اتوار، 24 جنوری، 2016

منٹو اور فرانسیسی ادب

منٹو کی تخلیقی ہنرمندی کو سمجھنے کے لیے اس سے متعلق اہم گوشوں کو سمجھنا بھی بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے، اسی خیال کے تحت اردو ادب، نئی دہلی کے اکتوبر تا دسمبر 2012 کے شمارے میں جہاں منٹو پر بہت اچھے مضامین شامل کیے گئے، وہیں لاہور سے شائع ہونے والی محمد سعید کی مرتب کردہ کتاب'نوادرات منٹو'سے منٹو اور فرانسیسی ادب کا یہ گوشہ بھی شامل کیا گیا۔ اس حصے میں ہمیں منٹو کو متاثر کرنے والے فرانسیسی ادیبوں کے بارے میں بنیادی جانکاری حاصل ہوتی ہے،آپ اس کو صرف معلومات کی حد تک ہی اہمیت دیں تب بھی یہ بہت اہم ہے، کیونکہ اس سے ہمیں ان مخصوص ادیبوں کو پڑھنے، جاننے اور سمجھنے کی تحریک بھی ملتی ہے اور ان کے افکارو انداز تحریر سے شناسائی بھی حاصل ہوتی ہے۔مجھے یہ گوشہ اس حوالے سے اہم معلوم ہوا اس لیے میں نے سوچا کہ آپ پڑھنے والوں کے ساتھ اسے شیئر کیا جائے۔ضروری نہیں ہے کہ ہم موپساں کے بارے میں ٹالسٹائی کے خیالات سے متفق ہوں مگر ہمیں اس پر بات کرکے، دوستوں کے ذریعے بہت کچھ نیا جاننے اور سیکھنے میں مدد حاصل ہوسکتی ہے۔شکریہ
***

والٹیئر

فرانس ماری اروئے جو ادبی دنیا میں صرف والٹیئر کے مختصر نام سے متعارف ہے، پیرس میں ۲۱؍نومبر ۱۶۹۴ء کو پیدا ہوا۔ اُس کا باپ متمول آدمی تھی۔ والٹیئر نے ابتدائی تعلیم Jesuit College ایسی نامی درس گاہ سے حاصل کی۔ گو یہ تعلیم پادریوں کے زیرِ اثر تھی مگر جیساکہ اناطول فرانس اپنی ایک تصنیف میں لکھتا ہے کہ کلیسا کے بدترین دشمن وہ ہوتے ہیں جو اُس کی آغوش میں پرورش پاتے ہیں۔ ہم اس کی زندگی کا بیشتر حصہ پادریوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے میں صرف ہوتا دیکھتے ہیں۔
شاعر، مورخ اور فلسفی کی حیثیت سے تو والٹیئر کے مقابلے میں چند اشخاص پیش کیے جاسکتے ہیں مگر طنزیہ نگاری اور ہجو گوئی میں اُس کا کوئی مدِمقابل نہیں۔ اس کے مشرقی رومان یا کہانیاں الف لیلہ کی طرز میں لکھی گئی ہیں۔
والٹیئر کی حاضر جوابی اور طنز گوئی کے متعلق بہت روایتیں مشہور ہیں۔ لوئی چہاردہم کے مرنے کے بعد جدید ناظم نے کفایت کی غرض سے شاہی اصطبل کے آدھے گھوڑے فروخت کردیے۔
والٹیئر نے وہ واقعہ سن کر کہا: ’’اس سے کہیں بہتر تھا کہ شاہی دربار سے نصف گدھوں کو نکال دیا جاتا‘‘۔
۱۷۷۰ء میں اُس کا مجسمہ قائم کرنے کے لیے چندے کی فہرست کھولی گئی۔ اس وقت والٹیئر کے چہرے کی رونق بڑھاپے کی نذر ہوگئی تھی۔ رخسار پچک گئے تھے۔ بدن کی یہ حالت تھی گویا پرانا چمڑا بوسیدہ ہڈیوں پر منڈھا ہے۔ آخر جب مجسمہ تیار ہوگیا تو والٹیئر نے شاہ فریڈرک کو لکھا: ’’مجھے اب معلوم ہوا ہے کہ دیگر علوم و فنون کے علاوہ آپ علمِ ابدان کے سرپرست بھی ہیں جبھی تو میرا مجسمہ تیار کراکے جسم کا ڈھانچہ مطالعہ کے لیے پیش کردیا ہے‘‘۔
والٹیئر اپنے عہد کا سب سے بڑا شاعر، مفکر، تمثیل نگار اور ادیب تھا۔ فرانس کے عہدِ حاضر کے مشہور نوبل پرائز یافتہ انشاپرداز اناطول فرانس کے خیال میں جنسِ لطیف کی آئینہ برداری میں شیکسپیئر بھی والٹیئر سے لگا نہیں کھاسکتا۔ والٹیئر المیہ تمثیل نگاری کا بادشاہ ہے۔
انگلستان کا شہرۂ آفاق شاعر ٹامس گرے گو دہریہ خیال والوں سے متنفّر تھا مگر پھر بھی وہ والٹیئر کی ٹریجڈی کو شیکسپیئر کی تمثیلوں کا ہم پلہ قرار دیتا ہے۔
’’والٹیئر مشہور صحافی بھی تھا۔ وہ بہت کثرت سے خطوط لکھتا۔ اُس نے ایک سو کے قریب کتابیں لکھیں۔ اس کی تصانیف میں ایک لفظ بھی مہمل یا بیہودہ دکھائی نہیں دیتا۔ اس وقت تک اس کے دس ہزار مکتوب شائع ہوچکے ہیں‘‘۔
’’گر والٹیئر کی تمام کتابیں سوائے ’کینن وُڈ‘ کے تلف کردی جائیں تو بھی وہ فرانس کے ادیبوں کی صفِ اوّل میں جگہ پاتا ہے۔ یہ کتاب دراصل روسو کے ایک مکتوب کا جواب ہے جس میں روسو نے اسے بے دین اور ملحد قرار دیا تھا۔ اس تصنیف میں وہ تمام جسمانی گناہوں کا نقشہ اور انسانی تباہی و بربادی کی تصویر کھینچ کر اس بُری طرح مضحکہ اُڑاتا ہے کہ پڑھنے والا خودبخود مصنف کا شریک تبسم ہوجاتا ہے‘‘۔
والٹیئر کے آہنی قلم نے آسمانی صحیفوں پر خطِ تنسیخ کھینچ دیا۔ اس کے ذہن نے مذہب، فلسفے اور تاریخ کے میدانوں کو اپنی جولانگاہ بنایا۔ نثر، نظم، تاریخ، افسانہ ، رومان اور تمثیل میں ہر جگہ والٹیئر مذہب کی مخالفت کرتا ہے۔۔۔۔۔ کلیسا، حکومت کی گاڑی کا سب سے مضبوط گھوڑا تھا۔ والٹیئر کی بیدزنی سے وہ ادھ موا ہوگیا۔ حکومت کی گاڑی رُک گئی مگر والٹیئر اُسے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکا۔
اُس کے نزدیک شخصی یا جمہوری حکومت میں کوئی فرق نہیں۔ غربا کے لیے دونوں باتیں یکساں ہیں۔ خواہ انھیں ایک شیر شکار کرے یا ایک ہزار چوہے ان کی متاعِ زیست پر ڈاکا ڈالیں۔۱؂
والٹیئر کی زندگی کے حالات پر جس کثرت سے کتابیں لکھی گئی ہیں، اُس کی مثال نپولین کے سوا شاید ہی کوئی ہو۔ آخری عمر میں والٹیئر نے اپنی پژمردہ قوت کو اُبھارنے کے لیے شراب کا کثرت سے استعمال شروع کردیا۔ اس کے اثر کو زائل کرنے کی خاطر اس نے بعد ازاں افیون کھانا بھی شروع کردی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُس کی رہی سہی صحت بھی برباد ہوگئی۔ آخر ۳۰؍مئی ۱۷۷۸ء کو یہ باکمال شخص وفات پاگیا۔ اس کے مرتے ہی یہ احکام جاری ہوگئے کہ اسے گرجا میں دفن نہ کیا جائے، مگر والٹیئر کے احباب نے اس کی لاش کو رسوم کے بغیر مضافات کے ایک گرجا میں خفیہ طور پر دفن کردیا۔ اُس کی لوحِ مزار پر یہ الفاظ کندہ ہیں:
’’یہاں والٹیئر آرام فرما ہے‘‘
بعد میں فریڈرک اور دیگر مشاہیر یورپ نے پادریوں کو بہت لعن طعن کی اور اکادمی نے نفرت کا ووٹ پاس کیا۔۔۔۔۔ مورخ اس واقعے کو انقلابِ فرانس کا محرک و ممد خیال کرتے ہیں۔
***
موپساں اور ٹالسٹائی کانظریۂ فنونِ لطیفہ

گائی داموپساں، فرانسیسی شاعر و افسانہ نگار ۵؍اگست ۱۸۵۰ء کو پیدا ہوا۔ اُس کا دادا ایک متمول زمیندار تھا جس نے اپنی موت پر اپنے لڑکے یعنی موپساں کے باپ کے لیے کافی جائداد چھوڑی۔
موپساں نے روئن لیں کی درس گاہ میں تعلیم حاصل کی۔ وہ ابھی فلسفے کی ہی تعلیم حاصل کررہا تھا کہ اس نے اپنی پہلی کتاب اشعار کے ایک مجموعے کی صورت میں شائع کی۔
ایّامِ جوانی میں موپساں ادبی گفتگوؤں میں بہت کم حصہ لیا کرتا تھا۔ اگرچہ اس کے ملنے والے طرگنیف ، الفونسودادے اور زولا ایسے بلند پایہ ادیب و انشاپرداز تھے مگر یہ ملاقاتیں غالباً ادبی مشاغل کے سلسلے میں تھیں، اس لیے کہ ان اُدبا کی نظر میں موپساں اس وقت صرف ایک کھلاڑی کی حیثیت رکھتا تھا۔
ایک دوسرے مجموعۂ اشعار کی اشاعت کے کچھ سال بعد اُس نے ایک اخبار میں اپنے افسانے چھپوانے شروع کیے۔ اُس کے پہلے افسانے Boule de Suif نے ادبی دنیا پر یہ ظاہر کردیا ہے کہ وہ واقعی ایک کامیاب افسانہ نگار ہے اور اُس میں اس صنف سے متعلق تمام صلاحیتیں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ اس افسانے کے طبع ہونے پر عوام کے علاوہ اُس کے ہم عصر انشا پردازوں کے تعجب کی بھی کوئی انتہا نہ رہی جب اُنھوں نے اُن کاغذوں کے چند پُرزوں پر کسی پختہ افسانہ نگار کے معجز نما افکار جلوہ گر پائے۔۔۔۔۔ چند اور افسانوں کی اشاعت نے فرانس کے ہر اس ادبی حلقے کو جو مصنف کے انتخابِ مضمون سے متنفر تھا، یہ تسلیم کرنے پر مجبور کردیا کہ موپساں واقعی اپنے فن کا بہترین ماہر ہے۔
موپساں، شاید اپنے وقت کا بہترین مختصر افسانہ نویس ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اُس کا پہلا افسانہ Boule de Suif فن کے لحاظ سے لاثانی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پیشِ نظر ایسی کوئی مثال نہیں ہے کہ کسی مصنف نے اپنی ادبی سرگرمیوں کی ابتدا ایک فقیدالمثال شاہکار سے کی ہو۔۔۔۔۔ یہ بھی ایک دل چسپ حقیقت ہے کہ خود موپساں کی تصانیف میں ایسا کوئی افسانہ موجود نہیں ہے جو اس پہلی کاوش کا مدِ مقابل ٹھہرایا جاسکے۔
موپساں کی ادبی زندگی صرف دس سال کے قلیل عرصے تک جاری رہی۔ اس عرصے میں اس نے بے شمار افسانے اور نصف درجن ناول سپردِ قلم کیے جو ادبی دنیا میں کافی بلند مرتبہ رکھتے ہیں۔
موپساں کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنی تصانیف میں Naturalism کو تباہ کردیا ہے اس لیے کہ وہ اسے حقیقت نگاری کی آخری حد تک لے جاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ موپساں نے کبھی موجد ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ وہ صرف انسان کی زندگی کو بعینہٖ اسی طرح بیان کرتا تھا جیسی اُس کی آنکھیں دیکھا کرتی تھیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ دنیا کے لوگوں کے نزدیک اس کے مشاہدے کے نتائج بعض اوقات ناگوار ہوتے ہیں۔
بعض حضرات موپساں کو اس فن کے لحاظ سے روسی افسانہ نگار انتون چیخوف کا ثانی قرار دیتے ہیں۔۔۔۔۔ یہ ایک عظیم غلطی ہے۔ ان دونوں افسانہ نویسوں کے عمیق مطالعے کے بعد یہ امر روشن ہوجاتا ہے کہ اُن کی نفسیات میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
موپساں کی نظر انسان میں حیوانی جذبات دیکھتی ہے اور چیخوف انسانیت کے عمیق ترین گڑھوں میں محبت اور امید کی تلاش کرتا ہے۔
بیشک چیخوف بھی موپساں کی طرح ایک مصور تھا اور اُس نے ہمارے سامنے وہی پیش کیا جس کا اس نے اپنے گرد و پیش مطالعہ کیا مگر ایسا کرتے وقت وہ ہمیشہ اُس زندہ چنگاری کی جستجو کیا کرتا تھا جو سرشتِ انسانی میں نہاں ہے۔۔۔۔۔ یہی وہ فرق ہے جو ان افسانہ نگاروں کے بظاہر یکساں فن میں پوشیدہ ہے۔
موپساں بھی اپنے استاد۱؂ ہی کی طرح ایک بڑا اہلِ طرز (Stylist) ہے۔ اس کی تصانیف کے مطالعے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت موزوں لفظ کی جستجو میں رہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اُس نے ہر مقام پر غیر ضروری الفاظ سے اجتناب کیا ہے۔
موپساں کے آرٹ کے متعلق اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ وہ نیکی کو بدی پر ترجیح نہیں دیتا، نہ وہ ایک کردار کو دوسرے کردار پر برتری بخشتا ہے، اور نہ وہ اپنی حکایت بیان کرتے وقت درمیان میں ٹھہرکر زندگی کے معانی پر بحث کرنا شروع کرتا ہے۔۔۔۔۔ دراصل اُس کا مقصدِ وحید اپنے مشاہدات بیان کرنا ہے۔ اُس کی طرزِ نگارش بہت سادہ مگر پُرمعنی ہے۔ وہ پھیکے سے پھیکا لفظ بھی استعمال میں لے آئے گا اگر وہ اُس کی تصویر میں صحیح نقش کا کام دے سکتا ہے۔
موپساں کی آخری تصانیف میں یک لخت ایک غیرمعمولی تغیر رونما ہوا، یعنی اس کے افکار میں پُراز الم زندگی سے جذبۂ ہمدردی کا اظہار جھلک دکھانے لگا۔ یہ ہمدردی ہمیں اس کے اکثر افسانوں میں بھی نظر آتی ہے جو اُس نے ۱۸۹۰ء میں قلم بند کیے۔
La vie Errante کی اشاعت کے بعد جو سیاحت سے متعلقہ تحریروں پر مشتمل ہے، موپساں کی ادبی سرگرمیوں کا خاتمہ ہوگیا۔ ادب سے کنارہ کش ہوکر وہ مذہب میں دل چسپی لینے لگا، مگر اس عرصے تک اس کے اعصاب، شراب کی کثرتِ استعمال اور جسمانی بے اعتدالیوں کی وجہ سے بالکل خراب ہوچکے تھے۔ چناں چہ تھوڑے عرصے کے بعد ہی وہ فالج ایسے مہلک مرض کا شکار ہوا۔ اس مرض کی غیر معمولی تکلیف سے تنگ آکر اس نے جنوری ۱۸۹۲ء میں خودکشی کا اقدام کیا مگر وہ بچ گیا۔ آخر وہ ۶؍جولائی ۱۸۹۳ء کو پیرس میں اس جہاں سے رخصت ہوگیا۔۔۔۔۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے آخری ایّام بہت تکلیف میں گزارے۔
موپساں، انگریزی افسانہ نگاروں ایڈ گرایلن پو اور اوہنری کی طرح مختصر نویسی کا امام تسلیم کیا جاتا ہے، مگر یہ حقیقت ہے کہ موپساں کا درجہ ان باکمال افسانہ نگاروں سے بھی بلند ہے۔ یہ فوقیت اُسے اپنے انتخابِ مضامین کے وسیع تنوّع کی وجہ سے حاصل ہے۔۔۔۔۔ موپساں نے ’مافوق الفطرت افسانہ نگاری‘ کی مشکل صنف میں بھی ایلن پو کی طرح نہایت کامیابی سے طبع آزمائی کی ہے۔
اگر موپساں کچھ دیر اور زندہ رہتا تو یقین تھا کہ وہ اپنی موجودہ تصانیف سے کہیں زیادہ اہم تحریریں چھوڑتا کیوں کہ آخری ایام میں وہ اپنے نظریے کو بالکل بدل چکا تھا۔ بہرحال ادب سے دل چسپی لینے والے حضرات اب بھی اس جواں افکار افسانہ نویس کی ادبی خدمات کے معترف ہیں۔
روس کے شہرۂ آفاق انشاپرداز و تمثیل نگار کاؤنٹ لیو طالسطائی نے موپساں کے افسانوں کے روسی تراجم کا تعارف لکھا جس میں اس روسی مفکر نے موپساں کی تحریروں پر ایک عالمانہ تنقید کی ہے۔ اس تعارف کے چند اقتباسات نقل کرنے سے پیشتر ہم مناسب خیال کرتے ہیں کہ طالسطائی کے مشہور نظریۂ صنعت کے متعلق کچھ بیان کیا جائے۔
طالسطائی کی نظر میں صرف وہی دماغی تخلیق آرٹ ہوسکتی ہے جو متعدی (Infectious) ہو، یعنی وہ اپنے خالق کے احساسات دوسرے دماغ پر منتقل کرسکے۔ اس طرح وہ ہر اس پارۂ صنعت کو آرٹ تسلیم کرنے سے یکسر منکر ہے جو ناقابلِ فہم ہو۔ ہم یہاں خو دطالسطائی کے الفاظ درج کرتے ہیں:
’’اپنے احساسات کو کسی دوسرے شخص کے دل و دماغ میں حرکات، نقوش، آواز کے زیر و بم، الفاظ یا رنگوں کے ذریعے سے اس طرح پیدا کرنا کہ اس پر وہی حالت طاری ہو۔۔۔۔۔ یہ ہے آرٹ کی خاصیت‘‘۔
’’آرٹ یہ ہے کہ کوئی شخص ارادتاً بیرونی اشارات کے ذریعے سے اپنے احساسات دوسرے دماغ پر نہایت کامیابی سے منتقل کرے اور معمول عامل کے ان احساسات سے پوری طرح متاثر ہو‘‘۔
طالسطائی آرٹ کو حسن کاری، خوب صورت اشیا کا پیدا کرنا، ایک کھیل یا ذریعۂ مسرت نہیں مانتا۔ وہ آرٹ کو ایک ذریعۂ اتحاد کہتا ہے جو انسان کو انسان کے ساتھ احساسات کی ایک ہی لڑی میں منسلک کردے۔۔۔۔۔ ارسطو، افلاطون، سقراط اور دیگر حکمائے یونان کا بھی کسی حد تک آرٹ کے متعلق یہی نظریہ رہا ہے، مگر وہ اسے صرف مذہبی تعلیم کا ذریعہ خیال کرتے ہیں۔
طرگنیف۲؂ طالسطائی کو موپساں کے افسانوں کا ایک مجموعہ دے کر اس سے سفارش کرتا ہے کہ وہ اس نوجوان فرانسیسی افسانہ نگار کے افکار کا ضرور مطالعہ کرے۔ اس کے علاوہ طرگنیف، طالسطائی کو موپساں کے متعلق چند ایسی باتیں بھی کہتا ہے جو اُس کے لیے بہت تعجب خیز ہوتی ہیں۔
طالسطائی تعارف میں لکھتا ہے:
’’چوں کہ میں اس زمانے میں جب طرگنیف نے مجھ سے موپساں کی ایک تصنیف کا مطالعہ کرنے کے لیے کہا، اپنا نظریۂ حیات۳؂ بالکل تبدیل کررہا تھا۔ اس لیے میرے لیے ایسی کتابوں کا مطالعہ کرنا جن کے متعلق خود طرگنیف کے الفاظ بہت عجیب سے تھے، بہت مشکل تھا مگر چوں کہ مجھے طرگنیف کو ناراض کرنا مقصود نہ تھا اس لیے میں نے اُس کتاب کا بغور مطالعہ کیا۔
اس مجموعے کی پہلی کہانی La Maison Tellier کا نفسِ مضمون فی الواقع بہت عامیانہ اور بازاری تھا مگر اس کے باوجود میں مصنف کی قابلیت کا معترف ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
وہ واقعی ایک قدرتی عطیے کا، جسے ہم قابلیت کے نام سے پکارتے ہیں، مالک تھا۔ مگر بدقسمتی سے میں اس قابلیت میں وہ امر جو اُن تین اصولوں میں (جو آرٹ کے لیے لازم و ملز وم ہیں) سب سے زیادہ اہم ہے، نہ پاسکا۔
(۱) ایک صحیح یعنی اخلاقی رشتہ مصنف کا اپنے مضمون کے ساتھ
(۲) اظہار کی وضاحت یا حسنِ تشکیل
(۳) خلوص، یعنی اپنے مضمون سے صناع کا پورا اخلاص
ان تین چیزوں میں سے موپساں صرف آخری دو کا بڑی حد تک مالک ہے مگر اس کے افکار میں سب سے ضروری امر کا فقدان ہے یعنی اس کا رشتہ اپنے انتخاب کردہ مضامین کے ساتھ اخلاقی طور پر بالکل غیر درست ہے‘‘۔
’’میں اُس کی کتاب کے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وہ اپنے مشاہدات کو، جو دوسرے لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں، بیان کرنے کی پوری اہلیت رکھتا ہے۔ وہ ایک خوب صورت طرزِ نگارش کا مالک ہے۔ جو کچھ وہ کہنا چاہتا تھا بہت وضاحت سے بیان کرتا ہے۔ اس کے افکار میں وہ تعدیہ (Infection) بدرجۂ اتم موجود ہے جس کے بغیر آرٹ آرٹ نہیں ہوسکتا۔ مگر ان امور کے باوجود بدقسمتی سے وہ اُس ضروری عنصر سے بالکل محروم ہے جس کے بغیر آرٹ ہرگز بلند مرتبہ نہیں ہوسکتا۔ یعنی اس کی تحریروں میں اخلاقی رشتہ بالکل مفقود تھا۔۔۔۔۔ دیگر الفاظ میں وہ نیکی اور بدی میں تمیز کرنے سے قاصر ہے۔ وہ اُن باتوں کو بیان کرنا پسند کرتا ہے جو اُسے پسند نہ کرنی چاہیے تھیں اور نہ ان کے بیان کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔
چناں چہ بدقسمتی سے مصنف نے اس زیرِ نظر کتاب میں بڑے شوق و محبت سے بیان کیا ہے کہ کس طرح عورتیں مردوں کو دامِ گناہ میں گرفتار کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور کس طرح مرد عورتوں کو اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے رغبت دلاتے ہیں اور وہ ملک کے مزدور پیشہ لوگوں کو نہ صرف حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے بلکہ اُن کو حیوانوں سے بدتر پیش کرتا ہے۔ زندگی کے صحیح نظریے کا فقدان، مزدور پیشہ لوگوں کی دل چسپیوں سے تغافل اور ان کی بھدّی تصویر کشی، وہ بڑا بھاری نقص ہے جو فرانس کے اکثر انشاپردازوں کے افکار میں موجود ہے۔ان میں موپساں بھی شامل ہے جو نہ صرف پیشِ نظر افسانوں میں بلکہ ہر اس مقام پر جہاں وہ عوام کے متعلق کچھ تحریر کرتا ہے، ان لوگوں کو ہمیشہ وحشی اور بھدّے حیوان دکھاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فرانسیسی مصنف اپنی قوم کو مجھ سے بہتر سمجھتے ہیں مگر اس حقیقت کے باوجود کہ فرانسیسی کاشتکاروں کے درمیان بود و باش کا موقع نہیں ملا، میں یہ ہر گز تسلیم نہیں کرسکتا کہ وہ لوگ واقعی ایسے کردار کے مالک ہیں جیساکہ یہ مصنف ہمیں بتاتے ہیں۔
اگر فرانس، جس نے اتنی نادر شخصیتیں پیدا کی ہیں، جس نے آرٹ، ادب، سائنس اور انسان کی اخلاقی ترقی کے لیے اتنی خدمات انجام دی ہیں، اب بھی وہی فرانس ہے تو وہ مزدوری پیشہ جماعت جس کے کاندھوں پر فرانس قائم رہا ہے، کبھی وحشی اور حیوان اور روحانیت سے عاری نہیں ہوسکتی۔ چناں چہ میں موپساں اور اسی قسم کے دیگر مصنّفوں کی بیان کردہ کہانیوں کو قابلِ اعتبار نہیں سمجھ سکتا۔ میری نظر میں انشاپرداز، موپساں کی طرح صرف عورتوں کی گردنوں اور کولھوں کی تعریف میں رطب اللسان ہیں اور جو مزدوری پیشہ لوگوں کی زندگی کو تمسخر آمیز لہجے میں بیان کرتے ہیں ایک عظیم صناعانہ (Artistic) غلطی کے مرتکب ہیں، اس لیے کہ وہ صرف جسمانی امور کو لے کر باقی تمام ضروری چیزوں کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ موپساں کا خیال ہے کہ اخلاق و بداخلاقی اور نیکی و بدی میں تمیز کرنا کسی آرٹسٹ کا کام نہیں‘‘۔
’’مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ایک کامیاب مصور نے مجھے اپنی تیار کردہ تصویر دکھائی جس میں ایک مذہبی جلوس دکھایا گیا تھا۔ یہ تصویر فن کے لحاظ سے بہت خوب صورت تھی مگر اس میں بھی صناع کا مضمون سے رشتہ مفقود تھا۔ میں نے اُس سے دریافت کیا کہ ’تم مذہبی رسوم کو اچھا سمجھتے ہو، کیا ایسے جلوس نکلنے چاہئیں‘؟
میرے اس متحیر کن جواب پر وہ صرف اس قدر کہہ سکا کہ میں اس کے متعلق کچھ نہیں جانتا اور نہ میں جاننا چاہتا ہوں۔ میرا کام مشاہدے کی تصویر کشی ہے۔
میں نے اُس سے پھر سوال کیا: مگر کم از کم تمھیں یہ جلوس پسند تو ہوں گے؟
میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔
تو پھر تمھیں یہ رسوم ناپسند ہوں گی۔
’یہ بھی مجھے معلوم نہیں‘۔ یہ تھا وہ جواب جو اُس کامیاب و بہترین فن کار مصور نے مجھے دیا۔۔۔۔۔ مصور جو زندگی کی تصویر کشی تو کرتا ہے مگر اُسے یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ، مضمون سے جس پر طبع آزمائی کررہا ہے، نفرت کرتا ہے یا محبت۔
بدقسمتی سے موپساں بھی اسی تاریکی میں تھا اور بدقسمتی سے اُس کے گرد و پیش کا ماحول ہی کچھ اس قسم کا تھا کہ آرٹ کی خدمت صرف حسن کاری تصور کی جاتی تھی۔۔۔۔۔ عورت کا حسن، جو نوجوان اور شکیل ہو، خاص کر برہنہ ہو اور پھر اُس کے ساتھ مرد کا شہوانی تعلق‘‘۔
’’یہ غلط نظریہ نہ صرف موپساں اور اُس کے ہم عصر انشا پردازوں کے پیش نظر تھا بلکہ اُس وقت کے فلسفہ داں۴؂ حضرات یعنی ملک کی نوجوان نسل کے استاد بھی اسی غلط فہمی میں مبتلا تھے‘‘۔
’’مگر موپساں فنی مہارت کا مالک تھا یا وہ اپنے مشاہدات بیان کرتے وقت بلاارادہ حق کو نظر انداز کردیتا تھا۔ دراصل وہ بلا ارادہ ہر اُس چیز میں جس میں وہ نیکی کی جستجو کرتا، بدی دیکھ کر بیان کردیتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اسے اُس کی تمام تصانیف میں بجز ایک ناول کے صحیح راستے سے بھٹکا ہوا دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔ اگر کسی جگہ وہ برائی کو برائی اور نیکی کو نیکی تسلیم کرتا ہے تو دوسرے مقام پر وہ بدی کو نیکی قرار دیتا ہے۔۔۔۔۔ یہی وہ چیز ہے جو کسی فنی تخلیق کی صحیح بنیادیں تباہ کردیتی ہے، وہ بنیادیں جن پر آرٹ کی استواری کا انحصار ہے‘‘۔
’’موپساں نے اپنے دو ناولوں میں رشتۂ حیات کو صحیح طور پر بیان کرنے کی کامیاب سعی کی ہے مگر جونہی وہ مندرجہ بالا فیشن ایبل نظریہ کی طرف پلٹا تو یہ خیال کرتے ہی کہ صناع کا کام صرف حسین اشیا کی تخلیق یعنی حسن کاری ہی ہے، اُس کے افسانے آرٹ کے دائرے سے باہر ہوگئے‘‘۔
’’خوش قسمتی سے موپساں نے چند ایسے افسانے لکھے ہیں جن میں وہ اِس غلط نظریے پر کاربند نہیں رہا۔ انھی چند افسانوں میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ احساسِ اخلاق کی چنگاری اس مصنف کے دل میں پیدا ہوچکی تھی‘‘۔
’’اگر موپساں کی عمر نے وفا کی ہوتی تو یقیناًہمیں اُس سے آرٹ کی صحیح خدمت کی توقع تھی‘‘۔
حواشی:
۱؂ فلابرٹ (Flaubert) ۔
۲؂ طالسطائی کا ہم عصر افسانہ نگار۔
۳؂ طالسطائی نے اس وقت آرٹ کی سرگرمیوں سے بالکل علاحدہ ہوجانے کا اعلان کردیا تھا۔ دیکھو Contemporary Russian Literature از پرنس ڈی. ایس. مرسکی۔
۴؂ یہ اشارہ فرانس کے مشہور فلسفی Renan کی طرف ہے۔
***
وِکٹر ہیوگو اورمسئلۂ سزائے موت

ہم اس مضمون میں وِکٹر ہیوگو کی ایک تصنیف 'The Last Days of the Condemned کا ذکر کرنا چاہتے ہیں، جو اس نے اپنی جلاوطنی سے پہلے پیرس میں قلم بند کی تھی۔ اس کتاب کا نفسِ مضمون معاشرتی نقطۂ نظر سے بہت اہم ہے۔
اس میں کسی کو کلام نہیں کہ یہ فرانسیسی انشا پرداز انیسویں صدی میں فطرتِ انسانی کا بہترین ماہر تھا۔ معاشرے کے پیدا کردہ عیوب اور اخلاقی تباہیوں سے وہ اس قدر متاثر ہوا کہ اُس کی ہر تصنیف میں ان کے خلاف احتجاج موجود ہے۔ وہ اُمرا کی تعیّش پسندی کو نفرت و حقارت کی نظروں سے دیکھتا اور گرسنہ شکم و برہنہ جسم غربا کی حالت سے متاثر ہوتا۔ اُس کے نزدیک تمام عیوب معاشرے کے پیدا کردہ ہیں اور انسان جب معاشرے کی قیود سے آزاد ہونا چاہتا ہے تو وہ اپنے یک طرفہ، غیرآئینی اور ناقابلِ قبول قوانین سے اُس کو مصائب و نوائب کے بھیانک گڑھے میں صرف اس خیال سے دھکیل دیتا ہے کہ اس کی اصلاح ہوجائے، حالاں کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔
جس بات نے ہیوگو کے دماغ کو حد سے زیادہ پریشان کیا، جس مسئلے نے ہیوگو پر راتوں کی نیند حرام کردی، جس قانون نے اُس کے قلم کو اعجاز بخشا، وہ سزائے موت کا خونی فتویٰ تھا۔ چناں چہ اُس نے سزائے موت کے مجرم کے اندرونی احساسات و قلبی کیفیات سے اثرپذیر ہوکر ایک کتاب The Last Days of the Condemned لکھی، جس کا ترجمہ ’’سرگزشت اسیر‘‘ کے نام سے ہوچکا ہے۔
اس کتاب کا اندازِ تحریر پڑھنے والوں کے دماغ سے گزرکر اُن کے دل پر نقش ہوجاتا ہے۔ یہ کتاب فی الحقیقت ایک بین الملکی مسئلے کی المناک داستان ہے۔ لرزہ خیز حالات اور دردناک مناظر اتنے موثر الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں کہ قاری کی رگ رگ میں جذباتِ رنج و الم جاگ اُٹھتے ہیں اور سزائے موت کی وحشت و بربریت کا صحیح نقشہ آنکھوں میں پھر جاتا ہے۔ یہ کتاب درحقیقت ایک مجرم کا روزنامچہ ہے جس نے آغازِ قید سے پھانسی کے دن تک کے تمام واقعات اور حالات نہایت تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ جیل کی کوٹھری کے اندر قیدی کیسی زندگی بسر کرتے ہیں اور اُن کے ساتھ کیا ظالمانہ سلوک کیا جاتا ہے۔ آخر میں اس باکمال مصنف نے سزائے موت کے سیاسی و معاشرتی پہلو پر بحث کرتے ہوئے اپنے خیالات کو اس انداز میں پیش کیا ہے کہ ہر حساس قلب اُس پر خون کے آنسو بہائے بغیر نہیں رہ سکتا۔
’’سرگزشتِ اسیر‘‘ میں وہ منظر سخت رقّت خیز ہے جب مجرم اپنی اکلوتی لڑکی سے جیل کی کوٹھری میں ملتا ہے:
’’نازک کلی، معصومیت کی تصویر، میری لختِ جگر، میری بھولی بچی میریؔ ، اپنی اماں کے ساتھ میرے کمرے میں آئی۔ تتلی! خوب صورت لباس میں کیسی بھلی معلوم ہورہی ہے۔ میں نے اُسے گود میں اُٹھاکر اُس کے بالوں کو چومنا شروع کردیا۔ کبھی اُسے چھاتی سے لگاتا اور نازک رخساروں کا بوسہ لیتا، کبھی بھینچ لیتا۔ میریؔ ان حرکات پر حیران ہوکر اپنی اماں کی طرف دیکھ رہی تھی جو کونے میں اس منظر سے متاثر کھڑی آنسو بہا رہی تھی‘‘۔
’’میریؔ ! میری پیاری میریؔ !‘‘ یہ کہہ کر میں نے اسے اپنی رنج و الم سے پُر چھاتی کے ساتھ زور سے بھینچ لیا۔
’’ہائے جناب! آپ مجھے تکلیف دے رہے ہیں‘‘۔ میریؔ نے یہ الفاظ ہلکی سی چیخ مارتے ہوئے کہے۔
جناب ۔۔۔۔۔ آہ میرے اللہ!! اُسے مجھ سے جدا ہوئے تقریباً ایک سال ہوچکا ہے۔ وہ مجھے بھول گئی ہے۔۔۔۔۔ اس کے ذہن سے باپ کی شکل و شباہت اور آواز محو ہوچکی ہے، اس کے علاوہ مجھے اس ہیئت میں پہچاننا بھی تو بہت دشوار تھا۔ لمبی سی داڑھی۔ یہ ذلیل لباس۔ اُف! کیا میری تصویر اُس کے ذہن میں اُتر گئی ہے؟
کیا میں اپنی بیٹی کو اسی پیارے اور شیریں لہجے میں ابّا کہتے نہ سنوں گا۔ اُف! دماغ پھٹا جارہا ہے۔ دل ٹکڑے ہوا جاتا ہے۔۔۔۔۔ ’’جناب‘‘؟ اُف! یا میرے اللہ!!
آہ، میں اپنی چالیس سالہ زندگی کے بدلے صرف ایک چیز کا خواہش مند ہوں۔۔۔۔۔ اپنی موت کے عوض صرف ایک کلمہ سننا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔ اپنی پیاری بیٹی کے منہ سے صرف ابّا کا لفظ!
میں نے اُس کے ننھے اور سفید ہاتھ آپس میں جوڑتے ہوئے کہا ’’دیکھو میریؔ ! لیکن تم مجھے جانتی ہو؟‘‘
وہ میری طرف چمکتی ہوئی نگاہوں سے دیکھ کر بولی، ’’جی نہیں‘‘۔
’’میریؔ ! غور سے دیکھو میں کون ہوں‘‘۔
اُس نے بھولے پن سے جواب دیا: ’’ایک صاحب‘‘۔
آہ! جس ذات سے میری تمام خواہشیں اور مسرتیں وابستہ ہیں، جو میری محبت کا مرکز ہے، میرے سامنے بیٹھی باتیں کررہی ہے مگر مجھے پہچانتی نہیں، اپنے تیرہ بخت باپ کی صورت سے ناآشنا ہے۔
میں نے گفتگو کا رُخ بدلتے ہوئے کہا: ’’میریؔ ! میں تمھارا باپ ہوں‘‘۔
میریؔ نے حیرت سے کہا: ’’ہیں؟‘‘
’’کیا میں تمھیں پسند ہوں؟‘‘
’’نہیں جناب، میرے ابّا تو بہت خوب صورت ہیں‘‘۔
میں نے اُس کے چہرے کو اپنے آنسوؤں اور لگاتار بوسوں سے تر کردیا۔ وہ گھبرائی اور چیختے ہوئے کہنے لگی۔
’’آپ تو میرے گال اپنی داڑھی سے چھیل رہے ہیں‘‘۔
میں نے اُسے اپنے گھٹنوں پر بٹھالیا اور کہا: ’’میریؔ ! کیا تم پڑھ سکتی ہو؟‘‘
’’میں پڑھ سکتی ہوں، امّی مجھے روز پڑھایا کرتی ہیں‘‘۔
’’اچھا تو یہ پڑھو‘‘۔ میں نے اُس کے ہاتھ سے ایک چھپا ہوا کاغذ لیتے ہوئے کہا جس سے وہ غالباً کھیل رہی تھی۔
اُس نے کاغذ کو کھولا اور ننھی سی اُنگلی رکھتے ہوئے لفظوں کے ہجے کرنے لگی:’’ ف، ت، فت، و، ی، ویٰ، م، و، مو، ت، موت، فتویٰ موت‘‘۔ میں نے اُس کے ہاتھ سے کاغذ چھین لیا۔ وہ میری سزائے موت کا فتویٰ پڑھ رہی تھی جو بازار میں ایک پیسے کا بک رہا تھا۔۔۔۔۔ اُس نے یہ غالباً اپنی ماں سے لیا ہوگا۔
اس وقت میرے دل کی جو حالت ہوئی وہ احاطۂ تحریر سے باہر ہے۔
میریؔ چلاّکر بولی: ’’مجھے میرا کاغذ دے دو‘‘۔
’’خدا کے لیے لے جاؤ اِسے۔ یہ کہہ کر میں کرسی پر گر پڑا۔ اب مجھے کسی کا خوف نہیں جب کہ میرے بربطِ دل کا آخری تار بھی ٹوٹ گیا ہے۔ میں موت کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کو تیار ہوں‘‘۔
باقی تمام کتاب اسی طرح کے درد انگیز و موثر مناظر سے بھری پڑی ہے۔
یہ کتاب لکھتے وقت اُس کے پیشِ نظر کتابِ قانون کا سیاہ ترین ورق تھا، جس میں متّفقہ طور پر موت کی سزا کو جائز قرار دیا گیا تھا۔ہیوگو ’’سزائے موت‘‘ کو عدل و انصاف کی رو سے غداری سمجھتا ہے اور تنسیخ سزائے موت کے جواز میں بہت سے قاطع دلائل و براہین پیش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ تنسیخِ سزائے موت کے معاشری و مجلسی اسباب پر بحث کرتے ہوئے ثابت کرتا ہے کہ معاشرے کو کسی شخص کو اس چیز سے محروم کردینے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے جو وہ عطا نہیں کرسکتا۔
جب یہ کتاب پہلی مرتبہ شائع ہوئی تو اُس کے سرورق پر مصنف کے نام کی جگہ ذیل کی چند سطور درج تھیں:
’’اس کتاب کی تکمیل دو اسباب کی مرہونِ منّت ہوسکتی ہے۔ اولاً تباہ شدہ انسان کے احساسات، مشاہدات و مدرکات، بوسیدہ کاغذات کی صورت میں دستیاب ہوئے ہوں، جو لفظ بہ لفظ نقل کردیے گئے ہوں۔ ثانیاً کسی حساس، مفکر، شاعر یا فلسفی کے خیالات کا مجموعہ جن کے عمیق سمندر میں برسوں غوطہ زن رہا ہو اور اس وقت تک چین نہ لیا ہو جب تک اُس کے افکار نے کتابی صورت اختیار نہ کرلی۔ ان دو اسباب میں سے کسی ایک سے مصنف کے ذہنی رشتے کی استواری کا انحصار قارئین پر ہے‘‘۔
کتاب کی پہلی اشاعت میں وِکٹر ہیوگو نے جوئے فکر کو آزادانہ بہنے سے عملاً باز رکھا شاید اس لیے کہ وہ تفہم نظریہ کا منتظر تھا۔ اس اشاعت میں اس نے اس امر کا اعلان کیا کہ ’’سرگزشتِ اسیر‘‘ کا مقصدِ وحید سزائے موت کی تنسیخ ہے۔ مصنف کے پیش نظر کسی خاص فرد کا تحفظ نہیں اور وہ تمام مجرموں کی طرف سے وکالت کرتا ہے خواہ وہ عہدِ حاضر کے ہوں یا ازمنۂ مستقبل کے۔
ہیوگو انسانی حقوق کا یہ مقدمہ سب سے بڑی عدالت یعنی سوسائٹی میں پیش کرتا ہے۔ اس لیے کہ اس کے خیال میں سزائے موت کے المناک تاثرات عدالت کی فصاحت میں گم ہوجاتے ہیں۔ وہ ’’زندگی اور موت کے سوال‘‘ کو جو ایک واضح اور عیاں مسئلہ ہے، اس کے حقیقی قیام گاہ پر روزِ روشن میں دکھانا چاہتا ہے۔
انھیں تاثرات کی تخلیق کے لیے اُس نے یہ کتاب لکھی تاکہ اُس کے تاثرات سے متاثر ہوکر سوسائٹی مصنف کے نظریے کو شرفِ قبولیت بخشے۔ اس خیال کے پیشِ نظر کہ اس کی کتاب زمان و مکاں، امصار و افراد کی تخصیص سے آزاد ہو۔ مصنف نے ’’سرگزشتِ اسیر‘‘ میں کسی خاص فرد، خاص مقام، خاص جرم، خاص عدالت اور خاص جلاد کا ذکر نہیں کیا۔ اس نے جانفشانی کے ساتھ اپنے خیالات کو اس انداز میں پیش کیا ہے کہ ہر حسّاسِ قلب اُس پر خون کے آنسو بہائے بغیر نہ رہ سکے۔
اس کے پیشِ نظر اس کے سوا کچھ اور نہیں ہے کہ سزائے موت کا وجود دنیا سے حرفِ غلط کی طرح مٹ جائے اور اُس کی خواہش ہے کہ اقوامِ عالم کے روشن دماغ معلّم اُس کی اس خواہش کی تکمیل کے لیے کوشاں ہوں۔ وہ چاہتا ہے کہ اس شجر کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے جسے انقلاب کی تند موجیں بھی تباہ نہیں کرسکتیں۔ ہیوگو لکھتا ہے:
’’اگرچہ کلیدِ انقلاب قفلِ زیست کو وا کرتی ہے اور انقلاب اپنے پس و پیش قحط، زلزلے اور بجلیاں لاتا ہے تاہم اس تخریب میں تعمیر کا راز مضمر ہوتا ہے لیکن انقلاب بھی ’سزائے موت‘ کو موت کے گھاٹ نہیں اُتار سکا‘‘۔
اس کتاب میں وہ اپنے ہم وطنوں کو دعوتِ مبارزت دیتے ہوئے کہتا ہے کہ تمھارے پاس سزائے موت کے جواز میں جس قدر بھی دلائل ہیں مجھے اُن سے آگاہ کرو۔ وہ لوگ جو سزائے موت کو جائز قرار دیتے ہیں، دلائل پیش کرتے ہیں کہ ایسے متنفس کو کہ جس نے معاشرتی زندگی میں تلخی پیدا کی قابلِ اخراج ہے۔ سب سے بہترین دلیل جو وہ پیش کرتے ہیں وہ نظریۂ عبرت ہے۔ ہیوگو نظریۂ عبرت کے ابطال میں مثالیں پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’اگر ان مثالوں کی موجودگی میں بھی تم نظریۂ عبرت کے قائل ہو تو گردشِ ایّام کا رُخ ماضی کی طرف پھیرکر ہمیں سولہویں صدی عیسوی میں لے چلو، حقیقت میں خوفناک بن جاؤ، ہمارے لیے تکالیف و مصائب کے دروازے کھول دو۔ گزشتہ زمانے کی وحشیانہ سزائیں از سرِنو رائج کردو، ہر راہ گزر پر تختۂ دار نصب کردو، بدنی سزا کو عام کردو۔ پیرس کے بازاروں میں دیگر دکانداروں کی طرح ایک دکان جلاد کی ہو، جہاں انسانی گوشت پوست دیگر اجناس کی طرح فروخت ہو۔۔۔۔۔ فنا کو بادۂ ہرجام کرنے اور سزائے موت کو اس طرح عام کرنے سے تم نظریۂ عبرت کو زیادہ کامیاب بنا سکوگے‘‘۔
ہیوگو تنسیخ سزائے موت کے معاشری و مجلسی اسباب پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’جس انسان کے لیے تم موت کی سزا تجویز کرتے ہو اس کے معاشرتی حالات کی حسب ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں:
اوّلاً وہ شخص افرادِ خاندان اور صحبتِ احباب سے محروم ہے۔ اس صورت میں وہ صحیح تعلیم و تربیت حاصل نہیں کرسکا۔ جب اُس کے دماغ کی اصلاح کے لیے کوئی سعی نہیں کی گئی تو تمھیں اس معاشری۱؂ یتیم کے قتل کرنے کا کیا حق حاصل ہے؟
تم اُسے اس لیے قتل کرتے ہو کہ اُس کا زمانۂ طفلی عدمِ نگہداشت کی نذر ہوا۔ تم اسے اپنے کیے کی سزا دیتے ہو۔ تم اس بدبخت کو جرم کا لباس پہناتے ہو۔
کیا تم اس وقت خوف زدہ نہیں ہوتے جب تم اس کے بچوں اور بچیوں کا خیال کرتے ہو؟۔۔۔۔۔ اُن بچوں کا جن سے زندگی کا سہارا چھن جائے گا۔
کیا تم محسوس نہیں کرتے کہ آئندہ پندرہ برس تک اس کا بیٹا بھی غالباً زنداں میں ہوگا اور بیٹی تعیّش پسند اُمرا کی نفسانی خواہشات کے بجھانے کا ذریعہ ہوگی‘‘۔
وہ غربا کی لامتنا ہی و غیر مختتم تکالیف سے متاثر ہوکر لکھتا ہے:
’’ترازوئے عدل کی طرف دیکھو۔ تمام مصائب غربا کے لیے اور تمام مسرتیں اُمرا کے لیے۔ دونوں پلڑے غیر مساوی ہیں۔ حکومت کو اس فریب دہی میں مدد نہ کرنی چاہیے کیوں کہ اس سے غربا کے مصائب میں اضافہ ہوتا ہے۔
تم عدل و انصاف کو کام میں لاؤ تاکہ غربا کو معلوم ہوجائے کہ ان کے لیے بھی نیلگوں آسمان کے نیچے کوئی جاے پناہ ہے، ایک عرضی جنت ہے جس کی لطیف فضاؤں سے وہ بھی متمتع ہوسکتے ہیں۔ ان کا مرتبہ بلند کرو تاکہ انھیں بھی معلوم ہو کہ اُمرا کی عشرت پرستی میں وہ بھی برابر کے شریک ہیں‘‘۔
ہیوگو اخوت اور محبت کی تلاش کرتا ہے، چناں چہ وہ اس کتاب کے دیباچے کے آخر میں تحریر کرتا ہے:
’’میں تمھاری معاونت چاہتا ہوں۔ کس مسئلے میں؟۔۔۔۔۔ تبدیلی قوانین میں۔ مسیح کے اخلاقی قانون، انسانوں پر پھر حکمران ہوں گے۔ وقت آنے والا ہے جب ہم جرم کو مرض تصور کریں گے اور ججوں کی جگہ ان امراض کے رفع کرنے والے اور زندانوں کی جگہ شفا خانے ہوں گے۔ ایک نئے افق سے اخوت و محبت کا آفتاب طلوع ہوگا‘‘۔
’’سرگزشتِ اسیر۲؂‘‘ لکھنے کے بعد ہیوگو نے ایک مختصر افسانہ ''Claude guex"۳؂ لکھا، اس افسانے کا مقصد بھی تنسیخِ سزائے موت تھا۔
حواشی:
۱؂ Social Orphan
۲؂ یہ کتاب راقم الحروف کی ترجمہ کردہ ہے۔
۳؂ اس افسانے کا راقم الحروف ’انتقامِ اسیر‘ کے نام سے ترجمہ کرچکا ہے۔
(’منٹو اور فرانسیسی ادب‘ کا یہ گوشہ بحوالہ نوادراتِ منٹو، مرتّبہ محمد سعید، ادارہ فروغِ مطالعہ، لاہور سے ماخوذ ہے)

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *