پیر، 18 جنوری، 2016

اردو کی شہوانی شاعری/ڈاکٹر سید امجد حسین

ایک وقت انگریزی ادب میں عریاں روئے سخن کو بے مقصد تک بندی تک محدود تصور کیا جاتا تھا۔یہ ’’بے مقصد‘‘ روئے سخن دراصل لطیفہ گوئی کی شہوانی (erotic)منظوم صنف ہے۔کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ لٹریچر میں نوبل انعام یافتہ شاعر ٹی ایس ایلیٹ بھی اس صنف میں طبع آزمائی کرتے تھے اور سنجیدہ شاعری کے ساتھ ساتھ اس قسم کی شاعری کا اندارج بھی اپنی نوٹ بک میں کرتے رہتے تھے۔بعض اوقات وہ ان صفحات کو پھاڑ کر اپنے دوست اور مشہور زمانہ شاعر ازرا پاؤنڈ کو بھجواتے تھے، جو ایلیٹ صاحب کی عریاں شاعری کے بے حد مداح تھے۔ان میں سے چند ایک نظمیں نیو یارک کے ایک وکیل کو سو ڈالٹر کی حقیر رقم میں بیچ دی گئیں اور ان سے حلف لیا گیا کہ یہ نظمیں کبھی اشاعت پذیر نہ ہوں گی۔انہوں نے لکھا کہ’’اب یہ کلام تمہارے ہاتھ میں ہے، میں التجا کرتا ہوں کہ اسے اپنے آپ تک رکھیں اور کبھی شائع نہ کریں۔‘‘
لیکن یہ کلام شائع ہوہی گیا اور شائع بھی فیر اینڈ فیبر اشاعتی ادارے نے کیا جو ٹی ایس ایلیٹ کا اپنا اشاعتی ادارہ تھا۔جب یہ کتاب Inventions of a March Harمنظر عام پر آئی تو ادبی حلقوں میں ایک قباحت ناک کھلبلی مچ گئی۔بہت سارے دانشوروں اور تنقید نگاروں نے اپنے میں ہوا میں لہرائے اور ایلیٹ صاحب کی بے لگام عریانی کی مذمت کی۔اینتھونی جولیس نے بھور خاص ایک تنقیدی مقالے میں یہ الزام لگایا کہ ایلیٹ کی فحش شاعری میں یہودیوں کی تضحیک کا پہلو نمایاں ہے جس کی مثال انہوں نے ان منظومات سے لی جن میں سیاہ فام لوگوں کی شہوانی بڑائی ظاہر ہوتی ہے۔
ٹی ایس ایلیٹ کے قصے کو سمجھنا مشکل نہیں کیونکہ ہمارے اردو کے معروف شعرا نے بھی عریاں نگاری کو چھپ چھپ کر اپنایا۔اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ہمارے شعرا دن رات کی مسلسل شاعرانہ ریاضت اور غزل گوئی کے مفہوم کی یکسانیت سے اکتا گئے تھے اور شاید ذرا سا سستانے اور تزئین افکار میں پناہ لینے کا مقصد تھا اور شاید دن رات کی گراں زندگی، غیر مرئی اور نامہربان اذیب ناک جنسی نا آسودگی سے چھٹکارا حاصل کرنا مقصود ہو۔ہماری اردو شاعری میں محبوب پس پردہ ہے اور انجان ہے اور شاعر، بطور عاشق بدستور التجائیں کرتا رہتا ہے۔آپ پرانے استاتذہ مںے سے کسی کا دیوان اٹھا کر دیکھیں، میر ہو یا سودا، جرات ہو یا مصحفی، ناسخ ہو یا درد ان سب کے ہاں شاعر، ایک عاشق کے کردار میں ہمیشہ محبوب کی بے رحمی کا آلہ کار ہے۔شہوانی اور فحش شاعری میں شاعر دکھاتا ہے کہ محبوب (اکثر اوقات ایک لڑکا)سے ملاپ سہل ہے اور یہ کہ محبوب شاعر کی بے بہا جنسی دیوانگی سے نجات حاصل کرنے کی التجائیں کرتا ہے، جس سے شاعر کی مردانگی کو مزید تقویت اور توانائی ملتی ہے۔
البتہ بیسویں صدی میں ایسی شاعری کا مزاج بدلتا نظر آتا ہے اور اس تبدیلی کے امام رفیع احمد خاں تصور کیے جاتے ہیں جو کہ لکھنؤ یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے استاد تھے۔انہوں نے عریاں شاعری کو مختلف نظر سے دیکھا اور اس طرح ان کی شاعری ان سے پہلے گزرے ہوئے شعرا سے اس لحاظ سے مختلف تھی کہ انہوں نے چرکین کی طرح بول و براز کی شاعری نہیں کی بلکہ ان کی شاعری مزاح آمیز، تعیش آلود اور آزادانہ تھی جس میں فحاشی کے بہت سارے پہلو سامنے آتے تھے۔عموماً پہلا شعر بے رحم دنیا کے سامنے بے بسی کا اظہار کرتا تھا اور پھر دوسرا مصرع اچانک غیر متوقع کروٹ لیتا تھا، جیسا کہ ڈیوک آف بکھنگم نے لکھا ہے کہ ’’یہ ادب خواتین کی موجودگی میں استعمال نہیں ہوسکتا۔‘‘
خواجہ سے کہا تھا پھولو پھلیں، سو دونوں فوطے پھول گئے
وہ شعرا جو رفیع احمد خاں کے دور سے واقفیت رکھتے ہیں، وہ جان صاحب اور چرکین کی طرز میں شاعری کو بد مذاقی سمجھتے ہیں اور اس طرز کی ہیجانی شاعری کو کرم خوردہ کہہ کر مسترد کرتے ہیں۔
اس ضمن میں رفیع احمد خاں کی طرح ہم حفیظ ہوشیار پوری جو کہ غزل کے قابل احترام شاعر ہیں، کانام لے سکتے ہیں۔انہوں نے قابل تعریف اور خوبصورت شہوانی شاعری تخلیق کی۔ان کے علاوہ شان الحق حقی نے غالب کے انداز میں انتہائی عمدہ شاعری لکھی۔
مغرب کا مزاج ایسی شاعری کی طباعت کی اجازت دیتا ہے لیکن رفیع احمد خاں اور شان الحق حقی کی شہوانی شاعری اگر شائع ہوجائے تو ایسی کتاب بیچنے والے کی دکان نذر آتش کی جائے اور دکاندار کو بر سر عام کوڑوں کی سزا دی جائے۔ہم جن چیزوں سے تخلیے میں مزے لیتے ہیں انہیں ہم بر سر عام رد کرتے ہیں۔ان دو کے درمیان جو خلیج حائل ہے ، وہ دن بہ دن وسیع ہوتی جارہی ہے۔
یہ میرے لیے خوشی کی بات ہے کہ میرے دوست ڈاکٹر امجد حسین نے بہت کاوش اور کوشش سے اردو کی شہوانی شاعری کے نمونے تلاش کرکے انہیں کتابی شکل دی لیکن اس وسیع و عریض میدان میں پہلا قدم ہے۔اردو ادب کی اس صنف کو زندہ رکھنے کا کام جاری رکھنا چاہیے۔(ضیا محی الدین)
***

گوشہ شان الحق حقی

تر وہاں پائی گئی ہے فرج جب ماری گئی
گانڈ ہی اے وا بچاری تشنہ لب ماری گئی
اس طرح سے اور اتنی روز و شب ماری گئی
ہائے اس کافر کی رنگت، اس کی چھب ماری گئی
مہر آخر وقت عند اللہ ہی بخشا گیا
فرج اول روز سے عند الطلب ماری گئی
شور طبل وبوق میں سنتا ہوں لوڑوں کی فغاں
شہر میں اک کس بڑی عالی نسب ماری گئی
سانحات عبرت انگیزفلسطیں کچھ نہ پوچھ
ہائے کیا کون عرب پیش عرب ماری گئی
مدعی کی مار کر رکھ دی مزے میں ہم نے گانڈ
اور اس ڈھب سے کہ سب حیراں ہیں کب ماری گئی
۔۔۔
بس کہ دشمن ہوئی ہے جاں کی چوت
بت تری عاشقی کی ماں کی چوت
میں نے جھانکا جو غسل خانے میں
کیا ہتھیلی سے اس نے ڈھانکی چوت
اسد اللہ خاں کا حصہ جھانٹ
اور تجمل حسین خاں کی چوت
آج کل جمع ہے کراچی میں
بار الہٰا! کہاں کہاں کی چوت
مت کرو ذکر فرج بنگالہ
پہلے دیکھو یہاں وہاں کی چوت
بعد میں دیجے راز دل اس کو
لیجیے پہلے راز داں کی چوت
حکمتیں اس کی دیکھ اے غافل
ہے ہر اک شاخ گل پہ ٹانکی چوت
۔۔۔
ہم نے فن دشنام کی ماں چود کے رکھ دی
اس کام کی اس کام کی ماں چود کے رکھ دی
ناکام تمہارے پڑے جس کام کے پیچھے
یوں سمجھو کہ اس کام کی ماں چود کے رکھ دی
اس گردش ایام کی علت نے تمہاری
اس گردش ایام کی ماں چود کے رکھ دی
جس کام کو برسوں میں بنایا تھا بمشکل
یاروں نے سب اس کام کی ماں چود کے رکھ دی
جس قوم کو تھی چار نکاحوں کی اجازت
اس قوم نے اغلام کی ماں چود کے رکھ دی
کیا حال ہے واں زاہد مرحوم کا رضواں
سنتے ہیں مے و جام کی ماں چود کے رکھ دی
مت پوچھیے اس فتنۂ یو این کی کرامات
جمیعت اقوام کی ماں چود کے رکھ دی
کیا ذکر مئے وصل کہ اس تلخ دہاں نے
اک بوسے پہ دشنام کی ماں چود کے رکھ دی
اک یار ہمارا وہ ہزل گو ہے کہ جس نے
اس پیشۂ بدنام کی ماں چود کے رکھ دی
۔۔۔
آنکھ چھپ چھپ کے لڑاتے ہیں ترے جوبن سے
سر کو نہوڑائے جو بیٹھے ہیں حرامی پن سے
ہے وہ کس کھیت کی مولی کہ جلوں میں اس سے
غیر کا یار پہ دل ہے تو مرے بینگن سے
احتیاط ایسی کہ سائے سے نہ سایا بھڑ جائے
شوق وہ ہے کہ لپٹ کر ہی رہا بھنگن سے
شکر کر فرج کہ تو صاحب اولاد ہوئی
کوں کا مت چاہ برا بیر نہ رکھ سوکن سے
۔۔۔
برملا بے نشاں الحاقی نابینائی

مع تضمین بر مصارع غالب
جن میں کوئی تصرف نہیں کیا گیا ہے

بیچ کی انگلی

کیا چیز ہے اے نام خدا بیچ کی انگلی
کرتی ہے ہر اک عقدے کو وا بیچ کی انگلی
رکھتی ہے تماشوں کی ہوا بیچ کی انگلی
پاتی ہے تلاشوں کا مزا بیچ کی انگلی
خویوں کو بھی خوش رکھتی ہے، خایوں کو بھی خور سند
کرتی ہے بروں کا بھی بھلا بیچ کی انگلی
مت پوچھیے اس فتنۂ دوراں کی حقیقت
لوڑے سے بھی گز بھر ہے سوا بیچ کی انگلی
کرتی ہے سر آغاز ہتھیلی کو دبا کر
اور کھولتی ہے بند قبا بیچ کی انگلی
آہٹ نہ ہواور دم میں درعیش پہ پہنچے
رفتار میں ہے مثل صبا بیچ کی انگلی
کردیتی ہے جا کر کس خوابیدہ کو بیدار
آنکھوں کو پلاتی ہے نشا بیچ کی انگلی
ازبر ہیں اسے جملہ مقامات حریری
چھو آئی ہے سب زیر قبا بیچ کی انگلی
گو ہوتی ہے ہت پھیر میں پانچوں مری گھی میں
لیتی ہے مگر خاص مزا بیچ کی انگلی
جس طرح سے ماتھے پہ لگاتی ہے وہ بندیا
ہاتھ آئیں تو دوں یونہی چڑھا بیچ کی انگلی
بھرتی ہے کبھی جا کے غرارے میں غرارہ
انگیا میں کبھی کرتی ہے ’’تا‘‘ بیچ کی انگلی
ہے بیچ کی انگلی بھی مرے لوڑے سے بڑھ کر
اور غیر کا لوڑا بھی نرا بیچ کی انگلی
سن سن کے میری بیچ کی انگلی کے کرشمے
کیوں لیتے ہو ہونٹوں میں دبا بیچ کی انگلی
گر تم مجھے انگشت شہادت سے نہ ٹوکو
دے غنچۂ امید کھلا بیچ کی انگلی
تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پہ انگشت
لوڑے کو بھی نامے میں لکھا بیچ کی انگلی
کرتا ہوں میں اس شوخ سے اس طرح شروعات
دیکھوں مری پکڑو تو بھلا بیچ کی انگلی
ملتا ہے کبھی غیر تو کر کے ’ٹلی لی جھر‘
مفعول کو دیتا ہوں دکھا بیچ کی انگلی
وہ آئیں گے، وہ آئیں، وہ آئیں پر آئیں
لی بیچ کی انگلی سے ملا بیچ کی انگلی
۔۔۔
دوستو! ہے فرج وہ زندہ شہید
جس کے مرنے پر منا کرتی ہے عید
فرج کو ہر چند کیجے مستفید
گانڈ کو یکسر نہ رکھیے نا امید
ہاتھ رکھتے ہی کیا چانٹا رسید
’کم نظر بے تابی جانم ندید‘
کیا کہوں اس کی انانیت کا حال
ہے یہ لوڑا دوسرا سرمد شہید
نامرادی اس کس بے کس کی ہائے
’منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید‘
فرج کو برسوں گل حکمت کیا
تب ہوا ہے بادۂ عشرت کشید
تھام کے رکھتی اگر لوڑے کو فرج
یوں نہ ہوتی گانڈکی مٹی پلید
سخت گیری کون کافر کی نہ پوچھ
لنڈ کیا لونڈا ہے گویا زر خرید
ہجر میں صابن کا استعمال بھی
نسخۂ ارزاں ہے اور خاصا مفید
نام لیجے اور یہ استادہ ہوا
بھوسڑی مرشد ہے اور لوڑا مرید
۔۔۔
بس کہ دشمن ہوئی ہے جاں کی چوت
بت تری عاشقی کی ماں کی چوت
میں نے جھانکا جو غسل خانے میں
کیا ہتھیلی سے اس نے ڈھانکی چوت
اسد اللہ خاں کا حصہ جھانٹ
اور تجمل حسین خاں کی چوت
شوخیاں ان کی کیا کہوں جیسے
اب غرارہ اٹھا کے جھانکی چوت
غیر آیا ہے لے کے سوکھا منہ
جیسے بیمار نیم جاں کی چوت
کیوں نہ اغیار ہی کو دے ڈالی
ہائے کیوں نے رائگاں کی چوت
میرے عاشق مزاج لوڑے سے
یاد کرتی ہے اک جہاں کی چوت
ہائے اس خوش ادا کے تیکھے کچ
ہائے اس نازنیں کی بانکی چوت
بعد میں دیجے راز دل اس کو
لیجیے پہلے رازداں کی چوت
تنگ کرتی ہے مجھ کو خلوت میں
اک معشوق بے نشاں کی چوت
خود کشی کرکے چین پاتی ہے
پردہ داران بے زباں کی چوت
آج کل جمع ہے کراچی میں
بار الہٰا کہاں کہاں کی چوت
تب کرو ذکر فرج بنگالہ
پہلے دیکھو یہاں وہاں کی چوت
جب بھی لوڑا بپھر گیا،اس نے
صلح جوئی کو درمیاں کی چوت
حکمتیں اس کی دیکھ اے غافل
ہے ہر اک شاخ گل پہ ٹانکی چوت
۔۔۔
بند باندھے ہیں کیوں گلے تک کے
کیا یہ میوے ابھی نہیں پکے
وہ لگاتا ہوں متصل دھکے
چھوٹ جاتے ہیں چوت کے چھکے
یہ ادا دیکھو یہ حیا دیکھو
وہ چداتی بھی ہیں تو منہ ڈھک کے
کس کا آنا بھی اک قیامت ہے
بیٹھ جاتا ہے عضو تھک تھک کے
سیل عشرت پیا کیا شب بھر
سیل پہنچی ہے یار توشک کے
بل ہیں زلفوں سے بڑھ کے جھانٹوں میں
تار الجھے ہوں جیسے پیچک کے
شیخ چپکے سے کام کر گزرے
راز پھوٹا تو چل دیے سکے
میں نے فرقت میں تیری اے معشوق
رات کاٹی ہے گالیاں بک کے
دفعتاً ہم نے وہ بزل چھیڑی
رہ گئے اہل بزم بھونچکے
۔۔۔
چل تری کرکے تیرا ناس گئی
سب وہ چنپا کلی کی باس گئی
مرتے مرتے بھی خندہ رو تھی فرج
موت کے منہ میں بے ہراس گئی
ہاتھ ہت پھیریوں میں رکتا ہے
ہائے وہ لذت مساس گئی
حالت حیض ہوگئی طاری
وائے گر علت نفاس گئی
رو کے کہتا ہے وہ بت سادہ
گانڈ اللہ میاں کے پاس گئی
غم یہ ہے فرج کیوں ترے ہمراہ
غیر لوڑوں کے آس پاس گئی
جبر ایام سے جو کس روئی
کھپ یہاں کھیتیوں کپاس گئی
ہم نے ماری توہوگئی جاوید
ورنہ ماری تو بے قیاس گئی
۔۔۔
چھوڑ ادھر کی ادھر جا نکلا
میرا لوڑا بھی چوتیا گیا
کتنی بد خواہیوں کے بعد وصال
ہو بھی پایا تو خواب سا نکلا
میں نے سمجھا تھا جس کو اک معشوق
وہ تو عاشق کوئی ترا نکلا
جو بھی نکلا قریب سے تیرے
تیرے جوبن کو دیکھتا نکلا
میں نے ڈالا جو ہاتھ محرم میں
خوب سینہ بھرا بھرا نکلا
وہ غرارہ سنبھالتی اٹھی
میں پجامے سے پونچھتا نکلا
چوت پیش آئی مہربانی سے
لنڈ ہی بر سر جفا نکلا
ایک بھی کس نہ ہوسکی سیراب
ایک بھی کس نہ کام کا نکلا
رہ گئے دل کے حوصلے دل میں
لنڈ یاروں کا پلپلا نکلا
کس نے جب آنکھ کھول کر دیکھا
ایک لوڑا کھڑا ہوا نکلا
اس کا انڈروےئر نہ کھل پایا
کیر نیکر سے رہ گیا نکلا
ابھی بیٹھے ابھی کھڑا ہوجائے
لنڈ بھی ایک چلبلا نکلا
زندگی بھر میں تو ہی اک معشوق
ٹھیک میرے خیال کا نکلا
ہو بہو شکل بھوسڑی کی یہ تھی
جیسے جوتے کا ہو تلا نکلا
کام بھی تجھ سے اک کس کمبخت
کسی خانہ خراب کا نکلا
۔۔۔
شوق ہے یونہی چھیڑ خانی کا
کون عاشق ہے کس مرانی کا
آتشک ہوگئی ہے لوڑے کو
خوب چرکا لگا ہے پانی کا
اس زمانے میں گانڈ کا مرنا
ہو گیا واقعہ کہانی کا
حسن نے امتحان دل کے لیے
روپ دھارا ہے مہترانی کا
وہ بھی رکھتے ہیں گالیوں سے شوق
مںے بھی عاشق خوش بیانی کا
ہو اجازت تو بانہہ کھسکا لیں
لو یہ تکیہ ہے شیروانی کا
اس کی آب رواں کی چولی پر
کیا دوپٹہ ہے کامدانی کا
میرے دادا کے وقت میں کیا کیا
نام چمکا ہے ان کی نانی کا
۔۔۔
کوستا ہے غیر مجھ کو آہ اور نالے کے ساتھ
جانے کیا میں نے کیا اس بھوسڑی والے کے ساتھ
رات بھر لوڑے کو رکھا یاد نے تیری کھڑا
ہائے یہ طرز ستم اک ناز کے پالے کے ساتھ
آنکھ میں پھرتا ہے میری تیرے سینے کا ابھار
کھیت کرتا ہے فلک پر چاند جب ہالے کے ساتھ
ایک ہی کنجی سے کھلتا ہے درجاناں کا قفل
خیر کیا کھا کر کرے گا زور اس تالے کے ساتھ
چوت کو سمجھاؤ اپنی لنڈ سے بچ کر رہے
کھیلنا اچھا نہیں یوں جان من کالے کے ساتھ
۔۔۔
جھانٹ پھیلائے کیر بیٹھا ہے
بوریے پر فقیر بیٹھا ہے
پہلے سینے پہ شست باندھی ہے
تب نشانے پہ تیر بیٹھا ہے
لنڈ تنہا کھڑا ہے محفل میں
ہر صغیر و کبیر بیٹھا ہے
کیر زاہد ہے یا کوئی مردہ
پیش منکر نکیر بیٹھا ہے
حلقۂ پشم میں ہے خامۂ مست
بیڑیوں میں اسیر بیٹھا ہے
۔۔۔
رکھوں گا میں نہ سارے برس تیری ماں کی چوت
مل جائے صرف یک دو نفس تیری ماں کی چوت
ٹپکائے چار گنے کا رس تیری ماں کی چوت
کھاجائے ایک رات میں دس تیری ماں کی چوت
لگتی ہے گرچہ ہیت ظاہر میں گھونسلا
لوڑے کے حق میں کنج قفس تیری ماں کی چوت
حیرت ہی کیا جو غیر سے مل کر ہے شاد کام
جپی سے بھی تو رکھتی ہے مس تیری ماں کی چوت
ہیں اس سے سارے شہر کے غنڈے دبے ہوئے
تھامے ہوئے ہے کیر کو کس تیری ماں کی چوت
کچھ خوش نہیں ہے چڑھ کے منارے پہ لام کے
گنبد کا تاکتی ہے کلس تیری ماں کی چوت
۔۔۔
آب شہوت سے ہوکے گیلی چوت
ہوگئی اور بھی رسیلی چوت
تھی نگاہ کرم رقیبوں پر
ہم سے کرتی رہی بخیلی چوت
جرم لوڑے سے کیا ہوا ایسا
جس پہ ہوتی ہے لال پیلی چوت
اس جوانی میں ہات تیرے کی
ًًبڑلڑا سینہ اور یہ ڈھیلی چوت
مفت نکلا ہے نام لوڑ ے کا
ہے کچھ اس سے سوا رنگیلی چوت
اپنے دونوں جہاں بخیر رہے
لی کبھی گانڈ اور کبھی لی چوت
اس عفیفہ نے میری فرقت میں
یوں سمجھیے کہ جیسے سی لی چوت
۔۔۔
چھوڑیے کس کے عاشق و معشوق
ہم ہی جلاق ہیں ہمیں مجلوق
زار نالی نہ پوچھ مقعد کی
کارتوسوں سے تنگ ہے بندوق
گھر بلاتی ہے پیار کرتی ہے
میرا لوڑا ہے فرج کا معشوق
لنڈ میرا کلید قفل نشاط
گانڈ اس کی نشاط کا صندوق
دیکھ یہ اہتمام عیش و طرب
رنڈیاں چد رہی ہیں سوق بسوق
دیکھ تنظیم و اتحاد و یقیں
لوگ تھامے کھڑے ہیں جوق بہ جوق
بے الف تھے حواریان کرام
جانے لوقا ہی نام تھا یا لوق
۔۔۔
فرزند ارجمند ، اب اس کا علاج کر
لوڑا اٹھا تو ہوگئی ٹھس تیری ماں کی چوت
ساغر اٹھا کے ہاتھوں میں دی رند نے صدا
اے ابر نوبہار برس تیری ماں کی چوت
پورا بھی کردے غیر تو اس سے گلہ نہ ہو
اور ہم سے انچ انچ پہ بس تیری ماں کی چوت
۔۔۔
نقاب ان کے چہرے سے جب ہٹ گئی ہے
سنا ہے رقیبوں کی پھٹ پھٹ گئی ہے
مری ان کی میزان کیا پٹ گئی ہے
عزیزوں کی تو ناک ہی کٹ گئی ہے
نہیں ہے کچھ ایسی رقیبوں کی کثرت
حسینوں کی تعداد ہی گھٹ گئی ہے
وہ کس تھا کمر بند سے جس کا پردہ
یہاں سے ابھی ہو کے چوپٹ گئی ہے
اندھیرے میں ہت پھیریوں سے نہ جھجھکی
اجالے میں دیکھا تو کیا کٹ گئی ہے
لڑا لی ہے ہم نے اک آیا سے اٹ مٹ
وہ آئی ہے جب ہو کے غٹ پٹ گئی ہے
میں تھا اس کی بیٹی کی بیٹی پہ عاشق
ابھی سامنے سے جو کھوسٹ گئی ہے
۔۔۔
سیدھا کھڑا ہے جھانٹ پہ کشت حسیں پہ لنڈ
دیکھو کہیں یہ سرو اگا ہے کہیں پہ لنڈ
اس فرج خوش نہاد کی الفت کے ضمن میں
رکھتا ہے آنکھ غیر کی کون مکیں پہ لنڈ
ہیں یار بھی نصیب سے اغیار کی طرف
اپنا تو آسماں پہ خدا ہے زمیں پہ لنڈ
جس دن سے سرخ برقع میں بڑھیا نظر پڑی
اٹھتا نہیں مرا کسی پردہ نشیں پہ لنڈ
یہ زعم ، یہ انا، یہ تمردیہ طنطنہ
سیکھا نہیں ہے پانچ ہی دھرنا زمیں پہ لنڈ
۔۔۔
غرض داؤ لوڑے نے ڈھب کے نہ کھیلے
بھلا خود وہ کہتی کہ آ میری لے لے
بڑھاپے میں مشکل سے ملتی ہیں چوتیں
جوانی میں لگتے ہیں پیسے نہ ڈھیلے
نمائش کے جنگل میں منگل کے منگل
سنا ہے کہ لگتے ہیں فرجوں کے میلے
بہت اب کے چھائی ہے لوڑوں پہ مستی
نہ نکلا کرو تم اکیلے ڈکیلے
صنم شربت وصل کا نام سن کر
نہ بولا کرو بول کڑوے کسیلے
رقیبوں کی مارو حسینوں سے پہلے
غرض عاشقی میں بھی ہیں کیا جھمیلے
۔۔۔
آنکھ چھپ چھپ کے لڑاتے ہیں ترے جوبن سے
سر کو نہوڑائے جو بیٹھے ہیں حرامی پن سے
روز ڈھلتا ہے نئی میں بحر میں مضمون وصال
روز اس شوخ کی لیتا ہوں نئے آسن سے
ہے وہ کس کھیت کی مولی کہ جلوں میں اس سے
غیر کا یار پہ دل ہے تو مرے بینگن سے
شکر کر فرج کہ تو صاحب اولاد ہوئی
کوں کا مت چاہ برا بیر نہ رکھ سوکن سے
احتیاط ایسی کہ سائے نہ سایہ بھڑ جائے
شوق وہ ہے کہ لپٹ کر ہی رہا بھنگن سے
۔۔۔
آؤ کیوں بنتے ہو انجان یہی ہوتا ہے
وصل کی شب تو مری جان یہی ہوتا ہے
اے تری فرج رہے گردش ایام سے تنگ
بددعاؤں کا بھی عنوان یہی ہوتا ہے
پہلے ہوتے تھے کبھی وصل کے سودے چھپ کر
آج کل تو سر میدان یہی ہوتا ہے
خوب ہے، خوب رہیں لنڈ کی صحبت میں خراب
دل میں فرجوں کے بھی ارمان یہی ہوتا ہے
آب ہی آب لڑالیتی ہے منیا آنکھیں
لنڈ پر اٹھتے ہیں طوفان یہی ہوتا ہے
پیٹنے کے لیے دربان تلے رہتے ہیں
خود ہی پھر ہٹتے ہیں دربان یہی ہوتا ہے
۔۔۔
اس بت کی تصور میں بلا کر بھی ہے ماری
یاں اس کی ہی خود اس سے چھپا کر بھی ہے ماری
بندے کسی مہوش کو دلا کر بھی ہے ماری
بیڑی کسی بندے کو پلا کر بھی ہے ماری
گرمی ہے تو حمام میں جا کر بھی ہے ماری
ساون ہے تو جھولے میں جھلا کر بھی ہے ماری
جاناں کی تو ہرڈھب سے ہر انداز سے لی ہے
دشمن کی تھکا کر بھی بھگا کر بھی ہے ماری
چرخ ستم ایجاد نے کس طرز کو چھوڑا
بہتوں کی تو سولی پہ چڑھا کر بھی ہے ماری
ہوتی ہے گراں گانڈ کی قیمت کبھی بے ڈھب
سچ کہہ دو کبھی تم نے مرا کر بھی ہے ماری
دکھلائی بہت ہم نے غم دہر کی مقعد
اور اس پہ کبھی لات جما کر بھی ہے ماری
آتا ہی نہیں گانڈ کا مرنا اسے باور
گو غیر کی دنیا کو دکھا کر بھی ہے ماری
۔۔۔
مزاج فرج فقیروں کو سازگار کہاں
یہ جا کے دیکھیے لوڑا ہوا ہے خوار کہاں
ہزار درد ہیں دنیا میں آتشک کے سوا
ہزار غم ہیں مگر یہ عذاب نار کہاں
جو دور جاؤ گھبرا کے یہ کھڑا ہوجائے
تمہاری فرج کا لوڑے کو اعتبار کہاں
ذکر ہی کرتا ہے عاشق کی زندگی دشوار
سنبھالے دل کو مگر اس پہ اختیار کہاں
طرح طرح کی پڑی ہیں ازار میں گانٹھیں
ہزار عقدۂ مشکل کہو ازار کہاں
۔۔۔
انگلی کبھی جو ہم نے چڑھائی ہے چوت میں
چھوٹی سی ایک گانڈ بھی پائی ہے چوت میں
اے بے خبر خدا کی خدائی ہے چوت میں
دیتا مجھے جہان دکھائی ہے چوت میں
لوڑے نے جب سے ٹانگ پھنسائی ہے چوت میں
جاتی تمام اپنی کمائی ہے چوت میں
یاں نکتہ داں ہے کون سوا اس کے چوت کا
لوڑے نے میرے عمر گنوائی ہے چوت میں
اس سے نہ پوچھیے مری جیبوں سے پوچھیے
لوڑے نے جیسی گانڈ مرائی ہے چوت میں
۔۔۔
لوڑے کو مرے چاہیے ہر روز کنواری
جچتی نہیں آج آنکھ میں کل رات کی ماری
ہوتی ہے بڑی دھوم سے کاندھوں پہ سواری
اک فرج ہوئی اور بھی اللہ کو پیاری
۔۔۔
کوئی دن میں گل امید ہے کھلنے والا
لنڈ کو صبر کا انعام ہے ملنے والا
لنڈ کہتا ہے کہ در سے نہیں ہلنے والا
فرج کہتی ہے کہ رستہ نہیں ملنے والا
جان من پھر ہے تری جان پہ پلنے والا
یہ جو لوڑا ہے مرا اونگھتے ٹھلنے والا
شربت وصل انڈیلا تھا کہ پھر لوٹ دیا
آگیا اس کا کوئی اور ہی ملنے والا
فرج تو اپنی جگہ پر ہی گڑی بیٹھی تھی
بانی شر ہے وہ پاجامے میں ہلنے والا
تو مجھے بھول گئی ہو تو پتہ بتلا دوں
مرا لوڑا ہے تری فرج کا ملنے والا
میں نے خود فرج کو انگلی سے خبردار کیا
کہ ہے لوڑا تری خلوت میں مخلنے والا
اصطلاحیں تو نئی دیکھ کہ کہتی ہے وہ فرج
آگیا پھر وہ مری جاں کا گسلنے والا
پھر اٹھاتے ہیں وہ لوڑے کے چلن کی تمہید
بھئی تازہ کوئی الزام ہے دلنے والا
اس کو کم کم ہی برتیے کس مشروع سہی
یہ وہ جامہ ہے کہ پھٹ کر نہیں سلنے والا
آج ہی دل کے سب ارمان نکال اے کس تو
کل تو اک اور ہی ارمان ہے ملنے والا
۔۔۔
اور یہ کہیے کہ جھٹ پٹ لیجے تڑپڑ ماریے
حضرت دل کچھ نہ کیجے اور یونہی بڑ ماریے
ہائے اپنے ہاتھ سے اپنا ہی زانو پیٹیے
ہائے اپنے ہاتھ سے اپنے ہی چوتڑ ماریے
یار ہاتھ آیا اکیلا اور یوں جانے دیا
جی میں آتا ہے کہ اپنے منہ پہ تھپڑ ماریے
باز یہ آئے نہ وہ ہونا ہے جو ہو کر رہے
لنڈ کا سر ماریے یا فرج کا دھڑ ماریے
سو یہ کہتی ہیں کہ دھکا کھاؤں اور کھڑکا نہ ہو
یعنی اب بستر کے نیچے رکھ کے پاپڑ ماریے
سوچ کیا ہے حضرت دل یوں کہاں بنتی ہے بات
کرکے ہمت، ہوکے ڈھیٹ اور بن کے پھکڑ ماریے
۔۔۔
تخیل کے خلوت گزینوں کی لی ہے
تصور میں کن نازنینوں کی لی ہے
نہیں شہر کے اک حسیں تک رسائی
مگر شہر کے کل حسینوں کی لی ہے
یہ ڈالا ہے کیا تم نے پردے پہ پردا
کہ جھانٹوں پہ آڑ آستینوں کی لی ہے
نہ میں نے کبھی لی نہ دشمن نے اس کی
مگر چرخ بدخو نے تینوں کی لی ہے
۔۔۔
خبر نہیں واردات کیا تھی، لڑی تھی کس یا اڑا تھا لوڑا
ہماری آنکھوں نے بس یہ دیکھا پڑی تھی کس اور کھڑا تھا لوڑا
ذرا تحمل سے کام لیتا، ذرا تو نطفے کو تھام لیتا
رہا نہ قابو میں اپنے لیکن،گھسیڑتے ہی جھڑا تھا لوڑا
تھی چوت اس کی کہ بند مٹھی، وہ ایک دھکے میں چیخ اٹھی
لچک نہ جاتی تو پھٹ ہی جاتی، نئی تھی چوت اور بڑا تھا لوڑا
گئی جوانی بقول غالب کہاں عناصر میں اعتدال اب
وہ دن بھی تھے جب کماں چڑھی تھی، وہ دن بھی تھے جب کڑا تھا لوڑا
کل اس کی لینے پہ جب یہ آیا تو اس اک اور گل کھلایا
وہ بلبلائی تو ہوش آیا کہ گانڈ میں گھس پڑا تھا لوڑا
۔۔۔
عالم فرقت میں شہوت تھی اگر طاری تو کیا
ہم نے لی اک اور کی تیری نہیں ماری تو کیا
یہ بھی اک نخرا ہے لوڑوں کو جلانے کے لیے
ہر مہینے فرج کو ہوتی ہے بیماری تو کیا
ہاتھ بھی پڑجائے گر غلماں کا کیر شیخ پر
بس یونہی جنبش سی کچھ ہوتی ہے ہشیاری تو کیا
خلد میں غلمان چلمیں ہی بھریں گے شیخ کی
ہوگی واں نابالغوں کے ساتھ بدکاری تو کیا
۔۔۔
خلوت آرائی خوب سی کرلی
شوق فرمائی خوب سی کرلی
لنڈ نے آستان فرج پہ اب
ناصیہ سائی خوب سی کرلی
بادہ نوشی پس ہم آغوشی
جب گھٹا چھائی خوب سی کرلی
دم رخصت اچٹ کے بولی وہ
اب تو گڈ بائی خوب سی کرلی
ٹھنڈی آخر کو تو نے چل اپنی
کس پر جائی خوب سی کرلی
نامہ فرسائی کررہے ہیں اب
خامہ فرسائی خوب سی کرلی
۔۔۔
نہیں خلوت ہی پر راضی وہ پردے دار ہوچکتی
بس اک دھکے میں دیوار حیا مسمار ہوچکتی
کیا ہت پھیر لیکن وہ نہیں تیار ہوچکتی
جو کوئی اور سی ہوتی تو کتنی بار ہوچکتی
شب فرقت نے فرقت میں تری مجھ کو تھکا مارا
کہ آلپٹی ہے مجھ سے اور نہیں اے یارہوچکتی
وہ پاپڑمںے نے بیلے وہ شدائد میں نے جھیلے ہیں
کہ اس نرغے میں غیر آتا تو پھٹ کر غار ہوچکتی
پلے ہیں مارنے مرنے پہ لنڈاور چوت ازل ہی سے
خدا جانے نہیں کیوں ختم یہ تکرار ہوچکتی
نہ رکھتی آس اگر تیرے نظارے کی اسے زندہ
تو نرگس جو کہ اک مدت سے ہے بیمار ہوچکتی
کھڑا کرنا تھا لوڑے کو نہیں ثالث بخیر ایسا
زن و شوہر میں پھر تو جو بھی تھی تکرار ہوچکتی
۔۔۔
واہ کیا انقلاب دوراں ہے
گانڈ مہنگی ہے چوت ارزاں ہے
میں نے پوچھا جو کون کو یہ کون
چوت بولی کہ میری گوتیاں ہے
۔۔۔
جان کھوتا ہوں تصور میں تمہارے اپنی
میں وہ انساں ہوں کہ جو آپ ہی مارے اپنی
دیر سے بیٹھے ہیں پتلون اتارے اپنی
دوستی ہے تو دکھا کھول کے پیارے اپنی
چوت لینے کی تمنا میں تو کیا دیتے ہیں
گانڈ مروانے کو پھر تے ہیں کنوارے اپنی
وہ تو روگی تھا وہ کیوں غیر سے مروا بیٹھی
نیم کے پانی سے اب فرج کو دھارے اپنی
۔۔۔

تضمینات بر مقطعات غالب/شان الحق حقی

گرچہ ہے پابستۂ مثل سرو لیکن دیکھنا
خلقہائے پشم کی دکھلا کے زنجیریں ہلا
مجھ سے فرط جوش میں کہتا ہے یوں آ لت مرا
بسکہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
۰۰۰
سیکھا نہ اس نے مار کے مرنے کا فن اسد
کہتا تھا جلق کو بھی وہ بے ہودہ پن اسد
لوڑے پہ ہاتھ دھر نہ سکی پیر زن اسد
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد
سرگشتۂ خمار رسوم و قیود تھا
۰۰۰
سمجھتی تھی مربی مجھ کو جس لڑکے کی ماں غالب
بچائی جس کی کتنے مغلموں سے میں نے جاں غالب
کرے وہ گانڈ میں ڈنڈا مری ہو کر جواں غالب
کہوں کیا خوبئ اوضاع ابنائے زماں غالب
بدی کی اس نے جس سے میں تھی بارہا نیکی
۰۰۰
ہائے کیا خون جوانی کو بپایا غالب
قطرہ قطرہ اسی رستے نکل آیا غالب
رہ گیا اب تو سکڑ کر مرا خایہ غالب
دل میں پھر گریے نے اک شور اٹھایا غالب
ہائے جو قطرہ ’نہ نکلا تھا‘ سو طوفاں نکلا
۰۰۰
یہ گوں جو دیکھتے ہو نرالی جہاں کی ہے
اس نے کبھی ڈھکی تھی نہ لوگوں نے ڈھانکی ہے
مقعد پہ گرچہ مہر ستم کار خاں کی ہے
یہ لاش بے کفن اسد خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مردتھا
۰۰۰
مبتلا شوق لواطت میں تھا کب سے غالب
یہی لچھن رہے بالغ ہوا جب سے غالب
الغرض باز نہ آیا کسی ڈھب سے غالب
مر گیا صدمۂ یک جنبش لب سے غالب
ناتوانی سے حریف دم عیسی نہ ہوا
۰۰۰
کل یہ جا دیتا تمہارے در پہ دھرنا دیکھتے
جان جاتی دیکھتے یا گانڈ مرنا دیکھتے
رات شہوت میں تم اس کا فیل کرنا دیکھتے
میں نے روکا رات غالب کو وگرنہ دیکھتے
اس کے سیل گریہ سے گردوں کف سیلاب تھا
۰۰۰
تسکین کا نہ جب کوئی ساماں ہوا اسد
ہاتھوں ہی سے نکالا جو ارماں ہوا اسد
ہتھلس سے باز آئے تو جریاں ہوا اسد
تاراج کاوش غم مژگاں ہوا اسد
سینہ کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا
۰۰۰
کیوں لگاتا جلق میں ہوکر دریں حمام بند
کیوں نصیب دشمناں ہوتا مرا اغلام بند
حال بد میں بھی نہ طور بد نہ دور جام بند
اس کی امت میں ہوں میں میرے رہیں کیوں کام بند
واسطے جس شہہ کے غالب گنبد بے در کھلا
۰۰۰
بے بسی میں ہوئی واں مجھ پہ جو شہوت غالب
بس وہیں پائی گریبان سے فرصت غالب
کام آیا وہی ان کے دم حاجت غالب
حیف اس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالب
جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا
۰۰۰
وہ جانے ہی نہیں دیتا ادھر بات
کیے جاتا ہے ظالم بات پر بات
زباں چپ ہو تو کرتی ہے نظر بات
بلائے جاں ہے غالب اس کی ہر بات
عبارت کیا اشارت کیا ادا کیا
۰۰۰
نہ ہو بیتاب اتنا ایک ایک سیدھی سی سطر لکھ دے
بیان دل میں کیا رکھا ہے احوال ذکر لکھ دے
نہیں ہاتھوں کو فرصت جلق ہی سے لحظہ بھر لکھ دے
نہ دے نامے کو اتنا طول غالب مختصر لکھ دے
کہ حسرت سنج کو عرض ستمہائے جدائی کا
۰۰۰
ہے مجھ کو یاد وہ بچپن کی روئداد اسد
ملی نہ جب کہ کسالے کی اب بھی داد اسد
ہے یہ فلک بھی کوئی پیر بد نہاد اسد
فلک کو دیکھ کے کرتا ہوں اس کو یاد اسد
جفا میں اس کی ہے انداز کارفرما کا
۰۰۰
بڑی مدت میں ایسا صاب ایجاد آتا ہے
نئے آسن سے جب یوں لب پہ یا استاد آتا ہے
وہ قول اس کا کہ ہر ڈھب سے انوکھا سواد آتا ہے
ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پہ کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
۰۰۰
میں نے یہ مانا کہ لونڈا تھا مزے دار اسد
پر نہ تھے اس میں شریفوں کے سے اطوار اسد
گانڈ دی اس نے تو الٹی ہی تری مار اسد
دل دیا جان کے کیوں اس کو وفادار اسد
غلطی کہ کہ جو کافر کو مسلماں سمجھا
۰۰۰
فرق تھا اس کے بھی لچھن میں اسد
دخل تھا اس کو بھی اس فن میں اسد
یہ نہیں یاد کہ کس سن میں اسد
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
۰۰۰
تم نے ہر چند کہ چھوڑا نہ کسی کو غالب
ایک ہو اپنے زمانے میں سخن گو غالب
پر ہے مدت سے یہی رسم یہاں تو غالب
ریختے کے تمہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
۰۰۰
رہتی تھی مجھ کو روز تلاش دگر اسد
اک اک سے پوچھتا تھا کہ جاؤں کدھر اسد
اب میں ہی ہوں کہ بیٹھا ہوں تھامے ذکر اسد
بیدار عشق سے نہیں ذرتا مگر اسد
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا
۰۰۰
تھے تو جلق بازی میں اپنے گھر میں یکتا تھے
یا نگاہ بازی میں میں شہر بھر میں یکتا تھے
علم و فضل مت پوچھو لاکھ خر میں یکتا تھے
ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا
۰۰۰
وہ تو راضی تھا کہ لیتے ہیں لے لیں غالب
میں ہی تھا رات کو کچھ غوط نشے میں غالب
ڈال دیں اس کے کمر بند میں گرہیں غالب
مند گئیں ’کھولتے ہی کھولتے‘ آنکھیں غالب
یار لائے اسے بالیں پہ مرے پر کس وقت
۰۰۰
ہے واقعہ یہی کوئی چھ سات سال کا
غالب سے تو نے وعدہ کیا تھا وصال کا
پہنچا تو گھر پہ پہرہ ملا کوتوال کا
سر پھوڑنا وہ غالب شوریدہ حال کا
یاد آگیا مجھے تری دیوار دیکھ کر
۰۰۰
خدا کا شکر کہ پھیلیں نہیں زمانے میں
وہ سسکیاں کہ جو گونجی ہیں غسلخانے میں
مزا جو دل کو ملا مارنے مرانے میں
نہ کہہ سکی سے کہ غالب نہیں زمانے میں
حریف راز محبت مگر در و دیوار
۰۰۰
پیش و پس کچھ چلے گی غالب
کسمسائے تو پھٹے گی غالب
اب تو دینی ہی پڑے گی غالب
واقعہ سخت ہے اور جان عزیز
۰۰۰
روز اغیار سے سودے ترے ہوتے رہے طے
تو نے مرزا ہی کو زنہار نہ لینے دی وہ شے
اسی کمبخت کے حصے میں نہ تھی وصل کی مے
مرگیا پھوڑ کے سر غالب وحشی ہے ہے
بیٹھنا اس کا وہ آکر تری دیوار کے پاس
۰۰۰
جب سے سنا کہ اس کو ہے بیٹی کی آرزو
میرے بھی دل میں ہے اک انوکھی سی آرزو
ہے زندگی تو یہ بھی بر آئے گی آرزو
غالب مجھے ہے اس سے ہم آغوشی آرزو
جس کا خیال ہے گل جیب قبائے گل
۰۰۰
فرج بے نور سا دیدہ ہے بقول ناسخ
چاک دامان دریدہ ہے بقول ناسخ
گانڈ ہی میوۂ چیدہ ہے بقول ناسخ
غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
۰۰۰
یہ کونوں کے پیکر پہ فرجوں کے قالب
ہیں سب میرے لوڑے کے اک چھو کے طالب
نہ پوچھو جو بہروپ میں ہیں مطالب
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
۰۰۰
کچھ کررہا ہوں حضرت والا سے ساز باز
کہتا ہوں گول گول کھلے کیوں کسی پہ راز
گو مدعا یہ ہے کہ کریں مجھ کو سرفراز
غالب دعا یہ ہے کہ سوار سمندناز
دیکھوں علی بہادر علی گہر کو میں
۰۰۰
خدمت خلق کی کچھ داد نہ پائی غالب
مجھ پہ غالب ہی رہی شرم خدا کی غالب
جب مرائی کبھی چھپ کر ہی مرائی غالب
ہوں ظہوری کے مقابل میں خفائی غالب
میرے دعوے پہ یہ حجت ہے کہ مشہور نہیں
۰۰۰
ہر چند کوں فگار ہو دو شاہ کو دعا
دل میں بھی گرچہ خار ہو دو شاہ کو دعا
تم پر خدا کی مار ہو دو شاہ کو دعا
غالب وظیفہ خوار ہو دو شاہ کو دعا
وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں
۰۰۰
ہیں کس و کوں بھی شاد کام لوڑے بھی سر بلند ہیں
اہل ہوس بھی شہر میں پہلے سے اب دو چند ہیں
عام سب اس کی جدتیں یاد سب اس کے پند ہیں
غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا کیجیے ہائے ہائے کیوں
۰۰۰
گانڈ پھٹ جائنے پہ اس کی آہ و زاری الاماں
کوسنوں نے اس کے ڈھائے کتنے ہی مرزاو خاں
چل بسا آخر اسی چکر میں عارف با جواں
یونہی گر روتا رہا غالب تو اے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہوگئیں
۰۰۰
آئے تو ڈیوڑھی میں وہ پردہ نشیں اسد
نا مرد ہوں جو اس کی نہ لے لوں یہیں اسد
جوتوں سے خوف کھاتے ہیں عاشق کہیں اسد
اس فتنہ خو کے در سے اب اٹھتے نہیں اسد
اس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو
۰۰۰
مرا دیکھا بہت شاہوں سے یہ آلت نہیں غالب
یہ قوت ، یہ صلابت اور یہ شہوت نہیں غالب
کسی میں تو تابت اس میں وہ علت نہیں غالب
مرے شاہ سلیماں جاہ سے نسبت نہیں غالب
فریدون و جرو کے خسرو و داراب و بہیمن کو
۰۰۰
مزے لیتا ہے وصل یار کے کب سے عدو غالب
پٹانا بھی نہ آیا تجھ کو اب تک آخ تھو غالب
کہا کرتا ہے معشوقوں سے کوئی دو بدو غالب
نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تو غالب
ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو
۰۰۰
کیا دیکھت ہے اس کے خشوع و خضوع کو
استادہ جب ہو پیر تو جھک جا رکوع کو
لازم نہیں شرتر بے شوق شروع کو
نشو و نما ہے اصل سے غالب فروع کو
خاموشی ہے نکلے ہے جو بات چاہیے
۰۰۰
دیتا نہیں ہے رکھتا ہے پر یاری اس قدر
سچ جاننا کہ کس کی نہیں ماری اس قدر
کس کو پسند آتی ہے بدکاری اس قدر
ہے بارے اعتماد وفاداری اس قدر
غالب ہم اس میں خوش ہیں کہ نا مہربان ہے
۰۰۰
تھا بانداز تکلف کچھ ابھی صحبت کا رنگ
زور پر آنے نہ پایا تھا ابھی شہوت کا رنگ
بام جلوت تک نہ آیا تھا ابھی خلوت کا رنگ
عشق نے پکڑا نہ تھا غالب ابھی وحشت کا رنگ
رہ گیا تھا دل میں جو کچھ ذوق خواری ہائے ہائے
۰۰۰
وہ دن گئے کہ آتے تھے رہ رہ کے کف اسد
مدت ہوئی کہ مرچکا لوڑے کا دف اسد
کیا دیکھتے ہو پشم سیہ کی طرف اسد
ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسد
مجنوں جو مرگیا ہے تو جنگل اداس ہے
۰۰۰
جی کھول کر ہر ایک سے مروائیواسد
بازار ہی میں کھول کے پڑجائیواسد
لوگوں کے قہقہوں سے نہ گھبرائیو اسد
ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد
عالم تمام حلقۂ دام خیال ہے
۰۰۰
خدمت پیر سے ہے گانڈ میں انگلی غالب
مجھ کو آرام نہںے بعد عشا بھی غالب
قہر ہے سجدۂ شش گانہ کی سختی غالب
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
۰۰۰
شوق طاعت میں بنو کتنے ہی تِکی غالب
اور کرتا ہے فلک گانڈ میں انگلی غالب
مرتے مرتے رہی کوں عرش کو تکتی غالب
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
۰۰۰
کرتے ہویوں ذکر کو سکیڑے خطاب کیا
بڑھ کر لپٹ بھی جاؤ اب ان سے حجاب کیا
کھاتے رہو گے یونہی کھڑے پیچ و تاب کیا
غالب تمہی کہو کہ ملے گا جواب کیا
مانا کہ تم کہا کیے اور وہ سنا کیے
۰۰۰
سب ہوئے دفتر وہ عشرت کوشیوں کے طے اسد
کیا کہوں تجھ سے کہ ہے یہ آتشک کیا شے اسد
پھُنک رہا ہے ان دنوں ہر ریشہ و ہر پے اسد
سایہ میرا مجھ سے مثل دود بھاگے ہے اسد
پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے
۰۰۰
رہنا تھا گانڈ ہی کا ہمیشہ دھیاں تمہیں
آتی پسند فرج کی تنگی کہاں تمہیں
آخر یونہی گنوانی تھی اک روز جاں تمہیں
مارا زمانے نے اسداللہ خاں تمہیں
وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی
۰۰۰
دہر میں کتنی ہی کم عیش کی مدت سمجھو
ایک بار اور جئے جاؤ گے یہ مت سمجھو
فرج کی قدر کرو کوں کو کفایت سمجھو
عشرت صحبت خوباں ہی غنیمت سمجھو
نہ ہوئی غالب اگر عمر طبیعی نہ سہی
۰۰۰
تھا کل تلک تو خوشامد سے گانڈ مرواتا
ہمہ شما کے اشارے پہ دوڑ کر آتا
پھرے تھا بیچ کی انگلی سے گانڈ کھجلاتا
ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
۰۰۰
وحشت ہو تو شہوت ہی کی قسم اس کو سمجھیے
بے تاب ہو گر جان تو جسم اس کو سمجھیے
دل آئے تو لوڑے ہی کا اسم اس کو سمجھیے
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آئے
۰۰۰
ہر جگہ اڑتی ہے ان حضرت کی بھد
چوتیا پن کی بھی اک ہوتی ہے حد
چار انگل آپ کے لوڑے کا قد
چاہتے ہیں خوبرویوں کو اسد
آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے
۰۰۰
ذکر نگوں ہوا خصیے بھی میرے جھول گئے
غرض کہ جتنے بھی آسن تھے یاد بھول گئے
بنا کے ہوش مرے مجھ کو ڈیم فول گئے
اس خوشی سے مرے ہاتھ پاؤں پھول گئے
کہا جو اس نے ذرا میرے پاؤں داب تو دے
۰۰۰
مجھے گو جلق کی فرصت ہے ہجر یار میں غالب
مگر کب اس طرف رغبت ہے ہجر یار میں غالب
عجب کچھ عالم شہوت ہے ہجر یار میں غالب
کہوں کیا دل کی کیا حالت ہے ہجر یار میں غالب
کہ بے تابی سے ہر اک تار بستر خار بستر ہے
۰۰۰
سواد کیر ہو چھائی ہے جھانٹوں کی گھٹا غالب
مگر بے کون و کس لوڑا کھڑا بھی ہے تو کیا غالب
نہ پہنچا اپنے مقصد تک تو کیا لمبا ہوا غالب
سمجھ اس فصل میں کوتاہی نشو ونما غالب
اگر گل سرو کے قامت پہ پیراہن نہ ہوجائے
۰۰۰
ذکر سے اس کا نہیں لحظہ بھر کو ہاتھ جدا
وہ کھا گیا ہے بہت کشتہ ہائے زہر شدہ
کچھ ایسے وقت میں مانع نہیں ہے شرع ہدیٰ
اسد ہے نزع میں چل بے وفا برائے خدا
مقام ترک حجاب و وداع تمکیں ہے
۰۰۰
ہیں اوروں کے پیچھے تری لیتے تھے جو غالب
اب چھوڑ نہ کر رنج گئی پھٹ بھی تو غالب
کر توبہ کہ تسکیں ہو تری جان کو غالب
بیگانگئ خلق سے بے دل نہ ہو غالب
کوئی نہیں تیرا تو مری جان خدا ہے
۰۰۰
دی ہے اسے توفیق ہی توفیق خدا نے
جاتا ہے ہر اک کوچے میں یہ گانڈ مرانے
گھر پر بھی بلا لیتا ہے دعوت کے بہانے
ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے
شاعر تو وہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے
۰۰۰
تم کہاں باز آؤ گئے غالب
بدؤوں سے مراؤ گے غالب
کیا جزا حج کی پاؤ گے غالب
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
۰۰۰
دشوار ہے مویسی سے کرنا بہت نباہ
مٹتی نہیں ہے جس کو بھی لگ جائے اس کی چاہ
کچھ اس میں زور باہ ہے مانع نہ ضعف باہ
وہ جس کی کوں سے تھی مرے لوڑے کی رسم و راہ
کہتا تھا کل وہ محرم راز اپنے سے کہ آہ
درد جدائی اسد اللہ خاں نہ پوچھ
۰۰۰

گوشۂ خالد حمید شیدا

(تعارف کلام)


ڈاکٹر خالد حمید شیدا ڈاکٹر عنایت خان کے پوتے اور مولانا عبدالحمید خان مدیر’مولوی‘دہلی کے بیٹے ہیں جو 1929میں کوچہ چیلان دہلی کے ایک چماروں کے کٹھرے میں پیدا ہوئے۔اینگلو عربک ہائی سکول دریا گنج دہلی اور علی گڑھ کی مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور پاکستان بننے کے بعد لاہور آکر کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا۔1953میں پاکستان فون میں چلے گئے اور 57میں امریکہ آگئے، دس سال کینیڈا اور تریالیس سال امریکہ میں طبابت کرنے کے بعد 2000میں ریٹائرڈ ہوگئے۔آج کل ہیوسٹن ٹیکسس کے ایک گوشۂ عافیت میں سر چھپایا ہوا ہے۔
مزاج بچپن ہی سے عاشقانہ تھا مگر جب بڑھاپا آیا اور بے روزگاری کا خوف ہوا تو فارسی شاعری کا رخ کیا اور خسرو، حافظ، غالب اور اقبال کی فارسی شاعری کے اردو تراجم کیے جو پاکستان میں بار بار چھپے اور چھپ رہے ہیں۔ان کی اردو غزلوں کا مجموعہ بھی ’شام غریب‘کی مروت میں چھپا، 2007میں انگریزی شاعری شروع کردی اور خسرواور حافظ کے انگریزی تراجم شائع کردیے۔ان کے اردو تراجم پاکستان میں کتب فروشوں سے انگریزی تراجم amazon.comسے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

تضمین بر غزل غالب

ہم سے کھل جاؤ بوقت مے پرستی ایک دن
ورنہ ہم چودیں گے رکھ کر عذر مستی ایک دن
غرۂ روح و غرور زور لوڑے کو سہی
اس بلندی کے نصیبوں میں ہے پستی ایک دن
قرض لے کر چودتے تھے ، پر یہ کہتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
نغمہ ہائے جلق کو اے دل غنیمت جانیے
بے صدا ہوجائے گا یہ ساز ہستی ایک دن
چدنا، چدوانا ہمارے یار کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن
۰۰۰

تضمین بر غزل غالب

باغ میں جا کے وہ جھاڑی میں بلاتا ہے مجھے
ساےۂ شاخ میں پھر لنڈ دکھاتا ہے مجھے
جوہر لنڈ مجھے یوں تو بہت تھا معلوم
پر چمن میں یہی رقصی نظر آتا ہے مجھے
مدعا تھا مرا لوڑے کا تماشہ کرنا
گھاس پر جلدی سے لیکن وہ لٹاتا ہے مجھے
لوڑا سرماےۂ عالم بنا اندر جو گیا
چرخ بھی اک بڑا خایہ نظر آتا ہے مجھے
چودنے کو تو سبھی مجھ کو لٹا دیتے ہیں
بعد جھڑنے کے نہ پر کوئی اٹھاتا ہے مجھے
۰۰۰

غزل اقبال

کبھی فرج خواب وخیال تو نظر آلباس مجاز میں
کہ ہزار لوڑے تڑپ رہے ہیں ہماری پشم دراز میں
طرف آشنائے جماع بن کہ قضیب کی ہو تجھے لگن
ہے وہ چوت کیا جو چھپی ہوئی ہو ہزار پردۂ راز میں
یوں چھپا چھپا کے نہ رکھ اسے، ترا بھوسڑا ہے وہ بھوسڑا
ہو چدا ہوا تو عزیز تر ہے نگاہ بھوسڑا ساز میں
نہ کہیں جو اس کو پناہ ملی، جو پناہ ملی تو کہاں ملی
مرے اک قضیب سیاہ کو تری فرج بندہ نواز میں
نہ جماع میں رہیں گرمیاں، نہ زنا میں وہ رہیں شوخیاں
نہ ہی غزنوی کا وہ لنڈ ہے، نہ وہ خم ہے پشم ایاز میں
کبھی چودنے کو جو میں اٹھا تو پلنگ سے آنے لگی صدا
گیا لنڈ گانڈ میں جو کبھی، گیا نہ پھر نہ فرج گداز میں
۰۰۰

جلا کے جھانٹ جو کہتے ہو تم کہ بو کیا ہے
تم ہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
نہ توپ میں یہ کرشمہ نہ لاٹھ میں یہ ادا
کوئی بتائے کہ یہ ذکر مشت خو کیا ہے
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جو گانڈ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
یہ رشک ہے کہ مسلتا ہے چوچیاں تیری
وگر نہ خوف ہم آغوشئ عدو کیا ہے
رہی نہ طاقت جفتی ہے اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے
جلی تھی جھانٹ تو لوڑابھی جل گیا ہوگا
گیا ہے گانڈ میں اس کی پھرے ہے اتراتا
وگرنہ لنڈ کی غالب کے آبرو کیا ہے
۰۰۰

تضمین بر شاعران بے نشاں

بھلا ہم غریبوں سے وہ کیوں چدائیں
انہیں آکے دارا و جم چودتے ہیں
نہیں نوکری ایسی ویسی ہماری
وہ دیتے ہیں تنخواہ، ہم چودتے ہیں
نہ جا طمطراق عبا و قبا پر
ولی چودتے ہیں، برہم چودتے ہیں
۰۰۰

کبھی ان کو دے کے جو دم چودتے ہیں
بہت کرکے گرما گرم چودتے ہیں
یہ غلمان جنت ہمارے لیے ہیں
ہٹو اے فرشتو کہ ہم چودتے ہیں
گریزاں وہ کیوں ہم سے اتنے ہیں یارب
عدو جب انہیں دم بدم چودتے ہیں
ہیں کنگال خالد مگر فضل رب سے
مہربان و اہل کرم چودتے ہیں
۰۰۰

تضمین بر غزل غالب

وہ آکے خواب میں مجھ کو بھی ایک بار تو دے
مجال خواب دے تعبیر انتشار تو دے
چدا لے غیر سے ساقی جو ہم سے نفرت ہے
تو جفت کرنے نہ دیتا نہ دے پیار تو دے
رکھ ہاتھ لنڈ پہ اور کام کر تمام اس کا
اسی طرح کبھی مجھ کو ذرا قرار تو دے
اسد خوشی سے مرے ہاتھ پاؤں پھول گئے
کہا جو اس نے ذرا میری گانڈ مار تو دے
۰۰۰

تضمین بر قطعۂ اقبال

کھڑے ہووں کو بٹھانا تو سب کو آتا ہے
مزہ تو جب ہے کہ بیٹھوں کو تھام لے ساقی
ہیں لنڈ جتنے پرانے وہ بیٹھے جاتے ہیں
ہے وقت کشتہ و معجوں سے کام لے ساقی
کٹی ہے رات جو غیروں کے بستروں میں تری
سحر قریب ہے میرا بھی نام لے ساقی
۰۰۰

ہالینڈ میں ایک اجنبی
(57میں امریکہ آتے ہوئے)

آ تجھ کو بتائیں ہم کیا لنڈ ہمارا ہے
اٹھے تو تلاطم ہے بیٹھے تو کنارہ ہے
وہ پشم خمیدہ کہ ابر سر میخانہ
وہ فرج حنائی کہ شعلہ ہے شرارا ہے
کیوں دل نہ لگے تجھ سے اے ملک ولندیزی
گلشن ہے، بہاراں ہے فرج چمن آرا ہے
کیا شان نوازش ہے کیا بندہ نوازی ہے
ان ہیگ کی چوتوں کو ہر لنڈ گوارا ہے
معشوق ہر اک ایسا، خواہش سے اگر دیکھو
جھاڑی کی طرف ہنس کے کرتا وہ اشارہ ہے
بے جفت کیے واپس ہالینڈ سے جاتا ہے
کیا برج میں اے منجم خالد کا ستارا ہے
۰۰۰

تضمین بر غزل غالب

نکتہ چیں لنڈ ہے کچھ اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات جو بن جلق لگائے نہ بنے
میں بلاتا تو ہوں اس کو مگر اے جذبۂ دل
یوں بنے اس پہ کہ بن مجھ سے چدائے نہ بنے
اس نزاکت کا برا ہو وہ بھلی ہے تو کیا
ڈالنے آئے بھی اگر لنڈ گھسائے نہ بنے
یوں پھرے غیر ہے اس چوت کی تصویر لیے
کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے
کہہ سکے کون کہ کس کس سے چداتی وہ ہے
پردہ ڈالا ہے کچھ ایسا کہ اٹھائے نہ بنے
لنڈ پر زور نہیں ہے یہ وہ خود سر غالب
کہ اٹھائے نہ اٹھے اور بٹھائے نہ بنے
۰۰۰

تضمین بر رباعی اقبال

جفتی کرتے ہوئے بھی آگیا گر وقت نماز
قبلہ رو ہوکے ہوگئے دونوں ہم راز
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی لونڈا رہا اور نہ کوئی لونڈے باز
۰۰۰
قدم قدم پہ بھرے گھر نے پاسبانی کی
مگر وہ چد کے رہی خیر ہو جوانی کی
۰۰۰
مانا کہ تری چوت کے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا عضو دیکھ، مرا انتشار دیکھ
۰۰۰
گانڈ ہی رکھ دی جگر نے آج ذکر دوست پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیا
۰۰۰
تم نے مضراب چوت میں رکھ لی
میں بجاؤں ستار لوڑے سے
ہم تو ڈولی میں چڑھ کے چودیں گے
غل مچائیں کہار لوڑے سے
۰۰۰
کھودے جب کوہسار لوڑے سے
کردیے میں نے غار لوڑے سے
تیری فرقت میں میں نے بستر کو
کردیا تار تار لوڑے سے
دل تباہی کو میری کیا کم تھا
کیوں کیا زیر بار لوڑے سے
میں بھی تم کو کما کے دکھلاؤں
جو چلے کاروبار لوڑے سے
چوت ہو اور تیری صورت ہو
نہ ہو فصل بہار لوڑے سے
تجھ کو رسوا کرے گا اے خالد
کہنا یہ بار بار لوڑے سے
۰۰۰

تضمین شاعر بے نشاں

دکھایا جو روپیہ چمکتا ہوا
وہ لالچ میں پھر سامنے جھک گیا
ہوئی جبکہ تکلیف کہنے لگا
کریما بہ بخشائے بر حال ما
کہ ہستم اسیر کمند ہوا
کہا اس سے میں نے کہ اے دلربا
گھسیڑوں مںے پورا کہ آدھا بتا
تو شرما کے مجھ سے یہ کہنے لگا
سپردم بہ تو ماےۂ خویش را
تو دانی حساب کم و بیش را
لٹایا انہیں اور بنایا نرس
دیا ان کی مقعد پہ لوڑا جو کس
وہ نیچے سے بولے کہ بس بھیا بس
ندایم غیر از تو فریاد رس
توعامیاں را خطا بخش و بس
۰۰۰

تضمین بر شاعرانہ بے نشاں

چوت اڑتے ہوئے طوطے کھائے
لنڈ کیا چیز ہے فوطے کھائے
اللہ دے تیری ماں کا مقام مخصوص
ہاتھی بھی گرے تو غوطے کھائے
۰۰۰
کہنے لگیں کہ آپ بڑے ہیڈ کلرک ہیں
ایسا گھسے کہ داخل دفتر کہیں جسے
۰۰۰
تیری مقعد میں شب وصل کیوں لگیں مرچیں
کہ مرا عضو تناسل کوئی کباب نہ تھا
۰۰۰
آنکھیں دکھلاتے ہو پستاں تو دکھاؤ صاحب
وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے
۰۰۰

غالب

عشق نے غالب نکما کردیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

پیروڈی

عشق نے غالب کا لمبا کردیا
ورنہ وہ پیدائشی نا مرد تھا


گوشۂ مرزا محمود سرحدی

تعارف کلام

آپ کا نام مرزا عبدالطیف اور تخلص محمود تھا، اسی مناسبت سے مرزا محمود سرحدی کے نام سے مشہور ہوئے۔قدیم پشاور شہر میں 1914میں پیدا ہوئے اور تمام عمر پشاور میں ہی گزاری اور 1968میں وفات پائی۔مرزا محمود سرحدی نے سنجیدہ شاعری بھی کی لیکن ان کی شہرت مزاحیہ اور طنزیہ شاعری کی وجہ سے تھی۔مزاحیہ اور طنزیہ شاعری کے دو مجموعے ’سنگینے‘اور ’اندیشۂ شہر‘ کے نام سے شائع ہوئے۔
آپ پشاور کی ادبی اور شعری محفلوں میں جوش و خروش سے حصہ لیا کرتے تھے۔مختلف ادوار میں وہ کلام سخن، دائرہ ادیبہ، انجمن ترقی اردو اور ترقی پسند مصنفین کے حلقے کے رکن تھے۔طنزیہ اور مزاحیہ شاعری کی وجہ سے وہ اکبر سرحد کے نام سے بھی یاد کیے جاتے ہیں حالانکہ اکبر الہ آبادی اور مرزا محمود سرحدی کے موضوعات مختلف اور اسلوب جدا تھے۔
زیادہ تر عمری پرائمری سکول کی استادی میں گزاری۔سر کے تیز تھے، ایک بار انسپکٹر سکول کے ساتھ الجھ گئے اور نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا، کچھ مدت کلرکی بھی کی لیکن وہ نوکری بھی چھوڑ دی۔اغلام پسند تھے ،تمام عمر مجرد رہے۔مشہور شاعر احمد فراز کو ان کے لڑکپن اور جوانی میں بہت پسندیدہ نظروں سے دیکھتے تھے۔مرزا صاحب کے سوانح نگار پروفیسر سید یونس شاہ کے مطابق مرزا صاحب کو (احمد فراز)ایسے جیالوں کی طرف کچھ زیادہ ہی رغبت تھی۔وہ تاک میں رہتے تھے کہ ایسے پری زادوں پر شاگردی کا لحاف جلد ازجلد اڑھانے کی سعی کریں۔ان کا ہزلیہ کلام پشاور کے چند دوستوں کی وساطت سے ہم تک پہنچا ہے۔

پیروڈی کلام اقبال

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
کمر جن کی ہوتی ہے مثل کمند
جو ٹانگوں کو رکھتے ہیں اپنی بلند
جو ایسے بھی دیں اور ویسے بھی دیں
جو اپنی گرہ سے ہی پیسے بھی دیں
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
جو عاشق کو تاجر سمجھتے رہیں
جو لوڑے کو گاجر سمجھتے رہیں
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
جنہیں دیکھ کر غنچۂ دل کھلے
جو آگے چلیں گانڈ پیچھے ہلے
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
۰۰۰

یوں علاج دل بے تاب کیے جاتا ہوں
ان کے پیشاب پہ پیشاب کیے جاتا ہوں
۰۰۰

دل مرا پہلو میں دھڑکے تو نہ کیونکر دھڑکے
تجھ پہ سو لڑکیاں قربان ارے او لڑکے
۰۰۰

بہشتی کے لونڈے کی اک دوزخی نے
ذکر پر بٹھا کر دوبھر پھاڑ ڈالی
وہ نیچے سے چلاکے کہہ بھی رہا تھا
جگر پھاڑ ڈالی جگر پھاڑ ڈالی
برص کا مرض اور یہ پیری کا عالم
نہ جانے کہ کیا ڈال کر پھاڑ ڈالی
گرفتار کرنے کی کیا تھی ضرورت
پدر نے پسر کی اگر پھاڑ ڈالی
۰۰۰

ایک عورت کی میں نے بونڈ ماری
چوت کہنے لگی کہ میں واری
دوستاں را کجا کنی محروم
تو نہ با دشمناں نظر داری
۰۰۰

صبح دم ایسے تنا ہوتا ہے
جیسے لوہے کا بنا ہوتا ہے
۰۰۰
آئی وہ میری قبر پہ پیشاب کرگئی
اچھا ہوا کہ چوت کا دیدار ہوگیا
۰۰۰
صبح دم ان کو سر بام مسلتے دیکھا
گویا کشتی میں سے دریا کو نکلتے دیکھا
۰۰۰
پڑی تھی میں گھر میں جو اک دن اکیلی
امانت پہ تیرے میں دھر کر ہتھیلی
پڑوسن کی منجھی چھر ر چھر جو بولی
تمہاری قسم تم بہت یاد آئے
۰۰۰
پیر مغاں کے پاس وہ دارو ہے جس سے ذوق
نامرد، مرد ، مرد، جواں مرد ہوگیا
۰۰۰
اک باغباں کی لڑکی کگرا اٹھا کے بولی
کب تک پڑا رہے گا بنجر یہ کھیت میرا
۰۰۰
اری مالن تری لڑکی مجھے کرنے نہیں دیتی
نہیں موسم یہ کرنے کا تو جا مالی سے مروا لے
۰۰۰

متفرقات

رات کے پچھلے پہر شام سہانی مانگے
وہ بڑھاپے میں نہ کیوں زور جوانی مانگے
سانس لینے نہیں دیتی وہ بوقت کشتن
ایک ہی جیسی وہ جھٹکوں میں روانی مانگے
کاٹ کے ہاتھ میں دینا ہی پڑے گا اس کو
گھر وہ جاتے ہو ئے ہر روز نشانی مانگے
پیاس مجھ سے بجھائے نہیں بجھتی اس کی
اس کو چودے کوئی ایسا کہ نہ پانی مانگے
اس نے مونیکا کے بارے میں پڑھا ہے سب کچھ
اب تو منہ کھول کے وہ چوت مرانی مانگے
گھس چکی چوت کی دہلیز بھی اس کی افضل
کوئی سوراخ نیا خلد مکانی مانگے
(بذریعہ جوہر میر)
۰۰۰
جوہر میر*

ہچکیاں لیندے قطرہ قطرہ چوندا دے
ہونڑ تا لن بھی لؤ دے اتھرو روندا دے
رات نو بانگاں دیندا ایا اٹھ اٹھ کے
ہونٹر تا لمیاں تانڑ کے گانڈوسوندا دے
تڑیاں دیندا آیا آندی جاندی نوں
ہونڑ بوا کھڑکے تا بکری ہوندا دے
تونڑ نکل نی پونچڑیں دیندا خواب کوئی
ادی راہ وچ ڈاگی اٹھ کھلوندا دے
اکھیا وچ ڈل ڈل کر دے اتھرو آجاندیں
چوندیاں روندیاں، ا یسیاں کہاتڑیاں چھوندا دے
۰۰۰

*اس غزل کا پس منظر یہ ہے کہ جوہر میر صاحب کو مثانے کا کینسر لاحق ہوگیا تھا جس کی وجہ سے پیشاب میں خون آنا شروع ہوا۔میں نے فون پر مزاج پرسی کی تو کہنے لگے۔ڈاکٹر صاحب! کچھ نہ پوچھیں اب تو میرا عضو تناسل بھی خون کے آنسو رونے لگا ہے۔یہ ہند کو غزل ان کے مزاحیہ انداز میں لکھی گئی ہے لیکن ان کی حالت زار کی غمازی کرتی ہے۔
۰۰۰

مندرجہ ذیل کلام جانے پہچانے مقتدر شعرا کا ہے۔کچھ نے کلام چھاپنے کی اجازت تو دی، نام چھاپنے کی اجازت نہیں دی۔مرحوم شعرا سے رابطہ نہیں ہوسکا، لہٰذا ان کے نام لکھنے سے اجتناب کیا گیا ہے۔پورے ناموں کی جگہ ان کے نام کے ابتدائی حروف دے دیے گئے ہیں۔

م۔ا

میر حسن مرانے کو مرتا رہا مگر
مخدوم نے مزے سے مرائی تمام رات
۰۰۰
جھانٹ میں نے کہہ دیا تو تم خفا کیوں ہوگئے
وہ کنار آب رکنا باد کی کائی سہی
۰۰۰
عنایت ہے جے پی سری واستو کی
وہ تنخواہ دیتے ہیں ہم مارتے ہیں
۰۰۰
لنگوٹی کو اپنی بڑھا لیجیے
کرامات بابا چھپا لیجیے
۰۰۰
پاجامے کے روزن سے کھڑا جھانک رہا تھا
لوڑے کو ترے دور سے پہچان گئی میں
۰۰۰
فرج کا جب نہ انتظام ہوا
دست قدرت کا اہتمام ہوا
رات بھر اس کا انتقام ہوا
اسد اللہ خاں تمام ہوا
اے دریغا وہ رند شاہد باز
۰۰۰
بوقت ختنہ میں چیخا تو نائی نے کہا ہنس کر
مسلمانی میں طاقت خون کے بہنے سے آتی ہے
۰۰۰
شیخ صاحب کی کرامت دیکھیے
حج کے موقع پر صفا مروا گئے
۰۰۰
بھرا کے پھرتی ہے وہ پیٹ نو مہینے سے
ذرا سی گوشت کی بوٹی نے کیا گرانی کی
۰۰۰
سلاطین زمانہ چومتے ماتھے پہ رکھ لیتے
یہ گاندھی جی کی ٹوپی استری کرکے کہاں رکھ دی
۰۰۰
آئے ہوں گے جہاں سے آتے ہیں
اپنی ماں کی وہاں سے آتے ہیں
۰۰۰
تمنا تھی کہ ان کے باپ کو ساحل پہ بٹھلا کر
ہم ان کی مارتے کشتی میں کشتی ڈوبتی اپنی
نکالا اس نے چاقو اور حملہ کردیا مجھ پر
مرا کر گانڈ اس نے جب تمنا باندھ لی اپنی
۰۰۰
مرے ڈسنے کو تو نے دو طرح کے ناگ پالے ہیں
ترے اوپر بھی کالے ہیں ترے نیچے بھی کالے ہیں
۰۰۰
نہ مانوں گا نہ مانگوں گا گھسیڑوں گا گھسیڑوں گا
اندھیری رات میں دشمن کے سینے میں صنم خنجر
۰۰۰
روز کہتے ہو کہ آداب آداب
آدبایا تو قیامت ہوگی
۰۰۰
منتھلی کورس میں وہ ناچ رہی تھی پیہم
زندگی رقص میں تھی گردش ایام کے ساتھ
۰۰۰
انگلی مقام خاص پہ رکھ کر کہا کہ ہائے
اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے
۰۰۰
خدا بھی ہنس پڑا محشر میں مجھ ایسے ہنسوڑے پر
میں اپنا نامۂ اعمال لکھ لایا تھا لوڑے پر
۰۰۰

م۔بھ

وہ گانڈو ہیں جو کہتے ہیں کہ شہوت مجھ کو کل ہوگی
سر بازار بیٹھے ہیں، چدا دے جس کا جی چاہے
منادی شہر میں کر دو کہ شہوت مجھ کو کل ہوگی
سر بازار بیٹھیں گے، چدا لے جس کا جی چاہے
۰۰۰
ایام حیض میں جو ٹپکتا ہے سرخ سرخ
لگتا ہے جیسے پان بھی کھاتی ہے بھونسری
۰۰۰
یہ عالم بہ زور علم چودتے ہیں
یہ حاکم بہ زور حکم چودتے ہیں
یہ تاجر بہ زور رقم چودتے ہیں
مصیبت ہماری تمہاری ہے بھائی
نہ تم چودتے ہو نہ ہم چودتے ہیں
۰۰۰

ج۔م۔آ

صاف عارض پہ تری میری نظر تک پھسلی
آج میں ہوگیا قائل تری چکنائی کا
۰۰۰
ہمارے ساتھ جو کاٹی تھی ٹوٹی منجھی پر
اسی حسین شب مختصر کی بات کرو
تمہارے پاس فقط چار انگلیوں کا ہے
جو خر کو مات کرے اس ذکر کی بات کرو
۰۰۰
دھوپ جس کو کہ ہم ترستے ہیں
یہی گرمی میں گانڈ پھاڑے ہے
۰۰۰

ا۔ص

قسمت کی ماں کی چوت میں لوڑا نصیب کا
ہر سال فیل ہوتا ہے لڑکا غریب کا
۰۰۰

م۔م

اک روز سیر کرنے گئی چیل چوت میں
اڑتی رہی وہ چیل کئی میل چوت میں
اک دن وہ تھا کہ جاتی نہ تھی کیل چوت میں
اتنی چدی کہ بہنے لگے فیل چوت میں
میں کھول کے کھڑا تو ہوں اپنا ازار بند
جائے گا کس طرح یہ گرانڈیل چوت میں
۰۰۰
لے کے تو دل میرا کہاں دوڑا
اے تری ماں کی چوت میں لوڑا
۰۰۰

متفرقات

سنا ہے حضرت زاہد نے کی زنا کاری
اگر یہ سچ ہے تو پھر شامل ثواب ہے چوت
۰۰۰
تمہاری چوت کو میں خلد سے بہتر سمجھتا تھا
وہاں سے اک یہاں سے سینکڑوں آدم نکلتے ہیں
۰۰۰
اللہ دے ان اگلے مسلمانوں کے لوڑے
ہر دشمن اسلام کی ماں چود کے رکھ دی
۰۰۰
تعریف اس خدا کی جس نے گدھا بنایا
اتنے سے جانور کا اتنا بڑا بنایا
۰۰۰
کم بخت سرخ آنکھوں نے سب کچھ بتادیا
کلرات اس سے کام جو بستر میں تھا کیا
۰۰۰
اک پیر نے تہذیب سے لڑکے کو سنوارا
اک پیر نے تہذیب سے لڑکی کو ابھارا
وہ تن گیا پتلون میں ، یہ سائے میں پھیلی
پاجامہ، غرض یہ ہے کہ دونوں نے اتارا
۰۰۰
تیری ماں کی چودوں یہ کیا ہورہا ہے
کہ لونڈے پہ لونڈا فدا ہورہا ہے
۰۰۰
ظاہر میں دوستی ہے تو باطن میں دشمنی
ماری ہے اس طرح سے بشر نے بشر کی گانڈ
۰۰۰
گڈبائی کہنے کا بھی تو آتا نہیں تھا ڈھب
باہر نکل کے چل دیا لوڑا تھا بے ادب
چیخی پلٹ کے چوت، نہ جا چھوڑ کے مجھے
مجھ کو کہاں ملے گا ترے جیسا لنڈ اب
۰۰۰
پیر کی گانڈ اے مرے مولا
سب مریدوں کی دیکھی بھالی ہے
۰۰۰
جس کا وہائٹ اِنک سے خالی ہو پین
خاک لکھے گا فسانے چوت کے
۰۰۰
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
گانڈدے دیتا تھا وہ بھی ہمیں آتے جاتے
۰۰۰
اس نے نظر نظر میں ہی ایسے بھلے سخن کہے
میں نے بھی اس کی گانڈ میں اک بے زبان رکھ دیا
۰۰۰
لڑکی تھی لکھنؤ کی تو لڑکا پشور کا
ماری یہاں کے لوڑے نے جا کر کہاں کی چوت
دیتا ہے دھونس مجھ کو گورنر کے نام کی
اٹھ تیری اور تیرے گورنر کی ماں کی چوت
۰۰۰
پاکیزگی پہ اپنی اسے کیا غرور تھا
وہ جارہی ہے نیفے کے کس بل سنوارتی
۰۰۰
اب تولیے کی تم کو ضرورت نہیں رہی
لوڑے سے چوت صاف کیے جارہا ہوں میں
تا اتنی دیر میں ذرا کپڑے بدل سکو
لوڑے کو زیر نیف کیے جارہا ہوں میں
۰۰۰
جو احمد نے حامد پہ چڑھ کر کہا
میں سارا گھسیٹوں کہ آدھا بتا
تو حامد نے نیچے سے ہنس کر کہا
ہر دم بہ تو ماےۂ خویش را
تو دانی حساب کم و بیش را
۰۰۰
بن چدی چوت جو مل جائے کسی گانڈو کو
اس بہن چود کو قسمت کا دھنی کہتے ہیں
۰۰۰
یوں آپ کے لحاظ سے میں کچھ نہ کہہ سکا
یہ گانڈ تو حضور مرائی ہوئی سی ہے
۰۰۰

6 تبصرے:

Dr Haseeb Malik کہا...

فضول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Rao Awais Mehtab کہا...

آپ نے پورا انصاف کیا ہے. جو کام کیا گیا تھا آپ نے اس کو چھپانے کی بجائے سب کے سامنے ایمانداری سے پیش کر دیا. شاعری کا ایک پہلو یہ بھی تو ہے تھا نا ؟..

Tahir Ali Bandesha کہا...

بہت خوب ، ہو سکتا ہے بہت لوگ اختلاف کریں مگر آپ نے اپنا حق ادا کر دیا

گمنام کہا...

بے شرمی کی بھی کوئی حد ھوتی ہے یہ اشعار کسی بھی معروف شعراء کے نھیں ھو سکتے ھے۔

گمنام کہا...

کچھ ریختی کی شاعری میں نے بھی کی ہے، کیسے اپ لوڈ ہوگی

گمنام کہا...

کل مارکیٹ سے میں لائی تھی نیل پالش
پھر آ کے ماہ لقا نے لگائی تھی نیل پالش
لمبے سے ناخنوں پہ کیا خوب سی دِکھے تھی
مخروطی انگلیوں پہ بھائی تھی نیل پالش
اس نے کہا کے "واہ واہ کیا خوب دکھ رہی ہے"
میں نے جو کسمسا کے دکھائی تھی نیل پالش
ہاتھوں میں اپنے میرا دستِ حنائی لے کر
ہونٹو ں سے اپنے اس نے لگائی تھی نیل پالش
رخسارو لب بھی میرے میک اپ سے کیا سجے تھے
اسکی نظر میں لیکن چھائی تھی نیل پالش
ہونٹو سے چھو کے اپنے چسنے لگا برابر
کیا خوب چھنگلیا پہ سجائی تھی نیل پالش
لمبی سی انگلیوں میں نازک سی ایک رنگ تھی
اور اس پہ کیا غضب اک ڈہائی تھی نیل پالش
مدت سے میں نے ناخن رکھے تھے ٹرانپرنٹ ہی
ایسے ہی شوق آیا لگائی تھی نیل پالش
دِکھتی تھی دور سے ہی کچھ کم نہ تھی حنا بھی
ناخن پہ جب لگی جگ مگائی تھی نیل پالش
اتراؤں اک ادا سے کیا خوب بانکپن میں
جب سے پرس میں میرے آئی تھی نیل پالش

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *