منگل، 29 دسمبر، 2015

اردوکے چند نادر الفاظ و تراکیب/رئوف پاریکھ

ادبی دنیا پر دوسری اہم تحریروں کے ساتھ ہم نے لغت کو بھی اہمیت دی ہے۔ یہ بات بڑی اہم ہے کہ ہم نے بہت تیزی کے ساتھ پرانے الفاظ کو ترک کرنا شروع کیا، اور نئے دور میں محاوروں اور کہاوتوں کی کھپت ہماری روزمرہ کی زبان میں کم سے کم ہونے لگی، اب تو شاید وہ دس فی صد ہی رہ گئی ہوگی۔ اس کے باوجود ہم ادب تخلیق کررہے ہیں، صحافت کے فرائض انجام دے رہے ہیں، یعنی کیا اس دور کے زبان داں کو اس محاوراتی زبان کی قوت کا ادراک نہیں ہے، جو کسی مختصر جملے میں ایک بھرپور تہذیبی ، سماجی و ثقافتی تاریخ کی نمائندگی کا سلیقہ بھی جانتی ہو۔ بہرحال زبان کا سب سے زیادہ علم اردو کے صحافیوں کے لیے ضروری ہے کہ اتھلی اور بے جان زبان پڑھ پڑھ کر اب اردو اخبارات کے مطالعے کا شوق ہی نہیں ، ضرورت بھی ختم ہورہی ہے۔یہ بالکل سچ ہے کہ ہم جدید دور میں قدم رکھ چکے ہیں، مگر اچھی زبان کے جاننے اور اسے برتنے کی اہمیت کو سمجھنے سے آخر ہمیں کون سی بات روکتی ہے، بس یہی کہ ہم پڑھنے لکھنے کی طرف طبیعت کو مائل نہیں کرپاتے اور صرف زبان کے نام پر بڑے اداروں اور ادب کے نام پر سڑک چھاپ مشاعروں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔بہرحال رئوف پاریکھ کا یہ مضمون دلچسپ ہے اور اس کی خصوصیت اس میں موجود زبان کے نادر الفاظ کی جدید اسناد ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ موقع پر استعمال کیے جانے والے الفاظ و محاورات کیسے زندگی کےراستے میں تازہ دم ہو کر پھر بھاگتے دوڑتے نظر آنے لگتے ہیں۔شکریہ
***

زبان اور لغت (یعنی بامعنی اور تشریح طلب لفظ) کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ قلیل الاستعمال، نادر الظہور، غریب اللّغت، غریب الاستعمال اور قلیل الورود الفاظ و تراکیب کو سمجھنا، ان کے محلِ استعمال کو جاننا اور انھیں محفوظ کرنا زبان و لغت کی حفاظت کا ایک طریقہ ہے۔
اس ضمن میں اس عاجز نے ’اخبارِ اردو‘ (اسلام آباد) کے شمارہ مئی ۲۰۱۰ء میں کچھ عرض کیا تھا اور چند ایسے الفاظ و تراکیب (اور ان کی اسناد) پیش کی تھیں جو نادر ہیں اور لغات میں یا تو ان کا اندراج نہیں ہے یا اگر اندراج ہے بھی تو بغیر سند کے ہے۔ اسناد کی اہمیت یہ ہے کہ کسی لفظ کے معنی اس کے استعمال ہی سے طے ہوتے ہیں اور بعض قواعد نویس تو کہتے ہیں کہ کسی لفظ کے کوئی معنی نہیں جب تک وہ کسی جملے میں نہ آئے۔ لہٰذا یہاں بھی الفاظ و تراکیب کے ساتھ اسناد پیشِ خدمت ہیں۔
رفعِ شر کے خیال سے عرض ہے کہ مقصد کسی لغت یا لغت نویس پر نکتہ چینی یا ’حرف گیری‘ نہیں ہے۔ لیکن اکثر لغات میں کوئی نہ کوئی کمی رہ گئی ہے اور یہاں نیت یہ ہے کہ اگر کسی کمی یا خامی کا احساس ہو تو اسے دور کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ ہماری خوب صورت زبان کی ثروت میں اضافہ ہو۔ لغت نویس کا کام اس لحاظ سے بہت عجیب ہے کہ ذرا سی بھی کوتاہی ہوجائے تو اس کی باقی تمام محنت سے صرفِ نظر کرکے اس ایک غلطی کو اچھالا جاتا ہے اور بے چارہ دیدہ ریزی کے باوجود نکّو بنتا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ لغت نویس کی بڑی کامیابی یہی ہے کہ لومۃ لائم سے بچ جائے۔ اس کی محنت کا نہ کوئی صلہ دے سکتا ہے اور نہ صحیح معنوں میں داد۔ ویسے بھی لغت کا کام کبھی ختم نہیں ہوتا اور ہر لغت کے نئے اڈیشن میں کچھ نہ کچھ تبدیلی کرنی پڑتی ہے۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ دس سال کے بعد تو لغت ویسے ہی ازکارِرفتہ ہوجاتی ہے، لفظ معنی بدل لیتے ہیں، نئے الفاظ، محاورات اور اصطلاحات آجاتی ہیں۔ اور بقولِ شاعر:
کارِ دنیا کسے تمام نکرد
ہرچہ گیرید مختصر گیرید
لہٰذا زیرِ نظر کوشش بھی کوششِ ناتمام ہی ہے لیکن کوششِ بے ہودہ بہ از خفتگی۔ لغت نویسی ایک قومی فریضہ ہے اور سب کو اس میں کچھ نہ کچھ حصہ ڈالنا چاہیے، فرضِ کفایہ ہی کے طور پر سہی۔
اس سمع خراشی کے بعد عرض ہے کہ یہاں بعض لغات کے مختصر نام یا مخفف لکھے گئے ہیں جن کی تفصیل باعتبارِ حروفِ تہجی یہ ہے:
امیر : امیراللغات: مولّفہ امیر مینائی
آصفیہ : فرہنگ آصفیہ: مرتّبہ سیّد احمد دہلوی
بورڈ : اردو لغت (تاریخی اصول پر): مرتّبہ اردو لغت بورڈ (۲۲ جلدیں)
علمی : علمی اردو لغت: مرتّبہ وارث سرہندی
نور : نوراللغات: مرتّبہ نورالحسن نیّر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ قلیل الاستعمال الفاظ و محاورات مع اسناد پیش کیے جاتے ہیں:
* از دیدہ دور از دل دور
فارسی کی کہاوت ہے، بمعنی آنکھ سے دور تو دل سے بھی دور۔ یعنی جو نظر کے سامنے نہ ہو اس کا خیال بھی دل میں نہیں رہتا۔ یوں بھی کہتے ہیں کہ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔ گویا جو نظر سے دور ہوتا ہے اسے انسان بھول جاتا ہے۔ اسے ہم انگریزی کی کہاوت Out of sight, out of mind کے اردو مترداف کے طور پر بھی لے سکتے ہیں۔ لیکن یہ کہاوت اکثر لغات میں نہیں ملتی گو فارسی کی کہاوتیں کثیر تعداد میں اردو میں رائج اور مختلف لغات میں شامل ہیں۔ بورڈ نے بھی ’از‘ کے تحتی مرکبات خاصی تعداد میں دیے ہیں لیکن اس کہاوت کا اندراج نہیں کیا۔ نور اور آصفیہ نے ’از‘ کے تحتی مرکبات ویسے ہی کم کردیے ہیں اور اس کا اندراج بھی نہیں کیا۔ البتہ علمی نے درج کیا ہے۔
اس ضرب المثل کی سند حاضر ہے: ’’خط نہ لکھنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ از دیدہ دور از دل دور۔‘‘ (مشفق خواجہ، مکتوباتِ مشفق خواجہ بنام نظیر صدیقی، ص۱۷)
* اقبالی
’اخبارِ اردو‘ میں شامل اسی موضوع پر اپنے مضمون میں عرض کیا تھا کہ غالبؔ کے ایک بڑے مخالف یاسؔ یگانہ چنگیزی نے ایک لفظ غالبؔ کے حامیوں کے لیے بنایا تھا ’غلبچی‘ (غین اور لام مفتوح) اور اسے تحقیراً استعمال کرتے تھے۔ اسی طرح اقبالؔ کے لیے تمام تر احتراماتِ فراواں کے باوجود لکھنا پڑا کہ اقبالؔ کے مخالفین نے اقبالؔ کے چاہنے والوں کے لیے ’اقبالچی‘ کا لفظ اظہارِ حقارت کے لیے گھڑا تھا۔ اس تحریر کو پڑھ کر ایک صاحب بہت ناراض بھی ہوئے تھے اور اسے اقبالؔ کی شان میں گستاخی قرار دیا تھا۔ کاش وہ یہ سمجھتے کہ لغت نویس کا کام الفاظ کو درج یا ریکارڈ کرنا ہوتا ہے، کسی لفظ کے صحیح یا اچھے بُرے کا فیصلہ کرنا نہیں ہوتا (نیز یہ کہ راقم خود بھی ’اقبالچی‘ ہے)۔ اور اس ریکارڈ کی بنیاد معروف و مستند اہلِ قلم کی تحریروں ہی سے لی جاتی ہے۔ انگریزی میں بھی لغت نویسی کا یہی طریقہ ہے۔
اقبالچی ہی کی طرح کا ایک لفظ ’اقبالی‘ ہے جو اقبال دشمنوں نے اقبالیات کے ماہرین کے لیے تراشا ہے۔ ہمارے تمام تر تحفظات کے باوجود اس کا اندراج بھی لغت میں ہونا چاہیے۔ لغت میں نہ کوئی لفظ اچھا ہوتا ہے نہ بُرا اور نہ ہی کوئی لفظ فحش ہوتا ہے۔ ہمیں تو لفظ کا استعمال اور اس کے معنی ریکارڈ کرنے ہیں۔ اگر لفظ میں جان ہوئی اور قبولیتِ عامہ اسے حاصل ہوگئی تو فبہا، ورنہ ہزاروں الفاظ کی طرح یہ بھی متروک ہوجائے گا۔ لفظ ’اقبالی‘ حقارتاً احمد ندیم قاسمی نے فتح محمد ملک کے نام اپنے ایک خط میں ملک صاحب ہی کی کتاب کا ذکر کرتے ہوئے استعمال کیا تھا۔ سند حاضر ہے:
’’... کتاب مکمل ہے ... پیشہ ور ’اقبالیوں‘ میں تو یہ شاید زیادہ مقبول نہ ہو مگر جن لوگوں کو اقبالؔ کے بارے میں حق باتیں سننے کا اشتیاق رہتا ہے، وہ یقیناًسرشار ہوں گے۔‘‘ (ملک، فتح محمد، ندیم شناسی، ص۳۲۴)
* بر پشمِ قلندر
یہ ترکیب بازاری اس لحاظ سے ہے کہ پشم کے دیگر معنی سے قطع نظر یہاں اس سے مراد ہے: موے زہار۔ اور اس ترکیب کے معنی ہیں میری بلا سے، پروا نہیں۔ آصفیہ، نور اور علمی نے نہیں دیا۔ بورڈ نے بھی درج نہیں کیا لیکن بورڈ نے جوشؔ ملیح آبادی کی سندسے ’بر پاپوشِ قلندر‘ دیا ہے جو انھی معنوں میں ہے یعنی پروا نہیں۔
بر پشمِ قلندر کی ایک تازہ سند کچھ عرصے قبل نظر سے گزری، پیش ہے: ’’خوشونت سنگھ نے اگر کتابوں کی رسید نہیں بھیجی تو بر پشمِ قلندر۔‘‘ (مشفق خواجہ، مکتوباتِ مشفق خواجہ بنام نظیر صدیقی، ص۲۰۷)
* بُہارنا (ب مضموم)
اس کے معنی ہیں: جھاڑو لگانا، گرد جھاڑنا، گرد و غبار کو جھاڑو یا کسی اور چیز سے جھاڑنا۔ امیر کی تیسری جلد میں معنی لکھے ہیں: ’’ستھرائی دینا، صاف کرنا‘‘ اور جرأتؔ اور انیسؔ کا ایک ایک شعر سند میں دیا ہے۔ آصفیہ نے کوئی سند نہیں دی۔ نور نے مثال میں ایک جملہ دیا ہے۔ بورڈ نے بھی درج تو کیا ہے لیکن اسناد صرف دو دی ہیں ایک ۱۷۸۶ء کی اور دوسری ۱۸۷۶ء کی، حالاں کہ یہ بعد کے ادوار میں بھی رائج رہا اور اسناد بھی ملتی ہیں، بلکہ شان الحق حقی صاحب کی بھی سند موجود ہے جو طویل عرصے تک بورڈ میں اہم منصب پر فائز رہے۔
سند پیش ہے: ’’جنھیں میں نے ... الماریوں کو جھاڑنے اور کونوں کھدروں کو بُہارنے کے بعد جمع کیا ہے۔‘‘ (حقی، شان الحق، نکتۂ راز، ص۳۶۴)
* بے رُخی
یہ عدم توجہی یا بے مروّتی کے معنی میں مستعمل ہے اور اس کی قواعدی حیثیت اسم کی ہے۔ لیکن یہ صفت کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اور اس وقت اس سے مراد ہوتی ہے: (گفتگو) جس کا کوئی رخ نہ ہو، جس کا کوئی خاص موضوع نہ ہو۔
عام طور پر لغات میں ان معنی میں نہیں ملتا۔ اس کی سند حاضر ہے: ’’اصلی چسکا اس گفتگو میں تھا جو بے شک بے رخی ہوتی مگر بے رسمی نہ ہوتی۔‘‘ (جعفری، ضمیر، دیباچہ) گفتنی ناگفتنی (مصنّفہ مختار زمن)، رائل بک کمپنی، کراچی، ۱۹۹۹ء، ص۱۱)
* ٹُنگار (ٹ مضموم)
یعنی ٹوٗنگنے یا ٹُنگارنے کا عمل۔ ٹوٗنگنا یا ٹُنگارنا یعنی تھوڑا تھوڑا کھانا، چونچ مارنا، ذرا ذرا سا یا دانہ دانہ کھانا، خاص طور پر نُقل (نون مضموم) کے طور پر۔ آصفیہ میں ٹونگنا، ٹنگارنا درج نہیں، نہ ہی ٹنگار ہے۔ نور نے ٹونگنا نہیں دیا البتہ ٹنگار اور ٹنگارنا کا اندراج کیا ہے۔ سند نہیں دی۔ بورڈ نے درج کیا ہے اور دو اسناد ۱۸۹۹ء اور ۱۹۱۵ء کی دی ہیں۔ لیکن بعد کے دور میں بھی مستعمل رہا۔
بعد کے دور کی ایک سند حاضر ہے: ’’خریدار صاحب نے کھجوروں کی ٹنگار شروع کردی۔‘‘ (اودھ پنچ، لکھنؤ، ۵۔ ۱۲؍جولائی ۱۹۳۵ء، ص۶)
* چوبِ بیت الحرام سوختنی نہ فروختنی
آصفیہ، نور، علمی، بورڈ میں اندراج نہیں ہے۔ مراد ہے: ایسا شخص جس کا احترام تو بہت ہو مگر وہ کسی کام کا نہ ہو۔
سند پیش ہے: ’’ایسا لگتا ہے کہ سب اچھے انسان اُٹھ جائیں گے اور میرے جیسے چوبِ بیت الحرام سوختنی نہ فروختنی قسم کے لوگ باقی رہ جائیں گے۔‘‘ (مشفق خواجہ، مکتوباتِ مشفق خواجہ بنام نظیر صدیقی، ص۲۱۸) (لیکن یہ خواجہ صاحب کا انکسار تھا، ان کے اُٹھ جانے سے ہم سب کا بڑا نقصان ہوگیا۔)
* خط کتابت
اس کو عام طور پر ’’خط و کتابت‘‘ لکھا جاتا ہے جو درست نہیں ہے کیوں کہ خط کتابت کے معنی ہیں خط لکھنا لہٰذا اس میں واو غیر ضروری ہے۔ خط کتابت کی ایک سند یہ ہے:
راہ و رسمِ خط کتابت ہی سہی
گل نہیں تو گل کی نکہت ہی سہی
(اسماعیل میرٹھی، حیات و کلّیاتِ اسماعیل، ص۳۲۰)*
* ذکرالعیش نصف العیش
عربی کا مقولہ ہے، اردو میں بھی مستعمل ہے۔ لفظاً: عیش کا ذکر آدھا عیش ہے۔ مراداً: عیش کا ذکر بھی لطف رکھتا ہے۔ آصفیہ میں اندراج نہیں ہے۔ نور نے درج کیا ہے مگر سند نہیں دی۔ بورڈ نے درج کیا ہے اور خطوطِ غالب کے علاوہ ۱۹۵۸ء کی ایک سند دی ہے۔
درمیانی عرصے کی سند ہونی چاہیے تھی، جو حاضر ہے:
بس کہ ذکر العیش نصف العیش ہے
یادِ ایّامِ فراغت ہی سہی
(اسماعیل میرٹھی، حیات و کلّیاتِ اسماعیل، ص۳۲۰)
* سوت کی ڈاہ
سوت یعنی سوکن اور ڈاہ یعنی حسد، جلن، کینہ، بغض۔ سوت کی ڈاہ یعنی وہ جلن اور حسد جو سوکنوں کے درمیان ہوتا ہے۔ اسے سوتیا ڈاہ بھی کہتے ہیں۔ ڈاہ غالباً ’’چاہ‘‘ کا متضاد کہلا سکتا ہے۔ سوت کی ڈاہ کی ایک سند یہ ہے (اسے صرف ڈاہ کی سند کے طور پر بھی برتا جاسکتا ہے:
’’جب اسے یہ معلوم ہوا کہ میاں نوکری پر رنگ رلیوں میں مشغول ہیں تو اس میں سوت کی ڈاہ یا جلن نہ پیدا ہوئی۔‘‘ (حسینی، علی عباس، ناول کی تاریخ اور تنقید، ص۱۶۲)
* غاؤں غاؤں
اس سے مراد ہے شیر خوار بچّوں کی آواز۔ نیز بے معنی آواز یا بے معنی باتوں کو بھی غاؤں غاؤں کہتے ہیں۔ بورڈ نے درج کیا ہے لیکن ’’قدیم ترین‘‘ سند شفیق الرحمن کی کتاب ’’پرواز‘‘ (۱۹۴۸ء) سے دی ہے جب کہ اس سے پہلے کی سند موجود ہے۔ نیز ’’غاؤں غاؤں کرنا‘‘ کا اندراج بھی ہونا چاہیے تھا۔
سند حاضر ہے۔ یہ منشی سجاد حسین کے ناول ’’حاجی بغلول‘‘ سے لی گئی ہے اور غالبؔ کے شعر کی یہ تحریف غالباً خود سجاد حسین ہی کی کاوشِ فکر ہے:
ہوئے بچ کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ در گڑھیّا
وہیں رہتے مثلِ مینڈک، وہیں غاؤں غاؤں کرتے
(ص۵۷)
* مئذنہ
اس کے لفظی معنی ہیں اذان دینے کی جگہ یا وہ اونچی جگہ جہاں سے مؤذن اذان دے۔ اور مراد ہے مینار (چوں کہ عام طور پر پہلے مینار ہی سے اذان دی جاتی تھی، اب آلۂ مکبّرالصوت نے یہ مشکل آسان کردی ہے گو بعض صورتوں میں اس کے غلط استعمال سے اہلِ محلہ کے لیے مشکل پیدا ہوجاتی ہے)۔
بورڈ نے صرف ایک سند دی ہے۔ نسبتاً جدید دور کی سند ہے:
’’اذان اور مِئذنہ (مینار) سے راشد کا یہ شدید قلبی لگاؤ اس امر کا غماز ہے کہ خدا کی احدیت اور کبریائی کا انھیں کتنا جیتا جاگتا احساس ہے۔‘‘ (فراقی، تحسین، حسن کوزہ گر، ص۴۳) لیکن اس کے بعد حواشی میں فراقی صاحب نے اس لفظ مئذنہ کے استعمال پر ان الفاظ میں معذرت کی ہے: ’’اس بہت غریب لفظ کے استعمال پر معافی کا خواستگار ہوں‘‘ (ص۵۰)۔ تعجب ہے کہ اس میں معذرت کی کیا بات ہے۔ لفظ اگر برمحل ہو اور صحیح معنی اس طرح دے کہ اس کو اپنی جگہ سے ہلانا مشکل ہو تو اس طرح ہوتا ہے جیسے انگوٹھی میں نگینہ۔ پھر چاہے کتنا ہی قلیل الاستعمال کیوں نہ ہو غریب نہیں رہتا۔ غریب تو وہ ہے جو اجنبی اور اوپرا معلوم ہو، یہاں اذان کی مناسبت سے مئذنہ بالکل درست ہے۔ جب ابوالکلام آزاد نے ’’مدیرِ مسؤل‘‘ کے الفاظ پہلی بار استعمال کیے ہوں گے تو نامانوس لگے ہوں گے لیکن اب ’’مدیر‘‘ کے بغیر اردو کا کوئی پرچہ نہیں نکل سکتا، گو جدید عربی میں مدیر کے معنی اڈیٹر نہیں بلکہ منیجر ہیں۔
* نازن
جی ہاں صرف مرد ہی ’’نامرد‘‘ نہیں ہوتا، عورت کے ساتھ بھی ’’نا‘‘ لگایا جاسکتا ہے۔ اسے ’’نازن‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ بورڈ نے اقبالؔ کی سند دی ہے۔ بعد کے ادوار میں بھی رائج رہا۔
بعد کے دور کی ایک سند سلیم احمد کے شعر سے:
مرد نامرد ہیں اس دور کے زن ہے نازن
اور دنیا کی ہر اک شے ہے اسی کا سمبل
(سلیم احمد، بحوالہ فروغ احمد، پورے آدمی کی نئی نظم، مشمولہ ’رسالہ‘ حیدرآباد سندھ، شمارہ۱، ستمبر ۱۹۸۵ء)
فہرستِ اسنادِ محوّلہ

۱۔ اسماعیل میرٹھی، حیات و کلّیاتِ اسماعیل، مرتّبہ اسلم سیفی، دہلی، طبع دوم، ۱۹۳۹ء۔
۲۔ جعفری، ضمیر (دیباچہ) گفتنی ناگفتنی (مصنّفہ مختار زمن)، رائل بک کمپنی، کراچی، ۱۹۹۹ء۔
۳۔ حسینی، علی عباس، ناول کی تنقید اور تاریخ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، علی گڑھ، ۱۹۸۷ء۔
۴۔ حقی، شان الحق، نکتۂ راز، عصری کتب، کراچی، ۱۹۷۲ء۔
۵۔ سجاد حسین، منشی محمد، حاجی بغلول، مطبع شامِ اودھ، لکھنؤ، ۱۹۱۳ء۔
۶۔ سلیم احمد، بحوالہ فروغ احمد، پورے آدمی کی نئی نظم، مشمولہ ’رسالہ‘ حیدرآباد سندھ، شمارہ۱، ستمبر ۱۹۸۵ء۔
۷۔ فراقی، تحسین، حسن کوزہ گر، پنجاب یونی ورسٹی اورینٹل کالج، لاہور، ۲۰۱۰ء۔
۸۔ مشفق خواجہ، مکتوباتِ مشفق خواجہ بنام نظیر صدیقی، مرتّبہ عبدالرحمن طارق، ادارۂ مطبوعاتِ سلیمانی، لاہور، ۲۰۱۰ء۔
۹۔ ملک، فتح محمد، ندیم شناسی، سنگِ میل، لاہور، ۲۰۱۱ء۔
(’مباحث‘ کتابی سلسلہ نمبر۲، لاہور کے شکریے کے ساتھ)

پیر، 28 دسمبر، 2015

سورہ یوسف/قرآنی حکایت

یہ بات واقعی افسوس کی ہے کہ جس قوم کے پاس دنیا کی ایک بے حد اہم اور بلیغ کتاب موجود ہے، وہ عقل سے کام نہ لے کر جذبات اور جہالت کا شنکھ بجاتے پھرتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں، جوایک اچھے نظریے کو صرف زندگی کے معمولی مسئلے مسائل کا معاملہ بنا کر میلا کردیتے ہیں، ملا کو مذہب کا ٹھیکیدار اور بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ کسی بھی نئی چیز کو اپنانا، قبول کرنا بہت بڑا گناہ گردانتے ہیں۔آج ہم 'ادبی دنیا ' پر سمبل میں شائع شدہ محمد کاظم کے ترجمہء سورہ یوسف کو اپلوڈ کررہے ہیں۔اس سورہ میں دو جملے قابل غور ہیں۔اول ' اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر یہ گزرتے ہیں اور ان کی طرف توجہ نہیں کرتے (۱۰۵) اور اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ اﷲ پر ایمان بھی رکھتے ہیں اور ساتھ ہی شرک بھی کیے جاتے ہیں۔' اور دوسرے ' اگلے لوگوں کے ان قصوں میں عقل رکھنے والوں کے لیے بڑی عبرت ہے۔'جو لوگ خدا پر یقین کامل رکھتے ہیں وہی ان پھیلائی ہوئی بے بنیاد باتوں پر یقین بھی رکھتے ہیں، جو اللہ کی کہی ہوئی نہیں، بلکہ ملا کی گڑھی ہوئی ہیں،کیا یہ کسی طور شرک سے کم ہے؟ اور دوسرے یہ خدا کی محبت کا دم بھرنے والے ہی سب سے پہلے کسی بھی غور و فکر کرنے والے کے آگے آہنی دیوار کی طرح کھڑے ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔اس قصے سے صاف ثابت ہے کہ خدا برداشت کرنے والوں کو پسند کرتا ہے، اور بروں کے ساتھ اچھی طرح پیش آنے والوں کو محبت سے دیکھتا ہے۔وہ بھائی جنہوں نے یوسف کو کنویں میں ڈالا، اذیتیں دیں، وہ عورت جس نے انہیں جنسی طور پر پریشان کرنے کی کوشش کی اور وہ بادشاہ جس نے انہیں بغیر کسی جرم کے لمبے عرصے کے لیے کال کوٹھری میں ڈال دیا، ان سب کے ساتھ اقتدار میں آنے کے بعد بھی یوسف کا برتائو اچھا رہا، وہ سچ پر قائم رہے، کردار پر مضبوطی سے ڈٹے رہے۔ایک سب سے خوبصورت بات جو مجھے اس قصے میں نظر آئی وہ یہ کہ عزیز مصر کے خواب میں موجود موٹی گائے، اناج کی اور پتلی گائے قحط کی علامت کے طور پر بیان کی گئی ہے، یہ بھی ایک اشارہ ہے ان لوگوں کے لیے، جو سمجھیں کہ گائے کی استعاراتی اہمیت دوسرے مذاہب کی طرح اسلام میں بھی تسلیم کی گئی ہے۔اردو کے سب سے مشہور شاعر مرزا غالب نے تلمیحات میں اس قصے کو بہت پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھا اور اس پر کئی اچھے اشعار نئے نئے زاویے سے لکھے، ایک طرف یعقوب جیسے والد استعارہ ہیں، انتظار اور صبر کا تو دوسری طرف یوسف جیسی اولاد علامت ہے کردار ، حیا ، حلم اور سچائی کی۔آئیے یہ قصہ ایک دفعہ پھر پڑھیں۔اس ترجمے کی خوبصورتی اور سلاست پر میں محمد کاظم کا قائل ہوگیا ہوں، ساتھ ہی ساتھ علی محمد فرشی کا شکر گزار ہوں جن کی عنایت سے یہ قصہ آج بلاگ پر پوسٹ کرپارہا ہوں۔شکریہ(تصنیف حیدر)
٭٭٭

(یہ مکّی ہے۔ اس میں ۱۱۱ آیتیں اور ۱۲ رکوع ہیں)

شروع اﷲ کے نام سے جو نہایت رحم والا اور مہربان ہے۔
الف، لام، را۔ یہ واضح کتاب کی آیات ہیں(۱) ہم نے اس کو عربی قرآن بنا کر نازل کیا ہے، تاکہ تم اسے سمجھ سکو(۲) ہم نے تمھاری طرف یہ قرآن جو وحی کیا تو اس کے ضمن میں ہم تمھیں ایک بہترین قصہ سناتے ہیں۔ اگرچہ تم پہلے اس سے یقیناً بے خبر تھے (۳) یہ اُس وقت کی بات ہے جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا کہ اباجان میں نے (خواب میں) گیارہ ستارے اور سورج اور چاند دیکھے ہیں، اِس طرح کہ یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں (۴) جواب میں باپ نے کہا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا، ورنہ وہ تمھارے خلاف کوئی تدبیر کرنے لگیں گے۔ کوئی شک نہیں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے(۵) اور جیسا تم نے خواب میں دیکھا ہے اسی طرح تمھارا رب تمھیں برگزیدہ کرے گا، تمھیں خواب کی باتوں کی تعبیر سکھائے گا، اور تم پر اور آلِ یعقوب پر اپنی نعمت تمام کرے گا جس طرح اس نے اپنی نعمت تمھارے دادا پر دادا اسحٰق اور ابراہیم پر تمام کی تھی۔ بے شک تمھارا رب سب کچھ جاننے والا اورحکمت والا ہے(۶) ۔۔۔ ع ۱
بے شک یوسف اور اس کے بھائیوں کے قصے میں پوچھنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں(۷) جب بھائیوں نے آپس میں تذکرہ کیا کہ یوسف اور اس کا بھائی ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں حالاں کہ ہم ایک پوراگروہ ہیں۔ یقیناً ہمارے ابا صریحاً غلطی پر ہیں(۸) ایسا کرو کہ یوسف کو مار ڈالو، یا اسے کہیں پھینک آؤ۔ تاکہ تمھارے باپ کی ساری توجہ تمھاری طرف ہو جائے اور اس کے بعد تم نیک بن جانا (۹) ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ یوسف کو جان سے تو نہ مارو۔ اگر تمھیں کچھ کرنا ہی ہے تو اسے کسی اندھے کنویں کی تہ میں پھینک دو کہ کوئی راہ چلتا قافلہ اسے نکال کر لے جائے(۱۰)
یہ مشورہ کر کے وہ باپ کے پاس آئے اور کہا اباجان کیا وجہ ہے کہ آپ یوسف کے معاملے میں ہمارا اعتبار نہیں کرتے، حالاں کہ ہم اس کے سچے خیرخواہ ہیں(۱۱) کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجیے، کہ کچھ کھا پی لے اور کھیلے کودے۔ ہم اس کے نگہبان ہوں گے(۱۲) باپ نے کہا تمھارا اسے لے جانا مجھ پر شاق گزرتا ہے۔ میں ڈرتا ہوں کہ تم اس سے غافل ہو جاؤ اور اسے کوئی بھیڑیا کھاجائے(۱۳) وہ کہنے لگے اگر ہماری موجودگی میں، کہ ہم ایک طاقت ور جماعت ہیں، اسے بھیڑیا کھا گیا تو ہم بڑے ہی نامُراد ثابت ہوں گے (۱۴) ۔
جب وہ اس کو لے کر گئے اور یہ طے کر لیا کہ اس کو کنویں کی تَہ میں پھینک دیں ۔ تو ہم نے یوسف کو وحی کی کہ ایک وقت آئے گا جب تم ان کو ان کے اِس سلوک سے آگاہ کرو گے۔ جب کہ ان کو کچھ خیال بھی نہ ہو گا (۱۵) کچھ رات گئے وہ اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے آئے (۱۶) اور کہنے لگے اباجان ہم تو دوڑ میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے نکل گئے، اور یوسف کو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑا، تو اتنے میں ایک بھیڑیا آ کر اسے کھا گیا۔ اور آپ تو ہماری بات کا یقین کرنے کے نہیں، چاہے ہم سچے ہی کیوں نہ ہوں(۱۷) اور یوسف کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا لہو بھی لگا کر لے آئے ۔ یہ سُن کر باپ نے کہا: بات یہ نہیں ہے، بل کہ تمھارے نفس نے تمھارے لیے ایک بُرے کام کو آسان بنا دیا ۔ خیر، صبر و شکر کے سوا چارہ نہیں۔ جو کچھ تم بیان کر رہے ہو اس پر اﷲ ہی سے مدد مانگی جا سکتی ہے (۱۸)
اُدھر ایک قافلہ آیا اور اس نے اپنے سقّے کو پانی لانے کے لیے بھیجا۔ اس نے ڈول ڈالا تو (یوسف کو دیکھ کر) پکار اٹھا: خوش خبری ہو، یہاں تو ایک لڑکا ہے۔ چناں چہ انھوں نے اسے مالِ تجارت قرار دے کر چھُپا لیا۔ اور جو کچھ وہ کر رہے تھے اﷲ اس سے خوب باخبر تھا(۱۹) ان لوگوں نے اسے تھوڑی سی قیمت، چند درہموں کے عوض بیچ دیا۔ اس کی قیمت کے معاملے میں انھیں کوئی زیادہ لالچ نہیں تھا (۲۰) ۔۔۔ع ۲
اور اہل مصر میں سے جس نے اس کو خریدا اُس نے اپنی بیوی سے کہا: اس کو عزت و اکرام سے رکھو۔ عجب نہیں کہ یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا ہم اسے اپنا بیٹا ہی بنا لیں۔ اس طرح ہم نے یوسف کے لیے اُس سرزمین میں قدم جمانے کی راہ پیدا کر دی۔ تاکہ ہم اسے خواب کی باتوں کی تعبیر سکھائیں۔ اﷲ اپنا ارادہ نافذ کر کے ہی رہتا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (۲۱)
جب یوسف اپنی جوانی کو پہنچا تو ہم نے اس کو دانائی اور علم عطا کیا، کہ نیکوکاروں کو ہم اس طرح بدلہ دیا کرتے ہیں(۲۲) اب ہوا یہ کہ جس عورت کے گھر میں وہ رہتا تھا وہ اس پر ڈورے ڈالنے لگی اور دروازے بند کر کے کہنے لگی: لو آ جاؤ! یوسف نے کہا معاذ اﷲ۔ تمھارا شوہر میرا آقا ہے، اس نے مجھے اچھی طرح سے رکھا ہے۔ یقیناً خیانت کرنے والے کبھی فلاح نہیں پاتے (۲۳) وہ عورت تو یوسف کی طرف بڑھی ہی تھی ۔ یوسف بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اُس نے اپنے رب کی واضح نشانی نہ دیکھ لی ہوتی۔ یہ اس لیے ہوا کہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی کو دور رکھیں۔بے شک وہ ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے تھا(۲۴) وہ دونوں دروازے کی طرف بھاگے، اور عورت نے یوسف کا کرتا جو کھینچا تو اسے پیچھے سے پھاڑ دیا۔ معاً دونوں نے عورت کے شوہر کو دروازے پر موجود پایا۔ اسے دیکھتے ہی عورت بول اٹھی: جو شخص تمھاری بیوی کے ساتھ بُرائی کا ارادہ کرے اس کی سزا کیا ہو سکتی ہے، سوائے اس کے کہ یا تو وہ قید میں ڈالا جائے، یا اسے دردناک عذاب دیا جائے (۲۵) یوسف نے کہا: یہ عورت ہی مجھے پھسلا رہی تھی۔ اس پر عورت کے خاندان والوں میں سے ایک گواہ نے یہ تجویز پیش کی کہ اگر یوسف کا کرتا آگے سے پھٹا ہو تو یہ سچی ہے اور وہ جھوٹا ہے(۲۶) اور اگر اس کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہو تو یہ جھوٹی ہے اور وہ سچا ہے(۲۷) جب شوہر نے یوسف کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا دیکھا تو بول اٹھا کہ بے شک یہ تمھارا ہی مکر و فریب ہے، اور تم عورتوں کے مکر و فریب غضب کے ہوتے ہیں (۲۸) یوسف! اس معاملے سے درگزر کرو، اور اے عورت تو اپنے گناہ کی بخشش مانگ۔ کوئی شک نہیں کہ اس میں تو ہی خطاوار تھی (۲۹) ۔۔۔ ع ۳
اور شہر میں کچھ عورتیں آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگیں کہ عزیز کی بیوی اپنے غلام کو اپنی طرف مائل کرنے میں لگی ہے۔ غلام کا عشق اس کے دل میں گھر کر گیا ہے۔ ہم دیکھ رہی ہیں کہ وہ صریحاً گم راہی میں ہے (۳۰) جب اُس نے اُن کی یہ مکارانہ باتیں سنیں تو انھیں بلا بھیجا، اور ان کے لیے تکیہ دار نشست آراستہ کی اور (پھل تراشنے کے لیے) ان میں سے ہر ایک کو ایک چھری دے دی، اور یوسف سے کہا کہ تم ان کے سامنے آؤ۔ جب عورتوں نے اس کو دیکھا تو اُن پر اُس کے حسن کی ایسی دھاک بیٹھی کہ انھوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے، اور بولیں: حاشاﷲ یہ شخص انسان نہیں ہے، یہ تو کوئی معزز فرشتہ ہے(۳۱) تب عزیز کی عورت نے کہا یہ وہی ہے جس کے بارے میں تم مجھے ملامت کر رہی تھیں۔ بے شک میں نے اس کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا، لیکن یہ بچا رہا۔ اور اگر یہ وہ کام نہیں کرے گا جو میں اس سے کہتی ہوں تو وہ ضرور قید میں ڈال دیا جائے گا اور ذلیل ہو کے رہے گا (۳۲) یوسف نے دُعا کی اے میرے ربّ جس کام کی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں اس کی نسبت مجھے قید پسند ہے، اور اگر تُو نے ان کے فریب کو مجھ سے نہ ہٹایا تو میں ان کی طرف مائل ہو جاؤں گا اور نادانوں میں شامل ہو کے رہوں گا (۳۳) تو اُس کے ربّ نے اس کی دعا قبول کر لی اور اس سے عورتوں کا مکر دفع کر دیا۔ بے شک وہ سننے والا اور جاننے والا ہے(۳۴) پھر یوسف کی پاک دامنی کی نشانیاں دیکھ چکنے کے باوجود ان کی رائے یہی ٹھہری کہ کچھ عرصے کے لیے یوسف کو قید میں ڈال دیا جائے (۳۵) ۔۔۔ ع ۴
یوسف کے ساتھ قید خانے میں دو اَور نوجوان بھی داخل ہوئے۔ ایک روز اُن میں سے ایک نے اس سے کہا: میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں شراب کشید کر رہا ہوں۔ دوسرے نے کہا میں نے دیکھا ہے کہ میں اپنے سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں اور پرندے ان کو کھا رہے ہیں۔ ہمیں ان خوابوں کی تعبیر بتاؤ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نیکوکاروں میں سے ہیں(۳۶) یوسف نے کہا کہ جو کھانا تم کو ملنے والاہے وہ آنے نہیں پائے گا کہ میں اس سے پہلے تم کو اس کی تعبیر بتا دوں گا۔ یہ من جملہ ان باتوں کے ہے جومیرے ربّ نے مجھے سکھائی ہیں۔ میں نے ان لوگوں کے مذہب کو چھوڑ دیا ہے جو اﷲ پر ایمان نہیں رکھتے اور یہی لوگ آخرت کے بھی منکر ہیں(۳۷) میں نے اپنے باپ دادا ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کے مذہب کی پیروی کی ہے۔ ہمیں یہ حق نہیں کہ ہم اﷲ کے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائیں۔ یہ ہم پر بھی اور لوگوں پر بھی اﷲ کا فضل ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے(۳۸) اے میرے جیل کے دونوں ساتھیو ذرا سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا اکیلا اﷲ جو سب پر غالب ہے(۳۹) اﷲکے سوا تم جن چیزوں کی پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی ہیں جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے رکھ چھوڑے ہیں۔ اﷲ نے ان کے لیے کوئی سند نہیں اُتاری۔ اختیار و اقتدار تو صرف اﷲ ہی کا ہے۔ اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی دین محکم ہے۔ لیکن اکثرلوگ اس سے بے خبر ہیں(۴۰)
اے میرے جیل کے دونوں ساتھیو! تم میں سے ایک تو اپنے آقا کو شراب پلانے کی خدمت انجام دے گا ۔ رہا دوسرا تو اس کو سُولی پر چڑھایا جائے گا اور پرندے اس کا سر نوچ نوچ کر کھائیں گے۔ جس امر کے بارے میں تم مجھ سے پوچھتے تھے اس کا فیصلہ ہو گیا (۴۱) اور جس کے بارے میں یوسف نے خیال ظاہر کیا کہ وہ رہا ہو جائے گا اس سے یوسف نے کہا کہ اپنے آقا سے میرا ذکر بھی کر دینا۔ لیکن شیطان نے اس کو اپنے آقا سے وہ ذکر کرنا بھلا دیا۔ چناں چہ یوسف کئی برس قید خانے میں پڑا رہا (۴۲) ۔۔۔ ع ۵
ایک روز بادشاہ نے کہا: میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات سبز بالیں ہیں اور دوسری سات خشک! اے اہل دربار مجھے اس خواب کی تعبیر بتاؤ، اگر تم خواب کی تعبیر دے سکتے ہو (۴۳) انھوں نے کہا یہ تو پریشان خوابوں کی باتیں ہیں۔ ہمیں خوابوں کی تعبیر نہیں آتی (۴۴) اب وہ شخص جو دونوں قیدیوں میں سے رہائی پا گیا تھا اور ایک مدت کے بعد اسے وہ بات یاد آئی کہنے لگا میں آپ کو اس کی تعبیر بتاتا ہوں مجھے بس قید خانے کی طرف بھیج دیجیے (۴۵)
(چناں چہ وہ یوسف کے پاس آیا اور کہنے لگا) یوسف! اے بات کے سچے، ہمیں اس خواب کا مطلب بتا کہ سات موٹی گائیں ہیں جنھیں سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات سبز بالیں ہیں اور دوسری سات خشک بالیں۔ تاکہ میں ان لوگوں کے پاس واپس جاؤں اور شاید وہ تمھاری قدر جان لیں (۴۶) یوسف نے کہا تم لوگ سات سال برابر کاشت کرتے رہو گے پس جو فصل تم کاٹو اس میں سے اس قلیل مقدار کے سوا جو تم کھاؤ باقی اس کی بالوں میں ہی رہنے دو (۴۷) پھر اس کے بعد سات سال سخت آئیں گے، ایسے کہ جو غلّہ تم نے جمع کر رکھا ہو گا وہ اس سب کو چٹ کر جائیں گے، سوائے اس قلیل مقدار کے جو تم محفوظ کر لو گے(۴۸) پھر اس کے بعد ایک سال آئے گا کہ جس میں لوگوں کی سُنی جائے گی اور لوگ اس میں رس نچوڑیں گے(۴۹) ۔۔۔ ع ۶
بادشاہ نے کہا اس کو میرے پاس لاؤ۔ جب قاصد اس کے پاس آیا تو یوسف نے کہا تم اپنے آقا کے پاس واپس جاؤ اور اس سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا معاملہ ہے جنھوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔ میرا ربّ تو ان کے مکر و فریب سے واقف ہی ہے(۵۰) بادشاہ نے عورتوں سے پوچھا تمھیں اس وقت کیا ہوا تھا جب تم نے یوسف کو رجھانے کی کوشش کی تھی۔ وہ بولیں کہ حاشا ﷲ ہم نے اس میں کوئی برائی نہ دیکھی۔ عزیز کی بیوی بولی اب حق سامنے آ چکا ہے۔ میں نے ہی اسے پھسلانے کی کوشش کی تھی اور بے شک وہ بالکل سچا ہے (۵۱)
یوسف نے کہا کہ یہ میں نے اس لیے پوچھا کہ عزیز جان لے کہ میں نے پیٹھ پیچھے اس کی خیانت نہیں کی تھی اور اﷲ خیانت کرنے والے لوگوں کی چالوں کو چلنے نہیں دیتا (۵۲) میں کچھ اپنے نفس کو پاک صاف نہیں قرار دے رہا۔ نفس تو بُرائی پر اکساتا ہی ہے سوائے اس کے کہ کسی پر میرے ربّ کی رحمت ہو۔ بے شک میرا ربّ بخشنے والا اور مہربان ہے (۵۳)
بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لاؤ کہ میں اسے اپنے لیے مخصوص کر لوں۔ پھر جب اس سے بات چیت کی تو کہا اب تم ہمارے ہاں صاحبِ منزلت اور صاحبِ اعتبار ہو (۵۴) یوسف نے کہا مجھے ملک کے خزانوں پر مقرر کر دیجیے۔ میں حفاظت بھی کر سکتا ہوں اور اس کام سے واقف بھی ہوں (۵۵) اس طرح ہم نے یوسف کے لیے اس سرزمین میں اقتدار کی راہ ہم وار کی ، کہ جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے۔ ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں۔ اور نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتے (۵۶) جو لوگ ایمان لائے اور اﷲ سے ڈرتے رہے ان کے لیے آخرت کا اجر کہیں بڑھ کر ہے(۵۷)۔۔۔ ع ۷
یوسف کے بھائی مصر آئے اور اس کے ہاں حاضر ہوئے تو اس نے انھیں پہچان لیا لیکن وہ اس کو نہ پہچان سکے (۵۸) جب یوسف نے ان کے لیے ان کا سامان تیار کر لیا تو کہا کہ اب اپنے سوتیلے بھائی کو بھی میرے پاس لانا، دیکھتے نہیں ہو کہ میں کس طرح پیمانہ بھر کر دیتا ہوں اور مہمان داری بھی خوب کرتاہوں (۵۹) اگر تم اسے میرے پاس نہ لائے تو نہ تمھارے لیے میرے پاس غلّہ ہے اور نہ تم میرے پاس پھٹکنا (۶۰) انھوں نے کہا ہم اس کے بارے میں اس کے باپ کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے اور ہم یہ کام کر کے رہیں گے (۶۱)
یوسف نے اپنے غلاموں سے کہا کہ ان کا دیا ہوا مال ان کی بوریوں میں رکھ دو کہ جب وہ اپنے اہل و عیال میں پہنچیں تو اسے پہچان لیں اور پھر یہاں آئیں (۶۲) تو جب وہ اپنے باپ کے پاس پہنچے تو کہنے لگے: ابا جان آئندہ ہم کو غلّہ دینے سے انکار کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا آپ ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیجیے تاکہ ہم غلہ لے کر آئیں، اور ہم اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں(۶۳) باپ نے جواب دیا کیا میں اس کے معاملے میں تم پر ویسا ہی بھروسا کروں جیسا اس سے پہلے اس کے بھائی کے معاملے میں کر چکا ہوں۔ اﷲ ہی بہتر محافظ ہے اور وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے (۶۴) اور جب انھوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا کہ ان کا مال بھی انھیں واپس کر دیا گیا ہے۔ بولے ابا جان اور ہمیں کیا چاہیے۔ یہ ہماری پونجی ہے جو ہمیں واپس کر دی گئی ہے۔ بس اب ہم جائیں گے اور اپنے اہل و عیال کے لیے رسد لائیں گے۔ اپنے بھائی کی حفاظت بھی کریں گے اور ایک بارِ شتر غلہ زیادہ لے آئیں گے۔ یہ غلہ جو ہم اس وقت لائے ہیں تھوڑا ہے (۶۵) ان کے باپ نے کہا میں اس کو ہر گز تمھارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک تم اﷲ کے نام سے مجھ کو پیمان نہ دے دو کہ اسے میرے پاس ضرور واپس لے کر آؤ گے۔ سوائے اس کے کہ کہیں تم گھیر ہی لیے جاؤ۔ جب انھوں نے اس کو اپنا پیمان دے دیا تو اس نے کہا دیکھو ہمارے اس قول پر اﷲ نگہبان ہے (۶۶)
پھر اس نے ہدایت کی اے میرے بیٹو شہر میں ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بل کہ الگ الگ مختلف دروازوں سے داخل ہونا۔ اس حیلے سے میں اﷲ کے حکم کو تو تم سے نہیں ٹال سکتا۔ حکم تو بس اﷲ ہی کا چلتا ہے۔ میرا بھروسا اسی پر ہے اور جس کو بھی بھروسا کرنا ہو اسی پر کرے (۶۷) اور جب وہ داخل ہوئے جس طرح سے ان کے باپ نے ان کو ہدایت کی تھی تو وہ تدبیر اﷲ کے حکم کو تو ذرا بھی نہیں ٹال سکتی تھی۔ بس یعقوب کے دل میں ایک خواہش سی تھی جسے اس نے پورا کیا۔ اور بے شک وہ ہماری دی ہوئی تعلیم کے طفیل صاحبِ علم تھا۔ لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے (۶۸) ۔۔۔ ع ۸
جب یہ لوگ یوسف کے پاس پہنچے تو اس نے اپنے بھائی کو اپنے پاس جگہ دی اور اس سے چپکے سے کہا کہ میں تمھارا بھائی ہوں ۔تو جو کچھ یہ کرتے رہے ہیں اس کا رنج مت کرنا (۶۹) پس جب ان کا سامان تیار کرا دیا تو اپنے بھائی کے سامان میں کٹورا رکھوا دیا۔ پھر ایک منادی نے آواز دی کہ اے قافلے والو، تم لوگ چور ہو (۷۰) انھوں نے ان کی طرف مُڑ کر پوچھا تمھاری کیا چیز کھوئی گئی ہے (۷۱) وہ بولے ہم شاہی پیمانہ نہیں پا رہے ہیں، اور جو اس کو لائے گا اس کے لیے غلّے کا ایک اونٹ ہے، اور میں اس کا ذمہ لیتا ہوں (۷۲) وہ کہنے لگے اﷲ کی قسم تم کو معلوم ہے کہ ہم اس ملک میں فساد کرنے کی غرض سے نہیں آئے، اور ہم چوری کرنے والے لوگ نہیں ہیں (۷۳) انھوں نے کہا اچھا اگر تم جھوٹے ثابت ہوئے تو اس چوری کرنے والے کی کیا سزا ہے (۷۴) وہ بولے: اس کی سزا؟ جس کے سامان میں وہ پیالہ نکلے وہی اس کی سزا میں دھر لیا جائے۔ ہم ایسے ظالموں کو اس طرح سزا دیا کرتے ہیں (۷۵) تب یوسف نے اپنے بھائی سے پہلے ان کے تھیلوں سے تفتیش کا آغاز کیا، پھر اس کو اپنے بھائی کے تھیلے سے برآمد کر لیا۔ اس طرح ہم نے یوسف کے لیے تدبیر کی۔ ورنہ وہ بادشاہ کے قانون کی رُو سے اپنے بھائی کو نہیں روک سکتا تھا، سوائے اس کے کہ اﷲ ہی ایسا چاہے۔ ہم جس کے لیے چاہتے ہیں درجات بلند کر دیتے ہیں۔ اور ہر علم والے سے بالاتر ایک علم والا ہے (۷۶)
ان بھائیوں نے کہا اگر یہ چوری کرے تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ اس سے پہلے اس کا ایک بھائی بھی چوری کر چکا ہے۔ یوسف نے اس بات کو اپنے دل ہی میں رکھا اور حقیقت کو ان پر ظاہر نہ ہونے دیا۔ زیرِ لب اتنا ہی کہا کہ تم خود ہی بدقماش لوگ ہو اور جو کچھ تم بیان کر رہے ہو اﷲ اس سے خوب واقف ہے (۷۷) وہ کہنے لگے اے عزیز مصر: اس کا ایک باپ ہے جو بہت بوڑھا ہے۔ تو آپ اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو روک لیجیے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نیک دل انسان ہیں (۷۸) یوسف نے کہا اﷲ کی پناہ اس بات سے کہ ہم اس کے سوا جس کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے کسی اَور کو پکڑ لیں۔ اس صورت میں تو ہم بڑے بے انصاف ہوں گے (۷۹) ۔۔۔ ع ۹
جب وہ یوسف سے مایوس ہو گئے تو الگ ہو کر سرگوشی میں مشورہ کرنے لگے۔ ان کے بڑے نے کہا کیا تمھیں علم نہیں کہ تمھارے باپ نے اﷲ کے نام پر تم سے عہد و پیمان لیا تھا اور اس سے پہلے یوسف کے معاملے میں جو زیادتی تم کر چکے ہو (وہ بھی تمھارے علم میں ہے) تو میں تو اس جگہ سے ہلنے کا نہیں جب تک میرا باپ مجھے اجازت نہ دے، یا اﷲ ہی میرے حق میں کوئی فیصلہ نہ فرمائے، وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے (۸۰) تم لوگ اپنے باپ کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ اباجان آپ کے بیٹے نے چوری کی، اور ہم نے وہی بات بیان کی ہے جو ہمارے علم میں آئی ہے ہم غیب کے نگہبان نہیں ہیں (۸۱) جس بستی میں ہم ٹھہرے تھے آپ اس کے لوگوں سے بھی پوچھ لیجیے اور اس قافلے سے بھی پوچھ لیجیے جس میں ہم آئے ہیں۔ ہم اپنے بیان میں بالکل سچے ہیں (۸۲)
باپ نے یہ داستان سن کر کہا (میرے بیٹے نے تو چوری نہیں کی) بل کہ تم اپنے دل سے یہ بات بنا کر لائے ہو۔ تو خیر، صبر و شکر کے سوا چارہ نہیں۔ امید ہے اﷲ ان سب کو میرے پاس لائے گا۔ بے شک وہی جاننے والا ہے اور اس کے سب کام حکمت پر مبنی ہیں (۸۳)
پھر وہ ان کی طرف سے منھ پھیر کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا ہائے یوسف! اور غم سے اس کی آنکھیں سفید پڑ گئیں۔ وہ دل ہی دل میں غم سے گھٹا جا رہا تھا (۸۴) بیٹے کہنے لگے بہ خدا آپ تو یوسف ہی کو یاد کیے جائیں گے یہاں تک کہ اس کے غم میں اپنے آپ کو گھُلا دیں گے، یا جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے (۸۵) اس نے کہا میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد اﷲ ہی سے کرتا ہوں، اور میں اﷲ کی جانب سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے (۸۶) اے میرے بیٹے جاؤ اور یوسف اور اس کے بھائی کی ٹوہ لگاؤ اور اﷲ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ اﷲ کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں (۸۷)
جب وہ یوسف کے پاس آئے تو کہنے لگے اے عزیز ہم اور ہمارے اہل و عیال بڑی تکلیف میں مبتلا ہیں۔ ہم تھوڑی سی پونجی لے کر حاضر ہوئے ہیں، تو آپ ہمیں غلہ بھی پورا دیجیے اور ہم کو خیرات بھی عنایت فرمائیے کہ اﷲ خیرات کرنے والوں کو جزا دیتا ہے (۸۸) یوسف نے کہا تمھیں معلوم ہے کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا تھا جب تم نادانی کی حالت میں تھے (۸۹) وہ بول اٹھے: کیا تم ہی یوسف ہو؟ اس نے کہا ہاں میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ اﷲ نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے۔ بے شک جو اﷲ سے ڈرتا ہے اور صبر سے کام لیتا ہے تو اﷲ ایسے نیکو کاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا (۹۰) وہ بولے اﷲ کی قسم اس نے آپ کو ہم پر فضیلت بخشی ہے اور بے شک ہم خطاکار تھے (۹۱) اس نے جواب دیا : آج تم پر کچھ الزام نہیں ہے۔ اﷲ تم کو معاف کرے اور وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے (۹۲) یہ میرا کُرتا لے جاؤ اور اسے میرے باپ کے چہرے پر ڈال دو، اس کی بینائی لوٹ آئے گی، اور اپنے تمام اہل و عیال کو میرے پاس لے آؤ (۹۳) ۔۔۔ ع ۱۰
اور جب قافلہ وہاں سے روانہ ہوا تو ان کے باپ نے کہا اگر تم لوگ مجھے خبطی نہ سمجھو تو مجھے یوسف کی خوش بو آ رہی ہے (۹۴) لوگ بولے واﷲ آپ ابھی تک اپنے اُس پرانے خبط میں مبتلا ہیں (۹۵) پھر جب خوش خبری دینے والا آیا تو اس نے کُرتا اس کے چہرے پر ڈال دیا اور اس کی بینائی لوٹ آئی۔ تب اس نے کہا میں تم سے نہ کہتا تھا کہ میں اﷲ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے (۹۶) بیٹوں نے کہا اباجان ہمارے گناہوں کی مغفرت کے لیے دُعا کیجیے۔ بے شک ہم خطاکار تھے (۹۷) اس نے کہا میں اپنے پروردگار سے تمھارے لیے بخشش مانگوں گا۔ بے شک وہی بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے (۹۸)
پھر جب یہ لوگ یوسف کے پاس پہنچے تو اس نے اپنے والدین کو اپنے پاس بٹھایا، اور کہا مصر میں آ جائیے، اﷲ نے چاہا تو یہاں امن و چین سے رہیں گے (۹۹) اُس نے اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا اور سب اُس کے آگے بے اختیار سجدے میں جھک گئے۔ اس وقت یوسف نے کہا اباجان یہ میرے اُس خواب کی تعبیر ہے جو میں نے پہلے دیکھا تھا ۔ میرے ربّ نے اسے سچ کر دکھایا۔ اس نے مجھ پر بڑا کرم کیا کہ مجھے قید خانہ سے نکالا اور آپ لوگوں کو صحرا سے یہاں لایا۔ بعد اس کے کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈلوا دیا تھا ۔بے شک میرا ربّ جو چاہتا ہے اس کے لیے بہترین تدبیر کرتا ہے اور وہ ہر ایک بات سے واقف اور حکمت والا ہے (۱۰۰) تب یوسف نے دعا کی اے میرے ربّ تو نے مجھے حکومت بخشی اور خواب کی باتوں کی تعبیر سکھائی ۔ اے آسمان اور زمین کے پیدا کرنے والے تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا کارساز ہے۔ مجھے اسلام کی حالت میں موت دے اور اپنے نیک بندوں میں شامل کر (۱۰۱)
اے نبی، یہ قصہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم تم پر وحی کر رہے ہیں۔ ورنہ تم اس وقت موجود نہ تھے جب یوسف کے بھائیوں نے آپس میں اتفاق کر کے سازش کی تھی(۱۰۲) اوراِن لوگوں میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں، خواہ تم کتنی ہی خواہش کرو (۱۰۳) حالاں کہ تم ان سے اس خدمت پر کوئی اجرت نہیں مانگتے ۔ یہ تو بس دنیا والوں کے لیے ایک نصیحت ہے (۱۰۴) ۔۔۔ ع ۱۱
اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر یہ گزرتے ہیں اور ان کی طرف توجہ نہیں کرتے (۱۰۵) اور اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ اﷲ پر ایمان بھی رکھتے ہیں اور ساتھ ہی شرک بھی کیے جاتے ہیں (۱۰۶) کیا یہ اس بات سے بے خوف ہیں کہ ان پر اﷲ کے عذاب کی کوئی آفت ہی آ نازل ہو، یا ان پر ناگہاں قیامت آ جائے اور ان کو خبر بھی نہ ہو (۱۰۷) کَہ دو میرا راستہ تو یہی ہے، میں اﷲ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت کے ساتھ، میں بھی اور وہ لوگ بھی جنھوں نے میری پیروی کی ہے۔ پاک ہے اﷲ کی ذات اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں (۱۰۸)
اے نبی تم سے پہلے ہم نے جو پیغمبر بھیجے تھے وہ بھی سب انسان ہی تھے اور انھی بستیوں میں رہنے والوں میں سے تھے۔ پھر کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے کہ اُن لوگوں کا جو اِن سے پہلے تھے کیا انجام ہوا۔ یقیناً آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جنھوں نے پرہیزگاری اختیار کی۔ تو کیا اب بھی تم لوگ نہیں سمجھو گے (۱۰۹) یہاں تک کہ جب یہ نوبت آ گئی کہ رسول اپنی قوموں سے مایوس ہو گئے اور لوگوں نے بھی سمجھ لیا کہ ان کو جھوٹ موٹ کے ڈراوے دیے گئے تھے تو رسولوں کو ہماری مدد آ پہنچی۔ پھر جسے ہم نے چاہا وہ بچا لیا گیا۔ رہے مجرم تو ان سے تو ہمارا عذاب کبھی ٹالا نہیں جا سکتا (۱۱۰)
اگلے لوگوں کے ان قصوں میں عقل رکھنے والوں کے لیے بڑی عبرت ہے۔ یہ قرآن کوئی جھوٹ بنائی ہوئی بات نہیں ہے، بل کہ یہ تصدیق ہے ان کتابوں کی جو اس سے پہلے آ چکی ہیں، اور تفصیل ہے ہر چیز کی، اور ہدایت اور رحمت ہے ایمان لانے والوں کے لیے (۱۱۱) ۔۔۔ع ۱۲

ترجمہ :محمد کاظم
مشمولہ سمبل شمارہ 6، بشکریہ علی محمد فرشی

ہفتہ، 26 دسمبر، 2015

نئی ہندی شاعری(ایک انتخاب)سلسلہ نمبر 1/صادق

اردو اور ہندی کے قریب ترین لسانی رشتے کے باوجود اردو میں عصری ہندی شاعری کا کوئی مجموعہ ڈھونڈنے سے نہیں ملتا، اسی طرح ہندی میں بھی عصری اردو شاعری پر کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی۔اس کی وجوہات پر غور و خوض کا کام ارباب حل و عقد پر چھوڑ کر میں اس اہم ضرورت کی تکمیل کی سعی کررہا ہوں۔یہ چھوٹی سی کتاب اسی سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔
یہ مختصر سی کتاب نئی ہندی شاعری کا تعارف نامہ ہے۔نظموں کا انتخاب مروجہ پامال تدریسی نقطہء نظر سے نہیں کیا گیا ہےا ور نہ ہی شاعروں کے انتخاب میں کسی مخصوص مکتب فکر یا خیمے کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔بلکہ ان نظموں کے ذریعے قاری کے ذہن میں نئی ہندی شاعری کے صحیح خط و خال واضح کرنے اور اسے عصری زندگی کے رو برو لاکھڑا کرنے کی سعی کی گئی ہے اور بس۔( صادق)
***

سرویش ور دیال سکسینہ

سرویش ور دیال سکسینہ کی ولادت 15 ستمبر 1927 کو بستی میں ہوئی۔الہ آباد سے ایم اے کرنے کے بعد اسکول ماسٹری اور کلرکی سے گزر کر آکاش وانی کے دہلی پریاگ 'لکھنئو اور بھوپال اسٹیشنوں سے وابستہ رہے' پھر ہفت روزہ 'دن مان' کے شعبہ ادارت میں آگئے اور پھر بچوں کے رسالے 'پراگ'کے مدیر اعلیٰ مقرر کیے گئے۔
'تیسرا پستک' میں سرویش ور دیال سکسینہ کی نظمیں شامل ہیں۔نظموں کے کئی مجموعے شائع ہوئے جن میں 'بانس کا پل'، ایک 'سونی نائو'،'گرم ہوائیں'،'کنوانوندی'اور 'جنگل کا درد' قابل ذکر ہیں۔ایک ناول اڑے ہوئے ، دو ناولٹ'سویا ہوا جل' اور 'پاگل کتوں کا مسیحا، دو افسانوی مجموعے لڑائی اور اندھیرے پر اندھیرا اور ایک سفرنامے کچھ رنگ کچھ گندھ کے علاوہ ایک دلچسپ طنزیہ ڈراما بکری اور متفرق تخلیقات کامجموعہ'کاٹھ کی گھنٹیاں'ان کی یادگار کتابیں ہیں۔
سرویش وردیال سکسینہ کا انتقال 1933 میں ہوا۔

حادثہ

نظر نہ آنے والی ایک عمارت
میرے اوپر گر پڑی ہے
جو 'نہیں ہے' اس کے بوجھ سے
میں دب گیا ہوں
نظر نہ آنے والی ایک ندی
مجھ پر پھیل گئی ہے
جو 'نہیں ہوگا' اس کی دھار میں
میں بہہ رہا ہوں
نظر نہ آنے والی ایک سڑک
میری نیچے سے نکل گئی ہے
جو'نہیں تھا' اس کی لپیٹ میں آکر
میں کچل گیا ہوں
---

خدا

بہت لمبی جیبوں والا کوٹ پہنے
خدا میرے پاس آیا تھا
میری امی ، میرے ابا
میرے بچے اور میری بیوی کو
کھلونوں کی طرح
جیب میں ڈال کر چلا گیا
اور کہہ گیا
بہت بڑی دنیا ہے
تمہارا دل بہلانے کے لیے
میں نے سنا ہے
اس نے کہیں کھول رکھی ہے
کھلونوں کی دکان
بدبخت کے پاس
کتنا کم سرمایہ ہے
روزگار چلانے کے لیے
---

بھوک

جب بھی
بھوک سے لڑنے
کوئی کھڑا ہوجاتا ہے
خوب صورت نظر آتا ہے

جھپٹتا باز
پھن اٹھائے سانپ
دوپیروں پر کھڑا
کانٹوں سے ننھی پتیاں کھاتا بکرا
دبے پانو جھاڑیوں میں چلتا چیتا
شاخ پر الٹا لٹک
پھل کترتا توتا
یا ان سب کی جگہ
آدمی ہوتا

جب بھی بھوک سے لڑنے
کوئی کھڑا ہوجاتا ہے
خوبصورت نظر آتا ہے
---

انتظار

انتظار دشمن ہے
اس پر بھروسہ مت کرو

وہ نجانے کن جھاڑیوں
اور پہاڑیوں میں
گھات لگائے بیٹھا رہتا ہے
اور ہم پتیوں کی چرمراہٹ پر
کان لگائے رہتے ہیں

انتظار دشمن ہے
اس پر بھروسہ مت کرو

وہ چھاپا مار فوجی کی طرح
خود تاریکی میں رہتا ہے
اور ہمیں روشنی میں کھڑا دیکھتا رہتا ہے
اور ہم تاریکی میں ٹارچ کی روشنی ہی پھینکتے رہتے ہیں

انتظار دشمن ہے
اس پر بھروسہ مت کرو

وہ ہمیں دریا بنا کر ہمارے درمیان سے ہی
مچھلی کی طرح ان دیکھا تیر جاتا ہے
اور ہم لہروں کے بے شمار ہاتھوں سے
اسے ٹٹولتے رہتے ہیں

انتظار دشمن ہے
اس پر بھروستہ مت کرو
اس سے گریز کرو
جو پانا ہے فورا پالو
جو کرنا ہے فورا کرلو
---

جنگل کا درد

ایک نے مجھ سے پوچھا:
'جنگل کیا ہوتا ہے؟"
دوسرے نے کہا
'اوردرد؟"

میں خاموش رہا
میں نے دونوں کو
ایک بڑے پنجرے میں بند کردیا
اور اوپر ایک سیاہ
باریک چادر ڈال دی

کچھ دنوں بعد وہ مجھے
جنگلی جانوروں کی طرح نظر آنے لگے
پہلے ان کی آنکھیں ہری ہوئیں
بے ضرر جانوروں کی طرح
پھر سرخ، تشدد پسند جانوروں میں بدل گئیں
خوں خوار۔۔۔۔

وہ بھوکے تھے
میں نے ٹکڑا پھینکا
وہ غذا چھوڑ کر
باہم گتھ گئے
لہو لہان ہوگئے
طاقت ور نے سب کھالیا
کمزور نے مجبوری میں صبر کر
درد سے منہ چھپالیا

میں نے بہت دنوں تک
یہ سلسلہ قائم رہنے دیا
بھوکا رکھنا، ٹکڑا پھینکنا
طاقت طور میں تکبر بیدار کرنا
اور کمزور میں اطمینان
اور جب وہ اس کے اتنے عادی ہوگئے
کہ کچھ اور سوچ پانا
ان کے لیے ناممکن ہوگیا
تب میں نے انہیں
پنجرے سے نکال دیا

اب وہ کھلی فضا میں کھڑے تھے
کھڑے ہیں/کھڑے رہیں گے
ٹکڑے پھینکے جانے کے منتظر
لڑنے کے لیے مستعد
تکبر اور اطمینان کے شکار
---

شری کانت ورما

شری کانت ورما 18 ستمبر 18931 کو بلاس پور میں پیدا ہوئے۔1956 میں ہندی ادبیات میں ایم اے کرنے کے بعد 'نئی دشا' نام سے ایک ادبی سہ ماہی رسالے کی ادارت و اشاعت کا کام کیا پھر دہلی آکر ہفتہ روزہ 'بھارتیہ شرمک'کے ادارتی شعبے سے وابستہ ہوگئے۔1958 سے 1962تک ہندی کے مشہور رسالہ 'کرتی'کے ایڈیٹر رہے۔دو برس آزادانہ خامہ فرسائی کرتے رہے اور پھر ہفت روزہ'دن مان' کے شعبہ ادارت میں آگئے۔
شری کانت ورما 1976 میں مدھیہ پردیش سے راجیہ سبھا کے ممبر منتخب ہوئے۔1970، 1971 اور 1978 میں بین الاقوامی تخلیقی پروگرام کے تحت امریکہ کی آیووا یونیورسٹی میں رہے۔1980 میں لوک سبھا کی انتخابی مہم میں کانگریس (آئی) کی کامیاب سربراہی کی اور خود بھی الیکشن جیتے۔
'بھٹکا میگھ'،'دنار مبھ'،'مایا درپن' اور جلسہ گھر' ان کی نظموں کے مجموعے ہیں۔'جھاڑی' اور 'سنواد'افسانوں کے مجموعے ہیں۔علاوہ ازیں ایک ناول 'دوسری بار'اور ایک سفرنامہ'اپولو کا رتھ' اور ایک تنقیدی کتاب 'جرح' ان کے قابل ذکر کارنامے ہیں۔حال ہی میں ان کی نمائندہ تخلیقات کا ایک مجموعہ 'پرسنگ' نام سے شائع ہوا ہے۔

طریق عمل

میں کیا کررہا تھا
جب
سب زندہ باد کے نعرے لگارہے تھے؟
میں بھی زندہ باد کے نعرے لگارہا تھا
خوف زدہ تھا
جس طرح
سب خوف زدہ تھے

میں کیا کررہا تھا
جب سب کہہ رہے تھے
'عزیز میرا دشمن ہے'
میں بھی کہہ رہا تھا
'عزیز میرا دشمن ہے'

میں کیا کررہا تھا
جب سب کہہ رہے تھے
'منہ مت کھولو'
میں بھی کہہ رہا تھا
'منہ مت کھولو
بولو
جیسا سب بولتے ہیں'

زندہ باد کے نعرے ختم ہوچکے ہیں
عزیز مارا جاچکا ہے
منہ بند ہوچکے ہیں
سب حیرت سے پوچھ رہے ہیں
یہ کیسے ہوا؟
جس طرح سب پوچھ رہے ہیں
اسی طرح میں بھی پوچھ رہا ہوں
'یہ کیسے ہوا؟'
---

جو

نیو یارک کے سب وے میں نیگرو پٹ رہا ہے!
اسے پٹنا ہی تھا
وہ نیگرو تھا!

نیامی کی ریت پر نیگرو پٹ رہا ہے!
اسے پٹنا ہی تھا
اس نے جین کو للچائی نظروں سے دیکھا تھا
جو گوری تھی!

لاس ویگاس میں نیگرو پٹ رہا ہے
اسے پٹنا ہی تھا
وہ جوئے میں جیتا تھا!

کیلی فورنیا میں نیگرو پٹ رہا ہے
اسے پٹنا ہی تھا
اس نے جواب دیا تھا
'میں نیگرو ہوں!'
---

کلنگ

صرف اشوک واپس آرہا ہے
اور سب
کلنگ کا پتہ پوچھ رہے ہیں

صرف اشوک سرنگوں ہے
اور سب
فاتح کی طرح چل رہے ہیں

صرف اشوک کے کانوں میں چیخ گونج رہی ہے
اور سب
ہنستے ہنستے دوہرے ہورہے ہیں
صرف اشوک نے ہتھیار رکھ دیے ہیں
صرف اشوک جنگ کررہا تھا
---

دشمن۔1

وہ مرا دشمن ہے! وہ نہیں
جو مجھ سا نظر نہیں آتا۔۔۔وہ جو
مجھی سا نظر آتا ہے

وہ جو اس طرح آتا ہے دنیا میں
جیسے یہ محفل ہو!

وہ میرا دشمن ہے! وہ نہیں
جو مجھے نہیں جانتا۔۔وہ جو
جانتا ہے

وہ جو اس طرح جاتا ہے دنیا سے
جیسے یہ محفل تھی
---

اعلیٰ حضرت

اعلیٰ حضرت
چور دروازے سے نکل چلیے!
باہر
قاتل ہیں

آپ کے حسب حکم
میں نے کھول دیے تھے
جیل کے دروازے
توڑ دیا تھا
کروڑوں برسوں کا سناٹا!

اعلیٰ حضرت
ڈریے! نکل چلیے!
کسی کی آنکھوں میں
شرم نہیں
خدا کا خوف نہیں
کوئی نہیں کہے گا
''شکریہ!"

سب کے ہاتھوں میں
قانون کی کتاب ہے
ہاتھ ہلا کر پوچھتے ہیں
کس نے لکھی تھی
یہ قانون کی کتاب؟
---

کنور ناراین

کنور ناراین کی ولادت اگست 1927 میں فیض آباد میں ہوئی۔لکھنئو یونیورسٹی سے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔1947 سے شاعری شروع کیا۔پہلے پہل انگریزی میں نظمیں لکھنے لگے، پھر ہندی کی طرف مائل ہوئے اور پھر مستقل طور پر ہندی ہی کو اظہار کا وسیلہ بنالیا۔
1955 میں مشرقی یورپ، روس اور چین کی سیاحت کی۔
1956 سے 'یگ چیتنا'کی مجلس ادارت سے وابستہ ہوگئے۔یہ سلسلہ پانچ سال تک جاری رہا۔
کنورناراین 'تیسرا سپتک'کے شاعروں میں سے ہیں۔افسانے بھی لکھتے ہیں۔'چکرویو'،'پریویش ہم تم'اور 'استتھیاں'ان کی نظموں کے مجموعے ہیں۔

نظام

کل پھر ایک قتل ہوا
عجیب و غریب حالات میں

میں اسپتال گیا
لیکن وہ مقام اسپتال نہیں تھا
وہاں میں ڈاکٹر سے ملا
لیکن وہ آدمی ڈاکٹر نہیں تھا
اس نے نرس سے کچھ کہا
لیکن وہ عورت نرس نہیں تھی
پھر وہ آپریشن روم میں گئے
لیکن وہ جگہ آپریشن کرنے ولا ڈاکٹر
پہلے ہی سے موجود تھا۔۔۔۔مگر وہ بھی
دراصل کوئی اور تھا

پھر وہاں ایک نیم مردہ بچہ لایا گیا
جو بیمار نہیں، بھوکا تھا
ڈاکٹر نے میز پر سے
آپریشن کا چاقو اٹھایا
مگر وہ چاقو نہیں
زنگ خوردہ بھیانک چھرا تھا

چھرے کو بچے کے پیٹ میں بھونکتے ہوئے اس نے کہا
اب یہ بالکل ٹھیک ہوجائے گا
۔۔۔

دلی کی سمت

جدھر گھوڑ سوار دل کا رخ ہو
اسی سمت گھسٹ کر جاتے ہوئے
میں نے اسے کئی بار پہلے بھی دیکھا ہے
دونوں ہاتھ بندھے، مجبوری میں، پھر ایک بار
کون تھا یہ؟ کہہ نہیں سکتا
کیونکہ صرف دو بندھے ہوئے ہاتھ ہی
دلی پہنچے تھے
۔۔۔

روزانہ تقریبا دس بجے

روزانہ تقریبا دس بجے
وہی حادثہ
پھر رونما ہوتا ہے
وہی لوگ اسی طرح
اپنے بیوی بچوں کو اکیلا چھوڑ
گھروں سے باہر نکل آتے ہیں، مگر
زلزلہ نہیں آتا
شام ہوتے ہوتے
وہی لوگ
ان ہی گھروں میں
واپس لوٹ آتے ہیں
شامت کے مارے
تھکے ہارے

میں جانتا ہوں
زلزلہ اس طرح نہیں آئے گا، اس طرح
کچھ نہیں ہوگا
یہ لوگ کسی اور وجہ سے ڈرے ہوئے ہیں
یہ سب بار بار
اسی ایک پہنچے ہوئے نتیجے پر پہنچ کر
رہ جائیں گے کہ جھوٹ ایک فن ہے، اور
ہر آدمی فن کار ہے جو حقیقت کو نہیں
اپنی حقیقت کو
کوئی نہ کوئی معنی دینے کی کوشش میں پاگل ہے

کبھی کبھی شام کو گھر لوٹتے وقت
میرے دل میں ایک تجریدی فن کے خوفناک اشارے
آسمان پر پھٹ پڑتے ہیں جیسے کسی نے
تمام بدرنگ لوگوں اور چیزوں کو اکٹھا پیس کر
کسی سپاٹ جگہ پر لیپ دیا ہو
اور لہو کے سراسر جوکھم کے خلاف
آدمی کے تمام دبے ہوئے رنگ
خود بخود ابھر آئے ہوں
۔۔۔

منافقت

پہلے اسے اوپر اٹھائو، اس کی کوٹھری کو
بنیاد سے اکھاڑ کر
کھاٹ کی طرح سیدھا کھڑا کردو:پھر اس کو
اس کے گھر کے بند کواڑوں کے اوپر
وہ تعجب کا اظہار کرے گا

اس کے دونوں ہاتھ اس کی پشت پر باندھ دو
اور ایک بہترین جھوٹ اس کی آنکھوں پر
شاید وہ کچھ نہیں کہے گا
وہ یہ مان لے گا کہ فی الحال
اسی میں اس کا بھلا ہے

اب اسی کنویں سے نکال کر لائی گئی
رسی کا پھندا بنا کر
اس کے گلے میں مالا کی طرح ڈال دو
پوجا میں رکھے گھڑے کی طرح وہ کچھ نہیں کرے گا

رسی کا دوسرا سرا
اس کے گھر کے سامنے والے پرانے درخت سے باندھ دو
وہ تم دونوں کو سلام کرے گا

اب اس سے پوچھو وہ کیا چاہتا ہے
اور اگر وہ صرف اپنے گھر میں سکون سے رہنا چاہتا ہو
تو چپ چاپ اٹھ کر
اس کے لیے اس کے گھر کا دروازہ کھول دو

وہ چھٹ پٹائے گا لیکن چھٹ پٹانا کوئی دلیل نہیں
وہ مرگیا ہے، اور اب اس میں اور تم میں کوئی فرق نہیں
۔۔۔

شناخت کے سلسلے

کوئی نہ کوئی زندہ چیز
خطرے میں پڑتی ہے، دنیا
جب بھی برآمد ہوتی ہے ایک لاش کی طرح
نکل کر اپنے ماضی سے غیر مردوں کے بیچ، تمام
تتر بتر ذریعے جمع ہوتے
ایک زبردست مطالبے میں۔۔۔۔''کیا وجہ تھی
قتل کی؟''
خودکشی کی؟
سب کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے۔سچ
گوارا ہوتا ہے کہ وہ جو

پھر ایک شناخت کے سلسلے میں
پکڑ کر لائے ہیں
کسی دبو بنیے کو ڈرائے دھمکائے
چہروں کے درمیان کہ بوجھ۔۔۔کون نہیں ہے بے گناہ ان میں؟
کون ہے؟
پوچھنے والے! کون ہوتے ہیں؟

وہی جو ہمیشہ
ہر موقع پر
زبان کھنچوا کر قبول کرواسکتے ہیں کسی سے بھی
کسی کے لیے بھی کہ ہاں
یہی ہے وہ بدمعاش کاریگر
جس کی انہیں عرصے سے تلاش تھی۔۔۔جس نے
راون کے دسوں سروں پر
مکٹ کے بجائے گاندھی ٹوپی رکھ دی تھی

عوام کا قصور نہیں ہوتا۔۔انہوں نے تو
ہر بار کی طرح اس بار بھی
صرف جلادیا تھا ہنگامہوں اور پٹاخوں کے بیچ
ردی اخباروں کا بنا ہوا ایک پتلا
۔۔۔

جمعہ، 25 دسمبر، 2015

ہندوستان کے بانکے/عبدالحلیم شرر

اپنے مضمون ’’پابند ادب انفرادیت: دہلی اور لکھنؤ میں وضع داری کی مختصر تاریخ‘‘ (مطبوعہ ’اردو ادب‘ کتاب ۳۵۲) میں لکھنؤ کے بانکوں کے ذکر میں میں نے لکھا تھا کہ بانکوں کے بارے میں کوئی مطبوعہ تحریر مجھے دستیاب نہیں اگرچہ بچپن میں کئی کتابچے اس موضوع پر دیکھے تھے۔ میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ شررؔ نے بانکوں کا ذکر محض ایک خاص انداز کے پاجامے کے بیان میں کیا ہے اور یہ کہ شررؔ نہ تو وضع داری کے خاص مدح خواں تھے اور نہ بانکوں کے۔ ان کی مشہور کتاب جسے اب ’گذشتہ لکھنؤ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، بانکوں کے دل چسپ قصّوں سے عاری ہے جب کہ اور ہر طرح کے متعدد پُرلطف قصّے اس میں موجود ہیں۔
اس وقت تک میری نظر سے محمد قمر سلیم کی انتہائی مفید تالیف ’اشاریہ دلگداز‘ جلد اوّل، نہیں گزری تھی۔ اب اس کے مطالعے سے پتا چلا کہ شررؔ نے ایک پورا مضمون لکھنؤ کے بانکوں کے بارے میں لکھا تھا جو ’دلگداز‘ (ستمبر ۱۹۱۴ء) میں شائع ہوا تھا، اس کا عنوان تھا ’ہندوستان کے بانکے‘۔ یہ مضمون دراصل ایک ابتدائیہ تحریر تھا کیوں کہ شررؔ کا اصل موضوع تھا یورپ کے عہدِ وسطیٰ بالخصوص صلیبی جنگوں کے تعلق سے معروف وہ جنگجو افراد جن کو تاریخ میں Knights Templar یا Kinghts Hospitaler کہہ کر یاد کیا جاتا ہے، چناں چہ پہلے مضمون کے بعد اس سلسلے کے دوسرے مضامین کا عنوان ہے: ’یورپ کے بانکے، نائٹ ٹمپلرز‘۔
شررؔ کے یہ تمام مضامین ان کے مضامین کے قدیم مجموعوں میں شامل تھے جو نایاب ہیں۔ اب پاکستان میں نئے انتخاب شائع کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک کا نام ہی ’یورپ کے بانکے‘ ہے۔ اسے ڈاکٹر فاروق عثمان نے مرتّب کیا ہے اور بیکن ہاؤس، لاہور نے ۲۰۰۷ء میں شائع کیا ہے۔ وہاں سے لے کر شررؔ کا مضمون ’ہندوستان کے بانکے‘ یہاں دوبارہ شائع کیا جارہا ہے تاکہ یہ اہم تحریر ہندوستان میں بھی لوگوں کے سامنے آجائے۔
شررؔ کے مضمون سے نہ صرف میری بچپن کے قصّوں کی یادوں کی تائید ہوتی ہے بلکہ یہ بھی تسلّی ہوتی ہے کہ بانکوں اور وضع داری کے متعلق ان کی رائے جو میں نے قائم کی تھی وہ غلط نہ تھی۔ ساتھ ہی کچھ اور دل چسپ باتیں سامنے آتی ہیں۔ یاد رہے کہ یورپ کے نائٹوں کا ذکر اردو میں سب سے پہلے شررؔ نے کیا تھا اور طنز و مزاح کے ساتھ۔ سرشارؔ کے مدنظر سروانتے کا عظیم ناول ’ڈان کی ہوئے‘ تھا جس کو انھوں نے اردو میں ’خدائی فوجدار‘ کی شکل میں غلط صحیح اور انتہائی مختصر کرکے پیش کیا تھا۔ سرشارؔ کی نظر میں یورپ کے نائٹ تمسخر کے لائق تھے۔ شررؔ کی نظر میں نائٹ ٹمپلرز نہ صرف دلاور اور جنگجو تھے، وہ اپنی قوم کے محافظ بھی تھے اور ایک طرح کے ٹریجک ہیرو بھی۔ اس نقطۂ نظر کی تائید کی خاطر انھوں نے اپنے مضامین میں ان تمام اعتراضات کو یا تو نظر انداز کردیا یا پھر سرسری ذکر کرکے آگے بڑھ گئے جن سے یورپ کی تاریخیں بھری ہوئی ہیں اور جن کو سروانتے اور والتیئر نے مزے لے لے کر لکھا ہے۔ خود نائٹ ٹمپلرز کی تاریخ کے کئی باب سیاہ ہیں۔ لیکن شررؔ کے سامنے کچھ اور تھا جس کا اندازہ اس بات سے ہوجائے گا کہ انھوں نے لکھنؤ کے بانکوں کو اپنے مضمون کی ابتدا ہی میں ’ہمارے یہ قومی سپاہی‘ کہا ہے اور مضمون کے آخر میں وہ لکھتے ہیں:
’’اصلی بانکپن ملک و قوم کا ایک بہت ہی اعلا درجے کا شریفانہ جوہر تھا، جو مسلمانوں کے سوا آخر ایام میں بہت سے ہندوؤں سے بھی ظاہر ہوا... یہ گروہ مٹنے کے قابل نہ تھا، اور اسے مٹانے کی نہیں بلکہ باضابطہ بنانے کی ضرورت تھی‘‘۔
شررؔ کا مکمل مضمون آگے ملاحظہ ہو۔( چودھری محمد نعیم)
٭٭٭

انگریزی حکومت سے پہلے جب دہلی کا دربارِ مغلیہ برقرار تھا، پھر اُس کے بعد لکھنؤ میں جب اودھ کی چند روزہ سلطنت قائم تھی، ہمیں بانکوں کا ایک عجیب و غریب گروہ نظر آتا ہے جن کا انجام یہ ہے کہ اُن کا کہیں پتا نہیں اور آغاز یہ تھا کہ تاریخ سے کہیں سراغ نہیں لگتا کہ یہ گروہ کب پیدا ہوا اور اس کی بنیاد کیوں کر پڑی؟
ہمارے یہ قومی سپاہی جو ’بانکے‘ کہلاتے تھے اپنی زندگی سپہ گری کی نذر کردیتے، سوتے جاگتے، اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے ہر وقت پورے اسلحہ جنگ سے آراستہ اور اوپچی بنے رہتے۔ یک رنگی و یک وضعی کو اپنا شعار جانتے اور اس بات کی دُھن تھی کہ ہماری ہی بات سب پر بالا رہے۔ باوجودیکہ وہی مروّج و متداول اسلحہ سب کے پاس ہوتے مگر ساتھ ہی ہر ایک اپنی کوئی خاص دھج اور اپنا کوئی مخصوص بانا رکھتا جس کو مرتے دم تک نہ چھوڑتا اور اس کی تاب نہ لاسکتا کہ اس دھج شعار کو کوئی اور بھی اختیار کرے۔
پہلے پہل ان بانکوں کا نام محمد شاہ رنگیلے کے زمانے میں سُنا جاتا ہے۔ پُرانے راوی اور یادگارِ زمانہ بڈھے بیان کرتے ہیں کہ محمد شاہ کے پاس ایک لشکر بانکوں کا تھا اور ایک زنانوں کا اور نادر شاہ کے مقابلے میں اگر کچھ لڑے تو یہی لوگ لڑے۔ بانکے جانیں دینے پر تُلے ہوئے تھے اور زنانے عورتوں کی طرح ’اوہی‘ کہہ کے تلوار مارتے تھے۔ اُس زمانے کے بعد جب دہلی اپنے باکمالوں اور ہر فن کے استادوں کی قدر کرنے کے قابل نہ رہی تو اُن کا رُخ اودھ کی طرف پھر گیا اور قدردانی کی امید میں ہر ادنیٰ و اعلا دہلی چھوڑ چھوڑ کے یہاں آنے لگا۔ اب یہ لوگ فیض آباد اور لکھنؤ کی سڑکوں پر ٹہلتے نظر آتے تھے۔ مگر یہاں زنانے سپہ گروں کا تو پتا نہ تھا، ہاں بانکے تھے جن کی روز بروز کثرت ہوتی جاتی تھی۔
بادی النظر میں خیال ہوتا ہے کہ تمام بانکوں کی ایک سی وضع ہوگی، مگر ایسا نہ تھا، ان میں سے ہر فرد اپنے بانکپن کو ایک نئے عنوان سے اور نئی شان سے ظاہر کرتا۔ پہلے عام وضع یہ تھی کہ سر کو چندیا سے گُدّی تک مُنڈاتے اور دونوں طرف کے پٹوں میں سے ایک تو کانوں تک رہتا اور دوسرا شانوں تک لٹکتا، بلکہ کبھی اس کی چوٹی گوندھ کے ایک طرف سینے پر ڈال لی جاتی۔ اس کے بعد جدتیں ہونا شروع ہوئیں اور ہر بانکے نے اپنے لیے کوئی نئی دھج ایجاد کی۔ کسی صاحب نے ایک طرف کی مونچھ اس قدر بڑھائی کہ وہ بڑھتے بڑھتے چوٹی سے بوس و کنار کرنے لگی۔ کسی صاحب نے پگڑی کا شملہ بجائے پیٹھ کے ایک طرف شانے پر ڈال لیا۔ کسی صاحب نے پائجامے کا ایک پائنچا اس قدر نیچا کرلیا کہ زمین بوس ہورہا ہے اور دوسرا پائنچا اس قدر اُٹنگا رکھا کہ آدھی پنڈلی کھُلی ہوئی ہے۔کسی صاحب نے لوہے کی ایک بیڑی پاؤں میں ڈال کے اُس کی زنجیر کمر میں اٹکا لی اور اُسے کھڑکاتے ہوئے پھرنے لگے۔ کسی صاحب نے یہ ترقی کی کہ بہت سے روپوں میں دونوں طرف کُنڈے لگاکے اور اُنھیں باہم جوڑکے ایک نئی قطع کی نقرئی زنجیر بنائی۔ پھر اُس کے دونوں سروں پر چاندی کے دو حلقے لگائے۔ ایک حلقے کو ایک طرف کے پاؤں میں ڈال لیا اور دوسرے کو اُسی طرف کے بازو میں پہن کے شانے پر اٹکالیا اور نہایت غرور و تمکنت کے ساتھ زنجیر بجاتے ہوئے گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ غرض جتنے بانکے تھے اُتنی ہی دھجیں تھیں۔ اسی قسم کی جدت طرازیاں اسلحہ کے متعلق تھیں۔ کوئی صاحب دو دھارا تیغہ ہاتھ میں رکھتے جو ہر وقت برہنہ اور ہوا سے لڑتا رہتا۔ کوئی صاحب رستم و نریمان کے زمانے کا وزنی سلاخ گُرز لیے پھرتے۔ کوئی صاحب تبر کاندھے پر رکھے نظر آتے اور ساری دنیا کو اپنی نظر میں ہیچ خیال کرتے۔
ان لوگوں کے باہر نکلنے کی یہ شان تھی کہ تبختُر اور نخوت کے ٹھاٹھ سے اپنے اوپر ناز کرتے ہوئے چلتے۔ ہر ایک پر کڑوے تیور ڈالتے اور اگر کہیں کسی کو دیکھ لیتے کہ اُنھیں کا بانا اور شعار اُس نے بھی اختیار کرلیا ہے تو بلاتامل ٹوک بیٹھتے اور کہتے ’’آئیے ہم سے آپ سے دو دو ہاتھ ہوجائیں۔ یہ بانا یا تو ہمارا ہی ہوگا یا آپ ہی کا ہوگا‘‘۔
اس سے زیادہ قیامت یہ تھی کہ ان لوگوں کا تبختُر، ان کا فخر و ناز، ان کی چال ڈھال، ان کی وضع قطع اور ان کے مخصوص شعار سب چیزوں کی یہ حالت تھی کہ دیکھتے ہی انسان کو بے اختیار ہنسی آجائے، مگر کس کی مجال تھی کہ اُن کی طرف دیکھ کے مُسکرا بھی دے۔ انھوں نے کسی کو جھوٹوں بھی مسکراتے دیکھا اور قرابنچے پر ہاتھ جا پڑا۔ پھر اُس وقت اگر کوئی ایسے ہی بُردبار بانکے ہوئے تو اُسے خوشامد درآمد کرکے عفوِ تقصیر کا موقع بھی ملا ورنہ بلاتامل قرابنچہ بھونک دیا اور اپنی راہ لی۔
یہ مجال نہ تھی کہ کوئی بانکے صاحب کسی صحبت میں ہوں اور کوئی اُن کی بات ٹالتا یا اُن پر اعتراض کرے۔ نتیجہ یہ تھا کہ بڑھ بڑھ کے باتیں بناتے، لاف زنی کرتے، بے پر کی اور جھوٹ کے پُل باندھتے مگر کسی کو جرأت نہ ہوسکتی کہ چوں کرے یا مسکرائے۔ مشہور ہے کہ ایک بانکے صاحب چند مہذب لوگوں کی محفل میں کہنے لگے ’’اجی فلاں راجہ کی گڑھی پر جب ہم نے سو آدمیوں سے دھاوا کیا ہے تو ہر سپاہی کے گلے میں پانچ پانچ ڈھولیں تھیں اور ہمارے سو آدمی پانسو ڈھولیں بجاتے ہوئے جاپڑے‘‘۔ اور تو کس کی مجال تھی کہ ایک بانکے کی زبان پکڑے؟ سب خاموش بیٹھے رہے مگر ایک نوجوان کی زبان سے نکل گیا: ’’خیر پانچ ڈھولیں تو گلے میں ڈال کے شاید راون کے سر کی طرح چاروں طرف پھیلالی ہوں مگر ہر آدمی پانچ پانچ ڈھولیں کن ہاتھوں سے بجاتا ہوگا؟‘‘ یہ سنتے ہی بانکے حضرت آگ بگولا ہوگئے۔ تلوار سیدھی کی اور ڈانٹ کے کہا ’’ایں! یہ ہم پر اعتراض! تو ہم جھوٹے ہوئے؟‘‘ سب نے کہا ’’آپ کو جو جھوٹا کہے وہ خود جھوٹا۔ یہ لڑکا بزرگوں کی کیا قدر جانے؟ آپ اپنی طرف دیکھیں‘‘۔
دُھن کے اس قدر پکے تھے کہ کسی کا دباؤ ہی نہ مانتے۔ یہاں تک کہ بعض بعض بہت اعلا درجے کے بانکے، بادشاہوں اور حکامِ وقت کی بھی پروا نہ کرتے تھے۔ نواب سعادت علی خاں کے زمانے میں دہلی کے آئے ہوئے مشہور بانکوں میں ایک میرزا جہانگیر بیگ تھے۔ اُن کا نوعمری کا زمانہ تھا۔باپ نواب صاحب کے درباریوں میں تھے۔ جہانگیر بیگ کی جھگڑا و فساد* کی خبر کئی بار سُن کے نواب سعادت علی خاں خاموش ہورہے، مگر آخرکار ایک دن بہت برہم ہوئے اور اُن کے والد سے کہا ’’آپ کے صاحبزادے کی شورہ پشتیاں حد سے گزرتی جاتی ہیں اور انھوں نے سارے شہر میں اُدھم مچا رکھا ہے۔ اُن سے کہہ دیجیے گا کہ اپنے اس بانکپن پر نہ بھولیں۔ ناک نہ کٹوالی ہو تو میں سعادت علی خاں نہیں‘‘۔ باپ خود ہی بیٹے کی حرکتوں سے عاجز تھے۔ عرض کیا ’’خداوند! اُس کی شرارتوں سے غلام کا ناک میں دم ہے۔ ہزار سمجھاتا ہوں نہیں مانتا۔ شاید حضور کی یہ دھمکی سُن کے سیدھا ہوجائے‘‘۔ یہ کہہ کے گھر آئے اور بی بی سے کہا ’’تمھارے صاحبزادے کے ہاتھوں زندگی سے عاجز آگیا ہوں۔ دیکھیے اس نالائق کی حرکتوں سے ہماری کیا گت بنتی ہے؟ جی چاہتا ہے نوکری چھوڑ دوں اور کسی طرف منہ چھپاکے نکل جاؤں‘‘۔ بی بی نے کہا ’’اے تو کچھ کہو گے بھی؟ آخر ہوا کیا؟‘‘ کہا ’’ہوا یہ کہ آج نواب صاحب بہت ہی برہم بیٹھے تھے۔ میری صورت دیکھتے ہی کہنے لگے اپنے بیٹے سے کہہ دینا کہ میں سعادت علی خاں نہیں جو ناک نہ کٹوالی ہو‘‘۔ اتنے میں مرزا جہانگیر بیگ جو کہیں باہر گئے ہوئے تھے، گھر میں آگئے۔ ماں نے کہا ’’بیٹا خدا کے لیے اپنی یہ حرکتیں چھوڑدو، تمھارے ابا بہت ہی پریشان ہیں‘‘۔ مرزا صاحب نے کہا ’’میرا کچھ قصور بھی بتائیے گا یا خالی الزام ہی دیجیے گا‘‘۔ باپ نے کہا ’’کوئی ایک قصور ہو تو بتایا جائے؟ تم نے وہ سر اُٹھا رکھا ہے کہ سارے شہر میں آفت مچ گئی۔ آج نواب صاحب کہتے تھے کہ اپنے صاحبزادے سے کہہ دینا میں سعادت علی خاں نہیں جو ناک نہ کٹوالی ہو‘‘۔ باپ کی زبان سے اتنا سنتے ہی مرزا صاحب کو جو طیش آیا تو کمر سے خنجر نکال لی اور خود ہی اپنی ناک کاٹ کے باپ کی طرف پھینک دی اور بولے ’’بس اسی ناک کاٹنے کی نواب صاحب دھمکی دیتے ہیں؟ لیجیے یہ ناک لے جاکے انھیں دے دیجیے‘‘۔ یہ دیکھتے ہی ماں باپ دونوں سناٹے میں آگئے اور جب باپ نے بیٹے کی ناک نذر کے طریقے سے نواب صاحب کے سامنے پیش کی اور واقعہ بیان کیا تو وہ بھی دم بخود رہ گئے اور معذرت کرنے لگے کہ ’’بھئی میرا یہ منشا نہ تھا، میں تو سمجھا تھا کہ اس دھمکی سے انھیں تنبیہ ہوجائے گی‘‘۔ باپ نے کہا ’’خداوند! ایسا نالائق اور اپنی دُھن کا پکّا ہے کہ کسی کا زور ہی نہیں چلتا۔ جسے نہ جان کا خیال ہو نہ عزت آبرو کا، اُس کے منہ کون لگے؟‘‘
اس واقعے کے بعد مرزا جہانگیر بیگ نکٹے مشہور ہوگئے۔ اور اب اتنے بڑے زبردست اور سند یافتہ بانکے تھے کہ شہر کے سارے بانکے اُن سے دبتے تھے۔ سینکڑوں بانکے ان کے شاگرد ان کے حکم کے تابع، بے عذر فرماں بردار اور اُن کے جتھے میں بھی شریک تھے جن سے سارا شہر کانپتا تھا۔ یہاں تک کہ ایک مشہور بھانڈ نے نواب سعادت علی خاں کے سامنے کوئی گستاخانہ نقل کی تو اُنھوں نے ہنس کے کہا ’’میرے سامنے تو جو چاہتا ہے کہہ جاتا ہے جب جانوں کہ تو مرزا جہانگیر بیگ نکٹے پر کوئی فقرہ تیز کرے‘‘۔ اس نے عرض کیا ’’خدا وند کہہ تو جاؤں گا مگر حضور بچا لینے کا اقرار فرمائیں‘‘۔ نواب نے وعدہ کیا اور اُس کے دوچار روز بعد ایک دن مرزا جہانگیر بیگ پورے اسلحہ لگائے دریا کنارے اپنی نشست میں مونڈھے پر بیٹھے تھے۔ پچاس ساٹھ شاگردوں اور بانکوں کا مجمع گرد تھا کہ وہ بھانڈ ایک لُنگ باندھے ہوئے دریا سے نکل کے آیا۔ اس کی صورت دیکھتے ہی مرزا جہانگیر نے کہا ’’اخاہ تم ہو؟ اچھے تو رہے‘‘۔ یہ سنتے ہی وہ آداب بجالایا۔ سامنے آکے زمین پر بیٹھ گیا اور اُن کے چہرے کی طرف ہاتھ اٹھاکے کہنے لگا ’’خداوند اتنی کٹ گئی اور جو یہ رہی ہے یہ بھی کٹ جائے گی‘‘! ایک بھانڈ کی زبان سے یہ جملہ سنتے ہی مرزا جہانگیر کو ایسا طیش آیا کہ مارے غصے کے اس قدر کانپے کہ ہاتھ سے تلوار چھوٹ گئی اور وہ بے تحاشا بھاگ کے پانی میں کود پڑا، دو چار غوطے لگائے اور پانی ہی پانی میں کسی طرف نکل گیا۔ اب مرزا صاحب کے جتھے کے لوگ ڈھونڈتے پھرتے تھے کہ کہیں ملے تو حرام زادے کو مار ڈالیں۔ آخر ایک دن نواب سعادت علی خاں نے اُسے مرزا جہانگیر بیگ کے قدموں پر گراکے کہا ’’بھئی اس کی بات کا بُرا ماننا ہی کیا؟ یہ تو مجھے بھی کہہ جاتا ہے‘‘۔ اور اس کا قصور معاف کروادیا۔
شاہی کے آخری زمانے تک اِن لوگوں کا بڑا زور رہا۔ اور بانکپن میں کچھ ایسی امتیاز کی صورتیں تھیں کہ اکثر شریف زادے خصوصاً وہ جنھیں سپہ گری کا شوق ہوتا، بانکے بن جاتے اور اپنی کوئی خاص دھج بنالیتے۔ اگر قاعدے اور سلطنت کی قوت کے ساتھ کوئی ایسا گروہ موجود ہوتا تو دراصل یہ لوگ سلطنت کے قوتِ بازو ثابت ہوتے اور اُن کی ذات سے قوم و ملک کو بڑا نفع پہنچتا۔ لیکن بدنصیبی سے جن دنوں بانکوں کا گروہ پیدا ہوا تھا۔ دہلی و لکھنؤ کی دونوں سلطنتیں نہایت کمزور اور عجیب غیر منتظم حالت میں تھیں اور یہی بانکے جو مایۂ ناز اور ذریعۂ عروج ہوسکتے تھے اُن کے لیے باعثِ زوال بن گئے۔ سلطنت اُن کو دبا نہ سکتی تھی اور اُن کی خود سری و سرکشی سے آئے دن شہر کے گلی کوچوں میں خانہ جنگیاں ہوا کرتی تھیں۔ جن لوگوں کو اُن کے ہاتھ سے آزار پہنچتا سلطنت اُن کی دادرسی نہ کرسکتی اور انھوں نے اپنے ایسے ایسے جتھے بنالیے تھے کہ بڑے بڑے رسال داروں کو بھی اُن سے دب جانا پڑتا تھا۔
ان میں باوجود احمقانہ تفاخر و غرور کے یہ خاص بات تھی کہ ہندوستان کے بلکہ شاید ساری اگلی دنیا کے کج خانوں میں سپہ گروں کے خلاف یہ نہایت ہی مہذب سپاہی ہے۔ اور اُن لوازم اخلاق کو جو دو مہذب و شائستہ دوستوں میں ہوا کرتے ہیں اپنے حریف کے ساتھ برتتے تھے۔ کسی ادنیٰ درجے کے سپاہی سے لڑنا اور مقابلہ کرنا اپنا شان و وضع کے خلاف اور موجبِ توہین تصور کرتے۔ شریف حریف ہی سے لڑتے اور پھر اُس کے ساتھ شرفا کا سا برتاؤ بھی کرتے۔ اکثر یہ بھی ہوا کہ دو بانکوں میں لڑائی ہوئی اور لڑائی میں بھی دونوں کو اس کا لحاظ ہے کہ کوئی بات حریف کی عزت و حرمت یا مرضی و شان کے خلاف نہ ہونے پائے۔ ایک کہتا ’’پہلے آپ وار کریں‘‘۔ دوسرا کہتا ’’نہیں پہلے آپ۔ یہ نہیں ہوسکتا‘‘۔ پھر جب حریف کمزور ثابت ہوجاتا تو فوراً لڑائی سے ہاتھ روک لیتے اور پھر اُس کے حق میں اُن سے زیادہ کوئی مہربان نہ تھے۔ دنیا میں اس کے نہایت ہی سچے ہمدردیہ تھے۔ اگر مغلوب دشمن اپنے پاؤں سے جانے کے قابل نہ ہوتا تو اُس کے گھر تک اُس کی مشایعت کرتے۔ راستے میں بیسیوں جگہ یہ واقعہ پیش آتا کہ یہ کہتے آپ آگے چلیے۔ اور وہ کہتا آپ آگے چلیے۔ بعض بانکوں کے واقعات میں مشہور ہے کہ لڑائی کے بعد زخمی حریف کو اُس کے گھر تک پہنچانے گئے اور وہاں سے چلے تو حریف دوست نے کہا ’’تو کیا آپ تنہا جائیں گے؟ یہ نہیں ہوسکتا‘‘۔ وہ انھیں ان کے گھر تک پہنچانے کو آیا اور جب وہ پہنچا کے چلا تو اخلاقاً پھر اُس کے ساتھ ہولیتے۔ اسی اخلاق میں صبح ہوگئی کہ جب یہ اُس کے گھر پہنچتے ہیں تو وہ ان کی مشایعت کے لیے ان کے ساتھ ہولیتا ہے۔ اور جب وہ ان کے گھر پہنچتا ہے تو یہ اُس کی مشایعت کے لیے اُس کے ساتھ ہولیتے ہیں۔
اکثر بانکوں کی یہ وضع تھی کہ شربتی کے باریک انگرکھے کے سوا کوئی کپڑا نہ پہنتے اور لڑائی میں زرہ پہننا یا ڈھال سے کام لینا بُزدلی اور نامردی خیال کرتے۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ حریف کا سامنا ہوتا تو اُس کی تلوار کو گویا ننگے سینے پر لیتے۔ چرکے پر چرکے کھاتے اور اُف نہ کرتے۔ اسی طرح چلّوں کا جاڑا اُسی شربتی کے انگرکھے پر گزرتا اور مجال کیا کہ کانپیں، تھرتھرائیں یا زبان سے ’سُو! سُو! کی آواز نکلے۔ بعض اس پر بھی یہ قیامت کرتے کہ اُس کے باریک لباس پر باسی پانی چھڑکواتے اور جوں جوں سردی معلوم ہوتی اور اکڑتے جاتے۔
ان کی آخر زمانے کی عام وضع دکھانے کے لیے ہم ایک بانکے صاحب کی صورت اپنے ناظرین کو دکھائے دیتے ہیں جنھیں خوش نصیبی سے ہم نے اپنے بچپن میں غدر کے تیرہ چودہ برس بعد مٹیا برج (کلکتہ) میں اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ یہ صاحب عہدِ شاہی کے باقیات الصالحات میں سے تھے۔ غدر میں جابجا لڑے۔ جب انگریزوں کا تسلط ہوگیا تو ہتھیار پھینک کے بہت دنوں تک ادھر اُدھر چھپتے پھرے اور آخر جب پریشان ہوئے تو کلکتہ میں آئے کہ واجد علی شاہ کے ظلِ عاطفت میں باقی ماندہ زندگی بسر کردیں۔ اُن سے اگرچہ ہتھیار چھِن گئے تھے مگر وضع نہیں بدلی تھی۔ یہ ایک کشیدہ قامت دُبلے چھریرے آدمی تھے۔ پیشانی سے گُدی تک بیچ میں سرمُنڈا ہوا تھا۔ ایک پٹا بڑا تھا اور ایک چھوٹا اور دونوں دو پلڑی ٹوپی اور پگڑی کے نیچے نکلے ہوئے تھے۔ ڈاڑھی چڑھی تھی اور مونچھیں ہمیشہ کھڑی رہتیں۔ بدن میں کھنچا ہوا چُست نیچے دامنوں کا انگرکھا تھا۔ ٹانگوں میں عورتوں کا سا لمبے پائنچوں کا کلیوں دار پاجامہ۔ پیٹھ پر مثلث وضع کا رومال اوڑھے رہتے۔ ہاتھ میں ہر وقت ایک پنکھا رہتا اور لکھنؤ کا خورد نو کا جوتا پاؤں میں تھا، مگر یک رنگی کا سب سے زیادہ نمایاں ثبوت یہ تھا کہ یہ سب کپڑے چھینٹ کے تھے جس چھینٹ کا انگرکھا تھا اُسی کی ٹوپی اُسی کی پگڑی تھی۔ اسی کا رومال پیٹھ پر، اُسی کا پائجامہ تھا، اُسی کا پنکھا تھا اور وہی چھینٹ جوتے کے بیرونی رُخ پر بھی منڈھی ہوئی تھی۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سارے بانکوں کی یہی وضع تھی، ممکن ہے کہ اِنھیں بزرگ نے خاص اپنی یہ دھج رکھی ہو۔
مٹیابرج میں چند روز یہ اسی وضع میں رہے۔ جدھر سے نکل جاتے انگلیاں اُٹھنے لگتیں اور لوگ گھبرا گھبراکے ان کی صورت دیکھتے اور ہنستے۔ اب انگریزوں میں یہ تو مجال نہ تھی کہ کسی کو ہنسنے پر ٹوکیں۔ وہ جو مثل مشہور ہے کتاوبی بلی چوہوں سے کان کٹاتی رہے۔ یہ بے چارے خود ہی نظر نیچی کرلیتے اور کوئی چاہے کچھ کہے یا کچھ کرے یہ اپنی آنکھیں جھکائے چلے جاتے، مگر باوجود اس کے اکڑ اور تیوروں کا وہی حال تھا۔ کسی محفل میں بیٹھ کے باتیں کرتے تو معلوم ہوتا کہ ساری صحبت پر حکومت کررہے ہیں اور کسی کی اپنے سامنے کچھ ہستی نہیں سمجھتے۔ جب واجد علی شاہ کا سامنا ہوا تو بادشاہ نے کہا ’’بھئی چھوٹے خان... اور یہی ان بانکے صاحب کا نام تھا...‘‘۔ اب زمانہ بدل گیا، نہ وہ ہم رہے نہ وہ تم رہے، اس لیے جس طرح ہماری وضع بدل گئی ایسے ہی اب تم بھی اپنی وضع بدل دو‘‘۔ عرض کیا ’’خداوندا! اب تھوڑی سی رہ گئی ہے اسے اسی وضع میں گزر جانے دیجیے‘‘۔ بادشاہ نے کہا ’’نہیں تمھیں میرے سر کی قسم اب وضع بدل دو اور سمجھو کہ جو کچھ ہونا تھا سو ہوچکا‘‘۔ یہ کہہ کے بادشاہ نے ایک خواص کو اشارہ کیا جس نے ایک دوشالہ لاکے اُڑھا دیا۔ جب دوسری وضع کا کپڑا اُڑھاہی دیا گیا تو مجبور ہوگئے۔ آداب بجا لاکے وہ دوشالہ لے لیا اور گھر آئے، پھر اس کے بعد جو گھر سے نکلے تو سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے۔
چند سال بعد اُنھوں نے مٹیابرج میں انتقال کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ ان کی موت پر نہیں بلکہ اُن کی وضع بدلنے ہی پر پُرانے بانکوں کا خاتمہ ہوگیا۔
اس میں شک نہیں کہ جب شریف زادوں اور عام سپہ گروں میں بانکے بننے کا شوق بڑھا، ادنیٰ و اعلا ہر گروہ میں بانکے پیدا ہونے لگے اور شہر میں بانکوں کی کثرت ہوئی تو بہت سے ایسے بانکے بھی نظر آنے لگے جن میں نہ ویسی شرافت تھی اور نہ ویسی شجاعت اور جب موقع پڑتا اُن کی کمزوری کھُل جاتی۔ لیکن اصلی بانکپن ملک و قوم کا ایک بہت ہی اعلا درجے کا شریفانہ جوہر تھا جو مسلمانوں کے سوا آخر ایام میں بہت سے ہندوؤں سے بھی ظاہر ہوا۔ اس اعلا جوہر کا ہندوستان سے مٹ جانا اِس کی تاریخ کا ایک حسرت ناک ورق ہے۔
ہمیں اس سے انکار نہیں ہے کہ بانکوں کی کثرت اور ہتھیاروں کے بے روک بے ضرورت استعمال نے ملک کے امن و امان میں فرق ڈال دیا تھا۔ شہر میں روز خانہ جنگیاں ہوتیں اور اکثر رہ گذروں پر لاشیں پھڑکتی نظر آتیں۔ یہی نہیں بلکہ روز بروز ثابت ہوتا جاتا کہ بانکے سپہ گر خانہ جنگیوں اور باہمی جدال و قتال میں جس قدر زیادہ باکمال اور شجاع ہیں اُسی قدر غنیم کے حملے روکنے اور میدانِ جنگ میں اپنے ابنائے وطن کے ساتھ شریک ہوکے لڑنے میں ناقص و ناکارہ ہیں، لیکن اس پر بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ گروہ مٹنے کے قابل نہ تھا اور مٹانے کی نہیں بلکہ باضابطہ بنانے کی ضرورت تھی۔
یورپ میں بھی ہمیں قدیم الایام میں بانکوں کا ایک گروہ نظر آتا ہے جو ’نائٹ‘ کہلاتے تھے۔ موجودہ یورپ کے اعلا درباروں سے فی الحال معزز لوگوں کو جو نائٹ کا خطاب ملا کرتا ہے یہ اُسی پُرانے فنا شدہ گروہ کی یادگار ہے۔ ہم ان مغرب کے بانکوں کا حال آئندہ نمبر میں بیان کریں گے۔
ماخذ
’یورپ کے بانکے‘ مرتّبہ فاروق عثمان، لاہور، ۲۰۰۷ء۔
عبدالحلیم شرر:ؔ ’یورپ کے بانکے‘ مرتّبہ ڈاکٹر فاروق عثمان، لاہور، بیکن ہاؤس، ۲۰۰۷ء، ص۸۲۔۷۶۔
(مطبوعہ رسالہ ’دلگداز‘، ستمبر ۱۹۱۴ء)
٭٭٭

اس مضمون کے آغاز میں اردو ادب کے ایڈیٹر کی جانب سے یہ نوٹ لکھا گیا ہے۔
شررؔ کا یہ دل چسپ اور نایاب مضمون ہمیں چودھری محمد نعیم کی جانب سے ان کے وضاحتی نوٹ کے ساتھ عنایت ہوا ہے جسے ہم ان کے شکریے کے ساتھ ’اردو ادب‘ کے صفحات پر آراستہ کررہے ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو چودھری محمد نعیم کا وضاحتی نوٹ جو مضمون سے پہلے یہاں درج ہے۔
(اڈیٹر)



مشمولہ اردو ادب، شمارہ اکتوبر تا دسمبر 2011
بشکریہ اطہر فاروقی، جنرل سکریٹری، انجمن ترقی اردو (ہند)


رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *