جمعہ، 30 ستمبر، 2016

میں جنگ کے خلاف ہوں لیکن۔۔۔۔/تصنیف حیدر

یہ اس سویرے کی بات ہے، جب میری آنکھ اتفاق سے جلد کھل گئی تھی، پتہ نہیں کیوں، کس بات پر مگر نیند ٹوٹی تو معلوم ہوا کہ نیند کے ساتھ ساتھ خواب بھی ٹوٹا ہے اور یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ سرحدی علاقے میں اٹھارہ جوانوں کو کچھ دہشت گردوں نے شہید کردیا ہے۔حالانکہ لفظ شہید ہمیشہ میرے لیے کشمکش کا باعث بنا ہوا ہے اور میں اپنی دوست رامش فاطمہ سے اس حد تک اتفاق کرتا ہوں کہ یہ لفظ انسان کے قتل، اس کی موت کو تقدس کے ہالے میں لپیٹ کر طاق میں رکھ دینے کی سازش کے علاوہ اور کچھ نہیں۔بہرحال اب آپ میرے یہاں موجود اس لفظ کو قتل یا موت کے معنی میں پڑھ سکتے ہیں۔ہم اس دن نیوز کی دوکانوں پر پڑی لکڑی کی چھوٹی چھوٹی بینچوں پر بیٹھے رہے، جہاں تازہ اپڈیٹس کی جلیبیاں اتار کر عوام کو دی جاتی ہیں،کچھ کرکری، کچھ تازی،کچھ گرم اور کچھ بہت زیادہ جلی ہوئی۔دوکان دار کوشش کرتے ہیں کہ یہ جلیبیاں کرکری اور گرم ہوں تاکہ بیٹھے ہوئے لوگوں کو اس کی عادت پڑ جائے۔سو اس دن بھی یہی ہورہا تھا۔آج میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں، حالانکہ مجھ جیسے ایک گھریلو قسم کے ادیب کا ہندوپاک کی نہایت گنجلک ، خطرناک، سازشی اور سخت ترین سیاست پر لکھا گیا کوئی بھی جملہ اعتبار کا درجہ نہیں رکھتا ، مگر میں چونکہ ایک امن پسند ، ڈرا ہوا اور خاموش طبع انسان ہوں، اس لیے چاہتا ہوں کہ میری بات بھی کبھی سنی جائے۔
جب بھی کہیں کوئی موت ہوتی ہے، ہمیں اس کا دکھ مناناچاہیے، دکھ اس معاملے میں کہ آج ایک پھول پک کر،سڑکر ، پچک کر زمین پر گرپڑا ہے،عام طور پر ہمارے ملکوں میں سپاہیوں کی موت کو موت نہیں بلکہ قربانی سمجھا جاتا ہے، ان کے مرنے، ان کے قربان یا پھر شہید ہونے سے ان کے ماں باپ کو فرق نہیں پڑنا چاہیے، ان کے بچوں ، ان کے خاندان والوں اور ان کے اپنوں کو پریشان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ فوج میں بھرتی ہونے کا ایک مقصد ہمارے یہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ لوگ وطن پر جان دینے کے لیے، کفن باندھ کر اپنے گھر سے نکلے ہیں۔ہمارے یہاں ایک ٹرینڈ ہے، اگر آپ کو یہ بے وقت کا انگریزی لفظ برا معلوم ہوا ہے تو معافی چاہوں گا، مگر یہ روایت سے کئی گنا بہتر لفظ ہے،ٹرینڈ یہ ہے کہ ایک بھری ہوئی بندوق لیے ہوئے سپاہی کے پیچھے کھڑے ہوئے کچھ نہتے جی بھر کر جالیوں کے اس پار لوگوں کو گالیاں دینا چاہتے ہیں، کوسنا چاہتے ہیں، ان کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں، ان سے جھگڑا کرنا چاہتے ہیں۔یہ دونوں طرف ہے۔ اور جب اس جانب سے کوئی گولی آتی ہے تو سپاہی کا سینہ تو شہید ہونے ہی کے لیے بنایا گیا ہے، چنانچہ اس کا کوئی غم نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کے غم میں مزید آبلہ پا ہوکر ایک نئے انسان کو وردی ، کنٹوپ پہنا کر ، بندوق ہاتھوں میں تھما کر اس کی پشت پناہی حاصل کرلینی چاہیے۔ہمیں اس شخص کے گھروالوں، اس کے عزیزوں، اس کی زندگی ، رشتوں، خوابوں، طور طریقوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔معاف کیجیے گا، مگر ہم اس مقام پر سپاہی اور خودکش بمبار میں فرق کرنا بھول جاتے ہیں۔سپاہی ایک ذمہ دار شہری ہوتا ہے، ایک ذمہ دار باپ ہوتا ہے، ایک ذمہ دار شوہر ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر ذمہ دار انسان ہوتا ہے، جس کے اندر وہ سارے جذبات موجود ہیں، جو اس کے پیچھے کھڑے ہوکر چخ چخ کرنے والوں میں ہونے کے امکانات ہیں۔ہم کبھی جنگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے ، اس لیے کیوں نہیں گھبراتے کہ ہمیں ان سپاہیوں کی جان اور ان کے بچوں، بیویوں کی زندگی کی فکر ہو، ان سے محبت ہو، ان کی زندگی سے محبت ہو۔ہم نفرت کی دلدل میں اس قدر گہرےاترنے کے لیے تیار ہیں کہ اپنی طرف سے لڑنے کے لیے کچھ ایسے مجبور انسانوں کو آگے کرتے ہیں، جن کے لیے فوج میں بھرتی ہونا، ان کی چھوٹی بڑی ذمہ داریوں کو نبھانے کا نام بھی ہوسکتا ہے۔جنگ کی خواہش آپ کی ہے، تو سپاہی کیوں مرے۔آپ کہیں گے کہ اس کا کام ہی حفاظت کرنا ہے۔تو میرا سوال ہے کہ حفاظت اصل کام ہے، موت اصل کام نہیں ہے۔موت اس کا مقصد نہیں ہے، اس کا مقصد ایک سچی، صاف اور صحیح زندگی ہے۔نفرت میں ڈوب جانے والے، اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ وہ نفرت کرنے والوں کی ہی زبان بول رہے ہیں۔اس بھاشا کا اپیوگ ہمیشہ ہوتا رہا ہے، ہر زمانے میں۔اور ہر زمانے میں سوچنے والا ذہن ان کے لیے ایک نحوست، قابل نفرت اور گھن کرنے جیسی چیز ہی بنا رہا ہے۔سوشل میڈیا کی خبروں پر ہندو پاک کے عام لوگوں کے جذبات ، جس طرح منہ سے نکلنے والے جھاگ کی طرح ، کی بورڈ پر گھس کر پیدا کیے جانے والے لفظوں کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں،ان کا نظارہ تو ہر شخص نے کیا ہوگا۔ایک صاحب نے لکھا۔ہندوستان پر نیوکلیر حملہ ہوجائے تو ہوجائے، ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔یہ بہت بڑا دیش ہے، جتنے لوگ بچیں گے، وہ پھر سے ہندوستان بنالیں گے، مگر ہم پاکستان کا نام و نقشہ اس دنیا سے ہٹا دیں گے۔میرے ذہن میں ان کے خیالات پڑھنے کے بعد دو باتیں ایک ساتھ پیدا ہوئیں۔اول تو یہ کہ یہ کمنٹ کرتے وقت موصوف پوری طرح اس بات کی یقین دہانی کرچکے تھے کہ وہ بچنے والوں میں سے ہی ہونگے، دوسرے ان کا رویہ اس دہشت گرد کی ہی طرح تھا، جو سوچتا ہے کہ بھیڑ میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مارگرایا جائے، مجھے تو مرنا ہی ہے، مگر میں اپنے دشمنوں کو بھی زیادہ سے زیادہ ختم کرسکوں۔اس کے لیے وہ تمام لوگ اس کے دشمن ہوتے ہیں، جن سے نہ وہ کبھی ملا، نہ ان کے خیالات کو سمجھنے کی کوشش کی، نہ عام زندگی میں انہیں اپنے ہی جیسا گھرداری اور کاروبار، عشق و تمدن میں الجھا ہوا انسان سمجھا، نہ وہ ان کے نام سے واقف، نہ ان کی فکریات سے۔بس چل پڑے، خود کو چیتھڑے چیتھڑے کرنے۔اب اس سوچ میں اور اس سوچ میں کون سا ایسا فرق ہے۔دہشت گردی، کہیں اور سے نہیں آتی، یہ بدلے کے جذبے سے پیدا ہونے والا ایک مرض ہے، ایک نفسیاتی مرض، جو انسان کو سوچنے سمجھنے سے محروم کرکے بس تباہی پھیلانے کی جانب راغب کرتا ہے۔اورتباہی بھی ان لوگوں کی ،جن کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو۔جن سے بلاواسطے کا ایک بیر ہو۔
یہی کام اس روز ان چار دہشتگردوں نے کیا، جو سرحد پار کرکے یہ جانتے بوجھتے اس طرف داخل ہوئے تھے کہ وہ کسی کو مار پائیں یا نہ مار پائیں مگر ان کا مرنا تو طے ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ انہوں نے کیا کیا ہے؟یہ وقت حکومتوں کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کا نہیں ہے، وہ وقت گزرگیا، اب مسئلہ عوام کے ذریعے حل ہوگا۔جرمنی کے تاریخی معاہدے کو یاد کیجیے، جرمنی کی حکومتوں نے برلن کی دیوار کو نہیں گرایا تھا، عوام نے گرایا تھا۔دیواریں تو ہمیں ہی گرانی ہونگی۔یہ کون لوگ ہیں، جو ہمیں جانے بوجھے بغیرہمارے بیچ مارنے، مرنے کے لیے آجاتے ہیں۔ہمیں ان کے مرض کی تشخیص کرنی ہوگی، ہمیں انہیں یہ یقین دلانا ہوگا کہ ہم ان کے دشمن نہیں ہیں، انہیں ہماری دشمنی پر جو لوگ آمادہ کررہے ہیں، دراصل وہ انہیں گمراہ کررہے ہیں۔امن حکومت کے ذریعے نہیں آسکتا، یہ نعرے لگانے، چیخنے چلانے، گولیاں داغنے یا بم ماردینے سے نہیں آئے گا۔یہ بات کرنے کے ماحول سے پیدا ہوگا۔ اب آپ پوچھیں گے کہ بات کیسے ہوگی، یہ بھی آپ ہی کو طے کرنا ہے۔آپ کو کسی حکومت سے بات نہیں کرنی ہے، آپ عوام سے بات کیجیے، عوام میں یہ یقین پیدا کیجیے کہ وہیں کے رہنے والے، وہیں کے لوگوں کے درمیان آپ کی اس امیج کو غلط ثابت کردیں، جو وہاں کے گھٹیا ذہن بنارہے ہیں۔وہاں کے نصابات میں زبردستی جس طرح بھارت اور بھارتی لوگوں کو دشمن بتایا جارہا ہے، آپ اپنے عمل سے یہ ثابت کیجیے، کہ تمہارا نصاب جھوٹا ہے، تم لوگوں کو غلط تعلیم دے رہے ہو، کیونکہ اسکولی تعلیم اور حقیقت پسند انسانی زندگی میں بہت فرق ہوتا ہے۔
پاکستان ایک کمزور پڑتا ہوا ملک ہے، وہاں کے بہت سے رہنے والوں کے دماغوں میں مذہبی رگ پھول کر سبز سے نیلی ہوگئی ہے۔انہیں یہ بات سمجھنے میں دشواری ہورہی ہے کہ زندگیاں کرکٹ کا میدان نہیں ہوا کرتیں۔جہاں ہوائوں میں چھکے ، چوکے لگائے جائیں۔ میں حیران ہوں کہ ان کے وزیر دفاع ایک نیشنل چینل پر نیوکلیئر کو استعمال کرنے کی بات کربھی کیسے سکتے ہیں۔یہ سب کتنا خطرناک ہے، پاکستانی حکمرانوں اور وہاں کے مذہب پرست بیمار لوگوں کو اس سے کوئی مطلب نہیں۔اب ایسی ہی کچھ آبادی ہمارے یہاں بھی ہے، جو اس بات کو نہیں سمجھتی کہ مسئلے مذہبی فقروں یا وطنی نعروں سے نہیں حل ہوتے۔انسانیت کی قدر کرنے سے حل ہوتے ہیں۔مگر ایسا نہیں ہے کہ ان کے یہاں اور ہمارے یہاں کی عوام سیکولر نہیں ہے، عوام جنگ چاہتی ہے یا اپنی تباہی کے لیے پر تولے بیٹھی ہے۔ان کے مسائل بھی اتنے ہی زمینی ہیں، جتنے ہمارے ہیں۔مجھے کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ اگر پاکستان نہیں بنا ہوتا تو کیا یہ مسائل ہوتے، جواب ملتا ہے کہ ہوتے اور شاید اس سے زیادہ بھی ہوسکتے تھے۔کیونکہ مذہبی افتخار ، نئی قومیت کے تصور کو جنم دے رہا ہے، جس سے اکیسویں صدی میں بڑی طاقتیں فائدے اٹھارہی ہیں۔نیوز چینلوں کی ان بکواسوں پر مت جائیے کہ امریکہ یا چین ہندوپاک کی ٹھڈیوں میں ہاتھ ڈال کر انہیں کس طرح منانے کی کوشش کررہے ہیں۔جنگ کا میدان اگر دو ملک بنتے ہیں، تو آج کے زمانے میں وہاں صرف وہ دو ممالک ہی نہیں لڑتے، بلکہ دنیا کے باقی بڑے ممالک بھی اسی کا فائدہ اٹھاکر اپنی طاقت جھونک دیتے ہیں، تاکہ ایک دوسرے سے اپنی زمین سے دور لوہا لیا جاسکے، ایک دوسرے کی طاقت کا اندازہ کیا جاسکے اور کسی ایک کو کمر جھکانے پر مجبور کیا جائے۔سیریا کا انجام آپ کے سامنے ہے۔مگر افسوس کہ ہم نے گلوبل حالات سے کچھ نہیں سیکھا اور کیوں نہیں سیکھا یہ کسی اور سے نہیں، اپنے آپ سے پوچھیے۔خدا کی بخشی ہوئی عظیم تر نعمت یعنی کہ زندگی کو کوئلہ کردینے کی خواہش نہ رکھیے،کسی سے نفرت ہی کرنی ہے تو اس رویے سے کیجیے جو انسان کو انسان سے لڑنے پر مجبور کرتا ہے۔
میں سوچتا ہوں کہ وہ کون لوگ ہونگے، جن کو اس بات پر مذہبی فقرے سنا کر آمادہ کرلیا جاتا ہوگا کہ تم کسی کی جان لے کر کوئی گناہ نہیں کررہے ہو، کسی باپ، کسی شوہر، کسی بیٹے کو ختم کرکے، اسے ابدی نیند سلاکر ، اس کے افکار و نظریات سے ناواقف ہوتے ہوئے بھی تم کو ایک کھلکھلاتی جنت مل سکے گی۔ان اسباب کو ڈھونڈنا اور ڈھونڈ کر انہیں ختم کرنا نہایت ضروری ہے، جو شہادت کے اس غلط اور گمراہ کن تصور کو رائج ہونے میں مدد دیتے ہیں، ورنہ اپنے آپ کو موت کے گھاٹ اتاردینے والوں کی کمی کبھی نہیں ہوگی۔اس لیے ضروری ہے کہ جتنے انسان پیدا ہوں، اسی مقدار میں سوچنے والے ذہن پیدا ہوں۔شارلی ہیبدو پر جب حملہ ہوا تو فرانس میں دس لاکھ کے مجمع نے مل کر اپنے غصے کا اظہار کیا، لیکن وہاں کے لوگ مسلمانوں کے تعلق سے تب بھی یہی کہہ رہے تھے کہ انہیں تعلیم کی ضرورت ہے۔سچ ہے کہ تعلیم ہی اس مسئلے کا حل ہے، وہ تعلیم جو سوچنا سکھا سکے، صرف دوسروں کے کہے پر بنا سوچے سمجھے چلنے کاطریقہ نہ سکھائے۔
کشمیر کا جہاں تک معاملہ ہے، مجھے لگتا ہے کہ اس علاقے کو یہاں کی ہٹ دھرم مذہبی اور علیحدگی پسند سیاست نے جہنم بنارکھا ہے۔وہاں کے لوگوں کو چاہیے کہ ہندوستان کا ساتھ دیں۔ایک تیزی سے ترقی کرتے ہوئے ملک کو دل سے اپنائیں اور اس کا حصہ بنیں اور اس سے محبت کریں۔انہوں نے ہمیشہ حالات کو اس قدر خراب اور عجیب رکھا ہے کہ ان کی علیحدگی پسندی نے ہندوستان کے باقی بیس بائیس کروڑ مسلمانوں کی ایمانداری اور وطن سے ایک قسم کے محبتانہ جذبے پر سوالیہ نشان قائم کردیا ہے۔کشمیریوں کو چاہیے کہ اس قسم کی سیاست سے باہر نکلیں اور ہندوستان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کرچلیں ، بغاوت یا علیحدگی کے نام پر کسی بندوق بردار کا ساتھ نہ دیں۔وہ اپنے لیے ایک خوشگوار ماحول پیدا کرسکتے ہیں۔مگر وہ نہیں کررہے ہیں۔وہ اس مسئلے کو پچھلے ستر سا ل سے مسئلہ بنائے ہوئے ہیں اور آگے بھی بنائے رکھیں گے، یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا اور ان کی زندگیاں جنت و جہنم کے بیچ ڈولتے ہوئے ایک پل پر یونہی مجہول و مبہم رقص میں مبتلا رہیں گی۔یہ ٹچی حرکتیں، جن میں دوسری زمینی طاقتوں کی زبانی حمایت سے لے کر ایک الگ ملک کا شہری ہونے کے خواب تک پھیلی ہوئی ہیں، اب کشمیریوں کو بند کردینی چاہییں۔جس دن وہ یہ فیصلہ لیں گے، اپنے ہی نہیں، اپنے بچوں کے مستقبل کو بھی تابناک کردیں گے۔ہندو پاک کے وہ تمام لوگ جو اس زخم کے سوکھنے کے بجائے، ابھی بھی اسے اپنے نظریات سے ناسور بنے رہنے کی حمایت کرتے ہیں، وہ کشمیریوں کی زندگی کو ابتر کرنے کی سازش میں برابر کے شریک ہیں۔انہیں کشمیرکے رہنے والے انسانوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے، وہ بس ان کو بے وقوفوں کی طرح ایک مسلح فوج سے بھڑا دینا چاہتے ہیں، جس کا انجام نہایت کریہہ اور خطرناک ثابت ہوتا ہے۔
ہندو پاک کے کرکٹ میچ میں چھائے ہوئے ایڈونچر سے لے کر آج جنگ کی نوبت جب ایک دفعہ پھر ہمارے آسمانوں تک آن پہنچی ہے تو ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے۔ہم اپنے ملکوں کے وفادار ہیں تو ہمیں ان کی بھلائی کے بارے میں سوچنا چاہیے، ہمیں بغیر جانے، بغیر دیکھے ہوئے لوگوں کو دشمن سمجھنے کے بجائے ایک ایسی طاقت سے لڑنے کی ضرورت ہے ، جو نفرت کو ہوا دے رہی ہے اور آئے دن اس نفرت کا سہارا لے کر معصوم لوگوں کی جان لینے کے درپے ہیں(جن میں بھٹکے ہوئے نوجوان بھی ہیں اور وردی پوش سپاہی بھی)۔
میں جنگ کے خلاف ہوں لیکن اس لیے کیونکہ میں یہ جانتا ہی نہیں کہ میری جنگ ہے کس سے۔میں کسی سٹیڈیم میں بیٹھ کر رنگ میں لڑنے والے اپنے فریق کے بدن میں حوصلے کی ہوا نہیں بھررہا ہوں، بلکہ یہ ایک ملک کا سوال ہے، جہاں کی آبادی، جہاں کی جگہوں، جہاں کے قصوں، جغرافیائی حصوں، تاریخی مقامات اور معاملات سے میرا ایک تعلق ہے۔میں کسی انسان کے خلاف نہیں جاسکتا، جب تک کہ اپنے ذہن کی کسوٹی پر اس کے نظریات کو نہ کس لوں۔میں چاہتا ہوں کہ بہکانے والی طاقتیں ختم ہوں، کیونکہ وہی سب سے بڑا مسئلہ ہیں لیکن میرے چاہنے سے ہوتا کیا ہے۔۔۔۔
٭٭٭

جمعرات، 22 ستمبر، 2016

جاوید انور کی نظمیں

جاوید انور کی نظموں کی تکنیک اپنے ہم عصر نظم نگاروں سے ذرا مختلف رہی۔افسوس کہ وہ جلد انتقال کرگئے ۔ان سے میری شناسائی کا ذریعہ حاشیہ فورم تھا۔جو کہ ظفر سید نے نئی نظم کے معماروں کے لیے قائم کیا تھااور اس پر فیض احمد فیض، راشد، مجیدامجد اور میراجی سے لے کر ساقی فاروقی، ابرار احمد،یامین ، جاوید انور اور دوسرے اہم نظم نگاروں کی کسی مخصوص نظم پر بھرپور تنقیدی گفتگو کی جاتی تھی۔ان کی نظم 'ہزارے کا مہمان کیا بولتا'پر جس وقت گفتگو ہونی شروع ہوئی تو میں نے بہت سے بے جا اعتراضات کیے۔افسوس کہ ان کی زندگی میں ان کی نظموں کو اس سلیقے سے پڑھنے کا ہنر مجھے نہ آسکا تھا، جس سے اب شدبد رکھتاہوں۔وقت کے ساتھ میری ذات اور میرے ذہن میں ہونے والی ان تبدیلیوں نے ان نظموں کو بھی بہت حد تک تبدیل کیا ہے۔تخلیق کے مطالعے کے لیے صرف آنکھیں نہیں، نظر کی بھی ضرورت ہے۔نظر دھیرے دھیرے ، تجربے اور مشاہدے سے پیدا ہوتی ہے۔میں شکرگزار ہوں حسین عابد صاحب کا، جن کے توسط سے یہ نظمیں مجھ تک پہنچ سکیں اور اب ان کو ادبی دنیا کے ذریعے میں آپ سب تک پہنچا رہا ہوں۔یہ نظمیں جلد آڈیو میں بھی اپلوڈ کی جائیں گی۔بے حد شکریہ!
***

بولتا کیوں نہیں

تو نے کیوں اپنے گالوں پہ سرسوں ملی
تو نے کیوں اپنی آنکھوں میں چونا بھرا
تیری گویائی کس دشت کے بھیڑئیے لے گئے
بولتا کیوں نہیں
بولتا کیوں نہیں، طفلِ معصوم، تو کب سے بیمار ہے
کیسا آزار ہے، جس نے تیری شبوں سے تری نیند، تیرے دنوں سے
کھلونے چرائے،
تو سویا نہیں ہے مگر جاگتا کیوں نہیں!
دیکھتا کیوں نہیں تیرے بابا کے بالوں میں کھجلی ہے اور انگلیاں جھڑ چکی ہیں
حسابِ شب وروز کرتے ہوئے
تیری اماں کے رعشہ زدہ ہاتھ خوشحالیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
ان دھُلے برتنوں میں پڑے رہ گئے
صبحِ تعبیر نے شاخ پر سبز ہونے کی حسرت لکھی
آنکھ کو موتیا دے دیا!
دیکھتا کیوں نہیں آج بازار میں جشنِ افلاس ہے
شہر کی بھوک چوری ہوئی
اور خبروں نے اخبار گُم کر دیا!
لوگ روتے رہے!
لوگ ہنستے رہے!
تیرے بستر پہ اشکوں کی چمپا کھلی
اور تو چُپ رہا!
تیرے ماتھے پہ مُسکان کا عطر چھڑکا گیا
اور تو چُپ رہا!
میری ہنڈیا جلی
میرا چولہا بُجھا
میری جھولی سے حرفِ دعا گرگیا
میرے بچے تو لب کھولتا کیوں نہیں
بولتا کیوں نہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپاہج دنوں کی ندامت

کھڑکیاں کھول دو
ضبط کی کھڑکیاں کھول دو
میں کھِلوں جُون کی دوپہر میں
دسمبر کی شب میں
سبھی موسموں کے کٹہرے میں اپنی نفی کا میں اثبات بن کر کھِلوں
خواہشوں
نیند کی جنگلی جھاڑیوں
اپنے ہی خون کی دلدلوں میں کھِلوں
بھائیوں کی پھٹی آستینوں میں
بہنوں کے سجدوں میں
ماں باپ کے بے زباں درد میں ادھ جلے سگرٹوں کا تماشہ بنوں
ہر نئی صبح کے بس سٹاپوں پہ ٹھہری ہوئی لڑکیوں کی کتابوں میں
مصلوب ہونے چلوں
میں اپاہج دنوں کی ندامت بنوں
کھڑکیاں کھول دو
چھوڑ دو راستے
شہرِ بے خواب میں گھومنے دو مجھے
صبح سے شام تک، شام سے صبح تک
اس اندھیرے کی اک اک کرن چومنے دو مجھے
جس میں بیزار لمحوں کی سازش ہوئی
اور دہلوں سے نہلے بڑے ہوگئے
جس میں بے نور کرنوں کی بارش ہوئی
بحرِ شب زاد میں جو سفینے اتارے بھنور بن گئے
خواب میں خواب کے پھول کھلنے لگے، کھڑکیاں کھول دو
جاگنے دو مجھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے شام آئی ہے شہر میں

میں سفر میں ہوں
مرے جسم پر
ہیں ہزار رنگوں کی یورشیں
کہیں سرخ پھول کھلا ہوا
کہیں نِیل ہے
کہیں سبز رنگ ہے زہر کا
مگر آئینہ شبِ شہر کا
مری ڈھال ہے!
جو وصال ہے
وہی اصل ہجر مثال ہے
مرے سامنے وہی راستے
وہی بام و در
وہی سنگ ہیں، وہی سولیاں
مجھے شام آئی ہے شہر میں

مجھے شام آئی ہے شہر میں
جہاں آسمان کی وسعتوں سے
سوال کاسہ بدست لوٹے تھے
یاد ہے!
شبِ حیلہ جو ، تجھے یاد ہے
وہ صلیب،
جس پہ مچان، نجمِ سحر کی تھی
وہ خطیب،
جس کا خطاب ابرو ہوا سے تھا
۔۔۔ وہ صدائے ضبط عجیب تھی
کہیں کوڑھیوں کی شفا بنی
کہیں ابرو باد سے
چوبِ خشک تڑخ رہی تھی سویر سے!
بڑی دیر سے یہاں مرقدوں کے گلاب
پاوٗں کی دھول ہیں
میں سفر میں ہوں
مجھے شام آئی ہے شہر میں
مرے ہاتھ میں بھی کمان ہے
مجھے تیر دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوائے گمراہِ شب

اے خوابِ خندہ
تجھے تو میں ڈھونڈنے چلا تھا
مجھے خبر ہی نہیں تھی تو میری انگلیوں میں کھِلا ہوا ہے
مرے صدف میںترے ہی موتی ہیں
میری جیبوں میں تیرے سِکے کھنک رہے ہیں
نوائے گمراہِ دشتِ شب کے نجوم تیری ہتھیلیوں پر چہک رہے ہیں
مرے خلا میں تمام سمتیں ترے خلا سے اتر رہی ہیں
مجھے خبر ہی نہ تھی
کہ میری نظر کی عینک میں تیر ے شیشے جڑے ہوئے ہیں
تجھے تو میں ڈھونڈنے چلا تھا
تجھے تو میں ڈھونڈنے چلا تھا!
کسی صلیبِ کُہن پہ، دار و رسن کے تاریک راستوں کی
تھکن میں، فرہاد کوہکُن کی صدائے صدچاک میں، کسی چوک
میں اُبلتے ہوئے لہو میں کھِلے گُلِ طفلِ بے گنہ کے بکھرتے رنگوں
کی انگلی تھامے تجھے تو میں ڈھونڈنے چلا تھا

شبِ طرب ہے
شبِ طرب میں نہ ساز اترے نہ نور بکھرا
نہ بادلوں نے پھوار بھیجی
نہ جھیل نے ماہتاب اُگلا

شبِ طرب ہے اے خوابِ خندہ!
شبِ طرب میں مری طلب کا رباب بن جا
بجھی رگوں میں شراب بن جا
اے خوابِ خندہ، مری انگیٹھی کا خواب بن جا
کہ شب کا آہن پگھلنے تک میری چمنیوں کے دھوئیں میں
جگنو ملہار گائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم کہو تو کہوں

حرف کے تار میں جتنے آنسو پروئے گئے
درد اُن سے فزوں تھا
سنو، تو کہوں
تم کہو تو کہوں ظرف کی داستاں
کھیتیوں کو گِلہ بادلوں سے نہیں سورجوں سے بھی تھا
بازووٗں سے بھی تھا، ہل پکڑنے سے پہلے ہی جو تھک گئے
کشتِ زرخیز پر آبِ نمکین جم سا گیا
رقص تھم سا گیا
ایڑیاں گھومتے گھومتے رُک گئیں
اشک رُخسار کی گھاٹیوں سے گرا ۔۔ منجمد ہو گیا
رنگ خوشبو بنا تو ہوا چل پڑی
خواب ناطہ بنا تو کھُلی کھڑکیوں میں سلاخیں اُگیں
ہاتھ زخمی ہوئے
کس کے کشکول سے کتنے سِکے گرے
ہجر کیسا پرندے کی آنکھوں میں تھا
گھاوٗ کیسے پہاڑوں کے سینے پہ تھے
آئینہ گُنگ تھا
فرش پر عکس دھم سے گرا
کرچیاں ہوگیا
تم کہو تو گِنوں
تم کہو تو چُنوں
تم کہو تو سُنوں ان کھِلے پھول کی دھڑکنیں
گُمشدہ تتلیوں کی صدا
زرد ٹہنی کے ہونٹوں پہ رکھی ہوئی بددعا
آسمانوں کی دہلیز پر پھینک دوں
تم کہو تو دکھاوٗں تمہیں
اک تماشہ کہ جو میری مُٹھی میں ہے
ایک گردن کہ جو غم کے پھندے میں ہے
سانس چلتی بھی ہے اور چلتی نہیں
جاں نکلتی نہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اشکوں میں دھنک

اس ریتلے بدن کی
جھُلسی ہوئی رگوں میں
ہے تیل کا تماشہ
اور برف کی تہوں میں
ہے سورجوں کا گِریہ
یا پانیوں کی دہشت
یا خشک سالیاں ہیں

مہتاب سے ٹپکتا
تاریکیوں کا لاوا
رخسار داغتا ہے
اس صبح کا ستارا
چڑیوں کے گھونسلوں میں
بارود بانٹتا ہے

ان چوٹیوں پہ پرچم
انجان وادیوں کے
اور وادیوں پہ دائم
انجان چوٹیوں کے
سایوں کی حکمرانی

یہ میرے آنسووٗں میں
رکھی ہوئی دھنک ہے
اس حُسن کی کہانی
نمکین پانیوں کی
تسکین بن رہی ہے

ان سبز گنبدوں پر
بیٹھے ہوئے کبوتر
آنکھیں نہیں جھپکتے
اور برگدوں کے پیچھے
سوئے ہوئے پیمبر
خوابوں میں جاگتے ہیں

ان آئینوں پہ مٹی
ان کھڑکیوں میں جالے
یہ جام ریزہ ریزہ
یہ تشنہ لب نواگر
یہ بے نوا گداگر
اور ریتلے بدن کی
جھُلسی ہوئی رگوں میں
ہے تیل کا خزانہ

اس برف کی تہوں میں
ان سورجوں کا گِریہ
سیلاب کب بنے گا
یہ ریت کب دُھلے گی
ان خشک ٹہنیوں میں
مہتاب کب بنے گا
صدیوں کا بوجھ اٹھائے
صدیوں سے منتظر ہیں
قرطاسِ احمریں پر
دھبے سے روشنی کے

لاریب یہ رسالت
لاریب یہ صحیفے
لیکن ترے اجالے
دیمک ہی چاٹتی تھی
دیمک ہی چاٹتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برف کے شہر کی ویران گزرگاہوں پر

برف کے شہر کی ویران گزرگاہوں پر
میرے ہی نقشِ قدم میرے سپاہی ہیں
مِرا حوصلہ ہیں
زندگیاں
اپنے گناہوں کی پنہ گاہوں میںہیں
رقص کناں
روشنیاں
بند دروازوں کی درزوں سے ٹپکتی ہوئی
قطرہ قطرہ
شب کی دہلیز پہ گرتی ہیں، کبھی
کوئی مدہوش سی لَے
جامہٗ مے اوڑھ کے آتی ہے گزر جاتی ہے
رات کچھ اور بپھر جاتی ہے
اور بڑھ جاتی ہیں خاموش کھڑی دیواریں
بے صدا صدیوں کے چُونے سے چُنی دیواریں
جو کہ ماضی بھی ہیں، مستقبل بھی
جن کے پیچھے ہے کہیں
آتشِ لمحہٗ موجود کہ جو
لمحہٗ موجود کی حسرت ہے
مری نظم کی حیرت ہے،جسے
ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں
گھومتا پھرتا ہوں میں برف بھری رات کی ویرانی میں
ان کہی نظم کی طغیانی میں
ہیں بھنور کتنے، گُہر کتنے ہیں
کتنے اِلاّ ہیں پسِ پردہٗ لا
چشمِ نابینا کے آفاق میں
کتنے بے رنگ کُرے
کتنے دھنک رنگ خلا
کتنے سپنے ہیں کہ جو
شہر کے تنگ پُلوں کے نیچے
ریستورانوں کی مہک اوڑھ کے سو جاتے ہیں
کتنی نیندیں ہیں کہ جو اپنے شبستانوں میں
ویلیم چاٹتی ہیں
جاگتی ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم کہ ہیرو نہیں

ہم خزاں کی غدُود سے چل کر
خود دسمبر کی کوکھ تک آئے
ہم کو فٹ پاتھ پر حیات ملی
ہم پتنگوں پہ لیٹ کر روئے

سورجوں نے ہمارے ہونٹوںپر
اپنے ہونٹوں کا شہد ٹپکایا
اور ہماری شکم تسلی کو
جُون کی چھاتیوں میں دودھ آیا

برف بستر بنی ہمارے لیے
اور دوزخ کے سرخ ریشم سے
ہم نے اپنے لیے لحاف بُنے

زرد شریان کو دھوئیں سے بھرا
پھیپھڑوں پر سیاہ راکھ ملی
ناگا ساکی میں پھول کاشت کیے
نظم بیروت میں مکمل کی

لورکا کو کلائی پر باندھا
ہوچی مِنہ کو نیام میں رکھا
ساڑھے لینن بجے سکول گئے
صبح عیسیٰ کو شام میں رکھا
ارمغانِ حجاز میں سوئے
ہولی وڈ کی اذان پر جاگے
ڈائری میں سدھارتھا لکھا

درد کو فلسفے کی لوری دی
زخم پر شاعری کا پھاہا رکھا
تن مشینوں کی تھاپ پر تھرکے
دل کتابوں کی تال پر ناچا

ہم نے فرعون کا قصیدہ لکھا
ہم نے کوفے میں مرثیے بیچے
ہم نے بوسوں کا کاروبار کیا
ہم نے آنکھوں کے آئینے بیچے

زندگی کی لگن نہیں ہم کو
زندگی کی ہمیں تھکن بھی نہیں
ہم کہ ہیرو نہیں، ولن بھی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سمندر مرے بادبانوں میں سویا ہوا ہے

میں یاد کرتا ہوں اس یاد کو جو کہیں بھی نہیں ہے، کسی کی نہیں ہے، فقط یاد ہے میں جسے یاد کرتا ہوں، اندر اداسی ہے، باہر اداسی ہے اور سیب کے پیڑ پر کونپلیں پھوٹتی ہیں تو خوشبو کی رتھ میں نہ تم ہو، نہ وہ گیت ہیں جن کی لَے میں بہاروں کے دکھ کی خوشی ہے، خوشی کی اداسی ہے، برفوں میں سوراخ کرتی ہوئی کونپلیں ہیں کہ سورج نہیں ہے یہ سورج کا سایہ ہے سورج تو مشرق کی مٹی جلانے پہ معمور ہے ، یاد ہے اور کاغذ ہے، خط لکھ رہا ہوں جسے پوسٹ کرنے کی نوبت نہیں آئے گی، مجھ کو معلوم ہے، تم کو معلوم ہے تم نہیں جان پاوٗگے کیا بات تھی جس کے رستے کی دیوار قربت تھی اور جس پہ دوری کی مٹی پڑی ہے، میں اندر ہی اندر خدا ہو چکا ہوں، مرے آسمانوں پہ میں ہوں نہ تم ہو، میں اپنی طلب سے جدا ہوچکا ہوں مگر ساتواں دن کلہاڑی کے، ہل کے، گراری، مِلوں، ہسپتالوں، گھروں، بیویوں، ریستورانوں کے، اخبار، ٹی وی، خبر، ناخبر،
جنگ، جمہوریت، بادشاہی، مقابر، مساجد، کسینو کے، شاہی محلوں کے پیچھے کہیں بھی نہیں ہے، طلب ہی نہیں ہے، مجھے نوچتی ہے طلب کی، اداسی کی، خواہش کی خوشیوں کی، خوابوں کی، یادوں کی جو یاد مجھ سے رہا ہوچکی ہے، ہوا ہو چکی ہے وہ تتلی جو تم تھے، تو کیا ہے یہ سب کچھ، یہ سگرٹ، یہ وہسکی، یہ بادل کا ٹکڑا جو تم تک نہ پہنچا، سمندر مرے بادبانوں میں سویا رہے گا۔۔۔۔۔!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کی حمد

دن میں دیواریں ہزار
دن میں رخنے بے شمار

رات بے دیوارو در
رات کے لشکر کو کوئی روکنے والا نہیں
رات کے رستے میں گھر، کوچے، نگر
کوہ و دمن
دشت و چمن
بحرو بر
خیر و شر
رات اندھیرے کا بھنور
رات خاموشی کا بن
رات خوابیدہ خداوٗں کا کلام
رات نا پیدا و پیدا کائناتوں سے قدیم
رات کے ہاتھوں میں ہے وحشی زمانوں کی زمام
دن بہت اچھا ہے لیکن اس کے آنے کی ضمانت
سورجوں کے ہاتھ میں ہے
بادلوں کے ہاتھ میں ہے
رات آئے گی ضرور!

رات اک پروردگارِپُر غرور
رات کی مُٹھی میں وہ منظر ہے جس کی اک جھلک
کوہساروں میں دراڑیں ڈال دے
کوہساروں سے پرے
بھربھری مٹی ہے اس کے روگ ہیں
ہنہناتی گھوڑیوں کے سوگ ہیں
آسماں کی راکھ ہے چنگاریوں کا کھیل ہے!

نیند میں ڈوبی ہوئی بستی، ہلاکو خان کی فوجیں، اندھیرا، آگ،
کٹتے نرخرے، جلتے ہوئے بچوں کی چیخیں، رقص کرتی
داسیاں، بدمستیاں، مٹکے شرابوں کے، سلاخوں پر ٹنگے
بکرے، ہلاکوخاں کا جشن!
رات کی وحشت ہلاکو خاں کا خواب
شیر خاں کی کائنات
رات
گیدڑ کا جہاں
رات عیّاری کا دن
رات امریکہ کی بمباری کا دن!

رات کے ساحل پہ محفل دوستوں کی، دشمنوں کی، سازشی
ٹولے، بغاوت، پوسٹر، سوروں کی بیٹھک پر نہتّی
مرغیوں، گھوڑوں، گدھوں، کتوں کا حملہ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ علاقوں،
کچھ زمانوں کا اندھیرا خون سے دُھلتا ہے، بستی بستیاں
بلڈوزروں کی زد پہ آتی ہیں، لہو بارود بنتا ہے، بدن کی
پھُلجڑی کا پھول کھلتا ہے!

رات اک پروردگارِ پُر غرورو مہرباں!
ایک بحرِ بے کراں جس میں ہزاروں سال کے بچھڑے ہوئے
دھارے گلے ملتے ہیں، روحوں کے بدن کی میل، تن میں
کلبلاتی روح کی آلائشیں اور وصل کا پانی۔۔۔۔۔ دعا
کی نگہبانی میں طہارت کا عمل!
رات کی آغوش میں سب مسئلوں کا حل، سوالوں کے جواب
رات کے ملبے میں خواب!

رات بستر کی طلب
آپ سے، دنیا سے، اپنے آپ سے، سب سے پنہ
رات کو رونا ثواب
رات کو سونا گنہ
کروٹیں ہی کروٹیں ہیں، سلوٹیں ہی سلوٹیں ہیں صبحدم جسموں
پہ بھی، روحوں پہ بھی
بھوت ہیں اپنے سوال
بھوت ہیں اپنے جواب

ہاڑ کے دن، آم کا سایہ، ندی، کوئل، کسی کے حُسن کی
جھلمل۔۔۔ فقط اک پل ہے جو قبلے بدل دیتا ہے، سجدوں کی
جگہ پیشانیوں میں آگ بھر جاتی ہے، رستے وہ نہیں رہتے،
نظر پگڈنڈیوں کی کھوج میں رہتی ہے، دل جنگل میں لگتا
ہے۔۔۔ کہیں اندر چھپا اک بھیڑیا ہے، جاگ اٹھتا ہے
اندھیرے سونگھ کر!

رات کی مٹھی میں خوف
رات کے ملبے میں خواب

رات ازلوں کا جہاں ہے ا ور جہانوں کا ابد
بے حد ہے رات!
رات کی حد پر جو دن ہے رات کی حد پر نہیں ہے رات کی آغوش میں ہے
رات ربّ ِ بے نہایت کا پیام
رات کے ہاتھوں میں ہے وحشی زمانوں کی زمام
رات کا سنگِ سیہ
تیری پنہ
میری پنہ

دل پہ دھبے بے شمار
دن ہوا تو داغ سارے ساری دنیا کے لیے
دن کے دریا میں کثافت شہر بھر کی
دن میں دیواریں ہزار
دن کی دیواروں میں رخنے بے شمار

رات بے دیوارو در
رات بے دیوارو در ہے اور پردہ دار بھی
رات کا پانی بڑا شفاف ہے،
فیاض ہے!
توُ بھی اپنے داغ دھو،
رو،
تخلیہ ہے رات میں
توُ ہے یا تیرا خدا ہے رات میں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لو سالومے

(لوسالومے بیس اکیس سال کی ایک دلبر دوشیزہ تھی، جب اس کا تعارف اڑتیس، انتالیس سالہ پروفیسر یا ریٹائرڈ پروفیسر فریدرک نطشے سے ہوا، نطشے اور لو کے ایک مشترکہ دوست اور فلسفی پاول رے کی وساطت سے۔ بات جلد ہی دوستی کی حدوں سے آگے بڑھ گئی۔ لو کی تجویز پر ایک مثلث دوستی کی بنا ڈالی گئی۔ انجام وہی ہوا جو ہونا تھا، نطشے کو رقابت لا حق ہوگئی۔! اس مثلث دور کی یاد گار ایک تصویر ہے، جس میں ایک بیل گاڑی میں بیلوں کی جگہ نطشے اور رے کھڑے ہیں اور بیل گاڑی پر لوکھڑی ہے، چابک لہراتے ہوئے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب کچھ ہی عرصہ بعد نطشے اپنی مشہور کتاب’’ تو زر تشت بولا‘‘ لکھنے جا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سپر مین! نظم کے دونوں کرداروں کی اٹھان مشہور امریکی نفسیات دان طبیب اور کہانی گوارون ڈی یا لوم کی ناول ’’اور نطشے رویا‘‘ سے ہوتی ہے اور اس نظم میں کچھ حوالے درج بالا دونوں کتابوں سے آئے ہیں۔ نظم کا دوسرا کینٹو ایذرا پاونڈ کی ایک پیاری اور چلبلی نظم ’’چینو‘‘ سے ماخوذ ہے اور نظم کے چار مصرعے چینو کے تین مصرعوں کا شعری ترجمہ یا تخلیق نو ہیں۔ نظم لیکن میری ہے اور نظم کے کردار اسی نظم کے کردار ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعر)
٭٭٭

(۱)
ہو سکتا ہے
دونوں ہی سچے ہوں
لو بھی
اور نطشے بھی

اس چوٹی پر ڈھلتے سورج
اور ساحل پر بوسہ بوسہ
طغیانی کا قصّہ

کس کو کتنا یاد رہے گا
کون گواہی دے گا
اے سوج، اے شہد کے چھتے
کون گواہی دے گا تیری
شعلہ شعلہ سچائی کی
چلنا
مَیں سے تو تک تنی ہوئی رسی پر چلنا
رُک رُک چلنا
مڑ مڑ دیکھنا
ڈولنا
لحظہ بھر کو رکنا
چلنا
نطشے
وقت پہ مرنا کیا ہے
یعنی
وقت پہ جینا کیا ہے
کیا ہے
جس کی رکھوالی میں
تیری نس نس تنی ہوئی ہے

(لو خط ہی نہیں لکھتی !‘‘)
لو جینا جانتی ہے
لو زندہ رہتی ہے
٭٭٭

(۲)
تو زندہ رہتی ہے
تو جب جب چلتی ہے
دِل دھک دھک کرتا ہے
تو زخم لگاتی ہے
تو مرہم بنتی ہے

دن گزرا جاتا ہے
بنجارہ گاتا ہے

’’مَیں تین زمانوں میں
گا آیا ہوں تتلی کو
سب ایک سی ہوتی ہیں‘‘

سب پیاری لگتی ہیں!
سب مہماں ہوتی ہیں،
خود آ آ کر دِل میں!
سب مر مر جاتی ہیں!
’’تری آنکھیں سپنوں سی
ترے بول، تری تانیں
ترے ہونٹ ترے شانے
مَیں مر مر جاتی ہوں‘‘

’’سب مر مر جاتی ہیں‘‘
بنجارہ گاتا ہے

’’سب سپنے دیکھتی ہیں
سب تارے مانگتی ہیں
سب ایک سی ہوتی ہیں
مَیں سورج گاؤں گا‘‘
٭٭٭

(۳)
’’کچھ ناں دے، انھیں کچھ ناں دے‘‘
بابا بولا
’’لے لے
لے جو کچھ لے سکتا ہے ان سے لے لے‘‘
ان کا بوجھ بٹا
مت جا اس بستی کی جانب
مت دے اپنی خبر کی بھیک
خدا کا نام لے‘‘

یہ خبطی پیرولی!
اسے خبر نہ ہو پائی
وہ جس کے ہاتھ لگا مَیں
وہ جس کے ہاتھ میں چابک تھا، وہ
خواب ازل تھا
خواب ابد ہے

مَیں سورج، مَیںشہد کا چھتا
صدیوں کا رس
ٹپ ٹپ
ٹپک رہا ہے میرے اندر
مَیں لمحوں کا بھانبھڑ

دس سال سے
دس سال سے نقطے جوڑ رہا ہوں
تنہائی کی سب سے اونچی
سب سے تنہا
چوٹی پر بیٹھا ہوں
تارے توڑ رہا ہوں
تمھیں دینے آؤں گا
٭٭٭

(۴)
اے بندر کے کرتب دیکھتے لوگو
سوچو
تم خود کیا ہو
ایک چھلانگ ہو
چوپائے سے دوپائے تک
دیکھو
غور سے دیکھو، آگے
اس ٹیلے پر کھڑا ہوا ہے
وہ، جو تم کو دیکھ رہا ہے
جیسے
تم بندر کو دیکھ رہے ہو
دیکھو،
مَیں آیا ہوں!
٭٭٭

(۵)

وہ آیا ہے
وہ تصویر میں کھڑا ہوا ہے
بیل نہیں ہے
تیرے ہاتھ میں چابک
لو، تیرے ہاتھ میں چابک ہے
تو خط ہی نہیں لکھتی!

مَیں، مَیں پروا
مَیں بادصبا، مَیں صر صر
مَیں پھول نہیں ہوں تیرا، مَیں اک تتلی ہوں
مَیں تجھ تک آئی تھی
خود اڑ کر آئی تھی
مَیںجانا چاہتی ہوں
مَیں آؤں جاؤں گی
مَیں سورج گاؤں گا
بنجارا گاتا ہے
پنجارا بابا ہے
جو تنہا رہتا ہے
جنگل میں رہتا ہے
بنجارا جنگل ہے
جب جنگل گاتا ہے
تو مور مہکتے ہیں
اور پھول چمکتے ہیں
اور تتلی گاتی ہے
٭٭٭

برزخ کے پُھول

ایک ہاتھ کی تین انگلیاں کٹی ہوئی تھیں
شکل تو بھول چکی ہے
نام یاد ہے
علم دین تھا
علم دین کے چاروں جانب علم دین ہی علم دین تھا
خط لکھتا رہتا تھا
علم دین کے خط ہیں
پتہ پتہ
اور خزاں ہے
کتنے اچھے دِن تھے
پھول کھلا کرتے تھے
چاند چڑھا کرتا تھا
سانپ نشہ کرتے تھے
پروائی کا!
٭
دیکھا،
پُل پر دریا چڑھ آیا ہے
مَیں محتاط تھا، پلٹ گیا، اور
دیکھا:
تیرہ چودہ سال کا اک لڑکا ہے
اپنے آپ میں گُم صُم
سر کو جھکائے
اُس جانب کی دائیں سمت سے
اِس جانب کی بائیں سمت چلا آتا ہے
پُل پر دریا
پُل کا جنگلا غائب
اور مَیںگونگا
لڑکا خود میں گُم صُم
میں نے سطحِ آب پہ ہاتھوں کو لہراتے دیکھا!
٭
چرچ میں دیکھی لاش کا بھُوت،
دماغ میں دائیں جانب
مادر زاد فرشتہ!
اور سینے میں بائیں جانب
پسلی پسلی سر ٹکراتا
وحشی اور نابینا
سگِ گرسنہ!
شہزادی
تُم کن محلوں کے، کن کمروں میں، کن نرسوں سے
کب تک
اپنا آپ چھپا پاؤ گی؟
یہ ہلڈول یہ ڈائزی پام تمھاری شام ہیں
شام
جو صبح سویرے اپنا سفر آغاز کیا کرتی ہے!
٭
یوں لگتا ہے
جیسے سب کچھ ہونے سے پہلے ہی ہو جاتا ہے
سچ سچ کہنا،
بستر پر مفلوج سفر کے تیس برس کا سپنا،
کن نیندوں سے، کب ٹوٹا تھا؟
٭
وہ دروازہ کھولیں
جس کے پیچھے ہم ہیں!
٭
کیا وہ مَیں تھی؟
یا وہ ،وہ تھا؟
سات برس کی عمر میں مَیں نے
مُٹھی بھر سورج میں سمٹی
وحشی شب کی جھلکی
دیکھی!
کیا وہ مَیں تھی جس کے زیرِ ناف چھپی تھی
سسکی
لذّت کی
یا
سانپ تھا،
اور پُروائی۔۔۔۔۔۔۔۔!
تازہ تازہ
زخم کا نشہ،
(کبھی چکھا ہے؟)
گرم لہو کی خوشبو۔۔۔۔!
سترہ گولیاں نیند کی
اور بھیڑیا
لال لال آنکھیں ہیں اس کی
سُرخ کوئلے جیسی
دروازے میں کھڑا ہوا تھا
جب مَیں
چیخی
آج رات کو
ڈاکٹر صاب
نرسیں
مجھے چڑیلیں لگتی ہیں اور آپ کے کندھوں
پر کبھی کبھی
کسی سؤر کا چہرہ ہوتا ہے!
٭
تین لڑکیاں
تین جزیرے
تین زمانوں میں اک آدھا روشن تارہ
آدھے گھر میں رات
آدمی
برزخ
٭
علم دین خاموش رہا کرتا تھا
علم دین کے گھر میں
بھوت رہا کرتے تھے
جنگل
علم دین کے سر میں
وہ جنگل میں تنہا
رستہ
بھُولا ہوا شہزادہ!
٭
ہم برزخ کے شہری
ہمیں خدا سے بیر نہیں تھا
سورج اپنا دوست بنا تو رات بھی آئی،
بنی ٹھنی
ہونٹوں پہ سُرخی
آنکھ میں شعلے
ناف کے نیچے جنت!
ہم نے
نہر میں بہتا شہد بھی چکھا
روشن رکھا
جنت کا سورج بھی
آگ چُرا کر
دوزخ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم
برزخ کے شہری ہیں
٭
سچ کے سائے
سایوں کا سچ
علم دین کے کمرے میں علم دین کا گھر تھا
جس میں دیا نہیں تھا
دیا جلا آئے
بوسہ۔۔۔۔
جس کی تپش سے
لش لش کالا پتھر پگھلا
بوسہ
جس نے
دھڑ دھڑ بہتا دھارا روکا
لحظہ بھر کو
صدیاں
شوقِ دید میں
پتھر
بوسہ ریگِ رواں ہے!
ہجر کا حجر اسود
ندیا
اندھا پانی
کالی رات سے کالا پانی
علم دین ہے
ٹَپ ٹَپ گرتا
تازہ سُرخ لہو ہے
وقت
بہے جاتا ہے
اپنے پُورے زور سے
ٹھہرا
مادر زاد فرشتہ
سکتہ
دماغ کے دائیں نصف کرے میں،
بِگ بینگ کی آہٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
٭
وہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
اُس کی گونج ہے، پاگل خانے کے دوزخ میں
گونج رہی ہے:
’’مَیں ہوں
اور اسامہ بن لاڈن اِز گوڈ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
یہ ہے،
برزخ بھگت چکی ہے،
اللہ الصمد!
٭
رات روشنی۔۔۔۔۔!
رات تہی مہتاب، تہی چراغ ہے
رات روشنی
تیز ہوا ہے
جنگل
لشکر
لٹے پٹے شہزادے کا
شہزادی
اپنے خیمے اندر
اپنے آپ سے باتیں کرتی
تنہا
خواہش
اپنے آپ کو چیر پھاڑ لینے کی
سسکی
کیا وہ مَیں تھی؟
٭
پُل پرپانی
تُو ہے
علم دین اُس پار بھی تُو ہے
اُس وادی میں
اُن قبروں کے آس پاس بھی تُو ہے،
گُم صُم!
٭
کرنا کیا ہے
ہونا کیا ہے؟
کالا پتھر دریا
٭
رات روشنی علم دین کے گھر میں
علم دین کے خط ہیں
باہر
پتہ پتہ
اندر
علم دین ہے، تنہا

بابا
آگ سے وصل منا
تجھ پر
جنت کے دروازے ہیں
بوسہ بوسہ
دوزخ ٹھنڈے کر
پتھر
ندیابَن
٭٭٭

جمعرات، 15 ستمبر، 2016

دوستوئیفسکی اور اسلام/ڈاکٹر کارین ستیپانیان

کتاب " دوستوئیفسکی اور عالمی ثقافتیں" کے مدیر اعلٰی اور فلسفی ڈاکٹر کارین ستیپانیان نے عظیم روسی مصنف کے اسلام سے رشتے سے متعلق سپیوتنک انٹرنیشنل نامی ویب سائٹ کے نامہ نگار کے سوالوں کے جواب دیے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ْدوستوئیفسکی اور اسلام۔۔۔۔ موضوع مشکل بھی ہے اور کئی طرح سے سمجھنے لائق بھی۔ انہوں نے اپنی تحریر کے کسی بھی پیرے میں اس مذہب پر روشنی نہیں ڈالی جیسا کہ انہوں نے عیسائیت اور یہودیت کے ضمن میں کیا تھا تاہم اس عظیم ادیب کی تحریروں میں اسلام کی فکربارے اندازے بہر طور پائے جاتے ہیں۔ٌاردو میں یہ ترجمہ کردہ انٹرویو انٹرنیٹ پر پہلے سے موجود ہے اور اس لنک پر کلک کرکے آپ اس تک پہنچ سکتے ہیں۔لیکن ہمیں محسوس ہوا کہ یہ اہم گفتگو بہت سے پڑھنے والوں تک نہیں پہنچ سکی ہوگی، چنانچہ اسے ادبی دنیا پر اپلوڈ کیا جارہا ہے۔شکریہ


سوال:دوستوئیفسکی کو کب اور کیسے اسلام میں دلچسپی ہوئی تھی؟

جواب: انہیں اسلام اور قرآن میں دلچسپی انہیں جوانی میں ہی ہو گئی تھی۔ دوستوئیفسکی غیر معمولی طور پر بہت زیادہ پڑھا کرتے تھے۔ وہ بہت زیادہ باعلم شخص تھے، فرانسیسی زبان روانی سے بول لیتے تھے۔ ان کی لائبریری میں قرآن کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ موجود تھا، یقینا" انہون نے اس کا مطالعہ کیا ہوگا۔ اسلام میں انہیں گہری دلچسپی تھی، جس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں مسلمانوں کے ساتھ بات چیت کرنے کا تجربہ حاصل رہا تھا۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جوانی کے نو برس دوستوئیفسکی نے ایشیا میں بتائے تھے۔ پہلے اومسک کے بیگار کیمپ میں اور بعد میں چار سال سیمی پلاتنسک میں۔ اسلام ان کے لیے زیادہ قریب یوں ہوا کہ ایشیا میں موجودگی کے آخری برسوں میں معروف مستشرق اور شاندار شخص چوکن ولی خانوو ان کے دوست بن گئے تھے۔ یہ آخری تاتار خان کے پوتے تھے۔ وہ روس کی فوج کے افسر تھے۔ تھے تو قدامت پسند عیسائی مگر انہیں اسلام، مشرق اور قرآن کے بارے میں بہت کچھ معلوم تھا۔ ان کی سالہا سال تک دوستوئیفسکی سے یاری رہی تھی۔ ولی خانوو نے انہیں اسلام کے بارے میں، قرآن کے بارے میں اور کلی طور پر مشرق کے بارے میں بہت کچھ بتایا تھا کیونکہ وہ نسل شناس بھی تھے، تاریخ دان بھی اور مترجم بھی۔ علاوہ ازیں وہ روسی سلطنت کے ترک خطوں میں حکومت روس کے ایلچی بھی تھے۔ دوستوئیفسکی نے ان سے بہت کچھ جانا تھا۔یہ بتانا ضروری ہے کہ دوستوئیفسکی نے کبھی کسی انسان سے نسل کی بنا پر نفرت نہیں کی۔ دوستوئیفسکی کے لیے انسان جیسے تھا ویسے ہی اہم تھا۔ ان کے بیگار کیمپ میں لکھے گئے معروف ناول "مردہ خانے سے رقعے"میں قابل توجہ صفحات ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ مصنف نے ایک نوجوان داغستانی مسلمان علی کے ساتھ کس طرح باتیں کی تھیں اور کیسے ان کا مکالمہ ایک طویل عرصے تک جاری رہا تھا۔ مثال کے طور پر مصنف نے کس طرح علی کو روسی زبان پڑھنا سکھائی اور کس طرح اس انجیل کی مدد سے جو ان کے پاس تھی اسے روسی زبان میں لکھنا سکھایا تھا۔ایک اور شاندار مثال ہے جو یہ جاننے پر مجبور کرتی ہے کہ کس طرح دوستوئیفسکی نے نہ صرف نوجوان مسلمان کے استاد کا کردار ادا کیا تھا بلکہ قدامت پرست عقائد کے ایک "مشنری" یا "مبلغ" کا بھی۔ انہوں نے خود بھی علی سے بہت کچھ سیکھا تھا۔علی نے جب دوستوئیفسکی سے حضرت عیسٰی سے متعلق سنا تھا تو کہا تھا،" عیسٰی اللہ کے نبی ہیں۔ عیسٰی اچھی باتیں کرتے تھے۔ تقریبا" ویسی ہی باتیں جیسی ہمارے قران میں ہیں"۔ممکن ہے فیودر دوستوئیفسکی نے تب ہی عیسائیت اور اسلام میں تطابق محسوس کیا ہو اور جانا ہو کہ قرآن اور انجیل مماثل کتب ہیں۔ میرے نکتہ نگاہ کے مطابق یہی وقت تھا جب دوستوئیفسکی کو ان دو عظیم عالمی مذاہب میں مماثلت کا احساس ہوا ہوگا۔

سوال:سب جانتے ہیں کہ لیو تالستوئی کے کتب خانے میں قرآن کے کئی نسخے محفوظ ہیں، کیا دوستوئیفسکی کے کتب خانے میں بھی ہیں؟

جواب:دوستوئیفسکی کے کتب خانے کی ایک تفصیلی فہرست وجود رکھتی ہے جس کے مطابق ان کے کتب خانے میں فرانسیسی زبان میں قرآن کا نسخہ موجود تھا۔ اس فرانسیسی ترجمے کا ہی روسی زبان میں ترجمہ کیا گیا تھا جس کی 1864-65 میں دو بار اشاعت ہوئی تھی۔ مگر یاد رہے یہ فہرست ان کی موت کے بعد مرتب کی گئی تھی۔ پیٹرزبرگ میں دوستوئیفسکی بار بار رہائش گاہ تبدیل کرتے رہے تھے یوں بہت سی کتابیں کھو گئی تھیں۔ جب وہ قرض خواہوں سے بچنے کی خاطر بہت زیادہ سال بیرون ملک رہے تھے تو ان کے ملازم نے جسے کام کرنا پسند نہیں تھا عملی طور پر ان کے کتب خانے میں جمع ساری ہی کتابیں بیچ ڈالی تھیں تاکہ ان سے حاصل ہونے والے وسائل سے زندگی بسر کر سکے۔ چنانچہ ممکن ہے ان کتابوں میں قرآن کے دیگر نسخے بھی ہوں البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے قرآن کا مطالعہ جوانی میں ہی کر لیا تھا

سوال:جیسا کہ معلوم ہے کہ روس ترک جنگ کے دوران دوستوئیفسکی نے بنیادپرستانہ اسلام مخالف موقف اختیار کیا تھا۔ اس کی وجہ کیا تھی؟

جواب: جہاں تک 78-1877 میں روس ترک جنگ کے دوران دوستوئیفسکی کے یک لخت اسلام مخالف ہونے کا تعلق ہے تو اس کی وجہ سلطنت عثمانیہ کی قبضہ گیر پالیسی تھی اور ان لوگوں کا سفاک پن جو اس پر عمل درآمد کر رہے تھے اور جو مذہب کی آڑ لیے ہوئے تھے۔ یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ تب حالات بہت زیادہ کشیدہ تھے کیونکہ خود روسیوں میں بھی اس جنگ کی شدید مخالفت موجود تھی۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے ان لوگوں کی مذمت کی جاتی تھی جو رضاکارانہ طور پر سربوں کی مدد کرنے جا رہے تھے۔ دوسری بات یہ کہ خود جنگ کی بھی مذمت کی جاتی تھی کہ سربوں کی خاطر بھلا کیوں جنگ کی جائے اور اسی طرح کی دوسری باتیں۔ دوستوئیفسکی کو ایسے وقت میں ان لوگوں میں جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تھی جو وہاں جا کر لڑنے اور اس مقابلے کی جنگ میں جان کا نذرانہ دینے کی خاطر تیار تھے۔ ان لوگوں کی مخالفت کیے جانا مقصود تھی جو ترکوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کو تیار تھے اور اس سے روس بچنا چاہتا تھا۔انہوں نے کچھ اور ادیبوں کی مانند جو خود کو جیسے وہ اصل میں ہیں کی نسبت زیادہ سچا بنا کر پیش کرتے ہیں، اپنے آپ کو پیش نہیں کیا تھا۔ دوستوئیفسکی کا دلی خواب تھا کہ زمین پر بسنے والی تمام اقوام اور تمام تہذیبیں ایک ہم آہنگ وحدت میں ضم ہو جائیں۔ ان کو اس بارے مین یقین تھا اور انہوں نے اپنی تحریرون میں اس کے لیے کوشش کی تھی۔ اقوام کا ہم آہنگ اجتماع ان کا بنیادی خواب تھا۔

سوال: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ "دوستوئیفسکی اور اسلام" کے موضوع کی جانب رجوع، کیا ہمیں معاصر مسائل کے حل کا نسخہ دیتا ہے؟

جواب: معروف فلسفی گریگوری پامیرانتس نے کہا تھا کہ مسلمانوں، عیسائیوں، ملحدوں اور بدھ مت کے پیروکاروں کے مابین کھڑی کی جانے والی باڑیں آسمان تک نہیں پہنچ پاتیں۔ خدا ایک ہے۔ یقینا" آسمان پر باڑیں نہیں ہیں مگر ہمارے ہاں ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان باڑوں کو انتہائی شفاف بنا ڈالیں۔ مطلب یہ کہ ہم ان باڑوں کو مانیں، ان کو دیکھیں لیکن ان کو بے حد شفاف بنا ڈالیں نہ کہ آہنی دیواروں کی مانند جن کے پیچھے کوئی بھی کچھ بھی نہ دیکھ سکے۔ دوستوئیفسکی کی مدد سے یہ سمجھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے کہ کیا ہو رہا ہے، باڑوں کو زیادہ شفاف کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ ایک دوسرے کو سمجھا جائے۔ ثقافتوں اور تہذیبوں میں مغائرت پیدا کرنے والے مسائل کی دشواریوں کو سمجھا جائے۔ سمجھا جائے کہ وہ کون سے طریقے ہیں جن کے ذریعے ان مسائل کو دور کیا جا سکتا ہے۔ راستہ ایک ہی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کی بات سنیں اور اپنے نکتہ نظر کو واحد سچ نہ جانین جیسا کہ آجکل ہو رہا ہے۔ دوستوئیفسکی سکھاتا ہے کہ مخالف کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس کا نکتہ نظر سمجھا جائے، اسے اپنے نکتہ نظر سے متفق کرنے کی کوشش کی جائے اور کسی طرح کی مصالحت کی جانی چاہیے۔ یہ اصول اس وقت ہمارے لیے اشد ضروری ہے۔

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *