ہم لوگ پڑھنے کے معاملے میں تھوڑے کاہل ہیں اور کچھ حد تک جب پچھلے ادیبوں کو جاننے اور دیکھنے کا موقع ملتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ واقعی ہمیں پڑھنےسے بالکل دلچسپی نہیں، کجا کہ غور سے پڑھنے کی عادت ہو۔سعادت حسن منٹو ہمارے ان افسانہ نگاروں میں سے ہے، جسے روسی ادب سے بڑی دلچسپی تھی،اس نے اس ادب کی کئی اہم تخلیقات کا ترجمہ بھی کیا ہے۔مندرجہ ذیل مضمون منٹو نے گورکی کے حالات زندگی اور اس کے فن کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے، اس مضمون کو پڑھنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ منٹو کس حد تک گورکی کی تخلیقی بصیرت، مشاہدے اور کرافٹ سے واقف تھا۔کہا جاسکتا ہے کہ دستوئیوسکی ، ٹالسٹائی اور موپساں جیسے اہم لکھنے والوں کے برخلاف منٹو کی دلچسپی گورکی میں شاید اس لیے زیادہ تھی کیونکہ گورکی کو وہ اپنی زندگی، اپنے ملک اور اپنے معاشرے کے حالات سے ان مصنفین کی بہ نسبت زیادہ قریب محسوس کرتا تھا۔یہ قربت صرف آزادی کی جدو جہد میں گورکی کے ناول 'مدر' کی مرکزی کردار کی باغیانہ فکری لہر کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ گورکی کے یہاں اس محنت کش طبقے کی زندگی کے چھوٹے موٹے دلچسپی کے سامان اور زندگی کے طور طریقوں کا عمل دخل زیادہ تھا ،جن سے ملتے جلتے لوگوں کے درمیان خود منٹو نے زندگی گزاری تھی،اس لیے منٹو نے اپنے مضامین میں ایک ماہر نفسیات کی طرح چھیڑخانی، شراب نوشی اور گالی گلوچ تک کا فلسفیانہ جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔منٹو نے اپنے ایک مضمون میں تسلیم کیا تھا کہ انگریز سے بہتر نظم و نسق اس ملک کو کوئی نہیں دے سکتااور نہ دے پائے گا، چاہے ہمیں آزادی ہی کیوں نہ مل جائے۔اس لیے مجھے لگتا ہے کہ دو معاشروں میں آزادی کی دو مختلف تعریفوں کا پہلو منٹو کے پیش نظر رہا ہوگا، وہ ایک طرف انسان پر ہونے والے جبر اور دوسری جانب بہتر حکومتی انتظام کی کشمکش کے درمیان پھنسے ہوئے ایک تخلیقی ذہن کی طرح نمودار ہوا۔آج کل ہمارے یہاں فیشن کے طور پر ہرچھوٹا بڑا افسانہ نگار اپنے افسانوں پر خود ہی بات کرتے ہوئے منٹو کو یوں درمیان میں لے آتا ہے، جیسے منٹو نہ ہواغریب کی جورو ہوگئی، مگر بات وہی ہے کہ نہ تو اس کے پاس منٹو کا سا مشاہدہ ہے،نہ مطالعہ ،پھر منٹو کا سا تخلیقی محاورہ اور حقیقی زبان وہ کہاں سے لائے گا؟ منٹو کا یہ آرٹیکل اور گورکی کی ترجمہ کردہ کہانیوں کی کتاب یہاں موجود ہے۔آپ کلک کرکے پڑھ سکتے ہیں۔شکریہ(تصنیف حیدر)
٭٭٭
1880ء سے لے کر1890ء تک کا درمیانی زمانہ جو در خصوص عقیم ہے، روس کی ادبی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کرتا ہے، دوستو ویسکی1881ء میں تشنگان ادب کو پیاسا چھوڑ گیا۔ تورگنیف1883ء میں راہی ملک عدم ہوا اور طالسطائی کچھ عرصے کے لئے صناعانہ تصانیف سے روکش رہا۔ اور جب اس نے اپنا قلم اٹھایا تو اینا کرے نینا اور ’’ جنگ و امن‘‘ کے مصنف نے بالکل جدا سپرٹ میں اپنے افکار کو پیش کیا۔اسی دوران میں روسی معاشرت کی تبدیلیاں نمایاں طور پر ظاہر ہو گئیں۔ 1863 میں غلاموں کی آزادی کے بعد ملک کی صاحب اقتدار جماعت نے رفتہ رفتہ معاشی اور سیاسی اہمیت سے کنارہ کشی کر لی تھی، بیشتر پروپرائیٹر قریب قریب تباہ ہو چکے تھے، اور ان کی جائیداد تاجروں کے ہاتھوں میں جا رہی تھی۔
الگزنڈر سوم (1881-94) کا عہد حکومت اور نکولس دوم (1894-1917) کی حکمرانی کے پہلے چند سال، روس کے اندرونی سیاسیات کا بدترین زمانہ تھا، جذبہ اصلاح کا وہ جوش جو الگزنڈر دوم کے عہد میں روسی معاشرہ کی رگوں میں موجزن تھا اب سرد ہو چکا تھا مہذب روسی معاشری سوالات سے دور ہٹ کر، صرف ذاتی معاملوں پر غور کرتے تھے، دوسری طرف انیسویں صدی کے آخری سالوں میں مصنوعات نے بڑی ترقی کی اور بیشتر کسانوں نے کارخانوں کی مزدوری اختیار کر لی، یہ کسان اپنا گھر بار چھوڑ کر شہروں میں آباد ہو گئے مگر پھر بھی ان کا اپنے دیہاتوں سے تعلق قائم رہا جہاں وہ ٹیکس ادا کرتے تھے۔ ملک میں خانہ بدوش مزدوروں کی تعداد بہت بڑھ گئی۔ مزدوروں کی یہ جدید جماعت مار کس کے اشتراکی پروپیگنڈے کے لئے بہت موزوں تھی جو بعد میں روسی انقلاب کی متحرک ہوئی۔
دو مصنف روس کے اس متغیر معاشری نظام کی تصویر کشی کرتے ہیں : یہ چیخوف اور گورکی ہیں۔
چیخوف کی وفات سے قبل یہ معلوم ہوتا تھا کہ اس کی تصا نیف نے حقیقت نگاری کے سنہرے زمانے کا افتتاح کیا ہے، جس کا وہ انجام کار صرف پیش آہنگ تھا۔1895ء اور 1905ء کے درمیانی عرصے میں بہت سے نوجوان ادیب یکے بعد دیگرے روسی فضا میں ابھرے، ان ادبا نے مقامی شہرت حا صل کرنے کے علاوہ اکناف عالم میں اپنے نام کا ڈنکا بجوایا۔ دوستو ویسکی اور تور گنیف سے کہیں بڑھ کر ان کو مقبولیت حاصل ہوئی، ان میں گورکی اور ایندریف کا نام خاص مرتبہ رکھتا ہے۔ ہم اس عصر کے ادیبوں کی اجتماعی سرگرمیوں کو’’گور کی، ایندریف سکول‘‘ کہیں گے، اس لئے کہ وہ تمام انشا پرداز جو اس سکول میں شامل تھے، ایسی مشترکہ خصوصیات رکھتے ہیں جو افسانہ نگاری کے قدیم’’ پری چیخوف سکول‘‘ سے کوئی تعلق نہیں رکھتیں ہیں۔
جس سکول کا ہم ذکر کر رہے ہیں ،اس میں گورکی کا نام خاص اہمیت رکھتا ہے۔اس لئے ہمیں اس سکول کے اکثر اراکین کی تحریروں پر اس کے افکار کا اثرجا بجا نظر آتا ہے،اس اثر کی تمام تر وجہ یہ ہے کہ گورکی ہی پہلا شخص تھا جس نے روسی حقیقت نگاری سے ’’ملائم‘‘ اور ’’مطہر‘‘ عناصرکو یک قلم منسوخ کر د یا۔
روسی حقیقت نگاری، اخلاقیات کے معاملے میں ہمیشہ نرم و نازک رہی تھی روسی ادیب فرانسیسی ناولسٹوں کی خام اور حد سے متجاوز صاف گوئی سے ہمیشہ پرہیز کرتے تھے، بھدا پن نجاست اور صنفی رشتوں کا شہوانی پہلو روسی مصنفین کے لئے شجر ممنوع تھا۔
یہ’’ ادبی معاہدہ‘‘ طالسطائی نے منسوخ کیا، جس نے پہلی مرتبہ موت اور بیماری کی جسمانی ہیبتوں کو اپنا موضوع قرار دے کر’’ ایوان الیچ کی موت‘‘ کے عنوان سے ایک تمثیل سپرد قلم کی اور محبت کے شہوانی پہلو کی ’’کرو ترز رسو نتیا‘‘ کے اور اق میں نقاب کشائی کی۔ طالسطائی نے ان دو کتابوں کے تعارف سے فی الواقع انیسویں صدی کے ممنوعات اور اعتقادات کی بنیادیں قطعی طور پر ہلا دیں ، وہ کام طالسطائی نے شروع کیا تھا، گورکی، ایندریف اور آرتی بے شیف کے ہاتھوں تکمیل حاصل کرتا رہا، علاوہ بریں جدید آرٹ کا بانی ہونے کی حیثیت میں بھی طالسطائی کا اثر کافی و وافی تھا، افسانہ نگاری کے مافوق الطبعی اور اخلاقی مسئلے نے جو اس کے زیر نظر تھا، ایندریف اور آرتی بے شیف کے ہاتھوں خوب نشو و نما حاصل کی۔
ادب پر چیخوف کا اثر جدا گانہ حیثیت رکھتا ہے ، ایک حد تک مختصر افسانہ نگاری کو روس میں مروج اور مقبول کرنے کا سہرا اسی کے سر ہے، بیشتر نوجوان افسانہ نگاروں نے چیخوف کا چربہ اتارنے، یعنی اس کی صناعانہ ’’باریک روی‘‘ کو اپنانے کی کوشش کی، مگر اس فن میں اس کا کوئی مد مقابل نہ ٹھہر سکا۔ گو ہمیں ان نقال افسانہ نگاروں کی عبارت میں چیخوف کی دل پسند تراکیب اور اظہار خیال کا مخصوص طرز ملتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کی صنعت بیانی کو وہ لوگ ہر گز نہیں پہنچ سکے ہیں۔
1900ء اور 1910ء کے درمیانی عرصے میں روسی ادب دو بالکل مختلف حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ اولاً گور کی ایندریف سکول’’ ثانیا‘‘ سمبولسٹ اور ان کے متبعین۔
’’ گورکی، ایندریف، قنو طیت اور منکریت کے علمبر دار تھے، اور سمبولسٹ ایسے نئے کلچر کے مبلغ تھے جس نے روسی اذہان کی خوب ربوبیت کی اور طبقہ علمی کو بیک وقت یورپی اور قومی بنا دیا۔
روسی ادب کی حیات تازہ میں میکسم گورکی کا نام بلند ترین مرتبہ رکھتا ہے۔ جدید انشا پردازوں میں صرف گور کی ہی ایسا ادیب ہے جو طالسطائی کی طرح اکناف عالم میں مشہور ہے، اس کی شہرت چیخوف کی مقبولیت نہیں جو دنیا کے مختلف ممالک کے صرف علمی طبقوں تک محدود ہے۔
گورکی کا کردار فی الحقیقت بہت حیرت افزا ہے، غریب گھرانے میں جنم لینے کے با وصف وہ صرف تیس سال کی عمر میں روسی ادب پر چھا گیا۔
طبقہ اسفل کا شاعر، بیسویں صدی کا بائرن، میکسم گورکی، زندگی کی تاریک ترین گہرائیوں کے بطن سے جو جرائم، مصائب اور بدیوں کا مسکن ہے، پیدا ہوتا ہے، اس نے فقیروں کی طرح ہاتھ پھیلا کر روٹی کے ٹکڑے کے لئے التجا نہ کی، اور نہ جواہری کی طرح اپنے بیش قیمت جواہرات کی نمائش سے لوگوں کی آنکھوں میں چکا چوند پیدا کرنا چاہی۔ نہیں ، ترہنی نو گورود کا یہ معمولی باشندہ اپنے حریت پسند افکار سے روسی ادب کی اندھی شمع کو تابانی بخشنے کا آرزو مند تھا مردہ، زرد اور بے جان ڈھانچوں میں حیات نو کی تڑپ پیدا کرنا چاہتا تھا۔
وہ منشی گری چھوڑ کر روس کی سرحدوں میں آوارہ پھرے، قدرت کو یہ منظور نہ تھا کہ مستقبل قریب کا شاندار ادیب اتنے عرصے تک دنیا کی نظروں سے پوشیدہ رہے۔
خانہ بدوشی کی اس سیاحت کے زمانے میں گورکی نے اپنا قلم اٹھایا1892ء میں جبکہ وہ طفلس کے ایک ریلوے ورکشاپ میں ملازم تھا، اس کا پہلا افسانہMakar Cudraجو ایک نہایت دلچسپ رومانی داستان ہے، مقامی روزنامہ اخبار’’ کوکاز‘‘ میں شائع ہوا، اس افسانے میں اس نے خود کو اپنے قلمی نام گورکی سے متعارف کرایا جواب ہر فرد بشر کی زبان پر ہے (گورکی کے لفظی معنے کڑوا یا ملول ہے)
کچھ عرصے تک گور کی اپنے صوبے کے اخباروں میں مضامین چھپوانے کے بعد اس قابل ہو گیا کہ اپنی تحریروں سے روپیہ پیدا کر سکے، مگر وہ در حقیقت اس وقت اعلیٰ ادب، کے ایوان میں داخل ہوا جب اس نے دوبارہ نزہنی میں اقامت اختیار کی۔ کار لنکو (1) ان دنوں نزہنی میں تھا۔ اس نے گورکی کا افسانہ ’’چلکاش‘‘ اپنے اثر و رسوخ کے ایک موقر ماہانہ رسالے (Ruskoe Begatrtre) میں شائع کرایا، گو میکسم گورکی نے پراونشل پریس کی قلمی اعانت جاری رکھی، مگر اب پیٹرز برگ کے رسائل بھی اس کے مضامین کو شکریے کے ساتھ شائع کرنے لگے۔
1898ء میں اس کے افسانوں کا پہلا مجموعہ کتابی صورت میں شائع ہوا۔ ان افسانوں کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی، فی الحقیقت ایک روسی انشا پرداز کے لئے اس قسم کی شاندار کامیابی غیر مسبوق تھی، کہ کتاب کے تعارف کے ساتھ ہی گور کی غیر معروف جرنلسٹ سے ملک کا مشہور ترین ادیب بن گیا، اس کی شہرت’’ پہلے انقلاب‘‘ تک قابل رشک تھی، ملک کے تمام اخبار اس کی تصاویر اور اس کے ذکر سے بھرے ہوتے تھے۔ ہر شخص اس کے سراپا کو ایک نظر دیکھنا اپنا فرض سمجھتا تھا بین الملکی شہرت بھی فوراً نوجوان مصنف کے قدم چومنے لگی۔ جرمنی بالخصوص، اس پر لٹو ہو گیا۔1903ء اور 1904ء کے درمیانی عرصے میں گورکی کی شاہکار تمثیل (NADNEبرلن کے ایک تھیٹر میں متواتر پانچ سو راتوں تک سٹیج ہوتی رہی۔
پیٹرز برگ میں گور کی کا وقت بیشتر’’ مارکسیوں ‘‘ (2) کی صحبت میں گزرا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود مارکسی،بن گیا اور اس نے اپنی دو تصا نیفjhoc of theaاور (FOMA) مارکسی مجلہ (zhizn) کے سپرد کر دیں۔ یہ دونوں کتابیں اس رسالے میں بالاقساط شائع ہوئیں۔ گورکی کی ایک نظم (Song of petrel) کی اشاعت کی وجہ سے یہ رسالہ حکومت نے ضبط کر لیا (petrel) کے معنے ’’ طوفان کا پیغام لانے والا‘‘ ہیں یہ گیت آنے والے انقلاب کی ایک بے نقاب تمثیل تھی۔
میکسم گورکی کا اصلی نام الیکسی میکسی مووچ پیشکوف ہے۔ اس کا باپ میکسم پیکوف ایک معمولی خوردہ فروش تھا، جو بعد ازاں اپنی علو ہمتی اور محنت کشی سے استرا خان میں جہازوں کا ایجنٹ بن گیا۔ اس نے نزہنی نو و گورود کے ایک رنگ ساز وسیلی کیثرن کی لڑکی سے شادی کی، جس کے بطن سے میکسم گور کی14 مارچ1869کو پیدا ہوا، پیدائش کے فوراً بعد باپ اپنے بچے کو استراخان لے گیا۔ یہاں گورکی نے اپنی زندگی کی ابھی پانچ بہاریں دیکھی تھی، کہ باپ کا سایہ اس کے سر سے اٹھ گیا۔ اب گورکی کی ماں اسے استراخاں یعنی اس کے دادا کے گھر لے آئی۔
گورکی نے اپنے بچپن کے زمانے کی داستان اپنی ایک تصنیف میں بیان کی ہے۔ اس میں اس نے اپنے جابر دادا اور رحمدل دادی کے کرداروں کی نہایت فنکاری سے تصور کشی کی ہے، جس کے نقوش قاری کے ذہن سے کبھی محو نہیں ہو سکتے۔
جوں جوں گورکی نے ہوش سنبھالا، اس کے گرد و پیش کا افلاس زدہ ماحول تاریک تر ہوتا گیا۔ اس کی ماں نے جیسا کہ گورکی لکھتا ہے’’ ایک نیم عاقل شخص سے شادی کر لی‘‘.... اس شخص کے متعلق گورکی کی کوئی اچھی رائے نہیں ہے تھوڑے عرصے کے بعد اس کی والدہ بھی اسے داغ مفارقت دے گئی اور اس کے دادا نے اسے خود کمانے کے لئے گھر سے رخصت کر دیا۔ قریباً دس سال تک نوجوان گور کی روس کی سرحدوں پر فکر معاش میں مارا مارا پھرتا رہا۔ کشمکش کے اس زمانے میں اسے ذلیل سے ذلیل مشقت سے آشنا ہونا پڑا۔
لڑکپن میں اس نے ایک کفش دوز کی شاگردی اختیار کی۔ یہ چھوڑ کر وہ ایک عرصے تک دریائے رامگا کی ایک دخانی کشتی میں کھانا کھلانے پر نو کر رہا یہاں ایک بوڑھے سپاہی نے اسے چند ابتدائی کتابیں پڑھائیں اور اس طرح اس کی ادبی زندگی کا سنگ بنیاد رکھا ان کتابوں میں سے جو گورکی نے تختہ جہاز پر اس بوڑھے سپاہی سے پڑھیں ایک کتاب"My Stroilo of uddps" تھی۔ ایک عرصے تک اس کے زیر مطالعہ صرف ایسی کتب رہیں جن کے اور اق کشت و خون اور شجاعانہ رومانی داستانوں سے لبریز ہوا کرتے تھے۔ اس مطالعے کا اثر اس کی اوائلی تحریروں میں نمایاں طور پر جھلکتا ہے۔
پندرہ برس کی عمر میں گور کی نے قازان کے ایک سکول میں داخل ہونے کی کوشش کی، مگر جیسا کہ وہ خود کہتا ہے’’ ان دنوں مفت تعلیم دینے کا رواج نہیں تھا‘ وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا۔ بلکہ اسے بھوکے مرنے سے بچاؤحاصل کرنے کے لئے بسکٹوں کے ایک کار خانے میں کام کرنا پڑا۔ یہ وہی کار خانہ ہے، جس کی تصویر اس نے اپنے شاہکار افسانے’’ چھبیس مزدور اور ایک دوشیزہ‘‘ میں بڑی وضاحت سے کھینچی ہے۔
قا زان میں ایسے طلبہ سے ملنے کا اتفاق ہوا جنہوں نے اس کے دماغ میں انقلابی خیالوں کی تخم ریزی کی، قازان کو خیر باد کہنے کے بعد وہ جنوب مشرقی اور مشرقی روس کے میدان میں آوارہ پھرتا رہا۔ اس زمانے میں اس نے ہر نوعیت کی مشقت سے اپنا پیٹ پالا۔ اکثر اوقات اسے کئی کئی روز فاقے بھی کھینچے پڑے:۔
1890ء میں وہ نزہنی رنگروٹ بھرتی ہونے کے لئے آیا۔ خرابی صحت کی بنا پر اسے یہ ملازمت تو نہ مل سکی مگر وہ نزہنی کے ایک وکیل مسٹر ایم۔ اے لینن کے یہاں منشی کی حیثیت میں نو کر ہو گیا (گورکی اپنے محسن کا بہت احترام کرتا ہے چنانچہ اس کے افسانوں کا ایک مجموعہ مسٹر۔ ایم لینن سے معنون ہے) اس وکیل نے اس کی تعلیم کی طرف توجہ دی۔ تھوڑے عرصے کے بعد ہی گورکی کے ذہنی تلاطم نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ زندگی کے نئے پہلوؤں کی طرف توجہ کرے۔
میکسم گورکی اب روس کی جمہوریت پسند دنیا کی سب سے زیادہ اہم اور مشہور معروف شخصیت تھی، مالی نقطہ نظر سے بھی اسے بہت اہمیت حاصل تھی،اس کی تصانیف کا پیدا کردہ روپے کا بیشتر حصہ انقلاب کی تحریک میں صرف ہوتا رہا۔ خرچ کا یہ سلسلہ1917ء کے اختتام تک جاری رہا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گورکی اپنی کتابوں کی مقبولیت اور حیرت افزا فروخت کے باوجود اپنی محنت کے ثمر سے پوری طرح فائدہ نہ اٹھا سکا۔
1900ء میں روس کی فضا سخت مضطرب تھی، اس وقت گرفتاریوں اور سزاؤں کا بازار گرم تھا۔ چنانچہ گورکی گرفتار ہوا اور اسے سینٹ پیٹرز برگ سے نکال کر نزہنی میں نظر بند کر دیا گیا۔
1902ء میں گورکی ’’امپیریل اکیڈمی آف سائنس‘‘ کا اعزازی رکن منتخب کیا گیا۔ مگر چونکہ نئی اکادمی پولیس کے زیر نگیں تھی اس لئے حکومت نے فوراً ہی اس انتخاب کو رد کر دیا۔ اس پر کار لنکو اور چیخوف سخت مشتعل ہوئے اور احتجاج کے طور پر اکادمی سے علیحدہ ہو گئے۔
پہلے انقلاب میں گورکی نے بڑی سرگرمی سے حصہ لیا۔ جنوری1905 میں اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اس گرفتاری نے تمام دنیا میں گورکی کے چاہنے والے پیدا کر دیئے۔ رہائی کے بعد گورکی نے ایک روزانہ اخبار جاری کیا۔ جس کے کالم بالشویک تحریک کی نشو وار تقا کے لئے مخصوص تھے۔ اس روزنامے میں گورکی نے بیسویں صدی کے تمام روسی ادبا کو بیہودہ قرار دیتے ہوئے مقالوں کا ایک تانتا باندھ دیا۔ ان انشا پردازوں میں جواس کے نزدیک فضول تھے،طالسطائی اور دوستوویسکی بھی شامل تھے۔وہ انہیں (Potly Hourgous) کا نام دیتا ہے۔
اس زمانے میں روس کے غیر ملکی قرضوں کی بہت مخالفت ہو رہی تھی۔ گورکی نے اس تحریک میں بڑی گرمجوشی سے حصہ لیا اور دسمبر میں ماسکو کی مسلح بغاوت کی ہر ممکن طریق سے مدد کی۔1906ء میں روس چھوڑ کر وہ امریکہ چلا گیا، فن لینڈ اور سکینڈے نیو یا کا سفر ایک پر شکوہ اور ظفر مند جلوس کی صورت میں تھا۔ امریکہ میں اس کا استقبال بڑے شاندار طریقے پر کیا گیا۔ مگر فوراً ہی وہاں کے لوگوں کو پتہ چل گیا کہ گورکی جس عورت کے ساتھ رہتا ہے۔ اور اسے اپنی منکوحہ بتاتا ہے فی الحقیقت اس کی بیوی نہیں ، اس واقعہ نے امریکنوں کے دلوں میں اس کی نفرت پیدا کر دی، اسے ہوٹل چھوڑ دینے کے لئے کہا گیا۔ اور ایک دعوت میں جو اس کے اعزاز میں دی جا رہی تھی مارک ٹوین (امریکہ کا مشہور مزاح نگار )نے صدارت سے انکار کر دیا۔ قدرتی طور پر گورکی کی اطہارت کے اس غیر متوقع جذبے سے سخت رنجیدہ ہوا جو ایک روسی کے لئے بالکل ناقابل فہم تھا۔ اس ذہنی تکدر نے اسے چند امریکی افسانے سپرد قلم کرنے پر مجبور کیا جو 1907ء میں (The city of yellow Devils) کے معنی خیز عنوان سے شائع ہوتے رہے۔
یورپ واپس آنے پر وہ کیپری میں سکونت پذیر ہوا۔ یہاں کے لوگوں میں اسے بہت ہر دلعزیزی نصیب ہوئی۔
(Measina)کی ہولناک آفت کے بعد ریلیف کے کاموں میں حصہ لینے کی وجہ سے اطالیہ، گورکی کا گرویدہ ہو گیا۔اسی عرصے میں روس کی ادبی حلقوں میں اس کی شہرت کم ہونے لگی (NO DUA) کے بعد تصانیف کو وہ مقبولیت حاصل نہ ہوئی جو ہونا چاہئے تھی۔گو ادبی حلقوں میں اس کی شہرت کو اس طرح زوال پہنچا، مگر دوسری طرف اس کے افکار روسی مزدوروں کے دل و دماغ میں گھر کرنے لگے۔ روسی مزدوروں کی وہ ذہنیت جو ہمیں 1917ء تک نظر آتی ہے۔ دراصل گور کی کی تصاeتصا اوراق کشف و خون اور شجا ز عبیدنیف کی رہین منت ہے۔
روس واپس آنے پر اس نے ایک ماہانہ رسالہ (Letops) کے نام سے شائع کرنا شروع کیا مگر وہ مقبول نہ ہو سکا۔
جنگ عظیم چھڑنے پر گورکی نے بین الملکی پوزیشن اختیار کر لی اور 1917ء میں اپنے قدیم دوستوں یعنی بالشویکوں کی مدد کی مگر یہ امداد غیر مشروط نہ تھی،گو اس کا اثر لینن اور اس کی پالیسی کے حق میں تھا مگر اس نے اس مرتبہ خود کو پارٹی کا طرف دار ظاہر نہ کیا۔ بلکہ غیر جانبدار اور امن پسند بنے رہنے کی کوشش کی، اس کی یہ ثاقل برتری اور مشفق مگر حرف گیر علیحدگی کافی موثر ثابت ہوئی۔
بالشویکوں نے اس رویے پر ضرورت سے زیادہ سرگرمی کا اظہار نہ کیا،لیکن ایک طرف گورکی کے بالشویک پارٹی کے سر کردہ لیڈروں سے ذاتی تعلقات اور دوسری طرف اس کی بیرونی شہرت کی فرا وانی نے اسے ایک اعلیٰ حیثیت بخشی۔1918ء سے لے کر1921ء تک قطعی طور پر سوویت روس میں پبلک کی آواز قوت صرف گو رکی ہی تھا۔
اگرچہ، گورکی کے غیر جانبدار رویے کو قابل تحسین قرار نہ دیا جائے، مگر یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس ہولناک زمانے میں اس کی سرگرمیاں قابل صد آفرین ہیں اگر وہ اس سے قبل امن پسند اور تہذیب و تمدن کا حامی بننے کا جھوٹا دعویٰ کر رہا تھا، تو اس نے اس مرتبہ فی الواقع اپنے آپ کو ایسا ثابت کر دکھایا۔ روسی تمدن، در حقیقت گورکی کی اخلاص کیشانہ سرگرمیوں کا شرمندۂاحسان ہے۔1918ء اور 1921ء کے دوران میں ہر کوشش جو روسی انشا پردازوں اور دیگر صحافیوں کو گرسنگی اور فاقہ کشی سے بچانے کے لئے عمل میں لائی گئی، صرف گورکی کی توجہ کا نتیجہ تھی، اس نے اس غرض کے لئے اپنے سیاسی دوستوں کی مدد سے ایک ایسا مرکزی ادارہ قائم کیا جہاں روسی ادبا سے غیر ملکی زبانوں کے تراجم کرائے جاتے تھے اور اس طرح انہیں پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہو جاتا تھا۔
1922ء میں اس نے روسی کسانوں پر ایک زبر دست مقالہ لکھا جس میں اس نے جماعت کی غیر معمولی ترش لفظوں میں ملامت کرتے ہوئے اسے ہر برائی کا مسکن ٹھہرایا ہے۔ گور کی اس جماعت کے افراد کو اس لئے مورد الزام بتاتا ہے کہ انہوں نے قومی تہذیب کی تاسیس میں کوئی حصہ نہ لیا۔
اس سال کے آخر میں گورکی نے روس کو خیر باد کہہ کر جرمنی میں سکونت اختیار کر لی۔ اس کی صحت جو پہلے ہی سے بہت خراب تھی اب بالکل گر چکی ہے۔ مگر اس کے باوجود اس نے قلم اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑا ہے۔
(3) وہ ایک رسالے (Besada) کی ادارت کے فرائض بھی انجام دے رہا ہے جس کے ذریعے وہ سائنس کی جدید ترقی سے اپنے ملک کو روشناس کرانا چاہتا ہے۔ گذشتہ چند سالوں سے گورکی کے پیش نظر یہی چیز ہے۔ اس لئے کہ وہ دیکھتا ہے کہ ابتدائی علم کی نشر و اشاعت ہی اس کے ملک کی سب سے اہم ضرورت ہے۔
اخباری اور محض سیاسی تحریروں کو شامل نہ کرتے ہوئے، ہم گورکی کی باقی تصانیف تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
-1 وہ مختصر افسانے جو1892ء اور 1899ء کے درمیانی عرصے میں سپرد قلم ہوئے اور جن کی وجہ سے گورکی کو مقبولیت حاصل ہوئی۔
-2 اس کے معاشری ناول اور ڈرامے جو1899ء اور 1912ء کے درمیانی برسوں میں لکھے گئے۔
-3 1913ء سے لے کراس وقت تک کی تمام تحریریں جو زیادہ تر سوانح حیات اور تذکروں کی شکل میں ہیں۔
گورکی کی تصانیف کا پہلا اور آخری دور درمیانی زمانے کی تحریروں کی نسبت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ ان تحریروں میں ہم اس کی تخلیقی قوت ایک حد تک ضعیف دیکھتے ہیں۔
گورکی کی ابتدائی تصانیف کی’’ حقیقت نگاری‘‘ میں رومانیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ رومانیت کا یہی عنصر اس کی مقبولیت کا محرک ہوا۔ اس کے برعکس غیر ممالک میں اس کی شہرت کا باعث اس کی حقیقت نگاری تھی۔ اس کے پہلے افسانوں کی تازگی روسی قاری کی نظر میں صرف اس کی جواں و بیباک نگاری تھی، لیکن غیر ملکی قاری اس خام اور ستمکار انداز بیان میں تازگی محسوس کرتا تھا جس کے ذریعے اس نے اپنی دوزخ نما، دنیا کی تصویر کشی کی ہے۔
ان سطور سے ہمیں اوائلی گورکی کے متعلق روسی اور غیر ملکی قاری کی پسندیدگی کے مقابل کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے، اس تضاد کی وجہ فی الحقیقت’’ عقبی مناظر‘‘ کا تخالف ہے۔ روسیوں نے اس کے افکار کو چیخوف اور 1880ء کے دیگر انشاء پردازوں کے گرائے ہوئے مغموم و یاس آفریں پردے پر دیکھا اور غیر ملکیوں نے عہد وکٹوریہ کی مروج پر سکون حقیقت نگاری کے پردہ پر گورکی کے شروع شروع کے افسانے بالکل رومانیت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ان افسانوں میں makar cudraاور The ddioomen izegdکے نام قابل ذکر ہیں۔
ان افسانوں کی رومانیت نمائشی اور تھیٹریکل ہے۔ لیکن اسی رومانیت نے چیخوف سے اُچاٹ روسی قاری کی نظر میں گورکی کا رتبہ پیدا کیا۔ اس کی یہ رومانیت ایک ایسے فلسفے کی شکل اختیار کر گئی، جسے اس نے بڑے خام اور سادہ انداز میں اپنے ایک افسانےThe siskin who led of the truth loving wood peckerمیں بیان کیا ہے۔ اس کہانی کا مفاد یہ ہے کہ وہ دروغ جو روح کو سرفرازی بخشے، بہتر ہے اس سچائی سے جو ذلت اور پستی میں دھکیلنے والی ہے۔
1895ء میں گورکی نے دفعتاً چوروں اور جنگلی انسانوں کی داستانیں قلم بند کرنا چھوڑ کر نیا رخ بدلا۔ اب اس نے جو روش اختیار کی، حقیقت نگاری کی تشکیل اور رومانی الہام کا اجتماع تھی، اس کا پہلا افسانہ، چلکاش، جو بڑے پریس، میں شائع ہوا بہت کامیاب ہے۔ اس داستان کا موضوع چلکاش نامی ایک ترش،رو اور نڈر خفیہ فروش ہے اور اس نوجوان طامع لڑکے کا تقابل ہے جسے چلکاش اپنے خطر ناک اور مجرمانہ پیشے میں شریک بناتا ہے۔ چلکاش کا کردار قابل تعریف صفائی اور تصا پر تصا بہترین فن کاری سے پیش کیا گیا ہے۔ اس قسم کے دو اور افسانے (maluaاورMY Fellor Travellers) ہیں اول الذکر افسانے میں مالوا عورت کے بھیس میں دوسرا چلکاش ہے۔ موخر الذکر داستان کردار نگاری کے نقطہ نظر سے غیر فانی حیثیت رکھتی ہے۔ مائی فیلوڈریولز میں پرنس شارکو (جس کے ہمراہ داستان گو، اوڈیسا سے طفلس تک پیدل سفر کرتا ہے) کردار فی الحقیقت گور کی کی ایک نادر تخلیق ہے.... شارکو کے کردار میں ’’مثالیت‘‘ شمہ بھر موجود نہیں گو یہ صاف ظاہر ہے کہ مصنف کی صناعانہ ہمدردی، صرف اسی کے حق میں ہے۔
ان خصوصیتوں میں سے جو گور کی کی شہرت کا باعث ہوئیں ایک اس کے نیچر کو بیان کرنے کا خاص انداز ہے۔ ہم یہاں مثال کے طور پر اس کے افسانوں میں سے چند جملے پیش کرتے ہیں :
’’ گودی کے گردو غبار میں جنوبی نیلگوں آسمان گدلا ہے تاباں سورج سبزی مائل سمندر کو دھندلی نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ جیسے اس نے خاکستری نقاب اوڑھ رکھی ہے۔ سورج کا عکس سمندر کی سطح پر، چپوؤں کے تھپیڑوں اور دخانی کشتیوں اور جہازوں کی نقل و حرکت کی وجہ سے نہیں پڑ رہا۔ جو بندر گاہ پر ہل چلا رہے ہیں یہاں سمندر کی آزاد موجیں سنگیں دیواروں میں قید اور ان بھاری وزنوں کے نیچے دبی ہوئیں ، جو ان کے سینے کو کچلتے ہیں۔ جھاگ بن بن کر اپنی چھاتی کوٹتی ہیں .... شکایت کرتی ہیں .... (از: چلکاش)
’’ مائی فیلو ٹریولر‘‘ کا یہ ٹکڑا بھی اس قسم کی تحریر کا نمو نہ پیش کرتا ہے۔’’ ہم نے الاؤروشن کیا اور اس کے قریب لیٹ گئے۔ رات بہت شاندار تھی، گہرے سبز سمندر کی لہریں نیچے، چٹانوں سے ٹکرا رہی تھیں۔ ہمارے اوپر نیلگوں آسمان کی پر شکوہ خاموشی چھائی ہوئی تھی، اور گرد و پیش عطر بیز درخت اور جھاڑیاں بڑی آہستگی سے جھوم رہی تھیں۔ چاند بلند ہو رہا تھا جس کے ساتھ درختوں کے نازک سایوں کا جھرمٹ پتھروں پر رینگ رہا تھا۔ قریب ہی کوئی خوش گلو پرندہ راگ الاپنے میں مصروف تھا۔ اس کی نقرئی آواز فضا میں جو لہروں کے تھپیڑوں کی دھیمی اور دلنواز صدا سے معمور تھی، آہستہ آہستہ حل ہوتی معلوم ہو رہی تھی.... آگ تیزی سے جلنے لگی الاؤکے شعلے سرخ و زرد پھولوں کا ایک گلدستہ نظر آتے تھے۔ کانپتے ہوئے سائے ہمارے آس پاس رقص کر رہے تھے۔
گورکی کے بیشتر افسانوں میں اس قسم کی تفصیلات عام ہیں۔ اس کی تحریروں میں لہروں اور نیلگوں آسمان کی پر اسرار اور پر شکوہ خاموشی کا ضرور ذکر ہوتا ہے۔ چیخوف گورکی کی عظمت و ذکاوت کا قائل تھا۔ مگر اس کی نظروں میں یہ اعادہ غیر صناعانہ تھا۔ چنانچہ وہ گور کی کو ایک خط میں لکھتا ہے:
’’.... معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے میرا صحیح مطلب نہیں سمجھا ہے۔ میں نے اپنے خط میں خامکاری کے متعلق ذکر کیا تھا، بلکہ میرے پیش نظر غیر روسی الفاظ کا نامناسب استعمال تھا، دوسرے ادیبوں کی تحریروں میں اس قسم کے غیر مانوس الفاظ نظر انداز ہو جاتے ہیں مگر چونکہ آپ کے ادبی پارے موسیقی اور ہم آہنگی کا اجتماع ہوتے ہیں ، اس لئے ان میں آ کے قلم کی معمولی سے معمولی خام جنبش بھی پوری آواز میں چلا اٹھتی ہے۔
آپ کے افسانے اس امر کے شاہد ہیں کہ آپ مکمل آرٹسٹ ہیں اور حقیقی معنوں میں ایک متمدن صناع، کسی حد تک خامکاری، آپ کی خصوصیت ہے، آپ عاقل ہیں ، آپ کے احساسات نکتہ رس اور لطیف ہیں ، آپ کی ذکاوت طبع ’’میدانوں میں ‘‘ اور ’’ تختہ جہاز پر‘‘ میں نمایاں طور پر جلوہ فگن ہے یہ دونوں افسانے فی الحقیقت صنعت کے بلند مرتبت شاہکار ہیں ، ان کے مطالعے سے یہ چیز روشن ہوتی ہے کہ آپ نے کسی اچھے تعلیم گاہ میں دن گذارے ہیں میرا خیال ہے کہ میں یہ کہتے وقت غلطی نہیں کر رہا ہوں۔ اگر آپ کی تصانیف میں کوئی نقص ہے تو فقدان ضبط اور حسن لطافت کی کمی ہے۔
کسی خاص مقصد کے لئے کم سے کم نقوش کا استعمال.... یہ ہے’’ حسن لطافت‘‘ آپ کا اسراف ضرورت سے زیادہ ہوتا ہے۔ آپ کی نیچر سے متعلقہ تفصیلات صناعانہ ہیں۔ آپ فی الواقع لینڈ سکیپ پینٹر ہیں لیکن ان تفصیلات میں بے جان اشیا کو جاندار ظاہر کرنے والے استعارات کی فراوانی.... مثال کے طور پر سمندر۔ سانس لیتا ہے، آسمان دیکھتا ہے جنگل دل نوازی کرتا ہے، نیچر سرگوشیاں کرتی ہے۔ روتی ہے، بولتی ہے اور علی ہذا القیاس۔ اس قسم کے فقرے تفصیلات میں یک آہنگی اور تکرار پیدا کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات وہ انہیں لطافت سے بھی عاری کر دیتے ہیں۔ نیچر کے بیانات میں رنگ اور اظہار صرف سادگی، یعنی بارش گرنا شروع ہوئی، تاریکی چھا گئی، سورج غروب ہوا، ایسے سادہ فقروں سے پیدا ہوتے ہیں۔‘‘
گورکی، واقعی بقدر کفایت، ضبط کام میں نہیں لاتا۔ وہ تھیٹر میں ایک ایسے تماشائی کے مترادف ہے جو اپنے وجد کا اس بے پروا انداز میں مظاہرہ کرتا ہے کہ نہ تو وہ خود سن سکتا ہے اور نہ دوسروں کو سننے دیتا ہے، گو ضبط کا یہ فقدان ان کی گفتگوؤں میں مخل ہوتا ہے اور نزاکت، عذوبت، طراوت اور سرگوشیوں کا عام تذکرہ ہوتا ہے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاتا، کہ وہ آرٹسٹ ہے اور نہایت ہوشمند انسان، وہ ہیئت گر ہے یعنی وہ جس چیز کو بیان کرتا ہے، اسے دیکھتا ہے اور ہاتھوں سے چھوتا ہے.... یہ فن کاری ہے۔
’’ مالوا‘‘ کا افتتاحیہ جملہ جو صرف دو لفظوں (More rmuyales)یعنی ’’سمندر ہنس رہا تھا‘‘ پر مشتمل ہے، گورکی کے طرز بیان کی خاص مثال ہے۔
1897ء میں گور کی کی’’ حقیقت نگاری‘‘ اس کی’’ رومانیت‘ ‘ پر غالب آ گئی’’ جو کبھی انسان تھے‘‘ اس پر شاہد ہے۔
اس افسانے اور ہر اس افسانے میں جو گور کی نے 1897ء کے بعد قلمبند کیا، ایک ایسی خصوصیت نمایاں طور پر ظاہر ہے جو اس کی ادبی شہرت کے زوال کا باعث ہوا: یہ خصوصیت فلسفیانہ گفتگوؤں سے حد سے زیادہ بڑھا ہوا پیار ہے، جب تک اس نے اس عنصر سے پرہیز کیا، وہ اپنی تعمیری قوت کا ثبوت دیتا رہا، جو دیگر روسی افسانہ نگاروں میں بہت کم ملتی ہے.... مگر گورکی کا’’ چھبیس مزدور اور ایک دوشیزہ‘‘ ان تمام عیوب کو بھلا دیتا ہے۔‘‘
اس افسانے کا افتتاحی منظر بسکٹ بنانے کا ایک تنگ و تار کار خانہ ہے۔ جہاں چھبیس مزدور چودہ گھنٹے لگاتار مشقت کرتے ہیں۔ گورکی اس افسانے کو اپنے مخصوص انداز میں اس طرح شروع کرتا ہے:
’’ ہم تعداد میں چھبیس تھے،.... چھبیس متحرک مشینیں ایک متحرک کوٹھڑی میں مقید، جہاں ہم صبح سے لے کر شام تک بسکٹوں کے لئے میدہ تیار کرتے۔ ہماری زنداں نما کوٹھڑی کی کھڑکیاں ، جن کا نصف حصہ آہنی چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔ اور شیشے گردو غبار سے اٹے ہوئے تھے، اینٹوں اور کوڑے کرکٹ سے بھری ہوئی کھائی کی طرف کھلتی تھیں ، اس لئے سورج کی شعاعیں ہم تک نہ پہنچ سکتی تھیں۔
ہمارے آقا نے کھڑکیوں کا نصف حصہ اس لئے بند کرا دیا تھا کہ ہمارے ہاتھ اس کی روٹی سے لقمہ بھی غریبوں کے دینے کے لئے باہر نہ نکل سکیں ، یا ہم ان بھائیوں کی مدد نہ کر سکیں جو کام کی قلت کی وجہ سے فاقہ کشی کر رہے تھے۔
اس سنگین زندان کی چھت تلے جو دھوئیں کی سیاہی اور مکڑی کے جالے سے اٹی ہوئی تھی، ہم نہایت تکلیف دہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس چار دیواری میں جو کیچڑ اور میدے کے خمیر سے بھری ہوئی تھی، ہماری زندگی.... غم و فکر کی زندگی تھی۔‘‘
گورکی، اپنی بیشتر تصانیف میں مزدوروں اور غربت زدہ کسانوں کو انسان کی صورت میں پیش نہیں کرتا۔ یہ چیز یورپی ذہن کے لئے جو خوشگوار ماحول کا عادی ہے نئی اور عجیب حیثیت رکھتی ہو مگر ہندوستان جو روس کے اس زمانے کی فضا سے صد گونہ مماثلت رکھتا ہے، ان کرداروں کو ’’ جو کبھی انسان تھے‘‘ بخوبی سمجھتا ہے۔
جب گور کی’’ چھبیس متحرک مشینیں ‘‘ لکھتا ہے، تو ہمیں تعجب نہیں ہوتا۔ ہم فوراً سمجھ لیتے ہیں کہ یہ لفظ نا کامی، حزن و ملال اور تاریک زندگی کا مطالعہ پیش کر رہے ہیں۔
گورکی انسان کو اس شکل میں پیش نظر رکھتا ہے، جیسا وہ ہے، اس کے کردار بھوک کو ’’ معاشی دباؤ‘‘ نہیں کہتے ہیں۔ وہ امرا کو’’ سرمایہ دارانہ عناصر کا اجتماع‘‘ نہیں کہیں گے، وہ انہیں صرف امراء کا نام دیں گے۔ گورکی کی یہ سادہ بیانی اور صاف گوئی اس کی تمام تصانیف میں موجود ہے۔’’ چھبیس متحرک مشینیں ‘ ‘ پڑھتے وقت ان مزدوروں کی لا متناہی محنت و مشقت اور بے بسی کی ایک صاف تصویر کھنچ جاتی ہے۔
اس افسانے میں چھبیس زشت رو غلیظ مزدوروں کی ایک داستان بیان کی گئی ہے۔ یہ سب ایک حسین دوشیزہ کی محبت میں گرفتار ہیں۔ جو ہر روز ان سے بسکٹ لینے کے لئے آتی ہے، اس لڑکی کا معصوم حسن ہی ایک ایسی شعاع ہے جس سے ان کی تاریک زندگی آشنا ہے۔
ان لوگوں کو جو سب کے سب غلیظ اور ان میں اکثر مریض ہیں ، صرف ایک چیز منسلک کئے ہوتی ہے.... ٹینیا سے ان کی جذباتی محبت گور کی بڑی وضاحت سے ان کی اس اجتماعی محبت کی تشریح کرتا ہے۔
’’.... گو زندان نے ہم سب کو وحشی درندوں سے بدتر بنا دیا تھا۔ مگر پھر بھی ہم انسان تھے۔ اور بنی نوع انسان کی طرح ہم بھی کسی کی پرستش کئے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔ ہمارے لئے اس کی ذات سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی شے نہ تھی۔ اس لئے کہ بیسیوں انسانوں میں سے جو اس عمارت میں رہتے ایک صرف وہی تھی جو ہماری پروا کیا کرتی تھی....
ہر روز اس کے لئے بسکٹ مہیا کرنا ہم اپنا فرض سمجھتے تھے....یہ ایک نذرانہ ہوتا، جو ہم ہر روز اپنے دیوتا کی قربان گاہ پر پیش کیا کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ یہ رسم ایک مقدس فرض ہو گئی جس کے ساتھ ہمارا اور اس کا رشتہ بھی باہم مضبوط ہو گیا۔ ہم ٹینیا کو نصیحتیں بھی کیا کرتے: یہی کہ وہ اس سردی میں گرم کپڑے استعمال کیا کرے اور سیڑھیوں پر سے احتیاط کے ساتھ گذرا کرے....‘‘
مندرجہ بالا سطور سے مزدوروں کا بچپن نمایاں طور پر ظاہر ہے، اس بچپن سے گور کی کو یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ چھبیس غیر تربیت یافتہ مزدور کس خیر معمولی اخلاص اور سادگی سے ٹینیا کی محبت میں گرفتار تھے۔ دراصل ان مزدوروں کو اپنی تاریک زندگی میں صرف ایک ہی شعاع نظر آئی جس کا دامن انہوں نے پکڑ لیا۔ گو یہ لوگ، غلیظ، وحشی، جاہل، اور غیر تربیت یافتہ ہیں ، لیکن اس کے با وصف ان کے کھردرے قلوب پر ٹینیا کا وجود پورا اثر کرتا ہے، وہ اسے حقیقی حسن کا سر چشمہ تصور کرتے ہیں۔
یہ جدا بات ہے کہ یہ لوگ اپنی غربت اور پر از مصائب زندگی کے خود آپ ذمہ دار ہوں۔مگر ان کا قصور نہیں ہے کہ وہ مذہب یا آئیڈیل نہیں رکھتے اور وہ امید وار خواہش زندگی سے نا آشنا ہیں۔’’ روسی معاشرہ میں آراء وافکار کی نا استواری کا وجود‘‘ جیسا کہ گورکی کو اپنی ایک تصنیف میں لکھتا ہے’’ مثالیت سے غفلت برتنے کا نتیجہ ہے۔‘‘
ٹینیا، چھبیس مزدوروں کی نظر میں ایک فرشتہ ہوتی ہے اس کی پاکیزگی اور نیکی نہ صرف انکی گفتگوؤں کا موضوع ہوتی ہے بلکہ وہ مزدوروں کی زندگی کو نئے معانی بخشتی ہے۔
بڑے ڈرامائی اور بے رحم، انداز میں گورکی اپنے پیش نظر مقصد کو رفتہ رفتہ آشکار کرتا ہے چھبیس مزدور اپنی دیوی کی عصمت کا امتحان لیتے ہیں ایک سپاہی جو اس کار خانے میں ان کی نسبت اچھے کام پر نو کر ہوتا ہے ان سے دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ٹینیا کو ہتھے چڑھا لے گا۔ مزدور سپاہی سے شرط تو لگا بیٹھتے ہیں مگر وہ ایک بےقراری مول لے لیتے ہیں۔
’’ اب ہمیں معلوم ہوا کہ ہم شیطان سے بازی لگا رہے ہیں۔ جب ہم نے کیک بنانے والے نانبائی سے یہ خبر سنی کہ سپاہی نے ٹینیا کا پیچھا کرنا شروع کر دیا ہے، تو ہمیں سخت رنج پہنچا اور ہم اس رنج کو مٹانے کے لئے اس قدر محو تھے کہ ہمیں یہ معلوم تک نہ ہوا کہ آقا نے ہماری بے چینی اور اضطراب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میدے میں تیس سیر کا اضافہ کر دیا ہے۔‘‘
گو وہ حد درجہ مضطرب تھے اور اس بات پر متاسف تھے کہ انہوں نے کیوں خواہ مخواہ ٹینیا کی عصمت کا امتحان کرنا چاہا مگر بایں ہمہ وہ اس روز کے منتظر تھے جب انہیں یہ معلوم ہو جانے والا تھا کہ وہ برتن جس میں وہ سب اپنے دل رکھے ہوئے تھے کتنا صاف اور بے لوث ہے۔
یہ بد قسمتی سے ٹینیا با عصمت ثابت نہیں ہوتی۔ اور وہ سپاہی کے ہتھے چڑھ جاتی ہے۔
یہ داستان خوشگوار نہیں ہے، لیکن گورکی کے قلم نے اسے اس غیر جانبدارانہ تفصیل سے بیان کیا ہے کہ یہ، ہولناک، حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ یہ افسانہ شعریت کی اس قدر زور دار رو سے لبریز ہے۔ اس میں آزادی اور حسن کا اتنا معتدل ایمان و یقین ہے اس کے علاوہ یہ داستان اس قدر صحت فن کاری سے بیان کی گئی ہے کہ ہم اسے گور کی کا شاہکار تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتے یہ افسانہ اسے بلا شک و شبہ روس کے بلند مرتبت کلاسکس کی صف اولیں میں جگہ دلواتا ہے۔
’’ اس کا محبوب‘‘ میں ’’ چھبیس مزدور اور ایک دوشیزہ‘‘ کی روح کار فرما ہے۔ یہ ادب کا ایک درخشاں ٹکڑا ہے جو شعریت، موضوع کی رفعت تخیل اور صفت صحیحہ کے نقطہ نظر سے اپنی قسم کا واحد اضافہ ہے۔ اس میں بد شکل لڑکی کے خیالی محبوب کی تخلیق واقعتاً نادر اور شاندار ہے۔
گورکی اپنے افسانوں میں ارادتاً سوسائٹی کے بائیں طبقے کو زیر قلم رکھتا ہے اس کے کردار بالعموم اپنے مقاصد میں نا کامیاب رہتے ہیں۔ اس کی تمام تر وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں جب وہ ایک آوارہ زندگی بسر کر رہا تھا۔ اسے اسی قسم کے واقعات سے دو چار ہونا پڑا تھا۔
گورکی کے افسانوں کا مطالعہ کرتے وقت ہمیں یہ چیز ہر گز فراموش نہ کرنی چاہئے کہ گورکی کی پرورش آغوش غربت میں ہوئی اور یہ کہ اسے اپنا پیٹ پالنے کی خاطر ایک طویل عرصے تک ذلیل سے ذلیل مشقت کرنا پڑی۔ اب اس شخص کے بربط فکر سے جس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ایک تاریک فضا اور غیر تربیت یافتہ درشت مزدوروں میں بسر کیا اور کس قسم کے نغمے بلند ہو سکتے ہیں ؟ گورکی ہمیں وہی کچھ پیش کرتا ہے جواس کے حساس دل نے محسوس کیا اور جو اس کی چشم فکر نے مشاہدہ کیا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس کا انداز بیان بہت بے باک ہے۔
جس طرح بائرن کا ترنم، آتشیں اور آزاد ہے، ٹھیک اسی طرح گورکی کی آواز بلند، دیوانہ وار اور بے لگام ہوتی ہے۔ جب وہ برہنہ پاو گرسنہ شکم لوگوں کا گیت الاپتا ہے جو اپنی کاہلی پر نازاں ہیں ، جو مفلس تو ہیں مگر نڈر، جو اپنی پر از مصائب زندگی سے خوش ہیں اور مسرت کے وقت مغموم۔
گورکی کی صدا، چیخوف کی شائستہ، نرم و نازک اور منجھی ہوئی آواز نہیں ، نہ وہ معلم اخلاق طالسطائی کی کمزور زاہدانہ صدا ہے.... وہ چنگھاڑتے ہوئے شیر کی ایک گرج ہے۔ چمکتی ہوئی بجلی کی ایک کڑک، ابتدائی قوت میں یہ آواز کسی ایسے حساس انسان کے دل میں اتر جانے والی چیخ ہے جس نے زندگی کے مصائب و آلام سہ کر ہی دنیا کے منہ پر نہایت بے دردی سے قے کر دیئے ہوں۔
وہ دنیا، جو گورکی اپنے افسانوں میں پیش کرتا ہے، ہماری دیکھی بھالی نہیں اور وہ کردار جو اس کے افسانوں کے محرک ہیں ہم ان سے نا آشنا ہیں ،مگر اس کے باوجود ہم اس سر زمین کے جغرافیائی حالات کے سوا اور کچھ نہیں جانتے، گورکی ہمیں ان گہرائیوں تک لے جاتا ہے۔ اور روسی زندگی کی ایسی قلمی تصویر ہماری آنکھوں کے سامنے کھینچ دیتا ہے، جس سے عکسی تصاویر عاجز ہیں۔
گورکی کے افسانوں کے کردار عموماً کسان یا مزدور جماعت کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک روسی نقاد ان لوگوں کے متعلق لکھتا ہے:۔
’’ وہ ایسے نا کارہ انسان ہیں ، جو دنیا کی شاہراہوں پر بھٹک رہے ہوں ان کے ذہن غلاموں ایسے ذہن ہیں کسی آقا یا زندگی کے ایسے قانون کی تلاش ، جس کی وہ آنکھیں بند کئے اطاعت کر سکیں ان کا واحد مطمح نظر ہوتا ہے۔ ان میں تشخص اور کیریکٹر کی استواری کا فقدان ہوتا ہے اگر ان میں الیالیونیف (4)ایسی ہوشمندی اور ذہانت اور اپنی کوششوں سے اپنی حالت کو بہتر بنانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ تو انہیں نظام خودی کا عنصر بہت کم ہوتا ہے، جو انجام کار ان کی زندگی کو مغموم بنا دیتا ہے ان تمام امور کے ہوتے ہوئے ان کا خالق یعنی گورکی ان میں غیر معمولی اعتقاد رکھتا ہے۔‘‘
گورکی کے پروردہءِغربت ہیرو، تشخص سے بیگانہ ہوں ، وہ زندگی کی شاہراہوں پر بھٹکے ہوئے ناکارہ انسان ہوں مگر ان میں ایک نمایاں خصوصیت ضرور ہے جس کی مثال روسی ادب میں اور کہیں نہیں ملتی ہے.... اور دوستوویسکی اور تورگنیف کے پیش کردہ کرداروں کی طرح اپنی تیرہ بختی کا رونا روتے’’ روسی ہیرو‘‘ گورکی اپنے کسی افسانے میں لکھتا ہے:
’’ ہمیشہ جاہل اور سادہ لوح ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ کسی ایسی چیز کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے جس کی وہ سمجھ نہیں رکھتا۔ وہ ہمیشہ ملول ہوتا ہے۔‘‘
گو ان لوگوں کی زندگی جہالت کا مرقع ہوتی ہے، اور انہوں نے غلامی کی فضا میں پرورش پائی ہوتی ہے مگر وہ آزادی کی لذت بھی محسوس کرتے ہیں۔
’’ مجھے اپنی بے خانماں ، اور آوارہ زندگی پسند ہے۔بیشتر اوقات سردی نے میری رگوں میں خون منجمد کیا ہے۔ میں نے فاقے کھینچے ہیں۔ لیکن آزادی عظیم الشان ہے۔‘‘
یہ ہیں وہ الفاظ جو گورکی کے ایک کردار کے منہ سے ادا ہوتے سنتے ہیں شہر کی پر سکون زندگی انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔گورکی کے تقریباً تمام افسانوں میں ہم اس کے خانہ بدوش اور حریت پسند کردار کسی آئیڈیل کا دامن تھامے دیکھتے ہیں۔ یہ خصوصیت بلا شک و شبہ گورکی کا اپنا عکس ہے۔ اس کے کردار عموماً سوسائٹی کے مصنوعی نظام سے رہائی حاصل کر کے، نیچر کے وسیع کارخانے میں بھاگ آتے ہیں ، جہاں انہیں سکون قلب اور اطمینان خاطر نصیب ہوتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ہم نیچر میں صوفیانہ قربت، گورکی کی ہر تصنیف میں بدرجہ اتم موجود ہے۔
گورکی کے ہیرو با اخلاص اور بے ریا ہوتے ہیں۔ وہ زبان سے وہی کچھ نکالتے ہیں جو وہ اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں۔ ان میں تہذیب یافتہ افراد ایسی بناوٹ اور مدانہت نہیں ہوتی۔ وہ زندگی کو اسی شکل میں دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ جیسے وہ اصلاً ہوتی ہے۔
گورکی، جن مفلس، مصیبت زدہ اور بد چلن روسیوں کا ہم سے تعارف کراتا ہے، ان کی فطرت، غربت اور بری عادتوں کی زنجیروں میں ایسی بری طرح جکڑی ہوتی ہے، ان کے دلوں کو برے اعمال اور ارادوں نے ایسا سیاہ کر رکھا ہے، ان کے ماحول میں راہ راست پر چلنے کی ترغیب دلانے والے اثرات، اتنے کم اور کمزور ہیں کہ ہمیں ان کے انسان ہونے میں کیا، زندہ رہنے پر تعجب ہوتا ہے، لیکن انسانیت کی اس عبرت انگیز بربادی میں بھی ایک روشنی کبھی کبھی نظر آ جاتی ہے، جس پر اگر اپنی نظر قائم رکھ سکیں تو گورکی کے ویرانے آباد معلوم ہونے لگتے ہیں ، اس کے بیماروں میں صحت کے وہ آثار، مردوں میں زندگی کی وہ علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں ، جو ہم کو یقین دلاتی ہیں کہ انسانیت کا جوہر کبھی کم نہیں ہو سکتا اور جب کبھی وہ نظر آئے گا، تو اس شان سے کہ ہم دوسروں کی نہیں بلکہ اپنی زندگی بھی اس سے روشن پائیں گے۔ گورکی نے انسانیت کا جو جوہر دریافت کیا ہے، وہ انسانی ہمدردی ہے، ایک جذبہ، جو پست حیوانی زندگی کی تاریکی کو اسی طرح ریزہ ریزہ کر دیتا ہے جیسے بجلی، کالی گھٹاؤں کے اندھیرے کو....‘‘
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں