پیر، 29 جون، 2015

اعجاز گل کی تازہ ترین غزلیں

اعجازگل کا نام اردو غزل میں اپنی شعری انفرادیت کے لیے بے حد اہم ہے، وہ عام طور پر شہرت کی خواہش سے بھی کوسوں دور ہیں، مگر ان کا لہجہ، ان کا بیانیہ اور ان کی شعری حس کی تیزی اور باریکی ان کی شناخت ہے۔وہ اپنی بات کہنے کے ڈھنگ کو مختلف انداز سے برت کر دیکھنا جانتے ہیں،اور یہی کوشش تخلیقی اعتبار سے ہمیشہ کارگر ثابت ہوتی ہے، یہ غزل اس انسانی تجربے کی تفسیر بھی دکھائی دیتی ہے، جس نے دنیا کو لیمپ سے لائٹ کا سفر کرتے ہوئے دیکھا ہے، محسوس کیا ہے، اور اس برق باری کے نتائج کو اپنے خیالات کی کسوٹی پر گھسا بھی ہے۔زبان و بیان کے اعتبار سے بھی ان غزلوں کی انفرادیت نمایاں ہے،ادبی دنیا کے ذریعےان کی یہ غزلیں پیش کرتے ہوئے مجھےبے حد خوشی محسوس ہورہی ہے، یہ' گماں آباد' کے بعدکہی گئی اعجاز گل کی تازہ غزلوں میں سے پیش کیا جانے والا ایک انتخاب ہے، جس کا سلسلہ مستقبل میں بھی آپ کے ذوق کی نذر ہوتا رہے گا۔شکریہ!


منظرِ وقت کی یکسانی میں بیٹھا ہوا ہوں
رات دن ایک سی ویرانی میں بیٹھا ہوا ہوں

کوئی سامانِ سفر ہے نہ مسافت در پیش
مطمئن بے سر و سامانی میں بیٹھا ہوا ہوں

کبھی نایافت کا ہے تو کبھی کم یافت کا غم
وجہ بے وجہ پریشانی میں بیٹھا ہوا ہوں

کارِ دشوار ہے آغاز سے منکر جب تک
کارِ بے کار کی آسانی میں بیٹھا ہوا ہوں

کل کہیں رفتہ میں تھا حال کی حیرت کا اسیر
اب کسی فردا کی حیرانی میں بیٹھا ہوا ہوں

خیر ہمزاد مرا دور تماشائی ہے
شر ہوں اور فطرتِ انسانی میں بیٹھا ہوا ہوں

جسم ہوں اور نفس ٹھہرا ہے ضامن میرا
ساعتِ عمر کی نگرانی میں بیٹھا ہوا ہوں

ایک بازارِ طلسمات ہے جس کے اندر
جیبِ خالی تری ارزانی میں بیٹھا ہوا ہوں

ریگ تا ریگ ہوں پھیلا ہوا صحرا کی طرح
اور سرابوں کی فراوانی میں بیٹھا ہوا ہوں

ایسا سناٹا ہے آواز سے ہول آتا ہے
اک بیاباں سا بیابانی میں بیٹھا ہوا ہوں

نہ مَیں بلقیس کہ ہو شہرِ سبا کی خواہش
نہ غمِ تختِ سلیمانی میں بیٹھا ہوا ہوں

---
مسرت سے کہاں نقل ِ مکانی ہو رہی ہے
عمارت خاکداں کی اب پرانی ہو رہی ہے

نکلتے آ رہے ہیں ثابت و سیار تازہ
جو دنیا کل تھی فانی غیر فانی ہو رہی ہے

معمہ کائناتی لے کے بیٹھے ہیں من و تو
ازل پر اور ابد پر نکتہ دانی ہو رہی ہے

سرا ملتا نہیں ہے اس گماں کے لامکاں کا
وہ ذات اپنے زماں میں لامکانی ہو رہی ہے

اثر الٹا ہے شاخِ عمر پر بادِ صبا کا
بہاری کم زیادہ یہ خزانی ہو رہی ہے

زمانہ کب بچا پایا ہے بود و است اپنے
اگر یہ بے نشاں میری نشانی ہو رہی ہے

وہی ہے سعیِ بیکاراں کسی دفتر میں عرضی
نہ اوّل کار آمد ہے نہ ثانی ہو رہی ہے

ضرر تحریر میں ہے کچھ جو مابینِ فریقاں
قبول و نا قبولیّت زبانی ہو رہی ہے

ہو ا آغاز کتنا مختلف اور ختم کیسے
غلط انداز میں سب کی کہانی ہو رہی ہے

---
عیاں ہوا نہ کبھی جو نہاں کے پیچھے ہے
کہ اصل واقعہ ہر داستاں کے پیچھے ہے

طویل مشق خسارے کی اس میں ہے درکار
اگرچہ سود میسر زیاں کے پیچھے ہے

فرار ہو نہیں پاتا ہوں رائگانی سے
کوئی لگا ہوا مجھ رائگاں کے پیچھے ہے

خَلا مِلا ہے ابھی دوربین کو آگے
پتا چلا نہیں کیا آسماں کے پیچھے ہے

دماغ میرا ہے جس کے جواب سے قاصر
وہی سوال کہ ہر امتحاں کے پیچھے ہے

ڈراتا رہتا ہے آسیب ناگہانی کا
چھپا ہوا جو کسی ناگہاں کے پیچھے ہے

کہاں ٹھہرتا ہے جا کے یہ عمر کا دریا
سفینہ اپنا بھی آبِ رواں کے پیچھے ہے

کبھی بہار گزرتی تھی درمیان کہیں
قیام اب تو خزاں کا خزاں کے پیچھے ہے

---
یہاں تاریخ تاریخِ سیاست کے سوا کیا ہے
فقط راوی کی منشائے حکایت کے سوا کیا ہے

ذرا سی بات پر کھینچا ہے ایسا طول جھگڑے نے
اگر حل کی ہے گنجائش وساطت کے سوا کیا ہے

بیاں اول بھی میرے واسطے تھا وجہ رسوائی
وضاحت اس کی اب شرح خجالت کے سوا کیا ہے

عجب رمز و کنایہ ہے حضوری نا حضوری کا
جوابِ مدعا آخر بجھارت کے سوا کیا ہے

ہوئی مفقود حالت ہر مسرت نا مسرت کی
بچا ناحالتی کی اب طوالت کے سوا کیا ہے

جو رکھیں آج طاقِ حافظہ میں کل نہیں ملتا
تماشا سب یہ نسیاں کی شرارت کے سوا کیاہے

مَیں بیٹھا ہوں فقط گنتی کی خاطر یہ دکاں ورنہ
زیاں اور سود دونوں کی شراکت کے سوا کیاہے
---

کیا خراب زمانے کو عادتِ شر نے
درونِ ذہن نہاں ابتری کے عنصر نے

یہ بزدلی بھی مزاحم مرے فرار میں ہے
لیا حصار میں ہے چار سمت سے ڈر نے

تو بے طواف ہوئے سارے ثابت و سیار
الگ کیا ہے مگر کس خلل سے محور نے

تمام شہر کو دعویٰ تھا ہمسری کا یہاں
سو ہر کسی کو ہرایا ہے اس کے ہمسر نے

سنبھال پایا نہیں فرشِ خاک اے افسوس
ہوا شکستہ گرایا جسے بھی اوپر نے

ہے ماحصل یہ جہاں خاک و آب دونوں کا
نمو کیا ہے اسے مل کے خشک اور تر نے

علاج کر نہ سکا جب شکستگی کا مری
تو عکس توڑ دیا میرے آئینہ گر نے

کیا گیا نہ مجھے کارِ خاص بھی تفویض
دیا گیا نہ کوئی عام کام بھی کر نے

غلط کیا ہے مرا حاصلِ حساب اگر
عدد نے صفر کے اور نفیِ مکرر نے
---

سفینہ ہے رواں آبِ خسارہ رہ گیا ہے
مناظر جس کے تھے پیچھے کنارہ رہ گیا ہے

ہرا آئی مسافت کو ہے میری تیزگامی
بچھڑ کر مجھ سے قسمت کا ستارہ رہ گیا ہے

جو سکے تھے سنہری گر گئے سوراخ سے ہیں
کھنکتا جیبِ مفلس میں خسارہ رہ گیا ہے

اب آ کے سوئیاں اک دوسرے پہ رک گئی ہیں
گھڑی پر بس زوال انجام بارہ رہ گیا ہے

روانہ ہے سوار اس کا نہ حرکت میں سواری
نہ سرخ و سبز یا پیلا اشارہ رہ گیا ہے

طلب بھی ہے فزوں لیکن ذرا کمتر رسد سے
بسر اوقات کا اب بس گزارا رہ گیا ہے

کیا ہے عمر کی ہجرت نے بے رونق تماشا
بدن جیسے کہ تھا گارے کا گارا رہ گیا ہے
---

نہیں شوقِ خریداری میں دوڑے جا رہا ہے
یہ گاہک سیرِ بازاری میں دوڑے جا رہا ہے

میسر کچھ نہیں ہے کھیل میں لاحاصلی کے
یونہی بیکار بیکاری میں دوڑے جا رہا ہے

اٹھائے پھر رہا ہے کوتوالِ عمر چابک
بدن مجبور لاچاری میں دوڑے جا رہا ہے

کھڑی ہے منفعت حیران باہر دائرے سے
زیاں اپنی زیانکاری میں دوڑے جا رہا ہے

ٹھہرنا بھی کہاں ہے سہل ان سیارگاں کو
نہ ثابت سے ہی سیاری میں دوڑے جا رہا ہے

اتارا خواہشوں کا ہے اضافی بوجھ سر سے
تو آسانی سے دشواری میں دوڑے جا رہا ہے

نہیں ہمت کہ جس میں ہو زمانے کے مقابل
وہ اپنے گھر کی رہداری میں دوڑے جا رہا ہے

نہیں ملتا مگر روزن کہ نکلے عکس باہر
پسِ آئینہ زنگاری میں دوڑے جا رہا ہے

سمیٹا جھوٹ کی پرکار نے ہے پیش و پس کو
کہ اب ہر سچ ریاکاری میں دوڑے جا رہا ہے

خبر ہے رت بدلنے کی اگر رشکِ صبا وہ
خرام انداز گلزاری میں دوڑے جا رہا ہے
---

تھم گئی وقت کی رفتار ترے کوچے میں
ایسے ثابت ہوا سیار ترے کوچے میں

منظرِ بام سرِ دید نہیں کھلتا ہے
کچھ ہے نا دید کا اسرار ترے کوچے میں

ہر طلب گار کو ہے حاصلِ گفتار سکوت
نہ ہے انکار نہ اقرار ترے کوچے میں

آئنہ شام کا روشن رخِ مہتاب سے کر
عکس چمکے تو ہو دیدار ترے کوچے میں

وصلتِ کار بہم ہو کہ ہیں جمع دن رات
پیشہِ ہجر کے بے کار ترے کوچے میں

نفع کے کھیل میں سمجھا گیا تھا طاق جسے
وہ خسارے میں ہے ہشیار ترے کوچے میں

آخرِ عمر نے کی رونقِ بازار تمام
نہ دکاں ہے نہ خریدار ترے کوچے میں

ایک مدت سے ہے ترتیب میں بے ترتیبی
نہ درستی کے ہیں آثار ترے کوچے میں
---

آخری وقت کے آثار میں آئی ہوئی ہے
عمر گرتی ہوئی دیوار میں آئی ہوئی ہے

سب دلیلیں ہیں فریقین کی بیکار کہ جب
بات بے بات سی تکرار میں آئی ہوئی ہے

مستقل ہجر عطا ہوتا ہے یا عارضی وصل
ساعتِ فیصلہ گفتار میں آئی ہوئی ہے

روح بیزار تھی فردوس کی یکسانی سے
سیر کو دوزخِ سیار میں آئی ہوئی ہے

اتنا اترا نہیں خلقت یہ برائے تعظیم
کھنچ کے تلوار سے دربار میں آئی ہوئی ہے

عکس معدوم ہوئے جاتے ہیں سب نقش بہ نقش
شکل ہَر حلقہِ زنگار میں آئی ہوئی ہے

مَیں اگر قید ہوں رفتار میں ، منزل بھی کہیں
دوریوں کے کسی آزار میں آئی ہوئی ہے

مجھ کو لگتا نہیں اس شہر کا انجام بخیر
لہر نفرت کی وہ اطوار میں آئی ہوئی ہے

واپسی کا کوئی امکاں نہیں تحقیق کے بعد
عقل اثبات سے انکار میں آئی ہوئی ہے
---

یہیں تھا بیٹھا ہوا درمیاں کہاں گیا مَیں
کہ مل رہا نہیں اپنا نشاں کہاں گیا مَیں

نہ کر رہا ہے فلاں کو فلاں خبر میری
نہ پوچھتا ہے فلاں سے فلاں کہاں گیا مَیں

نشان ملتا ہے حاضر میں کب گزشتہ کا
بتا سکیں گے نہ آئندگاں کہاں گیا مَیں

سجے ہوئے ہیں پیادہ و اسپ و فیل تمام
بچھی ہوئی ہے بساطِ جہاں کہاں گیا مَیں

مَیں کب نہیں تھا اکارت مگر رہا حاضر
ہوا ہوں ابکے عجب رائگاں کہاں گیا مَیں

جسے یقین تھا ہر سود میں خسارے کا
تھا اپنے آپ میں شرحِ زیاں کہاں گیا مَیں

اگر تھا پہلے ہی نام و نشاں مرا مفقود
تو ہو کے بارِ دگر بے نشاں کہاں گیا مَیں

نہ بھیجتا ہے کوئی نامہِ فراق مجھے
نہ ڈھونڈتا ہے پتہ خط رساں کہاں گیا مَیں

جو کر رہا تھا گزشتہ کے واقعات درست
سنا رہا تھا الٹ داستاں کہاں گیا مَیں

لیا گیا ہوں حراست میں بے امانی کی
کہ بے امان تھا شہرِ اماں کہاں گیا مَیں

اٹھا کے لے گیا داروغہِ فنا شاید
کھلا ہوا ہے درِ خاکداں کہاں گیا مَیں

بجھی نہیں مرے آتش کدے کی آگ ابھی
اٹھا نہیں ہے بدن سے دھواں کہاں گیا مَیں

نہیں ہوا ہوں مگر اس طرح کبھی غائب
رہا ہمیشہ نہاں در عیاں کہاں گیا مَیں
---

بے سر و پا داستاں سے تھک گیا ہوں
مَیں سماعت کے زیاں سے تھک گیا ہوں

ابتدا اور انتہا کے اس سفر میں
اک مسافر درمیاں سے تھک گیا ہوں

یہ بھی ہیں بیزار اب اک دوسرے سے
مَیں بھی اپنے جسم و جاں سے تھک گیا ہوں

چل رہا ہوں الٹے رستے پر وہاں سے
سیدھے رستے پر جہاں سے تھک گیا ہوں

دوڑ ہے لا حاصلی کی کیا ہوا جو
مَیں یہاں سے اور وہاں سے تھک گیا ہوں

تھا کسی فردوسِ ثابت کا مکیں مَیں
گردشِ سیارگاں سے تھک گیا ہوں

ہے قیام اب مستقل ہجرت سرا میں
وصلتِ نا مہرباں سے تھک گیا ہوں

یہ طبیعت مجھ سے اب اکتا گئی ہے
مَیں بھی اس کی این و آں سے تھک گیا ہوں

تُو یقینِ بے یقیں سے تھک گیا ہے
مَیں گمانِ بے گماں سے تھک گیا ہوں

جو کبھی پہنچا نہیں اپنی گلی تک
انتظارِ خط رساں سے تھک گیا ہوں

دسترس سے ہے مری بازار باہر
جنسِ ہر ارزاں گراں سے تھک گیا ہوں

رنگ پیلا آنکھ میں چبھنے لگا ہے
مَیں خزاں زادہ خزاں سے تھک گیا ہوں
---

جب کوئی شہرِ طلب حاصلِ رفتار نہیں
بیٹھنا تھک کے مجھے باعثِ دشوار نہیں

کام سلنے کہ ادھڑنے کا نکل آتا ہے
عادتِ کار نے رکھا کبھی بیکار نہیں

پرسشِ حال بھی کرتے ہیں اشارات میں لوگ
وہ ہے نافرصتی کچھ فرصتِ گفتار نہیں

دائیں بائیں سے یہ کترا کے گزر جاتا ہے
کل کہ اس وقت کو تھا آج مَیں درکار نہیں

جنسِ ناجنس ہوں متروک دکاں کے اندر
جو کسی طور بھی اب حصہِ بازار نہیں

دھوپ سورج کی لئے پھرتی ہے اپنے ہمراہ
اندریں خشت نہاں سایہِ دیوار نہیں

ہوں طلب گار تو مَیں دھوپ ہوا پانی کا
میرے محتاج مگر ثابت و سیار نہیں

آئنہ نقش دکھاتا نہیں اب پہلے سا
عکس معدوم بھی کرتا تہہِ زنگار نہیں

کتنے تیراک گئے آبِ فنا کے اس پار
اس طرف لوٹ کے آیا کوئی ہشیار نہیں

آشیانوں میں چہکتے نہیں طائر آ کے
سبز ملبوس پہنتے مرے اشجار نہیں


---

چل رہا ہوں پیش و پس منظر سے اکتایا ہوا
ایک سے دن رات کے چکر سے اکتایا ہوا

بے دلی ہشیار پہنچی مجھ سے پہلے تھی وہاں
مَیں گیا جس انجمن میں گھر سے اکتایا ہوا

ہو نہیں پایا ہے سمجھوتہ کبھی دونوں کے بیچ
جھوٹ اندر سے ہے سچ باہر سے اکتایا ہوا

اب مزین ہے تلفظ سے عوام ا لناس کے
شعر صرف و نحو کے چکر سے اکتایا ہوا

خواہشِ ایجاد ہے اپنے معانی کی اسے
لگ رہا یہ فعل ہے مصدر سے اکتایا ہوا

چبھ رہے ہیں آنکھ میں خوابِ پریشاں رفت کے
جسم ہے اس نیند کے بستر سے اکتایا ہوا

عمر لیکن رائگاں کی اس کے جمع و خرچ میں
تھا ہمیشہ ذہن چیزے زر سے اکتایا ہوا

آج پھر پڑھتا ہوں مکتب میں نئے استاد سے
کل تھا جن اسباق کے ازبر سے اکتایا ہوا

ذات اپنی ان میں رکھتا ہوں برابر منقسم
دل مرا ہے بحثِ خیر و شر سے اکتایا ہوا
---

گھر میں بھی تھا تنہائی سے اکتایا ہوا سا
باہر بھی ہوں اب بھیڑ میں گھبرایا ہوا سا

سلجھا نہیں دھاگا کہ مَیں انگشتِ ہنر سے
تھا ساعتِ نا سعد کا الجھایا ہوا سا

اظہارِ یقیں کرتا ہے لہجے میں گماں کے
یہ سچ ہے کسی جھوٹ کا بہکایا ہوا سا

ہو تنگ نہ یکسانی سے یہ وقت کسی نے
دن رات میں تقسیم ہے فرمایا ہوا سا

اترا نہ لبادہ مرا اعجازِ صبا سے
ساحر نے خزاں کے ہے وہ پہنایا ہوا سا

آتا نہیں پہچان میں اس حسن پہ افسوس
جب عمر کی سختی نے ہو گہنایا ہوا سا

اب کم ہے طلب جسم کی سو دور ہیں ورنہ
وہ ہے مجھے مَیں ہوں اسے خوش آیا ہوا سا

ماضی بھی رہا تھا میرے افعال پہ نادم
ہے حالِ غلط کار بھی پچھتایا ہوا سا
---

مکاں سب کھودتے ہیں اپنا صحرا ڈھونڈتے ہیں
ہوئی آبادیوں میں گم جو لیلا ڈھونڈتے ہیں

گھمائے پھر جو بے منزل نواحِ روز و شب میں
نہ ہو جو ختم ایسا ایک رستا ڈھونڈتے ہیں

کہ تنگ آئے سکونت سے ہیں اس وصلت سرا کی
ستارہ اپنی ہجرت کا دوبارہ ڈھونڈتے ہیں

نہیں لگتا ہے جن کا دل یہاں آسودگی میں
وہ نا آسودگاں اپنا گزشتہ ڈھونڈتے ہیں

پرانے کام سارے ہو چکے سیدھے ،کہیں سے
نیا اک کام پہلے سے بھی الٹا ڈھونڈتے ہیں

وہی سورج تمازت سے بدن بے حال کر دے
تھکن سے جو گرے نمکیں پسینہ ڈھونڈتے ہیں

بھٹکتے ہیں کسی پردیس میں برسوں سے لیکن
محلے کی گلی گھر کا دریچہ ڈھونڈتے ہیں
---

پائے کہاں نشاں کی نشانی پھرائے ہے
نسیاں میں روز یاد پرانی پھرائے ہے

پہنچے وہاں کہ بات نہ پہلے پہنچ سکی
ا ول بیاں وضاحتِ ثانی پھرائے ہے

سورج تو ایستادہ ہے اپنے مقام پر
دن رات کو زمیں کی روانی پھرائے ہے

کشتی ہے درمیان قیام و سفر کے اب
ٹھہرائے اس کو خاک نہ پانی پھرائے ہے

بادِ صبا کے ساتھ چلے خوشبووں کی لہر
خاشاکِ زرد قہر خزانی پھرائے ہے

ارزاں کیا طلب نے ہے ایسا ، دکاں دکاں
اشیائے صرف تیری گرانی پھرائے ہے

ورنہ نئی جگہ سے پرانی نہیں جدا
بس عادتاً یہ نقلِ مکانی پھرائے ہے

پہلے بتائے عقل نہ فعلِ غلط درست
بعدِ عمل زیاں میں سیانی پھرائے ہے

مل جائے داستاں میں کوئی داستاں سی شے
اشعار میں تلاشِ معانی پھرائے ہے
---

امکاں نہ جس کا تھا سرِ امکاں کیا گیا
بلقیس سے الگ یہ سلیماں کیا گیا

سمتِ دگر رکھا گیا محمل سے قیس کو
تقسیم درمیاں سے بیاباں کیا گیا

پہلے ہوا سپردِ خزاں برگِ سبز پھر
خاشاک سے بہار کا ساماں کیا گیا

کوشش رہی فرار کی ناکام ، لوٹ کر
مَیں ہجر زاد داخلِ ہجراں کیا گیا

دشوار مَیں اگر تھا طلب کو حصول میں
مجھ پر بھی اس طلب کو نہ آساں کیا گیا

دستک کے انتظار سے تھک ہار کر یہاں
ہر میزبان اپنا ہی مہماں کیا گیا

تھی خاک میں خرابیِ عادات ایک سی
تبدیل شکل و نام سے انساں کیا گیا

آسودگانِ شہر کو آسودگی سے خوش
لاحاصلی میں مجھ کو پریشاں کیا گیا

رسد و طلب بگاڑ کے اشیائے صرف کی
گاہک کو نقدِ جیب سے ارزاں کیا گیا
---

نہیں آمد الگ نقلِ مکانی ایک سی ہے
جو تفریقِ سکونت ہے پرانی ایک سی ہے

ہوا تقسیم تحفہ رزق کا حسبِ مراتب
کہاں اس نے عطا کی زندگانی ایک سی ہے

برابر چل رہا آسیب ہے یہ ناگہاں کا
ڈراتی سب کو آفت ناگہانی ایک سی ہے

کیا ایجاد گردش سے زمیں نے وقت اپنا
نہیں اب نیچے اوپر لازمانی ایک سی ہے

نہیں ہے احمقانہ پن میں یکسانی تو شاید
یہ دنیا اپنے مطلب کو سیانی ایک سی ہے

ہے چلتی مختلف انداز سے موجِ ہوا بھی
نہ پانی کی بہاو میں روانی ایک سی ہے

ہیں سب ملکوں میں اک جیسے عوام ا لناس ورنہ
نہ راجے ایک سے ہیں اور نہ رانی ایک سی ہے
---

ماحصل ہے تو آن بان میں کیا
ہے کمی اس سے اپنی شان میں کیا

اس کے جاتے ہی ڈہہ گیا فورن
جسم تھا عمر کی امان میں کیا

چار سمتوں کا شور ہے ، غائب
پانچویں سمت درمیان میں کیا

بے یقینی نہیں یقین میں جب
بدگمانی ہے پھر گمان میں کیا

کھینچ لائی کہاں ہے بے دھیانی
دھیان رکھا نہیں تھا دھیان میں کیا

تھا نہیں اس ازل کا موجد تو
لامکانی تھی لامکان میں کیا

مَیں تو کب کا گزر چکا ، میرا
ہے یہ آسیب خاکدان میں کیا

آسماں ہے خلا میں پوشیدہ
یا خلا بس ہے آسمان میں کیا

چھاوں حاصل نہیں مسافر کو
دھوپ قابض ہے سائبان میں کیا

عجز کیوں کر مرے بیان میں ہے
نطق حاضر نہیں زبان میں کیا

بعد کردار کے مرے باقی
داستاں ہے تو داستان میں کیا

نقص ہونے میں ہے نہ ہونے کا
بے نشانی ہے ہر نشان میں کیا

ہے قفس میں اماں پرندے کو
بے امانی ہے کچھ اڑان میں کیا
---

ہوئی ہر صیقلی ناکام تہہ داری کے باعث ہے
نہاں یہ عکس آئینے میں زنگاری کے باعث ہے

خریداری نہیں کچھ بھی کہ خالی جیب ہیں گاہک
جو رونق ہے دکاں میں سیرِ بازاری کے باعث ہے

نہیں ہے منفعت جُوئی سے گرچہ منفعت حاصل
زیاں تعداد میں کافی زیانکاری کے باعث ہے

اگر ثابت ہے بے جنبش کسی ٹھہراو کے دم سے
تو متحرک یہ سیارہ بھی سیاری کے باعث ہے

کیا تھا میری آسانی نے جو بھی کام ناممکن
ہوا ممکن ہمیشہ مشقِ دشواری کے باعث ہے

تساہل ہے مرے کسبِ ہنر میں وجہ ناکامی
جو لاچاری بھی ہے اس ایک بیماری کے باعث ہے

کسی کو بھی نہیں ہے آپ سے یا مجھ سے ہمدردی
یہ سب جھگڑا تو سالاروں میں سالاری کے باعث ہے
---

مان لی بہتر نے اپنی ہار جب ہو کر الگ
کھیلتا ہے ابتری میں اب یہاں ابتر الگ

ہر اکائی کو اکائی کر رہی تقسیم ہے
اپنی کثرت سے نہیں ہوتا مگر اکثر الگ

کیوں خلا ئے بے نمو ہے ردِ آب و باد سا
خاصیت نیچے جدا ہے اور کیا اوپر الگ

کر لیا تقسیم مَیں نے اس طرح سے ذات کو
رکھ دیا ہے سود باہر اور زیاں اندر الگ

دخل دیتا ہے مگر ہمسایہ معقولات میں
بیچ میں دیوار اونچی سی ہے در سے در الگ

کوئی سرکاتا ہے پردہ اس تماشا گاہ کا
ہو رہا ہے رفتہ رفتہ آنکھ سے منظر الگ

چل رہے دونوں اکٹھے زاد او ر ہمزاد ہیں
نفی میں یہ طاق اور اثبات میں یکسر الگ
---

نہ کوئی سنتا نہ ہے بولتا اکیلے میں
تو گفتگو سی یہ کرتا ہوں کیا اکیلے میں

مَیں لوٹ آیا زمانہ تھا اپنے آپ میں بند
کُھلا یہ مجھ پہ نگر ذات کا اکیلے میں

جو ٹوٹ جاتا ہے ان صبح و شام کے دوران
وہ رات جوڑتا ہوں سلسلا اکیلے میں

بیان میں ہے یہ تفصیل کیا من و تو کی
اگر نہیں ہے کوئی ماجرا اکیلے میں

ملا نہ اذن کہوں مدعا سرِ محفل
سنا گیا بھی نہیں اَن کہا اکیلے میں

انہیں وصال کی باقی نہیں ہے حاجت جو
سجائے بیٹھے ہیں ہجرت سرا اکیلے میں

عجب لگی ہوئی رونق سی رفت و بود کی ہے
کہ خود کو ملنا ہے دشوار جا اکیلے میں

طلسم جاگتا ہے اس کا رو برو اپنے
سکوت بولتا ہے خوش نوا اکیلے میں

نہ اُڑ رہا ہے کوئی تخت شہر کے اُوپر
نہ مل رہے ہیں سلیماں سبا اکیلے میں

کریں کہیں سے بھی آغازِ جستجو آ کر
ہوا ہے ختم ہر اک راستا اکیلے میں
---

کہانی پن ذرا سا بھی کہانی میں نہیں ہے
اٹک کر چل رہی ہے اب روانی میں نہیں ہے

مصیبت میں ہوئی ہے عقل کی اوقات ظاہر
سیانے پن سی شے کوئی سیانی میں نہیں ہے

ادا اس رائگاں نے کی ہے یوں رسمِ خسارہ
کہ چھوڑی رائگانی رائگانی میں نہیں ہے

کمی ہے شعر میں شاید کہیں حسنِ بیاں کی
بظاہر کچھ غلط لفظ و معانی میں نہیں ہے

رہے گا بحث میں موجود کج بحثی کی خاطر
کہ حل جس مسئلے کا نکتہ دانی میں نہیں ہے

مزے سب آب و دانے کے مکیں نے چکھ لئے ہیں
کشش باقی کسی نقلِ مکانی میں نہیں ہے

مَیں کیوں کھنچتا ہوں آگے کی طرف آخر تماشا
نئی ساعت میں کیا ہے جو پرانی میں نہیں ہے

ہوا ہے گم کہاں رفتہ کہ آج اس کا نشاں بھی
کہیں موجود ہونے کی نشانی میں نہیں ہے

تعاقب میں ازل سے ہے مگر دنیائے فردا
کسی امروز کی حدِ رسانی میں نہیں ہے
---

کنارے ریگ سفر کے نشاں پڑے ہوئے ہیں
شکستہ کشتیاں اور بادباں پڑے ہوئے ہیں

نہیں جواب سے اپنے جو متفق وہ سوال
بہ پیشِ طفل سرِ امتحاں پڑے ہوئے ہیں

کئے گئے نہ کبھی منتخب سرِ تشکیک
کہ انتظار میں نہ اور ہاں پڑے ہوئے ہیں

مکین سب کے ہوئے اپنے وقت ہر رخصت
مگر مکان جہاں کے تہاں پڑے ہوئے ہیں

اسے ہٹا تو ہو کچھ گفتگو نتیجہ خیز
جو درمیان یہ تیر و کماں پڑے ہوئے ہیں

ذرا سا مسئلہ ہے ان کی دستیابی کا
گہر ہزار دکاں در دکاں پڑے ہوئے ہیں

عطا ہوئے کہ جنہیں بخت نا رسائی کے
وہ است و بود میں سب رائگاں پڑے ہوئے ہیں

چمک سکے نہ کسی انعکاسِ نور سے ہم
مثالِ سنگ پسِ کہکشاں پڑے ہوئے ہیں
---

تعلق اس کا اپنا درمیانہ چل رہا ہے
کہ آنے میں نہ آنے کا بہانہ چل رہا ہے

طوالت کھنچ رہی ہے آمد و رفت ِ نفس کی
قیامِ مختصر کا آب و دانہ چل رہا ہے

بہت اغلاط سے اپنی مَیں پسپا ہو رہا ہوں
کئی اسباب سے آگے زمانہ چل رہا ہے

کیا ظاہر نہیں خود کو ابھی پردہ نشیں نے
تعارف ہر کسی کا غائبانہ چل رہا ہے

وہی ہے کام ہونے میں نہ ہونے کی رکاوٹ
کوئی لا حاصلی کا شاخسانہ چل رہا ہے

دروں کیا ہے مخالف کے نہیں ملتی خبر کچھ
بظاہر سب کا سب سے دوستانہ چل رہا ہے

ابھی تحریر سے شاید ہے وہ نا مطمئن سا
مجھے کاتب کا لکھنا اور مٹانا چل رہا ہے

نہیں کرتا ہے شرکت حسن بھی مشقِ سخن میں
مزاج اپنا بھی ردِ عاشقانہ چل رہا ہے

عجوبہ نقش ہیں یا دھات ہے نایاب اس کی
نئے بازار میں سکہ پرانا چل رہا ہے
---

رجوع جب بھی کیا عشق کے سپارے سے
قیام ہجر کا نکلا ہے استخارے سے

جدائیوں کا سبب بھی ہے ریت پر پانی
ملا رہا ہے کنارا بھی یہ کنارے سے

اڑا ئے پھرتا ہوں خود کو مگر ہے اندازہ
کہ گھٹ رہی ہے ہَوا بھی مرے غبارے سے

کہاں کا سود کہ اس عمرِ سودمند سے اب
کشید ہوتا خسارہ نہیں خسارے سے

کیا گیا تھا جسے طے پھلانگ کر ، زینہ
ٹھہر ٹھہر کے اترتا ہوں اور سہارے سے

ہوا نہیں ابھی انکارِ مدعا ، شاید
الجھ رہا ہے وہ ہشیار استعارے سے

پتا بتایا ہے سردی نے اپنی شدت کا
پڑھا ہے درجہ حرارت کا میں نے پارے سے

زمین ہوتی ہے گردش سے رات میں تبدیل
تو آفتاب بدلتا ہے چاند تارے سے

رکھی ہے اس نے ابھی گفتگو کی گنجائش
کیا ہے قطعِ تعلق مگر اشارے سے
---

تعارف جیب اشیائے دکاں کا مانگتی ہے
مگر یہ نرخ بھی ارزاں گراں کا مانگتی ہے

مخالف بھی نمود و نام کی ہے اور دنیا
تماشا بھی فلاں ابنِ فلاں کا مانگتی ہے

قفس سے اب نکل آئی ہے عقلِ پر شکستہ
تسلط یہ خلائے بیکراں کا مانگتی ہے

ہمیشہ سے ہے اپنی داستاں سے لا تعلق
یہ خلقت قصہ سننا دیگراں کا مانگتی ہے

پڑی ہے ریگِ ساحل پر کوئی پچھلی مسافت
نیا اک امتحاں آبِ رواں کا مانگتی ہے

پتا چلتا نہیں ہے اس ہوائے سست رو کا
یہ کُھلنا یا لپٹنا بادباں کا مانگتی ہے

نہیں کرتی ہے یارانہ صبا بھی خار و خس سے
زمیں جس باغ کی موسم خزاں کا مانگتی ہے

ہوا نروان چُپ کا اب یہ جاں فردا کی آہٹ
نہ آوازہ گزشت و رفتگاں کا مانگتی ہے
---

خرابی مدعا میں سب وضاحت سے ہوئی ہے
فضا انکار کی پیدا طوالت سے ہوئی ہے

خموشی تھی ادھر جب تک کہاں مَیں بولتا تھا
شکایت کی مجھے جرات شکایت سے ہوئی ہے

خبر ہے غیبتِ دیگر ہے معمولاتِ دنیا
یہ بیزاری تو روزانہ سماعت سے ہوئی ہے

لکھا ہے داخلہ ممنوع ہے دروا زے پہ لیکن
کہاں آمد کوئی میری اجازت سے ہوئی ہے

نکالی اپنے اندر سے پہیلی نے پہیلی
سمجھ تازہ بجھارت کی بجھارت سے ہوئی ہے

چھپا تھا سطرِ مبہم میں معانی کا خزانہ
عیاں صدیوں کی دانائی کہاوت سے ہوئی ہے

نہ کار آمد رہی ہے گفتگوئے با المشافہ
نہ کچھ امید افزائی وساطت سے ہوئی ہے

نہیں آئی قیامت بھی کہ کھلتا راز اس کا
نہ ظاہر ذات وہ ردِ قیامت سے ہوئی ہے

تدبر اس میں شامل ہے کوئی کن کے سوا بھی
یہ تعمیرِ جہاں ایسے مہارت سے ہوئی ہے

کرشمہ ایک عنصر کا نہیں ، تشکیل میری
کئی اجزا کی آپس میں شراکت سے ہوئی ہے
---

پہچان زیادہ نہیں دو چار سے ہٹ کے
وہ یار بھی اب رہتے ہیں اس یار سے ہٹ کے

معلوم تھا سائے پہ گرا کرتی ہے دیوار
بیٹھا نہ گیا دھوپ میں دیوار سے ہٹ کے

کھولی تھی دکاں دور کہ پہچان ہو آسان
بازار نیا کھل گیا بازار سے ہٹ کے


بنیاد ہیں یہ باغ میں خاشاک و ثمر کی
موسم کوئی ایجاد نہ اشجار سے ہٹ کے

بیمار ہوں ہر گوہرِ نایاب کا لیکن
مل جائے اگر محنت درکار سے ہٹ کے

اک خوف تعاقب میں تو اک خوف ہے ہمراہ
آزار بغلگیر ہے آزار سے ہٹ کے

فرصت ہوئی ایسی کہ میسر نہیں اب کام
بیٹھا تھا ذرا کارِ لگا تار سے ہٹ کے
---

قریب تر ہے کچھ اس واسطے زمیں مجھ سے
رہا گیا نہ بغیرِ ہوا کہیں مجھ سے

کھلا تھا نقصِ ہنر سب کا جا کے بعد از مرگ
کہے تو شعر بہت سوں نے دلنشیں مجھ سے

پناہ گیر ہوں ایسا کہ دیکھ کر اطوار
فرار کرتی ہے جائے اماں زمیں مجھ سے

یہ کون اجنبی بیٹھا ہے پیشِ آئینہ
مشابہت تو ہے اس کی کہیں کہیں مجھ سے

رہا ہے اس پہ گریبان کا ملال الگ
رفو ہوئے بھی کہاں جیب و آستیں مجھ سے

مراجعت کا کیا اُس نے اِس طرح انکار
کہا سلام نہیں وقتِ واپسیں مجھ سے

محیط ہے وہ خموشی یقیں نہیں آتا
سوادِ جاں میں کبھی رونقیں بھی تھیں مجھ سے
---

اس کتابِ حسن کا ہر لفظ اسود کھول کے
پڑھ رہا ہوں گوشوارہ قفلِ ابجد کھول کے

مختلف پایا زمانے کے تصور سے خدا
جب بھی بیٹھا ہوں درونِ ذات معبد کھول کے

لگ رہا تھا جو اسے ابہام سے شاید قبول
ہو گیا وہ مدعا تفصیل سے رد کھول کے

با اثر تعویز ہیں جب تک کہ دونوں منسلک
آزما لے شعر سے آورد و آمد کھول کے

رفتگاں کی سیر کو کچھ دیر جاتا ہوں اگر
حال دیتا ہے اجازت اپنی سرحد کھول کے

جمعہ، 26 جون، 2015

شعر چیزے دیگر است: ضمیمہ

’’قاری سے بڑا جوہر شناس اور کون ہوسکتا ہے کہ شعر ادب تو معاملہ ہی تخلیق کار اور قاری کے درمیان ہے،یہ نقاد بیچ میں کہاں سے آئے گا۔ختم کلام اسی پر ہے کہ ادب میں نقاد کا کوئی کردار نہیں ہے جو رائے دینے کے ساتھ حکم بھی چلاتا ہے اور فتویٰ اور ڈگری بھی صادر کرتا ہے۔وہ قاری کواپنی آزادنہ رائے قائم کرنے کا موقع ہی نہیں دیتا۔بلکہ اصرار کرتا ہے کہ فن پارے کو میرے نظریے کے مطابق اور میری عینک سے دیکھو۔اور اسی گڑھے میں گرجاؤ جو میں نے تمہارے لیے کھود رکھا ہے۔‘‘
(میر کے تاج محل کا ملبہ: ظفر اقبال)

’’۔۔۔۔۔مشکل یا مبہم یا ناپسندیدہ شاعری کو مطعون کرتے وقت ہم صاحب ذوق ، سمجھ داریا پڑھے لکھے قاری کے جس تصور کا سہارا لیتے ہیں وہ فرضی ہے۔یہ شکایت کہ فلاں نظم یا فلاں شاعر خراب ہے یا ناپسندیدہ ہے کیوں کہ وہ پڑھے لکھے یا صاحب ذوق قاری کی گرفت میں نہیں آتی، غیر منطقی شکایت ہے۔اور یہ دلیل کہ چونکہ پڑھے لکھے لوگوں کو بھی فلاں نظم سے لطف اندوز ہونے کے لیے شرح کی ضرورت پڑتی ہے لہٰذا فلاں نظم خراب ہے یا ناپسندیدہ ہے، سرے سے کوئی دلیل ہے ہی نہیں۔‘‘
(صاحب ذوق قاری اور شعر کی سمجھ: شمس الرحمن فاروقی)

دنیا میں دراصل پرفیکٹ، مکمل اور بالکل صحیح کا جو بھی تصور ہے، وہ غلط ہے، جھوٹ ہے، بے بنیاد ہے۔یہ میں نہیں کہتا، یہ دراصل زمین کی وہ تاریخ کہتی ہے، جس نے اسے مسلسل ارتقا کی جانب سفر کرنے میں مدد دی ہے۔ایک بنیادی بات جو میری سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ ہے کہ ہم جتنا جانتے ہیں، اتنا حیران ہوتے ہیں اور جتنا حیران ہوتے ہیں، اتنا خود کو موت کی طرف لے جاتے ہیں۔اسی لیے آگہی سے بڑا کرب کوئی نہیں ہے۔لیکن مکمل آگہی جیسی کوئی چیز ہی موجود نہیں ہے، اسی وجہ سے اس کا سفر طے ہونے میں ہی نہیں آتا۔یہ کسی قصیدے یا ہجو کی تمہید نہیں،میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اوپر جو یہ میں نے دو اقتباسات دیے ہیں، ان میں پہلا ایک مفروضہ ہے اور دوسرا اس مفروضے کا بالکل سیدھا سادا جواب۔عجیب مسئلہ یہ ہے کہ ظفر اقبال صاحب سمجھتے ہیں کہ شعر کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق انہیں اس لیے حاصل ہے کیونکہ پچپن سال سے وہ اسی میدان کے آدمی ہیں، توپھر فاروقی صاحب نے بھی تو ایک بڑا عرصہ تنقید کی نذر کیا ہے، ہمیں اگر اسی معیار کو ماننا ہے کہ کسی آدمی کی شعر کے بارے میں بات اس لیے مانی جائے کیونکہ وہ پچپن سال سے شعر کہہ رہا ہے، تو پھر ہم اس آدمی کو کیوں نظر انداز کریں جس نے تنقید کے میدان میں خم ٹھونک کر ایک وقت میں اچھے اچھوں کی چھٹی کردی تھی، جس نے تنقید کے میدان میں نہ صرف خود کو منوایا ، بلکہ اسی کی وجہ سے ہم دوسروں کو جاننے اور ماننے کے اہل ہوسکے۔تو پھر اپنے ایک تازہ ترین انٹرویو میں فاروقی صاحب نے اگر یہ بات کہی ہے کہ ظفر اقبال اب صرف شعر کے میدان میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں،ان کی جو اچھی شاعری تھی، وہ اپنی عمر کے ایک خاص حصے میں کرچکے ، مجھے تو اس پر آنکھیں بند کرکے ایمان لے آنا چاہیے۔بڑی عجیب سی بات ہے کہ ایک جانب ظفر اقبال صاحب کہتے ہیں کہ نقاد شاعری اور ادب کے حق میں فتویٰ دیتا ہے ، اس لیے اس کی بات نہیں ماننی چاہیے، اس کا فیصلہ غلط بھی ہوسکتا ہے، تو صاحب شاعر کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ نقاد کے بارے میں فیصلہ کرتا پھرے۔ابھی مجھے ٹھیک سے یاد نہیں آرہا، مگر کئی جگہوں پر فاروقی صاحب نے اس بات پر اپنی جھنجھلاہٹ کا اظہار کیا ہے کہ بھئی نقاد کو تخلیق کارسے زیادہ اہمیت کیوں دی جاتی ہے؟اسے ایک برینڈ میکر کے طور پر کیوں قبول کرلیا گیا ہے۔جب نقادخود چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ ہمیں اتنی اہمیت مت دیجیے۔تب آپ کس برتے پر اسے اتنی گالیوں سے نواز رہے ہیں۔ادب میں نقاد کو اہمیت دینے کی ضرورت ہو یا نہ ہو، مگر یہ بات سچ ہے کہ اگر شمس الرحمن فاروقی نہ ہوتے، تو ظفر اقبال کی اہمیت ہمیں تو کم از کم کبھی سمجھ میں نہ آتی۔کیونکہ زیادہ تر لوگ ادب میں صرف انگوٹھے چوسا کرتے ہیں، اکا دکا ہی اپنی زبان سے اچھے لوگوں کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہیں اور ان کو شناخت دلوانے پر کمر بستہ رہتے ہیں۔خیر، یہ ایک ضمنی بات تھی۔میں فاروقی صاحب کی اس بات سے مکمل طور پر اتفاق رکھتا ہوں کہ صاحب ذوق قاری کا تصور ایک فیک اور گمراہ کن تصور ہے، وہ جسے آپ صاحب ذوق قاری کی دلائی اڑائے رکھتے ہیں، دراصل وہ نقاد ہی ہے۔ایک اضافی بات یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ جو لوگ اس ’صاحب ذوق قاری‘ کا بار بار ذکر کرتے ہیں، وہ دراصل درپردہ قاری سے اپنی باتوں، اپنی تخلیقات کو منوانے کے لیے انہیں نفسیاتی طور پر رشوت دیتے ہیں۔یعنی اگر میں مان لوں کہ ظفر اقبال صاحب شعر کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمارہے ہیں، وہ ٹھیک ہے، سچ ہے تو میں صاحب ذوق ہوں، وگرنہ بدذوق۔نقاد کو گالی دینے کی عادت اردو میں بہت پرانی ہے۔نقاد کیا بیچتا ہے، اس کی ضرورت ہی کیا ہے، ہم کسی نقاد کو نہیں مانتے ۔اس طرح کے جملے اکثر ان لوگوں کے منہ سے زیادہ سنائی دیتے ہیں، جنہیں نقاد گھانس نہیں ڈالتا۔لوگ نقاد کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ دیتے وقت بھول جاتے ہیں کہ اس وقت وہ خود ایک نقاد کے قالب میں ہیں۔ادب کیا، دنیا کا کوئی نظام بغیر نقاد کے نہیں چل سکتا۔نقاد نہ ہوتو ادب کا کاروبار ٹھپ پڑجائے گا۔نقاد ہی ہے، جسے یہ بھوت سوار رہتا ہے کہ ادب کی فالتو باتوں میں اپنا سرکھپائے اور گالیاں بھی کھائے۔دنیا کا ہر پیر پیغمبر پہلے نقاد ہوتا ہے، وہ جمی جمائی باتوں، روایتوں، تصورات اور رواجوں پر فکر کے ذریعے چوٹ کرتا رہتا ہے۔اسی طرح دنیا کا ہر ملحد نقاد ہے، ہر منافق نقاد ہے، ہر شاعر نقاد ہے، ہر فلسفی نقاد ہے ، حتٰی کہ ہر جاروب کش بھی ایک قسم کا نقاد ہوا کرتا ہے۔آپ ناقد کو زندگی کے کسی ایک شعبے سے الگ کرکے دیکھیے، وہ ایک مہینے میں تہس نہس نہ ہوجائے ،یہ ممکن نہیں۔
شاعری کا تصور بدل چکا ہے۔ہم اردو کو وہی تھکی ماندی، افسردہ، کھانستی ہوئی بوڑھی محبوبہ نہیں ماننا چاہتے۔ہم اس کے قاتل ہیں، ہم نے اپنے ہاتھ سے اس کا گلا گھونٹا ہے۔ظفر صاحب اپنے کئی مضامین میں کہتے ہیں کہ غزل کی نئی مابعدالطبیعات خلق ہونی چاہیے۔نیا نظام بننا چاہیے۔میں پوچھتا ہوں کہ صاحب آپ صرف کہتے ہی کہتے ہیں، یا اس پر عمل کرنے یا اس معاملے کو طول دینے کا بھی حوصلہ رکھتے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ آپ اس رویے کے قائل ضرور ہیں، مگر آدھے۔دیکھیے، ابھی آپ نے اپنے تازہ کالم ’دنیازاد41شائع ہوگیا‘ میں کیسی اوٹ پٹانگ باتیں کہیں۔آ پ کہتے ہیں کہ تصنیف حیدر اگر مجھے اس عہد کا سب سے بڑا شاعر مانتے ہیں تو یہ بھی مانتے ہونگے کہ میں سمجھتا ہوں کہ شعر کیا ہے۔‘ جبکہ میں نے ایسا کب کہا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ شعر کیاہے، آپ بس شعر کہنا جانتے ہیں، آپ کے اندر ایک للک ہے، ایک چیخ ہے، ایک گرج ہے جو اس وقت شاعری کی اس کھوسٹ کو ٹھکانے لگانے پر ہمیں اکسارہی ہے، یہ کام آپ سے پہلے کسی نے نہیں کیا۔آپ کے شعر اگر میں نہ پڑھتا تو کبھی یہ نہ سمجھ پاتا کہ اپنی پرانی روایتوں کو دنیا کی باقی شاعری کی سطح پر کیسے لاؤں، کیسے غزل کا نیا جنم ہو،کیسے اس کے بدن پر لپٹی ہوئی بوسیدہ ایرانی قبا اتار کر اسے شارٹس پہناؤں۔مجھے یہ تحریک آپ سے ملی ہے، اور میرے بعد والوں کو بھی شاید ملے، ان کو، جو سوچتے ہیں، جو فکر کرتے ہیں، جو اس نظام کو واقعی بدلنا چاہتے ہیں۔تو اس ہوک کی وجہ سے جو آپ نے میرے دل میں پیدا کی ہے، اس کوشش پر جم کر قائم رہنے کی جو تحریک آپ نے مجھے عطا کی ہے، اس کی وجہ سے میں آپ کو اس عہد کا سب سے بڑا شاعر سمجھتا ہوں۔فکری سطح پرآپ میر اور غالب کے ہم پلہ نہیں ہیں،یقین مانیے، اگر میں اس ایک معاملے کو نظر انداز کردوں، تو آپ کے کلام کا ایک بڑا حصہ کوڑیوں کے بھاؤ بھی خریدنے پر تیار نہ ہوپاؤں گا۔
آپ کو میری منطق ناقص، گنجلک اور عجیب سی معلوم ہوئی، جبکہ شعر کے معاملے میں اکثر اوقات آپ کی باتیں پڑھ کر میں سر پکڑکے بیٹھ جاتا ہوں کہ یہ وہی شخص ہے، جسے ہم نے اس عہد میں شاعری کا دیوتا بنا رکھا ہے۔یعنی کہ آپ ہی کے ذریعے سے یہ بات مجھ پر واضح ہوئی ہے کہ ضروری نہیں کہ جو آدمی نئے شعر کہتا ہووہ نئی شاعری کے تصور کو ٹھیک سے سمجھتا بھی ہو۔آپ نے اپنے اسی مضمون’میر کے تاج محل کا ملبہ‘ میں کہا کہ میر صاحب کے رونے کی تہذیب آپ کو مبالغے کی اس حد پر جاتی ہوئی معلوم ہوئی جہاں شاعری ظرافت کے میدان میں داخل ہوجاتی ہے۔یعنی
جو اس زور سے میر روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا
مجھے تو اس شعر میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی، رونے کا دارومدار دو باتوں پر ہوتا ہے، اول یہ کہ رونے والے کا مزاج کیسا ہے، دوم یہ کہ اس پر کیا بیتی ہے۔اگر کوئی شخص بہت زیادہ پریشان ہے،اس کی فطرت میں چیخنا چلانا موجود ہے تو وہ اسی طرح روئے گا، جس طرح میر صاحب نے بیان کیا ہے۔اور آپ سے کس نے کہہ دیا کہ چیخ کررونایا بین کرنا صرف عورتوں کا طریقہ ہے،اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو مجھے زندگی کے اس شعبے میں آپ کے تجربے پر شک ہے۔میں نے فرسٹیٹڈ لڑکوں کو، مردوں کو چیختے ، روتے پکارتے دیکھا ہے، اصل زندگی میں بھی، فلموں میں بھی اور شاعری میں بھی۔آپ کہتے ہیں کہ رونے کی ایک تہذیب ہوتی ہے، مجھے لگتا ہے کہ رونے اور ہنسنے کی کوئی تہذیب نہیں ہوتی۔یہ دونوں عمل کسی بھی واقعے سے انسان پرمرتب ہونے والے اثرات کو اجاگرکرتے ہیں، مثال کے طور پر یہ ممکن ہے کہ ایک ہی واقعہ ایک شخص کو چیخ چیخ کر رونے پر مجبور کردے اور دوسرے آدمی کی آنکھوں میں غم کی شدت کے باوجود آنسو تک نہ آئیں۔اسی طرح ہنسنے کا معاملہ ہے۔پھر آپ بھول جاتے ہیں کہ کلاسیکل شاعری ، کوئی آزادانہ قسم کی شاعری نہیں تھی،وہ کچھ اصولوں پر ٹکی ہوئی تھی۔ان کے فن کا پیمانہ ہمارے فن کے طریقوں سے میل نہیں کھا سکتا۔ان کے یہاں عاشق کے رونے کا طریقہ ہی یہی تھا اور معروضی سطح پر بھی یہ کوئی بہت غیر ممکن بات نہیں ہے۔پھر میر کا شعرغور سے پڑھیے، بڑی واجبی اور لاجیکل بات انہوں نے کہی ہے، رات کے سناٹے میں رونے، چیخنے ،پکارنے کی وجہ سے بہت حد تک ممکن ہے کہ ہمسایے کی نیند غارت ہوجائے، اس میں ایک تیسرا آدمی بھی کہیں موجود ہے، جو میر کو اس طرح رونے سے منع کررہا ہے، اورانہیں رونے کی وہی تہذیب سکھانا چاہتا ہے، جس کے قائل آپ ہیں کہ چھپ چھپ کر روئیے، اتنی زور سے نہیں کہ ہمسایہ اٹھ جائے، لیکن ظاہر سی بات ہے کہ میر انسانی حقیقی تجربے کو نصیحت اور تہذیبی پابندیوں سے ہٹ کر دیکھ رہے ہیں۔لیکن اس کے برعکس آپ کے شعر کو اگر میں اتنا ہی معروضی ہوکر دیکھوں تو محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے شعر کو مشروط بنادیا ہے۔یعنی
مسکراتے ہوئے ملتا ہوں کسی سے جو ظفر
صاف پہچان لیا جاتا ہوں رویا ہوا میں
’کسی ‘ کہہ کر آپ نے یہ شرط لگادی ہے، کہ جب کبھی آپ کسی بھی شخص سے مسکراتے ہوئے ملتے ہیں تو اس سے پہلے آپ روتے ضرور ہیں۔دوسرے اگر اس ’کسی‘ کو ایک خاص شخص یا معشوقہ کی علامت سمجھا جائے تو اس کے ملنے سے پہلے بھی آپ کا رونا شرط ہے۔اور دونوں جگہ یہ معاملہ بھی طے شدہ ہے کہ سامنے والا آپ کو صاف پہچان لیتا ہے کہ آپ اس سے ملنے سے پہلے روئے ہیں۔منطقی سطح پر مجھے یہ بات ماننے میں پریشانی ہے کہ کسی سے ملنے سے پہلے ہر بار روپانا کیسے ممکن ہے، اگر بہت معروضی ہوکر سوچنے لگوں تو اس شعر پر مجھے بھی ہنسی آنے لگے گی، مگر خدا کا شکر ہے کہ میرے کسی بھی فن کو سمجھنے کے اصول آپ سے بے حد مختلف ہیں۔اور نئے بھی،کیونکہ میرے پاس ایک اچھے خاصے بڑے عہد کا تنقیدی، علمی اور تخلیقی تجربہ موجودہے۔ظرافت شعر کو برا نہیں، نیا بناتی ہے۔ہم ہر اس بات پر پہلے ہنستے ہیں، جو نئی ہوتی ہے، جو ان سنی ہوتی ہے، جو اس سے پہلے ہم نے کبھی سنی نہیں ہوتی، اس لیے سننے میں کچھ اٹ پٹا سا محسوس ہوتا ہے۔لیکن اس کی عادت ڈلوانا بہت ضروری ہے، کیونکہ اس کے بغیر پرانے پر اکتفا کرنا ہوگا اور پرانا ، اب اردو ادب میں پرانے پانی کی طرح باس مارنے لگا ہے۔
اب آپ کی ایک اور بات کی طرف آتا ہوں۔آپ کہتے ہیں کہ شاعری کی ٹرین میں درمیانی ڈبہ نہیں ہوتا۔صرف فسٹ کلاس اور تھرڈ کلاس ہوتا ہے۔شعر کے بارے میں یہ رائے بالکل غلط ہے۔وہ کسی روایتی شاعر کا کہنا تھا کہ
شعر اچھا برا نہیں ہوتا
شعر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
آپ کے ساتھ چھوٹا ساایک مسئلہ یہ ہے کہ آپ اپنی تردید کا ڈونگرا بہت پیٹتے ہیں، مگر جب اس کا وقت آتا ہے تو اپنی تصدیق پر اصرار کرنے لگتے ہیں، خیر یہ کوئی ایسی بری بات بھی نہیں لیکن شاعری کی ٹرین میں فسٹ کلاس اور تھرڈکلاس درجہ ہوتا ہو یا نہ ہوتا ہو، درمیانی درجہ ضرور ہوتا ہے۔یہ وہی درمیانی درجہ ہے جس میں نئے مسافر،نئے تخلیق کار آسانی سے ٹکٹ خرید کر بیٹھ سکتے ہیں۔کیونکہ فسٹ کلاس والوں کامسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک بار اپنی سیٹھ پر قبضہ جمانے کے بعد کسی بھی شخص کو خواہ اس نے عقل کے کتنے ہی سکے کیوں نہ خرچ کیے ہوں،اس میں داخل ہونے نہیں دینا چاہتے۔درمیانی درجے کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں تجربے کی اجازت بھرپورہے۔وہی شعری تجربے جن کی بنیاد پر آپ الفاظ اور معنی دونوں کی ماہیت بدلنے کے ہنر پر قادر ہوسکتے ہیں۔پھر معنی کی سطح پر کم اور لفظ کی سطح پر زیادہ خود آپ کے یہاں ایسے بہت سے اشعار میں بغیر کسی خاص محنت کے پیش کرسکتا ہوں۔
ہمیں دیکھتے ہی پڑگئے اس کے ماتھے پر بل
اور ہمارے منہ سے نکلا صرف سلام سلام

وہیں پہ رہ گیا فقرہ جو کسنے والی تھی
ہنسی نہیں تھی ابھی اور پھنسنے والی تھی

وہاں سے کچھ بھی نہ ملتا مجھے مگر اک بار
جہاں سے روک رہے تھے مجھے میں جاسکتا

خود چھوڑ دیا ہم نے سروکار محبت
حالانکہ بہت اس میں خسارہ بھی نہیں تھا

اور پھر وہ شعر جن میں آپ نے نئے تلفظات رائج کرنے، نئے الفاظ پیدا کرنے وغیرہ پر زور دیا ہے۔ان میں تو شاید ہی دس بیس شعر ایسے مل پائیں گے جن میں کہیں کوئی معنی آفرینی جیسی چیز ہو۔میں اس مجبوری کو سمجھ سکتا ہوں۔شاعر کے دماغ کا مسئلہ یہ ہے کہ جب اسے کچھ نیا پیدا کرنا ہو تو سارا زور خارجی سطح کو بدلنے کی طرف زیادہ ہوتا ہے۔آپ یہ چاہتے ہیں کہ کچھ نیا پیدا ہو، اور نئے کو معنی کی سطح پر پیدا کرنا بے حد مشکل کام ہے۔یہ کام تو غالب سے بھی شاید سو پچاس بار ہی ممکن ہوا ہو، آپ تو پھر ظفر اقبال ہیں، اس لیے شاعر کو نئے کا خیال آتے ہی شعر کی باہری شکل بدلنے اور اسے نیا بنانے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے، اور یہ اچھا عمل اس لیے ہے، کیونکہ نئے لفظ پہلے آتے ہیں، لفظ کے بغیر خیال کاوجود قائم رکھ پانا بے حد مشکل ہوجاتا ہے۔میں اس لفظی تجربے کی بہت قدر کرتا ہوں، کیونکہ یہ ایک نئی شعری دنیا خلق کروانے کی طرف ہمیں مائل کرتی ہے، یہ لوگوں کی تربیت کرتی ہے کہ انہیں کچھ نیا سننے کی عادت ہوسکے، وہ روکھے پھیکے عشق کے صحرائی اور جنونی مضامین سے چھٹکارا حاصل کرسکیں۔لفظوں کی اس دنیا میں معنی کی ستیا بھی خوب پیٹی ہے آپ نے، لیکن یہ بکواس بے حد توجہ طلب ہے کہ اسی سے تخلیق کے نئے دھارے پھوٹتے ہیں، جیسا کہ آپ کا ایک شعر ہے
مرے الفاظ ہیں سب کچھ معانی کے بجائے
توجہ چاہتا ہوں مہربانی کے بجائے
شعر وہ بلا نہیں ہے، جس کا مفہوم آپ نے خود بھی نہ جانے کیا سمجھ رکھا ہے جیسا کہ ہمارے ایک دوست سالم سلیم کے بقول آپ آج تک ہمیں شعری تازہ کاری کا مطلب ہی نہیں سمجھا پائے۔ہماری نظر میں روایت، غیرروایت، ان تمام باتوں سے شعریا شعریت کو کوئی علاقہ نہیں ہے۔شعر وہ ہوتا ہے، جو کسی بھی کونے سے، اپنے کسی ایک حصے سے ، ظاہراً یا باطناً صرف اور صرف نیا ہو، اگر اس کا پیرایہ نیا نہیں ہے تو مفہوم انوکھا اور ان سنا ہو اور اگر اس کا مفہوم بوسیدہ ہے تو اس کا لباس نیا ہو، لفظ، معنی ان سب سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔اسلوب کی تازہ کاری کو پیدا کرنے کے لیے شاعر نے کتنا زور لگایا ہے، یہ اہم ہے۔شاعری کا کام صرف لسی سے بھی چل سکتا ہے، اسے لسا کرنے کی ایسی کوئی ضرورت نہیں ، اگر لسی کے کسی نئے پہلو پر شاعر نے کوئی بات کہی ہو۔نیا شعر یا شعر کا نیا تصور اسی تازگی سے عبارت ہے۔مابعدالطبیعات خلق کرنے کا سارا تعلق ماورائیت سے ہے اورشعر کی اس ماورائیت کا رشتہ ذہنیت سے بھی ضروری ہے اور روحانیت سے بھی۔لفظ بدل کردیکھیے، معنی الٹ کردیکھیے، واقعہ دوہرائیے اور سوچیے کہ یوں ہوتا توکیا ہوتا۔ہاتھ میں قلم کاغذ لے کر کسی پارک کی بینچ پر بیٹھ کر ہم شعر نہیں کہہ سکتے۔شعر ہم تب کہتے ہیں، جب ہم کہنا چاہتے ہیں۔کیونکہ ہم ارادہ کرکے شعر لکھتے ہیں، الہام ولہام سب کھوٹی باتیں ہیں۔شاعری وحی نہیں ہے، جو بیٹھے بٹھائے اتر جائے، اس میں انسان کی اپنی ذاتی محنتوں کا بڑا دخل ہے۔اس میں رسک لینا ضروری ہے۔میں مانتا ہوں کہ شعر کی یہ تعریف اس انتخاب سے پوری طرح ثابت نہیں ہوتی، مگر یہ ان لوگوں کا ابتدائی معاملہ ہے، ان کی شروعات کیسی ہی ہو، مگر ان کا انت ذہن کی اسی اختراعی کوشش پر دھرا ہے، اور جو اس بات کو نہیں سمجھے گا، اپنے آٖ پ ختم ہوجائے گا، غزل اب ہندوپاک سے نکل کر دنیا کی بہترین ادبی مجلسوں میں اپنا لوہا منوانے نکل پڑی ہے، اس لیے اسے خود کو ہر طور پر جانچنا ہے، بدلنا ہے اور کسی بھی طرح کی احساس کم تری کا شکار نہیں ہونا ہے۔میں پاکستان کے ایک شاعر کونئے تصور شعر کے تعلق سے بہت پسند کرتا ہوں، جس کا نام ادریس بابر ہے۔ادریس بابر کو جتنا میں نے پڑھا ہے، ان کی شعری تازہ کاری کا میں اتنا ہی قائل ہوا ہوں۔بلکہ شعر میں نئے پن کی تحریک مجھے آپ کے بعد سب سے زیادہ انہی سے ملی ہے۔اس وقت ادریس بابر غزل کے میدان میں اپنی نوعیت کا اکلوتا سچا، کھرا اور بے باک شاعر ہے۔جس کی محنت اسے بعض اوقات آپ سے کہیں اونچا لے جاتی ہے۔اب شعر محض اپنے اندر تک سمٹے ہوئے مضمون کا مسئلہ نہیں ہے،اب ہر شعر ایک نیا پس منظر پیدا کرتا ہے۔جو چھوٹا سا چھوٹا واقعہ بھی ہوسکتا ہے اور بڑے سے بڑا حادثہ بھی۔
یہ کوئی ایسی متعصبانہ بات نہیں ہے، مگر کہے بغیر بات بنتی نظر نہیں آتی کہ غزل اب پاکستان سے زیادہ ہندوستان کا مسئلہ ہے، آپ کو شاید اس بات کا احساس نہیں ہے، مگر آپ کی کلیات’اب تک‘ اب پاکستان میں بہت سے سنجیدہ ادیبوں کے نزدیک بھی ایک لطیفے سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے۔یہ تو ہم ہیں جو اسے سرآنکھوں پر بٹھائے ہیں، کیونکہ ظاہر ہے کہ غزل جیسی صنف اور اس کے اچھے شاعر کو ہمیں ہی اہمیت دینی ہے۔یہ کام آپ کے ملک میں نہیں ہوسکتا، کیونکہ وہاں نظم کا رواج غزل سے زیادہ ہے۔اکا دکا نمونوں کے علاوہ پاکستان کی زیادہ تر معاصر غزل قبرپرچڑھائے جانے والے پھولوں کی مانندبس ایک روایت کا حصہ ہے، بلکہ بعض اہم لوگوں کا خود یہ ماننا ہے کہ غزل کو صرف اس کی تاریخی شان و شوکت کی وجہ سے ابھی تک ڈھویا جارہا ہے، وگرنہ اسے منوں مٹی میں گاڑ دینا چاہیے۔میں پہلے بھی اپنے ایک مضمون ’جدیدیت یا ظفر اقبالیت ‘ میں لکھ چکا ہوں کہ جدیدیت نے بھی کوئی بہت بڑا کمال نہیں کیا تھا، بس پرانی روایتی غزل سے چھٹکارا پانے کے لیے سانپ ، سنپولوں، مرغیوں، کتوں اور بکریوں کا سہارا لے لینا کوئی ایسی اہم بات نہیں ہوسکتی۔جدیدیت کا سب سے اہم رول صرف یہ ہے کہ اس نے غزل کی وہ صورت ہمیں دکھائی جو اس سے پہلے ہم نے نہیں دیکھی تھی۔لیکن معاملہ کیا بنا، لوگ پھر ایک ہی طرح کی شاعری کرنے لگے، حتی یہ کہ محمد علوی، عادل منصوری جیسے شاعروں میں تو بعض اوقات مضامین و اسلوب کا کوئی بہت اہم فرق بھی باقی نہیں رہ جاتا ہے۔ہندو پاک کی تقسیم کا سب سے بڑا نقصان ان لوگوں نے جھیلا ہے، جن کے اندر شہرت کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر خود کو منوانے کا کوئی جنون نظر نہیں آتا۔اردو پاکستان کی سرکاری زبان کیا بنی کہ بہت سے متشاعروں کی بھی بن آئی، ایسے میں ان کی تو عظمت کے نعرے لگنے ہی تھے جن کو دوسروں کی بہ نسبت شعر کہنے کا سلیقہ کچھ زیادہ ہی تھا۔چنانچہ بانی و زیب غوری جیسے شاعروں کو یکسر نظرانداز کردیا گیا جن کے سامنے ناصر کاظمی اور جون ایلیاکی شعر گوئی کی ایسی کوئی خاص اہمیت ہوہی نہیں سکتی۔کشور ناہید، جن کی پوری کلیات میں ایک شعر ڈھنگ کا نہیں ہے، جن کو زبان بھی ٹھیک سے لکھنی نہیں آتی، اردو ادب کی اہم شاعرات میں شمار ہونے لگیں۔اب اس سے زیادہ باہمی تحسین کا دور اور کیا ہوگا، جس کو آپ کے عہد میں رواج دیا گیا۔
ہندوستان کی نئی غزل کا مسئلہ اتنا چھوٹا اور غیر اہم بھی نہیں ہے کہ آپ اسے یونہی آدھے کالم میں آئیں بائیں شائیں کرکے اڑادیں۔آپ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ معروضی سطح پر بتائیں کہ اگر یہ غزل نہیں ہے ، شاعری نہیں ہے تو پھر آپ کی نظر میں شاعری کیا ہے۔کیونکہ فسٹ کلاس اور تھرذ کلاس جیسی باتیں کرکے ہمیں اپنی بزرگی کے رعب میں لینا اور ادھر ادھر کی باتیں کرکے اسے ایک فالتوبحث ثابت کرنے کی کوشش کرنا ، آپ کے اپنے مقدمے کو کمزور کرتا ہے۔آپ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں محض فرحت احساس ہی ایک شاعر ہیں، تو میں آپ کے گوش گزارکرنا چاہتا ہوں کہ ان درجن بھر سے زائد نمونوں میں جو میں نے آپ کے سامنے پیش کیے، ہندوستانی غزل اس شاعر سے باطنی سطح پر کسی نہ کسی حد تک متاثر رہی ہے، تو اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہونا چاہیے کہ اگر آپ کو یہ شاعری پسند نہیں، تو پھرفرحت احساس کی شاعری سے بھی آپ کو خدا واسطے کا بیر ہونا چاہیے۔اس معاملے میں تب تو ہمیں آپ سے یہ سوال کرنے کا حق ہے کہ آپ نے تب بھی ہمیں نہیں بتایا تھا کہ فرحت احساس اچھے شاعر کیوں ہیں، اور اب بھی آپ نہیں بتاتے کہ یہ شاعری بری شاعری کیوں ہے؟ظل الہی والا غیر منطقی حکم ادب میں نہیں چلتا، اس میں بات کہی گئی ہو تو ثابت کرنی پڑتی ہے،اور وہ اصول جو آپ دوسروں کی شاعری کو برا ثابت کرنے کے لیے تیار کرتے ہیں، خود آپ کی شاعری پر بھی ان کا انطباق کیا جانا چاہیے۔
خیر، جہاں تک بات نئی نسل کی ہے آپ کو اس معاملے پر تھوڑا سا غور کرنا چاہیے تھا کہ جن لڑکوں(انتظار حسین صاحب کی نظر میں نوخیزیوں )کے اشعار میں نے آپ کے سامنے پیش کیے تھے، وہ ابھی بیس یا تیس کے پیٹے میں ہیں۔پھر مجھے حیرت ہوئی کہ بے ہودہ لوگوں کی تعریف کرتے کرتے، آپ لوگوں کا ذوق بھی واقعی متاثر ہوا ہے۔ورنہ آپ کو اس انتخاب میں وہ شعر مل جاتے ، جن میں نیا پن ہے، تازگی ہے، ہنر ہے، البیلا پن ہے ۔پھر یہ بات بھی ظاہر سی ہے کہ ادب ان لڑکوں کا مسئلہ بیس سال کی عمر سے ہے، بعضوں کا تو اس سے بھی کم عمری سے ہے، یہ اس سڑے ہوئے پانی سے نکلنے کے لیے ہاتھ پیر ماررہے ہیں۔اس ٹھنڈے، برفیلے اور رگوں کو جما دینے والے پانی سے باہر نکلنے میں ظاہر سی بات ہے کہ انہیں کچھ وقت لگے گا، جبکہ ان کی اپنی روایتیں، ان کے پیروں سے لپٹی ہوئی انہیں پھر اندر کی جانب کھینچ رہی ہیں۔ایسے میں یہ چھٹپٹاہٹ اور بھی اہم ہوجاتی ہے، آپ اپنے ماضی کا محاسبہ کرکے دیکھیں، آپ کے بہت سے معاصرین اس عمر میں کیا واقعی فکر کی ایسی ہی منزلوں پر تھے۔ان لوگوں نے نہ صرف غزل کہی ہے، بلکہ انہیں اپنے تخلیقی تجربوں پر بھرپور اعتماد بھی ہے، اور یہ اس کا اعتراف کرنا بھی جانتے ہیں۔اب نئی راہیں دو چار روز میں تو پیدا ہوتی نہیں ہیں۔مجھے خوشی ہے کہ آپ نے اپنی انا پر ضرب لگنے کی وجہ سے یکسر اس تمام انتخاب کو مسترد کردیا۔امید ہے کہ یہ استرداد ان میں تخلیقیت کی مزید چنگاریاں پیدا کرے گا۔خیر وہ شعر، جن میں مجھے بے حد نیا پن محسوس ہوتا ہے،آپ کوسجھانا چاہوں گا،اور ہاں صرف لفظی سطح پر نہیں، معنوی سطح پر بھی۔
ذرا بھی دخل نہیں اس میں ان ہواؤں کا
ہمیں تو مصلحتاً اپنی خاک اڑانی ہے
(ابھیشیک شکلا)

درمیاں آیا ایسے وہ لمحہ کہ بس عشق کے در کی زنجیر ہلتی رہی
اڑگیا لے کے ہم کو براق بدن اور کھلا ہم نئے آسمانوں میں ہیں
(امیر امام)

عجب طلسمی فضا ہے ساری بلائیں چپ ہیں
یہ کس بیاباں میں رات دن ہم گزارتے ہیں
(امیر حمزہ ثاقب)

ہزار خواب مری ملکیت میں شامل تھے
میں تیرے عشق میں سرمایہ دار بن کے رہا
(غالب ایاز)

روشنی کے لفظ میں تحلیل ہوجانے سے قبل
اک خلا پڑتا ہے جس میں گھومتا رہتا ہوں میں
(مہیندر کمار ثانی)

اجنبی شہر میں کچھ خوف سا محسوس ہوا
اوڑھ لی میں نے خموشی سے اتاری ہوئی رات
(معید رشیدی)

ہم اس کی خاطر بچا نہ پائیں گے عمر اپنی
فضول خرچی کی ہم کو عادت سی ہوگئی ہے
(صابر)

ایک ہی موت بھلا کیسے کرے اس کا علاج
زندگانی ہے کہ سو بار کی بیماری ہے
(سالم سلیم)

یہ شہر اپنی اسی ہاؤ ہو سے زندہ ہے
تمہاری اور مری گفتگو سے زندہ ہے
(تالیف حیدر)

غصہ ، جھنجھلاہٹ اور تیزی انسان سے کیا کیا کرواتی ہے، آپ نے اپنے کالم میں ان تمام اشعار کی تعداد 90بتائی ہے، جبکہ ان کی کل تعداد تقریباً185ہے۔آخر میں بس ایک بات یہ کہنا چاہوں گا کہ ہم آپ کی قدر جن بنیادوں پر کرتے ہیں، انہیں رد کرکے اپنی ناقدری کا موقع ہمیں مت دیجیے۔کیونکہ ہم آپ کا مستقبل ہیں، اور آپ کی شاعری کا بھی۔بس ایک بات سمجھیے کہ شاعری ختم نہیں ہوئی، لوگ ختم نہیں ہوئے، نہ آپ کے بعد ہوئے ہیں، نہ ہمارے بعد ہونگے۔
)اتمام(

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *