جمعرات، 28 اپریل، 2016

ہند و پاکستان میں معاصر اردو زبان و ادب اور مسلم اساس پرستی

ابتدائیہ:
اس مقالے کا موضوع اِس امر پر مبنی ہے کہ اپنی موجودہ شکل میں زبانِ اردو ہندو پاکستان کے درمیان کسی قسم کا کوئی مثبت رول ادا نہیں کرسکتی۔ آئندہ سطور میں اس سیاسی و سماجی صورتِ حال کا تجزیہ کرکے نتائج کا استنباط کیا جائے گا جس کے سبب ہندستان میں اردو سے اس قسم کی توقع کرنا دانش مندی نہیں۔ یہ سیاسی صورتِ حال ہر دو ممالک میں مسلم اساس پرستی کے زیرِاثر نہ صرف ماضی میں پروان چڑھی، بلکہ اس کا حال بھی مسلم شناخت کے ان سوالوں ہی کے گرد گھومتا ہے جو برِصغیر ہند و پاکستان کی مسلم آبادی کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہیں۔ مسلم اساس پرستی سے مغلوب اس سول سوسائٹی کا مستقبل دونوں ہی ممالک میں مخدوش ہے جس میں اردو کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی جیسی ہے۔

اساس پرست مسلم سیاست اور اردو کے رشتوں کا پس منظر:
اس مقالے میں میرے معروضات کا دائرہ علی الخصوص ہندستان کی اساس پرست مسلم سیاست اور اردو کے ان رشتوں کے تجزیے کو محیط ہے جو برِصغیر میں معاصر فرقہ پرست مسلم ذہن کی تشکیل کا سبب بنے۔
اردو کے مسلم اساس پرست کردار کی تشکیل میں تاریخی طور پر انیسویں صدی کی اس فرقہ پرست ہندو سیاست نے بڑا اہم رول ادا کیا ہے جس کے کمالات میں اب کسی کو شبہ نہیں اور جو جدید ہندی کی تشکیل کے نام پر سیاست کرتے ہوئے انجام دیے گئے۔ پھر ہندو شناخت کے نام پر جدید ہندی نام کی اس غیرمعمولی شے (Phenomenon) کے ماضی کے تسلسل کی تلاش شمالی ہند کی مختلف زبانوں کے ادبی سرمایے میں کرنے کی کوشش کا آغاز ہوا۔ اس عمل میں اگر ایک طرف شمالی ہند کی بیش تر زبانوں کو ہندی کا قدیم روپ یا پھر شیلی قرار دے دیا گیا تو دوسری طرف کچھ زبانوں کو بولیاں کہہ کر جدید ہندی نے اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیا اور اس خالصتاً سیاسی جدید ہندی کی تاریخ نویسی کے نام پر ہندو احیا پرستی کے فروغ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جدید ہندی کی تشکیل کی سیاست کا عمل شروع ہونے کے بعد زبانوں کے نام پر جس قسم کی سیاست کا آغاز ہوا، وہ اُس سکے کا دوسرا رخ ہے جس میں اردو کے مسلم تشخص کی بات کرنے والی مسلم اساس پرست قوتیں ہندو فرقہ پرستوں سے بہت آگے بڑھ گئیں اور تاریخی اسباب کی بنا پر مسلم شناخت کے ساتھ اردو کے رشتے پین اسلامزم کی سینکڑوں برس پرانی خواہشات کے ایجنڈے کا حصہ بنے۔ اس صورتِ حال کا یہ نتیجہ لازمی ٹھہرا کہ اردو کو پوری طرح مشرف بہ اسلام کرکے اسے ہندستان میں فارسی کے اس گم گشتہ ماضی کا متبادل بنانے کی تحریک سیاسی بنیادوں پر آگے بڑھائی جائے جو مسلم اقتدار کے زوال کے ساتھ ہی اپنی افادیت کھو بیٹھی تھی۔ تبدیل شدہ حالات میں اردو کے اسلامی خلقیے نے Pan Islamism کے فروغ میں غیرمعمولی رول ادا کیا۔

اردو اور مسلم سیاسی اشراف:
سیاست کی بدلتی ہوئی صورتِ حال میں مسلم یعنی اردو اشراف کی سیاست نے بیسویں صدی میں اردو کے سوال کو مہتم بالشان مسلم ماضی کے سوال کے طور پر پوری قوت کے ساتھ آگے بڑھایا اور قطعی غیر اردو داں مسلم عوام کو ثقافتی جہاد کے ذریعے اپنے سیاسی کارواں میں شمولیت کی دعوت دی۔ یہ وہی دور ہے جب مسلم اشراف کا یہ ٹولہ ہندی مسلمانوں کو ’لے کے رہیں گے پاکستان، بنٹ کے رہے گا ہندستان‘ پر اڑے رہنے کے لیے پوری طرح آمادہ کرچکا تھا اور
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاکِ کاشغر
کی اپیل کرنے والا پنجابی حکیم الامت مسلم عوام کے ذہنوں پر اردو کی گرفت کا پورا فائدہ اٹھا رہا تھا۔ عوام سے لے کر خواص تک مسلم لیگ کی سیاست میں شامل وہ جاں باز اہلِ ایمان جو عظیم فلسفی اور مفکرِ اسلام کی دعوت کے نتیجے میں
ہے ترکِ وطن سنتِ محبوبِ الٰہی
دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی
کے نعرے پر لبیک کہتے ہوئے اُن خطوں کو خیرباد کہہ کر مملکتِ خداداد کے ان غیرآباد علاقوں کی طرف کوچ کرگئے جہاں انھیں اپنی اُس عظیم ثقافت کے ساتھ ایک نیا جہان آباد کرنا تھا۔ جسے وہ پیچھے چھوڑ آیا تھا۔ شمالی ہند کے ان مہاجرین کے بہ قول ان کی شناخت اس لیے عظیم تھی کیوں کہ اس کی تشکیل میں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کے تہذیبی سرچشموں کا فیضان شامل ہوگیا تھا۔ یہ نام نہاد عظیم مسلم ثقافت اپنے لیے وسیع تر اسلامی جولا نگاہوں کی متلاشی تھی۔ اس لیے نئی مملکتِ خداداد میں بھی اردو خطے کی سیاسی ثقافت کی مرکزی حیثیت کو اس کے امانت داروں نے ذرا بھی اِدھر اُدھر نہ ہونے دیا۔

آزاد ہندستان میں اردو، دینی مدرسے اور کا نگریس:
مسلمانوں کے سیاسی رویوں سے سبق لے کر ہندو سیاست نے بھی اپنے ماضی قریب سے روشنی حاصل کرنے کی ترغیب لی۔ انیسویں صدی کی ہندو سیاست کی پیروی آزادی کے بعد کانگریس نے بھی کی اور مسلمانوں کو اس نے یہ یقین دلا دیا کہ وہ آزاد ہندستان میں جس طرح چاہیں، اپنے مذہبی تعلیم کے اداروں کے نظام میں اردو کو شامل کریں، کانگریس کو اس کارِ خیر میں وہ خود سے دو قدم آگے ہی پائیں گے۔ اپنے تعاون کے نتائج کو سو فی صد یقینی بنانے کے لیے آزاد ہندستان میں کانگریس نے اسکول کے نظام میں اردو کی بنیادوں کو صرف کھوکھلا ہی نہیں کیا بلکہ اس کی ایسی تمام جڑوں کو جن کا خلقیہ اسلامی اعتبار سے ذرا سا بھی کمزور تھا، اکھاڑ پھینکا۔
زبان کی سیاست کے اعتبار سے ہندستان میں بیسویں صدی کا نصفِ آخر اپنے ماضی سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھا۔ تقسیم کے بعد کے حالات میں اس کے مظاہر اور نتائج البتہ دوسری طرح کے تھے۔ ہندستان میں 1980 کے آس پاس تک مسلم اشراف کی اکثریت کانگریس کے زیرِسایہ اقتدار کے ایوانوں تک محدود اور سیاسی طور پر مسلم عوام سے دور ہی رہی، اس لیے اس نے اردو کے مسئلے سے صرف اتنا ہی سروکار رکھا جتنا حکومت کی ضرورت کے مطابق ضروری تھا۔ حکومت کی پالیسی کے نتیجے میں دینی مدارس میں اردو کے فیصلہ کن فروغ کا زمانہ بھی یہی ہے۔ آزاد ہندستان میں کانگریس کے زیرِسایہ اسعد مدنی جیسے علماء نہ صرف دیوبند پر قابض رہے بلکہ انھوں نے آخری دم تک پارلیمنٹ کے ایوانوں میں کانگریس کے مسلم مفادات کے تحفظ کے لیے مقدور بھر کوشش کی۔ آقا کے حکم پر مسلمانوں کی نبض دیکھنے اور مزاج پرکھنے کے لیے مولانا اسعد مدنی رحمۃ اللہ علیہ ’ملک و ملت بچاؤ تحریک‘ جیسے کاموں کا ڈول بھی گاہے ماہے ڈالتے رہے۔ ہر بار حاکم باقاعدہ اور علی الاعلان وعدہ کرتا کہ مسلمانوں کے دین اور ان کے اداروں کا تحفظ ہوگا۔ وعدہ ہمیشہ ہی ایفا ہوا۔ مدارس اپنے اصل مشن یعنی فروغِ اسلام میں مشغول رہے جس میں سب سے اہم کردار اس اردو نے ادا کیا جو دینی مدارس میں واحد ذریعۂ تعلیم تھی۔ اترپردیش میں دینی تعلیمی کونسل بھی اپنا کام مکمل یکسوئی اور انہماک کے ساتھ کرتی رہی۔ اس کی تحریک کے نتیجے میں بھی دینی تعلیم کے اداروں اور ان کے ذریعے اسلامی اردو کا منظم طریقے سے فروغ ہوا۔ تبلیغ اور اشاعتِ دین کے کاموں میں حکومت یعنی کانگریس نے کبھی کوئی روڑا نہیں اٹکایا۔ ایمرجنسی کے بعد کے ڈھائی برس اور 1989 میں 19 مہینے کی وشوناتھ پرتاپ سنگھ کی قیادت والی جن مورچہ (United Front) حکومت کے علاوہ 1996 تک مرکزی اقتدار پر کانگریس ہی قابض رہی۔ اس طرح 1989 تک چھوٹے موٹے وقفوں کے سوا خصوصاً شمالی ہند کے صوبوں میں ہمیشہ کانگریس ہی برسرِاقتدار تھی۔

تقسیم کے بعد سے 1989 تک، ڈاکٹر فریدی اور سید شہاب الدین دوہی ایسے نام ہندستان کے سیاسی منظرنامے میں قابلِ ذکر ہیں جو کانگریس سے وابستہ نہ تھے مگر اردو کے باب میں ان کی سیاست کو کانگریس ہی کے طرز کی سیاست سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اردو سیاست کے محاذ پر یہ دونوں ہی مسلم اکابرین ہمیشہ متحرک رہے حالاں کہ ان دونوں ہی کا سیاسی ایجنڈا اردو تک محدود نہ تھا۔ آخر آخر جب سید شہاب الدین کی اپنی ہی طرز کی اس سیاست کی دھوپ ڈھل گئی جو علاحدگی پسندی کی سیاست تھی تو انھوں نے 2004 میں اس وقت سونیا گاندھی کے ہاتھ پر بیعت کر لی جب مرکز میں یونائٹیڈ پراگریسیو الائنس (United Progressive Alliance) برسرِاقتدار آیا، اس کے بعد جن سیاسی محاذوں پر سید شہاب الدین ممکن حد تک متحرک رہے ہیں ان میں ایک اردو سیاست کا محاذ بھی ہے جو دینی مدارس کے ساتھ اپنے مضبوط تر رشتوں کے سبب 9/11 کے بعد مسلم حسیت میں ماضی سے مختلف حیثیت کا حامل ہوچکا ہے۔ بنیادی طور پر سید شہاب الدین ایمرجنسی کے بعد چلی کانگریس مخالف آندھی کے سیاسی دور کی پیداوار ہیں۔ اس انتہائی زیرک مسلم سیاست داں کے منفی سیاسی اثرات مختلف وجوہ سے ڈاکٹر فریدی سے کہیں زیادہ ہمہ گیر ہیں۔ فریدی صاحب کے لہجے کی تشکیل کے تمام سُر ’لے کے رہیں گے پاکستان، بنٹ کے رہے گا ہندستان‘ کی باقیات معلوم ہوتے تھے جب کہ سید شہاب الدین موقع دیکھ کر بات کرتے ہیں جس میں ان کی Indian Foreign Service کی تربیت کا فیضان بھی شامل ہے۔ عمومی سیاسی توازن کے لیے کانگریس کو اپنے Fold سے باہر ایسے چند سیاست دانوں کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے۔ ذہنی طور پر کہیں زیادہ منضبط سید شہاب الدین اپنے سیاسی ایجنڈے کے حصول کے معاملے میں بھی بہت مرتکز ہیں۔ مکمل طور پر اساس پرست اور علاحدگی پسند سیاست کے داعی سید شہاب الدین جب تک عوامی جذبات کا لوہا پوری طرح گرم نہ دیکھیں، نہ صرف یہ کہ وہ چوٹ نہیں کرتے بلکہ آئین اور قانون کا راگ بھی الاپتے رہتے ہیں لیکن موقع ملتے ہی آئین کی دھجیاں اڑا کر عدلیہ کو جوتے کی نوک پر رکھ کر مشتعل عوامی جذبات سے تسمے کی خاطر بھینس حلال کرانے کا سید شہاب الدین سے بہتر گُر تقسیم کے بعد مسلم سیاست میں کسی کے ہاتھ نہ آیا۔ جدید ہندستان کی مسلم تاریخ میں شاہ بانو اور بابری مسجد دونوں ہی معاملوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے نئی طرح کی علاحدگی پسندی کی فلسفیانہ اساس فراہم کرنے والے سید شہاب الدین نے قائدِ اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کا اتباع کرتے ہوئے اپنی مقبولیت کے دور میں ہر سیاسی و مذہبی مسلم جماعت اور رہ نما کو سر جھکاکر چپ چاپ اپنے پیچھے چلتے رہنے کا حکم دیا۔

اسکول کے نظام میں اردو اور دینی مدارس کی سماجیات:
یہ کہنا کہ بالخصوص شمالی ہند میں اسکول کے نظام سے اردو کا خاتمہ ہندستان میں اردو کی عمومی تباہی کا واحد محرک تھا، انتہائی پیچیدہ صورتِ حال کا بے حد سطحی تجزیہ ہے۔ ہندستان میں اسکول جانے والے بچوں میں مسلم بچے ایک فی صد بھی نہیں ہیں جبکہ 5 سے 20 برس تک کی عمر کے تقریباً 98 فی صد مسلمان بچے دینی مدارس میں اردو کے ذریعے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ 2003 میں کل وقتی دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے مسلم طلبہ کی تعداد 5 کروڑ کے آس پاس تھی۔ اُس وقت 5 لاکھ کل وقتی دینی مدارس چل رہے تھے۔ گذشتہ چار برسوں میں طلبہ اور مدارس کی اس تعداد میں لازمی طور پر اضافہ ہوا ہوگا۔ یوں اس بات کو شاید اس طرح کہنا زیادہ مناسب ہوکہ مسلمانوں کے وہ تقریباً ایک فی صد بچے جنھیں اسکول جانے کے مواقع مل سکے، ان کو خصوصاً شمالی ہند کے اسکولی نظام میں نہ صرف یہ کہ جبراً ہندی پڑھائی گئی بلکہ ان کی اپنی مادری زبان کی تعلیم کے لیے ایک اختیاری مضمون کے طور پر بھی مواقع اسکول کے تعلیمی نظام میں موجود نہیں تھے۔

آزاد ہندستان میں اردو اشراف اور احیاے اردو کی تحریکات:
ہندستان کے اس اردو اشراف نے جو مختلف سماجی و سیاسی وجوہ سے یونی ورسٹیوں یا ملحقہ کالجوں کے اردو شعبوں کا پروردہ تھا، تقسیم کے بعد سے جب بھی احیاے اردو کے لیے کوئی تحریک حکومت کے ایما پر چلائی، تو اس میں کامیابی کے لیے اسے پوری طرح مذہبی اداروں ہی کے تعاون پر تکیہ کرنا پڑا۔ مذہبی اداروں کو اردو کی ضرورت تھی اور ان اساتذہ کو عوام میں پوچھنے والا کوئی نہ تھا۔ 1985 میں ایسی ہی ایک تحریک لکھنؤ یونی ورسٹی کے پروفیسر ملک زادہ منظور احمد نے بھی شروع کی جس میں شامل تو مع کمیونسٹ پروفیسروں کے سب تھے مگر تحریک کے اصل داعی ندوۃ العلماء کے ناظمِ اعلا مولانا ابوالحسن علی ندوی تھے جن کی سیادت میں 19 جون 1988 کو رابطہ کمیٹی نے ایک بڑی کامیاب کانفرنس گنگارام ہال، امین آباد، لکھنؤ میں بھی کی۔ سی پی ایم ان ہی دنوں جنوادی لیکھک سنگھ کی نئی دکان چلانے کی کوشش کررہی تھی جس میں کچھ مال پروفیسر محمد حسن نے بھی رکھا تھا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین سے پروفیسر محمد حسن کے ازالۂ التباس کا زخم اس وقت تازہ تازہ تھا۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی آواز پر اسلامی زبان کے طور پر اردو کے تحفظ کے لیے لکھنؤ میں جمع ہوئے عقیدت مندوں کے جمِ غفیر کے اسلامی جذبات کی جیبیں کاٹنے کے لیے مسلم اشراف کے مختلف نمائندوں اور مسلم سیاسئین کے ساتھ کمیونسٹ سیاست کے داعی مثلاً اس وقت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے جنرل سکریٹری سی راجیشور راؤ، جن وادی لیکھک سنگھ سے متعلق پروفیسر نعیم احمد جو اس وقت علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے وابستہ تھے، جواہر لال نہرو یونی ورسٹی کے پروفیسر محمد حسن اور حیدرآباد میں کمیونسٹ سیاست کے ایک اہم ستون راج بہادر گوڑ بھی حلوائی کی دکان، ناناجی کا فاتحہ کے مصداق اہلِ ایمان کی اس محفل میں پوری بے شرمی سے موجود تھے۔ اس محفلِ ایمانی میں کامریڈ مولانا اسحاق سنبھلی بھی شریک تھے جو جناب شیخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی کی بہترین مثال ان معنوں میں تھے کہ جمیعت العلماے ہند سے آخری وقت تک وابستہ رہے اور جمیعت العلماے ہند کو خیرباد کہے بغیر کمیونسٹ پارٹی سے ایم پی بھی رہے۔ اس کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے مولانا ندوی مرحوم نے فرمایا :
اردو واحد زبان ہے جو سب سے کم عمر اور سب سے زیادہ بولی جاتی ہے۔ اردو کی عظمت کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ سیرت پر سب سے بہترین کتب اردو میں ہیں اور علامہ شبلیؒ کی سیرت النبی کے عربی تراجم کے لیے متعدد مرتبہ فنڈز کی پیش کش کی گئی مگر افسوس کہ وہ ممکن نہ ہوسکا۔1؎
مولانا ندوی کے یہ خیالات واشگاف طور پر اردو کے اسلامی کردار کے مختلف زاویوں کو نمایاں کرتے ہیں۔ 1988 بابری مسجد تحریک کے عروج کا زمانہ تھا۔ ہندو مسلم فسادات کا لامتناہی سلسلہ جاری تھا۔ ملیانہ اور ہاشم پورہ کے انسانیت سوز واقعات میں ایک موجِ خوں سر سے گزر چکی تھی مگر مستقبل بھی کم مخدوش نہ تھا؛ بھاگل پور کے مسلم نسل کش فسادات کی آہٹ صاف سنائی دے رہی تھی۔ سیاسی توازن برقرار رکھنے کے لیے رابطہ کمیٹی کی اس تحریک کی شدید ضرورت کانگریس کو تھی۔ ظاہر ہے کہ نتیجہ اس تحریک کا بھی وہی نکلا جو اس کا مقصد تھا : اس نے بھی عوامی طور پر اردو کے اسلامی زبان ہونے کے احساس کو مزید تقویت دی۔ 1989 میں اترپردیش اور مرکز دونوں جگہ سے کانگریس کی حکومت ختم ہوگئی یوں تحریک کا کام بھی فوراً ہی رک گیا۔ یہاں یہ یاد دلانا شاید مناسب ہو کہ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ان چند اکابرینِ امت میں تھے جو حکومت کے ساتھ براہِ راست اس سودے بازی میں شامل تھے کہ شاہ بانو معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف پارلیمنٹ تو قانون بنادے گی مگر اس عمل سے مشتعل ہندوئوں کو بھی بابری مسجد کو منہدم کرکے اس کی جگہ رام مندر بنانے کی اجازت دے دی جائے گی۔ یہ بات دیگر ہے کہ فصل بوئی کانگریس نے تھی مگر کاٹی بی جے پی نے۔ مسلم سیاست کے سرد و گرم چشیدہ اور جماعتِ اسلامی کے ترجمان سہ روزہ دعوت کے سابق مدیر محفوظ الرحمٰن کے خیالات اس ذیل میں دستاویزی اہمیت کے حامل ہیں :
’’… وزیراعظم راجیو گاندھی نے بابری مسجد کا تالا کھُلنے سے قبل ایک خصوصی ملاقات کے دوران علی میاں کو آنے والے حالات سے باخبر کردیا تھا۔ جو کچھ ہوا وہ اس سے کسی نہ کسی درجے میں واقف تھے۔ ان کے لیے بابری مسجد کا تالا کھلنا کوئی غیرمتوقع چیز نہیں تھی اور حالات و واقعات کی روش کے اسی پیشگی علم نے انھیں بابری مسجد کے تعلق سے کوئی قدم اٹھانے سے باز رکھا …‘‘
(مسلم قیادت کا نیا چہرہ، مضمون از محفوظ الرحمٰن مشمولہ مذہب، مسلمان اور سیکولرازم، مرتب و ناشر اشفاق محمد خاں، نئی دہلی، جون 1996، ص 189)
’’… اگر مسلمان خود بھی بابری مسجد کے قضیے کو سیاسی پارٹیوں سے کٹنے اور جڑنے کی بنیاد بناتے ہیں تو پھر ان لوگوں کو غلط کیسے کہا جائے گا جنھوں نے رام اور رام جنم بھومی کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ یہ لوگ بھی تو وہی کررہے ہیں جو مسلم پرسنل لاء بورڈ کے لوگ کرنے جارہے ہیں۔ اگر سنگھ پریوار کی روش غلط ہے اور اس کے غلط ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے تو پھر مسلم پرسنل لاء بورڈ کی روش کو بھی کسی لاگ لپیٹ کے بغیر غلط ہی کہا جائے گا۔‘‘
(ایضاً، ص 193)

احیاے اردو کے مآخذ:
یہاں ایک اور بات کا ذکر بھی ضمناً ضروری ہے کہ مابعدِ تقسیمِ مسلم انڈیا کی تاریخ میں اردو سیاست سے متعلق کسی ماخذ کی تلاش جوے شیر کے لانے سے کم نہیں۔ ویسے تو مجموعی طور پر ہندستان میں مسلمانوں سے متعلق جو کچھ لکھا گیا وہ یا تو متعصب ہندو ذہن کی کارگزاری ہے یا پھر مسلمانوں سے ہمدردی رکھنے والے ان معصوم لوگوں کے شاعرانہ خیالات و افکار کا مجموعہ جنھوں نے خود کو مربی اور مسلمانوں کو مظلوم تصور کرلیا تھا، اس لیے، مسلمانوں سے متعلق ان حضرات نے جو کچھ لکھا اس کا حقیقتِ حال سے کچھ تعلق نہیں۔ تقسیم کے بعد اردو اخبارات و رسائل مسلمانوں کے جن زخموں کی تجارت کرتے رہے ان میں اردو کا گہرا گھائو سب سے نمایاں تھا۔ ان اخبارات کے مطالعے سے اس صورتِ حال کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے جس میں مسلمان جذباتی طور پر تو بارود کے ڈھیر پر بیٹھا تھا مگر اردو کے سیاق و سباق میں وہ سب سے زیادہ کنفیوژ اس لیے تھا کیوں کہ پاکستان میں اردو کی قومی زبان کی حیثیت نے اسے ہندستان میں کہیں کا نہیں چھوڑا تھا۔ افسوس کی بات مگر یہ ہے کہ اردو اخبارات و رسائل کی فائلیں کہیں موجود ہی نہیں اور جو اخبارات بند ہوگئے ان کے دفاتر تک بک چکے ہیں یوں ان تک رسائی کی کوئی شکل اب نہیں بچی ہے۔
1983 میں سید شہاب الدین نے ماہ نامہ مسلم انڈیا اردو اور انگریزی میں شائع کرنا شروع کیا۔ اردو ایڈیشن کچھ مدت بعد بند ہوگیا مگر انگریزی ماہ نامہ بیس برسوں تک تواتر کے ساتھ شائع ہوا اور تین برس کے توقف کے بعد سید شہاب الدین نے اس کی اشاعت دوبارہ شروع کردی۔ ماہ نامہ مسلم انڈیا کے مستقل ابواب میں اردو کی نمایاں حیثیت رہی ہے۔ اس جریدے کی اشاعت کا واحد مقصد سید شہاب الدین کے سیاسی ایجنڈے کا فروغ تھا جس میں اردو کی مرکزی حیثیت تھی۔ معروضی ذہن کو مسلم انڈیا کی فائل کے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچنے میں پانچ منٹ بھی نہیں لگتے کہ سید شہاب الدین کس شاطرانہ ذہن کے ساتھ اپنی تاریخ — جو تقسیم کے بعد پوری طرح ہمت باختہ مسلم انڈیا کی تاریخ بھی ہے — تو اپنے ایجنڈے کے مطابق خود اپنے ہی قلم سے لکھ رہے ہیں لیکن 1983 سے پہلے کی اردو سیاست اور ڈاکٹر فریدی جیسے لوگوں کی سیاسی زندگی میں اردو ایجنڈے کے مطالعے کے لیے عام طور پر مواد دستیاب نہیں یوں اُس دور میں اردو کے نام پر کی جانے والی سیاست کے مطالعے کے مآخذ تقریباً مفقود ہیں۔ کسی قابلِ ذکر لائبریری میں غیرادبی اخبارات و رسائل کی فائلیں شاید ہی موجود ہوں۔

یونی ورسٹی سطح پر اردو تعلیم کی سیاست کی سماجیات اور ہند و پاک تعلقات:
اب آئیے ایک نظر یونی ورسٹی کے اردو شعبوں سے وابستہ نیز ملحقہ کالجوں میں برسرِکار اساتذہ اور ان ہی کے ذریعے تشکیل دیے گئے اردو کے اس منظرنامے پر نظر ڈالیں جسے تکنیکی اعتبار سے مذہبی فریم سے باہر اردو کی سیاست کا آئینہ دار کہا جاسکتا ہے۔ ان حضرات کے ذریعے کی جانے والی سیاست دراصل اردو ادب کی وہ سیاست ہے جس کا دائرۂ اثر قدرتی طور پر محدود تر ہے۔ اردو کے ان اساتذہ کا تقرر حکومت کی اس منظم پالیسی کا نتیجہ تھا جس کے نتیجے میں پرائمری سے بارہویں درجے تک خصوصاً شمالی ہند میں اردو تعلیم کے نظام کو نیست و نابود کردیا گیا مگر ڈگری درجات کی سطح پر ان لوگوں کو اردو ادب کی تعلیم کے مواقع فراہم کیے گئے جنھوں نے اسکول کی سطح پر کبھی اردو نہیں پڑھی تھی۔ خصوصاً یونی ورسٹی کی سطح پر اردو پڑھنے اور پھر اردو ہی پڑھانے کے Canon میں جو لوگ شامل ہوئے ان کی اکثریت یا تو فرسٹ جنریشن لرنر (First generation learner) کی تھی یا پھر ان ہندوئوں کی جنھوں نے تقسیم سے قبل اس مجبوری کے سبب اردو پڑھی تھی کیوں کہ اسکول کی سطح پر اس کی تعلیم ملک کے بعض حصوں میں لازمی تھی۔ ان اردوداں ہندوئوں میں اکثریت ان خطوں سے آنے والے غیر سکھ ہندوئوں کی تھی جو بعد میں مسلم اکثریتی علاقے کے طور پر پاکستان میں شامل ہوگئے۔ ان حضرات کی اکثریت کا اقتصادی طور پر ہندوئوں کے برسرِاقتدار طبقے سے کچھ تعلق نہ تھا۔ آزاد ہندستان میں ہندو مسلم ہر دو اشراف نے کاروباری زندگی میں صرف انگریزی کو ترجیح دی یوں یونی ورسٹی اور کالج کی سطح پر اردو درس و تدریس سے وابستہ اکا دکا حضرات کو چھوڑ کر اکثریت ان لوگوں کی ہوگئی جو پہلی دفعہ تعلیم کے دائرے میں شامل ہوئے۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے 1993 میں اردو درس و تدریس سے وابستہ ان اساتذہ کو جہلا کی چوتھی نسل کہا تھا۔ 1985 کے آس پاس جب دینی مدارس کے ڈگری یافتہ حضرات کو یونی ورسٹیوں میں داخلے کا مجاز قرار دیا گیا اور بعد میں وہ لوگ بھی اردو درس و تدریس ہی کے پیشے سے بہ حیثیت اساتذہ وابستہ ہوئے تو ان کے ذریعے یونی ورسٹیوں میں ہونے والی اردو کی سیاست کا چہرہ بھی بدل گیا اور یہ محاذ بھی اندر ہی سے نہیں بلکہ باہر سے بھی اسلامی ہوگیا۔ یونی ورسٹیوں کے اساتذہ کے فرنٹ کے اسلامی ہوتے ہی اردو سیاست کے پاس کوئی نام نہاد سیکولر چہرہ نمائش کے لیے بھی نہیں بچا۔ دینی مدارس کے طلبہ اردو اداروں سے لے کر اردو اخبارات تک ہندی مسلمانوں کی زندگی کے ہر اس قابلِ ذکر شعبے میں پہلے ہی غالب آچکے تھے جس کا اردو سے ذرا سا بھی تعلق تھا۔ یونی ورسٹی سطح پر دینی مدارس کے فارغین کو بالعموم بی اے آنرس اردو، عربی اور اسلامیات یا پھر براہِ راست ایم اے اردو عربی اور اسلامیات میں داخلے کا مجاز قرار دیا گیا۔ یونی ورسٹی اور ملحقہ کالجوں کے اردو شعبوں سے ایم اے کرنے اور پھر درس و تدریس سے وابستہ ہوجانے والے ان حضرات میں جن کی ذہنی تربیت مذہبی اداروں میں ہوئی، اکثر فرسٹ جنریشن لرنر ہیں اور ان کی نئی نسل نے اردو میں کیریر بنانے کے بارے میں نہیں سوچا۔ ان اردو اساتذہ کے بچوں کی اکثریت نے ایک زبان کے طور پر بھی اردو نہیں پڑھی جس کی معقول سماجیاتی وجوہ تھیں۔ یونی ورسٹیوں میں اردو درس و تدریس سے وابستہ حضرات کا ڈگری یافتہ یا متمول ہونا چوں کہ حکومت کی پالیسی کے نتیجے میں ظہورپذیر ہوا یوں اردو اساتذہ کے طور پر یونی ورسٹیوں میں برسرِکار لوگوں میں آج اکثریت صرف ان لوگوں کی ہے جن کے لیے ہند و پاکستان کے بہتر تعلقات کا مطلب ہر دو ممالک میں ایسے ادبی سمیناروں کے انعقاد تک محدود ہے جن کی زبان اردو ہو اور جن میں انھیں بھی مدعو کیا جائے۔ اپنے پروفیشنل کیریر میں ترقی کے علاوہ اور کسی قسم کے سیاسی تحرک میں ان اردو اساتذہ کی کوئی دل چسپی نہیں۔ ان میں سے اکثر حضرات نے ہند و پاکستان تعلقات میں اردو کے رول کے بارے میں یا تو کبھی سوچا نہیں ہوگا یا پھر بس اتنا بھر کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے: ہندستان میں بھی اور پاکستان میں بھی۔ آئین ہند چوں کہ اپنی سیکولر ساخت کے اعتبار سے ان حضرات کے لیے Anthema ہے اور ایسی کسی تعلیم میں ان حضرات کی دل چسپی نہیں ہوسکتی جس کا خلقیہ اسلامی نہ ہو اس لیے اپنے عہدے کا لحاظ کرتے ہوئے ان حضرات کو اگر کبھی آئین کی بات کرنا بھی پڑی تو انھوں نے خود کو بس آئینِ عشق تک محدود رکھا اور تعلیم کے نام پر تو یہ غزل کی تعلیم کے متعلقات سے آگے بڑھے ہی نہیں۔ اردو کے ان اساتذہ کی اکثریت نے ’ہندو پاکستان تعلقات‘ کے فقرے یا اردو کی ادبی وراثت کو انتظار حسین تک اسی لیے محدود کیا کیوں کہ عسکری کے حوالے سے اسلامی خلقیے کا انتظار حسین سے بہتر دوسرا کوئی ایسا استعارہ اردو ادب میں موجود نہیں تھا جو ہندستان کے populist اور centrist اہلِ اقتدار کے منصوبوں کو راس آسکے۔ پاکستان میں اردو کے علاوہ دیگر زبانوں کا وہ ادب بھی ہے جو ہندو پاکستان کی مشترکہ ثقافتی وراثت میں اہم رول ادا کرسکتا ہے، یہ خیال یونیورسٹیوں کے اردو اساتذہ کو اگر نہیں آتا تو اس کے معقول سیاسی وجوہ ہیں۔ ہندستان میں یونی ورسٹی اساتذہ کی اکثریت اردو سے قریب ترین زبان ہندی کے ادب سے اسلامی وجوہ سے ہی دانستہ طور پر اس حقیقت کے باوجود بے خبر ہے کہ ان میں سے اکثر کو اچھی خاصی ہندی آتی ہے۔ اپنی مذہبی تعلیم کے پس منظر کے سبب یونی ورسٹی سطح کے یہ اردو اساتذہ بے خبر تو اردو ادب کے بڑے حصے سے بھی ہیں۔ اس بے خبری کی دو اہم وجہیں ہیں : دینی مدارس میں ان کی تعلیم و تربیت کا تمام زمانہ اسلامیات کے مطالعے میں گزرا اور اس عرصے میں ان حضرات نے دینی مدارس میں اردو زبان یا اس کے ادب کا مطالعہ صرف اُس زبانِ اردو کو سیکھنے کی غرض سے کیا جو دینیات کے مطالعے میں ان کی مدد کرسکے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اردو ادب کا بڑا حصہ دینی مدارس کے ان فارغین کے لیے کفریات کے ہم معنی ہے یوں اردو کے نام پر بڑی بڑی تنخواہیں وصول کرنے کے باوجود اردو کے ادبی خلقیے سے نفرت ان اساتذہ کی اکثریت کے خمیر میں ہے اور چوں کہ اسلام کی ترویج و ترقی کے علاوہ اور کسی قسم کے سیاسی تحرک میں ان کی کوئی دل چسپی نہیں یوں یونی ورسٹیوں کے اردو شعبے بے مصرف باہمی سیاست کے اکھاڑے بن کر رہ گئے۔ عمومی سطح پر ان حضرات کے سیاسی شعور اور سماجی بیداری کا یہ عالم ہے کہ اردو کی ترویج و ترقی کے لیے مولانا بھاشانی سے بڑھ کر تقریریں کرنے والے اللہ کے ان بندوں سے جب پوچھا جاتا ہے کہ کیا آپ کے بچے اسکول میں اردو پڑھتے ہیں تو اسلام کی تبلیغ کے علاوہ دنیا کی ہر چیز سے زمانے بھر کے یہ بے خبر اپنے بچوں کے اردو نہ پڑھنے کے دفاع میں اس لیے بھیگی بلی بن جاتے ہیں کیوں کہ ان کے خیال میں اردو پڑھنے کا مطلب اردو میں بی اے آنرس اور ایم اے کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ ان بے وقوفوں کی اکثریت کو یہ معلوم ہی نہیں کہ دسویں درجے تک اور بعض صوبوں میں بارہویں درجے تک تین زبانوں کا مطالعہ ہندستان کے اسکولی نظام میں ہر بچے کے لیے لازمی ہے یوں اگر ان کا بچہ اللہ کے فضل سے کسی انگریزی میڈیم اسکول میں پڑھتا ہے اور وہ فرنچ، جرمن یا سنسکرت کی جگہ ایک اختیاری مضمون کے طور پر اردو کا مطالعہ کرلے تب بھی وہ اپنے باپ کی طرح اردو کا پروفیسر بننے کی لعنت سے محفوظ ہی رہے گا۔

اس مقالے کا موضوع ہرچندکہ ہندستان سے متعلق ان سوالوں کو زیرِبحث لانا ہے جن کا تعلق ہند و پاکستان کے درمیان تعلقات بہتر کرنے کے ذیل میں وابستہ ان خواہشات سے ہے جن کے پورے ہونے کی کوئی توقع ہندستان کی حد تک اس اردو سے نہیں کی جاسکتی جس کے تعاقب میں اس کا وہ ماضی سرگرداں ہے جس نے اسے لسانی علاحدگی پسندی کے ایک طاقت ور آلۂ کار کے طور پر شناخت پذیر کرکے اس کے مخدوش مستقبل کا لائحۂ عمل متعین کردیا ہے۔ موضوع مگر اتنا زیادہ الجھا ہوا ہے کہ جب تک تمام متعلق سیاسی و سماجی محرکات کا مطالعہ نہ کیا جائے، اس قسم کی کوشش انتہائی پیچیدہ صورتِ حال کے سہل ترین تجزیے پر محمول کی جائے گی۔ اس پیچیدہ سماجی و سیاسی صورتِ حال کے مطالعے کی کوشش میں نے ممکن حد تک اختصار کے ساتھ کرنے کی کوشش کی ہے مگر پھر بھی بعض ایسے عوامل کا تجزیہ اس مقالے کے مندرجات میں شامل ہوگیا جن کا تعلق پاکستان سے ہے۔

پاکستان میں اقتدارکے ہم نوا ترقی پسند اردو اہلِ قلم اور ہند و پاک تعلقات:
پاکستان میں فروغ پارہی وہ معاصر اردو جس کی تقریباً تمام روایتیں خواہ وہ ادب کی ہوں، صحافت کی یا درس و تدریس کی، ان میں سے بیش تر چوں کہ اسلامی اساس پرستوں اور پیچیدہ مسلم شناخت سے مغلوب ہیں یوں وہ ہند و پاکستان کے تعلقات کو مزید کشیدہ تو کرسکتی ہیں، خوش گوار نہیں۔ اس مقالے کے مندرجات میں ہرچندکہ پاکستان میں اردو کی وہ روایت جس سے تعلقات کے ذیل میں خوش خیالی پیدا ہوسکتی ہے، میرا موضوع اس لیے نہیں کیوں کہ میرا اختصاص ہندستان پر ہے مگر وسیع تر تناظر میں پاکستان کی صورتِ حال کو ان مباحث میں شامل کیے بغیر کسی نتیجے پر پہنچنے کی امید چوں کہ بے سود ہے یوں میں خصوصاً پاکستان کے ترقی پسند اردو اہلِ قلم سے متعلق بعض نکات کی نشان دہی اس لیے کرنا چاہتا ہوں کیوں کہ عرصۂ دراز سے ہند و پاکستان کے بہتر تعلقات کا ٹینڈر اردو کی حد تک اسی مکتبِ فکر کے نام کھلتا رہا ہے جسے ترقی پسند ادیبوں کے گلے سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان میں اردو کے ادیبوں اور شاعروں کی اکثریت — مع نام نہاد ترقی پسندوں اور کمیونسٹوں کے — شروع ہی سے پاکستانی اقتدار کی ہم نوا رہی ہے اور پاکستان میں جس قسم کے سیاسی حالات رہے ان میں صرف ہندستان سے نفرت ہی وہاں کی سیاسی جماعتوں کے لیے بارآور ہوسکتی تھی۔ پاکستان میں نام نہاد جمہوریت کی دعوے دار پیپلز پارٹی جیسی سیاسی جماعتیں جو گذشتہ تین دہوں میں پاکستان کے ترقی پسند اور کمیونسٹ اہلِ قلم کا بسیرا ہیں، اپنی سرشت میں اتنی ہی فسطائی، غیرجمہوری اور ہندستان دشمن تھیں اور ہیں جتنا پاکستان کا فوجی اقتدار۔ کمیونسٹ اور ترقی پسندوں کی دو نمایاں ترین پاکستانی مثالوں میں سبطِ حسن اور احمد فراز کے بیانات اور ان کے کرداروں کا مطالعہ بغیر کسی تکلف کے ہمیں یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور کرتا ہے کہ پاکستان کے اردو ادب سے وہاں کے حاکموں نے صرف محمد حسن عسکری ہی کے ہاتھ سے مشت زنی* نہیں کرائی، جیساکہ اجمل کمال کا خیال ہے بلکہ اس کارِخیر میں سبط حسن سے لے کر احمد فراز تک سب اسی انہماک سے شامل رہے ہیں جس نے ہندو پاکستان کے تعلقات کو مزید خراب اس لیے کیا کیوں کہ پاکستان کے کمیونسٹ یا ترقی پسند اہلِ قلم کی ہندو پاکستان دوستی کی خواہش ایسے ہی تھی جیسے جناح کی متحدہ ہندستان کی۔ سیاسی فہم سے عاری ہندستان میں بعض حضرات جس طرح جناح کے بعض ذاتی رویوں کا تجزیہ کرکے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ وہ علاحدگی پسند نہیں تھے یا ان کی مسلم سیاست ماضی پرست اور ظلمت پسند مسلم علماء سے اس لیے مختلف تھی کیوں کہ وہ شراب پیتے تھے، سور کھاتے تھے اور اپنی پارسی بیوی کو انھوں نے مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا، اس طرح کے سہل پسندانہ تجزیے کے بعد تو بس اردو کے ادبی نقاد ہی اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ پاکستان میں اردو کے ادیبوں شاعروں خصوصاً ترقی پسند اردو اہلِ قلم کی ہندو پاکستان کے بہتر تعلقات میں بڑی دل چسپی ہے۔
اردو کے ادبی نقادوں کے پاس تو اس کام کے لیے اسلام پسند محمد حسن عسکری کے چیلے انتظار حسین اور ترقی پسندوں کے پاس ذوالفقار علی بھٹو کے سلسلے سے بیعت احمد فراز کی شخصیات اپنے مقاصد کے لیے موجود ہیں۔ آپ میں سے جن حضرات کا حافظہ کمزور ہو یا جن کی سیاسی بصیرت قیامِ بنگلہ دیش کے عمل میں بھٹو کے فسطائی حد تک غیرجمہوری رویے سے واقف نہ ہو یا جن حضرات کو اس وقت کے مشرقی پاکستان کی بنگلہ نژاد آبادی کے خلاف فسطائی حد تک غیرجمہوری بھٹو کا بیان ’اِدھر ہم، اُدھر تم‘ یاد نہ ہو یا سمجھ میں نہ آیا ہو انھیں اسلامی سوشلزم کے داعی ذوالفقار علی بھٹو کا ہندستان سے متعلق یہ مشہورِ زمانہ بیان تو ضرور ہی یاد ہوگا : ’چینیوں نے جس روز ہمالیہ پر چڑھ کر پیشاب کردیا، سارا ہندستان بہہ جائے گا‘۔
آگے بڑھنے سے پہلے سیدالشہدا ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں، مُوسیٰ سے مارکس تک، کے مصنف اور پاکستانی کمیونسٹوں کے امام سبط حسن صاحب کے یہ چشم کشا خیالات ملاحظہ فرمائیے جو انھوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی تقریبات کے سلسلے میں لندن میں منعقدہ جشن میں ظاہر فرمائے۔ میں نے یہ اقتباس ایک ترقی پسند نقاد سید محمد عقیل کے اس سفرنامے سے نقل کیا ہے جو سید محمد عقیل نے انجمن ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی تقریبات کے لیے لندن کا سفر کرنے کے بعد تحریر فرمایا :
’’… [4 اگست 1985کو] ساڑھے بارہ بجے چھٹا اجلاس شروع ہوا۔ مجلسِ صدارت میں پروفیسر امین مغل (پاکستان)، پروفیسر شکیل الرحمٰن (انڈیا)، صدیق الرحمٰن قدوائی (انڈیا) اور رضا ہمدانی (پاکستان) تھے، اور مقررین میں سید سبطِ حسن (پاکستان)، کرتار سنگھ دُگل (انڈیا)، پروفیسر نامور سنگھ (انڈیا)، ڈاکٹر شین اختر (انڈیا)، پروفیسر زاہدہ زیدی (انڈیا)، فخر زماں (پاکستان)، سعید انجم (ناروے)، محمودالحسن (انڈیا) اور پروفیسر امین مغل تھے۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر شین اختر کے مقالے پر بڑا ہنگامہ ہوا۔ انھوں نے اپنے مقالے میں لکھ دیا کہ ایشیائی ممالک میں جہاں جہاں فوجی حکومتیں قائم ہیں وہاں وہاں ادیبوں کی آواز دب گئی ہے اور ان ادیبوں نے صحیح طور پر اپنا فرض انجام نہیں دیا۔ اس بات پر سب سے پہلے سید سبطِ حسن کو اعتراض ہوا کہ کسی ملک کی طرف اس طرح کا اشارہ کیوں کیا گیا؟ اور یہ کہ صرف پاکستان کو نظر میں رکھ کر یہ بات کہی گئی ہے! انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ ہندستان کے لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ہم پر اعتراضات کریں۔ غالباً سعید انجم (ناروے) نے شین اختر کی حمایت کی تو سید سبطِ حسن اپنی جگہ سے اٹھ کر اسٹیج پر جاپہنچے اور بولے کہ ’’پاکستان میں آکر کہیے تو معلوم ہو‘‘۔ بات بہت بڑھ گئی۔ یہ بات سبطِ حسن جیسے منجھے ہوئے مارکسسٹ کی زبان سے اچھی نہیں لگی۔ اس پر صفدر میر اور عبداللہ ملک کے ساتھ بہت سے پاکستانی ادیبوں نے ایک طرح پروٹسٹ کیا۔ کون کس کا ایسے مجمعے میں منھ بند کرسکتا ہے۔ کسی نے یہ بھی کہہ دیا کہ سید سبطِ حسن نے جان بوجھ کر یہ شاخسانہ اٹھایا ہے جس سے حکومتِ پاکستان کو معلوم ہوجائے کہ انھوں نے حکومت کی حمایت کی ہے، اور انھیں وہ آسانیاں حاصل رہیں جو حکومت کی طرف سے انھیں پاکستان میں حاصل ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ اس میں صداقت کیا ہے؟ سبطِ حسن تو ایسے کبھی نہ تھے۔ ہم سب ان کا احترام کرتے ہیں اور انھیں ایک تجربہ کار اور سچا مارکسسٹ سمجھتے ہیں لیکن اگر واقعی ایسا ہے تو:
اب کسے رہنما کرے کوئی
مگر یہ شک سبطِ حسن کی طرف سے لوگوں کو کیوں ہے؟ لوگ انھیں حکومت کا آدمی کیوں سمجھنے لگے ہیں؟ سید سبطِ حسن کا یہ رویّہ عجیب ضرور تھا کہ جب عالمی ادب کی اجتماعی کیفیت کا محاسبہ کیا جارہا ہے تو اس میں سے کسی کو پاکستان پر باتیں کرنے کا حق کیوں نہیں ہے؟ اور اگر پاکستان کے ادیبوں اور ادب پر باتیں کرنے کا حق ہندستانی ادیبوں کو نہیں تو دوسرے ممالک کے ادب اور ان کے احتجاج پر کیسے حق ہوسکے گا۔ کل کے جلسے میں کسی پاکستانی ادیب نے بحث کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ادب کی تدوین اور تحقیق اس طرح ہونی چاہیے جس طرح سید سبطِ حسن کررہے ہیں : یعنی بجاے حال کے ادب کا محاسبہ کرنے کے ماضی کے ورثے پر ادیبوں کو کام کرنا چاہیے۔ اور اگر ’’ماضی کے مزار‘‘ اور ’’موسیٰ سے مارکس تک‘‘ جیسی کتابیں کسی ملک میں لکھی جاتی ہیں، تو اس سے ملک اپنی تہذیبی جڑوں اور روایتوں سے واقف ہوتا ہے۔ لمحاتی ادب میں کیا دھرا ہے؟ ادب کا صحیح تناظر یہی ہے، جو سیدسبطِ حسن آج کل پیش کررہے ہیں۔ مجھے خیال گزرا کہ جس طرح کی شعلہ بیانی پاکستان بدر ادیبوں میں آج کل ہے یہ اسی احتجاج کا ایک حصہ ہے جو پاکستان میں خاموشی کے ساتھ زور پکڑ رہا ہے۔ اور جس کی دبی دبی آوازیں غزلوں اور علامتی افسانوں کے ذریعے ہم تک پہنچ رہی ہیں۔ انور سجاد کا افسانہ کونپل اس کی سب سے اچھی مثال ہے۔ ’’ماضی کے مزار‘‘ بہت اچھا علمی اور ادبی کام ہے لیکن یہ وقت کی آواز نہیں۔ اس میں جو ایک طرح کی Passivity ہے وہ انقلابیت اور شعلہ بیانیوں کا دم گھٹنے سے وجود میں آئی ہے۔ سید سبط حسن ایک مارکسسٹ نظریہ ساز ادیب ہیں۔ شاید حالات کے جبر نے انھیں بہت کچھ زیر کررکھا ہے۔ آخر انسان کو زندہ بھی تو رہنا پڑتا ہے، اور انہی حالات میں جن میں وہ چاروں طرف سے جکڑا ہوا ہے۔‘‘
(لندن- او - لندن، ڈاکٹر سید محمد عقیل، ناشر کا نام درج نہیں، 1987، ص 42-43)
ویسے یہ کانفرنس لندن میں آباد ایک ایسے پاکستانی عاشور کاظمی نے برطانوی حکومت کی ایک بڑی گرانٹ حاصل کرکے منعقد کی تھی جن کا کبھی بائیں بازو سے کچھ تعلق نہیں رہا۔ بعد میں کاظمی صاحب پر مالی بدعنوانیوں کے الزامات دستاویزی شہادتوں کے ساتھ گشتی مراسلوں کی شکل میں دیر تک اہلِ اردو کو ہندو پاکستان میں موصول ہوتے رہے۔ ’مال ختم پیسہ ہضم‘ کے مصداق عاشور کاظمی دوسری نئی بدعنوانیوں میں لگ گئے اور ان کی وجہ سے برطانیہ میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا جو شیرازہ منتشر ہوا، اسے پھر کوئی منظم نہ کرسکا۔
پاکستان کے اردو اہلِ قلم عموماً بھی اقتدار اور اہلِ اقتدار سے قربت رکھنے کے معاملے میں ہندستان کے بڑے بڑے خوشامد پسند جغادریوں کو دھول چٹانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس ذیل میں افتخار عارف کا ذکر ان سے منسوب اس مشہور جملے کے ذیل میں اب ضرب المثل بن گیا ہے کہ اپنے افسر کی تعریف تو سب کرتے ہیں مگر افتخار سب کے افسروں کے قصیدہ خواں ہیں۔ پاکستان کے اردو ادبی معاشرے میں عمومی populism بھی اس درجہ ہے کہ جب کوئی پاکستانی اردو اہلِ قلم خصوصاً ہندستان میں پاکستانی سیاست پر بات کرتے ہوئے گاجروں میں گٹھلیاں ملانے کے لیے ادب کے استعاراتی نظام کا سہارا لے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ جمہوریت پسند اور ظلم و جبروت کے مخالف پاکستان کے اہلِ قلم نے جس ادب کی تخلیق کی اس کا اسمِ اعظم انقلاب کے عظیم ادب کا اتباع کرتے ہوئے استعاراتی نظام کی ادبی روایت کے ذریعے عوام کو بیدار کرنا تھا تو اس اہلِ قلم کی حالت اگر زیادہ نہیں تو اتنی مضحکہ خیز ضرور ہوتی ہے جتنی بہار کے اس ایم ایل اے کی جو کسی ٹی وی چینل پر لالو پرساد یادو کو مارکس اور لینن جیسا سیاسیات کا نباض عالم بتائے۔

پاکستان بہ حیثیت ایک مسلم ملک اس مسلم امت کا حصہ ہے جس کے اسلامی فولڈ میں کچھ نام نہاد متوازن ذہن بالکل ایسے ہی موجود ہیں جیسے آر ایس ایس میں اٹل بہاری واجپئی جیسے موڈریٹ لوگ جو فسطائیت کے وسیع تر مفاد میں ہندستان کے منظرنامے پر بڑی ہوشیاری سے پیش کیے گئے اور بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد گجرات 2002 واقع ہوگیا۔

پاکستانی اور ہندستانی جمہوریت کی نظریاتی اساس:
پاکستان جیسے کسی اسلامی معاشرے میں ہندستان جیسی جمہوریت کا تصور نظریاتی طور پر ممکن ہی نہیں اور ہندستان جیسے جمہوری اور تکثیری معاشرے سے پاکستان کا نظریاتی تصادم لازمی امر ہے۔ اسلامی دنیا میں جمہوری نظام کی ایسی کوئی مثال ہمیں اس لیے بھی نہیں مل سکتی کیوں کہ اسلامی خلقیے میں جدید جمہوریت کا کوئی تصور موجود نہیں، اس کے لیے امکانات بھی معدوم ہیں۔ وہ اسلامی نظریہ جس میں حاکمِ وقت کے لیے امیرالمومنین ہونا ضروری تھا، ہندستان جیسی جمہوریت سے کیسے لگّا کھا سکتا ہے جہاں ہندو اکثریت کے سبب کسی امیرالمومنین کی موجودگی کا سوال ہی نہیں۔
اپنے اسلامی خلقیے کے سبب ہندستان میں بھی اردو ہر حال میں پین اسلامک شناخت کی حامی و ہم نوا رہے گی اور جو لوگ اسلامی خلقیے کے وسیع تر دامن میں نہ سما سکیں گے وہ کنارے کردیے جائیں گے۔ ہندستان میں اردو کے ہندو اہلِ قلم کی مثال سامنے ہے جن کی تعداد اسی لیے سکڑ کر چند افراد تک رہ گئی ہے کیوں کہ یہ ہندو اہلِ قلم ہندستان کے جمہوری نظام کی موجودگی میں خود کو اسلامی خلقیے میں ضم کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ پاکستانی معاشرے کو کسی بھی سطح پر اس ہندستانی جمہوریت سے مماثل کیا ہی نہیں جاسکتا جو گذشتہ ساٹھ برسوں میں سماجی تکثیریت کے شدید دباؤ میں متعدد سیاسی اور اقتصادی چولے بدل چکی ہے، جہاں اقتصادی concern سیاست کا ایجنڈا طے کرتے ہیں۔ سیاست میں اقتصادی رجحانات کا فیصلہ کن دخل — خواہ اس کی شکل اکثر منفی ہی کیوں نہ معلوم ہوتی ہو — ان تمام نظریات کے لیے روح فرسا ہے جو مارکسی نظامِ فکر سے بُعد رکھتے ہوں، اسی لیے، مارکسی نظامِ فکر کی سطحی فہم رکھنے والے حضرات ہندستان کے موجودہ اقتصادی لبرائزیشن کو بڑی آسانی سے مارکسی نظریے کی شکست سے تعبیر کردیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ حقیقت نہیں۔ یہاں ہندستانی اقتصادیات کے لبرائزیشن کی بحث اور اس کے ماڈل نیز ان فطری تضادات کے ذکر کا موقع نہیں جن کا واقع ہونا اس لیے لازمی ہے کیوں کہ مختلف وجوہ سے ہندستان میں اقتصادی لبرائزیشن کی رفتار عدم توازن کا شکار رہی۔ اس عدم توازن کے لیے مارکسی ملا اتنے ہی ذمے دار ہیں جتنے اندرا گاندھی جیسے اقتصادیات میں کورے حاکم۔ یہ مگر طے ہے کہ نظریات کے ذیل میں تضادات کے بعد ہی تو بحث و تمحیص کا وہ سلسلہ جنم لیتا ہے جو آخرش سائنٹفک نظریے اور مذہبی عقیدے کے درمیان حدِفاصل کا کام کرتا ہے۔

ہندو پاکستان دونوں ہی ممالک کے اردو اہلِ قلم کی اکثریت چوں کہ ان تمام محرکات سے بے خبر ہے جو ہندو پاکستان جیسے دو حددرجہ حساس ممالک کے تعلقات میں بہتر رول ادا کرسکتے ہیں یوں میں ایسی کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں۔ دونوں ہی ممالک کے اصطلاحی اردو اہلِ قلم حضرات کی اکثریت کو یہ معلوم ہی نہیں کہ اب ڈپلومیسی اپنے روایتی لباس کو اتار کر وہ اقتصادی چولا پہن چکی ہے جسے دنیا بھر میں چیمبرز آف کامرس کے ذریعے تیار کیا جاتا ہے؛ آج سعودی عرب میں بھی FDI ہی ڈپلومیسی اور سیاست میں سعودی حکمرانوں کا سب سے طاقت ور ہتھیار ہے۔ وہاں عورتوں کی نمائندگی کی slow-windows وہاں کے مختلف چیمبرز آف کامرس ہی ہیں جہاں اسلامی لباس میں ملبوس خواتین اکنومک ڈپلومیسی کے ذریعے سعودی عرب کی آہستہ ہی سہی مگر بدلتی ہوئی سیاست کی آہٹ دنیا کو ہر روز دیتی ہیں۔ اسلامی لباس میں ملبوس یہ خواتین مختلف بین الاقوامی fora پر تقریریں کرکے جہاں ایک طرف سعودی حکمرانوں کے سیاسی مفادات کا تحفظ مسلم جذبات کے ذیل میں کرتی ہیں، وہیں اس سے اصل مقصد یعنی سعودی اقتصادیات میں FDI کے لیے راہ ہموار کرنے کے بین الاقوامی دبائو اور اس سے متصادم مقامی سیاسی مفادات کے درمیان توازن قائم رکھنے میں سعودی حکمرانوں کو آسانی ہوجاتی ہے۔
غور سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندو پاکستان ہر دو ممالک میں اردو ادب کے اہلِ قلم کی اکثریت کی سیاسی فہم کا معاملہ چھٹے دہے میں بننے والی ممبئی کی ان فلموں جیسا ہے جن میں ہیرو ہیروئن گیت گانے کے مناظر تو پھولوں کی کیاریوں میں ریکارڈ کراتے تھے مگر فلم کا اسکرپٹ اس طرح لکھا جاتا تھا کہ فلم بینوں کو یہ تاثر دیا جاسکے کہ اس گانے کی فلم بندی سوئٹزرلینڈ یا پیرس میں کی گئی۔ اُس دور میں تو ان ممالک کا نام ہمارے colonial ذہن کو خاصا مرعوب کرتا تھا۔

ادیب کی سماجی ذمے داری اور اردو کے اہلِ قلم:
میں سرِدست اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ ادیب کی ذمے داری کہاں سے شروع ہوتی ہے، اس کی کوئی سماجی ذمے داری ہے بھی یا نہیں مگر مجھے یہ ضرور محسوس ہوتا ہے کہ اردو ادب میں بھی جو لوگ سماجی ذمے داری کے قائل ہیں، ہندستان کے اردو اہلِ قلم کی حد تک وہ بھی اب اپنی سماجی ذمے داری ایسے سمیناروں میں تقریریں کرکے ہی پوری کرلیتے ہیں جو State funding سے منعقد کیے جاتے ہیں۔ اطالوی مفکر گرامشی کی مشہورِ زمانہ اصطلاح میں تقریر کے ان غازیوں کو inorganic intellectual کہا جاسکتا ہے۔ اردو ادب میں پائے جانے والے ریڈیکل قسم کے ہندستانی اردو اہلِ قلم البتہ پیس مارچ کے جہاد یا حکومتِ پاکستان کی دعوت پر وفود میں شرکت کرکے گنگا نہا لیتے ہیں۔ 2006 میں بائیں بازو کے اردو Activist خاصی بڑی تعداد میں ایک وفد میں پاکستان گئے تھے۔ ان تمام خواتین و حضرات کی حفاظت کے لیے حکومتِ پاکستان نے ہر شہر میں خاصے سخت انتظامات کیے۔ افواجِ پاکستان کی سیسہ پلائی ہوئی اللہ کی دیوار جیسے مضبوط محافظ دستوں کے گھیرے میں یہ وفد پاکستان میں کس قسم کے ریڈیکل لوگوں سے ملا ہوگا، اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس وفد نے دونوں ممالک خصوصاً پاکستان کے نظریہ سازوں کو عوام دوست، جمہوری پالیسیوں کے نفاذ کے بارے میں کیا کچھ کرنے پر مجبور کیا ہوگا، اس کا قیاس کرنا بھی مشکل نہیں۔
بڑی حد تک ادیب کی سماجی ذمے داری کی بحثیں اردو میں اس وقت ہوئیں جب خود ہندستان ہی کے بیش تر لوگ وزیرِاعظمِ ہندستان کو ملکۂ وکٹوریہ کا نمائندہ سمجھتے تھے اسی لیے جس دور میں ادب کی یا ادیب کی سماجی ذمے داری سے متعلق بحثیں اردو کے خواص پسند اور چند سو کی اشاعت والے مقتدر علمی جرائد میں ہوتی تھیں اس وقت بھی اردو کے دو چار انگریزی داں چودھری براہِ راست انگریزی میں یا فرینچ وغیرہ کے انگریزی ترجمے پڑھ کر اردو میں اصل بیانات کو جس طرح چاہتے تھے اپنے امریکی آقا یعنی سی آئی اے کے حکم کے مطابق مسخ کرکے یہ ثابت کردیتے تھے کہ ادیب سے سماجی ذمے داری کی توقع کرنے والے لوگ اول درجے کے احمق ہیں۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سی آئی اے کے ان ایجنٹوں کی تحریروں کے بیش تر قاری اور شرکا یونی ورسٹیوں کے اردو شعبوں یا ملحقہ کالجوں میں اردو کے مطلق جاہل استاد تھے۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے 1955 کے آس پاس اردو اساتذہ کے طور پر بھرتی ہونے والوں کو جہلا کی پہلی نسل کہا ہے یعنی اب ان کی پانچویں نسل برسرِکار ہے۔ ان تمام بحثوں میں اصل شرکا یہ جہلا یا ان کے وہ جاہل شاگرد ہی رہے ہیں جو ان بحثوں کے زمانے میں دوسری یا تیسری نسل کے طور پر یونی ورسٹیوں میں بہ حیثیت استاد درس و تدریس کی خدمات انجام دے رہے تھے۔ اس بحث کو چھیڑنے کا میرا مقصد صرف یہ ہے کہ ہندستان کے تبدیل شدہ منظرنامے میں سماج آپ سے تحرک کا مطالبہ آج پہلے سے کہیں زیادہ کرتا ہے۔ میں یقین نہیں کرسکتا کہ جب آپ کا بیٹا قتل ہوجائے یا آپ کی نابالغ معصوم بیٹی کے ساتھ زنا ہو تو آپ پولس میں رپورٹ کرنے کے بجاے کسی اردو رسالے میں جو براہِ راست نہیں تو بالواسطہ حکومت ہی کے تعاون سے شائع ہوتا ہے، اس موضوع پر ادب کے حوالے سے کوئی مضمون لکھیں گے یا پھر حکومت سے باقاعدہ فنڈ حاصل کرکے سمینار منعقد کرکے اس موضوع پر بحث کریں گے کہ ادیب کے طور پر پولس کو مطلع کرنا اور ملزم کو کیفرِ کردار تک پہنچانا آپ کی ذمے داری نہیں ہے؟
تقسیم کے بعد جو سیاسی حالات ہندستان میں رونما ہوئے ان میں اردو اہلِ قلم کی وہ اکثریت جو خود کو ہندستان میں اردو کی سیکولر سیاست کا حامی کہلوانا پسند کرتی تھی، اس کی ذہنی ساخت اور علمی صلاحیت اس درجے کی تھی ہی نہیں کہ وہ ہندو پاکستان کے درمیان واقعتا کسی پل کا کام کرسکے۔ ہندو پاکستان کے تعلقات کی بات تو چھوڑیے، تقسیم کے بعد ہندستان کے اردو ادیب بدترین سانحات کے وقت بھی کسی قسم کے سماجی تحرک میں شامل نہیں رہے۔ گجرات 2002 کے حد درجہ شرم ناک اور فسطائیت کی تمام حدود کو پار کرجانے والے واقعات کے بعد ہندستان کے اردو ادیبوں نے کسی تحرک کا مظاہرہ سرے سے نہیں کیا۔ دوسری زبانوں کے ادیبوں کے ذریعے جاری کی گئی بعض اپیلوں پر اردو اہلِ قلم نے دستخط کرکے اس کی بہ قلم خود ایسی تشہیر کی کہ اردو کے ان زعما کے بیانات پڑھنے والوں کو شرم آگئی۔

ہند و پاکستان دو مختلف سیاسی تہذیبیں:
ہند و پاکستان واضح طور پر دو مختلف ممالک ہیں، دو سیاسی تہذیبیں ہیں۔ سیاسی تہذیبیں اگر معاشرتی عناصر کے ساتھ مذہب سے بھی متاثر ہوتی ہیں — جو ضرو ر ہوتی ہیں — تو پاکستان کی موجودہ تہذیب جو اسلام کے اس انتہاپسند اور علاحدگی پسند ماڈل کا نتیجہ ہے جس نے بیسویں صدی کے نصفِ آخر کے تین دہوں میں تیل کی دولت کے بوتے پر نہ صرف اسلام کے انتہاپسند وہابی ماڈل کو جلا بخشی بلکہ وہابیت کے اس ماڈل کے خلاف جو مذہبی ردّعمل ہوا، اس سب کے بدترین مظاہر کا بھی پاکستان بہترین آئینہ خانہ ہے۔ لفاظی اور لسّانی سے قطعِ نظر حقیقت یہی ہے کہ تقسیمِ ہندستان کے وقت ہندستان سے پاکستان ہجرت کرنے والے مسلمان ہندستان میں ڈنڈے مار کر گھروں سے باہر نہیں نکالے گئے تھے، وہ اپنی مرضی سے اسلامی مملکت کی تلاش میں وہاں گئے تھے۔ پاکستان کا سیاسی طور پر جو حشر ہوا یا وہاں جس قسم کا عجیب الخلقت معاشرہ وجود میں آیا وہ بھی کوئی عجوبہ نہیں۔ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والا برِصغیر کا یہ خطہ بھی دنیا کے ان مذہبی ممالک میں سے ایک بن گیا جنھوں نے مذہب کے زیرِاثر جمہوریت کو ملعون کرکے اسلام کے نام پر خود کو ملاؤں کے حوالے کردیا تھا۔ بیش تر مسلم ممالک کی طرح مسلکی تنازعات کی اجارہ داری، عدم تحمل، مذہبی شدت اور تشدّد، خواتین کے حقوق کا استحصال، یہ تمام برائیاں اپنی انتہا کے ساتھ ملا کی مملکتِ پاکستان میں مذہب کے استحصال کے توسط سے عام ہوئیں۔ یوں اگر پاکستان میں ہر طرف ایسی ہی خبریں دکھائی دیتی ہیں جن میں مندرجۂ بالا امور ہی قابلِ ذکر ہوں تو اس میں تعجب کی بات کچھ نہیں۔ پاکستان حالاں کہ وہ جدید ترین ملک ہے جو مذہب کے نام پر دورِ جمہور میں قائم ہوا مگر اس میں وہ تمام برائیاں موجود ہیں جو دورِ جاہلیت کے اسلامی ممالک میں پائی جاتی ہیں۔ اپنی اسی خوبی کے سبب اس نے بنگلہ دیش نام کے ایک اور مسلم ملک کو جنم دیا جو مذہبی شدت پسندی میں پاکستان ہی کے نقشِ قدم پر چل رہا ہے؛ نقشِ ثانی کو نقشِ اول سے بہتر ہونا ہی چاہیے۔
پس ثابت ہوا کہ …:
جیساکہ میں نے ابتدا ہی میں عرض کردیا تھا کہ میرے معروضات کا موضوع ہندستان تک محدود ہے یعنی ہندستان کے وہ اردو اہلِ قلم جن سے ہندو پاکستان کے تعلقات میں کسی قسم کا مثبت رول ادا کرنے کی امید کی جاتی ہے، ان کے رویوں سے بحث اس مقالے کے مندرجات کا مرکزی خیال ہے۔ اپنے معروضات کے درمیان میں نے اس امر پر بھی اظہار خیال کیا کہ اردو کی اسلامی روایت کے امین پاکستان کے اردو اہلِ قلم کی اکثریت اقتدار کی غلام گردشوں کی اسیر ہے۔ میرا بنیادی موضوع چوں کہ پاکستان نہیں ہے یوں میں نے ایسے واقعات کے تفصیلی ذکر یا تفصیلی تجزیے دونوں ہی سے گریز کیا جب پاکستان کے اردو اہلِ قلم ہندستان کی دشمنی میں نریندر مودی جیسے بیان دیتے رہے۔ اس قسم کے بیانات اتنی وافر تعداد میں موجود ہیں کہ انھیں سیلاب سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ فیض احمد فیض کے علاوہ پاکستان کے تقریباً ہر قابلِ ذکر اردو اہلِ قلم نے کسی نہ کسی موقعے پر ہندستان کے خلاف زہر اگلا ہے۔ بعض مواقع مثلاً قیامِ بنگلہ دیش کے وقت تو پاکستان کے اردو اہلِ قلم نے من حیث القوم ایسی زہرِ افشانی کی کہ توبہ بھلی۔ کسی نہ کسی موقعے پر ہندستان کے خلاف گل افشانیِ گفتار کرنے والوں کی فہرست میں آپ کو احمد فراز جیسے ترقی پسند شاعروں کے نام نامی بھی آسانی سے اور نمایاں طور پر مل جائیں گے۔ ہجوگویان کے اس گلّے میں1971 کے بہت بعد تک انتظار حسین بھی شامل رہے۔ اس مقالے میں، میں نے تخصیص کے ساتھ پاکستان میں اردو کے اس رول پر بھی تفصیل سے لکھنے سے گریز کیا جو پاکستان کی دوسری زبانوں کو دبانے اور کچلنے میں اردو نے ادا کیا۔ مگر ان تمام موضوعات سے چوں کہ مکمل اغماز ممکن نہ تھا یوں میں نے ان موضوعات کے ذیل میں اگر لکھا بھی تو بس برسبیلِ تذکرہ ہی اور اپنے معروضات کو ہندستان میں اردو یعنی اردو ادب کے اہلِ قلم حضرات کے پاکستان سے متعلق ان چنیدہ رویوں کے ذکر تک محدود رکھا جو اس مقالے کے فریم ورک میں اہم تھے۔
میرے معروضات کا نتیجہ یہی ہے کہ ہندستان کے اہلِ اردو واقعتا کسی قسم کا کوئی رول ہندو پاکستان کے بہتر تعلقات میں اس لیے ادا نہیں کرسکتے کیوں کہ ان کی اکثریت ذہنی طور پر اسی قسم کی مسلمان ہے جس قسم کے مسلمانوں کی اکثریت پاکستان میں آباد ہے۔ ہندستان میں اردوداں مسلمانوں کی اکثریت کی دل چسپی بھی پاکستان میں مسلمانوں کی اکثریت کی طرح سب کو اپنی ہی طرح کا مسلمان بنانے میں ہے۔ ہندو پاکستان تعلقات کا اگر ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اس عمل میں ہندستان کے ہندو بھی شریک ہوں اور ہندستان سے پاکستان کی دوستی ایک ایسے ملک کے طور پر ہو جسے ہر حال میں اور اپنی تمام تر حدبندیوں کے باوجود سیکولر رہنا ہے، تو اس میں یقینا اسلامی خلقیے کی امین اردو کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوسکتی۔ اپنے اسلامی خلقیے کے ساتھ پاکستان جس قسم کے نئے تشدد پسند اسلامی بلاک کا رکن بن گیا ہے، اس کی مخالفت کرنے کے لیے جس conviction کی ضرورت ہے وہ بھی مع ترقی پسند اردو ادیبوں کے ہندستان میں اردو کے تمام ہی اہلِ قلم میں مفقود نظر آتا ہے۔ نہرو کا مشہورِ زمانہ قول ہے کہ سیکولر وہ شخص ہے جسے آپ بند کمرے میں کھرچ کر دیکھیں اور اس کے اندر سے مذہبی احمق برآمد نہ ہو۔ ہندستان میں اردو یعنی اردو ادب کے سکہ بند لکھنے والوں میں مع ترقی پسندوں کے مشکل ہی سے ایسا اشرف المخلوق برآمد ہوگا جو مذہبی احمق پن سے دور ہو۔
ہندستان میں اردو کی ادبی برادری اپنے خلقیے کے اعتبار سے ایک خاص قسم کے نسل پرست فرقے کا نام ہے۔ ہندستانی جمہوریت کی مجبوریوں نے تقسیم کے بعد اسے گنگا جمنی سیاسی نعروں میں ڈبکیاں لگوائیں؛ ہندستانی اہلِ اقتدار نے اس مشترکہ تہذیب کا قصیدہ بھی پڑھا جسے پارہ پارہ ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا؛ طفلانہ طریقے سے ہی سہی مگر جوش ملیح آبادی جیسے لوگوں کو اردو شو بوائز کے طور پر قومی منظرنامے پر نمایاں کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ کوئی نسخہ کارگر نہ ہوا۔ جلد ہی جوش نے جو تقسیم کے بعد کانگریس کے سب سے بڑے پوسٹر بواے تھے، مملکتِ خداداد کے لیے رختِ سفر باندھا، گنگا جمنی سیاسی نعروں کے دیگر مسلم مویدین مثلاً ساغر نظامی نے حکومتِ ہند کے ایوانوں میں پناہ لی اور مشترکہ تہذیب کا نعرہ بھی 1980 کے بعد اس وقت پوری طرح پارہ پارہ ہوگیا جب فرقہ وارانہ فسادات کے لامتناہی سلسلے کے نتیجے میں ہر چھوٹے بڑے شہر میں ہندو مسلم آبادی پر مرتکز علاقے الگ الگ آباد ہوئے۔
مسلم حسیت کی زبان کے طور پر اردو کے ساتھ ہندستان میں گڑبڑ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہندستان کے Political establishment نے آزادی کے بعد اردو کو تمام ہندستانی مسلمانوں کی نمائندہ زبان اس حقیقت سے واقفیت کے باوجود تسلیم کرلیا تھا کہ تبدیل شدہ منظرنامے میں اس زبان کے ساتھ عوامی ہندو hostility لازمی تھی۔ بہ الفاظِ دیگر ہندستان کے political establishment نے تقسیم سے hostile ہندووں کے سامنے اردو کو مسلمانوں کی مذہبی زبان کے طور پر بالکل ایسے ہی پیش کیا جیسے بھوکے شیر کے سامنے میمنہ ڈال دیا جائے۔ اردو کے مسلم خلقیے اور ہندو hostility نے اس ہندستانی سوسائٹی کو لسانی بنیادوں پر مزید تقسیم کیا جو ذات پات کے نظام میں پہلے ہی کسی بھی دوسرے معاشرے سے زیادہ اور شدید طور پر منقسم تھی۔ ہندو پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات کے لیے اردو یعنی اردوداں مسلمانوں کو استعمال کرنے سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اردوداں مسلمانوں کو ہندستان کی مشترکہ تعلیمی دولت، ثقافتی وراثت اور اقتصادی پالیسیوں سے فیص یاب ہونے والوں کی فہرست میں جیسے بھی ممکن ہو شامل کیا جائے۔ ہندستان جیسی پسماندہ اقتصادیات اور اردوداں مسلمانوں کے اپنے ماضی کے تئیں مریضانہ رویوں کے سبب یہ کام اردو والے خود کبھی نہیں کرسکیں گے۔ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کو خصوصی اقدام کرنے ہوں گے کہ سول سوسائٹی کی بقا، اس کے تحفظ اور اس کی قوت جن لوگوں کی اولین ترجیحات ہیں، وہ اردوداں مسلم معاشرے کے لیے ایسا کچھ کریں کہ خود اردو والے سول سوسائٹی کی تشکیل کے عمل میں شریک ہوجائیں؛ سول سوسائٹی کی برکتوں سے فیض یاب ہوکر لسانی فسطائیت اور مذہبی شدت پسندی کی لعنت سے باہر آسکیں۔ آخرش اس خواب کی معجزہ نما تعبیر صرف ترقی پسند سیاست کے ذریعے ممکن ہے جس کی طرف ابھی کوئی عملی پیش قدمی کسی طرف سے نہیں ہوئی۔یہ بڑا مشکل کام ہے۔ ایک پھوڑا ہے جس نے کینسر کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اس پھوڑے کو چھونے سے ہر شخص ڈرتا ہے۔
اردو ادب کی حد تک اس تشدد اور دہشت گردی پر گفتگو کرنے کے بجاے جس کے لیے اردو کا استعمال زبان کے طور پر کیا گیا، اردو کے کسی ادیب سے کسی عملی Political initiative کی توقع کی ہی نہیں جاسکتی۔ ادب کا سہارا لے کر بے عملی کا کینسر اردو کے نام نہاد ادبی معاشرے کے پورے وجود میں سرایت کرگیا ہے۔ اس کارِ خیر کے لیے حکومتِ ہند کی فنڈنگ صوبائی حکومتوں سے لے کر مرکزِ ہندستان دلی تک سب جگہ بہ آسانی اور وافر موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس پھوڑے کو کیسے چھیڑا جائے کہ اس کی جراحی ہوسکے۔ ٹیکس دہندہ کے پیسے کو مالِ غنیمت سمجھ کر اسے خرد برد کرنے والوں میں ہندستان کے نام نہاد ترقی پسند کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔
اس پھوڑے کو چھیڑنے کا عمل مگر ناگزیر ہے۔ یہ بھی طے ہے کہ اس عمل سے نقصان ضرور ہوگا ممکن ہے جسم کا کچھ حصہ یا بڑا حصہ کاٹنا پڑے لیکن یہ سب کرکے بھی اگر دماغ کو بچایا جاسکے تو یہ سول سوسائٹی کی بڑی خدمت ہوگی۔ برِصغیر ہندو پاکستان کی مسلم آبادی کا اتنا بڑا حصہ ہندستان میں آباد ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں فیصلہ کن رول ادا کرسکتا ہے مگر وہ اب مکمل طور پر فرقہ پرست مسلم سیاست میں تبدیل ہوچکا ہے؛ ہر طرح کی بین الاقوامی مسلم دہشت گردی کا دل سے ہم نوا ہے۔ ترقی پسند لفظ سے چڑ اس کی سرشت میں ہے اور ترقی پسند سیاست کے ساتھ اس کا اینٹ اور گھڑے جیسا بیر ہے۔ اگر اس اردو فرقہ پرستی کا ہم مقابلہ کرسکیں تو شاید کل کسی اور موجِ خوں کے سر پر سے گزرنے کا خطرہ ٹل جائے، ایک اور پاکستان یا پھر ایک اور بنگلہ دیش بن کر کوئی ملک، آبادی کا کوئی حصہ اسلامی بم میں تبدیل ہونے سے بچ جائے۔
ہندستان کا اردو داں معاشرہ جس روز ترقی پسند سیاست کا ہم نوا ہوگیا باقی خطرات اپنے آپ ٹل جائیں گے، ہند و پاکستان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا تناور درخت زمین پر آرہے گا۔ کچھ لوگوں کو اگر اس بات کا دعوا ہے کہ وہ ہند و پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات کے حامی ہیں تو انھیں صرف ایک ہی کام کرنا ہے اور وہ کام ترقی پسند سیاست کی کھلی حمایت کرنے کا کام ہے جس کے لیے ہر قدم پر خطرات ہیں۔ اس عمل میں سب سے بڑا خطرہ Populist approach سے ہے جو automatic resistance کے لازمی component کا کام کرتی رہی ہے۔ ہندستان کے اردوداں معاشرے نے جس روز ترقی پسند سیاسی عمل میں شرکت کی طرف پیش قدمی کی، ہند و پاکستان کے تعلقات اپنے آپ ٹھیک ہوجائیں گے۔ یہ کام مگر کب ہوگا، ہوگا بھی یا نہیں، یہ بات کم سے کم مجھے نہیں معلوم۔

(بمبئی یونی ورسٹی کے سیمینار منعقدہ 5-7 مارچ 2007 میں پڑھا گیا۔ دراصل یہ میرے نوٹس ہیں اور مجھے انھیں ایک مضمون کی شکل میں ترتیب دینے کا موقع نہیں ملا۔)
***

بدھ، 27 اپریل، 2016

اردو فکشن کے ناگزیر طور پر قابلِ مطالعہ ادیب اور ان کی کتابیں/رفاقت حیات

ڈیئر تصنیف حیدر!
آپ نے پوچھا ہے کہ طلبا اور اردو کے شائقین کو فکشن کی کون سی کتابیں اپنی زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ ضرور پڑھنی چاہئیں؟میں اس کا جواب دینے کی اپنی سی کوشش کروں گا۔سب سے پہلے اردو فکشن کا ذکر کرنا چاہوں گااور اس میں اولین رتن ناتھ سرشار کے فسانہِ آزاد کا ذکر ہونا چاہیے، جو آزاد اور خوجی کے کارناموں سے آراستہ ایک بہت ہی دل چسپ کتاب ہے ۔ یہ کتاب لکھنو کی تہذیبی اور ثقافتی جھلکیوں کے ساتھ ساتھ اپنے زبان و بیان کے حوالے سے بھی اہم ہے۔اس کے بعد امرائو جان ادا کا نام لوں گا، جس کی وجہ سے ہادی الدین رسوا آج بھی اردو کے اہم ادیب شمار کیے جاتے ہیں۔اس ناول کے ذریعے ہمیں اپنی قدیم تہذیب اور معاشرت کے حوالے سے اہم باتیں معلوم ہوتی ہیں۔منشی پریم چند بلاشبہ اردو کے بے حد اہم فکشن نگارہیں مگر میرا ذاتی خیال ہے کہ اردو کے جدید فکشن پر جیسا اثر ان کے افسانے کفن نے ڈالا ، شاید ان کی اور کوئی تحریر نہیں ڈال سکی۔مجھے ان کے افسانے ان کے ناولوں سے زیادہ اہم معلوم ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کے افسانوی مجموعے ضرور پڑھے جانے چاہئیں۔اس کے بعد کے دور میں احمد علی کے افسانے اور ان کا ناول شامِ دہلی اہم ہے۔ محمد حسن عسکری کے افسانے بھی عام طلبا اور فکشن کے شائقین کے لیے کم دلچسپ نہیں ہو ں گے۔ کرشن چندر کے ناولوں کے بجائے ان کے افسانوں کا مطالعہ زیادہ بہترر ہے گابلکہ ان کے افسانوں کے کسی اچھے سے انتخاب کا۔سعادت حسن منٹو کے حوالے سے بھی یہی رائے دوں گا کہ ان کوئی جامع انتخاب پڑھ لیا جائے تو کافی ہوگا۔ البتہ ان کے دور کے دو اور اہم لکھنے والے یعنی غلام عباس اور راجند سنگھ بیدی ہیں۔ غلام عباس کے افسانوں کی کلیات یعنی زندگی نقاب چہرے فکشن کی ایک ناگزیر کتاب ہے اور اس کے ساتھ ساتھ راجندر سنگھ بیدی کی کلیات بھی نہایت اہم ہے کیوں کہ دونوں ادیب اپنے قاری کی تربیت بھی کرتے ہیں۔ خاص طور پر اسلوب کے حوالے سے۔ قرۃ العین حیدر کا ناول آگ کا دریا اور ان کے نمائندہ افسانوں کا انتخاب مطالعے کے لیے کافی ہوگا۔ عصمت چغتائی کا ناول ٹیڑھی لکیر اور ان کے بعض افسانے یقینی طور پر بے حد اہم ہیں۔ بلونت سنگھ کے ناول کالے کوس اور رات ، چکور اور چاند کو بھی ضرور پڑھا جانا چاہیے۔ احمد ندیم قاسمی کا نام بھی اردو افسانے کے حوالے سے بے حد اہم ہے ۔ ان کے افسانوں کا کوئی بہت اچھا سا انتخاب فکشن کے شائقین کو ضرور پڑھنا چاہیے ۔علامتی اور تجریدی دور کے ادب میں یقینی طور پر تین ادیب اور ان کی کتب کلیدی اہمیت کی حامل ہیں۔ انورسجاد کا افسانوی مجموعہ استعارے اور ان کا ناول خوشیوں کا باغ۔ سریندر پرکاش کی کتاب دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم اور بازگوئی۔ بلراج مین را کی کلیات ۔ جس دور میں علامتی اور تجریدی افسانے کا ڈنکا بج رہا تھا اسی دور میں ایک ادیب اپنی بغل میں ایک ناول دبائے ہماری ادبی دنیا میں واردہوا۔ وہ عبدللہ حسین تھے اوران کا ناول اداس نسلیں چھپتے ہی اردو کا اہم ترین ناول بن گیا۔ ان کا ایک اور ناول ’’ باگھ‘‘ بھی بلاشبہ ارود کا اہم ناول ہے۔انتظار حسین کی تمام افسانوی کتب میں ان کی دو کتابیں مجھے اہم ترین معلوم ہوتی ہیں ۔ پہلی ـــ’’ آخری آدمی‘‘ اور دوسری ’’ شہرِ افسوس‘‘۔ ان کے ناولٹ دن اور داستان کو بھی اہم کتب میں شامل سمجھیے۔خالدہ حسین کا مجموعہ ’’دروازہ‘‘ بھی اہم ہے۔ ان لوگوں کے ساتھ ساتھ مجھے منیرالدین احمد کے افسانوی مجموعے سوکھے ساون کی بھی یاد آرہی ہے۔اسے بھی ضرور پڑھا جانا چاہیے۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے افسانہ نگار منشا یادکا ابتدائی مجموعہ ’’ ماس اور مٹی‘‘ بھی اردو افسانے کی اہم کتابوں میں شامل قرار دیا جانا چاہیے۔اور اس کے ساتھ طاہر اسلم گورا نے منشا یاد کا جو انتخاب کیا ہے ، وہ بھی ضرور پڑھنا چاہیے۔محمد خالد اختر کی کتابیں ’’ کھویا ہوا افق ‘‘ ’’ یاترا‘‘ اور ’’چاکیواڑا میں وصال‘‘ بھی سب کو پڑھنی چاہئیں۔
اب کچھ ذکر عصرِ حاضرکے ادیبوں کا ہوجائے کیوں کہ ان میں بعض اتنے اہم ہیں کہ ان کے بغیر یہ فہرست نامکمل رہے گی۔ اسد محمد خاں صاحب کے افسانوں کی کلیات’’ جو کہانیاں لکھیں‘‘ اردو ادب کے ہر طالب علم کو ضرور پڑھنی چاہیے۔ حسن منظر کا افسانوی مجموعہ ’’ سوئی بھوک‘‘ اور ناول ’’ دھنی بخش کے بیٹے‘‘ ہر ایک کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ فاورق خالد کا ناول ’’ سیاہ آئینے‘‘ بھی اہم ناول ہے۔ نیر مسعود کی ’’ سیمیا‘‘ اور’’ عطرِ کافور‘‘ بے حد اہم کتابیں ہیں۔ سید محمد اشرف کے افسانوی مجموعے ’’ ڈارسے بچھڑے‘‘ اور ان کا ناولٹ ’’ نمبردار کا نیلا‘‘ بے حد قابلِ مطالعہ ہے۔ خالد جاوید کی دو کتابیں’’ موت کی کتاب ‘‘ اور ’’نعمت خانہ‘‘ کو بھی لازماً پڑھا جانا چاہیے۔ مرزا اطہر بیگ کے ناول ’’غلام باغ‘‘ اور ’’ حسن کی صورت حال‘‘ بھی پڑھے جانے چاہئیں۔ فرانسیسی ادیب ژولیاں کی کتاب ’’ تین ناولٹ‘‘ بھی بے حد اہم ہے۔
یہ فہرست حتمی اور مکمل ہرگز نہیں ہے۔ مگر میری دانست میں یہ تمام کتابیں اردو فکشن کے شائقین اور طلباء کو اپنی زندگی میں ایک بار ضرور پڑھنی چاہئیں کیوں کہ یہ کتب انسان اور اس کی زندگی کے حوالے سے ہماری سمجھ بوجھ اور ہمارے علم میں اضافے کا موجب بن سکتی ہیں۔ ان کے ذریعے ہم اپنے ماضی اور حال کو بہتر انداز سے سمجھ سکتے ہیں۔

منگل، 26 اپریل، 2016

سو اہم اور غیر ادبی کتابوں کا انتخاب/عاصم بخشی

تصنیف آپ نے سوال کیا ہے کہ ایسی غیرادبی کتابوں کی ایک فہرست مہیا کی جائے جو اردو کے قارئین کو زندگی میں ایک دفعہ ضرور پڑھ لینی چاہئیں۔ گمان ہے کہ غیرادبی سے آپ کی مراد شاید غیر افسانوی ہے جیسے شاعری، ناول ، افسانہ وغیرہ۔ کتاب کے شائقین جانتے ہیں کہ اس قسم کی فہرست ہمیشہ ایک ناگزیر موضوعیت کا شکار ہوتی ہے کیوں کہ یہ سراسرانتخاب کرنے والے کی دلچپسی پر ہی منحصر ہوتا ہے کہ اس کی پسندیدہ موضوعات کون سے ہیں۔ مثال کے طور پر آج کل کی رائج مغربی زمرہ بندی کے مطابق میں ’اپنی مدد آپ‘ یا Self Help کی صنف سے کوسوں دور رہتا ہوں لہٰذا کبھی بچپن میں ڈیل کارنیگی پڑھنے کے علاوہ اس کوچے کا رخ نہیں کیا۔ لیکن یہ صنف بھی اب کافی وسعت سے گزر کر اپنے اندر کئی ایسے مضامین کو سما چکی ہے جنہیں کلاسیکی زمرہ بندی میں شاعری یا افسانوی ادب ہی میں رکھا جاتا تھاجیسے خلیل جبران کی The Prophet ، مچ البم کی Tuesdays with Morrieیا پھر غلام احمد پرویز کے ’سلیم اور طاہرہ کے نام خطوط‘۔ بہرحال چونکہ میری دلچسپیاں متنوع ہیں اور زیادہ ترفلسفے، مذہب، سماجیات اور سائنس سے جڑی ہیں ، لہٰذا کوشش یہی ہے کہ ایک ایسی کتابوں کی فہرست قارئین تک پہنچا دی جائے جن میں سے ہر ایک یا پھر دو تین مل کر ایک مجموعے کی شکل میں اپنے اندر ایک مکمل جہان رکھتی ہوں۔ ان میں سے کچھ کتابیں قاری سے بہت زیادہ عرق ریزی اور اپنے وقت کا ایک قابلِ قدر حصہ وقف کر دینے کا تقاضا کرتی ہیں اس لئے انہیں ایک دفعہ ختم کر لینے کے بعد شاید ہی کتاب کے سفر پر مسلسل گامزن رہنے والےقاری کے لئے یہ ممکن ہو سکے کہ وہ ایک بار پھر اسی پڑاؤ پر خیمہ زن ہو۔ لیکن بہرحال ان میں موجود اشارے قاری کو تفہیم و تنقید کے سفر میں کبھی نہ کبھی اپنی جانب ضرور کھینچتے ہیں۔ اس لئے بہتر ہے کہ ہر قاری اپنے مزاج کے مطابق اہم جگہوں کو نشان زد ضرور کرے۔
چونکہ سوال میں اردو کے قارئین کا ذکر تھا اس لئے اس فہرست میں اردو کی کتابیں شامل نہیں کی گئیں کیوں کہ اردو کے قارئین ہماری اپنی ثقافت میں پیدا ہونے والے ادب سے تو پہلے ہی خاطر خواہ واقفیت رکھتے ہیں اور یہ کام مجھ سے کہیں بہتر آپ جیسے حضرات کر سکتے ہیں جن کی اردو ادب پر گہری نگاہ ہے۔ ان میں سے جن کتابوں کا ترجمہ ہو چکا ہے اور میرے علم میں ہے، کوشش تھی کہ ان کا ذکر آگے قوسین میں کر دیا جائے لیکن وقت کی کمی کے باعث یہ ممکن نہ ہو سکا۔ سو کتابوں کا یہ انتخاب بس اپنی کتابوں کی الماری کے سامنے چہل قدمی کرتے اور اپنی یاداشت کے زور پر کیا گیا ہے لہٰذا اس میں کوئی خاص ترجیح یا مزید زمرہ بندی کرنا فوری طور پر ممکن نہیں ہو سکا۔ یہاں انتخاب کی بنیادی ترجیح یہی ہے کہ قاری ایک دفعہ ان کتابوں کی طرف رجوع کرے تو اسے یوں محسوس ہو کہ گویا ایک نئے جہانِ معنی کی سیر کر آیا ہے یا ایک مخصوص موضوع پر اس سے زیادہ پڑھنا ناممکن بھی ہو تو کم از کم وقتِ نزع تشنگی محسوس نہیں ہو گی۔یہ سب کتابیں قاری کو ایک شدید اتفاق سے لے کر شدید اختلاف تک کئی قسم کے ردعمل پر ابھارتی ہیں اور میری رائے میں یہی ان کی اہمیت کا باعث ہے۔ یہ ایک مشکل انتخاب تھا اور چونکہ مجھے سو کے ہدف پر رکنا ضروری تھا لہٰذا کئی ایسی کتابیں ذہن میں آتی ہیں جو شاید اس فہرست میں آ جانی چاہئیے تھیں۔ یہ الفاظ لکھتے ہوئے میرے ذہن میں روسو کی خودنوشت، میکس ویبر اور ایذرا پاؤنڈ کے مضامین اور آرتھر کوئسلر کی یاداشتیں The Invisible Writingآ رہی ہیں۔
1. Miguel De Unamuno, Tragic Sense of Life (1900)
2. Robert Graves, Greek Myths (1955)
3. Jorge Luis Borges, This Craft of Verse (1992)
4. Oswald Spengler, The Decline of the West (1918)
5. Bryan Magee, Confessions of a Philosopher (1997)
6. Werner Heisenberg, Physics and Philosophy (1958)
7. Alexander Herzen, My Past and Thoughts (1968)
8. Abraham Joshua Heschel, Who is Man? (1965)
9. Albert Speer, Inside the Third Reich (1969)
10. Primo Levi, If This is a Man (1979)
11. Bertrand Russell, Our Knowledge of the External World (1914)
12. Michel de Montaigne, Complete Essays (1572)
13. Baruch Spinoza, Ethics (1677)
14. Umberto Eco, This is Not the End of Book (2009)
15. Edwin Arthur Burtt, Metaphysical Foundations of Modern Science (1924)
16. Isaiah Berlin, Hedgehog and the Fox (1953)
17. Richard Feynman, The Character of the Physical Law (1964)
18. John Dewey, Reconstruction in Philosophy (1919)
19. Muhammad Iqbal, Reconstruction of Religious Thought in Islam (1930)
20. Edward Said, Orientalism (1978)
21. Alasdair MacIntrye, After Virtue (1981)
22. Marshall G. S. Hodgson, The Venture of Islam (1974)
23. David Hume, An Enquiry Concerning Human Understanding (1748)
24. David Hume, A Treatise of Human Nature (1740)
25. David Foster Wallace, This is Water (2009)
26. Truman Capote, In Cold Blood (1965)
27. Carl Sagan, Cosmos (1980)
28. T. E. Lawrence, Seven Pillars of Wisdom (1922)
29. Plato, Dialogues
30. Muhammad Rafiuddin, Ideology of the Future (1949)
31. Orhan Pamuk, The Naive and Sentimentalist Novelist (2010)
32. Fazlur Rahman, Major Themes of Quran (1979)
33. Hermann Weyl, Philosophy of Mathematics and Natural Science (1949)
34. Charles Darwin, Origin of Species (1859)
35. Anne Frank, Diary of a Young Girl (1949)
36. Viktor Frankl, Man's Search for Meaning (1946)
37. Confessions, Augustine of Hippo (397)
38. Friedrich Nietzsche, Thus Spoke Zarathustra (1883)
39. Sigmund Freud, Interpretation of Dreams (1899)
40. Immanuel Kant, Critique of Pure Reason (1781)
41. Thomas Kuhn, The Structure of Scientific Revolutions (1962)
42. Stephen Hawking, Brief History of Time (1987)
43. Jared Diamond, Guns, Germs and Steel (1997)
44. Robert Pirsig, Zen and the Art of Motorcycle Maintenance (1974)
45. Karl Popper, The Open Society and its Enemies (1945)
46. Frantz Fanon, The Wretched of the Earth (1961)
47. Edmund Burke, Reflections on the Revolution in France (1790)
48. Max Weber, The Protestant Ethic and the Spirit of Capitalism (1904)
49. C. G. Jung, Man and His Symbols (1964)
50. Douglas R. Hofstadler, Godel, Escher, Bach: An Eternal Golden Braid (1979)
51. Stephen Jay Gould, Ever Since Darwin (1977)
52. Edwin Arthur Burtt, Religion in an Age of Science (1930)
53. Alexandre Koyre, From the Closed World to the Infinite Universe (1957)
54. Friedrich Engels, The Condition of the Working Class in England (1845)
55. Rene Guenon, The Reign of Quantity and the Signs of the Times (1945)
56. Malik Bennabi, Islam in History and Society (1954)
57. Orlando Figes, A People's Tragedy: The Russian Revolution (1996)
58. Alfred North Whitehead, Science and the Modern World (1926)
59. Hashim Kamali, Freedom of Expression in Islam (1996)
60. Ian Hacking, Taming of Chance (1990)
61. Noam Chomsky, Essential Chomsky (2008)
62. G.H. Hardy, A Mathematician's Apology (1940)
63. Rene Descartes, Discourses on Method (1637)
64. Ian Stewart, In Pursuit of the Unknown (1996)
65. William James, Varieties of Religious Experience (1902)
66. John Sherrif, The Fate of Meaning (1989)
67. Karl Marx, The Communist Manifesto (1848)
68. Abdullahi Ahmed al-Naim, Islam and the Secular State (2008)
69. Fazlur Rahman, Islam (1968)
70. Khalid Abou Al Fadl, Speaking in God's Name (2001)
71. Edwin Abbott, Flatland (1884)
72. Jostein Gaarder, Sophie's World (1991)
73. Karen Armstrong, A Case for God (2001)
74. Jonathan Brown, Hadith: Muhammad's Legacy (2009)
75. Marshall Berman, All that is Solid Melts into Air (1981)
76. G. Bernard Shaw, Intelligent Woman's Guide to Socialism and Capitalism (1928)
77. Jorge Luis Borges, Selected Non Fictions (1999)
78. Josiah Royce, The World and the Individual (1901)
79. Keith Lowe, Savage Continent (2012)
80. Alice Albnia, Empires of the Indus (2008)
81. Fred Donner, Muhammad and the Believers (2010)
82. Lin Yutang, Importance of Living (1937)
83. Neal Robinson, Discovering the Quran (1997)
84. Richard Rubenstein, The Cunning of History (1975)
85. Claude Levi Strauss, The Savage Mind (1968)
86. Mortimer Adler, How to Read a Book (1940)
87. Jean Paul Sartre, The Words (1963)
88. Hermann Hesse, Autobiographical Writings (1972)
89. Richard Feynman, The Pleasure of Finding Things Out (1999)
90. Benedict Anderson, Imagined Communities (1983)
91. Charles Taylor, A Secular Age (2007)
92. Wilfred Cantwell Smith, The Meaning and End of Religion (1959)
93. Michael Polanyi. Science, Faith and Society (1964)
94. Robert Bellah, Religion in Human Evolution (2011)
95. Ralph Waldo Emerson, The Essential Writings (2000)
96. Isaiah Berlin, The Proper Study of Mankind (1997)
97. Herbert Marcuse, One Dimensional Man (1964)
98. Arthur Stanley Eddington, The Nature of the Physical World (1920)
99. Louis Menand, The Metaphysical Club (2001)
100. Hannah Arendt, The Portable Hannah Arendt (2000)


پیر، 25 اپریل، 2016

محمد خالد اختر کی دو تحریریں

اگر میں یہ کہوں کہ میں نے سعادت حسن منٹو اور کرشن چندر پر ان سے بہتر مضامین ابھی تک نہیں پڑھے تو شاید غلط نہ ہوگا، آپ اسے میری کم علمی پر بھی محمول کرسکتے ہیں، لیکن محمد خالد اختر نے بڑے سے بڑے نقاد کے برعکس جس سادگی اور سچائی کے ساتھ ان فنکاروں کی زندگی اور فن کا تجزیہ کیا ہے، اس سے ہمیں علم ہوسکتا ہے کہ مجموعی طور پر کسی ادیب کے لکھے ہوئے ادب کو ہم کس طرح پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں۔ محمد خالد اختر اردو میں مجھے اس وقت سب سے زیادہ عزیز ہیں۔ ان کی کہانیاں، مضامین، ناول اور پیروڈیز یہ سب میں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھے ہیں۔ وہ اپنے فن کے اعتبار سے ایک ایسا آفاقی حرف ہیں، جس نے مجھے مکمل طور پر اپنے سائے میں لے لیا ہے، اور جب تک میں اردو میں اس سے بہتر حرف نہیں دیکھ لیتا، ان کو حرف آخر ہی مانتا رہوں گا۔ آپ میری بات سے اتفاق و اختلاف کرسکتے ہیں، مگر بہت سوں پر انہیں پڑھ کر شاید ویسا ہی اثر ہو، جیسا مجھ پر ہوا ہے۔میں اجمل کمال کا اس معاملے میں خاص طور پر شکر گزار ہوں کہ ان کی وجہ سے مجھے اور ادبی دنیا کے قارئین کو یہ تحریریں پڑھنے کے لیے بہ آسانی حاصل ہوسکی ہیں۔شکریہ!

سعادت حسن منٹو

آزاد مشرب، مضطرب منٹو— ایک اور واحد منٹو— کی موت سے اردو ادب کی دنیا پر ایک ایسی گھٹاٹوپ افسردگی کا بادل چھا گیا ہے جس کی مثال ہماری پوری یادوں میں مشکل سے ملے گی۔ ادب پیدا کرنے والے پہلے بھی گزرتے رہے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کسی کی موت سے بھی ہم نے اپنے کو اس درجہ غریب اور کم مایہ نہیں محسوس کیا جس قدر اس بوہیمین مصنف کی موت سے۔ نثر کا عظیم زرکار ہم میں سے اٹھ گیا ہے اور اس کے بغیر فن اور انسانیت کی محفل سونی اور ویران ہوگئی ہے۔ ویسے تو یہ نقصان ساری انسانیت اور ساری ادبی دنیا کا نقصان ہے مگر ہم میں سے کتنوں کے لیے، جو اُسے محض اس کے افسانوں کے ذریعے جانتے تھے، یہ ایک نہایت شدید ذاتی نقصان ہے— اتنا ذاتی جتنا ایک بے حد پیارے اور عزیز دوست کا گزر جانا۔ بوہیمیا کے پُرتصویر کوچوں میں روشنیاں ماند پڑ گئی ہیں اور دنیا کو کھونے والے اور اس کے رواجوں کی جکڑ بندیوں سے آزاد بوہیمیا کے باسی اپنے استاد، اپنے بادشاہ سے محروم ہوگئے ہیں۔ تاہم یہ اقرار کرنا پڑے گا کہ یہ سوگ صرف بوہیمیا والوں کا سوگ نہیں— انسان سے محبت کرنے والے، جھوٹ اور ریاکاری سے نفرت کرنے والے، اردو نثر کے عاشق، سب آج اس بچھڑنے والے مصنف کے لیے روتے ہیں۔ اس کے حرف گیر، اس کی ادبی عظمت کے منکر، اس کی ذات پر اوچھے وار کرنے والے اس کی زندگی میں بڑے مصروف رہے۔ انھوں نے اس کے فن کو بڑھئی کی کاریگری سے تشبیہ دے کر اس کا مذاق اڑایا۔ وہ بے چارے اس سے آگاہ نہ تھے کہ اس طرح دراصل وہ اس کے فن کی عظمت کا اعتراف کر رہے تھے۔ اگر اس کا فن واقعی کاریگری تھا، اگر واقعی یہ اتنی ہی آسان تھا تو وہ خود کوششِ بسیار کے باوجود اس جیسی ایک بھی کہانی کیوں نہ لکھ سکے۔ انھوں نے اسے فحش نگار کہا اور ایک بہادر مگر درماندۂ روزگار مصنف کی عجیب وارفتہ مزاج زندگی کو دنیاوی عزت داری کی عینک سے دیکھ کر ناک بھوں چڑھائی ۔ وہ خود چاہے نیکی کے پتلے ہوں مگر انھیں اس انسان کی عظمت کا کیا اندازہ ہوسکتا تھا۔ یہ لوگ اس کی زندگی میں مصروف رہے۔ چپکے سے، سرگوشیوں میں انھوں نے ’’گلیورز ٹریولز‘‘ کے بالشتیوں کی طرح دیو کے پائوں سے زمین کھود کر اسے گرانے کی کوشش کی، کہ زندگی میں وہ اس سے ڈرتے تھے۔ اب وہ بھی اس کی موت کے سانحے سے سن ہوگئے ہیں۔ شاید انھوں نے اس مرے ہوے ’آوارہ مزاج‘ کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو اب معاف کردیا ہے اور اس کے ساتھ ہی اپنے گریبانوں میں جھانک کر اس برائی، اس کمینگی کی ایک جھلک دیکھ لی ہے جو اُن کے دلوں میں چھپی بیٹھی ہے۔ ان میں شاید اب ایسا کوئی نہیں جسے اس کی موت سے تھوڑا بہت صدمہ نہ پہنچا ہوگا۔ انھیں بھی غالباً احساس ہوا ہے کہ یہ موت کوئی معمولی موت نہ تھی اور یہ کہ اس کی موت سے ہمارے ادب میں ایک ایسا خلا پیدا ہوچکا ہے جو آسانی سے پُر نہیں ہوسکے گا۔
ہمارے پاس یقینا اب بھی الفاظ کی رنگین مصوری کرنے والے، رومانیت اور شعریت کے دیے جلانے والے مصنف موجود ہیں لیکن مختصر افسانہ نگاری کا استاد ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا ہے۔ وہ اب پھر نہیں آئے گا۔ اردو ادب— بلکہ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ دنیا کا ادب— اس کے جانے سے صحیح معنوں میں مفلس ہوگیا ہے۔ وہ موپاساں اور چیخوف کی صف میں تھا۔ وہ ان کا ہمسر تھا۔ شاید بہ لحاظِ فن ان سے بھی قدر آور تھا۔ وہ اپنی مختصر زندگی میں ہمارے ادبی منظر پر ایک دیو کی طرح چھایا ہوا تھا۔ سچے موتیوں کی سی پاک نثر میں وہ اپنے افسانوں سے ہمارے سوئے ہوے ضمیروں کو کچوکے دیتا تھا، ہماری خود طمانیت اور مصلحت کوشی میں احساس کی سوئیاں چبھوتا تھا اور بار بار ہمیں ایک ایسا مکمل صاف شفاف آئینہ دکھاتا تھا جس میں ہم اپنے اصل روپ کا عکس دیکھنے سے نہ بچ سکتے تھے۔ وہ ہمیں سوچنے اور ایک بہتر انسان بننے پر مجبور کرتا تھا—اور جب میں ایک ’بہتر انسان‘ کہتا ہوں تو میری مراد آپ کے سلجھے ہوے کفایت شعار، مصلحت اندیش انسان سے نہیں ہے جو عموماً اپنی خود غرضی کو اپنی سوجھ بوجھ کا نام دیتا ہے اور جس کے سامنے اپنی اور اپنی اولاد کی بہتری اور ترقی کے سوا اور کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ ہمارے ادب میں متشرع نیکی اور مصلحت اندیشی کی تعلیم اور ہدایت ایک سے زیادہ مصنفوں نے دینے کی کوشش کی ہے۔ اس آشرم کا بڑا پروہت ہمارے ہاں ڈپٹی نذیر احمد ہے جس کے ناول ہمیں یہ تعلیم دیتے ہیں کہ ہم نذیر احمد جیسے بن جائیں— دنیاوی لحاظ سے عزت دار، صوم و صلوٰۃ کے پابند، کفایت شعار اور گانٹھ کے پورے۔ منٹوکے ’بہتر انسان‘ میں ان اوصاف میں سے کوئی بھی چیز نہیں، مگر انسانیت کی اصل روح اس میں موجود ہے۔ وہ ایک ایسا انسان ہے جس کا غالباً منھ دیکھنا بھی آج کے ڈپٹی نذیر احمد گوارا نہ کریںگے اور اپنے بچوں کو اس کے پاس بٹھانا گناہ سمجھیںگے۔ منٹو کا ’بہتر انسان‘ اشراف میں سے نہیں۔ آپ اسے نہ مسجد میں پائیںگے، اور نہ ہی غالباً کلب ہائوس میں۔ آپ اسے زندگی کی سڑک پر رواں دواں پائیںگے، اپنے ہم جنسوں سے محبت کرتا ہوا، اپنی زندگی کے خزانے کو ایک کنجوس کی طرح سینے سے لگائے رکھنے کی بجاے ایک سخی کی طرح لٹاتا ہوا۔ سعادت حسن منٹو کسی ’ازم‘ کا مبلغ نہ تھا۔ اس نے اپنے بے مثل فن کو کسی پرانے زمانے کے ضابطۂ اخلاق کے تابع کرکے اسے بے جان اور جھوٹا نہیں بنایا تھا اور اگر اس کا کوئی ’ازم‘ تھا، کوئی ضابطہ اور کوئی مسلکِ حیات تھا، جسے وہ شدت سے اپنائے ہوے تھا، تو یہ مسلک تھا انسانیت سے محبت کا مسلک، اور اس سے بڑا مسلک اور ہو بھی کیا سکتا ہے؟ ایسے آدمی کی موت کتنا بڑا نقصان ہے، خاص طور پر اس لیے کہ وہ ایک بڑا فن کار بھی تھا۔ ہمارا نقصان اس لیے بھی ناقابلِ تلافی ہے کہ منٹو ابھی اپنے فن کی معراج تک نہیں پہنچا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ بڑے اور عظیم تر شاہکاروں کو ابھی اس کے قلم سے نکلنا تھا۔ اس کا ذہن شیکسپیئر کے ذہن کی طرح زرخیز تھا۔ لاتعداد کرداروں کی جنینیں اس میں زندگی سے روشناس ہونے کے لیے تڑپ رہی تھیں اور یہ مکمل اور حساس فن کار ہمیشہ اور ہر لمحہ اپنے فن میں تکمیل کے لیے کوشاں تھا۔
جو کچھ اس نے ہمارے ادب کو دیا ہے، وہ عظیم اور اَن مٹ ہے، ان لازوال چیزوں میں سے جو ایک بار عالمِوجود میں آجانے کے بعد زندہ رہتی ہیں۔ اس کے لیے شاہکار لکھنا ایک ایسا ہی معمول تھا جیسا اس کے کئی ہم عصر افسانہ نگاروں کے لیے بے جان اور پھسپھسے افسانے قلمبند کرنا۔ اس کی چیزیں زندہ رہیںگی، لیکن جسے اب ہم جیتے جی یاد کرتے رہیںگے، جس کا اب ہم سدا سوگ منائیں گے، وہ انسان سعادت ہے۔ کیسا خوبصورت انسان تھا وہ! وہ ساری انسانیت سے بھائیوں کی طرح محبت کرتا تھا۔ وہ دوسروں کے لیے جان دے سکتا تھا۔ خود وہ ایک لحظے کے لیے بھی الجھنوں اور دکھوں سے آزاد نہ ہوسکا۔ ہم سب جانتے ہیں اُسے کس چیز نے مارا... مگر نہیں، اس کی قاتل شراب نہ تھی۔ ’’کوئی تنگی سی تنگی ہے، کوئی ترشی سی ترشی ہے!‘‘ اس نے ایک دفعہ چچا سام کے نام ایک خط میں شکایت کی اور وہ تنگی اورترشی اس کی زندگی میں ایک زندہ ہولناک حقیقت تھی۔ ہم سب جانتے ہیں، اسے بچایا جاسکتا تھا۔ لیکن جب وہ مر رہا تھا، خودکشی کر رہا تھا تو ہم اس کے افسانے پڑھنے اور ان پر تنقیدیں کرنے میں لگے ہوے تھے۔ اس کو بچانے کے لیے ہم نے ایک انگلی تک نہ ہلائی۔ ڈپٹی نذیر احمد ہمارے رگ و ریشے سے ابھی گیا نہ تھا۔ ہمارے دل منٹو کے دل کی طرح بڑے اور فراخ نہ تھے کہ ساری دنیا کو محبت کے بازوئوں میں سمیٹ لیتے۔ وہ شخص سب انسانوں سے پیار کرتا تھا، اس سے کسی کو اس دو اور دو چار کی دنیا میں پیار نہ تھا اور ہماری آنکھوں کے سامنے وہ ’’تنگی اور ترشی‘‘ کی نذر ہوگیا— تنگی اور ترشی جو اس کے بھائیوں اورہم جنسوںکی کمینگی اور چھوٹے پن کے سوا اور کچھ نہ تھی۔ ہم میں سے کتنے ہی اب جب منٹو کے بارے میں سوچتے ہیں، اپنے کو مجرم محسوس کرتے ہیں۔ منٹو کو خود منٹو نے ایک تدریجی خودکشی کے عمل سے مارا۔ تاہم ہم اس کی موت کی ذمہ داری سے خود کو مطمئن ضمیر کے ساتھ بری نہیں کرسکتے۔

’’انسان سعادت‘‘ جیسا میں اُسے جانتا تھا
میں ۱۹۵۱ء کے گرما میں چند دنوں کے لیے لاہور میں اپنے ایک ناشر دوست کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ ان دنوں منٹو لاہور میں نیا نیا آیا تھا اور میرا ناشر دوست اس کی چند ایک کتابیں چھاپ رہا تھا۔ منٹو نے اس کے ادارے سے شائع ہونے والے ایک نئے ادبی مجلے کی ترتیب کے لیے بھی رضامندی ظاہر کی تھی۔ (یہ مجلہ بڑی آب و تاب سے نکلا مگر دو شماروں کے بعد ہی تجارتی وجوہ کی بنا پر ایک خاموش موت مر گیا۔) میرا ناشر دوست منٹو سے بڑا متاثر تھا۔ ’’بڑا پیارا آدمی‘‘، ’’ایشیا کا سب سے عظیم انسان‘‘— یہ ان توصیفی القاب میں سے چند تھے جن سے وہ ایک پجاری کی مذہبی وارفتگی سے اپنے ادبی بت کے سنگھاسن پر چڑھا وے چڑھاتا تھا۔ ایسے القاب کا مجھ پر کوئی اثر نہ ہوا، میں اس عمر سے قدرے آگے گزر آیا تھا جب ہر مصنف کا نام اپنے گرد شان اور عظمت کا ہالہ لیے ہوتا ہے۔ میں برتری کے انداز میں اپنے شرمیلے اور جھینپو دوست کی قصیدہ گوئی پر مسکراتا اور اس کے ساتھ چل کر منٹو سے ملنے کے وعدوں کو کل پرٹالتا جاتا۔
پھر ایک صبح مجھے بتایا گیا کہ ’’ایشیا کا سب سے بڑا انسان‘‘ مجھ سے ملنا چاہتا ہے— وہ مجھے میرے ایک افسانے کے سلسلے میں دیکھنا چاہتا تھا۔ میں نے ہردوار میں اپنے سفر پر ایک لمبا افسانہ لکھا تھا۔ ہر ایک پچّیس سالہ نوجوان لکھنے والے کی طرح مجھے یقین تھا کہ میں نے ایک شاہکار لکھا ہے۔ مگر ان مدیروں کی رائے جنھیں میں نے اسے چھاپنے کے لیے بھیجا، میری رائے سے مختلف تھی۔ نتیجہ یہ تھا کہ افسانہ بڑے عرصے تک اشاعت پذیر نہ ہوسکا تھا۔ پھر میں نے اسے اپنے ناشر دوست کو بھجوایا۔ اس نے اسے منٹو کو پڑھنے کے لیے دیا۔ منٹو نے اسے پسند کیا مگر وحشیانہ کاٹ چھانٹ اور قطع برید سے اُسے آدھا کر ڈالا۔ کئی ایسے پیروں کے پیروں پر لکیر پھیر دی جو میرے نزدیک بڑے خوبصورت اور سحر انگیز تھے لیکن جو افسانے کی وحدتِ تاثر میں یقینا کسی طرح مددگار نہ تھے۔ یہ افسانہ ’’اردو ادب‘‘ (جو میرے ناشر دوست کے مجلے کا نام تھا)میں چھپنے کے لیے چن لیا گیا۔ لیکن جب میرے دوست نے مجھے لکھا کہ اس کی تھوڑی سی قطع برید کی گئی ہے تو میں نے اپنے افسانے کو ایک نئے روپ میں، مجھے دکھائے بغیر، شائع کرنے سے روک دیا۔ افسانے کا مسودہ مجھے بھیجاگیا۔ مجھے فی الواقع بڑا غصہ آیا۔ میرے افسانے کی اس سفاکی سے کانٹ چھانٹ کرنے والا منٹو کون تھا! میں اپنی حماقت میں یہ نہ سوچ سکا کہ یہ کتر بیونت فن کے ایک استاد نے کی تھی اور اس طرح ایک ژولیدہ اور پریشان رپورتاژ سے ایک نادر لطافت اور تاثر کا مختصر افسانہ بن گیا تھا۔ یہ افسانہ بعد میں ’’کھویا ہوا افق‘‘ کے عنوان سے ’’سویرا‘‘ میں چھپا۔ اب بھی میرا خیال ہے کہ میں شاید اس سے بہتر کہانی کبھی نہ لکھ سکوںگا۔ صرف منٹو کی کاٹ چھانٹ نے اسے ایک کامیاب کہانی بنادیا۔ مجھے یہ کہنا چاہیے کہ یہ میری نہیں بلکہ منٹو کی اچھی کہانیوں میں شمار ہوسکتی ہے، کیونکہ بات کہنے کی نسبت اسے اَن کہا چھوڑنا کہیں بڑا فن ہے۔ سچ ہے کہ چھوٹی سی چیز سے فن میں عظمت آجاتی ہے مگر عظمت کوئی چھوٹی چیز نہیں، اور ہمارے بہت سے افسانہ نگار بات کو بہت زیادہ کہہ کر اپنی تخلیقات پیدا نہیں کرتے بلکہ انھیں ہمیشہ کے لیے دفن کردیتے ہیں—مگر اُس وقت میں یہ سب کچھ نہ سمجھتا تھا اور مجھے منٹو سے اس کی اس بے رحم تصحیح کی وجہ سے کافی کد سی تھی۔ اب جب وہ مجھ سے ملنے کا خواہش مند تھا تو مجھے چار و ناچار اپنے دوست کے ہمراہ اس کے ہاں جانا پڑا۔ وہ ہال روڈ پر بنگلہ نما مکانوں کے بلاک میں سے ایک تھا۔ وہ اس کی نچلی منزل میں رہتا تھا۔ یہ چھوٹے خوشنما مکان نیم دائرے میں ایک سبز گول باغیچے کو احاطہ کیے ہوے تھے۔ جگہ یقینا ایسی تھی جسے انگریزی میں پاش (posh) کہا جاسکتا تھا— اردو کے ایک مصنف کے لیے بہت زیادہ پاش جس کی گزر محض اس کی تحریروں پر تھی۔ میں یہ توقع کر رہا تھا کہ منٹو غلیظ بالکنیوں والے ایک تنگ و تاریک فلیٹ میں رہتا ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ برآمدے کے باہر سبز جھلملیوں کی جافری بھی موجود تھی۔
میرے دوست کے دستک دینے پر ایک آدمی نے آکر دروازہ کھولا؛ ایک آدمی جس کا سر بڑا اور گنبد نما تھا اور جس کی آنکھیں اس کے کھلے فراخ ماتھے کے نیچے جیسے باہر نکلی ہوئی تھیں۔ یہ ایک انسان کی آنکھیں نہ تھیں۔ میں نے ایسی عجیب آنکھیں پہلے کسی انسانی چہرے میں نہ دیکھی تھیں۔ یہ آدمی ایک بے عیب، سپید پاجامے اور کرتے میں ملبوس تھا اور اپنے ایک ہاتھ میں ایک کھلا فائونٹین پین لیے ہوے تھا۔ خوشی اور اخلاص کی روشنی چمکی اور اس نے اتنی گرم محبت سے تمتماتا ہوا ہاتھ ملایا کہ اسی وقت میری ساری سرد مہری، سارا جھینپوپن دور ہوگیا۔ تاریک اجنبی دیوار جو دو انسانوں کے درمیان ہوتی ہے، پانی کی طرح بیٹھ گئی۔ میں اُسے جانتا تھا، وہ میرا برسوں کا دوست تھا۔ منٹو لمبے کاؤچ پر بیٹھ گیا۔ اس پر ایک کاپی بک کھلی رکھی تھی۔ ہمارے آنے سے پیشتر وہ ایک افسانہ لکھنے میں مصروف تھا۔ (یہ افسانہ اس کی کہانیوں کے مجموعے ’’چغد‘‘ میں شامل ہے۔) اُن دنوں وہ ہر روز ایک افسانہ مکمل کرکے اپنے ناشرکے حوالے کر رہا تھا۔ ایک افسانے کا معاوضہ اسے تیس یا بیس روپے مل جاتے تھے۔ یہ روپے آشفتہ مزاج بوہیمین کے لیے بڑے کام کی شے تھے۔ ان سے وہ ’کافر‘ حاصل کی جاسکتی تھی جو اس کے منھ سے لگی ہوئی تھی اور جو اس کی ’تنگی و ترشی‘ کے درد کو تسکین دیتی تھی۔ ان سے اس کی بیوی اور پیارے بچے آرام اور فراغت کی گھڑیوں سے ہمکنار ہوسکتے تھے۔ کمرے میں ہر چیز صاف ستھری اور قرینے سے رکھی ہوئی تھی۔ کائوچ کے پاس تپائی پر ایک گلدان تھا۔ (اس میں اصلی چمکیلے پھول تھے!) اور ایک ایش ٹرے بھی تھی۔ یہ آدمی نازک مزاج اور نفاست پسند ہے، میں نے سوچا۔ وہ اپنی زندگی میں بھی اسی نظم اور قرینے کا شیدائی ہے جسے وہ اپنی تخلیقات میں بروے کار لاتا ہے— ہر ایک لفظ تراش سے درست اور اپنی جگہ پر قرینے سے بیٹھا ہوا۔ یہ ایک بڑے مصنف کا کمرہ نہ تھا؛ یہ ایک شہر کے اچھے کھاتے پیتے وکیل یا آفس سپرنٹنڈنٹ کا کمرہ ہوسکتا تھا۔ ایک مصنف کے کمرے میں آدمی ایک پُرتصویر افراتفری کی توقع کرتا ہے — ہر چیز نیچے اوپر، میز پر کاغذوں اور کتابوں کے گڑبڑ انبار، باسی قہوے کے پیالے، فرش پر پیے ہوے سگریٹوں کے ٹکڑے۔ بعض عظیم ترین مصنفوں نے ایسے کمروں میں اپنی بڑی کتابیں تخلیق کی ہیں۔ بالزاک ایسے ہی ماحول میں کام کرتا تھا اور اپنے اردگرد کی بے نظمی میں خوش تھا۔ اسی طرح، مجھے یقین ہے، دوستووسکی لکھتا تھا جس کا لکھنے کا کمرہ (جب وہ جیل کا حجرہ نہ ہوتا تھا) ایک باقاعدہ پسارخانہ ہوتا تھا۔ اسی طرح بدنظمی اور افراتفری کا حامل ان کا عظیم فن ہے— ان کے بڑے ناول الجھے ہوے، طوفانی اور ناتراشیدہ ہیں، اچھی چیزوں سے بھرے ہوے، لیکن بہت کچھ کچرے اور ردی سے بھی اٹے ہوے۔ ان میں نظم اور تکنیک کا شائبہ نہ تھا۔ ان کے ناولوں کو پڑھنا گویا ایک وسیع کباڑخانے میں داخل ہونا ہے جہاں پہلے پہل تو انسان پریشان ہوجاتا ہے، پھر کباڑ کے ڈھیروں میں سے اس کی آنکھ نوادر پر پڑتی ہے—اور کیسے عجیب نوادر! پریشانی اور الجھن کے درمیان پڑھنے والے کے دماغ میں لَو جل اٹھتی ہے اور اُسے اپنی محنت اور کاوش کا خوبصورت صلہ مل جاتا ہے۔ منٹو اپنے فن میں پھیلائو اور بے ترتیبی سے نفرت کرتا تھا۔ یہی نفاست پسندی، نظم اور سلیقے سے محبت وہ اپنے اردگرد کی چیزوں میں پسند کرتا تھا۔ ہر چیز اپنی ٹھیک جگہ پر ہونی چاہیے۔ ہر شے صاف ستھری ہونی چاہیے۔ اس کے صفائی اور قرینے کے خبط کے بارے میں میرے ناشر دوست نے مجھے کئی ایک دلچسپ باتیں بتا رکھی تھیں۔ اب میں نے اس کا خود تجربہ کیا۔ میرے سامنے کاؤچ پر اپنی سپید لمبی مخروطی انگلیوں میں ایک جلتا ہوا سگریٹ پکڑے اور مجھے گائے جیسی بڑی آنکھوں سے دیکھتا ہوا جو بوٹے سے قد کا شخص بیٹھا تھا وہ اپنی ذات میں بھی ستھرے پن کا قائل تھا۔ اس کے کپڑے سپید اور اجلے تھے۔ اس کے ایک غیرقدرتی رنگت والے چہرے میں سب سے زیادہ اظہارکرنے والی اور مستحکم اس کی بڑی اُمڈتی ہوئی آنکھیں تھیں۔ وہ فی الواقع غیرانسانی اور خوفناک تھیں، جنھیں گویا دیوتائوں نے خصوصیت سے انسانوں کی روحوں میں جھانکنے، ان کی اچھائی اور کمینگی کی عکاسی کرنے کے لیے بنایا تھا... میں نے انھیں خوفناک کہا ہے، یہ پوری سچائی نہیں، چونکہ یہ ’’رِپ وَین وِنکل‘‘ کے گائوں کی پہاڑیوں کی طرح ہمیشہ ایک ہی رنگ اور یکساں کیفیت کی نہ رہتی تھیں۔ وہ خوشی اور محبت سے بھی لبریز ہوسکتی تھیں، اورپھر ان سے خوبصورت اور کوئی آنکھیں نہ ہوتی تھیں؛ وہ چلبلی ہنستی ہوئی آنکھیں بھی بن جاتی تھیں اور اتنی معصوم بھی جتنی ایک دودھ پیتے بچے کی آنکھیں؛ اور وہ پتھر کی آنکھیں بھی تھیں، تلخ اور سردمہر! میں نے بعد میں ان کی یہ سب مختلف کیفیات دیکھیں۔ اس کی آنکھ کے بدلنے سے وہ انسان بھی بدل جاتا تھا۔ بعض وقت اتنا مختلف کہ آپ اس کو پہچانتے نہ تھے اور ڈر جاتے تھے۔ مگر اُس روز اپنے اس کمرے میں منٹو سے زیادہ پیارا میٹھا دوست اور کوئی نہ ہوسکتا تھا۔
ہمارے معذرت کرنے پر کہ ہم اس کے کام میں مخل ہوے ہیں، اس نے خندہ پیشانی سے کہا، نہیں بالکل نہیں، اس کے لکھنے میں اس سے کوئی حرج نہیں ہوتا۔ ہمارے جانے کے بعد وہ افسانے کو اسی سرے سے پھر شروع کردے گا جہاں اس نے اسے چھوڑا تھا۔ اس نے مسودہ اٹھا کر ہمیں دکھایا۔ آخری فقرہ ابھی نامکمل تھا۔ وہ موڈ اور الہامی لمحے کا قائل نہ تھا۔ اس نے کہا کہ رات کو سوتے وقت وہ دوسرے روز کے افسانے کی کہانی کے موضوع کے لیے بڑے ہاتھ پائوں مارتا ہے مگر کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ صبح تک اسے کوئی پتا نہیں ہوتا کہ وہ کیا اور کیسا افسانہ لکھے گا۔ پھر حجامت بنانے کے لیے جاتے یا غسل کرتے ہوے اُسے کوئی خیال سوجھتا ہے، پلاٹ ذہن میں آتا ہے، پھر چند کردار ابھرتے ہیں اور وہ افسانہ لکھنے بیٹھ جاتا ہے— پھر لامحالہ کردار خود افسانے کا بیڑا اٹھا لیتے ہیں۔ منٹو ان کو تخلیق نہیں کرتا؛ وہ اس کی تخلیق کرتے ہیں۔ وہ اپنے کرداروں کے سامنے بے بس ہوتا ہے۔ منٹو ہمیشہ یہ بات اپنے دوستوں میں دہراتا تھا مگر اپنے آپ پر ’’نقوش‘‘ میں ایک چھوٹے سے خاکے میں اس نے اقبال کیا کہ یہ محض بکواس ہے... میری رائے میں صداقت ان دونوں انتہائوں کے درمیان ہے۔ منٹو پلاٹ اور کرداروں کو سوچتا تھا مگر ایک دفعہ جان پڑنے کے بعد کردار مصنف کو اپنے ساتھ ساتھ چلاتے تھے اور افسانہ اپنے آپ کو خود لکھتا جاتا تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جوہری کی صناعانہ نگاہ ہار میں پروئے جانے والے ایک ایک ہیرے کو پرکھنے سے بیگانہ ہوجاتی تھی۔ فن کار ہمیشہ چوکس اور ہوشیار رہتا تھا۔ چونکہ وہ جاندار کردار پیدا کرسکتا تھا اور الفاظ کی مصوری کا ماہر تھا، یہ کام اس کے لیے نسبتاً سہل تھا۔ لیکن اس کے نقادوں کا اس کے اپنے الفاظ کو چرا کر یہ سمجھ لینا کہ اس کا فن سہل تھا، بڑا حیرت ناک ہے۔
’’اوئے محمد خالد اختر یار،‘‘ اس نے اٹھ کر میری طرف سگریٹ کا پیکٹ بڑھاتے ہوے کہا، ’’توں سنیا اے میرے کولوں خواہ مخواہ بگڑیا ہویا ایں۔ بھائی، مینوں تیری چیز پسند آئی سی۔ میں اس دے وچ تبدیلی تے کوئی نہیں کیتی، صرف کٹ پھٹ کیتی اے۔‘‘
اس کی اس معذرت سے میں شرمسار ہوگیا۔ اس کی آنکھیں مجھے محبت سے، کچھ ’ملزمی‘ سے دیکھ رہی تھیں۔’’ نہیں منٹو صاحب! میں ناراض تو نہیں ہوا۔‘‘
’’ہن ایہہ چیز زندہ رہے گی!‘‘ اس نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
میں اسے اچھی طرح نہ جانتا تھا اس لیے میں نے اپنی اس تعریف کا قدرے برا مانا۔ یہ آدمی اپنے کو کیا سمجھتا ہے؟
’’اچھا، ہن ٹھیریں گانا کچھ دیر؟ میں کل آواں گا۔ تو مینوں بڑا پیارا لگنا ایں، ‘‘ منٹو نے ہمیں الوداع کرتے ہوے کہا۔ اس نے میرے کھچائو پر مکمل فتح پالی تھی۔ یہ منٹو کا ایک چہرہ تھا— لیکن جیساکہ میں نے پہلے کہا ہے، اس کے کئی چہرے تھے۔
اس پہلی ملاقات کے بعد میں لاہور میں اپنے مختصر قیام کے دوران اس سے کئی بار ملا۔ اُسے میری لکھنے کی کوشش سے دلچسپی ہوگئی تھی۔ لیکن مجھے یہ خدشہ لاحق رہتا تھا کہ کہیں اس کی بڑی بڑی وحشت ناک آنکھیں میرے اندر نہ جھانک رہی ہوں اور کہیں وہ سچائی کو نہ بھانپ لیں۔ شاید وہ مجھے اپنے کسی افسانے کا کردار بنانا چاہتا ہے،میں اس خیال سے کانپتا تھا۔ میں خوش قسمت ہوتا اگر وہ مجھے اپنی کسی کہانی کے کرداروں میں سے ایک بنالیتا— یوں میں جاوداں ہوجاتا۔ وہ انسانی فطرت کا طالب علم تھا، اور اس روکھی، ریاکار دنیا میں سچے اخلاص کا جویا۔ اس کی مجھ میں دلچسپی بھی زیادہ تر اس لیے تھی۔ پچّیس سال کی جوانی خود غرض ہوتی ہے۔ وہ کھلے بازوئوں سے آگے بڑھا۔ میں نذیر احمد اور اس کے مقلدوں کے چند نایاب پند و نصائح پر عمل کرتے ہوے پیچھے اپنے خول میں سکڑ گیا۔ ان پند و نصائح کے بغیر دنیا رہنے کے لیے سنہری جگہ بن سکتی ہے۔
پہلی ملاقات کے دوسرے روز ہی وہ میرے ناشر دوست کے ہاں مجھ سے ملنے آیا۔میں اس دن بخار میں اکیلا پڑا تپ رہا تھا۔ منٹو نے تقریباً سارا دن میرے پاس گزارا۔ مجھے یاد ہے کہ اس نے میری بیماری کا مذاق اڑایا اور اپنے کرتے کی جیب میں سے برانڈی کی ایک چھوٹی بوتل سے مجھے پانچ چھ گھونٹ چڑھا جانے پر مجبور کیا۔ مجھے مجبور کرنے کی خاص ضرورت نہ تھی اور میں نے اچھے لمبے گھونٹ لیے۔ منٹو نے مجھے یقین دلایا کہ اب میں ٹھیک ٹھاک ہوجائوںگا۔ اسے برانڈی کی چنگا کردینے والی تاثیر پر مکمل ایمان تھا۔ اسے وہ زکام سے لے کر گنوریا تک سب امراض کے لیے اکسیر سمجھتا تھا۔ اس کی باتیں اب مجھے یاد نہیں رہیں۔ ہاں وہ مجھے بہلانے کے لیے متواتر بولتا رہا۔ اس نے کسی سے ملاقات کا ایک طویل اور قدرے بے سر و پا قصہ شروع کیا جس نے اس وقت مجھے شدت سے بور کیا۔۔۔ منٹو کی زبان بہکی اور لڑکھڑاتی تھی، مگر اس کے دماغ کی صفائی دھندلائی نہ تھی اور اس کی پچھلی گفتگوئوں کی تفصیلات کی یاد کبھی غلطی نہیں کرتی تھی۔ اتنے گھنٹوں کی اس کی باتوں نے مجھے کچھ تھکا دیا۔
وہ دوسرے دن میرے ناشر دوست کے پاس شاید اپنے ایک افسانے کے پیسے مانگنے کے لیے آیا۔ اس دن وہ ایک بدلا ہوا منٹو تھا۔ اس کی آنکھیں پتھر اور برف کی تھیں۔ میں اس کے پاس بیٹھا اور اسے باتوں میں لگانے کی کوشش کی۔ ایک گھنٹے میں اس نے ایک لفظ نہ کہا اور مجھے اس طرح دیکھا جیسے ہم مکمل اجنبی ہوں۔ یہ میرے لیے ایک عجیب اور غیرمرئی تجربہ تھا۔ میں نے سوچا، کوئی تاریک قوت اس پر مسلط ہے۔ پیسے لے کر وہ ایک لفظ کہے بغیر چپ چاپ اٹھ کر چلا گیا۔
اسی شام وہ پھر آیا تو بڑے اچھے موڈ میں تھا اور بڑا زندہ دل دوست ثابت ہوا۔ اس سے اگلے دن ہی وہ مجھے اپنے ہمراہ لاہور کی فلمی دنیا کی سیر کرانے لے گیا۔ یہاں اُسے ہر کوئی جانتا تھا۔ کئی ڈائریکٹروں اور ایکٹروں کی شادیوں میں اس کا ہاتھ تھا۔ ایک بار میں نے اس کی آنکھوں کو بھڑکتے ہوے اور اس کے چہرے پر تمتماہٹ کو اچھلتے ہوے دیکھا۔ ایک فلم اسٹوڈیومیں منٹو سے تعارف کرائے جانے پر ایک ایکٹر نے اس مشہور نام سے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔ منٹو ہمیں ایک ایسے اسٹوڈیو میں بھی لے گیا جہاں اس کی ایک کہانی فلمائی جارہی تھی۔ باہر آنے پر میں نے اسے سخت غصے کی حالت میں دیکھا۔ اس کا مختصر جسم پتے کی طرح ہلتا تھا۔ ڈائریکٹر نے اپنے قبیلے کے طور کے مطابق منٹو کی کہانی کو زیادہ ’پاپولر‘ بنا دیا تھا۔ منٹو جلے ہوے دل سے اسے بے نقط سناتا رہا۔ ’’اختر، اے جگہ بکواس اے۔‘‘
ایک صبح میرا ناشر دوست مجھے اور منٹو کو اپنے ایک کام کے لیے ہمراہ لے گیا۔ اس نے ہومیوپیتھک کالج کا آغاز کرنے کی ٹھانی تھی اور وہ نئے وزیرِ صحت و تعلیم سے درخواست کرنا چاہتا تھا کہ وہ اس کے افتتاحی جلسے کی صدارت کرے۔ وزیر کی کوٹھی پر جاکر منٹو نے اپنا ارادہ تبدیل کردیا۔ ’’جائو بھئی تسیں وزیراں نوں ملن۔ اسیں ایتھے بیٹھے آں۔‘‘ جب ہم وزیر صاحب سے مل کر باہر آئے تو منٹو ہمیں کہیں نظر نہ آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ہم نے اُسے ایک فقیرنی کی کٹیا میں سے ہمیں پکارتے ہوے سنا جہاں وہ بڑے مزے سے اکڑوں بیٹھا انسانی فطرت کی کتاب پڑھ رہا تھا۔ میرا خیال ہے یہی اس کی عظمت تھی۔ انسانوں میں شدید طور سے دلچسپی کی وجہ سے اس کے تجربے اور تاثرات فرسٹ ہینڈ تھے۔ وہ اپنے ان ہم عصروں کی طرح نہ تھا جو انسانی فطرت کا علم کتابوں سے حاصل کرتے ہیں یا جو اونچے گھوڑوں پر سوار زرق برق راستوں پر سے گزرتے ہیں۔
انھی دنوں منٹو کے دو خوجے دوست چنیوٹ سے لاہور آئے تھے۔ یہ مجھے معلوم نہیں کہ منٹو نے انھیں کیسے دریافت کرلیا اور وہ اس کے دوست کیونکر تھے۔ منٹو ان کے متعلق بے حد پُرجوش تھا۔ ’’اختر!‘‘ اس نے مجھے کہا، ’’چل تینوں اُناں نال ملاواں۔ بڑے مزیدار آدمی نیں۔‘‘ اس نے بتایا کہ دو نوں خوجے فلیٹی ہوٹل میں ٹھہرے ہوے تھے۔ وہ اپنے ساتھ چاندی کا ایک ہاون دستہ لائے تھے، اُسے وہ بھنگ گھوٹنے کے لیے استعمال میں لاتے تھے۔ منٹو کے لیے وہ ایسے تھے جیسے ایک بچے کے لیے سونے کا خزانہ۔ وہ انھیں انسانیت کے دو دلچسپ نمونے سمجھتا تھا۔ مجھے ایسے لوگوں سے ملنے کا ذرہ بھر شوق نہ تھا۔ میں منٹو کے ساتھ فلیٹی میں نہ گیا۔ لیکن ایک روز مال روڈ پر منیاری کی ایک دکان میں ان دونوں کی زیارت نصیب ہو ہی گئی۔ ان میں سے ایک گیروے رنگ کا لاچا اور ایک لمبا کرتا پہنے ہوے تھا۔ منٹو ان کی مصاحبت میں تھا اور ان کی صحبت میں بڑا خوش اور مغرور لگتا تھا۔ وہ فی الواقع زندگی کے کوچوں کا کھلنڈرا شوخ لڑکا تھا۔ اسی اسکول میں اس نے ہر قسم اور ہر قماش کے لوگوں سے آسانی اور بے تکلفی سے دوست بنا لینے کا فن سیکھا۔ منٹو چنیوٹ کے ان خوجوں پر ایک افسانہ لکھنا چاہتا تھا۔ وہ افسانہ نہ لکھا جاسکا اور خوجے بدقسمتی سے ابدیت کا تمغہ پانے سے بال بال بچ نکلے۔
منٹو کی ایک ہولناک، دہلا دینے والی تصویر میرے لوحِ ذہن پر نقش ہے (ان سطروں کو لکھتے وقت بھی وہ تصویر، وہ منظر اصلی زندگی کی طرح میرے سامنے ابھر رہا ہے)۔
ایک چلچلاتی دوپہر کو میں اور میرے چند دوست تانگے سے مال روڈ کے چینیز ریستوراں کے سامنے اترے۔ پاس ایک برف بیچنے والے کی دکان کے سامنے سر پر تولیہ لیے اور لال پتھریلی نگاہوں سے خلا میں دیکھتا ہوا سعادت حسن منٹو کھڑا تھا— آشفتگی اور انسانی تنہائی کی مکمل تصویر۔ اسے اس طرح دیکھ کر ایک چاقو میرے کلیجے میں سے گزر گیا۔ اپنے دوستوں کو چھوڑ کر میں اس کے پاس گیا۔ اس نے مجھے کوری انجانی نظروں سے گھورا، ’’میں برف لینا پیاں،‘‘ اس نے لڑکھڑاتی زبان سے کہا۔ برف بیچنے والا اپنے شرابی گاہک کو عجیب طرح سے تک رہا تھا (اس بے چارے کو کیا پتا تھا کہ اس سے بڑا اور عظیم تر آدمی اس کی دکان پر کبھی نہ آئے گا)۔ منٹو نے برف کی بڑی سل کی سل خریدی، اسے تولیے میں لیٹا۔ ’’جائو تسیں، اپنے دوستاں نال چینیز جائو۔ جائو تساں۔‘‘ اس نے اپنا پتلا لمبا ہاتھ بڑھایا اور تولیے میں لپیٹی ہوئی برف کی سل کو بغل میں دابے وہ تھکے ہوے بے مقصد قدموں سے زمزمہ کی طرف چل پڑا۔ میرا دل چاہا میں اس کے ساتھ جائوں، مگر چینیز میں میرے دوست میرا انتظار کر رہے تھے۔
منٹو کی زندگی موپاساں کی ایک کہانی ’’بیرا، ایک جرعہ اور‘‘ کے ہیرو کی طرح خالی اور سونی تھی۔ وہ ایک ایسے جہاز کی مانند تھا جس کا لنگر ٹوٹ چکا ہو۔ اس کے لیے اس پُرآلام دنیا کے سمندر میں کوئی امن کا جزیرہ نہ تھا اور وہ اس خلا کو سستی تند شراب کے متواتر گھونٹوں سے پُر کرتا تھا۔یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ ’تنگی و ترشی‘ تھی یا اس کے ہم جنسوں کی کمینگی اور خود غرضی جس نے اُسے الکحل کے دروازے پر بے بس ڈال دیا۔ شاید اس کی اپنی (آرٹسٹ کی) تنہائی اس کے پینے کا سبب تھی۔ الفاظ کی مصوری ایک تھکا دینے والا، خون پی لینے والا کام ہے— اور اس میں کوئی شک نہیں کہ منٹو ہر لمحہ ایک آرٹسٹ تھا۔ صحیح لفظ کے لیے اس کی کاوش پیہم اور مسلسل تھی۔ بڑی آنکھیں ہمیشہ دوسرے انسانوں کے دلوں میں غوطے لگاتی تھیں اور اس کا ذہن بے رحمی سے چھوٹی سے چھوٹی تفصیل محفوظ کرتا جاتا تھا۔ اس کی یہ عادت بعض دفعہ اس کی صحبت کو بوجھل بنا دیتی تھی۔ اس کی صحبت ایک نارمل تجربہ نہ تھا۔
مجھے ۱۹۵۱ء کا وہ عجیب دہشت ناک دن اب تک یاد ہے جس کے خیال سے اب بھی میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایسا دن میری زندگی میں اچھوتا ہے۔ اس چمکیلے سورج کی دنیا کی بجاے کسی تاریک اور دیوانی دنیا سے اس کا تعلق معلوم ہوتا ہے۔ اسی سال کے کرسمس میں ہم کار میں لاہور آئے اور میکلوڈ روڈ پر لاہور ہوٹل میں اترے۔ ہم تین دوست تھے۔ ایک کو میں’ ایپی کیورس ‘کہوںگا چونکہ وہ اپنے کو بھی ایپی کیورس کہتا تھا اور فلسفیانہ مزاج رکھتا تھا۔ دوسرے کا نام ’پیٹر‘ ہوگا۔ پیٹر ایک شاعر تھا اور ایک کامریڈ بھی۔ ہم ایپی کیورس کی کار میں لاہور گل چھرے اڑانے کے واحد اور بلند مقصد سے آئے تھے۔ میں ایک پُرسکون، ٹھنڈے خون کا شخص ہوں— گل چھرے اڑانے کے لیے طبعاً اور جسمانی لحاظ سے ناموزوں۔ مگر شوریدہ ایپی کیورس اور پیٹر مجھے زبردستی اپنے ہمراہ گھسیٹ لائے تھے۔ لاہور، میری طالب علمی کا لاہور ،مجھے ہمیشہ ایک پُرکشش شہر لگا ہے۔ یہاں پہنچنے کے بعد دوسرے دن لوہاری دروازے کے باہر اپنے ناشر دوست کی دکان پر مجھے بتایا گیا کہ منٹو صاحب میرا اور ایپی کیورس کا انتظار کرکے ابھی ابھی گئے ہیں۔ میرے ناشر دوست نے منٹو کو ہماری آمد کی تاریخ سے مطلع کر رکھا تھا۔ ہم وہاں ابھی کھڑے ہی تھے کہ منٹو اور راہی تانگے میں وہاں آ پہنچے۔ منٹو اترتے ہی ہماری طرف لپکا۔ ’’اوئے اختر، میں تے بڑے دن دا تیرا انتظار کرریا آں۔ رشید کولوں پچھ ،کنے چکر لائے نیں۔‘‘
ایپی کیورس اور پیٹر نے اس بلاے ناگہانی کو پسند نہ کیا۔ ان کے دوسرے پروگرام تھے اور اب ظاہر تھا کہ منٹو ان کو نہ چھوڑے گا۔
منٹو نے کہا، ’’آئو چلیے، فیر گھر چلیے۔ پر اوتھے تے افریقہ اتریا ہویا اے۔‘‘ افریقہ اس کے چند قرابت دار تھے جن کا نیروبی میں کاروبار تھا۔
میں نے دیکھا کہ اس کے چہرے سے شراب چھلکی پڑ رہی تھی اور اس کی زبان معمول سے زیادہ لڑکھڑاتی تھی۔ منٹو کار میں بیٹھ گیا اور ہم نے لاہور ہوٹل میں جانے کا فیصلہ کیا۔ ’’پر یار راہی! ساڈا دارو تے ختم ہوگیا۔ اوتھے چل کے کراں گے کی؟ چلو لے لیاں گے۔ پر پیسے؟... چلو پیساں دی وی فکر نہ کرو۔‘‘ اس نے پیچھے ہماری طرف دیکھا۔ ’’اپنا خالد جو اے۔ ریاض اے۔ پندرہ روپے تے اناں کولوں نکل آن گے۔۔۔‘‘
پندرہ روپے سے ہاتھ دھونے کے خیال نے ہمیں زیادہ خوش نہ کیا۔ ’’منٹو صاحب،‘‘ میں نے کہا، ’’آپ کے لیے لاہور ہوٹل میں بلیک اینڈ وہائٹ پڑی ہے۔‘‘ پیٹر اپنے ساتھ وہسکی کی ایک بوتل لے کر آیا تھا۔
لاہور ہوٹل کے کمرے میں پہنچ کر منٹو بڑے مزے سے نیچے فرش کی دری پر بیٹھ گیا۔ ’’لیا بھئی فیر!‘‘ پیٹر نے بلیک اینڈ وہائٹ کی بوتل کھولی اور اس میں سے شراب ایک گلاس میں انڈیلی۔۔۔ منٹو اسے ایک گھونٹ میں چڑھا گیا۔ اسے پیتے دیکھ کر آدمی کو ڈر لگتا تھا۔ جتنا وہ پیتا تھا، اتنا ہی وہ زیادہ پیاسا ہو جاتا تھا۔ ہر پندرہ بیس منٹ کے بعد پیٹر اس کے لیے گلاس میں وہسکی ڈالتا اور وہ اسے اپنے اندر ڈال لیتا۔ اس کی گفتگو لکنت زدہ اور بے ربط تھی۔ اس کی بڑی، بوڑھے ہرن کی سی آنکھیں،جو اپنے افق سے بھٹکی ہوئی اور کسی کھوئی چیز کی متلاشی تھیں، اب اپنے اندر ایک چنچل بچے کی مسکراہٹ لیے ہوے تھیں۔ کچھ دیر تک وہ میرے ایک ناول کے مسودے کے بارے میں مجھ سے چھیڑ کرتا رہا۔ ’’اوئے اختر، میں تیرا ناول پڑھیا اے۔ نرا بکواس، بکواس— اوہ ساری گل جس واسطے توں دو سو صفحے لخے نیں، چھ صفحیاں وچ کہی جاسکدی سی۔ اوئے تو لکھیا کر، پر تھوڑا، تھوڑا...‘‘
میں نے اپنے شاہکار کے بکواس کا نام پانے کا ذرا بھی برا نہ منایا۔ یہ بکواس سہی مگر منٹو نے اسے پڑھا تھا! ہم مسحور اور کچھ سہمے ہوے اس عجیب آدمی کی بہکتی اور سیانی باتیں سنتے رہے۔ آنکھیں جلتے انگارے بن گئیں، اس کا ہاتھ رعشہ زدہ ہوگیا، پھر بھی اس نے اپنے ذہن کی صفائی ایک لمحے کے لیے نہ کھوئی۔ ہمارے لیے یہ ایک وحشت ناک خواب میں سانس لینا تھا۔
وہ کئی ایک بار اٹھا۔ ’’چل راہی چلیے۔ اِناں کدے جانا ہووے گا۔‘‘ وہ ہماری طرف ملزمانہ آنکھوں سے دیکھتا، پھر بیٹھ جاتا۔ ’’او اُتھے چل کے کی کراں گے۔ اُتھے افریقہ اتریا ہویا اے۔‘‘
چار گھنٹے کی بادہ نوشی کے بعد اُسے نیند سی آگئی، اور وہ پلنگ پر ایک بچے کی طرح اکٹھا ہوکر اور اپنی بانہہ کو اپنی آنکھوں پر رکھ کر سو گیا۔ اس پریشان بے قرار نیند سے وہ آدھ آدھ گھنٹے کے بعد بیدار ہوتا اور بستر پر اٹھ بیٹھتا۔ ’’ٹریژر آئی لینڈ‘‘ کے بحری قزاق بلی جونز کی طرح وہ ہم پر لال آنکھیں گاڑتا اور ہلاکت کی دوا کے ایک اور گلاس کا حکم دیتا۔ ڈر کے مارے ہمیں انکار کی جرأت نہ ہوتی تھی۔
ایک دفعہ اس نے مجھے اور ایپی کیورس کو آواز دی۔ ’’ایتھے آکے بیٹھ نایار!‘‘ ہم اس کے پاس جاکر بیٹھے— کچھ گھبرائے سے، کچھ سحر زدہ۔۔۔ ’’اوئے اختر، توں بکواس لکھیا اے۔ لکھیا کر لیکن مختصر، مختصر۔‘‘
ہم نے اس کی کہانیوں کا کسی طرح ذکر کردیا۔ وہ غصے میں بھڑک اٹھا۔ ناتواں جسم کپکپانے لگا۔ ’’میرا ذکر چھوڑ دیو،‘‘ اس نے کہا، ’’میری بات نہ کرو۔‘‘ اس نے اپنی ایک انگلی کا قلم بناکر دوسرے ہاتھ پر لکھنے کا اشارہ کیا، ’’میری بات چھوڑو۔ میں ایک سطر لکھ دوں وہ آرٹ ہے۔‘‘ وہ اپنی انانیت کے موڈ میں تھا۔ہم سہم کر دبک گئے۔ عجیب بات یہ تھی کہ یہ کوری شیخی نہ تھی۔ اس کا دعویٰ سو فیصدی درست تھا۔ جو کچھ وہ لکھ دیتا تھا، آرٹ تھا۔
اس کا غصہ فوراً اتر گیا اور اس نے ایک التجا کے لہجے سے کہا، ’’اختر، ایس بک بک توں میں نکلنا چاہنا۔ مینوں اپنے نال پہاڑاں تے لے چلو، دور... مینوں کڈ لَو اِتھوں۔۔۔‘‘
میں نے کہا کہ ہم اسے اپنے ساتھ کاغان کی وادی میں لے چلیںگے۔
’’مینوں اس بلا توں دور رکھنا،‘‘ اس نے وہسکی کی بوتل کی سمت اشارہ کیا۔ اس کی آنکھیں آزادی اور کوہستانی ہوائوں کے تخیل سے خواب آلود ہوگئیں۔ اچانک اس کا چہرہ اداس اور سنجیدہ ہوگیا۔ ’’میرے بیوی بچے... انہاں داں کی ہوے گا؟ انہاں دا انتظام کرنا پئے گا۔‘‘ ایک دفعہ اس نے یہ بھی کہا، ’’میں مرجائوں گا، منٹو مرجائے گا تو اختر تو وی روئیں گا، تساں سارے روئو گے۔‘‘
باہر گہری شام پڑنے پر وہ آخر گھر جانے کے لیے اٹھا۔ ’’چلیے بھئی افریقہ نوں ملیے۔‘‘
میں اسے اور راہی کو نیچے سڑک پر چھوڑنے آیا۔ میکلوڈ روڈ پر نیلے اندھیرے میں تانگوں اور موٹروں کی روشنیاں اچھل رہی تھیں اور زندگی کا پُررنگ،دلچسپ اور احمقانہ میلہ لگا تھا۔ راہی نے ایک تانگے کو آواز دی۔ منٹو نے مجھ سے اپنا ہاتھ ملایا، ’’او اچھا بھئی اختر!‘‘ پھر اچانک اجنبیت اور کھنچائو کی رسّی میرے اندر ٹوٹ گئی اور میں نے اس پیارے اکیلے آدمی کو گلے لگا لیا۔
جب میں اسے تانگے میں سوار کراکے لوٹا تو میری آنکھوں میں انسان کی تنہائی کے المیے کا خیال کرکے آنسو آگئے۔ میں نے منٹو کو پھر کبھی نہ دیکھا۔ جب اس کی کہانی ’’موذیل‘‘ چھپی تو میں نے منٹو کو ایک بے حد عقیدت مندانہ اور تعریفی خط لکھا— اس قسم کا خط جو ایک چیلا اپنے گرو کو لکھتا ہے۔ میں نے لکھا کہ وہ ایشیا کا یقینا سب سے بڑا آدمی ہے۔ اس خط سے اسے خوشی ہوئی اور اس نے مجھے اپنے واحد خط میں جواب دیا کہ میں منٹو کے غبارے میں اتنی ہوا نہ بھروں کہ وہ پھول کر آسمان کی پہنائیوں میں اوجھل ہوجائے۔ اس نے اسی رات کی بات کو دہرایا کہ اس نے اپنے کرداروں کو پیدا نہیں کیا بلکہ اس کے ہر نئے کردار کے بعد ایک نیا منٹو جنم لیتا ہے۔
یہ خط مجھ سے کھو گیا ہے۔ اب اسے حاصل کرنے کے لیے میں کیا کچھ دینے کو تیار نہیں ہوں! اس آخری ملاقات کے بعد میں دو تین بار لاہور گیا، منٹو سے نہ ملا۔ اس کے لیے میں عمر بھر اپنے کو کوستا رہوںگا۔ اس کی خبریں مجھے ملتی رہتیں— اس کی بیماریاں، اس کے شراب چھوڑنے کی خاطر دماغی اسپتالوں میں داخلے، اس کی اپنے بیوی اور بچوں کو آرام سے رکھنے کی تند کش مکش— مگر پچھلے چار پانچ مہینے سے مجھے اس کی کوئی خبر نہ ملی تھی۔
پھر سرما کی ایک سرخ اداس شام— پتے سڑک پر بکھرتے ہوے اور ایک آندھی چلتی ہوئی— اور پیٹر ایک غم زدہ چہرے سے تانگے میں سے چلاتا ہوا اترا، ’’منٹو مر گیا!‘‘
میں اس وقت گاڑی پکڑنے کے لیے اسٹیشن جارہا تھا۔پیٹر مذاق کر رہا ہوگا،جس طرح اس کی عادت تھی۔ مگر اس کے چہرے نے مجھے بتایا کہ یہ مذاق نہیں ہے۔ میرا دل ڈوبا، دنیا گویا اوپر نیچے ہوگئی۔ ہم میں سے کتنوں کے لیے زندگی کی لو اُس دن بجھ گئی۔

آرٹسٹ منٹو
’آرٹسٹ منٹو‘ ،’انسان سعادت حسن‘ سے الگ نہ تھا۔ ایک دوسرے کا پرتو اور عکس تھا۔ یہ چیز شاید ہر بڑے فن کار کے بارے میں کافی صداقت سے کہی جاسکتی ہے، لیکن منٹو کے بارے میں یہ بات ایک سے زیادہ لحاظ سے سچ تھی۔ اس کے آخری ایک دو سال میں آرٹسٹ اور انسان اس طرح غیرمنقسم طور پر گتھ گئے تھے کہ ایک کو دوسرے سے الگ بتانا مشکل تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بعض وقت (جیساکہ اس کے ایک نقاد دوست نے ایک دفعہ کہا) اس کی صحبت شریف رواجی فطرتوں کے لیے بوجھل ہونے لگتی تھی۔ وہ ہر وقت آرٹسٹ تھا، صحیح لفظ کی تلاش وار اپنے فن کی کارفرمائیوں سے اس درجہ پھنکتا ہوا کہ وہ لوگوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہوجاتا اور وہ اس سے بچ کر اپنی چین بھری سمجھ دار دنیا میں جانے کی خواہش کرنے لگتے۔ شریف دنیادارانہ معیار سے اس کا رویہ، اس کا طریقِ حیات یقینا کرینکش (crankish) اور نامناسب تھا اور اس کی صحبت میں سورج اور کھلی ہوا کی کمی تھی۔ ایک آرٹسٹ کی حیثیت سے وہ زندگی کا ایک ایک لمحہ بھرپور طریق سے جیتا تھا اور جب وہ کسی سے ملتا تو وہ محض رسمی واقفیت پر قانع نہ ہوتا بلکہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ وہ شخص کیا ہے، اور یہ چیز بھلے مانسوں کے لیے بڑی پریشان کن ہوتی۔ وہ اپنے اور اپنی کتاب (کل انسانیت اس کی کتاب تھی) کے درمیان کوئی تکلف اور ’اچھے‘ اخلاق کی دیوار برداشت نہ کرسکتا تھا۔ اس کے اندر کا آرٹسٹ ہمیشہ ہر ملنے والے کی روح میں جھانکتا رہتا تھا اور یہ پتا لگاتارہتا تھا کہ اس میں سونا کتنا ہے اور زنگ آلود لوہا کتنا۔ منٹو ہر لمحہ اپنے افسانے خود جیتا تھا اور اس ایک کہانی کے مقابلے میں جسے وہ حقیقتاً لفظوں میں لاتا تھا، بیسیوں اس کے ذہن میں ہوتی تھیں۔ میرا خیال ہے اس نے ڈیڑھ سو یا دو سو کے قریب مختصر افسانے لکھے ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ کئی ہزار افسانے پلاٹ اور کرداروں سے متعلق اس کے اندر جل رہے تھے جنھیں وہ نہ لکھ سکا۔ وہ بعض دفعہ بڑا کھرا اور ظاہراً بداخلاق ہوتا، جس کا بے سمجھ ظاہر میں برا مانتے۔ یہ اس کا لوگوں کو کھولنے کا طریقہ تھا۔ ہم سب بند کتابیں ہیں اور دیکھا جائے تو ہمارے بہترین دوست بھی ہمارے متعلق تاریکی میں ہوتے ہیں۔ ہم خود بھی یہی چاہتے ہیں کہ ہمارا اصل تاریکی میں رہے اور ہماری کمینگی اور غلاظت ان پر آشکارا نہ ہو۔ آرٹسٹ منٹو فوراً آدمی کو بھانپ جاتا تھا اور اس کی فطرت کو لاشعور کے آئینے میں منعکس کرلیتا تھا۔ بوڑھے ہرن کی سی آنکھیں سب کچھ دیکھ لیتی تھیں۔ موپاساں میں بھی یہ خدادا دخوفناک صفت تھی، مگر جہاں عظیم فرانسیسی کو اس کے علم نے فطرتِ انسانی کے متعلق حد درجہ تلخ اور سنکی بنا دیا تھا، منٹو نے آدمی کی کمینگی اور جھوٹ کے باوجود اس سے رشتہ ٔ محبت استوار رکھا۔ سارے انسانوں کا درد اور حزن اس اکیلے بادہ گسار میں تھا اور سب آدمی اس کے اپنے بھائی تھے۔ یہ محبت اور یہ درد اس کے ہر ترشے اور چھانٹے ہوے افسانے میں نواسنج ہے اور اس واحد چیز کی بدولت اسے فرانسیسی دیو سے ایک لحاظ سے بڑا افسانہ نگار کہا جاسکتا ہے۔
میں نے لکھا ہے کہ آرٹسٹ اور انسان ایک تھے؛ وہ ایک ضرور تھے لیکن ایک اہم فرق کے ساتھ۔ جہاں انسان سعادت اپنی دنیاوی زندگی میں بے حد جذباتی ہوجاتا تھا— احساسات کی انگلیوں کے نیچے ایک طرب آمیز ساز— وہاں آرٹسٹ منٹو سرد اور سخت اور بے رحم تھا۔ آرٹسٹ منٹو برف تھا اور اپنی تخلیقات سے جذبات کے خود رو گنجلک پودوں کو اس سفاکی سے چھانٹتا تھا جیسے ایک محتاط باغبان اپنی کیاریوں پر سے زہریلی بیلوں کو۔ یہ وہ شعوری طور پر، ارادتاً نہیں کرتا تھا بلکہ یہ اس کے لیے قدرتی تھا۔ ایسے کئی مصنف ہیں، غالباً بہت زیادہ، جو کسی مقصد میں خلوص کے ساتھ یقین رکھنے کی وجہ سے، یا ادبی فیشن کی خاطر، جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں۔ ان کی تخلیقات میں آبدار نثری ٹکڑے ہوتے ہیں، اور خوبصورت منظرنگاری کے صفحوں کے صفحے،لیکن ان پر مقصدی جذباتیت ایک چغے کی طرح پڑی ہوتی ہے۔ وہ اپنی تخلیقات کو اپنے ہاتھوں ایسے مکمل اور کامیاب طریق سے دفن کرتے ہیں کہ ہزار مسیحا بھی انھیں جِلا نہیں سکتے اور ان کی لکھی ہوئی چیزیں (گو وہ وقتی طور پر بھڑکدار چمکیلا تاثر پیدا کرتی ہیں) پیدائش ہی میں جان دے دیتی ہیں۔ آرٹسٹ منٹو جانتا تھا کہ ایک فن پارے کے لیے مقصدیت اور جذباتیت زہرِ قاتل ہے— ایک تخلیق بہت زیادہ کہی ہوئی باتوں سے مرتی ہے نہ کہ اَن کہی باتوں سے۔ اسی لیے وہ بے باکی سے، بے رحمی سے اختصار کرتا تھا۔ کہانی میں جو فقرہ ہو ضروری ہو، وہ کردار میں دم پھونکے یا کہانی کی سا لمیت میں معاونت کرے۔ اگر وہ فقرہ ان چیزوں میں سے کچھ بھی نہیں کرتا تو خواہ اس کا خیال کیسا ہی تازہ اور انوکھا ہو، کہانی میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ کہانی اس کے بغیر بہتر ہوگی۔ منٹو ایک بڑا آرٹسٹ تھا کیونکہ وہ ہم عصروں سے زیادہ قربانی کرسکتا تھا۔ مجھے یاد ہے، اس نے ایک دفعہ کہا تھا کہ وہ ’’کھول دو‘‘ کو اپنی عظیم ترین کہانی سمجھتا ہے کیونکہ اس میں ایک بھی فقرہ زائد نہیں۔ اب ’’کھول دو‘‘ بے حد مختصر’مختصر افسانہ‘ ہے، اور شاید مختصر ترین جو منٹو نے لکھا ہے۔ اس کے افسانے کبھی کتابی دس بارہ صفحوں سے لمبے نہیں ہوتے۔
وہ سومرسٹ ماہام کی طرح اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ ایک مختصر افسانے کا ایک ’شروع‘ ہونا چاہیے، ایک ’وسط‘ اور ایک ’انجام‘۔ اس کا واضح طور پرمتعین پلاٹ ہونا چاہیے۔ اگر اس لکھی ہوئی چیز کا ’شروع‘ اور ’وسط‘ تو ہے مگر آخیر میں کہانی کسی انجام کو نہیں پہنچتی اور راہ میں لٹکی رہ جاتی ہے تو یہ اور تو سب کچھ ہوسکتی ہے، ’مختصر افسانہ‘ نہیں ہوسکتی۔ منٹو اپنی کہانیوں کو صناعی سے ایک چونکا دینے والا انجام دیتا تھا۔ اس کی کئی کہانیوں کے انجام یقینا عظیم ہیں اور ان کا سارا ڈھانچا ان کے آخری فقروں میں ایستادہ ہے۔ ’’کھول دو‘‘، ’’موذیل‘‘ اور ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ کے خاتمے عظیم ہیں اور وہ دنیا کی عظیم ترین کہانیوں میں سے ہیں۔ اس کے حرف گیروں نے اس کی کہانیوں کے ان انجاموں کو محض مداری کے ہاتھوں کی صفائی کہہ کر تمسخر اڑایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کا فن زندگی کے مطابق نہیں ہے۔ دنیا کے بڑے مختصر افسانہ نگاروں کی مانند منٹو اس سچائی کو جانتا تھا کہ فن کبھی زندگی کے مطابق نہیں ہوتا۔ فن زندگی کی عکاسی نہیں ہے، جو الجھی ہوتی ہے، جس کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا اور جس میں مسلسل تخیل کی گزشتہ تصویروں، دوستوں کے ساتھ بے رنگ گفتگوئوں اور ایک لامحدود، بے منطقی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ایک فن پارہ ،اس کے برعکس، ایک مکمل، واضح اور موثر چیز ہے۔ شولنسن اپنے ایک مضمون میں فن پارے کو اقلیدس کے دائرے کی مانند بتاتا ہے۔یہ یاد رکھنا چاہیے کہ منٹو پہلے اور آخر ایک مختصر افسانہ نگار تھا۔ اس کی کہانیاں اتنی مختصر یعنی کٹی چھنٹی ہیں کہ ایک طرح وہ جسم کے بغیر ہیں۔ اس کی نثر چھوٹے ،نپے تلے فقروں پر مشتمل ہے اور حیران کن حد تک رنگینی سے دور ہے۔ اس کی لغت بھی ہم عصروں کی نسبت محدود ہے۔ منٹو کا جینیئس میری رائے میں ناول لکھنے کے لیے موزوں نہ تھا۔ منٹو کا خیال تھا کہ ناول اس بات کو کئی سو صفحے میں پھیلا کر کہنے کا فن ہے جو پانچ صفحوں میں سمیٹی جاسکتی ہو۔ مسلسل اور لگاتار محنت جو ایک ناول لکھنے کے لیے درکار ہے، منٹو کے مضطرب ذہن کو راس نہ آتی۔ مجھے یقین ہے کہ اگر وہ کوئی ناول شروع کرتا تو چند دن بعد اس سے تنگ آکر اسے بیچ میں چھوڑ دیتا۔ اس کا خیال تھا کہ بہت کم ایسے ناول ہیں جو زندہ رہ سکتے ہیں۔
اس کے فن کے بارے میں ایک اور نکتے کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ اس نے لامحالہ اپنے کرداروں کو روندے ہوے طبقے سے چنا۔ یہ بڑا انسانیت پرست طوائفوں ، ممد بھائیوں، موذیلوں سے محبت کرتا تھا اور ان کے متعلق لکھتا تھا۔ اب کچھ تو یہ اس وجہ سے تھا کہ اپنی ساری زندگی اس نے سوسائٹی سے دھتکارے ہوے لوگوں کے ساتھ گزاری۔ وہ اس زندگی کو اپنی ہتھیلی کی مانند جانتا تھا۔ وہ ان لوگوں سے ملا تھا اور ان سے باتیں کی تھیں۔ لیکن اصل وجہ اور تھی۔ مجھے یقین ہے اسے بڑے آدمیوں اور زندگی کے زرق برق راستوں سے کبیدگی تھی۔ اس کے نزدیک وہ بے روح، کھوکھلے اور شیخی خورے تھے۔ وہ دلچسپ نہ تھے، اس لیے اس نے ان کو شاذ و نادر ہی اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا۔ ان عزت دار اشراف کی بجاے اس نے طوائفوں اور غنڈوں اور تانگے والوں کے متعلق لکھا۔ اس نے ان کے اندر کے سونے کو نکالا اور انسانی روح کی عظمت اور خوبصورتی کی ایسی تصویر کھینچی کہ اس کے افسانوں کو پڑھنے والے یقینا بہتر انسان بن گئے۔ ان کو اس حقیقت کا احساس ہوا کہ آوارہ موذیل تمھاری باعفت، سگھڑ، دیندار خواتین سے کہیں عظیم اور خوبصورت عورت تھی۔ وہ اتنی اچھی اور نیک تھی کہ وہ خود بھی اس کی گرد کو نہ پا سکتے تھے۔ منٹو نے ہمیں انسانوں میں اصلی عظمت سے روشناس کیا۔ اس نے ادب میں دلیری اور بے باکی سے وہ کچھ کیا جو پہلے کسی نے کرنے کی جرأت نہ کی تھی۔ مجھے ان لوگوں کے ہوش و حواس کی سلامتی پر شک ہوتا ہے جو اصرار کرتے ہیں کہ وہ فحش نگار ہے۔ میرا دعویٰ ہے کہ منٹو نے کبھی کوئی فحش کہانی نہیں لکھی۔ کیا ’’کھول دو‘‘ ایک فحش کہانی ہے؟ کیا اس بے مثال تند و تلخ شاہکار کو پڑھنے کے بعد ہم یہ خواہش کرنے لگتے ہیں کہ کاش ہم اس بازیافتہ عورت کو ٹرک میں لانے والے بہادروں کے ساتھ ہوتے؟ اگر ہم یہ خواہش کرنے لگتے ہیں تو فحاشی ہمارے اندر ہے، منٹو میں نہیں۔ منٹو نے تو فحاشی پر اس زمانے میں سب سے دلیرانہ، سب سے تیکھا وار کیا ہے۔ ’’میں ایک سطر لکھ دوں، وہ آرٹ ہے‘‘— ایک فانی ناتواں آدمی کے لیے یقینا ایک اونچا دعویٰ! مگر حیرانی کی بات ہے کہ یہ کس قدر سچ ہے۔ ایک سطر بھی جو اس نے لکھی، آرٹ ہے۔

ایک خط
سو یہ تھا آرٹسٹ منٹو اور انسان سعادت۔ ایک دوست نے مجھے بتایا کہ دہلی میں ایک شام اس نے منٹو کو ایک بدرو کے کنارے پڑا پایا۔ منٹو نے اسے سرد پتھریلی نگاہوں سے دیکھا اور اپنے وہاں ہونے کو گویا سمجھانے کی خاطر کہا کہ وہ بدرو میں اچھائیاں ڈھونڈ رہا ہے۔ ’’اچھائیاں؟‘‘ میرے دوست نے حیرت سے پوچھا۔ ’’ہاں، اچھائیاں،‘‘ منٹو نے جواب دیا، ’’لیکن میں بدرو میں غلاظت اور گندگی کے سوا کچھ نہیں دیکھ رہا ہوں۔ میری زندگی بھی ایک ایسی ہی بدرو ہے، اور میرا عارف بیٹا تو ایک ستھری اور آلودگی سے پاک شے تھا اور وہ سات دن پہلے مرچکا ہے۔‘‘ جب منٹو نے یہ الفاظ کہے تو اس کا چہرہ رواقی غم و الم سے جامد اور خوفناک ہو رہا تھا۔ وہ ہمیشہ زندگی کی بدرو میں اچھائیاں ڈھونڈتا رہا تھا، کوئلوں کے انباروں میں لعل۔ یہ پیہم تلاش اکثر بے سود ہوتی تھی۔ اس جستجو میں اس کی آنکھیں کھوئی کھوئی سی رہتی تھیں۔ وہ کسی گنوائی ہوئی چیز کو ڈھونڈتا معلوم ہوتا تھا۔
وہ یہ کہنے کا مشتاق تھا کہ اگر ایک شخص لکھنا چاہتا ہے تو اسے پڑھنا بالکل نہیں چاہیے کہ اس سے مصنف کی اوریجنلٹی ختم ہوجاتی ہے؛ اسے زندگی کو ایک پُرجوش ولولے سے جینا اور زندگی کی کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ یہی اس کا اپنا طریقہ تھا اور اس نے عرصے سے پڑھنا ترک کر رکھا تھا۔ وہ گورکی کو بہت بڑا فنکار تصور کرتا تھا کیونکہ گورکی نے اپنا انسانی فطرت کا علم اور اپنا فن لمبی سڑک پر سے حاصل کیا تھا۔ منٹو جانتا تھا کہ کتابیں اصل زندگی کا بالکل بے خون بدل ہیں۔ لائبریریوں میں بیٹھ کر زندگی کا مطالعہ کرنے والے کبھی عظیم فن پیدا نہیں کرتے۔۔۔ میری رائے میں سارے اردو ادب میں غالب کی مثال کو چھوڑ کر کوئی اور اُس کے رتبے کو نہیں پہنچ سکتا۔ فطرتِ انسانی کے نباض ہونے کی حیثیت میں وہ شیکسپیئر کے پاس جگہ پانے کے لیے نااہل نہیں۔ ممکن ہے کتنوں کو میری یہ مدح سرائی مبالغہ آمیز اور انصاف سے کوسوں دور لگے، مگر وقت یہ ثابت کردے گا کہ منٹو کا فن باقی رہنے والا ہے۔
یہ مثال دینے کے لیے کہ اس کی موت نے سلجھے ہوے اور حساس ذہنوں پر کیا اثر کیا اور کتنے جذبوں کو ان کے دلوں میں ابھارا، نیچے میں اپنے ایک دوست کے ایک خط کا اقتباس تقریباً اسی کے الفاظ میں دیتا ہوں جو اس نے مجھے منٹو کی وفات کے چند دن بعد لکھا:
’’منٹو پر قلم اٹھانا کوئی آسان بات نہیں، خاص کر اس کے لیے جو اس بڑے انسان کے متعلق اس قدر کم جانتا ہو، اور جو کچھ تھوڑا بہت مجھے اس کے بارے میں علم ہے، تمھارے تعارف کی بدولت ہے۔ اس کی موت نے ادبی حلقوں میں غم اور محرومی کی چادر ڈال دی ہے، خصوصیت سے ان ناشروں پر جنھوں نے اس کی کتابوں سے ہاتھ رنگے۔ ان بے چاروں کا ٹکسال بند ہوگیا ہے اور سنہری انڈے دینے والی مرغی اب نہیں رہی۔ بہت سے چوٹی کے اخباروں نے اس خبر پر جلی سیاہ حاشیے چڑھائے۔ بہت سی سوگواری کی محفلیں بچھیں، ریڈیو پر تقریریں کی گئیں۔ مقالے پڑھے گئے اور پڑھے جائیں گے۔ منٹو یوم منائے جائیںگے، منٹو پر نمبر نکلیں گے۔ وہی لوگ جن کے نزدیک وہ راندۂ درگاہ اور قابلِ دار تھا، اب اچانک اس پر مہربان ہوگئے ہیں۔ اس سب ادبی شوراور ہمدردی کی ظاہرداری کے باوجود بہت تھوڑے ایسے تھے جنھوں نے اس انسان کی پاک روح کو پہچانا۔ یہ سب اونچی اور بلند بانگ باتیں بڑی بھلی اور خوش آئند ہیں لیکن اس درد سے بھرے ہوے انسان کا درد کسے ہے جو اپنے توانا قلم سے فن تخلیق کردیتا تھا؟ لوگ حالات سے فائدہ اٹھانے میں بے حد طاق تو ہیں لیکن قدرتوں کی طنز دیکھو،بالشتیے ایک دیو کو اپنے حقیر پیمانوں سے ناپتے ہیں۔ جب میں ان کی باتیں سنتا ہوں تو، معاف کرو، مجھے ایسا لگتا ہے جیسے ایک گھریلو بلونگڑا زرعی اصلاحات پر بولنے لگ جائے۔ کم آدمیوں کو اس ادبی شمع کے گل ہونے کا افسوس اور درد ہے اور بیشتر، جن کے دیے اس کے سامنے نہ جل سکتے تھے، اب اطمینان کا سانس لیںگے۔ دیو اب نہیں ہے، اس لیے بالشتیے اب اپنی ہستی کا احساس کراسکتے ہیں۔ تم اس خلا کو محسوس کرسکتے ہو یا وہ عام چھوٹے لوگ جن کا غمگسار اور سچا دوست وہ آشفتہ مزاج انسان تھا۔ ایسی درخشاں، ایسی بے باک زندگی خاتمے کو پہنچ گئی ہے۔ ایسا دلیر، ایسا خوبصورت انسان بنانے والے کے پاس جاچکا ہے۔ گلیوں کا آوارہ آدمی، عام کچلا ہوا آدمی، دکھ کی خزاں سے ستا ہوا آدمی اب اپنے سب سے بڑے اور پیارے دوست سے محروم ہوچکا ہے۔‘‘
اور اس آخری فقرے کو مرے ہوے عظیم آدمی پر ہمارا الوداعی سلام بن جانے دو۔ اس سے زیادہ اسے کوئی اور تعریف خوش نہیں کرسکتی۔ اس سے زیادہ اور کوئی کتبہ اس کے مناسبِ حال نہیں ہے۔
(فنون، لاہور،جنوری ۱۹۶۴ء)
***

دائیں طرف یا بائیں طرف

کھلنا کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی سفید لانچ چالنا کی دریائی بندرگاہ میں لنگر ڈالے کھڑی تھی۔ شام ڈھل رہی تھی اور پرلے کنارے کے جنگل کے اوپر ایک زرق برق رنگوں کا آسمان دریا کے پانیوں میں سونا اور گلاب گھول رہا تھا۔ ہم سب لانچ کے واحد کیبن میں جمع تھے۔ کسی طرح اردو کے مختصر افسانے پر بحث چل پڑی اور بیرن ہو چھانے یہ سوال کیا کہ اس دور کے اردو کے افسانہ نگاروں میں سب سے پہلے کس کا نام آنا چاہیے۔ بیدی، منٹو، کرشن، ندیم، بلونت سنگھ، اشفاق کے نام پیش کیے گئے۔ میں نے سعادت حسن منٹو کو بہترین افسانہ نگار کہا۔ میں نے اس استاد کے سادہ و شستہ اسلوب، بیان کے اختصار اور غیرجذباتی انداز کو سراہا۔ میں نے کہا کہ وہ ایک دو فقروں میں جیتے جاگتے کردار پیدا کرتا ہے اور اس کی کہانی کا ایک واضح چونکادینے والا انجام ہوتا ہے۔ کائونٹ بورِس (ایک اوریجنل بوہیمین اور اپنی طرز کا جینیئس) منٹو کور گید نے کے موڈ میں تھا۔ اس نے منٹو کو مداری کہا جو تھیلے میں سے خرگوش نکال کر ہاتھ کی صفائی دکھاتا ہے۔ اس نے کہا، ’’منٹو کے افسانے لنجے پن اور رجائیت کے مرض کے شکار ہیں اور تم انھیں دوبارہ نہیں پڑھ سکتے۔‘‘ میں نے کہا، ’’میں نے ’موذیل‘ کو چار دفعہ پڑھا ہے اور’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ کو سات آٹھ دفعہ، اور میں نہیں سمجھتا کہ اردو میں ان سے بہتر کہانیاں لکھی جاسکتی ہیں۔‘‘ کائونٹ بورس نے ناول کا تاج کرشن چندر کے سر پر رکھا۔ اس نے کہا،’’ اس کی تحریر میں رنگینی اور حلاوت ہے۔ اور اگر وہ جذباتی ہے تو اس کا کیا— ہم سب جذباتی ہیں، پھر ہم ادب میں جذباتیت سے کیوں بدکتے ہیں؟‘‘ کائونٹ بورس جھگڑنے اور اپنی منوانے کے موڈ میں تھا، اور میں نے اس سے جلد متفق ہونے میں عافیت سمجھی۔ شاید کائونٹ بورس ٹھیک ہی تھا۔
جوانی کے دنوں میں کرشن میرا محبوب ترین اردو مصنف تھا اور ہم اس کی رنگین تحریر کے طلسم میں اپنی اُمنگوں، دکھوں ور رومانی تمنائوں کی تسکین پاتے تھے۔ بحث شاید طول پکڑتی کہ نا ولسٹ پامپس (Pompus)،جو اپنی ڈھائی من کی لاش کو کیبن کے نرم گدگدے بنکر پر چت لٹائے پڑا تھا، چونکا اور پوچھنے لگا کہ ہمارا موضوعِ بحث کیا تھا۔ جب ہم نے اسے بتایا تو وہ برتری کے انداز میں مسکرایا۔ وہ یہ نہ سمجھ سکا کہ اردو کے بہترین ناولسٹ کی موجودگی میں کوئی کیسے منٹو اور کرشن کا ذکر کرسکتا ہے— جب مگرمچھ موجود ہو تو چھوٹی مچھلیوں کو کیوں اہمیت دی جائے۔ منٹو اس کے نزدیک ایک لچالفنگا، فحش نویس تھا اور کرشن محض ایک لالہ۔ مجھے یقین تھا کہ ناولسٹ پامپس نے منٹو، کرشن یا دوسرے جدید افسانہ نگاروں کو بالکل نہیں پڑھا تھا، اگرچہ ان کو پڑھنے کے بعد بھی اپنے متعلق اس کی اپنی رائے کبھی نہ بدلتی۔
وہ اپنا ذکر کرنے لگا، بالکل بے محل طور سے۔ اس نے ہمیں بتایا کہ کیسے جب وہ اپنا معرکۃ الآرا ناول ’’سعیدبن مجید‘‘ لکھ رہا تھا تو اس کے ایک مدّاح نے اس کے نام ایک خط میں تحریر کیا کہ وہ بسترِمرگ پر پڑا ہے، ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے۔ اس کی اب واحد تمنا یہ ہے کہ خداوند باری تعالیٰ اسے اتنی مہلت دے دے کہ وہ مرنے سے پہلے ’’سعیدبن مجید‘‘ پڑھ سکے۔
کائونٹ بورس نے چپکے سے مجھ سے کہا، ’’میں کہتا ہوں کامریڈ! اس فتنہ انگیز شخص پر ہلکا سا لاٹھی چارج نہ کیا جائے؟‘‘
ہم نے پھر ڈائننگ روم میں ناولسٹ پامپس کو ناولسٹ پامپس کے موضوع پر باتیں کرتے سنا— جہالت واقعی مہا آنند ہوتی ہے۔ کھانے کے بعد میں عرشے پر اکیلا گیا۔ ایک پیلا گول چاند جنگلوں کے اوپر نکل رہا تھا اور پانی میں اس کا عکس ہزاروں ریزوں میں ٹوٹ رہا تھا۔ میں کرشن چندر کے متعلق سوچنے لگا— وہ کون سا جادو تھا جس سے اس نے جوانی میں ہمارے دلوں کو مسخر کرلیا تھا اور ہمیں اپنا پجاری بنالیا تھا؟
ایسا فینامینا(phenomena) ہمارے ادب میں پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔

۲
غالباً ۱۹۳۸ء کے اوائل میں کرشن چندر کی پہلی کہانی ’’جہلم میں نائو پر‘‘ چھپی اور وہ اُس دن سے ایک مشہور مصنف بن گیا۔ اس کا نام ہمارے ادب میں ایک درخشاں ستارے کی طرح ابھرا اور ہم اس کی چکاچوند سے چندھیاگئے۔ وہ رات کو سوکر صبح اٹھا تو ہر کوئی اس کی باتیں کررہا تھا۔ ہم اس کی اچھوتی نثر، بیان کی رنگینی اور تخیل کی رومانیت کے جادو تلے آگئے اور کئی سال تک اس جادو کی تاثیر ہم پر چھائی رہی۔ وہ اردو ادب میں واقعی فینامیناہے، اور اگرچہ اس کا جادو اب قدرے مدھم اور پھیکا ہو چلا ہے مگر کرشن ہماری ہستی کا ایک اہم جز بن چکا ہے— ایک پیارے بھائی کی طرح۔ اس نے ہماری جوانی کے کرب وحزن سے بھرے ایام میں ہمیں اتنا کچھ دیا، اتنے سارے دیپ جلائے۔ کسی نے اردو میں اس سے پہلے ایسی نثر نہ لکھی تھی، اتنی لطیف اور مدھ بھری، ہر لفظ نئے ڈھلے ہوے سکے کی طرح چمکدار اور اپنی جگہ پر ہیرے کی مانند سجا ہوا۔ یہ نثر میں مرصع کاری تھی، الفاظ میں طلسمی مصوری، ہر فقرہ لال چہچہا اور پڑھنے والے کے ذہن میں بھڑکیلے اور رنگا رنگ کے سپنے جگاتا ہوا۔ ایک نئی نثر کا بادشاہ اردو زبان میں آگیا تھا، ایک نادر جادو گر، جس نے الفاظ کی بے جان مورتوں میں جان ڈال دی تھی۔ کوئی تعجب کی بات نہ تھی کہ ہم حسن و لطافت کے اس ریلے کے سامنے بہہ گئے— سرشار، خوش اوربے قابو۔ محمد حسین آزاد نے پیش گوئی کی تھی کہ زبان کے اہلِ ذوق بڑے بڑے صاحبِ قدرت ہیں، اور ہوں گے، کوئی نہ کوئی منزل مقصود تک پہنچے گا۔ کرشن چندر وہ لکھنے والا معلوم ہوتا تھا جس نے آزاد کی پیش گوئی پوری کردی تھی۔
ایک اچھا لکھنے والا ہمارے سامنے ایک نئی دنیا کھول دیتا ہے، اور کرشن چندر کی دنیا بے حد انوکھی، نئی نویلی اور پرکشش تھی۔ تشبیہیں اور استعارے جو وہ استعمال کرتا تھا، عام تام اور گھسے پٹے اور مردہ نہ تھے بلکہ اپنی دلآویزی اور لطافت سے تخیل کو روشن کردیتے تھے۔ ’’جہلم میں نائو پر‘‘ ہماری ادبی خزاں میں بہار کی تازہ ہوائوں کی طرح آئی اور گویا ایک معجزہ وقوع پذیر ہوا۔ اس کے بعد کہانیاں، خاکے اور مضامین اس کے زرخیز، انتھک قلم سے ایک کبھی نہ ختم ہونے والی ندی کی مانند بہنے لگے اور اردو پڑھنے والوں میں اس کی مقبولیت بڑھتی گئی۔ اُن دنوں ہمیں یقین تھا کہ جہاں کرشن چندر بیٹھا ہے وہی اردو ادب کا تخت ہے۔ اب میں یہ بات کہتے ہوے ہچکچائوں گا، لیکن اُن دنوں مجھے اس کا یقین تھا۔
اپنی اس سوچ میں میں اکیلا نہ تھا۔ کرشن کی ہر نئی کہانی کو ہم اس اضطراب، اس دل کی دھڑکن سے پڑھتے تھے کہ اب وہ عجیب بات معلوم ہوتی ہے۔ جب اس کی کوئی نئی کہانی ’’ادب لطیف‘‘ یا ’’سویرا‘‘ میں چھپتی تو یہ ایک اہم خبر ہوتی اور ہم بے تاب ہوکر لوہاری کے بک اسٹال پر رسالہ لینے کے لیے بھاگتے اور جب تک اسے پڑھ نہ لیتے چین سے نہ بیٹھتے۔ اورہم اسے ایک بار ہی نہ پڑھتے بلکہ دوبارہ اور سہ بارہ۔ اسے اپنے دوستوں کو پڑھ کر سناتے اور کئی کئی دن اس کے سحر میں رہتے۔ مجھے یوں یاد ہے جیسے کل کی بات ہو کہ میں لاکالج میں پڑھتا تھا اور ایک شام انار کلی میں گھوم رہا تھا۔ میرا ایک دوست سائیکل پر گاتا ہوا گزرا۔ میرے پوچھنے پر کہ وہ اتنی جلدی میں کیوں ہے، اس نے کہا کہ کسی نے اسے بتایا ہے کہ کرشن چندر کی نئی کہانی ’’دوفرلانگ لمبی سڑک‘‘، ’’ادب لطیف‘‘ میں چھپی ہے اور وہ یہ رسالہ لینے جا رہا ہے۔ میں بھی اس کے پیچھے بھاگا۔ میرا دل آنے والی خوشی کے خیال سے ایک پرندے کی طرح پھڑپھڑا رہا تھا۔
جب اس کی کہانیوں کی پہلی کتاب ’’طلسمِ خیال‘‘ شائع ہوئی تو یہ ہمارے ادب میں ایک سنگ میل سے کم نہ تھی۔ میں نے اس کی ہر کہانی کو کم از کم آدھا درجن بار ضرور پڑھا ہوگا۔ ’’جہلم میں نائو پر‘‘ اور ’’آنگی‘‘ میری چہیتی تھیں، اور ’’آنگی‘‘ تب جان کیٹس کی ’’لابیلے ڈیم سانزمرسی‘‘ کی طرح لطیف اور غیر مرئی اور انمٹ معلوم ہوتی تھی— نثر میں ایک مکمل نظم ۔ میں نہیں جانتا ’’آنگی‘‘ کو میں نے کتنی بار پڑھا۔ بہرحال وہ مجھے ’’لابیلے ڈیم سانزمرسی‘‘ کی طرح زبانی یاد ہوگئی۔ جان کیٹس کی لافانی نظم مجھے اب بھی زبانی یاد ہے، مگر ’’آنگی‘‘ مجھے بھول چکی ہے— صرف اس کی سحر آگیں خوابی خوبصورتی اب بھی ذہن میں ایک دمک بن کر اٹکی ہوئی ہے۔
کیسے وقت گزرتا ہے! ان کہانیوں کو پڑھے اب مجھے کم و بیش پچیس سال ہوچکے ہیں۔ اس وقت ان کا پڑھنا ایک زندہ روحانی تجربہ تھا جس نے یقینا میرے اور میرے دوستوں کے فکر و ذہن کو شدّت سے متاثر کیا۔ شاید میں ان کہانیوں کو اب کبھی نہیں پڑھوںگا۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں مجھے مایوسی اور ڈس الیوژن (disillusion)کا سامنا نہ ہو۔ ماضی کے حسین سپنے اسی طرح درخشاں اور خوشنما رہنے چاہییں۔ موپاساں نے ایک بار کہا تھا کہ آدمی کو جوانی میں پڑھی ہوئی کتابیں دوبارہ نہ پڑھنی چاہییں، نہ ہی اپنے دوستوں کے پرانے خطوط۔ تاہم چند دن ہوے، میں ریلیجس بک سوسائٹی کے سامنے پیومنٹ پر سیکنڈ ہینڈ کتابوں کو دیکھ رہا تھا۔ سیکنڈ ہینڈ کتابوں کو سونگھنا، ان کے ورق الٹنا، ان کو پرکھنا میرے لیے سب غموں اور دکھوں کا تریاق ہے۔ کیسے کیسے خزانے آدمی کو یہاں ملتے ہیں۔۔۔ میں نے ایک پھٹے ہوے سرورق کی کتاب اٹھائی۔ یہ ’’طلسم خیال‘‘ تھی، اس کا پہلا ایڈیشن۔ ایک بار مجھے زبردست تحریک ہوئی کہ میں اسے خریدوں اور ان کہانیوں کو دوبارہ پڑھ کے دیکھوں کہ کیا پرانا طلسم ان میں اب بھی باقی ہے۔ پھر موپاساں کی نصیحت کو یاد کرکے میں تذبذب میںپڑ گیا۔ اتنے میں ایک اونچی پیشانی والے کبڑے آدمی نے، جو میری طرح ان سیکنڈ ہینڈ کتابوں کی دکانوں پر اکثر منڈلاتا رہتا ہے اور غالباً کوئی کلرک ہے، اس کتاب کو آٹھ آنے میں خرید لیا اور مجھے اپنے شش و پنج سے نجات مل گئی۔ میں نے پھر احمد حسین صاحب کے رسالہ ’’شبابِ اردو‘‘ (جون ۱۹۱۲ء) کی بوسیدہ جلد خریدی، جس میں چکبست کا ایک مضمون تھا اور جس میں سب لکھنے والوں کے ناموں کے آگے القاب، ڈگریاں اور عہدے دیے ہوے تھے۔ اس سے مجھے یاد آیا کہ شروع شروع میں کرشن چندر بھی ’کرشن چندر ایم اے‘ ہوتا تھا (’’طلسم خیال‘‘ از کرشن چندر ایم اے، ’’شکست ‘‘از کرشن چندر ایم اے)— پچیس سال پہلے ایم اے کی کچھ تھوڑی بہت وقعت تھی اور ایم اے ہونے سے آدمی کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوجاتا تھا۔ اچھے پرانے دن!
کرشن نے نہ صرف ایک حیران کن زرخیز دماغی سے کہانیاں لکھیں، اس نے مزاحیہ خاکے بھی لکھے اور کئی کتابوں کے دیباچے بھی۔ اس نے ن م راشد کی ’’ماورا‘‘ کا دیباچہ لکھا۔ ’’ماورا‘‘ ایک طرح سے جدید اردو شاعری کی پہلی کتاب تھی جس کی نظمیں ایک مدت تک ’کافی ہائوس نقادوں‘ کا موضوع بحث بنی رہیں اور اب انھی کی رائے میں کچھ مضحکہ خیز دھوم دھام کی لفاظی لگتی ہیں۔ یہ دیباچہ ایک بناوٹ کی چیز تھا، اس قسم کی چیز جو فرمائش پر محض لکھنے کے لیے لکھی جاتی ہے۔ وہ لکھتا رہا۔ میری رائے میں ’’زندگی کے موڑ پر‘‘ میں اس کے فن نے اپنا سب سے اونچا مقام چھوا۔ پھر اس کا ناول ’’شکست‘‘ تھا جو یقینا اردو کے عمدہ ناولوں میں سے ہے اور جس میں بڑے حسین اور جاندار ٹکڑے ہیں۔ اس میں اس نے اپنے محبوب کشمیر کے نظاروں کی ایسی بھڑکتی ہوئی تصویریں کھینچ دی ہیں کہ قاری ان کے رنگوں میں کھوجاتا ہے۔ اس نے کشمیر کو اپنا خطہ بنالیا اسی طرح جیسے سسیکس (Sussex) ہارڈی کا ہے، اور سونے سرخ یارک شائرمورز(Moors) برانٹے بہنوں کے۔ وادی کی جھیلوں، بہتے ہوے جھرنوں، چیڑ سے ڈھکے ہوے پہاڑوں اور الھڑ گلابی رخساروں اور نرگسی آنکھوں والی دوشیزاؤں کو ا س نے اپنے تخیل کے طلسم سے زندۂ جاوید کردیا۔ اور صرف کشمیر ہی نہیں، جہلم بھی کرشن چندر کنٹری ہے۔ چند ماہ ہوے، میں اپنے دوستوں ایپی کیورس اور پیٹر کے ساتھ کار پر منگلا جارہا تھا۔ جب ہم جہلم کے پل پر پہنچے تو ہمیں یک طرفہ ٹریفک کی وجہ سے رکنا پڑا۔ دن ڈھل رہا تھا اور مغربی افق گلنار ہورہا تھا۔ دریا ایک جھیل کی طرح فراخ اور ساکت جھلمل جھلمل کرتا تھا۔ اس کے پانی پر گلاب اور عنبر سے چھڑکے ہوے تھے۔ بائیں طرف پرے ٹلہ جوگیاں کی تکونی پہاڑی، جہاں ہیر کے فراق میں جوگی بننے اور اپنے کان چھدوانے گیا تھا، پانی میں سے ایک ترشے ہوے نیلم کی طرح امڈی آئی تھی۔ اور ایک مچھیرے کی نائو چپ چاپ پانی اور افق کے درمیان لٹکی ہوئی تھی۔ ہمیں ’’جہلم میں نائو پر‘‘ یاد آگئی۔ یہ کرشن چندر کا جہلم تھا۔ اسی طرح کاغان اور سوات کی وادیاں بھی کرشن چندرکنٹریز ہیں اور ان خطوں میں سفر کرتے ہوے ہم اس کی ان پہلی کہانیوں کی بابت سوچے بغیر نہیں رہ سکتے— وہی گھراٹ، وہی چشمے، وہی ڈھکیاں، وہی وحشی آنگیاں۔

۳
پھر جادو رفتہ رفتہ پھیکا پڑنے لگا اور کرشن کی تحریروں کی آب و تاب مدھم ہونے لگی۔ یہ سارا اس کا قصور بھی نہ تھا— ہم جوانی کی جذباتی رومانیت سے نکل آئے تھے اور اب ہم ایک کہانی میں لفظی مصوری سے زیادہ اور بھی بہت کچھ کے طلبگار تھے۔ کرشن کی جذباتیت اور اس کی اپنے کرداروں کی امنگوں اور ارمانوں سے ذاتی اپنائیت (involvement) اب ہمیں کھلنے لگی۔۔۔ اور خود کرشن چندر کے افکار و نظریات میں بھی ایک عجیب تغیر آگیا تھا۔
اپنے اس دور میں اس نے افسانوی پمفلٹ تو بے شمار لکھے مگر اصل کہانی ایک بھی نہیں۔ وہ پہلے کی طرح کے مہکتے ہوے اسلوب میں لکھے ہوے پمفلٹ تھے، افسانوی شکل میں اور کافی دلچسپی کے حامل۔ کرشن چندر، ہم سب اچھی طرح جانتے تھے، اچھائی، حسن اور سادگی کی طرف ہے، اور اسی لیے ہم اس سے محبت کرتے تھے۔ اس کے دل میں انسانیت کے لیے بے پناہ تڑپ تھی، ایک کلبلاتا ہوا درد، اور وہ کہنگی، خود غرضی، ظلم اور برائی کے خلاف تھا— مگر یہ پمفلٹ تبلیغی تھے۔ اس نے ایک نیا مذہب دریافت کرلیا تھا اور وہ کھلم کھلا نعرے بازی پر اتر آیا تھا۔ اب ایک اچھا فن کار کبھی غصیلے جنونی کا روپ نہیں دھارتا، اور کرشن ایک سرگرم اور پرجوش لیفٹسٹ بن گیا۔ اپنی بے حد اُچھالی ہوئی کہانی ’’مہالکشمی کا پل‘‘ میں اس نے ہم سے ایک متعصب، بازاری مبلّغ کے لہجے میں سوال کیا کہ آیاہم مہالکشمی کے پل کے دائیں طرف تھے یا بائیں طرف۔ یہ اس جیسے تخلیقی مصنف کے لیے ایک بھونڈا سوال تھا، گو اُس وقت اس کی یہ کہانی ایک مخصوص طبقے میں ایک شاہکار کی حیثیت سے تسلیم کی گئی۔ ہمارے بہت سے لکھنے والے لیفٹسٹ ہوگئے— خواہ ذہنی یقین سے، خواہ دبائو سے، خواہ فیشن کے طور پر۔ وہ ایک دوسرے کو کامریڈ کہتے اور ایک دوسرے کی تیسرے درجے کی بناوٹی کہانیوں ور نظموں کو آسمان پر چڑھاتے۔ اُن دنوں بہت سے شاہکار لکھے گئے جو اب کسی کو یاد بھی نہیں۔ وہ لکھنے والے جنھوں نے پارٹی لائن میں گھٹنے سے انکار کردیا اور اپنے فن کی انفرادیت سے چمٹے رہے، انھیں تنزل پسند اور قابلِ تعزیر مجرم قراردیا گیا۔ جیسا کہ میرے دوست شفیق الرحمن نے اپنی ایک عمدہ پیروڈی میں لکھا، یہ ایک ’’ریکٹ‘‘ (racket) تھا۔ یہ لیفٹسٹ مصنف اپنے نئے دریافت کیے ہوے مذہب کے حلقے میں بچوں کی طرح خوش تھے۔ وہ خلوص سے سوچتے تھے کہ وہ خدا کے چنے ہوے ہیں اور انھیں روح کا من و سلویٰ مل گیا ہے۔
لیفٹسٹ اُن دنوں ہم سب تھے اور کئی ایک کو اشتراکیت انسان کے سب دکھوں اور غموں کا واحد حل معلوم ہوتی تھی۔ روسی انقلاب نے انسانیت کو ایک نیا وژن (vision)،انسانی برابری کا ایک نیا تصور دیا تھا۔ انسانی تاریخ میں یہ اشتراکی انقلاب کتنا پُر شوکت اور زلزلہ خیز تھا— ہزاروں برس کی غلامی اور جاگیریت کو بیخ و بُن سے ہلاتا ہوا۔ ایک چھوٹے سے، نوکیلی داڑھی اور گنبد نما سر والے آدمی نے دہقانوں اور مزدوروں کی خاطر خود سرزاروں سے ان کی وسیع قلمرو چھین لی تھی اور اس کے جانشین اسٹالن نے، جو ایک لوہار کا بیٹا تھا، ان کچلے ہوے لوگوں کو معاشی آزادی دے دی تھی اور سب انسانوں کو اصل معنی میں بھائی بھائی بنادیا تھا۔ ’سرخ فوج‘ صرف روسی دہقانوں اور مزدوروں کی فوج نہ تھی۔ یہ بہادر فوج ،افسروں اور زریں فیتوں یا لشکر کشی کے کسی نشان و علم کے بغیر، ساری دنیا کے مجبور اور راندے ہوے لوگوں کی اپنی فوج تھی۔ (ان دنوں ہمارے کئی شاعروں نے مقدس باپ اور سرخ فوج کے گیت گائے اور راتوں رات عظیم بن گئے۔) یورپ اور ایشیا کے کتنے ہی انٹلکچوئل، مصنف اور شاعر اس نئے انقلابی وژن سے متاثر ہوے— آرتھر کوئسلر سے مصنف، آڈن سے شاعر۔ زراعت کی اشتمالیت کے وقت ہم نے روس میں گھنائونی بربریت اور عذاب دہی کی خبریں پڑھیں کہ کیسے ہزاروں لاکھوں آدمی بے گھر ہوکر سائبیریا میں جلا وطن کیے گئے یا گولی سے اڑادیے گئے۔ ان خبروں نے ہمیں ڈس الیوژن ضرور کیا۔ گپھے دار مونچھوں والا، گٹھیلا، لوہار کا بیٹا زار سے کم بے درد اور سفاک نہ تھا۔ آرتھر کوئسلر نے اپنے ناول Darkness at Noon میں اشتراکیت کی ایک طاقتور نفسیاتی اٹاٹومی کی اور جارج آرویل نے ’’نائنٹین ایٹی فور‘‘ میں اس یوٹوپیا کی ایک خوفناک اور دل ہلادینے والی تصویر کھینچی— لیڈر کی اصل سائز سے دس گنا بڑی تصویریں دیواروں اور چوراہوں پر لگی ہوئی اور ان کے نیچے موٹے حروف میں یہ عبارت: ’’بڑا بھائی تمھیں دیکھ رہا ہے‘‘۔ پارٹی ورکرز کے ذاتی کمروں میں ٹیلی اسکرین جن میں سے ان کی سب حرکات وزارتِ محنت کے ہیڈ کوارٹرز میں نظر میں رکھی جاتی تھیں، گیلے بھربھرے عوامی سگریٹ، بے مسرت سیکس، ہر کوئی دوسرے سے خائف۔
جب ہم اپنے لیفٹسٹ دوستوں سے اس ناقابلِ یقین ظلم، اس فکر و خیال کی regimentation کا ذکر کرتے تو وہ ہمیں یقین دلاتے کہ یہ سب استعمار پسند پریس کا پروپیگنڈا ہے۔ بعض کف درد ہاں اس استبداد کی سرگرمی سے طرفداری کرتے: ’’یہ سب جلاوطنیاں اور قتل ضروری ہیں۔ ان سماج دشمنوں کی موجودگی میں اشتراکیت کو ہمیشہ خطرہ لاحق ہے۔ یہ ایک ضروری اور عبوری مرحلہ ہے۔‘‘ جب ہم پوچھتے کہ اگر وہ خود یا ان کے قریبی لوگ اس عبوری مرحلے کا شکار بنیں تو وہ اسے کیسے پسند کریںگے، تو وہ اپنا دماغی توازن کھوبیٹھتے۔ بہت سے انٹلکچوئل اور ادیب ایسے تھے جو اس لیے کمیونسٹ تھے کہ یہ ایک فیشن تھا۔ انھوں نے مارکس اور اینگلز کا ایک لفظ نہیں پڑھا تھا لیکن ان کے نام ان کے یوں وردِ زباں تھے جیسے وہ ان کے ساتھ اکٹھے سکول میں پڑھتے رہے ہوں۔
مجھے اپنا ایک دوست یاد ہے جو افسانے اور ناول لکھا کرتا تھا۔ وہ اپنے مسودے بریف کیس میں لیے الفنسٹن اسٹریٹ میں پھرتا تھا اور اگر اسے کوئی جاننے والا مل جاتا تو وہ اسے کسی اچھے ریستوراں میں لے جاتا اور اپنے ناول کے پہلے دو باب ایک خاص اختیار کیے ہوے لہجے میں سناتا۔ (یہ ناول دو باب سے کبھی آگے نہ بڑھا اور مصنف کی ایجادی قوتیں یہاں پہنچ کر فزِل آئوٹ ہوگئیں۔) یہ شخص اپنے طور طریقے میں قدرے زنانہ اور نخریلا، ایک مکمل ڈینڈی تھا۔ وہ بہترین سلائی کے سوٹ پہنتا اور اس کی قمیص کے اسٹڈ قیمتی ہوتے۔ وہ ہمیشہ اونچے ریستورانوں میں جاتا۔ اس کا ایک نوکر تھا جو اسے بوٹ پہناتا اور جس سے وہ نہایت سختی سے بولتا۔ یہ شخص خود کو کمیونسٹ کہتا تھا، انسانی برادری کی باتیں کرتا تھا اور استعماری نظام کو گالیاں دیتا تھا۔ ایک شام جب ہم سائیکل رکشا میں برنس گارڈن ایک دوست سے ملنے گئے تھے تو اس نے رکشا والے کو تیز نہ چلنے پر اتنا سخت سست کہا کہ میں سوچنے لگا، میرے دوست میں اصل انسانی احساسات ہیں ہی نہیں۔ ایک دفعہ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ خود کمیونسٹ کہتا ہے لیکن اس کا طور طریقہ، اس کے tastes ،اس کی بودوباش، اس کے عقیدے کے بالکل منافی ہے۔ اس پر وہ کٹ گیا اور مجھے اس طرح دیکھنے لگا جیسے میں ایک قابل ِرحم بے وقوف ہوں۔ اس نے مجھے مطلع کیا کہ میں اشتراکی تھیوری کو نہیں سمجھتا۔ کمیونزم میں کوئی ایسی بات نہیں جو تمھیں ٹھاٹھ سے رہنے سے روکے، بلکہ کمیونزم کا مقصد یہ ہے کہ سب آدمی اچھی زندگی گزاریں۔
کرشن چندر اور دوسروں کی اس عبوری دور کی اتنی مدح سرائی میرے لیے بے حد تکلیف دہ تھی۔ ایک اچھے فنکار میں ضعیف العقلی کا مظاہرہ افسوسناک تھا۔ کیا وہ یہ نہیں سمجھتا تھا کہ مطلق العنان حکومت اور طاقت اپنے استعمال کرنے والوں میں اسفل ترین جذبات اُبھارنے کا سبب بنتی ہے؟ بدھ اور یسوع سے لے کرکارل مارکس تک نے ایک بہتر، پاک اور ارفع انسانی زندگی کے خواب دیکھے؛ وہ خواب ابھی تک اتنے ہی دور ہیں جتنی آسمان کی دھنک۔
کرشن کی اپنے ان پمفلٹوں کے بارے میں رائے کافی اونچی تھی۔ جب اس لیفٹسٹ دور میں اس کے ایک دوست نے اس سے ایک خط میں شکایت کی کہ اس کی کہانیوں میں اب وہ لطف نہیں رہا، تو ایک سخت جلے بھنے ہوے کرشن چندر نے ایک تلخ جوابی خط شائع کیا۔ یہ خط بڑا مشہور ہوا۔ مجھے اس کے ابتدائی الفاظ تھوڑے تھوڑے یاد ہیں۔ کرشن نے لکھا کہ تم ٹھیک کہتے ہو میرے دوست! میری کہانیوں میں اب وہ مزہ نہیں رہا جو شراب کے نشے، افیون کی چسکی اور امساک کی گولی میں ہے۔۔۔ میں اب بھی سمجھتا ہوں کرشن اپنے دوست پر خواہ مخواہ برس پڑا۔ اس نے ایک سچی بات کہی تھی۔ ایک ادیب کا کام لکھنا ہے، اپنے پڑھنے والوں کو مسرت اور آگہی کے چند لمحے مہیا کرنا، نہ کہ پرچار کرنا۔ ہم سب کو وہی کام کرنا چاہیے جس کے لیے ہم بنے ہیں۔ مصلح اور مبلغ کا روپ دھارنا ایک کہانی کہنے والے کا کام نہیں۔ کرشن کے جوابی خط سے کیا ہم یہ سمجھیں کہ وہ اپنے لیفٹسٹ دور سے پہلے کے لکھے ہوے افسانوں اور ناولوں کو محض افیون کی چسکی اور امساک کی گولی کا درجہ دیتا ہے؟ نہیں نہیں، کرشن چندر! تم غلطی پر ہو۔ وہ کہانیاں جو تم نے جوانی کی حدت اور تازگیِ فکر سے لکھیں— ’’جہلم میں نائو پر‘‘، ’’آنگی‘‘، ’’زندگی کے موڑ پر‘‘ اور ’’کالو بھنگی‘‘ جیسی کہانیاں— وہی تمھیں زندہ رکھیںگی، انھی کی خاطر ہم تم سے محبت کرتے ہیں۔
(فنون، لاہور،اکتوبر ۱۹۶۵ء)






رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *