آپ نے نیوز چینل کے کسی پروگرام کے
وائز اوور میں شاید کبھی اس طرح کی بات سنی ہو، دہلی ایک خوبصورت شہر ہے، یہاں کی
آب و ہوا میں ہندوستانی تہذیب سانس لیتی ہے،لال قلعہ، قطب مینار، ہمایوں اور رحیم
خان خاناں کے مقبرے، باغ بیدل، غالب کی مزار اور حویلی یہاں کی تاریخی وراثت ہیں،
یہاں کا فخر ہیں۔یہ بائیس خواجاؤں کی چوکھٹ ہے،یہ ہندوستان کا علمی و ثقافتی مرکز
ہے،یہ فلانا ہے، یہ ڈھمکا ہے۔مگر دہلی دراصل ایک گندا شہر ہے۔یہاں جمنا کے پانی پر
تیرتے ہوئے جھاگ کی میلی کچیلی بو ہے، سڑکوں پر دن کے ساتھ راتوں کو بھی نو
دولتیوں کی بھاگتی ، لوگوں سے ٹکراتی اور بعض اوقات انہیں کچلتی ہوئی گاڑیاں ہیں،
یہاں فیشن کے لیے دنیا کے مسائل پر بات کرتا ہوا وہ الیٹ طبقہ ہے جو ایک انقلابی
آن بان کے ساتھ پیج تھری پر جلوہ گر ہونے کا منتظر رہتا ہے۔یہاں سگنل پر بھیک
مانگتی ہوئی ادھ ننگی لڑکیاں ہیں، یہاں سچ مچ کے سانس لیتے ہوئے پندرہ سولہ سال کے
معصوم لڑکوں کے تباہ ہوتے ہوئے ہاتھ ہیں۔یہ شہر اپنی تمامتر تاریخی عبرتوں کے ساتھ
اندرپرستھ سے لے کر کناٹ پلیس تک مہابھارت سے غدر تک کے ہنگاموں کا امین ہونے کے
باوجود اپنے مزاج میں اتنا ہی سخت ہے، جتنا شری کرشن کے آشیرباد سے پہلے تھا۔یہاں
کے مزاج میں چاپلوسی ہے، خوشامد پرستی ہے، جھوٹی شان و شوکت ہے، سیاست کے لیے ضمیر
کو بیچتے رہنے کا حوصلہ ہے، رشوت خوری ہے اور ذلیل و خوار لوگوں کے گلوں میں پڑی
ہوئی نرگسیت کی تختیاں ہیں، جن پر بڑے بڑے حرفوں میں لکھا ہے، ’ابے سالے تو جانتا
نہیں میں کون ہوں؟‘
میں پچھلے دس سالوں سے ان تمام خامیوں
کو اچھی طرح جانتے بوجھتے دہلی شہر کا باشندہ ہوں۔یہاں میرے دوست ہیں، میرے دشمن
ہیں۔میرے اپنے ہیں، میرے پرائے ہیں۔میں ہی کیا ان تمام برائیوں سے وہ سبھی لوگ
واقف ہیں، جو یہاں آنکھ میچ کر جاگتے رہنا سیکھ گئے ہیں۔مگر سولہ دسمبر 2012کو
ہونے والے ایک شرمناک واقعے نے ان تمام سڑی گلی دہلی شہر کی عادتوں پر سبقت حاصل
کرلی۔ایک لڑکی کو ،جو رات کو اپنے ایک دوست کے ہمراہ فلم دیکھ کر واپس لوٹ رہی
تھی، چند لوگوں نے مل کر سخت ذہنی و جسمانی نقصان پہنچایا، اس کی شرمگاہ کو زخمی
کیا اور اس کے ساتھ وہ حرکت کی کہ سن کر سب لوگ لرز اٹھے۔اس واقعے کے چشم دید گواہ
ایک پولیس کانسٹیبل کا کہنا ہے کہ اس لڑکی کی حالت اس وقت ایسی تھی جیسی کسی گائے
کی بچھڑے کو پیدا کرنے کے بعد ہوتی ہے۔دہلی شہر کے لوگوں نے تو اپنی جس فراخ دلی
کا ثبوت ان لڑکا لڑکی کی مدد نہ کرکے دیا تھا،وہ ایک الگ بات تھی،خود اس کی حفاظت
پر مامور پولیس کا رویہ یہ تھا کہ حادثے سے تھوڑی دیر پہلے ایک شخص کی شکایت پر
انہوں نے اسے تھپڑ رسید کرتے ہوئے چلتا کیا اور بس کے اندر موجود شرابیوں کو خاطر
خواہ توجہ نہ دی۔پولیس اس قسم کی غنڈہ گردی پر توجہ دے بھی تو کیسے، کیونکہ اس کے
اندر بھی اس قسم کے دہشت ناک جراثیم موجود ہوا کرتے ہیں۔کم از کم مجھے تو کبھی کسی
خاکی وردی والے شخص کو دیکھ کر تحفظ کا احساس نہیں ہوا،ہاں یہ احساس شاید ہوا ہو
کہ کہیں یہ بلا وجہ ستانے کا کوئی راستہ نہ ڈھونڈ لے۔لڑکی تو دور کی بات ہے، رات
برات سڑک پر اگر کوئی لڑکا پولس کی وقت گزاری کاشکا ر ہوجائے تو اس کے لتے لگتے
ہوئے دیر نہیں لگتی۔خیر، ذکر اس واقعے کا ہے اس لیے بات کو اس جانب نہیں موڑوں گا،
وہ واقعہ سامنے آیا، چند ہی روز میں سارے مجرم گرفتار ہوئے، کچھ عرصے بعد انہیں
پھانسی کی سزا سنائی گئی، ایک نے (کہا جاتا ہے)اپنی جان لے لی اور ایک نابالغ مجرم
کو جس کی عمر سترہ سال چھ ماہ تھی، تربیت گاہ بھیج دیا گیا۔اس واقعے کے خلاف سخت
احتجاج ہوا، آنسو گیس اور پانی کے ذریعے بھیڑ کو تتر بتر کرنے کے جتن ہوئے، عصمت
دری کے خلاف قوانین کو سخت بنانے اور ایسا کرنے والوں کو پھانسی دینے کے مطالبات
کیے گئے، مگر رفتہ رفتہ بھیڑ کے غصے میں کمی آئی، سمجھدار لوگوں کی طرح ہر غم کو
برداشت کرنے والی ٹینڈنسی کے فروغ پر زور دیا گیا اور بات آئی گئی ہوگئی۔
ابھی کچھ روز قبل اچانک ایک خبر آئی،
ہندوستان میں ’انڈیاز ڈوٹر‘ نامی دستاویزی فلم پر پابندی لگادی گئی ہے۔اسی خبر کے
ساتھ میں نے بھی اس فلم کے بارے میں سنا۔یوٹیوب پر تلاش کیا تو فلم نہیں مل
سکی،مگر انٹرنیٹ کے زمانے میں کسی چیز پر حکومت کی طرف سے لگائی گئی پابندی ایک
قسم کا مذاق ہے۔فیس بک پر کسی دوست کے شےئر کیے ہوئے لنک کے ذریعے میں نے اس پوری
ڈاکیومنڑی کو اپنے موبائل پر دیکھا۔فلم دیکھنے کے بعد کوئی ایسی معقول وجہ مجھے اس
میں نظر نہیں آئی، جس کی وجہ سے فلم پر پابندی لگائی گئی ہو، ہاں لیکن اس کی
نامعقول وجوہات کی ایک طویل فہرست ہوسکتی ہے ۔مثال کے طور پر دہلی کے کمشنر کا یہ
بوکھلایا ہوا بیان کہ ’دہلی ملک کے دوسرے شہروں کی طرح عورتوں کے لیے بالکل محفوظ
شہر ہے۔‘، ایک نیتا کا اس بات پر اعتراض کہ اپنے پتا یا بھائی یا منگیتر کی بجائے
کسی دوست کے ساتھ فلم دیکھنے جانے کی کیا تک تھی جبکہ ہمارے سماج میں اسے بری نظر
سے دیکھا جاتا ہے، اس کیس کے وکیل دفاع صاحب کا خراب انگریزی لہجہ ایک ضمنی وجہ
ہوسکتا ہے مگراصل وجہ شاید اس انگریزی میں ان کااس مری ہوئی عورت پر یہ بہتان
لگانا کہ اسے اتنی سی سمجھ نہیں تھی کہ عورت ایک پھول کی طرح ہوتی ہے۔شاید اسے
سمجھ نہ ہو، شاید وہ ایک بھوندو قسم کی لڑکی ہو جس نے دہلی شہر کو کچھ اتنا بھی بد
صورت متصور نہ کیا ہو کہ چلتی ہوئی سڑک پر اسے بھنبھوڑا جائے اور لوگ چھاتی پھلا
کر اس کی لاش سے سوالات کریں کہ آخر تم اپنی مریادا کیوں پھلانگ گئیں، یہ مریادا
تو پرشوتم رام نے تمہارے لیے قائم کی تھی، اب تم اس ریکھا کا النگھن کرکے اس پار
گئی ہو تو اب دس سروالے راون کو تمہیں جھیلنا ہوگا، مگر راون کہنا مناسب نہیں
کیونکہ اس نے بھی سیتا جی کی مرضی اور خواہش کے بغیر ان سے زبردستی کرنے کا دسساہس
نہیں کیا تھا۔اس فلم پر پابندی کی ایک اور وجہ ہے اور وہ ہے مجرم مکیش سنگھ کا
ہندوستانیوں کی نظروں سے نظریں ملا کر یہ کہنا کہ ہمیں سزا دے کر تو آپ نے ہم جیسے
ریپ کرنے والوں کو قتل کرنے پر بھی مجبور کردیا ہے، یعنی اب کوئی ریپسٹ ہماری طرح
صرف ریپ کرکے چھوڑ نہیں دے گا، بلکہ عورت کو مار کر ہی دم لے گا، مکیش سنگھ کا یہ
بیان قابل غور ہے کہ اسے یہ نہیں لگتا کہ کسی عورت کی شرم گاہ میں ہاتھ ڈال کر
انتڑیاں باہر نکال لینا اسے جان سے مارنے کے برابر ہے، ان سب کے باوجود وہ بہت ہی
سرد لہجے اور ٹھنڈے مزاج کے ساتھ ابھی اگلی عدالت کے فیصلے کا منتظر ہے اور اس بات
کا خواہش مند بھی کہ عقل کے ناخن لیتے ہوئے حکومت اور عدلیہ اسے معاف کرے، اس کی
سز ا میں تخفیف کرے ، وہ کسی ناصح کی طرح عورتوں کو یہ درس دیتا نظر آتا ہے کہ
انہیں کس طرح اپنا بغیر نمک کا سادہ سا جیون گزارنا چاہیے اور گھر کی کھٹیا سے
طوائف کے کوٹھے تک کے سارے حقوق مردذات کے ہاتھ میں سونپ کر راضی خوشی اس کے ساتھ
زندگی بسر کرنی چاہیے۔پابندی کی ایک وجہ شاید اس بے وقوف بیان بازیے کا یہ لال سچ
بھی ہوسکتا ہے کہ انڈین سوسائٹی میں جرم کیے بغیر ، ریپ کیے بغیر ، دبنگئی، غنڈہ
گردی اور حق مارے یا چھینے بغیر سیاست کے دوار کا کسی پر کھلنا محال ہے، اس بے
وقوف نے تو گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مصداق یہ الٹ دیا کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے دو
سو سے زائد نیتاؤں پر اسی طرح کے مقدمے چل رہے ہیں۔
لیکن مجھے پابندی کی جو سب سے بڑی وجہ
نظر آتی ہے وہ اس بھیانک واقعے کا وہ پس منظر ہے جو اس ڈاکیومنٹری کے بیس منٹ
گزرتے ہی نمایاں ہوجاتا ہے۔ملک کے مختلف قصبوں، دیہات اور چھوٹے شہروں سے پیسہ
کمانے کی لعنت کاطوق گلے میں ڈالے جو نوجوان دہلی میں آتے ہیں، یہاں بستے ہیں،
رہتے ہیں، ان کی جنسی تسکین کا کوئی سامان نہیں ہوتا، سوائے اس کے کہ وہ خود پر
جبر کیے جائیں۔مگر جبر کے باند کا وجود شراب کی ندی میں نہیں ہے، لیکن شراب کو
قصوروار ٹھہرانا شاید غلط ہوگا کیونکہ اگر شراب کے نشے میں انہیں بس کو سڑک پر
ٹھیک سے چلانے کا ہوش تھا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ خوب سمجھ رہے تھے کہ وہ کیا
کررہے ہیں اور کیا نہیں، غصہ دراصل عورت کے ہونے پر نہیں، بلکہ عورت کے نہ ہونے پر
تھا جس کی بنیاد پر اس واقعے نے جنم لیا۔ڈرائیور، جم ٹرینر، سبزی فروش اور اس طرح
کے دھندے کرنے والوں کی کیا اوقات کہ دن کے کسی کونے میں بیٹھ کر اس جبر کی العطش
پکارتی ہوئی زبان پر دو بوندیں ٹپکا سکیں۔دوسرے گھروں میں مداخلت منع، دن بھر کی
تھکن کا تپتا ہوا آسیب، اپنے گھروالوں سے دوری کا شراپ اور ساتھ ہی ساتھ روزانہ
بڑھتی ہوئی سیکس کی ایک اندھی خواہش ، جس کا کوئی حل نہیں سوائے اس کے کہ خود
اطمینانی کا راستہ اختیار کرلیا جائے۔ایسے میں اگر ہندوستان ہیومن ٹریفکنگ اور
سیکس ریکٹ کا گڑھ بن رہا ہے تو اس میں تعجب کیوں، باپ اپنی لڑکی کے ساتھ زنا
بالجبر کررہا ہے تو افسوس کیوں۔اس مسئلے پر تو حکومت خاموش ہے کیونکہ عفت آمیز ملک
ہے، صدیوں پرانی سبھیتا کا کچرا کرنے پر آخر کیسے تیار ہوا جائے، اس طرف سوچ بچار
کرنے کی ضرورت کیسے محسوس ہو؟یہ جو ملک میں ڈھونگیوں، تانترکوں،ملاؤں اور بنگالی
باباؤں کا ایک ریلا امڈا چلا آیا ہے، آخر اس کی کوئی تو وجہ ہوگی۔لوگ کیا ان کے
پاس صرف کھانے، پہننے کے مسائل لے کر جاتے ہیں، میری رائے میں تو ان میں سے بیشتر
اپنے گپت روگوں اور پوشیدہ خواہشوں کی سر مارتی ہوئی موجوں سے تنگ آکر ان چکروں
میں پڑتے ہیں۔حکومت تو خیر دوسری طرف ، آپس میں لوگ ایک دوسرے کو اتنی مہلت نہیں
دیتے کہ کبھی ان کا اپنا قریبی انہیں بتائے کہ وہ ایک عجیب ذہنی جنگ لڑرہا ہے اور
اس کی وجہ اس کی جنسی بھوک ہڑتا ل ہے۔غریبی ہی ہر بار مسئلہ نہیں ہوتی، کسی معاملے
میں غریب بھی تو مسئلہ ہوسکتا ہے، وہ غریب جسے اپنے خیالات کے اظہار کے مواقع تک
میسر نہیں ہیں۔غریب پیٹ بھرنے کے لیے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں، مگر پیٹ بھرنے کے
بعد کے بھی کچھ مسائل ہوا کرتے ہیں۔میں دہلی شہر میں تقریباً دس سال سے مقیم ہوں
اور دیکھتا ہوں کہ یہاں عورت کو زیادہ تر لڑکے اور مرد اپنی شرمگاہوں سے ہی دیکھتے
ہیں، انہیں عورت کا پورا وجود ایک بھرے اور سجے ہوئے تھال کی مانند دکھائی دیتا
ہے،اکثر لوگوں کو میں نے اس بات پر ٹوکا بھی ہے کہ آخر دیکھ کر کیا مل جاتا ہے تو
ان کا جواب ہوتا ہے، تسلی۔مگر یہ تسلی جھوٹی ہے، جس کی انتہا کہیں اور ہوتی
ہے۔ابھی کچھ عرصہ قبل جب گھورنے کے معاملے میں عدالت عظمیٰ کا یہ بیان آیا تھا کہ
کسی بھی لڑکی کو گھورتے ہوئے دیکھنے پر سزا ہوسکتی ہے تو واقعی مجھے عدلیہ کے اس
فیصلے پر افسوس ہوا تھا، آنکھیں مسئلہ نہیں ہیں، جب مردوں کی شرمگاہیں مجبوری،
افلاس، ڈر اور مصالحت کے اسٹیج پر ایک غیرمعینہ مدت تک کے لیے دھرنوں پر بٹھادی
جائیں گی تو ان کی ساری ہوس آنکھوں میں نہیں آئے گی تو کیا ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ ایک
طرف ہم سماج میں موجود مرد کو آزادی کا صحیح مفہوم سمجھانے سے قاصر ہیں تو دوسری
طرف عورت پر ہونے والے مظالم کو روکنے میں ناکام۔ہم نے سماج کی ایسی تربیت ہی نہیں
کی کہ ہم کسی لڑکے کو سمجھا سکیں کہ لڑکی کوئی گندم کا دانہ نہیں جسے ریپ ہوتے ہی
گھن لگ جائے، یہ ایک قسم کا حادثہ ہے ، جو اگر کسی عورت کے ساتھ گزرے تو اسے
زبردست نفسیاتی دھچکا لگتا ہے، ایسے میں اس کی جانب بڑھے ہوئے ہاتھوں میں اضافہ
کرنے کی بجائے ہم اسے اور تنہا کردیتے ہیں، اس کا اعتماد چھین کر اسے ایک ایسے
عذاب میں مبتلا کردیتے ہیں کہ وہ کپڑے پہننے کے باوجود خود کو ہروقت ننگا تصور
کرنے لگتی ہے۔عورت کے اس ذہنی و اعصابی نقصان کے بدلے میں اس کے ساتھ زبردستی کرنے
والے کو سزا ملنی چاہیے نہ کہ عورت کو، اور اس کا راستہ یہ ہے کہ سماج میں عورت کی
عزت کا دارومدار اس کی شرمگاہ پر نہ ہو، بلکہ اس کی قابلیت، اس کی ہمت اور اس کے
مزاج پر ہو۔اسی بے ہودہ نظام کی وجہ سے ہم ایک ایک ایسے سماج میں جی رہے ہیں جہاں
عورت کا ریپ کرنے پر وہی لوگ سب سے زیادہ آمادہ ہیں جو عورت کو پاکیزگی کا درس
دیتے ہیں اور ریپ کا شکار ہوجانے والی لڑکی سے کوئی رشتہ نہیں جوڑنا چاہتے۔
مکیش سنگھ کی بے غیرت آنکھیں بتانے کے
لیے کافی ہیں کہ ایک حمام میں سب ننگے ہیں، سب ایسے ہی ہیں ، بس ہم وہ بد نصیب ہیں
جوگرفتار کرلیے گئے، جن کوشراب نوشی نے قتل جیسے سنگین جرم پر اکسادیا ورنہ یہ اگر
محض ایک ریپ ہوتا تو وہ کوئی ایسی بڑی بات نہ تھی کیونکہ بقول بی بی سی، ہندوستان
میں تو ہر دومنٹ میں ایک ریپ ہوتا ہے۔اس لیے مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ
میں عورت کا حق مارنے والے ایک خراب ملک میں رہتا ہوں، جس کا دارالحکومت اس معاملے
میں مزید دوغلا ہے اور حالات بدلنے کی اگلے پچاس سالوں تک کوئی صورت نظر نہیں آتی
ہے۔بس زیادہ سے زیادہ کوئی چیخے تو حکومت کا تیسرا ہاتھ اس کا منہ بند کرنے کے لیے
کافی ہے۔
مضمون نگار: تصنیف حیدر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں