوتی ہے ۔اگروقت کے ساتھ اُس میں تبدیلی رونما نہ ہو تو یہ خطرے کی بات ضرور ہے ۔ میرا خیال ہے کہ شاعری کو آئندہ کوئی خطرہ نہیں ۔ اس کا مستقبل روشن ہے ۔ جب تک یہ دنیا رہے گی۔

تصنیف حیدر:ظفر اقبال آپ سے زیادہ خوش نہیں،کیا اُن کی تنقیدی رائے کو اہمیت دیتے ہیں ؟کیوں؟

علی اکبر ناطق:ایک دفعہ اوکاڑہ میں ظفر اقبال کے ساتھ ایک نشست ہوئی جس میں اوکاڑہ کے تمام ادبی لوگ موجود تھے ۔ وہاں انہوں نے ایک بیان سب کے سامنے جاری کیا تھا کہ ناطق برصغیر میں واحدشاعر ہے جو مجھے کاٹ جائے گا۔ اس بات کے گواہ وہ سب لوگ ابھی زندہ ہیں ۔ اصل میں یہ ۲۰۱۱ کی بات ہے ۔ مَیں نے تو اس بات کو بھی کوئی خاص اہمیت نہیں دی تھی ۔اور نہ اس بیان پر بلیوں اُچھلا تھاکہ میرے لیے اس طرح کی بیان بازی محض راستہ کھوٹا کرنے کے مترادف ہے۔لیکن اُ س کے بعد خدا جانے کیا ہوا ؟آپ کو میری مخالفت کا دورہ پڑ گیا ۔ مجھے شاعر تو ایک طرف اسلام کے خلاف یہودیوں کا ایجنٹ قرار دے دیااور کوئی موقعہ میری بد خوئی کا ہاتھ سے جانے نہیں دیا ۔اُس کی وجہ جہاں تک مجھے معلوم ہے کہ اول تو ظفر اقبال اوکاڑہ میں اپنے سوا دوسرے کسی شخص کونام آور دیکھنا نہیں چاہتا ۔ دوم مَیں اس کی اشیر واد کے بغیر ہی اور اس کے اسلوب سے پرے ہی پرے اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ تیسری بات یہ کہ مجھے بڑے بڑے اداروں نے چھاپنا شروع کر دیا اور بڑے اخبارات نے میرے نام پر حاشیے چڑھانے شروع کر دیے ۔جبکہ اسے نہ بڑے پبلشنگ اداروں نے گھاس ڈالی نہاخبارات نے خاص اہمیت دی ۔چوتھا یہ کہ میں کبھی آپ کی محفل میں برخوردارانہ نہیں گیا۔نہ کبھی اُس سے اپنے متعلق کالم لکھنے کی خواہش ظاہر کی ۔انِ سب عوامل کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے دیکھا جا ئے تو یہ بات فطری تھی کہ مجھے سبق سکھایا جاتا ۔اور وہ اُنہوں نے اپنی استعاعت کے مطابق کوشش بھی کی ۔جس کا مجھے کوئی غم بھی نہیں ۔کیوں کہ جو اُس کے کالم پڑھتے ہیں اور اُنہیں آیاتِ کریمہ کا درجہ دیتے ہیں مَیں اُن کو ہی گھامڑ سمجھتا ہوں ۔ظفر اقبال کا کچھ کام بلا شبہ بڑے پیمانے کا اور اپنے دور کے جدید نمونے کا تھا لیکن اُس جدیدیت کو بھی تو اب پچاس سال ہونے کو آئے پُرانا ہو چکا ہے۔اس لحا ظ سے ظفر اقبال کی اپنی شاعری بھی اب جدید نہیں رہی جس کے ضائع شدہ کاغذوں سے آج کل کنکوئے اڑانے کا کام لیا جائے تو یہ بہتر مصرف ہو گا۔ اگر زبان کی دُم کھینچنے ہی کو وہ جدید شاعری کہنے پر مصر ہیں تو پھر جعفر زٹلی کو ظفر اقبال کا روحانی ابا جی کہا جا سکتا ہے۔خیر اس جانے دیجیے ،بر سرِ مطلب،اُن کی زیادہ تر شاعری بے رس اور اور تیسرے درجے کی ہے جو مجھے کبھی اچھی نہیں لگی ہے کسی اور پر میری رائے مسلط نہیں ،نہ میں نے دوسروں کی جمالیات بدلنے کا ٹھیکہ لیا ہے۔ وہ نہایت چالاک اور ڈرامے باز آدمی ہیں ۔اپنی کالم نگاری سے شاعری کو ہوا دیتے ہیں ۔ پاکستان میں جتنے بُرے اور تھرڈ کلاس شاعر ہیں، اُن سب پر چار چار کالم لکھے ہیں ۔ کوئی جتنا ہی بُرا شاعر ہوتا ہے، اپنے کالم میں اُسے اتنا ہی اچھا اور عمدہ شاعر قرار دیتے ہیں ۔ جس کا نتیجہ ہے کہ وہ بُرا شاعر مسلسل ظفر اقبال کی شاعری کی بھونڈی نقالی کرتا ہے اور اِن کی شہرت کو ہوا دیتا ہے ۔ اس طرح یہ بھی خوش اوراِن کے شیاطین کا کنبہ بھی خوش ۔مَیں اُن کی تنقید کو ردی چیتھڑوں کے علاوہ کچھ اہمیت نہیں دیتا ۔ بلکہ اُنہیں پڑھتا ہی نہیں ۔ ظفر اقبال میرے شہر سے تعلق رکھتا ہے اور مَیں اُن کی رگ رگ سے واقف ہوں ۔یہ کبھی اُس شاعر کی تعریف قیامت تک نہیں کرے گا جو اپنے اسلوب میں اچھے اور جدید شعرلکھنے والا ہو گا۔نظم اورافسانے یا ناول کا اِنہیں سِرے سے پتا ہی نہیں ۔نہ یہ ایسی چیزیں پڑھتے ہیں ۔ اُن کا مطالعہ صفر سے کچھ ہی اُوپر ہے ۔ا سلامی تاریخ یا تاریخ سے بیگانہ محض ہیں۔ خوبصورت چیزوں سے لطف نہیں اُٹھا سکتے۔جب کوئی شخص زیادہ کاری گری دکھانا ہی اپنا مقصدِ حیات بنا لے تواُس کے ہاں سے اثر اور جمالیات کی برکت اُٹھ جاتی ہے۔

تصنیف حیدر:کیا اچھے ادیب کو اچھا انسان ہونا چاہیے؟

علی اکبر ناطق:تصنیف صاحب یہ سوال آپ کا بہت پیچیدہ ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر انسان اور کلچر اور مذہب کے اعتبار سے انسانوں کی اچھائی بُرائی کے پیمانے الگ الگ ہیں ۔ جو انسان آرٹ پیش کر رہا ہو تا ہے وہ در اصل اپنا اندرون سامنے لا رہا ہو تا ہے ۔ اب یہ ہے کہ اگر وہ واقعی آرٹ کا اعلیٰ نمونہ ہے تو میں سمجھتا ہوں واقعی وہ اچھا انسان بھی ہے ۔ کسی فنکار میں زندگی کے ساتھ بے اعتدالیاں کرنا دراصل اُس فنکار کی زندگی کی بے ترتیبی ہوتی ہے جسے عموماًہم بے سمجھی میں اُس فن کار کی بُرائی پر محمول کر بیٹھتے ہیں ۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ بُرا انسان اچھا ادب پیش ہی نہیں کر سکتا ۔ وہ اچھا کاریگر اور کرافٹ مین تو ہو سکتا ہے لیکن اچھا آرٹ اور دل پذیر فن پارہ تخلیق کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔کیوں کے فن پارہ دلوں تک پہنچنے والی چیز ہوتی ہے ۔اگر وہ اچھے دل سے نکلے گی تو دل تک پہنچے گی۔۔

تصنیف حیدر:بہت سے لوگ آپ کی مقبولیت کو آپ کے پبلسٹی اسٹنٹس اور بہتر پی آر کا نتیجہ سمجھتے ہیں ۔آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟

علی اکبر ناطق:تصنیف صاحب اگر آپ کہیں کہ آپ کو موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے کا موقع دیا جائے کیونکہ بہت سارے تماشائیوں کی نظر میں آنا چاہتے ہیں ۔حالانکہ زندگی میں موٹر سائیکل ہی نہ چلائی ہو اور کوئی آپ کی بات بھی نہ ٹال سکتا ہو تو بتائیں آپ کتنی دیر وہاں اپنی عزت بر قرار رکھ سکتے ہیں ؟ کسی اعلیٰ عہدے پر مَیں نہیں کہ کسی کو ملازمت دلوا سکتا ۔ یورپ یا امریکہ میں مَیں نہیں رہتا کہ بڑے کانوں والے ادبی اداروں کے چئرمینوں اور کن کھجوروں کی میزبانیاں کر سکوں یا چھچھورے کام نگاروں کو مشاعرے پر بلوا کر اُونچے ملکوں کی سیر کرا دوں۔ مسخرہ مَیں نہیں کہ گنجے وزیرِ اعظموں اور سابقہ صدور کو گھٹیا لطیفے سُنا سکوں۔ اخبار یا ٹیلی وژن کا مَیں مالک نہیں۔سیاست میں میرا پاؤں نہیں ۔ کسی کالج ،یونیورسٹی کا پروفیسر نہیں کہ لونڈوں سے اپنے اوپر مقالے لکھوا لوں ۔مشاعرے میں کوئی مجھے نہیں بلواتا ۔ بھولا چُوکا کوئی بُلا لے تو مَیں نہیں جاتا۔ چاپلوسی میں نہیں کر سکتا ۔کبھی کرنے کی کوشش کروں تو ایسے بے ڈھنگے پن سے کر بیٹھتا ہو ں کہ وہ اُلٹی پڑ جاتی ہے کام پہلے سے زیادہ بگڑ جاتا ہے ۔ دوست جو ملنے آتے ہیں اور بہت آتے ہیں ، وہ اُلٹا میری میزبانی کر کے چلتے بنتے ہیں ۔ہندو پاک کے مشاعرے مَیں منعقد نہیں کرا سکتا ۔ حتیٰ کہ فیس بُک پر مَیں نے تو جعلی آئی ڈی تک نہیں بنائی ۔ نہ اُن پر روز کی روز اپنی نظمیں لگاتا ہوں ۔ چنانچہ وہ اسباب کیا ہیں جن کی وجہ سے میری پی آر بہت ہے اور میری شہرت پبلسٹی اسٹنٹس کا نتیجہ ہے۔بھائی صاحب بات دراصل یہ ہے کہ میں صرف اپنے کام سے کام رکھتا ہوں ۔نہ کسی کی واہ واہ پر دھیان ۔ نہ کسی کے بُرا کہنے پے تماشا اُٹھاتا ہوں ۔ نہ میر کی برابری کا دعوہ ۔نہ غالب کی عظمت شکنی کا خبط ۔پڑھنے اور لکھنے میں مصروف ۔ اور پڑھ کر لوگوں پر رعب بھی جھاڑنے کی طرف کوئی توجہ نہیں ۔ میرے کچھ دوست ایسے ہیں جو مجھ سے کہیں زیادہ پڑھے لکھے ہیں جیسے زیف سید ۔ پھر خود فیصلہ کرو مجھ سے کیوں پوچھتے ہو۔ اصل میں کچھ لوگ چپڑ قناتیے ایسے ہوتے ہیں کہ اپنی شہرت کی خاطر دن رات جینوئن ادبی کام کی بجائے یہی کچھ کرتے نظر آتے ہیں اور یہی شہرت اُن کو نہیں ملتی۔اچھا پاکستان میں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے کچھ انہی طریقوں سے شہرت کما لی ،تو کیا ہندوستان میں ،،را،، میرے لیے یہ کام کرتی ہے۔اِدھر یہ ہوئی اُڑی ہے کہ مَیں آئی ایس آئی اور ،،را،، دونوں کا بیک وقت ایجنٹ ہوں ۔ ایسی باتوں پر سوائے ہنسنے کے اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ مَیں نے ۲۰۰۹ سے چھپنا شروع کیا ۔ اس عرصے میں میری چار کتابیں سامنے آ چکی ہیں ۔ کیا یہ چیزیں آپ کے سامنے نہیں ہیں ۔بھائی کوئی انصاف بھی چیز ہوتی ہے ۔ دنیا عدل سے ابھی خالی نہیں ہوئی ۔ لوگ اب بھی ایسے ادب پرور اور انصاف پسند موجود ہیں جو خدا لگتی کہتے ہیں ۔ بس وہی لوگ میری پی آرہیں ۔جو دن دُگنی رات چُگنی بڑھ رہے ہیں ۔

تصنیف حیدر: اردو ادب کے دو ایسے نام بتائیے جن کا لکھا ہوا ادب آپ کو پسند نہیں اور یہ بھی کہ کیوں پسند نہیں ؟

علی اکبر ناطق: مجھے اشفاق احمد اور بانو قدسیہ ،دونوں کا لکھا ہوا ادب ایک آنکھ نہیں بھاتا ۔ کیوں کہ یہی دونوں وہ ادیب ہیں جنہوں نے پوری پاکستانی اور نوجوان نسل کو آمر وں کی طرف سے گمراہ کن نام نہادصو فی ازم کی افیون سے نوازااور اس کا بیڑہ غرق کر دیا ۔ان کے ادب کی پوری بنیاد دھوکا، فراڈ ،عقل و خرد سے دور لے جانے والی اور ترقی سے ہٹانے والی تھی۔ یہ خود جعلی صوفی بنے ہوئے تھے اور ان کا پیر قدرت اللہ شہاب اِن سے بڑا فراڈیہ تھا،جس کا ایک اور مرید ممتاز مفتی تھا۔ یہ سب لوگ یا ادیب کہہ لیں، جھوٹے اور ڈکٹیڑروں ، سرمایہ داروں ،جاگیر داروں ،اور اشرافیہ کے لیے دراصل کام کرنے والے تھے۔جنہیں ٹیلی وژن کا سہارا دے کے پروموٹ کیا گیا اور قوم کا خانہ خراب کیا گیا ۔حالانکہ ان کا لکھا ہوا ادب سرے سے ادب ہی نہیں تھا۔ بالکل خراب اردو لکھتے تھے مگر ایک خاص مقصد کے تحت سی ایس ایس کے امتحانوں میں شامل کر کے اِن کے واہیات لکھے ہوئے لٹریچر کی جڑیں ہماری بنیادوں کے اندر تک پہنچا دی گئیں ۔ جس کی وجہ سے ہماری آئندہ کئی نسلیں بھی فکر و عمل سے دور رہیں گی اور ہوائی قلعے تعمیر کریں گی ۔ راجہ گد ھ جو ایک ناول ہے وہ بھی کچھ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

(یہ انٹرویو بلاگ کے حوالہ دیے،یا علی اکبر ناطق سے اجازت لیے بغیر کہیں شائع نہ کیا جائے۔ایسا کرنے پر قانونی چارہ جوئی کا حق بلاگ پوسٹ کی جانب سے محفوظ ہے۔) 

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *