اردو اور ہندی کے قریب ترین لسانی رشتے کے باوجود اردو میں عصری ہندی شاعری کا کوئی مجموعہ ڈھونڈنے سے نہیں ملتا، اسی طرح ہندی میں بھی عصری اردو شاعری پر کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی۔اس کی وجوہات پر غور و خوض کا کام ارباب حل و عقد پر چھوڑ کر میں اس اہم ضرورت کی تکمیل کی سعی کررہا ہوں۔یہ چھوٹی سی کتاب اسی سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔
یہ مختصر سی کتاب نئی ہندی شاعری کا تعارف نامہ ہے۔نظموں کا انتخاب مروجہ پامال تدریسی نقطہء نظر سے نہیں کیا گیا ہےا ور نہ ہی شاعروں کے انتخاب میں کسی مخصوص مکتب فکر یا خیمے کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔بلکہ ان نظموں کے ذریعے قاری کے ذہن میں نئی ہندی شاعری کے صحیح خط و خال واضح کرنے اور اسے عصری زندگی کے رو برو لاکھڑا کرنے کی سعی کی گئی ہے اور بس۔( صادق)
***
سرویش ور دیال سکسینہ
سرویش ور دیال سکسینہ کی ولادت 15 ستمبر 1927 کو بستی میں ہوئی۔الہ آباد سے ایم اے کرنے کے بعد اسکول ماسٹری اور کلرکی سے گزر کر آکاش وانی کے دہلی پریاگ 'لکھنئو اور بھوپال اسٹیشنوں سے وابستہ رہے' پھر ہفت روزہ 'دن مان' کے شعبہ ادارت میں آگئے اور پھر بچوں کے رسالے 'پراگ'کے مدیر اعلیٰ مقرر کیے گئے۔
'تیسرا پستک' میں سرویش ور دیال سکسینہ کی نظمیں شامل ہیں۔نظموں کے کئی مجموعے شائع ہوئے جن میں 'بانس کا پل'، ایک 'سونی نائو'،'گرم ہوائیں'،'کنوانوندی'اور 'جنگل کا درد' قابل ذکر ہیں۔ایک ناول اڑے ہوئے ، دو ناولٹ'سویا ہوا جل' اور 'پاگل کتوں کا مسیحا، دو افسانوی مجموعے لڑائی اور اندھیرے پر اندھیرا اور ایک سفرنامے کچھ رنگ کچھ گندھ کے علاوہ ایک دلچسپ طنزیہ ڈراما بکری اور متفرق تخلیقات کامجموعہ'کاٹھ کی گھنٹیاں'ان کی یادگار کتابیں ہیں۔
سرویش وردیال سکسینہ کا انتقال 1933 میں ہوا۔
حادثہ
نظر نہ آنے والی ایک عمارت
میرے اوپر گر پڑی ہے
جو 'نہیں ہے' اس کے بوجھ سے
میں دب گیا ہوں
نظر نہ آنے والی ایک ندی
مجھ پر پھیل گئی ہے
جو 'نہیں ہوگا' اس کی دھار میں
میں بہہ رہا ہوں
نظر نہ آنے والی ایک سڑک
میری نیچے سے نکل گئی ہے
جو'نہیں تھا' اس کی لپیٹ میں آکر
میں کچل گیا ہوں
---
خدا
بہت لمبی جیبوں والا کوٹ پہنے
خدا میرے پاس آیا تھا
میری امی ، میرے ابا
میرے بچے اور میری بیوی کو
کھلونوں کی طرح
جیب میں ڈال کر چلا گیا
اور کہہ گیا
بہت بڑی دنیا ہے
تمہارا دل بہلانے کے لیے
میں نے سنا ہے
اس نے کہیں کھول رکھی ہے
کھلونوں کی دکان
بدبخت کے پاس
کتنا کم سرمایہ ہے
روزگار چلانے کے لیے
---
بھوک
جب بھی
بھوک سے لڑنے
کوئی کھڑا ہوجاتا ہے
خوب صورت نظر آتا ہے
جھپٹتا باز
پھن اٹھائے سانپ
دوپیروں پر کھڑا
کانٹوں سے ننھی پتیاں کھاتا بکرا
دبے پانو جھاڑیوں میں چلتا چیتا
شاخ پر الٹا لٹک
پھل کترتا توتا
یا ان سب کی جگہ
آدمی ہوتا
جب بھی بھوک سے لڑنے
کوئی کھڑا ہوجاتا ہے
خوبصورت نظر آتا ہے
---
انتظار
انتظار دشمن ہے
اس پر بھروسہ مت کرو
وہ نجانے کن جھاڑیوں
اور پہاڑیوں میں
گھات لگائے بیٹھا رہتا ہے
اور ہم پتیوں کی چرمراہٹ پر
کان لگائے رہتے ہیں
انتظار دشمن ہے
اس پر بھروسہ مت کرو
وہ چھاپا مار فوجی کی طرح
خود تاریکی میں رہتا ہے
اور ہمیں روشنی میں کھڑا دیکھتا رہتا ہے
اور ہم تاریکی میں ٹارچ کی روشنی ہی پھینکتے رہتے ہیں
انتظار دشمن ہے
اس پر بھروسہ مت کرو
وہ ہمیں دریا بنا کر ہمارے درمیان سے ہی
مچھلی کی طرح ان دیکھا تیر جاتا ہے
اور ہم لہروں کے بے شمار ہاتھوں سے
اسے ٹٹولتے رہتے ہیں
انتظار دشمن ہے
اس پر بھروستہ مت کرو
اس سے گریز کرو
جو پانا ہے فورا پالو
جو کرنا ہے فورا کرلو
---
جنگل کا درد
ایک نے مجھ سے پوچھا:
'جنگل کیا ہوتا ہے؟"
دوسرے نے کہا
'اوردرد؟"
میں خاموش رہا
میں نے دونوں کو
ایک بڑے پنجرے میں بند کردیا
اور اوپر ایک سیاہ
باریک چادر ڈال دی
کچھ دنوں بعد وہ مجھے
جنگلی جانوروں کی طرح نظر آنے لگے
پہلے ان کی آنکھیں ہری ہوئیں
بے ضرر جانوروں کی طرح
پھر سرخ، تشدد پسند جانوروں میں بدل گئیں
خوں خوار۔۔۔۔
وہ بھوکے تھے
میں نے ٹکڑا پھینکا
وہ غذا چھوڑ کر
باہم گتھ گئے
لہو لہان ہوگئے
طاقت ور نے سب کھالیا
کمزور نے مجبوری میں صبر کر
درد سے منہ چھپالیا
میں نے بہت دنوں تک
یہ سلسلہ قائم رہنے دیا
بھوکا رکھنا، ٹکڑا پھینکنا
طاقت طور میں تکبر بیدار کرنا
اور کمزور میں اطمینان
اور جب وہ اس کے اتنے عادی ہوگئے
کہ کچھ اور سوچ پانا
ان کے لیے ناممکن ہوگیا
تب میں نے انہیں
پنجرے سے نکال دیا
اب وہ کھلی فضا میں کھڑے تھے
کھڑے ہیں/کھڑے رہیں گے
ٹکڑے پھینکے جانے کے منتظر
لڑنے کے لیے مستعد
تکبر اور اطمینان کے شکار
---
شری کانت ورما
شری کانت ورما 18 ستمبر 18931 کو بلاس پور میں پیدا ہوئے۔1956 میں ہندی ادبیات میں ایم اے کرنے کے بعد 'نئی دشا' نام سے ایک ادبی سہ ماہی رسالے کی ادارت و اشاعت کا کام کیا پھر دہلی آکر ہفتہ روزہ 'بھارتیہ شرمک'کے ادارتی شعبے سے وابستہ ہوگئے۔1958 سے 1962تک ہندی کے مشہور رسالہ 'کرتی'کے ایڈیٹر رہے۔دو برس آزادانہ خامہ فرسائی کرتے رہے اور پھر ہفت روزہ'دن مان' کے شعبہ ادارت میں آگئے۔
شری کانت ورما 1976 میں مدھیہ پردیش سے راجیہ سبھا کے ممبر منتخب ہوئے۔1970، 1971 اور 1978 میں بین الاقوامی تخلیقی پروگرام کے تحت امریکہ کی آیووا یونیورسٹی میں رہے۔1980 میں لوک سبھا کی انتخابی مہم میں کانگریس (آئی) کی کامیاب سربراہی کی اور خود بھی الیکشن جیتے۔
'بھٹکا میگھ'،'دنار مبھ'،'مایا درپن' اور جلسہ گھر' ان کی نظموں کے مجموعے ہیں۔'جھاڑی' اور 'سنواد'افسانوں کے مجموعے ہیں۔علاوہ ازیں ایک ناول 'دوسری بار'اور ایک سفرنامہ'اپولو کا رتھ' اور ایک تنقیدی کتاب 'جرح' ان کے قابل ذکر کارنامے ہیں۔حال ہی میں ان کی نمائندہ تخلیقات کا ایک مجموعہ 'پرسنگ' نام سے شائع ہوا ہے۔
طریق عمل
میں کیا کررہا تھا
جب
سب زندہ باد کے نعرے لگارہے تھے؟
میں بھی زندہ باد کے نعرے لگارہا تھا
خوف زدہ تھا
جس طرح
سب خوف زدہ تھے
میں کیا کررہا تھا
جب سب کہہ رہے تھے
'عزیز میرا دشمن ہے'
میں بھی کہہ رہا تھا
'عزیز میرا دشمن ہے'
میں کیا کررہا تھا
جب سب کہہ رہے تھے
'منہ مت کھولو'
میں بھی کہہ رہا تھا
'منہ مت کھولو
بولو
جیسا سب بولتے ہیں'
زندہ باد کے نعرے ختم ہوچکے ہیں
عزیز مارا جاچکا ہے
منہ بند ہوچکے ہیں
سب حیرت سے پوچھ رہے ہیں
یہ کیسے ہوا؟
جس طرح سب پوچھ رہے ہیں
اسی طرح میں بھی پوچھ رہا ہوں
'یہ کیسے ہوا؟'
---
جو
نیو یارک کے سب وے میں نیگرو پٹ رہا ہے!
اسے پٹنا ہی تھا
وہ نیگرو تھا!
نیامی کی ریت پر نیگرو پٹ رہا ہے!
اسے پٹنا ہی تھا
اس نے جین کو للچائی نظروں سے دیکھا تھا
جو گوری تھی!
لاس ویگاس میں نیگرو پٹ رہا ہے
اسے پٹنا ہی تھا
وہ جوئے میں جیتا تھا!
کیلی فورنیا میں نیگرو پٹ رہا ہے
اسے پٹنا ہی تھا
اس نے جواب دیا تھا
'میں نیگرو ہوں!'
---
کلنگ
صرف اشوک واپس آرہا ہے
اور سب
کلنگ کا پتہ پوچھ رہے ہیں
صرف اشوک سرنگوں ہے
اور سب
فاتح کی طرح چل رہے ہیں
صرف اشوک کے کانوں میں چیخ گونج رہی ہے
اور سب
ہنستے ہنستے دوہرے ہورہے ہیں
صرف اشوک نے ہتھیار رکھ دیے ہیں
صرف اشوک جنگ کررہا تھا
---
دشمن۔1
وہ مرا دشمن ہے! وہ نہیں
جو مجھ سا نظر نہیں آتا۔۔۔وہ جو
مجھی سا نظر آتا ہے
وہ جو اس طرح آتا ہے دنیا میں
جیسے یہ محفل ہو!
وہ میرا دشمن ہے! وہ نہیں
جو مجھے نہیں جانتا۔۔وہ جو
جانتا ہے
وہ جو اس طرح جاتا ہے دنیا سے
جیسے یہ محفل تھی
---
اعلیٰ حضرت
اعلیٰ حضرت
چور دروازے سے نکل چلیے!
باہر
قاتل ہیں
آپ کے حسب حکم
میں نے کھول دیے تھے
جیل کے دروازے
توڑ دیا تھا
کروڑوں برسوں کا سناٹا!
اعلیٰ حضرت
ڈریے! نکل چلیے!
کسی کی آنکھوں میں
شرم نہیں
خدا کا خوف نہیں
کوئی نہیں کہے گا
''شکریہ!"
سب کے ہاتھوں میں
قانون کی کتاب ہے
ہاتھ ہلا کر پوچھتے ہیں
کس نے لکھی تھی
یہ قانون کی کتاب؟
---
کنور ناراین
کنور ناراین کی ولادت اگست 1927 میں فیض آباد میں ہوئی۔لکھنئو یونیورسٹی سے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔1947 سے شاعری شروع کیا۔پہلے پہل انگریزی میں نظمیں لکھنے لگے، پھر ہندی کی طرف مائل ہوئے اور پھر مستقل طور پر ہندی ہی کو اظہار کا وسیلہ بنالیا۔
1955 میں مشرقی یورپ، روس اور چین کی سیاحت کی۔
1956 سے 'یگ چیتنا'کی مجلس ادارت سے وابستہ ہوگئے۔یہ سلسلہ پانچ سال تک جاری رہا۔
کنورناراین 'تیسرا سپتک'کے شاعروں میں سے ہیں۔افسانے بھی لکھتے ہیں۔'چکرویو'،'پریویش ہم تم'اور 'استتھیاں'ان کی نظموں کے مجموعے ہیں۔
نظام
کل پھر ایک قتل ہوا
عجیب و غریب حالات میں
میں اسپتال گیا
لیکن وہ مقام اسپتال نہیں تھا
وہاں میں ڈاکٹر سے ملا
لیکن وہ آدمی ڈاکٹر نہیں تھا
اس نے نرس سے کچھ کہا
لیکن وہ عورت نرس نہیں تھی
پھر وہ آپریشن روم میں گئے
لیکن وہ جگہ آپریشن کرنے ولا ڈاکٹر
پہلے ہی سے موجود تھا۔۔۔۔مگر وہ بھی
دراصل کوئی اور تھا
پھر وہاں ایک نیم مردہ بچہ لایا گیا
جو بیمار نہیں، بھوکا تھا
ڈاکٹر نے میز پر سے
آپریشن کا چاقو اٹھایا
مگر وہ چاقو نہیں
زنگ خوردہ بھیانک چھرا تھا
چھرے کو بچے کے پیٹ میں بھونکتے ہوئے اس نے کہا
اب یہ بالکل ٹھیک ہوجائے گا
۔۔۔
دلی کی سمت
جدھر گھوڑ سوار دل کا رخ ہو
اسی سمت گھسٹ کر جاتے ہوئے
میں نے اسے کئی بار پہلے بھی دیکھا ہے
دونوں ہاتھ بندھے، مجبوری میں، پھر ایک بار
کون تھا یہ؟ کہہ نہیں سکتا
کیونکہ صرف دو بندھے ہوئے ہاتھ ہی
دلی پہنچے تھے
۔۔۔
روزانہ تقریبا دس بجے
روزانہ تقریبا دس بجے
وہی حادثہ
پھر رونما ہوتا ہے
وہی لوگ اسی طرح
اپنے بیوی بچوں کو اکیلا چھوڑ
گھروں سے باہر نکل آتے ہیں، مگر
زلزلہ نہیں آتا
شام ہوتے ہوتے
وہی لوگ
ان ہی گھروں میں
واپس لوٹ آتے ہیں
شامت کے مارے
تھکے ہارے
میں جانتا ہوں
زلزلہ اس طرح نہیں آئے گا، اس طرح
کچھ نہیں ہوگا
یہ لوگ کسی اور وجہ سے ڈرے ہوئے ہیں
یہ سب بار بار
اسی ایک پہنچے ہوئے نتیجے پر پہنچ کر
رہ جائیں گے کہ جھوٹ ایک فن ہے، اور
ہر آدمی فن کار ہے جو حقیقت کو نہیں
اپنی حقیقت کو
کوئی نہ کوئی معنی دینے کی کوشش میں پاگل ہے
کبھی کبھی شام کو گھر لوٹتے وقت
میرے دل میں ایک تجریدی فن کے خوفناک اشارے
آسمان پر پھٹ پڑتے ہیں جیسے کسی نے
تمام بدرنگ لوگوں اور چیزوں کو اکٹھا پیس کر
کسی سپاٹ جگہ پر لیپ دیا ہو
اور لہو کے سراسر جوکھم کے خلاف
آدمی کے تمام دبے ہوئے رنگ
خود بخود ابھر آئے ہوں
۔۔۔
منافقت
پہلے اسے اوپر اٹھائو، اس کی کوٹھری کو
بنیاد سے اکھاڑ کر
کھاٹ کی طرح سیدھا کھڑا کردو:پھر اس کو
اس کے گھر کے بند کواڑوں کے اوپر
وہ تعجب کا اظہار کرے گا
اس کے دونوں ہاتھ اس کی پشت پر باندھ دو
اور ایک بہترین جھوٹ اس کی آنکھوں پر
شاید وہ کچھ نہیں کہے گا
وہ یہ مان لے گا کہ فی الحال
اسی میں اس کا بھلا ہے
اب اسی کنویں سے نکال کر لائی گئی
رسی کا پھندا بنا کر
اس کے گلے میں مالا کی طرح ڈال دو
پوجا میں رکھے گھڑے کی طرح وہ کچھ نہیں کرے گا
رسی کا دوسرا سرا
اس کے گھر کے سامنے والے پرانے درخت سے باندھ دو
وہ تم دونوں کو سلام کرے گا
اب اس سے پوچھو وہ کیا چاہتا ہے
اور اگر وہ صرف اپنے گھر میں سکون سے رہنا چاہتا ہو
تو چپ چاپ اٹھ کر
اس کے لیے اس کے گھر کا دروازہ کھول دو
وہ چھٹ پٹائے گا لیکن چھٹ پٹانا کوئی دلیل نہیں
وہ مرگیا ہے، اور اب اس میں اور تم میں کوئی فرق نہیں
۔۔۔
شناخت کے سلسلے
کوئی نہ کوئی زندہ چیز
خطرے میں پڑتی ہے، دنیا
جب بھی برآمد ہوتی ہے ایک لاش کی طرح
نکل کر اپنے ماضی سے غیر مردوں کے بیچ، تمام
تتر بتر ذریعے جمع ہوتے
ایک زبردست مطالبے میں۔۔۔۔''کیا وجہ تھی
قتل کی؟''
خودکشی کی؟
سب کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے۔سچ
گوارا ہوتا ہے کہ وہ جو
پھر ایک شناخت کے سلسلے میں
پکڑ کر لائے ہیں
کسی دبو بنیے کو ڈرائے دھمکائے
چہروں کے درمیان کہ بوجھ۔۔۔کون نہیں ہے بے گناہ ان میں؟
کون ہے؟
پوچھنے والے! کون ہوتے ہیں؟
وہی جو ہمیشہ
ہر موقع پر
زبان کھنچوا کر قبول کرواسکتے ہیں کسی سے بھی
کسی کے لیے بھی کہ ہاں
یہی ہے وہ بدمعاش کاریگر
جس کی انہیں عرصے سے تلاش تھی۔۔۔جس نے
راون کے دسوں سروں پر
مکٹ کے بجائے گاندھی ٹوپی رکھ دی تھی
عوام کا قصور نہیں ہوتا۔۔انہوں نے تو
ہر بار کی طرح اس بار بھی
صرف جلادیا تھا ہنگامہوں اور پٹاخوں کے بیچ
ردی اخباروں کا بنا ہوا ایک پتلا
۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں