بدھ، 25 فروری، 2015

اجمل کمال کی تحریر

ممتاز مفتی کی ’’الکھ نگری‘‘ بلاشبہ ایک نہایت غیرمعمولی کتاب ہے ۔۔ کم و بیش اتنی ہی غیرمعمولی جتنا اس کا مصنف ہے یا اس کا موضوع۔ اسے ممتاز مفتی کی خودنوشت سوانح حیات کے دوسرے حصے کے طور پر شائع کیا گیا ہے۔ اس سوانح حیات کی پہلی جلد، جسے ’’علی پور کا ایلی‘‘ کا عنوان دیا گیا تھا،۱۹۶۰ء کے عشرے میں شائع ہوئی تھی۔ ’’ایلی‘‘ کو بڑی عجلت میں شائع کیا گیا تھا تاکہ یہ کتاب اس سال کے آدم جی ایوارڈ کی حقدار ہو سکے۔ سرورق پر ’’آدم جی انعام یافتہ‘‘ کی سرخی کے ساتھ اسے ناول کا باریک نقاب اُڑھایا گیا تھا کیونکہ نوبیل انعام کے اس مقامی نعم البدل کو غالباً خودنوشت سوانح عمریوں کی کوئی خاص پروا نہیں تھی۔ یہ الگ قصہ ہے کہ آخرکار جمیلہ ہاشمی کے ناول ’’تلاش بہاراں‘‘ کو اس اعزاز کا زیادہ مستحق سمجھا گیا۔ دونوں کتابوں کے درمیان مقابلہ نہایت ولولہ انگیز رہا ہو گا، کیونکہ ادبی معیارکے لحاظ سے دونوں ایک دوسرے کی ٹکر کی تھیں۔ کچھ بھی ہو، موقع ممتاز مفتی کے ہاتھ سے نکل گیا اور ’’ایلی‘‘ کو ایک ایسے ناول کے طور پر شہرت حاصل ہوئی جسے، بقول ابن انشا، آدم جی انعام نہیں ملا۔ اس کے باوجود ممتاز مفتی کو ان نک چڑھے نقادوں کی رائے سے متفق ہونے میں تیس برس کا عرصہ لگا جن کا خیال تھا کہ ’’ایلی‘‘ ناول نگاری کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔ ۱۹۹۱ء میں شائع ہونے والے ایڈیشن میں آخرکار یہ انکشاف کیا گیا کہ دراصل ’’ایلی‘‘ ممتاز مفتی کی خودنوشت سوانح عمری کا پہلا حصہ تھا۔
سوانح عمری کے زیرتبصرہ دوسرے حصے پر نظر ڈالتے ہی معصوم پڑھنے والا حیرت سے دوچار ہو جاتا ہے، کیونکہ عموماً ایسا دیکھنے میں نہیں آتا کہ کسی شخص کی خودنوشت سوانح عمری کے سرورق پر کسی اور شخص کی تصویر کو زیبائش کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔ لیکن ممتاز مفتی کے بقول ان کی کتاب کے سرورق پر قدرت اللہ شہاب کی ریٹائرڈ نورانی صورت کا جلوہ گر ہونا ہی عین مناسب ہے۔ دیباچے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ممتاز مفتی نے اپنی زندگی کے پہلے نصف میں عورت کو دریافت کیا، جبکہ دوسرے نصف میں ان کی دریافت قدرت ﷲ شہاب کی ذات تھی۔
عام لوگوں کے ذہن میں شہاب کا تصور ایک کہنہ مشق بیوروکریٹ کا ہے جس نے چاپلوسی کے فنِ لطیف میں اپنی مہارت کی ابتدائی منزلیں غلام محمد اور اسکندرمرزا کے شفیق سائے میں طے کیں، اس سے پیشتر کہ انھیں جنرل (بعد میں فیلڈمارشل) کی سرکاری کٹلری میں ایک اعلیٰ مقام حاصل ہو سکے۔ پبلک شہاب کو پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے زیراہتمام شائع ہونے والے اخباروں (پاکستان ٹائمز، امروز اور ہفتہ وار لیل و نہار) پر سرکاری قبضے اور پاکستان کی ادبی تاریخ کے عجوبے یعنی رائٹرز گلڈ کے قیام جیسی نادر ترکیبوں کے اصل خالق کے طور پر جانتی ہے، اور اس میدان میں شہاب کی ذہانت کا مقابلہ ایک ایسے ہی عجیب الخلقت ادارے نیشنل پریس ٹرسٹ کے خالق یعنی الطاف گوہر سے ہو سکتا ہے۔ مفتی کا بہرحال یہ کہنا ہے کہ پبلک کو کچھ پتا نہیں۔
’’الکھ نگری‘‘ کے مطالعے سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ شہاب دراصل ان معدودے چند رازوں میں سے ایک تھے جو کائنات میں روزِ ازل سے آج تک وجود میں آئے ہیں۔ شہاب نے جو کام کیے، یا جن کاموں کی انجام دہی میں کلیدی کردار ادا کیا، احمق پبلک اپنی ناقص عقل کے ساتھ ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتی۔ مثال کے طور پر، پڑھنے والا سانس روک کر پڑھتا ہے کہ ہمارے پاک وطن کے دارالحکومت کو کراچی سے پاک وطن کے قلب کے نزدیک ۔۔ یعنی شمال کی جانب اسلام آباد ۔۔ منتقل کرنا شہاب کا کارنامہ تھا۔ یہ فیصلہ بھی تن تنہا شہاب نے کیا تھا کہ اس ملک کو اسلامی جمہوریہ کہا جائے گا، اور اس سلسلے میں فیلڈمارشل کی خودساختہ کابینہ کے تمام ارکان کی مخالفت کو پرِکاہ سے زیادہ اہمیت نہ دی تھی۔ شہاب ہی نے فیلڈمارشل کو اقبال کا خودی کا تصور سمجھایا، اور بےچارے کو پُھسلا کر اس مسیحا کا روپ اختیار کرنے پر آمادہ کیا جس کی اس بدقسمت اسلامی جمہوریہ کو اس قدر شدید ضرورت تھی۔ شہاب ہی نے، آئین سازی کے چند سانڈنی سوار روحانی ماہرین کی مشاورت سے، ۱۹۶۲ء کا حسین آئین تیار کیا تھا۔ شہاب نے اس بات کا نہایت خوبی سے بندوبست کیا کہ فیلڈمارشل کو بابوں، درویشوں، بےروزگار وکیلوں اور اسی قسم کے دوسرے روحانی عاملوں کے ذریعے آسمانی رہنمائی اور حفاظت متواتر حاصل رہے۔
چونکہ شہاب کو خود بھی ’’نائنٹی‘‘ جیسی پراسرار ہستیوں کی طرف سے آسمانی رہنمائی حاصل رہتی تھی (اس کی تفصیل کے لیے ’’شہاب نامہ‘‘ سے رجوع کیجیے جو ایک اور نادرروزگار خودنوشت سوانح عمری ہے) اس لیے انھوں نے وسیع تر قومی مفاد میں اور بہت سے کارنامے انجام دیے ہوں گے جن کی بابت شاید میں اور آپ کبھی نہ جان سکیں۔ لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ اس وقت ظہورپذیر ہوا جب انھوں نے بھیس بدل کر، اوورکوٹ میں ملفوف، پیشانی پر جھکا ہوا فیلٹ ہیٹ پہنے، اپنے سگار لائٹر میں ایک ننھا سا کیمرا چھپائے، بقول ممتاز مفتی ’’ﷲ کے زیرو زیرو سیون‘‘ کی حیثیت سے، اسرائیل کا دورہ کیا۔ اگرچہ شہاب نے اپنا یہ سفر، جو براہ راست آئن فلیمنگ یا ابن صفی کی نگارشات سے ماخوذ معلوم ہوتا ہے، بظاہر اس مقصد سے اختیار کیا تھا کہ دنیا کو بتایا جا سکے کہ مقبوضہ علاقوں کے اسکولوں میں پڑھنے والے فلسطینی بچوں کی تعلیم کے لیے اسرائیلی حکام یونیسکو کی منظورکردہ درسی کتابیں استعمال نہیں کر رہے ہیں، لیکن ’’الکھ نگری‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مشن محض اصل بات کے پردے کی حیثیت رکھتا تھا۔ شہاب کا اصل مقصد دراصل مسجدِ اقصیٰ میں ایک رات بسر کرنا تھا، اور ظاہر ہے کہ انھوں نے اپنا یہ مقصد اسرائیل کے پورے سکیورٹی کے نظام کو ناکام بنا کر پورا کر لیا۔ لیکن آخر وہ مسجدِ اقصیٰ میں رات بھر قیام کیوں کرنا چاہتے تھے؟ ممتاز مفتی نے بالاًخر یہ راز فاش کر دیا ہے۔ شہاب کو ایک پراسرار اور irreversible مابعدالطبیعیاتی عمل شروع کرنا تھا۔ شہاب نے اس عمل کی ابتدا باقاعدہ ایک عمل پڑھنے کے ذریعے کر دی ہے جو ایک نہ ایک دن ریاست اسرائیل کو نیست و نابود کر ڈالے گا۔ چنانچہ جب یہ مبارک دن آئے تو آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا سہرا اسی کے سر پر باندھیں جو اس کا مستحق ہو۔ اسرائیل کے نیست و نابود ہونے کا پی ایل او، فلسطینی جدوجہد اور انتفاضہ جیسی معمولی چیزوں سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔
مجھ جیسے یا آپ جیسے عام پڑھنے والے کے لیے یہ سب کچھ قبول کرنا شاید دشوار ہو، جس کی وجہ ظاہر ہے یہ ہے کہ ہمیں اس غیرمعمولی کتاب سے نبردآزما ہونے کی مطلوبہ تیاری میسر نہیں۔ ’’الکھ نگری‘‘ پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہمیں کچھ ابتدائی مطالعہ کرنا ہو گا۔ قدرت اﷲ شہاب کا ’’شہاب نامہ‘‘، ممتازمفتی کی ’’لبیک‘‘، بےمثال ادیب اشفاق احمد کی ’’ذکرِ شہاب‘‘ اور ’’سفردرسفر‘‘ اور شہاب کی بیگم اور اتنی ہی بےمثال ادیبہ بانو قدسیہ کی ’’مردِ ابریشم‘‘ اس سلسلے میں لازمی مطالعے کا درجہ رکھتی ہیں۔ اگر آپ ان عظیم میاں بیوی کے متصوفانہ ٹی وی کھیلوں سے جاں بر ہونے کا حوصلہ اور صبر رکھتے ہیں تو آپ کو بلاشبہ کائنات کے اس عظیم راز کا سامنا کرنے کی، جس کا نام قدرت ﷲ شہاب ہے، زیادہ بہتر صلاحیت حاصل ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر’’الکھ نگری‘‘ کے مطالعے کی تیاری کے لیے ہمیں وہ سب کچھ اَن سیکھا کرنا ہو گا جو مغرب کے سائنسی اور سماجی علوم کے ذریعے ہمارے ذہنوں کو آلودہ کرتا رہا ہے۔ بےشک یہ ایک دشوار کام ہو گا، لیکن اگر آدمی کوئی کام کرنے کی ٹھان لے تو کوئی چیز ناممکن نہیں۔ مثال کے طور پر تاریخ کو لیجیے۔
اکثر لوگ اس عام غلط فہمی کا شکار معلوم ہوتے ہیں کہ قرارداد پاکستان ۱۹۴۰ء میں لاہور میں منعقد ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں منظور کی گئی تھی اور پاکستان کا قیام قائداعظم کی قیادت میں ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ اس سے زیادہ بعیدازحقیقت بات کوئی اور نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کے قیام کا فیصلہ اس سے بہت پہلے اس وقت ہو چکا تھا جب مسلم لیگ کو اس کا خیال تک نہ آیا تھا، اور یہ فیصلہ غالباً آسمان اور زمین کے درمیان واقع کسی مقام پر ایک ایسے اجلاس میں ہوا تھا جس میں بابے، قطب، درویش اور فقیر شریک ہوے تھے، اور اس اجلاس کی صدارت ’’سرکار قبلہ‘‘ نامی ایک بزرگ نے کی تھی جن کی روحانی صلاحیتیں خاصی قابل لحاظ ہیں اور جن کا مزار (تعجب کا موقع نہیں) موجودہ اسلام آباد کے قریب واقع ہے۔ اسی طرح ممتاز مفتی نے ریڈکلف اور نہرو کے گٹھ جوڑ کو گورداسپور کی مشرقی پنجاب میں بظاہر غیرمنصفانہ شمولیت اور کشمیر پر بھارت کے بزور قبضے کی ذمہ داری سے آزاد کر دیا ہے۔ یہ دونوں فیصلے، مفتی کے مطابق، خدائی دانش نے کیے تھے۔ تو پھر اس میں حیرت کی کیا بات ہے کہ پچاس برس گزرنے کے باوجود کشمیر کے مسئلے کے حل ہونے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ جن لوگوں کو کشمیری مجاہدین کہا جاتا ہے وہ ممتاز مفتی کے خیال کی رو سے ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہیں۔ آخر خدائی دانش کے کیے ہوے فیصلے کو کون بدل سکتا ہے؟ اسی طرح ۱۹۴۷ء کے فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے جنونی ہندو اور سکھ نہیں تھے۔ یہ بھی اسی خدائی دانش کا کیا ہوا فیصلہ تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کی ایک خاصی بڑی تعداد کو شہیدوں میں تبدیل کر دیا جائے تاکہ وہ ایک روحانی فوج کے طور پر واگہ کی سرحد کی حفاظت کے فرائض سنبھال سکے۔ ممتاز مفتی نے، جو خود اس روحانی فوج میں بھرتی ہونے سے بال بال بچ گئے، یہ راز فاش نہیں کیا کہ یہ بھرتی جبری تھی یا اختیاری۔
مذموم مغربی تعلیم نے ہمارے ذہنوں کو اس حد تک پراگندہ کر دیا ہے کہ ہم عجیب و غریب خیالات کو قبول کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ مثلاً بہت سے لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اپنے قیام کے بعد سے ہمارا پاک وطن سیاسی، اقتصادی، تاریخی، جغرافیائی اور دیگر انسانی عوامل کے زیراثر رہا ہے! ایسا سوچنے والے بلاشبہ پرلے درجے کے احمق ہیں۔ پاکستان کو درحقیقت اس ماسٹرپلان کے تحت چلایا جا رہا ہے جسے سرکار قبلہ نے نہایت عرق ریزی کے ساتھ تیار کیا تھا اور جس کی تیاری میں ان کو کائنات کی ان پراسرار قوتوں کی عملی اعانت حاصل تھی جن کا تصور کرنا عام فانی انسانوں کے بس کی بات نہیں۔ ہم فانیوں کے دماغوں میں سب کچھ اس ناقابل بیان حد تک گڈمڈ ہو چکا ہے کہ بعض لوگ یہ تک خیال کرنے لگے ہیں کہ ۱۹۶۵ء کی جنگ لڑنے (اور جیساکہ اس وقت کے کمانڈرانچیف جنرل موسیٰ خان نے نہایت سادہ ذہنی سے بتایا ہے) قریب قریب ہارنے والے پاکستان کے عوام اور افواج ہیں۔ ممتاز مفتی کے دماغ میں یہ سب کچھ آئینے کی طرح صاف ہے، کیونکہ ان کی معلومات کا ذریعہ عبدالغفور ایڈووکیٹ ہیں، یعنی امورِ دفاع کے وہ عظیم ترین ماہر جنھیں دنیا نے جانا (یا شاید نہیں جانا)۔ ’’الکھ نگری‘‘ میں صفحہ ۹۴۷ پر ایڈووکیٹ صاحب کے اس خط کا عکس دیا گیا ہے جس میں انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ ۱۹۶۵ء کی جنگ پاکستان نے درویشوں کی ایک فوج کی قیادت میں لڑی (اور ظاہر ہے جیتی) تھی جن کو روحانی ایٹمی طاقت حاصل تھی۔ اس انکشاف کی روشنی میں یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ نشان حیدر اور دوسرے اعزازات یقیناً غلط افراد کو دیے گئے تھے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کائنات کی پراسرار قوتوں کو آخر اس بدقسمت ملک کے معاملات سے اس قدر دلچسپی کیوں رہی ہے؟ اس سوال کا نہایت قریبی تعلق بیوروکریٹ کے طور پر قدرت ﷲ شہاب کی زندگی کے عروج و زوال اور ان کے قرابت داروں کی دنیاوی اور روحانی ترقی کے معاملات سے ہے۔ ان مقربین میں اشفاق احمد، بانو قدسیہ (اور ان کی اولادیں)، ابن انشا، احمد بشیر (مع متعلقین)، جمیل الدین عالی، اور شہاب کے حلقے کے دیگر نامور اور کم نامور افراد شامل ہیں۔ یہ کہنا یقیناً غیرضروری ہے کہ ممتاز مفتی اور ان کے گھروالوں کو خدا کے ان منتخب بندوں میں سب سے نمایاں مقام حاصل ہے، اگرچہ اشفاق اور قدسیہ کا اس رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
تاہم یہ مسلّمہ امر ہے کہ ہم کائنات کی ان پراسرار قوتوں کے طریقِ عمل کو سمجھنے کی جانب اس وقت تک پہلا قدم بھی نہیں اٹھا سکتے جب تک ہم اس کھیل کے پہلے قاعدے سے پوری طرح واقف نہ ہو جائیں۔ اور وہ پہلا قاعدہ یہ ہے کہ ظاہر محض گمراہ کن نہیں ہوتا بلکہ بالکل غلط ہوتا ہے۔ مثلاً ہو سکتا ہے کہ ہمیں یہ بات بڑی تعجب خیز معلوم ہو کہ ۱۹۵۰ء کے عشرے میں کائنات کی ان پراسرار قوتوں کو صرف دو چیزوں سے دلچسپی تھی: اسلامی تہذیب کا احیا، اور ممتاز مفتی کی پے فِکسیشن (pay fixation)۔ بھولے بھالے پڑھنے والے کو کچھ اور واقعات بھی حیران کن معلوم ہوں گے، مثلاً کس طرح چار ایک بابے ممتاز مفتی کو نقل مکانی کر کے پنڈی جا بسنے اور شہاب کی ماتحتی میں ایک ایسی ملازمت اختیار کرنے پر آمادہ کرتے ہیں جسے صرف ممتاز مفتی کو کھپانے کے لیے اختراع کیا گیا ہے۔ کس طرح ایک سہانی صبح ایک نہایت موقعے کا پلاٹ خودبخود ممتازمفتی کی جھولی میں آ گرتا ہے، اور بعد میں، سرکاری ملازمت کے بہت سے درجات طے کر لینے کے بعد، جب وہ اس پر ایک مکان تعمیر کرنے کا ارادہ کرتے ہیں (جبکہ ان کے بینک اکاؤنٹ میں کلہم چودہ ہزار روپے ہیں)، کس طرح شہاب کا بہنوئی اس بات کا ذمہ لے لیتا ہے کہ مفتی اور ان کے لواحقین کو ایک مناسب، پُرآسائش مکان میسر آ جائے۔ ’’ایسے کاموں میں غیبی امداد ہو جاتی ہے۔ شہاب نے سچ کہاتھا۔ پتہ نہیں کہاں کہاں سے رقمیں آتی گئیں، انجانے وسیلے پیدا ہوتے گئے، انجانی جگہوں سے رقمیں آتی گئیں‘‘(صفحہ۷۵۵) اور دیکھتے ہی دیکھتے مفتی کا مکان تیار ہو گیا۔
اسی طرح جب احمد بشیر اس کشف سے دوچار ہوتے ہیں کہ ان کے دنیا میں آنے کا واحد مقصد فلم سازی کی دنیا میں انقلاب برپا کرنا تھا، تو اچانک کہیں سے ایک فیلوشپ اڑن کھٹولے کی طرح نمودارہوتی ہے اور بشیر کو آن کی آن میں اڑا کر امریکہ لے جاتی ہے تاکہ وہ فلمی دنیا میں انقلاب برپا کرنے کی مبادیات سیکھ سکیں (صفحہ۴۹۵)۔ اس آسمانی وظیفے اور اعلیٰ تربیت کے نتیجے میں ’’نیلا پربت‘‘ نامی فلم تیار ہوئی جو دنیا میں متحرک کیمرے کی ایجاد سے آج تک کی عظیم ترین فلم کا درجہ رکھتی ہے۔ جب ابن انشا کو کتابوں کی دنیا سے مستقل طور پر منسلک ہونے کی خواہش محسوس ہوئی تو کائنات کی پراسرار قوتیں نیشنل بک کاؤنسل آف پاکستان کو وجود میں لے آئیں اور انشا نے خود کو اس ادارے کے ڈائرکٹر کے معمولی عہدے پر متمکن پایا۔ یہ درست ہے کہ ابن انشا کو اپنے کام کی تمام دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں ملک ملک کی خاک پھانکنا اور مختلف کتابی موضوعات پر دنیا کے عجیب وغریب مقامات پر ہونے والے بوریت آمیز سیمیناروں میں شرکت کرنا بھی شامل تھا، لیکن کیا کیا جائے، یہ ان کی خواہش ہی کا شاخسانہ تھا۔ شاید کائنات کی انہی پراسرار قوتوں نے ہمارے سب سے زیادہ باصلاحیت ادیب اشفاق احمد کو ایک اتنے ہی علمی ادارے مرکزی اردو بورڈ کی بادشاہی پر فائز کیا۔ اشفاق نے اپنی فطری بذلہ سنجی سے کام لیتے ہوے بعد میں اس ادارے کا نام بدلوا کر اردو سائنس بورڈ رکھوا دیا۔ وہ اپنے معزول کیے جانے تک بورڈ کے تاحیات سربراہ تھے اور اس کے لیے خاص طور پر تعمیر کی ہوئی دومنزلہ عمارت کی زمینی منزل پر وقت گزارتے تھے، جبکہ اس عمارت کی بالائی منزل پر بانوقدسیہ، اس بات سے صوفیانہ طور پر بےنیاز کہ وہ سرکاری طور پر اردو سائنس بورڈ کے عملے کی رکن نہیں ہیں، بیٹھی اپنے بےمثال ٹی وی ڈرامے، ناول اور افسانے تحریر کیا کرتی تھیں جو اردو اور سائنس دونوں میدانوں میں حیرت انگیز اضافوں کا درجہ رکھتے ہیں۔ خدا کے ان تمام منتخب افراد کی اتنی ہی باصلاحیت اور منتخب اولادوں کا بھی کائنات کی پراسرارقوتوں نے خاص خیال رکھا۔ اس سلسلے میں صرف ابوالاثر حفیظ جالندھری کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، حالانکہ وہ ان دنیاوی فوائد کی درخواست کرنے بنفس نفیس، اپنی ننھی بیٹی کو کاندھے پر بٹھائے، ایک سے زیادہ بار شہاب کے دربار میں حاضر ہوے تھے اور کہا تھا، ’’دیکھ شہاب، میرے لیے بےشک کچھ نہ کر، لیکن اس بچی پر ترس کھا، ورنہ یہ معصوم بچی جوان ہو کر پیشہ کرنے پر مجبور ہو گی‘‘ (صفحہ۴۱۲)۔ چونکہ درویشوں کے رنگ نرالے ہوتے ہیں، شہاب نے اس پر محض اتنا تبصرہ کیا: ’’عجیب آدمی ہیں حفیظ صاحب، خوب آدمی ہیں،‘‘ اور اس کے بعد یہ وطیرہ اختیار کر لیا کہ جب ابوالاثر کو سڑک کے کنارے کھڑے دیکھتے تو گاڑی روکنے کے بجاے اور تیز کر لیتے۔
یاد رکھیے، ظاہر ہمیشہ دھوکا دیتا ہے۔ اگر آپ شہاب کو کبھی ایسی کیفیت میں پائیں جو الکحل کے اثرات سے نہایت قریبی مماثلت رکھتی ہو اور دیکھنے والے صاف صاف کہہ رہے ہوں کہ ’’دی باسٹرڈ اِز ڈیڈ ڈرَنک!‘‘ تو یہ ہرگز مت بھولیے کہ اس نظارے کی ایک چوتھی سمت بھی ہے۔ عین ممکن ہے وہ اس وقت کسی کربناک روحانی واردات (’’چَھلکن‘‘) سے گزر رہے ہوں یا ہالینڈ میں کچھ مدت گزارنے کے باعث ان کے ’’وجدان میں شدت پیدا ہو گئی ہو‘‘ (صفحہ۷۱۶)۔ اگر انھیں ایسی خواتین کو خوش آمدید کہتے دیکھا جائے جو اپنے اخلاقی معیارات کے بارے میں بظاہر زیادہ پُرتکلف یا سخت گیر رویہ نہ رکھتی ہوں اور کسی دفتری مشکل کا حل ڈھونڈنے کے لیے شہاب کے پاس آئی ہوں، تو آپ کو چاہیے کہ خود کو متواتر یہ یاد دلاتے رہیں کہ یہ دراصل ’’چمگادڑیں‘‘ ہیں جنھیں کائنات کی پراسرار (مگر شرانگیز) قوتوں نے اس لیے بھیجا ہے کہ وہ شہاب کو سیدھے راستے سے بھٹکانے کی اپنی سی کوشش کر سکیں (صفحہ۴۔۵۷۰ا)۔ اگر شہاب ان عورتوں کو ایک ہی جانماز پر اپنے ’’پہلو بہ پہلو‘‘ کھڑا کر کے اپنے ساتھ نماز پڑھاتے ہوے دیکھے جائیں (صفحہ۵۸۴) تو یہ مت سمجھیے کہ وہ حدود آرڈیننس کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں یا کسی قسم کی کجروی کا شکار ہیں۔ وہ تو دراصل ان بےچاری بھٹکی ہوئی عورتوں کو روحانیت کی دنیا سے متعارف کرا رہے ہیں۔ اگر آپ مفتی کو اسلام آباد کے بعض زندہ درویشوں کی مدد سے ایک ضرورت مند خاتون سے شہاب کی پوشیدہ ملاقات کا بندوبست کراتے ہوے دیکھیں (صفحہ۶۔۵۸۵) تو یاد رکھیے کہ ان کا مقصد محض مذکورہ خاتون کی روحانی نشوونما کا خیال رکھنا ہے، اور ساتھ ہی شہاب کی اور ان کی باعفت بیگم کی نشوونما کا بھی۔
اور ایک لمحے کے لیے بھی یہ خیال نہ کیجیے کہ یہ سب قصے بیان کرنے سے مفتی کا مقصد ان دنیاوی فوائد کے لیے شہاب کے حق میں اظہارِ تشکر کرنا ہے جو ان کو اپنی خدمات کے عوض حاصل ہوے۔ مفتی کی اس تمام قصہ گوئی کا مقصد دراصل شہاب کی اس مرکزی حیثیت کا انکشاف کرنا ہے جو ان کو کائنات میں حاصل ہے۔ بالکل اسی طرح شہاب اگر فیلڈمارشل کے اس قدر دل دادہ تھے، اور ان کی موجودگی میں یوں باادب کھڑے رہتےتھے جیسے ’’پرائمری اسکول کا بچہ مولوی صاحب کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے‘‘ (صفحہ۵۱۰) تو اس لیے نہیں کہ وہ صدر پاکستان کے عہدے پر فائز تھے، بلکہ وہ درحقیقت ایوب خان کی زیرکی اور بےپناہ ذہنی صلاحیتوں سے متاثر تھے، اور اس میں کسی کو کیا شبہ ہو سکتا ہے کہ فیلڈمارشل جیسے عظیم دانشور دنیا میں خال خال ہی پیدا ہوتے ہیں۔ آخر سربراہانِ مملکت کو بھی اپنی چوتھی سمت رکھنے کا حق ہے، یا نہیں؟ شہاب کی زندگی میں صرف دو ہی دیرینہ خوہشیں تھیں: ایک، ’’رسالتمآب کی حیاتِ طیبہ پر کل وقتی کام کرنا‘‘ (صفحہ۶۰۴) اور دوسرے، مناسب وقت آنے پر سول سروس سے ریٹائر ہو کر فیلڈمارشل کے ’’افکار کو پھیلانے اور عام کرنے کے لیے کتابیں لکھنا اور لیکچر دینا‘‘ (صفحہ۶۰۵)۔ شہاب نے اپنے ممدوح کے سامنے کلمۂ حق پیش کرنے میں ذرا بھی جھجھک کا مظاہرہ نہ کیا اور صاف صاف کہہ دیا کہ ’’دراصل میرا مشن ہی جنابِ صدر کے افکار اور فلسفے کی تشریح ہو گا۔‘‘ (صفحہ۶۰۵)۔ شہاب کی گوناگوں روحانی مشغولیات نے انھیں مہلت نہ دی کہ وہ اپنی پہلی خواہش پر عمل کر سکتے، البتہ انھوں نے دل لگا کر’’شہاب نامہ‘‘ کی تصنیف کا کام مکمل کر لیا جو فیلڈمارشل کی ذات اور ان کی اپنی ذات دونوں کے حق میں ایک خراجِ عقیدت کے طور پر رہتی دنیا تک باقی رہے گا۔ اس شاہکار کو تخلیق کر کے شہاب نے نہ صرف ادبیاتِ عالم کی دنیا میں لازوال مقام حاصل کر لیا ہے بلکہ اپنے مداح ناقدین کے خیالات کو بھی حق بجانب ثابت کر دیا ہے، جن میں بےمثال نقاد محمد حسن عسکری بھی شامل تھے جنھوں نے شہاب کی ابتدائی تحریروں ہی سے ان کی بےپناہ صلاحیتوں کو بھانپ لیا تھا۔
اوپر جو کچھ بیان کیا گیا ہے اسے سنجیدگی سے لینے پر خواہ ہم خود کو آمادہ کر سکیں یا نہ کر سکیں، صہیونی لابی نے اسے یقیناً بےحد سنجیدگی سے لیا۔ صہیونیوں کو جوں ہی پتا چلا کہ ’’کوئی شخص مسجد اقصیٰ میں ایسا عمل کر گیا ہے جو اسرائیل کے لیے تباہی کا باعث ہو گا‘‘ (صفحہ۷۷۶) تو انھوں نے جذبۂ انتقام سے مجبور ہو کر اپنی تاریک شیطانی قوتوں کو شہاب اور ان کے مقربین کی تباہی پر لگا دیا۔ ’’اسرائیلی جادو قدرت اللہ کے خلاف حرکت میں آ گیا۔‘‘ ایک روز جب شہاب پیرس کی ایک سڑک کے کنارے کھڑے ٹیکسی کے منتظر تھے، ایک سیاہ لیموزین ان کے سامنے رکی اور انھیں لفٹ کی پیشکش کی گئی۔ چونکہ ’’اللہ کا زیرو زیرو سیون‘‘ ہونے کے باوجود اس قسم کی کسی ترغیب کی مزاحمت کرنا شہاب کے لیے دشوارتھا، وہ گاڑی میں سوار ہو گئے اور پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوے صہیونی جادوگر کو اپنا کام دکھانے کا موقع مل گیا۔ مفتی ہمیں بتاتے ہیں کہ یہودیوں کے کیے ہوے کالے جادو کے زیراثر شہاب ایک ’’بدبودار گوشت کے لوتھڑے ‘‘ میں تبدیل ہو گئے (صفحہ۷۷۱)۔ شہاب کے مخالفین، جن کی نگاہیں ظاہر کے دوسری طرف دیکھنے سے افسوسناک طور پر قاصر ہیں، کہیں گے کہ وہ یہودیوں کی مداخلت سے پہلے بھی ایسے ہی تھے، لیکن آپ کو چاہیے کہ ان گستاخ لوگوں کی بات کو نظرانداز کر دیں۔ ’’اورجب وہ وطن واپس لوٹا تو وہ آدھا آدمی تھا۔‘‘ یہی نہیں، ’’اسرائیلی جادو کی وجہ سے ڈاکٹر عفت فوت ہوئیں‘‘ (صفحہ۷۷)۔ خود ممتاز مفتی الرجی میں مبتلا ہو گئے۔ شہاب کے کچھ اورعقیدت مندوں کو قسم قسم کے جِلدی امراض نے گھیر لیا۔
اپنے عالیشان دنیاوی کریئر سے ریٹائر ہونے کے بعد شہاب نے اسلام آباد میں ضرورت مندوں کو تعویذ گنڈے تقسیم کرنے کا کام سنبھال لیا، اور مفتی نے اس کام میں اپنی مخصوص مستعدی سے اعانت کرتے ہوے ضرورت مندوں کو گھیر گھیر کر ان کے پاس لانا شروع کر دیا (صفحہ۸۹۸)۔ اس سے جو وقت باقی بچتا اس میں شہاب اپنا شاہکار ’’شہاب نامہ‘‘ لکھتے اور مناسب گریڈ کے شرکا پر مشتمل ادبی نشستوں میں اس کے منتخب حصے پڑھ کر سناتے۔ انھوں نے اسی شہر میں آخری سانس لیا جو ان کی کوشش سے اسلامی جمہوریہ کا دارالحکومت بنا تھا، اور اپنے پیچھے اپنے مقربین کے حلقے کے ارکان کو سوگوار چھوڑا جو اب ان سے صرف خوابوں، روحانی کشفوں اور بابوں کی خفیہ میٹنگوں ہی میں ملاقات کر سکتے ہیں۔ لیکن، مفتی کو پورا یقین ہے، ایک دن آئے گا، اور پانچ سات برس کے اندر آئے گا، جب دنیا پر’’یہ بھید کھلے گا کہ قدرت اللہ شہاب کون تھا اور وہ کس کام کو سرانجام دینے آیا تھا‘‘ (صفحہ۹۳۴)۔
آئیے ہم سب اس مبارک دن کا انتظار کریں، اور انتظار کے اس وقفے کے دوران اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ نوبیل انعام کے ججوں کو اتنی سوجھ بوجھ عطا کرے کہ وہ مفتی کی ادیبانہ عظمت کا احساس کر سکیں۔ اگر آدم جی ایوارڈ کے منصفین کی طرح وہ بھی خودنوشت سوانح عمریوں کے شائق نہیں ثابت ہوے، خواہ وہ کتنے ہی پُرتخیل انداز میں لکھی گئی ہوں، تو ہم خود کوایک اور خیال سے تسکین دے سکتے ہیں۔ ’’الکھ نگری‘‘ نے کسی شک و شبے کے بغیر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہمیں، جو اسلامی جمہوریہ کے شہری ہیں، اظہار کی مطلق اور مکمل آزادی حاصل ہے۔ یہ اسی ملک میں ممکن ہے، دنیا میں کہیں اور نہیں، کہ آپ کسی بھی درجے کی کتاب کے بےباکی سے لکھے جانے، بلاروک ٹوک شائع ہونے اور راتوں رات بیسٹ سیلربن جانے کے عمل کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔

جمعہ، 20 فروری، 2015

فکشن میرے عہد کا: محمد حمید شاہد

میں منشایاد کے افسانے کی عورت پر بات کرنا چاہتا ہوں اور راجند سنگھ بیدی کی عورت یاد آنے لگی ہے ۔ بیدی کی عورت سے منشا کی عورت کا کیا سمبندھ؟ آپ حیران ہو کر حرف گیر ہورہے ہیں ‘ آپ کا متعجب ہونا یقیناًاس صورت واقعہ سے پھوٹا ہے کہ بیدی اور منٹو کے افسانوں میں عورتوں کے کردار بنیادی حوالے کے طور پر آتے ہیں‘ اس طرح کہ وہ ان دو فن کاروں کی شناخت بن جاتے ہیں ۔ منٹو کو اگر چکلے والی اور گناہ میں پڑی ہوئی عورت کے ذریعے تہذیب و تمدن کی چولی اتارنے والے کے طور پر پہچانا جاتا ہے تو بیدی کو اس گرہستن اور خاندان سے جڑی ہوئی عورت کے ذریعے جو اپنے صبر سے اپنا اور کٹھور معاشرے کا سر پھوڑتی ہے ۔ منشایاد کی شناخت بنانے میں اس کی دیہی عورت کاخاطر خواہ حصہ ہوکر بھی اس کی اپنی فکشن کے دیگرلوازم سے تناسب میں کم بنتا ہے ۔ وہ لوازم جو موضوعات ‘ فضابندی اور منظر نگاری سے شاخت ہوتے ہیں۔ کرداروں کی اٹھان اور باہمی کشاکش کے علاوہ متنی و تخلیقی خواص کے امتزاج سے جمالیاتی پیکر بناتے ہیں۔ ان سب نے اس کے افسانوں کوایک خاص سطح پر پہنچادیا ہے ۔ تجسس ‘کشش اور سحر‘آپ منشایاد کے افسانے پڑھ رہے ہوتے ہیں تو یہ تینوں لفظ بھی کیفیت بن کر آپ کے تخیل کے اندر حلول کر رہے ہوتے ہیں ۔ وقت تیزی سے ماضی حال اور مستقبل کے بیچ سعی کرتا ہے اور دیہی دانش کہیں انہونی کو ہونی کا سا بنا دیتی ہے اور کہیں ہونی شدنی وہ شکنجہ بن جاتی ہے جس میں جکڑی ہوئی انسانیت کراہ رہی ہے ۔ منشایاد کے ہاں ایسے موضوعات کی کمی نہیں ہے جو زندگی کی عام شاہراہ سے اٹھائے گئے ہوں لیکن ہوتا یوں ہے کہ روزمرہ کا دیکھا بھالا موضوع اس کے قلم اور تخیل کا لمس پاکر بھیدوں بھرا فن پارہ ہو جاتا ہے ۔۔۔ مگر صاحب ابھی منشایاد کی شناخت کے نمایاں نشانات پر بات نہیں ہورہی کہ اس نشست میں مجھے صرف اس کے افسانوں کی عورت پر بات کرنا ہے ۔
منشایاد کے ہاں ’تصویر زن سے کائنات میں رنگ والی عورت ہو یاوہ جسے حالی نے ’’ماؤں ‘ بہنو ‘ بیٹیو‘‘ کہہ کر مخاطب کیا تھا ‘ ہر دو صورتوں میں عورت زمین کے ساتھ جڑ کر آتی ہے ۔ حافظ شیرازی کا ایک شعر ہے :
اگر شراب خوری جرعہ ای فشاں بر خاک
ازاں گناہ کہ نفعی رسد بہ غیر چہ باک
یعنی شراب پیؤ تو گھونٹ بھر شراب زمین پر بھی ڈال دو کہ اس گناہ سے کیا باک جس میں کسی کا بھلا ہو رہا ہو ۔ اور منشایاد کا معاملہ یہ ہے کہ وہ سارا لطف اپنے حلقوم میں اور ساری کی ساری شراب زمین پر پھینکتا رہا ہے ۔ بدلے میں زمین یوں مست ہو کر مہکی کہ اس کے افسانوں کا دامن معنویت اور جمال کی مستی سے کناروں تک بھر گیا ۔ منشایا د کی عورت بھی اسی شراب میں گوندھی ہوئی مٹی سے معتبر ہے ۔
معاف کرنا صاحب ‘کہ میں باتوں ہی باتوں میں آپ کا سوال اپنے پہلو میں رکھ کر بھول گیا تھا ۔ آپ کا سوال کچھ ایسا ہی تھا نا۔۔۔ بیدی کا حوالہ کیوں آیا ؟۔۔۔ ہاں سوال مزے دار ہے ۔ دیکھئے جی ‘ یہ بات تو طے ہو چکی‘کہ جب جب کسی نے فکشن میں جنس اور عورت کا مطالعہ کرناچاہا تومنٹواس کے اعصاب پر سوار ہو گیا اور جس نے دیہی پس منظر کے افسانوں میں عورت کو حزن کے کیف کی جھمر جھمر میں جانچنا چاہا ‘ اس کی سب سے پہلے بیدی سے ملاقات ناگزیر ہوگئی ۔۔۔ اور ہاں‘اس سے کون انکاری ہوگا کہ یہ اس امر واقعی کے باوصف ہو رہا ہے کہ منٹو محض جنس نہیں ہے اور نہ ہی بیدی کو حکیم نے اس سے پر ہیز کی تلقین کر رکھی تھی ۔ اپنے موضوع کے تعین کے ساتھ ہی میرابیدی کا ذکر لے بیٹھنا ایک تو اسی مجبوری کا شاخسانہ تھا‘ کہ وہ خود ہی میرے سامنے آبیٹھا تھا ۔ اور دوسری وجہ جو میں جان پایا ہوں وہ یہ بنتی ہے کہ میں نے منشایاد کی عورت کو ایک ایسے حزن کے ابتلا میں پایا ہے جس کا سلسلہ احساس کی سطح پر اگر کسی کے نسوانی کرداروں سے جوڑا جاسکتا ہے تو وہ بیدی کے افسانوں کے نسوانی کردار ہیں ۔ یہاں یہ وضاحت لازم ہو گئی ہے کہ یہ بات میں اس تناظر میں قطعاّ نہیں کہہ رہا ہوں کہ میں نے اس معاملے میں منشایاد کو بیدی کے مقلد کے طور پر شناخت کیا ہے بلکہ یوں ہے کہ دونوں کا اپنا اپنا دیہی ماحول ‘ کرداروں کے نین نقش ‘قد کاٹھ چال ڈھال ‘زبان اور موضوعات میں اتنے رخنے ہیں کہ مناسبتیں اور مشابہتیں تلاش کرنے نکلو تو کچھ ہاتھ نہیں آتا تاہم دونوں کے افسانوں میں ایک چیز ہے جو میں نے بطور خاص محسوس کی ہے اور وہ ہے دکھ کی ایک شدید لہر۔ دونوں کے ہاں یہ دکھ ‘ جدائی اور تاہنگ والا گیت بن جاتا ہے ۔ بیدی نے جب ’’لاجونتی‘‘ لکھتے ہوئے یہ بھی لکھ دیا تھا کہ ’’ ہتھ لائیاں کملان نی لاجونتی دے بوٹے ‘ تو ہمارے دلوں کو ایک پاکیزہ اور روشن حزن سے بھر دیا تھا۔ منشایاد کے ہاں بھی یہی دکھ یوں ہی ہلورے دیتا ہے ’’ ڈولی چڑھدیاں ماریاں ہیر چیکاں ‘ مینوں لے چلے بابلا لے چلے ‘‘(افسانہ: تیرہواں کھمبا)۔ میں سمجھتا ہوں کہ دُکھ اور جدائی کے احساس کی یہ لہر ‘جو دونوں کے ہاں شدت سے ظاہر ہوئی ہے‘ اس کا سبب ان دونوں کا پنجاب کی لوک روایات سے آگاہ ہونا اور اس کی مٹی سے مانوس ہونا ہے ۔ صوفیانہ روایات کی امین اس دھرتی سے جو دل سے وابستہ ہوتا ہے حزن کا خزانہ اس کے ہاتھ آہی جاتا ہے ۔
بیدی اور منشا دونوں کے ہاں ایک اور بات جو میں نے بطور خاص شناخت کی ہے وہ یہ ہے کہ دونوں نے اپنے اپنے تخلیقی عمل کے آغاز سے ہی عورت کو بٹر بٹر تکنا شروع نہیں کر دیا تھا ‘ دونوں جھجکے اور ٹھٹکے تھے اور دونوں نے اسے رشتوں اور روایات کے ساتھ جوڑ کر دیکھا تھا۔ پھر یہ بھی ہے کہ عورت کو لکھتے ہوئے ‘ دونوں کو اپنی تخلیقی زندگی کے شروع میں حسی کی بجائے فکری سطح پر زیادہ متحرک پایا گیا ہے تاہم بعد میں دونوں کے ہاں فکری دھارے ادراکی حسیات میں تحلیل ہو جاتے ہیں ۔ بیدی نے اپنے مضمون ’’ افسانوی تجربہ اور اظہار کے تخلیقی مسائل ‘‘ میں خود بتایا تھا کہ منٹو نے اس پر گرفت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’ بیدی ‘ تمہاری مصیبت یہ ہے کہ تم سوچتے بہت زیادہ ہو ‘ معلوم ہوتا ہے لکھنے سے پہلے سوچتے ہو ‘ لکھتے ہوئے سوچتے ہو اورلکھنے کے بعد بھی سوچتے ہو‘‘۔ اور منشایاد نے اپنی پہلی کتاب ’’بند مٹھی میں جگنو‘‘ کی دوسری اشاعت پر اپنے افسانوں میں موجود شدت کوجذباتیت قرار دیا تھا۔ منشایاد کے اسی شدت پسندی والے رویے کو سمجھنے کے لیے اس کتاب کا دوسرا افسانہ’’ جڑیں ‘‘ کا مطالعہ مفید رہے گا۔ تاہم اس سے پہلے کارل گسٹاویونگ کی وہ بات‘ جس کے مطابق ‘ لاشعور میں نہاں باتوں سے کلی طور پر کٹنا ممکن ہی نہیں ہے تاہم وہ یہ بھی کہتا تھا کہ شعوری سطح پران سے دامن کشاں ہوا جاسکتا ہے ‘ان سے پیچھا چھڑانے‘ ان کو اندر کہیں دبا لینے یا اپنے بدلے ہوئے تہذیبی مزاج سے کچھ اور معنی بھی پہنائے جا سکتے یا پھر یوں کہہ لیں کہ ان کا حیلہ کیا جاسکتا ہے ۔ جوں جوں لکھنے والا آگے بڑھتا ہے شاطر ہوتا جاتا ہے ‘ بچپنے کی معصومیت اور بے ساختگی پر مہارت اور فن کارانہ ساختگی تہیں جمانے لگتی ہے ۔ میں ایک اچھے لکھنے والی کے لیے شاطر اور چالاک ہونا بہت ضروری گردانتا ہوں مگر اس ساری چالاکی کو اس کی معصومیت اوربچپنے جیسی لپک اور بے ساختگی کے اندر چھپا ہواہونا چاہئیے منشایاد کے لا شعور کی تشکیل میں یقیناّ اس کے بچپن اور گھر کے ماحول کا اثر اس وقت بہت گہرا تھا جب وہ افسانہ ’’جڑیں‘‘ لکھ رہا تھا ۔ یہ ماحول ‘ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں ‘ کہ منشایاد کو منٹو والی عورت‘( جو چکلے والی اور ٹکھیائی رنڈی تو ہو سکتی تھی چکی پیسنے والی ابیات گانے اور اپنے خاندان کے دکھ جرنے والی نہیں ہو سکتی تھی) سے دور لے گیا جبکہ اس نے عورت کے وجود کو رشتوں کی پاکیزگی اور تعلق کے خلوص کی ’’شدت ‘‘میں دیکھا۔ اس کہانی میں تین عورتیں ایک ساتھ آئی ہیں جو دوسری تین عورتوں کے پیکروں میں ڈھل کر کہانی کے مرکزی کردار جاوید پر قیامت ڈھا گئی ہیں ۔ نیک نہاد نوجوان جاوید جو ہاسٹل میں آنے سے پہلے اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتا تھا مگر کالج میں پہنچ کر اس کا شمار رجعت پسندوں اور دقیانوسی خیالات والوں میں ہونے لگا تھا ۔ یہاں تک پہنچ کر افسانہ نگار بین السطور یہ بتا چکا ہے کہ جاوید دیہات کے مصفا اور تہذیبی ماحول سے نکل کرشہر کے اس آلودہ ماحول میں پہنچ گیا تھا جہاں عورت کے حوالوں سے رشتوں اور تعلق کی وہ تمیز تیزی سے دھندلا رہی تھی جو اس کی سرشت اور لا شعور کا حصہ تھی ۔ کہانی میں یوں ہوتاہے کہ جاوید کو اس کے دوست ’بندے کا پتر‘ بنانے کے لیے شراب پلاتے ہیں‘ چرس کے سوٹے لگواتے ہیں اور زبردستی تھیٹرلے جاتے ہیں۔ یہیں اس کے سامنے تین عورتیں لائی جاتی ہیں ۔ تھیٹر کی اسٹیچ پر آنے والی عورتوں کو آپ منٹو کی عورت کہہ لیں اور جس روپ میں جاوید نے انہیں شناخت کیا اسے منشایاد کے ہاں کی وہ عورت جان لیا جائے جس سے ‘اپنے جذباتی پن پر قابو پاکربھی ‘وہ دامن کشاں نہ ہو سکا۔ لگ بھگ یہی کچھ بیدی کے ساتھ ہوا تھا۔ یہی سبب ہے کہ بید ی جب ’’لاجونتی ‘‘ لکھ رہا تھا یا منشا نے’’سزا اور بڑھادی‘‘ لکھا تو اس کے پیچھے وہی تہذیبی شعور کا دھارا بہر حال کام کر رہا تھا تاہم یہاں تک آتے آتے فکری شدت کی جگہ احساس کی شدت نے جمالیاتی آہنگ میں چلنا سیکھ لیا تھا ۔ خیر اس پر بات آگے چل کر ہو گی کہ فی الحال تو ہم منشایاد کے افسانے ’’جڑیں‘‘ پر بات کرنا چاہ رہے تھے ۔
اوہ ‘ اب اس کا کیا کیا جائے کہ خدا خدا کر کے ’’جڑیں‘‘ پر بات کرنے کا ماحول بنا تھا کہ تہذیبی جڑوں نے اپنی مٹی سے مہکتی میری چھاتی کو جکڑنا شروع کر دیا ہے ۔ معاف کیجئے کہ منشایاد کے ہاں پائے جانے والے عورت کے تصور کو Crude صورت میں دیکھنے اوردکھانے سے پہلے مجھے اپنی چھاتی کی جکڑن سے نمٹنا ہے ۔صاحب کرم کیجئے اور اس عورت کی بابت سوچئے جواپنی ہی تہذیب کی جڑوں کو کھود ڈالنا چاہتی ہے ۔ جی ‘ آپ نے درست گمان باندھا ‘میری مراد اسی عورت سے ہے جو نئی اور مستعار تہذیب کی چکا چوند میں ہمارے ہاں کے جنس زدہ مرد کو محبوب اور مرغوب ہو گئی ہے ۔ اندھی روشن خیالی اور مغرب زدگی میں بپا کی گئی عورتوں کی آزادی کی نام نہاد تحریکیوں کے بارے میں Barbra Sheterman نے جو کہا ‘ صاحب وہ تو پلو میں باندھنے کے لائق ہے‘ تاہم یاد رکھنا چاہیئے کہ باربرا کی یہ بات تب پلے پڑے گی جب ہم لمحہ بھر کو پیروی افرنگ کی اندھی خواہش سے الگ ہو کر سوچنے کے لائق ہو پائیں گے۔۔۔ کاش کہ ہو پائیں ؟ ۔۔۔ مگرکیسے ؟۔۔۔ مجھے تو اب اس کی ہر صورت معدوم ہوتے دِکھنے لگی ہے ۔ عجب ہوا چلی ہے کہ تہذیب کی ساری امی جمی اکھڑ تی چلی جاتی ہے ۔ باربرا کی وہ بات جو میں ایک بار پھر نقل کر رہا ہوں محمد سلیم الرحمن کے ترجمہ مطبوعہ سویرا سے نقل در نقل ہوتے چلی آتی ہے اور سچ جانو تو ہے بھی اس لائق کہ اپنے ہاں کی بلا سوچے سمجھے feminism کا پھریرا سر بلند کرنے والیوں کو بار بار سناؤں ۔ باربرا شیٹرمین نے ایک فیمینسٹ بیٹی فرانڈن کی کتاب پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے مغربی خواتین کو اصل سمت سے ہٹا کر آوارہ خرامی اور بے راہ روی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اس کے مطابق‘ مغربی جمہوریت میں آزادی کے معنی حسن کی نمائش اور عورت کو رونق محفل بنائے رکھنا ہے۔ اس رویے نے پورے سماج کو Consumerism کا غلام بنا دیا ہے ۔ اور اسی رویے کے تحت عورت کا جسم اس کا اپنا نہیں رہا ‘نمائش کی شے ہو گیا ہے ۔ قصاب کی دکان پر لٹکے لذیذگوشت کے پارچوں اور زندہ تھرکتے نسوانی وجودوں کا منڈی میں ایک ہی طرح سے بھاؤتاؤ ہونے لگا ہے ۔ جی ‘ اب عورت نمائش کی شے ہے ‘ تسکین والی گولی ہے ‘ نشے والی بوتل ہے اور اس کی منڈی میں دیگر اجناس کی طرح قیمت لگتی ہے ۔ لہذا صاحبو خاندانی نظام معدوم ہو رہا ہے اور جدید عورت رشتوں سے آزاد ہو رہی ہے ۔ عورتوں کی آزادی زندہ باد ۔ مگر اس بے بصیرتی کی ارزانی پر داد کے ڈونگرے کیسے برساؤں کہ جس کی بدولت آزادئ نسواں کی/کے پرجوش حامیوں کو ‘ عورت کو اپنی جاگیر سمجھنے اور اِسے رشتوں سے لائق توقیر بنانے والوں کے بیچ تمیز کرنا نصیب ہی نہیں ہو رہا ہے ۔ خودمغرب والوں کو اتنی پرجوش خواتین کہاں میسر ہیں جو گھر پھونک تماشا دیکھنے اوردکھانے کو گلیوں اور سڑکوں میں کودتی پھرتی ہوں گی۔ لہذا اُدھر کی ساری این جی اوز ان پر بہت مہربان ہو گئی ہیں۔ جب سستے نعرے مہنگے داموں بک رہے ہوں تو جڑوں کی بات عجیب لگتی ہے۔ مگر صاحب ‘میں بتا چکا ہوں کہ جس ماحول سے منشایاد کی اپنی سائیکی تشکیل پائی تھی وہاں عورت کا وجود ’’شے ‘‘نہیں تھا‘اور اس وجود کا تصور رشتے ناطے کے بغیرممکن ہی نہ تھا ۔ اسی ماحول نے ان رشتوں کو اتنا خالص کر دیا ہے کہ عشق یا جنس کی بات بھی سچے جذبوں کے پانیوں سے دھل کر پاکیزہ اور محترم لگنے لگتی ہے ۔ منشایاد کے افسانوں نے بتایا ہے کہ خلوص‘ سچائی اور پھر جذبوں کی بے پناہ شدت کے ساتھ عورت کو اسی طرح محسوس کیا اور کرایا جا سکتا ہے ۔ اورہاں یہ جو منشایاد کے افسانوں کا مرد عورت کی ناموس کے لیے لڑنے مرنے اور مارنے کو تیار ہو جاتا ہے تو اس لیے نہیں کہ وہ ان رشتوں اور تعلق کی ریشمیں ڈور میں بندھی عورت پر تسلط چاہتا ہے بلکہ اس لیے کہ وہ اپنی مثبت سماجی اقدار کو بچانا چاہتا اور ان پر اعتماد رکھتا ہے ۔
منشایاد کے افسانہ’’جڑیں‘‘کے جاوید نے تھیٹر کی اسٹیج پر لوگوں کی تالیوں اور سیٹیوں کے درمیان جس نوخیز لڑکی کو ناچتے گاتے دیکھا تھاوہ اسے ہو بہو زبیدہ لگی تھی۔ کرسیاں اور سیٹیاں بجانے والوں میں سے کسی نے کوئی جملہ کسا تو وہ ناچتے ناچتے ہنس دی تھی ۔ اس کا ہنسنا بھی زبیدہ جیسا تھا۔ جاوید نے زبیدہ کو تین سال سے نہیں دیکھا تھا ۔ تاہم یہ ہنسی جاوید کو تین سال پیچھے لے گئی اوراس نے اپنی آنکھوں سے اسے ہنستے دیکھا۔ یہ تب کی بات ہے جب وہ اپنے والدکی پشاور تبدیلی سے پہلے ان کے ہاں اکثر آتی جاتی تھی ۔ وہ اس کی چھوٹی بہن کی کلاس فیلو تھی ۔ وہ چھوٹے چھوٹے خوب صورت قہقہے لگاتی تھی ۔ اس کا جی چاہتا تھا وہ بہن کی بجائے اس سے باتیں کرے اور چھوٹے چھوٹے خوب صورت قہقہے لگائے لیکن وہ اس سے شرماتی تھی ۔ وہ بھی اس سے شرماتا تھا لیکن چھپ چھپ کر اس کے چھوٹے چھوٹے خوب صورت قہقہے سنتا اور ہمیشہ یہ آرزو کیا کرتا کہ وہ ایک لمبا خوب صورت قہقہہ لگائے جسے وہ اپنی یادداشت میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کرلے ۔ ایسا سوچتے ہوئے اسے یقین ہو چلا تھا کہ اگر آج اس کے ذہن میں وہ لمبا خوب صورت قہقہہ محفوظ ہوتاتو وہ اندر سے اس قدر کھوکھلا اور ویران نہ ہوتا۔ وہ کبھی فیصلہ نہ کر پایا تھا کہ زبیدہ کا حسن اس کے چھوٹے چھوٹے قہقہے تھے یا اس کے سیاہ گھنے بال۔ بہت جلد تالیوں اور سیٹیوں کے شور میں زبیدہ کے چھوٹے چھوٹے قہقہے دب جاتے ہیں ۔ پھر جاوید نے دھمال کے دوران جو منظر دیکھا وہ اس کے اوسان خطا کرنے کے لیے کافی تھا ۔ اس کے بال کھل چکے تھے۔ اس منظر میں محبت کے ابتدائی نقوش سے عورت کا وجود متشکل ہوتا ہے جو فوراً بعد ایک باقی رہ جانے والی تاہنگ اور حسرت کا حصہ ہو جاتا ہے۔
افسانہ نگار نے اپنی ہی تہذیب سے بر گشتہ ثقافتی مظاہر سے دل بستگی کو شعار کرنے والوں کے لیے ایک اور طمانچے کا یوں اہتمام کیا کہ پروین اختر کو اسٹیج پر لے آیا جسے جاوید نے اس بار رخشندہ کے طور پر شناخت کیا تھا۔ رخشندہ جاوید کی ماموں زاد تھی ۔ اس کے جسم سے ایسی مقناطیسی لہریں نکلتی تھیں کہ وہ دور چلے جانے کے بعد بھی اس سے دور نہیں رہ سکتا تھا ۔ اسے دیکھ کر جوئے شیر لانے ‘ زہر پھانکنے ‘ سانپوں سے ڈسوانے اور ران چیر کر کباب بنانے کی داستانیں سچی معلوم ہونے لگتی تھی ۔ مگر جاوید نے رخشندہ کو تھیٹر کی اسٹیج پر دیکھا اور وہ بھی یوں کہ وہ تماشائیوں سے نوٹ وصول کر رہی تھی ۔ اسے ویل دینے والوں میں سے ایک شخص نے جب اس کی کلائی پکڑ لی تو جاوید آپے سے باہر ہوگیا۔ اس کا جی چاہنے لگا تھا کہ وہ ہجوم پھلانگتا اس شخص تک پہنچے اور اس کے دانت توڑ کر رکھ دے۔مگر اسے پکڑ کر بٹھا لیا گیا تھا اور رخشندہ بڑی بے ہودگی سے ناچ رہی تھی ۔
پہلی عورت کے ساتھ جاوید کا محبت کا رشتہ تھا ‘ دوسری عورت محبت اور رشتے کے مخلوط تعلق سے سامنے آئی جب کہ تیسری عورت کو اسٹیج پر لاتے ہوئے افسانہ نگار نے ایک اور دھچکا دینے کا اہتمام کیا ۔ آنے کو تو اسٹیج پر چاند بی بی آئی تھی مگر وہ جاوید کو یوں لگ رہی تھی جیسے وہ چاند بی بی نہ تھی اس کی چھوٹی پھوپھی شازیہ تھی ۔ اس پھوپھی کی شادی چند ماہ پہلے ہی ہوئی تھی ۔ عورت کے پاؤں میں پڑے گھنگھرؤں کی آواز‘ سارنگی اور طبلے کی آواز میں گھلنے ملنے کے دورانئے میں جاوید نے گمان باندھا تھا کہ ہو نہ ہو تھیٹر والوں نے عجب چالاکی دکھائی ہے کہ تماشائیوں کو ناچنے والیاں اپنی ہی مائیں بہنیں نظر آتی ہے ۔تو صاحب کہانی کا خلاصہ تب تک لطف نہ دے گا جب تک میں یہ نہ بتا دوں کہ افسانہ نگار نے آخر تک پہنچتے پہنچتے جاوید کو لوگوں سے تھپڑ مروائے ‘ پاگل اور دیوانہ کہلوایا‘ پتھر پڑوائے مگر اس سے یہ بھی کہلوا دیا کہ کہ اسٹیج پر پیشہ ور گانے والیاں سب کو اپنی مائیں بہنیں نظر آتی ہیں مگر وہ ایسا ظاہر نہیں ہونے دیتے۔اس پوری کہانی کو علامتی سطح پر اٹھالیجئے اور تھیٹر کی تہذیب کو فرنگیوں کا ناٹک جان کر اپنے ہاں کے رشتوں سے معتبر ہونے والی اس عورت کا تصور کیجئے جو اس تماشے میں رشتوں اور تعلق سے محروم ہو رہی ہے تو منشایاد کی شدت پسندی کے جواز اور خلوص کو بہت سہولت سے سمجھا جا سکتا ہے ۔
میں نہیں جانتا کہ منشایاد نے جو پہلی کہانی سوچی ہو گی اس میں عورت کا کیا روپ ہوگا۔ تاہم اس کی پہلی کتاب کی پہلی کہانی یعنی ’’دل کا بوجھ‘‘ اور کئی دوسری کہانیوں مثلاً ’’ تیسرا شخص ‘‘’’ دوپہر اور جگنو‘‘ اور ’’سانپ اور خوشبو‘‘ وغیرہ میں بھی سگے رشتوں کے حوالے سے عورت موجود ہے ۔ اور یہ رشتے ہیں ‘ ماں‘ بیوییا بیٹی۔ تاہم بجا کہ یہ کہانیاں عورتوں سے زیادہ انسانی کے رویوں کی کہانی بنتی ہیں ۔ کہنے کو تو ’’کالک‘‘ بھی بدلتے مرد کی کہانی ہے مگر عورت کا اس تبدیلی سے کیا تعلق بنتا ہے اس کا مطالعہ بہت دلچسپ ہو جاتا ہے ۔
’’ آخری بار میں کب رویا تھامجھے اچھی طرح یاد نہیں مگر میرا خیال ہے کہ اس وقت میں ابھی شہرنہیں آیا تھا۔ گاؤں کی کسی لڑکی کا بیاہ تھا‘ ہاں مجھے یاد آگیا‘فتح دین تیلی کی بیٹی کی ڈولی نکلی تھی اور بینڈ باجے والوں نے بابل سے بچھڑنے سے متعلق کسی گیت کی دُھن بجائی تھی اور مجھے ایسا لگا تھا جیسے وہ فتح دین تیلی کی بیٹی نہیں میری سگی بہن ہے ۔۔۔‘‘
تو صاحب دیکھا آپ نے کہ دیہی معاشرت میں عورت محض عورت ہوتی ہی نہیں کوئی سگا رشتہ نہ ہو تو بھی کسی نہ کسی رشتے میں جڑ کر محترم ہو جاتی ہے ۔ یہیں منشایاد کے پنجابی ناول’’ٹانواں ٹانواں تارا ‘‘ کے عبدل کے آنسو یاد آتے ہیں ۔ ناول میں ایک مرحلے پر باراتی جب کھانا کھا چکتے ہیں اور دلہن کی رخصتی کا مرحلہ آجاتا ہے تو دلہن کی رشتہ دار عورتیں رو رو کراسے رخصت کر رہی ہوتی ہیں ۔ عبدل لڑکے والوں کے ساتھ آیا ہے مگر اس دیہاتی کے معصوم دل کا نقشہ منشایاد نے یوں کھینچا ہے:
’’ خالد دا دھیان پیا تے کیہہ ویکھدا اے‘میاں عبدل پنڈ دیاں اتھروپونجدیاں زنانیاں تے روندے پئے ماں پیؤ نیڑے کھلوتا روندا پیا اے ۔ اوہ سمجھیا‘اوہنوں کسے کجھ آکھ دتا اے ۔ انو ‘نوں گھلیوس‘پتہ کرے‘مئیں عبدل نوں کیہہ ہویااے۔انو تھلے اتر کے آیا۔
میاں کیہہ ہویا اے؟
کجھ نئیں ‘ میاں عبدل آکھیا ‘ ایہو جے ویلے اتے رون نے آای جاندا اے‘
پر توں نے جانجی ایں؟
جانجی آں پر بندا وی تاں آں‘‘
تو یوں ہے صاحب کہ دیہاتی ہر حال میں بندہ رہتا ہے مگر شہر آدمی کی نفسیات کو کس طرح مسخ کر دیتا ہے کالک‘ میں موجود عورت کے آئینے میں اسے بھی دیکھ لیجئے:
’’ پچھلے تیرہ برسوں میں(یعنی شہر میں آنے کے بعد) میں نے کتنے ہی نشیب وفراز دیکھے ہیں ‘ کتنے ہی دل چیر دینے والے مناظر آنکھوں کے سامنے آئے ہیں جنہیں دیکھ کر دل کو کچھ ہوتا بھی رہا ہے مگر آنکھ سے آنسو کبھی نہیں ٹپکا‘یہاں تک کہ ایک مرتبہ میری سگی خالہ فوت ہو گئیں ‘مجھے معلوم ہوا کہ خاندان کے لوگ مجھ سے رونے کی توقع رکھتے ہوں گے ‘اسی لیے میں نے کوشش بھی کی مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ میں نے دوسروں کو خالہ کی میت پر بین کرتے اور پچھاڑیں کھاتے دیکھ کر عبرت حاصل کرنے اور خالہ کو اپنی ماں فرض کرکے خود پر رقت طاری کرنے کی بہت کوشش کی مگر ایک بھی آنسو میری آنکھ سے نہ ٹپکا ۔۔۔‘‘
اور ہاں‘ یہ بتانے کی ضرورت تو ہے نہیں کہ شہر بڑی تیزی سے نئی تہذیب میں ڈھل رہے ہیں اور اس کہانی میں گاؤں اس ہند مسلم تہذیب کی شناخت بن کر آیا ہے جس میں عورت اور مرد سچے رشتوں میں بندھ کر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیتے آئے ہیں جس کا اعلی انسانی قدروں پر پختہ ایمان ہے ۔ اسی افسانے کا ایک اور مقام:
’’ میں نے جس لڑکی سے پہلے پہل اظہار محبت کیا تھا مجھے اس سے سچ مچ محبت تھی۔ میں اُسے جو کچھ کہتا تھا سب سچ ہوتا تھا۔ مجھے اس کی آنکھیں اچھی لگتی تھیں ۔ اور میں صرف اس کی آنکھوں کی تعریف کرتا اور سوچتا تھا۔ مگر اب کسی شاعر لڑکی کا جسم اچھا لگے تو اس کی غزل کے مجموعی تاثر کی تعریف کرتا ہوں اور افسانہ نگار خاتون اچھی لگیں تو بات افسانے کے عنوان کی تعریف سے شروع ہوتی ہے ۔ میرا خیال ہے کہ یہ سب کچھ محض اس لیے ہے کہ مجھے روئے ہوئے بارہ تیرہ برس ہو گئے ہیں اور میرے اندر معصومیت اور سادگی کا قحط پڑ گیا ہے‘‘
صاحب یہی وہ سادگی اور معصومیت کا قحط ہے جو تیزی سے بدلتی ہوئی زندگی نے ہماری جھولی میں ڈال دیا ہے ۔ پنجابی کی ایک کہاوت ہے مردہ پلید اور قبر چونے گچ ‘ یہی معاملہ ہمارے دلوں کا ہوتا جارہا ہے اور دلوں کی اسی کالک میں عورت کے ساتھ رشتے بھی گم ہورہے ہیں ۔منشایاد نے ایک اور افسانے ’’دیمک کا گھروندہ‘‘ میں انہی معدوم ہوتے رشتوں کی محسوسات کی سطح پر تصویر کشی کی ہے۔ (یادرہے اوپر وہ ذہنی ساخت دکھائی جا چکی جس میں ایک کامی کی بیٹی کوئی رشتہ نہ ہوتے ہوئے بھی رشتوں میں جڑی ہوئی محسوس ہوتی تھی ):
’’میں قریبی مارکیٹ سے ارشد کی پسند کے بسکٹ لینے چلا گیا ۔ واپس آیا تو شکیلہ ڈرائنگ روم میں چائے کے برتن رکھنے گئی ہوئی تھی۔ میں اسے اندر بھیجنے پر امی سے خفگی کا اظہار کرنا چاہتا تھاکہ اندر سے اس کی چیخ سنائی دی ۔ میں بھاگ کر اندر پہنچا تو دیکھا چائے کے برتن ٹوٹے پڑے تھے ۔ شکیلہ منہ چھپائے ایک طرف کھڑی رو رہی تھی اور ارشد کہیں نہیں تھا۔ مگر اسی دَم میری نظر نالی میں غائب ہوتی سانپ کی دُم پر پڑی ۔ میں ہاکی لے کر اس کا سر کچلنے نکلا مگر وہ غائب ہو چکا تھا۔‘‘
مان لیجئے صاحب کہ تہذیب کی ساری رونق اور چہل پہل رشتوں اور تعلق کی محتاج ہوتی ہے۔ یہ رشتے ہند مسلم تہذیب کا امتیاز ہیں اور انہیں کے سبب خاندان کا انسٹی ٹیوشن مضبوط رہا ہے مگر جارح ثقافت کی چکا چوند میں سب کچھ بکھر رہا ہے ۔ اور اسی کا شاخسانہ ہے کہ اب انسان اشرف المخلوقات نہیں رہا ‘ رذیل سانپ بن گیا ہے ۔ وہ جو کہتے ہیں کہ رذالے کی جورو کو سدا طلاق ‘ تو صاحب سچ ہی کہتے ہیں‘ بھلاکمینوں اور سفلوں کو اپنے عہد کا اور اپنے رشتوں کا پاس کیوں ہوگا اور کیسے ہو گا ۔ منشا نے اس صورت کو گرفت میں یوں لیا ہے :
’’ میں خود بھی انسان کی جون میں کوئی سانپ ہوں ۔میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر کسی دن پتہ چلا کہ میں سچ مچ اصل میں سانپ ہوں تو مجھے مختلف لوگوں کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرنا ہوگا ۔ مثلاً وہ بڑھیا جو میری ماں کہلاتی ہے ۔۔۔ لیکن کیا خبر وہ بڑھیا یعنی میری ماں دراصل انسان کی جون میں کوئی ناگن ہو اور عورت بن کر اس نے میرے باپ سے شادی کر لی ہو ۔ اور کون جانے ایک روز اس نے اسے ڈس لیا ہو اور وہ مر گیا ہو لیکن یہ بھی تو نہیں کہا جاسکتا کہ میرا باپ سانپ نہیں تھا۔ ممکن ہے ماں سے اکتا کر اس نے مرنے کا بہانہ کیا ہو اور قبر سے نکل کر اپنے پرانے بل یا غار میں چلا گیا ہو‘‘
’’ میں نے ماں اور شکیلہ کو اپنے گھر میں نظر بند کر رکھا ہے اور ان کا پہرہ دے رہا ہوں ۔ ماں میری شادی پر مصر ہے اس نے میرے لیے پہلے سے ایک لڑکی چُن رکھی ہے مگر میں نے ابھی تک اس لڑکی کو نہیں دیکھا اور نہیں کہہ سکتا کہ وہ لڑکی ہی ہوگی۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ جب ڈولی کا پردہ سرکایا جائے تو وہ کنڈلی مارے بیٹھی ہو یا پھر میرے پہلو میں لیٹی لیٹی اچانک ناگن بن کر میرے سینے پر چڑھ جائے۔‘‘
رشتوں کی مکمل شکستگی کے بعد عورت اور مرد کا تعلق کتنا پست اور گھناؤنا ہو جائے گا منشایاد کے ہاں یہ موضوع پلٹ پلٹ کر آتا رہا ہے ۔کہیں کہیں تو یہ موضوع انسانی نفسیات کا انتہائی باریک بینی اور دردمندی سے کیا گیا مطالعہ ہو جاتا ہے۔ قومی اہمیت کے امور پر مرد اور عورت کے بیچ رشتوں سے تہی تعلق کس طرح اثر اندوز ہوتا ہے اس کا انتہائی سلیقے ‘مہارت اور بے دردی سے کیا گیا تجزیہ منشایاد کے افسانے ’’چھتیں اور ستون‘‘ میں ملتا ہے ۔ قومی اہمیت کی عمارت تعمیر ہورہی ہے اور جس کی نگرانی میں عمارت کو تعمیر ہونا ہے وہ چند شوخ اور حسین لڑکیوں کے تعاقب میں مری پہنچ گیا ہے ۔ اس کہانی میں مس نجمہ سمیت کئی اور لڑکیوں کی سمت اشارے بھی ہوتے ہیں ۔ ان لڑکیوں کی سمت جن میں رشتے مقدس نہیں رہتے لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ اہلے گہلے پھرنے والی لڑکیوں کے ساتھ اٹکھیلیوں میں مکمل ہونے والی قومی اہمیت کی عمارت کی چھت ٹپکنے لگتی ہے ۔
رشتوں ‘ناطوں اور گہرے سماجی تعلقات کی تکرار سن سن کر جب آپ کے دھیان میں منشا کی کہانی ’’شجر بے سایہ ‘‘ آئی ہوگی تو آپ مجھ پر خوب ہنسے ہوں گے ۔ ہت تیرے کی ‘ کہتے آپ کے چہرے پر میں تمسخر کی جھلک دیکھ رہا ہوں ۔ آپ کا اصرار ہے کہ ’’شجر بے سایہ ‘‘ میں رشتوں کی اوقات ہے ہی کیا؟۔۔۔ ڈیڑھ بکائن میاں باغ میں‘ رشتوں کی اس پونجی پر اتنا بھی کیا اترانا۔ آپ کا کہا بلاسبب نہیں لہذا سر آنکھوں پر ‘ میں بھی تو شاید اس افسانے سے اسی وجہ سے کنی کاٹ رہا تھا ۔ مگر اب جو آپ کے ماتھے کی چنٹ دیکھی اور ایک بار پھر اس افسانے کے کرداروں پر غور کیا تو کھلا کہ میں اپنی سہولت کو عزیز جان کر پہلو بچا رہا تھا‘ جی صرف سہولت نہیں۔۔۔ بے پناہ سہولت‘ وہی جو اس افسانے کے باب میں ایک کلیشے سا تنقیدی جملہ لکھ کر آگے گزر جانے والے مظفر علی سید کو میسر آئی تھی ۔ ’’شجر بے سایہ ‘‘ کو ایک طرف رکھ کر اور اپنی اندر بے اعتنائی بھر کر میں نے جو سہولت ہتھیائی تھی‘ وہ مداری کا بخت بننے والی وہ سہولت نہیں تھی کہ جس میں وہ اپنی ٹوکر ی یا ٹوپی سے وہ چیزیں نکال دکھاتا ہے جو اس میں ہوتی ہی نہیں ‘یا پھر اس میں اوپر سے ڈال دی گئی ہوتی ہیں ۔ بلکہ یوں ہے کہ اب تک جن افسانوں کا تذکرہ ہوا ان میں سہولت یہ تھی کہ ان کا متن خود میری مدد کرتا رہا ہے ۔ مجھے نہ ان میں سے وہ چیز نکال دکھانے کا شعبدہ دکھانا پڑا جو اس میں نہیں تھا نہ اس میں اپنی طرف سے معنی ڈالنے پڑے۔ یہ افسانے تو اس عطر کی شیشی کی طرح تھے جو باہر سے بھی بھیگی ہوئی ہوتی ہے ۔ سطر سطر معنوں کی ایسی خوشبو امنڈتی رہی جو انسانی تہذیبی رشتوں سے معتبر ہوتی ۔۔۔ ’’شجر سایہ دار ‘‘ میں یہ سہولت نہ تھی‘ یہاں منہ بندشیشی کے باہر کچھ نہ تھا‘ کارک کھولنا ضروری تھا کہ اس کہانی کی عورتوں سے سیدھے سبھاؤ ملا ہی نہیں جاسکتاتھا۔۔۔ اور اگر ایسا کیا جاتا تو عین مین وہی ٹھوکر کھانے کا احتمال تھا جو مظفر علی سید نے یہاں کھائی ۔ اس کہانی کی ساری فضا سے سرسری گزر نے ا ور سطحی نتیجوں میں لپیٹنے کا یہی شاخسانہ نکلنا تھا ۔ مظفر علی سید کا کہنا ہے کہ اس کہانی میں عشق پر روایتی معاشرے کا جبر پوری شدت سے محسوس کرایا گیا ہے ۔ اور میرا کہنا ہے ‘ ہونہہ عشق؟ مگر کون سا عشق؟؟؟ وہ جو غفوراں نے کیا تھا یا وہ جو صغری نے کیا ؟ ۔۔۔اب رہی بات’’ روایتی معاشرے‘‘ اور اس کے ’’جبر‘‘کی‘ تو صاحب اس ضمن میں بھی مجھے مظفر علی سید کی بات تو بڑی اچٹی ہوئی لگی ہے۔ کیسے؟؟۔۔۔ پہلے افسانے کی جزیات پر بات ہولے تو اس پر بھی آؤں گااور جو توفیق ہوئی ضرور کہوں گا۔
’’شجر بے سایہ ‘‘ اس حویلی کی کہانی ہے جو گاؤں سے قصبے کو جانے والی کچی سڑک پرواقع تھی اور جسے کتوں والی حویلی کہا جاتا تھا۔ اس لئے کہ اس میں دو خونخوار قسم کے بولی کتے(بل ڈاگ) اور دو مرد گامو اور وریامو رہتے تھے ۔ کتوں کے نام بھی لوگوں نے مالکوں کے نام پر رکھ دیئے تھے ۔ دونوں بھائی نہایت اجڈ اور ظالم سمجھے جاتے کہ انہوں نے اپنی سگی بہن کو قتل کر دیا تھا اور گاؤں والوں سے ہر قسم کا تعلق توڑ کر اور گاؤں کی سکونت ترک کر کے یہاں سب سے الگ اس حویلی میں رہنے لگے۔ دیہی معاشرے میں یوں الگ تھلگ ہونے کی ایک اور وجہ بھی افسانے میں موجود ہے‘ لگتا ہے مظفر علی سید کا دھیان اس طرف گیا ہی نہیں ۔یہ سطر پڑھئے ‘حویلی کے مکین خود بخود کٹ کر گاؤں والوں سے الگ ہو جائیں گے:
’’گاؤں کے بڑے بوڑھوں کا کہنا ہے کہ یہ خاندان پرانے زمانے کے کسی غیر ملکی حملہ آور قبیلے سے تعلق رکھتا ہے ‘‘
لیجئے صاحب وہ جو مظفر علی سید نے اوپر ’’روایتی معاشرے والے جبر‘‘ کا مصرعہ اٹھایا تھا وہ تو یہاں تک آتے آتے کلی طور پر ناموزوں ہو گیا ہے ۔ ہاں تو جب یہ طے ہو گیا کہ یہ دیہات سے الگ تھلگ واقع حویلی کی کہانی ہے اور ایسے مردوں کی‘ جو کتوں کی طرح خونخوار ‘ ظالم تھے‘ گاؤں میں ان کی کوئی برادری نہ تھی جس کے ناطے سے وہ اس روایتی معاشرے کے نمائندہ کردار کہے جا سکتے تو سوچا جانا چاہیئے کہ مظفر علی سید نے اوپر والا فتوی کیوں لگایا ؟ اجی کہہ لیجئے سہولت کی خاطر۔۔۔ مگروہ جو پنجابی میں کہتے ہیں کَہلی اَگے ٹوئے‘ تو ہوا یوں ہے کہ اس جلدی اور سہولت میں انہہیں آگے کا گڑھا نظر ہی نہیں آیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ منشایاد نے ان کرداروں کو نفسیاتی عارضے میں مبتلا اس محدودطبقے کا نمائندہ بنادیا ہے جو معاشرتی اقداری وجود کی روشن پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ ہیں۔ مظفر علی سید کے اٹھائے ہوئے جھیڑے میں‘ میں بھول ہی گیا کہ بات منشایاد کے افسانوں کی عورتوں کی کرنا تھی ۔۔۔ تو یوں ہے کہ اس کہانی میں چار عورتیں ہیں۔ اور بتاتا چلوں کہ چاروں کا مطالعہ افسانہ نگار نے نہایت چابک دستی سے کیا ہے۔ دونوں ظالم بھائیوں نے اپنی بہن غفوراں کو قتل کر دیا تھا۔ جس حویلی میں وہ رہتے تھے وہ کسی زمانے میں مویشیوں کا باڑا تھی۔ وہاں کبھی ایک کنواں بھی ہوا کرتا تھا جس کے بارے میں لوگوں کا ایک گمان یہ بھی تھا کہ غفوراں کو قتل کرکے اس میں پھینک دیا گیا اور بعد میں اسے پاٹ دیا گیا ۔ اصل بات کوئی نہ جانتا تھا کہ غفوراں رو پوش ہوئی یا قتل کی گئی‘ کنوئیں ڈالی گئی ‘نہریادریامیں بہائی یا کسی کھیت میں دبا دی گئی ۔ افسانہ نگار نے بہت سے گمان باندھے ‘ اور یہ ثابت کیا کہ گامو اور وریامو اتنے شقی القلب تھے کہ بہن کو کھا گئے مگر منہ سے کچھ نہ پھوٹے ۔سارے گاؤں کو غفوراں کی روح کسی نہ کسی موقعے پر نظر آجاتی تھی مگر ان شیطانوں کے قریب بھی نہ پھٹکتی تھی ۔ یہ سب کچھ بتانے کے باوصف جس طرح اس کردار کو بنایا سنوارا گیا ہے وہ اپنی جگہ بہت اہم اور دلچسپ ہو جاتا ہے ۔ پڑھنے والا ہردم موت کی سرسراہٹ سنتا رہتا ہے :
’’وہ گھر میں رہتی تھی مگر گھر کا کوئی فرد اس سے بات نہ کرتا تھا اس نے ماں سے کئی مرتبہ بات کرنے کی کوشش کی تھی مگر ماں جواب نہیں دیتی تھی۔ سوائے ننھی صغریٰ کی ہوں ہاں کے وہ بات کرنے کو ترس گئی تھی۔ ایک رات اس نے ماں کے پاؤں پکڑ لئے اور روتے ہوئے کہنے لگی۔
’’ماں مجھے مار، مجھ پر تھوک، مجھے گالیاں اور طعنے دے خدا کے لیے کچھ تو کہہ‘‘
’’میں تیری ماں نہیں ہوں تو کسی کتیا کی اولاد ہے‘‘
ماں نے گالی دی تو نا امیدی کے اندھیرے میں امید کا چمکتا ہوا جگنو دکھائی دیا۔۔۔ مگر دوسرے ہی لمحے ماں نے ایک ایسی بات کہہ دی جسے سن کر وہ سناٹے میں آ گئی۔
’’تو اس گھر میں مہمان ہے پتہ نہیں کتنے دن‘ کتنی گھڑیاں۔‘‘
’’نہیں ماں۔۔۔ خدا کے لیے ایسا نہ کہو۔‘‘
’’اپنی ناپاک زبان سے خدا رسول کا نام مت لے‘‘
’’میں تیرے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں‘‘
’’کچھ فائدہ نہیں‘‘
’’تو کیا سچ مچ ماں؟‘‘
’’ہاں‘‘
’’کب؟‘‘
’’یہ مجھے نہیں پتہ۔‘‘
مارے خوف کے اس کا حلق خشک ہو گیا‘ ہاتھ پاؤں کانپنے لگے۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔‘‘
گامو‘ وریامو اور ان کی ماں پر’’ روایتی معاشرے‘‘ نے کوئی اثر نہیں ڈالا تھا ۔ بیٹے شیطان تھے تو ان کی بوڑھی ماں چڑیل۔ یہ بات سارا گاؤں جانتا تھا مگر‘ حیرت ہے مظفر علی سید کا دھیان ادھر نہیں گیا: گاؤں کے لوگوں نے اس خاتون کی اپنے اپنے ذہنوں میں کیا تصویر بنا رکھی تھی اس کے لیے کہانی کی طرف رجوع کرتے ہیں :
’’وہ اپنی بیٹی کی حفاظت نہ کر سکی تھی اورماں ہو کر اسے بدسلوکی سے تنگ آ کر بھاگ جانے پر مجبور کر دیا تھا۔ پھر اس کے عیبوں پر پردہ ڈالنے کی بجائے قتل ہو جانے دیا تھا۔ وہ گاؤں میں بہت کم آتی تھی مگر جب بھی آتی ،جدھر سے گزرتی سہاگنیں‘ حاملہ عورتیں اور نوجوان لڑکیاں اس کے سائے سے بچنے کے لئے راستہ بدل لیتیں۔ ان کا خیال تھا وہ جسے چھو لے گی یا جس سے بات کرے گی اس کی کوکھ کبھی ہری نہ ہو گی یا گود خالی ہو جائے گی۔ اس کے بارے میں مشہور ہو گیا تھا کہ وہ جس درخت کے نیچے بیٹھ جاتی تھی وہ بے سایہ ہو جاتا تھا۔ گاؤں میں جب بھی کوئی غیر معمولی واقعہ یا حادثہ رونما ہوتا بوڑھی سکینہ اور اس کے خاندان کو اس میں ضرور ملوث کر لیا جاتا۔ بڑی بوڑھیوں نے تو گامو کے ہاں نرینہ اولاد نہ ہونے کو بھی غفوراں کی روح کا انتقام ہی سمجھا تھا اور جب وریامو کا نوعمر بیٹا سانپ کے ڈسنے سے مر گیا تو اسے بھی اسی انتقامی کارروائی کا حصہ سمجھا گیا جو غفوراں اپنے گھر والوں سے لے رہی تھی۔‘‘
اب ذرا کہانی کے آغاز کی طرف چلتا ہوں کہ مظفر علی سید نے اپنی ہی دھن میں جو کہہ دیا تھااس نے میرا کام خاصا کٹھن کر دیا ہے ۔ افسانہ نگار نے اس افسانے کو یوں شروع کیا ہے:
’’ سہ پہر کا وقت تھا جب نمبردار کی بیوی ست بھرائی اسے اپنے ساتھ لے کر اس کے گھر پہنچانے نکلی۔‘‘
یہ کہانی ست بھرائی کی نہیں ہے ‘ غفوراں کی ہے ‘ میلے میں لٹ جانے اور خالی ہاتھ واپس آنے والے بچے کی طرح آنکھیں جھکائے کھوئی کھوئی پیچھے پیچھے چلی آنے والی غفواں کی ۔ اسے ست بھرائی بار بار تسلیاں دیتی ہے مگر وہ سوکھے پتے کی طرح لرزتی ہے کہ اس سے جو غلط فیصلہ ہوگیا تھا اس نے اسے اندر سے منہدم کر دیا ہے ۔ شاید یہی وہ غلط فیصلہ ہے جسے وہ عشق سمجھ لیا گیا ہے جس کے برتے پر رشتوں سے احترام پاتے معاشرت پر روایتی جبر کی پھبتی کس دی گئی ہے ۔ کہانی بہر صورت عشق کی نہیں بلکہ معاشرے سے کٹے ہوئے ان کرداروں کی ہے جو نفسیاتی کجی کے ابتلا میں ہیں ۔ اسی نفسیاتی کجی میں مبتلا ماں کا رویہ آپ ملاحظہ فرما چکے اب ذہن میں یہ نقشہ بھی جما لیجئے کہ ست بھرائی غفواں کو چھوڑ کر جا چکی یوں کہ کسی نے غفوراں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا تھا۔ ماں صحن میں چارپائی پر بیٹھی چاول صاف کر رہی تھی وہ اسی طرح چپ چاپ چاول صاف کرتی رہی۔ چھوٹا بھائی لکڑیاں چیر رہا تھا وہ بدستور لکڑیاں چیرتا رہا‘ بڑا بھائی صحن کے ایک کونے میں چارپائی کی ادوائن ٹھیک کر رہا تھا وہ بھی اپنے کام میں لگا رہا۔ صرف بھابی نے اس پر ایک نظر ڈالی تھی مگر وہ بھی یوں کہ جیسے گھر میں گھس آنے والے پلے پر ڈالی جاتی ہے ۔اب آگے کی کہانی منشایاد ہی کے لفظوں میں:
’’وہ سیدھی پسار میں چلی گئی تھی اور دروازے کے ساتھ لگ کر ایسی جگہ بیٹھ گئی تھی جہاں سے سب کی حرکات و سکنات نظر آ سکیں وہ سب کچھ دیکھتے اور سنتے رہنا چاہتی تھی اسے ڈر تھا کہ لکڑیاں چیرتا ہوا بھائی کلہاڑا لے کر اس کی طرف بڑھے گا اور اسے سوکھی لکڑی کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔۔۔۔ اس کا دل بیٹھنے لگا اسے لگ رہا تھا۔۔۔کہ وہ اندر آ جائیں گے اور وہ ان سے اپنی زندگی کی بھیک بھی نہیں مانگ سکے گی۔ کچھ مانگنے اور بخشوانے کے لئے الفاظ ضروری تھے اور اس کے پاس پچھتاوے کے آنسوؤں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ مگر جب۔۔۔‘‘
اس اقتباس میں غفوراں کے ’’پچھتاوے کے آنسوؤں ‘‘نے عشق کی حقیقت کھول دی ہے یوں کہ کہانی کا اصل تنازع بھی کھل کر سامنے آگیا ہے ۔اب تک کہانی کی چار عورتیں سامنے آچکی ہیں
۱۔ دو ظالم بھائیوں کی بہن سہمی ہوئی غفوراں جسے اپنی غلطی کا اعتراف ہے ‘ جو اپنے کئے پر نادم ہے مگر جانتی ہے کہ اس کے ظالم بھائی اسے قتل کر دیں گے۔
۲۔ ڈائن جیسی ماں سکینہ ‘ جو بیٹی کی غلطی معاف کرنا جانتی ہی نہیں ۔ جس کے سینے میں شاید دل ہی نہیں ہے کہ دل ہوتا تو اس میں ممتا کا روایتی جذبہ بھی ہوتا ہے ۔
۳۔نمبردار کی ریاکار بیوی ست بھرائی‘ جو اپنا فرض اداکرکے اور جتا کر جا چکیہے۔
۴۔ گامو کی بیوی رابعہ یعنی غفوراں کی بھابی ‘ وہی جس نے اوپر والے اقتباس میں غفوراں پر یوں نظر ڈالی تھی جیسے کتیا کے پلے پر ڈالی جاتی ہے۔
تو صاحب کہانی کی ان چار عورتوں سے ست بھرائی کو یوں منہا کرلیا گیا ہے کہ اس کے بعد وہ کہانی میں پلٹ کر نہیں آئے گی۔ غفواں مار دی گئی یا غائب ہو گئی یوں کہ اس کا نام نشان تک نہ ملتا تھاتاہم وہ کہانی میں آخر تک موجود رہتی ہے ۔ باقی ایک ماں رہتی ہے اور ایک بھابی۔۔۔ نہیں صاحب نہیں‘ میں بہک گیا ہوں ۔ جب غفوراں ہی نہ رہی تو رابعہ کس کی بھابی ہوئی ؟ تو یوں ہے کہ بھابی کا کردار بھی تمام ہوا ۔ تو پھر رابعہ کی حیثیت باقی بچ جانے والی کہانی میں کیا رہ جاتی ہے ؟ ایک سوال ہے ۔۔۔ آپ کہہ سکتے ہیں ایک بیوی یا ایک بہو ۔ مگرصاحب کہانی کے متن میں ایک بیوی یا بہو کے طور پر اسے فعال نہیں دکھایا گیا ہے۔ تو پھر ایک عورت؟۔۔۔ محض ایک عورت ؟؟؟۔۔۔ یہ عورت والی بات بھی خوب پوچھی آپ نے ۔۔۔کہیئے ‘ وہ جو سکینہ ہے ‘ ڈائن سکینہ ۔۔۔ کیا وہ عورت نہیں تھی ۔ اور وہ جو غفوراں تھی ‘ سہمی ہوئی ‘ جس کی خطا معاف نہ کی گئی اور وہ غائب کر دی گئی‘ وہ بھی تو عورت تھی ۔ صرف ایک عورت ہونا یا مرد ہونا ایک تہذیبی معاشرے میں لایعنی سی بات لگتی ہے ۔ اس کا وجود رشتوں ہی سے معتبر ہوتا ہے ۔ سکینہ ڈائن نہ ہوتی ماں ہوتی تو اس کا دل تب ممتا کے جذبے سے بھر ہی جانا چاہیئے تھا‘ جب اس کے گربھ استھان سے جنم لینے اور اس کی چھاتی کا دودھ پینے والی اس کی اپنی بیٹی اس کی پائنتی پر بیٹھی زار و قطار روتی رہی تھی مگر وہ تو ضد کی پکی نکلی تھی‘ اس کا دل پگھل ہی نہیں رہا تھا۔
۔۔۔ اوہ صاحب‘ ایک لمحہ کو ٹھہرئیے کہ مجھے اپنی غلطی کی دست بستہ معافی طلب کرنا ہے ۔ یہ جو میں اوپر چار عورتوں کی گنتی کر آیا ہوں تو یوں ہے کہ افسانے کے اقتباس میں منشایاد نے پانچ عورتوں کی جانب اشارے کئے تھے میں رابعہ کی گودوالی ننھی صغریٰ کو بھول ہی گیا تھا۔ بھول چوک معاف صاحب کہ باقی کہانی تو اسی صغریٰ کی ہے جو جوان ہوکر وہی غلطی کرتی ہے جو غفوراں نے کی تھی اور اپنی جان گنواں بیٹھی تھی۔۔۔۔ہاں تویہ سچ ہے کہ اس بچی کے حوالے سے رابعہ ماں بھی ہے۔ کہانی کے آخر میں ایک نہیں دو مائیں ہو جاتی ہیں اور ایک باپ کو بھی ہم صاف صاف دیکھ سکتے ہیں ۔۔۔ میرا تاولا پن دیکھئے کہ ایک ہی سانس میں وہ بات کہہ دی جو دم لے کر ‘ اور کہانی کے کچھ اور حصوں کی طرف آپ کی توجہ حاصل کرکے کہنی تھی۔
کہانی کے آخری حصے تک پہنچنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ایک تہذیبی معاشرے میں میل جول رویوں کو کتنا بدل دیتا ہے ۔ بہت سا وقت گزر چکا ہے۔ صغریٰ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ لیے ہیں اور اس کے حسن کی دھوم آس پاس کے دیہاتوں میں خوب مچی ہوئی ہے۔ وریامو اور گامو کا ایک دوسرے سے جھگڑا ہو گیا ہے اور وہ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں اور ایک دوسرے سے بات تک کرنے کے روادار نہیں ۔ گامو کو نرینہ اولاد نہ ہونے کے صدمے نے وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا ہے۔ سکینہ بوڑھی اور کمزور ہو گئی ہے اور اگرچہ وہ وریامو کے پاس رہتی ہے مگر وہ ماں سے زیادہ صغریٰ کا خیال رکھتی ہے۔ ان کے بولی کتے مر کھپ گئے ہیں ایک بیمار پڑ گیا تھا دوسرے کو کسی نے زہر دے دیا۔ کتے اب بھی حویلی کی رکھوالے کرتے ہیں مگر وہ بھونک کر چپ ہو جانے یا تھوڑی دور تک پیچھا کر کے ہانپ جانے والے عام سے کتے ہیں۔ ان لوگوں کے گاؤں والوں سے تعلقات بھی بہتر ہو رہے ہیں اور وہ شادی غمی کے موقعوں پر گاؤں میں آنے جانے لگے ہیں۔ صغریٰ اکیلی کہیں نہیں جاتی مگر ماں یا دادی کے ہمراہ کبھی کبھار گاؤں چلی جاتی ہے۔ یہی وہ زمانہ ہوتا ہے کہ ایک رات وہ اپنے بستر میں نہیں ہوتی اور اس کا باپ گامو بپھر کر کہتا ہے کہ اب وہ اس کتیا کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔ رابعہ روتے روتے اپنی ساس سے لپٹ گئی‘ عورت‘ عورت کے لیے عورت کی مدد چاہتی ہے ۔
’’اب کیا ہو گا ماسی؟‘‘
مگر اس کی ساس عورت کہاں ہے ‘ عورت ہوتی تو ایک عورت پر بیتنے والے دکھ کو محسوس کرتی ‘ بغیر توقف کے جھٹ کہتی ہے:
’’وہی جو اس گھر میں ہوتا چلا آیا ہے۔‘‘
’’نہیں ماسی۔ خدا کے لئے ایسا نہ کہو۔۔۔ میری ایک ہی بیٹی ہے۔‘‘
’’میرے کہنے نہ کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے میری اس گھر میں کون سنتا ہے۔‘‘
یہ ایک ماں کا تڑپنا ہے جو اپنی ساس سے مسلسل کہہ رہی ہے کہ وہ اس کے پیچھے جائے کہ کہیں اس کا باپ اسے مار ہی نہ ڈالے۔ مگر وہ شقی القلب بات الٹا کر کہتی ہے کہ نہیں وہ نہیں جا سکتی کہ یہ غیرت کا معاملہ ہے اور یسے معاملے میں وہ اس کی بھی نہ سنے گا۔آگے کی کہانی ہو بہو نقل کرتا ہوں :
’’ وہ اسے ساتھ لئے آ پہنچا تھا۔ اس کی ناک سے خون بہہ رہا تھا اس کے بال الجھے ہوئے تھے معلوم ہوتا تھا اسے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا ہے وہ ڈری اور سہمی ہوئی تھی۔
حویلی کا صدر دروازہ بند کر کے گامو اس کے قریب آیا اور اسے لاتوں اور مکوں سے پیٹنے لگا وہ زمین پر گر گئی تو وہ دھاڑا۔
’’ٹوکا کہاں ہے میں اس کے ٹکڑے کر دوں گا۔‘‘
صغریٰ ماں کے پاؤں پڑ گئی۔
’’مجھے بچالو ماں ۔ابامجھے مارڈالے گا‘‘
’’ٹوکا تمہارے پاس پڑا ہے گامو۔‘‘ سکینہ نے جذبات سے عاری لہجے میں کہا۔
رابعہ نے غصے اور نفرت سے اور صغریٰ نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ گامو ٹوکا اٹھانے کے لیے مڑا تو رابعہ نے اسے روک دیا اور بولی۔
’’ہوش کرو غصے میں تم پاگل ہو جاتے ہو۔‘‘
پھر اس نے ٹوکا پکڑ کر دور اندھیرے میں پھینک دیا اور زمین پر گری ہوئی صغریٰ کو سہارا دے کر اندر لے گئی۔
سکینہ اپنے کتے کی طرح چیرپھاڑ کر رکھ دینے والے اپنے بیٹے کو بے بس ہوتے دیکھ رہی تھی اسے اس پر طیش آرہا تھا‘اس پر برستے ہوئے کہا:
’’گامویا تو تم بوڑھے اور کمزور ہو گئے ہو یا بے غیرت‘‘
بوڑھا تو ہر ایک کو ہونا ہوتا ہے ‘ خود سکینہ بھی بوڑھی تھی مگر اس میں زہر ویسے کا ویسا تھا ۔ گامو کی بے بسی اور پھر نادم سا ہو کر اندر چلا جانا اس کی بے غیرتی کو بھی ظاہر نہیں کرتا ۔ افسانہ نگار نے یہ بات اگلے سطروں میں بتا دی ہے اور وہ کچھ یوں ہے :
’’جب وہ اپنے اپنے بستروں میں لیٹ گئے تو انہیں چبوترے کی طرف سے بلند آواز میں بین کرنے کی آواز سنائی دی۔
’’کرماں مارئیے غفورو۔۔۔ اس رات تیرا باپ بھی زندہ ہوتا تو تیری فریاد سن لیتا‘‘
پھر اس کے دو ہتڑوں سے چھاتی پیٹنے کی آوازیں آنے لگیں جیسے غفوراں ابھی ابھی قتل ہوئی ہو۔‘‘
ہاں کہہ لیجئے ایک ماں کے لیے غفوراں عین اس وقت ہی قتل ہوئی ‘ عین اس وقت جب سکینہ کے اند ر ایک ماں نے کروٹ لی تھی اور اس کا دل ممتا کے جذبوں سے بھر گیا تھا ۔ صاحبو یہی تو وہ بات ہے جو افسانہ نگار بتانا چاہتا ہے ۔ عشق ‘ روایتی معاشرہ ‘ جبر ‘ غیرت اور قتل سب کچھ پیچھے رہ جاتا ہے اور رشتے جیت جاتے ہیں ۔ ایک تہذیبی معاشرے میں یہی تو وہ رشتے ہیں جو افسانہ نگار کے ہاں بہت اہم ہو جاتے ہیں ‘ یہی انسان کی پناہ گاہ ہیں اور انسانیت کی بقا بھی۔
عورت کے مختلف روپ منشا کی کہانیوں میں آئے چلے جاتے ہیں ۔ انہیں پڑھتے ہوئے اور پوری کہانی کے اندررکھ کر انہیں محسوس کرتے ہوئے کہیں بھی بدن میں سنسنی نہیں دوڑتی ‘ وہاں بھی جہاں وہ اپنے پورے بدن کے ساتھ آتی ہے ۔ یہ ’’پانی میں گھرا ہوا پانی ‘‘کی عورت ہو یا ’’بند مٹھی میں جگنو‘‘ ’’جیکو پچھے ‘‘‘،’’ ببول سے لپٹی بیل’‘،’ ’سارنگی‘‘ ’’ نظر آلباس مجاز میں‘‘’’ ساجھے کا کھیت ‘‘ ’’الف جمع ب کا مربع‘‘ اور ’’جھڑبیری‘‘ والی عورتیں کہیں بھی مردوں کے اندر لذت کے ابال کو بڑھانے اور عورت کی توقیر داؤ پر لگا کر انہیں مردوں کے لیے مرغوب نہیں بناتیں ۔ انتہائی خلوص سے اپنے سماجی تناظر میں عورتوں کے یہ کردار تخلیقی اور جمالیاتی سطح پر بہت کچھ سجھاتے ہیں ۔
اور اب موضوع کی مناسبت سے منشایاد کے دو افسانوں اور حسن عسکری کی ایک بات کا ذکر کہ یہ تینوں ایک ساتھ ذہن میں ککلی کھیلنے لگے ہیں۔ تاہم اپنی سہولت کے لیے حسن عسکری کی بات کو کچھ دیر کے لیے ملتوی کر رہا ہوں ۔ منشایاد کے جن افسانوں کی جانب میں‘ اب آپ کو لے چلا ہوں‘ ان کا ذکر یوں ضروری ہو گیا ہے کہ اوپر جن افسانوں کی بات آئی تھی ان میں وہ خاص تعلق جو خاندانی رشتوں کے مترداف ہوجاتا ہے یاپھر خودسگے رشتے ‘کسی نہ کسی صورت میں موجود تھے۔ کہیں کہیں ان دونوں صورتوں سے الگ ہو کر صورت احوال کی تفہیم بھی ملتی ہے مگر ان دو افسانوں میں انتہائی مضبوط اور انتہائی کمزور رشتے کے ساتھ ساتھ تھوڑی سی بے وفائی ‘ تھوڑی سی بے ایمانی ‘تھوڑا سا بہکاوا اور بے پناہ پچھتاوااور خوف در آیا ہے ۔ پھر یوں بھی ہے کہ اپنی تیکنیک اور ٹریٹمنٹ کے اعتبار سے بھی یہ دونوں افسانے منشایاد کی اہم ترین تخلیقات میں سے گردانے جاتے ہیں ۔ دونوں میں محبت کے انتہائی نازک معاملات کمال فنی مہارت سے نبھائے گئے ہیں ۔ میں مانتا ہوں کہ یہ محض عورت کی کہانیاں نہیں ہیں مگر انہیں پڑھتے ہوئے دونوں افسانوں کے نسوانی کرداروں کے دلوں کو دھڑکتا ہوا صاف محسوس کیا جا سکتا ہے ‘ یوں کہ آخر تک پہنچتے ہوئے پڑھنے والے کا دل بھی زور زور سے دھڑکنے لگتا ہے ‘ اور بھی اتنے زور سے کہ دوسرے ہی لمحے دھڑکنیں اچھل کر سینے سے باہر جا پڑ نے کا گمان ہوتا ہے ۔ اوہ صاحب ‘ میں افسانوں کی نشان دہی کئے بغیر بے تکان بولے چلا جاتا ہوں ۔ یہ نسیان نہیں ہے صاحب‘ سب عجلت کی کارستانی ہے ‘ ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ ڈالنے کی للک ۔ لیجئے ‘ دونوں کے نام ایک ساتھ لکھ رہا ہوں ’’ تیرہواں کھمبا‘‘ اور ’’ سزا اور بڑھا دی‘‘ ۔ ان دونوں کہانیوں کوصرف عورتوں کی کہانیاں نہیں کہا جاسکتا ہے مگر انہیں بار بار پڑھتے ہوئے میں نے خود کو ہر بار کہانی کی عورتوں کے قریب پایا ہے ۔ ان کہانیوں کاذکر بطور خاص اس لیے بھی لے آیا ہوں کہ ان میں بظاہر محبت کی روایتی مثلث بنتی ہے مگر ان کی بنت ہر گز روایتی نہیں ہے ۔ دونوں میں ایک ایک عورت اور ایک ایک شوہر ہے اور تیسرا وہ شخص ہے جو کوئی رشتہ نہ رکھتے ہوئے بھی نسوانی کرداروں کے دلوں میں بھونچال بر پا کر سکتا تھا اور یہ بھونچال اٹھا گیا ہے ۔ ’’ تیرہواں کھمبا ‘‘ ریل کار میں سوار نو بیاہتا جوڑے کی کہانی ہے۔ اور یہ کہانی گارڈ کے وسل دیتے ہی چستی اور سرعت سے آگے بڑھتی ہے ‘ غیر ضروری تفصیلات اور فالتو پن کو لائق اعتنا نہ جانتے ہوئے ۔ بالکل اسی طرح جیسے راہ میں آتے ہوئے چھوٹے چھوٹے اسٹیشن زن کر کے پیجھے رہ رہے تھے ۔ یہ کہانی صرف اس نوبیاہتا جوڑے کی نہیں ہے اس میں ایک تیسرا کردار بھی موجود ہے ‘ بلکہ مجھے یوں کہنا چاہیئے کہ وہ تو پہلے سے موجود تھا‘ گاڑی میں۔۔۔ اور انجی کی زندگی میں۔۔۔ مگر ریل کار میں اسے اپنے شوہر کے ساتھ اپنے سامنے والی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے دیکھ کر اسے یوں لگا تھا جیسے وہ ریل کار کی سیٹ پر نہیں ‘ ریل کی پٹڑی پر اوندے منھ پڑا تھا۔عین اسی لمحے مشرقی تہذیب کا حسن کہانی پر پھوار کی صورت برس پڑتا ہے ۔ محبت جودلوں کے اندر خوشبو کی طرح بسی ہوئی تھی سطر سطر سے آشکار ہونے لگتی ہے مگر انجی تو شوہر کے ساتھ ہے ۔ ایک نئی زندگی کا آغاز کر چکی ہے ۔اب جو ماضی تھا وہ اس کے ساتھ نہیں رہ سکتی تھی ۔ وہ محبت جو اسے ہو گئی تھی اسے اس نے ایک ایسی محبت سے پچھاڑنا تھا جو اب وہ سیکھ رہی تھی ۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں انتہائی پرخلوص تھی ۔ سامنے مرد تھا ‘ پہلی محبت مگر غیر اور اجنبی ہو جانے والا مرد ‘ اپنی ران چیر کر کباب پیش کرنے والا مرد:
’’ چناب آگیا انجی‘‘ اس کے شوہر نے کہا۔ ’’اور چائے بھی‘ چکن سلائس اور شامی کباب۔‘‘
’’اونہہ یہ کیسی باس ہے ‘میں نہیں کھاتی ۔‘‘
’’بھئی مچھلی کے کباب ہیں ‘آج گوشت کا ناغہ ہے نا۔‘‘
’’ بڑی خراب سی بو ہے ‘شاید باسی مچھلی کے ہیں ‘‘
اس کی ران میں درد ہونے لگا۔ اس کا جی چاہا چیری ہوئی ران سے ساری پٹیاں اتار کر اسے دکھائے اور کہے:
’’ طوفان کی وجہ سے مجھے آج کوئی مچھلی نہ ملی اور میں نے اپنی ران چیر کر تمہارے لیے کباب تلے ‘مگر تمہیں بو آتی ہے ‘تم اسے باسی کہتی ہو۔‘‘
یہ اپنی ران چیرنے کی بات انجی کے شوہر نے نہیں کہی تھی یہ تو اس کے دل میں گونجی تھی جس سے اس کا کوئی رشتہ نہیں تھا۔ یا پھر شایداس مہینوال نے کہی تھی جس نے کچے گھڑے پر چناب کے پانیوں پر ٹھل جانے والی سوہنی کے لیے اپنی ران کی مچھلیاں چیر ڈالی تھیں ۔ مگر وہاں کوئی سوہنی تھی نہ مہینوال ‘ چناب کی لہریں تھیں نہ کچا گھڑا‘ بظاہر کسی نے ران چیری تھی اورنہ ہی کسی کا کلیجا حلقوم تک اچھلا تھا۔مگر اندر ہی اندر سوہنی مہینوال کا کہانی کے سارے مناظر اپنے بھید کھول رہے تھے ۔
جب انجی کا شوہر کسی اسٹیشن پر کچھ لینے اترا تو یہ وہ مرحلہ تھا جس پر وہ دونوں بہک کر ماضی میں کود سکتے تھے ‘ ایک دوسرے سے گلے شکوے کر سکتے تھے اور اس کا احتمال تو بہت زیادہ تھا کہ خود افسانہ نگار بہک جاتا اور سوچ سوچ کر رقت آمیز مکالمے لکھ تا اور اپنے قاری کو رقیق القلب بنا ڈالتا یوں ممکن ہے نرم دل والوں کے قوائے حیوانی پر خوب خوب چوٹ پڑتی اور ان رونی صورتوں سے اسے خوب داد بھی ملتی ۔ اگر ایسا ہوتا تو یقین جانئے یہ سستی قسم کی داد تو اس کے حصے میں آجاتی مگر یہ جو اب تک کہانی کا چست بہاؤ بنا ہے ‘اس کا ناس مارا جاتا ۔ منشایاد کو ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا اور لطف یہ ہے کہ اس نے ایسا کیا بھی نہیں ۔ ایک طرف تو اس نے اپنے موضوع اور کہانی کے فطری بہاؤ میں رخنے ڈالے سے اجتناب برتا اور دوسری طرف اس نے مشرقی تہذیب کے اس وصف خاص کو بھی اجاگر کر دیا جس میں شادی کے بعد اپنے مرد سے وفاداری سب سے مقدم ٹھہرتی ہے :
’’ اس کا شوہر آیا تو وہ الجھ پڑی ۔’’ اتنی دیر لگادی آپ نے ؟‘‘
’’اوہ انجی۔۔۔تم تو بچوں کی طرح پریشان ہو جاتی ہو ؟‘‘
وہ بچوں کی طرح پریشان نہیں وہ تو اپنے آپ سے اس سارے عرصے میں جنگ کرتی رہی تھی ۔ شوہر کو دیکھتے ہی اس کے اندر تانت بھرنے والے تناؤ کو پرے پھینک دینے کا لمحہ آیا تو اس کے ایک معصوم بچی کی طرح مچل کر بدن ڈھیلا چھوڑ دیا تھا ۔ مگر جس دھیان کو اس نے باہر دھکیلا تھا اور دھم سے پھر اس کے اندر کود گیا تھا ۔ افسانہ اپنی آخری سطروں میں عورت کا دل چیر کر دکھا دیتا ہے :
’’ ریل کار پوری تیزی سے اندھیرے کے عفریت کو کچلتی اور سیٹیاں بجاتی بڑھتی چلی جارہی تھی ۔ ڈبے میں شور اب بہت کم تھا۔ ہر شخص ہر بات سے اکتا کر اونگھ رہا تھا یا پھر تھکے تھکے لہجے میں ہمراہیوں سے باتیں کر رہا تھا۔ اچانک ریل کار ایک دھچکے کے ساتھ رک گئی‘ لوگ ایک دوسرے پر گر پڑے۔
’’ کیا ہوا؟‘‘
’’ سگنل نہیں ملا ہوگا؟‘‘
’’ کوئی نیچے تو نہیں آگیا؟؟؟‘‘
کسی کے نیچے آنے کی بات سن کر وہ لرز گئی۔ اس کا رنگ فق ہو گیا اور منہ سے بے ساختہ چیخ نکل گئی۔
’’ ہائے میں مر گئی۔۔۔ اس نے خود کشی کرلی۔‘‘
’’کس نے خود کشی کر لی ‘ اور تمہیں کیا ہوا ہے انجی‘‘
وہ تھر تھر کانپ رہی تھی ‘ دروازے کی طرف اشارہ کرکے اور سسک کر رہ گئی ۔ اس کے شوہر نے پلٹ کر دیکھا وہ دروازے میں کھڑا سگریٹ پی رہا تھااور ہوا کے جھونکوں سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا۔‘‘
منشایاد نے مرد اور عورت کی نفسیات کو جس خوبی سے آخری سطروں میں برتا ہے وہ اپنی جگہ اہم ہو جاتا ہے ۔ ’’سزا اور بڑھا دی جائے‘‘ میں یہ دوسرا مرد یوں اشارہ کرکے دکھایا نہیں جا سکتا ۔ وہ کہانی میں اس تواتر سے آیا ہی نہیں ہے تاہم واقعہ یہ ہے اس کہانی کا دوسرا مرد بہت سی حدیں پھلانگ چکا ہے ۔ ’’تیرہواں کھمبا‘‘ میں جوڑا نو بیاہتا تھا جب اس کہانی میں میاں بیوی ایک عمر گزار چکے ہیں ۔ بچے جوان ہو چکے بہوئیں آچکیں ‘ بیوی نڈھال اور شوہر موت کے بستر پر پہنچ چکا ہوتا ہے ۔
’’ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا اور صاف کہہ دیا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ چند گھنٹوں کا مہمان ہے ۔ اب یہ ان کی مرضی ہے کہ وہ اسے ہسپتال میں رکھیں یا گھر لے جائیں‘‘
ہسپتال کی ایمبولینس اسے گھر چھوڑ گئی تھی اور ساتھ ہی اس کے بدن پر وہ تکان بھی چھوڑ گئی تھی جس سے علی احمد کی حالت بہت بگڑ گئی ۔ اس کی سانسیں اکھڑ گئیں اور سرہانے کلام پاک کی تلاوت ہونے لگی۔ تب کسی لمحے میں اس کی حالت کچھ سنبھل گئی تو روتے بلکتے بیٹے بیٹیاں اور تلاوت کرنے والے آنسو پونچھنے لگے تو اس کی بیوی صباحت کے دل میں غصے اور نفرت کی لہر سی اٹھی تھی اور اس کا جی چاہنے لگا تھا کہ چلا کر کہے :
’’ اب مر بھی چکو علی احمد۔‘‘
ایک مشرقی بیوی ایسا کہہ نہیں سکتی تھی ‘ لہذا اس نے ایساکہا نہیں تھا ۔ وہ کئی روز سے ہسپتال کے چکر لگاتے لگاتے‘مہمانوں کے لیے ڈھیر سارا کھانا پکاتے پکاتے اورعلی احمد کے لیے یخنیاں اور ساگودانہ بناتے بناتے تھک گئی تھی لیکن ایسا لگتا تھا وہ مرے گا نہیں ۔ کئی بار اس کی حالت غیر ہوئی مگر ہر بار سنبھل گیا۔ دنیا داری کے تقاضے تھے‘ اور بچوں سے بھی بہت کچھ چھپانا تھا‘ لہذا اسے نہ چاہتے ہوئے بھی ہسپتال میں رکنا پڑتا تھا۔ دیکھئے صاحب افسانہ نگار کس طرح صباحت کے دل کے اندر اتر گیا ہے اور وہاں ابلی پڑتی شدید نفرت کو کتنی سفاکی سے بیان کر دیا ہے ۔ مشرق کی عورت کبھی یوں اپنے مرد کے مرنے کی خواہش نہیں کر تی مگر کچھ تھا کہ وہ اس بے پناہ نفرت میں ڈھل گیا تھا ۔ وہ کیا تھا بہت جلد کہانی میں اس کو بتانے کا موقع نکل آتا ہے ۔ اور یہ موقع تب نکلتا ہے جب علی احمد پر غنودگی کے دورے پڑتے ہیں ۔وہ بے جان سا پڑا رہتا ہے اور سب اس کی تیمارداری کرتے کرتے نڈھال ہو جاتے ہیں ‘ حتی کہ صباحت بھی حوصلہ چھوڑ بیٹھتی ہے اور سیدھا علی احمد کے سرھانے جا پہنچتی ہے ۔ سارے کمرے میں علی احمد کی اکھڑی اکھڑی سانسیں پھیلی ہوئی ہیں ۔ وہ رشتہ دار اور عزیز جو اس وقت کمرے میں موجود تھے باہر نکل جاتے ہیں اور صباحت پھٹ پڑتی ہے :’’ تم آسانی سے نہیں مرو گے علی احمد۔ بڑی ڈھیٹ چیز ہو ۔ کیا ہم سب کو مار کر مرنے کا ارادہ ہے ۔‘‘ علی احمد گلا کٹے بیل کی طرح بجھی بجھی آنکھوں سے اسے دیکھتا ہے اس میں اس بدلی ہوئی عورت کو دیکھنے کا حوصلہ نہیں ہوتا لہذا آنکھیں بند کر لیتا ہے‘ یوں کہ آنکھوں کے کنارے آنسوؤں سے بھیگ جاتے ہیں مگر عورت کے اندر سے ابلتی نفرت اسی طرح ابلتی رہتی ہے :
’’ میرے لیے تو تم پندرہ برس پہلے مر چکے تھے علی احمد۔ میری ایک چھوٹی سی بھول کی تم نے مجھے اتنی کڑی سزا دی ۔ اس سے اچھا تھا تم مجھے طلاق دے دیتے لیکن تم مجھے اذیت دینا چاہتے تھے۔ ‘‘
آگے چل کر افسانہ نگار نے صباحت سے اس کی اس چھوٹی سی بھول کا اعتراف کرایا جو پندرہ سال سے انہیں ایک دوسرے سے کا ٹے ہوئے تھا۔ صباحت ہی کے لفظوں میں :
’’ ٹھیک ہے یہ میری غلطی تھی ۔ میں نادان تھی۔ اس حرام زادے کی چکنی چپڑی باتوں کے سحر میں آگئی لیکن اس کے ذمہ دار بھی تم خود تھے ۔ تم نے اسے گھر میں کیوں رکھا۔ کیوں اس پر اعتبار کیا۔ کیوں مجھے آزمائش میں ڈالا ۔ تم نے خود ہمیں ڈھیل دی ۔ وہ میرے لیے نت نئے تحائف لاتا اور مجھے لمبی ڈرائیو پر لے جاتا مگر تمہاری پیشانی پر کبھی بل نہ آیا ۔ مجھے تو لگتا ہے تم نے جان بوجھ کر ایسا کیا کہ مجھ سے کوئی خطا سرزد ہو جائے اور تم مجھے ایکسپلایٹ کر سکو۔ اور میں باقی ماندہ زندگی تمہاری اطاعت اور قید میں گزار دوں لیکن میں نے اگر یہ طویل عذاب جھیلا تو محض بچوں کی خاطر ۔ ورنہ مجھے تمہاری صورت سے نفرت ہوگئی تھی ۔‘‘
کہانی نے اس حصے میں مردوزن کے آزادانہ اور بے باکانہ اختلاط پر شدید گرفت کی ہے اوران حدوں اور فاصلوں کو برقرار رکھنے پر اصرارکیا ہے جو مشرقی تہذیب کا حسن ہیں ۔ عورت کا اپنے آپ پر اعتماد اپنی جگہ اور اس کی نشوونما بہت اہم سہی ‘ مگر جنس کی لپک کی بھی اپنی ایک حقیقت ہے جس نے مغرب کی پر اعتماد عورت کا اپنا گھر بکھیر کر رکھ دیا اور اسے ننگا کرکے رسوا بھی کیا ہے ۔ کہانی کا کہنا ہے کہ خاندان کے انسٹی ٹیوشن کی بقا اور استحکام ہی مشرقی عورت کو دلدل میں دھکیلنے سے بچاسکتا ہے۔
صاحب ‘ ایک بار پھر محبت اور قربانیوں کے پانی سے گندھی عورت کی اس نفرت کی طرف جس نے اس کے وجود کو جہنم بنا رکھا ہے ۔ ایک عورت ایسی صورت حال میں نہیں رہ سکتی ‘ صباحت بھی نہیں رہنا چاہتی تھی مگر خود پر جبر کرکے نبھارہی تھی ۔ اس نے اپنے نہ مر چکنے والے مرد کو بتایا کہ اگر وہ چاہتی تو اسے زہر بھی دے سکتی تھی مگر اس نے ایسا بچوں کی وجہ سے نہیں کیا تھا ۔ اور اسے زہر نہ دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اگر اس کا مرد اسے بری عورت قرار دے کر تعلق توڑ سکتا تھا تو ایک عورت ہو کر اس میں بھی حوصلہ تھا کہ وہ اپنے مرد کے بغیر رہ سکے ۔سو وہ رہی اور یوں رہی جیسے اپنے گناہ کا کفارہ ادا کر رہی ہو۔
آہ ایک مشرقی عورت؟ ۔۔۔ مگر مجھے کہنے دیجئے واہ مشرقی عورت ۔ مشرقی عورت کے ساتھ ’’آہ‘‘ کی آواز مجھے عورت کی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹتی وومن ایکٹی وسٹ کی کتاب ’’بری عورت‘‘ سے نکل کر آتی سنائی دی ہے ۔جس میں سب کچھ گڈ مڈ ہو جاتا ہے جب کہ’’ واہ‘‘ اس مشرقی عورت کے لیے دل سے نکلی ہے جو عمر قید جتنے اذیت والے دکھ میں بھی اپنا گھر بچانا چاہتی ہے ۔ ایک مرد کا ستم سہہ کر سارے مردوں پر نہیں چڑھ دوڑتی ان کے بیچ تمیز کرتی ہے ۔ اس کے بیٹے بھی تو اب تک مردبن چکے ہیں جن سے اسے محبت ہے ۔ یہ وہ محبت ہے جو اپنے خالص پن کے ساتھ جس طرح ہمارے سماج میں ملتی ہے اور کہیں نہیں ملتی ۔ لہذا مغرب سے عورت کی مادر پدر آزادی کا ایجنڈا لینے والی اور ’’ بری عورت‘ بری عورت‘‘ کی پکار سے چونکانے والیاں کیا جانیں کہ اپنی اولاد کے لیے بڑے بڑے دکھ سہہ لینے کے کیا معنی بنتے ہیں ۔
ہاں ‘ تو میں بتا رہا تھا کہ منشا کی کہانی کا ظالم مرد مر نہیں رہا تھا جب کہ اس کی عورت تہیہ کئے بیٹھی تھی کہ اسے مر جانے میں مدد دے گی لہذا وہ اپنی نفرت کے زہر کا ایک ایک قطرہ اس کے بدن میں اتار رہی تھی اور ہچکیاں لیتے اپنے مرد کو بتا رہی تھی کہ اسے اس سے کبھی محبت نہیں رہی تھی ۔ اس کے بس میں ہوتا تو وہ اس سے کبھی شادی بھی نہ کرتی۔ منشایاد نے اس مرحلے پر اپنے سماج کی اس قبیح روایت پر شدید چوٹ لگائی ہے جس میں عورت سے اس کی مرضی پوچھی ہی نہیں جاتی اور اسے ایک ایسے مرد سے نبھاہ پر مجبور کیا جاتا ہے جو جس سے وہ محبت نہیں کر سکتی۔ تاہم ساتھ ہی ساتھ یہ بھی سجھا دیا ہے کہ جوانی کے جوش میں ہم جسے محبت سمجھ رہے ہوتے ہیں‘وہ فقط جنس کا زور ہوتا ہے اور ایسا منشا نے اس کردار کے ذریعے بتایا ہے جس کے ساتھ صباحت پھسل گئی تھی۔
صباحت نے پندرہ برس خود پر جبر کیا مگر اس کے مرد پر نزع کا عالم طاری ہوا تو صبر کا پیمانہ چھلک پڑا اور جب وہ ساری نفرت کا زہر اس کے جسم میں اتار چکی تو وہ کر مر گیا ۔مگر کہانی اس کے مرنے پر کہاں تمام ہوتی ہے ۔ منشایاد کے ہاں یہ وصف بطور خاص دیکھا جاسکتا ہے کہ کہانی کی ٹیل میں ایک ٹوسٹ ضرور ہوتا ہے ‘ ایک ایسا موڑ جو کہانی پر ایک نیا منظرنامہ کھول دیتا ہے ۔ اس کہانی میں یہ موڑ تب آیا جب صباحت نے اس پورٹ ایبل کیسٹ پلیئر کی طرف دھیان دیا تھا جو اس کا بیٹا یہ کہتے ہوئے دے گیا تھا :’’ابو کی آواز‘‘۔ مرنے کے بعد بھی اس کے مرد کی آواز اس کا پیچھا کر رہی تھی ۔ اس نے بوکھلا کر بیٹے کی بات کو دہرایا تھا۔ تو بیٹے نے بتایا تھا کہ اس میں اس کے لیے ایک میسج تھا ‘ریکارڈ کیا ہوا اور اس کا خیال تھا کہ جب ابو ہسپتال میں تھے ‘ آخری بار‘ تب انہوں نے کیسٹ پلیئر منگوایا تھا ‘شاید تب ہی پیغام ریکارڈ کیا گیا ہو۔ صباحت کا دل دھک سے رہ گیا ‘ پتہ نہیں اس نے کیا کہا تھا ‘ کہیں بچوں نے سن نہ لیا ہو ۔ مگر مہذب بچے نے بتایا کہ جونہی اس نے ابو کی آواز میں ماں کے نام پیغام سنا وہ کیسٹ پلیئر بند کرکے ماں کو دینے آگیا ۔ اور کہانی اسی ریکارڈ کئے گئے میسج کے ذریعے نیا بھید کھولتی ہے ۔ صباحت نے کیسٹ پلیئر آن کیا تو اس کا مرد جس سے وہ شدید نفرت کرتی آئی تھی اظہار تشکر کے الفاظ کہہ رہا تھا۔ جس طرح اس نے اس کی تیمارداری کی تھی ‘ اس کے احسان کے نیچے وہ دبا جا رہا تھا اور کہہ رہا تھا :
’’مجھے اندازہ نہیں تھا تمہیں مجھ سے اتنی محبت ہے۔ افسوس ہمارے درمیان غلط فہمیاں اور جھجک سی پیدا ہو گئی ۔ کاش میں اسے دور کر سکا ہوتا ۔ لیکن صباحت میں نے ہمیشہ تم سے محبت کی ۔ تم جب بھی آتی ہو کچھ کہنا چاہتی ہو میرارؤاں رؤاں ہمہ تن گوش رہتا ہے لیکن تم ہر بار نہیں کہہ پاتی ہو۔ تمہارے منہ سے محبت کے دو بول سننے کے لیے میری جان اٹکی ہوئی ہے ‘ورنہ میں کب کا مر چکا ہوتا۔‘‘
جسے عورت کی محبت کے بول سن کر مرنا تھا وہ اس کی ابلتی نفرت میں ڈوب کر مر گیا۔ جس نے اتنی شدید نفرت کی تھی وہ اس پر کھل کر رو بھی نہ سکی تھی مگر بعد از مرگ جوں ہی اس کا میسج تمام ہوتا ہے عورت تکئے پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر روتی ہے جیسے اس کا مرد پہلے نہیں اب مرا تھا۔ یوں ہم پندرہ برس نفرت کرنے والی عورت کے دل سے محبت کو امنڈتا دیکھ سکتے ہیں اور اس کی شدت کو بھی محسوس کر سکتے ہیں ۔
اور آخر میں مجھے عسکری کی بات کی طرف آنا ہے مگر پہلے یہ تو یاد دلا دوں کہ منٹو کو عورت کی نفسیات سمجھانے کے لیے ایک خاص قسم کی عورت کی جانب رجوع کرنا پڑا تھا یہ احمد علی کے گھر میں پڑی ہوئی عورت نہیں ہو سکتی تھی ۔ ’’امتل جان‘ ‘ ’’بالاخانہ‘‘ اور ’’رام پیاری ‘‘والے رحمان مذنب کو بھی خوشبودار عورت سے رغبت رہی ۔آغا بابر کے ہاں زیادہ تر عورت جنس کی لذت دینے آتی ہے اور حسن عسکری ۔۔۔ رکئے صاحب خود عسکری ہی کی زبان سے سن لیتے ہیں:
’’مجھے خود پتا نہیں کہ کہ یہ خالص ہندوستانی عنصر ہے کیا چیز ‘ لیکن میں اس کا وجود تسلیم کرتا ہوں اور اس کا احترام کرتا ہوں ۔ میرے افسانوں میں یہ احترام اس شکل میں ظاہر ہوا ہے کہ میرے کرداروں کے نام عیسائی ہیں ‘‘
( اختتامیہ :جزیرے)
اس کا یہ قطعا مطلب نہیں ہے کہ ہندیا مسلم کریکٹرز کو قابل اعتنا نہ جان کر عسکری ہندوستانی عورت کے شعور کو سمجھنے میں ناکام ہوا ‘نہ ہی اس سے یہ معنی برآمد ہوتے ہیں کہ اس باب میں منٹو اور دوسروں کو ناکامی ہوئی بلکہ مجھے محض یہ بتانا ہے کہ منشایا کے ہاتھ وہ تیکنیک اور سینے میں حوصلہ آگیاہے کہ وہ عام گھر کی رشتوں سے عبارت عورت کو سبک دستی سے لکھ کر تہذیبی شعور کی پرتیں کھولتا چلا جائے اورکہیں بھی اسے جھجک محسوس نہ ہو۔ اسی بے باک سلیقے نے مجھے منشایاد کی عورت کی طرف راغب کیا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ منشا بھی بیدی کی طرح جنس کی تقدیس کا قائل ہے ۔ عورت کو جنسی اور سفلی جذبات کی تظہیر کا ذریعہ نہیں سمجھتا بلکہ اسے معاشرے کی انتہائی ضروری اور اہم اکائی گردانتا ہے ۔ منشایاد نے عورت کو صرف خوش بودار اور لذیذ ہی نہیں بنایا ‘ اسے بیدی کی طرح باوقار بھی بنادیا ہے ۔یوں اپنی تہذیب کو عورت کے کرداروں سے سمجھنے کے لیے خاص قسم کی عورتوں کے علاقوں میں جانے کی ضرورت ہے کہ کوٹھے چڑھنے کی کہ منشایاد نے اس کا اہتمام آس پاس کی لپٹی لپٹائی ‘اپنی تہذیب میں رچی بسی اور اپنی معاشرت سے جڑی ہوئی عورت کو لکھ کر کر دیا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ منشایاد کے یہ نسوانی کردار بہت سے مقامات پر انتہائی سفاک اور بے رحم ہو جاتے ہیں اور بظاہر صحت مند نظر آنے والے معاشرتی وجود کے اندر کی رسولیوں کو پھوڑکر متعفن مواد کو بہہ جانے پر مجبورکردیتے ہیں۔

***
کتابیات منشایاد
3
۱۔ بند مٹھی میں جگنو (اردو افسانے) ۱۹۷۵ء
۲۔ ماس اور مٹی (اردوافسانے) ۱۹۸۰ء
۳۔ خلا اند رخلا (اردوافسانے) ۱۹۸۳ء
۴۔ وقت سمندر(اردو افسانے) ۱۹۸۶ ء
۶۔ وگدا پانی(پنجابی افسانے) ۱۹۸۷ء
۸۔ درخت آدمی (اردو افسانے) ۱۹۹۰ء
۹۔ دور کی آواز(اردو افسانے) ۱۹۹۴ء
۷۔ ٹاواں ٹاواں تارا(پنجابی ناول) ۱۹۹۷ء
۱۰۔ تماشا(اردو افسانے ) ۱۹۹۸ء
۱۱۔ شہر افسانہ (انتخاب ، اردو افسانے ) ۲۰۰۳ء
۱۲۔ خواب سرائے(اردو افسانے) ۲۰۰۵
۱۳۔ اک کنکر ٹھہرے پانی میں(اردو افسانے) ۲۰۱۰ء
۱۴۔ راہیں (پنجابی ناول کا اُردو روپ ) ( اشاعت بعد از وفات) ۲۰۱۲ء

پیر، 16 فروری، 2015

اجمل کمال کی تحریر

گیان چند جین کی کتاب ’’ایک بھاشا، دولکھاوٹ، دو ادب‘‘ پر شمس الرحمن فاروقی کے تبصرے سے جو بحث شروع ہوئی تھی، اس سے اردو کی ادبی دنیا، اور اس سے وسیع تر اور اہم تر، برصغیر کے مسلمان معاشرے کے بارے میں کئی دلچسپ اور اہم نکات سامنے آتے ہیں۔ ان کی طرف مختصراً اشارہ کرنے سے پہلے میں گیان چند جین کے لیے اپنی ممنونیت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ اردو کے ادبی ماحول میں ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ غالب نقطۂ نظر کے سوا کوئی اور موقف پڑھنے والوں کے سامنے آئے۔ جین صاحب نے اپنی تمام عمر اردو میں تحقیق و تصنیف میں گزارنے کے بعد اور اس ماحول کی شدید عدم رواداری سے واقف ہوتے ہوے یہ کتاب لکھنے کا خطرہ مول لیا۔ میں اسے قابل قدر بات سمجھتا ہوں۔
ان کے موقف کے سامنے آنے پر اختلاف رائے کا پیدا ہونا تو قابل فہم ہے، لیکن یہ بات بھی کچھ ایسی غیرمتوقع نہیں کہ اس اختلاف کا اظہار زیادہ تر محض غیظ و غضب پر مشتمل رہا ہے۔ اس موضوع پر اظہارخیال کرنے والے کئی لوگوں نے تو کتاب پڑھ کر رائے قائم کرنے کے بجاے صرف فاروقی صاحب کا جارحانہ تبصرہ پڑھ لینا کافی سمجھا جو اب تک سرحد کے دونوں جانب متعدد رسالوں اور اخباروں میں شائع ہو چکا ہے۔ یوں بھی کسی ناپسندیدہ نقطۂ نظر کے سامنے آنے پر ہمارے یہاں پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ اسے گفتگو کے قابل valid موقف کے طور پر عزت دینے کے بجاے ’ہرزہ سرائی‘، ’دریدہ دہنی‘ ، ’دل آزاری‘، ’اردو دشمنی‘ جیسی کسی پٹاری میں بند کر دیا جائے تاکہ اس میں اٹھائے گئے نکات پر گفتگو کا موقع ہی نہ آنے پائے۔ جن لوگوں کو اپنا ایمان عزیز ہے وہ یہ ڈراؤنے الفاظ سن کر اس قدر سہم جاتے ہیں کہ ان پٹاریوں کے مشمولات کے بارے میں تجسس تک ظاہر کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اور یہ کہنا غیرضروری ہے کہ اردو اب زبان سے کہیں آگے بڑھ کر ایمان کا معاملہ بن چکی ہے۔ کسی نے مروج عقائد سے ذرا سا انحراف کیا تو اسے اردودشمن قرار دینے میں ایمان والوں کو ذرا دیر نہیں لگتی، اور اردو دشمنی اور اسلام دشمنی میں تو کچھ فاصلہ رہنے ہی نہیں دیا گیا۔
اس ردعمل کا مظاہرہ چند برس پہلے اس وقت ہوا جب گیان چند جین نے ۱۹۳۶ء کے اس جلسے کے بارے میں ایک مضمون لکھا جس میں مولوی عبدالحق اور گاندھی شریک تھے اور جس میں مفروضہ طور پر گاندھی کے کہے ہوے الفاظ اردو مائتھالوجی بلکہ عقیدے کا حصہ بن چکے ہیں۔ (اس مضمون کے مشمولات ان کی زیرنظرکتاب میں باب ۱۳ کے طور پر شامل ہیں۔ ) جین صاحب نے کچھ ایسے شواہد پیش کیے جن سے ان الفاظ کا گاندھی سے انتساب غلط ثابت ہوتا ہے، اور انھوں نے حیات اﷲ انصاری، جمیل جالبی اورمشفق خواجہ کا حوالہ بھی دیا جنھوں نے ان الفاظ کے جعلی ہونے کی تصدیق کی تھی اور اس جعلسازی کے ذمے دار فرد کا نام بھی لیا تھا۔ جین صاحب کے مطابق یہ شواہد پہلی بار ۱۹۶۰ء میں پیش کیے گئے تھے، اور کراچی میں جمیل جالبی اور مشفق خواجہ اس تمام عرصے میں اس جعلسازی کی حقیقت سے واقف رہے۔ اس کے باوجود اس موضوع پر متعدد اردو کتابوں میں (جن میں سے بعض اسی کراچی شہر میں لکھی اور شائع کی گئیں) انھی فرضی الفاظ کی بنیاد پر شدومد سے من مانے نتائج اخذ کیے جاتے رہے ہیں۔ اس طرح اگر ان کتابوں کے مصنفین (مثلاً فرمان فتح پوری ، معین الدین عقیل وغیرہ) اس بارے میں غلط بیانی کے مرتکب ہوے ہیں تو اس موضوع سے تعلق رکھنے والے باقی محقق، مورخ اور نقاد (سرحد کے دونوں طرف) تاریخ کی اس تحریف سے چشم پوشی کرنے اور خاموشی اختیار کرنے کے قصوروار ٹھہرتے ہیں۔ اس مضمون کے شائع ہونے پر بھی ایک بحث شروع ہوئی تھی جس میں کھٹ سے یہ ایمان افروز دلیل سامنے آئی کہ گیان چند جین غیرمسلم ہونے کے باعث اردو سے جذباتی وابستگی نہیں رکھتے اس لیے ان کا یہ مضمون اردودشمنی پر مبنی ہے۔ حقائق تک پہنچنے کی غیرجذباتی جستجو بھلا کہیں ایسی محکم دلیل کے آگے ٹھہر سکتی ہے!
خواہ اس کے مفروضہ سکیولر کردار کی کتنی بھی دہائی کیوں نہ دی جائے، زمینی حقیقت یہی ہے کہ اردو ہندوستان میں مسلمان اقلیت اور پاکستان میں حکمران اکثریت کی سیاست سے ناقابل تلافی طور پر وابستہ ہو چکی ہے۔ مولوی عبدالحق کا نام اس سیاست کے نمایاں ترین ذمے دار افراد میں آتا ہے۔ مولوی صاحب ایک اول درجے کے نثرنگار، اوسط درجے کے محقق اور تیسرے درجے کے لغت نویس تھے، لیکن ان کے وقت ، صلاحیتوں اور توانائی کا بیشتر حصہ ان علمی و ادبی سرگرمیوں میں نہیں بلکہ اردو سے متعلق سیاست میں صرف ہوا، اور ان کی سرگرمیوں کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد میری رائے یہ ہے کہ ان کی سیاست تیسرے درجے سے بھی نیچے کے منطقے سے تعلق رکھتی تھی۔ میں نہیں جانتا کہ کس ستم ظریف نے انھیں ’’بابائے اردو‘‘ کے مضحکہ خیز اور بےمعنی لقب سے متصف کر کے اردو کی مائتھالوجی میں ایک icon کا درجہ بخش دیا، لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ وہ تمام عمر حکیم اسرار کریوی اور جمیل الدین عالی جیسے مفادپرست لسانی سیاست بازوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنے رہے۔ مولوی صاحب کے درج ذیل الفاظ جین صاحب نے اپنی کتاب میں نقل کیے ہیں: ’’پاکستان کو نہ جناح نے بنایا نہ اقبال نے بلکہ اردو نے پاکستان کو بنایا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں میں اختلاف کی اصلی وجہ اردو زبان تھی۔ سارا دوقومی نظریہ اور سارے ایسے اختلاف صرف اردو کی وجہ سے تھے، اس لیے پاکستان پر اردو کا بڑا احسان ہے۔ ‘‘ (ص۷-۲۶۶) برصغیر کی تقسیم کے نہایت پیچیدہ عمل کے بارے میں اس قسم کا سادہ خیال بیان یہ ظاہر کرتا ہے کہ کہنے والے کو سیاسیات، معاشیات، عمرانیات اور علم تاریخ جیسی مخلوقات کے وجود تک کا علم نہیں اور اس کے نزدیک عقلی سرگرمی محض عقل کے پیچھے لٹھ لے کر پھرتے رہنے کا نام ہے۔ اس قسم کے ارفع سیاسی شعور سے لیس ہو کر خودساختہ بابایانِ اردو، اپنے حقیر شخصی اور گروہی مفادات کے فروغ کی خاطر، پاکستان کے پنجابی اور مہاجر حکمران طبقے کا آلۂ کار بنے اور بنگلہ اورسندھی لسانی گروہوں پر غیرجمہوری تسلط قائم کرنے کی منفی سیاست میں شریک رہے۔ مجھے اس بات میں ذرابھی شبہ نہیں کہ اس سیاست سے میری زبان اردو کا مفاد وابستہ نہیں تھا، اور پاکستانی تاریخ کے ان واقعات کا مطالعہ کرتے ہوے میرا ردعمل سخت رنج، غصے اور شرمندگی کا ہوتا ہے۔
جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے، وہاں کی مخصوص فرقہ وارانہ سیاست کے زیراثر اردو کونسل اور اس جیسے تمام اداروں پر خرچ کی جانے والی کل رقم سرکاری کھاتے میں مسلمان ووٹ بینک پر کی گئی سرمایہ کاری کے طور پر درج کی جاتی ہے، اگرچہ یہ بات ظاہر ہے کہ مثلاً کونسل کا بجٹ ایک کروڑ سے بڑھا کر آٹھ کروڑ کیا سولہ کروڑبھی کر دیا جائے تو ہندوستانی مسلمانوں کی کل آبادی کو اس ریزگاری سے کسی قسم کا فائدہ پہنچنے کا قطعی اندیشہ نہیں۔ مرلی منوہر جوشی جیسے سیاست کاروں کی شان میں موقع بموقع جو قصیدہ گوئی کی جاتی رہی ہے اس کا تعلق اسی ریزگاری سے ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی اس سرمایہ کاری سے شخصی فائدہ حاصل کرنے والے (چند سو یا بہت سے بہت چند ہزار اشخاص پر مشتمل) نام نہاد اردو انٹیلی جنشیا کا کام فقط اتنا ہے کہ اقلیتی مسلمان آبادی کے اصل مسائل کو توجہ کا مرکز نہ بننے دے۔ اس دانشور طبقے نے اردو کو مسلمانوں کے اہم ترین مسئلے کے طور پر پیش کر کے اس اقلیتی آبادی کی نہیں بلکہ اس کا استحصال کرنے والی (خارجی اور داخلی) سیاسی قوتوں کی خدمت کی ہے، اور اردو کی مبینہ ترقی کے سلسلے میں قائم کیے جانے والے اردو کونسل جیسے اداروں کے لیے سرکاری رقوم کی فراہمی کو اس ’’اہم ترین‘‘ مسئلے کا حل قرار دے کر سواے اپنے کسی کی خدمت نہیں کی۔ تاہم ان کے اس self-serving نقطۂ نظر سے مختلف ایک اور نقطۂ نظر بھی موجود ہے، خواہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو۔ مثلاً ابھی پچھلے ہی مہینے بی بی سی کے ایک سروے میں بہار کے نوعمر مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کا صاف صاف کہنا تھا کہ ان کی ضرورت اردو نہیں بلکہ تعلیم ہے۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ برصغیر کا مسلمان معاشرہ (اردو کی ادبی دنیا جس کا نہایت مختصر جزو ہے اور اس جزو میں کُل کا عکس آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے) مجموعی طور پر نہ صرف شدید قدامت پرست اور غیرروادار ہے بلکہ اس قدامت پرستی اور عدم رواداری کی شدت مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچنے کے نام پر مولانا عبدالماجد دریابادی جیسے لوگوں نے مثلاً مرزا یگانہ اور ’’انگارے‘‘ کے مصنفین کے خلاف جو طوفان برپا کیا تھا اس کا زور نہ صرف یہ کہ تھمنے میں نہیں آ رہا بلکہ اب تو عدم رواداری کا یہ طوفان ہماری نمایاں تہذیبی شناخت بن گیا ہے۔ معلوم نہیں ایسے لوگ اقلیت میں ہیں یا اکثریت میں، لیکن اپنے شوروغوغا سے ماحول کو اس حد تک اپنے قابو میں کر لیتے ہیں کہ ان سے اختلاف رکھنے والوں کو بہت سے موقعوں پر تو زبان کھولنے تک کی ہمت نہیں ہوتی۔ پاکستان میں ان فتنہ پردازوں کا زور اتنا بڑھا کہ انھوں نے منتخب اور غیرمنتخب دونوں قسم کی حکومتوں سے اپنی مرضی کے غیرمعقول اور غیرمنصفانہ قوانین بھی نافذ کروا لیے جنھوں نے آبادی کے کئی طبقوں، خصوصاً عورتوں اور مذہبی اقلیتوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ اس چیرہ دستی کی جھلک ادبی میدان میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ مثلاً یہاں کے ایک سرکاری ادارے اقبال اکیڈمی کے تنخواہ دار کارپردازان رفتہ رفتہ اتنے دلیر ہو گئے ہیں کہ اقبال کے بعض اشعاراور افکار پر نعوذباﷲ کی ضربیں لگانے اور ان کے ایمان کو مشکوک ٹھہرانے تک سے نہیں چوکتے۔ ہندوستان میں پوری مسلمان آبادی کو پرسنل لا بورڈ والوں نے یرغمال بنا رکھا ہے جو اپنی مرضی کے نان ایشوز کو مسلمانوں کے اصل مسائل کے طور پر پیش کرتے ہیں اور کسی کو انھیں ٹوکنے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ اس مروجہ تنگ نظراور دقیانوسی نقطۂ نظر سے اختلاف کی جرأت کرنے والے مسلمانوں تک کو دائیں بازو کی ہندو سیاسی پارٹیوں کا ہم نوا قرار دے کر چپ ہونے پر مجبور کر دیا جاتا ہے؛ رہے اردو کے معدودے چند غیرمسلم ادیب تو ان کے لیے تو لکیر سے ذرا اِدھر اُدھر ہونے پر بی جے پی یا آر ایس ایس سے وابستگی کا الزام تیار ہی رکھا رہتا ہے۔
برصغیر کے مسلمانوں کی اس بڑھتی ہوئی قدامت پرستی اور عدم رواداری کا پورا عکس گیان چند جین کی کتاب پر ہونے والی بحث میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے مخالفین کا سارا زور مصنف کو بدنیت اور سازشی ٹھہرانے پر رہا ہے جبکہ کتاب میں اٹھائے گئے نکات کا تجزیہ کرنے پر تقریباً کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اس کی مثال کتاب کے ’انتساب زدگان‘، مقدمہ نگاروں اور ناشر کے سلسلے میں کی جانے والی خیال آرائیاں ہیں جن کا اصل بحث سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک متجسس پڑھنے والے کی حیثیت سے میں نے زیربحث کتاب کا بغور مطالعہ کیا اور کئی جگہ مصنف سے مختلف رائے رکھنے کے باوجود مجموعی طور پر اس کتاب کے لیے اپنے دل میں بڑی قدر محسوس کی۔ ہم دوسروں کو کیسے دکھائی دیتے ہیں، یہ ہمیں دوسروں کی رائے کے بے روک ٹوک اظہار کے سوا بھلا اور کس ذریعے سے معلوم ہو سکتا ہے؟ (یہ تاریخ اور سیاست کا المیہ ہے کہ تمام عمر اردو میں لکھنے اور اردو پڑھانے والے گیان چند جین کو ’’دوسرا‘‘ یا ’’غیر‘‘ کہنا پڑ رہا ہے؛ وجہ صرف یہ کہ ان کا مذہبی عقیدہ اور لسانی و تہذیبی نقطۂ نظر اردو لکھنے پڑھنے والوں کی غالب — اور غضب ناک — اکثریت سے مختلف ہے۔(
مجھے اپنے مشاہدے کی روشنی میں ان کی یہ مرکزی بات حقیقت پر مبنی محسوس ہوتی ہے کہ اردو پر قدامت پرست مسلمان نقطۂ نظر کا غلبہ ہے اور اس نقطۂ نظر کا اظہار کئی موقعوں پر خاصا پرتشدد اور غیرروادارانہ ہو سکتا ہے۔ اس کی جھلکیاں ادب میں بھی کثرت سے ملتی ہیں، لیکن اسے محض ادب تک محدود رکھنا نادانی ہو گی۔ مثلاً پاکستان کے بڑے قومی روزناموں (جنگ، نوائے وقت، امت وغیرہ) میں شائع ہونے والے مضامین اور کالموں میں، اور پاکستانی تعلیمی اداروں میں مروج درسی کتابوں میں، غیرمسلموں کے مذہب، رسم و رواج اور ثقافتی یا سیاسی نقطۂ نظر کی تحقیر اور تذلیل ایک معمول کی بات ہے۔ (اور تو اور، علامہ اقبال سے کتنی ہی ایسی باتیں روایت ہیں جن میں انھوں نے غیرمسلموں خصوصاً ہندوؤں کے بارے میں اسی قسم کے خیالات ظاہر کیے ہیں۔) یہودیوں اور قادیانیوں کی تو بات ہی جانے دیجیے جن کی حمایت میں کچھ کہنا گویا مصیبت کو دعوت دینا ہے، ہندوؤں کے لیے جو الفاظ بےدھڑک استعمال کیے جاتے ہیں وہ شیخ احمد سرہندی کے الفاظ کی بازگشت معلوم ہوتے ہیں۔ اب شیخ سرہندی ہوں یا شاہ ولی ﷲ یا مولانا اشرف علی تھانوی یا علی میاں یا ان کے کوئی پاکستانی ہم رتبہ بزرگ، یہ سب ہستیاں عقیدت کی ایسی گاڑھی دھند میں ملفوف ہیں کہ ان کے تنگ نظر خیالات سے کھلم کھلا اختلاف کرنا انتہائی دشوار بنا دیا گیا ہے۔ یہ دشواری پاکستان میں تو ہے ہی جہاں اس غالب نقطۂ نظر کو مقتدر قوتوں اوران کے من مانے قوانین کی پشت پناہی حاصل ہے، ہندوستان میں بھی ہر اعتبار سے بند مسلمان معاشرے کے داخلی دباؤ کے باعث کچھ ایسی کم نہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ جین صاحب پر کھل کر کڑکنے اور برسنے والے معترضین بشمول شمس الرحمٰن فاروقی، شمیم حنفی، اسلم پرویز، اطہر فاروقی وغیرہ، مذکورہ بالا متبرک ہستیوں کے خیالات، ہندوستانی مسلم آبادی کی ذہنیت اور طرزعمل پر ان کے اثرات اور ہندوستانی معاشرے کے لیے ان کے مضمرات کو تفصیل سے زیربحث لانے اور ان کی بابت اپنی موافق یا مخالف رائے ظاہر کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ یہاں اگر گھٹنے پیٹ کی طرف مڑنے نہیں لگتے تو پانی نشیب میں مرنے لگتا ہے۔ گیان چند جین نے اگر شیخ سرہندی وغیرہ کے معروف اور مروج خیالات کی طرف توجہ دلائی تو ان پر سازش اور فرقہ پرستی کے قابل افسوس الزامات یا بنیا ہونے کے نسل پرستانہ طعنے کے ساتھ چڑھ دوڑنا البتہ آسان کام ہے جس میں کسی چوٹ چپیٹ کا اندیشہ نہیں۔
جملۂ معترضہ: جدید دنیا کے کم از کم دو بڑے پہلو ایسے ہیں جن سے نمٹنے کی کوئی تدبیر مسلمان معاشرے میں مروج قدیم دقیانوسی نسخوں میں دستیاب نہیں: ایک تو یہ کہ ایسے کثیرمذہبی اور کثیرتہذیبی معاشرے میں کیسے رہا جائے جہاں مختلف گروہوں کا باہمی تعلق حاکم اور محکوم کا نہ ہو؛ دوسرا یہ کہ جدید دور کی عورت سے کیسے معاملہ کیا جائے جو مرد کے برابر کا فرد بننے سے کم پر راضی نہیں۔ میری رائے میں آج کی دنیا کے ان دونوں پہلوؤں کے بارے میں کوئی معقول تہذیبی طرزعمل مرتب کرنے کے لیے مسلمانوں کا مذکورہ بالا قدامت پرست اندازفکر سے علی الاعلان پیچھا چھڑانا ضروری ہے۔ یہ مسلمانوں کے دانشور طبقے کی ذمےداری ہے جسے وہ موثر طور پر انجام دینے سے اب تک قاصر رہا ہے۔
برصغیر کے مسلمان معاشرے میں رائج تعصب اور تنگ نظری پر مبنی خیالات ادبی اور تنقیدی تحریروں میں بھی اپنا عکس ڈالتے رہے ہیں۔ جین صاحب نے بطور مثال داستان امیرحمزہ اور بوستان خیال، کاظم علی جوان اور اخترحسین رائے پوری کے ترجموں، اور مولوی عبدالحق، ابواللیث صدیقی، معین الدین عقیل، فرمان فتح پوری وغیرہ کی تحریروں کے باقاعدہ حوالے دیے ہیں اور اقتباسات پیش کیے ہیں۔ اس پر ان کے معترضین کا ردعمل صرف اس تلملاہٹ تک محدود رہا ہے کہ یہ حوالے دینے یا ان اقتباسات سے کوئی معنی برآمد کرنے کی جرأت ہی کیونکر کی گئی۔ ان حضرات کا خیال ہے کہ اس موضوع کی جانب اشارہ کرنا اور اردو کے قدیم اور جدید ادیبوں، مورخوں، مترجموں، محققوں اور نقادوں کی تحریروں میں اس قسم کے رجحانات کی نشان دہی کرنا ہی فرقہ پرستی کے مترادف ہے۔ ادھر پاکستان میں ہندمسلم معاشرے اور اردو کی انھی متعصبانہ خصوصیات کو اس کے اعزاز واکرام کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اردو کی دورُخی سیاست کو دیکھتے ہوے مذکورہ بالا ردعمل کوکسی حیرت کا سبب نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستانی بابایانِ اردو اس زبان کو دوقومی نظریے اور قیام پاکستان کی بنیاد قرار دینے میں اپنا فائدہ دیکھتے ہیں تو ان کے ہندوستانی ہم رتبہ بزرگ اسے ہندومسلم اتحاد کی زبان قرار دینا مرغوب رکھتے ہیں۔ ہم جیسے سادہ لوحوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ ان دونوں یکسر متضاد خیالات پر بیک وقت اور یکساں درجے کا ایمان رکھیں۔ انگریزی ناول 1984 کے مصنف جارج آرول نے اسی قسم کے اندازفکروگفتگو کے لیے ’’ڈبل تھنک‘‘(doublethink) اور’’ڈبل اسپیک‘‘ (doublespeak) کی اصطلاحات وضع کی تھیں۔ گیان چند جین نے یہ کہنے کی جرأت کی ہے کہ جب اردو کے مسلمان لکھنے والے دیگر مذاہب کی متبرک سمجھی جانی والی ہستیوں، ان باشندوں کے رسم ورواج، ان کی ثقافتوں اور زبانوں کی تحقیر کرتے ہیں، یا مسلمان حملہ آوروں، حکمرانوں اور داستانی کرداروں کے ان کارناموں پر فخر کرتے ہیں کہ انھوں نے کتنی بت شکنیاں کیں، کتنی عبادت گاہیں مسمار کیں، کتنے کفار کو تہہ تیغ کیا ، کتنوں کو (بزور شمشیر یا بزور کولھو) حلقۂ اسلام میں اور کتنوں کی مستورات کو (بزورنکاح یا بلانکاح) اپنے حرم میں داخل کیا، وغیرہ، تو خواہ خود ان لکھنے والوں یا ان کے ہم مذہب پڑھنے والوں کو اس کا احساس ہوتا ہو یا نہ ہوتا ہو، دوسرے مذہب کے ماننے والوں کو اس سے رنج پہنچ سکتا ہے اور پہنچتا ہے۔ میں ان کی اس بات سے سو فیصد متفق ہوں، اور یہ سمجھتا ہوں کہ ان تمام مذکورہ (اور غیرمذکورہ) تحریروں کا مطالعہ اس زاویے سے بھی کیا جانا چاہیے تاکہ اردو زبان سے ان منفی رجحانات کو دور کیا جا سکے اور اردو کے لکھنے اور پڑھنے والوں کو ان امور کے بارے میں حساس بنایا جا سکے۔ اگر اردو دنیا اور برصغیر کے مسلم معاشرے میں انصاف کا چلن ہوتا اور ہم لوگوں میں اپنے سے مختلف کسی دوسرے نقطۂ نظر کے وجود کو تسلیم کرنے کی اہلیت ہوتی تو یہ بات اردو کے کسی مسلمان لکھنے والے کی طرف سے سامنے آنی چاہیے تھی۔ اس کے برخلاف یہاں حال یہ ہے کہ اس حقیقت کو سامنے لانے پر گیان چند جین پر لعن طعن کی جا رہی ہے۔
ہمارے یہاں مروج اس رویے اور اس کے عواقب کا اندازہ مندرجہ ذیل تین نمایاں مثالوں سے کیا جا سکتا ہے جو ’حریف‘ زبانوں سے اردو کی کشمکش کے سلسلے میں ہماری تاریخ میں ملتی ہیں۔ ۱۹۰۰ء میں شمال مغربی صوبہ و اودھ کے لیفٹیننٹ گورنر میک ڈونل نے حکم جاری کیا کہ اردو کے ساتھ ساتھ ناگری رسم الخط کو بھی صوبے کی عدالتوں میں استعمال کرنے کی اجازت ہو گی۔ ۱۹۵۴ء میں پاکستان کی مرکزی اسمبلی نے (مشرقی بنگالیوں کی چھ سالہ مسلسل جدوجہد کے بعد) ایک رسمی قرارداد منظور کی کہ اردو کے ساتھ ساتھ بنگلہ کو بھی پاکستان کی قومی زبان سمجھا جائے گا۔ ۱۹۷۲ء میں صوبہ سندھ کی اسمبلی نے (سندھیوں کی تیرہ برس کی متواتر کوشش کے بعد) قرارداد منظور کی کہ اردو کے ساتھ ساتھ سندھی کو بھی صوبے کے اسکولوں میں لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے گا۔ اس بات کو دھیان میں رکھیے کہ ان تینوں موقعوں پر اردو کو ہٹا کر اس کا مقام کسی دوسری زبان کو نہیں دیا جا رہا تھا بلکہ اردو کو اس کی جگہ قائم رکھتے ہوے دوسری زبان کو اس کا حق دینے کی کوشش کی جا رہی تھی، لیکن بابایانِ اردو نے اس کوشش کو بلاتکلف اردو کے قتل سے تعبیر کیا، کیونکہ کسی اور زبان کو جینے یا پنپنے کی گنجائش دینا ان حضرات کے نزدیک اردو کی موت کے مترادف ہے۔ وجہ بالکل سادہ ہے: اردو کی سیاست پر قابض یہ لوگ اس بات کا ادراک کرنے کے اہل ہی نہیں کہ لوگوں کے کسی اور گروہ کی بھی اپنی زبان سے وابستگی ہو سکتی ہے اور اس گروہ کے بھی لسانی حقوق ہو سکتے ہیں۔ ان کا اندازفکر انیسویں صدی کی ہندمسلم معاشرت کے بطل جلیل، شہید ملت نواب شمس الدین خاں (بابائے داغ) سے مستعار معلوم ہوتا ہے جن کی نظر میں انصاف اس کا نام تھا کہ ان کے والد کی چھوڑی ہوئی جاگیروں میں سے ان کے برادرخورد کو کچھ نہ ملے، سب کچھ نواب موصوف کو دیا جائے، اور فرنگی استعمار سے ان کی دشمنی اسی ارفع اخلاقی قضیے کی بنیاد پرشروع ہوئی تھی کہ انگریز حاکموں نے اس ترکے کا ایک حصہ ان کے بھائی کے حوالے کر کے انصاف کا خون کر دیا تھا۔
رسم الخط سے متعلق باب میں گیان چند جین نے جو بات کہی اس کا ردعمل بھی بلاسوچے سمجھے غیرضروری طیش کے اظہار کے سوا کچھ نہ ہوا۔ جین صاحب کے مطابق وہ اس بات کے قائل ہیں کہ اردو کا رسم الخط بدلا نہیں جانا چاہیے، لیکن اس رسم الخط کے برقرار رہنے کا صرف یہی جواز کافی ہے کہ اس زبان کے استعمال کرنے والے اس کے رسم الخط کو بدلنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اس کے لیے دنیا کے باقی ہر رسم الخط کو اردو کے مروجہ رسم الخط سے کمتر اور ناقص ثابت کرنے کی بےسود کوشش میں خود کو ہلکان کرنا آخر کیوں ضروری ہو؟ جیسے دوسرے ہر رسم الخط کی اپنی خوبیاں اور محدودیتیں ہیں ویسے ہی اردو کے مروج رسم الخط کی بھی ہیں۔ اگررسم الخط کسی زبان کے بولنے اور لکھنے پڑھنے والوں کے درمیان ایک سمجھوتے کا نام ہے کہ کن آوازوں کے لیے کون سی علامتیں استعمال کی جائیں گی، تو اس میں ایک رسم الخط کے دوسرے رسم الخط پر مطلق اعتبار سے برتر ہونے کا سوال کیونکر پیدا ہوتا ہے، سواے اس کے کہ آپ کسی مخصوص رسم الخط کو آسمان سے اترا ہوا سمجھتے ہوں۔ اسی بحث میں گیان چند جین کی کتاب سے ایک اور معنی خیز نکتہ یہ بھی برآمد ہوتا ہے: اگر گاندھی یہ کہنے پر مذمت کے سزاوار ٹھہرے کہ قرآن کے حرفوں میں لکھے جانے کی وجہ سے اسے مسلمانوں کی مذہبی زبان سمجھا جانا چاہیے، تو محمد حسن عسکری اپنے اس قول پر اس سے مختلف سلوک کے حقدار کیوں ہیں کہ ’’اردو رسم الخط ملتِ ابراہیم حنیف کا پرچم ہے بلکہ یہ رسم الخط تو موذن ہے جو ہر وقت...الخ‘‘؟
(موذن مرحبا ’’ہر وقت‘‘ بولا(!
جس زبان کو امرت رائے اور شمس الرحمن فاروقی دونوں اپنے اپنے نقطۂ نظر سے ’’ہندی‘‘ کا نام دیتے ہیں اس کی ابتدا کی تحقیق کے سلسلے میں گیان چند جین کا کہنا ہے: ’’اردو کی قدیم تاریخ جاننے کے لیے عربی فارسی نہیں، پراکرت اور اپ بھرنش کی واقفیت چاہیے، اگر براہ راست نہیں تو کم ازکم ہندی میں جو مواد ملتا ہے اس سے تو استفادہ کر لیں۔ لیکن بیسویں صدی کے نصف اول کی اردو تحریک نے ہندی زبان اور قدیم تحریروں کی محض تضحیک کرنا سکھایا۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس علم کے بغیر اہلِ اردو اپنے شجرے کے بارے میں جاہلِ مطلق رہ گئے۔ ...اردوہندی کے آغاز کی بات محض اصطلاحوں کا معاملہ نہیں، وہ تو ہندی اور اس کے اجداد، اپ بھرنش، پراکرت، سنسکرت اور ویدک بھاشا سے اچھی جانکاری کی بات ہے۔ اردووالوں کو ان زبانوں اور ان کے الفاظ سے ایک بھڑک، ایک چڑ ہے۔ ‘‘ (ص۷-۶۶) مجھے یہ توقع معقول محسوس ہوتی ہے کہ اردو ہندی تنازعے کے موضوع پر لکھنے والے اردو مورخ اور محقق، جو یقیناً اردو کی قدیم تاریخ کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر رکھتے ہوں گے، ہمیں یہ بھی بتائیں کہ اس سلسلے میں دوسرا یا مخالف نقطۂ نظر کیا ہے، کن افراد کی کن کتابوں میں ملتا ہے، کن شواہد کو پیش کرتا ہے، کس استدلال کی بنیاد پر ان شواہد کا تجزیہ کرتا ہے، کن نتائج پر پہنچتا ہے اور یہ شواہد، استدلال اور نتائج کس بنیاد پر رد کیے جانے کے مستحق ہیں۔ اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے ایک عام قاری کی حیثیت سے میں مثلاً شمس الرحمن فاروقی سے یہ توقع کرنا اپنا حق سمجھتا ہوں۔ لیکن انھوں نے اپنی کتاب ’’اردو کا ابتدائی زمانہ‘‘ میں اس بارے میں صرف اتنا کہنا کافی سمجھا: ’’زمانۂ حال میں اس نظریے کو سب سے زیادہ تفصیل اور بسط کے ساتھ امرت رائے نے اپنی کتاب ...میں پیش کیا ہے۔ امرت رائے کا نظریہ تضادات سے پُر ہے، اور اس کی بنیاد متعصبانہ ظن و تخمین پر ہے، نہ کہ ٹھوس حقائق پر۔ لیکن اردو والوں نے اس کا کوئی اطمینان بخش جواب تاحال نہیں دیا ہے۔ ... میرے علم و اطلاع کے مطابق صرف مرزا خلیل احمد بیگ نے امرت رائے کا رد لکھا، لیکن وہ پوری طرح کارگر نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اپنی زبان کے آغازی سرچشموں کے بارے میں خود اردو والوں کے ذہن صاف نہیں ہیں۔ ‘‘ (ص ۱۲-۱۱) تو پھر سوال یہ ہے: مقابل یا مخالف نقطۂ نظر کا جواب دینے یا اسے رد کرنے کے منفی جذبے ہی سے سہی، یہ کام آخر کون کرے گا، اور اس کے لیے اس جانکاری کی ضرورت ہو گی یا نہیں جس کی طرف گیان چند جین نے مندرجہ بالا اقتباس میں توجہ دلائی ہے؟ اس قسم کی توقع ابواللیث صدیقی اور فرمان فتح پوری جیسے مصنفوں سے تو وابستہ کی نہیں جا سکتی، جن کی کتابیں اپنی گوناگوں خصوصیات کے باعث، میری طالب علمانہ رائے میں، ردی کی ٹوکری میں جگہ پانے کی مستحق ہیں۔
گیان چند جین نے اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ اپنے اپنے محدود اور تنگ نظر اندازفکر کے باعث اردو اور ہندی کے محقق اور زبان داں افراد اپنی اپنی زبان کی تاریخ کا ادھورا تصور رکھتے ہیں؛ اس تصور کو معقول حد تک وسیع اور مکمل کرنے کے لیے ان دونوں کو اپنے اندازفکر میں وسعت پیدا کرنی ہو گی اور شمالی ہندوستان کے اردو اورہندی سے متعلق خطے میں پائے جانے والے نمونوں کا احتیاط سے تجزیہ کر کے زبان کے تاریخی ارتقا کا مطالعہ کرنا ہو گا۔ (پروفیسر چودھری محمد نعیم نے اپنے مضمون Urdu in the Pre-modern Period: Synthesis or Particularism? میں ایسے کئی نمونوں کی نشان دہی کی ہے جنھیں کسی نہ کسی وجہ سے اردوکے تاریخی canonکا حصہ نہیں بنایا گیا۔ ان میں ملک محمد جائسی کی ’’پدماوت‘‘ بھی شامل ہے جس کے اولین مخطوطے اردو رسم الخط میں ملتے ہیں۔ میں نے ۲۰۰۳ء میں پروفیسر نعیم کے اس مضمون کا اردو میں ترجمہ کر کے ’’ماقبل جدید دور کی اردو: امتزاج یا امتیاز؟‘‘ کے عنوان سے اپنے رسالے ’’آج‘‘ کے شمارہ ۴۲ میں شائع کیا تھا۔) جین صاحب کا خیال ہے کہ اس قسم کی کوشش امرت رائے نے اپنی کتاب A House Dividedمیں کی ہے اور ان کی کتاب میں سامنے لائے گئے نمونوں میں سے ایک چوتھائی کو بھی اردو والوں کی توجہ حاصل نہیں ہوئی۔ میرے نزدیک اس بات پر برا ماننا قطعی غیرضروری ہے۔ اگر اردو کے محققوں کی جستجو حقائق تک پہنچنے کے لیے ہے تو انھیں امرت رائے کے پیش کردہ نمونوں کا اپنے نقطۂ نظر سے تجزیہ کر کے اپنی تحقیق کے نتائج کو پڑھنے والوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور جو نمونے اس کتاب میں سامنے نہیں لائے گئے ان کو بھی سامنے لانا چاہیے۔ جین صاحب کا کہنا ہے کہ زبان کی تاریخ کی بابت اس تحقیقی عمل کی راہ میں اردو اور ہندی والوں کے وہ سیاست زدہ موقف رکاوٹ بنے ہوے ہیں جنھیں تاریخ کے ایک خاص نقطے پر اختیار کیا گیا تھا۔ میں ان کی اس بات سے بھی متفق ہوں۔
شمالی ہندوستان میں اردو ہندی تنازعہ اس وقت پیدا ہوا تھا جب انگریزوں نے نچلی عدالتوں اور انتظامی اور تعلیمی اداروں میں فارسی کی جگہ مقامی زبانوں کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ (یہ برصغیر کی تاریخ میں پہلی بارہوا کہ حکومت کی طرف سے عام مقامی باشندوں کی تعلیم کے سلسلے میں کسی قسم کی پالیسی اختیار کی گئی۔) اس موقعے پر دو متخالف موقف رکھنے والے دو گروہ سامنے آئے جن میں سے ایک ناگری رسم الخط (اور موجودہ ہندی زبان) استعمال کرنا چاہتا تھا اور دوسرا اردو کو اس کے مروج رسم الخط میں۔ اس مناقشے نے رفتہ رفتہ مناظروں، مجادلوں اور ایک دوسرے کا متشدد انداز میں رد کرنے والی تحریروں کے ذریعے اردووالوں اور ہندی والوں کے ذہنوں میں اس پختہ خیال کی صورت اختیار کر لی کہ ان کی پسندیدہ زبان مخالف زبان پر تاریخی اعتبار سے مقدم ہے، لسانی خصوصیات کے لحاظ سے فوقیت رکھتی ہے، برتر رسم الخط کی مالک ہے اور پورے برصغیر کی ’’قومی‘‘ زبان بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس تنازعے کی تفصیلات بہت سی کتابوں اور مضامین کا موضوع بنی ہیں لیکن بیشتر تحریروں میں اپنے اپنے سیاسی موقف سے اوپر اٹھ کر پورے منظرپر نگاہ ڈالنے کا رجحان مفقود ہے۔ اس کی ایک دلچسپ مثال اردو اور ہندی والوں کی ان تحریروں میں ملتی ہے جو فورٹ ولیم کالج نامی ادارے کی تاریخ سے (جس کی تعلیمی سرگرمیاں، برسبیل تذکرہ، فورٹ ولیم نامی قلعے میں کبھی پیش نہیں آئیں) یہ نتیجہ نکالنے پر مصر ہیں کہ انگریز اردو اور ہندی کے سلسلے میں پھوٹ ڈال کر راج کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا تھے اور اردو والوں کی نظر میں ہندی کو اور ہندی والوں کی نگاہ میں اردو کو آگے بڑھانے کی سازش میں مصروف تھے۔ آئیے اس ادارے کی تاریخ پر مختصراً نگاہ ڈالیں۔
اردووالوں اور ہندی والوں کے موقف کی روشنی میں فورٹ ولیم کالج کوئی ایسا ادارہ معلوم ہوتا ہے جیسے ہندی ساہتیہ سمیلن یا انجمن ترقی اردو، جسے اردو اور ہندی میں تفریق پیدا کرنے اور اردو یا ہندی کے ادب کو ترقی دینے کے مقصد سے وجود میں لایا گیا تھا۔ شواہد اس تصور کی تصدیق نہیں کرتے۔ ۱۸۰۰ء میں قائم کیے جانے والے اس ادارے کے تحریری دستور کی روشنی میں اس کا مقصد انگلستان سے آنے والے کمپنی کے ملازمین میں مقامی زبانوں، قوانین، تاریخ، رسم ورواج اور معیشت سے اس قدر واقفیت پیدا کرنا تھا کہ وہ کمپنی کے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے مقامی باشندوں سے معاملہ کر سکیں اور انتظامی سرگرمیاں انجام دے سکیں۔ ان ملازمین کو اقتصادیات، جغرافیہ، ریاضی اور سائنس کی تعلیم دینا بھی اس ادارے کے مقاصد میں شامل تھا۔ جہاں تک مقامی زبانوں کا تعلق ہے، اس دستور کے تحت کلاسیکی زبانوں عربی، فارسی اور سنسکرت کے علاوہ مقامی زبانوں ہندوستانی، بنگالی، تلیگو، مراٹھی، تامل اور کنڑ کو کمپنی کے ملازمین کو سکھانے کے لیے چنا گیا تھا۔ (ہندوستانی زبان کے شعبے کے وجود میں آنے پر اس میں اردو کے ساتھ ساتھ ناگری رسم الخط سکھانے والے افراد کا بھی تقرر کیا گیا۔) مندرجہ بالا تفصیلات سے اول تو اردووالوں اور ہندی والوں کا یہ دعویٰ مشترکہ طور پر رد ہو جاتا ہے کہ ان کی زبان پورے برصغیر میں ہر جگہ بولی اور سمجھی جاتی تھی (چنانچہ ’’قومی‘‘ زبان بنائے جانے کی مستحق تھی)، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو کمپنی کے ملازمین کو دیگر زبانیں سکھانے کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔ (یہ بات بھی یاد رکھیے کہ اس کالج کے لیے کمپنی کے ڈائرکٹروں سے رقم حاصل کرنے میں خاصی مشکل پیش آتی تھی؛ یہ کوئی اردو کونسل کی قسم کا ادارہ نہیں تھا جس کا بجٹ ایک کروڑ سے بڑھا کر تین سال میں آٹھ کروڑ کر دیا جائے اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔) دوسرا نکتہ یہ سامنے آتا ہے کہ ناگری رسم الخط کسی نہ کسی حد تک مروج تھا اور شمالی ہندوستان کے باشندوں کی کچھ نہ کچھ تعداد ایسی تھی جن سے رابطہ رکھنے کے لیے انگریز طلبا کو یہ رسم الخط سکھانا ضروری سمجھا گیا۔ یہ کوئی ایسی شے بہرحال نہیں تھی جسے انگریزوں نے فورٹ ولیم کی تجربہ گاہ میں ایجاد کر کے شمالی ہندوستان کے جسم میں داخل کر دیا ہو۔ جہاں تک پھوٹ ڈلوانے کے الزام کا تعلق ہے، ایسی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ کسی اور زبان کے شعبے میں الگ الگ رسم الخط کے منشیوں وغیرہ کا تقرر کیا گیا ہو۔ مذکورہ کالج سے باہر بھی یہ دیکھنے میں نہیں آیا کہ انگریزوں کی پالیسی کے نتیجے میں برصغیر کے کسی اور علاقے میں ایسا لسانی تنازع پیدا ہوا ہو جیسا شمالی ہندوستان میں اردو اور ہندی کے سلسلے میں ہوا۔ کیا اس سے یہ واضح نتیجہ برآمد نہیں ہوتا کہ اس مخصوص علاقے میں یہ تقسیم پہلے سے موجود تھی اور نئے حکمرانوں کے راج میں دونوں گروہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ معاشرتی گنجائش اور معاشی مفادات حاصل کرنے کے لیے کوشاں تھے اور اس باہمی رقابت کے زیراثر یہ چاہتے تھے کہ ان کے مخالف گروہ کے وجود کو تسلیم نہ کیا جائے اور نئے معاشی مواقع میں اسے کوئی حصہ نہ دیا جائے؟
جہاں تک اس موضوع پر دستیاب اردو تحریروں کا تعلق ہے، ان میں غالب رجحان اسی عجیب موقف پر اصرار کرنے کا ہے کہ مذکورہ علاقے میں صرف ایک زبان (یعنی موجودہ اردو) اور اس کا صرف ایک رسم الخط (یعنی اردو کا موجودہ رسم الخط) پایا جاتا تھا۔ ناگری رسم الخط اور جدید ہندی استعمال کرنے کے خواہش مند گروہ کے بارے میں مبہم سی بات کی جاتی ہے کہ جیسے اس قسم کی مخلوق وجود ہی نہ رکھتی تھی اور بالفرض موجود بھی تھی تو انگریز حکمرانوں کو چاہیے تھا کہ اس گروہ کے مطالبات کو کوئی اہمیت نہ دیں۔ اگرچہ اب تاریخ کا وہ مقام اتنا پیچھے چھوٹ گیا ہے کہ پوری صورت حال یکسر منقلب ہو چکی ہے، لیکن اس کی یادگار یہ عجیب و غریب لسانی نقطۂ نظراب تک جوں کا توں موجود ہے اور ہم اسے اپنا قدیم ثقافتی ورثہ سمجھ کر سینے سے چمٹائے ہوے ہیں اور اس پورے معاملے کو کسی وسیع تر تناظر میں دیکھنے کوتیار نہیں ہوتے۔ گیان چند جین نے اپنی زیربحث کتاب میں اپنے عمر بھر کے علمی تجربے کی روشنی میں یہی بات کہنے کی کوشش کی ہے کہ یہ فرسودہ نقطۂ نظر ہمیں اپنی زبان کی قدیم تاریخ سے معروضی واقفیت پیدا کرنے کی کوشش سے باز رکھتا ہے۔ ان کے خیال میں اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اردو والے اس امکان پر غور کرنے تک کو تیار نہیں کہ جب انگریزوں نے برصغیر پر اپنا اقتدار مستحکم کیا تب یہاں کے غیرمسلم باشندوں میں ایک چھوٹا یا بڑا گروہ ایسا موجود ہو سکتا تھا جسے مسلمان حکمران طبقوں کی بعض پالیسیوں اور اقدامات سے آزردگی رہی ہو، جسے مثلاً داستان سرائی کی محفلوں میں مسلمان فاتحین کے ہاتھوں بت پرستوں کی تباہی و بربادی اور تحقیروتذلیل کے بیانات سے تکلیف اور اہانت محسوس ہوتی ہو، اورنئے حالات نے جس میں اپنی پسند کی زبان اور رسم الخط کو اختیار کرنے کی خواہش پیدا کر دی ہو۔ بابایان اردو اس قسم کے کسی امکان کی طرف اشارہ تک کرنے سے چراغ پا ہو جاتے ہیں، جیساکہ جین صاحب کی اس کتاب پر ہونے والی بحث میں صاف دیکھا جا سکتا ہے۔
دوسرے موقف سے اعتنا کیے بغیر اپنے موقف کو واحد درست نقطۂ نظر سمجھنا اور اپنے مفاد کو مسلمہ طور پرباقی سب کے مفادات پر مقدم جاننا ہی وہ رویہ ہے جووسیع تر دائرے میں لسانی، مذہبی ، صنفی اور ثقافتی رواداری کو پنپنے نہیں دیتا۔ مثلاً اپنی ناک سے آگے نہ دیکھ پانے کی اسی معذوری کے باعث ہم مسلمانوں کا خیال یہ ہے کہ مذہبی جذبات صرف ہمارے ہوتے ہیں جن کا احترام کرنا پوری دنیا کی اولین (غالباً واحد) ذمےداری ہے۔ دوسروں کے مذہب کی مقدس سمجھی جانے والی ہستیوں اور عزیز رکھے جانے والے تصورات کی اگر توہین کی جائے تو ان کو غالباً کوئی خاص تکلیف نہیں پہنچتی اور اگر پہنچتی بھی ہو تو انھیں اس کا اظہار کرنے کا کوئی حق نہیں۔ مئی ۲۰۰۷ء میں جب پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایک غیرمسلم رکن نے ملک کے توہین مذہب کے قانون میں ایک ترمیم پیش کرنے کی کوشش کی جس کی رو سے اسلام کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کی مقدس ہستیوں کی توہین کو بھی قابل سزا جرم قرار دیا جائے، تو اسمبلی کے تمام مسلم ارکان نے متفق ہو کر اس تجویز کو بحث تک کے لیے منظور کرنے سے انکار کر دیا۔ دراصل ایک انتہائی منفرد اندازفکر کا حامل ہونے کے باعث ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ جب ہمارا مذہب، ہماری ثقافت، ہماری زبان، ہمارا رسم الخط وغیرہ سب سے اعلیٰ ہے تو دوسرے لوگ کس طرح کوئی دوسرا نقطۂ نظر رکھنے کی جسارت کر سکتے ہیں۔
جیساکہ میں نے اوپر کہا، اس پوری بحث پر مجھے تعجب بالکل نہیں ہوا،افسوس البتہ بہت ہے کہ اس کتاب کی صورت میں خودتنقیدی کا جونادر اور قیمتی موقع میسر آیا تھا اسے یوں بےدردی سے ضائع کیا جا رہا ہے۔


رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *