ہفتہ، 31 اکتوبر، 2015

تہذیبی نرگسیت/مبارک حیدر



تمہید کے طور پر

پچھلے چند برسوں کے دوران مسلم امّہ نے دہشت گردی کے سلسلے میں بڑا نام کمایا ہے۔ لیکن دہشت گردی کے واقعات سے پہلے بھی ہمارے مسلم معاشرے عالمی برادری میں اپنی علیحدگی پسندی اور جارحانہ فخر کی وجہ سے ممتاز مقام پر فائز رہے ہیں۔
دنیا بھر میں اسلام اور دہشت گردی کے درمیان تعلق کی تلاش جاری ہے اور بیشتر خوشحال یا ترقی یافتہ معاشروں کا دعویٰ ہے کہ جسے دہشت گردی کہا جارہا ہے، وہ سرگرمی اسلام کے بنیادی کردار کا حصہ ہے۔ دوسری طرف سے مسلم معاشروں کے نمائندہ سیاست دان اور دانش ور مسلسل وضاحت پیش کررہے ہیں کہ اسلام میں تشدد اور دہشت گردی کا کوئی تصور ہی موجود نہیں۔
حقیقت کیا ہے، یہ جاننے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ بالخصوص یہ سوال بہت اہم ہے کہ مسلم معاشروں میں موجودہ تشدد کی لہر کے خلاف احتجاج نہ ہونے کے برابر کیوں ہے؟ ظاہر ہے کہ جو عناصر تباہ کاری کے موجودہ عمل میں لگے ہوئے ہیں، انہیں اپنے عزیز و اقارب، اپنے پڑوسیوں اور اپنی بستیوں کی طرف سے نفرت کا سامنا نہیں۔ اگر کسی معاشرے کے رویہ میں کسی عمل سے سخت نفرت موجود ہوتو وہ عمل پھل پھول نہیں سکتا۔ مثلاً عورت کی آزادی اور مذہبی آزادی کے خلاف ہمارے معاشرے میں نفرت موجود ہے تو ان آزادیوں کے پنپنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔ لہذا کہیں نہ کہیں تشدد اور تباہ کاری کو کوئی ایسی تائید حاصل ہے جو اسے توانائی مہیا کرتی ہے۔
تشدد اور تباہ کاری کا یہ عمل جس نے دنیا بھر کے مسلم عوام کو عالمی معاشروں کی نظر میں مشکوک بنا دیا ہے۔ حتی کہ برصغیر ہند اور افغانستان کے مسلمان خوف اور نفرت کی علامت بن گئے ہیں۔ کیا یہ عمل چند لوگوں کی سوچ بگڑنے سے شروع ہوا ہے؟ کیا مسلم معاشرے دنیا کے دوسرے معاشروں کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں؟ کیا برصغیر ہند یعنی بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان کے مسلمان جدید دور کی تہذیبوں کے ساتھ امن کی حالت میں رہ سکتے ہیں؟ کیا افغان قوم کا کردار ایک علاقائی تہذیب تک محدود رہ سکتا ہے؟ یا قدیم فاتحین کی یہ قبائلی آبادی وسط ایشیا، چین، پاکستان اور بھارت کو فتح کرنے کی آج بھی ویسی ہی خواہش رکھتی ہے جیسے ہزاروں برس کے دوران رہی ہے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دنیا کی موجودہ تہذیبوں سے مسلم تہذیب کا ٹکراؤ کیا نتائج دکھائے گا؟ کیا عالمی آبادی جو مسلمانوں کی آبادی سے چار گنا بڑی ہے اور جس میں امریکہ، روس، یورپ، چین، جاپان بھارت جیسے منظم اور مسلح معاشرے شامل ہیں، اپنے ملکوں کی تباہی برداشت کرتے رہیں گے؟
دنیا کے مختلف ملکوں میں سفر کرنے والے مسلمان دورانِ سفر جس تجربے سے گذرتے ہیں، میں بھی کئی بار اس اذیت سے گزرا ہوں۔ مجھے اپنی اذیت اور اپنے عزیز و اقارب ، اپنے دوستوں اور ہم وطنوں کی اجتماعی تذلیل پریشان کرتی ہے۔ اپنی اولاد اور آئندہ نسلوں کی بے بسی اور بربادی کا تصور بے چین کرتا ہے۔ میں پاکستانیوں کی اس نسل سے ہوں جس نے ایک جدید اور مہذب پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔ ہم نے 1960ء اور 1970 ء کی دہائیوں میں قدم قدم پر اگتی ہوئی امیدوں کی فصل دیکھی۔ پھر اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی خاک اڑتی دیکھ کر ہم بربادی کے عمل کو روک نہ سکے، ہمارا معاشرہ جہالت اور نرگسیت کا شکار ہوتا گیا اور قوموں کی جدید انسان دوست تحریکوں سے کٹتا چلا گیا، نیند میں چلتے ہوئے ایک معمول کی طرح جسے عامل نے اپنے کھیل کے لیے سلا دیا ہو۔
مجھے اس کتابچہ کی تلخی ٔ بیان کا احساس ہے۔ مجھے اس بات کا بھی علم ہے کہ میں نے جس طبقہ کو اکاس بیل سے تشبیہہ دی ہے اور جن محترم حضرات کی طرز فکر پر اعتراض کیا ہے وہ کتنے بااثر اور کتنے زودرنج ہیں اور میرا معاشرہ کتنا زود رنج بنادیا گیا ہے… مجھے ڈر ہے کہ ہمارے معاشرے کو تباہی کی طرف دھکیلنے والا عنصر اپنی طرزِ فکر کی تباہ کاریوں کا تجزیہ کرنے پر آمادہ نہیں ہوگا۔ بلکہ طرح طرح کی توجیہات اور الزام تراشی کے ذریعے اپنے کھیل کو جاری رکھنے کی کوشش کرے گا۔ اس کے باوجود میرا ایمان ہے کہ اس عنصر کا ہاتھ روکنا ضروری ہے، جتنا بھی ہم سے ہوسکے۔
دین کو سیاست اور روزگار بنانے والے حضرات میں ایک بہت بڑی تعداد پر خلوص طور پر اپنے راستے کو صراطِ مستقیم سمجھتی ہے۔ یہ سادہ دل مگر خود پسند لوگ ہیں جو مسلم معاشرے کے دوسرے لوگوں کی طرح چند شاطروں کی چال کا شکار ہوئے ہیں، لیکن دین سے روزگار اور سماجی اقتدار حاصل ہونے کی وجہ سے یہ لوگ اپنے موجودہ رول سے مطمئن ہیں بلکہ حالتِ فخر میں ہیں۔ میری تمنا اور دعا ہے کہ اس پر خلوص اور سادہ دل جمِ غفیر میں کوئی ایسی تحریک جنم لے جو انہیں بے جا فخر سے آزاد کرکے خود تنقیدی اور سچے انکسار کی طرف لے جائے۔
مسلم معاشروں کے وہ لوگ جو جدید مہذب معاشروں کے شہری بن گئے ہیں، کچھ عرصہ پہلے تک اپنے آبائی معاشروں کی رہنمائی کیا کرتے تھے۔ ان کی وجہ سے برصغیر کے مسلم اور غیر مسلم عوام انسانی تہذیب کی ترقی کو پسند کی نظر سے دیکھتے اور رشک کرتے تھے، لیکن یہ ایک بڑی بد نصیبی ہے کہ یہ تارکین وطن تیزی سے رجعت اور جہالت کی اس تحریک سے متاثر ہورہے ہیں جو انہیں اسلامی تشخص کے نام پر علم و شعور سے نفرت پر اکسا رہی ہے اور جس کے نتیجہ میں مسلم عوام کے ہیرو اور رول ماڈل نہ تو سائنسدان ہیں نہ موجد بلکہ وہ قاری اور امام مسجد ان کے رہنما بن گئے ہیں جن کا کل اثاثہ رٹی ہوئی آیات اور حکایات ہیں جن کے معنی بھی وہ پوری طرح نہیں جانتے اور جن کے خطبوں میں جھوٹے فخر اور مہمل دعووں کے سوا اگر کچھ ہے تو وہ نفرت ہے جس کا انجام مسلم عوام کی تنہائی اور پسماندگی ہے… اگر یہ کتابچہ تارکین وطن مسلمان نوجوانوں کی توجہ حاصل کرسکے تو میں اسے بھی خوش نصیبی سمجھوں گا۔
مسلم نوجوان کی نفسیات پر مدرسہ اور قاری کے کلچر نے کئی منفی اثرات چھوڑے ہیں۔ لیکن ان میں تنگ نظری اور ایذا پسندی سب سے اہم ہیں، تخریب کاری انہی کا زہریلا پھل ہے۔ ہم اذیت میں جینے اور دوسروں کو اذیت پہنچانے کے عادی ہوگئے ہیں۔ ہمارا امام مسجد ہو یا عام مسلمان فخر سے دعویٰ کرتا ہے کہ ہم نے فلاں کو برباد کردیا۔ مثلاً ہم نے روس کو برباد کردیا، ہم امریکہ کو برباد کررہے ہیں، ہم بھارت کو بھی برباد کریں گے۔چین کو یا جوج ماجوج کہنے کی تحریک جاری ہے اور وقت آنے پر چین کو برباد کرنے کا دعویٰ بھی سنا جاسکے گا۔ لیکن آپ اس امام یا یا اس مقتدی کے منہ سے یہ نہیں سنیں گے کہ ہم نے کس کس کو آباد کیا۔ اسے اپنی یا اپنے عوام کی اذیتیں دور کرنے میں کوئی د لچسپی نہیں۔ اسے فخر ہے کہ وہ برباد کرسکتا ہے… اذیت رسانی اور معصوم بچوں پر تشدد کے جس کلچر نے مدرسہ میں جنم لیا تھا، وہ بڑھ کر یونیورسٹی تک آیا اور اب بازار تک پھیل گیا ہے۔ ہمارے دانشوروں سمیت ہم میں سے کسی نے بھی اپنی عالمانہ نرگسیت سے نکل کر اس بربریت پر اعتراض نہیں کیا۔
مجھے اعتراف ہے کہ یہ کتابچہ اپنے موضوع کی وسعت اور گہرائی کے سامنے بہت ناکافی، بہت سرسری اور سطحی ہے۔ پھر بھی اسے اس امید کے ساتھ پیش کرنے کی جرأت کررہا ہوں کہ مسلم معاشروں کے دانشور اور اہلِ نظر میری کوتاہیوں کو نظر انداز کرکے اس موضوع پر ہماری رہنمائی کریں گے۔

مبارک حیدر



تہذیبی نرگسیت

بم دھماکوں اور خودکش حملوں کے ذریعے تباہی اور قتل عام اس تحریک کا حصہ ہے جو پچھلی تین دہائیوں کے دوران نشوو نما پاتی رہی ہے، اُس فکری تحریک کی عملی شکل ہے جسے اس کے مخالف دہشت گردی کہتے ہیں۔ کچھ عرصہ سے اس خیال کااظہارکیا جارہا تھا کہ سیاسی عمل کی بحالی سے دہشت گردی کا عمل کمزور پڑ جائے گا۔شاید وہ تحریک جسے دہشت گردی کہا جارہا ہے اس کی قیادت بھی اس ’’جمہوری چال‘‘ کے ممکنہ اثرات کو نظر انداز نہیں کرتی۔ لہٰذا بروقت اقدام کے ذریعے قائدین تحریک نے سیاسی عمل کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ تجزیہ کی نظر سے دیکھا جائے تو اب یہ بات واضح دکھائی دیتی ہے کہ ملک میں سیاسی عمل سے جو فضا قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس کی اجازت نہیں دی جائے گی یعنی جو قدم 27 دسمبر2007ء کو راولپنڈی میں اٹھایا گیا تھا، ویسے ہی اقدام بار بار اٹھائے جائیں گے لیکن اس کا نشانہ ایک مخصوص فریق ہوگا،سبھی نہیں۔مخصوص فریق وہی ہے جس کے نمائندوں میں محترمہ بے نظیر شہید بھی تھیں۔ اس فریق میں سب وہ قوتیں شامل ہیں جو اس عالمی تحریک اسلام سے خائف ہیں۔ یہ قابل غور ہے کہ اس قتل عام اور محترمہ کی شہادت پر احتجاج اُنھی ممالک کی حکومتوں نے کیا جو خود اس تحریک کانشانہ بن رہے ہیں یا بننے والے ہیں۔ یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، بھارت، چین، انڈونیشیا، افغانستان اورمصر کی حکومتیں۔ یہ وہ حکومتیں ہیں جنھیں اس تحریک سے شدید اختلاف ہے اور شاید خوف بھی۔ یہ تحریک کیا ہے ؟ہم سب جانتے ہیں اگرچہ اس کا کھلے بندوں اقرار کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔ پاکستان میں مذہبی جماعتوں، سیاستدانوں، دانشوروں، تاجر طبقوں اور عوام کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ پاکستان کی مقتدرہ کے کئی عناصر اس کے حامی ہیں۔صرف کھلم کھلا اظہار یکجہتی کرنے یعنی ریکارڈ پر آنے سے گریز کیا جاتا ہے۔کیونکہ حکومت کا ایک عنصر جو عالمی رائے کے مطابق حکمت عملی پر گامزن ہے ، ابھی کسی حد تک موثر ہے۔یہ غلبہ اسلام کی تحریک ہے جس سے ملک کے تمام مسلمان اصولی طور پر کسی نہ کسی حد تک متفق ہیں،اور اس کے مقاصد واضح ہیں، یعنی مرحلہ وار ساری دنیا میں اسلام کی سربلندی اور نفاذ۔مراحل کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔
پہلا مرحلہ۔ اس مرحلے پر پاکستان اور افغانستان میں ایک سچی اسلامی حکومت کا قیام مقصود ہے جو خلافت علیٰ منہاج نبوت کی عملی شکل ہوگی اور دونوں ملکوں کی سرحدوں کو جنھیں اسلام تسلیم نہیں کرتا، ختم کرکے ایک مضبوط عسکری بنیاد پر خلافت اسلامیہ کا احیا ہوگا، جس کا دارالخلافہ غالباً شمالی علاقوں میں ہوگایا ممکن ہے کہ کامیابی کے اگلے مرحلوں میں حرمین شریفین کے قریب کسی جگہ پر ہو۔لیکن یہ تب ممکن ہوگا جب مشرق وسطیٰ میں کچھ رکاوٹیں دور ہوجائیں گی۔ یعنی ایران کا موجود نظام، جو اگر چہ اس وقت تحریک کے لئے طاقت کا باعث ہے لیکن بالآخر اسے ختم کرنا ضروری ہوگا،کیونکہ یہ مرکزی خلافت کے راستے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
اس تحریک خلافت کا عملی تجربہ پچھلی صدی کے آخری برسوں میں کیا جا چکا ہے۔اگرچہ امریکہ کی قوت قاہرہ نے اس خطے میں اپنے اتحادیوں کی مدد سے طالبان کی حکومت کو ختم کردیا لیکن یہ خاتمہ نہ تو فطری تھا نہ مکمل،یعنی وہ طاقتور بنیاد جس پر طالبان کی حکومت قائم ہوئی تھی،نہ صرف ختم نہیں ہوئی بلکہ اور مضبوط ہوئی۔ یعنی افغان اور پاکستانی قوم کے وہ عقائد مزید مضبوط ہوگئے جن پر غلبۂ اسلام کے نظریہ کی بنیاد ہے۔ لہٰذا طالبان حکومت کا خاتمہ فطری نہ تھا۔ جبکہ نامکمل یوں تھا کہ طالبان پوری افغان قوم میں، پاکستان کے شمالی علاقوں میں، پاکستان کے ان گنت مدرسوں اوردینی اداروں میں اور پاکستان کی مسلح افواج، مقتدر اداروں اور متمول و با اثر طبقوں میں موجود تھے، جنھیں ختم نہیں کیا جاسکتا تھا۔ کیونکہ یہ لوگ ہمارے ان عقائد کے ترجمان تھے جنھیں طویل عرصہ سے ہر سطح پر راسخ کیا گیا تھا۔ لہٰذا اس غیر فطری اور نامکمل اقدام سے طالبان کو صرف وقتی اور جزوی نقصان ہوا۔
دوسرا مرحلہ۔ پاک افغان علاقوں میں قیام خلافت کے پہلے مرحلہ کی تکمیل کے فوراً بعد تحریک کے سامنے جو مرحلہ ہوگا وہ ان وعدوں کی تکمیل کا ہوگا جو اسلامی حکومت کے قیام کی بنیاد ہیں۔یعنی عوام کے مسائل کا حل اور خیر و خوبی سے لبریز معاشرہ کا قیام۔ اگر یہ وعدے پورے نہیں ہوتے تو اسلامی انقلاب سے لوگوں کے بددل ہونے کا شدید خطرہ موجود ہوگا۔بے شمار خاندان جن کے نوجوان بیٹوں نے خود کش حملوں میں جام شہادت نوش کیا اور عوام کی وسیع اکثریت جن کی روز مرہ زندگی میں محرومیاں ہیں اور جن کا ایمان اس بات پر راسخ کیا گیا تھا کہ اسلام ہی سب مسائل کا حل ہے، جس کے نفاذ سے اللہ کی رحمتوں کا فوری نزول ہوگا،اب قیام خلافت کے بعد نتائج کے لئے بے قرار ہوں گے۔ایران میں انقلاب اسلامی کو اتنی الجھنوں کا سامنا نہ تھا کہ یہ ملک تیل سے مالا مال اور شاہ کے طویل دور حکومت سے خوشحال تھا ، صرف دینی اورسماجی مسائل تھے جو چند ہزار افرادکو پھانسیاں دینے سے یا لاکھ دو لاکھ افراد کی قید و جلا وطنی سے یا پھر عورتوں کو حجاب کا پابند کرنے سے کافی حد تک حل ہوگئے۔وہاں کے شیعہ انقلاب کو ایک اور آسانی یہ تھی کہ ولایت ِفقیہ کا نظریہ اختیار کرکے علما نے اجتہاد کے ایسے راستے کھول لیے جن سے جدید دور کے اکثر فکری اور مادی اصول جوں کے توں رائج رکھے جاسکتے تھے۔مثلاً ظاہری حلیہ ہی لے لیں۔شیو کرنے اور جدید لباس(سوائے ٹائی )پہننے پرکوئی پابندی نہیں لگائی گئی،عورتوں کو اعلیٰ تعلیم اور ملازمت سے روکا نہیں گیا، سرکاری ادارے ،جمہوری ادارے پورے مغربی انداز سے جاری ہیں۔یہ آسانی امامت کے نظام میں ممکن ہے جس کے اہل تشیع قائل ہیں۔جبکہ قیام خلافت کے بعد پاک افغان اسلامی معاشرے کو زبردست مالی، معاشی، انتظامی اور معاشرتی مسائل کا سامنا ہوگا۔ اگرچہ ترغیب و تبلیغ سے یا شرعی تعزیر و تادیب سے عوام کو سادہ زندگی کااسلامی اصول اپنانے پر قائل کیا جائے گا۔ اور قوی امید ہے کہ وہ دنیاوی خوشحالی کے جدید کافرانہ نظریات کو دلوں سے نکال دیں گے۔ افغان طالبان کے دور میں زندگی کو سادہ کرکے قرون اولیٰ کے عرب معاشرہ کے قریب لانے کا تجربہ کامیاب رہا تھا۔مسلم عوام اسلام کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ اور حضورﷺ کے دور کی سادگی تو وہ سعادت ہے جسے حاصل کرکے ہمارے مسلم عوام سرشار ہوجاتے ہیں چاہے غریب ہوں یا امیر۔ثبوت کے طور پر دیکھیں خوشحال مڈل کلاس کے مردوں کے حلیوں کی تبدیلی اور ان کی عورتوں کا بڑھتا ہوا حجاب اور ہر پابندی کا خوشی سے خیر مقدم۔ لہٰذا کچھ عرصہ بنیادی اصلاحِ معاشرہ پر صرف ہوگا۔ یعنی اسلام کے ان مخالف عناصر کا شرعی حکم کے مطابق خاتمہ کیا جائے گا جنہوں نے تحریکِ خلافت کی مخالفت کی،یہودونصاری ٰ کی حمایت کی یا ان سے مدد لی اور تحریک کو دہشت گرد ی کا نام دے کر روکنے کی کوشش کی۔(یاد رہے کہ کسی سیاسی پارٹی کی قیادت یا عوام دونوں کا قتل اسی اصول سے جائز قرار پاتا ہے اور تمام خود کش حملوں میں اسی اصول کے تحت ان لوگوں کو قتل کیا جارہا ہے جو کسی نہ کسی انداز سے تحریک کی مخالفت کرتے ہیں یا مخالفوں کی حمایت کرتے ہیںیا خاموش رہ کر تحریک کے دشمنوں کی بالواسطہ مدد کرتے ہیں۔ ان میں حکومت کے اہلکار اور کام میں لگے ہوئے عوام برابر کے قصوروار ہیں)۔ عورتوں کوچادر اور چاردیواری میں بھیجنے کا کام مکمل کیا جائے گا،اقامت صلوٰۃ کا نظام قائم کیا جائے گا، غرضیکہ افغان قوم کے سابقہ تمام تجربوں سے استفادہ کرتے ہوئے ملک پاکستان میں بھی نفاذ اسلام کے مراحل تیزی سے مکمل کیے جائیں گے۔ یہ سب دوسرے مرحلے کا پہلا حصہ ہوگا۔
اس مرحلے کا اصل چیلنج بہرحال عوام کے لئے خوشحالی مہیا کرنا ہوگا۔ خوشحالی کے لئے وسائل درکار ہوں گے جو کہ دونوں ملکوں میں موجود نہیں۔ خوشحال طبقوں کی زمین اوردولت چھین کر عوام میں تقسیم کرنے کا تصور اشتراکی ہے اور اسلام کی واضح تعلیمات کے خلاف ہے، لہٰذا اس غیر اسلامی اور ظالمانہ طریقہ کار سے کام نہیں لیا جاسکتا۔ جبکہ جدید صنعت اور زراعت کیلئے اسلامی معاشرہ زیادہ انتظار نہیں کرسکتا۔ اسلام کی سر بلندی اور غلبہ اسلام کے لئے کفار کے خوشحال ممالک کو فتح کرنے کا حکم اسلام نے واضح طور پر دیا ہے۔ ان خوشحال ملکوں کی وہ دولت جو انہوں نے پچھلی صدیوں میں مسلمانوں کی حکومتیں ختم کرکے لوٹ لی تھیں، دراصل مسلمانوں کی دولت ہے، جس پر ان کا فطری حق ہے۔ علاوہ اس کے امیر المومنین کے اولین فرائض میں ہے کہ سارے عالم میں دعوت اسلام اور غلبۂ اسلام کا انتظام کرے۔ لیکن اس عظیم مشن کی تکمیل کے لئے عالم اسلام کی صف بندی کی ضرورت ہے۔ لہٰذا تمام مسلمان ممالک کو امیر المومنین کا یہ حکم پہنچا یا جائے گا کہ وہ دنیا میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی حکومت قائم کرنے اور جاہلیت کے ہر نظام کو نیست و نابود کرنے کے لئے مملکت اسلامیہ کی اطاعت کریں۔خدشہ ہے کہ مسلمان قوموں کے موجودہ حکمران اس حکم کو نہیں مانیں گے۔ چنانچہ ان کے غیر اسلامی اور جاہلیتی نظام ریاست کو درہم برہم کرنے کے لئے خود کش حملوں اور اگر ممکن ہوا تو باقاعدہ جیش روانہ کرنے کا اہتمام کیا جائے گا۔اس تحریک انقلاب کے لئے عوام کو تیار کیا جائے گا اور شہادت کے مرتبہ سے پوری طرح آگاہ کیا جائے گا۔ ہرمسلم ملک میں چونکہ اسلامی نظام کو قائم کرنے کے لئے عوام کا دل و دماغ تیار ہے لہٰذا جاہلیت کی حامی حکومتوں کے خلاف بغاوت مشکل نہیں ہوگی۔
تیسرا مرحلہ۔یہ اس وقت ممکن ہوگا جب ایران سمیت مشرق وسطیٰ کے تمام مسلمان ممالک مرکزی اسلامی قیادت کی حاکمیت تسلیم کرکے اسلامی مشن کی تکمیل کے لئے سینہ سپر ہوجائیں گے۔یہ وہ لمحہ ہوگا جب مشرق وسطیٰ کے پچاس کروڑ مسلمان اس خواب کو پورا کرنے کے لئے کمربستہ کھڑے ہوں گے جودین اسلام کو تمام دینوں پر غالب کرنے اور دنیا سے جاہلیت کے ہر نقش کو مٹانے کے لئے ہر عظیم مسلم مفکر نے دیکھا اورجو ہر مسلمان کی نفسیات میں گندھا ہوا ہے ، وہ خواب جسے اقبال نے اپنے ولولہ انگیز کلام سے جدید دور کے مسلمانوں کی روح میں تازہ کیا،جسے سید مودودی اور سید قطب نے اپنی ایمان افروز تحریروں سے روشن کیا اور جسے ضیاء الحق شہید نے عملی طور پر ممکن بنادیا۔
اس مرحلے پر برصغیر ہند میں عظمت اسلام کی بحالی کے لئے بھارت کو وہ چوائس دیا جائے گا جو امیر المومنین حضر ت عمر فاروقؓ نے قیصرو کسریٰ کودیا تھا یعنی (1) اسلام قبول کرلویوں تم ہمارے بھائی بن جائو گے، (2) اطاعت قبول کرکے جزیہ ادا کرو تم ہماری رعایا بن کر امن میں آجائو گے،(3) ورنہ جنگ کے لئے تیار ہوجائو ،تلوار ہمارے درمیان فیصلہ کرے گی۔
ظاہر ہے اس جنگ میں فتح اسلام کا مقدر ہے، لہٰذا بھارت پر اسلام کا پرچم لہرا دیا جائے گا۔یوں بھارت اور بنگلہ دیش کے چالیس کروڑ مسلمان بھی اسلامی لشکر کی طاقت بن جائیں گے اورجزیہ کے نتیجے میں نہایت قابل قدر وسائل بھی مملکت کو حاصل ہوجائیں گے ۔
اگلے مرحلے میں چین کی باری ہوگی۔ بھارت سے جو وسیع وسائل حاصل ہوں گے ان کی مدد سے اوراس جذبۂ ایمانی کی بدولت جو ہرمسلم کو فلسفہ شہادت سے حاصل ہوتا ہے، پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ اسلامی لشکر کو چین کے نظام دہریت پر فتح حاصل ہوگی، جیسے روس پر ہوئی تھی۔ روس اور بھارت کی تباہی کے بعد چین پر فتح اسلامیان عالم کا تیسرا بڑا کارنامہ ہوگا۔اسلامی لشکر اور اسلامی معیشت کو بھارت ،چین اور مشرق بعید کی خوشحالی کافرانہ معیشتوں سے،مال غنیمت کی صورت میں جو فوائد حاصل ہوں گے وہ غازیوں کی وقتی تھکن اورمالی تکالیف کو دور کردیں گے۔
آخری مرحلے میں یورپ اورامریکہ کو فتح کیا جائے گا، افریقہ آسٹریلیا وغیرہ کو قریب کے گورنر فتح کرکے سارے عالم میں مملکت اسلامیہ کو غالب و بالا کردیں گے۔ یوں اللہ تبارک وتعالیٰ کا وہ وعدہ پورا ہوجائے گا جواس نے ’’لیظہرہ علیٰ دین کلہ‘‘ میں کیا تھا۔
یہ ہے وہ فکری تحریک جس کے عملی اقدامات کوچند مسلمان دہشت گردی سمجھتے ہیں۔اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ چند لوگ نہیں بلکہ کروڑوں مسلمان اسے دہشت گردی کہتے ہیں،پھر بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ تحریک غیر اسلامی ہے کیونکہ جن نظریات پراس تحریک کی بنیاد ہے انہیں کبھی چیلنج نہیں کیا گیا۔آج تک ایسی کوئی فکری تحریک ،عالم اسلام میں یا ہمارے اس خطہ میں نہیں ابھری جس نے یہ کہنے کی کوشش کی ہو کہ یہ نظریات اسلامی نہیں۔ اور یہ تو اور بھی ناقابل تصور ہے کہ کسی نے اس ملک کے کسی بھی علاقے میں کبھی یہ کہنے کی جرات کی ہو کہ یہ نظریات چاہے اسلامی بھی ہیں پھر بھی نا قابل عمل ہیں۔وہ اسلامی نظریات جن پر اس تحریک کی بنیاد ہے اور جنھیں چیلنج نہیں کیا جاتا،وہ ہر مسلمان کی نظر میں ایمان کا حصہ ہیں۔جو لوگ تحریک سے اختلاف کرتے ہیں ، وہ بھی ان نظریات کے اسلامی ہونے سے انکار نہیںکرتے،بس اتنا کہتے ہیں کہ اسلام امن کا دین ہے، اسلام تشدد نہیں سکھاتا، اسلام تو بڑا متوازن ہے،اسلام تو مروت برداشت سکھاتا ہے۔لیکن ان مروّتی خیالات کی حمایت میں اسلامی نصاب سے کچھ پیش نہیں کیا جاتایعنی کوئی فکری استدلال اس سلسلے میں مسلمانوں کے ذہن کو تبدیل کرنے کے لئے پیش نہیں کیا جاتا۔نہ ہی مروّتی اسلام کے حامی مسلمان دین کے علوم پر ایسی دسترس رکھتے ہیںجو علماء دین کو لاجواب کردے یا اس تحریک کے پروانوں کو سوچنے پر مجبور کردے کہ ان کی نظر میں جو اسلام کی خدمت ہے دراصل اسلام نے تو اس کا حکم ہی نہیں دیا۔کچھ لوگ اسلام کو متوازن یا بامروت ظاہرکرکے اسلام کو دنیا کے لئے قابل قبول بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں پر مولانا مودودی اورسید قطب کا موقف یہ ہے کہ مغرب کے ملحدانہ اور جاہلیتی نظریات نے ان کے ذہنوں کو اتنا مرعوب کردیا ہے کہ وہ اسلام کو مغربی معیاروں پر فٹ کرنیکی کوشش کرتے ہیں۔سید قطب نے واضح الفاظ میں لکھا کہ جو لوگ جہاد کو مدافعتی جنگ کی حد تک محدود کرنا چاہتے ہیں وہ دراصل مغرب سے مرعوب ہوکر یا اپنی بزدلی کی وجہ سے اسلام کی واضح تعلیمات کو مسخ کرتے ہیں جبکہ اسلام نے بغیر معذرت کے واضح طورپر حکم دیا ہے کہ دنیا میں ہر نظام جاہلیت کو بزور شمشیر ختم کردیا جائے۔
یہ بھی سچ نہیں کہ مسلم عوام ’’دہشت گردی ‘‘کی اس تحریک کے خلاف ہیں جس کا ایک کھلا مرکز جامعہ حفصہ کی شکل میں سامنے آیا۔سبھی جانتے ہیں کہ مملکت کے قوانین کی رو سے جامعہ مذکورہ کے اقدامات کی حمایت کرنابھی سنگین جرم بنتا تھا، جامعہ حفصہ کی انتظامیہ اور طلبا نے مملکت کے قوانین کی رو سے بغاوت کی تھی جو کہ جرائم میں سب سے سنگین جرم ہے۔ لیکن دنیا نے دیکھا کہ عوام اور علمائے دین ہی نہیںبلکہ دانشوروں اور میڈیا کے لوگوں نے، حتیٰ کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے حکومت کے اس اقدام کی کھلے عام مذمت کی جو اس بغاوت کو کچلنے کے لئے کیا گیا،حالانکہ حکومت نے یہ اقدام بے حد تذبذب اور مسلسل مذاکرات کی حالت میں کیا۔اس کے برعکس جامعہ حفصہ کی بغاوت کوبغاوت کہنے کی جرأت کم لوگوں کو ہوئی اورجن لوگوں نے ایسی جرأت کی انہیں دھمکیاں ملیںاور پھر اٹھارہ اکتوبر کا واقعہ اور بعد میں محترمہ بینظیر کی شہادت اس کا تسلسل ہیں، انہی دنوںاسلام آباد کے ہوٹل میں دھماکہ ہوا۔چند روز بعد سرکاری امام مسجدکو نکال کر جن لوگوں نے لال مسجد پر دوبارہ قبضہ کیا ، ان کے لئے میڈیا اور عوام میں حمایت صاف دکھائی دی۔مولانا عبدالعزیز کی توہین کی وسیع پیمانے پر مذمت کی گئی۔ انتخابات میں عوام کی نمائندہ حکومت کو مسلسل نفرت اور تذلیل کا سامنا اسی وجہ سے ہے۔
قبائلی علاقہ جات میں ہونے والے سرکاری آپریشن کو شدید مخالفت کا سامنا ہے جو برملا کی جارہی ہے،جس کو کسی ڈھکے چھپے انداز سے کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ پاکستانی فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے روز کا معمول بن گئے ہیں۔ سوات میں علانیہ ایک الگ مملکت کے انداز سے حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھائے گئے۔ اس کے باوجود پاکستان کے کسی بڑے شہر میں لوگوں کی نجی محفلوں میں کوئی شخص جرات نہیں کرسکتا کہ حکومت کے کسی اقدام کی حمایت کرے یا بغاوت کرنے والوں کے خلاف نفرت کااظہار کرے۔ یہ سب تحریک غلبہ اسلام کی عوامی تائید کے ثبوت ہیں۔
پاکستان کے طول و عرض میں خوشحال،تعلیم یافتہ اور بلند آواز طبقوں میں شعائر اسلامی اور مخصوص حلیہ و لباس کی مقبولیت جس رفتار سے بڑھ رہی ہے، اس سے آنکھیں بند کرنے والوں کی ذہنی حالت پر شتر مرغ کی مثال یاد آتی ہے، چند لڑکیوں اور لڑکوں کا گٹار بجانا یا اشتہاروں میں لڑکیوں کاواہیات انداز سے ’’آزادی ‘‘کا اظہار کرناکچھ بھی ثابت نہیں کرتااور تقریباً سو فیصد یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر آپ ان لڑکوں اور لڑکیوں کو ذرا سا کریدیں تو اوپر کی پتلی جھلی کے نیچے آپ کو وہی بنیاد پرست مسلمان ملے گا جس کا ایمان ہے کہ اسلام ہی دنیا کے سبھی مسائل کا حل ہے، اسلام ہی سب سے مکمل اور اچھا نظام ہے اور مسلمان ہی دنیا پر غالب آنے کا حق رکھتے ہیں۔
امریکہ سے نفرت کی نفسیات کا مطالعہ کریں تو اس کی بنیادیں نہ تو قومی آزادی کے جذبوں میں ملیں گی نہ ہی انسانی ہمدردی یا انصاف کے تقاضوں میں۔ اس نفرت کی جڑیں اسلامی تشخص میں ہیں۔ افغانستان یا عراق میں امریکی کارروائی کی شدید مخالفت کو صحیح تناظر میں سمجھنے کے لئے یاد کریں وہ رد عمل جو اسی عراق پر اسی امریکہ کے 1990ء والے حملے میں تھا۔ جب عراق نے کویت پر قبضہ کیا تھا تب امریکہ کے خلاف کوئی احتجاج اس لیے غیر ضروری تھا کیونکہ امریکہ ایک زیادہ اسلامی ملک (کویت جہاں شیخ حکمران تھا) کو ایک کم اسلامی ملک (عراق جہاں ایک جدید طرز کا آمر مسلط تھا) کے قبضہ سے آزاد کرا رہا تھا۔ اس سے پہلے بھٹو نے اپنی حکومت کے خلاف امریکہ کے اقدامات پر واضح ثبوت پیش کیے تو ہمارے علما دین اور غلبہ دین کے حامی، امریکہ کی بجائے بھٹو کے خلاف ڈٹے رہے کیونکہ بھٹو ان کے عظیم مشن کی راہ میں رکاوٹ تھا۔ بھٹو کے ان تمام اقدامات کے باوجود جو اسلامی ممالک کو متحد کرنے کے لئے اس نے اٹھائے، اسلام پسند قوتوں کو یقین تھا کہ بھٹو کی جدید یت اصلی اسلام کی راہ میں رکاوٹ ہے لہٰذا اگر امریکہ بھٹو کو ختم کرتا ہے تو امریکہ کا یہ اقدام قابل ستائش ہے۔اسی طرح افغان جنگ میں روس کے خلاف امریکہ ہمارے عوام و خواص کا ہیرو تھاکیونکہ وہ ایک اسلامی ملک کو دہریوں کے چنگل سے آزاد کروا کر اسلام کی خدمت کررہا تھا۔اسی اصول سے امریکہ پچاس برس تک ہمارا محبوب اتحادی رہا۔ حتیٰ کہ طالبان حکومت کے دوران بھی دیر تک مسلم ضمیر پر امریکہ کو ئی بوجھ نہیں بنا کیونکہ اسے ہماری اسلام پسند ی پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ امریکہ نے ساٹھ برس میں دنیا کی بیسیوں مقبول حکومتوں کے تختے الٹائے ہیں جن میں مصدق اور سوئیکارنوکی حکومتیں بھی شامل ہیں۔ویت نام پر 25برس جنگ کے دوران کروڑوں ٹن بم برسائے ہیں لیکن مسلم ضمیر بوجھل نہیں ہوا۔یہ حقیقت ہے کہ اسلام ہی وہ واحد صداقت ہے جس کی حمایت یا مخالفت ہمارے لئے کوئی اہمیت رکھتی ہے۔ غیر مسلم ظالم ہو لیکن اسلام کی حمایت کرے تو قبول، غیر مسلم مظلوم ہو لیکن اسلام کا مخالف تو ہماری توجہ کا مستحق نہیں۔ دنیا کی مختلف تہذیبوں نے اپنے اپنے وقتوں میں دوسری تہذیبوں اور قوموں کو فتح کیا ان کے علاقوں پر ظلم کیے ہر فتح مفتوح کی نظر میں ظالمانہ ہوتی ہے۔ روم نے غلاموں پر ظلم کیے، خسروانِ ایران نے بھی محکوم علاقوں اور غلاموں پر ظلم کیے۔ برصغیر میں آریا فاتحین نے دراوڑ تہذیب کو تباہ کرکے نئی تہذیب قائم کی، منگولوں اور تاتاریوں نے دنیا کو تاراج کیا،یورپی اقوام نے نوآبادیاتی نظام قائم کیا تو قوموں پر جبر اور استحصال کے ذریعے کیا۔ آج کارپوریٹ امریکہ ایک طاقتور ڈائنوسار کی طرح براعظموں کو کچلتا پھر رہا ہے تو کچلے جانے والوں کو اذیت ہوتی ہے۔ فتح کے اس پہلو پر دنیا کی ہر تہذیب کے لوگ تنقید کرتے ہیں، اگر تہذیب کے عروج کے دنوں میں ایسا نہیں ہوتا تو یہ تنقید آنے والی نسلیں ضرور کرتی آئی ہیں۔خود فاتح کی اپنی قوم سے احتجاج اورمخالفت کی آوازیں سنائی دیتی رہی ہیں۔لیکن اسلامی تاریخ کو دیکھیں تو چودہ سو برس میں کبھی ایسا نہیںہواکہ کسی مسلم مفکر یا عالم نے مسلمانوں کی فتوحات کے عمل پر اعتراض کیا ہوکیونکہ یہ مسلم ایمان کا حصہ بنا دیا گیا ہے کہ ہروہ چیز جو اسلام کے نام پر کی جائے وہ صداقت ہے۔
وہ عقائد جو دنیا بھر میں احیائے دین اور غلبۂ اسلام کی تحریک کی بنیاد میں کار فرما ہیں، یوں بیان کیے جاسکتے ہیں۔
1۔ اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے،اس میں ہرمسئلے کا آخری اورابدی حل موجود ہے۔
2۔ اسلام کا ہر حکم، ہر ضابطہ ہمیشہ کے لئے ہے یعنی ہر زمانے میں اسی طرح عمل کیا جائے گا جیسے رسول اللہ ﷺ اور شیخین ؓ کے دور میں کیا گیا۔
3 ۔ اسلام واحد سچائی ہے ، اس کے علاوہ جو کچھ ہے اسے اسلام کے مطابق ڈھلنا چاہیے ورنہ اسے ختم کرنا مسلمانوں کا فرض ہے یعنی جو بھی اسلام سے اختلاف کرے گمراہی پر ہے اور جاہلیت پر ہے جس کو ختم کرنا مسلمانوں پر فرض ہے۔
4 ۔ اللہ کا حکم ہے کہ اسلام کوتمام دوسرے مذہبوں اور نظاموں پر غالب کیا جائے کیونکہ اسلام کے علاوہ ہرنظام جاہلیت کا نظام ہے اور اللہ سے بغاوت ہے۔
5۔ مسلم امہ سب قوموں سے افضل ہے اور اسے دنیا پر حکومت کے لئے چن لیا گیا ہے۔دنیا اور آخرت کی فضیلت صرف سچے مسلمان کے لئے ہے سچا مسلمان وہ ہے جو شرع کے مطابق عمل کرتا ہے۔
6 ۔ دنیا پر اسلام کو غالب کرنے اور کفر کی طاقتوں کو مٹانے کے لئے نیت کرکے جو بھی قدم اٹھایا جائے وہ جہاد ہے اس جہاد میں مرنے والا شہید ہے ۔ شہید کا انعام ہے جنت اور اس کی حوریں۔ شہید کے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں،شہید کا انعام شہادت کے حاصل ہوتے ہی شہید کو حاصل ہوجاتا ہے۔
7۔ جہاد ہرصحت مند مسلمان پر فرض ہے اور جہاد سے مراد ہے غیرمسلموں پر اسلام کو غالب کرنے کے لئے اسلحہ سے جنگ کیونکہ کفار اللہ کے دشمن ہیں،جہاد کے سب دوسرے معنی ثانوی اہمیت رکھتے ہیں۔جہاد صرف مدافعت کے لئے نہیں بلکہ اسلام کا غلبہ کرنے کے لئے آگے بڑھ کر کافروں کے خلاف کیا جاتا ہے۔
8 ۔ دین اور اسلاف کے حکم سے اختلاف کفر ہے یا کم سے کم ریا کاری ہے۔کافر اور ریا کار چاہے کچھ بھی کر لے اس کا کوئی کارنامہ اسے سچے مسلمان کے برابر مقام نہیں دلا سکتا چاہے سچا مسلمان ذ ہنی سطح پر کچھ بھی ہو۔
9۔ دین کا علم سب علوم سے افضل ہے ، جوشخص دین کا عالم ہے اس سے افضل عالم اور نہیں۔ دین کا علم اتنا گہرا اوروسیع ہے کہ یہ عوام کی عقل سے بہت بالا ہے ۔جوشخص علمائے دین کی رہنمائی اور اسلامی انداز زندگی اختیار نہیں کرتا وہ اسلام کا عالم ہوہی نہیں سکتا۔
10۔ دین کی دعوت اور تعلیم دینے والے یہ علماء اللہ کی مخلوق میں بہترین لوگ ہیں۔ ان اساتذہ سے سیکھنا اور ان کی ہدایت پر عمل کرنا ہرمسلمان پر لازم ہے۔
یہ عقائد صرف پاکستان کے شمالی علاقہ جات یا افغانستان کے مسلمانوں کے ہی نہیں نہ یہ پاکستان کے مدرسوں تک محدود ہیں۔یہ تمام مسلمانوں کے عقائد ہیںجو بالکل اسی شکل میں اُن مسلمانوں میں بھی جاری و ساری ہیں جو دنیا بھر سے ہجرت کرکے دنیا کے جدید صنعتی معاشروں میں روزگار اور خوشحالی کی تلاش میں آباد ہوئے ہیں اوراب وہاں کے شہری بن چکے ہیں۔دعوت دین اور احیائے دین کی تحریک نے ان آبادکاروں کو ایسا ولولہ اور اعتماد فراہم کیا ہے کہ یہ اپنے میزبان ممالک میں مسلمانوں کی حکمرانی کا خواب دیکھتے ہیں۔سید قطب کے پیروکار ڈاکٹر کلیم صدیقی کی گلوبل اسلامک موومنٹ ،برطانیہ میں مسلم پارلیمنٹ کی تحریک چلا رہی ہے۔ فرانس، جرمنی، نیدر لینڈ اوردوسرے ممالک میں مسلمانوں کے ولولے کا اندازہ اُس تحریک سے لگایا جاسکتا ہے جو انہوں نے اپنے آئمہ مساجد کی قیادت میں کارٹون چھپنے پر چلائی تھی۔ اور قلیل اقلیت اور پسماندہ ہونے کے باوجود ان آبادکاروں کے تحکم کا عالم وہی تھا کہ جو ہرملک ملکِ ماست کہ ملکِ خدائے ماست کے عقیدے سے پیدا ہوتا ہے یعنی ہر ملک میرا ہے کیونکہ میرے خدا کا ہے۔ سپین میں تو مسلم مہاجرین قطعاً یہ نہیں سمجھتے کہ وہ وہاں اقلیت ہیں یا انہیں سپین کا کسی طرح بھی ممنون ہونا چاہیے کہ وہاں انہیں شہریت ملی اوربرابر کے حقوق حاصل ہوئے، جبکہ ان کے اپنے بھائی یعنی اہل عرب تو کسی غیر عرب مسلمان کو ساری زندگی ایڑیاں رگڑنے پر بھی شہریت نہیں دیتے۔ سپین کے مسلم آباد کاروں کا علانیہ دعویٰ ہے کہ سپین مسلمانوں کی ملکیت ہے کیونکہ یہاں ہمارے آبائو اجداد نے 8 سو سال حکومت کی ہے، جیسے بھارت میں اقلیت ہوتے ہوئے بھی تحریک خلافت کے علمبردار مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ بھارت پر حکومت مسلمانوں کا حق ہے یہ دعویٰ پاکستان کی تحریک غلبۂ اسلام کا بھی ہے جو افغان جنگ کے بعد سارے ملک میں کی گئی وال چاکنگ سے واضح ہوا تھا اورباضابطہ نظریاتی بنیادوں پراب بھی سکھایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ہمارا یہ انداز سب سے ممتاز ہے۔ جہاں ایک طرف ہر ملک میں ہم اپنا حق سمجھتے ہیں کہ اسلام اور مسلم امہ کی عظمت کے لئے تحریک چلائیں ،مسجدیں بنائیں، تبلیغی مراکز قائم کریں اور میزبان ملک کے نظام کو کافرانہ کہہ کر کھل کر اس کی مذمت کریں، وہاں یہ بھی ہمارا جزو ایمان ہے کہ کسی کو اسلام کے خلاف گستاخی کرنے کی اجازت نہ دیں، چاہے یہ گستاخی وہ اپنے ملک میں بیٹھ کرکررہا ہو۔ دوسری طرف یہ بھی قاعدہ قانون کی حیثیت رکھتا ہے کہ مسلم معاشروں میں رہنے والے غیرمسلم اپنے کسی قول و فعل سے اسلام کی مخالفت نہ کریں،ذرا سا اعتراض بھی نہ اٹھائیں اپنے عقائد کو اسلام سے بہتر کہنے کی جسارت نہ کریں،اسلامی تاریخ اور ہمارے اسلاف پر تنقید نہ کریں۔ہمارا عقیدہ ہے کہ ایک اسلامی معاشرے میں غیر مسلم کو کسی بھی طریقہ سے اقتدار کے اعلیٰ درجوں تک پہنچنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اورغیر مسلموں کو مسلمانوں کے برابر حقوق نہیں دئیے جاسکتے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ عقیدتاً اسلام واحد صداقت ہے جسے غالب حالت میں رہنے کے لئے کسی جواز کی ضرورت نہیں۔تبدیلیٔ مذہب پر بھی ہمارا عقیدہ منفرد ہے:ہر مذہب کے لوگوں کو اپنا مذہب چھڑوا کر مسلمان بنانا ہمارا حق ہے لیکن کسی دوسرے مذہب کے مبلغین کو حق نہیں کہ کسی مسلم کو اپنے مذہب پر مائل کریں۔اسی طرح لوگوں کو اسلام میں آنے کی اجازت ہے لیکن چھوڑنے کی نہیں۔
جو لوگ موجودہ امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر یہ تبصرہ کرتے ہیں کہ یہ انتہاپسندی کا نتیجہ ہے اور تقریروں ، تحریروں ، تبصروں اور مذاکرات میں بڑی درد مندی سے اپیلیں کررہے ہیں کہ انتہا پسند عناصر قانون اور مملکت کا پاس کرتے ہوئے راہ راست پر آجائیں،یا یہ کہ اسلام کا ایسا چہرہ پیش کریں کہ جو ’’مہذب ‘‘دنیا کو پسند آئے ، نہ جانے کس بنا پر یہ اپیلیں اورتبصرے کررہے ہیں۔جن اقدامات کو بنیاد پرستی ، انتہا پسند ی اور تخریب کاری کہا جارہا ہے وہ اسلام کے ان مسلمہ عقائد کی رو سے صرف جائز ہی نہیں بلکہ مسلمانوں پر فرض ہیں۔سید قطب اور سید مودودی نے احیائے اسلام کی جو تحریک چلائی تھی اس کا یہ اعلانیہ درس تھا۔اُس سے پہلے شیخ عبدالوہابؒ اورحضرت شاہ ولی اللہ ؒاور ان سے بھی پہلے حضرت امام احمد بن حنبل ؒاور کتنے ہی بزرگوں نے یہی درس دیا تھا ،اقبال ؒنے اِنہی جذبوں کی آبیاری کی تھی۔ مسلم خون میں شاہین اور غازی کے امیج گوندھے گئے ہیں اور’’شہادت ہماری آرزو ہے‘‘ایک عرصہ سے مولانا مودودی کے نوجوان مجاہدوں کا نعرہ چلا آرہا ہے۔آج جب خون میں گندھے ہوئے یہ خواب اور لبوں پر تڑپتے ہوئے یہ نعرے حقیقت کا رنگ لینے لگے ہیں تو اس پر ہماری حیرت حیران کن ہے۔اور شایدایک گونہ ریاکارانہ بھی۔ریاکارانہ اس لیے کہ اگر ہمیں ان عقائد سے اختلاف ہے تو ہم نے کبھی کہا کیوں نہیں اوراگر ان عقائد کی کوئی دوسری تشریح ہمارے ہاں موجود ہے تو اسے پیش کرنے میں رکاوٹ کیا ہے؟کیا محض عافیت کوشی ؟کیا نظریاتی معاملات میں اور قوموں کی فکری تعمیر میں عافیت کوشی قابل برداشت ہے؟۔۔اگر علمائے دین کا کوئی گروہ سیاسی ہشیاری کے تقاضوں سے مجبور ہوکر خود کش حملوں کی مذمت کرتا ہے تو افسوس ہوتا ہے کیونکہ دوسری ہی سانس میں یہ لوگ پھر انہیں عقائد کی تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں جن کا براہ راست نتیجہ یہ اقدامات ہیں۔
غلبۂ اسلام کی تحریک سے جو اذیت عام لوگوں کو پہنچ رہی ہے یعنی بے گناہ لوگوں کی اموات، بے یقینی و بدامنی کی فضا سے آمرانہ رجحانات کی تقویت ،عوام کے مسائل سے حکومت کی بڑھتی ہوئی بے اعتنائی اور نتیجتاً عوام کی مکمل بے بسی، یقینا المناک ہے۔ لیکن اس سے کہیں بڑھ کرالمناک اور بھیانک مستقبل کا وہ نقشہ ہے جو اس تحریک کے بھولے بھالے پروانے اپنے لہو سے اور اپنے عوام کے لہو سے کھینچ رہے ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ تحریک مرحلہ وار طور پر دنیا بھر میں اسلام کے نفاذ کی طرف جارہی ہے جیسا کہ ان کے اساتذہ انہیں بتاتے ہیں۔ یہ لاکھوں دیوانے اور کروڑوں مسلم عوام اس ایمان سے سرشار ہوکر آگے بڑھ رہے ہیں کہ اسلامی ریاست کا یہ خواب پورا ہونے والا ہے۔ وہ اپنے اساتذہ کی بشارتوں کو ایمان کا درجہ دے کر یہ یقین کر چکے ہیں کہ جب ان کے لشکر بھارت اور چین جیسی مملکتوںکے خلاف نکلیں گے تو فتح ان کے قدم ایسے ہی چومے گی جیسے محمد بن قاسم کے ، محمود غزنوی کے اور قتیبہ بن مسلم باہلی کے قدم چومے تھے۔
کاش آج کی دنیا آج سے 13سو سال یا ہزار سال پہلے کی دنیاہوتی جہاں عربوں نے اور کئی دوسرے مسلم حملہ آوروں نے فتح پائی۔ اگر مسلم امہ کی فکری حالت نہیں بدلی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا بھی نہیں بدلی۔ صدیوں سے خود پسندی اور ملی فخر کے جس غار میں ہمیں سلایا گیا ہے وہ اس وقت ایک سفاری پارک میں بدل چکا ہے جس کے گرد ایک مضبوط باڑ ہے اور غالباً لوہے کی اس باڑ میں ہائی وولٹیج کرنٹ چھوڑا گیا ہے جس کا کنٹر ول روم ہمیں معلوم نہیں۔ ہم شیر ہیں، ہم شاہین ہیں، ہم غازی ہیں اور شہادت ہماری آرزو ہے، لیکن اس دنیا کی اقوام اس جنگل سے نکل آئی ہیں جہاں ہم بادشاہ تھے۔اب یہ ایک اور طرح کا جنگل ہے جہاں ہم سے بھی بڑی بلائوں کی حکومت ہے ہم ان بلائوں کی تفریح گاہ میں رہتے ہیں اور یہ بلائیں اپنے تفنن طبع کے لئے اس سفاری پارک میں کبھی چنے پھینکتی ہیں اور کبھی کنکر، کیونکہ ان کے حساب سے تو شایدہم شیر بھی نہیں،بلکہ محض چنے چبانے والی کوئی مخلوق ہیں، جن سے وہ کبھی کبھی اپنے عوام کوڈرانے کا کام لیتی ہیں۔
تحریک غلبہ اسلام کے جن مرحلوں کا نقشہ ہمارے علماء نے تحریک کے کارکنوں کے سامنے کھینچ رکھا ہے، کس حد تک مکمل ہوں گے، واضح طور پر کہا نہیں جاسکتا۔ممکن ہے کہ مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کو بے وقار کرنے اورحکومتی نظام کو تہہ و بالا کرنے تک کا مرحلہ کامیابی سے طے ہوجائے۔ اس لیے کہ یہ ان قوتوں کو زیادہ پریشان نہیں کرتا جن کے خلاف ہم شہادت کے نشے میں چور رہتے ہیں۔ ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کا سامان تجارت مسلسل بکتا ہے :کراچی میں ایک سو چالیس لاشوں اور پانچ سو زخمیوں کے بکھرے ہوئے اعضا کی خبریں روک کر ایک چھوٹے سے کمرشل بریک میں ناچتے گاتے لڑکے لڑکیاں موبائل فون سے کھیلتے اور پیپسی بوتل کو سروں کے گرد گھماتے نظر آتے ہیں، اورکچھ خوبصورت کاریں شو روم میں ایک دوسرے سے بڑھتی دکھائی دیتی ہیں ۔ ممکن ہے مسلم ممالک کی ہر حکومت اور ہر سیاستدان کو ذلت اور بدنامی میں ڈالنا ملٹی نیشنل مفادات کوبراہِ راست مفید ہو۔ قوم پرستی، حب الوطنی اور نیشن سٹیٹ کے وہ نظریات جن کی قوت سے قومیں نو آبادیاتی چنگل سے نکلی ہیں، ایک منظم انداز کے ساتھ ختم کئے جا رہے ہیں۔ پسماندہ اور نو آزاد قوموں کی منڈیوں تک کھلی رسائی کے لئے ان قوموں کی مرکزی قومی مقتدرہ کو انتشار میں ڈالنا ایک عام فہم سی تجویز ہے جس پر کافی برسوں سے عمل ہورہا ہے، آئی ٹی اوکے ماتحت ہونے والے بین الاقوامی معاہدے اس کی عملی شکل ہیں۔ اور تحریک احیائے اسلام جب تک مسلم ممالک کی سرحدوں اور حکومتوں کو تہہ و بالا کرتی ہے، تب تک ملٹی نیشنل سسٹم کو کوئی اذیت نہیںکیونکہ یہ ایسے ہی ہے جیسے سفاری پارک میں شیروں ، لگڑ بگوں یا چیتوں کو ہرن کے شکار یا ہاتھیوں کے غول کو ستانے کی اجازت دی گئی ہو۔
مستقبل کا عظیم المیہ صرف اس میں نہیں ہوگا کہ ہم ان مرحلوں کے دوران اپنی قومی سرحدوں اور اقتدار اعلیٰ کے موثر اداروں سے محروم ہوجائیں گے، عظیم المیہ صر ف اس میں بھی نہیںکہ ہماری کئی نسلیں اپنی صلاحیتیں اور وسائل اپنی ہی انتڑیاں ادھیڑنے میں صرف کرچکی ہوں گی۔عظیم المیہ اس میں ہے کہ اگر ہم ان مراحل سے گزر کر طالبان کی پین اسلامک سلطنت قائم کربھی لیںیعنی عالمی کارپوریٹ مافیا کے لئے جو مفید ہے وہ خلافت طالبان دن بدن طاقتور اورموثر ہوتی چلی جائے اور یہ سب دیکھتے ہوئے بھی پڑوس میں چین اوربھارت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں، اور یوں یہ معجزہ مکمل ہوجائے تو اس وقت غلبۂ اسلام سے سرشار اسلامی لشکر کو بھارت اور چین پر چڑھ دوڑنے سے روکناممکن نہیں ہوگا۔عظیم المیہ در اصل اس وقت شروع ہوگا۔یہ انتہائی امکانات ہم اس لیے فرض کررہے ہیں کہ یہ اس تحریک کا منطقی اختتامیہ ہے ۔عظیم المیہ اس لیے پیش آئے گاکیونکہ:
یہ قرین قیاس نہیں کہ لڑتے بھڑتے ، مرتے مارتے، یہ مسلم ہجوم خلافت اسلامیہ کا مرکز قائم کرنے کے دوران اتنے ترقی یافتہ بھی ہوجائیں گے کہ جدید علم و ہنر (سائنس اور ٹیکنالوجی) بھی ان کے قدموں میں پڑی ہو۔ یعنی جدید ترین دفاعی نظام قائم ہوچکے ہوں، انہوں نے کیمیکل اور نیو کلیئر ہتھیاروں کے خلاف دفاعی ڈھال بھی ایجاد کرلی ہو،جو کہ ترقی یافتہ قوموں کے پاس موجود ہیں، خلائی ٹیکنالوجی بھی امیر المومنین کے بریف کیس میں موجود ہو، بین الاقوامی معیار سے بھی آگے کی جارحانہ حکمت عملی ہمارے علم میں ہو اوراقوام عالم کی تباہ کن عسکری صلاحیتوں کا ہر توڑ ہم نے ایجاد کرلیا ہو۔
یہ سب ممکن نہیںکیونکہ جس انداز سے اسلامی تحریکوں کو جدید علوم سے متنفرکیا گیا ہے اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ ہم غالباً روایتی ہتھیاروں کی تیاری کے بھی اہل نہیں رہیں گے۔ جذبۂ شہادت یقینا کفار کے پاس ہمارا عشر عشیر بھی نہیں لیکن اپنے محفوظ ٹھکانوں سے وسیع تباہی کے ہتھیارچلانا توکسی جذبہ شہادت کے بغیر بھی ممکن ہے۔ دنیا کی جدید علمی اورصنعتی مملکتیں تاریخ اور تجربہ سے غفلت کو گناہ کبیرہ سمجھتی ہیں۔ سب کو علم ہے کہ کچھ قوموں کو عربوں نے شکست دی تھی،بغداد کوتاتاریوں نے تاراج کرکے اسلامی تہذیب کا سنہری دور ختم کردیا تھا۔ سب کو پتا ہے کہ ان دونوں صورتوں میں د و بڑی وجوہات تھیں۔
1 ۔ حملہ آوروں کی کرخت سادگی اورفتح کرنے کا شدید جذبہ، چاہے یہ جذبہ ایمانی ہو یا تاتاریوں کی ہوسِ زر۔
2 ۔ حملہ کا سامنا کرنے والوں کی خوشحالی سے پیدا ہونے والی تن آسانی اور جنگ سے بیزاری۔
لیکن پچھلے زمانوں میں دونوں قوتوں کے درمیان کم کم فرق ہوتا تھا۔یعنی حملہ آور اور مدافعت کرنے والے فریقوں کے پاس ہتھیاروں کے اعتبار سے کوئی بہت بڑا فرق موجود نہ تھا۔ان عوامل سے جدید قومیں غافل نہیں۔جس جذبہ جہاد سے مسلمان جیتے ، جس جذبہ تسخیر سے تاتاری جیتے،وہ سب شاید موثر نہ رہتے اگر مدافعت کرنے والوں کے پاس زہر بھری ہوائیں یا وسیع تباہی کے ہتھیار موجودہوتے۔آج کی ان ترقی یافتہ قوموں کے پاس یہ ہتھیار موجود ہیں حتیٰ کہ آخری خبریں آنے تک روس ایسے جوہری ہتھیار بنانے میں کامیاب ہوگیا ہے جس کی تباہی کے اثرات متعلقہ علاقے سے باہر نہیں پھیلتے اور یہ بات قرین قیاس نہیں کہ یہ اقوام حملہ آوروں کے خلاف اپنے ہتھیار استعمال نہیں کریں گی۔یہی وہ بھیانک المیہ ہوگا جس سے ہمارے دینی رہنما غافل نظر آتے ہیں۔
ایک رویہ یہ ہے کہ اس طرح کے خدشات کا اظہار کرنے والوں کو فوری طورپر بزدلی کا خطاب دے کر اپنی صفوں کا اعتماد بحال رکھا جائے لیکن یہ رویہ اس لیے مہلک اور ناقص ہے کہ اتنی واضح تباہی کو نہ دیکھنا یا اپنے بھولے بھالے پیروکاروں کو بہادری کے نام پر اُکساتے رہنا کسی دینی یا اخلاقی اصول سے درست نہیں۔
مانا کہ روس ، چین،بھارت اورمغربی استعمار کو مٹانا برحق،پاک افغان مدرسوں سے ایمان کی روشنی پاکر نکلنے والی اسلامی قیادت کو دنیا کی حکمرانی پر بٹھانابھی برحق،حرمین شریفین کے محافظوں کو ساری دنیا کا محافظ بنانا بھی برحق،(یہ مفروضے اگر مان بھی لیے جائیں)لیکن کیا یہ مقاصد اتنے برحق ہیں کہ ان کے لئے کروڑوں مسلم مجاہدین کی اجتماعی شہادت بھی جائز ہے؟اس سوال کا جواب اس وقت تک فیصلہ کن نہیں جب تک یہ طے نہ ہوجائے کہ ان عقائد کی صحت کیا ہے جن کی بنا پر ان مقاصد کو برحق قرار دیا جارہا ہے۔اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ان اجتماعی قربانیوں کے بعد جس فتح کی بشارت دی جارہی ہے وہ پوری ہوگی یا نہیں ؟
یہ عجیب ہے کہ جب ہم موجودہ تحریکی نظریات کو اس انداز سے بیان کرتے ہیں تو عام قاری اسے طنز اورمزاح خیال کرتا ہے۔ ممکن ہے کچھ لوگ برہم بھی ہوں کہ اسلامی تحریکوں کو طنز کا نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن یہ ایک سوئے اتفاق ہے جبکہ درحقیقت یہ نقشہ طنز یہ نہیں بلکہ یہ نظریاتی خاکہ اورتحریک کے مستقبل کا یہ پلان ایک ریسرچ پر مبنی ہے جو مختلف دینی طلباء اوراساتذہ سے رجوع کرنے کے بعد تیار کیا گیا ہے، جماعت اسلامی کے لٹریچر کے علاوہ اخوان المسلمون کے قائد سید قطب کی تحریروں کا مطالعہ کیا گیا ہے ، بھارت ، برطانیہ، سپین اور دیگر ممالک کی مسلم تنظیموں کے نعروں اور منشوروں کو دیکھا گیا ہے ۔یہ نظریاتی خاکہ حتی المقدور مبالغہ سے پرہیز کرتے ہوئے بیان کیا گیا ہے لیکن اس کے مبالغہ آمیز دکھائی دینے کی وجہ یہ ہے کہ آج کا عام پڑھا لکھا مسلمان جدید دور کی فکری تحریکوں سے متاثر ہوا ہے، جن میں انسانی حقوق ، آزادی رائے اور جمہوریت کے تصورات ایسے تصورات ہیں جن کے سامنے اسلام کے وہ تصورات ایک خاص انداز سے پسماندہ دکھائی دیتے ہیں جو مدرسوں میں یا غلبۂ اسلام کی تحریکوں میں پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا جب ان کا بیان ان کے اصل اور بے تکلف انداز سے کیا جاتا ہے تو شاید مزاحیہ ، غیر سنجیدہ یا مبالغہ آمیز دکھائی دیتا ہے اور یہ امر اپنی جگہ ایک الگ المیہ ہے۔

عقائد کا انتشار

عقائد کی وہ شکلیں جو آج کے دور کی فکری تحریکوں سے اتنی مختلف ہیں مسلم اقوام کی نفسیات میں انتشار کا باعث بنی ہیں، کیونکہ وہ لوگ جنھیں مدرسوں یا علماء تک رسائی مل گئی ہے وہ تو ان عقائد کو قبول کرکے یقین کی سطح پر آگئے ہیں اور اب انہیں کسی تذبذب یا معذرت کی ضرورت پیش نہیں آتی۔لیکن ان کے جراتمندانہ جذبوں سے پیدا ہونے والا عمل ان لاتعداد مسلمانوں کو تذبذب اور افسردگی میں ڈال رہا ہے جو ان عقائد کو سرسری انداز سے سنتے اورمانتے ہیں لیکن عملی زندگی میں جدید فکری تحریکوں کے تابع رہتے ہیں۔یہ صورتحال اس وقت تک قومی اور ملی زندگی کو مضمحل اور منتشر کرتی رہے گی۔جب تک دونوں طرح کے فکری رویوں میں ایک پسپا نہ ہوجائے۔فکری اور نظریاتی معاملات میں مصلحت کا مقام خارجی کاہے۔جبکہ ایمان اورعقیدہ کی دنیا میں تو مصلحت ایک زہرقاتل ہے۔یہ معاملات ایمان اورعقیدے کے ہیں جن میں اعتدال پسندی اورروشن خیالی جیسی اصلاحات مہمل ہیں جب تک فکری اورعلمی سطح پر عقائد کی اصلاح نہ کی جائے گی،موجودہ انتشار مسلم امہ اور اس خطے کا مقدر رہے گا۔ کوئی جمہوری عوامی تحریک، کوئی آمریت،کوئی خوشحالی،فاٹا پر ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری،کچھ بھی اس انتشار کو روک نہیں سکتا۔اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ کارپوریٹ امریکہ اور برطانیہ خود مذاہب کے تصادم کی موجودہ عالمی تحریک کے خالق نہیں بلکہ یہ آسمان سے اترا ہوا مقدر ہے ،اور یہ بھی مان لیا جائے کہ امریکی ادارے خلوص نیت سے پاک افغان انتشار کو ختم کرنا چاہتے ہیں، تب بھی یہ اٹل حقیقت ہے کہ یہ انتشار اس وقت تک حل کی طرف نہیں جاسکتا جب تک عقائد کی موجود شکل پر فیصلہ کن بحث شروع کرکے نتیجہ تک نہ پہنچا دی جائے ۔
تحریک احیائے اسلام کے نمائندہ عناصر سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کی تکالیف کا حل اسلام کوزندہ کرنے میں ہے حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ اسلام تو زندہ موجود ہے۔مولانا مودودی اور سید قطب نے صدیوں سے بڑھتے ہوئے مسائل کا سبب یہ بیان کیا کہ مسلمان دین کی اصل روح سے غافل ہوگئے ہیں۔ نجانے کیوں ان دونوں مفکروں نے اس اہم سوال پر غور نہیں کیا کہ پہلی نسل کے مسلمان یعنی رسول اللہ سے تربیت پانے والے صحابہ اورآپ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے آپﷺ کی رحلت کے چند روز بعد بغاوت ، فتنہ ارتداد اور خانہ جنگی کی حالت میں کیوں مبتلا ہوئے جبکہ ان کے دینی درجات پر شک نہیں کیا جاسکتا پھر چند برس اور گزرنے کے بعد شہادت عثمان ؓ اور مسلمانوں کی مستقل تقسیم کے المیے پیدا ہوئے،دو اسلامی مراکز قائم ہوئے وراثتی بادشاہت آئی اور خاندان رسولﷺ کا قتلِ عام ہوا۔ یہ سب واقعات اسلام سے ناواقفیت کی بنا پر نہیں ہوئے۔ اگر یہ عظیم مفکر تحقیق کا مسلمہ طریقہ اختیار کرتے یعنی حقائق کو حقائق کی طرح دیکھنا اوران پر اپنے مقاصد سے بالا تر ہوکر فیصلہ دینا تو شاید وہ تسلیم کرتے کہ ان المناک واقعات کی وجہ غالباً یہ تھی کہ نئے معاشرے کی سیاسی تنظیم اورمملکت کو چلانے کے لئے ضابطے اور قوانین موجودنہ تھے۔آج ان کے پیروکار جن سیاسی اداروں کو نیست نابود کرنے کے لئے تحریک چلارہے ہیںیہی وہ سیاسی ادارے اور قوانین ہیں جو کسی معاشرہ کو طوائف الملوکی سے بچاتے ہیں۔مثلاً چنائو کے ذریعے قائم ہونے والے قانون ساز ادارے جنھیں سید قطب بد ترین جاہلیت ، اللہ کی حاکمیت سے بغاوت،اور اللہ کے قانون پر انسانی قوانین کو ترجیح دینا کہتے ہیں،جبکہ نہ مولانا مودودی ،نہ سید قطب، نہ موجودہ تحریک غلبہ کے رہنما یہ واضح کرتے ہیں کہ مملکت کے نظام کو چلانے کے لئے یا حکومت کے تقرر کے لئے کونسا قاعدہ ان کی نگاہ میں درست ہے۔ اگر چھوٹا منہ بڑی بات نہ ہو تو ایسا لگتا ہے کہ اگر آپﷺ کے وصال کے وقت آپ ﷺ کی نیابت اور مملکت کی سربراہی کا کوئی متفقہ ضابطہ مسلمانوں کے پاس موجود ہوتا تو شاید وہ الجھنیں اور وہ تقسیم اسلام کی صفوں میں پیدا نہ ہوتیںجو آج تک مسلمانوں کے سیاسی معاملات کو الجھاتے چلے آرہے ہیں۔ضرورت تب بھی علم کو عام کرنے اوراداروں کو قائم کرنے کی تھی اور ضرورت آج بھی یہی ہے۔اسلام نہ تب لاغر تھا نہ اب لاغر ہے۔نظام سیاست تب بھی واضح نہ تھا اور اب بھی واضح نہیں،مسلمانوں میں علم تب بھی لاغر تھا اور اب بھی لاغر ہے۔
یہ اوردوسرے بیسیوں معاملات جو آج بھی مسلم معاشروں کو انتشار اور کمزوری کی طرف لے جارہے ہیں تقاضا کرتے ہیں کہ حکومت اوراپوزیشن کے ذمہ دار رہنما اور اہل فکر وسیع ترین پیمانے پر مذہبی رہنمائوں ، مدارس کے قائدین اورشمالی علاقوں میں طالبان کے نمائندوں کو ایک جگہ اکٹھا کریں اور ان بنیادی سوالات پر تفصیلی مذاکرات کریں کہ کیا مسلم معاشروں کی آزادی اور سربلندی کے لئے موجودہ راستہ قابل عمل ہے؟اور ان عقائد کی حقیقت کیا ہے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، جن کے باعث معصوم اورمخلص مسلمان ساری دنیا کواپنا دشمن سمجھتے ہیں حتیٰ کہ مسلم امہ کے اندر ان لوگوں کو بھی واجب القتل سمجھتے ہیں جو ان کے مسلک یا پروگرام سے اختلاف رکھتے ہیں۔
موجودہ وقت احیائے علوم کی تحریک شروع کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ایک ایسی تحریک جو مسجد اورمدرسہ سے وابستہ حضرات کو بد اعتمادی اور نفرت کے اُس رویہ سے آزادکراسکے جو انہیں جدید علوم و فنون اور صنعتی دور کی تہذیب سے ہے اور یہ ممکن نہیں جب تک جدید طرز فکر سے وابستہ مسلم دانشور دینی مسائل پر اعلیٰ درجے کاعلم حاصل نہ کرلیں۔اکثر دانشور وں کا رویہ غالباً بیزاری اور لاتعلقی کا ہے۔ لیکن سوال اس معاشرے کی بقا اور سلامتی کا ہے: پرائے میدان Hostile pitch پر کھیلنے یا نہ کھیلنے کا چنائو اب ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ ساٹھ برس کے دوران اپنے میدان میں کھیلنے کی ضدمیں ہم نے ہر میدان گنوا دیا ہے ۔کچھ لوگوں نے قائد اعظم کے پاکستان میں آکر جہالت کا کھیل شروع کیا تو ہم نے ان کی جہالت اور جارحیت کو بے نقاب کرنے کی بجائے اپنے لیے یہ خوش فہمی چن لی کہ وقت اور بدلتی دنیا خود ہی لوگوں کو ان کی جہالت سے بیزار کردے گی۔ایسا نہیں ہوا اورآج نتائج سامنے ہیں۔ اگر کوئی معجزہ رونما ہوکر ہمیں مہیب المیوں سے بچالے تو یہ اللہ کا خاص کرم ہوگا،ورنہ اس خطۂ ارض پر آنے والی تباہی علمائے دین اوردانشوروں کی اولادوں میں امتیاز نہ کرسکے گی۔ایک راستہ تو وہ ہے جو مولانا مودودی مرحوم نے اختلاف کرنے والوں کے لئے تجویز کیا تھا۔ انہوں نے ارتداد پر اپنے مشہور رسالہ میں لکھا تھا کہ اسلامی انقلاب کے بعد :
’’مسلمان آبادی کو نوٹس دے دیا جائے کہ جو لوگ اسلام سے اعتقاداً و عملاً منحرف ہوچکے ہیں ، وہ ایک سال کے اندر اندر اپنے غیر مسلم ہونے کا باقاعدہ اظہار کرکے ہمارے نظام اجتماعی سے باہر نکل جائیں۔اس مدت کے بعد (یعنی اگر وہ کہیں نہ جائیں )تمام قوانینِ اسلامی ان پر نافذ کیے جائیں گے، دینی فرائض و واجبات کے التزام پر انہیں مجبورکیا جائے گا اور پھر جو کوئی دائرہ اسلام سے باہرقدم رکھے گا اسے قتل کردیا جائے گا‘‘ (اسلامی قانون میں مرتد کی سزا صفحہ80)
دوسرا واحد راستہ علم و دانش ، انسان دوستی او ر محبت کا ہے جس کا ہماری دانست میں اسلام سے کوئی ٹکرائو بھی نہیں۔لیکن یہ راستہ اصولوں کی وضاحت اور غلط نظریات کی اصلاح کے بغیر بے معنی ہے اور غیر موثر ہے ۔یہ راستہ سلامتی اور آزادی دونوں کی ضمانت دیتا ہے ۔یہ قوم پرستی اور حب الوطنی کا راستہ ہوتے ہوئے بھی بے جا تصادم اور ناقابل عمل مہم جوئی کورد کرتا ہے ۔ یہ جاپان جرمنی اور متحدہ امارات کا راستہ ہے اور ایک حد تک خود سعودی عرب کا بھی ، جہاں آزادی کی ضمانت جنگ اور تصادم سے نہیں آئی۔نہ ہی مذہبی علماء کی بالادستی نے ان ممالک کو عزت و آبرو کی ضمانت دی ہے ۔ اس راستہ کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اپنی تعمیر و ترقی کے لئے انکسار اور صلح کا رویہ اپنایا جائے۔
نو آبادیاتی نظام سے آزادی کے لئے برصغیر کے مسلم عوام نے کئی بار مذہبی تحریکوں کا سہارا لیا،1857ء کی جنگ آزادی ، تحریک خلافت اور تحریک ترک موالات اس کی مثالیں ہیں۔لیکن کامیابی صرف اس وقت نصیب ہوئی جب مسلم قوم کے جدید ذہنوں نے دور جدید کی سیاسی اور فکری تحریکوں کو تسلیم کیا ۔آج بھی جدید ترین علم و فکر ہی استعمار کا مقابلہ کرسکتا ہے۔
لیکن قوم کا ایک بہت بڑا حصہ عقائد اور حقائق کے تضاد میں بٹ گیا ہے ، جنھیں اس تضاد سے نکالنا منتخب حکومتوں اور دانشوروں کی ذمہ داری ہے۔جبکہ دینی قیادت کا ایک بہت بڑا حصہ جودین سے والہانہ عقیدت کے باعث غلبہ اسلام کی موجودہ تحریک سے وابستہ ہوا ہے،علم و ہنر سے نفرت نہیںرکھتا اور قوی امید ہے کہ اگر ابلاغ کی موجودہ ضرورتوں کو تسلیم کیا جائے اور ’’پرائے میدان‘‘کا نظریہ ترک کرکے کھیل کے ارضی حقائق کو تسلیم کیا جائے تو شاید ہم اور ہماری نسلیں قتل و غارت گری کے مہیب المیہ سے بچ جائیں ۔

پاکستان کی افغان پالیسی

پاکستان کے بااثر یا بااقتدار طبقوں میں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کے سلسلے میں تذبذب اور نیم دلی کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اِن کے خیال میں افغان حکومت کے موجودہ نیٹو سیٹ اَپ میں بھارت کی طرف دوستانہ رُجحانات رکھنے والے عناصر غالب ہیں۔ چنانچہ اگر موجودہ سیٹ اَپ کو طالبان پر فتح حاصل ہوتی ہے تو اس کا فائدہ بھارت کو ہو گا۔ جبکہ طالبان پاکستان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ اگر انہیں ترقی و طاقت ملے تو یہ پاکستان کے حق میں بہتر ہو گا۔ اس طرزِ فکر کے تین بنیادی مفروضے ہیں۔
1۔ افغان حکمرانوں کے موجودہ سیٹ اَپ میں بھارت کی حمایت کے رجحانات موجود ہیں لہٰذا یہ پاکستان کا مخالف ہے۔
2۔ طالبان پاکستان کے لئے ہمدردی رکھتے ہیں یا پاکستان کے حامی ہیں، لہٰذا ان کا افغانستان میں طاقتور ہونا پاکستان کے لئے تقویت کا باعث ہو گا۔
3۔ ہماری حکمت عملی میں بھارت کے ساتھ کشیدگی اور مسابقت کو ہمیشہ فیصلہ کن اہمیت حاصل رہنی چاہیے، یعنی بھارت کا دوست پاکستان کا مخالف ، بھارت کا مخالف پاکستان کا دوست، یہ قانون ہے اور اس قانون پر کوئی اختلاف ممکن نہیں۔
لیکن کیا یقینی طور پر یہ مفروضے صحیح ہیں؟ کیا پچھلے اکسٹھ برس کی تاریخ نے ہمارے خیالات کی صداقت یا قوت کو ثابت کیا؟ کیا اِن مفروضوں کے تنقیدی جائزہ کی کوئی ضرورت ہے، یا انہیں قانونِ فطرت کی طرح اٹل ماننا ضروری ہے؟ کیا اِس نقطۂ نظر کے خالق پاکستانی عوام یا اُن کے نمائندے ہیں جنہوں نے نسل در نسل اِن موضوعات پر تبادلہ خیال کیا ہے یا یہ کسی گروہ یا طاقتور طبقہ نے خاموشی سے نافذ کر دئیے ہیں؟
ضیاء الحق کی کمان میں دنیا بھر کے جہادی عناصر نے پاکستان کی سرزمین کو تاراج کر کے افغانستان میں جو جنگ لڑی کیا وہ بالآخر پاکستان کی طاقت بنی یا تباہی؟ اتنی قربانیاں دینے کے بعد پاکستان کو افغان مجاہدین کے بارے میں یہ انکشاف ہوا کہ وہ تو بھارت کے حامی نکلے۔ حالانکہ بھارت نے تو اِس جنگ میں افغانوں کی کوئی خدمت نہ کی۔ بھارت تو اسے امریکہ کی جنگ سمجھتا تھا جس میں روس کو شکست دینا مقصود تھا اور بھارت کو روس سے نفرت تھی نہ امریکہ سے محبت۔ یہ دونوں تو ہمارے تشخص کی علامتیں ہیں۔ تب بھی پاکستان کے مقتدر حلقوں نے اپنی افغان پالیسی کی شکست کی وجوہات پر کوئی خود تنقیدی جائزہ پیش نہیں کیا نہ آج تک کسی اسمبلی میں اس پر بحث کی گئی۔ پھر ہمارے مردانِ باکمال (Men at their best) نے مسئلے کا حل یہ پیش کیا کہ مدرسوں سے طالبان نکالے اور انہیں افغان حکومت بنا دیا۔ اِس فیصلے سے افغان عوام کے لئے، پاکستان کے لئے اور دنیا بھر کے انسانوں کے لئے کیا نتائج برآمد ہوئے ہیں، آہستہ آہستہ سب پر کھل رہے ہیں اور آئندہ وقتوں میں مزید کھلتے جائیں گے۔ لیکن کیا ہماری قیادت کو اپنے اس فیصلے کی اچھائی برائی کا کوئی اندازہ تھا، اس کا حساب اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف چند برس بعد اسی اسٹیبلشمنٹ نے اپنی ہی تربیت یافتہ طالبان حکومت کے خلاف فوج کشی کی اور امریکہ کی قیادت میں ہونے والی اس فوج کشی کو پاکستان کی حفاظت قرار دیا گیا۔ اب چند سال گزرنے کے بعد اسی باکمال قیادت کے پروردہ عناصر کہہ رہے ہیں کہ طالبان کو ہی افغان قوم کے مستقبل کا مالک بنایا جائے اور پھر وہی جواز دیا جا رہا ہے کہ ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ بھارت کے حامی عناصر کا افغانستان میں برسراقتدار ہونا ہمیں قبول نہیں۔
یہ مفروضہ کہ افغان قیادت میں بھارت کے حامی عناصر کا غلبہ ہے، اگر مان بھی لیا جائے، تب بھی یہ سوال قائم رہتا ہے کہ آخر اس میں بذاتِ خود کیا قباحت ہے کہ کسی پڑوسی ملک کی حکومت بھارت سے دوستانہ تعلقات استوار کرے۔ ایران اور بھارت کے درمیان دوستانہ تعلقات موجود ہیں، عرب ملکوں کے حتیٰ کہ ہمارے قبلہ و کعبہ سعودی عرب کے مراسم بھارت سے مکمل خیرسگالی کے ہیں، دوطرفہ تعلقات کی اس دنیا میں ہم عوامی جمہوریہ چین سے بھی ایسی کوئی توقع نہیں رکھتے کہ وہ ہماری خاطر بھارت سے تعلقات کشیدہ کر لے۔ ہمارے اپنے حلیف امریکہ نے بھارت سے کیسی کیسی محبتیں استوار کی ہیں۔ لیکن ہم نے امریکی حکومت یا ایران، عرب اور چین کی حکومتیں گرانے یا بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ تو اگر ہم افغان حکومت کو بھی بھارت سے دوستی کرنے کی اجازت دے دیں اور طالبان کے ذریعے افغان حکومت گرانے کا ارادہ ترک کر دیں تو کیا یہ خیرسگالی ہمارے لئے مفید ہو گی یا مُضر؟ پاکستان کے وہ علاقے جو افغان حلقۂ اثر کے ممکنہ علاقے ہیں یعنی قبائلی علاقہ جات، یہ صدیوں سے جدید تہذیب کے مقابلہ میں قبائلی روایات اور کرخت رویوں کے حامی رہے ہیں۔ افغانستان میں طالبان طرزِ حکومت کے اثرات ان علاقوں پر مزید بنیاد پرستی اور تشدد کی صورت میں نکلے ہیں اور نکلیں گے۔ جبکہ ایک جدید افغان حکومت اول تو ان قبائلی علاقوں پر اثرانداز ہی نہیں ہو پاتی کیونکہ ان علاقوں کا معاشی انحصار پاکستان پر ہے، اور اگر ایسا ہو بھی جائے تو 1990ء کے بعد ہمیں شمال کی طرف سے کسی سرخ آندھی کا خطرہ نہیں۔
دوسرا مفروضہ کہ طالبان پاکستان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں، پہلے مفروضے سے بھی زیادہ ناقص نظر آتا ہے۔ طالبان کے افکار کی بنیاد جس نظریہ پر ہے، اس کا سرچشمہ دیوبند سے ہوتا ہوا سید قطب اور سید وہاب سے جا ملتا ہے۔ اس طرزِ فکر کے مطابق ہر وہ معاشرہ جو ابتدائی اسلامی معاشرہ سے مختلف ہے، جاہلیت کا معاشرہ ہے جسے تباہ کرنا ہر سچے مسلمان کا فرض ہے۔ یعنی وہ معاشرت جسے طالبان نے 1995ء میں افغانستان میں رائج کیا وہ جبراً ساری دنیا میں رائج کی جائے گی۔ یعنی مسجدوں میں حاضری لگے گی، عورتوں کو گھروں تک محدود کیا جائے گا، لڑکیوں کے سکول بند کیے جائیں گے، تمام تفریحات و فنون لطیفہ کی جبری بندش ہو گی، مقررہ لباس اور مقررہ حُلیہ لازمی ہو گا، انسانی حقوق (بالغ رائے دہی کاحق، اظہار رائے کا حق، اختلاف کا حق، انفرادیت کا حق، جاننے اور سوچننے کا حق) ختم کیے جائیں گے، تمام غیر مسلموں کو ذمی کی حیثیت دی جائے گی اور لونڈیوں، غلاموں کی قانوناً اجازت ہو گی، تعلیم کو حتیٰ المقدور محدود کیا جائے گا، اس انداز سے کہ لوگ قرآن اور سنت کی تعلیم کے علاوہ کوئی علم حاصل نہ کریں۔ (دیکھئے سید قطب کی کتاب معالم فی الطریق۔ باب ’’پہلی قرآنی نسل‘‘ اور ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘)
اس نقطۂ نظر کے عظیم مفکر سید قطب سے پہلے پاکستان کے مولانا مودودی تھے ، جنہوں نے اسلام کو کرخت چہرے کے ساتھ پیش کیا۔
مندرجہ ذیل اقتباسات اس نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہیں
’’ جن لوگوں نے موجودہ زمانے کی روشن خیالی سے متاثر ہو کر اختلافی بحث کا دروازہ کھولا، اُن کی جسارت فی الواقع سخت حیرت انگیز ہے۔ شکوک پیدا کرنے کی بجائے درحقیقت اِن لوگوں کے لئے زیادہ معقول طریقہ یہ تھا…کہ غور اِس امر پر کرتے کہ ہم اِس دین کا اِتباع کریں یا نہ کریں جو مُرتد کو موت کی سزا دیتا ہے۔
’’اپنے مذہب کی کسی ثابت و مسلّم چیز کو اپنے عقلی معیاروں کے خلاف پا کر جو شخص یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ چیز سرے سے مذہب میں ہے ہی نہیں وہ دراصل یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ کافر نتوانی شُد، ناچار مسلمان شُد، کی حالت میں مبتلا ہے۔ یعنی اُس کا طریقہ فکر و نظر جس مذہب کے حقیقی راستے سے منحرف ہو چکا ہے اس میں رہنے پر وہ صرف اس لئے اصرار کر رہا ہے کہ مذہب اس نے باپ دادا سے پایا ہے‘‘۔
(مولانا مودودی: اسلامی قانون میں مرتد کی سزا)
جدید تہذیب میں ہوش سنبھالنے والے مسلمانوں کے بارے میں فرماتے ہیں
’’اگر ان میں سے کوئی اسلام سے پھرے گا تو وہ بھی اسی طرح قتل ہونے کا مستحق ہو گا جس طرح وہ شخص جس نے کفر سے اسلام کی طرف آ کر پھر کفر کا راستہ اختیار کیا ہو‘‘۔
اسلامی انقلاب آنے کے بعد اسلامی حکومت کی پالیسی کا یوں بیان فرماتے ہیں
’’ مسلمان آبادی کو نوٹس دے دیا جائے گا کہ جو لوگ اسلام سے اعتقاداً و عملاً منحرف ہو چکے ہیں اور منحرف ہی رہنا چاہیں، وہ ایک سال کے اندر اپنے غیر مسلم ہونے کا اعلان باقاعدہ اظہار کر کے ہمارے نظامِ اجتماعی سے باہر نکل جائیں۔ اس مدت کے بعد اِن سب لوگوں کو جو مسلمانوں کی نسل سے پیدا ہوئے ہیں، مسلمان سمجھا جائے گا، تمام قوانین اسلامی ان پر نافذ کیے جائیں گے، دینی فرائض و واجبات کے التزام پر انہیں مجبور کیا جائے گا اور پھر جو کوئی (مجبور کیے جانے کے اس عمل سے گھبرا کر یا اختلاف کرتے ہوئے) دائرہ اسلام سے باہر قدم رکھے گا، اسے قتل کر دیا جائے گا۔
جن لوگوں نے مولانا کی تحریریں پڑھی ہیں اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسی طرح کے مضبوط اور پراعتماد لہجے میں انہوں نے ان گنت دوسرے فیصلے بھی دئیے ہیں۔
جہاں تک سید قطب کا تعلق ہے وہ تو مولانا محترم سے بھی زیادہ دو ٹوک ہیں۔ اُن کی کتاب معالم فی الطریق کی ایک ایک سطر تیغِ آبدار کی طرح ہر اس چیز کو کاٹنے کا عزم کرتی ہے جو اسلام کے علاوہ اس دنیا میں کہیں بھی موجود ہے۔ یہ کتاب آج کی تحریکِ غلبۂ اسلام کے منشور کا درجہ رکھتی ہے۔ اس منشور کو سمجھنے کے لئے ساری کتاب کو پڑھنا ضروری ہے تاہم چند اقتباسات نقل کئے جاتے ہیں۔
پہلے باب میں تعارف کے طور پر لکھتے ہیں
’’ اگر اسلام نے نوعِ انسانی کی پھر سے قیادت کرنی ہے تو پھر ضروری ہے کہ مسلم معاشرہ اسلام کی اصل صورت میں بحال کیا جائے‘‘۔
’’جسے دنیائے اسلام کہا جاتا ہے، وہ یورپ کے تخلیقی حسن سے مکمل طور پر خالی ہے، اس کے باوجود اسلام کو بحال کرنا ضروری ہے‘‘۔
’’مسلم معاشرہ کے لئے نہ یہ ممکن ہے ، نہ ہی ضروری کہ وہ اپنے آگے دنیا کا سر جھکانے کے لئے اور دوبارہ دنیا پر اپنی قیادت قائم کرنے کے لئے مادی ایجادات میں اپنی عظیم صلاحیت پیش کرے۔ اس میدان میں یورپ کا تخلیقی ذہن کہیں آگے ہے اور کم از کم کئی صدیاں ہم اِن میدانوں میں یورپ کا مقابلہ کرنے اور اس پر فوقیت پانے کی توقع نہیں کرسکتے‘‘۔
’’لہٰذا ضروری ہے کہ ہمارے اندر کوئی اور صلاحیت ہو جو جدید تہذیب کے پاس نہیں‘‘۔
’’جدید دنیا کو دیکھیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ ساری دنیا جاہلیت میں غرق ہوئی پڑی ہے۔ یہ جاہلیت اس بغاوت پر مبنی ہے جو زمین پر اللہ کی حاکمیت کے خلاف کی گئی ہے۔ اصول اور قانون بنانے کا اختیار اور اپنے لئے طرزِ زندگی چننے کا اختیار انسان کو دے دیا گیا ہے، جس سے انسانوں کو انسانوں کا غلام بنا دیا گیا ہے…‘‘
’’ صرف اسلامی طرزِ زندگی ایسا ہے کہ جس میں سبھی انسان دوسروں کی غلامی سے آزاد ہو کر صرف اللہ کی عبادت میں لگ جاتے ہیں اور صرف اُس کے آگے جھکتے ہیں۔ اللہ کی حاکمیت کا یہ نیا نظام صرف ہمارے پاس ہے، جسے دنیا نہیں جانتی۔
’’ اس نئے نظام کو دنیا پر دوبارہ غالب کرنے کے لئے ضروری ہے کہ احیائے اسلام کی تحریک کسی ایک ملک میں قائم کی جائے۔ اس کے لئے لازم ہے کہ اس تحریک کا ایک ہراول دستہ ہو جو عزم کرکے جاہلیت کے اس وسیع سمندر میں اپنا رستہ بناتا جائے گا، جس نے دنیا کو گھیر رکھا ہے…تاکہ جاہلیتی نظاموں کو ختم کر کے اللہ کی حاکمیت قائم کی جائے……‘‘
’’ آج ہم بھی جاہلیت میں گھرے ہوئے ہیں، جو اسی طرح کی ہے جیسی اسلام کے پہلے دور میں تھی، بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ گہری ہے۔ ہمارا پورا ماحول ، لوگوں کے عقائد اور خیالات، عادات اور فنون، ضابطے اور قانون، سب جاہلیت ہے، اس حد تک کہ جسے ہم اسلامی ثقافت، اسلامی مآخذ، اسلامی فلسفہ اور اسلامی فکر سمجھتے ہیں، وہ بھی سب جاہلیت کے تعمیر کردہ ہیں۔
’’لہٰذا مسلمان کے موجودہ اسلام (یعنی تحریک کے بعدکا اسلام) اور اُس کی سابقہ جاہلیت(یعنی تحریک میں شامل ہونے سے پہلے کی زندگی) کے درمیان علیحدگی ہو جائے گی اور جاہلیت کے ساتھ اُس کے سب رشتے ختم ہو جائیں گے اور اسے اسلام سے مکمل طور پر جوڑ دیا جائے گا۔
’’ ہمارا اولین مقصد یہ ہے کہ ہم جان لیں کہ قرآن ہم سے کس طرح کی زندگی مانگتا ہے، اور وہ کیا قانون اور آئینی نظام ہے جو وہ ہم سے دنیا میں نافذ کروانا چاہتا ہے‘‘۔
یاد رہے کہ شیخ اُسامہ بن لادن اور شیخ ایمن الظواہری اخوان المسلمون کے سرگرم رہنما ہیں جس کی بنیاد شیخ وہاب نے سعودی عرب میں 1744ء میں رکھی تھی اور جس کے لئے سید قطب کو مصر میں جمال عبدالناصر کی حکومت نے 1966ء میں پھانسی دی۔ اس طرزِفکر کے پیروکار اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺکی زندگی میں قائم ہونے والا اسلامی معاشرہ اور آپؐ کے ہاتھ پر مسلمان ہونے والے انسان وہ مکمل مثال ہیں جس سے انحراف نہ تو رہن سہن میں کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی جسمانی حلیہ اور لباس و اطوار میں۔ قیامت تک کے لئے مسلمانوں کا حلیہ، رہن سہن اور لوازماتِ زندگی طے ہو چکے ہیں، اِس نسل کی مثال سے کہ جو نسل رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں موجود تھی۔ اور جو فیصلے آپؐ کے خلفاء نے کیے یعنی دنیا کی اقوام کو دعوتِ دین دی گئی، دوسرے متبادل کے طور پر انہیں ذمی کی حیثیت سے اسلامی حکومت کی رعایہ بن کر جینے کا حق دیا گیا اور تیسرے متبادل میں مسلمانوں کی تلواروں کا سامنا کرنے کے لئے کہا گیا، وہی فیصلے آج مسلمانوں کی حکومت کرے گی اور اقوامِ عالم کی سب جدید تہذیبوں کو ختم کیا جائے گا، دعوت سے اور پھر شمشیر سے۔
پاکستانی معاشرہ طالبان کی نظر میں جاہلیت کا معاشرہ ہے۔ ان کی نظر میں فرق صرف اتنا ہے کہ یہ معاشرہ خود کو مسلم معاشرہ سمجھتا ہے ، جس پر جاہلیت اور گمراہی کا رنگ غالب ہے اور شیطانی قوتیں قابض ہیں۔ اِن کا قبضہ طاقت کے ذریعے ختم کرنا نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے۔ صوبہ سرحد کے بعض علاقوں میں حجاموں اور ویڈیو والوں کو کاروبار بند کرنے کے احکام اور پھر اِن دکانوں کو اڑا دینے کے اقدامات اسی نقطۂ نظر کے تحت کئے گئے۔ پاکستان کے طول و عرض میں مدرسوں، مسجدوں اور تبلیغی مراکز کے ذریعے کافی بڑی تعداد میں ایسے ذہن تیار کیے جا چکے ہیں جو مکمل خلوص اور نیک نیتی سے موجودہ تہذیب و تمدن کو گمراہی مانتے ہیں اور طالبان کے اس نظریہ کے پرجوش حامی ہیں کہ پاکستان کی موجودہ ریاست کو یکسر ختم کر کے اسے ایک عالمی اسلامی مملکت کا صوبہ بنا دیا جائے۔ اس مملکت کا دارالحلافہ غالباً شمالی علاقہ جات یا آزاد قبائل میں ہو گا یا ممکن ہے افغانستان میں ہو۔ اگرچہ وہ ان نظریات کی عملی صورتوں کا غالباً پوری طرح اندازہ نہیں لگا سکتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ ایک اسلامی پاکستان کی صحیح صورت ہو گی۔
تیسرا مفروضہ کہ بھارت سے نفرت یا کشیدگی ہماری حکمت عملی کی بنیادی قوت ہے، اتنی شدت سے قائم کیا گیا ہے کہ اس کی حیثیت تقریباً نصِّ دینی جیسی مقدس بنا دی گئی ہے۔ تسلیم کہ وطن کی آزادی ، آبرو اور ترقی ایسی منزلیں ہیں جن تک پہنچنے کے لئے ہر قربانی جائز اور ضروری ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ وطنِ عزیز کو اِن منزلوں تک لے جانے کا صرف وہی راستہ درست ہو جو ہمارے عسکریت پسند رہنمائوں نے چنا اور جس پر چل کر ہم مطلوبہ منازل کی طرف جانے کی بجائے آج تک صرف بھٹک رہے ہیں۔ ہم کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانے کی بجائے آدھے پاکستان سے محروم ہوئے ہیں۔ ہم صنعتی ، زرعی اور علمی میدان میں پاکستان کے بعد آزاد ہونے والی اقوام سے بھی کہیں پیچھے ہیں جس کی مثال کوریا اور ملائیشیا ہی نہیں بلکہ خود بنگلہ دیش ہے جو ہم سے الگ ہو کر پچیس سال بعد سفر پر روانہ ہوا۔ آج دنیا کے کسی سنجیدہ فورم پر ہمارا موازنہ بھارت سے نہیں کیا جاتا، جسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہی نہیں بلکہ صفِ اوّل کی صنعتی معیشت کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو ایک عالمی معیشت اور عالمی فوجی قوت کے مرتبہ کی امیدوار ہے۔ بھارت سے موازنہ کرتے رہنا اور جوہری اسلحہ سے لے کر کرکٹ میچ تک ہر معاملہ کو بھارت کے حوالے سے طے کرنا، ایک ایسا رویہ ہے جس کی صحت و خرابی کا جائزہ کبھی لیا ہی نہیں گیا۔ جیسے یہ قومی ایمان کا کوئی حصہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ دوڑنے والے نے آگے والے کی ایڑیاں دیکھتے دیکھتے اپنا توازن ہی بگاڑ لیا ہے، جیسے ایک ہی چیز پر ٹکٹی باندھ کر دیکھتے رہنے سے سر چکرا گیا ہو اور طرح طرح کی شکلیں تصور میں ابھر کر کبھی ڈراتی اور کبھی لبھاتی ہوں جن کا اصل سے کوئی واسطہ نہیں۔ بھارت کی جارحانہ، توسیع پسندانہ اور تنگ نظر برہمنی سیاست، ہنود و یہود کی سازشیں اور اسلام دشمنی کے الزام کچھ کہے سنے بغیر تسلیم (بھلا کوئی پاکستانی کیسے جرأت کر سکتا ہے کہ ان خیالات سے اختلاف کر کے غدار اور اسلام دشمن کہلائے) لیکن یہ بات اپنی جگہ قابلِ غور ہے کہ چھ دہائیوں میں ہم اسلامی ممالک میں سے بھی کسی کو اپنا ٹھوس ہمنوا نہیں بنا سکے۔ ایک چین ہمارے نقطۂ نظر کا حامی رہا ہے جس کی متعدد وجوہات ہیں جو سبھی کی سبھی ہم سے متعلق نہیں، لیکن اس حمایت سے ہم نے کیا حاصل کیا ہے، سب کے سامنے ہے اور چین نے کیا حاصل کیا ہے یہ بھی واضح ہے۔ شاید وقت کا تقاضا یہ ہے کہ بھارت سے مسابقت اور عسکریت پسندی کی حکمت عملی پر نظرثانی کی جائے اور اپنے عوام کی ذہنی اور جسمانی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے وسائل کا رخ موڑا جائے۔

اصل مقصد کیا ہے؟

شاید یہ کہنا درست نہ ہو کہ ہمارے پالیسی ساز جو پاکستان کی داخلی اور خارجہ حکمت عملی پر اثرانداز ہوتے آئے ہیں، بھارت دشمنی کی ذہنیت اور دو قومی نظریہ کا محض بہانہ بناتے ہیں، جبکہ اِن کے پیشِ نظر مقاصد کچھ اور ہوتے ہیں۔ شاید یہ تصور کرنا بہتر ہے کہ ہمارے یہ دوست خلوصِ دل سے پاکستان اور اس خطہ کے لئے احسن خیال کرتے ہیں کہ دنیا کے اس خطہ پر وہ لوگ غالب حیثیت کے مالک ہوں جو جدید دنیا اور اس کے علوم و فنون سے نفرت کرتے ہیں یعنی ’’خالص اسلام‘‘ کے وہ علمبردار جنھیں بنیاد پرست کا نام دیا گیا ہے۔
بالکل ممکن ہے کہ افواج پاکستان اور مقتدر ایجنسیوں کے یہ پالیسی ساز حلقے پورے خلوص سے یہ سمجھتے ہوں کہ ساری دنیا پر مسلمانوں کی حکومت قائم کرنا ممکن ہے، یعنی احیائے خلافت ممکن ہے اور یہ کہ یہ غلبہ اسلام پاکستان کی سرزمین سے اٹھنے والا ہے۔ یا ممکن ہے وہ سمجھتے ہوں کہ یہ خلافتِ اسلامیہ ہمارے مدرسوں کی تعلیم سے پیدا ہو رہی ہے اور القاعدہ کی قیادت میں طالبان پوری انسانیت کی رہنمائی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آج کی دنیا میں نظریات کی حیثیت یا تو انکساری پر مبنی سیکھنے کی ہوتی ہے یا اعتماد پر مبنی سکھانے کی اور تیسری طرز کے نظریات نجی یا گروہی تصور کیے جاتے ہیں جن میں کوئی بات قابلِ اعتراض بھی نہیں لیکن ان کے لئے شرط یہ ہوتی ہے کہ یہ نجی یا گروہی نظریات دوسروں پر مسلط نہ کیے جائیں۔ لہٰذا اگر کسی نظریہ کا دعویٰ یہ ہو کہ یہ سب کے لیے ہے تو اس کا واضح مفہوم صرف یہی ہوتا کہ یہ ساری دنیا کی رہنمائی کر سکتا ہے ۔ ممکن ہے یہ خیال بھی پایا جاتا ہو کہ جدید علوم و فنون کی دنیا سرے سے غلط ہے اور انسانوں کو ایسے کسی علم و ہنر کی ضرورت ہی نہیں جو آج کے دور میں پیدا ہوا ہے، یعنی سائنس اور ٹیکنالوجی کی موجودہ شکل ضروری نہیں۔ ایسے افکار کی صحت یا نقص کا فیصلہ تفصیلی فکری بحثوں کے بغیر ممکن نہیں۔ اور اگر پاکستان کی موجودہ حکمت عملی کے انتشار کا سبب یہی افکار ہیں تو پھر یہ تفصیلی بحثیں ہمارے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے فوری طور پر ضروری ہیں۔
ہمارا مستقبل دنیا کے مستقبل سے جڑا ہوا ہے کہ نہیں یہ بھی ابھی تک سوال بنا ہوا ہے۔ کیا ہر سوال کا جواب بھارت کو سامنے رکھ کر دیا جائے گا؟ بھارت سے جنگ کرتے رہنا کیا ہمارے وجود کی شرط ہے؟ یعنی یہ کہ جنگ یا نفرت دو قومی نظریہ کی بنیاد ہے۔ دو قومی نظریہ کے سنجیدہ طالب علم کو معلوم ہے کہ یہ تشخص کا معاملہ ضرور تھا نفرت اور تصادم کا نہیں۔ کیا قومی آزادی کسی دوسری قوم سے نفرت کے بغیر ممکن نہیں؟ یعنی کیا جدید جاپان ، ملائیشیا یا چین کی ترقی کسی مخالف قوم سے نفرت کی بنیاد پر ہوئی ہے؟ کیا بھارت سے نفرت کے نتیجہ میں یا اسلام کا بڑھ چڑھ کر نعرہ لگانے سے ہم نے پچھلے ساٹھ برس میں ترقی کی ہے؟ کیا ترقی کا تصور ہی اسلام میں ممنوع ہے؟۔ لہٰذا ہمارے لئے ضروری نہیں؟ اور پھر یہ کہ کیا بھارت سے مسابقت اور ہماری قومی سربلندی کا دارومدار اس پر ہے کہ ہم اپنے اسلامی تشخص کو آخری حدوں تک شدید کرتے جائیں، حتیٰ کہ ہم تلوار اور گھوڑے کی تہذیبی سطحوں کو چھو لیں۔ تو کیا مادی وسائل کی ایسی حالت میں قومی یا ملی سربلندی کو قائم رکھا جا سکے گا؟ کیا ’’بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی‘‘ کا فلسفہ علمی ، عقلی بحث کے ذریعہ سے ماننا یا چھوڑنا ممکن نہیں، یعنی کیا اس فلسفے کی صحت کا فیصلہ صرف اسی دن ہو گا جب مسلمان پوری دنیا کو فتح کرنے خالی ہاتھ نکلیں گے اور جنگ میں فتح یا شکست کے بعد ہمارے علمائے دین نتائج پر اظہارِ خیال کی اجازت دیں گے؟ کیا اقوامِ عالم پر اسلامی تسلط کا نظریہ اور غلبۂ اسلام کی بشارت ، جس سے ہمیں سرشار کیا جا رہا ہے، واقعتا اسلام کے ابدی عقائد میں شامل ہیں؟ حتیٰ کہ یہ سوال کہ کیا اسلام میں کسی مدرسہ اور دینی طبقہ کی فائق حیثیت کا کوئی تصور موجود ہے؟ اور کیا پاکستان کو مذہبی بنیاد پر چلانے کا کوئی فکری، اخلاقی یا سیاسی جواز موجود ہے؟ کیا جدید علم و ہنر جائز ہیں؟ جائز ہیں یا ضروری؟ جائز ہیں تو اس نیم دلی سے اس کی اجازت دینا جب اصل مقصد علماء دین کا تسلط ہو، تو کوئی نتیجہ پیدا ہو سکتا ہے؟ اگر ضروری ہے تو کیا علم و ہنر کی طرف ہمارا سفر ایسی قیادت میں ممکن ہے جس کے شب و روز مذہب کی ترویج اور تبلیغِ دین میں گزرتے ہیں، جسے جدید علوم و فنون سے نہ تو عقیدت ہے نہ تعلق؟ ماہرین نفسیات اور ماہرین تعلیم کہتے ہیں کہ ذہنی عمل کا بنیادی قانون ہے کہ ہم وہ بات زیادہ واضح اور آسان طریقے سے سیکھتے ہیں جس کے لئے ہمارے ہاں پہلے قبولیت کے جذبات ہوں۔ اگر معاشرہ ایک طویل عرصہ سے صرف عقائد اور عبادات کا پرچار کرتا رہا ہو تو ریسرچ اور سائنس یا ٹیکنالوجی کا فروغ آسان نہیں ہوتا۔ چاہے مذہب اور سائنس میں تصادم نہ بھی ہو۔ یہاں ایران کی دینی قیادت کی علمی حیثیت کا تذکرہ ضروری ہے۔ اگرچہ ایرانی علماء دوسرے مسلم علماء کے مقابلے میں موجودہ علوم سے کہیں زیادہ واقف ہیں، اس کے باوجود اُن کے بنیادی طرزِ فکر کی وجہ سے ایران اپنے علمی سفر میں دوسری قوموں کے ساتھ نہیں چل سکا۔کیا جمہوری اصولوں اور اختلافِ رائے کی گنجائش ہماری دینی قیادت کی نظر میں کچھ ہے؟ کیا دین سے اختلاف کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ تو پھر آج تک کیوں نہیں دی گئی اگر نہیں دی جا سکتی تو پھر انسانی عقل کا مصرف کیا ہے؟ جب یہ طے ہے کہ سچائی صرف دینِ اسلام میں ہے اور انسانی علم و عقل کو اس سچائی کے تابع رہ کر کام کرنا ہے تو پھر عالمِ دین کے علاوہ اور کسی قسم کی قیادت یا ماہرین کی گنجاش کہاں ہے؟

مذہبی قیادت کا اضطراب

یہ اور ایسے کئی دوسرے سوال اس معاشرے پر چھائے ہوئے اضطراب اور بے سمتی میں اٹل اہمیت کے حامل ہیں۔ دین سے عقیدت ہماری سوسائٹی اور مسلح افواج کی نفسیات میں گُندھی ہوئی ہے، جس پر اعتراض کرنے کا یا اختلافی نظریات پیش کرنے کا کوئی قابلِ ذکر واقع ہماری قومی سطح پر رونما نہیں ہوا اور اگر ہوا تو اسے سختی اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا، حتیٰ کہ اگر کسی دوسرے ملک میں بھی اسلام سے متعلق کوئی مخالفانہ رویہ سامنے آیا تو ہمارے ہاں شدت سے احتجاج کیا گیا۔ زندگی اور کائنات کے ہر موضوع پر بات اسلام پر ختم ہوتی ہے۔ عالم سے لے کر جاہل تک، سربراہِ مملکت سے لے کر چوکیدار تک، ڈاکو سے لے کر بھکاری تک کسی سے بات کرو، اسلام پر اس کا ایمان اٹل ہے۔ اس کے باوجود ملک کے طول و عرض میں مذہبی قیادت دعوتِ دین اور احیائے دین کے لئے مضطرب ہے اور اس اضطراب میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب معاشرہ میں اسلام سے اختلاف کی نہ کوئی لہر ہے نہ اجازت، تو پھر مذہبی قیادت میں اضطراب کا سبب کیا ہے؟
شاید ایک سادہ سا جواب یہ ہے کہ چونکہ معاشرہ اسلامی اقدار پر عملاً گامزن نہیں اور دینی قیادت کو اس معاشرے کی اصلاح مقصود ہے، لہٰذا وہ متفکر اور مضطرب ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو یقیناً یہ بہت ہی قابل قدر بے قراری ہے۔ لیکن اصلاح کا مفہوم کیا ہے؟ کیا اصلاح سے مراد معاشرہ کے مسائل کی اصلاح ہے؟ لوگوں کی تکالیف کا ازالہ ہے؟ معاشرہ کے افراد اور طبقات کے مابین انصاف کا قیام ہے یا کچھ اور؟ اگر تکالیف کا ازالہ یا انصاف کا قیام مقصود ہے ، تو یقیناً یہ عظیم نصب العین ہے۔ لیکن یہ فیصلہ کرنے کے لئے واقعی ایسا ہے یا نہیں، ہمیں اس معاشرہ کے مسائل پر نظر ڈالنا پڑتی ہے، جو الجھے ہیں اور جن کی اصلاح کی جانی ہے۔ مسائل جو انگنت ہیں، ان میں عوامی اور انفرادی سطح کے مسائل میں غربت، مہنگائی، سینہ زوری، بدانصافی، بددیانتی، ملاوٹ، دھوکہ دہی، قانون سے نفرت، جہالت، بدنظمی اور آوارگی جیسے لاتعداد مسائل ہیں۔ قومی اور اجتماعی سطح کے مسائل میں اداروں کا زوال، آمریت، رشوت، قومی مفادات کی بربادی، معیشت کی بے سمتی، خارجہ پالیسی کا فقدان، دفاعی کمزوریاں، امن و امان کی ابتری، وفاق کا انحطاط اور ریاست کی بالادستی کو درپیش خطرات، جس کے نتیجے میں طوائف الملوکی اور عدم تحفظ پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سب اور کئی ایسے مسائل قوم کو درپیش ہیں۔
ملک میں مذہبی قیادت کے تین بڑے دھارے موجود ہیں۔(1) تبلیغی مذہبی قیادت (2) سیاسی مذہبی قیادت (3) جہادی مذہبی قیادت۔
تبلیغی مذہبی قیادت ان میں سے کسی مسئلے پر زیادہ تفصیل سے اظہارِ خیال نہیں کرتی۔ تبلیغی اجتماعات میں مسائل کا ذکر ایک اجمالی انداز سے اس طرح آتا ہے کہ معاشرہ کی حالت اچھی نہیں اور دعا کی جاتی ہے کہ اللہ ہمارے عوام کی تکلیفیں دور کرے اور مسلمانوں کو دنیا میں سرفراز فرمائے۔ تاہم عملی طور پر صرف ایک مسئلے کو تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کے لئے جیش اور لشکر تشکیل دیئے جاتے ہیں: یعنی تبلیغِ دین اور دینی عقائد کی اصلاح۔ اس کام کے لئے ملک بھر میں اور ساری دنیا میں سفر کی صعوبتیں برداشت کر کے ان جماعتوں کے مخلص پیروکار سرکاری و غیر سرکاری دفاتر سے چھٹیاں لے کر، اپنے کام کاج، خاندانی مسائل سے بے نیاز ہو کر دنیا بھر کے لوگوں کو اسلام کے دائرے میں لانے کے لئے نکلتے ہیں۔ کئی لوگوں نے جن میں غیر ملکی سفارتخانے شامل ہیں یہ سوال پوچھا اور دہرایا ہے کہ دوسرے ملکوں میں جانے سے پہلے آپ اپنے ملک کے عوام کا کردار اور اخلاق کیوں نہیں سنوارتے؟ اور جب تک یہ سنور نہ جائے، کیا آپ کا بیرونِ ملک جانا جائز ہے؟ تاہم اس تحریک کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اندرون ملک اور بین الاقوامی سطح پر یہ کام بیک وقت ہونا چاہیے۔ بہرحال اس تحریک کی اس کاوش سے پاکستانی معاشرہ کے مسائل کا حل نکالنا مقصود نہیں ہوتا، بلکہ پیشِ نظر صرف اسلام کی تبلیغ ہوتی ہے، جسے معاشرہ پہلے ہی اپنا دین مانتا ہے۔
سیاسی مذہبی قیادت معاشرہ میں اسلامی حکومت کے قیام کے لئے سرگرم ہے۔ ہمارے یہ محترم رہنما مسائل کا ایک ہی حل بیان کرتے ہیں، یعنی اسلام کی حکومت، یعنی اُن کی حکومت۔ یہ واضح نہیں کہ کون سے عوامی یا قومی مسئلے کا کیا حل تجویز کیا گیا ہے، بجز اس کے کہ ایک اسلامی معاشرہ قائم ہو گا تو وہ چونکہ اسلامی ہو گا لہٰذا اس میں مسائل نہیں ہوں گے یعنی خود ہی حل ہو جائیں گے۔ مولانا مودودی جیسے کچھ علماء نے موجودہ معاشی، عوامی اور قانونی مسائل کا کسی قدر تفصیل سے حل پیش کیا، مثلاً عوامی مسائل میں سے طبقاتی بنیادوں پر پیدا ہونے والے کئی مسائل ہیں، مثلاً آجر اور اجیر کے درمیان، مالکِ اراضی اور مزارع کے درمیان، بڑے تاجر اور صارف عوام کے درمیان، دولت مند اور محکمہ انکم ٹیکس کے درمیان قائم رشتوں سے پیدا ہونے والے مسائل۔ اِن کا حل مولانا محترم کی تحریروں اور بعد میں جماعتِ اسلامی کے انتخابی منشورات میں یہی بیان کیا گیا کہ چونکہ معاشرہ صالح اور اسلامی ہو گا، لہٰذا سب کے درمیان خود ہی انصاف اور حسنِ سلوک رائج ہو جائے گا، معاشرہ چونکہ نیک ہو جائے گا لہٰذا بدی نہیں رہے گی۔ جماعت سے جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ یہ معاشرہ اسلام کا دم بھرتا ہے، آپ اس ملک میں اسلام کے علاوہ کسی طرزِ فکر کا نام بھی نہیں لینے دیتے ، ہر حکومت اور ہر ادارہ آپ کی مداخلت اور جارحانہ تنقید کے آگے بے بس ہے جو آپ اسلام کے نام پر کرتے ہیں، آپ اس ملک اور اس قوم پر یہاں تک دعویٰ رکھتے ہیں کہ قائد اعظم، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر اور آمروں کی حکومتیں بھی کسی مسئلے پر اسلامی حوالوں کو چھوڑ کر صرف علمی و عقلی بنیاد پر کوئی فیصلہ کرنے کی جرأت نہیں کر سکیں۔ اور اگر انہوں نے کسی فیصلے میں خالص بنیادی اصولوں پر کوئی فیصلہ کیا تو آپ نے اسلام کے تحفظ کے نام پر اُن کے خلاف کامیاب مہم چلائی، آپ نے ملک کے نام اور تشخص اور اس کے مقصدِ اعلیٰ کی بنیاد اسلام پر رکھوائی اور آج تک ہر علمی و عقلی طرزِ فکر کو آپ نے یہ کہہ کر منتشر کر دیا کہ یہ مسلمانوں کا ملک ہے، جو اسلام اور لاالہ الا اللہ کی بنیاد پر لیا گیا تھا، لہٰذا سوائے اسلامی نظریات کے کوئی نظریہ یہاں نہیں چلے گا، تو پھر کیا وجہ ہے کہ مسلم عوام کے اس ملک میں آپ مسلمانوں کے آپس کے مسائل حل نہیں کروا سکتے، نہ ہی آپ ایسی کوئی تحریک چلاتے ہیں جیسی آپ ختم نبوت، توہین رسالت ، حدود اور فحاشی کے معاملات پر چلاتے ہیں، تب آپ کی جارحانہ شدت حکومتوں کو بے بس کر دیتی ہے۔ لیکن غریب عوام کی محرومیوں، صاحبِ ثروت طبقات کی چیرہ دستیوں، آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں کے پیچھے چھپی ہوئی ذخیرہ اندوزیوں، ٹیکس چوریوں ، ذاتی محلات سے لے کر مسجدوں تک کے لئے کئے گئے ناجائز قبضوں پر آپ ذمہ دار افراد کے خلاف صرف افسوس کا اظہار کر کے ذمہ داری حکومتِ وقت پر ڈال دیتے ہیں۔ جب یہ سوال یا ایسے سوال کئے جاتے ہیں تو ہمیشہ جواب یہ ملتا ہے کہ یہ معاشرہ صرف نام کا مسلم معاشرہ ہے، پہلے اس کی دینی اصلاح ہو جانے دو اور ہمیں اقتدار میں آ جانے دو پھر دیکھنا کیسے صالح اور مثالی معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ مختصر یہ کہ غالباً اضطراب یہاں بھی مسائل کو حل کرنے کے لئے نہیں۔
تیسری جہادی مذہبی قیادت کی تحریک ہے۔ یہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اسلام کی حفاظت اور بالآخر اسلام کے غلبہ کی خاطر ہے، اور عوامی یا قومی مسائل جن کا اوپر ذکر کیا گیا، اس تحریک کے لئے کسی فوری اہمیت کے حامل نہیں، سوائے اس کے کہ ان مسائل سے موجودہ نظام کی خرابی اور آنے والے اسلامی نظام کی فوقیت ثابت کی جائے۔2006ء کے زلزلہ زدگان کی خدمت کے لئے بعض جہادی عناصر اور سیاسی دینی جماعتوں کی سرگرمیاں قابلِ تحسین تھیں، لیکن عوام کے عمومی اور مستقل معاملات میں ایسی سرگرمیاں باالعموم مفقود رہی ہیں۔ اور ایسا دیکھنے میں نہیں آیا کہ کسی چیرہ دست ظالم کو، کسی ذخیرہ اندوز کو یا ہیبت ناک مالیاتی سکینڈل کے ذریعے راتوں رات ارب پتی بن جانے والے کسی شخص یا گروہ کو اِن جہادی تنظیموں نے نشانہ بنایا ہو، یا اجتماعی بدکاری کے مرتکب امیرزادوں کو دھمکی آمیز خط لکھے گئے ہوں یا انہیں اغوا کیا گیا ہو۔ قبائلی علاقہ جات میں اور افغانستان کے ان حصوں میں جہاں طالبان مجاہدین کا ایک مدت سے غلبہ ہے عوام کی معاشی ، معاشرتی اور اخلاقی اصلاح کا کوئی قابلِ ذکر حال دنیا کی نظروں میں نہیں آیا۔ غرضیکہ جہادی مذہبی قائدین بھی مسلم عوام کے مسائل فوری طور پر حل کرنے سے معذرت کرتے ہیں اور اُن کا پیغام یہ ہے کہ پہلے مسلم عوام جہادی تنظیموں کے پرچم تلے جمع ہو کر ملک اور دنیا میں اسلام کی جنگ لڑیں۔ جب اسلام کا غلبہ مکمل ہو جائے گا اور اسلامی خلافت قائم ہو جائے گی تو تب عوام کے مسائل بھی خود ہی حل ہو جائیں گے۔ اس کے لئے کسی منشور کی یا عملی مثال کی ضرورت نہیں کیونکہ منشور اور عملی مثال تو چودہ سو سال پہلے آ چکے۔ عقیدت و احترام کا وہ ماحول جس میں ہر مسلمان کی پرورش ہوئی ہے، اسے سوال پوچھنے سے روکتا ہے۔ اور اس طرح قیادت کو کبھی اس مشکل صورتِ حال کا سامنا نہیں ہوتا جس کا سامنا جدید جمہوری معاشروں کی قیادت کو آئے دن رہتا ہے۔

فحاشی اور عریانی کا سوال

مذہبی قیادت کو اگر قوم و ملت کے مسائل سے دلچسپی نہیں تو پھر وہ کیا ہے جو اس مسلم معاشرہ میں ہماری اس قیادت کومضطرب رکھتا ہے؟ معاشرہ کی اصلاح سے کون سی اصلاح مقصود ہے؟ اکثر و بیشتر بیانات ، تقاریر اور تحریروں سے جو اندازہ لگایا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ تقریباً ہر سطح کی مذہبی قیادت کو معاشرہ میں فحاشی اور عریانی سب سے بڑا مسئلہ دکھائی دیتی ہے۔ یا پھر نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی میں لوگوں کی کوتاہی انہیں شدت سے بے قرار کرتی ہے۔
پچھلے تیس برس میں پاکستانی معاشرے میں بہت بڑی تعداد نے علماء کرام کے حکم کی تعمیل میں حجاب کا تمدن اختیار کیا ہے اور کروڑوں لوگ ارکانِ اسلام کی ادائیگی کے پابند ہوئے ہیں۔ ہر طرف لوگوں کے بدلے ہوئے حُلیے اور لباس دکھائی دیتے ہیں، جو مذہبی کارکنوں اور قائدین کے بتائے ہوئے حُلیے اور لباس ہیں، جنھیں سنتِ رسول ﷺ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ بے شمار لوگ دینی اجتماعات میں حاضری دیتے ہیں، دعوتِ دین پر نکلتے ہیں۔ لاکھوں نوجوان مدرسوں سے فارغ التحصیل ہو کر مختلف حیثیتوں سے اسلام کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے باوجود فحاشی اور عریانی کا سوال علماء کرام کو ہر پل پریشان رکھتا ہے۔ تاہم فحاشی اور عریانی کی سزا صرف عورتوں کے لئے مخصوص دکھائی دیتی ہے۔ اور علماء کرام کا اضطراب کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے۔ مسجدوں میں، مدرسوں میں، ہر قسم کے مذہبی اجتماعات میں مذہبی مقررین اور خطیبوں کا لب و لہجہ اور زیادہ جارحانہ ہوتا جا رہا ہے۔ عراق اور افغانستان کے مسلمانوں پر امریکی مظالم کے خلاف ہمارے مذہبی قائدین اور کارکن آج غم و غُصہ کی اس سطح پر ہیں جہاں انہیں کشمیر بھی یاد نہیں رہا۔ اور پاکستانی عوام کی تکلیف تو انہیں پہلے بھی زیادہ پریشان نہیں کرتی تھی۔
اس بڑھتے ہوئے اضطراب کا سبب کیا افغانستان اور عراق پر امریکہ کے مظالم ہیں؟ بظاہر یہی مسائل ہیں جو دینی قیادت کے تینوں بڑے گروہوں کو بے چین کرتے ہیں اور پھر یہ بے چینی اُن لاکھوں عقیدت مندوں کے سینوں میں اتر جاتی ہے جو اِس دینی قیادت کے خیالات سے ہر دن پانچ مرتبہ اور خصوصاً ہر جمعہ کے روز استفادہ کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ فحاشی و عریانی کا مسئلہ بھی وعظ کو رنگین بنانے سے بڑھ کر کچھ نہیں۔

افغان، عراق مسئلے کی ترجیح

سماجی اور سیاسی اجتماعات حتیٰ کہ عزیزو اقارب کی محفلوں میں گرم ترین بحثوں کا موضوع یہ دو مسائل ہیں، یعنی افغانستان اور عراق پر امریکی ایکشن۔ لیکن یہ سوال اہم ہے کہ ان دو مسلم قوموں کے معاملات میں ہماری دلچسپی اور کمٹمنٹ اس قدر گہری کیوں ہے؟ کیا اِن دو مسلم معاشروں کے علاوہ کوئی اور مسلم معاشرہ بھی ہماری دیوانہ وار لگن کا مستحق رہا ہے؟ فلسطین میں پچاس برس سے جو کچھ ہو رہا ہے اور لبنان میں جو کچھ ہوا ہے، پاکستان کے دینی حلقے اس سے بخوبی آگاہ رہے ہیں اور عوام بھی۔ عراق پر 1990ء میں امریکی ہوائی حملوں نے ایسی ہی تباہی مچائی تھی جیسی حال میں ہوئی ہے۔ اکتوبر 2007ء کے آواخر میں کشمیری رہنما علی گیلانی کے شکووں بھرے خط کی خبریں پاکستانی اخباروں نے بڑی بے رُخی سے چھاپیں اور ہمارے چینلز نے تو اس کا ذکر بھی نہیں کیا جس میں بیمار کشمیری لیڈر نے پاکستانی بھائیوں کی کشمیر سے لاتعلقی کا گلہ کیا تھا۔ یہ حقیقت سب کے علم میں ہے کہ اب بھارت کو ہمارے اسلامی جذبوں کا پہلے کی طرح سامنا نہیں۔ کشمیر بھی وہی ہے اور ہم بھی وہی، بھارت میں مسلمانوں کا جینا مرنا بھی ویسا ہی ہے جیسا تھا، لیکن اب کشمیر، گجرات یا دوسرے بھارتی علاقوں کے مسلمانوں میں ہماری دلچسپی برائے نام ہے۔ کیا اس تبدیلی کا تعلق کسی پاک بھارت معاہدہ سے ہے؟ یعنی کوئی ایسی خاموش مفاہمت قائم ہو گئی ہے جس نے جہاد کا رُخ بھارت سے پاکستان کی طرف موڑ دیا ہے؟ کیا ایسی مفاہمت حکومتوں کے درمیان قائم ہوئی ہے یا جہادی تنظیمیں اپنے فیصلے خود کرتی ہیں؟ کیا حکومتِ پاکستان اپنے ہی سماجی اور انتظامی ڈھانچے کو ادھیڑنے کا فیصلہ کر سکتی ہے؟ یعنی پاکستان کے اندر پاکستان کی آبادی کے خلاف جہادی تنظیموں کے موجودہ ایکشن کیا حکومت کی حکمت عملی کا حصہ ہو سکتے ہیں ایسی کوئی وجہ قابلِ فہم نہیں جس میں حکومتِ پاکستان کو ایسے فیصلوں تک پہنچا دیا ہو، نہ کسی ادارہ کی حکمتِ عملی اس رستے پر جا سکتی ہے جہاں تک کسی حساس ادارہ کے کسی طاقتور سربراہ یا گروہ کا تعلق ہے، اس کی ایسی کوئی سرگرمی دوسرے اداروں اور اسٹیبلشمنٹ سے چند لمحوں تک ہی خفیہ رہ سکتی ہے۔ پھر بھارت کو معاف کر کے پاکستان کو اسلامی عتاب کا نشانہ بنانے کے محرکات کیا ہو سکتے ہیں، اس کا جائزہ بعد میں لیں گے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ اسلامی جذبوں کی اس بڑھتی ہوئی لہر کا سبب صرف یہ نہیں، یعنی یہ سبب تو ہے لیکن صرف یہ نہیں کہ کسی غیر مسلم، لادین یا اسلام دشمن قوت نے مسلمانوں پر ظلم ڈھایا ہے اور ہم اس ظلم کے خلاف ڈٹ گئے ہیں۔
اگر یہ اندازہ لگایا جائے کہ شاید افغان اور عراقی مسلمانوں کا دینی مقام زیادہ بلند ہے ، اس لئے ان کے لئے پاکستانی عوام کی عقیدت کے تقاضے الگ ہیں تو مسئلہ سمجھ میں نہیں آتا، کیونکہ اِن عوام کی کوتاہیوں کے چرچے بھی اتنے ہی عام ہیں جتنے فلسطینیوں کے یا کشمیری مسلمانوں کے، یعنی افغان اور عراقی مسلمانوں کی فضیلت اس جذبۂ جہاد کی بنیاد نہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ افغان چونکہ ہمارے قبائلی علاقوں اور کسی حد تک صوبہ سرحد کے عوام سے روایت اور خون کے رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں تو بھی صورتِ حال پوری طرح واضح نہیں ہوتی، کیونکہ افغان عوام کے ساتھ پنجاب ، بلوچ اور سندھی مڈل کلاس کے خونی رشتوں کا کوئی ثبوت ڈھونڈنا مشکل ہو گا، جبکہ مذہبی بنیادوں پر امریکہ سے نفرت کی شدت اِن صوبوں کی مڈل کلاس میں اتنی ہی شدید ہے جتنی صوبہ سرحد میں۔ خود فاٹا اور سرحد کے علاقوں میں بسنے والوں کے جذباتی و فکری رشتے افغان قوم کے ساتھ ساٹھ برس میں کبھی مکمل ہم آہنگی کے نہیں رہے۔ افغان جنگ میں ضیاء حکومت کی حکمتِ عملی پر یعنی افغان مہاجرین کے سرحد میں آباد ہونے پر سرحدی عوام کو اعتراضات تھے، اور شاید اب تک ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے تک افغان مہاجرین کی واپسی کا مطالبہ سرحد کے عوام میں مقبول رہا۔ یہ وہ دور تھا جب افغانستان میں شمالی اتحاد کی قوت برسراقتدار رہی، جس کا جھکائو امریکہ اور پاکستان کی بجائے بھارت، ایران اور روس کی طرف تھا۔ طالبان کی حکومت آنے سے ہمارے حکمران طبقوں نے افغانستان کے لئے زیادہ خیرسگالی محسوس کی۔ روس کے خلاف افغان جنگ کے بعد دو بنیادی قوتیں قائدانہ حیثیت حاصل کرنے کے لئے کوشاں تھیں۔ اوّل: شمالی اتحاد جو افغانستان کے روایتی حکمران طبقوں کا وسیع تر محاذ تھا جس میں برہان الدین ربانی کی قیادت میں کمانڈر احمد شاہ مسعود اور عبدالرشید دوستم وغیرہ جیسے تاجک اور ازبک قومیتوں کے سنی افغان سرگرم تھے۔ جنہوں نے گُلبدین حکمت یار سے بھی اتحاد بنایا لیکن اس اتحاد کی شناخت کا اہم پہلو یہ تھا کہ یہ غیر پشتون تھے اور انہیں روس، ایران اور بھارت کی حمایت حاصل تھی۔ اِن میں قوم پرست بھی تھے، شاہ پرست بھی اور مذہبی اصولِ سیاست کے حامی عناصر بھی تھے۔ لیکن پہلی طرز کے مزاحمتی محاذ کو امریکہ اور پاکستان کی بالادست حیثیت قبول نہ تھی اور امریکہ اور پاکستان کو اِن کی سیاسی فکر برداشت کرنا مشکل تھا۔ یہ عنصر افغانستان کو اپنی سرحدوں تک محدود رکھنے پر زیادہ یقین رکھتا تھا، یعنی وسط ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے لئے کوئی رول ادا کرنے یا کسی عالمی تحریک کے لئے سرگرم ہونے پرآمادہ نہ تھا۔ اِس اعتباد سے اس محاذ کو روس نواز بھارت نواز بھی سمجھا جاتا تھا۔
دوسری قوت افغان جنگ میں بیرون ملک سے آنے والے انقلابیوں کی تھی جن میں عرب اور افریقی مجاہدین کے علاوہ کئی ممالک کے مسلم جوان تھے اور پاکستان کے مدرسوں سے حصولِ علم کرنے والے نوجوان تھے جو طالبان کے طور پر مشہور ہوئے جس سے مراد طالبانِ علم بھی لیا جا سکتا ہے اور طالبانِ اسلام بھی۔ یہ پشتون عرب انقلابی لوگ تھے جن کا مقصد افغانستان کو روس کے قبضہ سے آزاد کرانا ہی نہیں بلکہ اس کے کہیں بڑے مقاصد اُن کے سامنے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ اِن کے پیشِ نظر سب سے اہم مقصد ایسے اسلامی نظام کا قیام تھا جو ایک تو قرونِ اولیٰ کے یعنی خلافتِ راشدہ کے اسلامی معاشرہ سے مشابہت رکھتا ہو اور دوسرے عالمی سطح پر اسلام کو غالب قوت بنانے کے لئے مسلسل جہاد کر سکے۔ چونکہ اس محاذ میں عالمی اسلامی برادری کے ہر ملک سے لوگ شامل تھے یعنی اس کی بنیادی ساخت ہی کسی ایک قوم تک محدود نہ تھی، لہٰذا اس کے مقاصد فطری طور پر عالمی یا بین الاقوامی بنتے چلے گئے۔ جبکہ اسلام کا بنیادی تصورِ اُمت بھی جدید قومی ریاستوں کی حمایت نہیں کرتا (یا یوں کہہ لیں کہ جدید قومی ریاستوں کا تصور اسلام کے بعد کا تصور ہے) یعنی اسلام میں فرد کی شناخت کے دو بنیادی حوالے ہیں: اوّل قبیلے کی رکنیت اور دوسرے اسلامی اُمت کی رکنیت۔ یوں کسی ایک علاقہ پر مبنی قوم کا تصور مسلمان کی شناخت نہیں۔ لہٰذا اس جہادی قوت کا واضح ترین مقصد یہ طے ہوا کہ ایک اسلامی، قبائلی اور بین الاقوامی معاشرہ کا قیام عمل میں لایا جائے۔
پاکستان کی مقتدرہ یعنی فوجی اور سول افسران، زمین اور سرمایہ کے مالک طبقے، رازداری سے کام کرنے والے اداروں کے قائدین، کو یقین تھا کہ یہ قوت جو بعد میں القاعدہ مشہور ہوئی یعنی عرب شیوخ کی قیادت میں طالبان کی قوت، پاکستان کی مقتدرہ کو اس خطہ میں سب سے بڑی طاقت بنا دے گی۔ پاکستانی مقتدرہ کے بعض حلقوں کا یہ یقین اب بھی قائم ہے، جس کے نتیجے میں موجودہ افغان حکومت کی جگہ دوبارہ طالبان کی حکومت کا اقتدار میں آنا اُن کی نظر میں بہتر ہے۔ حال ہی میں عوامی نمائندگی کے ذریعے پاکستانی حکومت میں جو تبدیلیاں آئی ہیں جس کے نتیجے میں آمر کا دورِ حکومت ختم ہوا ہے۔ اس توقع کا باعث بن رہی ہیں کہ شاید پاکستانی مقتدرہ کے اِن نظریات میں تبدیلی آ سکے گی۔
یہ بات اپنی جگہ دلچسپ ہے کہ طالبان کے سامنے پاکستان کی مقتدرہ کو بڑی طاقت بنانے سے کہیں زیادہ اہم نصب العین موجود ہیں۔ اِن کے لئے شاید پاکستان کے یہ علاقے اس اعتبار سے اہم ہیں کہ یہ گوریلا جنگ کے موجودہ مرحلے میں بے حد موزوں ہیں اور فکری اور تہذیبی لحاظ سے اسلامی انقلاب کے ہراول دستے کے طور پر پاکستان ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے جو اسلام کا قلعہ کہلاتا ہے، جس کے خوشحال طبقے اسلام کی سربلندی کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں اور جس کے پاس ایک سچی مسلمان فوج کے ساتھ ساتھ کافروں کا ایجاد کردہ ایٹمی اسلحہ بھی ہے، جو کہ امریکی کوڈ کے تحت محفوظ ہو چکا ہے لیکن ابھی ڈاکٹر قدیر خان کا اسلامی ایمان قائم ہے۔ لہٰذا افواجِ پاکستان اور پاکستان کی عسکری، جوہری طاقت اسلام کی عالمی پیش قدمی میں بے حد معاون ہو سکتی ہیں۔
اس تحریک کے سربراہ چونکہ عرب ہیں، لہٰذا عالمی سطح پر تحریک کا فوری مرحلہ عربوں کی آزادی اور قوت کی بحالی ہے، لیکن یہ تحریک عرب قوموں کی الگ الگ حیثیت کو تسلیم نہیں کرتی، بلکہ اُمتِ اسلامی کی حیثیت سے عرب قبائل کی بحالی کے لئے سرگرم ہے، تاکہ اہلِ عرب ایک بار پھر دنیا بھر کے مسلمانوں کے سربراہ کا کردار ادا کر سکیں اور عربوں کے وسائل پر تسلط بھی عربوں کا ہی رہے۔ ظاہر ہے اتنے مالی وسائل کے ساتھ ، جو عربوں کو حاصل ہیں، اگر ایک ارب سے زیادہ مسلم عوام کا جذبۂ شہادت بھی شامل ہو جائے تو ساری دنیا کو فتح کرکے اسلامی حکومت کے ماتحت لانا ممکن ہو جائے گا۔ اِس حکومت کا مرکز ظاہر ہے کہ حرمین شریفین کے قریب ہی ہو سکتا ہے اور اس مرکز کی قیادت یقیناً عرب ہی ہو گی۔ جب رسول اللہﷺ نے حجۃ الوداع والے خطبہ میں فرمایا کہ نسل و رنگ اور وطن کے امتیاز مٹا دئیے گئے ہیں تو توقع کی جا سکتی تھی آپؐ کے اعلان کی لاج رکھنے کے لئے ہی سہی، لیکن عرب کسی غیر عرب مسلمان کی سربراہی قائم کر کے مثال قائم کر دیں گے کہ ان میں انسانوں کے درمیان جاہلیت کے سب امتیاز ختم ہو گئے ہیں۔ جیسے بھارت اپنے آئین کی عزت قائم رکھنے کے لئے کسی مسلمان کو صدر بنا دیتا ہے تاکہ ثابت کیا جا سکے کہ یہ ایک سیکولر ملک ہے جس کے آئین میں سربراہ کا کوئی مذہب مقرر نہیں۔ حالیہ امریکی انتخابات میں اوباما کی کامیابی اس امر کا ثبوت ہے کہ قومیں اگر اپنے آئین کی وفادار ہوں تو اس پر عمل بھی کرتی ہیں، چاہے فوری ہو یا بتدریج۔ لیکن عربوں نے اس شاندار خطبہ کی آج تک عملی پیروی نہیں کی۔ لہٰذا عربوں کی سرزمین پر غیر عرب حکمران کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ سبھی جانتے ہیں کہ عربوں نے خصوصاً سعودی عرب نے اپنے قوانین میں کسی غیر عرب کو شہری حقوق دینے کی گنجائش نہیں رکھی۔ اس کے برعکس پاکستان اور بھارت کے مسلمان بخوشی عربوں کو اپنا حکمران تسلیم کر لیں گے۔ یہ تاریخی اور دینی حقائق ہیں جن سے مسلم عوام کو اختلاف نہیں۔ صدیوں سے دنیا بھر کے مسلمان سرزمینِ عرب کی خاک کو اپنی آنکھوں کا سُرمہ مانتے آئے ہیں جس کے سامنے اُن کے اپنے ملکوں اور علاقوں کی کوئی ہستی حیثیت نہیں۔ عقیدت کے ان جذبوں کو مزید تقویت دینے کے لئے موجودہ سعودی خاندان میں پچھلے پچاس ساٹھ سال سے ایک شاندار حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو اسلام سے اور بھی قریب لانے کے لئے اسلامی مدرسوں اور اسلامی تحریکوں کو مالی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ جہاں کہیں مسلمان موجود ہیں، وہاں سعودی مالی امداد پہنچتی ہے، یعنی علمائے کرام،ائمہ مساجد اور مدارس کی انتظامہ کو باقاعدگی سے مالی مدد حاصل ہوتی ہے۔ یہ انتظام اتنا مستعد ہے کہ وسط ایشیا کی مسلم آبادی والی ریاستیں جونہی روس سے الگ ہوئیں تو مسلمانوں کو مسجدیں اور مدارس آباد کرنے کے لئے فوراً مدد دی گئی۔ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد بے شمار لوگ بے روزگار ہو گئے تھے۔ ایسے بے روزگار نوجوانوں کی خدمات حاصل کی گئیں جو اگرچہ اسلام سے واقف نہ تھے لیکن اسلام کی خدمت کے لئے تیار تھے۔ اسلام پھیلانے اور لوگوں کو حج کی ترغیب دینے کے لئے یہ طریقہ کار نہایت کامیاب رہا اور حاجیوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ یورپ ، کینیڈا، امریکہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں مسلم تارکین وطن کے لئے عرب امام مہیا کیے جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں سرزمینِ حجاز کی روح پرور کشش میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ حج اور عمرہ کے لئے آنے والوں کی تعداد نصف کروڑ سالانہ سے بھی بڑھ گئی ہے۔
بعض مغربی تجزیہ نگار اِس عظیم روحانی لہر کے مادی پہلو کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ عربوں کے لئے آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے لہٰذا جب سعودی عرب کا تیل ختم ہو جائے گا تب بھی صرف حج اور عمرہ سے ہونے والی آمدنی اس خطے کو دنیا کا خوشحال ترین خطہ بنائے رکھے گی۔ تاہم یوں لگتا ہے کہ اس مادی فائدے سے کہیں بڑا مقصد جو خاندانٍِ سعود اور دوسرے ذہین عرب قائدین کے پیش نظر ہے، وہ ہے دنیا بھر کے مسلمانوں میں سرزمینِ عرب سے ایسی وابستگی اور عقیدت پیدا کرنا جس کے سامنے ملک، وطنیت اور جمہوریت وغیرہ کے جدید تصورات بے حقیقت ہو جائیں۔ خاکِ حجاز کے لئے جینا مرنا مسلم ذہن کا خواب بن جائے۔ جدید دنیا کے تصورات کو باطل تصورات ماننا مسلمان کا فخر ہو اور جب آواز پڑے تو دنیا بھر کے مسلمان اپنے عرب سربراہوں کی حفاظت اور سربلندی کے لئے اپنا سب کچھ حتیٰ کہ اپنی اولاد کی جان تک قربان کر سکیں۔ کیونکہ اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ سعودی عرب کی وہ تمام دولت جو تیل کے موجودہ ذخائر کو بیچنے سے مل رہی ہے اور دنیا بھر کے بینکوں میں اس لئے جمع ہے کیونکہ وہاں سود یا منافع کی شرح بھی اچھی ہے اور سرمایہ محفوظ بھی ہے، یہ دولت دوسرے عربوں اور دنیا کی قوموں کو لالچ میں مبتلا کر سکتی ہے۔ چنانچہ اس کی حفاظت کے لئے انتظامات ضروری ہیں۔ اضافی فائدہ یہ ہے کہ مسلم اُمہ کی اس جانثاری کا رعب امریکی حکومت پر بھی رہتا ہے جو سعودی عرب کی فوجی محافظ ہونے کے ناطے اُس کے وسائل پر قابض ہونے کا سوچ سکتی ہے۔
نفاذِ شریعت کی یہ طاقتور تحریک فاٹا اور شمالی علاقوں سے نکل کر صوبہ سرحد کے کئی اضلاع میں جڑ پکڑ چکی ہے۔ مملکت کی فوجی کارروائیوں کے باوجود اس کے قدموں کی چاپ اب پنجاب میں سنائی دینے لگی ہے۔ سرحدی صوبہ اور بلوچستان کے عوام کو اس تحریک سے نہ پہلے کوئی شکایت تھی نہ اب ہے۔ جہاں جہاں اسلامی لہر پہنچ رہی ہے، مردوں کی شیو بنانے والی دکانیں، ویڈیو فلموں کا کاروبار اور لڑکیوں کے سکول بند کئے جا رہے ہیں۔ اس بندش کے خلاف عوام کا کوئی بڑا احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا۔ جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ شاید عوام اِن اقدامات کو درست سمجھتے ہیں۔

نرگسیت کا مرض

علم نفسیات کی اصطلاحات میں سے ایک نرگسیت بھی ہے، جس کا بنیادی مفہوم خودپسندی کا ہے۔ نفسیات کی یہ اصطلاح قدیم یونان کی ایک دیو مالائی کہانی سے اخذ کی گئی ہے۔ جس کا مرکزی کردار نارسس ایک خوبصورت ہیرو ہے جسے اپنے چاہنے والوں اور ارد گرد کی دنیا سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اپنی تعریف سنتے سنتے وہ اتنا خودپسند ہو گیا تھا کہ ایک دن پانی میں اپنا عکس دیکھ کر خود پر عاشق ہو گیا۔ رات دن اپنے عکس کو دیکھتا رہتا۔ بھوک اور پیاس سے نڈھال ہوتے بھی پانی کو چھو نہیں سکتا تھا کیونکہ اسے ڈر تھا کہ پانی کی سطح ہلنے سے عکس ٹوٹ جائے گا اور اسکی شکل کا حسن ہزاروں ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔ چنانچہ پیاس سے نڈھال مر گیا۔ دیو مالا کے ایک بیان میں ہے کہ دیوتائوں نے اسے نرگس کا پھول بنا دیا ۔ اسی وجہ سے خودپسندی کو نرگسیت کا نام دیا گیا۔
نفسیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ نرگسیت کی صحت مند حالتیں ہم سب میں موجود ہوتی ہیں، یعنی خود اعتمادی اور عزت نفس اور مسابقت جو عمدہ انسانی صفات مانی جاتی ہیں، نرگسیت کی صحت مند شکل ہوتی ہیں کیونکہ ان کا تعلق بھی ہماری انا سے ہوتا ہے۔ لیکن خودگری یعنی اپنی شخصیت کی مثبت تعمیر کہ جس کی بنیاد دوسروں کی تباہی پر نہ رکھی گئی ہو ، خودبینی یعنی اپنی کمزوریوں اور صلاحیتیوں کا ادراک جسے خودشناسی بھی کہہ سکتے ہیں، اور خودنگری یعنی اپنی نگرانی کرنا یعنی زوال پرور مریضانہ اور مہلک رویوں سے خود کوبچانا… یہ سب کسی بھی متحرک معاشرت کے بنیادی جوہر ہوتے ہیں۔ اگرچہ کردار کی ان کیفیتوں کا تعلق بھی فرد کی انا سے ہی ہے، تاہم ان کے لئے نرگسیت کی اصطلاح استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ نرگسیت سے مراد بالعموم ایسی نرگسیت ہوتی ہے جس کا علاج کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ یہ شخصیت کا وہ مرض ہے جو تنظیمی اور سماجی معاملات میں سنگین مسائل کا سبب بنتا ہے۔ اس مرض کا شکار ہونے والے لوگ ارد گرد کی دنیا میں اذیت اور تباہی کا باعث بنتے ہیں اور اس کا سب سے بڑھ کر خطرناک پہلو یہ ہوتا ہے کہ مریض کبھی خود کو مریض نہیں مانتا۔ نہایت چابکدستی سے اپنا دفاع پیش کرتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ جو اس کا علاج کرنا چاہتے ہیں انہیں حاسد ، گستاخ یا بدنیت ثابت کر دے۔ لہٰذا ایسے مریضوں کا علاج کرنے کے لئے عزیزو اقارب اور دوستوں کو بالآخر سختی یا جراحی کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔
فرد کی مریضانہ نرگسیت جس طرح نتظیم یا خاندان کے لئے شدید مسائل کا باعث بنتی ہے، اسی طرح اجتماعی یا تہذیبی نرگسیت اقوامِ عالم کی علاقائی اور عالمی تنظیموں میں کشیدگی، اضطراب اور بالآخر تصادم کو جنم دیتی ہے اور انسانی برادری کی اجتماعی نشوونما کا راستہ روک کر کھڑی ہو جاتی ہے۔
مختلف تہذیبوں میں پائی جانے والی مریضانہ نرگسیت کا مطالعہ ایک ایسا کام ہے جو اس مختصر کتابچہ کے احاطہ سے بہت بڑا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ تحریر اسلامی تہذیب کا جائزہ لینے کا دعویٰ بھی نہیں کرتی، بلکہ برصغیر کے پس منظر میں پاکستان کی موجودہ صورتحال پر ایک نہایت سرسری اور سطحی سی دعوتِ فکر ہے جو شاید مستقبل کی زیادہ گہری اور جامع تصنیفات کا پیش خیمہ بنے۔
اس سرسری اور سطحی جائزہ سے پہلے انفرادی نرگسیت پر کی جانے والی تحقیق کا مختصر بیان ضروری ہے۔ یہ تحقیق ملٹی نیشنل کمپنیوں اور دوسری بڑی کاروباری یا انتظامی تنظیموں کے اندر پیدا ہونے والے ایسے مسائل کے حل کی خاطر کرائی جاتی ہے جو اِن تنظیموں کے طاقتور یا اہم افراد کی نرگسیت سے پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً کسی تنظیم کی اجتماعی کاکردگی میں کسی ایک شخص کی حد درجہ بڑھی ہوئی خودپسندی اور جارحانہ اناپرستی ایسی رکاوٹیں اور ایسی الجھنیں پیدا کر دیتی ہے جس سے تنظیم کو نقصان پہنچتا ہے، جبکہ متعلقہ شخص کو نہ تو اس کا احساس ہوتا ہے نہ ہی وہ احساس دلائے جانے پر اپنی اذیت ناک کوتاہی کو قبول کرتا ہے۔ ایسے افراد کے لئے ماہرین کی تقریباً متفقہ رائے یہ ہے کہ ان کا علاج صرف یہ ہے کہ ان کے خلاف اجتماعی اور کرخت تنقید کا نشتر استعمال کیا جائے۔ ان کے وہ ہاتھ باندھ دیئے جائیں جن سے وہ تنظیم کو توڑتے پھوڑتے ہیں۔
ڈاکٹر ڈیوڈ تھامس کا کہنا ہے نرگسیت کے مریض کو پہچاننا اس لئے مشکل ہوتا ہے کہ یہ ہر لمحہ اداکاری کے ذریعے اپنی انا کی حفاظت کرتا ہے اور دنیا کے سامنے ایک جعلی تشخص بنائے رکھتا ہے۔ چنانچہ نرگسیت کے مریض دھوکہ دہی کے استاد بن جاتے ہیں۔ لیکن ان لوگوں کو پہچاننا اس لئے ازحد ضروری ہے کہ کیونکہ یہ اپنے منفی رویوں سے تنظیم کی کارکردگی خراب کرتے ہیں۔
نرگسیت کے مرض کی مندرجہ ذیل علامات قابل غور ہیں:
1۔ نرگسی شخص کے لئے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اجتماعی ضرورتوں کو اپنی ضرورتوں پر اولیت دے سکے۔ وہ دوسروں کے لئے ہمدردی سے خالی ہوتا ہے مثلا جب وہ آپ کی خیریت پوچھتا ہے تو یہ ایک عادت اور حسنِ اخلاق کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اسے حقیقت میں آپ کی خیریت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔
2۔ جب نرگسی شخص کی انا کو خطرہ پیدا ہو جائے تو وہ صحت مند آدمی سے کہیں زیادہ جذباتی ردعمل ظاہر کرتا ہے، حتیٰ کہ نرگسی طیش کا مظاہرہ کرتا ہے۔ جب کسی تقابلی جائزہ کے نتیجے میں وہ دوسروں سے کم تر نظر آئے تو وہ عام آدمی سے کہیں زیادہ غم و غصہ اور جارحیت دکھاتا ہے۔ دراصل اس کے مزاج کے اتار چڑھائو کا تعلق عام طور پر اسی بات سے ہوتا ہے کہ سماجی تقابل میں اسے اپنے بارے میں کیا خبر آئی ہے۔ یعنی تعریف ہوئی تو اتراتا ہے اور اگر کمتر قرار دیا گیا ہے تو آپے سے باہر ہوتا یا پھر احساس مظلومیت کا شکار ہو جاتا ہے۔
3۔ عام آدمی ناکامی کی صورت میں خود کو قصور وار سمجھتا ہے، لیکن نرگسی شخص اپنی ناکامی کو اپنی ذات سے باہر نکال دیتا ہے یعنی دوسروں پر ڈال دیتا ہے، کیونکہ ایسے شخص میں اپنی ناکامی کو شرم ناک بنا کر اپنی نفسیات میں مستقل گوندھ لینے کا رجحان ہوتا ہے۔ لہٰذا اس شرمناک بات کو یعنی اپنی ناکامی کو ہر صورت میں اپنے اوپر سے ہٹا کر کسی اور پر ڈالنا ضروری سمجھتا ہے۔ البتہ کبھی کبھی جب نرگسی شخصیت کی نظر میں اپنا مقام بہت ہی بلند ہو اور اسے اپنا مقام پست ہونے کا خطرہ نہ ہو تو ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ ناکامی کی ذمہ داری قبول کر لے۔ تاہم اس میں بھی اپنی عالی ظرفی کی دھاک بٹھانے کا جذبہ موجود ہوتا ہے، اور وہ اپنی کوتاہی کی ذمہ داری قبول کرنے سے پہلے اس بات کی تسلی کر لیتا ہے کہ اس کا ثمر اسے تعریف و توصیف کی صورت میں ملے گا۔
4۔ تکبر، خودنمائی، فخر اور فنکارانہ مطلب براری نرگسی شخص کی صفات ہیں جن کا مظاہرہ وہ کبھی کھلے بندوں اور کبھی نفاست سے کرتا ہے۔ وہ تعریف و تحسین کا بھوکا ہوتا ہے۔ نرگسی طیش، دوسروں کی کردار کشی اور اپنی نمائش، نرگسی شخصیت کے طرزِ عمل کے ظاہری حصے ہیں۔ مثلاً اپنے ہم پلہ یا فائق لوگوں کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ مجھ سے جلتے ہیں، یا یہ کہ میرے خلاف سازش کرتے ہیں۔ ایسے الزامات وہ کبھی کھلے بندوں اور کبھی اشارتاً لگاتا ہے۔
5۔ ندامت اور تشکر دونوں سے انکار نرگسی شخصیت کا وہ نفیس ہتھکنڈا ہے جس سے وہ اپنی فضیلت و عظمت کا تحفظ کرتا ہے ، یعنی اگر اپنی کوتاہی پر نادم ہو یا دوسروں کی نوازشات کا شکرگزار ہو تو اسے اپنی عظمت جاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر میٹنگ میں دیر سے آئے تو کہتا ہے فلاں شخص نے مجھے باتوں میں الجھائے رکھا اور دیر کرا دی۔ یا اگر کاروبار میں نقصان ہو جائے تو عالمی سرمایہ دار کی چکربازی کو ذمہ دار ٹھہرائے گا یا اپنے شراکت دار کی نالائقی وغیرہ وغیرہ۔
6۔ چاہے اس کی گفتگو میں نمائش کا عنصر صاف نظر آ رہا ہو، پھر بھی نرگسی مریض کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی اہمیت کا تاثر اس انداز سے چھوڑے کہ جیسے اس کا مقصد نمائش یا بڑ مارنا نہیں تھا۔ مثلاً کسی بڑی شخصیت سے ملاقات کا خصوصی ذکر کرنے کی بجائے اس طرح سے خبر پھیلائے گا جیسے اس شخصیت سے ملاپ ایک معمول کی بات تھی۔ مثلاً مسٹر فلاں میرے ہاں کھانے پر آئے تو کہنے لگے یار تمہاری وہ بات اور وہ بات وغیرہ وغیرہ۔ مقصد دو ہوتے ہیں: سننے والے سے ایک حد ادب قائم کرنا اور اپنے اعلیٰ مقام کی خبر پھیلانا۔
سائیکالوجسٹ ڈاکٹر ڈیوڈ تھامس کے پی ایچ ڈی پروفائل سائٹ پر نرگسی شخصیت والوں کے خواص مختصراً یوں ہیں:
1۔ ان کے ہر کام میں دوسروں کے جذبات سے لاتعلقی ہوتی ہے ، مثلاً رسمی اخلاقیات اور اپنی نیکوکاری کے اظہار کے لئے مزاج پرسی وغیرہ۔ جس میں حقیقی دلچسپی موجود نہیں ہوتی۔
2۔ ان کے تقریباً تمام خیالات اور طرزِ عمل دوسروں سے مستعار ہوتے ہیں، یعنی یہ لوگ ایسے لوگوں کے خیالات و اطوار کی نقالی کرتے ہیں جنھیں یہ سند مانتے ہیں۔ اسے عکس کی پیروی (Mirroring) کہا جاتا ہے، یعنی یہ ان بڑے لوگوں کی پیروی کے ذریعے دراصل خود کو عظیم محسوس کرتے ہیں۔
3 ۔ دوسرے کے مسائل و جذبات سے لاتعلقی کے نتیجہ میں انہیں دوسروں کی بات کاٹنے اور اپنی سنانے کی جلدی ہوتی ہے۔ یہ کبھی دوسرے کی بات سمجھنے کے لئے نہیں سنتے بلکہ اس لئے سنتے ہیں کہ اس کے جواب میں انہوں نے کیا کہنا ہے۔ لہٰذا ان کا سیکھنے کا عمل محدود اور ان کا علم انا سے رنگا ہوا ہوتا ہے۔
4۔ یہ چھوٹے کام کرنے کو تیار نہیں ہوتے، بلکہ دوسروں پر ڈالتے ہیں۔ کیونکہ ان کی نظر میں چھوٹے چھوٹے کاموں میں وقت ضائع کرنا ان کی اہم شخصیت کے شایانِ شان نہیں ہوتا۔
5۔ ان کے خیال میں کام کے قواعد کی پابندی کرنا ان پر لازم نہیں ہوتا۔
6۔ اگر انہیں یقین ہو کہ پکڑے نہیں جائیں گے تو دھوکہ دہی سے نہیں چوکتے۔
7۔ جب آپ کام میں ان سے شراکت کریں تو آپ یقین رکھیں کہ کام کا بڑا حصہ آپ کو ہی کرنا ہو گا۔
8۔ یہ جب کوئی کام دوسروں کے سپرد کرتے ہیں تو پھر اس کی چھوٹی چھوٹی تفصیل میں دخل اندازی بھی جاری رکھتے ہیں۔ پھر اگر کام خوبی سے مکمل ہو جائے تو اس کا سہرا اپنے سر باندھ لیتے ہیں، لیکن اگر بگڑ جائے تو الزام اس پر ڈال دیتے ہیں جسے کام سپرد کیا گیا تھا۔
9۔ جب موضوعِ گفتگو یہ خود ہوں تو یہ دیر تک سنتے ہیں اور کبھی روکتے نہیں، تھکتے نہیں۔ لیکن اگر گفتگو کا موضوع کوئی دوسرا ہو یا ایسا مسئلہ زیر بحث ہو جس میں ان کی ذات کا ذکر نہیں آتا تو یہ دوران گفتگو بے قرار یا لاتعلق ہو جاتے ہیں۔
10۔ نرگسی شخص کے ساتھ کام کرنے والوں پر ذہنی اور نفسیاتی دبائو بڑھ جاتا ہے۔ لہٰذا جن تنظیموں میں یہ لوگ بالادست حیثیت میں ہوں وہاں ملازموں اور اہلکاروں میں غیر حاضری کا رجحان بڑھ جاتا ہے۔ جہاں یہ ماتحت اہلکار کی حیثیت میں ہوں، وہاں ساتھیوں سے ٹکرائو کی حالت میں رہتے ہیں یا احساسِ مظلومیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔

1) Downs, A. 1997: "Beyoyond the Looking Glass"
2) E.G. Kenberg.1992: "Borderline Conditions of Pathological Narcissism":
3) Bogart M, Benotsh, EG. & Pevlovic, J.D. 2004:"Feeling Superior but Threatened":
4) Campbell, W.G.,Goodie,A.S. and Foster, J.D. 2004: "Narcissism, Confidence and Risk Attitude.."
5) Campbell, W,G., Foster, J.D.and Brunell, A.B. 2004: "Running from Shame and Reveling in Pride:"
6) Reich, A. 1933, : " Character Analysis".
7) M.C. Williams, N. and Lependorf,S. 1990: " Narcissistic Pathology of Everyday Life. The Denial of Remorse and Gratitude."
8) Brown, A.D. 1997: Narcissism, Identity and Legitimacy:..,"

یکسانیت اور یک رنگی

تہذیبی نرگسیت کی مثال ایک ایسے سٹرکچر کی ہے جس کا تقریباً ہر حصہ اُس کی اپنی تصویر ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ بھارت میں ایک قدیم قلعہ ایسا ہے کہ جسے میلوں کے فاصلے سے دیکھیں تو مہاتما بدھ کا ایک بُت دکھائی دیتا ہے۔ جب قلعہ کے پاس آئیں تو اس کی ہر دیوار اسی بڑے بُت کی چھوٹی چھوٹی مورتیوں سے بنی ہوئی دکھائی دیتی ہے، یعنی ہر اینٹ یا بلاک جو قلعہ کو تعمیر کرنے میں استعمال ہوا ہے اُس کے ماتھے پر وہی بُت بنا ہوا ہے جو میلوں کے فاصلے سے دکھائی دیتا ہے۔ ہر دیوار، ہر ممٹی، ہر کلس اسی اصول سے ڈھلا ہے۔
معاشرہ اور فرد کی مشابہت صرف پاکستان یا ملتِ مسلمہ سے خاص نہیں۔ بھارت، چین، جاپان، یورپ حتیٰ کہ افریقہ کے کمزور ترین معاشروں میں بھی نرگسیت کا اصول یہی ہے کہ جہاں جتنی نرگسیت موجود ہے، وہاں اجتماعی اور انفرادی نرگسیت کی خصوصیات کا حُلیہ اکثر اوقات ایک سا ہوتا ہے۔ مثلاً جاپانی معاشرہ کا پروقار دھیما پن اور مثبت ردعمل جاپانی فرد کے رویوں میں بھی بالعموم ملتا ہے۔ برطانوی تہذیب کی سرد مہر کم گوئی یا کم آمیزی کے پیچھے جھلکتا ہوا فخر آپ کو فرد کے انداز میں بھی ملے گا۔
تاہم ہر معاشرہ اس قانون پر ایک طرح فٹ نہیں ہوتا۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ تہذیبوں اور معاشروں کا اجتماعی طرزِ عمل فرد کے طرزِ عمل سے بالکل جدا ہو، جیسا کہ امریکہ میں ہو رہا ہے، جہاں مختلف قوموں اور تہذیبوں سے آنے والوں کی آمد بدستور جاری ہے۔ اس طرح رنگ رنگ کے کلچر، نظریات اور عقائد کا میل جول ہونے سے برداشت اور مفاہمت بڑھ رہی ہے، جس کا ایک مظہر بارک اوبامہ کی کامیابی ہے، جبکہ حکومت ایک طاقتور کارپوریٹ کلچر کی نمائندگی پر مامور ہے۔ چنانچہ قومی یا حکومتی عمل کو دیکھیں تو ایک سخت گیر، متکبر، فاتح اور مداخلت پسند نظام کا حلیہ دکھائی دیتا ہے، جبکہ معاشرہ کے افراد سے رابطہ کریں تو مزاج کے ان گنت حلیے ملتے ہیں۔ کسی ایک مزاج کو اگر امریکیوں کا مزاج کہہ سکتے ہیں یعنی وہ مزاج جو زیادہ امریکیوں کا ہے تو وہ لاابالی پن اور بے فکری کا ہے، جو قومی طرزِعمل سے ہر گز مشابہہ نہیں ۔ یہ بات الگ ہے کہ امریکی عوام اپنے حکمران طبقہ کی طرف سے رائج کی گئی خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ اور شکار ہونے کی یہ صفت بھی لاابالی پن اور لاتعلقی کا قدرتی نتیجہ ہے، یعنی فرد اپنی حکومت یا اپنے قائدین کے اعلانات کا گہرائی سے جائزہ نہیں لیتا اور افراد کے باہم تبادلہ خیال کا ماحول موجود نہیں جو بالخصوص ہمارے معاشروں میں ہے۔ شاید یہ کہنا بھی درست ہے کہ امیگریشن اینڈ ڈائی ورسی فیکیشن کی وہ پالیسی جو امریکہ کے طاقتور حکمرانوں نے اختیار کر رکھی ہے، اس کا مقصد بھی یہی ہے یعنی دنیا کے مختلف علاقوں اور ملکوں سے لوگوں کو نقل مکانی کر کے امریکہ میں آنے، رہنے اور شہریت حاصل کرنے کی اجازت دینا اور اس کے نتیجے میں سماجی تنوع پیدا کرنا، یہ امریکی معاشرہ کو ایک ایسا ہجوم بناتا ہے جو قانون اور ریاست سے سرکشی تو نہیں کرتا لیکن پوری شدت کے ساتھ شخصی آزادیوں کا استعمال کرتا ہے جو اسے قانوناً میسر ہیں۔ لیکن یہ ہجوم کبھی یکسانیت پر متفق نہیں ہو سکتا۔ سنجیدہ افکار سے بے نیاز لوگوں کے اس عظیم اور مصروف ہجوم کا غالب تشخص بے فکری اور بے نیازی کے علاوہ شاید کوئی اور نہیں۔ پھر بھی مملکت کے منظم نظریہ سازوں کے تشخص کی نہ تو یہ نقل کرتا ہے نہ پرتشدد مخالفت۔ کیونکہ آئین اور نظام مؤثر ہے اور قوم جتنی تبدیلی کی ضرورت محسوس کرتی ہے ، اتنی تبدیلی انتخابات کے ذریعے ہو جاتی ہے۔ مملکت سے بغاوت کے جو مظاہر پاکستان میں دکھائی دے رہے ہیں وہ صرف ایک ایسے نرگسی معاشرے میں ممکن ہے جہاں فرد یا گروہ خود کو مملکت سے بڑا یا برابر سمجھتا ہے اور دوسری طرف مملکت فرد کو کسی آئینی اور قانونی اصول سے تبدیلی کا موقع فراہم نہیں کرتی، یعنی فرد اور مملکت اپنی اپنی نرگسیت کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ اس صورت میں ہوتا ہے جب قوم اور مملکت کے تصورات افراد کی نظر میں قابلِ احترام تصورات نہ ہوں بلکہ اُن کی جگہ کسی دوسرے تصورِ اجتماعیت کو تقدس حاصل ہو۔ چونکہ پاکستانی معاشرہ میں فکری طور پر مذہبی حکمرانی کو تقدس حاصل ہے اور عملی طور پر جابر اور عسکری قوت کو یہ حق حاصل ہے، لہٰذا قومی اور ملکی تشخص بتدریج بے معنی ہوتا جا رہا ہے۔
امریکہ میں دنیا کے بہترین جمہوری حقوق کے مروج ہونے کے باوجود یا شاید اُن کی وجہ سے امریکی فرد کی اِنفرادی نرگسیت اور امریکہ کی ریاستی نرگسیت میں وہ یکسانیت پیدا نہیں ہو پاتی جو پاکستان یا سعودی عرب کے کرخت آمرانہ معاشروں میں ملتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اظہار خیال کی آزادی اور اختلاف کا حق اس امر کی ضمانت بنتے ہیں کہ ہر طرح کی نرگسیت پر تنقید اور نگرانی ہوتی رہے چنانچہ فرد کی نرگسیت پر اجتماعی چھاپ نہیں لگتی۔ اس کے برعکس آمرانہ معاشروں میں چونکہ قبائلی جبر اور آمرانہ نظام فرد کی آزادانہ نشوونما کو روکتے ہیں اور معاشرہ تنوع سے محروم ہو جاتا ہے لہٰذا فرد اور معاشرہ کی نرگسیت میں یکسانیت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔
بغور مشاہدہ سے لگتا ہے کہ انفرادی رویوں پر تہذیبی نرگسیت کی چھاپ اتنی ہی گہری ہوتی جاتی ہے جتنی کہ ان معاشروں میں اختلافِ رائے پر پابندیاں سخت ہوتی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر مذہبی تعلیم کا ایک مدرسہ لے لیں۔ مدارس کا اصول تعلیم یہ ہے کہ اختلاف اور سوال کی حدیں سختی سے مقرر ہیں۔ اسلاف کے بنائے ہوئے علمی معیار اور نصاب کو آخری سچائی تسلیم کیا جانا ضروری ہوتا ہے، جن پر سوال صرف اس حد تک کیے جا سکتے ہیں جس حد تک نصاب کو سمجھنے کے لیے ضروری ہو۔ اختلاف کو گستاخی تصور کیا جاتا ہے یا اختلاف کو رد کرنے کے لئے مقررہ دلائل فراہم کیے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ استاد کی عزت و تکریم کا تقاضا بھی یہی سمجھا جاتا ہے کہ طالب علم اُن سے اختلاف نہ کرے۔ مدرسہ میں استاد اور اسلاف کے ادب کا اصول وہ پہلی شرط ہوتا ہے جس کے بغیر علم کا حصول ناممکن سمجھتا جاتا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب میں مدرسوں اور معاشروں کے اندرونی معاملات کی کھوج لگانے والے محقق اور نقاد اگرچہ اپنے مشاہدات کھلے عام بیان نہیں کر سکتے، تاہم استاد اور شاگرد کے درمیان تابع داری کے بعض ایسے حقائق کا پتہ چلتا رہتا ہے جو کبھی کھبار منظر عام پر بھی آ جاتے ہیں اور بڑے سکینڈل کی شکل اختیار کرتے ہیں تاہم یہ کہہ کر گندگی کوڈھانپ دیا جاتا ہے کہ یہ انفرادی فعل ہے اور یہ کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔
لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ آمرانہ معاشروں میں پانچوں انگلیاں گھی میں ہوں یا نہ ہوںشکل اور ساخت میں یہ انگلیاں برابر یا لگ بھگ برابر ہوتی ہیں۔ مختلف مکاتب فکر کے مدرسوں کا جائزہ لینے پر پتہ چلتا ہے کہ مدرسوں میں پائی جانے والی یکسانیت صرف ظاہری وردی اور آداب کی یکسانیت تک محدود نہیں ہے۔ یہ افکار اور رویوں کی یکسانیت کا ویسا ہی نمونہ پیش کرتی ہے جیسا کہ قرآن کو حفظ کرنے والے بچوں میں دیکھا گیا ہے۔ یعنی سوچنے اور پوچھنے کا عمل مکمل طور پر بند اور موقوف کر کے صرف الفاظ کی آوازوں کو یاد کرنا، جن کے کسی مفہوم کا بچے کو علم نہیں ہوتا اور بسا اوقات تمام عمر وہ یہ مفہوم نہیں جان پاتا۔
چونکہ دین اسلام کے مختلف امتیازات میں سے ایک امتیاز یہ ہے کہ قرآن کریم کا ہر لفظ آج تک زیرو زَبر کے ساتھ ویسے کا ویسا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے وقت میں تھا۔ اور چونکہ ازمنہ وسطیٰ کے فاتح عرب مفکرین کا یہ نظریہ تھا کہ اسلام کی ہر تفصیل، ہر ضابطہ، ہر فیصلہ، ہر روایت تبدیل کیے بغیر ہر دور میں نہ صرف قابل عمل ہے بلکہ واجب العمل ہے، اور چونکہ برصغیر پاک و ہند وغیرہ میں قابض و فائز مذہبی علماء کا فیصلہ ہے کہ دنیا بدلتی ہے نہ انسان، نہ انسانی معاشرہ میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے۔ اور مسلمان کو تو اس لیے بھی بدلنا منع ہے کیونکہ اُس کا فرض ہے کہ خود کو اسلام کے مطابق ڈھالتا رہے، جبکہ اسلام نے قیامت تک پہلی صدی ہجری والی حالت میں قائم رہنا ہے۔ اس نظریہ کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ انسان اور دنیا کو اسلام کے مطابق ڈھلنا چاہیے کیونکہ اسلام کے کسی ضابطہ یا قانون کو حالات کے مطابق تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ زمانے کی مجبوریوں کے ماتحت بعض اسلامی مکاتب فکر نے یہ گنجائش نکالی کہ اجتہاد کی اجازت ہے، لیکن یہ اجازت بھی عام مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ صرف علماء کو ہے۔ اور علماء کے لئے شرائط کڑی ہیں۔ جبکہ شیخ عبدالوہاب کے پیروکار تو اس حق پر بھی تحفظات رکھتے ہیں۔ چنانچہ عملاً اسلامی معاشرہ شدید دبائو اور دو دلی کا شکارہے۔ جس کے باعث ریاکاری زوروں پر ہے۔ ایک طرف اسلامی قوانین اور اعتقاد ہیں ، جن میں علما کے بقول کسی تبدیلی یا ترمیم کی گنجائش نہیں مثلاً قتل، زنا، چوری اور دوسرے فوجداری جرائم کی سزائیں اور غلام لونڈی وغیرہ کی اجازت۔ اسی طرح فنون لطیفہ اور موسیقی ، تصویر کشی، بُت تراشی کی ممانعت۔ دوسری طرف آج کی دنیا کے اصول و ضوابط ہیں جن میں اسلامی سزائوں کے لئے گنجائش نہیں اور لونڈی غلام کا تصور بھی جرم ہے۔ اسی طرح انفرادی حقوق اور جمالیات کے ایسے تصورات زوروں پر ہیں جن سے اسلام کراہت کرتا ہے۔ مسلم فرد اس دنیا میں عقیدہ اور عمل کے درمیان لٹکا ہوا ہے۔ لہٰذا اسلام کے یہ مختلف امتیازات باہم مل کر تبدیلی اور تنوع کے عمل کو روک دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ مدرسہ کے مہتمم سے لے کر مبتدی تک سب ایک ہی فکری اور جذباتی سانچہ میں ڈھلے ہوئے ملتے ہیں۔ یکسانیت کی یہ خواہش اتنی شدید ہے کہ احیائے اسلام کے لئے چلنے والی تحریک سے جو بھی شخص وابستہ ہوتا ہے سب سے پہلے اپنے حلیہ اور ظاہری انداز کو تحریک کے مقرر کردہ معیار کے مطابق ڈھالتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ میں دین دار مردوں اور عورتوں کا ایک مخصوص حلیہ اور آداب حتیٰ کہ لب و لہجہ یکسانیت کی اسی خواہش کا نتیجہ ہے۔
ایک اور مثال پاکستان کے شمالی علاقوں اور فاٹا کے قبائل کی ہے۔ چونکہ قبائلی طرزِ زندگی انسانی تہذیب کی ابتدائی اور کم ترقی یافتہ شکل ہوتی ہے، لہٰذا قبائلی نظام شدت کے ساتھ روایت پر انحصار کرتا ہے۔ اور چونکہ علم و فکر کا معیار ایسا نہیں ہوتا کہ فیصلے علم کی بنیاد پر کیے جائیں یا عقل اور دلیل کو اہمیت دی جائے، چنانچہ قبائلی نظام اجتماعی جبر کا نظام ہوتا ہے۔ یعنی چاہے فرد پر سردار کا جبر ہو یا نہ ہو روایت کا جبر اتنا مکمل اور آخری ہوتا ہے کہ اس سے فرد کا اختلاف واجب القتل حدوں تک خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ ایسے ہی قبائلی جبر میں رسول اللہ ﷺ کو شدید آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ حالانکہ اسلام نے چند بنیادی اصولوں کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ قبائل کے بہت سارے تعصبات اور میلانات کا احترام کیا۔ مثلاً جہاں بُت پرستی کو سختی سے مسترد کیا وہاں غلاموں اور لونڈیوں اور ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت بھی دی۔

شمالی قبائل اور تہذیبی نرگسیت

پاکستان کے شمالی علاقے بھی ابھی تک فاٹا کی طرح قبائلی روایات ہی سے وابستہ ہیں۔ تہذیب کی مادی یا جسمانی شکلیں قبائلی انسان کی زندگی کے بیرونی حصے میں داخل ہوئی ہیں۔ مثلاً کچے رستوں اور گھروں کی بجائے کنکریٹ نے لے لی ہو، تلوار کی جگہ جدید ہتھیار، دئیے کی بجائے بجلی کے بلب، ہاتھ سے بنے کپڑوں اور جوتوں کی جگہ فیکٹری کا مال آ گیا ہو، حکیم کی جڑی بوٹیوں کی جگہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ادویات چلتی ہوں۔ خچر اور گھوڑے کی بجائے گاڑیاں اس کا سامان اٹھانے لگی ہوں اور اس نے روزہ کالے اور سفید دھاگے کا فرق دیکھنے کی بجائے گھڑی کے ٹائم سے رکھ لیا ہو۔ لیکن اُس کا انسانی حلیہ اور تشخص ویسا ہی روایتی ہے جیسا صدیوں پہلے تھا یا کم سے کم ایسا حلیہ قائم رکھنے کی خواہش ایک طاقتور قوت ہے۔ اگرچہ دنیا کی جدید ترین موٹر جیپ پر سوار یہ قبائلی انسان دنیا کے جدید ترین منی کمپیوٹر فون پر امریکہ کے کسی مافیا چیف کو ہیروئن کے نئے بھائو سے آگاہ کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، مگر یہ وہی انسان ہے جو تین سو برس پہلے اپنے خچر پر بیٹھا چین سے آئے ہوئے ریشم کا بھائو بتاتا تھا۔ اور وقت آنے پر یہ شخص اپنے قبائل کے اس لشکر میں شامل ہو جاتا تھا جو سرزمین ہند کو فتح کرنے نکلا تھا، اس بنیاد پر کہ ہندوستان میں کافروں کے چنگل میں پھنسے ہوئے مسلمان اپنے بہادر اور غیرت مند پٹھان بھائیوں کو مدد کے لئے پکارتے تھے، یا اس سے بھی قبل اس بنیاد پر کہ ہند کی بُت پرست سرزمینوں میں اُگتی خوشحالی اللہ کے بندہ صحرائی یا مردِ کوہستانی کو پکارتی تھی۔
دنیا بھر میں قبائلی معاشرے پچھلی صدی کی ہمہ گیر تبدیلیوں سے متاثر ہوئے ہیں۔ پاکستان کے شمال کے قبائل یا پھر انڈونیشیا اور افریقہ کے مسلم قبائل کو چھوڑ کر دنیا میں شاید کسی ایسے قبائلی علاقہ کی کوئی ایک بھی مثال موجود نہیں جہاں قبائلی تشخص اپنی خالص شکل میں رہنے کے لئے جدید تہذیب سے جنگ لڑ رہا ہو۔ چین کے دو قبائلی یا نیم قبائلی علاقوں یعنی تبت اور سنکیانگ میں سے صرف سنکیانگ میں پرتشدد قبائلی تشخص کے کچھ واقعات سننے میں آئے ہیں۔ آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ ، افریقہ کے ان گنت قبائل، چین کے شمال اور مغرب کے قبائل، منگولیا کے قبائل اور لاطینی امریکہ کے انکا مایا قبائل پچھلی دو صدیوں کے درمیان بالخصوص بیسویں صدی میں، عالمی معاشرہ میں داخل ہوئے ہیں۔ خود پاکستان کے شمال میں وادیٔ ہنزہ کے قبائل نہایت پرامن انداز سے اپنی بعض خوبصورت تہذیبی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے جدید دور کو قبول کر چکے ہیں۔ جبکہ پاکستان کے شمال اور افغانستان کے جنوب میں آباد قبائل منفرد ہیں کہ دنیا کے خلاف حالتِ جنگ میں ہیں ۔ یہ دلچسپ ہے کہ دنیا کے ساتھ منافع بخش لین دین میں اِن قبائل نے بے حد مستعدی دکھائی ہے اور یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ برصغیر میں اِن کے مقابلے کی کاروباری استعداد شاذو نادر ہی نظر آتی ہے۔ اِن قبائلیوں کی ثقافتی پسماندگی اور کاروباری استعداد کو دیکھ کر یہ نظریہ باطل ہوتا نظر آتا ہے کہ دنیا بھر کے جدید معاشروں کی تعمیر و تشکیل میں تجارت کا کوئی نمایاں کردار رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ جنگِ مزاحمت ہے ، جو دنیا کی ایک استعماری قوت کے خلاف اپنی روایات کے تحفظ کے لئے لڑی جا رہی ہے۔ لیکن اس خیال کا تنقیدی جائزہ لینا نہ صرف ممکن بلکہ ضروری ہے۔ اولاً یہ درست نہیں کہ حملہ آور صرف امریکہ ہے۔ یہ کئی ممالک کا اتحاد ہے۔ دوسرے یہ کہ 1978ء سے1988ء تک اسی استعماری قوت کی مدد اور رہنمائی سے لڑی جانے والی جنگ میں یہ پاکستانی اور افغانی قبائل نہایت سرگرمی اور وفاداری سے شامل تھے۔ روس سے پہلے برطانیہ سے اسی قبائلی افغان تہذیب کا تصادم کئی عشروں تک جاری رہا تھا۔ یعنی ان مختلف جنگوں میں ان قبائل کا رویہ جدید تہذیب کے خلاف نفرت کا رہا ہے جسے مزاحمت یا اپنی روایات کا تحفظ بھی کہا جاتا رہا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ امان اللہ خان سے جنرل دائود تک کے ادوار میں جب افغان قوم نے برطانیہ، امریکہ اور روس کی اس جدید دنیا میں تبدیلی کے مختلف مراحل طے کیے تو آزاد قبائل نے نہ تو افغانستان کی جدت پسندی کے خلاف بغاوت کی نہ ہی پاکستان کے دن بدن پھیلتے ہوئے طرزِ حیات سے کوئی شکایت سامنے آئی۔ حالانکہ پشاور سے ملحقہ باڑہ بازاروں اور قبائلی علاقوں کی آٹو موبائل منڈیوں میں سمگلنگ اور سودخوری کا نظام زوروں پر تھا اور پاکستان کے بڑے شہروں کی بیگمات ہر طرح کے لباسوں میں ملبوس یہاں خریداری کرنے آتی تھیں۔ سوات ، دیر، حترال اور پختون خواہ صوبہ کے شمالی شہروں میں دنیا بھر کے مسافر اور ٹورسٹ آتے تھے جن میں نیم برہنہ ٹانگوں والے مغربی جوڑے بھی شامل ہوتے تھے۔ اُدھر ظاہر شاہ اور جنرل دائود کے افغانستان کا شہر کابل جدید تہذیب و تمدن کا مصروف مرکز تھا۔ سینما ہال تماشائیوں سے بھرے ہوتے تھے، جہاں بھارت اور ہالی ووڈ کی فلموں کی نمائش معمول کی بات تھی، بازاروں میں خواتین باپردہ بھی تھیں اور بے پردہ بھی۔ سکول، کالج لڑکوں کے بھی تھے اور لڑکیوں کے بھی۔ ہوٹل اور ریستوان ، ٹرانسپورٹ، ہوائی جہاز سب کچھ عالمی معیار کا تھا اور کسی سماجی جبر کے بغیر تھا۔ یعنی اگرچہ فاٹا کی قبائلی روایات میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی، تاہم اِن قبائل کو پاکستان اور افغانستان میں بدلتی ہوئی دنیا سے کوئی پرخاش بھی نہ تھی۔
ایک اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ صدیوں سے یہ قبائل برصغیر کی زرخیز زمینوں اور خوشحال شہروں کو فتح کرنے آتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ برطانوی ہند کے دو سو سال سے پہلے تقریباً ہمیشہ جاری رہا۔ جب بھی اِن قبائل کے لوگ برصغیر آئے تو اکثر اوقات یہاں آباد ہوئے، یہاں کی ہندوستانی تہذیب کا حصہ بنے اور ایسا دیکھنے میں نہیں آیا کہ اِن لوگوں نے یہاں کی تہذیب میں اپنے قبائلی نظام کو نافذ کرنے کی کوشش کی ہو۔ افغان جنگ کے دوران تیس لاکھ افغانی قبائلیوں نے سرحد پار کر کے پاکستان میں پناہ لی۔ اِن میں سے لاکھوں ایسے تھے جو پاکستان کے شہروں میں بکھر کر مستقل طور پر آباد ہو گئے اور جدید تہذیب کا حصہ بن گئے (یعنی جتنی بھی جدید پاکستان کی تہذیب ہے اتنا ہی)۔ بے شمار افغان اور قبائلی ایسے ہیں جو دنیا کے جدید ترین معاشروں میں آتے جاتے اور آباد ہوتے رہے ہیں۔ صرف ایک نسل کی زندگی کے محدود عرصہ میں آنے والی اِن بنیادی تبدیلیوں سے ان لوگوں کو دقت نہیں ہوئی، حتیٰ کہ امریکہ ، یورپ اور روس میں آباد یہ لوگ کسی بڑی الجھن کا حصہ نہیں بنے۔
ان حقائق پر غور کرنے سے غالباً یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ قبائلی فرد جب دوسرے معاشروں میں داخل ہوتا ہے تو قبائلی آمریت سے نکل آنے کے باعث ایک مختلف تشخص اُس کے لئے ممکن ہو جاتا ہے، جبکہ قبائلی نظام کی اجتماعی نرگسیت اسے تبدیل ہونے سے روکتی ہے۔ جہاں اجتماعی جبر کا عنصر کمزور ہو جائے وہاں اجتماعی تبدیلی بھی ممکن ہو جاتی ہے ۔ یعنی اگر قبیلہ یا قبائل کسی بڑی تہذیب کے زیر اثر آ جائیں یا ماتحت ہو جائیں، تو اجتماعی طور پر تبدیل ہوسکتے ہیں۔
ہم نے اوپر کے صفحات میں ایسے قبائل کا ذکر کیا جو قبائلی اجتماعیت کے باوجود تہذیب کا حصہ بن گئے یا بنتے جا رہے ہیں، جن میں افریقہ کے بہت سے قبائل، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ اور لاطینی امریکہ کے قدیم باشندے اور چین کے سفید ہن قبائل، منگولیا اور قازقستان کے خانہ بندوش قبائل شامل ہیں۔ قازقستان ، منگولیا اور چین کے ان قبائل میں مسلم قبائل بھی شامل ہیں جو انقلاب روس کے بعد یعنی بیسویں صدی کے چند عشروں میں جدید تہذیب کا حصہ بنے ہیں۔ قازقستان آج جدید معاشروں کی صف میں ہے، حالانکہ قازقستان کا کوئی شہر 1920ء سے پہلے موجود نہ تھا۔ اور 1970ء کے آتے آتے پورا قازقستان تقریباً 98 فی صد جدید طرزِ خواندگی سے فیضیاب جدید صنعتی شہروں کا ملک بن چکا تھا، جہاں انسانوں اور بالخصوص عورتوں کے حقوق اور معمولات کو جاپانی اور روسی مردوں اور عورتوں سے مشابہہ کہا جا سکتا ہے۔ اور یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ جدید تعلیم اور تہذیب و تمدن کے عمل میں شامل ہونے کے لئے قازقستان یا کرغستان کے قبائل کو کسی جبر سے گزرنا نہیں پڑا، بلکہ الماتا کی تاریخ میں بتایا جاتا ہے کہ 1920ء کے لگ بھگ لینن کی بیگم کروپسکایا کی قیادت میں قازق خواتین کو تعلیم دینے والی معلمات کو کئی برس قازق مردوں کے تشدد اور قتل و غارت گری کا سامنا کرنا پڑا تھا، جو چوری چھپے حملے کرتے تھے، کیونکہ انہیں عوامی تائید حاصل نہ تھی۔ اور اندازے کے مطابق لگ بھگ دو سو معلمات کو ان قبائلیوں نے قتل کیا۔
لہٰذا جہاں یہ درست ہے کہ قبائلی معاشرہ کی اجتماعی آمریت تبدیلی اور آمیزش کو روکتی ہے، وہاں یہ بھی سچ ہے کہ قبائلی معاشرے جدید تہذیب کا حصہ بنے ہیں اور بن سکتے ہیں۔ اور جدید دنیا سے ان کی آمیزش نہ صرف تاریخ کا حصہ ہے بلکہ جدید وقتوں میں ہو رہی ہے۔
پاک افغان قبائل کے خصوصی کردار کی بحث میں جہاں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ تاریخی اعتبار سے یہ قبائلی لوگ مہذب معاشروں کا حصہ بنتے رہے ہیں، کبھی فاتح کی حیثیت سے تو کبھی تارکینِ وطن کے طور پر، اور یہ بھی نظر آتا ہے کہ قبائل مجموعی حیثیت سے بھی جدید تہذیب کا حصہ بن سکتے ہیں، جبکہ نسلی طور پر ان افغان قبائل کے بھائی بند یعنی ازبک، تاجک اور قازق قبائل نے حال ہی میں جدید طرزِ حیات اپنائی ہے، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ پاک افغان قبائل کے سفر کا رخ جدید عالمی معاشرہ کی مخالف سمت میں کیوں ہے؟ کیا یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ یہاں امریکہ نے اپنی افواج اتار دی ہیں؟ ۔
پہلی قابل غور بات تو یہ ہے کہ امریکہ نے دنیا کے مختلف علاقوں میں فوج کشی اور مداخلت کی ہے۔ جاپان پر ایٹم بم گرائے، کوریا پر حملہ کیا، ویتنام میں بیس برس کی جنگ میں برٹرینڈرسل کے بقول اتنے بم گرائے کہ ہر ویتنامی کے حصے میں دو ٹن بم آئے، عراق پر 1990ء میں بموں کی بارش کے بعد اب کئی برس سے بڑی فوج کشی میں مصروف ہے۔ لیکن ان ممالک نے جدید تہذیب کے خلاف کوئی پروگرام پیش نہیں کیا۔ نہ ہی ان ممالک نے اپنے ارد گرد کے ممالک کو درہم برہم کرنے کا کوئی اقدام کیا۔ حالانکہ جب کوریا پر حملہ ہوا تو مشرق بعید کے کئی ممالک امریکہ کے حلیف تھے، ویتنام کی جنگ میں کمبوڈیا، لائوس ، تھائی لینڈ، ہانگ کانگ، تائی وان وغیرہ سبھی امریکہ کے حلیف بلکہ اڈے تھے۔ لیکن ویتنامیوں نے امریکہ کے خلاف جنگ مزاحمت کے دوران یا بعد میں ان میں سے کسی ملک کو تخریبی کارروائیوں کا نشانہ نہیں بنایا، نہ ان ملکوں کو ختم کر کے کوئی نئی ریاست قائم کرنے کا ارادہ کیا۔
دوسری بات یہ ہے کہ امریکی جارحیت سے پہلے کی تاریخ میں بھی افغان قبائل عالمی تہذیبوں سے ٹکراتے رہے ہیں۔ آریہ حملوں آوروں اور تاتاریوں کو چھوڑ کر باقی جتنے بھی حملہ آور برصغیر کی پرامن تہذیب کو درہم برہم کرنے آئے، تقریباً سبھی میں یہ قبائل شامل ہوتے رہے ہیں۔ ان قبائل نے چین کی تہذیب کو بھی کبھی قبول نہیں کیا۔ اور اگرچہ افغان اور تاجک قبائل نے قازقستانی قبائل کی طرح چینی تجارتی قافلوں پر مسلسل حملے نہیں کیے، تاہم ان کا رویہ بھی کبھی دوستی کا نہیں رہا۔ بلکہ چین کے مسلم آبادی والے جنوب مغربی علاقوں کے قبائل سے کہیں بڑھ کر یہ قبائل چین کی تہذیب سے مخالف سمت میں ہی چلتے رہے ہیں۔ ہندوستان کے طاقتور بادشاہوں نے مختصر عرصہ تک کابل اور قندھار پر بالادستی حاصل کی جس کا مقصد خالصتاً مدافعانہ یا پیش بندی کا رہا ہے، یعنی ان قبائل کو حملوں سے روکنا۔ لیکن یہ علاقے جدید صنعتی قوموں سے پہلے بھی ہر تہذیب سے متحارب رہے ہیں۔

نرگسی طیش

پاک افغان قبائل کی موجودہ جنگ صرف اپنی قبائلی روایات کے تحفظ کی جنگ مزاحمت نہیں۔ یہ جنگ اس تہذیبی نرگسیت کا پھل ہے، جس کا ایک رد عمل طیش کی صورت اختیار کرتا ہے۔ مریضانہ نرگسیت کا شکار فرد جب اپنے کسی مقصد میں ناکام ہوتا ہے تو وہ کبھی یہ سوچنے پر آمادہ نہیں ہوتا کہ اس کا مقصد کہاں تک مناسب اور کہاں تک نامناسب تھا، یا یہ کہ دوسروں کو اس کے مقصد سے کیا اختلافات ہو سکتے ہیں۔ بلکہ وہ زخمی شیر کی طرح حیوانی ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ اس کا ردعمل ہمیشہ خونخوار وحشی کی طرح طیش کا ہوتا ہے جیسے جانور استدلال کو سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے اور محض فطرت کے مطابق حرکت کر سکتا ہے، اسی طرح نرگسیت کا مریض اپنی زخم خوردگی پر صرف غیظ و غضب اورجارحیت کا اظہار کرتا ہے، کیونکہ نرگسیت کے تکبر میں مفاہمت، برابری اور جمہوری رویوں کی کوئی جگہ نہیں۔
مریضانہ نرگسیت کی اس شکل کی ایک مثال ملاحظہ کریں، جو ایک حقیقی واقعہ پر مبنی ہے۔ ایک زیر تعمیر فیکٹری میں کام ہو رہا ہے، سامان بکھرا پڑا ہے، کام کے ایک سیکشن کا فورمین دوسروں سے زیادہ مستعد دکھائی دے رہا ہے۔ اس کی شہرت ہے کہ اسے اپنے ہنر اور صلاحیتوں پر بہت ناز ہے۔ اکثر اپنے کام کی داد طلب کرتا ہے اور خود کو اپنے ہم پیشہ لوگوں سے زیادہ معتبر اور ماہر سمجھتا ہے۔ یہ اٹھلاتا ہوا اپنے دو ماتحت کارکنوں کے ساتھ باتیں کرتا ہوا زور زور سے ہاتھ ہلاتا ہوا جا رہا ہے۔ اچانک اس کا ہاتھ ایک ابھرے ہوئے لوہے کے کالم سے ٹکراتا ہے۔ یہ چوٹ سے بلبلا اٹھتا ہے۔ شدید طیش میں لوہے کے ستون کو پائوں سے ٹھوکر مارتا ہے۔ پائوں زخمی ہو جاتا ہے۔ چنگھاڑتا ہوا ساتھ والے کارکنوں کو گالیاں دیتا ہے کہ انہوں نے اسے باتوں میں لگا رکھا تھا حالانکہ باتیں یہ خود کر رہا تھا، جس کی وجہ سے یہ سب ہوا۔ ایک کارکن کی ہنسی نکل جاتی ہے۔ فورمین چنگھاڑتا ہوا اس پر ٹوٹ پڑتا ہے اور لوہے کے ایک راڈ سے اسے زخمی کر دیتا ہے۔ فورمین کے ساتھ پھر کیا ہوا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
یہ مریضانہ نرگسیت کی واضح شکل ہے۔ انفرادی مریضوں کا علاج ممکن ہے لیکن ہمیشہ مشکل یہ ہوتی ہے کہ مریض خود کو مریض نہیں مانتا، کیونکہ نرگسیت کے مریض عموماً نہایت ذہین اور اعلیٰ درجہ کے اداکار ہوتے ہیں۔ اپنے مرض کا اعتراف کرنے کی بجائے یہ مریض اپنے نقاد پر جوابی الزام عائد کرتے ہیں اور تقریباً سو فیصد یقینا الزام یہ ہوتا ہے کہ نقاد حاسد ہے۔
تہذیبی نرگسیت میں اجتماعی فخر اور اجتماعی طیش کی شکلیں ابھرتی ہیں۔ جنوبی افغانستان میں طالبان نے اس فخر کے ساتھ حکومت قائم کی کہ ان کے پاس وہ ہدایت اور صلاحیت ہے جو کسی اور کے پاس نہیں، یعنی قرآن و حدیث پڑھ لینے کے بعد انہیں اور کسی علم کی ضرورت نہیں اور ان کے پاس اسلام ایک ایسے لائسنس کی طرح ہے جس کی رو سے انہیں دوسروں پر ہر طرح کا جبر کرنے کا حق حاصل ہے۔ چنانچہ انہوں نے جبر اور تشدد کے ذریعے دین کو نافذ کیا۔ ریش اور صلوۃ کے جبری نظام کے تحت لوگوں کی حاضری اور معائنہ پریڈ کا نظام، لڑکیوں کے سکولوں کا خاتمہ، دو گواہوں کی بنیاد پر فوجی عدالتوں کے طرز پر سزائیں، دونوں صنفوں کے درمیان شدید امتیاز اور عدم مساوات کے ضابطے نافذ کیے۔ پھر تہذیبی فخر کے نشے میں غیر افغان عناصر کو افغان قوم پر مسلط کر دیا ، جن میں القاعدہ کی عرب قیادت کو مرکزی حیثیت دی گئی، حالانکہ عربوں کے اس تعصب سے دنیا واقف ہے کہ وہ غیر عرب کو شہریت اور حکومت کا حق دینا تو کجا، اپنے ریگستانوں کی ریت پھانکنے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ القاعدہ کی اونچی پروازوں میں امریکہ کو فتح کرنا بھی شامل تھا۔ چنانچہ جب امریکہ کے ٹریڈ ٹاور نشانہ بنے تو طالبان نے بلاتاخیر اس کا تمغہ اپنے سینے پر سجا لیا۔ یہ تہذیبی نرگسیت کا وہ مرحلہ تھا جہاں فورمین اپنے ہاتھ زور زور سے ہلاتا ہوا اٹھلا رہا تھا۔ لیکن جب امریکہ نے حملہ کر کے فورمین کو زخمی کر دیا تو فورمین اس بات کے لئے تیار نہیں ہوا کہ اپنی ماضی قریب کی حکمت عملی یا طرز عمل پر نظر ثانی کرے اور انکسار ، مساوات یا جمہوریت کے کسی اصول سے اپنے اور دوسروں کے مفادات میں توازن کا رستہ نکالے، کیونکہ شیر ایسا کرنے سے فطرتاً معذور ہے۔ فورمین یا شیر اپنے فطری طیش میں پاکستان کے نظام اجتماعی کو درہم برہم کرنے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا، کیونکہ اس نے فورمین کو زخمی کرنے والے لوہے کو روکا کیوں نہیں۔
چند روز پہلے ایک پرائیویٹ چینل پر طالبان زیر بحث تھے ۔ امریکی حملوں کے دوران معصوم قبائلیوں کی اموات پر بات ہو رہی تھی۔ ایک شخص نے کہا کہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ طالبان ان معصوم قبائلیوں کی انسانی ڈھال کا استعمال کرتے ہیں۔ اس پر ایک شخص نے یہ لطیفہ سنا دیا کہ کیسے ایک مجاہد اپنی برقعہ پوش بیوی کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا، کسی نے اس منظر سے یہ سمجھا کہ یہ عورت کو عزت دینے کا کوئی انداز ہے۔ اس نے مجاہد سے پوچھا خان صاحب آج تو آپ پیچھے اور بیگم صاحبہ آگے ہیں ، اس کا باعث کیا ہے؟ تو مجاہد نے اپنی مردانہ غیرت کا تحفظ کرتے ہوئے کہا دراصل آگے مائن بچھی ہوئی ہے اس لئے بیگم کو آگے بھیجا ہے۔ یہ بظاہر ایک معمولی اور مہذب لطیفہ تھا لیکن طالبان کی نمائندگی کرنے والے ایک شریکِ گفتگو مفکر کا چہرہ تن گیا، لہجہ گہرا ہو گیا اور انہوں نے آنکھوں کو ایک زاویہ دے کر کہا دیکھیں مذاق نہ اڑائیں۔ یہ فورمین کے طیش کا وہ حصہ ہے جو ہنسنے والے کو نصیب ہوتا ہے۔
نرگسی طیش کی ایک علامت یہ ہے کہ اس کے مریض دنیا کے ہر اس شخص کا بہ آوازِ بلند مذاق اڑاتے بلکہ گالی دیتے سنائی دیں گے جو ان کی تہذیبی اجتماعیت پر پورے نہیں اترتے یا باہر ہیں یا مخالف ہیں، چاہے یہ ملکوں کے صدور ہوں، سیاسی رہنما ہوں، عالمی مفکر ہوں، چاہے خواتین ہوں۔ انہیں بے وقار کرنے کے لئے بنائے گئے لطیفے ، سکینڈل اور کہانیاں تواتر سے نشر کی جائیں گی۔ لیکن ہر وہ شخص تمسخر سے ماورا اور تقدس کے مقام پر فائز نظر آئے گا جسے تہذیبی نرگسیت کی رکنیت حاصل ہے۔

چت بھی میرا پٹ بھی میرا

مریضانہ نرگسیت کی ایک اور علامت یہ ہے کہ مریض چت بھی میرا پٹ بھی میرا کے اصول پر عمل کرتا ہے۔ اپنے ارد گرد باصلاحیت شخص سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے اس کے خلاف کردار کشی یا تذلیل و تحقیر کی مہم چلاتا ہے۔ اس عمل میں وہ عام اخلاقیات کے برعکس اپنی فضیلت اور صلاحیت کا طرح طرح سے بیان کرتا ہے۔ اس بیان کی نفاست یا کثافت کا انحصار فرد کی تہذیبی اور فکری سطح پر ہے۔ تاہم یہ واضح ہے کہ فضیلت کا یہ اظہار صاف دکھائی دیتا ہے۔ وہ کبھی اپنی کوتاہی ، کمزوری کا اعتراف یا اپنے کسی جرم کا اقبال نہیں کرتا۔ لیکن اگر اس کا حریف اپنی کوتاہی کا اعتراف یا جرم کا اقبال کرے تو یہ اس بات کو اخلاقی جرأت کے طور پر لائقِ تحسین ہرگز قرار نہیں دیتا بلکہ لپک کر اس اقرارکو اپنی پاکبازی اور مزید فضیلت کا ثبوت بنا لیتا ہے۔
تہذیبی نرگسیت میں اس کی صورت اس طرح سے ہے کہ ہم اپنی ثقافت، اپنے مذہب، اپنے آبائو اجداد غرضیکہ جس کا بھی تذکرہ چل پڑے، ہر ایک کی فضیلت بیان کرنے میں کسی احتیاط یا انحصار کو ضروری نہیں سمجھتے۔ آئے دن نئے نئے حضرت اور مولانا اور پیر اور مرشد پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اپنی تعریف میں ہمیں کوئی دوڑ کوئی واقعہ افسوسناک نظر نہیں آتا۔ اگر ہم نے دنیا فتح کی ، قوموں کوذمّی بنایا، غلام رکھے، لونڈیاں رکھیں، اگر ہمارے محترم عرب رہنما آج بھی دنیا بھر سے غلام اور لونڈیاں خریدتے اور حرم بھرتے ہیں تو ہمیں کسی خفت کا سامنا نہیں۔ مگر ہم امریکہ، یورپ ، بھارت اور اسرائیل کی عریانی ، بے حیائی، بدکاری، ظلم، وحشت و بربریت کی مثالیں گنواتے بس نہیں کرتے۔ اگر امریکی ڈرون طیاروں کے حملوں میں چند معصوم قبائلی مارے جائیں تو اس کے انتقام کے طور پر سینکڑوں بے قصور پاکستانیوں کا قتل اس لئے جائز قرار دے دیا جاتا ہے کہ یہ ہماری تہذیبی مظلومیت کا انتقام ہے۔ اس میں پاکستان کے مظلوم کم مظلوم ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کے مقابلے میں مجاہد قبائلیوں کا مقام بالاتر ہے۔ تقدس اور مظلومیت کی طویل داستان گوئی کا اندازہ لگانے کے لئے صرف چند اقتباسات یعنی دیگ میں سے چند چاول ملاحظہ ہوں (یہ اقتباسات ڈاکٹر اسرار احمد کے مضمون ’’علامہ اقبال، قائد اعظم اور نظریہ پاکستان‘‘ سے لیے گئے ہیں جو نوائے وقت 23 اکتوبر 2008ء میں شائع ہوا)
اقتباس 1۔ ’’ مسلمان حاکم تھے، جبکہ یہاں (ہندوستان) کے دوسرے ابنائے وطن محکوم تھے… لیکن حضرت اورنگ زیب عالمگیر کے انتقال کے بعد زوال کا عمل شروع ہوا‘‘۔
یعنی حاکم ہونا عروج ہے اور اس منصب سے اترنا زوال۔ اور دوسرے ابنائے وطن کی ترکیب پر غور کریں یعنی یہ بھی دعویٰ ہے کہ مسلمان بھی وطن کے بیٹے تھے حالانکہ وطنیت کو اسی مضمون میںبُت پرستی بھی قراردیتے ہیں۔ جہاں تک حضرت کا تعلق ہے یہ وہی حضرت اورنگ زیب عالمگیر ہیں جنہوں اپنے والد یعنی شاہجہان سے حکومت چھین کر اسے کوئی فرد جرم عائد کیے بغیر تاحیات قید میں رکھا، تخت و تاج کے لئے اپنے تین بھائیوں کو قتل کیا یعنی یہ ثابت ہے کہ ان پر کسی جرم کا الزام نہ تھا سوائے اس کے وہ اقتدار کے شریک امیدوار تھے۔ اور اسی اقتدار کے لئے پورے ہندوستان میں کئی عشروں تک فوج کشی کی۔ اپنے بھائی دارا شکوہ کے قتل کے بعد اس کے مرشد سرمد کو عریانی کی سزا میں قتل کروا دیا حالانکہ یہ بات اکثر محققین نے بیان کی ہے کہ سرمد کا قصور صرف اورنگزیب کی فکری مخالفت تھا اور اسی وقت میں ہندوستان کے شہروں میں سرمد کے علاوہ سینکڑوں مجذوب اور ننگے فقیر موجود تھے جو سب سلامت رہے۔ لیکن غور کریں اس مغل بادشاہ کو حضرت اس لئے کہا جا رہا ہے کہ اس نے شخصی اور خاندانی اقتدار کو مضبوط کرنے کے لئے اسلام کا نام استعمال کیا اور شاہ پرست مسلم علماء کو مراعات دے کر اپنی مرضی کے فتوے تیار کروائے۔ فتووں کا مجموعہ فتاویٰ ٔعالمگیری کے نام سے جاری کیا گیا جس سے مسلم نرگسیت پرستوں کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ انہوں نے ہندوستان میں اسلامی شریعت کا بول بالا کرنے کے لئے حکومت کی، نہ کہ اقتدار کے لیے۔ اورنگزیب کو تقدس دینے کا سلسلہ یوں تو برصغیر کے شاہ پرست مسلم علماء میں دیر سے چل رہا ہے، تاہم خون میں بھیگی ہوئی تلوار کو قوسِ قزح کہنے کا عمل جنرل ضیاء کے دور میں خصوصاً تیز ہوا، کیونکہ موصوف خود بھی ایسی ہی ٹیڑھی تلوار تھے جو جھک جھک کر اور لچک لچک کر پاکستان کے مستقبل کو کاٹ گئی۔ دونوں حضرتوں میں غالباً یہ قدر مشترک تھی کہ دونوں نے اپنے طویل دورِ اقتدار میں اپنی اپنی مملکتوں کو فیصلہ کن زوال کی راہ پر روانہ کیا۔ لیکن اس دعوے کے ساتھ کہ اسلام کسی علاقائی سرحد کا پابند نہیں۔
اقتباس 2۔ ’’(انگریز) سے پہلے چونکہ شمشیرو سناں کا معاملہ چل رہا تھا، تو گئے گزرے حالات میں بھی مسلمانوں کا پلڑا بھاری تھا…
’’اب تلوار تو نیام میں چلی گئی اور صرف تعدادِ نفوس کا معاملہ رہ گیا۔ لہٰذا ہندوئوں کی عددی اکثریت سے مسلمانوں میں خفیف سا خوف پیدا ہونا شروع ہوا کہ جن پر ہم نے آٹھ سو برس حکومت کی ہے، یہ اب ہم سے انتقام لیں گے…
’’ انگریزی حکومت کے خلاف ہندوئوں اور مسلمانوں کے ردعمل میں فرق تھا۔ ہندوئوں کا معاملہ یہ تھا کہ وہ پہلے بھی غلام تھے، اب بھی غلام ہو گئے… لیکن مسلمانوں کے لئے بہت زیادہ صدمے اور غم کا معاملہ تھا… لہٰذا تحریک شہیدین شروع ہوئی… تاکہ ہندوستان کو ازسرنو ہندوئوں کے غلبے سے بھی اور انگریز کے غلبے سے بھی نجات دلائی جائے اور دارالسلام کا جو سٹیٹس چلا آ رہا تھا اسے بحال کیا جائے‘‘۔
تہذیبی نرگسیت اور تکبر ایسی کیفیت ہے جس میں اپنے گناہ بھی ثواب نظر آتے ہیں۔ موصوف محترم خود ہی تلوار کو مسلمانوں کی برتری کا سبب کہہ رہے ہیں، لیکن اگر کوئی کہے کہ مسلمانوں نے جبر سے حکومت کی تو شدید احتجاج کے بعد کہا جائے گا کہ مسلمان اس لئے آٹھ سو برس حکمران رہے کہ ان کا کردار، علم، نیکی اور انسان دوستی کا جواب نہ تھا۔ حالانکہ اسی تلوار کے زور سے ہند کو دارالسلام بنانے کا بیان ہمارے سامنے ہے۔ ہندوئوں کو آٹھ سو برس غلام رکھنا اور دوبارہ غلام بنانے کا عزم کسی صدمے اور غم کا معاملہ نہیں، کیونکہ ہندوئوں کو تو غلام ہونے میں مزا آتا ہے۔ لیکن مسلمانوں کا اقتدار سے محروم ہونا ’’بہت زیادہ صدمے اور غم کا معاملہ‘‘ ہے۔ اور دارالسلام کا لفظ بھی قابل غور ہے۔ یعنی مسلمان بادشاہوں اور ہر طرح کے مسلمانوں کا حکمران ہونا اسلام ہے۔ یعنی حکمِ الٰہی کی تکمیل ہے، دینی درجہ کی سعادت ہے۔ اور یہ کہ شمشیرو سناں کی مدد سے آٹھ سو برس تک اکثریت کو غلام رکھنا عین اسلام ہے۔ اور اس میں کسی معذرت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
جمہوریت اور دوسروں کی برابری سے نفرت بھی نرگسیت کی ایک علامت ہے۔ تہذیبی نرگسیت میں ایسا بالکل فطری ہے کہ مریض کو اپنے مندرجہ ذیل بیان میں کوئی غلطی نظر نہیں آتی۔
(ا) ’’ وہ ہم سے زیادہ قابل ہیں لیکن اگر انہوں نے ہم سے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو ہم تلوار سے ماریں گے۔ (ب) ہم علم و ہنر میں پیچھے ہیں اور تعداد میں کم، وہ علم و ہنر میں بہتر اور تعداد میں زیادہ، لیکن جمہوریت اسی لیے غلط ہے کیونکہ اس میں تعدادِ نفوس کا معاملہ ہے یعنی بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔(ج) ہم تعدادِ نفوس میں کم ہیں لیکن میرٹ میں اعلیٰ ہیں لیکن وہ علم و ہنر میں ہم سے آگے ہیں لیکن تلوار چلانے میں ہم ان سے تگڑے ہیں ، لہٰذا تلوار چلانا میرٹ ہونی چاہیے‘‘۔
نرگسیت میں چت بھی میرا اور پٹ بھی میرا ہوتا ہے ۔ یہی معاملہ تہذیبی نرگسیت کا ہے۔ جس تہذیب سے ہمارا تعلق ہے اسے تمام حقوق حاصل ہیں۔ جو دوسروں کو ہرگز نہیں دئیے جا سکتے۔

تلون مزاجی

نرگسیت میں مریض کسی اصول کا پابند نہیں ہوتا۔ اسے اپنی خواہشات اور پیش قدمی کے لئے جو بھی موزوں لگے، کر گزرتا ہے۔ مثلاً اگر اسے اپنی طاقت پر اعتماد ہے تو وہ طاقت کو میرٹ قرار دے گا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے اگر اس کا حریف طاقتور ہوتا نظر آئے تو وہ طاقت کے استعمال کو ظلم اور بربریت قرار دے کر اپنی کمزوری کو میرٹ قرار دے گا۔ یا اگر اس کا حریف وطن اور قوم کے تصورات کا پرچار کر رہا ہے تو وہ قومی وطنیت کو بدترین گناہ اور ابلیسی فلسفہ کہے گا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے اگر اسے کسی علاقہ پر حکومت حاصل ہونے کی امید دکھائی دے تو وہ قومی وطنیت کے اصول کو حکمِ خدا وندی قرار دے گا۔ مندرجہ ذیل اسی فنکارانہ متلون مزاجی کی مثالیں ہیں:
اقتباس 3 ۔’’ چونکہ ہندوئوں کے لئے بھارت ماتا نہایت مقدس تصور ہے اور الگ وطن کا مطالبہ کر کے مسلمان گویا بھارت ماتا کو ٹکڑے کرنا چاہتے تھے، لہٰذا ہندوئوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت اور دشمنی پیدا ہو گئی۔ اور اس دشمنی کا ظہور تقسیم ہند کے وقت ہوا۔ چنانچہ مسلمانوں کا قتل عام ہوا، انسان بھیڑیوں سے بڑھ کر سفاک بنا۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو نیزوں میں پرویا گیا، لاکھوں عورتوں کی عصمت دری ہوئی، بے شمار عورتیں اغوا ہوئیں، لاکھوں آدمی قتل ہوئے…‘‘۔
تقسیم ہند کے مرحلہ پر قتل و غارت گری اور معصوم بچوں اور عورتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم بے شک انسانی تاریخ کے بدترین واقعات میں شمار کیے جائیں گے۔ قدامت پسند ہندوئوں کے جتھے آج بھی اسی مکروہ مقصد کے لئے کام کر رہے ہیں۔ لیکن ان مکروہ اور وحشیانہ اقدامات پر مؤثر تنقید خود بھارت کے دانشور ہی کر سکتے ہیں، اور وہ یقینا ایسا کر رہے ہیں، اور ہندوستان کے آئین نے سیکولر نظام کے ذریعے حتیٰ المقدور ہندو تہذیبی نرگسیت کو کمزور کرنے یا صحت کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی ہے۔ نرگسیت کے مریض مسلم مفکرین کا طیش صرف ان الجھنوں کو بڑھانے اور مزید الجھنیں پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ انسانی معاشروں کی نشوونما کا بہترین نسخہ انصاف اور غیر جانبداری ہے۔ عدل و انصاف عملی زندگی میں بھی ضروری ہے اور افکار میں بھی۔ فکری عدل کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ خود کو اسی طرح پرکھا جائے جیسے ہم دوسروں کو پرکھتے ہیں۔ جس معاشرے کے اہل فکر نرگسیت کا شکار ہوں وہ دوسروں کی رہنمائی کیسے کر سکتا ہے۔
اب اس اقباس پر ایک نظر ڈالیں جو اوپر درج کیا گیا ۔ اس سے پہلے ہندوستان پر حکمرانی کے لئے ڈاکٹر صاحب موصوف مسلمانوں کا شمشیرو سناں میں پلڑا بھاری ہونے کو اقتدار میں رہنے کا جواز بتا رہے تھے اور پرامن عددی اکثریت کی بنیاد پر اقتدار انہیں ناقابل قبول تھا۔ اب جب کمزور اور ڈرپوک بنیا تہذیب نے ہتھیار اٹھا لیے ہیں تو اب طاقت کا استعمال بھیڑیا پن ہو گیا ہے۔
ہماری تہذیبی نرگسیت کا نتیجہ ہے کہ ہمیں محمود غزنوی، تیمور، احمد شاہ ابدالی اور نادر شاہ کے ہاتھوں ہند کی پرامن آبادیوں کا قتل عام جائز لگتا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ کا احمد شاہ ابدالی کو خط لکھ کر حملہ کی دعوت دینا کہ وہ مرہٹوں کو تہ تیغ کر کے مسلمانوں کا جبر دوبارہ مسلط کرے جائز لگتا ہے، کیونکہ یہ سب مسلمان ہیں۔ لیکن اگر کوئی جوابی کارروائی میں ہتھیار اٹھائے تو ہم آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ ہم ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ نرگسیت کی بیماری میں اصولوں کا استعمال ہمیشہ اپنے حق میں کیا جاتا ہے۔
اگر مسلمان فاتحین دوسرے ملکوں پر حملہ آور ہو کر وہاں کی عورتوں کو اٹھا لائیں، لونڈیاں بنا لیں۔ حتیٰ کہ ان کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے بھی غلام رہیں تو اس کے حق میں ہم دلائل پیش کریں گے کہ اس کی فلاں ضرورت تھی اور فلاں فضیلت تھی۔ لیکن اگر کوئی دوسری قوم آٹھ سو سال کی غلامی کے بعد آزاد ہونے کے عمل میں چند روز ہماری عورتوں کی بے حرمتی کا ارتکاب کریں تو یہ انسانی فطرت کا ایسا خلل تصور کیا جائے گا جس کی کبھی معافی نہیں۔
اسی نرگسیت کی ایک تازہ مثال پاکستان کے فوجی مجاہدوں نے مشرقی پاکستان میں 1970-71ء میں پیش کی، جب وسیع پیمانے پر اپنی ہی بنگالی مسلم عورتوں کے اجتماعی ریپ کیے گئے۔ اس پر احساس جرم اس لئے نہیں تھا کہ تہذیبی تکبر حسِ انصاف کو ختم کر دیتا ہے۔ اور اخلاقیات کے عالمی اصول مر جاتے ہیں۔
قومیت کے سوال پر فکری تضاد دیکھیں:
اقتباس 4۔ ’’ اقبال نے ایک اور بہت بڑا کام جو کیا وہ ان کی طرف سے وطنی قومیت کی شدید ترین نفی ہے۔ اس لیے کہ اس وقت وطنی قومیت مسلمانوں کو اپنے اندر ہڑپ کرنے کے لئے پوری قوت کے ساتھ زور لگا رہی تھی۔ ہندوئوں نے وہ ترانہ بنایا جس میں زمین کی بندگی کا تصور ہے کہ بھارت ماتا ہم تیرے بندے ہیں۔ بھارت میں آج بھی مسلمانوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ سکولوں کے اندر یہ ترانہ پڑھیں اور مسلمان ابھی تک اس کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔‘‘
’’ اقبال نے وطنیت کی شدید ترین نفی کی‘‘
لیکن چند پیرا گراف کے بعد فرماتے ہیں
’’ اس وقت کے لئے اِن (علامہ اقبال) کی تجویز یہ تھی کہ ہندوستان میں ایک صوبہ بنا دیا جائے جیسے آج کا پاکستان ہے یا کچھ عرصہ ون یونٹ کے طور پر مغربی پاکستان تھا۔ برٹش انڈیا میں بھی ون یونٹ کی حیثیت سے ایک سٹیٹ بن جائے تاکہ اس علاقہ میں مسلمانوں کے اندر قومیت کلچر اور زبانوں کے تھوڑے بہت فرق کے باوجود مل جل کر رہنے سے ایک قوم کا تصور باقاعدہ پیدا ہو جائے۔ اسی لئے وہ کہتے ہیں ’لہٰذا میں ہندوستان اور اسلام کے بہترین مفاد میں ایک الگ مسلم ریاست کے بنانے کا مطالبہ کرتا ہوں‘ ‘‘۔
اس بیان میں تضادات کی بھرمار دیکھیں:
اقبال نے وطنی قومیت کے بُت کی شدید نفی کی۔ ایک وطن میں ایک قوم کا ہونا شِرک ہے۔ لیکن اقبال نے ایک صوبہ یا ون یونٹ مغربی پاکستان، یعنی ایک سٹیٹ، یعنی الگ مسلم ریاست کا مطالبہ کیا، کیونکہ ایک وطن میں ایک قوم کا ہونا بہت اچھی بات ہے اور اب یہ شِرک نہیں۔ آٹھ سو سال ہندوئوں کے وطن میں ہندوئوں کے ساتھ رہنا اچھی بات ہے، کیونکہ ہم حکمران ہیں ، لیکن ہندوئوں کے ساتھ ہندوستان میں رہنا شِرک ہے، بہت بری بات ہے، کیونکہ اب ہم حکمران نہیں ہوں گے۔ اسی طرح وطنی قومیت کا ترانہ کہ زمین کو ماں کہا جائے، بڑی خطرناک سازش تھی، جس کا مقصد مسلمانوں کو ہڑپ کرنا تھا۔ مسلمان کسی ارضِ وطن کے بُت کو نہیں مانتا، نہ زمین کو ماں مانتا ہے لیکن سرزمینِ حجاز ہماری آنکھ کا سُرمہ ہے ہمارا وطن ہے جس کی طرف لوٹ جانا ہماری آرزو ہے اور چاہے عرب اس کی اجازت دیں یا نہ دیں ہماری تمنا ہے کہ ہم وہیں دفن ہوں۔ عربوں کی وطنی قومیت پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ لیکن دنیا کی مہذب ترین اور انتہائی انصاف پرور قوموں کی وطنی قومیت قبول نہیں۔ مثلاً سویڈن، سوئزر لینڈ، ہالینڈ، فرانس ، جرمنی اور چین کسی بھی ملک میں مسلمان تارکین وطن آباد ہوں، ان کا حق اور فرض ہے کہ وہاں کی قومی وحدت کو چیلنج کرتے رہیں۔ ہر جگہ ان کا نظریہ یہ ہونا چاہیے کہ یہ ملک اسلام قبول کر کے ہمارے ماتحت آ جائیں، تو ان کی وطنی قومیت برحق ہو جائے گی، لیکن اگر ہم حاکم نہیں تو پھر ان کی وطنی قومیت ایک بُت ہے جسے توڑنا ہمارا حق اور فرض ہے کیونکہ ہم محمود غزنوی ہیں اور بُت ہمیں برداشت نہیں۔ ہاں اگر یہ ہمارے اپنے بُت ہوں تو پھر یہ پتھر نہیں بلکہ مرکز تقدیس ہیں۔ تہذیبی نرگسیت کے کئی درجے ہیں۔ پہلے درجے میں غیر مسلموں سے نام کے مسلمان اچھے ہیں۔ دوسرے درجے میں مسلمان معاشرہ کے اندر عام مسلمانوں کے مقابل تحریک اسلامی سے وابستہ مسلمان بہتر ہیں۔ تحریک اسلامی سے وابستہ مسلمانوں کے مقابلے میں تحریک کی قیادت بہتر ہے۔

احساسِ مظلومیت

نرگسیت کی ایک اور علامت سازش کا خوف اور احساس مظلومیت ہے۔ مریض کو لگتا ہے کہ لوگ اس کی عظمت سے خائف اور حسد کی حالت میں ہیں۔ چنانچہ اسے نقصان پہنچانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ لہٰذا وہ پوری طاقت اور استعداد سے ارد گرد کی دنیا کو اپنے ماتحت یا اپنے سے کم تر حالت میں رکھنا چاہتا ہے۔ جب لوگ اس کے اس جبر یا دبائو سے نکلنے کی کوشش کریں تو وہ شدت کا رستہ اختیار کرتا ہے، ہر ظلم کو جائز سمجھتا ہے۔ لیکن جب شکست ہو جائے تو شدید احساس مظلومیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ تنظیموں میں اعلیٰ مرتبہ پر فائز لوگ اگر نرگسیت کا شکار ہوں تو تنظیموں کے دوسرے کارکن شدید دبائو کا شکار ہوتے ہیں اور اس طرح بغاوتیں اور رسہ کشی معمول بن جاتا ہے۔ اگر ماتحت حالتوں میں ہوں تو خود رحمی اور خول بندی کا شکار نظر آتے ہیں اور اس جدوجہد میں لگے رہتے ہیں کہ تنظیم کا نظام درہم برہم ہو جائے، یا کم از کم تنظیم کی ترقی اور بہتری کے عمل سے لاتعلق ہو کر بدنظمی کا باعث بنتے ہیں۔ تہذیبی نرگسیت کا معاملہ بھی بہت حد تک ایسا ہی ہے۔ ہماری تہذیبی نرگسیت کا اظہار ہمارے تارکینِ وطن کے رویوں سے ہوتا ہے، یا ہمارے عوام کی قانون سے نفرت یا لاتعلقی اور اس کے نتیجے میں بدنظمی بازاروں سے لے کر سڑکوں کی ٹریفک تک دیکھی جا سکتی ہے۔ دوسری طرف ہمارے سیاسی رہنمائوں ، دینی علماء اور دانشوروں کے علاوہ سرکاری افسروں میں قول و فعل کا تضاد اور خودغرضی، خود پسندی اور بے اصولی اسی تہذبی نرگسیت کا وہ انداز ہے جو حاکم اور فائز لوگوں کی نفسیات میں دکھائی دیتا ہے۔ مولانا مودودی مرحوم کے بعد ڈاکٹر صاحب موصوف چونکہ اس نفسیات کی نمائندہ شخصیت ہیں اس لئے اُن کا ایک اور اقتباس دیکھتے ہیں۔
اقتباس 5۔ ’’ قائد اعظم نے فرمایا:’ اگر ہم پاکستان کے حصول کی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے تو ہندوستان سے مسلمانوں اور اسلام کا نام و نشان مٹ جائے گا‘… یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی بلکہ یوں سمجھئے کہ اس طرح ہسپانیہ کی تاریخ دہرائی جاتی۔ وہاں بھی مسلمانوں نے آٹھ سو برس حکومت کی تھی۔ لیکن پھر وہ وقت آیا کہ پندرھویں صدی کے آخر اور سولہویں صدی کے شروع وہاں مسلمانوں کا ایک بچہ تک باقی نہ رہا۔ سارے کے سارے مسلمان یا تو قتل کر دئیے گئے یا زندہ جلا دئیے گئے یا انہیں جہازوں میں بھر بھر کر افریقہ کے شمالی ساحل پر پھینک دیا گیا۔ وہاں غرناطہ کے محل اور مسجدِ قرطبہ اب بھی قابل دید ہے ، جو مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی تہذیب کا مرثیہ کہتے ہیں۔‘‘
’’ وہی معاملہ ہندوستان میں بھی ہو سکتا تھا۔ یہ قائد اعظم کے الفاظ ہیں جن کی میں تائید کرتا ہوں۔ اس لئے کہ اس وقت ہندو جارحیت اور تشدد پرستی اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی اور ہندو کے جذبات انتہا کو پہنچ گئے تھے۔ اور اس کے بعد یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی…
’’ ہندوستان میں مسلمانوں کو یہ خوف لاحق تھا کہ اگر ہندوستان ’ ایک فرد ایک ووٹ‘ کے اصول پر آزاد ہو گیا تو ہندو انہیں مٹا دے گا اور ختم کر دے گا…
’’ تو اللہ نے تمہیں جائے پناہ مہیا کر دی اور اپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمہیں پاکیزہ رزق پہنچایا تاکہ تم شکر کرو‘ ‘۔
جب ہم خود بھی تہذیبی نرگسیت کا شکار ہوں تو اس طرح کے بیانات ہمیں سچائی کے عین مطابق سنائی دیتے ہیں۔ بلکہ ہمارے نرگسی جذبات کو تسکین دیتے ہیں۔ لیکن اگر انسانوں کو برابر تسلیم کر لیا جائے تو معاملہ یکسر بدل جاتا ہے۔ مندرجہ بالا بیان میں مسلمانوں کی ہسپانیہ میں مظلومیت اور ہندوستان میں ممکنہ مظلومیت اس طرح بیان ہوئی ہے کہ جیسے مسلمان ہونا اس بات کے لئے کافی ہے کہ ہم لوگوں پر مسلط رہیں۔ لہٰذا ہم یہ سوال ہی نہیں پوچھتے کہ آخر اتنی طویل مدتوں تک ہسپانیہ یا ہندوستان میں رہنے کے باوجود ہم اِن ملکوں کے لوگوں سے الگ ایک مخلوق کیسے رہ گئے یا وہاں کے لوگ ہم سے الگ مخلوق کیسے رہ گئے۔ اور ایسا کیوں ہوا کہ نہ تو مسلمان ان سرزمینوں کے لوگوں کو پسند آئے نہ یہ لوگ مسلمانوں کو عزیز ہوئے۔ اگر حکمران اپنی رعایا کو عزیز رکھے تو رعایا حکمران سے نفرت پر قائم نہیں رہ سکتی۔ اگر رعایا حکمران سے نفرت کرتی رہے اور حکمران اس نفرت کو ختم کرنے میں ناکام ہوتا رہے تو حکمران کو رعایا کے کندھوں سے اتر کر تالیف قلب کی کوشش کرنی چاہیے، یا رعایا کے وطن سے نکل جانا چاہیے، جیسے جدید دور کے مغربی حکمرانوں نے کیا۔ انگریز دو سو برس حکومت کر کے گئے تو ان کا قتل عام نہیں ہوا۔ جو انگریز یہاں آباد ہوئے ابھی تک لوگوں کے درمیان پرامن طور پر زندہ ہیں۔ ہمارے ہاں نہیں کیونکہ یہاں تو ہمارے اپنے غریب عیسائی لوگ جنھیں ہم نے نفرت اور تحقیر کا نشانہ بنایا اور عیسائی ہوئے تو ہم انہیں عیسائیوں کی حیثیت سے برداشت نہیں کر پا رہے۔ حتیٰ کہ اپنے مسلم بھائی اگر فکری اختلاف کریں تو ملحد ، کافر اور گستاخِ رسول قرار دئیے جاتے ہیں۔ لیکن برصغیر ہند، سائوتھ افریقہ اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں انگریز نے حکومت کی۔ اس کے خلاف تحریکیں چلیں۔ افریقہ کے کتنے ہی ممالک پر فرانس نے حکومت کی اور تحریکوں کے نتیجے میں حکومت چھوڑی۔ اِن حکمران قوموں کے لوگ اپنی رعایا قوموں میں آباد ہوئے اور پرامن طور پر زندہ ہیں۔ مسلمانوں کو ہسپانیہ میں اگر ایسے وحشیانہ رد عمل کا سامنا کرنا پڑا تو اُن کی کوئی کوتاہی تو ہو گی۔ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے علمی کام کو نفرت سے بچا کر رکھنے والے دانشور بھی ہسپانیہ میں موجود تھے۔ اور مسجد قرطبہ اور غرناطہ کے محل سلامت ہونے کا بھی مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے مسلمان آقائوں سے بغاوت کی، وہ اچھائی اور تہذیب سے نفرت نہیں کرتے تھے ۔
فوری اور اہم سوال بھارت میں مسلمانوں کا ہے، جو ایک زندہ مسئلہ ہے اور ہماری نفسیات پر ابھی تک شدت سے اثر انداز ہے۔ ایک بات قابل غور یہ ہے کہ بقول ڈاکٹر صاحب ہندوستان میں مسلمانوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ وطن کا ترانہ گائیں اور مسلمان ابھی تک اس کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں کا بھارت میں سلامت موجود ہونا اور وہاں کی زندگی میں پورے حقوق کے ساتھ شریک ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندوستان میں ہسپانیہ والی صورت حال نہ تھی۔ جس خوف کا ذکر ڈاکٹر صاحب نے کیا ہے جو یقینا مسلمانوں کے مفاد یافتہ رئووسا اور مڈل کلاس میں تھا، اس کا سبب باہر سے زیادہ ہمارے اندر تھا۔ مسلمان برصغیر میں بھی باقی دنیا کی طرح ایک پسماندہ ہجوم تھے، جسے حکمرانی اور تلوار کا نشہ ایسا تھا کہ ذہن و فکر کام نہیں کرتے تھے۔ مذہبی اقتدار پر قابض دینی طبقہ طاقتور تھا اور مسلمانوں کی حکومت ختم ہونے کے باوجود ان کی زندگی پر اثرانداز تھا۔ اقتدار کی تمنا اور صلاحیتوں کا فقدان ایسے عوامل ہیں جو انسانی نفسیات پر بہت منفی اثرات ڈالتے ہیں۔ برصغیر میں مسلمانوں کے بھیانک انجام کی دھمکیاں دراصل ہمارے رئووسا اور دینی طبقوں کے ذہن کی ایجاد تھیں۔ حقیقت صرف اتنی تھی کہ ہندو نرگسیت کے کچھ مریضوں کی دھمکیوں اور ہمارے اقتدار پسند عناصر کے خدشوں کا حقیقی جواز کم تھا۔ ہاں اگر انگریز کا اقتدار نہ آیا ہوتا اور برصغیر میں ہندئووں کی کسی کامیاب تحریک کے نتیجہ میں مسلمانوں کا اقتدار ختم ہوتا تو قتل عام ہسپانیہ جیسا ہو سکتا تھا کیونکہ مسلمان ہمیشہ یہ اعلان کرتے آئے تھے کہ ہندوستان اُن کا وطن نہیں اور ان کی تمام تر وفاداریاں اعلانیہ طور پر سرزمینِ عرب سے تھیں ۔ لہٰذا تصادم اور قتل عام کا خطرہ ہو سکتا تھا۔ لیکن انگریز کے اقتدار کے کم سے کم سو برس نے صورتحال کی سنگینی ختم کر دی تھی۔ یعنی دو طرح سے نفرت کی شدت کم ہو گئی تھی۔ اول یوں کہ مسلمان حکمران نہ ہونے کی وجہ سے کسی براہ راست نفرت کا نشانہ نہیں رہے تھے اور دوسرے یوں کہ انگریز کے جدید طرزِ حکومت نے دونوں قوموں یعنی ہندوئوں اور مسلمانوں کو ایک نئے طرزِ حیات سے روشناس کرا دیا تھا۔ اس کے علاوہ علم و ہنر کی جدید تہذیب کے نتیجہ میں اندھے تعصبات کی شدت ویسی نہ رہی گئی تھی جیسی ہسپانیہ میں تھی۔
دوسری بات یہ کہ حکمت اور پارسائی کا دعویٰ اگر تھوڑی دیر کے لئے چھوڑ دیا جائے تو لگے گا کہ یہ ترانہ سننے یا گانے سے کسی تہذیب یا دین کا تختہ نہیں الٹ جاتا۔ مسلمانوں کو ہر سرزمین میں اجنبی بن کر رہنے کی جو ترغیب مسلسل دی جاتی رہی ہے، اس کے نتیجہ میں اس طرح مزاحمت اور کشیدگی پیدا ہوتی ہے جو مسلمانوں کو اپنے ارد گرد کی دنیا میں مثبت کردار ادا کرنے سے روکتی اور نفرتوں کو جنم دیتی ہے۔
تیسری بات یہ کہ کیا یہ دعویٰ درست ہے کہ برصغیر کے مسلمان اس سرزمین میں صرف اس لئے زندہ موجود ہیں کہ انہوں نے ایک الگ وطن لے لیا۔ الگ وطن بن گیا اور ہمیں اس کی سا لمیت ، اس کا وقار، اس کی خوشحالی اور طاقت اپنی جان سے بڑھ کر عزیز ہے۔ لیکن یہ سچ نہیں کہ بھارت کے مسلمان پاکستان کی وجہ سے زندہ اور باعزت ہیں۔ اس طرح کے ایٹمی دعوے بھی دراصل اسی نرگسیت کا کرشمہ ہیں جو ہمارا موضوع ہے۔

نرگسیت اور خوش فہمی

یاد دہانی کے لئے یہ کہنا ضروری ہے کہ جب ہم نرگسیت کا ذکر کرتے ہیں تو ہر بار ہماری بحث صرف مریضانہ نرگسیت سے ہوتی ہے۔ صحت مند خود اعتمادی، مسابقت کی خواہش، خودشناسی، خودبینی اور خودنگری شخصیت کی صحت مند شکلیں ہیں جنھیں بعض اوقات صحت مند نرگسیت بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن ہماری بحث مریضانہ نرگسیت سے ہے۔
نرگسیت اور خوش فہمی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ خوش فہمی کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ خود تنقیدی کی صلاحیت کمزور ہوتے ہوتے مر جاتی ہے۔ چنانچہ جب آپ اپنی اچھائی برائی کا بے لاگ جائزہ لینے سے قاصر ہو جاتے ہیں تو شخصیت کی نشوونما رک جاتی ہے۔ اجتماعی سطح پر پھیلائی جانے والی خوش فہمیاں تہذیبی خوش فہمی کی شکل اختیار کرتی ہیں۔ اور ان کے بھیانک نتایج آزمائش کے سخت مراحل پر سامنے آتے ہیں۔ مثلاً اگر ہمیں یہ خوش فہمی ہے کہ ہم نے روس کو تباہ و برباد کر دیا، اور ہماری طاقت کے آگے کوئی نہیں ٹھہر سکتا، جبکہ حقیقت کا تنقیدی جائزہ لینے کے لئے ہم نے کچھ کیا ہی نہیں، یعنی روس والے دعوے سے پہلے 1971ء کی جنگ میں ہماری کارکردگی کیا تھی، اس کو ہم بھول چکے (اس تکلیف دہ صورتحال کی ذمہ داری ہم نے اپنے امریکی حلیفوں کی غداری پر ڈال دی تھی۔ یعنی اپنی شکست کو دوسروں کے قصور کی شکل میں اپنے ضمیر سے ہٹا دینا) اور اس کے بعد کارگل کا واقعہ بھی ہم نے توجہ کے لائق نہیں سمجھا، پھر ہم نے یہ خبر بھی سنی ان سنی کر دی کہ ہمارے ایٹمی اثاثوں پر امریکہ نے ایسے کوڈ نصب کر دئیے ہیں جن کو صرف امریکی ماہرین ہی کھول سکتے ہیں، چنانچہ الہ دین کا ایٹمی جن شاید امریکہ اور پاکستان کے مشترکہ چراغ کا اشارہ دیکھے گا۔ ہم نے اپنی مملکت کی اس حالت کو بھی کبھی اہمیت نہیں دی جو کبھی جامع حفصہ کے آگے جواب دہ ہوتی ہے اور کبھی اس کے قبائلی اساتذہ اسے شریعت نافذ نہ کرنے پر کان پکڑواتے ہیں، جس بے چاری مملکت کو عوام کے لئے گندم اور بجلی مہیا کرنا ، امن و امان قائم کرنا تک ناممکن ہو گیا ہے، وہ مملکت جو اندر سے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر دنیا سے ٹکڑے ٹکڑے کی محتاج ہو گئی ہے، اس مملکت کو اگر کسی اور جنگ میں جھونک دیا جائے تو کیا مدمقابل اسلام کا احترام کرتے ہوئے اس کے آگے ہتھیار ڈال دے گا؟۔ بھارت کے مسلمانوں کو عالمی اسلامی مملکت کے خواب دکھاتے رہنا اور حتی المقدور انہیں اپنی سرزمین سے نفرت پر اکسانا ، اس خوش فہمی کا نتیجہ ہے جو تہذیبی نرگسیت کی بدترین علامتوں میں سے ہے۔ جب ڈاکٹر صاحب موصوف جیسے بزرگ تہذیبی نرگسیت کی تبلیغ کرتے ہیں تو بہت سے سادہ لوح نوجوان علم و دانش، تحقیق و جستجو اور جمہوری افکار سے متنفر ہو کر نرگسیت کے یرقان میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جس میں ساری دنیا زرد رو، تھکی ہوئی نظر آتی ہے، جیسے فتح ہونے کے لئے ہمارے بس ایک نعرے کی منتظر ہے۔
اس طرح کی نرگسیت کی ایک مثال اور دیکھیں۔ یہ کسی گلی محلہ کے سکول میں بچوں کے تقریری مقابلہ میں کی گئی تقریر نہیں۔ مؤقر روز نامہ نوائے وقت 26 اکتوبر 2008ء کے ادارتی صفحہ پر ایک مؤقر کالم کار کی تحریر ہے جس پر کسی تبصرہ کی گنجائش نہیں۔
’’ مثل مشہور ہے کہ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف بھاگتا ہے۔ جب روس کی شامت آئی تو اس نے افغانستان کا رخ کیا۔ اب امریکہ کی بربادی اسے پاکستان کی طرف کھینچ کر لا رہی ہے۔ امریکہ کو شاید علم نہ ہو کہ پاکستانی قوم کیاہے۔ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کن صلاحیتوں کی مالک ہے۔ یہ پاک فوج اور آئی ایس آئی ہی تھی کہ جس کے تعاون سے امریکہ نے طالبان کے ذریعے روس کو شکست سے دوچار کیا…
’’ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔ اگر امریکہ نے پاکستان پر جارحیت کی جسارت کی تو…‘‘
پھر لکھتے ہیں:
’’ شکست خوردہ روس اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لئے امریکہ کے خلاف پاکستان کی بھرپور مدد کرے گا اور چین بھی جو امریکہ کی بھارت نوازی سے نالاں ہے…
’’ پاکستان کی ایک آواز پر دنیا بھر سے مجاہدین امریکہ کے خلاف لڑنے کے لئے جمع ہو جائیں گے۔ عرب ممالک اعلانیہ نہ سہی، واحد اسلامی ایٹمی طاقت پاکستان کی ہر طرح سے امداد کریں گے۔ امریکہ کے خلاف ڈٹ جانے والا ایران بھی یہ موقع جانے نہیں دے گا اور پاکستان کا بھرپور ساتھ دے گا۔ اور تو اور پاکستان کی گلیوں محلوں میں پھرنے والے اور تھڑوں پر بیٹھنے والے نوجوان بھی ہاتھوں میں لٹھ لے کر پرجوش انداز میں امریکہ کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے جہاد کے لئے نکل کھڑے ہوں گے۔ اور پھر ’ ہر گھر سے مجاہد نکلیں گے، تم کتنے مجاہد مارو گے‘ والی صورت حال ہو گی۔ آئی ایس آئی ان نوجوانوں کی پندرہ دنوں میں ایسی تربیت کر دے گی جو امریکی ایجنسیاں پندرہ سال تک بھی نہیں کر سکتیں۔ اور سب سے بڑھ کر جذبہ جہاد اور شوقِ شہادت ہے جو مسلمانوں کے علاوہ کسی قوم میں پیدا ہو ہی نہیں سکتا ‘‘۔
پھر ایک تجویز دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ اگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اُن کے عہدے پر بحال اور فعال کر دیا جائے تو پاکستان سے ایسے میزائل پرواز کریں گے جن کا نشانہ امریکہ اور پشت پناہ اسرائیل ہونگے…
’’ اگر امریکہ نے پاکستان کے ساتھ ماتھا لگایا تو اس کے لئے افغانستان میں ٹھہرنا بھی مشکل ہو جائے گا اور امریکہ اپنے تکبر سمیت اپنی معیشت کی طرح تباہ ہو جائے گا…‘‘
آخر میں اللہ میاں کو براہ راست شریک جہاد کر لیتے ہیں:
’’بظاہر یہ سب ناممکن لگتا ہے لیکن چشم فلک نے ابابیلوں کے گرائے ہوئے کنکروں سے ہاتھیوں اور ہاتھی والوں کو برباد ہوتے دیکھا ہے۔ تنت سو تیرہ کو کئی گنا اکثریت پر غالب آتے دیکھا ہے۔ امریکہ کو برباد ہوتے ہوئے چشم فلک ہی نہیں ہم بھی دیکھیں گے۔ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘۔
مندرجہ بالا بیان میں اگر کوئی کوتاہی ہے تو صرف اتنی کہ یہ اس تہذیبی نرگسیت کا کھلم کھلا اظہار ہے جو ڈاکٹر صاحب محترم جیسے علما کے ہاں نفاست سے بیان ہوتی ہے۔

موجودہ صورت حال اور تہذیبی نرگسیت

پاکستانی معاشرہ بالخصوص پنجاب اور پختون صوبوں کا درمیانہ طبقہ اسی مخصوص ذہنیت کا شکار ہوا ہے۔ جسے تہذیبی نرگسیت کہا جا سکتا ہے، یعنی ایک ہی تہذیب اور مذہب میں رہتے رہتے اور ایک جیسی تقریر سنتے سنتے یہ معاشرہ اپنے ہی عشق میں مبتلا ہو گیا ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے دوسرے مذاہب اور تمدن ساتھ ساتھ آباد تھے، ایک دوسرے سے متاثر بھی ہوتے تھے اور متنفر بھی، تنقید بھی کرتے تھے اور تعریف بھی، مگر ہمہ وقت آئینہ دیکھتے رہنے اور اپنے ہی خدوخال پر صدقے قربان ہو جانے کی بیماری نہ تھی۔ پاکستان بننے کے بعد قیامِ پاکستان کی بنیاد میں علیحدگی پسندی اور اسلامی فخر کے جذبات کارفرما تھے۔ اور تحریک پاکستان کی قیادت جاگیردار اور متوسط طبقہ کے پاس تھی، یعنی ایک طبقہ وہ تھا جو طاقت اور دولت کے بل پر اپنی فوقیت اور فخر کی حالت میں ڈوبا رہتا ہے اور دوسرا وہ جو کئی وجوہ کی بناء پر کبھی کبھی فسطائی شدت پسندی کی طرف مائل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ متوسط طبقہ کا ایک وصف یہ ہے کہ یہ شاندار صلاحیتوں کا حامل ہونے کے باوجود یا شاید اس کی وجہ سے خطرناک جذباتی رویوں کا شکار ہوسکتا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کا یہ طبقہ اسلام کے جارحانہ پہلو سے فطری طور پر لگائو رکھتا تھا۔ تقسیمِ ہند سے پہلے یہ رجحان اس لیے موجود تھا کہ ہمارے فاتح بادشاہوں نے مسلمانوں کو ہمیشہ ہند کی مقامی آبادی سے ممتاز رکھنے کی کوشش کی۔ پاکستان بنا تو مولانا مودودی مرحوم تہذیبی نرگیست کے مشن کی تکمیل کے لئے پاکستان تشریف لے آئے اور نسیم حجازی جیسے تفاخر پسند مسلم مصنفین کی مدد سے موصوف نے ایک ایسا ماحول پیدا کیا جس میں عالمی سطح پر ہونے والی علمی، فکری اور تہذیبی تبدیلیوں سے پاکستان کی نوجوان نسلیں متنفر یا خوفزدہ ہوتی چلی گئیں۔ اس سارے عرصہ میں سیاسی جماعتوں اور دانشوروں نے عوام کی تربیت کا فرض ادا نہیں کیا اور آج تک یہ کوتاہی نہ صرف برقرار ہے بلکہ ترقی پر ہے۔
آپ پاکستان کے کسی بھی قومی یا مقامی اخبار کا کوئی خصوصی ایڈیشن دیکھ لیں، عام دنوں کے کالم دیکھ لیں، ٹی وی چینلز کے روزانہ کے پروگرام دیکھ لیں، مساجد کے خطبے، تقاریر، مذہبی اجتماعات تو ایک طرف، رہائشی آبادیوں میں ہفتہ وار مذہبی سٹڈی سرکل یعنی درس دیکھ لیں، (عورتوں، نوجوانوں اور عام شہریوں کی مذہبی تیاری کے لئے منعقد ہونے والے محلہ اور بستی کی سطح کے یہ درس ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں جاری ہیں)، اور ان مدرسوں کی تعلیمات دیکھیں جن میں ہر سال چھ سے سات لاکھ تک مذہبی طالبعلم فارغ التحصیل ہو کر یا تو پرانی مسجدوں کا رخ کرتے ہیں یا نئی مسجدیں تعمیر کرنے کے لئے شہریوں کو اسلام اور ثواب یاد دلاتے ہیں۔ رمضان کے تیس دن پوری قوم کے معمولات اور موضوعات پر غور کریں، پھر ہر سال ہونے والے عظیم الشان مذہبی اجتماعات دیکھیں، جن میں بیس سے تیس لاکھ تک کی حاضری بیان کی جاتی ہے، آپ کو جو بات ہر اجتماع، ہر خطاب، ہر تحریر میں نظر آئے گی وہ ہے اسلام اور اسلامی تعلیمات کی بڑائی کا بیان، اسلام کی فضیلت، مسلمانوں کی فضیلت ، ارکانِ اسلام کی فضیلت ، تاریخِ اسلام کی فضیلت، مسلمان بزرگوں کی فضیلت، اسلامی تہذیب کی فضیلت، اسلامی فتوحات کی عظمت، مسلمان فاتحین کی عظمت۔ الغرض فضیلت اور عظمت کا ایک نہ ختم ہونے والا بیان۔ مسلمان کا ایمان اعلیٰ، اخلاق اعلیٰ، اس کی عبادت اعلیٰ، اس کی دنیاداری اعلیٰ۔ یہ دنیا اس کی، اگلا جہان بھی اس کا۔ باقی ساری دنیا جہنمی، باقی سارے انسان کفر اور جاہلیت پر رکے ہوئے۔ اسلام اگر تبلیغ اور تسخیر پر نکلے تو برحق اور اگر دوسرے مذاہب کی تبلیغ کو روک دے تو برحق۔ مسلمانوں کا غیر مسلموں کی آبادیاں تسخیر کرنا ، انہیں غلام اور ذمی بنانا اور ان کی عورتوں کو لونڈیاں بنانا برحق، لیکن غیر مسلموں کا کسی مسلم آبادی کے کسی مخصوص اور محدود حصے پر گولیاں چلانا اتنا بڑا جُرم کہ عالمی جنگ کی تیاری مسلمانوں پر لازم۔ ہماری عبادات اور دینی رسومات کی حکمت، اسلام معاشی، معاشرتی ، سیاسی، علمی ، حربی یعنی ہر معاملے میں سب پر فائق۔ سب تہذیبیں گمراہ صرف اسلام پر ایمان لانے سے معاشرے ہدایت پر، غیر مسلموں کے جسم بھی ناپاک اور گندے، ایمان والوں کو ان سے بو آتی ہے، ان کی روحیں اور ذہن بھی ناپاک، ان کی سوچیں مکروہ، ان کی غذا گندی اور حرام۔ اگر پاک اور معطر اور حلال اور عمدہ اور نفیس اور لطیف دنیا میں کچھ ہے تو وہ صرف ہمارا یعنی مسلمان کا ہے۔ اسلام سے پہلے دنیا میں کوئی تہذیب نہ تھی، تاریکی اور جہالت تھی، دنیا کو تہذیب اور علم کی روشنی مسلمان عربوں نے دی۔ اگر آپ کسی خود اعتماد مسلم نوجوان سے پوچھیں کہ یہ جو کہتے ہیں کہ چین میں رسول اللہﷺ کی بعثت سے چار ہزار سال پہلے سے ایک مہذب معاشرہ آباد تھا، جنہوں نے اپنی آبادیوں کے امن اور سکون کے لیے منگول حملہ آوروں کے خلاف وہ دیوارِ چین بنائی تھی جسے عالمی عجوبوں میں گنا جاتا ہے، وہی چین جس کا ذکر حدیث نبویﷺ میں علم کے حوالے سے آیا ہے، اور یہ جو کہتے ہیں کہ ہند کی تہذیب اور فلسفۂ ویدانت کوئی چار ہزار سال پرانے ہیں، اور یہ جو نوشیروان عادل کی ایرانی تہذیب کا ذکر ہے ، جسے عربوں نے فتح کر کے ختم کیا اور یونان اور روم کی مملکتوں کا تذکرہ ہے، وہی یونان جس کے علم و فضل کے افسانے خود مسلمانوں نے لکھے ہیں، جو ظہورِ اسلام سے ہزار برس پہلے اپنی بلندیوں پر تھا، اورکہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ کی اُمتیں خود کو ہدایت کی چوٹی پر تصور کرتی تھیں تو کیا یہ سب تہذیبیں اور یہ اُمتیں اور یہ علم کی روائتیں کیا سب تاریکی تھی؟ تو حیران نہ ہوں اگر نسیم حجازی کا یہ مجاہد نوجوان آپ کو نہایت اطمینان سے یہ کہہ دے کہ ’’دیکھو بھائی یہ سب کافروں کی لکھی ہوئی جھوٹی تاریخیں ہے جو مسلمانوں کو گمراہ کرنے اور احساس کمتری میں مبتلا کرنے کے لیے گھڑی گئی ہیں۔ اور اگر اس میں کوئی سچائی ہے بھی تو یہ سب تہذیبیں کفر کی تہذیبیں تھیں اور ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ سچ صرف یہ ہے کہ جو آپ کو بتایا گیا ہے کہ اسلام سے پہلے صرف تاریکی تھی اور آج بھی ہمارے علاوہ سب تاریکی میں ہیں اور سب جہنمی ہیں۔ کفری تعلیم گمراہی کے سوا کچھ نہیں، علم صرف وہ ہے جو قرآن میں لکھ دیا گیا ہے یا حدیثوں میں آیا ہے‘‘۔
اسلام اور رسول اللہﷺ کی تعلیم کا یہ نقشہ ہے جس میں مبالغہ اور نخوت کے رنگ بھرنے پر ایک سے بڑھ کر ایک بہروپیہ لگا ہوا ہے، کوئی رو رو کر دعائیں بیچتا ہے، کوئی ہنس ہنس کر نبیوں سے مصافحہ کی کہانیاں سناتا ہے۔ یہ نقشہ کتنا صحیح ہے اس کا اندازہ اس کے نتائج سے لگایا جا سکتا ہے جو اس مسلم ہجوم کو تنہائی اور تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔
تہذیبی نرگسیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس کے مریض ایک طرف اپنی تہذیبی شناخت پر فخر کرنے میں دیوانگی کی حدیں چھو لیتے ہیں، تو دوسری طرف فرد اپنی طلب کو پورا کرنے کے لئے پورے معاشرے کو روند کر آگے بڑھنا چاہتا ہے، اور فرد سے فرد کی جنگ ہر سطح پر جاری دکھائی دیتی ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ نرگسیت ایک ایسی نفسیاتی حالت ہے جس میں مریض شدید موضوعیت (Subjectivity) کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسے اِرد گرد کی کائنات کا یا تو احساس ہی نہیں ہوتا یا اس حد تک ہوتا ہے کہ کائنات اس کی تعریف میں لگی ہوئی ہے، یا اس سے حسد کرتی ہے۔ اپنے حُسن پر عاشقی کا یہ عالم مریض کو دوسروں کے حسن و خوبی سے یکسر غافل کر دیتا ہے۔ چنانچہ تہذیبی نرگسیت صرف اس حد تک اجتماعی ہوتی ہے کہ اپنی تہذیب پر فخر کرنے والا ہر فرد صرف مجرد تصورات پر فخر کرتا ہے، کوئی زندہ شخص کوئی موجود تہذیبی شکل اسے متاثر نہیں کرتی۔ چنانچہ اسے صرف اپنی پارسائی ، اپنے ایمان کی سچائی، اپنی لگن سچی دکھائی دیتی ہے۔ وہ انکسار کے روایتی فقرے بولتا ہے لیکن اس بات میں بھی اس کا یہ فخر جھلکتا ہے کہ وہ کتنا مٹا ہوا، کتنا جھکا ہوا اور کتنا پرخلوص ہے، وہ نیکی بھی کرتا ہے تو اس فخر کے لئے کہ اس نے نیکی کی ہے، وہ ہر وقت نیکیاں گنتا اور ان کا حساب رکھتا ہے جیسے بینک اکائونٹ کا حساب رکھا جاتا ہے۔ وہ دوسروں کو اپنے سے اچھا کہتا ہے تو اس انداز سے کہ سننے والا اس کے انکسار کی داد دے، بالکل اس باڈی بلڈر کی طرح جو دوسرے باڈی بلڈر کے پھولے ہوئے پٹھوں کی تعریف کرتا ہے، اس احساس کے ساتھ کہ دراصل سامنے والا تو کچھ بھی نہیں اور اس توقع کے ساتھ کہ سننے والا اس سے بھی بڑھ کر اس کی تعریف کرے گا۔ تہذیبی نرگسیت صرف اس حد تک اجتماعی ہوتی ہے کہ یہ نرگسیت کے شکار افراد کا ایک اجتماع ہوتا ہے جس میں ہر شخص اس اجتماع کے کندھے پر سوار ہو کر اپنی ذات کی فتح و فضیلت تلاش کرتا ہے۔ لہٰذا بدنظمی اس تہذیب کا ایک لازمی جزو ہوتی ہے۔ بدنظمی اور نفسانفسی لازم و ملزوم ہیں۔ ان کے ملاپ سے قانون شکنی اور لاقانونیت جنم لیتی ہیں۔ ایسے معاشرہ میں اخلاقیات اور تخلیقی عمل کی حیثیت ایک خارجی کی سی رہ جاتی ہے۔
ہماری نرگسیت کا مرکزی احساس اس دعویٰ سے ہوتا ہے کہ ’’ہم تحریک اسلامی کا ہراول دستہ ہیں ، کیونکہ یہ ملک اسلام کے نام پر لیا گیا تھا‘‘۔ یوں لگتا ہے جیسے مولانا مودودی مرحوم، ان کی تحریک اور وہ عناصر جو تقسیمِ ہند سے پہلے قیامِ پاکستان کے سخت دشمن تھے، جن کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ تحریک پاکستان کی قیادت (قائد اعظم کو کافر اعظم کہتے تھے) صرف اسلام کا نام استعمال کر رہی ہے۔ یہ مٹھی بھر لوگ پاکستان بنانے والی آبادی کو اسلام کا نام لینے کی سزا دینے پاکستان میں آگئے، اور آہستہ آہستہ پاکستان کے وجود پر آکاس بیل کی طرح چھا گئے، اب یہ تہذیبی نرگسیت کے زرد بخار میں پھنکتی ہوئی اس قوم کو اُس آخری جنگ میں جھونکنے کے لئے تیار کر رہے ہیں جہاں نیم بے ہوشی میں یہ خودکش حملہ آور تھوڑی سی تباہی مچا کر جان سے گزر جائے۔ یہ بات اگر ہم سمجھنے سے قاصر رہے تو ہماری تاریخ لکھنے والا لکھے گا کہ اس ملک کا بدترین دشمن صرف وہ منظم مذہبی طبقہ نہ تھا جو پاکستان بنتے ہی یہاں وارد ہوا اور جس نے جاگیرداروں اور سپہ سالاروں سے مل کر ہمارے فکری وجود کو ایک ایسے کینسر میں مبتلا کر دیا جس کا علاج اس لئے ممکن نہ تھا کہ اسے دین سے محبت کا نام دیا گیا تھا، بلکہ ایک قوم کی حیثیت سے ہم سب بالخصوص ہمارے دانشور اس تباہی کے ذمہ دار تھے کہ جنہوں نے آکاس بیل کو اپنے اوپر مسلط ہونے دیا۔
تہذیبی نرگسیت میں مبتلا کر دینے کے بعد دین سے محبت کے نام پر ہمارے لوگوں کو اس بات پر ابھارا جاتا ہے کہ وہ شَب و روز کچھ اور سیکھنے کی بجائے صرف اسلام کی عظمت کا بیان سیکھیں۔ ہر روز اخباروں میں، ٹی وی چینلز پر ، جمعہ کے خطبوں میں، شبینہ محافل میں، عید میلادالنبی جیسے تہواروں پر، رمضان کے پورے مہینے میں اور مختلف دینی اجتماعات میں بار بار گلہ کیا جاتا ہے کہ ہم نے اسلام کو بھلا دیا اور دنیا کو گلے لگا لیا۔ یوں لگتا ہے جیسے اس قوم کو اس بات پر تیار کیا جا رہا ہے کہ سال کے 365 دن چوبیس گھنٹے طالبان کے اشاروں پر ناچا کریں، جن کے نمائندے شہر شہر گلی گلی پھیل کر اسلامی غیرت کا پرچار کر رہے ہیں۔ بار بار کہا جاتا ہے کہ ہم نے اسلام کو ادیانِ عالم پر غالب کرنا ہے کیونکہ یہ ہمارا اولین فرض ہے جس کے لئے جہاد ہم پر فرض کیا گیا ہے۔ بار بار کہا جاتا ہے کہ ساری دنیا کو اسلام کے ماتحت لانا ہم پر فرض کیا گیا ہے کیونکہ ہم بہترین اُمت ہیں، اسلام کو غالب کرنے یعنی جہاد کے ذریعے دنیا کو فتح کرنے کی تلقین کرنے یا اس پر اکسانے کا مقدس فریضہ علماء کی جماعت پر عائد ہوتا ہے، کیونکہ اللہ نے اس کا حکم دیا ہے۔ جب سننے والے کا ذہن اس مفروضہ پر قائم ہو جاتا ہے کہ تو پھر طالبان کے عظیم رول کا ذکر شروع ہوتا ہے جو طاغوتی اور ابلیسی قوتوں کو شکست دے کر اسلام کا غلبہ مکمل کرنے اٹھے ہیں۔ فی الحال القاعدہ کی تعریف کرنے سے گریز کیا جاتا ہے لیکن یہ مرحلہ زیادہ دور نہیں۔ جب لوگ طالبان کو اپنے مستقل رہنما مان لیں گے تو بتایا جائے گا کہ طالبان کو اس عظیم الشان سطح پر منظم کرنے کا سہرا تو دراصل القاعدہ کے سر پر ہے اور نئے دور کے امیر المومین شیخ اُسامہ بن لادن یا کوئی دوسرے عرب شیخ صاحب ہیں۔ اگر کوئی شخص اس بڑھتی ہوئی دیوانگی سے اختلاف کرے ، حتیٰ کہ اسلام کا پرامن چہرہ دکھانے کی کوشش کرے تو اسے تشدد بلکہ موت کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ اخباری خبروں کے مطابق ایک متوازن مسلم سکالر کو ایک سے زیادہ مرتبہ بارود کی قوت سے دھمکایا گیا ہے۔
قطع نظر اس کے یہ دعوے جو ہمارے معاشرہ کے بڑھتے ہوئے فکری انحطاط کا سبب بن رہے ہیں، علمی سطح پر کتنے ناقص ہیں، ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اس تہذیبی نرگسیت کا جواز اسلامی تعلیمات میں کتنا ہے؟ ایک ایک کر کے چند دعووں کو دیکھتے ہیں۔

مکمل ضابطۂ حیات

ایک بنیادی دعویٰ جس پر کئی دوسرے دعووں کے محل تعمیر کئے گئے ہیں، یہ ہے کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔ حالانکہ قرآن اور حدیث نے ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا بلکہ صرف اسلام کے دینِ حق اور سچی ہدایت ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ یہ دعویٰ تہذیبی فخر کے لئے قائم کئے گئے مفروضوں میں سے ایک ہے۔ ہر تہذیب ایسے دعوے قائم کرتی ہے۔ روم کے لوگ اپنی تہذیب کو روشنی اور نظامِ کامل کہتے تھے، اہلِ ہند کا اپنے بارے میں یہی تصور تھا، حضرت عیسیٰ ؑ کے ماننے والے آج تک ایمان رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑآخری نبی اور ہادیٔ کامل ہیں، روم سے پہلے یونان دنیا کا استاد تھا اور بہت حد تک شاید اہل یونان کو فخر کا حق بھی تھا، سکندر اعظم دنیا کو ارسطو اور سقراط کی روشنی دینے نکلا ۔ مسلمانوں کو بھی حق حاصل تھا کہ فاتح تہذیب کی حیثیت سے اپنے نظریہ حیات کو مکمل ضابطہ حیات کہتے۔ لیکن یہ سب زراعتی معاشروں کے دور تک ممکن تھا۔ جب دنیا صنعتی انقلاب کے بعد ریل ، ہوائی جہاز، ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے سکڑنے اور پھیلنے لگی تو لوگوں نے نئے مسائل کے نئے حل طلب کیے۔ تب ہم دنیا کا ساتھ نہیں دے سکے نہ ہی ہم دنیا کو نئے راستوں پر جانے سے روک سکے، حتیٰ کہ پوری کوشش کے باوجود ہمارے حکمران طبقے اپنے مسلم معاشروں کو بھی نئی دنیا کا حصہ بننے سے روک نہیں پائے، حالانکہ ہمارے مذہبی اقتدار پر قابض عناصر نے اپنے عوام کو روکنے کے لئے اسلام کا نام استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جس کا نتیجہ صرف یہ نکلا ہے کہ ہم تمام تر وسائل کے باوجود سب سے پسماندہ لوگ ہیں کیونکہ اس تذبذب کا شکار ہیں کہ رک سکتے نہیں اور بڑھنے کی اجازت نہیں۔ اِن حالات میں ہمیں یہ دیکھنا پڑ رہا ہے کہ کیا اسلام مکمل ضابطہ حیات کا دعویدار ہے یا ہم ہی احمقانہ انداز سے ایسا فرض کر بیٹھے ہیں۔
قرآن اور حدیث نے مکمل ضابطہ حیات کا دعویٰ نہیں کیا۔ کوئی آیت قرآنی، کوئی حدیث موجود نہیں جس میں ایسا کوئی مفصل بیان موجود ہوکہ اس کتاب کے بعد کسی علم، کسی حکمت یا کسی ریسرچ کی ضرورت نہیں ہو گی۔ ’’اَلیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی‘‘ کے معنی واضح ہیں۔ کسی ایسی تشریح کی گنجائش نہیں دیتے جو مکمل ضابطہ حیات کا دعویٰ قائم کرنے میں مدد دے۔ اس کے معنی جو سب تراجم اور تشریحات میں موجود ہیں یہ ہیں ’’ آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تمہارے لئے اپنی نعمت پوری کر دی‘‘۔ رسول اللہﷺ، آپ ﷺ کے صحابہؓ اور قریبی زمانہ کے مفسرین نے کبھی اس آیت کے معنی یہ بیان نہیں کیے کہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے بلکہ اس کے معنی واضح طور پر یہ تھے کہ اس کے بعد مزید وحی و ہدایت کا نزول نہیں ہو گا اور یہ نعمت یعنی قرآن حکیم پورا ہو گیا ہے۔ کسی اور ہادی کا انتظار نہ کیا جائے اور وحی کا سلسلہ بند کر دیا گیا ہے۔ تاہم کتنے ہی موضوعات اور سوالات ہیں جن پر قرآن و حدیث نے کوئی ضابطہ مقرر نہیں کیا۔
مثلاً قرآن نے نظام مملکت پر کوئی ضابطہ نہیں دیا، جو بے حد اہم موضوع ہے۔ رسول اللہﷺ کے وصال پر نیابت یا سربراہی کا جو سوال ابھرا ، ثقیفہ بنو سعدہ میں جس پر اختلاف اور بحث کی صورت پیدا ہوئی، یا مسلم اُمہ کے دو بڑے گروہوں میں جس کی بناء پر آج تک اختلافات چلتے آ رہے ہیں، وہ اسی ضابطہ کی عدم موجودگی کے باعث ابھرا۔ اسی ضابطے کی عدم موجودگی کے باعث خلفائے راشدین کے چاروں طریقہ ہائے تقرر الگ الگ ہوئے۔ خلیفہ یا سربراہِ مملکت کی میعاد اقتدار کا بھی کوئی تعین قرآن و حدیث میں موجود نہ تھا، حالانکہ خلفائے راشدین نہ تو مامور من اللہ تھے نہ ہی قرآن و حدیث میں ان کے تاحیات اقتدار کے لئے کوئی اشارہ موجود تھا۔ اس کے باوجود جب حضرت عثمانؓ کے خلاف فتنہ برپا ہوا تو جید صحابہؓ کے مشورہ و اصرار کے باوجود آپؓ اقتدار سے الگ ہونے پر تیار نہ ہوئے، کیونکہ کوئی ضابطہ یا قانونی ہدایت قرآن و حدیث میں موجود نہ تھی۔
مملکت کے معاشی نظام میں محصولات بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ قرآن و حدیث نے زکوٰۃ جیسے اہم ٹیکس کی وصولی پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں دیا تھا جس کے باعث مسلم قبائل نے مرکز کو زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کیا۔ اس انکار پر فوج کشی کا قرآنی حکم موجود نہ تھا۔ چنانچہ حضرت عمر فاروق ؓ نے فوج کشی کے فیصلہ سے اختلاف کیا۔ مکمل ضابطہ حیات کا دعویٰ اگر صحیح ہوتا یعنی اگر ہر مسئلے پر قرآن اور حدیث میں واضح احکام موجود ہوتے تو حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمرؓ اور قبائل کے وہ سربراہان جو خود صحابی تھے، زکوٰۃ کی وصولی اور استعمال کے اصول پر اختلاف کیوں کرتے۔ اس اہم موضوع پر آج تک اہل اسلام کے دو فقہی مؤقف قائم ہیں۔ اہل تشیع زکوٰۃ کی ادائیگی میں مملکت کے جبر کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اختیاری معاملہ سمجھتے ہیں جبکہ اہلسنت کے ہاں یہ جبر شریعت کا حصہ ہے۔
اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں اتفاقِ رائے کیسے بحال کیا جائے یا اختلافی آراء کی صورت میں فیصلہ کرنے کا طریقہ کار کیا ہو گا، اس مسئلہ پر بھی ضابط موجود نہ تھا یعنی شوریٰ بینکم کااجمالی اور عمومی حکم کسی تفصیلی طریقۂ کار کے بغیر تھا۔ دنیا میں انسان کے بنے ہوئے ہر آئین میں ترمیم و تشریح کے لئے اور اختلاف کو ختم کرنے کے لئے واضح طریقہ کار دیا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث میں یہ تو واضح تھا کہ ’’ان تنازعوا فردّوا الی اللہ و رسولہ‘‘ یعنی اگر تنازع پیدا ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو اور یہ بھی سمجھا جاتا تھا کہ جہاں قرآن و سنت میں فیصلہ موجود نہ ہو وہاں اجتہاد یعنی اپنی رائے سے فیصلہ کر لو۔ مگر اجتماعی معاملات پر لاگو ہونے والے فیصلے کرنے کے لئے کون لوگ یا کون سا ادارہ ہو گا، یہ لوگ کیسے مقرر ہونگے اور یہ ادارہ کیسے تشکیل دیا جائے گا یعنی اگر کوئی ادارہ ہو گا تو اس کے وجود اور طریقہ کار کے ضابطے کیا ہوں گے ۔ مثلاً ’’ولتکن منکم امۃ‘‘ کا اگر ایک مقصد تنازعات میں رائے دینے کا بھی مان لیا جائے (حالانکہ اس کے فرائض میں شامل نہیں) تب بھی یہ سوال وہیں رہ جاتا ہے کہ اس ادارے کی تشکیل کیسے ہو گی، اس کے ارکان کا تقرر کون کرے گا اور کیسے کیا جائے گا۔ تنازعات کے تصفیہ کا طریقہ کار اور ضابطہ موجود نہ ہونے کے باعث مختلف فرقوں ، فریقوں اور فقہ و تفسیر کے مختلف مکاتب کا ظہور ہوا جو آج تک ناصرف موجود ہیں بلکہ بڑھتا جا رہا ہے۔ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ دنیا بھر کے منظم دستوری معاشروں میں تشریح کے تنازعات حتمی طور پر حل ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً برطانیہ، فرانس، امریکہ، چین ، روس ،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ حتیٰ کہ بھارت میں صدیوں یا عشروں پہ محیط نظام اس انداز سے چل رہے ہیں کہ کوئی دستوری معاملہ لٹکا ہوا نہیں۔ اسلام سے پہلے روم کی سینٹ کے پاس بھی ایک طریقہ کار موجود تھا۔
رسول اللہﷺ کے وصال کے چند برس بعد حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دورِ خلافت میں تراویح کو مسجد میں ادا کرنے کا حکم صادر فرمایا جو کہ رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ادوار میں انفرادی سطح پر پڑھی جاتی تھیں۔ یعنی عبادت کے موضوع پر بھی قرآن و حدیث کے فیصلے آخری نہ تھے۔ اِن میں تبدیلی اور ترمیم کی گنجائش تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت عمر فاروقؓ کو یا خلفائے راشدین کو اس نوعیت کے بنیادی دینی موضوعات پر قرآن و حدیث کے فیصلوں میں اضافہ کرنے کا یا انہیں بدل دینے کا اختیار تھا لیکن بعد کے مسلمانوں کو نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اسلام کے مکمل ہونے کا عمل رسول اللہﷺ کی حیاتِ طیبہ یا وحی کے بعد کچھ عرصہ تک جاری رہا اور اس کے بعد بند ہو گیا۔ خود اس مفروضہ کو ثابت کرنے کے لئے قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت موجود نہیں۔ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ خلیفہ وقت کو کسی عبادت میں تبدیلی کا اختیار کون سے حکمِ قرآنی یا حدیث کی رُو سے حاصل ہے۔
خود حدیث نبویﷺ سے ثابت ہے کہ اجتہاد یعنی اپنی عقل و دانش سے فیصلہ کرنے کا اختیار بعد کے مسلمانوں کو حاصل ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن و حدیث میں دی گئی ہدایات بعض معاملات پر مفصّل اور بعض پر نہایت مختصر ہیں اور اسلام کو وقت کے ساتھ بدلنے اور مکمل ہونے کی ضرورت ہمیشہ رہے گی یعنی جب تک دنیا اور انسان کا وجود باقی ہے مسائل اور ان کے حل آتے رہیں گے، یعنی قیامت کے دن تک ہر نظام تکمیل کے مراحل سے گزرتا رہے گا۔ یہ تسلیم کر لینا کسی طرح سے بھی اسلام کی عزت اور فضیلت میں کمی نہیں کرتا۔ چنانچہ یہ دعویٰ کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے، محض مذہبی قیادت پر مسلط ایک طبقہ کا دعویٰ ہے جس کا مقصد صرف اتنا ہے کہ مسلم عوام اس طبقہ سے بے نیاز ہو کر اپنی عقلِ سلیم اور علم کی بنیاد پر فیصلے کرنے کی جرأت نہ کریں۔

غلبۂ اسلام

دوسرا بڑا مفروضہ جس پر تہذیبی نرگسیت کی بنیاد ہے، یہ ہے کہ اسلام کو ہر دوسرے دین پر غالب کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ قرآن و حدیث میں اس مفروضہ کی بھی کوئی بنیاد موجود نہیں۔ اس سلسلہ میں قرآن کی صرف ایک آیت مبارکہ کا ذکر کیا جاتا ہے جو یوں ہے :
ھو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ و دین الحق لیظھرہ علیٰ الدین کلہ، ولوکرہ المشرکونo (61:9)
’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اس دین کو تمام دینوں پر ظاہر، نمایاں، ممتاز کر دے، چاہے شرک کرنے والوں کو برا لگے‘‘۔
ظہر یااظہر کے معنی غالب کرنا یا مسلط کرنا کیسے بنائے گئے یہ معلوم نہیں۔ قرآن میں یہ لفظ دوسری جگہوں پہ بھی استعمال ہوا ہے جہاں معنی ظاہر کرنے یا کھول دینے کے ہیں مثلاً یہ لفظ سورۃ تحریم میں بھی آیا ہے اور وہاں بھی اس کے معنی یہی ہیں:
فلما نبات بہ و اظھہرہ اللہ علیہ عرف بعضہ و اعرض عن بعض ج
پس جب اُس نے اس بات کی خبر کر دی اور اللہ نے انہیں (نبیﷺ کو اس پر آگاہ کردیا تو نبیﷺ نے تھوڑی بات بتا دی اور تھوڑی ٹال گئے)
یہ اس واقعہ کا بیان ہے جہاں رسول اللہ ﷺ نے راز کی ایک بات حضرت حفصہؓ کو بتائی تو انہوں نے حضرت عائشہ ؓ کو بتا دی لیکن حضرت حفصہؓ کا یہ فعل اللہ نے اپنے نبی پر ظاہر کردیا تو آپ ﷺ نے حضرت حفصہؓ کو اشارتاً جتلا دیا کہ آپ ﷺ کو حضرت حفصہؓکی اس غلطی کا علم ہو چکا ہے۔
چنانچہ لیظہرہ کے معنی یہی بنتے ہیں کہ’’ تاکہ وہ (رسول اللہﷺ )اس دین کو ظاہر کریں، نمایاں کریں، ابھاریں، واضح کریں۔ چاہے مشرکوں کو برا لگے۔ اس سے پہلے کی آیت میں ہے:
یریدون لیطفئوا نوراللہ بافوا ھھم واللہ متم نورہ ولو کرہ الکفرونo
وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں، اور اللہ اپنے نور کو تکمیل تک پہنچانے والا ہے چاہے کافروں کو برا لگے۔
نور کو تکمیل تک پہنچانے اور دینِ حق کو سب دینوں سے یا دینوں پر نمایاں کرنے کا عمل دونوں اس انداز سے بیان ہوئے ہیں جن میں اچھائی کے پھلنے پھولنے اور مخالفوں کی مخالفت کے باوجود سچائی کے آگے بڑھنے کا عمل ہے۔ جبکہ اس عمل میں کافروں کی اس کوشش کا ذکر اہم ہے جو وہ نورِ حق کو بجھانے کے لئے کرتے تھے۔ یعنی ایک جارحانہ عمل کے مقابلے میں سچائی کے زندہ رہنے اور پنپنے کا بیان ہے۔ اس بیان میں کسی ایسے عمل کی طرف اشارہ موجود نہیں کہ اگر کوئی مذہب ، اسلام کو مٹانے یا ختم کرنے کی کوشش ہی نہیں کر رہا تو اسلام آگے بڑھ کر اسے مٹانے کی کوشش کرے۔ سورۃ نمبر 3 آل عمران کی آیت نمبر 85 ہے:
و من یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھو فی الآخرۃ من الخسرین (3:85)
’’اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کی پیروی کرے گا تو اس کا دین قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہو گا‘‘۔
یہاں بھی اسلام کی تاکید کا انداز سلامتی کا ہے، دوسروں کی تذلیل یا تسخیر کا نہیں۔ سنجیدہ اعلان کا ہے، فخر یا تکبر کا نہیں۔ اور دوسرے مذاہب کے ختم ہو جانے کا بیان کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا، جو کہ غلبہ کے لفظ سے ظاہر کیا جاتا ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر لیظھرہ کا معنی غالب کرنے کا بھی لے لیا جائے تو بھی یہ عمل پاکستانی مسلمانوں کے یا قبائلی مجاہدین کے سپرد نہیں کیا گیا کیونکہ اس آیت کا وعدہ رسول اللہﷺ کی ذات سے ہے۔ یعنی رسول بھیجا گیا ہے تاکہ وہ اس عمل کو مکمل کرے۔ آیت نمبر 8 میں نور اللہ کی تکمیل کا کام اللہ نے اپنے ہاتھ میں لیا ہے اور آیت نمبر 9 میں لیظھرہ کے فاعل خود رسول اللہﷺ ہیں۔ آپ نے اپنی زندگی میں جو کام مکمل کیا وہی اس آیت کا وعدہ تھا۔ مذاہب کا وجود مٹا دینا یا تمام مذاہب کے ماننے والوں پر مسلمانوں کا چھا جانا، حکمران ہونا یا غالب آنا اس آیت میں یا کسی دوسری آیت میں موجود نہیں۔ فتح کے ذریعے فضیلت حاصل کرنے کا فلسفہ اگرچہ اسلاف نے اپنایا اور ایک عرصہ مسلمانوں نے دنیا کے بیشتر حصوں پر حکومت کی، تاہم اس کا تعلق دین کے کسی حکم سے نہیں، نہ ہی کوئی ایسا حکم آج کی دنیا کے لئے دیا جا سکتا ہے کہ جب مسلمان اپنے کردار اور علم کے اعتبار سے دنیا کی پسماندہ ترین قوموں میں سے ہیں۔
رسول اللہﷺ کو دنیا ایک عظیم صاحبِ دانش اور مدبّر کی حیثیت سے جانتی ہے، جن کی اصابتِ رائے، سیاسی تدبّر اور معاملہ فہمی کا اعتراف دشمنوں نے بھی کیا ہے۔ آپﷺ کے انداز حیات اور طرز سیاست سے معمولی واقفیت رکھنے والا شخص بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اگر آپﷺ موجود زمانے میں موجود ہوتے تو تشدد سے بڑھتی ہوئی نفرت اور بین الاقوامی رابطوں کے اس دور میں تشدد کے مقابلے میں سفارت اور مکالمہ کو ترجیح دیتے، طاقتور دشمن کی بے انصافی اور ظلم کے خلاف امن پسند اور منصف مزاج قوتوں کو متحرک کرتے۔ دشمن کی اپنی صفوں میں عدل و انصاف کی جو قوتیں موجود ہیں اُن سب مثبت قوتوں کی حمایت آج ہم نے صرف اس لئے گنوا دی ہے کہ ظلم کے خلاف ہماری نام نہاد جنگ کی کمان رسول اللہﷺ جیسے عالمی مدبّر کے ہاتھ میں نہیں بلکہ ایسے جاہلوں کے ہاتھ آ گئی ہے جن کا نظریۂ حیات انسانی تہذیب سے نفرت پر مبنی ہے۔

سنتِ رسول ﷺ کا نظریہ

اہلِ اسلام کا ایمان ہے کہ نبی اللہ ﷺکی ذات کے دونوں پہلو یعنی نبوت اور بشریت اگرچہ ہدایت کے ماتحت تھے تاہم بشری فیصلے یعنی ایک انسان کی حیثیت سے کیے جانے والے فیصلے شرعی حکم کا درجہ نہیں رکھتے۔ آپﷺ کے بعض فیصلے ایسے بھی ہیں جنھیں اللہ نے پسند نہ فرمایا مثلاً غزوہ بدر کے قیدیوں کا فیصلہ اور سورۃ تحریم میںرسول اللہﷺ کے اس فیصلے کو ناپسند کیا گیا جو آپؐ نے غالباً اپنی ایک زوجہ مطہرہ کے سامنے دوسری زوجہ کے بارے میں کیا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے کنارہ کشی کے عمل کی اللہ نے توثیق نہیں کی۔ خود رسول اللہﷺ نے اپنی بعض آرا کو ذاتی رائے کے طور پر تبدیل کیا۔ جیسے پودوں کی کاشت پر آپ کی رائے جو عملاً نتیجہ خیز نہ ہوئی، اور حضرت عمرؓ کے اعتراض پر رسول اللہﷺ کا حضرت ابو ہریرہؓ کو منادی روک دینے کا حکم جس میں یہ کہا جا رہا تھا کہ اے لوگو جس نے بھی کلمہ پڑھ لیا وہ جنت میں داخل ہو گیا، جس پر حضرت عمرؓ نے اعتراض کیا اور رسول اللہﷺ نے اس اعتراض کو تسلیم کر کے منادی روکنے کا حکم دیا۔
اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے بحیثیت انسان بہت کچھ کیا جس کی تقلید ہم پر لازم نہیں کیونکہ وہ بشری یعنی دنیاوی عمل تھے۔ جیسے مختلف مواقع پر آپ ﷺ نے بھوک کاٹی، تو بھوکا رہنے کا عمل ہمارے لئے اسی طرح واجب تقلید نہیں جیسے روزہ رکھنے کا عمل لازم ہے۔ یا آپﷺ نے بعثت کے بعد اگر کوئی معاشی سرگرمی نہیں کی تو یہ عمل کسی فرد یا گروہ کے لئے جواز فراہم نہیں کرتا کہ وہ دینی خدمت کے نام پر خود کو معاشی ذمہ داریوں سے آزاد کر لے۔ آپ ﷺنے حضرت خدیجہؓ کی زندگی میں کوئی دوسرا نکاح نہیں کیا تو اس سے اہلِ اسلام نے اپنے اوپر یہ پابندی عائد نہیں کی کہ وہ پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسرا نکاح نہ کریں۔ یا آپﷺنے افلاس اور تنگدستی کو برداشت کیا اور اپنے جوتے خود مرمت کیے، تو امتِ مسلمہ کا ہر فرد اسی طرزِ حیات کو اپنانے کا پابند نہیں۔ بلکہ حضورؐ کی سخت معاشی تنگدستی کو دیکھتے ہوئے بھی آپ ﷺ کے رو برو حضرت عثمانؓ بے حد دولتمند تھے۔ آج کے دور میں ایک طرزِ فکر سے وابستہ ہو کر ہمارے کچھ بھائی داڑھی رکھنے، شلوار ٹخنوں سے اوپر کرنے اور پائوں کے بل بیٹھ کر پانی پینے کو سنت رسولؐ اور اسلامی شناخت کا درجہ دے رہے ہیں جبکہ رسول اللہﷺ کی پیروی اُن باتوں میں کرتے نظر نہیں آتے جن میں مال اور مفاد کی قربانی دینا پڑے۔ ایسا کہیں دیکھنے میں نہیں آیا کہ جو لوگ داڑھی کے مسئلہ پر جبر و تشدد پر اتر آئے ہیں اور انہوں نے حجاموں کی دکانیں جبراً بند کر دی ہیں انہوں نے کسی کو اِس بات کے لئے بھی دھمکایا ہو کہ وہ اپنے کروڑوں کے اثاثے امت کے غرباء کے نام کر دیں یا کسی اجتماعی فنڈ میں دے دیں کیونکہ رسولﷺ تو ذاتی ملکیت سے محروم رہے لہٰذا تم ذاتی ملکیت کیسے رکھتے ہو۔ چنانچہ رسول اللہﷺ کی فاقہ مستی اور شفقت کی تصویریں آپ ﷺ کی امت کے اہلِ ثروت حضرات میں کہیں دکھائی نہیں دیتیں۔ یہ اسلام اور انسانیت کے ساتھ کتنا ظلم ہے کہ ذاتی حلیے کے لئے تو لوگوں کو بندوق اور توپ کی قوت سے مجبور کیا جائے، غریب حجاموں کی دکانیں اڑا دی جائیں، کسی بدنصیب اور کمزور عورت کو بدکاری کے جرم میں پکڑ کر زدوکوب کیا جائے جبکہ اُس عورت کے پاس جانے والے محفوظ رہیں اور زرو مال اکٹھا کرنے والوں، حتیٰ کہ غریبوں کے منہ سے روٹی چھین کر اناج ذخیرہ کرنے سمگل کرنے والوں، عورتوں اور لڑکوں کی تجارت کرنے والوں، اسلحہ اور منشیات کے تاجروں اور سود خوروں کو کھلی چھٹی ہو۔ کیا خوش بختی ہوتی اگر اسلام کی شناخت کا درجہ عمدہ سماجی اعمال کو دیا جاتا، معاشرہ کے کم نصیب لوگوں کی دستگیری کے لئے ادارے بنائے جاتے، جہاں علم و ہنر کی ترویج کا اہتمام ہوتا، جس سے معاشرہ کی معاشی کارکردگی بہتر ہوتی، جرائم پیشہ افراد کا ہاتھ روکا جاتا۔ اگر توپ تفنگ کا استعمال اتنا ہی پسندیدہ عمل تھا تو ظالموں، چیرہ دستوں، قبضہ گروپوں اور غنڈوں پر طبع آزمائی کی جاتی۔ اسلام کا نام لینے والے انصاف اور ایثار میں دوسروں سے نمایاں نظر آتے، رسول اللہﷺ سے عشق و عقیدت کا دعویٰ کرنے والے ایک مثالی معاشرہ بنا کر دکھاتے جو دنیا بھر کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا، جس کی کشش جابر ملکوں کے عوام کو اسلام کا مداح بناتی۔ دنیا میں کہیں کوئی ایسی مسلم بستی ہوتی جو انسانوں کے لئے پرمسرت زندگی اور عظمتِ کردار کی مثال ہوتی، لیکن ایسا نہیں ہوا نہ ہونے کے آثار ہیں۔ توپ تفنگ سے تو صرف مزدوروں کو رزق اور علم سے محروم کیا جا رہا ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ ہمارے معاشروں کا مستقبل کیا ہے؟
رسول اللہ ﷺ کے دنیاوی فیصلوں کی تقلید اگرچہ وحی یا شریعت کی طرح لازم نہیں پھر بھی ان فیصلوں کو راہنما اصول مانتے ہوئے اور عقیدت کے اظہار کے طور پر ان پر عمل کیا جاتا رہا ہے۔ لہٰذا ہم یہاں اتنا کہہ کر چھوڑ دیتے ہیں کہ وقت کے مطابق اگر حکومت وقت کو یا مسلمان معاشرے کو رسول اللہ ﷺ کے کسی دنیاوی فیصلہ سے ہٹ کر فیصلہ کرنا پڑے تو یہ نہ تو اسلام سے انحراف ہو گا نہ گستاخی۔ مثلاً اگر آج کے کسی جدید شہر پر دشمن فوج حملہ آور ہو تو خندق کھودنے کی بجائے کسی دوسرے طریقہ سے شہر کا دفاع کرنا گستاخی ہو گی نہ انحراف۔

اِسلاف کا فخر

خلافتِ راشدہ اور اسلاف کا دور مسلمانوں کی بھاری اکثریت کے نزدیک بے حد واجب الاحترام دور ہے، کیونکہ یہ اسلام کی زبردست کامیابیوں اور اثر انگیزی کا دور ہے۔ یہ انسانی مزاج کی روایت ہے کہ لوگ اپنے آباؤ اجداد کی تعریف کرنا اور سننا پسند کرتے ہیں۔ ہم بھی انسانوں کی اسی روایت پر ہیں۔ ہمیں بھی اپنی شناخت کے اونچے مینار اچھے لگتے ہیں اور کیوں نہ لگیں کہ جب ہمارے موجودہ وقتوں میں فخر کے لئے کچھ اور موجود ہی نہیں اور فخر کو ہم نے اپنی عادت بنا رکھا ہے۔ جبکہ قومیں حقیقی وقت میں زندہ ہوں تو آگے دیکھتی ہیں، جب نڈھال ، پژ مردہ اور زوال پذیر ہو جائیں تو ماضی کی کہانیوں پر گزر بسر ہوتی ہے۔ جیسے بچے اور جوان ماضی کو کم یاد کرتے ہیں، حال اور مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں، کیونکہ نمو کی رونق ہر طرف امید اور امنگ دکھاتی ہے۔ مگر عمر رسیدہ، تھکے ہوئے بزرگ جن کی قوتِ ادراک، قوتِ تعمیر اور قوتِ نسل گری رخصت ہو چکی، وہ ماضی کے افسانے دہراتے اور ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں۔ اگر بہت انا پسند ہوں تو یہ بزرگ اپنے گردوپیش پر برہم ہوتے ہیں اور اسے غلط رو اور ناجائز قرار دیتے ہیں۔ لگ بھگ ایسا ہی تہذیبوں کے ساتھ بھی ہے۔
انسانی حیات کے تسلسل کی کئی شکلیں ہیں۔ ایک فرد کی حیات ہے جو ایک مختصر عمر تک ہے۔ فرد اپنی مختصر حیات کے ثمر اور ورثے اپنی نسل میں چھوڑ جاتا ہے، لیکن نسل پیدا کرنے کے لئے اور انہیں اپنی جینیاتی اور ہر طرح کی وراثت دینے کے لئے وہ کم سے کم صنفِ مخالف کی مدد کا محتاج ہوتا ہے، یعنی تنہا اپنے اس مقصد کو مکمل نہیں کر سکتا۔ ایک اور حیات قبیلوں اور گروہوں کی ہے۔ عرصہ کے اعتبار سے یہ حیات فرد سے کہیں طویل ہے مگر قبیلے اور گروہ دوسرے قبیلوں اور گروہوں سے کبھی ٹکراتے کبھی بغل گیر ہوتے ہیں۔ رابطہ کی ان دونوں شکلوں میں نئے قبیلے اور گروہ بنتے ہیں، اکیلا کوئی قبیلہ بھی زندہ نہیں رہتا۔ پھر ایک حیات تہذیبوں کی ہے، قبیلوں کی شناخت سے بڑی شناخت بنا کر تہذیبیں انسان کی نشوونما کا کردار ادا کرتی ہیں، لیکن کوئی تہذیب لافانی نہیں۔ فرد اور قبیلے کی طرح تہذیب بھی دوسری تہذیبوں سے ملے بھڑے بغیر تخلیق کا عمل پورا نہیں کر سکتی۔ فرد اور قبیلے کی طرح تہذیب بھی الگ اور تنہا زندہ نہیں رہتی۔ جیسے کوئی فرد اپنے اندر مکمل نہیں بلکہ بقاء کے لئے قبیلہ اور گروہ کا محتاج ہے، جیسے قبیلہ اپنے اندر مکمل اور حرفِ آخر نہیں بلکہ تہذیب میں مدغم ہونے پر مجبور ہے، ایسے ہی تہذیب بھی اپنے اندر تنہا مکمل نہیں، نوعِ انسانی کی بڑی پیش قدمی میں دوسری تہذیبوں کے ساتھ ملنے اور بدلنے کی پابند ہے۔ فرد نفسیاتی مرض میں مبتلا ہو جائے تو صنف مخالف اور گروہ سے کٹ جاتا ہے۔ کوئی سوسائٹی یا کوئی تہذیب جب اپنے خول میں سمٹ جائے، اپنے خول کو اپنی شناخت بنا لے یا فخر و تکبر میں مبتلا ہو کر دنیا سے ٹکرا جائے تو نفسیاتی مریض کی طرح تباہی کی طرف نکل جاتی ہے۔ خول میں سمٹی ہوئی تہذیب کی مثال براعظم امریکہ میں آباد انکا مایا تہذیب تھی اور کسی حد تک برصغیر ہند میں ہندو تہذیب، اور فخر و تکبر کی ایک مثال رومن تہذیب اور جدید وقتوں میں جرمن فاشزم۔ شاید ریاست ہائے متحدہ امریکہ بھی اسی راستے پر گامزن ہو مگر امریکہ کے دانشوروں اور اس کے جمہوری نظام کے باعث توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ جلد اپنا رستہ بدل لے۔ شاید امتِ مسلمہ کہلانے والوں کی بڑھتی ہوئی خودستائی اور ماضی پرستی انہیں بھی ایسے رستے پر لے جا رہی ہے جس کی منزل فتح نہیں تنہائی ہے۔
ہمارے ہاں رویوں کی جو دیگیں پک رہی ہیں اُن کا حال جاننے کے لئے چند چاول چکھ لیں۔
11 اگست 2008 ء کا نوائے وقت، خصوصی ایڈیشن میرے سامنے ہے۔ پروفیسر خالدہ منیر الدین چغتائی کا انٹرویو ہے، فرماتی ہیں
’’مسلمانوں نے ہندوئوں کو تہذیب سکھائی، لباس ، مساوات، شرم و حیا اور طلاق کا تصور دیا۔ ہندوئوں کو زندگی کا سلیقہ مسلمانوں نے ہی سکھایا۔ انہیں پہننے کا اوڑھنے کا قرینہ آتا تھا نہ کھانے پینے کی تمیز……‘‘
اسی انٹرویو میں فرماتی ہیں
’’ گرداس پور میں اِن دنوں (مسلمان ) لڑکیوں کو پڑھانے کا رواج نہیں تھا، مگر میری ماں نے کہا ’ میں تے اپنی کڑیاں نوں پڑھانا اے‘ تو میرے دادا نے کہا ’ پتر توں پڑھا میں تیرے نال آں، ویکھاں گا کون کیہ کہندا اے ‘ ……‘‘
دیکھیں حالت یہ ہے کہ بیسویں صدی ہے اور اس مسلم سوسائٹی میں لڑکیوں پر تعلیم کے دروازے بند ہیں لیکن ایک خاتون جو پڑھنا لکھنا سیکھ گئی ہے کہہ رہی ہے کہ ہندوئوں کو عورت مرد کی مساوات اور تہذیب ہم نے سکھائی۔ ہندو تہذیب کے بارے میں متفقہ رائے یہ ہے کہ چار ہزار سال سے یہ اعلیٰ درجے کی تہذیب رہی ہے جس میں علمِ فلسفہ، علمِ ہندسہ رائج رہے جو مسلمانوں نے اِن سے سیکھے۔ اور عورتوں کو موسیقی اور رقص کی تربیت اس تہذیب میں صدیوں سے جاری رہی ہے اور عورت کو خاندان کی محترم ماں کی حیثیت سے اعلیٰ مقام حاصل رہا ہے۔ ہماری نفسیاتی حالت ایسی ہے کہ ہم اپنا سربلند کرنے کے لئے دوسرے کا سر جھکانا ضروری سمجھتے ہیں۔
ملک کے ہر اخبار میں خبریں آ رہی ہیں کہ سچا اور خالص اسلام نافذ کرنے والوں نے لڑکیوں کے سینکڑوں سکول جلا دئیے ہیں اور جو باقی بچے ہیں جلد ہی جلا دئیے جائیں گے تاکہ لڑکیوں کو ’’ شرم و حیا اور مساوات‘‘ میں رکھا جا سکے جس کا دعویٰ محترم خاتون اپنے مضمون میں کر رہی ہیں۔
اسی اخبار میں پروفیسر خالدہ کے انٹرویو کے نیچے ایک مضمون کی سرخیاں یوں ہیں: ’’عورت کا المیہ: عدم تحفظ ، تشدد، حق تلفی اور امتیازی سلوک خواتین کی ترقی کی راہ میں حائل ہیں‘‘۔
یہ عورت جس کا ذکر کیا جا رہا ہے کہیں اور کی نہیں اسلامی جمہوریۂ پاکستان کی ہے۔
پروفیسر خالدہ کہتی ہیں کہ ’’ اِن نفرتوں نے تو پاکستان بنا دیا، ان نفرتوں کو دعا دو‘‘ اور ’’جب تک نظامی صاحب اور اُن کا اخبار سلامت ہے، ہم اندھیروں سے کبھی نہیں ٹکرائیں گے‘‘۔ نہ ٹکرانے والی بات ممکن ہے کتابت کی غلطی ہو مگر حقیقت یہی ہے کہ ہم اندھیروں سے ٹکرانے کی بجائے ان میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
اسی اخبار میں مولانا صوفی محمد کے ارشادات بھی چھپے ہیں، فرماتے ہیں
’’ پاکستان میں عملاً کفری نظام رائج ہے، جس میں مسلمانوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں‘‘۔
غالباً اسی کفری نظام کو ختم کرنے کے لئے لڑکیوں کے سکول اور شیو بنانے والے حجاموں کی دکانیں جلائی جا رہی ہیں۔
کل کے اخباروں میں عوامی جمہوریۂ چین میں ہونے والے دھماکوں کی خبر تھی۔ لکھا تھا دھماکے چین کے مسلم اکثریتی صوبہ میں ہوئے جہاں مسلمان علیحدگی پسند تحریک چلا رہے ہیں۔
حضرت اقبال کی تمنا تھی کہ
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاکِ کا شغر
لیکن کیا مسلمان ایک ہو رہے ہیں یا صرف علیحدہ ہو رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حرم کے سعودی محافظوں کے ایماء پر مسلمانوں میں اسلامی فخر کے جذبات ابھارے جا رہے ہیں، لیکن خود اپنے وطن میں سعودی لوگ غیر ملکی مسلمان کو شہریت کے حقوق نہیں دیتے، رائے کا حق بھی نہیں دیتے، چاہے ساری عمر اس مسلمان نے عرب آقائوں کی خدمت کی ہو… عربوں کے حرم میں بوڑھی ہو جانے والی غیر ملکی لونڈیاں مر کر بھی عرب شہریت حاصل نہیں کر پاتیں… ایک ہونے کا یہ تصور کتنا پیچیدہ ہے!
تلخ سچائی یہ ہے کہ موجودہ دور میں مسلم ذہنیت کا غالب رنگ علیحدگی پسندی ہے۔ مسلم اتحاد صرف ایک نعرہ ہے لیکن مسلم علیحدہ پسندی ایک حقیقت۔ تہذیبیں جب رس دار اور توانا ہوتی ہیں تو بین الاقوامیت مانگتی ہیں، دوسری تہذیبیں اُن سے بچنے کے لئے اپنے خول میں سمٹتی ہیں۔ یہی تہذیبیں جب بوڑھی اور بے ثمر ہو جائیں تو علیحدہ مانگتی ہیں اور توانا تہذیبوں کو گناہ، گمراہی اور کفر کے نام دے کر اپنے بچائو کی کوشش کرتی ہیں۔ آج ہماری مسلم آبادیاں چاہیے وہ یورپ، امریکہ اور روس میں ہوں، چاہے چین جاپان اور بھارت میں ان کا ایک ہی تقاضا ہے کہ: علیحدگی۔ اپنے خول میں سمٹنے کے لئے ہمیں فخر اور نفرت کے جذبات دئیے گئے ہیں اور موت کے بعد جنت کی بشارت۔ ظاہر ہے کہ یہاں کچھ نہ پانے والوں کو آس کا سہارا اور غفلت کا گنبد چاہیے جس میں وہ چھپے رہیں۔
غفلت کے ضمن میں ایک غریب گھریلو ملازمہ کے خیالات سنئے۔ یہ 24 گھنٹے، 7 دن ڈیوٹی کرنے والی خالص ان پڑھ پیدائشی نوکرانی ہے۔ اسے اپنے مسلمان مالکوں کے سامنے صوفہ تو چھوڑیں کرسی پر بیٹھنے کی اجازت نہیں۔ اس نے جانے کیا کیا پاپڑ بیلنے کے بعد ایک سیکنڈ ہینڈ موبائل فون خریدا ہے، جس کے صرف ایک فنگشن کا استعمال اس نے مشکل سے سیکھا ہے یعنی فون کرنے اور سننے کا فنگشن۔ لیکن یہ فنگشن بھی مالکوں کے سامنے استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ میں نے اس سے پوچھا ’’ بولو جنہوں نے یہ فون جس سے تم اپنے خاندان سے بات کر لیتی ہو، یہ بجلی ، یہ ٹرینیں بسیں، ٹی وی ، یہ گیس اور بجلی کے چولہے جن میں پھونکیں مار کر لکڑیاں جلانے کی ضرورت نہیں پڑتی وغیرہ وغیرہ بنائے ہیں اور جنہوں نے اپنے ملکوں میں مالک ملازم کے انسانی حقوق برابر کیے ہیں اور تم ٹی وی پر دیکھتی ہو ان کی ملازم عورتیں مالکوں سے اور مالک ملازموں سے کیسا برتائو کرتے ہیں، تو کیا وہ لوگ اچھے ہیں یا ہم لوگ اچھے ہیں؟ ‘‘ اس نے جواب دیا ’’ وہ تو کافر ہیں، وہ ہم سے اچھے کیسے ہو سکتے ہیں؟۔ وہ دنیا میں جو مرضی کر لیں اگلے جہان جنت میں تو مسلمان ہی جائیں گے۔ یہ چار دن کی زندگی ہے اصل بادشاہی تو موت کے بعد ہونی ہے‘‘ ۔ میں نے پوچھا ’’ اچھا تو یہ بتائو ہم میں سے کون سی خوبی تمہیں سب سے اچھی لگتی ہے ؟ ‘‘ اس نے جواب دیا ’’ آپ لوگ اتنے امیر ہیں ، پھر بھی آپ نماز پڑھتے ہیں اور سارے خاندان نے حج کیا ہوا ہے۔ اِس سے بڑی اچھائی اور کیا ہو سکتی ہے۔ میری حسرت ہے کہ میں بھی حج کروں۔ ‘‘
لطف کی بات یہ ہے کہ چند روز پہلے اس ملازمہ کی سولہ سالہ بیٹی کو ایک مدرسہ کے مہتمم حاجی مولانا نے زنا بالجبر کا نشانہ بنایا تھا جسے بچی کے باپ نے رنگے ہاتھوں دیکھ لیا تھا اس واقعہ کی تحقیقاتی رپورٹ ایک نجی چینل پر چلی لیکن مدرسہ کے مہتمم کا کچھ نہیں بگڑا، نہ ہی مدرسہ کو کوئی فرق پڑا۔ اور آج بھی دونوں اتنے ہی محترم اور آزاد ہیں جتنے پہلے تھے۔ ابھی دو دن پہلے اس ملازمہ نے ٹی وی نیوز میں گوالمنڈی لاہور کا واقعہ سنا تھا جس میں مبینہ طور پر نو دس سال کی ایک بچی کو امام مسجد کے بیٹے اور موذن نے جبری زنا کا نشانہ بنا کر ہسپتال پہنچا دیا تھا۔ بھوک، بے حسی، سماجی بے انصافی اور جرائم سے بھرے ہوئے اس معاشرہ کی خبریں سننے والی اس مسلمان عورت کو سکھانے والوں نے وہ اسلامی فخر سکھایا ہے جس کے خول میں سمٹ کر اس کا وجود ہر کڑوی خبر ہر تلخ سچائی سے محفوظ ہو گیا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ جرم و ستم کے یہ واقعات انفرادی نوعیت کے ہیں، اجتماعی طور پر معاشرہ الحمد اللہ ٹھیک ہے کیونکہ نماز پڑھنے والوں ، حج کرنے والوں کا اور شبینہ محفلوں کا ہر طرف چرچا ہے۔

انفرادی فعل

ہمارے ہاں پاکیٔ داماں کا فریب قائم رکھنے کے لئے بعض فقرے اور جواب سبق کی طرح رٹ لئے گئے ہیں۔ لگتا ہے اس کے لئے تحریکی سطح پر کام کیا جا رہا ہے۔ ٹی وی ، اخبارات اور رسائل کے علاوہ جمعہ کے خطبوں میں، گلی محلہ میں جاری درس میں، تیزی سے چھا جانے والے خطیبوں کی کیسٹوں میں اور ان گنت مدرسوں میں، تحریک کے مرکز سے جاری ہونے والے فقرے اور رویے ایک ہی طرح سکھائے جاتے ہیں۔ مثلاً جب بھی ایسا فکر انگیز سوال آئے کہ اگر ہم بہترین امت ہیں تو یہ جرم اور وہ بدکاری، وہ ظلم اور یہ بے حسی کیوں ہے، تو جواب آئے گا ’’ بیچ میں برے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ یہ کالی بھیڑیں ہیں۔ کوئی شخص برا ہے تو یہ اس کا ذاتی فعل ہے۔ اس میں امت کا کیا قصور ہے؟‘‘
اسی طرح جب بھی جدید تہذیب کی انسانی خدمات کا ذکر آئے، فوراً ایک طے شدہ رد عمل سامنے آئے گا ’’اس تہذیب نے انسان کو صرف مادیت سکھائی ہے، اُن کے اخلاق تباہ ہو چکے ہیں، اُن کی جنسی آوارگی اور عریانی تو دیکھیں۔ اُن میں روحانیت ختم ہو چکی ہے۔ ہم مادی طور پر پیچھے ہیں مگر ہمارے پاس الحمد اللہ اسلام اور روحانیت ہے۔‘‘
ہم خود فریبی کے نشے میں یہ دیکھ ہی نہیں پاتے کہ ہمارے صدر سے لے کر چپڑاسی او ر مزدور تک، روحانی افق پر چھائے ہوئے عظیم دینی سکالر سے لے کر گدھا گاڑی والے ان پڑھ تاجر تک، ایک سے بڑھ کر ایک نٹ کھٹ چنڈال شکار پر نکلا ہوا ہے۔ مارکیٹوں میں جائو تو خریدنے والوں کی حرص اور بیچنے والوں کی بھوک کا کوئی کنارہ نہیں، زرو مال کی دیوانگی اور ماتھے پر آنکھیں، کاروبار اور کیرئیر پر عزیز رشتہ دار سب قربان، خوشامد اور موقع پرستی کا بازار گرم، طاقت کے آگے لیٹنے اور کمزور پر بپھرنے میں خوشحال اور غریب، غنڈہ اور حاجی ایک سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں، دودھ سے لے کر فولاد تک ہر سودے میں’’ ہوشیاری‘‘ اور دیہاڑی لگانے کے رویوں نے باہمی اور عالمی اعتماد برباد کر دیا ہے، اقوام عالم ہی نہیں ہم خود بھی اپنے کیے پر اعتماد نہیں کر سکتے،اعتبار کریں تو لٹ جاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہمارا دعویٰ ہے کہ سب کمزوریاں انفرادی ہیں اور روحانیت تو ماشاء اللہ الحمد اللہ۔

روحانیت کیا ہے؟

روحانیت بالعموم ایک مبہم لفظ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ مذہب اور فلسفہ میں اس کا مفہوم ایک جیسا نہیں۔ پھر سارے مذاہب میں بھی ایک جیسا نہیں، مثلاً ہندو مذہب میں موسیقی روح کی بنیادی غذا ہے، ہندو عقیدہ میں سرسوتی ماں جو سُر اور موسیقی کا سرچشمہ ہے، ایک دیوی ہے، یعنی مذہبی تقدس کی علامت ہے۔ یعنی موسیقی مقدس صفت اور ہر ساز اس پاک عمل کا معاون ہونے کے باعث روح کو طاقت دیتا ہے۔ لیکن اسلام کے نزدیک موسیقی روح کو ناپاک کرتی ہے۔ اور ایک مخصوص اسلامی فقہ کے حامی تو آلات موسیقی کی تصویر دیکھ کر بھی کچھ نفسیاتی سی کیفیت میں مبتلا ہونے لگتے ہیں۔ اسلام میں روح کی غذا عبادت ہے یعنی عبادت میں روحانیت ہے۔ اور عبادت کے تصورات اہل شریعت اور طریقت کے ہاں ایک جیسے نہیں۔ یعنی ایک کے ہاں ارکانِ اسلام کی ادائیگی مکمل روحانی عمل ہے، جبکہ مشائخ کے ہاں روح کا سفر تو اس معمول کی عبادت سے آگے کہیں شروع ہوتا ہے۔ پھر اِس سوال پر کئی جواب ہیں کہ انسان کی روح کو کتنی غذا چاہیے؟ یعنی اگر عبادت ہی روح کی خوراک ہے تو کتنی عبادت؟ اسلام کے مطابق دن میں پانچ بار ایک مقررہ معمول کے مطابق عبادت اور رمضان میں اس سے کچھ اور زیادہ۔ بہت سے مسلمانوں کے نزدیک درود و سلام کی محافلِ شبینہ اور کثرت سے وظائف اس کے علاوہ ہیں۔ لیکن مسیحیت میں ہفتہ وار اور ہندوئوں میں دن میں ایک بار دیوی دیوتا کے آگے حاضری یا پرنام روح کو تروتازہ کر دیتا ہے۔
پچھلے زمانے کے مقابلے میں انسانی زندگی میں ایک نمایاں تبدیلی یہ آئی ہے کہ انسان کی بنائی ہوئی مصنوعات اور انسان کے بنائے ہوئے اصول و قوانین نے قدرتی طور پر میسر آنے والی اشیاء اور مذہب کے دئیے ہوئے قوانین کی جگہ لے لی ہے یا لے رہے ہیں۔ اس عمل سے ایک طاقتور مذہبی طبقہ کو شدید اختلاف ہے۔ ہر معاشرہ میں ایسے مذہبی عناصر موجود ہیں جو ماضی قریب تک معاشرہ کی فیصلہ کن قوت رہے ہیں اور اسلامی معاشرہ میں ان دنوں بھی یہ فیصلہ کن طاقت کے مالک ہیں۔ فطری طور پر ان عناصر کی خواہش اور کوشش ہے کہ ان کے معاشرے مذہب سے رہنمائی حاصل کریں، تاکہ فضیلت کا مقام ان کے پاس رہے۔ مذہبی قیادت کا نظریہ یہ ہے کہ انسان کی رہنمائی خالق ہی کر سکتا ہے، انسان کی عقل ناقص ہے لہٰذا اسے اپنی زندگی کے فیصلے خود نہیں کرنے چاہئیں۔ مذہب چونکہ خالق کی طرف سے انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے آیا ہے لہٰذا انسان کو مذہب کے مطابق زندگی بسر کرنی چاہیے۔ جب یہ نقطہ سمجھ لیا تو فطری طور پر اگلی بات یہ ہے کہ مذہب چونکہ ایک اعلیٰ ارفع علم ہے، نیز ہر مذہب کی اپنی ایک مقدس زبان ہے، مثلاً ہندو مت کی سنسکرت، مسیحیت کی لاطینی اور اسلام کی عربی، لہٰذا وہی لوگ معاشرہ کی بہترین رہنمائی کر سکتے ہیں جو اس اعلیٰ علم اور اس کی مقدس زبان پر عبور رکھتے ہیں۔ یعنی ہندو معاشرہ میں برہمن، مسیحیوں میں پادری اور مسلم اُمہ میں مدرسوں سے فیض یاب ہونے والے علماء اور طالبان۔ چنانچہ جدید صنعتی دور میں رونما ہونے والی تبدیلی کے خلاف مذہبی تنظیموں کی طرف سے ایک طاقتور تحریک چلائی جا رہی ہے۔ 2007ء میں خطیر سرمایہ خرچ کر کے امریکہ کی بعض یونیورسٹیوں میں ’’ اکیسویں صدی میں مذہب کے اعلیٰ تر مطالعہ کی ضرورت‘‘ کے موضوع پر سیمینار ہوئے ہیں۔ ’’مسیحی سائنس‘‘ کو کفری سائنس کے متبادل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دوسری طرف اسلامی ملکوں میں سائنس کے مضر اثرات سے بچانے کے لئے وسیع پیمانے پر دینی درس و تدریس کے سلسلے چلے ہیں۔ یہی حال بھارت میں ہندو مت کی تحریک کا ہے۔ اس عمل کو بالعموم تحریک احیائے مذہب کہا جاتا ہے۔ چنانچہ اس وسیع سرگرمی کو دیکھنے والے عام آدمی کو یوں لگتا ہے کہ جیسے جدید سائنسی دور میں مذہب کی ضرورت اور بڑھ گئی ہے۔
اس کے پہلو بہ پہلو ایک صورتحال یہ ہے کہ عام آدمی جسے تبدیلی میں دِقت ہوتی ہے، تیزی سے بدلتی ہوئی زندگی سے پریشان ہے۔ زندگی کے انداز اور تقاضے اتنی تیزی سے بدل رہے ہیں کہ عام آدمی کے پائوں اکھڑ رہے ہیں۔ دیہاتوں میں شہری انداز داخل ہو رہے ہیں، شہروں کو خوشحالی اور نئی مصنوعات کی ریل پیل نے عالمی بازار بنا دیا ہے۔ اس ساری دوڑ میں ذہن کی تربیت اور ثقافت کی تربیتِ نو پر توجہ نہیں دی جا سکی۔ معاشی تضادات بھی زوروں پر ہیں۔ ہوشیار اور نٹ کھٹ لوگ کم ذہین لوگوں کو ہر طرح سے مات دے رہے ہیں۔ ایسے میں سماجی انصاف کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ شاید یہی عوامل ہیں کہ یورپ کے ہاں اکھاڑ پچھاڑ اور سماجی اضطراب کا یہ عمل موجود نہیں، وہ آج بھی احیائے مذہب کی تحریک سے الگ ہے۔ جبکہ امریکہ جہاں نت نئے لوگ بکثرت داخل ہو رہے ہیں، احیائے مذہب کی تحریک میں بہت حد تک شریک ہے۔
جب تک دنیا میں سوسلشٹ انقلاب کی جھوٹی سچی تحریکیں موجود تھیں، اس محرومی کو ایک سہارا میسر تھا، جس میں اکھڑے اور پچھڑے ہوئے لوگ جدید دور کی نعمتوں تک رسائی کا خواب دیکھتے تھے، اور یوں جدید دور کے خلاف احتجاج مایوسی کی بجائے شامل ہونے اور مقابلہ کرنے کی شکل اختیار کرتا تھا۔ اس امید کے غائب ہونے سے ہر معاشرہ کے گھبرائے ہوئے لوگوں کی نظر اگلے جہان پر لگ گئی ہے، نہ صرف پچھڑے ہوئے لوگوں کی بلکہ ہر اس نٹ کٹھ کامیاب شخص کی نظر بھی ثواب اور گناہ پر لگ گئی ہے جسے صدیوں کے تربیت یافتہ ضمیر کی چبھن ستاتی ہے کہ شاید اس سے کہیں کوئی غلطی ہوئی ہے۔ علمی انقلاب سے محروم اور سماجی آداب سے عاری زندگی کی جدوجہد بالآخر احساسِ جرم پر منتج ہوتی ہے۔ یہ صورتحال ایسی تبدیلیوں کا شاخسانہ ہے جو فکری تربیت کے بغیر آئی ہیں۔
ایسے ذہنی خلفشار اور فکری خلاء میں مذہبی قیادت کا یہ بیان مرہم کی طرح سکون دیتا ہے کہ ’’ بندے تیری پریشانی کا باعث یہ ہے کہ تو مادیت کے پیچھے دوڑتے دوڑتے اپنی روح سے غافل ہو گیا ہے، آ روحانیت کی طرف پلٹ کہ اسی میں تجھے سکون ملے گا‘‘۔ الا بذکراللہ تطمئن القلوب۔ (خبر دار دلوں کا سکون اللہ کے ذکر میں ہے) قرآن کی اس آیت میں اللہ کے ذکر سے مراد کیا ہے اس کے کیا اعلیٰ معنی ہیں اس سے بے خبر مذہبی عالم جو خود دنیا داری میں سر کے بالوں تک ڈوبا ہوا ہے یہ بیان کرتا ہے کہ مذہبی عبادات اور احکام پر عمل کرنا ہی ذکر اللہ ہے۔ صدیوں کی عادت اور روایت یہی رہی ہے کہ لوگ مذہب کے تحت زندگی گزارتے آئے ہیں۔ چنانچہ عالمِ دین کی یہ آواز اپنی طرف کھینچتی ہے اور فکری تربیت سے محروم عام آدمی قبول کر لیتا ہے کہ پلٹ کر مذہب کی آغوش میں آ جانا، یعنی اپنے آباء و اجداد کی بتائی ہوئی عبادات پوری کرنا روحانیت ہے۔

مذہب بطور روحانیت

پچھلے زمانوں میں جب دنیا بھر کے لوگ مذہب کی عبادات و رسومات کو معمول کی حیثیت سے پورا کرتے تھے تو مذہب کا مطلب روحانیت نہیں تھا، بلکہ مذہب تو مادی اور روحانی دونوں معاملات میں ایک رہنما ضابطہ کا نام تھا اور روحانیت کا مطلب کچھ اور تھا، یعنی معمول کی سرگرمیوں کے بعد کچھ اور۔ قرآن میں ذکر ،فکر اور تدبر کے الفاظ بار بار دہرائے گئے ہیں۔ ہندو مت میں گیان دھیان یعنی یکسوئی کے ساتھ فکر کرنا مذہب کے اعلیٰ تر عوامل میں شمار ہوا ہے۔ چنانچہ ہندو مت عیسائیت اور اسلام تینوں مذاہب کے دورِ عروج میں تصوف کی تحریکیں ابھریں جن کا دعویٰ یہ تھا کہ معاشرہ کی بے روح زندگی نے روحانیت کا عنصر لانے کے لئے کوئی دوسر ی ایسی ریاضت ضروری ہے جس میں معمولات سے بالا ہو کر یکسوئی کا عملی حصول ممکن ہو۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ صوفیاء نے عام لوگوں کی محرومی کے ان ادوار میں جب معاشی اور مادی معاملات کی بہتری کے جدید امکانات موجود نہ تھے، برداشت کرنے یعنی قناعت میں جینے کے سلیقے سکھائے۔ اسی لئے یہ کہنا درست لگتا ہے کہ صوفیا برداشت کے سائنسدان تھے ، جبکہ ہمارے دور کے سائنسدان امکان کے صوفی ہیں۔ دونوں میں استغراق اور یکسوئی کی صفات بنیادی عمل کے طور پر ملتی ہیں جبکہ مقاصد الگ الگ ہیں۔ یہ مقاصد امکان کی حدوں سے متعین ہوتے ہیں۔ صوفیا کا دور جابر بادشاہوں اور محدود ذرائع پیداوار کا دور تھا، قناعت مجبوری تھی۔ سائنس نے یعنی انسان کے ایجادی، تخلیقی علم نے امکان کے وہ در کھولے ہیں کہ اتنا کچھ ہونے پر بھی فردکو قناعت کا درس یاد نہیں آتا۔
مذہب کی عبادات و رسومات جب روزمرہ کا معمول تھا، تو عبادات و رسومات ازخود روح کو مطمئن نہیں کرتی تھیں۔ آج جب جدید انسانی معاشرے مذہب سے دور ہو گئے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ مذہب کے احکامات و رسومات کی ادائیگی شاید روحانیت ہے۔ حالانکہ عملی نتائج جو معاشرہ کی کارکردگی سے ظاہر ہیں، واضح کر رہے ہیں کہ عبادات و رسومات ہماری روحانیت میں کوئی اضافہ نہیں کر سکے۔
مذہب پر عمل کرنا اگر روحانیت ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے چاروں مستعد مذاہب کے عقائد و عملیات میں اتنی شدید تفاوت کے کیا معنی ہیں؟ ایک مذہب میں چوہے چھپکلیاں اور کیڑے حلال خوراک ہیں، دوسرے میں سؤر اور الکحل حلال ہے، تیسرے میں یہ تینوں حرام ہیں لیکن بکرا اور گائے بھینس حلال ہے۔ پھر چوتھے میں گوشت کی ہر شکل حرام ہے۔ بدھ مت میں کوئی خدا کوئی دیوتا نہیں، عیسائیت میں تین تصویریں مقدس ہیں، ہندو مت میں درجنوں بت سجے ہیں اور چوتھے میں تصویر بھی حرام۔ بدھ مت میں گیان دھیان عبادت ہے، ہندو مت میں پھول چڑھانا، دھونی رُمانا، پرنام کرنا کافی ہے، عیسائیت میں ہفتہ وار خوش لباس حاضری، اور اسلام میں پانچ وقت حاضری اور رمضان میں اس سے کچھ اور زیادہ۔ اگر مذہب پر عمل کرنا روح کو سکون دیتا ہے تو اس قدر واضح تضادات سے لبریز مذاہب پر عمل کرنے والوں کی روحیں کیا ہیں؟ کیا تمام روحیں انسانی ہیں؟ ہر مذہب کا دعویٰ ہے کہ انسانی روح کی غذا صرف اس کے پاس ہے۔ تو کیا ایک مذہب کے ماننے والوں کی روحیں دوسرے مذہب کی روحوں سے الگ خواص کی حامل ہیں؟ اسلام سمیت کسی مذہب نے یہ نہیں کہا کہ مختلف انسانوں کے لئے خالق کائنات نے مختلف مذاہب تجویز کیے ہیں ، نہ ہی یہ عقیدہ کسی کو تسلیم ہو گا کہ کائنات کے کئی خالق موجود ہیں جنہوں نے اپنے اپنے خیال کے مطابق لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ تو پھر روح کیا ہے؟
بڑے لوگوں کی باتیں عقیدت مندوں کو بہت بڑی لگتی ہیں۔ بعض اوقات مرشد کی نہایت مہمل بلکہ گمراہ کن بات پر بھی واہ واہ ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کسی نے مولانا مودودی کے سامنے مولانا کوثر نیازی کا یہ بیان سنایا کہ موسیقی روح کی غذا ہے تو مولانا نے فرمایا ’’ جیسی روح ویسی غذا‘‘۔ عقیدت مندوں کو اس جواب میں حسِ مزاح کے ساتھ ساتھ فلسفیانہ حکمت بھی نظر آتی ہے۔ حیرت ہے انسانوں کی روحیں بنانے کا کوئی کارخانہ ایسا ہے جس میں ہر دانہ الگ الگ اور اتنا منفرد ہے کہ دوسرے سے اس کا موازنہ ممکن ہے نہ ربط۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس دعویٰ کا کیا کریں کہ اسلام تو ساری انسانی نسل کے لئے ہے اور ہر نسل کے لئے۔ اگر روحیں الگ الگ نمونوں، خاصیتوں اور الگ الگ فطرتوں پر بنی ہیں تو کیا انسانوں میں اتحاد اور بقائے باہم کا کوئی امکان باقی رہ جاتا ہے؟
کائنات کے ان گنت گوشے ابھی ہمارے لئے نامعلوم علاقے ہیں، بلکہ ابھی تو ہم نے جاننے کا سفر آغاز کیا ہے۔ ان ہی نامعلوم علاقوں میں ایک علاقہ انسانی دماغ کا بھی ہے۔ یہ کائنات کی طرح وسیع اور گہرا ہے۔ شاید یہ کائنات کا ماڈل ہے مگر اس میں مشکل یہ ہے کہ ماڈل کائنات کا حصہ ہے۔ کائنات اور ذہن مساوی بنیادوں پر پھیلتے ہیں۔ کائنات کی طرح ذہن پیہم متغیر اور نمو پذیر ہے۔ ذہن اور کائنات دونوں وجودی اکائیوں میں بٹے ہوئے ہیں یعنی جیسے غیر نامیاتی مادہ اور بے شعور حیات ان گنت الگ الگ اکائیوں میں تقسیم ہے اسی طرح ذہن ہر انسان کی اکائی کے ساتھ ایک الگ اکائی ہے، سو جتنے انسان اتنے ذہن۔ لیکن ان ذہنی اکائیوں میں ایک ڈوری سلوک کی ہے جو انہیں باہم ربط فراہم کرتی ہے۔ یہ ڈوری فہم کی وہ صلاحیت ہے جو تمام انسانوں میں مشترک ہے۔ یہ صلاحیت تربیت سے بڑھتی ہے، لیکن یہ ذہن کا بنیادی جوہر ہے جو ہر ایک انسان کو دوسرے انسان سے مربوط کرتا ہے۔
مادہ کی ان گنت شکلوں اور اکائیوں میں ایک ایسا بنیادی اشتراک موجود ہے جو انہیں انفرادیت کے باوجود تصادم سے بچاتا ہے۔ یہی صفتِ مشترک ذہن کی کروڑوں اربوں منفرد اکائیوں میں بھی موجزن ہے۔ اس صفتِ مشترک کو ہستی یا ہونے کی قوت کہا جا سکتا ہے اس قوت کی بنیادی صفتِ وجودجذبہ بقا ہے۔ اسی صفت کے باعث مادہ فنا نہیں ہوتا، اسی صفت کے باعث ذہن فنا نہیں ہوتا۔ مادہ شکلیں بدلتا ہوا موجود رہتا ہے، ذہن نہ صرف نسلوں اور تہذیبوں میں سفر کرتا ہے بلکہ بڑھتا بھی ہے۔ غیر نامیاتی مادہ اور بے شعور حیات کی شکلیں ایک دوسرے کو توڑتی اور نئی صورتوں کی طرف دھکیلتی رہتی ہیں لیکن ذہن کارزارِ ہستی کی اکائیوں کی اس لاشعوری اکھاڑ پچھاڑ کی شعوری تصوریر بناتا ہے۔ یوں ان اکائیوں کے ناپید ہونے کا عمل فکری تصویر میں محفوظ ہو کر بقا کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس اعتبار سے ذہن کو کائنات کا عملِ خود شناسی بھی کہا جا سکتا ہے، یعنی کائنات نے خود کو پہچاننے اور باقی رکھنے کے لئے ذہن کی تعمیر کی۔ جب سے انسان نے کرۂ ارض پر اپنی بقا کے امکانات روشن کیے ہیں، اس نے حیات کی کم صلاحیت شکلوں یعنی مختلف جانوروں کی بقا کو توجہ دی ہے۔ قافلۂ حیات کے سربراہ کی حیثیت سے انسان کا رول یہی بنتا ہے۔
لیکن جاننے کے سفر میں ابھی ان گنت سوال ہیں یعنی کائنات کیا ہے؟ وجود کی ان گنت اکائیوں کا تنوع کیا ہے اورکیوں ہے ؟ انسان سے انسان کا رشتہ کیا ہے؟ پیدا ہونا اور مرنا کیا ہے؟ انفرادی اکائی کے طور پرمجھے فنا کا سامنا کیوں ہے؟ مجھے زندہ رہنے کی خواہش ہے اور اپنی نسل کو زندہ دیکھنے کی خواہش ہے، پھر موت کیوں نہیں ٹلتی؟ یہ سوال ذہن انسانی کے اس شعوری تعلق کا نتیجہ ہیں جو اس کا اپنے وجود کی جبلت سے ہے اور گردوپیش میں پھیلی ہوئی حقیقت سے ہے۔ اگرچہ زندہ رہنے کی خواہش زندگی کی ہر اکائی میں موجود ہے چاہے وہ بارش میں نکلنے والا کیڑا ہو یا پودا، تاہم حیات کی کم تر شکلوں کو اس لئے کم تر کہا جاتا ہے کہ وہ بقا کے بنیادی حکم کی تعمیل کرنے سے قاصر رہی ہیں۔ بقا کے اس حکم کی تعمیل اس وقت ممکن ہوئی جب حیات اپنی طویل جدوجہد کے بعد ذہن پیدا کرنے میں کامیاب ہوئی۔ ذہن کی موجودہ حالت میں انسان اس منزل تک آنے میں کامیاب ہو گیا ہے کہ نسلِ انسانی کی بقا کو درپیش خطرات بہت حد تک کم ہوئے ہیں۔ لیکن فرد کی بقا ابھی تک ایک ایسا خواب ہے جسے ہم صرف مذہب کے وعدوں میں دیکھ سکتے ہیں۔
جسے ہم روح کہتے ہیں، وہ غالباً ذہن کا ایک ایسا طبقہ ہے جو اجتماعی شعور کو عالمِ نامعلوم سے جوڑتا ہے۔ خواہشِ بقا اس عالمِ ہستی کی وہ قوتِ محرکہ ہے جو ہمارے اجتماعی شعور کابنیادی چتوبرا بھی ہے۔ چنانچہ اجتماعی شعور کا خزانہ آخری تجزیہ میں بقا کے سفر کا ریکارڈ ہے یعنی ان گنت صدیوں میں زندگی کو اور انسان کو اپنی بقا کے لئے جن مرحلوں اور تجربوں سے گزرنا پڑا اس کی یادداشت ہے۔ جب فرد اپنے اجتماعی شعور کی منزل سے نامعلوم کے ساتھ ربط قائم کرتا ہے تو وہ ذہنی کیفیت پیدا ہوتی ہے جسے ہم روحانیت کہتے ہیں۔ یعنی ہستی کی پراسرار اور نامعلوم حقیقت کے ساتھ ایک ہو جانے یا مربوط ہوجانے کی مبہم کیفیت، جس میں انسان کے سفر کی اگلی منزلوں کا خواب ابھرتا ہے۔ یہ کیفیت ہر ذہن میں گوندھی ہوئی ہے کیونکہ ہر انسانی اکائی اس اجتماعی انسانی سفر کا تسلسل ہے جو زندگی اور انسان نے طے کیا ہے۔ لیکن یہ کیفیت ہمہ وقت مستعد نہیں رہتی۔ عملی زندگی کے معمولات اس کیفیت کو منتشر کرتے رہتے ہیں اوردبا دیتے ہیں۔ لہٰذا مختلف مذاہب نے اس کیفیت کو اپنی اپنی رسومات کے ذریعے بیدار کرتے رہنے کی کوشش کی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ کیفیت کسی ایک رسم یا معمول کے ذریعے ایک بار یا چند بار تو پیدا ہو سکتی ہے لیکن جوں جوں رسم معمول بنتی جاتی ہے اور ایک میکانکی عمل بن جاتی ہے تو اس کیفیت کو حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں رہتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان گنت لوگ جو مذہبی رسومات کی ادائیگی میں مستعد ہوتے ہیں، اخلاقی اور روحانی اعتبار سے دوسرے لوگوں سے مختلف نہیں ہوتے۔
کسی بھی معاشرہ کے لئے تجزیہ اور خود تنقیدی اٹل ضرورتوں میں سے ہے۔ تجزیہ صرف حال کا نہیں ماضی کا بھی کرنا پڑتا ہے۔ تنقید اپنے حال پر بھی ہوتی ہے اور اپنے ماضی پر بھی۔ قوموں اور تہذیبوں کے زوال میں مختصر عرصہ کی غلطیاں اور صرف موجودہ وقت کی کمزوریاں فیصلہ نہیں کرتیں۔ یہ ایک لمبا سفر ہوتا ہے۔ ترقی اور زوال دونوں ہی ان گنت عوامل کا کھیل ہوتے ہیں۔ وقت اور واقعات کے ان گنت سلسلے مل کر کہانی بنتے ہیں۔ لیکن اگر انسانوں کو ہر معاملہ کا جائزہ لینے، اس پر بحث و تنقید کرنے اور اس کے نتائج کو جانچنے پرکھنے کا حق حاصل ہو تو غلطیوں کا اعادہ کم ہوجاتا ہے۔ انسانی ذہن اسی عمل کے ذریعے انسانی بقا کی ضمانت بنتا ہے۔ حقیقی وقت میں مسائل و حقائق کی تفہیم تبھی ممکن ہے جب انسانی ذہن کو عقیدت اور تابعداری سے آزاد ہو کر سوال پوچھنے اور سوچنے کی اجازت ہو۔ مگر سب سے پہلے یہ کہ ہم اپنے اندر کوئی کمی محسوس کرتے ہیں اور خود کو بدلنے کی ضرورت۔ ماضی میں یا بزرگوں کے کام میں کوئی غلطی تھی یا وہ بے عیب تھے، اس کا فیصلہ کرنے کے دو طریقے ہیں ۔ ایک تو وہ جو ہمارے ہاں رائج ہے یعنی ایمان لے آئو کہ ہمارا ماضی اور ہمارے بزرگ بے عیب تھے۔ جو نبی کی صفات ہیں، وہ ہمارے تمام بزرگوں میں موجود تھیں یعنی سبھی تنقید سے بالاتر تھے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ غیر جانبداری سے واقعات کا تجزیہ کیا جائے اور نتائج کے اعتبار سے جو عمل غلط ثابت ہوتا ہے اسے غلط کہا جائے۔ تجزیہ اور غیر جانبداری ایک ایسی ذہنی صلاحیت ہے جو اختلاف کے ماحول میں پیدا ہوتی اور نمو پاتی ہے۔ جب اختلاف کے ماحول میں رہتے ہوئے ہمیں اپنی کمزوری کا احساس دلایا جاتا ہے تو ہمارا پہلا ردّعمل بالعموم اپنی اصلاح کا نہیں ہوتا، خصوصاً اس وقت جب ہمیں تعریف سننے کی عادت ہو۔ بلکہ پہلا ردّعمل یہ ہوتا ہے کہ ہم اختلاف کے ماحول کو ہی رد کر دیتے ہیں، اس ماحول کو بدنیتی کا الزام دیتے ہیں، اسے خاموش کرانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اگر ان کوششوں میں ناکام ہو جائیں تو علیحدگی کا فیصلہ کرتے ہیں، تاکہ اختلاف اور تنقید سے محفوظ ہو کر اپنی خود پسندی کو قائم رکھ سکیں۔ چونکہ ایک طاقتور طبقہ اس وقت ہماری خودپسندی اور خول بندی کے ذریعے ہمارے کندھوں پر سوار ہے، اس لئے ہمیں اختلاف کے الف تک بھی آنے کی اجازت نہیں دیتا۔

جہاد فی سبیل اللہ

قرآن و سنت سے جہاد کا حکم واضح طور پر ثابت ہے۔ لیکن اس حکم کے نفاذ کا طریقہ کار موجود نہیں۔ ایک بات تو تہذیب و تمدن اور معاشرت کے معمولی طالبعلم کو بھی معلوم ہے کہ جنگ و جدل ایک ایسا عمل ہے جو کسی سنجیدہ نظام مملکت کے بغیر رائج نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لئے مندرجہ ذیل شرائط ہمیشہ تسلیم کی گئی ہیں۔
1۔ جنگ کرنے والے گروہ کسی قیادت کے ماتحت ہونگے اور اس کے فیصلوں کے تابع، چاہے اس قیادت کی حیثیت انتخابی ہو یا شخصی، اس کا دارومدار زمانے اور تہذیبی درجے پر ہے۔
2۔ ایسی قیادت کے پاس اپنے جائز ہونے کی کوئی سند ہو گی۔ اگر یہ جنگ ہوسِ زر، دنیا پر قبضہ یا ملک گیری یعنی اقتدار کی جنگ ہے تو طاقت اس کی سند ہو گی، اگر قائد لوٹ مار یا ملک گیری کی ہوس رکھنے والے جنگجووں کو جمع کر سکے گا اور کامیابی سے انہیں استعمال کر سکے گا، تو وہ ایک کامیاب فاتح کی جنگ کہلائے گی۔ اس کی مثال چنگیزی تاتار کی ہے۔ دنیا بھر کے اکثر فاتحین بہت حد تک اسی زُمرے میں آتے ہیں۔ ایسی فتوحات کا جواز اس اَمر میں پوشیدہ ہوتا تھا کہ جس دنیا کو فتح کرنے کا ارادہ کیا جاتا تھا وہ منتشر اور غیر منظم ہونے کے باعث یا دیگر کمزوریوں کی وجہ سے قابلِ تسخیر ہوتی تھی۔ کسی ایسی جنگ کا جواز اُس زمانے میں بھی ثابت نہیں ہوا کہ جو طاقتور دشمن پر حملہ آور ہو کر محض کسی نظام کو پریشان کرنے تک محدود ہو، اور جس کا انجام حملہ آور کی تباہی اور نظاموں کی بربادی تک محدود ہو۔ اگر ایک مملکت کی عظمت اور روشن تہذیب کے نام پر کوئی حکمران اپنی مملکت کو توسیع دینے کے لئے قتل و قتال کا رستہ اپنائے گا تو جواز کے لئے مملکت کے کسی دستوری یا روایتی فیصلہ کا سہارا لے گا اور اس کی حیثیت مملکت سے متعین ہو گی۔ اس کی مثالوں میں پچھلے زمانوں کے سکندرِ اعظم، رومی حکمران وغیرہ اور جدید دور میں ہٹلر اور امریکی حکمران آتے ہیں۔ اگر دبے ہوئے طبقوں کے انقلاب کا دعویٰ ہو گا تو انقلابی نظریات اور اجتماعی قیادت کا فیصلہ کرنے والی انقلابی پارٹی کا وجود ضروری ہو گا جس کے دئیے ہوئے اختیار کے مطابق پارٹی کی قیادت جنگ کو آگے بڑھائے گی، اس کے نظریات سیاسی اور دنیاوی ہوں گے۔ مثال کے طور پر روس ، چین اور ویتنام کی کمیونسٹ پارٹیوں کا نام لیا جا سکتا ہے۔ اگر تہذیب اور نظریات کو دنیا میں پھیلانے کا دعویٰ ہو گا تو قیادت کو اس تہذیب یا اس نظریے کی نمائندگی کا ایسا ثبوت فراہم کرنا ہو گا جسے اس تہذیب یا اس نظریہ کے ماننے والے تسلیم کریں۔ اس کی مثال رسول اللہﷺ کی ذاتِ اقدس ہے کہ جنھیں وحی کی سند ہونے کے باوجود مسلمانوں کی اجتماعی اور مکمل تائید حاصل کرنا پڑی۔ خلفائے راشدینؓ کی مثال بھی دی جا سکتی ہے کیونکہ جہاد کے فیصلوں کو تمام مسلمانوں کی تائید حاصل تھی جو واضح طور پر تہذیبی اور اجتماعی تھی۔
3۔ جنگ کے مقاصد صرف منفی نہیں بلکہ مثبت بھی ہونگے یعنی بدنظمی ، انتشار، تباہی اور اذیت کا عمل صرف دشمن کو نقصان پہنچانے کے لئے ہی نہیں ہو گا بلکہ دشمن کی شکست کے بعد ایک متبادل نظام قائم کرنا مقصود ہو گا جس کے لئے جنگ کرنے والوں کا یہ دعویٰ ہو گا کہ اس متبادل انتظام کے رائج ہونے سے ایسے نتائج حاصل ہونگے جو جنگ کی قربانیوں اور اذیتوں کا ازالہ کر کے جنگ زدہ علاقوں اور آبادیوں کی تعمیر و ترقی اور تہذیب و تمدن میں اضافہ کر سکیں گے۔
مسلمانوں کا متفقہ ایمان ہے کہ جہاد کشور کشائی یا گروہ کے اقتدار کے لئے نہیں ہوتا، نہ ہی یہ محض دشمن کو نقصان پہنچانے کے لئے کیا جاتا ہے۔ یہ مسلمانوں کے دنیاوی مقاصد کے لئے بھی نہیں کیا جاتا۔ مثلاً اگر کسی مسلم ملک سے کسی غیر مسلم ملک کا تنازعہ اس دنیاوی سوال پر ہو گا کہ غیر مسلم یا سیکولر ملک نے مسلمانوں کے کسی علاقے پر قبضہ کر لیا ہے جبکہ اس قبضے کے نتیجے میں مسلمانوں کے عقائد اور دینی معاملات میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا، یا مثلاً بھارت نے مملکت خداد پاکستان کی طرف بہنے والے دریائوں کا پانی روک لیا ہے تو اس علاقہ کو واپس لینے یا پانیوں کو جاری کرانے کی جنگ جہاد فی سبیل اللہ نہیں کہلائے گی۔ قرآن و سنت نے جہاد کے جو مقاصد بیان کیے ہیں کم از کم اُن میں یہ امور جہاد کے مستحق نہیں۔ جہاد صرف دین پر پابندی لگانے والوں کو بے اثر کرنے یا ختم کرنے کے لئے کیا جا سکتا ہے۔ افغانستان پر امریکہ کا تسلط یا فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ دنیاوی معاملات ہیں، کیونکہ نہ تو افغان اور فلسطین عوام اسلام کی تحریک و ترویج کے لئے جی رہے ہیں نہ ہی امریکہ اور اسرائیل دینِ اسلام پر عمل کرنے سے مسلمانوں کو روکتے ہیں۔ افغانستان، عراق، فلسطین اور کشمیر کی جنگ آزادی خالصتاً قومی تحریکیں ہیں جن کا جہاد فی سبیل اللہ سے کوئی تعلق نہیں۔ امریکہ میں مسلم آبادکار مکمل آزادیوں کے ساتھ اسلامی طرزِ حیات کے مطابق جینے اور تبلیغ کرنے کا حق رکھتے ہیں، جبکہ افغانستان میں اُن کے اس حق پر کسی پابندی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا۔ حالانکہ مسلم ممالک میں خصوصاً طالبان کے نظام میں کسی شخص کو کسی دوسرے مذہب کی تبلیغ کا حق حاصل نہیں حتیٰ کہ اسلام کو چھوڑنے والے کی جان محفوظ نہیں۔
القاعدہ اور طالبان کی مسلح کارروائیوں کو جہادِ اسلامی کا درجہ دینا اسلام کے ساتھ کھلی ناانصافی ہے۔ اس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ دنیا کے کسی مسلم معاشرہ کو اسلام کے احکام پر عمل کرنے سے روکا نہیں جا رہا۔ دنیا کا کوئی معاشرہ مسلمانوں کے عقائد اوردینی اعمال کے خلاف رکاوٹ کھڑی نہیں کر رہا۔ جہاں کہیں مسلم، غیر مسلم کے درمیان کشیدگی ہے، اس کا باعث کسی ملک کا قانون نہیں بلکہ مذہبی گروہوں کا اپنا تعصب ہے جس میں مسلمان برابر کے شریک ہیں۔ اگر دنیا میں کہیں مذہب کی بنیاد پر پابندیاں لگائی گئی ہیں تو وہ صرف مسلم اکثریتی ملکوں میں ہیں اور یہ غیر مسلموں کے خلاف لگائی گئی ہیں۔ مثلاً سعودی عرب، پاکستان، طالبان کا افغانستان اور ایران۔ جہاں اسلام کے مخصوص عقائد کے علاوہ کسی دوسرے اعتقاد کا پرچار یا تومنع ہے یا شدید دبائو کا شکار ہے، حتیٰ کہ فقہ کے معمولی اختلافات کا پرچار بھی منع ہے اور اسلام کو ترک کر کے کسی دوسرے مذہب کو اختیار کرنے والے کے لئے موت کی سزا تجویز کی جاتی ہے۔ ہماری تہذیبی نرگسیت کا کمال ہے کہ ہم جنہوں نے دنیا بھر کے مذاہب کے خلاف اتنا شدید مؤقف اختیار کر رکھا ہے کہ جو اعلانِ جنگ کی کیفیت ہے، وہ خود کو مظلوم سمجھتے ہیں۔
2۔ القاعدہ اور طالبان کی جنگی قیادت کے پاس اپنے جائز ہونے کی کوئی سند نہیں سوائے خفیہ تشدد کے، جو کسی لٹریچر یا نظریہ کے بغیر روا رکھا جاتا ہے۔ تشدد، جبر یا ترغیب و تحریص کی حیثیت اسلامی قیادت کے جواز کی نہیں۔ کیونکہ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ جنگجوئی اور لشکر کشی کے جو مختلف مقاصد ہوں ان کے مختلف جواز ہوتے ہیں۔ اسلامی جہاد کے لئے قیادت کو جس جواز کی ضرورت ہے وہ دو طرح سے حاصل ہو سکتا ہے، جبکہ طالبان یا القاعدہ کے پاس ان دونوں میں سے کوئی جواز موجود نہیں۔
اوّل اس طرح کہ قیادت کو وحی کے ذریعے اللہ کی ہدایت حاصل ہو اور ایمان لانے والے اس شمع ہدایت کے پروانے ہوں۔ یہ نبوت کا درجہ ہے۔
دوسرے اس طرح کہ مسلم عوام و خواص اس قیادت کو نبوت کا تسلسل سمجھتے ہوئے اس کی اطاعت پر متفق ہوں۔ یہ دوسری صورت اسلامی حکومت کی ہے جس کا قرآن و سنت میں اگرچہ کوئی ضابطہ یا قانون موجود نہیں تاہم خلافتِ راشدہ کی مثال دی جاتی ہے کیونکہ اسے رسالت سے منسلک ہونے کا شرف اور پہلی نسل کے مسلمانوں کی اجتماعی تائید حاصل تھی۔ آج کے دور میں نہ تو مسلمان عوام و خواص اسلامی میعار پر پورے اترتے ہیں نہ ہی ان کی نمائندہ حکومتیں۔پھر بھی اگر تمام مسلم عوام و خواص اس پر متفق ہو جائیں کہ وہ کسی قیادت کو اسلامی قیادت کی حیثیت سے قبول کر کے جہاد فی سبیل اللہ کا اختیار دے دیں تو یہ غالباً اجتہاد و اجماع کی وہ شکل بن سکتی ہے جو جہاد کو اسلامی جہاد کا درجہ دے دے۔ تاہم یہ اجتہاد یا اجماع صرف پاکستان اور اس کے قبائلی علاقوں یا افغان عوام کے متفق ہونے سے مکمل نہیں ہوتا کیونکہ اُمت مسلمہ صرف اِن لوگوں پر مشتمل نہیں۔
جہاد کے اس موضوع پر پاکستان کے مختلف حلقوں میں بہت سی گفتگو سننے میں آتی رہتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چونکہ مسلمان حکومتیں جہاد کا اعلان نہیں کرتیں لہٰذا ایمان والے مجبور ہیں کہ چھوٹی چھوٹی ٹولیاں اور گروہ بنا کر جہاد شروع کر دیں، کیوں اور کس کے خلاف جہاد ضروری ہو گا اس کا فیصلہ یہ خفیہ ٹولی اپنے اجلاس میں کرے گی اور جہاد شروع ہو جائے گا کیونکہ حکومتیں تو ریاکاروں اور کفری طاقتوں کے گماشتوں پر مبنی ہیں جبکہ مسلم عوام جہاد کے لئے بے چین ہو چکے ہیں۔ خود پسندی یا موضوعیت میں ڈوبے ہوئے لوگ خود ہی مقدمہ دائر کرتے اور خود ہی قاضی بن جاتے ہیں۔ جہاد کی ضرورت کا مقدمہ دائر کرنے اور عوام کی بے چینی کا فیصلہ سنانے میں انہیں دیر نہیں لگتی۔
پاکستان اور افغانستان میں پچھلے کئی عشروں سے مذہبی جماعتوں نے بارہا اسلام کے نام پر عوام کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ طرح طرح کے جذباتی مذہبی نعروں کا دبائو استعمال کیا گیا ہے، جبکہ طاقتور مقتدرہ اور ایجنسیوں کے ایک اہم اور فیصلہ کن عنصر کی تائید بھی انہیں حاصل رہی ہے۔ جنرل ضیاء کی مطلق العنان، غیر قانونی حکومت کے 11 برس میڈیا اور مملکت کے سارے دست و بازو ’’صالح‘‘ قوتوں کو منظم و مامور کرنے پر لگے رہے ہیں۔ آج بھی میڈیا کا بے حد طاقتور بازو تقریباً نوے فی صد اسی جہادی عنصر کا وکیل ہے۔ لیکن کسی بھی انتخابی عمل میں عوام نے اس جہادی عنصر کو اپنی نمائندگی پر فائز نہیں کیا اور اس دعوے کا ثبوت سامنے نہیں آ سکا کہ عوام و خواص جہاد کے لئے بے چین ہو چکے ہیں۔ پُرامن اور تشدد پسند، دونوں طرح کے مذہبی عناصر کا مشترکہ ووٹ بنک قومی رائے کے عشرِ عشیر سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ عوام کی رائے کا یہ انداز کیا ظاہر کرتا ہے؟ اگر حکومتیں کفر کی نمائندہ ہیں اور عوام جہاد کے لئے بے چین تو نتیجہ ہر بار کفری قوتوں کے منتخب ہونے پر کیوں رُکتا ہے۔؟
ممکن ہے جہادی دینی عناصر پورے خلوص سے یہ سمجھتے ہوں کہ دنیا کے مسائل کا حل یا کم از کم مسلم اُمہ کے مسائل کا حل جہاد میں رکھا ہے لیکن ایک حقیقی اسلامی جہاد کی بہرحال شرطِ اوّل یہ ہے کہ اس پر خود مسلم اُمہ کا اتفاق ہو۔ یہ حق کسی گروہ کو حاصل نہیں کہ وہ مسلم اُمہ کے مسائل کے حل کا فیصلہ اُمہ کی رائے کے بغیر مسلط کر دیں۔ اس اتفاقِ رائے کے بغیر جہادی ٹولیوں کی حیثیت محض فسادی ٹولیوں کی رہ جاتی ہے۔
3۔ القاعدہ کے افغان بازو یعنی طالبان کی موجودہ جنگی سرگرمیوں کے مقاصد صرف تخریبی ہیں۔ اذیت اور تباہی کے اس عمل میں ہزاروں غیر متعلقہ یا معصوم لوگوں کے متاثر ہونے اور دو ممالک کی معیشت مکمل طور پر تباہ ہونے کے باوجود کسی مثبت نظام کا کوئی نقشہ ہے نہ وعدہ۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگوں کے اندازے کے مطابق ان تخریبی سرگرمیوں کا ایک مقصد امریکہ کے انتخابات میں بش کی پارٹی کو دوبارہ منتخب کرانا تھا۔ ہمیں صرف اتنا بتایا جاتا ہے کہ روس کے بعد امریکہ تباہ ہو رہا ہے پھر بھارت کی باری ہو گی اور شاید چین کی۔ لیکن جو سامنے کی دنیا میں نظر آ رہا ہے وہ صرف اتنا ہے کہ نہ تو روس تباہ ہوا ہے نہ امریکہ تباہ ہو رہا ہے نہ بھارت اور چین کے تباہ ہونے کا کوئی امکان دکھائی دے رہا ہے، اگر کوئی علاقہ تباہ ہوا ہے اور ہو رہا ہے تو وہ افغانستان اور پاکستان کا ہے۔
جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کوئی جنگی سرگرمی مثبت مقاصد کے بغیر جائز قرار نہیں دی جا سکتی۔ چنانچہ القاعدہ اور طالبان تنظیموں کی موجودہ جنگ کے بارے میں میڈیا کا ایک طاقتور فریق یہ استدلال پیش کرتا ہے کہ یہ غیور افغانوں اور قبائلی پٹھانوں کی وہ شاندار جنگ مزاحمت ہے جو انہوں نے اپنی تہذیب اور قبائلی روایات کے تحفظ کے لئے جاری کی ہے۔ بعض چینلوں کے میزبان اور مہمان بڑی عقیدت اور تحسین سے یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ناقابلِ شکست جذبوں والے یہ قبائلی ہیرو اپنے شہیدوں کا بدلہ لینے کے لئے خودکش حملے کرتے ہیں اور یہ قیامت تک پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ میڈیا کا یہ طاقتور فریق غالباً القاعدہ سے کوئی انعام وصول نہیں کرتا بلکہ خالصتاً فی سبیل اللہ دین کی خدمت میں مصروف ہے۔ لیکن دین کی اس فی سبیل اللہ خدمت کے نتیجے میں ایک ملک اور اُس کے سولہ کروڑ عوام جو میڈیا کے ان حضرات کی طرح مسلمان ہیں، سخت اذیت کے عالم میں ہیں۔ میڈیا کے اسی عنصر کا رویہ اُن مزدوروں اور کسانوں کی بغاوت پر بالکل برعکس ہوتا ہے جب وہ یہ قانونی نُکتہ پیش کرتے ہیں کہ ملک کے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا اختیار کسی کو حاصل نہیں۔ جامعہ حفصہ کے معاملہ پر اور بعد میں تخریبی کارروائیوں کے سلسلے میں میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے اِن عناصر نے پاکستان کے آئین، قانون اور عالمی اخلاقیات کے بالکل برعکس قانون شکنی کے واقعات کی تائید کی ہے اور اس کے لئے مذہبی عقائد کو جواز بنایا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مذہبی عقائد کی بنیاد پر کسی بھی ملک کا قانون توڑنا، اس کے اداروں کو تباہ کرنا اور ہتھیار اٹھانا جائز ہے، چاہے مذہبی عقائد کی بنیاد پر کی جانے والی اس بغاوت کا فکری جواز فراہم کیا گیا ہو یا نہیں۔
مشکل یہ آ پڑی ہے کہ جو لوگ اِس نام نہاد جنگ مزاحمت کے بارے میں قریب سے جانتے ہیں انہیں معلوم ہو چکا ہے کہ یہ قبائلی اور غیر ملکی ہیرو، جن میں چیچنیا سے لے کر صومالیہ تک کے سبھی ہیرو شامل ہیں اپنے اپنے ملکوں کے ظالموں کو گدی پر بیٹھا چھوڑ کر یہاں آ پہنچے ہیں جہاں ایک غریب اور پسماندہ ملک کے عوام دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں سے کہیں پیچھے اپنی معیشت کو گھسیٹ گھسیٹ کر چل رہے ہیں۔ جہاں اِن کی ساری انتقامی کارروائیوں کا نشانہ صرف مسلح افواج نہیں بلکہ پاکستان کے عام لوگ ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ پاکستان کو ایک مملکت کی حیثیت سے درہم برہم کرنے کا عمل اِس جنگ کا واضح نصب العین ہے ، جو جابجا شہری آبادیوں پر حملوں کے بعد اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہا۔ چنانچہ اب اس واضح نصب العین کی سادہ تشریح ممکن ہو گئی ہے۔
یوں تو موجودہ جنگِ دہشت کو منظم کرنے والے اور اس سے فائدہ اٹھانے والے مغرب کے وہ مہیب مالیاتی ادارے اور حکمران ہیں جن کا اندازہ سب کو ہے لیکن تہذیبی اور تاریخی اعتبار سے اِس جنگ کی جڑیں برصغیر کی طویل تاریخ میں ہیں جس سے بین الاقوامی استعمار نے فائدہ اٹھایا ہے۔ ہزاروں برس سے شمال کے اِن مفلوک الحال پسماندہ قبائل کی نظریں بار بار وادی سندھ کی خوشحال اور مہذب آبادیوں پر اٹھتی رہی ہیں۔ خوشحال اور مہذب آبادیوں کا ایک مزاحیہ المیہ یہ رہا ہے کہ یہ زیادہ مہذب ہونے کے باوجود یا زیادہ مہذب ہونے کی وجہ سے وحشی اور پسماندہ حملہ آور کے مقابلہ میں شکست کھاتی رہی ہیں۔ یہ المیہ دنیا بھر کی تہذیبوں کا رہا ہے۔ یونانیوں نے کرخت رومن قبائل سے شکست کھائی۔ رومن تہذیب اپنے کمال پر آئی اور ایران کی تہذیب کمال پر تھی تو یہ دونوں اُن مسلمان عربوں کے ہاتھوں تاراج ہوئیں، جن کے بارے میں آج تک ہمارے مورٔخ فخر سے لکھتے ہیں کہ وہ بدو تھے جو روم اور ایران کے درباروں میں قالینوں کو اپنے نیزوں سے چیرتے ہوئے آئے اور چھا گئے۔ تاہم جب یہ بدو علم و فضل اور آدابِ تمدن سے سرشار ہو گئے تو انہیں اُن کا کرخت ماضی یاد دلانے اور عبرت کی مثال بنانے تاتاری آئے اور عربی گھوڑوں کی ٹاپ تاتاری گھوڑوں کی ٹاپ کے نیچے دب کر یادِ ماضی بن گئی۔
برصغیر میں آریہ آئے تو دراوڑ تہذیب اُن کی یلغار کے آگے خاک ہو گئی۔ یہی آریہ جب ہند کی سرسبز و شاداب زمینوں میں ویدانت کی گہرائیوں میں اتر گئے تو منوہر کی مُرلی توڑنے اسی شمال سے بھوکے وحشی وقفوں وقفوں سے آتے اور مہذب ہوتے رہے، لیکن ہر بار مہذب ہونے والوں کو مہذب ہونے کی سزا شمال سے ملی، حتیٰ کہ وادیٔ سندھ کے یہ علاقے جو اب سرحد اور پنجاب ہیں، حملہ آوروں کی گزرگاہ بن گئے جو یہاں سے آگے سلطنتِ ہند کے مرکز تک جاتے تھے۔ حتیٰ کہ یہ گزرگاہ ایک ایسی تہذیبی طوائف کی طرح ہو گئی جسے مہذب ہونے کے ساتھ ساتھ شمال کے اِن ’’غیور‘‘ اور ’’مردانگی سے بھرپور‘‘ وحشیوں کا انتظار رہنے لگا۔ پنجاب اور ہند سے افغانوں کو لکھے جانے والے دعوت نامے اسی انتظار کی کیفیت کا پتہ دیتے ہیں۔ آج جب پنجاب کے خوشحال اور متوسط طبقوں کی خواتین تیزی سے پردہ پوش ہو رہی ہیں اور مرد داڑھیوں سے مزیّن ہو رہے ہیں تو کہیں نہ کہیں شمال کے ’’مردانِ غیرت مند‘‘ کا انتظار چھپا ہوا ہے، کہ جس کے باعث ہر طرح کی تباہی کے باوجود اہلِ پاکستان کا ردِعمل شدید احتجاج یا مزاحمت کا نہیں بلکہ جب مولانا اور میڈیا کی طرف سے امریکی مظالم کے خلاف ’’ غیور قبائلی مسلمانوں‘‘ کے اسلامی عزم کی تحسین سنائی دیتی ہے تو ہمارے خوشحال طبقے اپنے شہروں میں ہونے والے تباہی کے واقعات بھول جاتے ہیں، شاید اس لئے بھی کیونکہ ابھی تک کے خود کش حملوں کا نشانہ یا تو غریب سرکاری اہلکار اور سیکیورٹی ملازمین بنے ہیں یا پھر غریب شہری۔ ابھی تک ایسے کاروباری مراکز، مارکیٹیں اور بازار اللہ کی امان میں رہے ہیں، جہاں اسلام اور طالبان کا انتظار کرنے والے خوشحال عناصر کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔
پاکستان کی موجودہ مہذب مملکت کو کسی براہ راست یلغار کے ذریعے فتح کرنا شمالی قبائلیوں کے لئے ممکن نہیں تھا۔ پاکستان بنتے ہی پاوندوں کی لوٹ مار کے خلاف قائد اعظم کا سخت مؤقف آیا تھا۔ لہٰذا پاکستان کی قومی افواج کسی بھی بیہودگی کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے تیار تھیں اور افواجِ پاکستان کی عمدہ صلاحیت کسی بھی بیہودگی کا منہ توڑ جواب دے سکتی تھی۔ اس قومی مؤقف کے خلاف ضیاء الحق کی آمریت نے تباہ کن رول ادا کیا۔ پھر بھی ایک جدید مملکت اور مہذب قوم کے ادارے (مضبوط اور میعاری نہ ہوتے ہوئے بھی) اپنی جدید ساخت کے باعث اتنی صلاحیت رکھتے تھے کہ کوئی پسماندہ قوت انہیں تاراج نہ کر سکے۔ اس لئے اسلام اور نفاذِ شریعت کی ایک منظم مہم چلائی گئی اور یہ ضروری تھا تاکہ ادارہ اور عوام میں نئے فاتحین کے خلاف مزاحمت باقی نہ رہے۔ لہٰذا اداروں اور عوام میں پذیرائی سے ’’جہادی‘‘ قوت کو اہم ترین فائدہ یہ ملا ہے کہ سبوتاژ اور دہشت گردی کی وارداتوں کے خلاف وہ رائے عامہ موجود نہیں جو سازش اور تخریب کو ناکام کرنے کے لئے لازمی ہوتی ہے۔ یوں دہشت گردی اور تخریب کی ہر واردات قومی اداروں کو درہم برہم کرنے اور عوام میں مملکت کا احساس ختم کرنے میں کامیاب ہوئی اور اسے روکا نہیں جا سکا۔
تاہم یہ سوال وہیں کا وہیں ہے کہ شمال کے اِن فاتحین کے اس ’’جہاد‘‘ کا مثبت پہلو کیا ہے؟ فاتحین کے لئے تو لوٹ مار اور خوشحالی کے امکانات ہی مثبت پہلو ہیں۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر پاکستان کا دفاعی نظام ٹوٹ گیا تو شمال کے یہ قبائلی پاکستان کے خوشحال شہروںکو 1947ء کی طرح لوٹیں گے۔ لیکن جنگ کے سنجیدہ مقاصد میں لوٹ مار اور مالِ غنیمت کا کوئی مقام نہیں۔ خصوصاً اس لئے کہ یہ جنگ اسلام کے نام کو استعمال کر کے منظم کی گئی ہے۔ لہٰذا جب تک جنگ کرنے والی قوتیں اسلام کا دعویٰ کرتی رہیں گی تب تک یہ حوالہ ہی فیصلہ کُن ہو گا۔ یعنی دیکھنا پڑے گا کہ جنگ کی اتنی وسیع تباہی کے لئے اسلام کوئی جواز فراہم کرتا ہے یا نہیں۔ اور اسلام کو، اہلِ اسلام کو، پاکستان کی آبادی کو اور انسانوں کی عالمی بستی کو اس تباہی کے بعد کیا ثمرات پیش کیے جانے والے ہیں۔ کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ اسلام کے پہلے انقلاب نے اِن سوالوں کا مثبت جواب دیا تھا اور تسخیر کے عمل کا نتیجہ تہذیب کی بہتر شکلوں میں نمودار ہوا تھا۔
ساتویں صدی عیسوی میں جب اسلامی مملکت قائم ہوئی تو اس کا دعویٰ یہ تھا کہ ارد گرد کی ظالمانہ غلام داری سلطنتوں کی مظلوم انسانیت کو آزادی دلا کر شرفِ انسانی دلایا جائے گا۔ یہ دعویٰ اس لئے درست تھا کیونکہ اسلام نے دنیا میں پہلی بار ایک لکھے ہوئے نظریاتی دستور پر قائم مملکت یا سلطنت کا تصور پیش کیا جس میں کسی فرد کو لامحدود اختیارات حاصل نہ تھے۔ اور اگر خلافت کے بعد ملوکیت قائم ہوئی تب بھی بادشاہ کے لئے ممکن نہ تھا کہ اپنی قوم کے متفقہ دستور سے انحراف کرے یا اپنی پسند کے قوانین بنا لے۔ اگرچہ سلطنتِ روم نے بھی مختلف قوموں اور علاقوں پر مشتمل ایک کثیرالقومی تہذیب کی بنیاد رکھی تھی لیکن اسلامی سلطنت نے مختلف نسلوں ، رنگوں اور تہذیبوں کے انسانوں کو بہتر اور مساوی حقوق فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ سلطنتِ روم کی نوآبادیات میں رہنے والوں کو رومن قوم کے برابر حقوق حاصل نہیں ہوتے تھے، جبکہ غلاموں کا درجہ تو حیوانوں جیسا تھا۔ عرب فاتحین نے اسلام قبول کرنے والے تمام لوگوں کے برابر حقوق کو اصولاً تسلیم کیا کیونکہ یہ اسلام کا اصولی فیصلہ تھا، اور غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک ممکن بنایا۔ سلطنتِ روم اور سلطنتِ ایران کے درمیان طویل جنگوں نے ان دونوں مملکتوں کو کمزور کر دیا تھا اور بے شمار علاقے بدامنی کی شورش اور معاشی بدحالی کا شکار ہو رہے تھے۔ اسلامی مملکت نے اس خلا کو پُر کیا اور یہ بھی ایک بڑی اور مثبت تبدیلی تھی۔ کثیرالثقافتی، کثیرالقومی نظامِ حکومت کے قائم ہونے سے علم و فن اور تہذیب کے ان گِنت ثمر انسانیت کو نصیب ہوئے۔ اگرچہ کرخت شریعتی بنیاد پرستی نے علوم کی اِس شاندار تحریک کو کچل دیا، تاہم جو کچھ بچ نکلا اِس میں جدید یورپ کے موجودہ سائنسی ، علمی انقلاب کی بنیاد موجود تھی۔ اور اسلامی تہذیب کی طرف سے انسانیت کی یہ خدمت ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
آج جب دنیا کے پسماندہ ترین قبائلی علاقوں کے کچھ جنگجو دنیا کو فتح کرنے نکلے ہیں تو صورتحال وہ نہیں جو ساتویں صدی عیسوی میں تھی۔ دنیا غلام داری اور عدم مساوات سے نکل کر آج ایک ایسے انسانی معاشرہ میں ڈھل چکی ہے، جہاں عام آدمی کو پچھلی صدیوں کے رئوسا سے بڑھ کر حقوق اور مواقع میسر ہیں۔ قوموں کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک دستور موجود ہے جس پر عمل بھی کیا جاتا ہے یعنی ہمارے اسلامی دستور کی طرح نہیں کہ جو صرف مذہبی عناصر کے ہاتھ میں ایک تلوار کی طرح ہے لیکن تیرہ صدیوں سے نافذالعمل نہیں۔
اسلام نے غلاموں اور لونڈیوں سے نیک سلوک سکھایا تھا لیکن مالکان کے حقوقِ ملکیت اور جبر کے حقوق واپس نہ لیے تھے۔ تمام انسانوں کو آزادی کا برابر حق نہیں دیا۔ غلام رکھنے کو ناپسندیدہ یا مکروہ بھی قرار نہیں دیا، بلکہ اِس بات کی اجازت دی کہ اگر غیر مسلم قومیں اسلام قبول نہ کریں تو انہیں فتح کر کے ذمی کے درجہ پر رعایا بنا لیا جائے۔ اگرچہ راقم الحروف کے ذاتی علم کے مطابق اسلام کا یہ مقصد نہ تھا کہ اقوام کو ذمی کا درجہ دیا جائے تاہم عملاً اسلامی حکومتوں نے ایسا کیا۔ آج جب کوئی طاقتور ملک مثلاً امریکہ کسی کمزور ملک مثلاً عراق یا افغانستان پر قابض ہو جاتا ہے تو حالانکہ وہ وہاں کی آبادیوں کو ذمی یا غلام نہیں بناتا، پھر بھی دنیا بھر کے لوگ اور اُس کے اپنے دانشور شدید احتجاج کرتے ہیں، کیونکہ جدید دور میں انسانوں کی برابری کے عالمی قوانین اس طرح سے انسانوں نے قبول کر لیے ہیں کہ ہمارے مزاج سے ذمی اور غلام کے تصورات نکل گئے ہیں۔
دین کے مکمل ہونے کے بعد بھی مالک کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اپنی لونڈی سے جنسی تعلق قائم کرے(سورۃ المعارج، آیت 29 ،30 اور سورۃ النساء آیت 24)۔ مالی فائدہ کے لئے لونڈی کو عصمت فروشی پر مجبور کرے تو بھی اُسے شرعاً منع نہیں کیا گیا، اگرچہ قرآن نے مالکوں کو ایسا نہ کرنے کی نصیحت کی لیکن کسی سزا کا مستحق قرار نہیں دیا(سورۃ النور آیت 33)۔ اسی طرح مسلم عورتوں کو عزت و آبرو عطا کی مگر مرد کے برابر حقوق عطا نہیں کیے مثلاً مردوں کو عورتوں پر فائق اور افضل قرار دیا اور سرکشی یا حکم نہ ماننے پر عورتوں کی پٹائی کا اختیار دیا (سورۃ النساء آیت 34) اور مردوں کو اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے مزید شادیوں اور غلام عورتوں سے جنسی تعلق کی اجازت دی (سورۃ المعارج آیت 29،30 اور سورۃ النساء 24)۔ کیونکہ شاید اُس وقت کے عرب مرد کو اس سے زیادہ پابندیوں پر آمادہ کرنا ممکن نہ تھا۔ وللہ اعلم۔
لیکن اسلام نے جس انسانی مساوات کی نبیاد رکھی تھی وہ آج کے دور میں بڑھتے بڑھتے انسانی حقوق کی تحریک اور انسانی حقوق کا عالمی ضابطہ بن گئی ہے۔ اسلام نے غلامی کو حرام نہیں کیا لیکن غلاموں کے لئے رحم اور مساوات کا درس دیا جو کہ اس زمانے کی تہذیبوں سے آگے کا ایک قدم تھا۔ لیکن آج کے دور میں غلامی کو قانوناً جرم قرار دیا جا چکا ہے۔ اسلام نے عورتوں کو باعزت اور باوقار بنانے کی پہلی منزل تعمیر کی لیکن آج کے معاشروں کے قانون میں اسے مرد کے برابر حقوق حاصل ہیں، اُسے سوتن کی اذیت سے قانوناً تحفظ حاصل ہے، اسے مارا پیٹا نہیں جا سکتا اور جنسی جبر کا شکار نہیں بنایا جا سکتا۔ غلامی کے خاتمہ کے بعد دیر تک عورتیں رائے دہی کے حق سے محروم تھیں، پھر یہ حق بھی انہیں مل گیا۔ انسانوں کی خریدو فروخت اسلام نے ناپسند کی لیکن اسے حرام قرار نہیں دیا۔ آج کے معاشروں میں غلامی ہی نہیں جبری مشقت تک سنگین جرم ہے۔ اسلام نے قانون کی عملداری کا نظام متعارف کرایا اور شخصی یا لامحدود اختیارات کو ختم کیا، تاہم نظامِ مملکت واضح نہ ہونے کی وجہ سے خلفائے راشدینؓ کے اقتدار کی میعاد مقرر نہ تھی۔ اِس مثال سے بادشاہوںکو بھی تاحیات حکومت کرنے کا موقع مل گیا، لیکن جدید معاشروں نے مدتِ ملازمت، مدتِ نمائندگی، مدتِ اقتدار اور اختیار کی حدیں مزید واضح کر دی ہیں اور آئین و قانون کی عملداری کو انتہائی فیصلہ کُن حیثیت دے دی ہے۔ خصوصاً حکومتوں کو جمہوری عمل سے قائم کرنا ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔ اسلام نے انسان کی تربیت و تہذیب نفس پر زور دیا۔ یہ ایک انقلابی قدم تھا۔ آج کی جدید تہذیبوں نے انسانی فکر و ضمیر کی تربیت کا یہ عمل اور آگے بڑھایا ہے اور انسانوں کو عقائد کے علاوہ اخلاقیات کے منطقی اور علمی اصول سکھائے ہیں، جس کے نتیجے میں یورپ، امریکہ ، چین، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جاپان جیسے معاشرے وجود میں آئے ہیں، جہاں لوگ اپنے وطن کے قوانین اور اپنے منتخب نمائندوں کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں اور اپنی حکومتوں کے غلط اقدامات پر شدید احتجاج بھی کرتے ہیں لیکن جب تک اکثریت کسی نقطۂ نظر کی حامی نہ ہو جائے لوگ اپنے رائج قوانین کا احترام کرتے ہیں۔ اسلام نے ٹیکسوں کے نظام کو دین کا رُتبہ دے کر فلاحی مملکت کا تصور دیا، جدید معاشروں نے اس تصور کو مملکت کا بنیادی مقصد بنا دیا ہے۔ اسلام نے غیر مسلموں کو اگرچہ دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت یعنی ذمی کا مرتبہ دیا لیکن ذمیوں اور اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا۔ آج کے معاشروں میں یہ تحفظ بڑھ کر مکمل شہری برابری کی شکل اختیار کر چکا ہے اور سیکولر ریاست میں شہریوں کے درمیان کسی طرح کی تخصیص و امتیاز سنگین جُرم ہے۔ اسلام نے عالمی سطح پر ایک مہذب معاشرہ کے تصور کو سلطنتِ روم کے مقابلہ میں کہیں بہتر طریقہ سے رائج کیا، لیکن طاقت کا استعمال اور غیر مسلم اقوام کی محکومیت وقت کا آئین رہا۔ طاقت اور تسخیر کا یہ آئین عملی طور پر آج بھی دنیا کے کئی حصوں میں نافذ ہے، تاہم فرق واضح ہے، اسلام کی بالادستی کے دور میں طاقت و تسخیر کا استعمال گناہ نہیں تھا، آج کے دور میں یہ گناہ یعنی جرم ہے اور جو قومیں اِس آئینِ قوت کا استعمال کرنا چاہتی ہیں انہیں طرح طرح کے بہانے بنانے پڑتے ہیں، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے آنے والے وقتوں میں طاقت اور تسخیر کا طریقہ کار مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔
کیا طالبان کے پاس اپنے عوام اور دنیا بھر کے عوام کے لئے موجودہ انسانی اور جمہوری حقوق سے بہتر حقوق موجود ہیں؟ کیا لوگوں پر اُن کی رضامندی کے خلاف ہر طرح کا جبر مسلّط کرنا اور اُن پر جبراً حکومت کرنا، عورتوں کو تمام موجودہ حقوق سے محروم کر کے انہیں گھروں میں بند کر دینا کیا ایک بہتر دنیا کا نقشہ پیش کرتا ہے؟۔
لیکن انسانی حقوق اور آزادیوں سے بھی بڑھ کر اہم وہ مسائل ہیں جو بنی نوعِ انسان اورخصوصاً پاکستانی قوم کو درپیش ہیں۔ انسانوں کی موجودہ دنیا میں رہنما تہذیب کا درجہ اسے حاصل ہو گا جو ان مسائل کے جواب فراہم کرے۔
1۔ زندگی کا خاصہ ہے کہ کشادگی مانگتی ہے۔ انسان نہ صرف کشادگی مانگتا ہے بلکہ اختیار کی طلب اور جبر سے نفرت کرتا ہے۔ غلاموں کو آزادی ملنے میں اگرچہ طویل عرصے لگے لیکن غلاموں کی بغاوتیں ہمیشہ سے جاری تھیں۔ مثلاً حضرت موسیٰ ؑ کی قیادت میں سامی غلاموں کی تحریکِ آزادی، رومن مملکت میں کتنی ہی بغاوتیں جن میں سپارٹیکس کا نام ابھرا، ہندوستان میں جنوب کی کول، گونڈ، بھیل اور دراوڑ نسلوں کی بغاوتیں جنھیں اچھوت اور شودر بنا دیا گیا تھا۔ اور قدیم زمانے میں چین کے کسانوں کی بیسیوں تحریکیں۔ یہ سب برابر کے حقوق اور آزادی کے لئے انسان کی امنگ کا اظہار تھیں۔
آج کے انسانی معاشرہ نے مساوات اور شمولیت کے ایسے قانون بنائے ہیں جو تاریک صدیوں کے اعلیٰ ترین میعاروں سے بڑھ کر ہیں۔ پھر بھی بے انصافی اور عدم مساوات کا احساس ان گنت شکلوں میں موجود ہے، کہ عدم مساوات سے نفرت انسانی مزاج کا خاصا ہے۔ محنت کش کسان اور غریب عوام برابر مواقع مانگتے ہیں۔ دنیا کے وسیع خطوں میں نوآبادیاتی نظام اور قدرتی مجبوریوں کی وجہ سے عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ آج ہم جنھیں بنیادی سہولتیں کہتے ہیں، مثلاً صاف پانی، سیوریج سسٹم، بجلی و گیس کی فراہمی، صحت بخش خوراک، موسموں کے اعتبار سے مناسب لباس، مضبوط مٹیریل سے بنے مکان، رسل و رسائل اور نقل و حمل کی سہولتیں، وقار کے ساتھ روزگار، بچوں کے لئے ایسی تعلیم جو انہیں دوسرے بچوں سے برابری کی بنیاد پر حاصل ہو، جان و مال، آبرو اور آزادی کا تحفظ جو کسی نوازش کا نتیجہ نہ ہو بلکہ بغیر مانگے ملے، صلاحیت کے مطابق ترقی کے مواقع جن میں طبقاتی، مذہبی، نسلی امتیازات نہ ہوں، قانون کے سامنے ہر شہری کی برابر حیثیت، اپنی مرضی اور رائے کا استعمال، اختلاف اور خیالات کے پرچار کا حق وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ سہولتیں ہیں جو تین صدی پہلے تک بادشاہوں کو میسر نہ تھیں۔ لیکن محنت کش یہ سہولتیں نہ صرف مانگتے ہیں بلکہ اس کے لئے طاقتور تحریکوں کا ظہور ہوا اور پچھلی صدی نے بڑے بڑے سوشلسٹ انقلاب دیکھے۔ اگرچہ انسان پر انسان کے جبر کا نظام زیادہ مضبوط ثابت ہوا اور انسانوں کی مساوات کے لئے امنگ کا نظام کامیاب نہیں ہوا تاہم کمزور طبقوں کا احساس محرومی وہیں کا وہیں ہے۔ انسان ہر وہ چیز مانگتا ہے، ہر وہ حق مانگتا ہے جو اس کے وقتوں میں میسر آسکے، کیونکہ حقوق اور ایجادات انسانوں کی اجتماعی ملکیت مانی جاتی ہیں۔ فکری ملکیت کا قانون بھی ایک مختصر مدت کے بعد ختم ہو جاتا ہے اور ایجاد انسانیت کی ملکیت بن جاتی ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کیا طالبان یا مسلمانوں کے پاس بطورِ قوم دنیا کے انسانوں کی اِس امنگ کو پورا کرنے کا کوئی نظام موجود ہے؟ دینا جانتی ہے کہ مسلمانوں کے مروجہ عقائد کے مطابق غیر مسلموں کو تو محض مذہب کے فرق کی بنیاد پر مسترد کر دیا جائے گا۔ طالبان اور عربوں کے نزدیک غیر مسلم عورتوں کی حیثیت خریدوفروخت کے جانوروں جیسی ہو گی، جبکہ مادی وسائل کی ملکیت میں مسلمان لامحدود نجی ملکیت کے اِسی طرح قائل ہیں جیسے مغرب و مشرق کے کارپوریٹ سرمایہ دار۔
پچھلی صدی کے بڑے مسلم مفکروں نے معاشی عدل و انصاف کے جو فارمولے پیش کئے اُن میں وسائل پر قابض طبقوں کے خلاف کسی جبر یا قانونی پابندی کی کوئی تجویز موجود نہیں۔ سارا دارومدار اِس اپیل پر ہے کہ متموّل حضرات ایمان اور جذبۂ ایثار سے کام لیں۔ معمولی فہم بھی یہ بات سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ ایثار اور ایمان پر چھوڑنے سے اگر معاشروں کا نظام چل سکتا تو قوانین کی ضرورت نہ ہوتی۔ زنا کی سزا نہ ہوتی، قتل کی سزا نہ ہوتی اور ہر طرح کی حدود کا نفاذ غیر ضروری ہوتا۔
2۔ دوسرا بڑا بین الاقوامی مسئلہ قوموں کے درمیان رسہ کشی اور طاقت کے توازن کا ہے۔ دنیا علم پر مبنی معیشت کے دور میں داخل ہو رہی ہے۔ معاشی اور فوجی برتری کا انحصار ذہنی یعنی علمی برتری پر ہے۔ مسابقت کے اِن میدانوں میں انصاف اور توازن قائم کرنے کا کوئی فارمولا کیا طالبان یا مسلمانوں کے پاس ہے؟ اس کے لئے شرطِ اوّل یہ ہے کہ آپ پہلے اس دوڑ میں برابر کے شریک ہوں اور رہنمائی کی حالت میں ہوں جیسی اِس وقت امریکہ کی ہے۔ کیا آپ اِس دوڑ میں اس مقام کے دعویدار ہیں؟ یا خودکش دھماکوں سے عالمی امن اور توازن قائم کیا جا سکے گا؟
3۔ تیسرا اِسی سے متعلق مسئلہ طاقت اور تشدد کے استعمال کا ہے، جس نے عالمی امن اور انسانوں کی خوشحالی کے سب امکانات کو شک میں ڈال رکھا ہے۔ کیا طالبان کے پاس عالمی امن اور عدم تشدد کا کوئی ایسا مقناطیسی اصول موجود ہے جس کی طرف عالمی برادری کھچی چلی آئے اور تشدد پسند قوتیں تنہا ہو کر بالآخر صلح پر مجبور ہو جائیں؟۔
4۔ چوتھا بڑا مسئلہ گھٹتے ہوئے وسائل اور بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کا ہے۔ توانائی، پانی اور خوراک کے وسائل کی کمی کا سوال ہر سال پہلے سے سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ اسی طرح درجہ حرارت کے بڑھنے اور سمندروں کی سطح بلند ہونے سے دنیا کے کئی بڑے شہروں کے ڈوب جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ اگر اگلے بیس تیس برسوں میں ہم بنیادی انقلابی ایجادات کرنے میں کامیاب نہ ہوئے اور توانائی، پانی ، خوراک اور ہر طرح کی پیداوار میں زبردست اضافے نہ ہو سکے تو ایک ایسے عالمی غدر کا خطرہ پیدا ہو گا جو وبائوں سے بڑھ کر مہلک ہو گا۔ کیا طالبان ایسے مسائل سے باخبر ہیں اور اُن کے پاس اِس سوال کا جواب ہے؟ کیا اتنا کہنا کافی ہو گا کہ کافروں کو مر جانے دو کہ اُن کے کئے کی سزا ہے اور کیا وہ آپ کا یہ فرمان سن کر مر جانے پر آمادہ ہو جائیں گے؟۔
5۔ پانچواں مسئلہ عالمی نظامِ سرمایہ کا ہے جس کی بے لگام سرگرمی سے ہر صدی میں ایک سے زیادہ معاشی بحران دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں اور انسانیت چند لوگوں کی زرپرستی اور سٹہ بازی کا شکار ہو کر کئی کئی عشروں تک زخم چاٹتی رہتی ہے۔ یہ عالمی بدروحیں جن میں کچھ عرب بھی شامل ہیں، سایوں اور ہیولوں کی طرح خون سونگھتی پھرتی ہیں، انہیں ڈھونڈھنے اور مستقل طور پر پابند کرنے کے لئے طالبان کے پاس کیا کوئی جادوئی نظام ہے؟ ایسے ہی بہت سے اور سوال ہیں جو جواب مانگتے ہیں۔ کیا آپ کے پاس اِن سوالات کے جواب کی تیاری ہے؟

اگر نہیں تو پھر یہ ہنگامہ بلا کیا ہے؟

سگمنڈ فرائیڈ نے اپنی تصنیف ’’ تہذیب اور اس کے اضطراب‘‘ میں لکھا: انسانوں کی ایک خاصی بڑی تعداد کو باہم محبت میں باندھنا ہمیشہ ممکن ہوتا ہے، بشرطیکہ ایسے لوگ بھی موجود ہوں جو ان متحدہ لوگوں کی جارحیت کا نشانہ بن سکیں۔
انسانی معاشروں کی رہنمائی یا تنظیم کرنے والوں نے ہمیشہ انسانی فطرت کے وحشیانہ پہلوئوں کو نظم و ضبط میں لانے کی کوشش کی ہے۔ تہذیب کا سفر اگرچہ سگمنڈ فرائیڈ کے اس نظریہ کی تائید میں کافی ثبوت فراہم کرتا ہے، تاہم یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ لوگوں کو محبت و اتحاد کے رشتوں میں باندھنے کے لئے کچھ دوسرے لوگوں کو دشمن کے طور پر سامنے رکھ لینا کوئی ایسا شاندار طریقہ کار نہیں جسے بدلنے کی ضرورت ہی نہ ہو۔ کچھ انسانوں کو دوسرے انسانوں کی نفرت میں مبتلا کر کے متحرک کرنا یقینا ایک کامیاب طرزِ سیاست رہا ہے۔ لیکن یہ بہرحال ناقص اور قابل اصلاح طرز ہے جسے جوں کا توں رکھنا کسی بھی انسانی اصول سے مناسب نہیں۔ اگرایک گروہ کا دوسرے گروہ کے خلاف منظم ہونا انسانی فطرت کا تقاضا ہے تو یہ سوالات بھی انسانی فطرت کا تقاضا ہیں کہ کیا فطرت تبدیل ہوتی ہے؟، کیا اسے تبدیل ہونا چاہیے؟، کیا یہ پچھلے لاکھ برس میں تبدیل ہوئی ہے؟۔
ہم جانتے ہیں کہ ہمارے قدیم آبائو اجداد کپڑوں اور اخلاقی حدوں کے بغیر زندگی گزارتے رہے ہیں۔ کیا یہ فطرت نہ تھی؟ اور کیا یہ تبدیل نہیں ہوئی؟ یہ بھی تاریخی طور پر ثابت ہے کہ انسانی معاشرے چند افراد سے بڑے ہو کر آج کے قومی معاشروں تک پہنچے ہیں۔ یعنی چھوٹے چھوٹے گروہوں کی ایک دوسرے کے خلاف جارحیت ختم ہوئی ہے۔ جدید ریاست کے اجتماعی نظام کے ماتحت ہماری اجتماعی اور انفرادی زندگی سے نفرت اور جارحیت کے جذبات ناپید ہوئے ہیں۔ تو کیا یہ فطرت کے خلاف ہوا ہے؟ یورپ ہی نہیں دنیا کے بیشتر ممالک جن کا نظام مؤثر ہے، پرامن اجتماعی زندگی کا نمونہ ہیں۔
یہ نُکتہ یقینا قابل غور ہے کہ کروڑوں اربوں انسانوں کی کئی نسلیں ایک مملکت کے نظام میں پرامن زندگیاں گزار سکتی ہیں۔ اور اس نُکتہ کی بنیاد پر شاید یہ کہنا مبالغہ نہ ہو کہ جارحیت کی وہ شکل انسانی فطرت کا لازمی جزو نہیں جس کے باعث انسانوں کا ایک گروہ دوسرے گروہ کو نفرت کا نشانہ بناتا ہے۔ کیونکہ فطرت وہ ہے جس کا اظہار اکثریت کرتی ہے اور اکثر اوقات کرتی ہے۔ اگر انسانوں کی اکثریت زندگی کے اکثر ایام بغیر جارحیت اور بغیر تصادم کے گزارتی ہے تو پھر شاید یہ کہنا درست ہو کہ :
’’ بنی نوع انسانی کی مہذب آبادیوں کی ایک بڑی تعداد کو وقتی جارحیت پر اکسایا جا سکتا ہے، بشرطیکہ ایسا کرنے کے لئے منظم اور عیار لوگوں کا ایک گروہ شرپسندی کا مصمم ارادہ کر کے اس کام کے پیچھے لگ جائے‘‘۔
تہذیبی نرگسیت کی اساس نفرت پر ہے اور منفی جذبوں کے اس شجر کا پھل وہ جارحیت ہے جسے اکسانے کے لئے ایک چھوٹا سا عیار اور منظم گروہ کئی عشروں سے ہمارے معاشروں میں سرگرم ہے۔ اس منظم گروہ کی سرپرستی کرنے والے عالمی فنکار بھی اپنی قوموں کا ایک قلیل حصہ ہیں۔ یہ اقلیت کا اکثریت کے خلاف اعلان جنگ ہے۔
تہذیبی نرگسیت کا علاج ممکن ہے۔ لیکن اگر ہم نے خود تنقیدی کا راستہ اختیار نہ کیا تو عالمی برادری کو شاید یہ حق حاصل ہو جائے کہ وہ ہمارے یہ ہاتھ باندھ دے جن سے ہم نہ صرف اپنے بدن کو زخمی کرتے ہیں بلکہ نوع انسانی پر بھی وار کرتے ہیں۔

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *