اتوار، 25 جون، 2017

زندہ باد کا مطلب ڈھونڈتا ہوا ہندوستان/ تصنیف حیدر

اس وقت میرا انیس سالہ بھائی، میرے پیچھے موجود پلنگ پر گہری نیند میں سورہا ہے۔اس کی ہلکی پھوٹتی ہوئی مونچھوں اور کھلے ہوئے ہونٹوں کے درمیان ایک سکون ٹھہرا ہوا ہے، اس سکون کو دیکھ کر میں نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا ہے اور بوسہ دے کر سوچ رہا ہوں کہ اس بے وقت کے پیار کا مطلب کیا ہے، میرے لیے وہ آج بھی بہت چھوٹا ہے، جب میں تیرہ سال کا تھا تو اس نے میری ماں کی کوکھ میں پائوں پسارے تھے۔ میں نے ہی اس کو شہد چٹایا تھا اور اس وقت اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق، اس کے کان میں اذان بھی دی تھی۔اب جب گھروالے مجھ سے کہتے ہیں کہ وہ بالکل تمہارے نقش قدم پر چل رہا ہے تو میں انہیں بتاتا ہوں کہ ان معصوم کانوں میں میں نے صرف اذان ہی نہیں دی، بہت سی خوش رنگ آوازیں مٹھیوں سے کھول کر آزاد کردی ہیں، اسے عینک اتارنے کے راز سمجھائے ہیں، اس کے دماغ تک پہنچنے والی آواز کی سرنگوں میں مذہب اورانسانیت کے درمیان موجود فرق کی مشعل بردار لہریں رواں کردی ہیں، اپنی ننھی سی آنکھوں سے اس نے بڑے ادیبوں کو پڑھنا شروع کیا ہے اور ایک معیاری فکر اس کے تخلیق کردہ الفاظ میں نظر آتی ہے، جہاں وہ شاعری میں خدا سے الٹے سیدھے سوال کرتا ہے، انسانی نفسیات کو اپنی عقل کے ترازو میں تولتا ہے اور کمپیوٹر اسکرین کی سفید چادر پر اپنے منفرد لہجے کے رنگین چھینٹے اڑاتا ہے۔وہ قد میں مجھ سے لمبا ہے اور ہم سب سے زیادہ ہوشیار اور زیرک۔اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ میرا چھوٹا بھائی نہیں، بلکہ میری اولاد ہے۔ظاہر ہے اتنے بڑے ہندوستان میں مجھ جیسے بہت سے بھائی ہونگے، جو اپنے چھوٹے بھائیوں سے ایسی ہی محبت رکھتے ہونگے، ان کے لیے یہ چھوٹے بھائی زندگی کے ایک خوبصورت خواب کی طرح ہونگے، جن کی خوش رنگ تعبیریں دیکھ کر دل باغ باغ ہوتا ہوگا۔
مگر سوچ کر دیکھنا چاہیے کہ جن محنت سے اگائے جانے والے پودوں کو کوئی دن دہاڑے نوچ کر بھاگ جائے، کوئی ان کی سبز پوشاک پر لہو کے تار بکھیر دے، کوئی ان کی جوان ہوتی ہوئی فکر کو روندنے کی کوشش کرے یا ان پر زہر چھڑک جائے تو انسان کیسا محسوس کرتا ہے۔کون بتا سکتا ہے کہ سونی آنکھوں میں بسنے والے ہرے بھرے درختوں کے خواب ،ادھورے رہ جائیں تو کیسا محسوس ہوتا ہے۔کوئی الفاظ، کوئی بیانیہ اس کرب کے لیے موجود بھی ہے؟ میں جب سوچتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ ایسے حادثوں کے بعد میں بطور احتجاج کیا کرسکتا ہوں، کیا غزلیں کہنا چھوڑ دوں، لفظ کے وہ سوکھے تار، جن پر اپنی فکر کی چادریں پھیلاتا ہوں، انہیں نوچ کر ہوا میں اچھال دوں، اپنے تابناک مستقبل اور ایک بھرے پرے گھر کے تصور کو موری میں بہادوں یا پھر یہ سوچ لوں کہ یہ دنیا اب رہنے لائق نہیں ہے۔میں کہہ سکتا ہوں بڑی آسانی سے کہ بدلہ لینا، بدلے کی بھاونا رکھنا یا پھر اس کے تعلق سے لوگوں کو مشتعل کرنا بالکل غلط بات ہے، میں کہہ سکتا ہوں، کیونکہ میں اس حادثے کی چپیٹ میں نہیں آیا ہوں، جو دماغ کے سرد حصوں کو بھی ابلتے ہوئے لاوے میں بدل دیتے ہیں۔میں ایسا سوچ سکتا ہوں، میں اتنی برداشت اور ایسی چپ کا درس دے سکتا ہوں کیونکہ مجھے ابھی بے وجہ تھپڑ مارے جانے سے حاصل ہونے والی ذلت کا احساس نہیں ہے۔مگر میں ان لوگوں کو یہ بات کیسے سمجھا سکتا ہوں، جن کی زندگیاں اب ایک افسوس کی ہانڈی میں تپتے ہوئے گزر جائیں گی، ایک پچھتاوے کی ہانڈی، جس میں زندگی بھر وہ دن سو کر کاٹ دینے کی خواہش میں گزارا جاسکتا تھا، اگر معلوم ہوتا کہ ایسا کوئی حادثہ ہوگا، جس میں عید کی شاپنگ کرکے ، ٹرین میں سفر کرتے ہوئے، سیٹ پر جھگڑا کرنے والا شرابی شخص اچانک ہندو دھرم کا ایسا پاسبان بن جائے گا، جسے گائے کا گوشت کھانے والوں سے نفرت ہے، اور اس مذہبی نفرت میں انانیت کا مسالہ ڈال کر وہ خود کو اتنا سفاک بنالے گا کہ کسی کو لہو لہان کرتے وقت یہ بات سوچنے سمجھنے سے قاصر ہوگا کہ جس پر وہ چاقوئوں سے پے در پے وار کررہا ہے، وہ ایک چھوٹا سا بچہ ہے، جس کے ساتھ اس کے بڑے بھائیوں ، ماں اور باپ کی ارتھی بھی ساتھ اٹھے گی اور پھر جب یہ حادثہ ہوچکے گا ، بھیڑ اپنی خاموشی اور مصلحت اندیشی کا پورا کردار خاموشی سے نبھا چکی ہوگی ، مارنے والا گرفتار ہوچکا ہوگا، میڈیا اس بحث کو مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کا ایک اور ٹائٹل عطا کرے گا، تب کچھ لوگ ہونگے جو ایک بچے کی موت پر غصہ کرنے والوں سے کہہ سکیں گے کہ فکر کی کوئی بات نہیں، ایسے دوچارحادثے ملک کے تمام رہنے والوں کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں۔کچھ ایسے ہونگے، جو کہتے ہونگے کہ جھگڑا تو سیٹ پر ہوا تھا، اسے مذہبی رنگ کیوں دیا جارہا ہے، کچھ کہیں گے کہ ہندو کبھی کسی معصوم کی جان نہیں لے سکتا۔کچھ مارنے والے کو ہندو ہی ماننے سے انکار کردیں گے، کچھ کا مذہب انہیں اتنا زیادہ جذباتی کردے گا کہ وہ اس بات پر لمبی بحثیں کرتے نظر آئیں گے کہ مسلمان مر گیا ہے تو اتنا شور مچ رہا ہے، ہندو کی موت پر کوئی آنسو نہیں بہاتا ہے۔کچھ لوگ یہ بھی کہیں گے کہ فیس بک پر جانا چھوڑ دیجیے، خبریں دیکھنا بند کردیجیے، بس اپنے آس پاس دیکھیے، تو آپ کو لگے گا کہ سب کچھ نارمل ہے۔یہی شاید سب سے مناسب طریقہ ہے، اپنا گھر دیکھا جائے، سڑک پر خون ابل رہا ہے یا گٹر، تعفن پھیل رہا ہے یا زہریلی گیس، اپنا مارا جارہا ہے یا پرایا، مذہبی آتنک مچا ہے یا سماجی۔اس سے کیا فرق پڑتا ہے، ابھی تک کہانی میں ہماری موت حادثے کے طور پر رقم نہیں ہوئی ہے، ابھی تک ہم نے نہیں سمجھا ہے کہ کسی روز جب ایسی ہی بھیڑ ہمارے دروازے تک پہنچ کر ہمیں کسی نہ کسی بہانے سے قتل کرے گی تو ہمارا پڑوسی دروازہ بند کرکےاپنی فیملی کے ساتھ خربوزہ کھانے میں کتنا حق بجانب ہوگا۔
آپ مجھے کوسیں یا گالیاں دیں، مگر میں نے اپنی زندگی میں جتنی اموات مذہبی بنیادوں پر ہوتے دیکھی ہیں، اتنی تو کسی وبا میں بھی جاتی ہوئی جانوں کا شاہد نہ ہوسکا۔نئی دنیا میں مذہب نے مارنے والے اور مرنے والے دونوں کے ہمدرد پیدا کیے ہیں اور یہ دونوں قسم کے ہمدرد نہایت مذہبی قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور اب مذہب جیب میں ڈال کر گھومنے والے ایک ایسے ہتھیار کی طرح ہم سب کے پاس ہے، جس میں کسی مقام پر خود کو غچہ کھاتے ہوئے دیکھ کر اس ہتھیار کا استعمال کرنا ضروری ہے۔لیکن ٹھہریے! اس سے پہلے ایک قسم کی احتیاط ضروری ہے، احتیاط اس قسم کی کہ ہم پہلے شور مچائیں، اپنے مخالف کو نفسیاتی طور پر اتنا پریشان کریں کہ وہ کپڑوں پر داغوں کی طرح اگ آنے والے الزامات کو جھاڑنے کے لیے بوکھلاتے ہوئے گردن جھکائے اور ٹھیک اسی وقت اس پر بھیڑ کے ساتھ مل کر ایک کاری وار کریں، چالاکی کا تقاضا یہ ہے کہ مارتے وقت آپ کے ساتھ دس سے زائد لوگ ہونے چاہیے، بس دس مارنے والے کافی ہیں، باقی تماشہ دیکھنے کے لیے بھی جٹے ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ایسا لگے جیسے بھیڑ ماررہی ہے اور اس بھیڑ کو عدالت میں ڈھونڈ کر سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کی صلاحیت دنیا کے کسی مضبوط قانون کے پاس نہیں ہے، بھیڑ کے اندر اشتعال ایسا ہونا چاہیے کہ سی سی ٹی وی کیمرہ بھی بوکھلا جائے کہ غصے کا نقاب اوڑھے ہوئے کون سے شخص کو قاتل سمجھا جائے اور کون سے شخص کو نہیں۔پہلا نعرہ لگانے والا تھوڑا دلیر ہونا چاہیے اور ایسا کہ جس کی آواز پر لوگ مرنے مارنے کو تیار ہوجائیں، ا س لیے نعرے سے زیادہ بہتر ہے کہ الزام لگاتے ہوئے چیخا جائے، ظاہر ہے پاکٹ مار لینا، سیٹ پر قبضہ کرلینا، بیٹھنے نہ دینا، گالی دینا یہ سب بہت چھوٹے الزامات ہیں، اس پر آپ کو اکیلے لڑنا ہوگا کیونکہ یہ بہت ذاتی قسم کے مسائل ہیں، اگر لوگوں کو اپنے ساتھ جمع کرنا ہے تو اس بات کو ان کا مسئلہ بنانا پڑے گا،اس لیے یہ سب کہنا ضروری ہے کہ فلاں گائے کا گوشت کھاتا ہے، فلاں وطن کا غدار ہے یا فلاں نے ہمارے مذہبی رہنما کو گالی دی ہے وغیرہ وغیرہ۔ظاہر ہے کہ یہ وار خالی نہیں جائے گا اور بھیڑ اپنے مذہب اور اپنی شناخت کی حفاظت کرنے کے لیے آپ کے ساتھ جٹ جائے گی، وہ اس حد تک آپ کا ساتھ دے گی کہ مجال ہے مخالف شخص کی سانسیں بھی اس کے شرٹ کے ادھڑے ہوئے تاروں میں پھنسی رہ جائیں۔کچھ دیر بعد منظر چھٹے گا ، بھیڑ غائب ہوجائے گی اور لاشیں پڑی رہ جائیں گی، ایسی لاشیں جن کا قتل تو ہوا ہے، مگر جن کے قاتلوں کا کوئی سراغ نہیں لگ سکتا، گویا انہیں بہت سے غیبی دیوتائوں نے مل کر اپنے ہاتھ سے گائے کا گوشت کھانے کی سزا دی ہو۔
میں سمجھتا تھا کہ ہمارے ملک کے لوگ اتنے حساس تو ہونگے کہ ان مائوں سے پہلے ہی شرمندہ ہوں، جن کے بیٹے پڑھتے پڑھتے اچانک ایک روز ایسے غائب ہوجاتے ہیں، گویا انہیں دھرتی ماں نے اپنی شرمگاہ میں انڈیل لیا ہو، ان کے خون سے لت پت چہروں، پھٹے اور تار تار ہوئے جسموں کی بدبو سونگھنا بھی ان کے گھروالوں کو نصیب نہ ہوسکے۔مگر اس ملک کے لوگ شرمسار نہیں ہیں، بلکہ تیار ہیں۔ظاہر ہے کیونکر نہ ہونگے۔دونوں سمت مذہبی منافرت کا بازار گرم ہے، اس ملک میں اپنا سیاسی الو سیدھا کرنے کے لیے بھولے بھالے غریب ہندوئوں کو، جنہیں صاف پانی اور اچھی نوکریوں کی بنیادی سہولتیں حاصل نہیں، لو جہاد اور مغلوں کے ظلم کے خلاف اتنا اکسایاگیا ہے کہ اب پڑھے لکھے ، تہذیب یافتہ ہندو بھی سمجھنے لگے ہیں کہ تاریخ کے ظلم کا بدلہ لینے کا صحیح وقت آن پہنچا ہے۔بات صرف سڑکوں کے نام بدلنے تک رہتی تو کوئی مسئلہ ہی نہ تھا، میں خود اس بات کو ٹھیک سمجھتا ہوں کہ موجودہ حکومتیں اپنی مرضی کا نصاب پڑھوائیں، اپنی مرضی سے سڑکوں اور سرکاری کاریالوں کے نام رکھیں، مگر جس بھیڑ کلچرکو انہوں نے پروموٹ کیا ہے، اس کے بدلے میں موت کا ایسا ننگا ناچ اس ملک میں شروع ہوا ہے، جو اسے مغلوں کے ظلم سے زیادہ بھیانک روپ عطا کرسکتا ہے۔مسلمانوں کے مذہبی و سیاسی عقائد و طرائق پر تنقید اپنی جگہ، مگر ان کے قتل پر اکسانے والی سیاست ایک گھنونی حرکت ہے، جو صرف اسی جگہ نہیں رکے گی۔قانون کو لاچار کردینے والی بھیڑ کا کوئی بھروسہ نہیں ہے، آج انہیں آپ مذہبی معاملات میں بھڑکارہے ہیں، کل کوئی انہیں آپ ہی کے خلاف بغاوت اور انقلاب کے نام پر اکسائے گا، اگر کوئی سمجھتا ہے کہ مذہبی منافرت کی جنگ اپنے چند مطالبات منوانے سے پوری ہوجائے گی،مسلمانوں کو ووٹ کے حق سے محروم کردینے، انہیں دوسرے درجے کا شہری بنادینے، گائے کی حفاظت کے نام پر ان کا قتل کردینے سے یہ مسئلہ حل ہوجائے گا تو اس نے اپنی نزدیکی تاریخ سے بھی کچھ نہیں سیکھا جو بتاتی ہے کہ پاکستان جیسا ملک ، جو مسلمانوں کی حفاظت کے نام پر بنا تھا، کیسے آج انہی مسلمانوں کے خون سے آلودہ ہوچکا ہے، جہاں کل ایسے دو دھماکے ہوئے ہیں، جن میں سینکڑوں لوگ اپنی مسلکی شناخت کی بنیاد پر چیتھڑے چیتھڑے کرکے رکھ دیے گئے ہیں۔
بھیڑ نے عدالتیں لگانا شروع کیں، تو اس کی زد میں ایک دن سیاسی حکمران بھی آئیں گے، بھیڑ کے سیلاب کو روکنا کسی کے بس کی بات نہیں، بس آپ دھیرے دھیرے انہیں ان کی قوت کا احساس دلارہے ہیں، جو کام آج آپ ان سے لے رہے ہیں، وہ کام کل بھیڑ میں موجود کچھ ہوشیار اپنے مطلب کو پورا کرنے کے لیے نکالیں گے، یہی آگ جب آپ کے دامن تک پہنچے گی تو آپ کو احساس بھی نہیں ہوگا کہ ایسا کیسے ہوگیا، کل کو انگریزی میڈیم میں پڑھنے والےبچوں کو پتھروں سے ماردیے جانے کی خبر جب آپ کسی نیوز ایپلیکشن پر پڑھیں تو چونکیے گا مت کیونکہ زبان کی حفاظت بھی بالآخر بھیڑ کا ہی کام ہے، اسی زمین پر محنت اور بھاری سرمائے سے لگائی جانے والی کوئی کمپنی اگر اسی لیے بھیڑ نذر آتش کردے کہ اس کے کان میں کسی نے یہ راز پھونک دیا ہو کہ اس میں ان جانوروں کی کھالوں سے کپڑے، قالین، صوفوں کے کور یا پھر دیگر چیزیں بنائی جاتی ہیں، جنہیں تم مقدس مانتے ہو، تو پھر آپ کیا کریں گے۔بھیڑ کو روکنا کسی کے بس کی بات نہیں، مگر بھیڑ کو اکسانے والی کوششوں کو روکنا حکومتوں کے ہاتھ میں ہے۔ چنائو آیوگ نے ابتدا سے ہی معاملہ طے کیوں نہیں کیا کہ مذہب کے نام پر کیے جانے والے پرچار سے لوگوں کے مستقبل پر فرق پڑتا ہے، اس لیے پارٹیوں کو مذہب یا مذہبی رسوم کے نام پر پیدا کیے جانے والے پروپگینڈے سے باز رکھا جائے۔حکومت، عدالت اور اس ملک کی سیاست کو چلانے والے اداروں کو سمجھنا پڑے گا کہ مرنے والے اور مارنے والے ، دونوں کا تعلق مذہب سے ہے، اس لیے مذہب کو عوام کا ریموٹ کنٹرول بنانے سے جس قدر ممکن ہو ، روکا جائے۔ورنہ اس منافرت کی آگ میں ایوب پنڈت اور جنید جیسے افراد یونہی جھلستے رہیں گے اور ایک وقت وہ آئے گا، جب اس آگ کو روکنا ناممکن ہوجائے گا۔
ہندوستان زندہ باد کا نعرہ لگانا کافی نہیں، بلکہ اسے زندہ رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے، خانہ جنگی کی صورت حال پیدا کرنے سے بہرحال ہندوستان کا ہی نقصان ہوگا اور اس نقصان کی تلافی ہوتےہوتے، بہت سی مائوں کی آنکھیں ، اپنے بچوں کے تابناک مستقبل کو جامنی رنگ کے سوجے ہوئے پپوٹوں میں دفن کردیں گی۔
٭٭٭

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *