منگل، 21 فروری، 2017

کرب کا اظہاریہ اور سعیدہ گزدر/ واجد علی سید

یقینی طور پر ایسے بہت سے شاعر ہیں، جنہیں ہم نے نہیں پڑھا یا بھلا دیا ہے۔مگر شاعری صرف محبت کے الم غلم جذبات کا پٹارا ہی نہیں ہوا کرتی، بلکہ یہ تاریخ بھی بنتی ہے۔ مگر اس کے لیے شاعر کا تھوڑا بہت حساس اور معاصر منظرنامے سے اچھی طرح واقف ہونا ضروری ہے۔ اسے نظر انداز کرکے جینے والے دراصل اپنے لیے ایک ایسا خول تیار کرتے ہیں، جس میں ساری عمر گزار کر انہیں لگتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہی تو ہے۔بہرحال واجد علی سید نے ایک ایسی شاعر پر یہ مضمون لکھا ہے، جن سے میں اس سے پہلے واقف نہیں تھا اور شاید میرے بہت سے دوست بھی ان کے نام اور کام سے لاعلم ہونگے۔ ان کے مجموعہ کلام'طوق دار کا موسم' پر لکھی گئی یہ سطریں اس شاعر سے بہترین تعارف کی حیثیت رکھتی ہیں ، جو اپنے دور کی گھٹی ہوئی چیخ اور بعد کے عہد میں بھلا دی جانے والی آواز کے طور پر ارددادب میں موجود ہے۔ اس کے لیے ہمیں واجد علی سید کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ (تصنیف حیدر)


تحریک پاکستان میں خواتین کی شمولیت اور ان کے کردار پر فاطمہ جناح سے فاطمہ صغریٰ تک بیشمار ایسے نام ہیں جو نصابی و غیر نصابی کتب میں با آسانی مل جائیں گے۔ ان کی جرات اور حوصلہ پر ہزار ہا تحریریں بھی دستیاب ہیں، جسکی بڑی وجہ اس موضوع پر ریاستی توجہ اور سر پرستی ہو سکتی ہے، لیکن بٹوارے اور اس کے بعد کے سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی حالات عمومی طور پر کیسے رہے، اور خصوصا خواتین کا مقام کہاں تھا اس پر بمشکل کچھ مل پائے گا۔

اسی طرح سیاسی موضوعات پر شائع ہونے والے رسائل، کتب اور اخبارات میں بیگم نصرت بھٹو اور بعد میں بے نظیر بھٹو پر بہت کچھ پڑھنے اور جانچنے کو مل سکتا ہے لیکن جنرل ضیا کے مارشلائی دور میں عوام الناس کن ٹوٹتی بگڑتی اقدار سے نمٹ رہے تھے اس پر سیر حاصل کام اب بھی باقی ہے۔ ضیائی حکومت کے سیاہ دور کو اتنا ضرور دستاویز کیا گیا ہے کہ لوگوں کو سر عام کوڑے مارے جاتے تھے۔ ریکارڈ کی تصاویر اور مضامین سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں بڑھ چڑھ کر مظالم پر آواز بھی اٹھاتی رہیں، صحافیوں پر تشدد کے واقعات، مرد حضرات کے ساتھ ساتھ خواتین کی مختلف جلسے جلوسوں میں شرکت، پولیس لاٹھی چارج کا سامنا جیسی معلومات تو شاید بآسانی دستاب ہوں۔۔ مگر خواتین کو کوڑے پڑنے ، ان کے ساتھ سماجی سطح پر روا رکھے سلوک کے لئے اخبارات کو شاید چھانٹنا پڑے گا۔

اس تاریک دور میں روشنی کی تمنا کرنے والوں کے لئے اسے قلمبند کرنا کتنا دشوار اور تکلیف دہ ہو سکتا ہے اس کا اندازہ سعیدہ گزدر کی کتاب طوق و دار کا موسم سے ہوتا ہے۔ عوام) خاص طور پر عورت( کی آزادی، پردہ، چادر، اس کے حقوق، ملازمت کرنے اور باہر نکلنے کے اختیار، سیاست میں اسکا عمل دخل، اس کے جسم اور حسن، چلنے پھرنے، لکھنے پڑھنے، گانے ناچنے، غرض ہر انسانی ضرورت اور جذبے کے اظہار پر پابندی کی کوشش ایک حقارت آمیز رویہ، جنت سے نکالے جانے کی ازلی مجرم عورت بقول ان کے انکا موضوع ٹھہرا۔ اس زمانے میں بھی کچھ لوگوں کی رگ حمیت یوں پھڑکی کہ وہ ہر اخلاقی پستی اور معاشرے میں پھیلنے والی بے راہ روی کا ذمہ دار عورت کو ٹھہراتے گئے۔ خود سعیدہ کے مطابق مرد اور عورت کے درمیان اجنبیت، دشمنی، اور دوری کی دیوار، دو انسانوں کے لئے تنہائی کا جہنم، ہر بات فحاشی، ہر عمل عریانی، چلنا پھرنا دو بھر معلوم ہونے لگا۔

انیس سو تراسی میں چھپی اس کتاب کا نام فیض احمد فیض کے شعر ۔۔
یہی جنوںکا، یہی طوق و دار کا موسم ؛
یہی ہے جبر، یہی اختیار کا موسم

سے مستعار لیا گیا ہے۔ کتاب نثر کے بجائے شاعری کی ہے کیونکہ سعیدہ کے مطابق جو ہو رہا تھا اسے بیان کرنا ان کے بس میں نہ تھا سوائے بلا ارداہ اظہار کی مجبوری کے۔ "میں نے کبھی شاعری کرنے کا دعویٰ نہیں کیا۔ بس یہ ہوا کہ پچھلے چند برسوں میں جو کچھ ہوا ہے اس نے مجھے کبھی کبھی جذباتی اور ذہنی دیوانگی کی اس حد تک پہنچا دیا کہ آنسووں کو روکنے کی کوشش میں اندر سے تڑپ تڑپ کر میں بہت روئی اور ایسی کیفیت میں اپنے آپ کو نثر کے ڈسپلن میں لانا مشکل ہو گیا۔"

اور بلا شبہ ان نظموں میں فنکاری نہیں مگر ایک تاریخ ضرور مرتب ہوئی، مستقبل کے مورخ کومدنظر رکھ کر حال احوال کو سامنے رکھا۔ چند ایک واقعات کا تذکرہ بھی ہے۔ مثلا ایک نومولود کو "مسجد کے سائے میں" سنگسار کیا گیا، جس پر سعیدہ نے رونگٹے کھڑے کر دینے والا بین لکھ ڈالا۔

چھوٹا سا بچہ
وہ ننھا فرشتہ
بے بس، بے گھر
چلنے سے مجبور
اٹھنے سے معذور
آنکھیں موندے
مٹھی تانے
چونچ برابر منہ کھولے
چادر میں لپٹا
نہ جانے کون اور کب
کس مجبوری میں
آس اور مایوسی میں
چھوڑ گیا تھا
مسجد کے سائے میں

خدا کے گھر سے
کوئی تو نکلے گا
بے بسی، بے کسی کی اس گٹھری کو
ہاتھوں میں تھامے گا
سینے سے لگائے گا
انگلی پکڑ کے
جینے کا ڈھنگ سکھائے گا

اور نہیں تو
بیس قدم پر تھانہ ہے
قانون اور انصاف کے رکھوالے آئیں گے
ہلتی ڈولتی گردن کو تھامیں گے
بہلائیں گے پھسلائیں گے
کوئی گھر بھی ڈھونڈ لیں گے

وہ نکلے
پیشانی پر سجدوں کے نشان سجائے
کلمہ پڑھتے، درود گنگناتے
انگلیوں پر تسبیح کے دانے گھماتے
غصہ میں منہ سے جھاگ اگلتے
نفرت میں تھر تھر کانپتے
چادر میں لپٹی یہ روح شیطانی
معصومیت کے بھیس میں بلا ناگہانی
کون جانے
سفید چادر کے اندر نوکیلے دانتوں والا
سینگوں اور خونی پنجوں والا
اک شیطان چھپا ہے
ہماری نمازوں کو
عبادت اور طہارت کو
آلودہ کرنے
کوئی چھوڑ گیا ہے۔

آو اس سے پہلے کہ یہ عفریت
چادر سے نکلے
جیون کا امرت پیئے
اور ہمارے سینوں پر مونگ دلے
اسے کچل دیں ۔


لیکن دیکھو دور سے
پاس جاو گے
رحم اور ہمدردی کے
طلسم میں گھر جاو گے
مار نہ پاو گے

"دور سے؟ لیکن کیسے؟"
تسبیح کو کلائی میں اٹکا کر
انگلیوں میں پتھر تھام کر
بولے
"ایسے!"
ایک ننھا سا گدگدا ہاتھ
باہر نکلا
مٹھی کھلی ہاتھ نیچے گرا
ہاں!
ایسے ۔۔ ایسے ۔۔ ایسے ۔۔

ایک ساتھ
بہت سے پتھر
اس چھوٹے سے بچے پر
ننھے فرستے پر
برستے رہے
چادر کے اندر
بے آواز، بے صدا
نہ ہلا، نہ جلا
نہ جانے کب
اس دنیا سے چلا گیا

فرشتوں نے
معصوم بے زبان روح کو
اس کے حضور پیش کیا
نرمی اور محبت سے
اٹھا لیا جھک کر
اور گلگلے گالوں کو
تھپتھپا کے پوچھا
اتنی بھی کیا جلدی تھی
ابھی ابھی تو آنکھ کھلی تھی
روشن روشن اور چمکیلی
کیوں لے آئے؟ جینے دیتے
ہنسنے اور کھیلنے دیتے
دنیا میں کچھ اجالا پھیلنے دیتے

فرشتوں نے ہاتھ باندھے
اے خدا، اے رب العالمین
تیری دنیا میں
مسکرانے اجالا پھیلانے والوں کو
نیکی اور محبت کو
پاکیزگی اور معصومیت کو
تیرے نام لیوا اور تیرے بندے
سنگسار کر دیتے ہیں
مسجد کے سائے میں ۔۔


سعیدہ گزدر کی باقی نظموں کے موضوعات بھی ایسے ہی سنگین، سنجیدہ وپیچیدہ ہیں۔ پشاور جیل میں پانچ عورتوں کو زنا کے جرم میں بیس بیس کوڑے مارے گئے، بہاول نگر میں برقعہ پہنا کر ایک بیوہ کو بھی پانچ ہزار کے تماش بینوں میں کوڑے مارے گئے۔ ایسے ہی ایک اور الزام میں ساہیوال کی ایک غریب اور اندھی لڑکی کو کوڑوں کی سزا دی گئی تو سعیدہ گزدر کے قلم سے ان سب کا خون باری باری قطرہ قطرہ رسا۔۔ ان کا منظوم اظہار طویل ہے اس لئے چند سطریں ملاحظہ ہوں۔


چاروں طرف پہرے ہیں
سوچ پر، محبت پر
تازیانے اور کوڑے
ہنسنے مسکرانے پر!
خوف کی اس تنہائی میں
بے بسی محرومی میں
سب ہی دشمن لگتے ہیں۔
نہ جانے کب
ہاتھ پاوں باندھ کر
عدالت کے کٹہرے میں
کھڑا کر دیں


"تم پر الزام ہے محبت کا
جسم و جاں نچھاور کرنے کا
ایک ایسے شخص پر
جو قانون اور مذہب کی رو سے
تمہارا رکھوالا اور مالک نہیں
تمھارے جسم کا، روح کا، دل کا
حقدار نہیں۔"

لیکن میں نے اپنی مرضی سے
محبت کے ہاتھوں بڑی مجبوری اور لاچاری سے
سب کچھ اسے سونپا ہے۔
اس کے میٹھے بول میں
پیار اور ہمدردی میں
درد اور زخموں سے چور
کچلی ہوئی یہ روح اور دل
کچھ سنبھلنے لگے
عزت اور انسانیت کی
آرزو کرنے لگے۔
وہ پہلے والا کون تھا
میں نے کب جانا تھا
نکاح کے دو بول پڑھے
دام کھرے طے ہوئے
اور میں اس کی مرضی پر
آنکھ کے اشارے پر
ہاتھوں کی جنبش پر
سر جھکائے
حکم مانتی رہی
ذلت کی اذیت میں جلتی رہی
اف کرنے سے بھی ڈرتی رہی۔

"وہ تمہارا شوہر تھا
نگہباں، مجازی خدا تھا۔
ظلم اور جبر کرنے کا
اپنی مرضی تم پر تھونپنے کا
ہر اختیار رکھتا تھا۔
لہذا یہ عدالت
شرع اور انصاف کی روشنی میں
بدکاری کے جرم میں
تمہیں!
بیس کوڑوں کی
سزا سناتی ہے۔"


۸۰ کے حال میں رہ کر لکھی ان تحریروں میں موضوعات اور بھی بہت سے ہیں، لیکن سب میں منطقی سوال ایک ہے۔ کہ وہ کون سے خدا ہیں جو ہمارے سروں پر مسلط ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کے قریب جانے اور ایک دوسرے کو سمجھنے سے روک رہے ہیں؟ بنیادی، ذاتی تعلقات کو انہوں نے عالمگیریت سے جوڑا اور سیاسی و مذہبی دوغلے پن کا پردہ خوب چاک کیا۔

اظہار پر قدغن کا اندازہ اس سے کیجئے کہ ان کی نظم "بیس کوڑے" کو ایک اخبار کے ایڈیٹر نے چھاپنے سے معذرت کرتے کہا تھا، "مجھے بیس کوڑے مار لیجیئے۔ مگر یہ نظم ۔۔ آخر کس طرح چھاپوں؟" ۔۔

اس کے باوجود کئی اخبارات ایسے تھے جو بے دھڑک چھاپتے تھے کہ قانون شہادت پر اعتراض کرنے والے واجب القتل ہیں۔ کتاب کے آغاز ہی میں وہ لکھتی ہیں، اخلاقی ہیراپھیری نے مظلوموں اور معصوموں کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے اور مجرم انصاف کی کرسی پر بیٹھے ہیں۔ انسانی رشتے رحم و ہمدردی کے تمام بندھن اور مہلتیں بے دردی سے قتل ہو رہی ہیں۔

اپنی سیاسی تربیت اور بصیرت کی بدولت وہ اسی نکتے پر پہنچی ہیں کہ محبت اور آزادی دو لازم و ملزوم جذبے ہیں۔ ایک آزاد شخص ہی محبت کرنے کے قابل ہے۔ ایک خوف زدہ، بزدل اور بے بس شخص کس طرح اس پاکیزہ جذبے کی تاب لا سکتا ہے؟ ہاں جس لمحے وہ غلامی کے خلاف سوچنے لگتا ہے، اپنے اور دوسروں کے حالات بدلنے کی ٹھان لیتا ہے، اسی لمحہ وہ محبت کرنے کے لائق ایک آزاد اور سچے انسان کا روپ دھار لیتا ہے۔

اسی محبت، آزادی کی آرزو اور سب کچھ بدل ڈالنے کی خواہش نے گھٹن کے احساس کو بڑھایا۔ سعیدہ گزدر نے خود سے پوچھا، کہیں برداشت کرنا اپنی عادت تو نہیں بن گئی؟ پھر وضاحت کرتے ہوئے تحریک دیتی ہیں کہ ۔۔

"اس خیال نے مجھے چونکا دیا۔ اس خطرناک صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے میرے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ جو کچھ گزر رہی ہے اس کا اظہار جسطرح بھی ممکن ہو کروں۔ نظم میں، نثر میں، آزاد نثری شاعری میں۔۔ بس کسی بھی طرح، کسی بھی ڈھنگ سے۔ اپنے بنیادی اور انسانی حق کو ڈھال بنا لوں بچاو کے لئے تاکہ آنے والی نسلوں کو معلوم ہو سکے کہ بے بسی کے باوجود میری نسل کی عورتیں اور مرد کس آگ میں جلے ہیں۔"
٭٭٭


بدھ، 1 فروری، 2017

رفیق سندیلوی کی نظمیں

مجھ جیسے ادب کے طالب علم کو ظفر سید کے فورم حاشیہ نے بہت سے اہم شاعروں سے متعارف کرایا۔انہی میں ایک نام رفیق سندیلوی کا بھی تھا، جن کی ایک نظم پر میں نے بعد میں ایک مضمون بھی لکھا تھا۔اب پتہ نہیں اس مضمون سے میں خود کتنا اتفاق کرسکوں گا، مگر یہاں ان کی دس سے زائد یہ نظمیں اپلوڈ کررہا ہوں، جو کہ انہوں نے میری درخواست پر ادبی دنیا کے لیے بھیجی تھیں۔ان نظموں میں مختلف قسم کے رنگ ہیں، جیسے ’کوئی رتجگا ہے‘،’ یہی زندگی ہے‘ اور’ سجیلی مورتی‘۔آزاد نظم کا مطالعہ بتاتا ہے کہ شاعر زیادہ تر ایک قسم کے لہجے کے عادی ہوجایا کرتے ہیں، حالانکہ اس میں کوئی برائی نہیں، یہ مسئلہ تو نثری نظم کے ساتھ بھی ہے۔لیکن اس میں بھی کچھ نظموں کے موضوعات اور ان کی بناوٹ انہیں اپنی ہی ہم جنسوں سے الگ بنادیتی ہیں۔مجھے یہ نظمیں پسند ہیں، اب میں بہت زیادہ تنقیدی جملوں کے پھیر میں نہیں پڑا کرتا، کیونکہ وہ اپنے اور قاری دونوں کے لیے الجھاؤ پیدا کرتے ہیں، بس یہی کہوں گا کہ آپ کو بھی یہ نظمیں ممکن ہے بہت پسند آئیں کیونکہ ان کا لہجہ، ان کی روانی، ان کے موضوعات، ان کی طلسماتی فضاان کی طاقت بھی ہیں اور کمزوری بھی۔(تصنیف حیدر)

وُ ہ عرصہ جو دُ وری میں گزرا

مَیں کیسے بتاؤں
وُ ہ عرصہ جو دُ وری میں گزرا
حضو ری میں گزرا
مَیں اِس کی وضاحت نہیں کر سکوں گا
سرِشام ہی
کوئی لاشکل قُوّ ت
مجھے اَپنے نرغے میں رکھتی
مَزا لیتی میرے نمک کا
کبھی میری شیرینی چکھتی
کبھی مجھ کو قطرے
کبھی مجھ کو ذرّ ے میں تبدیل کرتی
کبھی مجھ کو ہیئت میں لاتی
کبھی میری ہیئت کو تحلیل کرتی
اَدھورا سمجھتی
کبھی مجھ کو پورا سمجھتی
اِسی گومگومیں مجھے توڑ دیتی
مری ٹکڑیوں کو مِلاتی
مجھے جوڑ دیتی!

مَیں کیسے بتاؤں
کہ جو کیفیت مجھ پہ گزری
اساطیری ہرگز نہیں تھی
کسی دیو مالا سے
ساگا سے
جاتک کہانی سے
اِس کا علاقہ نہیں تھا
کسی خواب کا یہ وقوعہ نہیں تھا
نہ یہ واہمہ تھا
جسے عقل تشکیل دیتی ہے
حیرت کا وَرطہ
حصارِ نفَس یا نظر کا کرشمہ
کوئی واردہ
پاس اَنفاس ،تنویم یا مسمریزم
کوئی حَبسِ دَم
جذب و مَستی
کسی سنت سادھو کی شکتی
کسی صوفی سالِک کا الہام
سَر سام
وَحشت کی لَے
وجدیا حال سی کوئی شے
ایک شیشے کے اَندر کوئی چیز
بُرّاق پردے پہ رقصاں سی
فانوسِ گَرداں سی
تصویری ہرگز نہیں تھی
اَساطیری ہرگز نہیں تھی

مَیں کیسے بتاؤں
کہ جو کیفیت مجھ پہ گزری
مَیں اِس کیفیت میں دُ وبارہ
کسی طور شرکت نہیں کر سکوں گا!
وُ ہ عرصہ جو دُ وری میں گزرا
حضوری میں گزرا
مَیں اِس کی وضاحت نہیں کر سکوں گا!!
۰۰۰

مجھ سا مَبہُوت عاشق

کیسی مخلوق تھی
آگ میں اُس کا گھر تھا
الاؤ کی حدّ ت میں
مَوّ اج لہروں کو
اَپنے بدَن کی ملاحت میں
محسوس کرتی تھی
لیکن وُ ہ اَندر سے
اَپنے ہی پانی سے ڈرتی تھی
کتنے ہی عُشّاق
اَپنی جوانی میں
پانی میں
اِک ثانیہ
اُس کو چھونے کی خواہش میں
نیچے ،عمق میں بہت نیچے اُترے
مگر پھر نہ اُبھرے
سمندر نے مَنتھن سے
اُن کے وجودوں کوضم کرلیا
دُودھیا جھاگ نے
اور کہُنہ نمک نے
اُنھیں اَپنی تیزابیت میں گھُلایا
بھڑکتی ہوئی آگ نے
جَزرومَد میں لپیٹا اُنھیں
سَر سے پا تک جَلایا
مگر کوئی شُعلوں سے کُندن سا
سِیپوں سے موتی سا
باہر نہ آیا

وُ ہ اَب بھی سمندر میں
اِٹھلاتی سطحوں کے نیلے بہاؤ میں
اَپنے اَلاؤ میں
قصرِ زَمرّد میں تنہا بھٹکتی ہے
اِک ہا أہ آب و آتش میں
رنگوں کی بارش میں
اَب بھی وُ ہ زُلفیں جھٹکتی ہے
توعودوعنبر کی مہکار آتی ہے
قطرات اُڑ کر
دَہَن کتنے گھونگوں کابھرتے ہیں
اُس کی جھلک دیکھنے کے لئے
آج بھی لوگ مرتے ہیں
اَب بھی یہاں کشتیوں ،آبدوزوں‘
جہازوں کے عرشوں پہ
اُس کی ہی باتیں ہیں
دُنیا کے سیّاح
ساتوں سمندر کے مَلّاح
اُس کے نہ ہونے پہ
ہونے پہ تکرار کرتے ہیں
اُس کی کشش میں
بہت دُور کے پانیوں میں
سفر کے لئے
خود کو تیّار کرتے ہیں!

مَیں بھی یہاں
مضطرب اور بے حال
خستہ و پارینہ تختے پہ بہتا ہوا
ایک خُفتہ جزیرے کے نزدیک
کیا دیکھتا ہوں
کہ وُ ہ ایک پتھرپہ بیٹھی ہے
پانی پہ طاری ہے
اِک کیف سا
چاندنی کی لپک
اورہَوا کی مُدھر لَے پہ
مچھلی سا نیچے کا دَھڑ اُس کا
شفّاف پانی میں ہِلتا ہے
ابریشمِیں نو رمیں
عکس سیماب سا
اُس کے گُلنارچہرے پہ کھِلتا ہے
اَب دیکھئے
مجھ سا مَبہُوت عاشق
اُسے اَپنی آغوش میں کیسے بھرتا ہے
غرقاب ہوتا ہے
مَرتا ہے!!
۰۰۰

یہ کیسی گھڑی ہے

یہ کیسی گھڑی ہے
زمانی تسلسُل کا پہیہّ گھما کر
یہاں وقت کو
جیسے فطرت سے کاٹا گیا ہے
خلیجیں جو رکھّی گئیں
نو روظلمت کے مابین
اُن سب کو پاٹا گیا ہے
سمے رات کاہے
مگر دھوپ
سورج سے لے کر اجازت
ہمارے سَرھانے کھڑی ہے
یہ کیسی گھڑی ہے !

یہ کیسی گھڑی ہے
کہ جیسے ہمارے سَرھانے کا
بالکل ہماری ہی تقویم کا
اورہمارے زمانے کا
اِک طاق ہے
جس پہ کوئی مقدّس صحیفہ نہیں
اِک رِیاکارمشعل دھری ہے
مصفّا صراحی میں
آبِ سماوی نہیں
ریگِ عصیاں بھری ہے
بہشتی درختوں کے
پاک اور رَس دار اَثمارمیں
کوئی نوکِ نجاست گڑی ہے
خُدایا!
ترے نیک بندوں پہ
اُفتاد کیسی پڑی ہے
یہ کیسی گھڑی ہے!
۰۰۰

کیسا پانی کا ریلا تھا

کیسا پانی کا ریلا تھا
سب کچھ بہاتا ہوالے گیا
دُھند میں لپٹے
بوسیدہ مٹّی کے گھر
مال اسباب
فصلیں ‘مویشی
وُ ہ سب خواب
جو میرے تکیے کے نیچے پڑے تھے
شَجر جو مرے صحن میں
اور اطراف میں
اَپنی کُہنہ جڑوں کے تصوّ ر میں
جم کر کھڑے تھے
وُ ہ سب نقش
جو میل خوُ ردہ لحافوں میں
اُدھڑے غلافوں میں
سوراخ والے ڈُوپٹّو ں میں
سہمے ہوئے تھے
وُ ہ رُومال
جن پر کڑھا تھا مرانام
تارِ طلائی سے
رنگِ حنائی سے
دہکی ہوئی شال
جس پرستاروں کے موتی
بڑی چاہ سے ماں نے ٹانکے تھے
طاقوں پہ رکھےّ ہوئے
خشک گجرے، بہی کھاتے
یادوں سے ٹھونسے ہوئے
بند صندوقچے
زنگ آلود وعدے
مکینوں کی دُ ھندلی شبیہوں میں
جکڑے ہوئے آئنے
ڈھیر بھُوسے کے
خستہ منڈیروں پہ جلتے دِیے
سانس لیتی ہوئی روشنی
زندگی‘
جس نے جوڑا ہواتھا
فضاؤں کو بُوباس سے
دُھوپ کو چھاؤں
اَشیا کو اَنفاس سے
ایک دَم پھونک ماری
تلاطم کے آسیب نے
روشنی کو بُجھاتا ہو الے گیا
کیسا پانی کا ریلا تھا
سب کچھ بہاتا ہوالے گیا!!
۰۰۰

کوئی رَتجگاہے

کوئی رَتجگا ہے
جو صدیوں پہ پھیلا ہواہے
یہ آنکھیں کہ سکتے سے
پتھر ہوئی ہیں
یہ شانے کہ گہری تھکن سے
جُھکے ہیں
یہ پاؤں کہ رُکنے سے
جن پر ورَم آگیاہے!

کوئی رَتجگا ہے
کہ جس کاکوئی نقطۂ ختم
کوئی کنارہ نہیں ہے
زمینوں پہ تھوڑی سی بادِصبا
کوئی رنگوں کا ریزہ
ذرا سی مہک
آسمانوں میں ہلکا سا بُرّاق پَر
ایک چھوٹی سی کالی گھٹا
کوئی ننھاسا مدّھم ستارہ نہیں ہے
کسی ذی نفَس کو
یہاں ایک لحظہ بھی
سونے کا یارا نہیں ہے
بُلاتی ہیں ریشم سی باہیں
حریری نظر کھینچتی ہے
نہ جسموں کے اَطلس ہی آواز دیتے ہیں
صبحیں بہارِیں نہ شامیں غنودہ
کسی ایک آغوش پربھی یہاں
اَپنی چَھب آشکارا نہیں ہے!

گھروں میں اَزل سے
گداز اور تہ دار بستر لگے ہیں
مگر لوگ گلیوں میں نکلے ہُوئے ہیں
چھتوں پر کھڑے ہیں
خلا کی طرف دیکھتے ہیں
کہیں اُڑ گئی ہے پَری نیند کی
جس کی آنکھوں میں
سُرخی کے مَلکوتی ڈورے تھے
جادُ و تھا جس کا فضا میں
فنا اور بقا میں
ہَوا میں
چھلکتا تھا جس کا پیالہ
سیاہی سفیدی کے مابین
دُ ھندلا سا ہالہ
جسے توڑ کراَپناجوہر سمیٹے
کہیں خواب رُخصت ہواہے
کوئی رَتجگا ہے
جو صدیوں پہ پھیلا ہواہے!!
۰۰۰

ماجرا پھر سے یکجا ہو

کہانی میں
بچھڑے ہوئے سارے کردار
مِل جائیں
کھِل جائیں
غنچوں کی صورت
یہ قلب و بدن
غیب وحاضر کا اَسرار
آمیز ہو
اور کہانی کا کُہنہ پیالہ
جو صدیوں سے خالی ہے
شیرِمحبت سے لبریز ہو!

یہ فضا ‘
جس کی ویران گلیوں پہ سکتہ ہے
ظلمت میں ڈُوبے
شکستہ مکانوں پہ تالے ہیں
سوکھے درختوں پہ مٹّی ہے
جو مُنتظر ہے
ہزاروں برَس سے
کہ بارانِ گریہ اِسے آ کے دھو جائے
اور ختم ہو جائے
یہ تشنگی
جو زمانوں میں ہے
ایک کانٹا جو حلقوم میں ہے
نکل جائے
جو ریت کانوں میں ہے!

پھر الاؤ بھڑکنے لگے
دائرہ ایک بنتا چلا جائے
اُلجھے ہوئے سارے دھاگے تکلم کے
اَجزا بیاں کے
عقب کا دیار
اورعناصر زمان و مکاں کے
کہانی میں
آ کر جُڑیں
ماجرا پھر سے یکجاہو
لرزہ سا پیداہو
سینوں میں
نامرتَعِش تار ہِل جائیں
بچھڑے ہوئے سارے کردار
مِل جائیں!
۰۰۰

کس طرح مَیں سمیٹوں

کس طرح مَیں سمیٹوں
مرے بازوؤں کا یہ حلقہ بہت تنگ ہے
پھول ہی پھول ہیں
میرے چاروں طرف
طشت ہی طشت ہیں
جن میں لعل و جواہر کے اَنبار ہیں
کیا خزانے ہیں
یہ کیسی دُنیا کے آثار ہیں
کس علاقے کا نقشہ ہے یہ
کن بہشتوں کے باغات ہیں
ہر رَوِش پراَنار اور مہتابیاں
اطلسی جالیوں میں
خطوطِ بدن کے حجابات ہیں
شہ جھروکوں میں
زُلفوں کے سائے ہیں
پورب کہ پچھم سے اُڑکر
سیہ ،نقرئی اَبر کے
چھوٹے چھوٹے سے ٹکڑے یہاں
کس پہاڑی کے پیچھے سے آئے ہیں
کتنی سجاوٹ ہے
کیسی یہ تزئین ہے
راستوں میں بچھا دُور تک
مخملیں،سُرخ قالین ہے
کیسا گہراترنمّ ہے
جھرنے کی آوازمیں
کوئی اَسرار سا ہے
پرندوں کی پرواز میں
رَس کی بو ندیں
ٹپکتی ہیں شاخوں سے
پوروں سے
سونے کے ذرّات جھڑتے ہیں
مدہوشیوں میں
قدم آسمانوں میں پڑتے ہیں
کیسی کشش چشمِ رویا میں ہے
آگ کس نوع کی
آئنے میں دَہکتی ہے
بجلی کے کوندے میں
کس کی شباہت چمکتی ہے
اے آسمانی دھنک!
تیرے پیکر میں
یہ کون سا رنگ ہے
کس طرح مَیں سمیٹوں
مرے بازوؤں کا یہ حلقہ بہت تنگ ہے!

کیا گھنی رات ہے
وقت یکسُو ہے
ٹھہرے ہوئے پانیوں میں
ستاروں کی جھلمِل ہے
اے لا مکاں!
تیرے سینے میں
جیسے دھڑکتا ہوا کوئی دِل ہے
اَزل سے کوئی چاند روشن ہے
مےَ کے پیالے میں
خوشبُو کے ہالے میں
صرف ایک مَیں
اورصرف ایک تُو ہے
عجب سِحر ہے
ایک جادو ہے
اے زندگی!
تیرے سارے قصَص
تیری سب داستانوں کے اندر
بہت حُسن ہے
الغرض اِن زمینوں زمانوں کے اندر
بہت حُسن ہے
ایک لَے
ایک سُر تال ہے
ایک آہنگ ہے
کس طرح مَیں سمیٹوں
مرے بازوؤں کا یہ حلقہ بہت تنگ ہے!
۰۰۰

یہی زندگی ہے

صُبح سے شام تک
شام سے صُبح تک
تڑتڑاہٹ سے دِل ڈوبتا ہے
مکانوں پہ گلیوں پہ سڑکوں پہ
بادل مسلّط ہیں
اور گولیاں
جیسے اَولوں کے مانند
اِن بادلوں سے برَستی ہیں
لاشیں
سفید اورسلوٹ بھری چادروں سے
ڈھکی ہیں
جو بھیگی ہیں
سُرخ اورتازہ لہوُ سے
و ضُو سے
نماز اور تہجّدسے تو پیٹ بھرتا نہیں
آدمی بس بلکتا ہی رہتا ہے
مرتا نہیں
ذہن چیخوں سے لبریز ہے
اور کنستر میں آٹا نہیں
ایک دِن بھی نہیں ایسا
جومَیں نے مشکل میں کاٹا نہیں

یہ سوالات‘
جومجھ سے تُم کر رہی ہو
جواب اِن کا گولی ہے
گولی‘
جو مَیں نے چلائی نہیں
ُ شکر ہے اَب تلک
فیصلے کی یہ نازُک گھڑی
مُجھ پہ آئی نہیں
مانتا ہوں کہ الفاظ میں
اِک تجلّی سی ہوتی ہے
اِک سِحر ہوتا ہے
تُم جس طرح بولتی ہو
گُلابوں کے جیسے
یہ ریشم سے لَب کھولتی ہو
یہی زندگی ہے
کھنکتی ہوئی ایک آواز ہے
جو ہواؤں میں رَس گھولتی ہے
مگر فسخ ہوتی ہوئی
کتنی صدیوں کی
دہشت کی تہذیب کے
عفو و تادِیب کے
جو عوامِل مرے ساتھ ہیں
اور جو حالات ہیں
کیا خبر کَل
کسی رائفل کے ٹرِگرپہ
میری بھی اُنگلی ہو
اورُ مردہ خانے میں
تُم خوُ ں میں لَت پَت
سفیداورسلوٹ بھری ایک چادر میں
لپٹی ہو ئی ہو!
۰۰۰

بیج اندر ہے

بیج اَندر ہے
لیکن میں باہر ہوں
اَپنی زمیں سے
فقط مُشت دو مُشت اُوپر
خلا میں اُگا ہوں
مِری کوئی جڑ ہی نہیں ہے
نہیں عِلم
تالیف کی روشنی نے
ہَوااور پانی نے کس طرح سینچا
نمی کیسے میرے مساموں میں آئی
جُدائی
سہی میں نے کیسے
مقرر جو اَزلوں سے تھا
بیچ کا فاصلہ
وسط نا وسط کا مرحلہ
میں نے کیسے گوارا کیا
آسماں کے تلے
میں نے دھرتی پہ پھیلے ہوئے
ایک سوندھی سی خوشبُو میں لپٹے ہوئے
لہلہاتے جہانوں کا
خشک اَور بنجر زمانوں کا
کیسے نظارہ کیا
چند کانٹوں کی سُوئی سے
کَونین کے
اَپنے قُطبَین کے
پیچ و خم میں
وجودوعدم میں
جَلی اوِر خفی، سارے اَبعاد کی سمت
کیسے اشارہ کیا
میں نے کیسے بیک وَقت
اَپنی فنا اوِر بقا سے کِنارہ کیا!

بیج اَندر ہے
کیسے سمجھ پائے گا
بے نُمو و نُموکار دُنیا میں
مجھ جیسے پودے نے
کیسے گزارا کیا!!
۰۰۰

مگر وُ ہ نہ آیا

مَیں نے آواز دی
اور حصارِ رفاقت میں
اُس کو بُلایا
مگر وُ ہ نہ آیا
گُلِ خواب کی پتّیاں
دھوپ کی گرم راحت میں گم تھیں
مرے جسم پر
نرم بارِش کی بوندیں بھی گھوڑے کا سُم تھیں
زمیں ایک اَبنوہِ ہجراں میں
اُس چاپ کی مُنتظِر تھی
جو لا عِلم پھیلاؤ میں مُنتشِر تھی
پرندے سُبک ریشمِیں ٹہنیاں
اَپنی مِنقار میں تھام کر اُڑ رہے تھے
نشیبِ جنوں کی طرف
پانیوں کی طرح میرے سایے بہے تھے
کفِ چشم پر مَیں نے اُس کے لیے
شہرِگِریہ سجایا
مگر وُ ہ نہ آیا !

کسی سمت سے اُس کی آہٹ نہ آئی
بہت دیر تک رات کے سَرد خانے میں
اِک آگ مَیں نے جلائی
کہیں دُ ور سے
کوئی بے اَنت محروم آوازآئی
جُدائی جُدائی!
تو پھر مَیں نے اُس کے لیے دُھند ہموار کی
رَستۂ نو بنایا
مگر وُ ہ نہ آیا!!
۰۰۰

یہ سجیلی مورتی

اے ہَوا
پھر سے مجھے چھو کر قسم کھا
صحن میں کس نے قدم رکھا تھا
چپکے سے
یہاں سے کون مٹّی لے گیا تھا
وقت کی تھالی میں
کس نے لا کے رکھ دی
جھلملاتی لَو کے آگے
رقص کرتی
یہ سجیلی مورتی
جس کے نقوشِ جسم
روشن ہورہے ہیں
ویشیا کے ہونٹ
فربہ پاؤں جیسے اِک گرھستن کے
خمیری پیٹ میں
مخمل کی لہریں
نو ری وناری‘
سُبک اندام لہروں میں
بھنور اِک گول سا
پھر سے مجھے چھو کر قسم کھا
اے ہَوا
تُو جانتی ہے
راز سارا
دو الگ طرزوں کی مٹّی
ایک برتن میں ملا کر
گوندھنے کا!!
۰۰۰

ا یک زنجیرِگریہ مرے ساتھ تھی

مَیں گیااُس طرف
جس طرف نیند تھی
جس طرف رات تھی
بند مجھ پر ہوئے سارے دَر
سارے گھر
مَیں گیااُس طرف
جس طرف تیرتھے
جس طرف گھات تھی
مجھ پہ مرکوز تھی اِک نگاہِ سیہ
اوِر عجب زاویے سے
بنائے ہوئے تھی مجھے
سَر سے پا تک ہد ف
مَیں گیااُس طرف
جس طرف ریت کی لہر تھی
مَوجِ ذرّات تھی
مَیں نہیں جانتا
اُس گھڑی
تیرگی کے طلسمات میں
جو اشارہ ہوا
کس کی اُنگلی کا تھا
اوِر جو کھولی گئی تھی مرے قلب پر
کون سی بات تھی
صرف اِتنا مجھے یاد ہے
جب مَیں آگے بڑھا
ایک زنجیرِ گریہ مرے ساتھ تھی!

مَیں پرندہ بَنا
میری پرواز کے دائرے نے جَنا
ایک سایہ گھَنا
کشف ہونے لگا
مَیں ہَرے پانیوں میں
بدَن کا ستارہ ڈبونے لگا
اَور اِک لا تعیّن سُبک نیند سونے لگا
اِک اُڑن طشتری بَن گئی سائباں
مَیں جہاں تھا‘ وہاں تھا کہاں آسماں
ایک شعلہ تھا بس میرے ہونٹوں سے لَف
مَیں گیا اُس طرف
جس طرف جسم و جاں کی حوالات تھی
جس طرف نیند تھی
جس طرف رات تھی
چار جانب بچھی تھی بساطِ عدَم
درمیاں جس کے
تنہا مری ذات تھی!!
۰۰۰

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *