جمعہ، 31 جولائی، 2015

محمد یامین کی تازہ نظمیں

محمد یامین نظم کے بہت عمدہ شاعر ہیں۔ان کی نظموں میں بڑی گہرائی مجھے محسوس ہوتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی یہ تازہ نظمیں بھی اس صفت سے خالی نہیں ہیں۔وہ کم کہتے ہیں اور شاعروں کی ہو ہلڑ سے بھی دور ہی رہنا پسند کرتے ہیں، خود شناس ہیں لیکن بہت زیادہ خود پسند نہیں، اس لیے میں نے انہیں باقاعدہ کبھی خود کو پروجیکٹ کرتے نہیں دیکھا۔ان کی نظموں کے تعلق سے میں کبھی تفصیل سے لکھوں گا، اور یہ ان کے لیےنہیں میرے اپنے علمی اور ادبی تشخص کو مضبوط کرنے کی جانب ایک پیش رفت ہوگی۔ان نظموں میں سادگی ، تاریخ اور ابہام مل جل کرنیا منظرنامہ رقم کرتے ہیں، جن کو ایک دو بار پڑھ لینے سے مکمل تفہیم کا دعویٰ شیطان جیسا علم رکھنے والے شخص کو ہی ہوسکتا ہے۔امید ہے کہ یہ نظمیں ہمیں کچھ کہنے، کچھ سوچنے اور کچھ سمجھنے کی تحریک دیں گی۔


کُتوں کی فوڈ اسٹریٹ 


آج اتوار نہیں ہے
پھر بھی خالی جگہ اک پل میں پُر ہو جاتی ہے
چار اٹھتے ہیں
دس آ جاتے ہیں
آج ہی کیوں ہم گھر سے نکلے
لسی ،مکھن ،ساگ ،اچار،چاول،  روٹی، تیتر بوٹی ،مرغ متنجن، حیدرآبادی
دادی سب  پکوا  دیتیں
آرام سے گھر میں کھا لیتے
لیکن تم یہ پرانے کھانے کب کھاتی ہو
اوپر سے یہ دعویٰ بھی ہے
فوڈ اسٹریٹ  کے کھانے تازہ ہوتے ہیں
تم بھی  ان کا فیور کرتی رہتی ہو
کچھ کچھ فیورموسم بھی کر دیتا ہے

ـــــــــــ ساتھ چپکنے سے کیا ہو گا
 ہر شے دانت بجاتی خنکی نےسُن کر دی ہے
سب ٹھنڈا ہے
بھوک بہت ہے لیکن جی متلاتا ہے
اندر اندر
 کسی کھرونچ  کا زخم ہے جو تڑپاتا ہے 

ـــــــــــ آج کسی بھی میز کے نیچے مال نہیں ہے
بھوکوں کا کوئی حال نہیں ہے
آج بھی شاید  پیزے سے تاکیزے کو  کوئی دانت ملا ہے
کافی خوش ہے
پیٹ میں دوزخ جھونک  رہا ہے

ـــــــــــ ویٹر کے بھی کان نہیں ہیں
سُن تو لے
کون کہاں سے بھونک رہا ہے

سرکس

وہ دونوں
لپیٹے ہوئے اپنی گردش
لگاتار چلتے ہیں
 کم  ہی قریب آتے دیکھا ہے ان کو
کبھی ایسا ہو بھی تو ڈرتا ہوں
یک جان ہو کر
یہ دوسے کہیں ایک ہی بن نہ جائیں
بجا ،  ایک پہیا تو سرکس میں چلتا ہے
جوکر گھماتا ہے
لیکن یہ گاڑی  کہاں چلنے والی ہے
 جیون کی!

ڈر ڈر کے
 درزوں سے آنکھیں لگاتا ہوں
شاید کبھی دیکھ پاؤں میں یک جان ان کو
اور اپنی  یہ پنسل پکڑ کر
بھروں رنگ جیون کے
نقشِ خیالی میں!
لیکن کہاں پنسلوں سے یہ جیون کا نقشا بنا ہے
 حقیقت کہاں کاغذوں پر اُگی ہے
کبھی آگ، پانی  سے یک جان ہو کر  جلی ہے
زمیں پر اگر ایک گُم  دوسرے میں ہوا تو
 یہ جانو کہ اب وہ زمیں پر نہیں ہے

میں چھپ چھپ کے
درزوں سے آنکھیں لگا کر
 یہی دیکھتا ہوں
الگ اپنے بستر بچھاتے ہیں
بتی بجھاتے ہیں
اور پھر
خموشی کی لمبی سڑک پر
نہ جانے کہاں جا نکلتے ہیں
جیون کی گاڑی کو لے کر۔۔۔۔
 
ٹریک

بجاتا ہے سیٹی
تو منھ سے نکلتے ہیں بادل
چمکتی ہے بجلی
زمیں تھرتھراتی  ہے
آندھی سی آتی ہے
وہ لیٹے لیٹے ہی سنتی ہے
مانوس آواز
لوہے پہ بجتی ہے
تلووں سے میخیں سی گرتی ہیں
بازوگلابوں سے زخمی ہیں
چھلنی ہیں سانسیں
ہمکتے ہوئے خواب ہموار سینے پہ شاید
ابھرنے لگے ہیں
جنھیں دیکھ کر وہ لڑھکنے لگا ہے
۔
 وہ ہر دم دراز اس کی راہ میں پڑی سوچتی ہے
کہ آئے گا
میرے بدن سے وہ گزرے گا
کوئی بات ایسی بھی ہو گی کبھی
جواسے روک لے گی
اور آگے نہیں جائے گا وہ

کہاں جائے گا اس سے آگے
وہیں تک ہے وہ بھی
جہاں تم بچھی ہو

سادہ سی بات

ہر مشکل
آسانی سے ملتی ہے
اور آسانی
مشکل سے

جنگل میں شام

سفر آگے بھی باقی ہے
مناسب ہے کہ اب گھوڑا بھگاؤ
جواں مردی بچاؤ
کسی دن کام آئے گی
کہیں میدان سجنے پر


 

جمعرات، 30 جولائی، 2015

غنڈہ گردی کو دیش بھکتی مت کہیے/رویش کمار

دنیا تبدیل ہوتی جارہی ہے، ایک طرف مغرب میں خلا میں زندگی تلاش کرنے کے لیے اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں، تو دوسری طرف مشرقی ممالک میں زندگی جیسی حسین اور خوبصورت نعمت کو عقل کے ذریعے مزید خوبصورت بنانے کے بجائے لوگ مذہبی جذبات کے ذریعے روز بروز بدصورت، کریہہ اور خطرناک بناتے جارہے ہیں۔آپ نے انٹرنیٹ پر ایسی ہزاروں پوسٹ دیکھی ہونگی، جن پر کبھی اللہ رسول کا حوالہ دے کر لاکھوں لائکس مانگی جاتی ہیں، وہ لاکھوں لائکس دراصل ملک میں موجود جنونی اور شدت پسند قسم کے مذہبی لوگوں کی نمائندگی کرتی ہیں، کسی چیز کو پسند کرنا اور اس پر تنقید نہ برداشت کرپانا، ایک قسم کے پاگل پن کی علامت ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان نے سوچنے کا کام ذہن کے بجائے کسی اور عضو سے لینا شروع کردیا ہے۔پچھلے دنوں میں نے مبارک حیدر صاحب کی ایک پوسٹ دیکھی تھی، جس میں انہوں نے لوگوں کے شدت پسندانہ کمنٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اب کسی معاملے پر باقاعدہ کوئی تحریرفیس بک پر نہیں لکھیں گے۔اسی طرح کسی بھی شخص کی حساس معاملات پر ذرا سی مخالفانہ رائے دیکھ کر لوگ کمنٹس کے خانوں میں گالیاں لکھنا شروع کردیتے ہیں، ایسے موقعوں پر وطن یا مذہب کے لیے لکھے جانے والے خطرناک نعرے پتہ نہیں کیوں مجھے اسی طرح چیختے ہوئے معلوم ہوتے ہیں، جس طرح کوئی شخص ایک بپھری ہوئی بھیڑ کے درمیان شور کی لہروں کو کانوں کو چیرتے ہوئے مھسوس کرتا ہے۔ہم لوگ پاگل ہی نہیں ہوتے جارہے بلکہ اب ہم نے اپنے ڈاکٹروں کو چپ کرانے یا منظر نامے سے بھاگ کھڑا ہونے پر بھی مجبور کردیا ہے۔میں ایسے کئی لبرل لوگوں کو جانتا ہوں، جو لوگوں کے اسی قسم کے رویے سے تنگ آکر ایک دن سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس سے ہمیشہ کے لیے ناتا توڑ لیتے ہیں۔
رویش کمار ہندوستان کے ایک مایہء ناز صحافی ہیں،وہ ایک عرصے سے ہندوستان کے ایک نیوز چینل این ڈی ٹی وی سے وابستہ ہیں اور زبردست تجزیہ نگار اور سیکولر سوچ رکھنے والے تجربہ کار نیوزاینکر اور پروڈیوسر ہیں۔وہ بنیادی طور پر موتیہاری سے تعلق رکھتے ہیں اور کئی عرصے سے دہلی میں مقیم ہیں۔ کسی بھی قسم کے پر تشدد اظہار رائے کا اثر اب سماج پر کتنا پڑتا ہے، یہ تو مجھے نہیں معلوم لیکن ادیب یا صحافی پر کس طرح پڑنا چاہیے، اس کا اندازہ ان کی اس تحریر سے لگایا جاسکتا ہے۔اب ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ ترقی کے تمام ہاتھی دروازوں سے نکلنے کے باوجودہمیں فکر کی چھوٹی سی وہی کٹیا پسند ہے، جو سیاستدانوں، مذہبی ٹھیکیداروں اور ظلم و جہالت کی ایک مکمل تاریخ نے ہمارے لیے بہت پہلے تیار کردی تھی۔
                                                                    ت۔ح



آج صبح واٹس ایپ، مسینجر اور ٹوئٹر پر کچھ لوگوں نے ایک پلیٹ بھیجا، جس پر میرا بھی نام لکھا ہے۔میرے علاوہ کئی اور لوگوں کے نام لکھے ہیں۔اس سلسلے میں لکھا گیا ہے کہ ہم لوگ ان لوگوں میں شامل ہیں، جنہوں نے یعقوب میمن کی پھانسی کی معافی کے لیے صدر جمہوریہ کو لکھا ہے۔اول تو میں نے ایسی کوئی چٹھی نہیں لکھی ہے اور لکھی بھی ہوتی تو میں نہیں مانتا، یہ کوئی دیش دروہ(ملک سے غداری)ہے۔مگر وہ لوگ کون ہیں، جو کسی کے بارے میں ملک کا غدار ہونے کی افواہ پھیلادیتے ہیں۔ایسا کرتے ہوئے وہ کون سی عدالت، قانون اور دیش کا سمان کررہے ہوتے ہیں۔کیا افواہ پھیلانا بھی دیش بھکتی ہے۔
کسی کو ان دیش بھکتوں کا بھی پتہ لگانا چاہیے۔یہ دیش کے لیے کون سا کام کرتے ہیں۔ان کا طرز عمل کیا ہے۔عام طور پر یہ لوگ کسی پارٹی کے کرپشن پر پردہ ڈالتے رہتے ہیں۔آن لائن دنیا میں ایک پارٹی کے لیے لڑتے رہتے ہیں، کئی پارٹیوں کے پاس اب ایسی آن لائن فوج ہوگئی ہے۔ان کی پروفائل ، اس خاص پارٹی کے نشانات سے سجی ہوتی ہے۔کسی میں نعرے ہوتے ہیں، کسی میں نیتا تو کسی میں مذہبی نمائندے۔کیا ہماری جمہوریت نے انہیں ٹھیکا دے رکھا ہے کہ وہ ملک کے غداروں کی پہچان کریں، ان کی ٹائم لائن پر حملہ کر کے انہیں دہشت زدہ کرنے کی کوشش کریں۔
عوامی زندگی میں طرح طرح کے سوال کرنے سے ہماری شہریت نکھرتی ہے۔کیوں ضروری ہو کہ سارے ایک ہی طرح سے سوچیں۔کیا کوئی الگ سوچ رکھے تو اس کے خلاف افواہ پھیلائی جائے اور متشدد لفظوں کا استعمال ہو۔اب آپ قارئین کو اس کے خلاف بولنا چاہیےاوراگر آپ کو یہ معمولی بات لگتی ہے تو مسئلہ آپ کے ساتھ بھی ہے اور اس کے شکار آپ بھی ہونگے۔ایک دن آپ کے خلاف بھی واٹس ایپ پر میسج گھومے گا اورزہر پھیلے گا، کیونکہ اس کھیل کے اصول وہی طے کرتے ہیں، جو کسی پارٹی کے حامی ہوتے ہیں، جن کے پاس وسائل اورفسطائی قوتیں ہوتی ہیں۔صحافی نکھل واگھلے نے ٹوئیٹ بھی کیا ہے ۔'اب اس دیش میں کوئی بات کہنی ہو تو لوگوں کی بھیڑ کے ساتھ ہی کہنی پڑے گی، ورنہ دوسری بھیڑ کچل دے گی۔۔۔۔' آپ عام پڑھنے والوں کو سوچنا چاہیے ۔آپ جب بھی کچھ کہیں گے، اکیلے ہی ہونگے۔
پوری دنیا میں آن لائن غنڈہ گردی ایک خطرناک رجحان کے طور پر ابھر رہی ہے۔یہ وہ لوگ ہیں، جو اسکولوں میں Bully بن کر آپ کے معصوم بچوں کو جیون بھر کے لیے دہشت زدہ کردیتے ہیں، محلے کے چوک پر کھڑے ہوکر کسی لڑکی کے باہر نکلنے کے تمام امکانات کو ختم کرتے رہتے ہیں اور سماجی وقار کو برباد کرنے کا خوف دکھاکر بلیک میل کرتے ہیں،یہ رجحان قاتلوں کا ہے، ہوشیار رہیے۔
بیشک آپ کسی بھی پارٹی کو پسند کرتے ہوں، لیکن اس کے اندر بھی تو صحیح-غلط کو لے کر بحث ہوتی ہوگی۔چار نیتائوں کی الگ الگ لائنیں ہوتی ہیں، اس لیے آپ کو اس رجحان کی مخالفت کرنی چاہیے۔یاد رکھیے گا، ان کا گینگ بڑھے گا تو ایک دن آپ بھی پھنسیں گے۔اس لیے اگر آپ کی ٹائم لائن پر آپ کا کوئی بھی دوست ایسا کررہا ہے تو اسے جتا دیجیے۔اس سے ناتا توڑ لیجیے۔اپنی پارٹی کے نیتا کو لکھیے کہ یہ سمرتھک(معاون رکن)رہے گا تو ہم آپ کے سمرتکئ نہیں رہ پائیں گے۔سوال کرنا مخالفت نہیں ہے۔ہر پارٹی میں ایسے غنڈے بھر گئے ہیں۔اس کے سبب آن لائن دنیا اب عام لوگوں کی دنیا رہ ہی نہیں گئی ہے۔
آن لائن غنڈہ گردی صرف پھانسی، دھرم یا کسی نیتا کے تئیں عقیدت کے سلسلے میں نہیں ہوتی ہے۔فلم اداکارہ انشکا شرما نے ٹوئیٹ کیا ہے کہ وہ غیر ذمہ دار باتیں کرنے والے یا کسی کے وقار کو نقصان پہنچانے والوں کو بلاک کردیں گی۔مونیکا لیونسکی کا 'ٹیڈ' پر دیا گیا بھاشن بھی ایک بار اٹھا کر پڑھ لیجیے۔مونیکا لیونسکی آن لائن غنڈہ گردی کے خلاف کام کرتے ہوئے ہی لندن کی ایک ایجنسی سے جڑ گئی ہیں۔ان کا مقصد ہے کہ اب وہ کسی اور کو اس غنڈہ گردی کا شکار نہیں ہونے دیں گی۔فیس بک پر سابق ایڈیٹر شنبھوناتھ شکلا کے پیج پر جاکر دیکھیے۔آئے دن وہ اس رجحان سے پریشان ہوتے ہیں اور اس سے لڑنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔کچھ کھل کر لکھنا مشکل ہوگیا ہے۔اب آپ کو سمجھ آ ہی گیا ہوگا کہ برابری اور is equal toکچھ بھی نہیں، بلکہ چپ کرانے کی ترکیب ہے۔آپ بولیں گے تو ہم بھی آپ کے بارے میں بولیں گے۔کیا کسی بھی مہذب سماج کو یہ منظور ہونا چاہیے۔
ان عناصر کو نظر انداز کرنے کی صلاح بالکل ایسی ہے کہ آپ ان غنڈوں کو قبول کرلیجیے،دھیان مت دیجیے۔سوال ہے کہ دھیان کیوں نہ دیں۔وزیر اعظم کے نام پر بھکتی کا نعرہ لگانے والوں کی وجہ سے جو فساد پیدا ہوا، وہ کئی لوگوں نے جھیلا ہے۔وزیر اعظم کو لے کر جب یہ سب شروع ہوا تو وہ اس خطرے کو سمجھ گئے۔باقاعدہ عوامی چیتاونی دی لیکن، بعد میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ جن لوگوں کو بلاکر یہ چیتاونی دی گئی، ان میں سے کئی لوگ خود ایسا کام کرتے ہیں۔اس لیے میں نے کہا کہ اپنے آس پاس کے ایسے دوستوں یا لوگوں پر نگاہ رکھیے، جو آن لائن غنڈہ گردی کرتے ہیں، یہ لوگ عوامی زندگی کے تانے بانے کو توڑ رہے ہیں۔
موجودہ معاملہ یعقوب میمن کی پھانسی کی مخالفت کا ہے۔جب تک سزا کے خلاف تمام قانونی راستے ہیں،ان کا استعمال ملک سے غداری کیسے ہوگیا۔سوال اٹھانے اور برابری کی مانگ کرنے والوں میں تو ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی بھی ہیں۔عدالت نے تو نہیں کہا کہ کوئی ایسا کرکے ملک سے غداری کررہا ہے۔اگر اس معاملے میں عدالت کا فیصلہ ہی آخری ہوتا تو پھر گورنر اور صدر کے پاس دوبارہ غورکرنے کے آپشن کیوں ہوتے۔کیا یہ لوگ قانون بنانے والوں کو بھی غدار قراردیں گے۔
یعقوب میمن کا معاملہ آتے ہی وہ لوگ، جو Wyapmسے لے کر تمام طرح کے کرپشن کے الزامات کے سبب آن لائن دنیا سے بھاگے ہوئے تھے، لوٹ آئے ہیں۔خود دھرم کی آڑ لیتے ہیں اور دوسروں کو دھرم کے نام پر ڈراتے ہیں، کیونکہ آخری اخلاقی قوت انہیں دھرم سے ہی ملتی ہے۔وہ اس اتحاد کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں جو دھرم کے نام پر اپنے آپ وجود میں آجاتا ہے یا جس کےوجود میں آنے کا امکان ہوتا ہے۔فلموں میں آپ نے دادا ٹائپ کے کئی کردار دیکھیں ہونگے، جو سو ناجائز کام کرے گا، لیکن پوجا پاٹھ بھی کرے گا۔اس سے وہ سماج میں اہمیت حاصل کرنے کی کمزور کوشش کرتا ہے۔اگر آن لائن غنڈہ گردی کرنے والوں کی چلی تو پورا دیش ، دیش دروہی(غدار)ہوجائے گا۔
یہ بھی ٹھیک ہے کہ کچھ لوگون نے یعقوب میمن کے معاملے کو مذہب سے جوڑ کر کافی نقصان پہنچایا ہے، غلط کام کیا ہے۔پھانسی کے آنکڑے بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ فیصلے کا تعلق دھرم سے نہیں ہے۔لیکن کیا اس بات کا وہ لوگ چارے کی طرح استعمال نہیں کررہے ہیں جو ہمیشہ اسی فراق میں رہتے ہیں کہ کوئی چارا ملے نہیں کہ اس کی چرچا شہر بھر میں پھیلا دو۔کیا آپ نے انہیں یہ کہتے (نہیں)سنا کہ وہ(لبرل لوگ) دھرم سے جوڑنے کی مخالفت تو کرتےہی ہیں، مگر پھانسی کی سزا کی(بھی) مخالفت کرتے ہیں۔یعقوب کا معاملہ مسلمان ہونے کا معاملہ نہیں ہے۔دوبارہ غور کرنا ایک قانونی حق ہے۔نئے حقائق سامنے آتے ہیں توانہیں نئے سرے سے دیکھنے کا موقع اور حق عدالت کے پاس ہوتا ہے۔
نوے ممالک میں پھانسی کی سزا کا تصور ہی نہیں ہے۔کیا وہاں یہ طے کرتے ہوئے دہشت گردی اور دوسرے الزامات کا معاملہ نہیں آیا ہوگا۔بربریت کی بنا پر پھانسی کی سزا کی کروڑوں لوگ مخالفت کرتے ہیں۔دہشت گردی ایک بڑا چیلنج ہے۔ہم نے کئی دہشت گردوں کو پھانسی پر لٹکایا ہے، لیکن کیا اس سے دہشت گردی ختم ہوگئی۔سزا کا کون سا مقصد پورا ہوا۔کیا انصاف کا یہی آخری مقصد ہے۔جسے لے کر حب الوطنی جوش مارنے لگتی ہے۔ان کے حملوں سے جو خاندان برباد ہوئے، ان کے لیے یہ آن لائن دیش بھکت کیا کرتے ہیں، کوئی پارٹی والا جاتا ہے ان کا حال پوچھنے؟
پھانسی سے دہشت گردی ختم ہوتی تو آج دنیا سے دہشت گردی مٹ گئی ہوتی۔دہشت گردی کیوں اور کیسے پنپتی ہے، اسے لے کر بھولے مت بنیے۔ان سخت سیاسی سچائیوں کا سامنا کیجیے۔اگر اس کا سبب دھرم ہوتا اور پھانسی سے یہ مسئلہ حل ہوجاتا تو گروداس پور پر ہونے والا دہشت گردانہ حملہ ہی نہ ہوا ہوتا۔دھرم تو آگ میں استعمال ہونے والے گھی کی طرح ہے، تاکہ ایک خاص قسم کی جھوٹے اتحاد کے رجحان کو بھڑکایا جاسکے۔جو لوگ اس بحث میں کودے ہیں، ان کی سوچ اور سمجھ مذہبی پہچان سے آگے نہیں جاتی ہے۔وہ کبھی پاکستان کو دہشت گرد بتادیتے ہیں اور کبھی اس سے ہاتھ ملا کر ڈپلومیٹک تاریخ رقم کردیتے ہیں،ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ تھری ان ون ریڈیو جیسا ہے۔جی میں آئی تو کیسٹ بجایا، جی میں آئی تو ریڈیو، جی میں آئی تو ہم دیش بھکت، جی میں آئی تو آپ دیش دروہی۔

منگل، 28 جولائی، 2015

افسانے کی حمایت میں۔4/شمس الرحمٰن فاروقی

نومبر کا مہینہ ، شام کا وقت،اور غضب کی دھند۔ یا دھند نہیں کہرا کہیئے۔ بہار میں کہاسا کہتے ہیں، مجھے خیال آیا۔ چلئے کہاسا ہی سہی، لیکن نومبر کی شام میں اتنا کہرا /کہاسا کسی نے دیکھا نہ ایسی دھند دیکھی۔ نہیں، دھند تو ہوسکتی ہے۔ ہلکی گلابی سردی، زمین سے لپٹ کر دھیرے بہتی ہوئی کچھ ٹھنڈی ہوا،چولھوں سے اٹھتا اور فضا میں الجھتا ہوا دھواں، تیز یا سست آتی جاتی گاڑیوں کی اڑائی ہوئی گرد، اور کہیں کہیں، کبھی کبھی، واپس لوٹتے ہوئے ریوڑوں کے قدموں کی دھول، یہ سب مل کر دھند پیدا کر ہی دیتی ہیں۔ کبھی کبھی تو کار چلانا مشکل ہوجاتا ہے۔ مگر یہ دیہات کہاں ۔۔۔یہ تو شہر ہے۔مگر کون سا شہر؟ میں سر شام انجان گڈھ سے سراے میر اں کے لئے نکلا تھا۔ بمشکل پچاس کلو میٹرکا فاصلہ ہوگا۔پچاس کلومیٹر میں ۔۔۔کتنے میل ہوتے ہیں؟ میں میل اور سنگ میل کے زمانے کا آدمی ہوں، مینار میل بھی جانتا ہوں، یہ کلومیٹر میری سمجھ میں نہیں آتا۔ ہمیشہ بھول جاتا ہوں کہ ایک اعشاریہ چھہ کلومیٹر برابرایک میل ہوتا ہے۔ بھلا کون حساب لگا سکتا ہے کہ پچاس کلومیٹر میں کتنے میل ہوتے ہیں؟تیس بتیس میل ہوں گے۔ میل کہہ دینے سے فاصلہ آسان تھوڑی ہوجاتا ہے۔ مگر یہ راستے میں شہر کہاں آٹپکا؟ انجان گڈھ بھی قصباتی، سراے میراں بھی قصباتی۔۔۔خوش نوا مرغ گلستاں رند قصباتی ہے میاں۔۔۔مجھے میر کا مصرع یاد آیا۔ نہیں، لاحول ولا قوۃ، میرا حافظہ ابھی سے جواب دے رہا ہے ۔ میر نے ’’قصباتی‘‘ نہیں ’’باغاتی‘‘ کہا ہے۔ تو بھلا ’’رند باغات‘‘ کیا ہوا؟ وہ رنگین مزاج لوگ جو باغوں میں گھومتے پھرتے تھے؟
۔۔۔ نہیں احمق، ’’باغات‘‘ در اصل ایک محلہ تھا اصفہان میں۔وہاں کے لوگ بڑے حسین مشہور تھے۔’’ان صحبتوں میں آخر‘‘میں اسی مناسبت سے لبیبہ خانم کو اصفہان میں آباد دکھایا گیاہے۔مگر یہ شہر تو اصفہان نہیں۔۔۔یہ میں بار بار شہر کیوں کہہ رہاہوں؟ یہ تو معمولی سی آبادی کا گائوں ہونا چاہیئے۔ لیکن ابھی ایک دو میل ۔۔۔نہیں نہیں ایک دو یا تین کلومیٹر پہلے ایک بہت بڑے ہوائی اڈے کی روشنیاں نظر آئی تھیں۔ رن وے پرجھلملاتی ، بڑی بڑی روشنیوں سے چشمکیں کرتی ہوئی ٹھنڈی سبزی مائل نیلی روشنیاں، کنٹرول ٹاور سے پرواز کرتی ہوئی طاقتور سرچ لائٹیں، ہوائی اڈے کی چہار دیواری چکا چوندھ کرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے سورجوں کی طر ح تمازت بھرے سوڈیم چراغوں کی آغوش میں مشغولیت سے بھری ہوئی ٹرمنل کی عمارت۔۔۔اجی کہاں کا قصہ لے بیٹھے ہو، ہو گا، کوئی ہوائی اڈا ہی ہو گا۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ تم جہاں سے گذر رہے ہو وہ کوئی شہر ہی ہے۔ گذر رہے ہو؟ کون مسخرا گذر رہا ہے؟ گاڑی بمشکل ہی آگے بڑھ رہی ہے، کہرا۔۔۔کہاسا ہی اتنا ہے کہ بس۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔ کیا فضول محاورہ ہے۔ ہاتھ میں کون سی آنکھیں لگی ہوئی ہیں کہ دوسرا ہاتھ دکھائی دے۔مگر زبان تمھاری محکوم نہیں، تم زبان کے محکوم ہو۔ اور وہ جو کہتے ہیں کہ زبان تو فلاں استاد کے گھر کی لونڈی ہے؟ ہونہہ، تو ذرا اس لونڈی کی اسی ادا کو ٹھیک کر دیں۔۔۔حکم دے دیں کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دینا غیر منطقی اور غیر سائنسی ہے، اس لئے آج سے یہ محاورہ ہماری لونڈی کی زبان پر نہ آئے نہیں تو۔۔۔نہیں تو کیا؟ واجب القتل ہوگی؟زبان کو قتل کردوگے تو پھر تم بولو گے کیا ؟بھوک لگے گی تو روٹی کیسے مانگو گے۔۔۔؟
مگر گاڑی آگے کیوں نہیں بڑھ رہی ہے؟ ظفر اقبال صاحب بھی عجب مسخرے تھے۔ کہہ گئے
گاڑی اتنی نہیں پرانی بھی
بات کیا ہے جو کھینچتی نہیں لوڈ
یہاں لوڈ کون سا ہے، یہاں تو میں اکیلی جان ۔۔۔اکیلی جان چوپایوں کے جنگل میں بھٹکتی ہے خدا جانے کس کا مصرع ہے۔ مگر ہے بڑا ڈرائونا۔ اب تو لوگ کاروں اور اسکوٹروں اور موٹر سائیکلوں کے جنگل میں بھٹکتے نہیں، صرف قتل ہوتے ہیں۔ اماں موٹر سائیکل کو ہم لوگ پھٹ پھٹیا کہتے تھے، یا پھٹ پھٹی کہتے تھے۔ کیسے اچھے لفظ تھے۔ موٹر سائیکل کے لئے کئی زبانوں میں ایسے ہی لفظ ہیں۔بعد میں موٹر سائیکل کہنے لگے، چلو اس میں بھی ایک شان تھی۔ مگر اب صرف بائک کہتے ہیں۔ ہم لوگوں کی باتیں چھوٹی کیوں ہوتی جارہی ہیں؟ مگر یہ راستہ تو چھوٹا نہیں، لمبا ہوتا جارہا ہے۔پہلے زمانے میں شہروں کو کنکریٹ جنگل concrete jungleکہتے تھے۔ اب تو چلتا ہوا جنگل rolling jungleکہنا چاہیئے، جیسے ہمارے یہاں ریگ رواں کا استعارہ یا مشاہدہ تھا، ایسے ریگستانوں کے لئے جہاں ریت ہر وقت اڑتی رہے، گویا آگے بڑھتی جا رہی ہو۔ ملا سابق کا کیا عمدہ شعر ہے نفس کے بیاساید از ہرزہ گردی
کہ منزل گہے نیست ریگ رواں را
یہ ملا سابق تھے کون؟ کوئی ہوں گے، سابق کے معنی ہیں آگے جانے والا۔ وہ تو آگے نکل گئے، یہاں میں مسبوق بلکہ مذبوح ہوا جا رہا ہوں۔ مگر دیکھئے استعارے میں کیا قوت ہے کہ منزل گہے نیست ریگ رواں را کس خوبی سے ہمارے جدید معاشرے پراس کا اطلاق ہوتا ہے۔ سڑکوں پر کھڑے ہونے کی جگہ نہیں ملتی اور جگہ مل بھی جائے تو فرصت کسے۔ موٹریں، بسیں، بائکیں، آٹو رکشے اس طرح بپھرے ہوئے اندھا دھند بھاگتے رہتے ہیں گویا انھیں کہیں رکنا ہی نہ ہو۔
اندھادھند۔دھند؟یہاں کی د ھند کب ختم ہوگی؟ مجھے رات ڈھلے سراے میراں ضرور پہنچنا ہے۔اچانک سامنے سرخ نیلی روشنیاںنظر آرہی ہیں۔ دو سپاہی ہاتھ اٹھا کر راستہ روک رہے ہیں۔میری جھنجھلاہٹ بڑھتی جارہی ہے لیکن میں گاڑی کو سپاہیوں کے بالکل پاس لا کر روکتا ہوں۔ میں ابھی کچھ کہہ نہیں سکا ہوں کہ سپاہی بتاتا ہے، آگے راستہ بند ہے صاحب۔ کیوں؟میں چیں بجبیں ہو کر پوچھتا ہوں۔ اچانک باڑھ آجانے کے سبب آگے سڑک کئی گز دھنس گئی ہے اور دو تین سو گز جگہ جگہ سے کٹ گئی ہے۔ مرمت کا کام جاری ہے۔ اس میں تو گھنٹوں لگیں گے۔ مجھے جانے دو جمعدار صاحب بہت ضروری کام ہے۔ راستہ بالکل نہیں ہے جناب۔ لیکن ایک سروس روڈ ہم بنا رہے ہیں، ایک دو گھنٹے میں بن جائے گی۔ اتنی دیر آپ ہمارے گیسٹ ہائوس میں ٹھہرئیے، وہ سامنے نظر آرہا ہے۔ وہ ہاتھ سے اشارہ کرتا ہے، اسی ہاتھ سے جس میں وہ اے۔کے۔سینتالیس تھامے ہوئے ہے۔لال نیلی روشنی میں پھیلا ہوا ہاتھ اور اس کی توسیع بہت بھیانک معلوم ہورہے ہیں۔
میں بائیں طرف دیکھتا ہوں۔ ایک دھندلی سی عمارت نظر آتی ہے جس کے پورٹیکو میں زرد کمزور بلب جل رہا ہے۔ سپاہی کا ہاتھ ابھی تک ویسا ہی سخت اور سیدھا اشارہ کررہا ہے۔ گیسٹ ہائوس یا جیل خانہ؟ مگر بھلا مجھے کیوں قید کریں گے، میں تو ایک بالکل بے ضرر ادھیڑ عمر کا افسانہ نگار ہوں۔اور۔۔۔اور۔۔۔یہ تو کچھ کسی افسانے کا آغاز معلوم ہوتا ہے۔تو کیا میں، میں نہیں ہوں، کسی افسانے کا کردار ہوں؟افسانے کے کردار اور افسانوی کردار میں کیا فرق ہے؟
میں اپنی گاڑی پورٹیکو میں لے جانا چاہتا ہوں لیکن ایک اور سپاہی کہیں سے نکل کر آتا ہے اور اشارہ کرتا ہے کہ گاڑی یہیں کھڑی کر دی جائے۔ میں دل ہی دل میں دانت بھینچتاہوں لیکن گاڑی کھڑی کر کے بظاہر نہایت لا پروائی سے کمرے میں داخل ہوجاتا ہوں۔ وہاں کئی لوگ پہلے سے موجود ہیں، لیکن روشنی بہت کم ہے اس لئے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کتنے لوگ ہیں۔کچھ پرانے زمانے کے ریلوے ویٹنگ روم جیسا سماں ہے۔مگر یہ ماجرا کیا ہے کہ فوجیوں نے اچانک پہنچ کر سڑک بنانی شروع کردی۔ یہاں تو ضلع حکام اور پولیس والے ہی کئی دن بعد ایسے موقعوں پر معائنے کے لئے آتے ہیں اور فوج تو تب بلائی جاتی ہے جب معاملہ سول حکام کے قابو کے بالکل باہر ہو گیا ہواور یہ فوجی لوگ اتنے شریف کب سے ہو گئے کہ راہگیروں کے ٹھہرنے اور آرام کا انتظام کریں۔ ورنہ لوگ تو تین تین چار چار دن سڑک پر انتظار کرتے ہیں جب کہیں کسی راحت کی امید پیدا ہوتی ہے۔
میں سوچ رہا ہوں اس بات پر افسانہ ہو سکتا ہے۔ہوسکتاہے؟ مگر نہیں، یہ افسانہ ابھی تو کچھ کہتا نہیں معلوم ہوتا۔ محض ایک اتفاقی اور بے معنی سا واقعہ ہے ۔نہیں ابھی نہیں، لیکن جب میں اس میں کوئی با معنی انجام داخل کروں تب تو افسانہ بن جائے گا؟اچھا مان لو میں اس میں یہ دکھائوں کہ یہ لوگ فوجی نہیں اور نہ سڑک ہی آگے مخدوش ہے۔ یہ لوگ ڈاکو ہیں۔۔۔نہیں ڈاکو اتنی دیر تک انتظار نہیں کرتے، وہ تو لوٹ مار کر جلد از جلد رفوچکر ہوجاتے ہیں۔ اوریہ کچھ خاص دلچسپ بات بھی نہیں کہ ڈاکوئوں نے کچھ لوگوں کو۔۔۔نہیں، ڈاکو ہی کیوں؟ اگر یہ علاقہ انتہا پسندوں کا ہوتا۔۔۔ہاں ، انتہا پسند وں نے گھات لگائی تھی، سڑک کے مسافروںکو گولی ۔۔۔مگر انتہاپسندوں نے ہم لوگوں کومار بھی دیا تو کیا؟ افسانہ تو پھر بھی نہ بن سکے گا۔ افسانے میں تو ہر واقعے کے، یا کم از کم مرکزی واقعے کے، کچھ معنی ضروری ہیں۔تو کیا یہ معنی کافی نہیں کہ کچھ انتہا پسندوں نے ۔۔۔انتہا پسندی بھی تو ایک معنی رکھتی ہے۔لیکن کوئی معنی نہ رکھنا بھی تو معنی کی ایک قسم ہے؟بھلا کافکا کے افسانوں میں معنی ہیں کہ نہیں؟ ہیں،لیکن کیا معنی ہیں ؟
تو کیا کافکا کے افسانے ہم سے کچھ بھی نہیں کہتے؟پتہ نہیں یہ نقاد بھی عجب شے ہیں۔ اب تک تو یہ کہا جاتا تھا کہ کافکا کے افسانوں میں لگتا ہے کہ بہت کچھ ہورہا ہے اور ایسا ہورہا ہے جو معنی خیز اور اہم معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یہ ٹھیک سے نہیں معلوم ہوتا کہ کون سی بات اہم ہے اور کون سی بات زیب داستاں کے لئے۔۔۔تو کیا افسانے میں کچھ زیب داستاں کے لئے بھی ہو سکتا ہے؟ ہوسکتا ہے کیا معنی، ہوتا ہی ہے۔تو پھر افسانے میں معنی۔۔۔اجی جو زیب داستاں کے لئے ہوتا ہے وہ بھی معنی کی تعمیر میں اپنا حصہ رکھتا ہے۔ بھلا وہ کیسے؟پتہ نہیں، میں تو افسانہ نگار ہوں، گھٹیا ہی قسم کاسہی۔ یہ سب جاننا میرا کام نہیں میرا کام افسانہ لکھنا ہے۔ لیکن کافکا۔۔۔بھائی دنیا میں کافکا ہی تو ایک افسانہ نگار ہی نہیں۔مانا کہ اس کے افسانے میں بہت کچھ ہوتا رہتا ہے اور لگتا بھی ہے کہ یہ سب معنویت سے بھرا ہوا ہے۔لیکن معنویت کھلتی نہیں۔ ہم صرف قیاس لگا سکتے ہیں۔ لیکن اب بعض نقاد کہنے لگے ہیں کہ کافکا کے افسانے میں کچھ نہیں ہے۔ صرف اس کی نفسیاتی الجھنیں ہیں۔ ورنہ اسے انسان سے ہمدردی بھی نہیں۔
انسان سے ہمدردی، یہ ہوئی نہ بات۔لہٰذا افسانے کا اولین کام ہے کہ وہ انسان کے تئیں ہمدرد نظر آئے۔ ل۔۔۔لیکن کون سے انسان کے تئیں؟ ظالم کے تئیں ہمدردی رکھنا ۔۔۔نہیں نہیں انسان سے مطلب ہے عالم انسانی، اور عالم انسانی سے مطلب ہے اس عالم کے وہ فرد جو زندگی میں معنی تلاش کرنا چاہتے ہیں۔زندگی میں معنی؟ زندگی میں معنی کی بات بعد میں کریں گے۔ ابھی جو واقعہ پیش آرہا ہے اور جس کے ہونے کا چشم دید گواہ میں ہوں، اس میں کوئی معنی، یا کچھ معنی ہیں کہ نہیں؟پتہ نہیں۔۔۔
بھلا میں معنی کے چکر میں کہاں سے پڑگیا۔ اچھا معنی نہ سہی، کسی افسانے میں کچھ تو ہونا چاہیئے۔ہاں یہ بات تو پتے کی ہے۔توشیخ صاحب جس شعر کو پڑھ کر ملاقاتی کی سخن فہمی کا امتحان کرتے تھے اس میں کیا ہے؟
ٹوٹی دریا کی کلائی زلف الجھی بام میں
مورچہ مخمل میں دیکھا آدمی بادام میں
چھوڑو یا رکہاں کی بات لے بیٹھے۔ افسانے میں کچھ ہوتا ہے، کچھ واقع ہوتا ہے، اور وہ بامعنی ہوتا ہے۔ اس شعر میں تو کچھ بھی نہیں ہورہا ہے۔ صرف چار الگ الگ بیانات ہیں۔۔۔نہیں ، ذرا ٹھہرو۔وہ کیا تھا، کتا کھا گیا ڈھول نہ بجا۔۔۔ہاں امیر خسرو سے منسوب شعر ہے
کھیر پکائی جتن سے چرخا دیا چلا
آیا کتا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجا
یہاں بھی تو چار باتیں ہیں۔۔۔نہیں تین باتیں ہیں جو ہو چکی ہیں اور ایک ایسی ہے جو ہونے والی ہے۔ تو شاید ایسا بیان زیادہ معنی خیزہوتا ہے جس میں کچھ ہونے والا ہو؟ارے بھائی کچھ ہونے سے کیا ہوتا ہے؟ کچھ ہونے کا مطلب بھی تو ہو۔
تو اس کے معنی ہیں کہ جو کچھ اس وقت مجھ پر گذر رہی ہے ۔۔۔چاہے تھوڑی دیر میں یہ فوجی سپاہی مجھے گولیوں کی باڑھ ہی پر کیوں نہ رکھ لیں، اس میں کچھ معنی نہیں؟ معنی یہ ہیں کہ کچھ معنی نہیں؟ لیکن یہ تو سچا واقعہ ہے اور پھر بھی بے معنی ہے۔لہٰذا معنی کا ہونا نہ ہونا سچائی پر منحصر نہیں۔ ارے یہ میں کیا کہہ گیا؟سچائی بے معنی ہے؟احمق انسان(شاید اسی لئے لوگ افسانہ نگاروں کو احمق کہتے ہیں)سچائی کو بے معنی کون کہتا ہے؟ ہاں کوئی سچا واقعہ بے معنی ضرور ہو سکتا ہے۔
تو کیایہ ہم انسانوں کا المیہ نہیں کہ جو ہم پر گذرتی ہے اس میں کوئی معنی نہیں ہوتے؟ المیہ۔۔۔کتنا اچھا لفظ ہے۔ ایک دن میری نظر ہندی کی ایک کتاب پر پڑی، عنوان کچھ ایسا تھا، فلاں شے کی تراسدی۔ میں تذبذب میں رہا کہ یہ تراسدی کیا بلا ہے؟شایدقدر و قیمت، یا تاریخ، یا روایت کے معنی میں ہندی کا کوئی لفظ ہوگا۔ لیکن کسی سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ Tragedyکی ہندی ’’تراسدی‘‘ ہے۔ ارے صاحب زبان میں ’’ٹ‘‘ اور ’’ڈ‘‘ اور ’’ج‘‘ تینوں موجود ہیں اور اول الذکر دونوں تو زبان کی خاص پہچان مانی جاتی ہیں۔ پھر ان کو ترک کرکے یہ ’’تراسدی‘‘ چہ بوالعجبی است؟ جیسے بعض اردو والے جوش ایمان سے مغلوب ہو کر ’’ٹیلیگراف‘‘ کو ’’تلغراف‘‘ اور پروپیگنڈا‘‘ کو ’’بروبا غندہ‘‘لکھنے اور بولنے کی سفارش کرتے تھے۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے ہماری عورتوں نے ایک سے ایک معنی خیز گالیا ں ایجاد کر رکھی تھیں۔۔۔ پھر وہی معنی کا چکر۔ مجھے خیال آتا ہے کہ کامیو(Camus)کے ڈرامے ’’کیلیگیولا‘‘(Caligula)میں کچھ ایسا ہی جھنجھٹ ہے کہ ایک سراے میں مقیم سارے مسافروں کا قتل ہوجاتاہے ۔اور قتل بالکل بے وجہ ہے۔ باپ رے باپ، رونگٹے کھڑے کردینے والی بات ہے ،ہے نہ۔ اور میرا، بلکہ ہم لوگوں کابھی تو کچھ ایسا ہی معاملہ ہونے جارہاہے؟ اللہ بچائے، لیکن اگر ایساہوا تو کون ہمارا افسانہ لکھے گا اور یقین بھی کس کو آئے گا؟ روز ہی اخبار میں اور ٹی وی پر ایک سے ایک گھنائونے ایک سے ایک لرزہ خیز ایک سے ایک دردناک قتل کی وارادات کا تذکرہ ہوتا ہے۔ اور سماج میں سیاست میں، برائیاں ہی برائیاں ہیں۔اور ہمارے افسانہ نگار ان کی روداد بھی اسی ٹی وی رپورٹ یا اخباری کہانی کی طرح بیان کرتے ہیں۔ انھیں افسانہ نگار کون کہتا ہے؟ کم سے کم میں تو نہیں کہتا۔
افسانے میں کوئی بھی صورت حال اس وقت با معنی ہوتی ہے جب اسے متخیلہ کے رنگوں سے سرشار کیا جائے۔یعنی ہر بات کو تصور کیا جائے کہ یہ یوں ہوئی ہوگی، یا یوں ہو سکتی ہے۔ پھر تصور کی آنکھ سے جو دیکھیں اسے تخیل کی زبان میں بیان کیا جائے۔تخیل کی زبان، یعنی ؟اس وقت گھبراہٹ کے مارے حلق خشک ہوا جا رہا ہے مثالیں کہا ںسے یاد کروں۔ لیکن دیکھو میاں، اسی بات کو لے لو کہ نذیر احمد نے ظاہر دار بیگ کا نقشہ کن لفظوں میں کھینچا ہے۔لاحول ولا، مثال یاد بھی آئی تو ایسے متن سے جو کوئی سواڈیڑھ سو برس پرانا ہے اور ہمارے محمد احسن فاروقی مرحوم تو اسے ناول ہی نہیں مانتے تھے۔
وہ جو ایک لطیفہ ہے کہ ایک مولوی صاحب کہیں کھانے پر مدعو کئے گئے۔ کھانے میں ابھی ذرا دیر تھی ، لہٰذا صاحب خانہ نے وقت گذاری، یا انتظار کی گھڑیوں کوآسان کرنے کے لئے کہا ، ’’مولوی صاحب، وہ یوسف زلیخا ہے نہ۔ مولانا جامی کی مثنوی۔، تو اس کا قصہ ذرا بیان کر دیتے، وقت گذاری ہو جاتی۔‘‘
مولوی صاحب نے گول گول دیدے پھرائے اور کھنکھار کر فرمایا۔’’اجی کچھ نہیں۔ پیرے بود پسرے داشت گم کرد بازیافت۔ کھا نا منگوائیے۔‘‘
تو میاں افسانہ تو اتنا ہی ہے۔ پھر شاعر یا افسانہ نگار اسے تصور میں لاتا ہے کہ وہ بات کس طرح گذری ہوگی، اس کا رد عمل کیا ممکن تھا، اور کیا رد عمل ہوا ہو گا، وغیرہ۔جامی کی مثنوی میں زلیخا صرف عاشق اور اپنے شوہر کے آگے رسوا ہی نہیں ہوتی، محلات، باغات، کنیزباندیاں اور حکومت سب کچھ چھوڑ کر جوگن بلکہ بھکارن بن جاتی ہے۔ پھر مدتوں بعد حضرت یوسف اسے کہیں مل جاتے ہیں ۔ اس وقت جو سوال جواب ان کے درمیان ہوتے ہیں وہ اس بات کی مثال ہیں کہ تصور کی آنکھ سے دیکھنے اور پھر تخیل کے رنگوں میں بیان کرنے کا کیا مطلب ہے۔ جامی پہلے تو تصور کی آنکھ سے تمام امکانات کو دیکھتے ہیں، پھر ایک امکان منتخب کرتے ہیں(زلیخا کا بھکارن بن جانا)۔پھر وہ تصور کی آنکھ سے دیکھتے ہیں کہ ان دونوں کی ملاقات یا عدم ملاقات کے امکانات کیا ہیں۔ ان میں سے ایک کو وہ اختیار کرتے ہیں اور پھر تخیل کا رنگ ملا کر دونوں کی ملاقات بیان کرتے ہیں۔
میں یوں ہی احمقوں کی طرح دروازے میں کھڑا ہوں اورکمرے میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھنے اور پہچاننے کی کوشش کر رہا ہوں اور یہ خیالات بھی میرے ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔مجھے اجنبیوں کے درمیان یوں چلے آنے میں بہت تکلف محسوس ہورہا ہے۔ میں طبعاً شرمیلاہوں، لوگوں کی طرف آنکھ بھر کر دیکھتا نہیں۔ میں امید میں ہوں کہ یہاںشاید میرا کوئی شناسا نکل آئے۔۔۔
یہاں شاید میرا کوئی شناسا نکل آئے۔
شاید یہاں میرا شناسا کوئی نکل آئے۔
یہاں شاید کوئی میرا شناسا نکل آئے۔
شاید کوئی میرا شناسا یہاں نکل آئے۔
شاید میرا یہاں کوئی شناسا نکل آئے۔
میرا کوئی شناسا یہاں شاید نکل آئے۔
کوئی شاید یہاں میرا شناسا نکل آئے۔
یہاں کوئی شاید میرا شناسا نکل آئے۔
اس ایک جملے کو کئی کئی طرح سے لکھاجاسکتا ہے۔یہ ہماری زبان کی خوبی ہے، فارسی ، عربی، انگریزی، فرانسیسی، کسی میں یہ بات نہیں۔ایسا جملہ لکھنے کی نوبت آئے تو میں بار بار سوچتا ہوں کہ کون سا پیرایہ سب سے بہتر ہوگا۔ معنی کا تھوڑا تھوڑا سا فرق ہر ایک میں ہے۔ میں متبادل جملوں کوبار بار دل میں دہراتا ہوں، روانی، آہنگ، نشست معنی، ہر طرح سے پرکھتا جانچتا ہوں۔ پھر ایک پیرایہ اختیار کرتا ہوں۔کیااور لکھنے والے بھی اس طرح سوچتے ہیں؟یا کیا افسانہ نگار کے لئے ضروری نہیں کہ وہ زبان کی فطرت اور جملوں کی ماہیئت کے بارے میں اتنا غور کرے،اس قدر غور کرے؟کیا یہ ذمہ داری صرف شاعر کی ہے؟ کیا افسانہ نگار کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ جوں توں کر کے بات بیان کردے؟ ہندی، انگریزی، خلاف محاورہ، بے محاورہ، کیاافسانے میں جو کچھ لکھو سب چلتا ہے؟
نہیں، ایسا نہیں ہے۔ بعض لوگ تو کہتے ہیں کہ افسانے یعنی فکشن اور شاعری کی شعریات ایک ہے۔جو چیز شاعری میں غلط ہے وہ افسانے میں بھی غلط ہے، بلکہ کچھ زیادہ ہی، کیونکہ افسانے کو عروضی وزن کا سہارا نہیں ہوتا۔تو میں کچھ بیوقوفوں کی طرح دروازے میں کھڑا دیکھنے کی کوشش کررہا ہوں کہ یہاں شایدمیرا کوئی شناسا نکل آئے۔اچانک باہر گولیاں چلنے کی آواز آتی ہے اور میں چونک کر لڑکھڑاجاتا ہوں۔ کیا یہ لوگ مسافروں کو گولی مار رہے ہیں؟ باہرکون سے مسافر ہیں؟ میں سراسیمہ ا دھر ادھر دیکھتا ہوں وہیں اے کاش مر جاتا سراسیمہ نہ آتا یاں مجھے میر کا مصرع یاد آگیا ۔ اچانک لائوڈ اسپیکر پر کچھ فوجی آواز میں اعلان ہوتا ہے: Attention, Everybody.گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ باہر کچھ دور پر سڑک بنانے کے لئے blasting ہو رہی ہے۔ اپنی جگہ پر بیٹھے رہیئے۔ کوئی خطرہ نہیں۔
بھلا سروس روڈ بننے کے لئے blasting ؟ کیا مطلب؟ میں ابھی اپنے آپ سے یہ سوال کر ہی رہا ہوں کہ باہر کئی بھاری بھاری بوٹوں والوں کے دوڑنے اور کمپائونڈ سے باہر جانے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ یہ بلاسٹنگ ہورہی ہے یا کہیں raidہورہا ہے؟ میں گھبرا کر دل میں پوچھتا ہوں۔ لیکن اب تک میری آنکھیں کمرے کی دھندلی روشنی کی عادی ہو چکی ہیں۔حاضرین میں کئی غیر ملکی ہیں، کئی عورتیں ہیں۔ کچھ بچے بھی۔سب کے چہرے پر بے اطمینانی کے آثار ہیں۔ لیکن خوف کے نہیں۔آخر اس سب کے معنی کیا ہیں؟ فرض کردم میں افسانہ لکھ رہا ہوں۔ اور یہی میرا افسانہ ہے۔ تو میں اسے کس طرح انجام تک پہنچا سکوں گا؟لیکن مجھے یہ معلوم تو ہونا چاہیئے کہ میں اس افسانے میں کیا دکھانا چاہتا ہوں۔پریم چند کہتے تھے کہ جب تک کوئی نفسیاتی نکتہ، کوئی سبق آموز واقعہ ذہن میں نہ آئے میں افسانہ لکھتا ہی نہیں۔ لیکن ٹی۔ ایس۔ الیٹ تو کہتا تھا کہ میں نظم کے بارے میں پہلے سے کیسے بتادوں کہ میں کیا کہنا چاہتا تھا؟ نظم مکمل ہوگی جبھی تو معلوم ہوگا کہ میں نے اس میں کہا کیا ہے؟
تو اگر افسانے اورشعر کی بوطیقا ایک ہی ہے تو جو افسانہ میں اس وقت اپنے ذہن میں لکھ رہا ہوں اس کے بارے میں کیا بتائوں کہ میں اس میں کیا کہوں گا، کیا دکھائوں گا۔۔۔نہیں ،پریم چند ہی کی رائے ٹھیک معلوم ہوتی ہے۔ پہلے سے کچھ تو طے ہو کہ افسانے میں کیا دکھایا جائے گا؟ لیکن میں اتنا افسانہ تو لکھ گیا ہوں، آخر کچھ تو پتہ لگنا چاہئیے کہ میں کیا لکھوں گا؟اچھا فرض کیا اور کچھ نہیں لکھنا ہے۔ افسانہ یہیں ختم ہو گیا ہے۔ یا بس اتنا اور ہوتا ہے کہ فوجیوں نے تھوڑی دیر میں سروس روڈ مکمل کردی اور سب مسافروں کو آگے جانے دیا۔میں بھی ذرا دیر سے سہی، لیکن سراے میراں پہنچ گیا۔ بس کہانی ختم پیسہ ہضم۔مگر اس میں کہانی کہاں تھی؟نہیں، کہانی تو تھی لیکن اس میں کہا کیا گیا تھا؟
اچھا اگر میں سڑک کی دھند، شام کے پھیلتے ہوئے اندھیرے، فوجیوں کے لباس اور چہرے مہرے، اس عمارت کا پورا احوال، یہ سب کچھ اوپر سے ڈال دوں تو کیا افسانہ بن جائے گا؟ اے۔ایس۔ بائٹ(A. S. Byatt)کے ناولوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جزئیات نگاری کی ملکہ ہے۔اور جزئیات تو داستان میں بھی ہیں، لیکن اور طرح کی۔
میرا دماغ چکرانے لگا ہے۔اتنی دیر سے یہاں کھڑا ہوں، یہ لوگ مجھے کیا سمجھ رہے ہو ں گے۔ کو ئی شخص جو تہذیب اور مہذب ماحول سے بیگانہ ہے؟ میں اٹک اٹک کر قدم آگے بڑھا کر کمرے میں آجاتا ہوں، میری نگاہیں ڈھونڈ رہی ہیں کہ کوئی خالی کرسی ملے توجا کر چپ چاپ وہیں بیٹھ جائوں اچانک ایک کونے سے کسی نے خوش گوار لہجے میں آواز دی ہے:
’’ادھر آجائیے فاروقی صاحب، یہاں جگہ ہے۔‘‘
میں چونک کر کچھ متشکرانہ ، کچھ ہراساں ، ادھردیکھتا ہوں۔ جن صاحب نے مجھے آواز دی ہے وہ عمر رسیدہ لیکن تنومند ہیں۔ میں انھیں پہچانتا نہیں ہوں۔ مجھے تھوڑی سی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی مجھ سے بہت تپاک سے ملتا ہے لیکن مجھے اس کا نام یاد آتا ہے نہ شکل یاد آتی ہے۔میں پھر طرح طرح سے بات بنا کر، اٹکل لگا کر، اس ہی سے معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ وہ کون ہے اور میں اسے کیونکر جانتا ہوں۔ کبھی کبھی لوگ خود ہی پوچھ دیتے ہیں، ’’پہچانا آپ نے؟‘‘تو میں دل میں اطمینان کی سانس لیتے ہوئے سچ میں کچھ جھوٹ ملا کر کہہ دیتا ہوں، ’’شکل تو پہچانی ہوئی ہے لیکن نام نہیں یاد آتا۔‘‘
میں آہستہ قدم رکھتا ہوا کمرے کے گوشے تک پہنچتا ہوں۔ ایک آرام کرسی، جسے انگریزی میں frog chairکہتے ہیں، ان صاحب کی بغل میں خالی ہے۔ میں ان صاحب کو سلام کرکے کرسی سنبھال لیتا ہوں۔ میں ان پر دوبارہ ہلکی سی دزدیدہ نگاہ ڈالتا ہوں لیکن ان کی صورت اب بھی پہلے کی طرح انجانی معلوم ہوتی ہے۔
’’تسلیمات عرض کرتا ہوں۔‘ ‘ میری آواز نہ جانے کیوں کچھ بھرائی ہوئی سی ہے۔’’خدا کا شکر ہے کہ ۔۔۔‘‘
’’کوئی بات نہیں۔‘‘وہ خوش اخلاقی سے کہتا ہے۔’’میرا نام ملا علی قاری ہے۔‘‘
میں چونک کر اس کی طرف دیکھتا ہوں، پھر غور سے دیکھتا ہوں۔کہیں وہ مذاق تو نہیں کررہا ہے۔لیکن اس کے چہرے پر مسخرگی کے کوئی آثار نہیں۔
میں تھوڑا سا گڑبڑا جاتا ہوں۔ ملا علی قاری تو فرضی نام لگتا ہے۔سترہویں صدی میں ایک محدث اس نام کے تھے۔ یہاں اکیسویں صدی میں ملا علی قاری کہاں سے آگئے۔ لیکن مجھے تو یہ ساری صورت حال ہی فرضی یاپراسرار طور پرفریب دماغ معلوم ہوتی ہے۔ ’’م۔۔۔مگر میں ۔۔۔میں اب سے پہلے تو آپ سے نہیں ملا تھا۔ آپ نے مجھے کیسے پہچان لیا؟‘‘
وہ ہنستا ہے۔’’یوں ہی سہی۔ لیکن ایک نام کے دو شخص ہو سکتے ہیں۔‘‘وہ گویا میرے دل کی بات جان کر کہتا ہے۔
’’جی ہاں۔‘‘ میں کچھ جز بز ہوکر کہتا ہوں۔’’مگر مجھے اپنا نام بے حد نا پسند ہے۔ مجھے یقین ہے کسی اور کا نام ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘
وہ زور سے ہنستا ہے۔ مجھے لگتا ہے کمرے کے سب لوگ ہماری طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔میں اشارہ کرتا ہوں کہ آواز دھیمی رکھیں تو بہتر ہے۔’’کولرج کو بھی اپنا نام بہت نا پسند تھا۔ ‘‘
’’کاش میں کولرج ہوتا۔‘‘ میں کچھ تلخ لہجے میں کہتا ہوں۔اب میرا جی چاہتا ہے یہ تنومند بوڑھاچپ رہے تو بہتر ہے، فضول بکواس بہت کرتا ہے۔ پھر مجھے خیال آتا ہے ، اس شخص کوشاید کچھ زیادہ معلوم ہو کہ یہاں چکر کیا چل رہا ہے۔ لہٰذا میں ذرا سرگوشی کے لہجے میں پوچھتا ہوں:’’سنئے، سڑک واقعی ٹوٹی ہوئی ہے یا۔۔۔‘‘
’’جی ہاں، سڑک واقعی ٹوٹی ہوئی ہے۔ لیکن یہ فوجی اس وقت اس کی مرمت کے لئے کہاں سے دستیاب ہوگئے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی ہے۔‘‘ وہ ایک لمحہ ٹھہرکر کہتا ہے۔’’بہر کیف، کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘‘
میں کچھ اور پوچھنا چاہتا ہوں، لیکن میرا مفروضہ افسانہ اب پھر میرے ذہن میں گردش کرنے لگا ہے۔لیکن وہ دوسرا شخص، وہ۔۔۔وہ۔۔۔قاری، شاید میرے دل کی ہر بات جانتا ہے۔ اس کے پہلے کہ میں کچھ کہوں، وہ بول اٹھتا ہے:
’’کیا کسی ایسی تحریر کو افسانہ کہا جائے گا جس میں کچھ بیان ہوا ہو اور جس سے کوئی بامعنی نتیجہ اخذ کر سکیں؟‘‘میں اس کا منھ تکنے لگتا ہوں۔ ’’ میں آپ سے اس لئے پوچھتا ہوں کہ آپ ’’افسانے کی حمایت میں ‘‘ نامی کتاب کے مصنف ہیں۔‘‘
نہ جانے کیوں اس کے لہجے میں مجھے کچھ تمسخر دانت نکالے ہوئے ہنستا دکھائی دیتا ہے۔’’بجا،‘‘ میں کچھ تیز لہجے میں کہتا ہوں۔ ’’لیکن ’بامعنی‘ کسے کہتے ہیں اور’ نتیجہ‘ سے کیا مراد ہے؟‘‘
’’مثلاًاسی بات کو لیجئے کہ ہم لوگ یہاں پھنسے ہوئے ہیں۔اب جو کچھ بھی ہمارا انجام ہو۔مان لیجئے۔۔۔برا نہ مانئے گا، میں ایک مفروضہ بیان کر رہا ہوں۔‘‘
’’جی۔‘‘ میں نے خشک لہجے میں کہا۔
’’تو مان لیجئے یہ لوگ فوجی نہیں، ڈاکو ہیں۔۔۔‘‘وہ ہاتھ اٹھا کر مجھے روکنے کے انداز میں کہتا ہے۔’’یقین کیجئے، یہ سب افسانوی معاملہ ہے۔۔یا یہ لوگ انتہا پسند ہیں۔ اور یہ ڈاکو۔۔۔یا انتہا پسند۔۔۔ ہم سب کو یہاں گولی ماردیں، تو کیا ان واقعات کا بیان کسی بامعنی نتیجے کا حامل ہوگا؟‘‘
’’مشکل ہی ہے۔‘‘ میں نے کچھ سوچ کر کہا۔’’بشرطیکہ اس میں اور کچھ بات نہ ہو ۔ مثلاً کوئی خفیہ بات، کوئی راز، یا شاید ہم میں سے کوئی شخص کوئی بڑا آدمی ہو۔ یا ان لوگوں نے کوئی شرطیں حکومت یا اہل اقتدار کے سامنے رکھی ہوں اور ان کی تکمیل پر ہی ہم لوگوں کی نجات ممکن ہو۔ ‘‘مجھے لرزہ سا آگیا۔ یہ ہم لوگ کیا گفتگو کرہے ہیں؟
’’لیکن اس سب سے کچھ بنتا نہیں۔‘‘ وہ کچھ زور دے کر کہتا ہے۔’’جب تک کچھ نتیجہ نہ بر آمد ہو۔ میں اب بھی یہی کہتا ہوں کہ واقعے کا بامعنی ہونا اسی وقت ممکن ہے جب ہم اس سے کچھ اخذ کر سکیں۔‘‘
’’اخذ کرنے اور پریم چند کی سبق آموزی میں بھلا کیا فرق ہو سکتا ہے؟ دونوں ایک ہی بات ہیں۔‘‘
’’جی نہیں۔ نتیجہ اس کو کہتے ہیں جواپنی معنویت کے لئے کسی سبق، کسی عبرت، کسی تعلیم، کا محتاج نہ ہو۔یعنی اگر افسانہ یہ کہے کہ دیکھو، فلاں شخص کی طرح نہ بننا، وہ بڑا خراب آدمی ہے۔ یا فلاں کام کروگے تو اچھے انجام کو پہنچو گے،تو ان چیزوں کو میں ’سبق، عبرت، تعلیم‘ کہتا ہوں۔ اور اگرتحریر میں کوئی ایسی بات ہوجس میں۔۔۔‘‘
’’جو ہمیں سوچنے پر مائل کرے۔‘‘ میں بھی اب اس کے ما فی الضمیر کو خود بخود سمجھنے لگا ہوں۔’’جو خود تو کوئی فیصلہ نہ کرے لیکن ہماری قوت فیصلہ کو بیدار کرے۔جس میں افسانہ نگار ، افسانہ نگار لگے۔ یعنی ایسا شخص جس کا اصل کام ہمیں کوئی ایسی چیز بنا کر دکھا نا ہے جسے ہم زندگی میں پیش آنے والے واقعات اور حادثات اور سوانح کی طرح قبول کریں لیکن یہ بھی سمجھیں کہ ایسے واقعات کے ’’واقعی‘‘، یعنی ’’مطابق فطرت‘‘ہونے نہ ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔۔۔‘‘
’’نہ۔نہ۔ایسا نہیں ہے۔‘‘ وہ کچھ بے صبری سے بولا۔’’فرق پڑتا ہے۔ کیونکہ ہم تو افسانے میں بیان کئے ہوئے واقعے کو حقیقی ہی سمجھ کر اس سے معاملہ کرتے ہیں۔‘‘
’’چاہے وہ غیر حقیقی یا خلاف فطرت کیوں نہ ہو؟‘‘
’’یقیناً۔ ورنہ افسانہ قائم کیسے ہوگا؟افسانہ پن یا کہانی پن جس کے ایک زمانے میں بہت شہرے تھے، در اصل ایک فرضی صورت حال ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ بعض طرح کے بیانات کو ہم افسانہ بھی سمجھتے ہیں اور حقیقت بھی۔ یہی افسانہ پن ہے۔یہ نہیں تو کچھ نہیں۔‘‘
’’لیکن میں ایسا افسانہ لکھوں جس میں کچھ معنی نہ ہوں ؟‘‘
’’معنی ضرور ہوں گے ، اگر افسانے سے کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے تو معنی بھی ہوں گے۔‘‘
’’تو ہم لوگ اگر یہاں مار دیئے گئے،‘‘ میری آواز میں کچھ لرزہ سا آگیا ہے۔’’تو یہ بیکار ہی ہوگا، کیونکہ اس پورے واقعے میں نتیجہ تو کچھ ہے نہیں۔‘‘
’’لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پورا واقعہ ہی نتیجے کا حکم رکھتا ہو۔‘‘اس کے لہجے میں تھوڑی سی شرارت ہے۔
’’یہ توآپ فلابیئر جیسی بات کہہ رہے ہیں قاری صاحب۔‘‘مجھے اس کی مسکراہٹ اچھی نہیں لگ رہی ہے۔’’فلابیئر کی تمنا تھی کہ میں ایسا ناول لکھوں جس کے کچھ معنی نہ ہوں۔‘‘
’’جی نہیں۔ فلابیئرکا مطلب یہ تھا کہ میرے ناول کوکسی سبق یا عبرت یا تعلیم کا منبع نہ سمجھ لیا جائے۔ پریم چند جیسے لوگ فرانس میں بھی تھے۔بلکہ یوں کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ پریم چند نے اپنی باتیں انھیں جیسوں سے سیکھی تھیں، کوئی روسی، کوئی انگریز، کوئی فرانسیسی، یہی لوگ تو ان دنوں ہمارے افسانہ نگاروں کے آدرش تھے۔مگر میرا مطلب کچھ اور ہے۔کیا یہ ممکن نہیں کہ افسانہ کسی صورت حال کو بیان کردے؟ افسانہ نگار اپنی پسند نا پسند کو بالاے طاق رکھ دے اور دنیا کو ویسی دکھائے جیسی کہ اسے نظر آتی ہے، نہ کہ ویسی جیسی وہ چاہتا ہے کہ اسے نظر آئے؟‘‘
’’لیکن دنیا تو دیکھنے والے کی ہے۔ یعنی جیسے ہم ہیں ویسا دیکھتے ہیں۔‘‘
’’جناب، میری مراد افسانے کی دنیا سے ہے۔افسانے کی دنیاافسانہ نگار کے دماغ میں ہوتی ہے۔ اس میں اچھے برے کے معیار عموماً وہی ہوتے ہیں جو عام دنیا میں ہیں۔ لیکن افسانے کی دنیا میں اچھے برے، عقل مند بے وقوف، وغیرہ کا حکم آسانی سے نہیں لگ سکتا۔ اچھے آدمی برے کام کرتے ہیں، یا غلطی کرتے ہیں۔ برے آدمیوں میں بھی کچھ ادا ایسی ہوتی ہے جس کی بنا پر ہمیں ان سے ہمدردی ہو جاتی ہے۔‘‘
’’اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ افسانے کی دنیا جو افسانہ نگار کے دماغ میں ہے، اس پر اس کا ادراک حاوی نہیں ہوتا؟میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ ہم جیسے ہیں ویسا ہی دیکھتے بھی ہیں۔‘‘
’’افسانے کی دنیا جو افسانہ نگار کے دماغ میں ہے، اس پر اس کا تخیل حاوی ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ادراک کا کچھ بہت زیادہ کام نہیں رہ جاتا۔‘‘
’’آپ بھولتے ہیں کہ میں نے بھی افسانے لکھے ہیں۔‘‘
’’اسی لئے تو آپ سے ایسی بات کہہ سکتا ہوں۔‘‘قاری نے مسکرا کر کہا۔ ’’ہما شما اس کو نہیں سمجھ سکتے۔ افسانہ نگار جس دنیا کو اپنے افسانے، یا فکشن کہہ لیجئے، فکشن میں بیان کرتا ہے ، وہ اس کی اپنی ہوتی ہے، یعنی اس کے دماغ کی پیداوار ہوتی ہے۔مانا کہ ہم جیسے ہیں ویسا ہی دیکھتے ہیں۔ لیکن اگر یہ خارجی مشاہدہ ہی سب کچھ ہوتا تو افسانہ یعنی فکشن بنتا کیسے؟ سب لوگ اپنے اپنے طور پر دنیا کو دیکھ رہے ہیں، کسی کو معلوم نہیں کہ دوسرا کیا دیکھ رہا ہے۔ یہی بات افسانہ نگارکی اہمیت ظاہر کرتی ہے۔ افسانہ نگار اپنی دیکھی ہوئی دنیا کو تصور میں لاتا ہے، پھر اس پر اپنے تخیل کو جاری کرتا ہے۔ اس طرح وہ ہمیں ایک اور طرح کی دنیا دکھاتا ہے۔ یہ کام وہ نہیں کر سکتا جو افسانہ نگار نہیں ہے۔ شاعر بھی نہیں کر سکتا۔ شاعر تو اپنی آواز میں گفتگو کرتا ہے، نئی دنیا بنانا اس کا کام نہیں۔ اور افسانہ نگار کی دنیا میں اچھائی برائی افسانہ نگار کی مرضی کی پابند نہیں ہوتی۔یہ وہ دنیا ہے جس میں اس کے تخیل کے رنگ رچ گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ افسانہ نگار کو حقیقی دنیا سے کچھ تقاضے، کچھ توقعات ہوں۔ لیکن وہ ان توقعات اور تقاضوں کو بھلا کر ہمیں اپنی دنیا دکھاتا ہے۔‘‘
’’لیکن ہمیں اس دنیا سے بھی توقعات اور تقاضے ہوتے ہیں۔‘‘
’’بیشک،‘‘ قاری نے کچھ فتح مندانہ سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔’’یہی وجہ ہے کہ ہم افسانے، یعنی فکشن، سے ہر وقت بر سر جدال رہتے ہیں۔ فلاں کردار نے یہ کیوں کیا، وہ کیوں نہیں کیا؟ فلاں بات اس طرح کیوں پیش آئی؟ وغیرہ۔‘‘
مجھے اچانک ایک بات سوجھتی ہے۔ ’’اور ہم لوگ افسانہ نگار سے بھی بر سر جدال رہتے ہیں کہ اس نے ایسی دنیا کیوں بنائی جس میں فلاں بات نہ ہوئی اور فلاں بات ہو گئی اور فلاں بات اس طرح کیوں ہوئی؟‘‘
’’یہ تو آپ نے میری بات کہہ دی۔‘‘قاری نے کہا۔’’ہم لوگ افسانہ نگار کے ہاتھ میں کٹھ پتلی کی طرح ہیں، لیکن فرق یہ ہے کہ کٹھ پتلی اپنے نچانے والے سے جھگڑتی نہیں، اور قاری ہمیشہ جھگڑتا ہے، یا جھگڑ سکتا ہے۔‘‘
’’شاید اسی کو افسانے یعنی فکشن کی سماجی قدر سے تعبیر کرتے ہیں۔‘‘ میں اپنی رو میں بولتا چلا جارہا تھا۔’’یہ افسانے کی ہی طاقت ہے جو ہمیں افسانہ نگار کو خالق کا درجہ عطاکرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔‘‘
قاری کچھ کہنا چاہتا تھا، لیکن میں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہوئے کہا،’’افسانے میں جس کر دار کو جیسا بنا دیا گیا، ویسا وہ بن گیا۔ افسانے میں جو واقعہ بیان کر دیاگیا وہ ہمیشہ کے لئے قائم ہو گیا۔ یہی افسانے کی قوت ہے۔ ہمیں وہ کردار ناپسند ہو، یا ہم اس کے بارے میں کچھ گو مگو میں رہیں، یا ہم کچھ بھی کر ڈالیں، لیکن معاملہ ہمیں اسی سے کرنا ہے۔ کوئی نیا کردار ہم نہیں خلق کرسکتے۔ ہاں اپنی دنیا میں اس نئے کردار کو شریک کرنے کے لئے ایک نیا افسانہ لکھ سکتے ہیں۔ایک ہی کردار کو ایک شخص برا کہے گا اور دوسرا شخص اچھا کہے گا۔ یا کہے گا کہ اس کی اچھائی برائی کے بارے میں فیصلہ ممکن نہیں، وغیرہ۔کسی کردار کے ایک ہی عمل کو ایک شخص اچھا اور دانشمندانہ بتائے گا تو دوسرا اس کے بر عکس کہے گا۔اس سے بڑھ کر افسانے کی قوت کیا ممکن ہے کہ ۔۔۔‘‘
اچانک باہر کچھ شور اٹھا۔ کئی فوجی، کئی پولیس والے لمبی لمبی ٹارچیں لئے کھٹ کھٹ اندر آگئے۔ کمرے میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے پہلو بدلا، کچھ نے شاید یہ سوچ کر اٹھنا چاہا کہ اب انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔پھر باہر کچھ گاڑیوں کے اسٹارٹ ہونے کی آوازیں آئیں۔ ٹارچ کی تیز روشنی مجھ پر پڑی اور ایک لحظے کے لئے میری آنکھیں جھپک گئیں۔ جب میری بینائی بحال ہوئی تو یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ملا علی قاری کی کرسی خالی تھی٭٭٭

الٰہ آباد، ستمبر ۲۰۰۶ شمس الرحمٰن فاروقی

پیر، 27 جولائی، 2015

عبداللہ حسین کے بارے میں/واجد علی سید

معروف امریکی ناول نگار E.L.Doctorow نے ایک گفتگو میں کہا تھا کہ لکھاری کسی خلاٗ میں جنم نہیں لیتا۔ لکھاری تو گواہ ہوتا ہے۔ہمیں لکھاری چاہیئں کیونکہ ہمیں گواہ چاہیئں جو اس صدی کو قلمبند کرسکیں۔

جیسے Doctorow کو بیسیوں صدی کا اہم ترین ناول نگار سمجھا جاتا ہے، ویسے ہی عبداللہ حسین بھی اردو زبان اور پاک و ہند کے اہم ترین ناول نگار گردانے جاتے ہیں۔ وہ بھی ایسے ہی لکھاری تھے جو خلاٗ میں نہیں پیداہوئے بلکہ پہلی جنگ عظیم، دوسری جنگ عظیم اور تقسیم ہند کے نتیجے میں ہونے والی ہولناکیوں کے گواہ ٹھہرے۔ گو کہ وہ خود سمجھتے اور علی الاعلان کہتے تھے کہ وہ حادثاتی مصنف ہیں۔ سادہ سی نوکری کے دوران بوریت کی وجہ سے لکھنا شروع کیا تو پہلا ناول سامنے آیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ناول نے کئی نسلوں کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ ان کے اندر کے ازلی دکھ اور اداسی کو شناخت دی؛ ان متاثرہ نسلوں کو نام دیا۔ اداس نسلیں۔

مستنصر حسین تارڑ نے اداس نسلیں کوبٹوارے پر پاکستان کا بڑا اور اہم ناول کہا ہے۔ ناول کا اثر، اس کی شہرت ان بلندیوں پر جا پہنچی کہ خود عبداللہ حسین اس سے خائف تھے، ان کا ماننا تھا کہ عام قاری یہ سمجھتا ہے کہ میں نے صرف ایک ہی ناول لکھا ہے۔ اب اپنے آپ کو حادثاتی سے باقاعدہ تجربہ کار ناول نگار ثابت کرنے کے لئے انہوں نے مزید دو ناول لکھے۔ جن میں باگھ جو ذاتی طور پر ان کا پسندیدہ ترین ناول تھا، اور نادار لوگ جس میں مشرقی پاکستان اور بعد میں محمود الرحمان کمیشن رپورٹ کی جھلکیاں پیش کی گئیں۔

دلچسپ بات ہے کہ سرکار، ریاست اور سیاست سے ان کی کم ہی نبھی۔ ایک واقعہ جو انہوں نے اس سال لاہور لٹریچر فیسٹویل میں بھی سنایا کہ اداس نسلیں پر پابندی لگانے کی مہم چل رہی تھی ، دوسری جانب ناول آدم جی ایوارڈ کے لئے نامزد ہوگیا۔ ایوارڈ اس وقت کے صدر مملکت ایوب خان کی طرف سے دیا گیا، محفل کے بعد موصوف نے عبداللہ حسین کو ہدایت کی کہ وہ "قومی ناول" لکھا کریں۔ اب یہ قومی ناول کیا ہوتا ہے نہ ہمیں پتہ ہےنہ انہیں کبھی یہ بات سمجھ آ سکی۔

اداس نسلیں اور دیگر ناول آپ حضرات نے پڑھ رکھے ہوں گے سو اس پر تنقید و تعریف آپ کی صوابدید پرہے، میں صرف ان کی شخصیت کے بارے جتنا جان سکا اتنا کہوں گا۔

عبداللہ حسین عادات اور لباس میں نہایت سادہ تھے۔ عام طور پر آپ کسی بھی معروف مصنف کو دیکھ کر پہچان تو سکتے ہیں لیکن ان کی کتابوں کی طویل فہرست شاید ہی یاد ہو۔ عبداللہ حسین کے ساتھ معاملہ الٹا تھا، لوگ اداس نسلیں اور نادار لوگ کو تو جانتے تھے، ان کے نام سے بھی بخوبی واقف تھے، لیکن وہ خود شکلاگم نام تھے۔ لوگ ان کے اونچے لانبے قد کاٹھ کو دیکھ کر ٹھٹک جاتے۔ سادہ سی پتلون کے ساتھ رننگ شوز ان کا ٹریڈ مارک تھا۔ مہمان نوازی بھی اتنی ہی سادہ اور اپنائت سے بھرپور۔ وقت کے نہایت پابند ۔ یعنی مشرق و مغرب کے رکھ رکھاو کا ملا جلا چلن۔

عبد اللہ حسین نے ایک کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا ناول طویل وقفے کے بعد لکھا۔ خود کہتے تھے کہ اردو سے زیادہ واقف نہیں تھے، ان کا اسلوب بھی نہایت سادہ تھا اور اسی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ بہر حال ناول تشکیل دینے میں جو مدت صرف ہوئی اس سے خاصے مطمئین تھے۔ کہتے تھے کہ بعض لکھاری ہفتے میں کئی کتابیں لکھ ڈالتے ہیں، چیچہ وطنی تک کا سفر کریں تو سفرنامہ تیار۔۔

اس کے باوجود ان کی مستنصر حسین تارڑ سے خاصی دوستی بھی تھی۔۔


ادب کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ اس کی تخلیق و تشکیل محنت طلب کام ہے جس سے اب ادیب حضرات جی چراتے ہیں ۔ خیر اداس نسلیں لکھی، پھر اسکا ترجمہ بھی خود ہی کیا جو The Weary Generation کے نام سے شائع ہوا۔ اس دوران وہ لندن میں رہائش اختیار کر چکے تھے اور وہاں ایک بار چلاتے تھے۔ ہونا تو وہ کاروبار چاہیئے تھا لیکن اصل میں تفریح اور یاروں کی بیٹھک کا بہانہ بن گیا۔ ایک واقعہ جو اس حوالے سے انہوں نے بیان کیا کہ ہمیشہ اعلیٰ اور مہنگا مشروب پیش کرتے، لیکن دوست یار کبھی مطمئین نہ ہوئے، پھر کسی نے مشورہ دیا کہ ہم تو دیسی کے عادی ہیں کچھ سستا، وافر اور گھٹیا پلائوتو راضی ہوں گے۔

اسی بار پر ان کی ملاقات بی بی سی کے ایک پروڈیوسر سے ہوئی جنہوں نے عبداللہ حسین کو کاغذ پر انہماک سے کچھ لکھتے دیکھا۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ کہانی لکھی گئی ہے۔ پڑھنے پر وہ اتنی پسند آئی کہ بی بی سی کی طرف سے ایک فلم کی بنیاد بنی۔ اس کے علاوہ پاکستان ٹیلی ویژن نے ان کی کتاب "نشیب" پر ایک سیریز بھی بنائی تھی۔ سو شہرت انہیں بے انتہا ملی لیکن وہ ذاتی طور پر تنہائی پسند واقع ہوئے تھے۔ چند برس پہلے جب لندن سے لاہور واپس آئے تو قریبی رفقاٗ کے اصرار پر محفلوں میں جانا شروع کیا مگر وہ بھی اکتاہٹ، بے زاری اور عدم دلچسپی کے ساتھ۔ ترجیح یہی ہوتی کہ وقت پڑھنے لکھنےاور کھانا پکانے میں صرف ہو۔ میری ہر ملاقات میں خود خاطر مدارت کی، کسی زمانے میں سگار کے بے حد شوقین تھے، بعد میں سگریٹ پر گزارہ کرتے رہے۔

سوشل میڈیا اور خاص طور پر فیس بک پر وقتا فوقتا اپنے دوستوں سے ہم کلام رہتے تھے؛ وہیں سیاستدانوں پر طنز اور ملکی مسائل پر جملے بازی چلتی۔ اسی سال کے شروع میں ایک اخبار میں عجیب لیکن دلچسپ خبر چھپی کہ گدھوں کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ عبداللہ حسین نے تبصرہ فرمایا کہ عوام کو یہ بھی تو بتایا جائے کہ ان کی تعداد کتنی ہے، کتنے ایمانداری سے روزگار کماتے ہیں، کتنے قصائی کے پاس پہنچتے ہیں اور کتنے اسمبلیوں میں۔

اسی طرح سیاسی بیانات پر لکھا۔۔'' مستونگ حملہ کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، کراچی قتل عام کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا''۔۔ توبہ !! ہمیں بجلی کی کم اور نئے clichés کی زیادہ ضرورت ہے۔

اداس نسلیں تخلیق کرنے والے عبداللہ حسین کو "غیر اداس" قرار دیا گیا، جو ان کی فقرے بازی ،زندہ دلی اور لا ابالی پن سے ظاہر ہے۔


جتنے بے دھڑک اور صاف گو تھےاتنے ہی موت جیسی حقیقت سے آشنا۔ دوران علاج جس تکلیف کا شکار تھے اس کا ذکر کرتے ہوئے فیس بک پر ہی لکھا کہ مجھے تکلیف سے نفرت ہے، اور یہ دور نہیں ہو رہی، لیکن پھر مجھے اس دنیا سے بھی کسی حد تک گھن آتی ہےاور یہ بھی دور نہیں ہو رہی۔۔ لکھاری تو ناخوش لوگ ہیں۔

یہ ناراضی یا نا خوشی بیماری، بڑھاپے، سیاسی، سماجی یا معاشرتی حالات کے ساتھ ساتھ جذباتی پیچید گیوں کی وجہ سے بھی تھی۔ ان کے ناول میں عورت اور خاص طور پرماں کا کردار کیسا ہے اس کا فیصلہ آپ کریں مگر خود عبداللہ حسین بن ماں کے پلے بڑھے، سو جب وقت آخرت آیا تو ماں کا ہی خیال آن موجود ہوا۔
بقول ان کے دوست عرفان جاوید کے عبداللہ حسین نے فون پر انہیں بتایا کہ انہوں نے ایک خواب دیکھا ہے جسکا لب لباب یہ تھا کہ ان کی ماں انہیں اپنی آغوش میں سمیٹنا چاہتی ہے۔ ماں کایہ احساس ہی شاید ان کی زندگی کی سب سے بڑی کمی اور سب سے بڑی محرومی تھی۔ اس کے چند روز بعد عبداللہ حسین علاج مکمل ہونے سے پہلے ہی رخصت ہو گئے۔۔

لکھاری خلاٗ میں جنم نہیں لیتا، وہ گواہ ہوتا ہے صدی کی ہولناکیوں کا۔ عبداللہ حسین کی گواہی بھی اختتام کو پہنچی، انہوں نے بھی خلاٗ میں جنم تو نہیں لیا لیکن مرنے کے بعد جو خلاٗ چھوڑ گئے اسے پر کرنا ممکن نہیں۔

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *