پیر، 23 مارچ، 2015

چیخ پر پابندی

آپ نے نیوز چینل کے کسی پروگرام کے وائز اوور میں شاید کبھی اس طرح کی بات سنی ہو، دہلی ایک خوبصورت شہر ہے، یہاں کی آب و ہوا میں ہندوستانی تہذیب سانس لیتی ہے،لال قلعہ، قطب مینار، ہمایوں اور رحیم خان خاناں کے مقبرے، باغ بیدل، غالب کی مزار اور حویلی یہاں کی تاریخی وراثت ہیں، یہاں کا فخر ہیں۔یہ بائیس خواجاؤں کی چوکھٹ ہے،یہ ہندوستان کا علمی و ثقافتی مرکز ہے،یہ فلانا ہے، یہ ڈھمکا ہے۔مگر دہلی دراصل ایک گندا شہر ہے۔یہاں جمنا کے پانی پر تیرتے ہوئے جھاگ کی میلی کچیلی بو ہے، سڑکوں پر دن کے ساتھ راتوں کو بھی نو دولتیوں کی بھاگتی ، لوگوں سے ٹکراتی اور بعض اوقات انہیں کچلتی ہوئی گاڑیاں ہیں، یہاں فیشن کے لیے دنیا کے مسائل پر بات کرتا ہوا وہ الیٹ طبقہ ہے جو ایک انقلابی آن بان کے ساتھ پیج تھری پر جلوہ گر ہونے کا منتظر رہتا ہے۔یہاں سگنل پر بھیک مانگتی ہوئی ادھ ننگی لڑکیاں ہیں، یہاں سچ مچ کے سانس لیتے ہوئے پندرہ سولہ سال کے معصوم لڑکوں کے تباہ ہوتے ہوئے ہاتھ ہیں۔یہ شہر اپنی تمامتر تاریخی عبرتوں کے ساتھ اندرپرستھ سے لے کر کناٹ پلیس تک مہابھارت سے غدر تک کے ہنگاموں کا امین ہونے کے باوجود اپنے مزاج میں اتنا ہی سخت ہے، جتنا شری کرشن کے آشیرباد سے پہلے تھا۔یہاں کے مزاج میں چاپلوسی ہے، خوشامد پرستی ہے، جھوٹی شان و شوکت ہے، سیاست کے لیے ضمیر کو بیچتے رہنے کا حوصلہ ہے، رشوت خوری ہے اور ذلیل و خوار لوگوں کے گلوں میں پڑی ہوئی نرگسیت کی تختیاں ہیں، جن پر بڑے بڑے حرفوں میں لکھا ہے، ’ابے سالے تو جانتا نہیں میں کون ہوں؟‘
میں پچھلے دس سالوں سے ان تمام خامیوں کو اچھی طرح جانتے بوجھتے دہلی شہر کا باشندہ ہوں۔یہاں میرے دوست ہیں، میرے دشمن ہیں۔میرے اپنے ہیں، میرے پرائے ہیں۔میں ہی کیا ان تمام برائیوں سے وہ سبھی لوگ واقف ہیں، جو یہاں آنکھ میچ کر جاگتے رہنا سیکھ گئے ہیں۔مگر سولہ دسمبر 2012کو ہونے والے ایک شرمناک واقعے نے ان تمام سڑی گلی دہلی شہر کی عادتوں پر سبقت حاصل کرلی۔ایک لڑکی کو ،جو رات کو اپنے ایک دوست کے ہمراہ فلم دیکھ کر واپس لوٹ رہی تھی، چند لوگوں نے مل کر سخت ذہنی و جسمانی نقصان پہنچایا، اس کی شرمگاہ کو زخمی کیا اور اس کے ساتھ وہ حرکت کی کہ سن کر سب لوگ لرز اٹھے۔اس واقعے کے چشم دید گواہ ایک پولیس کانسٹیبل کا کہنا ہے کہ اس لڑکی کی حالت اس وقت ایسی تھی جیسی کسی گائے کی بچھڑے کو پیدا کرنے کے بعد ہوتی ہے۔دہلی شہر کے لوگوں نے تو اپنی جس فراخ دلی کا ثبوت ان لڑکا لڑکی کی مدد نہ کرکے دیا تھا،وہ ایک الگ بات تھی،خود اس کی حفاظت پر مامور پولیس کا رویہ یہ تھا کہ حادثے سے تھوڑی دیر پہلے ایک شخص کی شکایت پر انہوں نے اسے تھپڑ رسید کرتے ہوئے چلتا کیا اور بس کے اندر موجود شرابیوں کو خاطر خواہ توجہ نہ دی۔پولیس اس قسم کی غنڈہ گردی پر توجہ دے بھی تو کیسے، کیونکہ اس کے اندر بھی اس قسم کے دہشت ناک جراثیم موجود ہوا کرتے ہیں۔کم از کم مجھے تو کبھی کسی خاکی وردی والے شخص کو دیکھ کر تحفظ کا احساس نہیں ہوا،ہاں یہ احساس شاید ہوا ہو کہ کہیں یہ بلا وجہ ستانے کا کوئی راستہ نہ ڈھونڈ لے۔لڑکی تو دور کی بات ہے، رات برات سڑک پر اگر کوئی لڑکا پولس کی وقت گزاری کاشکا ر ہوجائے تو اس کے لتے لگتے ہوئے دیر نہیں لگتی۔خیر، ذکر اس واقعے کا ہے اس لیے بات کو اس جانب نہیں موڑوں گا، وہ واقعہ سامنے آیا، چند ہی روز میں سارے مجرم گرفتار ہوئے، کچھ عرصے بعد انہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی، ایک نے (کہا جاتا ہے)اپنی جان لے لی اور ایک نابالغ مجرم کو جس کی عمر سترہ سال چھ ماہ تھی، تربیت گاہ بھیج دیا گیا۔اس واقعے کے خلاف سخت احتجاج ہوا، آنسو گیس اور پانی کے ذریعے بھیڑ کو تتر بتر کرنے کے جتن ہوئے، عصمت دری کے خلاف قوانین کو سخت بنانے اور ایسا کرنے والوں کو پھانسی دینے کے مطالبات کیے گئے، مگر رفتہ رفتہ بھیڑ کے غصے میں کمی آئی، سمجھدار لوگوں کی طرح ہر غم کو برداشت کرنے والی ٹینڈنسی کے فروغ پر زور دیا گیا اور بات آئی گئی ہوگئی۔
ابھی کچھ روز قبل اچانک ایک خبر آئی، ہندوستان میں ’انڈیاز ڈوٹر‘ نامی دستاویزی فلم پر پابندی لگادی گئی ہے۔اسی خبر کے ساتھ میں نے بھی اس فلم کے بارے میں سنا۔یوٹیوب پر تلاش کیا تو فلم نہیں مل سکی،مگر انٹرنیٹ کے زمانے میں کسی چیز پر حکومت کی طرف سے لگائی گئی پابندی ایک قسم کا مذاق ہے۔فیس بک پر کسی دوست کے شےئر کیے ہوئے لنک کے ذریعے میں نے اس پوری ڈاکیومنڑی کو اپنے موبائل پر دیکھا۔فلم دیکھنے کے بعد کوئی ایسی معقول وجہ مجھے اس میں نظر نہیں آئی، جس کی وجہ سے فلم پر پابندی لگائی گئی ہو، ہاں لیکن اس کی نامعقول وجوہات کی ایک طویل فہرست ہوسکتی ہے ۔مثال کے طور پر دہلی کے کمشنر کا یہ بوکھلایا ہوا بیان کہ ’دہلی ملک کے دوسرے شہروں کی طرح عورتوں کے لیے بالکل محفوظ شہر ہے۔‘، ایک نیتا کا اس بات پر اعتراض کہ اپنے پتا یا بھائی یا منگیتر کی بجائے کسی دوست کے ساتھ فلم دیکھنے جانے کی کیا تک تھی جبکہ ہمارے سماج میں اسے بری نظر سے دیکھا جاتا ہے، اس کیس کے وکیل دفاع صاحب کا خراب انگریزی لہجہ ایک ضمنی وجہ ہوسکتا ہے مگراصل وجہ شاید اس انگریزی میں ان کااس مری ہوئی عورت پر یہ بہتان لگانا کہ اسے اتنی سی سمجھ نہیں تھی کہ عورت ایک پھول کی طرح ہوتی ہے۔شاید اسے سمجھ نہ ہو، شاید وہ ایک بھوندو قسم کی لڑکی ہو جس نے دہلی شہر کو کچھ اتنا بھی بد صورت متصور نہ کیا ہو کہ چلتی ہوئی سڑک پر اسے بھنبھوڑا جائے اور لوگ چھاتی پھلا کر اس کی لاش سے سوالات کریں کہ آخر تم اپنی مریادا کیوں پھلانگ گئیں، یہ مریادا تو پرشوتم رام نے تمہارے لیے قائم کی تھی، اب تم اس ریکھا کا النگھن کرکے اس پار گئی ہو تو اب دس سروالے راون کو تمہیں جھیلنا ہوگا، مگر راون کہنا مناسب نہیں کیونکہ اس نے بھی سیتا جی کی مرضی اور خواہش کے بغیر ان سے زبردستی کرنے کا دسساہس نہیں کیا تھا۔اس فلم پر پابندی کی ایک اور وجہ ہے اور وہ ہے مجرم مکیش سنگھ کا ہندوستانیوں کی نظروں سے نظریں ملا کر یہ کہنا کہ ہمیں سزا دے کر تو آپ نے ہم جیسے ریپ کرنے والوں کو قتل کرنے پر بھی مجبور کردیا ہے، یعنی اب کوئی ریپسٹ ہماری طرح صرف ریپ کرکے چھوڑ نہیں دے گا، بلکہ عورت کو مار کر ہی دم لے گا، مکیش سنگھ کا یہ بیان قابل غور ہے کہ اسے یہ نہیں لگتا کہ کسی عورت کی شرم گاہ میں ہاتھ ڈال کر انتڑیاں باہر نکال لینا اسے جان سے مارنے کے برابر ہے، ان سب کے باوجود وہ بہت ہی سرد لہجے اور ٹھنڈے مزاج کے ساتھ ابھی اگلی عدالت کے فیصلے کا منتظر ہے اور اس بات کا خواہش مند بھی کہ عقل کے ناخن لیتے ہوئے حکومت اور عدلیہ اسے معاف کرے، اس کی سز ا میں تخفیف کرے ، وہ کسی ناصح کی طرح عورتوں کو یہ درس دیتا نظر آتا ہے کہ انہیں کس طرح اپنا بغیر نمک کا سادہ سا جیون گزارنا چاہیے اور گھر کی کھٹیا سے طوائف کے کوٹھے تک کے سارے حقوق مردذات کے ہاتھ میں سونپ کر راضی خوشی اس کے ساتھ زندگی بسر کرنی چاہیے۔پابندی کی ایک وجہ شاید اس بے وقوف بیان بازیے کا یہ لال سچ بھی ہوسکتا ہے کہ انڈین سوسائٹی میں جرم کیے بغیر ، ریپ کیے بغیر ، دبنگئی، غنڈہ گردی اور حق مارے یا چھینے بغیر سیاست کے دوار کا کسی پر کھلنا محال ہے، اس بے وقوف نے تو گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مصداق یہ الٹ دیا کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے دو سو سے زائد نیتاؤں پر اسی طرح کے مقدمے چل رہے ہیں۔
لیکن مجھے پابندی کی جو سب سے بڑی وجہ نظر آتی ہے وہ اس بھیانک واقعے کا وہ پس منظر ہے جو اس ڈاکیومنٹری کے بیس منٹ گزرتے ہی نمایاں ہوجاتا ہے۔ملک کے مختلف قصبوں، دیہات اور چھوٹے شہروں سے پیسہ کمانے کی لعنت کاطوق گلے میں ڈالے جو نوجوان دہلی میں آتے ہیں، یہاں بستے ہیں، رہتے ہیں، ان کی جنسی تسکین کا کوئی سامان نہیں ہوتا، سوائے اس کے کہ وہ خود پر جبر کیے جائیں۔مگر جبر کے باند کا وجود شراب کی ندی میں نہیں ہے، لیکن شراب کو قصوروار ٹھہرانا شاید غلط ہوگا کیونکہ اگر شراب کے نشے میں انہیں بس کو سڑک پر ٹھیک سے چلانے کا ہوش تھا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ خوب سمجھ رہے تھے کہ وہ کیا کررہے ہیں اور کیا نہیں، غصہ دراصل عورت کے ہونے پر نہیں، بلکہ عورت کے نہ ہونے پر تھا جس کی بنیاد پر اس واقعے نے جنم لیا۔ڈرائیور، جم ٹرینر، سبزی فروش اور اس طرح کے دھندے کرنے والوں کی کیا اوقات کہ دن کے کسی کونے میں بیٹھ کر اس جبر کی العطش پکارتی ہوئی زبان پر دو بوندیں ٹپکا سکیں۔دوسرے گھروں میں مداخلت منع، دن بھر کی تھکن کا تپتا ہوا آسیب، اپنے گھروالوں سے دوری کا شراپ اور ساتھ ہی ساتھ روزانہ بڑھتی ہوئی سیکس کی ایک اندھی خواہش ، جس کا کوئی حل نہیں سوائے اس کے کہ خود اطمینانی کا راستہ اختیار کرلیا جائے۔ایسے میں اگر ہندوستان ہیومن ٹریفکنگ اور سیکس ریکٹ کا گڑھ بن رہا ہے تو اس میں تعجب کیوں، باپ اپنی لڑکی کے ساتھ زنا بالجبر کررہا ہے تو افسوس کیوں۔اس مسئلے پر تو حکومت خاموش ہے کیونکہ عفت آمیز ملک ہے، صدیوں پرانی سبھیتا کا کچرا کرنے پر آخر کیسے تیار ہوا جائے، اس طرف سوچ بچار کرنے کی ضرورت کیسے محسوس ہو؟یہ جو ملک میں ڈھونگیوں، تانترکوں،ملاؤں اور بنگالی باباؤں کا ایک ریلا امڈا چلا آیا ہے، آخر اس کی کوئی تو وجہ ہوگی۔لوگ کیا ان کے پاس صرف کھانے، پہننے کے مسائل لے کر جاتے ہیں، میری رائے میں تو ان میں سے بیشتر اپنے گپت روگوں اور پوشیدہ خواہشوں کی سر مارتی ہوئی موجوں سے تنگ آکر ان چکروں میں پڑتے ہیں۔حکومت تو خیر دوسری طرف ، آپس میں لوگ ایک دوسرے کو اتنی مہلت نہیں دیتے کہ کبھی ان کا اپنا قریبی انہیں بتائے کہ وہ ایک عجیب ذہنی جنگ لڑرہا ہے اور اس کی وجہ اس کی جنسی بھوک ہڑتا ل ہے۔غریبی ہی ہر بار مسئلہ نہیں ہوتی، کسی معاملے میں غریب بھی تو مسئلہ ہوسکتا ہے، وہ غریب جسے اپنے خیالات کے اظہار کے مواقع تک میسر نہیں ہیں۔غریب پیٹ بھرنے کے لیے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں، مگر پیٹ بھرنے کے بعد کے بھی کچھ مسائل ہوا کرتے ہیں۔میں دہلی شہر میں تقریباً دس سال سے مقیم ہوں اور دیکھتا ہوں کہ یہاں عورت کو زیادہ تر لڑکے اور مرد اپنی شرمگاہوں سے ہی دیکھتے ہیں، انہیں عورت کا پورا وجود ایک بھرے اور سجے ہوئے تھال کی مانند دکھائی دیتا ہے،اکثر لوگوں کو میں نے اس بات پر ٹوکا بھی ہے کہ آخر دیکھ کر کیا مل جاتا ہے تو ان کا جواب ہوتا ہے، تسلی۔مگر یہ تسلی جھوٹی ہے، جس کی انتہا کہیں اور ہوتی ہے۔ابھی کچھ عرصہ قبل جب گھورنے کے معاملے میں عدالت عظمیٰ کا یہ بیان آیا تھا کہ کسی بھی لڑکی کو گھورتے ہوئے دیکھنے پر سزا ہوسکتی ہے تو واقعی مجھے عدلیہ کے اس فیصلے پر افسوس ہوا تھا، آنکھیں مسئلہ نہیں ہیں، جب مردوں کی شرمگاہیں مجبوری، افلاس، ڈر اور مصالحت کے اسٹیج پر ایک غیرمعینہ مدت تک کے لیے دھرنوں پر بٹھادی جائیں گی تو ان کی ساری ہوس آنکھوں میں نہیں آئے گی تو کیا ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ ایک طرف ہم سماج میں موجود مرد کو آزادی کا صحیح مفہوم سمجھانے سے قاصر ہیں تو دوسری طرف عورت پر ہونے والے مظالم کو روکنے میں ناکام۔ہم نے سماج کی ایسی تربیت ہی نہیں کی کہ ہم کسی لڑکے کو سمجھا سکیں کہ لڑکی کوئی گندم کا دانہ نہیں جسے ریپ ہوتے ہی گھن لگ جائے، یہ ایک قسم کا حادثہ ہے ، جو اگر کسی عورت کے ساتھ گزرے تو اسے زبردست نفسیاتی دھچکا لگتا ہے، ایسے میں اس کی جانب بڑھے ہوئے ہاتھوں میں اضافہ کرنے کی بجائے ہم اسے اور تنہا کردیتے ہیں، اس کا اعتماد چھین کر اسے ایک ایسے عذاب میں مبتلا کردیتے ہیں کہ وہ کپڑے پہننے کے باوجود خود کو ہروقت ننگا تصور کرنے لگتی ہے۔عورت کے اس ذہنی و اعصابی نقصان کے بدلے میں اس کے ساتھ زبردستی کرنے والے کو سزا ملنی چاہیے نہ کہ عورت کو، اور اس کا راستہ یہ ہے کہ سماج میں عورت کی عزت کا دارومدار اس کی شرمگاہ پر نہ ہو، بلکہ اس کی قابلیت، اس کی ہمت اور اس کے مزاج پر ہو۔اسی بے ہودہ نظام کی وجہ سے ہم ایک ایک ایسے سماج میں جی رہے ہیں جہاں عورت کا ریپ کرنے پر وہی لوگ سب سے زیادہ آمادہ ہیں جو عورت کو پاکیزگی کا درس دیتے ہیں اور ریپ کا شکار ہوجانے والی لڑکی سے کوئی رشتہ نہیں جوڑنا چاہتے۔
مکیش سنگھ کی بے غیرت آنکھیں بتانے کے لیے کافی ہیں کہ ایک حمام میں سب ننگے ہیں، سب ایسے ہی ہیں ، بس ہم وہ بد نصیب ہیں جوگرفتار کرلیے گئے، جن کوشراب نوشی نے قتل جیسے سنگین جرم پر اکسادیا ورنہ یہ اگر محض ایک ریپ ہوتا تو وہ کوئی ایسی بڑی بات نہ تھی کیونکہ بقول بی بی سی، ہندوستان میں تو ہر دومنٹ میں ایک ریپ ہوتا ہے۔اس لیے مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں عورت کا حق مارنے والے ایک خراب ملک میں رہتا ہوں، جس کا دارالحکومت اس معاملے میں مزید دوغلا ہے اور حالات بدلنے کی اگلے پچاس سالوں تک کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔بس زیادہ سے زیادہ کوئی چیخے تو حکومت کا تیسرا ہاتھ اس کا منہ بند کرنے کے لیے کافی ہے۔

مضمون نگار: تصنیف حیدر

جمعہ، 6 مارچ، 2015

اجمل کمال کی تحریر

اس سال (۲۰۱۲) مارچ میں جب میں ہندوستان کے سفر کے دوران پونا میں تھا، بمبئی سے کچھ دوست مجھ سے ملنے کے لیے آئے، کیونکہ ویزا کی پابندیوں کے باعث میرے لیے بمبئی جا کر ان سے ملنا ممکن نہ تھا۔ ان دوستوں میں اسلم پرویز بھی شامل تھے جنھوں نے گفتگو کے دوران اپنے منصوبے کا ذکر کیا کہ وہ سعادت حسن منٹو پر ایک کتاب مرتب کر رہے ہیں جس میں مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں کے تاثرات شامل ہوں گے جن کی زندگی میں منٹو کو پڑھنا ایک اہم تجربے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ میرے تاثرات بھی حاصل کرنا چاہتے تھے اور میری رہنمائی کے لیے ایک سوالنامہ بھی تیار کر کے لائے تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ اس میں شامل سوالات کا تعلق زیادہ تر منٹو پر لکھی جانے والی تنقید (’’منٹوشناسی‘‘) سے تھا، اور ان کا جواب دینے تک محدود رہنے سے ایک پڑھنے والے کے طور پر میرے تجربے کا احاطہ ہونا دشوار تھا۔ اس لیے زیرنظر تحریر میں میں نے ان میں سے چند سوالوں کا جواب دینے سے پہلے منٹو کی تحریروں کے ساتھ اپنے تجربے کے خدوخال واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
۱
میرا تعلق اس نسل سے ہے جو منٹو کی وفات (۱۹۵۵) کے چند برس بعد دنیا میں آئی۔ جس وقت میرا تعارف منٹو کی کتابوں سے ہوا (یعنی ۱۹۷۳ کے آس پاس) اس وقت تک پاکستان کے قیام، اور اس کے جلو میں ہونے والے فسادات اور دوطرفہ جبری نقل مکانی کو چوتھائی صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا۔ بلکہ تب تک مشرقی پاکستان بھی الگ ہو کر بنگلہ دیش بن چکا تھا۔ میں نے حیدرآباد سندھ کے سٹیلائٹ ٹاؤن لطیف آباد میں، جو اردو بولنے والے مہاجروں کی اکثریت کا علاقہ ہے، ایک ایسے ہائی اسکول سے کچھ عرصہ پہلے ہی میٹرک کیا تھا جسے جماعت اسلامی کے ہمدردوں پر مشتمل ایک گروپ نجی طور پر چلاتا تھا۔ اسکول میں ہمیں مولانا مودودی، اقبال اور نسیم حجازی کی کتابیں پڑھنے پر اکسایا جاتا تھا اور جماعت کی طلبا تنظیم اسلامی جمعیت طلبا کی رکنیت کے مرحلے طے کرنے کی ترغیب دی جاتی تھی۔ سندھ کے شہری علاقوں (کراچی، حیدرآباد، سکھر وغیرہ) میں آ کر بسنے والی مہاجر آبادی اس وقت مذہبی جماعتوں کے زیراثر تھی۔ اس سیاست کا ایک واضح نسلی و لسانی پہلو بھی تھا کیونکہ مضبوط مرکز کی حامی اور قدامت پرست مذہبی سیاست کو چھوٹے صوبوں کی مقامی اکثریت کی ناگوار ثقافتی اور سیاسی امنگوں کی نفی کرنے کا ایک موثر ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا کے زیراہتمام کرائے جانے والے ۱۹۷۰ کے عام انتخابات میں دائیں بازو کی جماعتوں کو مشرقی اور مغربی پاکستان میں اپنی فتح کا یقین تھا، لیکن مارشل لا حکومت کی سرپرستی کے باوجود انھیں سخت ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد میں مشرقی پاکستان میں کیے جانے والے بہیمانہ فوجی ایکشن کو مغربی پاکستان کی تمام قابل ذکر پارٹیوں کی مکمل حمایت حاصل رہی جن میں جماعت اسلامی بھی شامل تھی۔
مذہبی سیاست، اور اس کی سطح کے نیچے چلنے والی اقتدارپرست اور عوام دشمن زیریں لہر، کے دوغلےپن کے انکشاف نے میرے ذہن کو پچھلے کئی برسوں کے زبردست پروپیگنڈے سے متنفر اور سخت پراگندہ کر رکھا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک نوعمر فرد کے طور پر میں ذات پات کے بھیدبھاؤ پر مبنی قدامت پرست معاشرے میں اپنی آزادی کے امکانات تلاش کر رہا تھا اور انھیں نہایت محدود پا کر فرسٹریشن اور تلخی میں مبتلا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب میرا، اور غالباً میری نسل کے بہت سے دوسرے لوگوں کا بھی، منٹو سے تعارف ہوا۔ منٹو کے اٹھائے ہوے سوالات نے نہ صرف میرے ذہن میں اردگرد کے ماحول کی منافقت اور اقدار کے دیوالیہ پن کو واضح کیا بلکہ بحیثیت قوم ہماری پچھلے تقریباً سو برس کی تاریخ کے بارے میں بولے گئے تقریباً ہر جھوٹ کا پردہ چاک کیا۔ چونکہ منٹو کی آخری دور کی تحریریں ۔۔ کہانیاں اور مضامین ۔۔ تقسیم کے موقعے پر ہونے والے ہلاکت خیز فسادات اور ان کے بعد کے واقعات سے گہرا ربط رکھتی ہیں، مجھے ان تحریروں میں ہماری قومی تاریخ کا حقیقت پر مبنی خاکہ دکھائی دیا جس کی روشنی میں ان بھیانک واقعات کو ان کے درست تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے جو منٹو کی موت کے بعد کی دہائیوں میں پیش آئے۔
منٹو کے اسلوب کی جس خصوصیت نے مجھے سب سے زیادہ متاثر اور حیرت زدہ کیا وہ ان کی جرأتِ اظہار ہے۔ میلان کنڈیرا کا یہ قول تو میں نے کہیں پندرہ برس بعد پڑھا کہ ’’کافکا معاشرے کے ایک بےحد تسلیم شدہ تصور کو چیلنج کرتا ہے، اور یہی سارے ناول نگاروں کا کام ہے کہ وہ متواتر ان بنیادی تصورات کو چیلنج کرتے رہیں جن پر ہمارا وجود قائم ہے،‘‘ لیکن اپنی نوعمری کے دنوں میں، جب طےشدہ سماجی، مذہبی، اخلاقی اور سیاسی اقدار کا جبر میرے ذہن پر بڑی حد تک مسلط تھا، منٹو کی تحریروں میں مجھے وہ اعتماد نظر آیا جو ان کے جرأت مندانہ اسلوب کی روح ہے اور جس سے کام لیتے ہوے انھوں نے ان مروج اقدار کی منافقت، فرسودگی اور بربریت کو اپنے پڑھنے والوں کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔
منٹو کے ادبی کارنامے کو، جو زبان، اسلوب، موضوعات اور تہذیبی و سیاسی نقطۂ نظر کے اعتبار سے ہماری روایت سے ایک گہرے انحراف پر مبنی ہے، اپنے طور پر پوری طرح سمجھنا میرے لیے بعد میں، رفتہ رفتہ ممکن ہوا جب میں نے ان کے ہم عصر لکھنے والوں اور ان کے پیشرووں کو پڑھا۔ اپنے مطالعے کے عمل میں میں اس سادہ نتیجے پر پہنچا کہ کسی تخلیقی ادیب کے کام کو درست طور پر سمجھنے کے لیے اسے اس کے دور کے تاریخی تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔ تنقید نے، چند اہم اسباب کی بنا پر جن کا اندازہ مجھے بعد میں ہوا، اس عمل میں میری بہت کم مدد کی۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اردو تنقید کے خاصے بڑے حصے نے اس سلسلے میں روشنی کے بجاے تاریکی اور کنفیوژن پھیلانے کا کام کیا ہے۔
انیسویں صدی کے نصف آخر میں جب برصغیر کی دوسری زبانوں کی طرح اردو میں بھی مشینی طباعت متعارف ہوئی، اور اس کے نتیجے میں چھپے ہوے لفظ کا دوردورہ ہوا تو تاریخی عوامل کے زیراثر طباعتی اداروں، اخباروں اور رسالوں کا انتظام شرفا (یعنی شمالی ہندوستان کے مسلمانوں کی اعلیٰ سمجھی جانے والی ذاتوں کے افراد) کے حصے میں آیا جو نام نہاد ’’علمی گھرانوں‘‘ سے تعلق اور علمی وسائل پر اجارہ داری رکھتے تھے اور ۱۸۵۷ سے پہلے تک بادشاہوں، نوابوں اور امرا کی سرپرستی پر گزربسر کرتے آئے تھے۔ (اردو صحافت اور طباعت کے آغاز میں سورن ہندو ذاتوں کے افراد کا بھی اہم حصہ تھا، لیکن بیسویں صدی کے وسط تک پہنچتے پہنچتے وہ اردو کے مرکزی دھارے سے قریب قریب مکمل طور پر نکل گئے یا نکال دیے گئے۔) اردو میں پہلےپہل شائع ہونے والے مواد کا جزوِ اعظم تو مذہبی نوعیت کی تحریریں تھیں (یہ صورتِ حال آج بھی ہے) لیکن ادب کے زمرے میں آنے والی تحریریں بیشتر داستانوں پر مشتمل تھیں جو اس سے پہلے امرا اور ان کے متوسلین کی تفریحِ طبع کے لیے زبانی سنائی جایا کرتی تھیں۔ ان داستانوں کا مرکزی موضوع اصلی یا خیالی مسلمان جنگجوؤں کی اصلی یا خیالی فتوحات ہوتی تھیں جن کے گرد مختلف قسم کی کہانیاں تیار کی جاتی تھیں۔ طباعت اور اشاعت سے وابستہ شرفا نے ’’قومی زوال‘‘ کا ایک بیانیہ تیار کر کے اسے ایک مسلمہ روایت کی صورت دے دی جس کی رو سے ’’مسلمان‘‘ (جس سے ان کی مراد اونچی ذاتیں تھیں) ہندوستان میں باہر (عرب، وسط ایشیا اور ایران) سے مسلمان جنگ آزماؤں کی فتوحات کے نتیجے میں حکمرانوں کے طور پر آئے تھے اور امتدادِزمانہ نے انھیں حکمرانی سے محروم کر دیا تھا۔ ان کے نزدیک ‘‘ہنداسلامی تہذیب‘‘ کا احیا (یعنی کسی نہ کسی صورت میں ’’مسلمانوں کی حکمرانی‘‘ کی بحالی) برصغیر کے مسلمانوں کے قومی مقصد کا درجہ رکھتی تھی۔ نئے دور میں رسل و رسائل کی نئی سہولتوں کے ذریعے سے جب انھیں برصغیر سے باہر کی بدلتی ہوئی دنیا کا ادراک ہوا تو ’’مسلم امّہ‘‘ کا تصور ایجاد کیا گیا جس کا اس سے پہلے کہیں کوئی نشان نہیں ملتا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں، جب ترکوں کی عثمانی سلطنت مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور بلقان کے علاقوں میں اپنے نوآبادیاتی مقبوضات سے دستبردار ہونے کی تاریخی کشمکش میں مبتلا تھی، اردو کی ادبی اور صحافتی دنیا کو ایک بنی بنائی مسلمان خلافت ہاتھ آ گئی جس سے برصغیر کی مسلمان آبادی کی سیاسی امنگوں کو، مقامی اور حقیقی مسائل سے ان کا رخ موڑ کر، وابستہ کیا جا سکتا تھا، اور کیا گیا۔
اردو کتابوں، رسالوں اور اخباروں کے پڑھنے والوں میں بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی جنھوں نے نوآبادیاتی حکومت کی متعارف کرائی ہوئی عام تعلیم حاصل کی تھی اور نئے سماجی اور ترقیاتی اقدامات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نئے پیشے اختیار کیے تھے۔ یہ تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ اردو کے شرفا ادیبوں اور صحافیوں کی مطبوعات کو خرید کر پڑھنے والے، جنھوں نے امرا کی سرپرستی کا دور ختم ہونے کے بعد ان شرفا کو ایک جدید ذریعۂ معاش فراہم کیا، ’’زوال‘‘ اور ’’احیا‘‘ کے اس غیرحقیقت پسند بیانیے پر ایمان لے آئے، اگرچہ ان کی اکثریت مقامی درمیانہ اور نچلی ذاتوں سے تبدیلی مذہب کے ذریعے مسلمان ہوئی تھی۔ یہ لوگ نہ کہیں باہر سے آئے تھے اور نہ کبھی حکمران طبقوں میں شامل رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ دنیا کے دوسرے خطوں میں اپنی نوآبادیات قائم کرنے والی ترک سلطنت سے ان کا نہ ماضی میں کوئی رشتہ رہا تھا اور نہ اس کے خاتمے کے دور میں تھا۔ پھربھی ان میں سے بہت سے لوگ شرفا کے پروپیگنڈے کے اثر میں آ گئے اور بعض معلوم ہوتا ہے کہ اب تک ہیں۔ آگے چل کر داستانوں کے مرکزی موضوع ۔۔ یعنی فتح اور حکمرانی، زوال اور احیا ۔۔ نے (حالی اور اقبال کی ’’قومی شاعری‘‘ کے علاوہ) ’’اسلامی تاریخی ناول‘‘ کے روپ میں اپنا جلوہ دکھایا اور یہ روایت ۱۹۴۷ کے بعد پاکستان کے جنگی ادب اور حالیہ دنوں کے جہادی ادب میں کارفرما دیکھی جا سکتی ہے۔
اردو میں جدید دور کے ابتدائی فکشن نے اپنے لیے جو مرکزی موضوع چنا وہ بدلے ہوے، زوال پذیر دور میں شرفا کو درپیش مشکلات اور اپنی وضعداری اور قدیم اقدار کو قائم رکھنے کی کوششوں سے متعلق تھا۔ نئے دور کی بابت ڈپٹی نذیر احمد، مرزا رسوا، راشدالخیری، خواجہ حسن نظامی وغیرہ کا رویہ بڑی حد تک مخاصمت اور شک پر مبنی تھا۔ امرا کی سرپرستی کا سنہری دور ماضی کا خواب ہو گیا تھا اور نئے نوآبادیاتی حکمرانوں کی سرپرستی اور نئے دور میں اپنا بلند مقام حاصل کرنے میں سورن ہندوؤں سے مسابقت کا کٹھن مرحلہ درپیش تھا۔ اس کے علاوہ نئے دور کے نئے خیالات سے، جن میں انسانی گروہوں اور فرقوں کی برابری، مردوں اور عورتوں کی مساوات اور جمہوریت کے رجحانات شامل تھے، اقدار کے اس ازکاررفتہ نظام کو زک پہنچنے کا اندیشہ تھا جسے ’’ہنداسلامی تہذیب‘‘ کے نام سے برصغیر کے مسلمانوں کے مسلمہ قومی ورثے کی شکل میں ڈھال دیا گیا تھا اور جس میں کسی قسم کی تبدیلی سخت ناروا سمجھی جاتی تھی۔ یہی رویہ اکبر الہ آبادی کی شاعری میں بھی کارفرما دکھائی دیتا ہے۔
تاہم، عام تعلیم کے پھیلاؤ، پیشوں کی تبدیلی اور برصغیر کے معاشرے میں عمومی بیداری کے نتیجے میں سماجی تبدیلی کا جو عمل شروع ہوا اس کا ادب اور صحافت پر اثرانداز ہونا ناگزیر تھا۔ پریم چند نے اردو میں اس قسم کے جدید فکشن کی طرح ڈالی جو بنگلہ، ہندی اور دیگر مقامی زبانوں کی ادبی پیش رفت سے ہم آہنگ تھا اور جس میں نئے دور کے موضوعات کو نئے اسلوب میں برتا جاتا تھا۔ یہ موضوعات اور اسلوب دونوں اردو فکشن کی اس وقت تک کی روایت سے واضح انحراف کی حیثیت رکھتے تھے۔ ۱۹۳۲ میں نئے خیالات کے زیراثر چار دوستوں کے ایک گروپ نے ۔۔ جو سجاد ظہیر، احمد علی، رشید جہاں اور محمودالظفر پر مشتمل تھا ۔۔ لکھنؤ سے ’’انگارے‘‘ کے عنوان سے اپنی کہانیوں کا مجموعہ شائع کیا، جو ادبی معیار کے لحاظ سے کچھ خاص قابلِ ذکر نہ تھیں لیکن اردو فکشن کے نئے رجحانات کی سمت کا پتا دیتی تھیں۔ اس مجموعے کی اشاعت پر قدامت پرست شرفا نے اچھاخاصا ہنگامہ برپا کیا اور نوآبادیاتی سرکار سے فریاد اور احتجاج کر کے اس پر پابندی عائد کروا دی، لیکن یہ رجحانات آگے چل کر اور زیادہ مضبوط ہوے اور ۱۹۳۶ میں لکھنؤ ہی میں ہونے والے ایک اجتماع میں نئے ادب کی باقاعدہ داغ بیل پڑی۔ اردو کے ان نئے لکھنے والوں نے ماضی کے جنگجو فاتحین کے قصیدے اور نئے دور کے ماضی پرست شرفا کے طبقاتی زوال کے نوحے لکھنے کے بجاے برصغیر کے بدلتے ہوے معاشرے کے کرداروں اور مسائل کو اپنی کہانیوں، ناولوں اور نظموں کا موضوع بنایا اور ہیئت اور اسلوب کے نئے اور کامیاب تجربے کیے۔ ۱۹۴۰ اور ۱۹۵۰ کی دہائیوں میں، جسے اردو میں نئے فکشن اور نئی شاعری کا سنہری دور کہنا ہرگز مبالغہ نہیں، بہت سے نئے اور باصلاحیت لکھنے والے سامنے آئے۔ منٹو بھی ان میں سے ایک تھے اور اپنے مخصوص اسلوب اور تہذیبی و سیاسی نقطۂ نظر کے باعث انھوں نے اپنا منفرد مقام حاصل کیا۔
شرفا کی قائم کردہ ادبی روایت سے انحراف کی جو صورت منٹو کی تحریروں میں دکھائی دیتی ہے اس میں مجھے دو نمایاں خصوصیات محسوس ہوتی ہیں۔ پہلی خصوصیت یہ ہے، جس کی طرف منٹو کے مضامین، دیباچوں اور تقریروں میں بھی واضح اشارہ کیا گیا ہے، کہ انھوں نے اپنے بہت سے کردار اس نچلے طبقے سے چنے جو روایتی قدامت پرست معاشرے میں بھی زندگی گزارنے کے وسیلوں اور عزت دونوں سے محروم تھا اور نئے، بدلتے ہوے نوآبادیاتی معاشرے میں بھی اس کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ دوسری، اور میری نگاہ میں کہیں زیادہ اہم، خصوصیت یہ ہے کہ بدلے ہوے حالات میں برصغیر کے روایتی مسلمان معاشرے کی مروج اقدار کی فرسودگی، منافقت اور بربریت کو واضح کر کے دکھانے کے معاملے میں منٹو نے کسی ابہام یا عذرخواہی کو قریب نہیں پھٹکنے دیا۔ سیاسی اعتبار سے بھی منٹو کا نقطۂ نظر مسلمان شرفا سے مختلف رہا جو ڈپٹی نذیر احمد اور سرسید سے لے کر سر اقبال تک نوآبادیاتی حکومت سے بنا کر رکھنے اور اس کے خلاف چلنے والی آزادی پسند تحریکوں سے الگ تھلگ رہنے کی تلقین کرتے آئے تھے۔ پریم چند کی طرح منٹو نے بھی اپنی افسانہ نگاری کا آغاز نوآبادیاتی غلامی کے خلاف احتجاج سے کیا۔ منٹو کی کہانیوں کا اشتعال انگیز پہلو اتنا واضح تھا کہ انھیں ۱۹۴۷ سے پہلے اور بعد میں، سماجی غیظ و غضب کے علاوہ، کئی بار مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
منٹو کی ادبی زندگی کا آخری دور، جو تقسیم کے بعد کے لاہور میں گزرا، سب سے زیادہ اہم اور ہنگامہ خیز ثابت ہوا۔ اس میں انھوں نے تقسیم کے موقعے پر رونما ہونے والے انسانی المیے اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا۔ فسادات اور جبری نقل مکانی کے بھیانک سانحے کے متعلق منٹو نے اپنی مخصوص جرأت مندی سے اس واضح خیال کا اظہار کیا کہ مروجہ اخلاقی اقدار، بشمول مذہبی اقدار، جو شروع سے ان کی شدید تنقید کا ہدف رہی تھیں، اس سانحے کو رونما ہونے سے روکنے کی ہرگز صلاحیت نہ رکھتی تھیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد کے اس دور میں منٹو نے اپنی تخلیقی بصیرت سے کام لیتے ہوے اس تہذیبی بحران کی سنگینی کا وہ تجزیہ پیش کیا جو صرف ان کی سطح کے ایک عظیم تخلیقی فنکار ہی سے ممکن تھا۔

۲
اردو کی ادبی تنقید نے، مجموعی طور پر، منٹو کے تخلیقی کارنامے کو درست تناظر میں سمجھنے میں پڑھنے والوں کی کوئی مدد نہیں کی۔ منٹو کو، یا کسی بھی تخلیقی ادیب کو، اس کے دور سے الگ کر کے دیکھا نہیں جا سکتا، اور نہ اس کے ہم عصروں سے جدا کر کے سمجھا جا سکتا ہے۔ تاہم اردو تنقید عموماً اس سے پرہیز کرتی ہے۔ ہمارے بیشتر نقاد اپنا بیشتر وقت ادیبوں کو ان کے ہم عصروں وغیرہ کے مقابلے میں ’’پلیس‘‘ کرنے یا ان کو مختلف مقامات پر فائز کرنے کے عجیب و غریب مشغلے میں گزارتے ہیں۔ اس کارگزاری سے، ظاہر ہے، ادب پڑھنے والوں کا کچھ بھلا نہیں ہوتا۔
وہ سب ادیب جس معاشرے میں رہتے ہوے اس کے بارے میں لکھ رہے تھے، اس کی سب سے نمایاں خصوصیت تبدیلی تھی۔ صدیوں پرانا جامد سماجی نظام ٹوٹنا شروع کر رہا تھا۔ اسی تبدیلی کے نتیجے میں نیا ادب، اور اس کے پڑھنے اور لکھنے والے وجود میں آئے تھے۔ منٹو اور ان کے ہم عصروں کے کام کا اہم ترین حصہ یہ تھا کہ انھوں نے ادب کے ذریعے انسانی زندگی کو دیکھنے کے نئے طریقے اور اسے بیان کرنے کے لیے نئے لسانی اور ادبی پیرائے وضع کیے۔ اور اس عمل میں بدلتی ہوئی اقدار کا ساتھ دیا۔ ان تخلیقی ادیبوں کے عمل کے برعکس اردو تنقید کا رویہ مجموعی طور پر قدامت پرست اور اشراف پسند رہا ہے۔ ترقی پسند نقادوں کے ردعمل میں، جنھوں نے نئے ادب کو مارکسی حدود میں قید کرنے کی ناکام کوشش کی، ان قدامت پرست نقادوں کے ایک حلقے نے خود کو (’’نئے ادب‘‘ سے ممتاز کرنے کے لیے) ’’جدید ادب‘‘ کا علمبردار قرار دے لیا، اگرچہ وہ واضح طور پر تبدیلی کے مخالف اور قدیم ادبی و تہذیبی اقدار کے حامی تھے۔ اس علمبرداری یا اصطلاحوں کی شعبدہ بازی سے، ظاہر ہے، سنجیدہ اور روحِ عصر سے ربط رکھنے والے تخلیقی ادیبوں کو تو کیا فرق پڑ سکتا تھا، البتہ بہت سے پڑھنے والوں کے ذہنوں میں اس نے خاصا کنفیوژن پیدا کیا اور کم صلاحیت رکھنے والے بعض ادیب اسے شہرت حاصل کرنے کا ایک ریڈی میڈ نسخہ سمجھ بیٹھے۔
جدیدیت کی علمبرداری کرنے والے اس کی کوئی واضح تعریف متعین کرنے سے بچتے ہیں۔ جب کبھی اس کی وضاحت کی جاتی ہے تو عموماً اسے محض ترقی پسند تنقید کی ضد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، یعنی ’’ادب براے زندگی‘‘ کے نعرے کا جواب ’’ادب براے ادب‘‘ کے نعرے سے دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر جدیدیت کی اس تعریف کو پیش نظر رکھا جائے جو محمد حسن عسکری نے اپنے آخری دور کے کتابچے ’’جدیدیت عرف مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ‘‘ میں بیان کی ہے تو اس کنفیوژن کا بڑی حد تک مداوا ہو سکتا ہے۔ عسکری نے جدیدیت کو ایسے سماجی، علمی اور ادبی رجحان کے طور پر ۔۔ اگرچہ شدید مخاصمانہ انداز میں ۔۔ بیان کیا ہے جو قدیم تعبیروں اور تعبیرکنندوں کے استناد کو تسلیم نہیں کرتا، کسی الوہی ہستی کے بجاے انسان کو تمام فلسفیانہ اور اخلاقی جستجو کا مرکز سمجھتا ہے اور زندگی کے ہر پہلو پر انسانی عقل اور تجربے کے ذریعے غور کرنے کو قدیم صحیفوں کے اقتباسات نقل کرنے پر ترجیح دیتا ہے۔ جہاں تک ادب کا تعلق ہے، روایت پسندی اور جدیدیت پسندی کے رجحانات میں یہی بنیادی فرق ہے، اور اگر اس فرق کو درست مانا جائے تو پھر ’’ترقی پسند‘‘ اور ’’جدید‘‘ کی بحث ۱۹۳۰ کی دہائی میں شروع ہونے والے نئے ادب کے رجحان کی ایک ضمنی، داخلی بحث محسوس ہونے لگتی ہے۔ مثلاً عسکری کی بیان کردہ اس تعریف کی رو سے آپ فیض، ن م راشد اور میراجی کے مابین کیونکر فرق کریں گے اور ان میں سے کس کو ’’غیرجدید‘‘ قرار دیں گے؟
’’منٹوشناسی‘‘ کی اصطلاح بھی مجھے بےخیالی میں گھڑی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اس سے مجھے ’’اقبال شناسی‘‘ کی اصطلاح یاد آتی ہے جو پاکستان میں سرکاری وظیفہ خواروں یا تنخواہیوں کی بنائی ہوئی ہے اور جس کی مدد سے وہ اقبال کی شاعری اور نثری بیانات کو اپنے محدود اور تنگ نظر سیاسی مقاصد اور ذاتی اغراض کے لیے استعمال کیا کرتے ہیں۔ اس کی دیکھادیکھی کئی اور قسم کی شناسیاں بھی وجود میں آ گئی ہیں۔ میرے نزدیک منٹو کو ایسی کسی شناسی کی ضرورت نہیں۔ ایک زندہ اور بامعنی ادیب کے طور پر منٹو کو پڑھ کر ہم دراصل انفرادی طور پر خود سے اور اپنے اجتماعی ماضی اور حال سے شناسائی پیدا کرتے ہیں۔ جہاں تک ادبی نقادوں کی کارگزاریوں کا تعلق ہے وہ عموماً اس عمل سے یکسر بےتعلق رہتی ہیں۔
اردو تنقید کی اس بےمصرفیت کی وجہ میرے خیال میں یہ ہے کہ اس کا خطاب سراسر لکھنے والوں سے رہا ہے نہ کہ پڑھنے والوں سے۔ سادہ لوحی پر مبنی جو سوال ہماری تنقید میں شدومد سے زیربحث رہے ہیں وہ عموماً یہ ہوتے ہیں: لکھنے والوں کو لکھتے وقت کس سمت رخ کر کے کیا نیت باندھنی چاہیے، کن موضوعات پر لکھنا چاہیے اور کن سے پرہیز کرنا چاہیے، کن مروجہ اور مسلّمہ اقدار کو پیش نظر رکھنا چاہیے، اور (یہاں تک کہ) کیسے لکھنا چاہیے۔ ظاہر ہے کوئی معقول لکھنے والا ان ہدایات کو خاطر میں لانے سے رہا؛ یہ سب فیصلے خود اس کے کرنے کے ہیں نہ کہ کسی اور کے، اور نقاد جیسی غیرتخلیقی مخلوق پر تو انھیں ہرگز نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اور باقی رہا پڑھنے والا، تو یہ سب اس کا دردِسر ہی نہیں، سواے اس کے کہ اس سے کسی ادبی تحریر کے متن پر توجہ دینے کے بجاے لکھنے والے کی نیت بھانپ کر اسے قبول یا مسترد کرنے کی توقع کی جائے۔ منٹو نے اس تمام سرگرمی کا تصفیہ یہ کہہ کر بخوبی کر دیا تھا کہ اردو ادب کا بھلا اس میں ہے کہ نقاد جو کچھ کہتے ہیں اس کا الٹ کیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں یہ بات منٹو نے اس بےمعنی شور سے تنگ آ کر کہی ہو گی جو دراصل اس مقدس مقصد سے مچایا جاتا ہے کہ تخلیقی ادیب کو، جو ایک بدلتے ہوے معاشرے کے بدلتے ہوے فرد کی حیثیت سے اپنا تخلیقی اظہار کرنے میں خود کو آزاد سمجھتا ہے، کسی نہ کسی قسم کی شریعت کی قید میں لایا جائے۔
منٹو کے بارے میں بھی جو کچھ تنقید کے نام پر لکھا گیا وہ ان کی تحریروں میں سے چند ایک کو چن کر انھیں اپنی ترجیح کے معنی مطابق پہنانے اور ان کی تحسین یا تنقید کر کے ادبی اور غیرادبی سیاست کے میدانوں میں اپنی پسند کی ادبی اور سماجی اقدار کو آگے بڑھانے سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ ممتاز شیریں اور محمد حسن عسکری نقادوں کے دائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے جو بائیں بازو کے نقادوں کے ردعمل میں پیدا ہوا تھا اور اب تک اسی ردعمل میں مبتلا ہے۔ ان دونوں نے تقسیم کے بعد کے برسوں میں منٹو کی تحریروں کو اپنے اختیارکردہ ادبی اور سیاسی موقف کو قوت دینے کی کوشش میں استعمال کیا۔ اس عمل میں انھیں منٹو کی تحریروں کے ایک بڑے حصے اور خود اس کے ادبی اور سیاسی موقف کو نظرانداز کرنے کی ضرورت پیش آئی کیونکہ وہ ان کے موقف کی عین ضد تھا۔ ممتاز شیریں اور عسکری کا بول بالا (اور مخالف گروہ کے نقادوں کا منھ کالا) کرنے کی کوشش کرنا اردو ادبی تنقید کی مخصوص سیاست کا حصہ رہا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ پڑھنے والوں پر اس سیاست سے دلچسپی لینا فرض ہے۔ اس قسم کی بحث میں منٹو کی تحریروں کے متن اور معنی سے اتنا سروکار نہیں رکھا جاتا جتنا ان لاجواب نظریوں سے جو ممتاز شیریں اور عسکری نے (یا مخالف کیمپ کے نقادوں نے) اپنی اپنی پتنگ اڑانے کے لیے ایجاد کیے۔ منٹو (یا عصمت یا میراجی یا کرشن چندر یا کسی اور) کا نام لے کر شروع ہونے والی بحث ان کی تحریروں پر بات کرنے کے بجاے اس قسم کی لن ترانیوں میں پڑ جائے کہ شریف عورتوں اور صالح مردوں کو چھوڑ کر رنڈیوں، دلّالوں اور تماش بینوں پر کہانیاں لکھنا حلال ہے یا حرام، اور حملہ آور شرفا کی قصیدہ گوئی اور مٹتی ہوئی شریفانہ ہنداسلامی تہذیب کی نوحہ خوانی جیسے پاکیزہ مضامین کو نظرانداز کر کے مفلسی، مشت زنی، غلامی، خودکشی، قحط، اغلام، کشمیر، فسادات وغیرہ وغیرہ کو ادب کے موضوعات بنانا جائز ہے یا ناجائز، تو پھر بھلا اس قسم کی تنقید کا کیا مصرف ہو سکتا ہے۔
منٹو پر ممتاز شیریں (اور عسکری) کی نام نہاد تنقید پر ایک پڑھنے والا اگر اردو تنقید کے مروجہ طریق کار سے الگ رہ کر اپنے اعتراضات کو واضح اور درست طور پر بیان کرے اور ان کے حق میں متن اور ریکارڈ پر مبنی شواہد اور دلائل بھی فراہم کرے تو اس کا جواز موجود ہے۔ اگر آپ اپنے نقطۂ نظر میں دوسرے پڑھنے والوں کو شریک کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ متن سے دور نہ جائیں اور اپنی بات معقول طریقوں سے کہیں۔ اس تمام کے بعد بھی ہر پڑھنے والے کا حق ہے کہ پیش کی گئی دلیلوں سے قائل نہ ہو۔ اس طریق کار کو وکیلانہ کہنے میں یوں تو کوئی حرج نہیں، تاہم ایک قباحت یہ ضرور ہے کہ وکیل چاہے سرکاری ہو یا غیرسرکاری، وہ ایک عدالت کے وجود اور اس کے فیصلہ صادر کرنے کے حق کو تسلیم کرتا ہے۔ ادبی (یا سماجی اور سیاسی) بحثوں کا فیصلہ اس طرح نہیں ہوتا۔ یہ ایک جمہوری فورم ہے جس میں مختلف پڑھنے والے اپنے اپنے نقطۂ نظر میں دوسرے پڑھنے والوں کو شریک کرتے ہیں اور ہر شخص اپنے واسطے فیصلہ کرنے میں آزاد ہوتا ہے۔ میرے خیال میں تو نقادوں کو بھی متن سے آزاد ہو کر نظریہ سازی کرنے اور لکھنے والوں کے نام غیرضروری اور غیرطلبیدہ ہدایت نامے جاری کرنے کے بجاے یہی طریق کار اختیار کرنا چاہیے تاکہ ان کی تحریروں سے پڑھنے والے بھی کچھ فائدہ اٹھا سکیں۔ لیکن اس کے لیے انھیں خود کو عدالت یا سرکار سمجھنے کا رویہ ترک کرنا ہو گا اور اس خوش فہمی سے بھی آزاد ہونا ہو گا کہ پڑھنے والے انھیں عدالت یا سرکار کا مقام دیتے ہیں یا ان سے ادب کے معاملات میں فیصلے صادر کرنے کی توقع کرتے ہیں۔
موجودہ صورت حال میں تو پڑھنے والوں کو منٹو (اور دوسرے تخلیقی ادیبوں) کی تحریروں سے نقادوں کی مدد کے بغیر ہی معاملہ کرنا پڑتا ہے، جو کوئی ایسی بدقسمتی کی بات نہیں۔ انھیں اس سے کم ہی غرض ہوتی ہے کہ کس نقاد نے کس ادیب کو کس مقام پر فائز کیا یا ادبی اصناف کی سرکاری درجہ بندی میں افسانے کو شاعری سے کتنا کمتر اور غزل کو نظم سے کتنا برتر قرار دیا گیا۔ نقاد عموماً یہ جاننے سے قاصر رہتے ہیں کہ سماجی اقدار اور معیارات کی طرح ادبی اقدار اور معیارات میں ہونے والی تبدیلیاں بھی ان کے فیصلوں کی پابند نہیں ہوتیں۔ یہ ایسے معاملات ہیں جو تخلیقی ادیبوں اور ان کے پڑھنے والوں کے درمیان طے ہوتے ہیں، اور ان میں بنیادی کردار خودمقررکردہ منصف یا حاکم نہیں، بلکہ سماجی تبدیلی کے نتیجے میں ہونے والی اقداری تبدیلی ادا کرتی ہے۔
میں ایک پڑھنے والے کی حیثیت سے محسوس کرتا ہوں کہ ادبی اسلوب کے اعتبار سے اردو فکشن منٹو سے فیض پا کر اس سے آگے جا چکا ہے۔ میرے نزدیک کسی ادب کے بڑے تخلیقی فنکار اس ادب کی روایت کا اسی طرح حصہ بنتے ہیں کہ ان کے بعد آنے والے فنکار ان کی تحریروں سے روشنی حاصل کر کے اپنی بات کو آگے بڑھاتے جائیں۔ جیسے مرزا رسوا، سرشار، نذیر احمد، پریم چند، سب اردو فکشن کا جزوِ بدن ہو چکے ہیں اور ان کے بعد آنے والوں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے ان سب سے اپنے اپنے انداز میں فیض پا کر آگے کی راہ نکالی ہے۔ مثال کے طور پر مرزا اطہر بیگ اور سید محمد اشرف نے (اور دوسرے اہم فکشن نگاروں نے بھی) اپنے اردگرد کی انسانی حقیقت کو اپنے انفرادی نقطۂ نظر سے اظہار میں لانے کے لیے جو منفرد تخلیقی اسلوب وضع کیا ہے وہ ایسا نہ ہوتا اگر ہمارے فکشن میں منٹو جیسا ادیب نہ ہو گزرا ہوتا۔ بڑا ادیب اسی طرح ایک طرف اجتماعی ادبی حافظے میں زندہ رہتا ہے اور دوسری طرف اپنے بعد کے لکھنے والوں کے ادبی عمل میں۔
جہاں تک پڑھنے والے کا تعلق ہے ہر ادیب کی تحریریں اس کے انفرادی تصورِ دنیا یا ورلڈویو کی تشکیل کرتی اور اسے زیادہ حساس، باریک بیں اور گہرا بناتی جاتی ہیں۔ پاکستانی پڑھنے والے منٹو کو زمانۂ حال کے ادیب کے طور پر پڑھتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری سماجی صورت حال کے بہت سے عناصر اب تک وہی ہیں جو منٹو کی تحریروں میں جھلکتے ہیں، حالانکہ انھیں دنیا سے رخصت ہوے نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ خاص طور پر پاکستان کی زندگی کے پہلے آٹھ برسوں میں منٹو نے تنگ نظر اور جنگجو مذہبیت کے زبردستی لادے جانے، جمہوری اقدار کے کچلے جانے اور خارجی طور پر ملک کو سرد جنگ میں امریکہ کا سپاہی بنا دیے جانے کے جن سرکاری رجحانات کو اپنی تخلیقی تنقید کا نشانہ بنایا تھا، آگے چل کر وہ اور زیادہ مضبوط ہوے اور ان کے تباہ کن نتائج ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ ایسے حالات میں پڑھنے والوں کا خود کو منٹو کے ساتھ شناخت کرنا بالکل فطری بات ہے۔

جمعرات، 5 مارچ، 2015

فکشن میرے عہد کا:محمد حمید شاہد


الفریڈی جیلینک نے اپنی تخلیقات میں اس بات کو موضوع بنایا ہے کہ ادب کی نئی دنیا میں مرد کاپلڑا بھاری ہے ‘اس کا زورچلتا ہے جب کہ زندہ گوشت پوست والی مکمل اور بھر پور عورت کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ اور یہ کہ لکھنے والوں کے ہاں عورت کی پیش کش کا تصورپہلے سے ساختہ یعنی’’ اسٹریو ٹائپ‘‘ہے ۔ بنا بنایا اور گھڑا گھڑایا۔ ‘ لگ بھگ اسی عنوان سے شمس الرحمن فاروقی نے راجندر سنگھ بیدی کے نام بھی چارج شیٹ جاری کی ہے ۔ بیدی پر الگ سے اور جم کر شمس الرحمن فاروقی نے کچھ نہیں لکھا اور اس کا اسے اعتراف بھی ہے ‘ تاہم شہزاد منظر کو دیئے گئے انٹرویو( مطبوعہ روشنائی کراچی: شمارہ۔14) میں اس نے بیدی کی عورت کا امیج اسٹیریو ٹائپ قسم کا قرار دے دیا۔ اس مکالمے میں پہلے توشمس الرحمن فاروقی نے ان خواص کی گنتی کی ‘جن سے ناقدین بیدی کے فکشن کا مقام متعین کرتے آئے ہیں اور پھر اس تناظر میں بیدی کی بڑائی کو معرض شک میں ڈال دیا ۔ شمس الرحمن فاروقی کی بیدی سے شکایت کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ یہ جو ہندوستان اور پاکستان میں عام طور پرعورت کے بارے میں تصورات پائے جاتے ہیں کہ عورت گھریلو جانور ہوتی ہے ۔ عورت میں مامتا ہوتی ہے ‘ وہ نرم دل ہوتی ہے ‘ لوگ اس پر بہت ظلم کرتے ہیں‘ وہ سخت دُکھ اٹھاتی ہے ‘ تکلیفیں برداشت کرتی ہے ‘ وہ محبت کی دیوی ہوتی ہے ۔ یہ سب بیدی کے ہاں در آئے ہیں ۔ اور یہ کہ بیدی نے عورت کے موضوع پر جو کچھ لکھا ہے اس سے اس کے افسانوں میں عورت کا امیج خاصا اسٹریو ٹائپ قسم کابنتا ہے ۔ شمس الرحمن فاروقی کے نزدیک بیدی نے عورت کی زبوں حالی کواپنے افسانوں میں’’ اپروو‘‘کیا بجائے اس کے کہ اس صورت حال کو ظاہر کرکے وہ عورت کے بارے میں کوئی’’ آلٹرنیٹو امیج ‘‘پیش کرتا کہ عورت ایسی ہونی چاہیے یا عورت ایسی ہے یا وہ اندر سے ایسی ہے لیکن ہم لو گوں نے اور اس نظام اقدار نے عورت کو اتنا مظلوم بنادیا ہے۔ اس قصور کی نشاندھی کرکے شمس الرحمن فاروقی بیدی ‘اس کے افسانے اور اس کے افسانوں کے کرداروں اور خاص طور پر اس کی عورتوں پر خوب برسا۔ پھر کئی کرداروں کے نام لیے اور کہا ان پر اسے غصہ آتا ہے۔ طرفہ دیکھئے کہ یہی بیدی کے تخلیق کردہ عورت کے وہ کردار ہیں جنہوں نے اردو فکشن کو باثروت بنایا اور اب یہ بیدی کی کہانیوں سے نکل کر ہمارے دلوں میں بسنے لگے ہیں ۔
بیدی کی جن عورتوں پر شمس الرحمن فاروقی برہم ہے ان میں ’’لاجونتی‘‘ بھی شامل ہے ۔ پچھلے دنوں جب میں سارک ممالک کے تخلیقی ادب کا انتخاب کر رہا تھا تو بیدی کے بارے میں سوچتے ہی میرا دھیان فوراً ’’لاجونتی ‘‘کی طرف گیا تھا ۔ اب شمس الرحمن فاروقی کو اس پر یوں برہم ہوتے پایا تو اپنے تئیں اردو فکشن کو اس کے بغیر دیکھنا چاہا۔ اب کیا بتاؤں صاحب ‘ جہاں سے ’’لاجونتی ‘‘ کو نکال پھینکا گیا تھا ‘وہاں ایک بہت بڑا کھانچا پڑ ا میں صاف دیکھ رہا تھا۔ اور یہ کھانچا ایسا تھا کہ کسی اور حیلے سے پاٹا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ دیکھئے جی ‘ اگرمغویہ لاجونتی‘ غیر مردوں کے بیچ دن گزار کر پلٹی تھی ‘یوں کہ وہ خالص اسلامی طرز کا لال دوپٹہ اوڑھے ہوئے تھی ‘ بائیں کو بکل مارے ہوئے‘ اور عین ایسے دنوں میں سے کچھ دن ادھر گزارے تھے جن میں کئی کئی عورتیں فسادیوں کی ہوسناکیوں کا شکار ہورہی تھیں ‘ اپنی عصمت اور عفت کو بچانے کے لیے زہر پھانک رہی تھیں‘ کوٹھوں سے چھلانگ مار رہی تھیں یا پھر کنوؤں میں کود رہیں تھیں۔۔۔ اور وہ آئی تھی ۔۔۔یوں‘ کہ سامنے اس کا مرد بالکل بدلا ہوا تھا ‘ اسے لاجو نہیں ‘ دیوی کی طرح دیکھ رہا تھا۔ اسے دھنک ڈالنے والا مرد‘ بچھ بچھ رہا تھا اور جو اس پر بیت چکی تھی وہ سننا ہی نہ چاہ رہا تھا ۔ تو صاحب‘ یہ سندر لال تو وہ نہ ہوا جسے لاجو جانتی تھی۔۔۔ جانتی تھی اور دل سے مانتی تھی ۔ اس کا اپنا مرد جو پہلے اس کے ساتھ وہ کچھ کرتا تھا کہ بس وہی جانتی تھی مگر یوں کہ وہ اس شباہت کے ساتھ اس کی نفسیات کا حصہ ہو گیا تھا۔۔۔ تو لاجونتی کے اس طرز عمل کے اس کے سوا اور کیا معنی نکل سکتے ہیں کہ وہ اپنی توہین برداشت نہیں کر پارہی ۔ ’ ’شی فیل ویری اِن ہیلیٹڈ‘‘ یہ بات امریکہ سے بیدی پر کام کرنے ہندوستان آنے والی ماڈرن قسم کی عورت جمیلہ رفیلمین کو فوراً سمجھ آگئی تھی۔ اور ‘ میں نہیں جانتا میرے محترم اور میرے پیارے شمس الرحمن فاروقی کو اس پر کیوں طیش آیا۔
اچھا ‘ یوں کرتے ہیں کہ اسی ہلے میں بیدی کے افسانہ’’ متھن‘‘ کے ایک کردار ’’کیرتی‘‘ کو بھی ایک جھلک دیکھ لیتے ہیں کہ اس پربھی شمس الرحمن فاروقی بہت برہم ہے ۔ اسے شکوہ ہے کہ بیدی نے زبردستی اسے اس صورتحال میں ڈال دیا ہے‘ حالاں کہ اسے گرنے سے بچایا جا سکتا تھا اور شمس الرحمن فاروقی کو کیرتی پر غصہ اس لیے آیا ہے کہ اس نے مورتیاں بنانے کی بجائے کوئی اور ذریعہ کیوں نہ اپنالیا ؟۔۔۔ واہ صاحب واہ‘ یہ بھی خوب کہی ‘ انسانی نفسیات کی وہ گرہ جو بیدی نے چٹکی میں کھول دکھائی ہے ‘ وہی بیدی کی نااہلی ٹھہری اور جو اَب ایک انوکھے مطالبے کے ساتھ ہاتھوں سے لگائی جا رہی ہے دانتوں سے بھی نہیں کھل پا رہی۔ اس نئی منطق کو مان لیں تو ہمارے لیے ادبی سرمائے کا غالب حصہ لائق اعتنا نہیں رہے گا۔ میں شمس الرحمن فاروقی کر تحریر کا گرویدہ ہوں ۔ نیا زاویہ نکالنا‘ بات کو بڑے اعتماد اور سلیقے سے آگے بڑھانا اسے آتا ہے ۔ یہ اوصاف اس کی دلیل میں زور پیدا کر دیتے ہیں ۔ اسی لیے ممکن ہے ‘جس کی نگاہ میں اس افسانے کی خوب صورتیاں ‘ باریکیاں ‘نفاستیں اور نزاکتیں نہ ہوں وہ اس کی یہ دلیل مان بھی چکا ہو مگر میں کیا کروں کہ شمس الرحمن فاروقی کے تنقیدی شعور کا گرویدہ ہو کر بھی اور کئی معاملات میں اس سے مرعوب ہوتے ہوئے بھی یہ منطق ہضم نہیں کر پایا ہوں۔
سچ پوچھئے تو میں منٹو کو بہت مانتا ہوں ۔۔۔ بڑا افسانہ نگار ۔ اردو فکشن پر اس کے بڑے احسان ہیں‘ اس نے کہانی کو چست کیا اور اس کے متن میں موجود معنویت کے اسراع میں اضافہ کرکے اس کی اثر انگیزی میں جادو بھر دیا‘مگر جب بیدی کی کردارنگاری پر نگاہ پرتی ہے تو بہت سے مقامات ایسے بھی آتے ہیں کہ وہ منٹو سے کہیں آگے نکلتا صاف دکھائی دیتا ہے ۔ ’’ متھن ‘‘ کی کیرتی بھی ایسے ہی کرداروں کی ذیل میں رکھی جا سکتی ہے۔ بیدی نے ان کرداروں کو زندگی کی عام شاہراہ سے اٹھایا ہے۔۔۔ انہیں‘ جیسے وہ تھے اور جس صورت حال میں وہ پڑے ہوئے تھے ‘ ویسے ہی اور وہیں پڑے ہوئے دکھایا ہے سہارے دے دے کر وہاں اٹھایا نہیں اور اپنی طے شدہ فکری ہَلاس میں ہشکارے مار مار کر انہیں وہاں سے نکالا بھی نہیں تاہم اس کا اہتمام ہو گیا ہے کہ وہ کردار گرا پڑا ہو کر بھی ہمیں ساتھ ملا لے اور ان سارے سماجی عوامل پر ازسر نو سوچنے پر مائل کر دے جس نے ان کرداروں کو بقول شمس الرحمن فاروقی ’’اسٹیریو ٹائپ‘‘ بنادیا ہے ۔ صاحب اگر اسے’ کچھ اور’’سجیسٹ‘‘کرنا‘ نہیں کہتے تو اور کسے کہتے ہیں؟۔
اور ہاں‘ جہاں تک افسانے ’’متھن ‘‘ کا معاملہ ہے تو مجھے بیدی سے‘ اگر کوئی شکایت ہو سکتی تھی تو اس افسانے کے عنوان کے حوالے سے ہو سکتی تھی۔ ’’کیرتی‘‘ کے بجائے ’’متھن ‘‘کیوں؟ ۔ ہاں کیرتی ہی اس کا عنوان سجتا اور پھبتا بھی‘ مگر اب جو شمس الرحمن فاروقی نے جھاڑ پچھوڑ کے بعد بیدی کی عورتوں کے عیب گنوائے ہیں تو سوچتا ہوں میں افسانہ ’’متھن ‘‘ پڑھتے ہوئے کیرتی کے ساتھ اتنا وابستہ ہو کر بیدی سے کیوں گلہ گزار ہوا ۔چلو اس لحاظ سے اچھا ہی ہوا کہ وہ اس کا نام ایک خام‘ غصہ دلانے اور جانجھ میں لانے والے واجب القطع کردار کے نام پر افسانے کا عنوان رکھنے سے بچ گیا۔ مگر اجازت ہو تودست بستہ عرض کرنا ہے کہ جس صورت حال میں کیرتی پڑی ہوئی ہے کیا یہ مناسب نہیں ہے کہ پہلے اس کو دیکھ لیا جائے اور ان امکانات پر سوچ لیا جائے کہ کیا افسانہ نگار کے مصنوعی سہارے کے بغیر کیرتی وہاں سے نکل سکتی تھی؟۔ صرف اٹھارہ‘ انیس سالہ خوب صورت کیرتی۔۔۔ جس کا باپ شلپ بناتا فن کی خدمت کرتا دو روٹیوں کے بیچ مر گیا تھا۔ٹیٹنس سے اور کتے کی موت۔ کیرتی کو وراثت میں بھوک ملی یا وہ بیمار ماں ‘ جسے مقعد کا سرطان تھا۔۔۔ اور ہاں اسے شلپ بنانے کا فن بھی تو باپ نے مرتے مرتے دیا تھا۔ گھر میں اوزار پڑے تھے ‘ شلپ بنانے کا ہنر ہاتھ میں تھا‘ ماں چھاونی کے ہسپتال میں پڑی تھی‘ اس کے پیٹ میں سوراخ کر کے بول و براز خارج کرنے کو جو بوتل لگائی گئی تھی وہ خراب ہو گئی تھی ۔ فوری بوتل بدلنا اور پھر اس کا آپریشن بہت ضروری ہو گیا تھا۔ ایسے میں کیرتی کوشلپ بنانے والے اوزاروں اور وراثت میں ملے ہنر پر تین حرف بھیجنے کا مشورہ ؟۔۔۔
تو بس یوں ہے کہ میں کیرتی کے ساتھ ہوں جو اس نے کیا ‘اسے ویسا ہی کرنا چاہیئے تھا ۔ تاہم میں جب بھی اس کہانی کو پڑھتا ہوں مجھے غصہ کیرتی پر نہیں آتا اس سماج پر آتا ہے جس میں کیرتیاں متھ بھری مورتیاں بنانے کی بجائے نیوڈ بنانے لگتی ہیں ۔یہ جو شمس الرحمن فاروقی نے نتیجہ نکالا ہے کہ بیدی ظلم سہنے ا ور مار کھانے والی عورت‘ یعنی فیملی کریکٹر بناتے ہوئے ایسا’’مینی پولیٹ ‘‘کرتا ہے گویا کہ وہ اسے ’’اپروو‘‘کر رہا ہے‘ مجھے بجا معلوم نہیں ہوتا اس باب میں محمد عمر میمن ہی کا کہا دل کو بھاتا ہے کہ بیدی بظاہر جس کریکٹر کو ’’اپروو‘‘کر رہا ہوتاہے دراصل اسے’’ ڈس اپروو‘‘کررہا ہوتا ہے ۔ میں اس میں طرف اتنا اضافہ کروں گا کہ ایسا ‘ صورت حال کی اسی مینی پولیشن سے ممکن ہوا ہے جس پر شمس الرحمن فاروقی کو اعتراض ہے ۔
آغاز میں جیلینک کی کہی ہوئی بات کرکے میں فوراً بیدی کی طرف آگیا تھا اور اب یاد آیا ہے مجھے اس ضمن میں کچھ اور بھی کہنا تھا ‘ کیا کہنا تھا؟ اوہ‘ میرے ساتھ عجب ہاتھ ہو گیا ہے جی ‘ پہلے سب کچھ ذہن میں تازہ تھا‘ تازہ اور مربوط ‘ مگر اب‘ سب کٹ پھٹ گیا ہے۔ اچھا یوں کرتا ہوں کہ جیلنیک کے بارے میں جو کچھ میں جان پایا ہوں وہی آپ کو بتائے دیتا ہوں ۔ ہاں تو یوں ہے کہ جیلنیک کے ہاں جو موضوعات تکرار کے ساتھ اس کے تخلیقی تجربے کا حصہ بنے‘ وہ تھے جنسی امتیاز اور تشدد۔ لیجئے صاحب پہلے ہی جملے پر پوری بات یاد آئینہ ہو گئی کہ ایسے عورت زدہ لکھنے والوں اور لکھنے والیوں کی باڑھ ہمارے ہاں بھی آتی ہی رہتی ہے ۔ جیلینیک کے ساتھ یہ ہوا ہے کہ وہ ویسی عورت نہ لکھنے ‘کہ جیسی وہ تھی ‘ اور اسے اسٹریو ٹائپ قرار دے کر زندہ گوشت والی عورت کی طرف راغب رہنے کی وجہ سے فحش نگار کہلائی اور شدید تنقید کا نشانہ بنی ۔۔۔ اور آپ جانتے ہی ہیں کہ ہمارے ہاں بھی جب جب سماج کی اس عورت سے اس کا اپنا چلن‘ اپنی سوچ اور اپنی زبان چھین کر لکھنے والے نے اسے اپنے کندھوں پر اٹھالیا اور کہانی کے فریم ورک میں وہ نہ محسوس کرایا جو اسے کہنا تھا تو اس کا نتیجہ ادیب کے حق میں ہمیشہ اچھا نہ نکلا ۔ اس پر اسی قسم کے الزامات لگے جیسے جیلینیک پر لگے تھے اور اسے متنازعہ بنادیا گیایاپھر اگر وہ بہت باکمال لکھنے والا نکلا تو بھی اس کے ایسے کرداروں کو پورے سماج کی نمائندگی نہ مل سکی ۔ بہر حال یہ اعزاز بیدی کو جاتا ہے کہ اس نے عورت کو جس روپ میں بھی لکھا اس روپ میں عورت اسی دھرتی پر پورے قدموں سے چلتی تھی‘ اسی وسیب میں بسی ہوئی اور اسی تہذیب کے اندر سے پھوٹی ہوئی ۔ اس نے بے شک اس کے منہ میں اپنی زبان نہیں دی اور اپنا سوچا ہوا چلن اس کے لیے نہیں چنا مگر اس نے عورت سے اس کی اپنی زبان چھینی ‘نہ اپنے تصور اور افکار کے کندھوں پراسے اٹھایا ۔ اس کے باوصف اسے جو کہنا اور جو کچھ سجھانا تھا وہ پوری طرح قاری کو سوجھ جاتا ہے ۔

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *