پیر، 17 اگست، 2015

احمد مشتاق کی غزلیں

احمد مشتاق کی غزلیں جب بھی پڑھتا ہوں، کسی مقام پر جی ہی نہیں چاہتا کہ ٹھہر جاؤں،یہ میرا باربار کا تجربہ ہے، جسے ہر دفعہ پھر اک بار کرنے کا جی چاہتا ہے۔ایسی شاعری اردو میں کرنے والے شاید ہی کچھ لوگ ہونگے، جن کو خیال کے ساتھ اتنی سادہ اور خوبصورت زبان بھی ملی ہو، یہ وہ انتہائے فن ہے، جسے چھونا ہر شاعر کے بس کی بات نہیں۔کہا جاتا ہے کہ شاعری کا فیصلہ آنے والا وقت کرتا ہے، احمد مشتاق کا وہ آنے والا وقت ہم ہیں، اور ہم ان غزلوں کے عاشق ہیں، سو یہ غزلیں زندہ ہیں اور زندہ رہیں گی ہماری زندگی تک اور شاید اس کے بعد بھی، یا شاید اردو زبان و ادب کا دم بھرنے والے آخری قاری کی آخری سانس تک۔ادبی دنیا پر ان غزلوں کو اپلوڈ کرکے میں بہت مسرت محسوس کررہا ہوں، ان غزلوں کو پڑھیے، سنیے اور دوہرائیے، یہ سارا سرمایہ آپ کا ہے۔

اشک دامن میں بھرے خواب کمر پر رکھا
پھر قدم ہم نے تری راہ گزر پر رکھا
ہم نے ایک ہاتھ سے تھاما شب غم کا آنچل
اور اک ہاتھ کو دامان سحر پر رکھا
چلتے چلتے جو تھکے پاؤں تو ہم بیٹھ گئے
نیند گٹھری پہ دھری خواب شجر پر رکھا
جانے کس دم نکل آئے ترے رخسار کی دھوپ
مدتوں دھیان ترے ساےۂ در پر رکھا
جاتے موسم نے پلٹ کر بھی نہ دیکھا مشتاق
رہ گیا ساغر گل سبزۂ تر پر رکھا
۰۰۰
ان موسموں میں ناچتے گاتے رہیں گے ہم
ہنستے رہیں گے شور مچاتے رہیں گے ہم
لب سوکھ کیوں نہ جائیں گلا بیٹھ کیوں نہ جائے
دل میں ہیں جو سوال اٹھاتے رہیں گے ہم
اپنی رہ سلوک میں چپ رہنا منع ہے
چپ رہ گئے تو جان سے جاتے رہیں گے ہم
نکلے تو اس طرح کہ دکھائی نہیں دیے
ڈوبے تو دیر تک نظر آتے رہیں گے ہم
دکھ کے سفر پہ دل کو روانہ تو کردیا
اب ساری عمر ہاتھ ہلاتے رہیں گے ہم
۰۰۰
اک پھول میرے پاس تھا اک شمع میرے ساتھ تھی
باہر خزاں کا زور تھا اندر اندھیری رات تھی
ایسے پریشاں تو نہ تھے ٹوٹے ہوئے سناہٹے
جب عشق کی تیرے مرے غم پر بسر اوقات تھی
کچھ تم کہو تم نے کہاں کیسے گزارے روز و شب
اپنے نہ ملنے کا سبب تو گردش حالات تھی
اک خامشی تھی تر بتر دیوار مژگاں سے ادھر
پہنچا ہوا پیغام تھا برسی ہوئی برسات تھی
سب پھول دروازوں میں تھے سب رنگ آوازوں میں تھے
اک شہر دیکھا تھا کبھی اس شہر کی کیا بات تھی
یہ ہیں نئے لوگوں کے گھر سچ ہے اب ان کو کیا خبر
دل بھی کسی کا نام تھا غم بھی کسی کی ذات تھی
۰۰۰
برس کر کھل گیا ابر خزاں آہستہ آہستہ
ہوا میں سانس لیتے ہیں مکاں آہستہ آہستہ
بہت عرصہ لگا رنگ شفق معدوم ہونے میں
ہوا تاریک نیلا آسماں آہستہ آہستہ
کہیں پتوں کے اندر دھیمی دھیمی سرسراہٹ ہے
ابھی ہلنے لگیں گی ڈالیاں آہستہ آہستہ
جہاں ڈالے تھے اس نے دھوپ میں کپڑے سکھانے کو
ٹپکتی ہیں ابھی تک رسیاں آہستہ آہستہ
سماعت میں ابھی تک آہٹوں کے پھول کھلتے ہیں
کوئی چلتا ہے دل کے درمیاں آہستہ آہستہ
بدل جائے گا موسم درد کی شاخ برہنہ میں
نکلتی آرہی ہیں پتیاں آہستہ آہستہ
۰۰۰
بہت رک رک کے چلتی ہے ہوا خالی مکانوں میں
بجھے ٹکڑے پڑے ہیں سگریٹوں کے راکھ دانوں میں
دھوئیں سے آسماں کا رنگ میلا ہوتا جاتا ہے
ہرے جنگل بدلتے جارہے ہیں کارخانوں میں
بھلی لگتی ہے آنکھوں کو نئے پھولوں کی رنگت بھی
پرانے زمزمے بھی گونجتے رہتے ہیں کانوں میں
وہی گلشن ہے لیکن وقت کی پرواز تو دیکھو
کوئی طائر نہیں پچھلے برس کے آشیانوں میں
زبانوں پر الجھتے دوستوں کو کون سمجھائے
محبت کی زباں ممتاز ہے ساری زبانوں میں
۰۰۰
بہتا آنسو ایک جھلک میں کتنے روپ دکھائے گا
آنکھ سے ہوکر گال بھگو کر مٹی میں مل جائے گا
بھولنے والے! وقت کے ایوانوں میں کون ٹھہرتا ہے
بیتی شام کے دروازے پر کس کو بلانے آئے گا
آنکھ مچولی کھیل رہا ہے اک بدلی سے اک تارا
پھر بدلی کی یورش ہوگی پھر تارا چھپ جائے گا
اندھیارے کے گھور نگر میں ایک کرن آباد ہوئی
کس کو خبر ہے پہلا جھونکا کتنے پھول کھلائے گا
پھر اک لمحہ آن رکا ہے وقت کے سوئے صحرا میں
پل بھر اپنی چھب دکھلا کر لمحوں میں مل جائے گا
۰۰۰
پانی میں عکس اور کسی آسماں کا ہے
یہ ناؤ کون سی ہے یہ دریا کہاں کا ہے
دیوار پر کھلے ہیں نئے موسموں کے پھول
سایہ زمین پر کسی پچھلے مکاں کا ہے
چاروں طرف ہیں سبز سلاخیں بہار کی
جن میں گھرا ہوا کوئی موسم خزاں کا ہے
سب کچھ بدل گیا ہے تہہ آسماں مگر
بادل وہی ہیں رنگ وہی آسماں کا ہے
دل میں خیال شہر تمنا تھا جس جگہ
واں اب ملال اک سفر رائگاں کا ہے
۰۰۰
پتہ اب تک نہیں بدلا ہمارا
وہی گھر ہے وہی قصہ ہمارا
وہی ٹوٹی ہوئی کشتی ہے اپنی
وہی ٹھہرا ہوا دریا ہمارا
یہ مقتل بھی ہے اور کنج اماں بھی
یہ دل یہ بے نشاں کمرہ ہمارا
کسی جانب نہیں کھلتے دریچے
کہیں جاتا نہیں رستہ ہمارا
ہم اپنی دھوپ میں بیٹھے ہیں مشتاق
ہمارے ساتھ ہے سایہ ہمارا
۰۰۰
ترے دیوانے ہر رنگ رہے ترے دھیان کی جوت جگائے ہوئے
کبھی نتھرے ستھرے کپڑوں میں کبھی انگ بھبھوت رمائے ہوئے
اس راہ سے چھپ چھپ کر گزری رت سبز سنہرے پھولوں کی
جس راہ پہ تم کبھی نکلے تھے گھبرائے ہوئے شرمائے ہوئے
اب تک ہے وہی عالم دل کا وہی رنگ شفق وہی تیز ہوا
وہی سارا منظر جادو کا مرے نین سے نین ملائے ہوئے
چہرے پہ چمک آنکھوں میں حیا لب گرم خنک چھب نرم نوا
جنہیں اتنے سکون میں دیکھا تھا وہی آج ملے گھبرائے ہوئے
ہم نے مشتاق یونہی کھولا یادوں کی کتاب مقدس کو
کچھ کاغذ نکلے خستہ سے کچھ پھول ملے مرجھائے ہوئے
۰۰۰
تم آئے ہو تمہیں بھی آزما کے دیکھ لیتا ہوں
تمہارے ساتھ بھی کچھ دور جا کر دیکھ لیتا ہوں
ہوائیں جن کی اندھی کھڑکیوں پر سر پٹکتی ہیں
میں ان کمروں میں پھر شمیں جلا کر دیکھ لیتا ہوں
عجب کیا اس قرینے سے کوئی صورت نکل آئے
تری باتوں کو خوابوں سے ملا کر دیکھ لیتا ہوں
سحر دم کرچیاں ٹوٹے ہوئے خوابوں کی ملتی ہیں
تو بستر جھاڑ کر چادر ہٹا کر دیکھ لیتا ہوں
بہت دل کو دکھاتا ہے کبھی جب درد مہجوری
تری یادوں کی جانب مسکراکر دیکھ لیتا ہوں
اڑا کر رنگ کچھ ہونٹوں سے کچھ آنکھوں سے کچھ دل سے
گئے لمحوں کو تصویریں بنا کر دیکھ لیتا ہوں
نہیں ہو تم بھی وہ اب مجھ سے یارو کیا چھپاؤ گے
ہوا کی سمت کو مٹی اڑا کر دیکھ لیتا ہوں
سنا ہے بے نیازی ہی علاج نا امیدی ہے
یہ نسخہ بھی کوئی دن آزما کر دیکھ لیتا ہوں
محبت مرگئی مشتاق لیکن تم نہ مانو گے
میں یہ افواہ بھی تم کو سنا کر دیکھ لیتا ہوں
۰۰۰
تھا مجھ سے ہم کلام مگر دیکھنے میں تھا
جانے وہ کس خیال میں تھا کس سمے میں تھا
کیسے مکاں اجاڑ ہوا کس سے پوچھتے
چولھے میں روشنی تھی نہ پانی گھڑے میں تھا
تا صبح برگ و شاخ و شجر جھومتے رہے
کل شب بلا کا سوز ہوا کے گلے میں تھا
نیندوں میں پھررہا ہوں اسے ڈھونڈتا ہوا
شامل جو ایک خواب مرے رتجگے میں تھا
۰۰۰
تھم گیا درد اجالا ہوا تنہائی میں
برق چمکی ہے کہیں رات کی گہرائی میں
باغ کا باغ لہو رنگ ہوا جاتا ہے
وقت مصروف ہے کیسی چمن آرائی میں
شہر ویران ہوئے بحر بیابان ہوئے
خاک اڑتی ہے در و دشت کی پہنائی میں
ایک لمحے میں بکھر جاتا ہے تانا بانا
اور پھر عمر گزر جاتی ہے یکجائی میں
اس تماشے میں نہیں دیکھنے والا کوئی
اس تماشے کو جو برپا ہے تماشائی میں
۰۰۰
چاند اس گھر کے دریچوں کے برابر آیا
دل مشتاق ٹھہر جا وہی منظر آیا
میں بہت خوش تھا کڑی دھوپ کے سناٹے میں
کیوں تری یاد کا بادل مرے سر پر آیا
بجھ گی رونق پروانہ تو محفل چمکی
سوگئے اہل تمنا تو ستم گر آیا
یار سب جمع ہوئے رات کی خاموشی میں
کوئی رو کر تو کوئی بال بنا کر آیا
۰۰۰
چشم و لب کیسے ہوں رخسار ہوں کیسے تیرے
ہم خیالوں میں بناتے رہے نقشے تیرے
تیرے ساونت کو سولی کی زباں چاٹ گئی
جسم ابھی گرم تھا اور بال تھے گیلے تیرے
کیا کہوں کیا ترے افسردہ دلوں پر گزری
کیسے تاراج ہوئے آئنہ خانے تیرے
اب کہاں دیکھنے والوں کو یقیں آئے گا
باغ جنت تھا بدن خواب تھے بوسے تیرے
۰۰۰
چمک دمک پہ نہ جاؤ کھری نہیں کوئی شے
سوائے شاخ تمنا ہری نہیں کوئی شے
دل گداز و لب خشک و چشم تر کے بغیر
یہ علم و فضل یہ دانش وری نہیں کوئی شے
تو پھر یہ کشمکش دل کہاں سے آئی ہے
جو دل گرفتگی و دلبری نہیں کوئی شے
عجب ہیں وہ رخ و گیسو کہ سامنے جن کے
یہ صبح و شام کی جادوگری نہیں کوئی شے
ملال ساےۂ دیوار یار کے آگے
شب طرب تری نیلم پری نہیں کوئی شے
جہان عشق سے ہم سرسری نہیں گزرے
یہ وہ جہاں ہے جہاں سرسری نہیں کوئی شے
تری نظر کی گلابی ہے شیشۂ دل میں
کہ ہم نے اور تو اس میں بھری نہیں کوئی شے
۰۰۰
چھن گئی تیری تمنا بھی تمنائی سے
دل بہلتے ہیں کہیں حوصلہ افزائی سے
کیسا روشن تھا ترا نیند میں ڈوبا چہرہ
جیسے ابھرا ہو کسی خواب کی گہرائی سے
وہی آشفتہ مزاجی وہی خوشیاں وہی غم
عشق کا کام لیا ہم نے شناسائی سے
نہ کبھی آنکھ بھر آئی نہ ترا نام لیا
بچ کے چلتے رہے ہر کوچۂ رسوائی سے
ہجر کے دم سے سلامت ہے ترے وصل کی آس
تر و تازہ ہے خوشی غم کی توانائی سے
کھل کے مرجھا بھی گئے فصل ملاقات کے پھول
ہم ہی فارغ نہ ہوئے موسم تنہائی سے
۰۰۰
چھٹ گیا ابر شفق کھل گئی تارے نکلے
بند کمروں سے ترے درد کے مارے نکلے
شاخ پر پنکھڑیاں ہوں کہ پلک پر آنسو
تیرے دامن کی جھلک دیکھ کے سارے نکلے
تو اگر پاس نہیں ہے کہیں موجود تو ہے
تیرے ہونے سے بڑے کام ہمارے نکلے
تیرے ہونٹوں مری آنکھوں سے نہ بدلی دنیا
پھر وہی پھول کھلے پھر وہی تارے نکلے
رہ گئی لاج مری عرض وفا کی مشتاق
خامشی سے تری کیا کیا نہ اشارے نکلے
۰۰۰
خواب کے پھولوں کی تعبیریں کہانی ہوگئیں
خون ٹھنڈا پڑگیا آنکھیں پرانی ہوگئیں
جس کا چہرہ تھا چمکتے موسموں کی آرزو
اس کی تصویریں بھی اوراق خزانی ہوگئیں
دل بھر آیا کاغذ خالی کی صورت دیکھ کر
جن کو لکھنا تھا وہ سب باتیں زبانی ہوگئیں
جو مقدر تھا اسے تو روکنا بس میں نہ تھا
ان کا کیا کرتے جو باتیں ناگہانی ہوگئیں
رہ گیا مشتاق دل میں رنگ یاد رفتگاں
پھول مہنگے ہوگئے قبریں پرانی ہوگئیں
۰۰۰
خون دل سے کشت غم کو سینچتا رہتا ہوں میں
خالی کاغذ پر لکیریں کھینچتا رہتا ہوں میں
آج سے مجھ پر مکمل ہوگیا دین فراق
ہاں تصور میں بھی اب تجھ سے جدا رہتا ہوں میں
تو دیار حسن ہے اونچی رہے تیری فصیل
میں ہوں دروازہ محبت کا کھلا رہتا ہوں میں
شام تک کھینچے لیے پھرتے ہیں اس دنیا کے کام
صبح تک فرش ندامت پر پڑا رہتا ہوں میں
ہاں کبھی مجھ پر بھی ہوجاتا ہے موسم کا اثر
ہاں کسی دن شاکی آب و ہوا رہتا ہوں میں
اہل دنیا سے تعلق قطع ہوتا ہی نہیں
بھول جانے پر بھی صورت آشنا رہتا ہوں میں
۰۰۰
خیر اوروں نے بھی چاہا تو ہے تجھ سا ہونا
یہ الگ بات کہ ممکن نہیں ایسا ہونا
دیکھتا اور نہ ٹھہرتا تو کوئی بات بھی تھی
جس نے دیکھا ہی نہیں اس سے خفا کیا ہونا
تجھ سے دوری میں بھی خوش رہتا ہوں پہلے کی طرح
بس کسی وقت برا لگتا ہے تنہا ہونا
یوں مری یاد میں محفوظ ہیں تیرے خد و خال
جس طرح دل میں کسی شے کی تمنا ہونا
زندگی معرکۂ روح و بدن ہے مشتاق
عشق کے ساتھ ضروری ہے ہوس کا ہونا
۰۰۰
دل میں وہ شور نہ آنکھوں میں وہ نم رہتا ہے
اب تپ ہجر توقع سے بھی کم رہتا ہے
کبھی شعلے سے لپکتے تھے مرے سینے میں
اب کسی وقت دھواں سا کوئی دم رہتا ہے
کیا خدا جانے مرے دل کو ہوا تیرے بعد
نہ خوشی اس میں ٹھہرتی ہے نہ غم رہتا ہے
رشتۂ تار تمنا نہیں ٹوٹا اب تک
اب بھی آنکھوں میں تری زلف کا خم رہتا ہے
چھوڑ جاتی ہے ہر اک رت کوئی خوشبو کوئی رنگ
نہ ستم رہتا ہے باقی نہ کرم رہتا ہے
۰۰۰
دلوں کی اور دھواں سا دکھائی دیتا ہے
یہ شہر تو مجھے جلتا دکھائی دیتا ہے
جہاں کہ داغ ہے یاں آگے درد رہتا تھا
مگر یہ داغ بھی جاتا دکھائی دیتا ہے
پکارتی ہیں بھرے شہر کی گزرگاہیں
وہ روز شام کو تنہا دکھائی دیتا ہے
یہ لوگ ٹوٹی ہوئی کشتیوں میں سوتے ہیں
مرے مکان سے دریا دکھائی دیتا ہے
خزاں کے زرد دنوں کی سیاہ راتوں میں
کسی کا پھول سا چہرہ دکھائی دیتا ہے
کہیں ملے وہ سر راہ تو پلٹ جائیں
بس اب تو ایک ہی رستہ دکھائی دیتا ہے
۰۰۰
دنیا میں سراغ رہ دنیا نہیں ملتا
دریا میں اتر جائیں تو دریا نہیں ملتا
باقی تو مکمل ہے تمنا کی عمارت
اک گزرے ہوئے وقت کا شیشہ نہیں ملتا
جاتے ہوئے ہر چیز یہیں چھوڑ گیا تھا
لوٹا ہوں تو اک دھوپ کا ٹکڑا نہیں ملتا
جو دل میں سمائے تھے وہ اب شامل دل ہیں
اس آئنے میں عکس کسی کا نہیں ملتا
تونے ہی تو چاہا تھا کہ ملتا رہوں تجھ سے
تیری یہی مرضی ہے تو اچھا نہیں ملتا
دل میں تو دھڑکنے کی صدا بھی نہیں مشتاق
رستے میں ہے وہ بھیڑ کہ رستہ نہیں ملتا
۰۰۰
دھڑکتی رہتی ہے دل میں طلب کوئی نہ کوئی
پکارتا ہے مجھے روز و شب کوئی نہ کوئی
شب الم ترے سادہ دلوں پہ کیا گزری
سحر ہوئی تو سنائے گا سب کوئی نہ کوئی
زبان بند ہے آنکھوں کے بند رہنے تک
کھلے گی آنکھ تو کھولے گا لب کوئی نہ کوئی
ہوائے ساز الم لاکھ احتیاط کرے
لرز ہی اٹھتا ہے تار طرب کوئی نہ کوئی
گھنے بنوں میں بھی رستہ نکل ہی آتا ہے
بنا ہی دیتی ہے قدرت سبب کوئی نہ کوئی
۰۰۰
رات پھر رنگ پہ تھی اس کے بدن کی خوشبو
دل کی دھڑکن تھی کہ اڑتے تھے لہو میں جگنو
جیسے ہر شے ہو کسی خواب فراموش میں گم
چاند چمکا نہ کسی یاد نے بدلا پہلو
صبح کے زینۂ خاموش پہ قدموں کے گلاب
شام کی بند حویلی میں ہنسی کا جادو
صحن کے سبز اندھیرے میں دمکتے رخسار
صاف بستر کے اجالے میں چمکتے گیسو
جھلملاتے رہے وہ خواب جو پورے نہ ہوئے
درد بیدار ٹپکتا رہا آنسو آنسو
۰۰۰
رخصت شب کا سماں پہلے کبھی دیکھا نہ تھا
اتنا روشن آسماں پہلے کبھی دیکھا نہ تھا
دور تک پھیلا ہوا صحرا نظر آیا مجھے
ایک ذرہ بھی جہاں پہلے کبھی دیکھا نہ تھا
دیدنی تھا موج دریا کا نشاط بے پناہ
جلوۂ آب رواں پہلے کبھی دیکھا نہ تھا
اہل دنیا تو ہمیشہ ہی سے ایسے تھے مگر
عشق اتنا ناتواں پہلے کبھی دیکھا نہ تھا
دل پریشاں ہوگیا رنگ زوال حسن سے
آگ دیکھی تھی دھواں پہلے کبھی دیکھا نہ تھا
اس قدر حیراں نہ ہو آنکھوں میں آنسو دیکھ کر
تجھ کو اتنا مہرباں پہلے کبھی دیکھا نہ تھا
۰۰۰
روشنی رہتی تھی دل میں زخم جب تک تازہ تھا
اب جہاں دیوار ہے پہلے وہاں دروازہ تھا
درد کی اک موج ہر خواہش بہا کر لے گئی
کیا ٹھہرتیں بستیاں پانی ہی بے اندازہ تھا
رات ساری خواب کی گلیوں میں ہم چلتے رہے
کھڑکیاں روشن تھیں لیکن بند ہر دروازہ تھا
۰۰۰
زندگی سے ایک دن موسم خفا ہوجائیں گے
رنگ گل اور بوئے گل دونوں ہوا ہوجائیں گے
آنکھ سے آنسو نکل جائیں گے اور ٹہنی سے پھول
وقت بدلے گا تو سب قیدی رہا ہوجائیں گے
پھول سے خوشبو بچھڑ جائے گی سورج سے کرن
سال سے دن وقت سے لمحے جدا ہوجائیں گے
کتنے پر امید کتنے خوبصورت ہیں یہ لوگ
کیا یہ سب بازو یہ سب چہرے فنا ہوجائیں گے
۰۰۰
شام غم یاد ہے کب شمع جلی یاد نہیں
کب وہ رخصت ہوئے کب رات ڈھلی یاد نہیں
دل سے بہتے ہوئے پانی کی صدا گزری تھی
کب دھندلکا ہوا کب ناؤ چلی یاد نہیں
ٹھنڈے موسم میں پکارا کوئی ہم آتے ہیں
جس میں ہم کھیل رہے تھے وہ گلی یاد نہیں
ان مضافات میں چھپ چھپ کے ہوا چلتی تھی
کیسے کھلتی تھی محبت کی کلی یاد نہیں
جسم و جاں ڈوب گئے خواب فراموشی میں
اب کوئی بات بری ہو کہ بھلی یاد نہیں
۰۰۰
شبنم کو ریت پھول کو کانٹا بنادیا
ہم نے تو اپنے باغ کو صحرا بنادیا
اس اونچ نیچ پر تو ٹھہرتے نہیں تھے پاؤں
کس دست شوق نے اسے دنیا بنادیا
کن مٹھیوں نے بیج بکھیرے زمین پر
کن بارشوں نے اس کو تماشا بنادیا
سیراب کردیا تری موج خرام نے
رکھا جہاں قدم وہاں دریا بنادیا
اک رات چاندنی مرے بستر پہ آئی تھی
میں نے تراش کر ترا چہرہ بنادیا
پوچھے اگر کوئی تو اسے کیا بتاؤں میں
دل کیا تھا، تیرے غم نے اسے کیا بنادیا
۰۰۰
عشق میں کون بتا سکتا ہے
کس نے کس سے سچ بولا ہے
ہم تم ساتھ ہیں اس لمحے میں
دکھ سکھ تو اپنا اپنا ہے
مجھ کو تو سارے ناموں میں
تیرا نام اچھا لگتا ہے
بھول گئی وہ شکل بھی آخر
کب تک یاد کوئی رہتا ہے
۰۰۰
لبھاتا ہے اگرچہ حسن دریا ڈر رہا ہوں میں
سبب یہ ہے کہ اک مدت کنارے پر رہا ہوں میں
یہ جھونکے جن سے دل میں تازگی آنکھوں میں ٹھنڈک ہے
انہی جھونکوں سے مرجھایا ہوا شب بھر رہا ہوں میں
ترے آنے کا دن ہے تیرے رستے میں بچھانے کو
چمکتی دھوپ میں سائے اکھٹے کررہا ہوں میں
کوئی کمرہ ہے جس کے طاق میں اک شمع جلتی ہے
اندھیری رات ہے اور سانس لیتے ڈر رہا ہوں میں
مجھے معلوم ہے اہل وفا پر کیا گزرتی ہے
سمجھ کر سوچ کر تجھ سے محبت کررہا ہوں میں
۰۰۰
لے کے ہمراہ چھلکتے ہوئے پیمانے کو
آن پہنچی ہے یہ ساعت بھی گزر جانے کو
ہاں اسے رہگزر خندۂ گل کہتے ہیں
ہاں یہی راہ نکل جاتی ہے ویرانے کو
فائدہ بھی کوئی جل جل کے مرے جانے سے
کون اس شمع سے روشن کرے پروانے کو
سنگ اٹھانا تو بڑی بات ہے اب شہر کے لوگ
آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے دیوانے کو
کل بھی دیکھا تھا انہیں آج بھی درشن ہونگے
حسب معمول وہ نکلیں گے ہوا کھانے کو
۰۰۰
مجھے اس نے تری خبر دی ہے
جس نے ہر شام کو سحر دی ہے
گم رہا ہوں ترے خیالوں میں
تجھ کو آواز عمر بھر دی ہے
دن تھا اور گرد رہ گزار نصیب
رات ہے اور ستارہ گردی ہے
سرد و گرم زمانہ دیکھ لیا
نہ وہ گرمی ہے اب نہ سردی ہے
۰۰۰
مسلسل یاد آتی ہے چمک چشم غزالاں کی
اکیلی ذات ہے اور رات ہے جنگل بیاباں کی
ذرا دیکھو ہوائے صبح کیسے کھینچ لائی ہے
اکیلی پنکھڑی میں دل کشی سارے گلستاں کی
انہیں گلیوں میں کھلتے تھے ملاقاتوں کے دروازے
انہیں گلیوں میں چلتی ہیں ہوائیں شام ہجراں کی
کوئی ذرے کو ذرہ ہی سمجھ کر چھوڑ دیتا ہے
کسی کو سوجھتی ہے اس سے تعمیر بیاباں کی
یہ وہ موسم ہے جس میں کوئی پتہ بھی نہیں ہلتا
دل تنہا اٹھاتا ہے صعوبت شام ہجراں کی
یہی کافی ہے دل سے مدتوں کا بوجھ تو اترا
چلو اس چشم گریاں نے کوئی مشکل تو آساں کی
ستارے درد کی آواز سے غافل نہیں رہتے
دم آہو سے روشن مشعلیں ریگ بیاباں کی
۰۰۰
مل ہی آتے ہیں اسے ایسا بھی کیا ہوجائے گا
بس یہی نہ درد کچھ دل کا سوا ہوجائے گا
وہ مرے دل کی پریشانی سے افسردہ ہو کیوں
دل کا کیا ہے کل کو پھر اچھا بھلا ہوجائے گا
گھر سے کچھ خوابوں سے ملنے کے لیے نکلے تھے ہم
کیا خبر تھی زندگی سے سامنا ہوجائے گا
رونے لگتا ہوں محبت میں تو کہتا ہے کوئی
کیا ترے اشکوں سے یہ جنگل ہرا ہوجائے گا
کیسے آسکتی ہے ایسی دل نشیں دنیا کو موت
کون کہتا ہے کہ یہ سب کچھ فنا ہوجائے گا
۰۰۰
مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے
جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام ترے
اے مکاں بول کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے
اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے
روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جگ بیت گئے
عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے
دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن
عمر بھر کون جواں کون حسیں رہتا ہے
۰۰۰
ملال دل سے علاج غم زمانہ کیا
ضیائے مہر سے روشن چراغ خانہ کیا
سحر ہوئی تو وہ آئے لٹوں کو چھٹکاتے
ذرا خیال پریشانی صبا نہ کیا
ہزار شکر کہ ہم مصلحت شناس نہ تھے
کہ ہم نے جس سے کیا عشق والہانہ کیا
وہ جس کے لطف میں بیگانگی بھی شامل تھی
اسی نے آج گزر دل سے محرمانہ کیا
وہ بزم حرف ہو یا محفل سماع خیال
جہاں بھی وجد کیا ہم نے بے ترانہ کیا
۰۰۰
منظر صبح دکھانے اسے لایا نہ گیا
آتی جاتی رہیں شامیں کوئی آیا نہ گیا
رات بستر پہ کھلے چاند میں سوتا تھا کوئی
میں نے چاہا کہ جگاؤں تو جگایا نہ گیا
ایک مدت اسے دیکھا اسے چاہا لیکن
وہ کبھی پاس سے گزرا تو بلایا نہ گیا
گھیرے رہتی تھی اسے ایک جہاں کی نظریں
پھر جو دیکھا تو وہ اس آن میں پایا نہ گیا
سر اٹھاتے ہی کڑی دھوپ کی یلغار ہوئی
دو قدم بھی کسی دیوار کا سایا نہ گیا
تھا مقرر کہ ملاقات رہے گی اس سے
وہ تو پہنچا تھا مگر مجھ سے ہی آیا نہ گیا
۰۰۰
مونس دل کوئی نغمہ کوئی تحریر نہیں
حرف میں رس نہیں آواز میں تاثیر نہیں
آہی جاتا ہے اجڑتی ہوئی دنیا کا خیال
باور آیا کہ ترا درد ہمہ گیر نہیں
ہجر اک وقفۂ بیدار ہے دو نیندوں میں
وصل اک خواب ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں
میرے اطراف یہ زنجیر علائق کیسی
زندگی جرم سہی قابلِ تعذیر نہیں
کس طرح پائیں اس افسردہ مزاجی سے نجات
ہمدمو ہم سخنو کیا کوئی تدبیر نہیں
۰۰۰
وہی ان کی ستیزہ کاری ہے
وہی بے چارگی ہماری ہے
وہی ان کا تغافل پیہم
وہی اپنی گلہ گزاری ہے
وہی رخسار و چشم و لب ان کے
وہی بے چہرگی ہماری ہے
حسن ہو خیر ہو صداقت ہو
سب پہ ان کی اجارہ داری ہے
ہاتھ اٹھا توسن تخیل سے
یہ کسی اور کی سواری ہے
۰۰۰
کس جھٹپٹے کے رنگ اجالوں میں آگئے
ٹکڑے شفق کے دھوپ سے گالوں میں آگئے
افسردگی کی لے بھی ترے قہقہوں میں تھی
پت جھڑ کے سر بہار کے جھالوں میں آگئے
اڑ کر کہاں کہاں سے پرندوں کے قافلے
نادیدہ پانیوں کے خیالوں میں آگئے
حسن تمام تھے تو کوئی دیکھتا نہ تھا
تم درد بن کے دیکھنے والوں میں آگئے
کانٹے سمجھ کے گھاس پہ چلتا رہا ہوں میں
قطرے تمام اوس کے چھالوں میں آگئے
کچھ رتجگے تھے جن کی ضرورت نہیں رہی
کچھ خواب تھے جو میرے خیالوں میں آگئے
۰۰۰
کس شے پہ یہاں وقت کا سایہ نہیں ہوتا
اک خواب محبت ہے کہ بوڑھا نہیں ہوتا
وہ وقت بھی آتا ہے جب آنکھوں میں ہماری
پھرتی ہیں وہ شکلیں جنہیں دیکھا نہیں ہوتا
بارش وہ برستی ہے کہ بھر جاتے ہیں جل تھل
دیکھو تو کہیں ابر کا ٹکڑا نہیں ہوتا
گھر جاتا ہے دل درد کی ہر بند گلی میں
چاہو کہ نکل جائیں تو رستہ نہیں ہوتا
یادوں پہ بھی جم جاتی ہے جب گرد زمانہ
ملتا ہے وہ پیغام کہ پہنچا نہیں ہوتا
تنہائی میں کرنی تو ہے اک بات کسی سے
لیکن وہ کسی وقت اکیلا نہیں ہوتا
کیا اس سے گلہ کیجیے بربادئ دل کا
ہم سے بھی تو اظہار تمنا نہیں ہوتا
۰۰۰
کھڑے ہیں دل میں جو برگ و ثمر لگائے ہوئے
تمہارے ہاتھ کے ہیں یہ شجر لگائے ہوئے
بہت اداس ہو تم اور میں بھی بیٹھا ہوں
گئے دنوں کی کمر سے کمر لگائے ہوئے
ابھی سپاہ ستم خیمہ زن ہے چار طرف
ابھی پڑے رہو زنجیر در لگائے ہوئے
کہاں کہاں نہ گئے عالم خیال میں ہم
نظر کسی کے درو بام پر لگائے ہوئے
وہ شب کو چیر کے سورج نکال بھی لائے
ہم آج تک ہیں امید سحر لگائے ہوئے
دلوں کی آگ جلاؤ کہ ایک عمر ہوئی
صدائے نالۂ دود و شرر لگائے ہوئے
۰۰۰
کہاں کی گونج دل ناتواں میں رہتی ہے
کہ تھرتھری سی عجب جسم و جاں میں رہتی ہے
قدم قدم پہ وہی چشم و لب وہی گیسو
تمام عمر نظر امتحاں میں رہتی ہے
مزہ تو یہ ہے کہ وہ خود تو ہے نئے گھر میں
اور اس کی یاد پرانے مکاں میں رہتی ہے
پتہ تو فصل گل و لالہ کا نہیں معلوم
سنا ہے قرب و جوار خزاں میں رہتی ہے
میں کتنا وہم کروں لیکن اک شعاع یقیں
کہیں نواح دل بدگماں میں رہتی ہے
ہزار جان کھپاتا رہوں مگر پھر بھی
کمی سی کچھ مرے طرز بیاں میں رہتی ہے
۰۰۰
کہوں کس سے رات کا ماجرا نئے منظروں پہ نگاہ تھی
نہ کسی کا دامن چاک تھا نہ کسی کی طرف کلاہ تھی
کئی چاند تھے سر آسماں جو چمک چمک کے پلٹ گئے
نہ لہو مرے ہی جگر میں تھا نہ تمہاری زلف سیاہ تھی
دل کم الم پہ وہ کیفیت کہ ٹھہر سکے نہ گزر سکے
نہ حضر ہی راحت روح تھا نہ سفر میں رامش راہ تھی
مرے چار دانگ تھی جلوہ گر وہی لذت طلب سحر
مگر اک امید شکستہ پر کہ مثال درد سیاہ تھی
وہ جو رات مجھ کو بڑے ادب سے سلام کرکے چلا گیا
اسے کیا خبر مرے دل میں بھی کبھی آرزوئے گنا ہ تھی
۰۰۰
کیسے انہیں بھلاؤں محبت جنہوں نے کی
مجھ کو تو وہ بھی یاد ہیں نفرت جنہوں نے کی
دنیا میں احترام کے قابل وہ لوگ ہیں
اے ذلت وفا تری عزت جنہوں نے کی
تزئین کائنات کا باعث وہی بنے
دنیا سے اختلاف کی جرات جنہوں نے کی
آسودگان منزل لیلیٰ اداس ہیں
اچھے رہے نہ طے یہ مسافت جنہوں نے کی
اہل ہوس تو خیر ہوس میں ہوئے ذلیل
وہ بھی ہوئے خراب محبت جنہوں نے کی
۰۰۰
ہاتھ سے ناپتا ہوں درد کی گہرائی کو
یہ نیا کھیل ملا ہے مری تنہائی کو
تھا جو سینے میں چراغ دل پرخوں نہ رہا
چاٹیے بیٹھ کے اب صبر و شکیبائی کو
دل افسردہ کسی طرح بہلتا ہی نہیں
کیا کریں آپ کی اس حوصلہ افزائی کو
خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے لیکن
تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو
نگہ ناز نہ ملتے ہوئے گھبرا ہم سے
ہم محبت نہیں کہنے کے شناسائی کو
دل ہے نیرنگی ایام پہ حیراں اب تک
اتنی سی بات بھی معلوم نہیں بھائی کو
۰۰۰
ہر لمحہ ظلمتوں کی خدائی کا وقت ہے
شاید کسی کی چہرہ نمائی کا وقت ہے
کہتی ہے ساحلوں سے یہ جاتے سمے کی دھوپ
ہشیار ندیوں کی چڑھائی کا وقت ہے
ہوتے ہی شام آنکھ سے آنسو رواں ہوئے
یہ وقت قیدیوں کی رہائی کا وقت ہے
کوئی بھی وقت ہو کبھی ہوتا نہیں جدا
کتنا عزیز اس کی جدائی کا وقت ہے
دل نے کہا کہ شام شب وصل سے نہ بھاگ
اب پک چکی ہے فصل کٹائی کا وقت ہے
میں نے کہا کہ دیکھ یہ میں یہ ہوا یہ رات
اس نے کہا کہ میری پڑھائی کا وقت ہے
۰۰۰
ہمیں سب اہل ہوس ناپسند رکھتے ہیں
کہ ہم لوائے محبت بلند رکھتے ہیں
اسی لیے تو خفا ہیں ستم شعار کہ ہم
نگاہ نرم و دل درد مند رکھتے ہیں
اگرچہ دل وہی رجعت پسند ہے اپنا
مگر زبان ترقی پسند رکھتے ہیں
ہم ایسے عرش نشینوں سے وہ درخت اچھے
جو آندھیوں میں بھی سر کو بلند رکھتے ہیں
چلے ہو دیکھنے مشتاق جن کو پچھلی رات
وہ لوگ شام سے دروازہ بند رکھتے ہیں
۰۰۰
یہ تنہا رات یہ گہری فضائیں
اسے ڈھونڈیں کہ اس کو بھول جائیں
خیالوں کی گھنی خاموشیوں میں
گھلی جاتی ہیں لفظوں کی صدائیں
یہ رستے رہرووں سے بھاگتے ہیں
یہاں چھپ چھپ کے چلتی ہیں ہوائیں
یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے
اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں
جو غم جلتے ہیں شعروں کی چتا میں
انہیں پھر اپنے سینے سے لگائیں
چلو ایسا مکاں آباد کرلیں
جہاں لوگوں کی آوازیں نہ آئیں
۰۰۰
یہ کون خواب میں چھو کر چلا گیا مرے لب
پکارتا ہوں تو دیتے نہیں صدا مرے لب
یہ اور بات کسی کے لبوں تلک نہ گئے
مگر قریب سے گزرے ہیں بارہا مرے لب
اب اس کی شکل بھی مشکل سے یاد آتی ہے
وہ جس کے نام سے ہوتے نہ تھے جدا مرے لب
اب ایک عمر سے گفت و شنید بھی تو نہیں
ہیں بے نصیب مرے کان بے نوا مرے لب
یہ شاخسانۂ وہم و گمان تھا شاید
کجا وہ ثمرۂ باغ طلب کجا مرے لب
۰۰۰
یہ کہنا تو نہیں کافی کہ بس پیارے لگے ہم کو
انہیں کیسے بتائیں ہم کہ وہ کیسے لگے ہم کو
مکیں تھے یا کسی کھوئے ہوئی جنت کی تصویریں
مکاں اس شہر کے بھولے ہوئے سپنے لگے ہم کو
ہم ان کو سوچ میں گم دیکھ کر واپس چلے آئے
وہ اپنے دھیان میں بیٹھے ہوئے اچھے لگے ہم کو
بہت شفاف تھے جب تک کہ مصروف تمنا تھے
مگر اس کار دنیا میں بڑے دھبے لگے ہم کو
جہاں تنہا ہوئے دل میں بھنور سے پڑنے لگتے ہیں
اگرچہ مدتیں گزریں کنارے سے لگے ہم کو
۰۰۰
یہ ہم غزل میں جو حرف و بیاں بناتے ہیں
ہوائے غم کے لیے کھڑکیاں بناتے ہیں
انہیں بھی دیکھ کبھی اے نگار شام بہار
جو ایک رنگ سے تصویر جاں بناتے ہیں
نگاہ ناز کچھ ان کی بھی ہے خبر تجھ کو
جو دھوپ میں ہیں مگر بدلیاں بناتے ہیں
ہمارا کیا ہے جو ہوتا ہے جی اداس بہت
تو گل تراشتے ہیں تتلیاں بناتے ہیں
کسی طرح نہیں جاتی فسردگی دل کی
تو زرد رنگ کا اک آسماں بناتے ہیں
دل ستم زدہ کیا ہے لہو کی بوند تو ہے
اس ایک بوند کو ہم بے کراں بناتے ہیں
بلا کی دھوپ تھی دن بھر تو سائے بنتے تھے
اندھیری رات ہے چنگاریاں بناتے ہیں
ہنر کی بات جو پوچھو تو مختصر یہ ہے
کشید کرتے ہیں آگ اور دھواں بناتے ہیں
۰۰۰
 

2 تبصرے:

ڈاکٹر غافر شہزاد کہا...

بہت اچھا اور نمائندہ انتخاب ہے

anwerjawaid53 کہا...

Umdah...Boht hi Umdah Kalam....Daad o Staiesh se Be perwah Shaier ki Shaiery khud ko manwati hy BesakhiyoN per Lobbies banane waley doosroN k Misrey musta'ar lenay waley Kheyal choar nhi pnapte
Shukreya Tasneef Sayyed Khush Rahiey Rekhta k baad ye qabil e taareef kaam aap ne kiya.DuayeN
Syed Anwer Jawaid Hashmi Sukhanwer

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *