ابتدائیہ:
اس مقالے کا موضوع اِس امر پر مبنی ہے کہ اپنی موجودہ شکل میں زبانِ اردو ہندو پاکستان کے درمیان کسی قسم کا کوئی مثبت رول ادا نہیں کرسکتی۔ آئندہ سطور میں اس سیاسی و سماجی صورتِ حال کا تجزیہ کرکے نتائج کا استنباط کیا جائے گا جس کے سبب ہندستان میں اردو سے اس قسم کی توقع کرنا دانش مندی نہیں۔ یہ سیاسی صورتِ حال ہر دو ممالک میں مسلم اساس پرستی کے زیرِاثر نہ صرف ماضی میں پروان چڑھی، بلکہ اس کا حال بھی مسلم شناخت کے ان سوالوں ہی کے گرد گھومتا ہے جو برِصغیر ہند و پاکستان کی مسلم آبادی کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہیں۔ مسلم اساس پرستی سے مغلوب اس سول سوسائٹی کا مستقبل دونوں ہی ممالک میں مخدوش ہے جس میں اردو کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی جیسی ہے۔
اساس پرست مسلم سیاست اور اردو کے رشتوں کا پس منظر:
اس مقالے میں میرے معروضات کا دائرہ علی الخصوص ہندستان کی اساس پرست مسلم سیاست اور اردو کے ان رشتوں کے تجزیے کو محیط ہے جو برِصغیر میں معاصر فرقہ پرست مسلم ذہن کی تشکیل کا سبب بنے۔
اردو کے مسلم اساس پرست کردار کی تشکیل میں تاریخی طور پر انیسویں صدی کی اس فرقہ پرست ہندو سیاست نے بڑا اہم رول ادا کیا ہے جس کے کمالات میں اب کسی کو شبہ نہیں اور جو جدید ہندی کی تشکیل کے نام پر سیاست کرتے ہوئے انجام دیے گئے۔ پھر ہندو شناخت کے نام پر جدید ہندی نام کی اس غیرمعمولی شے (Phenomenon) کے ماضی کے تسلسل کی تلاش شمالی ہند کی مختلف زبانوں کے ادبی سرمایے میں کرنے کی کوشش کا آغاز ہوا۔ اس عمل میں اگر ایک طرف شمالی ہند کی بیش تر زبانوں کو ہندی کا قدیم روپ یا پھر شیلی قرار دے دیا گیا تو دوسری طرف کچھ زبانوں کو بولیاں کہہ کر جدید ہندی نے اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیا اور اس خالصتاً سیاسی جدید ہندی کی تاریخ نویسی کے نام پر ہندو احیا پرستی کے فروغ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جدید ہندی کی تشکیل کی سیاست کا عمل شروع ہونے کے بعد زبانوں کے نام پر جس قسم کی سیاست کا آغاز ہوا، وہ اُس سکے کا دوسرا رخ ہے جس میں اردو کے مسلم تشخص کی بات کرنے والی مسلم اساس پرست قوتیں ہندو فرقہ پرستوں سے بہت آگے بڑھ گئیں اور تاریخی اسباب کی بنا پر مسلم شناخت کے ساتھ اردو کے رشتے پین اسلامزم کی سینکڑوں برس پرانی خواہشات کے ایجنڈے کا حصہ بنے۔ اس صورتِ حال کا یہ نتیجہ لازمی ٹھہرا کہ اردو کو پوری طرح مشرف بہ اسلام کرکے اسے ہندستان میں فارسی کے اس گم گشتہ ماضی کا متبادل بنانے کی تحریک سیاسی بنیادوں پر آگے بڑھائی جائے جو مسلم اقتدار کے زوال کے ساتھ ہی اپنی افادیت کھو بیٹھی تھی۔ تبدیل شدہ حالات میں اردو کے اسلامی خلقیے نے Pan Islamism کے فروغ میں غیرمعمولی رول ادا کیا۔
اردو اور مسلم سیاسی اشراف:
سیاست کی بدلتی ہوئی صورتِ حال میں مسلم یعنی اردو اشراف کی سیاست نے بیسویں صدی میں اردو کے سوال کو مہتم بالشان مسلم ماضی کے سوال کے طور پر پوری قوت کے ساتھ آگے بڑھایا اور قطعی غیر اردو داں مسلم عوام کو ثقافتی جہاد کے ذریعے اپنے سیاسی کارواں میں شمولیت کی دعوت دی۔ یہ وہی دور ہے جب مسلم اشراف کا یہ ٹولہ ہندی مسلمانوں کو ’لے کے رہیں گے پاکستان، بنٹ کے رہے گا ہندستان‘ پر اڑے رہنے کے لیے پوری طرح آمادہ کرچکا تھا اور
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاکِ کاشغر
کی اپیل کرنے والا پنجابی حکیم الامت مسلم عوام کے ذہنوں پر اردو کی گرفت کا پورا فائدہ اٹھا رہا تھا۔ عوام سے لے کر خواص تک مسلم لیگ کی سیاست میں شامل وہ جاں باز اہلِ ایمان جو عظیم فلسفی اور مفکرِ اسلام کی دعوت کے نتیجے میں
ہے ترکِ وطن سنتِ محبوبِ الٰہی
دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی
کے نعرے پر لبیک کہتے ہوئے اُن خطوں کو خیرباد کہہ کر مملکتِ خداداد کے ان غیرآباد علاقوں کی طرف کوچ کرگئے جہاں انھیں اپنی اُس عظیم ثقافت کے ساتھ ایک نیا جہان آباد کرنا تھا۔ جسے وہ پیچھے چھوڑ آیا تھا۔ شمالی ہند کے ان مہاجرین کے بہ قول ان کی شناخت اس لیے عظیم تھی کیوں کہ اس کی تشکیل میں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کے تہذیبی سرچشموں کا فیضان شامل ہوگیا تھا۔ یہ نام نہاد عظیم مسلم ثقافت اپنے لیے وسیع تر اسلامی جولا نگاہوں کی متلاشی تھی۔ اس لیے نئی مملکتِ خداداد میں بھی اردو خطے کی سیاسی ثقافت کی مرکزی حیثیت کو اس کے امانت داروں نے ذرا بھی اِدھر اُدھر نہ ہونے دیا۔
آزاد ہندستان میں اردو، دینی مدرسے اور کا نگریس:
مسلمانوں کے سیاسی رویوں سے سبق لے کر ہندو سیاست نے بھی اپنے ماضی قریب سے روشنی حاصل کرنے کی ترغیب لی۔ انیسویں صدی کی ہندو سیاست کی پیروی آزادی کے بعد کانگریس نے بھی کی اور مسلمانوں کو اس نے یہ یقین دلا دیا کہ وہ آزاد ہندستان میں جس طرح چاہیں، اپنے مذہبی تعلیم کے اداروں کے نظام میں اردو کو شامل کریں، کانگریس کو اس کارِ خیر میں وہ خود سے دو قدم آگے ہی پائیں گے۔ اپنے تعاون کے نتائج کو سو فی صد یقینی بنانے کے لیے آزاد ہندستان میں کانگریس نے اسکول کے نظام میں اردو کی بنیادوں کو صرف کھوکھلا ہی نہیں کیا بلکہ اس کی ایسی تمام جڑوں کو جن کا خلقیہ اسلامی اعتبار سے ذرا سا بھی کمزور تھا، اکھاڑ پھینکا۔
زبان کی سیاست کے اعتبار سے ہندستان میں بیسویں صدی کا نصفِ آخر اپنے ماضی سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھا۔ تقسیم کے بعد کے حالات میں اس کے مظاہر اور نتائج البتہ دوسری طرح کے تھے۔ ہندستان میں 1980 کے آس پاس تک مسلم اشراف کی اکثریت کانگریس کے زیرِسایہ اقتدار کے ایوانوں تک محدود اور سیاسی طور پر مسلم عوام سے دور ہی رہی، اس لیے اس نے اردو کے مسئلے سے صرف اتنا ہی سروکار رکھا جتنا حکومت کی ضرورت کے مطابق ضروری تھا۔ حکومت کی پالیسی کے نتیجے میں دینی مدارس میں اردو کے فیصلہ کن فروغ کا زمانہ بھی یہی ہے۔ آزاد ہندستان میں کانگریس کے زیرِسایہ اسعد مدنی جیسے علماء نہ صرف دیوبند پر قابض رہے بلکہ انھوں نے آخری دم تک پارلیمنٹ کے ایوانوں میں کانگریس کے مسلم مفادات کے تحفظ کے لیے مقدور بھر کوشش کی۔ آقا کے حکم پر مسلمانوں کی نبض دیکھنے اور مزاج پرکھنے کے لیے مولانا اسعد مدنی رحمۃ اللہ علیہ ’ملک و ملت بچاؤ تحریک‘ جیسے کاموں کا ڈول بھی گاہے ماہے ڈالتے رہے۔ ہر بار حاکم باقاعدہ اور علی الاعلان وعدہ کرتا کہ مسلمانوں کے دین اور ان کے اداروں کا تحفظ ہوگا۔ وعدہ ہمیشہ ہی ایفا ہوا۔ مدارس اپنے اصل مشن یعنی فروغِ اسلام میں مشغول رہے جس میں سب سے اہم کردار اس اردو نے ادا کیا جو دینی مدارس میں واحد ذریعۂ تعلیم تھی۔ اترپردیش میں دینی تعلیمی کونسل بھی اپنا کام مکمل یکسوئی اور انہماک کے ساتھ کرتی رہی۔ اس کی تحریک کے نتیجے میں بھی دینی تعلیم کے اداروں اور ان کے ذریعے اسلامی اردو کا منظم طریقے سے فروغ ہوا۔ تبلیغ اور اشاعتِ دین کے کاموں میں حکومت یعنی کانگریس نے کبھی کوئی روڑا نہیں اٹکایا۔ ایمرجنسی کے بعد کے ڈھائی برس اور 1989 میں 19 مہینے کی وشوناتھ پرتاپ سنگھ کی قیادت والی جن مورچہ (United Front) حکومت کے علاوہ 1996 تک مرکزی اقتدار پر کانگریس ہی قابض رہی۔ اس طرح 1989 تک چھوٹے موٹے وقفوں کے سوا خصوصاً شمالی ہند کے صوبوں میں ہمیشہ کانگریس ہی برسرِاقتدار تھی۔
تقسیم کے بعد سے 1989 تک، ڈاکٹر فریدی اور سید شہاب الدین دوہی ایسے نام ہندستان کے سیاسی منظرنامے میں قابلِ ذکر ہیں جو کانگریس سے وابستہ نہ تھے مگر اردو کے باب میں ان کی سیاست کو کانگریس ہی کے طرز کی سیاست سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اردو سیاست کے محاذ پر یہ دونوں ہی مسلم اکابرین ہمیشہ متحرک رہے حالاں کہ ان دونوں ہی کا سیاسی ایجنڈا اردو تک محدود نہ تھا۔ آخر آخر جب سید شہاب الدین کی اپنی ہی طرز کی اس سیاست کی دھوپ ڈھل گئی جو علاحدگی پسندی کی سیاست تھی تو انھوں نے 2004 میں اس وقت سونیا گاندھی کے ہاتھ پر بیعت کر لی جب مرکز میں یونائٹیڈ پراگریسیو الائنس (United Progressive Alliance) برسرِاقتدار آیا، اس کے بعد جن سیاسی محاذوں پر سید شہاب الدین ممکن حد تک متحرک رہے ہیں ان میں ایک اردو سیاست کا محاذ بھی ہے جو دینی مدارس کے ساتھ اپنے مضبوط تر رشتوں کے سبب 9/11 کے بعد مسلم حسیت میں ماضی سے مختلف حیثیت کا حامل ہوچکا ہے۔ بنیادی طور پر سید شہاب الدین ایمرجنسی کے بعد چلی کانگریس مخالف آندھی کے سیاسی دور کی پیداوار ہیں۔ اس انتہائی زیرک مسلم سیاست داں کے منفی سیاسی اثرات مختلف وجوہ سے ڈاکٹر فریدی سے کہیں زیادہ ہمہ گیر ہیں۔ فریدی صاحب کے لہجے کی تشکیل کے تمام سُر ’لے کے رہیں گے پاکستان، بنٹ کے رہے گا ہندستان‘ کی باقیات معلوم ہوتے تھے جب کہ سید شہاب الدین موقع دیکھ کر بات کرتے ہیں جس میں ان کی Indian Foreign Service کی تربیت کا فیضان بھی شامل ہے۔ عمومی سیاسی توازن کے لیے کانگریس کو اپنے Fold سے باہر ایسے چند سیاست دانوں کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے۔ ذہنی طور پر کہیں زیادہ منضبط سید شہاب الدین اپنے سیاسی ایجنڈے کے حصول کے معاملے میں بھی بہت مرتکز ہیں۔ مکمل طور پر اساس پرست اور علاحدگی پسند سیاست کے داعی سید شہاب الدین جب تک عوامی جذبات کا لوہا پوری طرح گرم نہ دیکھیں، نہ صرف یہ کہ وہ چوٹ نہیں کرتے بلکہ آئین اور قانون کا راگ بھی الاپتے رہتے ہیں لیکن موقع ملتے ہی آئین کی دھجیاں اڑا کر عدلیہ کو جوتے کی نوک پر رکھ کر مشتعل عوامی جذبات سے تسمے کی خاطر بھینس حلال کرانے کا سید شہاب الدین سے بہتر گُر تقسیم کے بعد مسلم سیاست میں کسی کے ہاتھ نہ آیا۔ جدید ہندستان کی مسلم تاریخ میں شاہ بانو اور بابری مسجد دونوں ہی معاملوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے نئی طرح کی علاحدگی پسندی کی فلسفیانہ اساس فراہم کرنے والے سید شہاب الدین نے قائدِ اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کا اتباع کرتے ہوئے اپنی مقبولیت کے دور میں ہر سیاسی و مذہبی مسلم جماعت اور رہ نما کو سر جھکاکر چپ چاپ اپنے پیچھے چلتے رہنے کا حکم دیا۔
اسکول کے نظام میں اردو اور دینی مدارس کی سماجیات:
یہ کہنا کہ بالخصوص شمالی ہند میں اسکول کے نظام سے اردو کا خاتمہ ہندستان میں اردو کی عمومی تباہی کا واحد محرک تھا، انتہائی پیچیدہ صورتِ حال کا بے حد سطحی تجزیہ ہے۔ ہندستان میں اسکول جانے والے بچوں میں مسلم بچے ایک فی صد بھی نہیں ہیں جبکہ 5 سے 20 برس تک کی عمر کے تقریباً 98 فی صد مسلمان بچے دینی مدارس میں اردو کے ذریعے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ 2003 میں کل وقتی دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے مسلم طلبہ کی تعداد 5 کروڑ کے آس پاس تھی۔ اُس وقت 5 لاکھ کل وقتی دینی مدارس چل رہے تھے۔ گذشتہ چار برسوں میں طلبہ اور مدارس کی اس تعداد میں لازمی طور پر اضافہ ہوا ہوگا۔ یوں اس بات کو شاید اس طرح کہنا زیادہ مناسب ہوکہ مسلمانوں کے وہ تقریباً ایک فی صد بچے جنھیں اسکول جانے کے مواقع مل سکے، ان کو خصوصاً شمالی ہند کے اسکولی نظام میں نہ صرف یہ کہ جبراً ہندی پڑھائی گئی بلکہ ان کی اپنی مادری زبان کی تعلیم کے لیے ایک اختیاری مضمون کے طور پر بھی مواقع اسکول کے تعلیمی نظام میں موجود نہیں تھے۔
آزاد ہندستان میں اردو اشراف اور احیاے اردو کی تحریکات:
ہندستان کے اس اردو اشراف نے جو مختلف سماجی و سیاسی وجوہ سے یونی ورسٹیوں یا ملحقہ کالجوں کے اردو شعبوں کا پروردہ تھا، تقسیم کے بعد سے جب بھی احیاے اردو کے لیے کوئی تحریک حکومت کے ایما پر چلائی، تو اس میں کامیابی کے لیے اسے پوری طرح مذہبی اداروں ہی کے تعاون پر تکیہ کرنا پڑا۔ مذہبی اداروں کو اردو کی ضرورت تھی اور ان اساتذہ کو عوام میں پوچھنے والا کوئی نہ تھا۔ 1985 میں ایسی ہی ایک تحریک لکھنؤ یونی ورسٹی کے پروفیسر ملک زادہ منظور احمد نے بھی شروع کی جس میں شامل تو مع کمیونسٹ پروفیسروں کے سب تھے مگر تحریک کے اصل داعی ندوۃ العلماء کے ناظمِ اعلا مولانا ابوالحسن علی ندوی تھے جن کی سیادت میں 19 جون 1988 کو رابطہ کمیٹی نے ایک بڑی کامیاب کانفرنس گنگارام ہال، امین آباد، لکھنؤ میں بھی کی۔ سی پی ایم ان ہی دنوں جنوادی لیکھک سنگھ کی نئی دکان چلانے کی کوشش کررہی تھی جس میں کچھ مال پروفیسر محمد حسن نے بھی رکھا تھا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین سے پروفیسر محمد حسن کے ازالۂ التباس کا زخم اس وقت تازہ تازہ تھا۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی آواز پر اسلامی زبان کے طور پر اردو کے تحفظ کے لیے لکھنؤ میں جمع ہوئے عقیدت مندوں کے جمِ غفیر کے اسلامی جذبات کی جیبیں کاٹنے کے لیے مسلم اشراف کے مختلف نمائندوں اور مسلم سیاسئین کے ساتھ کمیونسٹ سیاست کے داعی مثلاً اس وقت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے جنرل سکریٹری سی راجیشور راؤ، جن وادی لیکھک سنگھ سے متعلق پروفیسر نعیم احمد جو اس وقت علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے وابستہ تھے، جواہر لال نہرو یونی ورسٹی کے پروفیسر محمد حسن اور حیدرآباد میں کمیونسٹ سیاست کے ایک اہم ستون راج بہادر گوڑ بھی حلوائی کی دکان، ناناجی کا فاتحہ کے مصداق اہلِ ایمان کی اس محفل میں پوری بے شرمی سے موجود تھے۔ اس محفلِ ایمانی میں کامریڈ مولانا اسحاق سنبھلی بھی شریک تھے جو جناب شیخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی کی بہترین مثال ان معنوں میں تھے کہ جمیعت العلماے ہند سے آخری وقت تک وابستہ رہے اور جمیعت العلماے ہند کو خیرباد کہے بغیر کمیونسٹ پارٹی سے ایم پی بھی رہے۔ اس کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے مولانا ندوی مرحوم نے فرمایا :
اردو واحد زبان ہے جو سب سے کم عمر اور سب سے زیادہ بولی جاتی ہے۔ اردو کی عظمت کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ سیرت پر سب سے بہترین کتب اردو میں ہیں اور علامہ شبلیؒ کی سیرت النبی کے عربی تراجم کے لیے متعدد مرتبہ فنڈز کی پیش کش کی گئی مگر افسوس کہ وہ ممکن نہ ہوسکا۔1؎
مولانا ندوی کے یہ خیالات واشگاف طور پر اردو کے اسلامی کردار کے مختلف زاویوں کو نمایاں کرتے ہیں۔ 1988 بابری مسجد تحریک کے عروج کا زمانہ تھا۔ ہندو مسلم فسادات کا لامتناہی سلسلہ جاری تھا۔ ملیانہ اور ہاشم پورہ کے انسانیت سوز واقعات میں ایک موجِ خوں سر سے گزر چکی تھی مگر مستقبل بھی کم مخدوش نہ تھا؛ بھاگل پور کے مسلم نسل کش فسادات کی آہٹ صاف سنائی دے رہی تھی۔ سیاسی توازن برقرار رکھنے کے لیے رابطہ کمیٹی کی اس تحریک کی شدید ضرورت کانگریس کو تھی۔ ظاہر ہے کہ نتیجہ اس تحریک کا بھی وہی نکلا جو اس کا مقصد تھا : اس نے بھی عوامی طور پر اردو کے اسلامی زبان ہونے کے احساس کو مزید تقویت دی۔ 1989 میں اترپردیش اور مرکز دونوں جگہ سے کانگریس کی حکومت ختم ہوگئی یوں تحریک کا کام بھی فوراً ہی رک گیا۔ یہاں یہ یاد دلانا شاید مناسب ہو کہ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ان چند اکابرینِ امت میں تھے جو حکومت کے ساتھ براہِ راست اس سودے بازی میں شامل تھے کہ شاہ بانو معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف پارلیمنٹ تو قانون بنادے گی مگر اس عمل سے مشتعل ہندوئوں کو بھی بابری مسجد کو منہدم کرکے اس کی جگہ رام مندر بنانے کی اجازت دے دی جائے گی۔ یہ بات دیگر ہے کہ فصل بوئی کانگریس نے تھی مگر کاٹی بی جے پی نے۔ مسلم سیاست کے سرد و گرم چشیدہ اور جماعتِ اسلامی کے ترجمان سہ روزہ دعوت کے سابق مدیر محفوظ الرحمٰن کے خیالات اس ذیل میں دستاویزی اہمیت کے حامل ہیں :
’’… وزیراعظم راجیو گاندھی نے بابری مسجد کا تالا کھُلنے سے قبل ایک خصوصی ملاقات کے دوران علی میاں کو آنے والے حالات سے باخبر کردیا تھا۔ جو کچھ ہوا وہ اس سے کسی نہ کسی درجے میں واقف تھے۔ ان کے لیے بابری مسجد کا تالا کھلنا کوئی غیرمتوقع چیز نہیں تھی اور حالات و واقعات کی روش کے اسی پیشگی علم نے انھیں بابری مسجد کے تعلق سے کوئی قدم اٹھانے سے باز رکھا …‘‘
(مسلم قیادت کا نیا چہرہ، مضمون از محفوظ الرحمٰن مشمولہ مذہب، مسلمان اور سیکولرازم، مرتب و ناشر اشفاق محمد خاں، نئی دہلی، جون 1996، ص 189)
’’… اگر مسلمان خود بھی بابری مسجد کے قضیے کو سیاسی پارٹیوں سے کٹنے اور جڑنے کی بنیاد بناتے ہیں تو پھر ان لوگوں کو غلط کیسے کہا جائے گا جنھوں نے رام اور رام جنم بھومی کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ یہ لوگ بھی تو وہی کررہے ہیں جو مسلم پرسنل لاء بورڈ کے لوگ کرنے جارہے ہیں۔ اگر سنگھ پریوار کی روش غلط ہے اور اس کے غلط ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے تو پھر مسلم پرسنل لاء بورڈ کی روش کو بھی کسی لاگ لپیٹ کے بغیر غلط ہی کہا جائے گا۔‘‘
(ایضاً، ص 193)
احیاے اردو کے مآخذ:
یہاں ایک اور بات کا ذکر بھی ضمناً ضروری ہے کہ مابعدِ تقسیمِ مسلم انڈیا کی تاریخ میں اردو سیاست سے متعلق کسی ماخذ کی تلاش جوے شیر کے لانے سے کم نہیں۔ ویسے تو مجموعی طور پر ہندستان میں مسلمانوں سے متعلق جو کچھ لکھا گیا وہ یا تو متعصب ہندو ذہن کی کارگزاری ہے یا پھر مسلمانوں سے ہمدردی رکھنے والے ان معصوم لوگوں کے شاعرانہ خیالات و افکار کا مجموعہ جنھوں نے خود کو مربی اور مسلمانوں کو مظلوم تصور کرلیا تھا، اس لیے، مسلمانوں سے متعلق ان حضرات نے جو کچھ لکھا اس کا حقیقتِ حال سے کچھ تعلق نہیں۔ تقسیم کے بعد اردو اخبارات و رسائل مسلمانوں کے جن زخموں کی تجارت کرتے رہے ان میں اردو کا گہرا گھائو سب سے نمایاں تھا۔ ان اخبارات کے مطالعے سے اس صورتِ حال کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے جس میں مسلمان جذباتی طور پر تو بارود کے ڈھیر پر بیٹھا تھا مگر اردو کے سیاق و سباق میں وہ سب سے زیادہ کنفیوژ اس لیے تھا کیوں کہ پاکستان میں اردو کی قومی زبان کی حیثیت نے اسے ہندستان میں کہیں کا نہیں چھوڑا تھا۔ افسوس کی بات مگر یہ ہے کہ اردو اخبارات و رسائل کی فائلیں کہیں موجود ہی نہیں اور جو اخبارات بند ہوگئے ان کے دفاتر تک بک چکے ہیں یوں ان تک رسائی کی کوئی شکل اب نہیں بچی ہے۔
1983 میں سید شہاب الدین نے ماہ نامہ مسلم انڈیا اردو اور انگریزی میں شائع کرنا شروع کیا۔ اردو ایڈیشن کچھ مدت بعد بند ہوگیا مگر انگریزی ماہ نامہ بیس برسوں تک تواتر کے ساتھ شائع ہوا اور تین برس کے توقف کے بعد سید شہاب الدین نے اس کی اشاعت دوبارہ شروع کردی۔ ماہ نامہ مسلم انڈیا کے مستقل ابواب میں اردو کی نمایاں حیثیت رہی ہے۔ اس جریدے کی اشاعت کا واحد مقصد سید شہاب الدین کے سیاسی ایجنڈے کا فروغ تھا جس میں اردو کی مرکزی حیثیت تھی۔ معروضی ذہن کو مسلم انڈیا کی فائل کے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچنے میں پانچ منٹ بھی نہیں لگتے کہ سید شہاب الدین کس شاطرانہ ذہن کے ساتھ اپنی تاریخ — جو تقسیم کے بعد پوری طرح ہمت باختہ مسلم انڈیا کی تاریخ بھی ہے — تو اپنے ایجنڈے کے مطابق خود اپنے ہی قلم سے لکھ رہے ہیں لیکن 1983 سے پہلے کی اردو سیاست اور ڈاکٹر فریدی جیسے لوگوں کی سیاسی زندگی میں اردو ایجنڈے کے مطالعے کے لیے عام طور پر مواد دستیاب نہیں یوں اُس دور میں اردو کے نام پر کی جانے والی سیاست کے مطالعے کے مآخذ تقریباً مفقود ہیں۔ کسی قابلِ ذکر لائبریری میں غیرادبی اخبارات و رسائل کی فائلیں شاید ہی موجود ہوں۔
یونی ورسٹی سطح پر اردو تعلیم کی سیاست کی سماجیات اور ہند و پاک تعلقات:
اب آئیے ایک نظر یونی ورسٹی کے اردو شعبوں سے وابستہ نیز ملحقہ کالجوں میں برسرِکار اساتذہ اور ان ہی کے ذریعے تشکیل دیے گئے اردو کے اس منظرنامے پر نظر ڈالیں جسے تکنیکی اعتبار سے مذہبی فریم سے باہر اردو کی سیاست کا آئینہ دار کہا جاسکتا ہے۔ ان حضرات کے ذریعے کی جانے والی سیاست دراصل اردو ادب کی وہ سیاست ہے جس کا دائرۂ اثر قدرتی طور پر محدود تر ہے۔ اردو کے ان اساتذہ کا تقرر حکومت کی اس منظم پالیسی کا نتیجہ تھا جس کے نتیجے میں پرائمری سے بارہویں درجے تک خصوصاً شمالی ہند میں اردو تعلیم کے نظام کو نیست و نابود کردیا گیا مگر ڈگری درجات کی سطح پر ان لوگوں کو اردو ادب کی تعلیم کے مواقع فراہم کیے گئے جنھوں نے اسکول کی سطح پر کبھی اردو نہیں پڑھی تھی۔ خصوصاً یونی ورسٹی کی سطح پر اردو پڑھنے اور پھر اردو ہی پڑھانے کے Canon میں جو لوگ شامل ہوئے ان کی اکثریت یا تو فرسٹ جنریشن لرنر (First generation learner) کی تھی یا پھر ان ہندوئوں کی جنھوں نے تقسیم سے قبل اس مجبوری کے سبب اردو پڑھی تھی کیوں کہ اسکول کی سطح پر اس کی تعلیم ملک کے بعض حصوں میں لازمی تھی۔ ان اردوداں ہندوئوں میں اکثریت ان خطوں سے آنے والے غیر سکھ ہندوئوں کی تھی جو بعد میں مسلم اکثریتی علاقے کے طور پر پاکستان میں شامل ہوگئے۔ ان حضرات کی اکثریت کا اقتصادی طور پر ہندوئوں کے برسرِاقتدار طبقے سے کچھ تعلق نہ تھا۔ آزاد ہندستان میں ہندو مسلم ہر دو اشراف نے کاروباری زندگی میں صرف انگریزی کو ترجیح دی یوں یونی ورسٹی اور کالج کی سطح پر اردو درس و تدریس سے وابستہ اکا دکا حضرات کو چھوڑ کر اکثریت ان لوگوں کی ہوگئی جو پہلی دفعہ تعلیم کے دائرے میں شامل ہوئے۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے 1993 میں اردو درس و تدریس سے وابستہ ان اساتذہ کو جہلا کی چوتھی نسل کہا تھا۔ 1985 کے آس پاس جب دینی مدارس کے ڈگری یافتہ حضرات کو یونی ورسٹیوں میں داخلے کا مجاز قرار دیا گیا اور بعد میں وہ لوگ بھی اردو درس و تدریس ہی کے پیشے سے بہ حیثیت اساتذہ وابستہ ہوئے تو ان کے ذریعے یونی ورسٹیوں میں ہونے والی اردو کی سیاست کا چہرہ بھی بدل گیا اور یہ محاذ بھی اندر ہی سے نہیں بلکہ باہر سے بھی اسلامی ہوگیا۔ یونی ورسٹیوں کے اساتذہ کے فرنٹ کے اسلامی ہوتے ہی اردو سیاست کے پاس کوئی نام نہاد سیکولر چہرہ نمائش کے لیے بھی نہیں بچا۔ دینی مدارس کے طلبہ اردو اداروں سے لے کر اردو اخبارات تک ہندی مسلمانوں کی زندگی کے ہر اس قابلِ ذکر شعبے میں پہلے ہی غالب آچکے تھے جس کا اردو سے ذرا سا بھی تعلق تھا۔ یونی ورسٹی سطح پر دینی مدارس کے فارغین کو بالعموم بی اے آنرس اردو، عربی اور اسلامیات یا پھر براہِ راست ایم اے اردو عربی اور اسلامیات میں داخلے کا مجاز قرار دیا گیا۔ یونی ورسٹی اور ملحقہ کالجوں کے اردو شعبوں سے ایم اے کرنے اور پھر درس و تدریس سے وابستہ ہوجانے والے ان حضرات میں جن کی ذہنی تربیت مذہبی اداروں میں ہوئی، اکثر فرسٹ جنریشن لرنر ہیں اور ان کی نئی نسل نے اردو میں کیریر بنانے کے بارے میں نہیں سوچا۔ ان اردو اساتذہ کے بچوں کی اکثریت نے ایک زبان کے طور پر بھی اردو نہیں پڑھی جس کی معقول سماجیاتی وجوہ تھیں۔ یونی ورسٹیوں میں اردو درس و تدریس سے وابستہ حضرات کا ڈگری یافتہ یا متمول ہونا چوں کہ حکومت کی پالیسی کے نتیجے میں ظہورپذیر ہوا یوں اردو اساتذہ کے طور پر یونی ورسٹیوں میں برسرِکار لوگوں میں آج اکثریت صرف ان لوگوں کی ہے جن کے لیے ہند و پاکستان کے بہتر تعلقات کا مطلب ہر دو ممالک میں ایسے ادبی سمیناروں کے انعقاد تک محدود ہے جن کی زبان اردو ہو اور جن میں انھیں بھی مدعو کیا جائے۔ اپنے پروفیشنل کیریر میں ترقی کے علاوہ اور کسی قسم کے سیاسی تحرک میں ان اردو اساتذہ کی کوئی دل چسپی نہیں۔ ان میں سے اکثر حضرات نے ہند و پاکستان تعلقات میں اردو کے رول کے بارے میں یا تو کبھی سوچا نہیں ہوگا یا پھر بس اتنا بھر کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے: ہندستان میں بھی اور پاکستان میں بھی۔ آئین ہند چوں کہ اپنی سیکولر ساخت کے اعتبار سے ان حضرات کے لیے Anthema ہے اور ایسی کسی تعلیم میں ان حضرات کی دل چسپی نہیں ہوسکتی جس کا خلقیہ اسلامی نہ ہو اس لیے اپنے عہدے کا لحاظ کرتے ہوئے ان حضرات کو اگر کبھی آئین کی بات کرنا بھی پڑی تو انھوں نے خود کو بس آئینِ عشق تک محدود رکھا اور تعلیم کے نام پر تو یہ غزل کی تعلیم کے متعلقات سے آگے بڑھے ہی نہیں۔ اردو کے ان اساتذہ کی اکثریت نے ’ہندو پاکستان تعلقات‘ کے فقرے یا اردو کی ادبی وراثت کو انتظار حسین تک اسی لیے محدود کیا کیوں کہ عسکری کے حوالے سے اسلامی خلقیے کا انتظار حسین سے بہتر دوسرا کوئی ایسا استعارہ اردو ادب میں موجود نہیں تھا جو ہندستان کے populist اور centrist اہلِ اقتدار کے منصوبوں کو راس آسکے۔ پاکستان میں اردو کے علاوہ دیگر زبانوں کا وہ ادب بھی ہے جو ہندو پاکستان کی مشترکہ ثقافتی وراثت میں اہم رول ادا کرسکتا ہے، یہ خیال یونیورسٹیوں کے اردو اساتذہ کو اگر نہیں آتا تو اس کے معقول سیاسی وجوہ ہیں۔ ہندستان میں یونی ورسٹی اساتذہ کی اکثریت اردو سے قریب ترین زبان ہندی کے ادب سے اسلامی وجوہ سے ہی دانستہ طور پر اس حقیقت کے باوجود بے خبر ہے کہ ان میں سے اکثر کو اچھی خاصی ہندی آتی ہے۔ اپنی مذہبی تعلیم کے پس منظر کے سبب یونی ورسٹی سطح کے یہ اردو اساتذہ بے خبر تو اردو ادب کے بڑے حصے سے بھی ہیں۔ اس بے خبری کی دو اہم وجہیں ہیں : دینی مدارس میں ان کی تعلیم و تربیت کا تمام زمانہ اسلامیات کے مطالعے میں گزرا اور اس عرصے میں ان حضرات نے دینی مدارس میں اردو زبان یا اس کے ادب کا مطالعہ صرف اُس زبانِ اردو کو سیکھنے کی غرض سے کیا جو دینیات کے مطالعے میں ان کی مدد کرسکے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اردو ادب کا بڑا حصہ دینی مدارس کے ان فارغین کے لیے کفریات کے ہم معنی ہے یوں اردو کے نام پر بڑی بڑی تنخواہیں وصول کرنے کے باوجود اردو کے ادبی خلقیے سے نفرت ان اساتذہ کی اکثریت کے خمیر میں ہے اور چوں کہ اسلام کی ترویج و ترقی کے علاوہ اور کسی قسم کے سیاسی تحرک میں ان کی کوئی دل چسپی نہیں یوں یونی ورسٹیوں کے اردو شعبے بے مصرف باہمی سیاست کے اکھاڑے بن کر رہ گئے۔ عمومی سطح پر ان حضرات کے سیاسی شعور اور سماجی بیداری کا یہ عالم ہے کہ اردو کی ترویج و ترقی کے لیے مولانا بھاشانی سے بڑھ کر تقریریں کرنے والے اللہ کے ان بندوں سے جب پوچھا جاتا ہے کہ کیا آپ کے بچے اسکول میں اردو پڑھتے ہیں تو اسلام کی تبلیغ کے علاوہ دنیا کی ہر چیز سے زمانے بھر کے یہ بے خبر اپنے بچوں کے اردو نہ پڑھنے کے دفاع میں اس لیے بھیگی بلی بن جاتے ہیں کیوں کہ ان کے خیال میں اردو پڑھنے کا مطلب اردو میں بی اے آنرس اور ایم اے کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ ان بے وقوفوں کی اکثریت کو یہ معلوم ہی نہیں کہ دسویں درجے تک اور بعض صوبوں میں بارہویں درجے تک تین زبانوں کا مطالعہ ہندستان کے اسکولی نظام میں ہر بچے کے لیے لازمی ہے یوں اگر ان کا بچہ اللہ کے فضل سے کسی انگریزی میڈیم اسکول میں پڑھتا ہے اور وہ فرنچ، جرمن یا سنسکرت کی جگہ ایک اختیاری مضمون کے طور پر اردو کا مطالعہ کرلے تب بھی وہ اپنے باپ کی طرح اردو کا پروفیسر بننے کی لعنت سے محفوظ ہی رہے گا۔
اس مقالے کا موضوع ہرچندکہ ہندستان سے متعلق ان سوالوں کو زیرِبحث لانا ہے جن کا تعلق ہند و پاکستان کے درمیان تعلقات بہتر کرنے کے ذیل میں وابستہ ان خواہشات سے ہے جن کے پورے ہونے کی کوئی توقع ہندستان کی حد تک اس اردو سے نہیں کی جاسکتی جس کے تعاقب میں اس کا وہ ماضی سرگرداں ہے جس نے اسے لسانی علاحدگی پسندی کے ایک طاقت ور آلۂ کار کے طور پر شناخت پذیر کرکے اس کے مخدوش مستقبل کا لائحۂ عمل متعین کردیا ہے۔ موضوع مگر اتنا زیادہ الجھا ہوا ہے کہ جب تک تمام متعلق سیاسی و سماجی محرکات کا مطالعہ نہ کیا جائے، اس قسم کی کوشش انتہائی پیچیدہ صورتِ حال کے سہل ترین تجزیے پر محمول کی جائے گی۔ اس پیچیدہ سماجی و سیاسی صورتِ حال کے مطالعے کی کوشش میں نے ممکن حد تک اختصار کے ساتھ کرنے کی کوشش کی ہے مگر پھر بھی بعض ایسے عوامل کا تجزیہ اس مقالے کے مندرجات میں شامل ہوگیا جن کا تعلق پاکستان سے ہے۔
پاکستان میں اقتدارکے ہم نوا ترقی پسند اردو اہلِ قلم اور ہند و پاک تعلقات:
پاکستان میں فروغ پارہی وہ معاصر اردو جس کی تقریباً تمام روایتیں خواہ وہ ادب کی ہوں، صحافت کی یا درس و تدریس کی، ان میں سے بیش تر چوں کہ اسلامی اساس پرستوں اور پیچیدہ مسلم شناخت سے مغلوب ہیں یوں وہ ہند و پاکستان کے تعلقات کو مزید کشیدہ تو کرسکتی ہیں، خوش گوار نہیں۔ اس مقالے کے مندرجات میں ہرچندکہ پاکستان میں اردو کی وہ روایت جس سے تعلقات کے ذیل میں خوش خیالی پیدا ہوسکتی ہے، میرا موضوع اس لیے نہیں کیوں کہ میرا اختصاص ہندستان پر ہے مگر وسیع تر تناظر میں پاکستان کی صورتِ حال کو ان مباحث میں شامل کیے بغیر کسی نتیجے پر پہنچنے کی امید چوں کہ بے سود ہے یوں میں خصوصاً پاکستان کے ترقی پسند اردو اہلِ قلم سے متعلق بعض نکات کی نشان دہی اس لیے کرنا چاہتا ہوں کیوں کہ عرصۂ دراز سے ہند و پاکستان کے بہتر تعلقات کا ٹینڈر اردو کی حد تک اسی مکتبِ فکر کے نام کھلتا رہا ہے جسے ترقی پسند ادیبوں کے گلے سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان میں اردو کے ادیبوں اور شاعروں کی اکثریت — مع نام نہاد ترقی پسندوں اور کمیونسٹوں کے — شروع ہی سے پاکستانی اقتدار کی ہم نوا رہی ہے اور پاکستان میں جس قسم کے سیاسی حالات رہے ان میں صرف ہندستان سے نفرت ہی وہاں کی سیاسی جماعتوں کے لیے بارآور ہوسکتی تھی۔ پاکستان میں نام نہاد جمہوریت کی دعوے دار پیپلز پارٹی جیسی سیاسی جماعتیں جو گذشتہ تین دہوں میں پاکستان کے ترقی پسند اور کمیونسٹ اہلِ قلم کا بسیرا ہیں، اپنی سرشت میں اتنی ہی فسطائی، غیرجمہوری اور ہندستان دشمن تھیں اور ہیں جتنا پاکستان کا فوجی اقتدار۔ کمیونسٹ اور ترقی پسندوں کی دو نمایاں ترین پاکستانی مثالوں میں سبطِ حسن اور احمد فراز کے بیانات اور ان کے کرداروں کا مطالعہ بغیر کسی تکلف کے ہمیں یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور کرتا ہے کہ پاکستان کے اردو ادب سے وہاں کے حاکموں نے صرف محمد حسن عسکری ہی کے ہاتھ سے مشت زنی* نہیں کرائی، جیساکہ اجمل کمال کا خیال ہے بلکہ اس کارِخیر میں سبط حسن سے لے کر احمد فراز تک سب اسی انہماک سے شامل رہے ہیں جس نے ہندو پاکستان کے تعلقات کو مزید خراب اس لیے کیا کیوں کہ پاکستان کے کمیونسٹ یا ترقی پسند اہلِ قلم کی ہندو پاکستان دوستی کی خواہش ایسے ہی تھی جیسے جناح کی متحدہ ہندستان کی۔ سیاسی فہم سے عاری ہندستان میں بعض حضرات جس طرح جناح کے بعض ذاتی رویوں کا تجزیہ کرکے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ وہ علاحدگی پسند نہیں تھے یا ان کی مسلم سیاست ماضی پرست اور ظلمت پسند مسلم علماء سے اس لیے مختلف تھی کیوں کہ وہ شراب پیتے تھے، سور کھاتے تھے اور اپنی پارسی بیوی کو انھوں نے مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا، اس طرح کے سہل پسندانہ تجزیے کے بعد تو بس اردو کے ادبی نقاد ہی اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ پاکستان میں اردو کے ادیبوں شاعروں خصوصاً ترقی پسند اردو اہلِ قلم کی ہندو پاکستان کے بہتر تعلقات میں بڑی دل چسپی ہے۔
اردو کے ادبی نقادوں کے پاس تو اس کام کے لیے اسلام پسند محمد حسن عسکری کے چیلے انتظار حسین اور ترقی پسندوں کے پاس ذوالفقار علی بھٹو کے سلسلے سے بیعت احمد فراز کی شخصیات اپنے مقاصد کے لیے موجود ہیں۔ آپ میں سے جن حضرات کا حافظہ کمزور ہو یا جن کی سیاسی بصیرت قیامِ بنگلہ دیش کے عمل میں بھٹو کے فسطائی حد تک غیرجمہوری رویے سے واقف نہ ہو یا جن حضرات کو اس وقت کے مشرقی پاکستان کی بنگلہ نژاد آبادی کے خلاف فسطائی حد تک غیرجمہوری بھٹو کا بیان ’اِدھر ہم، اُدھر تم‘ یاد نہ ہو یا سمجھ میں نہ آیا ہو انھیں اسلامی سوشلزم کے داعی ذوالفقار علی بھٹو کا ہندستان سے متعلق یہ مشہورِ زمانہ بیان تو ضرور ہی یاد ہوگا : ’چینیوں نے جس روز ہمالیہ پر چڑھ کر پیشاب کردیا، سارا ہندستان بہہ جائے گا‘۔
آگے بڑھنے سے پہلے سیدالشہدا ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں، مُوسیٰ سے مارکس تک، کے مصنف اور پاکستانی کمیونسٹوں کے امام سبط حسن صاحب کے یہ چشم کشا خیالات ملاحظہ فرمائیے جو انھوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی تقریبات کے سلسلے میں لندن میں منعقدہ جشن میں ظاہر فرمائے۔ میں نے یہ اقتباس ایک ترقی پسند نقاد سید محمد عقیل کے اس سفرنامے سے نقل کیا ہے جو سید محمد عقیل نے انجمن ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی تقریبات کے لیے لندن کا سفر کرنے کے بعد تحریر فرمایا :
’’… [4 اگست 1985کو] ساڑھے بارہ بجے چھٹا اجلاس شروع ہوا۔ مجلسِ صدارت میں پروفیسر امین مغل (پاکستان)، پروفیسر شکیل الرحمٰن (انڈیا)، صدیق الرحمٰن قدوائی (انڈیا) اور رضا ہمدانی (پاکستان) تھے، اور مقررین میں سید سبطِ حسن (پاکستان)، کرتار سنگھ دُگل (انڈیا)، پروفیسر نامور سنگھ (انڈیا)، ڈاکٹر شین اختر (انڈیا)، پروفیسر زاہدہ زیدی (انڈیا)، فخر زماں (پاکستان)، سعید انجم (ناروے)، محمودالحسن (انڈیا) اور پروفیسر امین مغل تھے۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر شین اختر کے مقالے پر بڑا ہنگامہ ہوا۔ انھوں نے اپنے مقالے میں لکھ دیا کہ ایشیائی ممالک میں جہاں جہاں فوجی حکومتیں قائم ہیں وہاں وہاں ادیبوں کی آواز دب گئی ہے اور ان ادیبوں نے صحیح طور پر اپنا فرض انجام نہیں دیا۔ اس بات پر سب سے پہلے سید سبطِ حسن کو اعتراض ہوا کہ کسی ملک کی طرف اس طرح کا اشارہ کیوں کیا گیا؟ اور یہ کہ صرف پاکستان کو نظر میں رکھ کر یہ بات کہی گئی ہے! انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ ہندستان کے لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ہم پر اعتراضات کریں۔ غالباً سعید انجم (ناروے) نے شین اختر کی حمایت کی تو سید سبطِ حسن اپنی جگہ سے اٹھ کر اسٹیج پر جاپہنچے اور بولے کہ ’’پاکستان میں آکر کہیے تو معلوم ہو‘‘۔ بات بہت بڑھ گئی۔ یہ بات سبطِ حسن جیسے منجھے ہوئے مارکسسٹ کی زبان سے اچھی نہیں لگی۔ اس پر صفدر میر اور عبداللہ ملک کے ساتھ بہت سے پاکستانی ادیبوں نے ایک طرح پروٹسٹ کیا۔ کون کس کا ایسے مجمعے میں منھ بند کرسکتا ہے۔ کسی نے یہ بھی کہہ دیا کہ سید سبطِ حسن نے جان بوجھ کر یہ شاخسانہ اٹھایا ہے جس سے حکومتِ پاکستان کو معلوم ہوجائے کہ انھوں نے حکومت کی حمایت کی ہے، اور انھیں وہ آسانیاں حاصل رہیں جو حکومت کی طرف سے انھیں پاکستان میں حاصل ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ اس میں صداقت کیا ہے؟ سبطِ حسن تو ایسے کبھی نہ تھے۔ ہم سب ان کا احترام کرتے ہیں اور انھیں ایک تجربہ کار اور سچا مارکسسٹ سمجھتے ہیں لیکن اگر واقعی ایسا ہے تو:
اب کسے رہنما کرے کوئی
مگر یہ شک سبطِ حسن کی طرف سے لوگوں کو کیوں ہے؟ لوگ انھیں حکومت کا آدمی کیوں سمجھنے لگے ہیں؟ سید سبطِ حسن کا یہ رویّہ عجیب ضرور تھا کہ جب عالمی ادب کی اجتماعی کیفیت کا محاسبہ کیا جارہا ہے تو اس میں سے کسی کو پاکستان پر باتیں کرنے کا حق کیوں نہیں ہے؟ اور اگر پاکستان کے ادیبوں اور ادب پر باتیں کرنے کا حق ہندستانی ادیبوں کو نہیں تو دوسرے ممالک کے ادب اور ان کے احتجاج پر کیسے حق ہوسکے گا۔ کل کے جلسے میں کسی پاکستانی ادیب نے بحث کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ادب کی تدوین اور تحقیق اس طرح ہونی چاہیے جس طرح سید سبطِ حسن کررہے ہیں : یعنی بجاے حال کے ادب کا محاسبہ کرنے کے ماضی کے ورثے پر ادیبوں کو کام کرنا چاہیے۔ اور اگر ’’ماضی کے مزار‘‘ اور ’’موسیٰ سے مارکس تک‘‘ جیسی کتابیں کسی ملک میں لکھی جاتی ہیں، تو اس سے ملک اپنی تہذیبی جڑوں اور روایتوں سے واقف ہوتا ہے۔ لمحاتی ادب میں کیا دھرا ہے؟ ادب کا صحیح تناظر یہی ہے، جو سیدسبطِ حسن آج کل پیش کررہے ہیں۔ مجھے خیال گزرا کہ جس طرح کی شعلہ بیانی پاکستان بدر ادیبوں میں آج کل ہے یہ اسی احتجاج کا ایک حصہ ہے جو پاکستان میں خاموشی کے ساتھ زور پکڑ رہا ہے۔ اور جس کی دبی دبی آوازیں غزلوں اور علامتی افسانوں کے ذریعے ہم تک پہنچ رہی ہیں۔ انور سجاد کا افسانہ کونپل اس کی سب سے اچھی مثال ہے۔ ’’ماضی کے مزار‘‘ بہت اچھا علمی اور ادبی کام ہے لیکن یہ وقت کی آواز نہیں۔ اس میں جو ایک طرح کی Passivity ہے وہ انقلابیت اور شعلہ بیانیوں کا دم گھٹنے سے وجود میں آئی ہے۔ سید سبط حسن ایک مارکسسٹ نظریہ ساز ادیب ہیں۔ شاید حالات کے جبر نے انھیں بہت کچھ زیر کررکھا ہے۔ آخر انسان کو زندہ بھی تو رہنا پڑتا ہے، اور انہی حالات میں جن میں وہ چاروں طرف سے جکڑا ہوا ہے۔‘‘
(لندن- او - لندن، ڈاکٹر سید محمد عقیل، ناشر کا نام درج نہیں، 1987، ص 42-43)
ویسے یہ کانفرنس لندن میں آباد ایک ایسے پاکستانی عاشور کاظمی نے برطانوی حکومت کی ایک بڑی گرانٹ حاصل کرکے منعقد کی تھی جن کا کبھی بائیں بازو سے کچھ تعلق نہیں رہا۔ بعد میں کاظمی صاحب پر مالی بدعنوانیوں کے الزامات دستاویزی شہادتوں کے ساتھ گشتی مراسلوں کی شکل میں دیر تک اہلِ اردو کو ہندو پاکستان میں موصول ہوتے رہے۔ ’مال ختم پیسہ ہضم‘ کے مصداق عاشور کاظمی دوسری نئی بدعنوانیوں میں لگ گئے اور ان کی وجہ سے برطانیہ میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا جو شیرازہ منتشر ہوا، اسے پھر کوئی منظم نہ کرسکا۔
پاکستان کے اردو اہلِ قلم عموماً بھی اقتدار اور اہلِ اقتدار سے قربت رکھنے کے معاملے میں ہندستان کے بڑے بڑے خوشامد پسند جغادریوں کو دھول چٹانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس ذیل میں افتخار عارف کا ذکر ان سے منسوب اس مشہور جملے کے ذیل میں اب ضرب المثل بن گیا ہے کہ اپنے افسر کی تعریف تو سب کرتے ہیں مگر افتخار سب کے افسروں کے قصیدہ خواں ہیں۔ پاکستان کے اردو ادبی معاشرے میں عمومی populism بھی اس درجہ ہے کہ جب کوئی پاکستانی اردو اہلِ قلم خصوصاً ہندستان میں پاکستانی سیاست پر بات کرتے ہوئے گاجروں میں گٹھلیاں ملانے کے لیے ادب کے استعاراتی نظام کا سہارا لے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ جمہوریت پسند اور ظلم و جبروت کے مخالف پاکستان کے اہلِ قلم نے جس ادب کی تخلیق کی اس کا اسمِ اعظم انقلاب کے عظیم ادب کا اتباع کرتے ہوئے استعاراتی نظام کی ادبی روایت کے ذریعے عوام کو بیدار کرنا تھا تو اس اہلِ قلم کی حالت اگر زیادہ نہیں تو اتنی مضحکہ خیز ضرور ہوتی ہے جتنی بہار کے اس ایم ایل اے کی جو کسی ٹی وی چینل پر لالو پرساد یادو کو مارکس اور لینن جیسا سیاسیات کا نباض عالم بتائے۔
پاکستان بہ حیثیت ایک مسلم ملک اس مسلم امت کا حصہ ہے جس کے اسلامی فولڈ میں کچھ نام نہاد متوازن ذہن بالکل ایسے ہی موجود ہیں جیسے آر ایس ایس میں اٹل بہاری واجپئی جیسے موڈریٹ لوگ جو فسطائیت کے وسیع تر مفاد میں ہندستان کے منظرنامے پر بڑی ہوشیاری سے پیش کیے گئے اور بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد گجرات 2002 واقع ہوگیا۔
پاکستانی اور ہندستانی جمہوریت کی نظریاتی اساس:
پاکستان جیسے کسی اسلامی معاشرے میں ہندستان جیسی جمہوریت کا تصور نظریاتی طور پر ممکن ہی نہیں اور ہندستان جیسے جمہوری اور تکثیری معاشرے سے پاکستان کا نظریاتی تصادم لازمی امر ہے۔ اسلامی دنیا میں جمہوری نظام کی ایسی کوئی مثال ہمیں اس لیے بھی نہیں مل سکتی کیوں کہ اسلامی خلقیے میں جدید جمہوریت کا کوئی تصور موجود نہیں، اس کے لیے امکانات بھی معدوم ہیں۔ وہ اسلامی نظریہ جس میں حاکمِ وقت کے لیے امیرالمومنین ہونا ضروری تھا، ہندستان جیسی جمہوریت سے کیسے لگّا کھا سکتا ہے جہاں ہندو اکثریت کے سبب کسی امیرالمومنین کی موجودگی کا سوال ہی نہیں۔
اپنے اسلامی خلقیے کے سبب ہندستان میں بھی اردو ہر حال میں پین اسلامک شناخت کی حامی و ہم نوا رہے گی اور جو لوگ اسلامی خلقیے کے وسیع تر دامن میں نہ سما سکیں گے وہ کنارے کردیے جائیں گے۔ ہندستان میں اردو کے ہندو اہلِ قلم کی مثال سامنے ہے جن کی تعداد اسی لیے سکڑ کر چند افراد تک رہ گئی ہے کیوں کہ یہ ہندو اہلِ قلم ہندستان کے جمہوری نظام کی موجودگی میں خود کو اسلامی خلقیے میں ضم کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ پاکستانی معاشرے کو کسی بھی سطح پر اس ہندستانی جمہوریت سے مماثل کیا ہی نہیں جاسکتا جو گذشتہ ساٹھ برسوں میں سماجی تکثیریت کے شدید دباؤ میں متعدد سیاسی اور اقتصادی چولے بدل چکی ہے، جہاں اقتصادی concern سیاست کا ایجنڈا طے کرتے ہیں۔ سیاست میں اقتصادی رجحانات کا فیصلہ کن دخل — خواہ اس کی شکل اکثر منفی ہی کیوں نہ معلوم ہوتی ہو — ان تمام نظریات کے لیے روح فرسا ہے جو مارکسی نظامِ فکر سے بُعد رکھتے ہوں، اسی لیے، مارکسی نظامِ فکر کی سطحی فہم رکھنے والے حضرات ہندستان کے موجودہ اقتصادی لبرائزیشن کو بڑی آسانی سے مارکسی نظریے کی شکست سے تعبیر کردیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ حقیقت نہیں۔ یہاں ہندستانی اقتصادیات کے لبرائزیشن کی بحث اور اس کے ماڈل نیز ان فطری تضادات کے ذکر کا موقع نہیں جن کا واقع ہونا اس لیے لازمی ہے کیوں کہ مختلف وجوہ سے ہندستان میں اقتصادی لبرائزیشن کی رفتار عدم توازن کا شکار رہی۔ اس عدم توازن کے لیے مارکسی ملا اتنے ہی ذمے دار ہیں جتنے اندرا گاندھی جیسے اقتصادیات میں کورے حاکم۔ یہ مگر طے ہے کہ نظریات کے ذیل میں تضادات کے بعد ہی تو بحث و تمحیص کا وہ سلسلہ جنم لیتا ہے جو آخرش سائنٹفک نظریے اور مذہبی عقیدے کے درمیان حدِفاصل کا کام کرتا ہے۔
ہندو پاکستان دونوں ہی ممالک کے اردو اہلِ قلم کی اکثریت چوں کہ ان تمام محرکات سے بے خبر ہے جو ہندو پاکستان جیسے دو حددرجہ حساس ممالک کے تعلقات میں بہتر رول ادا کرسکتے ہیں یوں میں ایسی کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں۔ دونوں ہی ممالک کے اصطلاحی اردو اہلِ قلم حضرات کی اکثریت کو یہ معلوم ہی نہیں کہ اب ڈپلومیسی اپنے روایتی لباس کو اتار کر وہ اقتصادی چولا پہن چکی ہے جسے دنیا بھر میں چیمبرز آف کامرس کے ذریعے تیار کیا جاتا ہے؛ آج سعودی عرب میں بھی FDI ہی ڈپلومیسی اور سیاست میں سعودی حکمرانوں کا سب سے طاقت ور ہتھیار ہے۔ وہاں عورتوں کی نمائندگی کی slow-windows وہاں کے مختلف چیمبرز آف کامرس ہی ہیں جہاں اسلامی لباس میں ملبوس خواتین اکنومک ڈپلومیسی کے ذریعے سعودی عرب کی آہستہ ہی سہی مگر بدلتی ہوئی سیاست کی آہٹ دنیا کو ہر روز دیتی ہیں۔ اسلامی لباس میں ملبوس یہ خواتین مختلف بین الاقوامی fora پر تقریریں کرکے جہاں ایک طرف سعودی حکمرانوں کے سیاسی مفادات کا تحفظ مسلم جذبات کے ذیل میں کرتی ہیں، وہیں اس سے اصل مقصد یعنی سعودی اقتصادیات میں FDI کے لیے راہ ہموار کرنے کے بین الاقوامی دبائو اور اس سے متصادم مقامی سیاسی مفادات کے درمیان توازن قائم رکھنے میں سعودی حکمرانوں کو آسانی ہوجاتی ہے۔
غور سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندو پاکستان ہر دو ممالک میں اردو ادب کے اہلِ قلم کی اکثریت کی سیاسی فہم کا معاملہ چھٹے دہے میں بننے والی ممبئی کی ان فلموں جیسا ہے جن میں ہیرو ہیروئن گیت گانے کے مناظر تو پھولوں کی کیاریوں میں ریکارڈ کراتے تھے مگر فلم کا اسکرپٹ اس طرح لکھا جاتا تھا کہ فلم بینوں کو یہ تاثر دیا جاسکے کہ اس گانے کی فلم بندی سوئٹزرلینڈ یا پیرس میں کی گئی۔ اُس دور میں تو ان ممالک کا نام ہمارے colonial ذہن کو خاصا مرعوب کرتا تھا۔
ادیب کی سماجی ذمے داری اور اردو کے اہلِ قلم:
میں سرِدست اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ ادیب کی ذمے داری کہاں سے شروع ہوتی ہے، اس کی کوئی سماجی ذمے داری ہے بھی یا نہیں مگر مجھے یہ ضرور محسوس ہوتا ہے کہ اردو ادب میں بھی جو لوگ سماجی ذمے داری کے قائل ہیں، ہندستان کے اردو اہلِ قلم کی حد تک وہ بھی اب اپنی سماجی ذمے داری ایسے سمیناروں میں تقریریں کرکے ہی پوری کرلیتے ہیں جو State funding سے منعقد کیے جاتے ہیں۔ اطالوی مفکر گرامشی کی مشہورِ زمانہ اصطلاح میں تقریر کے ان غازیوں کو inorganic intellectual کہا جاسکتا ہے۔ اردو ادب میں پائے جانے والے ریڈیکل قسم کے ہندستانی اردو اہلِ قلم البتہ پیس مارچ کے جہاد یا حکومتِ پاکستان کی دعوت پر وفود میں شرکت کرکے گنگا نہا لیتے ہیں۔ 2006 میں بائیں بازو کے اردو Activist خاصی بڑی تعداد میں ایک وفد میں پاکستان گئے تھے۔ ان تمام خواتین و حضرات کی حفاظت کے لیے حکومتِ پاکستان نے ہر شہر میں خاصے سخت انتظامات کیے۔ افواجِ پاکستان کی سیسہ پلائی ہوئی اللہ کی دیوار جیسے مضبوط محافظ دستوں کے گھیرے میں یہ وفد پاکستان میں کس قسم کے ریڈیکل لوگوں سے ملا ہوگا، اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس وفد نے دونوں ممالک خصوصاً پاکستان کے نظریہ سازوں کو عوام دوست، جمہوری پالیسیوں کے نفاذ کے بارے میں کیا کچھ کرنے پر مجبور کیا ہوگا، اس کا قیاس کرنا بھی مشکل نہیں۔
بڑی حد تک ادیب کی سماجی ذمے داری کی بحثیں اردو میں اس وقت ہوئیں جب خود ہندستان ہی کے بیش تر لوگ وزیرِاعظمِ ہندستان کو ملکۂ وکٹوریہ کا نمائندہ سمجھتے تھے اسی لیے جس دور میں ادب کی یا ادیب کی سماجی ذمے داری سے متعلق بحثیں اردو کے خواص پسند اور چند سو کی اشاعت والے مقتدر علمی جرائد میں ہوتی تھیں اس وقت بھی اردو کے دو چار انگریزی داں چودھری براہِ راست انگریزی میں یا فرینچ وغیرہ کے انگریزی ترجمے پڑھ کر اردو میں اصل بیانات کو جس طرح چاہتے تھے اپنے امریکی آقا یعنی سی آئی اے کے حکم کے مطابق مسخ کرکے یہ ثابت کردیتے تھے کہ ادیب سے سماجی ذمے داری کی توقع کرنے والے لوگ اول درجے کے احمق ہیں۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سی آئی اے کے ان ایجنٹوں کی تحریروں کے بیش تر قاری اور شرکا یونی ورسٹیوں کے اردو شعبوں یا ملحقہ کالجوں میں اردو کے مطلق جاہل استاد تھے۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے 1955 کے آس پاس اردو اساتذہ کے طور پر بھرتی ہونے والوں کو جہلا کی پہلی نسل کہا ہے یعنی اب ان کی پانچویں نسل برسرِکار ہے۔ ان تمام بحثوں میں اصل شرکا یہ جہلا یا ان کے وہ جاہل شاگرد ہی رہے ہیں جو ان بحثوں کے زمانے میں دوسری یا تیسری نسل کے طور پر یونی ورسٹیوں میں بہ حیثیت استاد درس و تدریس کی خدمات انجام دے رہے تھے۔ اس بحث کو چھیڑنے کا میرا مقصد صرف یہ ہے کہ ہندستان کے تبدیل شدہ منظرنامے میں سماج آپ سے تحرک کا مطالبہ آج پہلے سے کہیں زیادہ کرتا ہے۔ میں یقین نہیں کرسکتا کہ جب آپ کا بیٹا قتل ہوجائے یا آپ کی نابالغ معصوم بیٹی کے ساتھ زنا ہو تو آپ پولس میں رپورٹ کرنے کے بجاے کسی اردو رسالے میں جو براہِ راست نہیں تو بالواسطہ حکومت ہی کے تعاون سے شائع ہوتا ہے، اس موضوع پر ادب کے حوالے سے کوئی مضمون لکھیں گے یا پھر حکومت سے باقاعدہ فنڈ حاصل کرکے سمینار منعقد کرکے اس موضوع پر بحث کریں گے کہ ادیب کے طور پر پولس کو مطلع کرنا اور ملزم کو کیفرِ کردار تک پہنچانا آپ کی ذمے داری نہیں ہے؟
تقسیم کے بعد جو سیاسی حالات ہندستان میں رونما ہوئے ان میں اردو اہلِ قلم کی وہ اکثریت جو خود کو ہندستان میں اردو کی سیکولر سیاست کا حامی کہلوانا پسند کرتی تھی، اس کی ذہنی ساخت اور علمی صلاحیت اس درجے کی تھی ہی نہیں کہ وہ ہندو پاکستان کے درمیان واقعتا کسی پل کا کام کرسکے۔ ہندو پاکستان کے تعلقات کی بات تو چھوڑیے، تقسیم کے بعد ہندستان کے اردو ادیب بدترین سانحات کے وقت بھی کسی قسم کے سماجی تحرک میں شامل نہیں رہے۔ گجرات 2002 کے حد درجہ شرم ناک اور فسطائیت کی تمام حدود کو پار کرجانے والے واقعات کے بعد ہندستان کے اردو ادیبوں نے کسی تحرک کا مظاہرہ سرے سے نہیں کیا۔ دوسری زبانوں کے ادیبوں کے ذریعے جاری کی گئی بعض اپیلوں پر اردو اہلِ قلم نے دستخط کرکے اس کی بہ قلم خود ایسی تشہیر کی کہ اردو کے ان زعما کے بیانات پڑھنے والوں کو شرم آگئی۔
ہند و پاکستان دو مختلف سیاسی تہذیبیں:
ہند و پاکستان واضح طور پر دو مختلف ممالک ہیں، دو سیاسی تہذیبیں ہیں۔ سیاسی تہذیبیں اگر معاشرتی عناصر کے ساتھ مذہب سے بھی متاثر ہوتی ہیں — جو ضرو ر ہوتی ہیں — تو پاکستان کی موجودہ تہذیب جو اسلام کے اس انتہاپسند اور علاحدگی پسند ماڈل کا نتیجہ ہے جس نے بیسویں صدی کے نصفِ آخر کے تین دہوں میں تیل کی دولت کے بوتے پر نہ صرف اسلام کے انتہاپسند وہابی ماڈل کو جلا بخشی بلکہ وہابیت کے اس ماڈل کے خلاف جو مذہبی ردّعمل ہوا، اس سب کے بدترین مظاہر کا بھی پاکستان بہترین آئینہ خانہ ہے۔ لفاظی اور لسّانی سے قطعِ نظر حقیقت یہی ہے کہ تقسیمِ ہندستان کے وقت ہندستان سے پاکستان ہجرت کرنے والے مسلمان ہندستان میں ڈنڈے مار کر گھروں سے باہر نہیں نکالے گئے تھے، وہ اپنی مرضی سے اسلامی مملکت کی تلاش میں وہاں گئے تھے۔ پاکستان کا سیاسی طور پر جو حشر ہوا یا وہاں جس قسم کا عجیب الخلقت معاشرہ وجود میں آیا وہ بھی کوئی عجوبہ نہیں۔ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والا برِصغیر کا یہ خطہ بھی دنیا کے ان مذہبی ممالک میں سے ایک بن گیا جنھوں نے مذہب کے زیرِاثر جمہوریت کو ملعون کرکے اسلام کے نام پر خود کو ملاؤں کے حوالے کردیا تھا۔ بیش تر مسلم ممالک کی طرح مسلکی تنازعات کی اجارہ داری، عدم تحمل، مذہبی شدت اور تشدّد، خواتین کے حقوق کا استحصال، یہ تمام برائیاں اپنی انتہا کے ساتھ ملا کی مملکتِ پاکستان میں مذہب کے استحصال کے توسط سے عام ہوئیں۔ یوں اگر پاکستان میں ہر طرف ایسی ہی خبریں دکھائی دیتی ہیں جن میں مندرجۂ بالا امور ہی قابلِ ذکر ہوں تو اس میں تعجب کی بات کچھ نہیں۔ پاکستان حالاں کہ وہ جدید ترین ملک ہے جو مذہب کے نام پر دورِ جمہور میں قائم ہوا مگر اس میں وہ تمام برائیاں موجود ہیں جو دورِ جاہلیت کے اسلامی ممالک میں پائی جاتی ہیں۔ اپنی اسی خوبی کے سبب اس نے بنگلہ دیش نام کے ایک اور مسلم ملک کو جنم دیا جو مذہبی شدت پسندی میں پاکستان ہی کے نقشِ قدم پر چل رہا ہے؛ نقشِ ثانی کو نقشِ اول سے بہتر ہونا ہی چاہیے۔
پس ثابت ہوا کہ …:
جیساکہ میں نے ابتدا ہی میں عرض کردیا تھا کہ میرے معروضات کا موضوع ہندستان تک محدود ہے یعنی ہندستان کے وہ اردو اہلِ قلم جن سے ہندو پاکستان کے تعلقات میں کسی قسم کا مثبت رول ادا کرنے کی امید کی جاتی ہے، ان کے رویوں سے بحث اس مقالے کے مندرجات کا مرکزی خیال ہے۔ اپنے معروضات کے درمیان میں نے اس امر پر بھی اظہار خیال کیا کہ اردو کی اسلامی روایت کے امین پاکستان کے اردو اہلِ قلم کی اکثریت اقتدار کی غلام گردشوں کی اسیر ہے۔ میرا بنیادی موضوع چوں کہ پاکستان نہیں ہے یوں میں نے ایسے واقعات کے تفصیلی ذکر یا تفصیلی تجزیے دونوں ہی سے گریز کیا جب پاکستان کے اردو اہلِ قلم ہندستان کی دشمنی میں نریندر مودی جیسے بیان دیتے رہے۔ اس قسم کے بیانات اتنی وافر تعداد میں موجود ہیں کہ انھیں سیلاب سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ فیض احمد فیض کے علاوہ پاکستان کے تقریباً ہر قابلِ ذکر اردو اہلِ قلم نے کسی نہ کسی موقعے پر ہندستان کے خلاف زہر اگلا ہے۔ بعض مواقع مثلاً قیامِ بنگلہ دیش کے وقت تو پاکستان کے اردو اہلِ قلم نے من حیث القوم ایسی زہرِ افشانی کی کہ توبہ بھلی۔ کسی نہ کسی موقعے پر ہندستان کے خلاف گل افشانیِ گفتار کرنے والوں کی فہرست میں آپ کو احمد فراز جیسے ترقی پسند شاعروں کے نام نامی بھی آسانی سے اور نمایاں طور پر مل جائیں گے۔ ہجوگویان کے اس گلّے میں1971 کے بہت بعد تک انتظار حسین بھی شامل رہے۔ اس مقالے میں، میں نے تخصیص کے ساتھ پاکستان میں اردو کے اس رول پر بھی تفصیل سے لکھنے سے گریز کیا جو پاکستان کی دوسری زبانوں کو دبانے اور کچلنے میں اردو نے ادا کیا۔ مگر ان تمام موضوعات سے چوں کہ مکمل اغماز ممکن نہ تھا یوں میں نے ان موضوعات کے ذیل میں اگر لکھا بھی تو بس برسبیلِ تذکرہ ہی اور اپنے معروضات کو ہندستان میں اردو یعنی اردو ادب کے اہلِ قلم حضرات کے پاکستان سے متعلق ان چنیدہ رویوں کے ذکر تک محدود رکھا جو اس مقالے کے فریم ورک میں اہم تھے۔
میرے معروضات کا نتیجہ یہی ہے کہ ہندستان کے اہلِ اردو واقعتا کسی قسم کا کوئی رول ہندو پاکستان کے بہتر تعلقات میں اس لیے ادا نہیں کرسکتے کیوں کہ ان کی اکثریت ذہنی طور پر اسی قسم کی مسلمان ہے جس قسم کے مسلمانوں کی اکثریت پاکستان میں آباد ہے۔ ہندستان میں اردوداں مسلمانوں کی اکثریت کی دل چسپی بھی پاکستان میں مسلمانوں کی اکثریت کی طرح سب کو اپنی ہی طرح کا مسلمان بنانے میں ہے۔ ہندو پاکستان تعلقات کا اگر ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اس عمل میں ہندستان کے ہندو بھی شریک ہوں اور ہندستان سے پاکستان کی دوستی ایک ایسے ملک کے طور پر ہو جسے ہر حال میں اور اپنی تمام تر حدبندیوں کے باوجود سیکولر رہنا ہے، تو اس میں یقینا اسلامی خلقیے کی امین اردو کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوسکتی۔ اپنے اسلامی خلقیے کے ساتھ پاکستان جس قسم کے نئے تشدد پسند اسلامی بلاک کا رکن بن گیا ہے، اس کی مخالفت کرنے کے لیے جس conviction کی ضرورت ہے وہ بھی مع ترقی پسند اردو ادیبوں کے ہندستان میں اردو کے تمام ہی اہلِ قلم میں مفقود نظر آتا ہے۔ نہرو کا مشہورِ زمانہ قول ہے کہ سیکولر وہ شخص ہے جسے آپ بند کمرے میں کھرچ کر دیکھیں اور اس کے اندر سے مذہبی احمق برآمد نہ ہو۔ ہندستان میں اردو یعنی اردو ادب کے سکہ بند لکھنے والوں میں مع ترقی پسندوں کے مشکل ہی سے ایسا اشرف المخلوق برآمد ہوگا جو مذہبی احمق پن سے دور ہو۔
ہندستان میں اردو کی ادبی برادری اپنے خلقیے کے اعتبار سے ایک خاص قسم کے نسل پرست فرقے کا نام ہے۔ ہندستانی جمہوریت کی مجبوریوں نے تقسیم کے بعد اسے گنگا جمنی سیاسی نعروں میں ڈبکیاں لگوائیں؛ ہندستانی اہلِ اقتدار نے اس مشترکہ تہذیب کا قصیدہ بھی پڑھا جسے پارہ پارہ ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا؛ طفلانہ طریقے سے ہی سہی مگر جوش ملیح آبادی جیسے لوگوں کو اردو شو بوائز کے طور پر قومی منظرنامے پر نمایاں کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ کوئی نسخہ کارگر نہ ہوا۔ جلد ہی جوش نے جو تقسیم کے بعد کانگریس کے سب سے بڑے پوسٹر بواے تھے، مملکتِ خداداد کے لیے رختِ سفر باندھا، گنگا جمنی سیاسی نعروں کے دیگر مسلم مویدین مثلاً ساغر نظامی نے حکومتِ ہند کے ایوانوں میں پناہ لی اور مشترکہ تہذیب کا نعرہ بھی 1980 کے بعد اس وقت پوری طرح پارہ پارہ ہوگیا جب فرقہ وارانہ فسادات کے لامتناہی سلسلے کے نتیجے میں ہر چھوٹے بڑے شہر میں ہندو مسلم آبادی پر مرتکز علاقے الگ الگ آباد ہوئے۔
مسلم حسیت کی زبان کے طور پر اردو کے ساتھ ہندستان میں گڑبڑ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہندستان کے Political establishment نے آزادی کے بعد اردو کو تمام ہندستانی مسلمانوں کی نمائندہ زبان اس حقیقت سے واقفیت کے باوجود تسلیم کرلیا تھا کہ تبدیل شدہ منظرنامے میں اس زبان کے ساتھ عوامی ہندو hostility لازمی تھی۔ بہ الفاظِ دیگر ہندستان کے political establishment نے تقسیم سے hostile ہندووں کے سامنے اردو کو مسلمانوں کی مذہبی زبان کے طور پر بالکل ایسے ہی پیش کیا جیسے بھوکے شیر کے سامنے میمنہ ڈال دیا جائے۔ اردو کے مسلم خلقیے اور ہندو hostility نے اس ہندستانی سوسائٹی کو لسانی بنیادوں پر مزید تقسیم کیا جو ذات پات کے نظام میں پہلے ہی کسی بھی دوسرے معاشرے سے زیادہ اور شدید طور پر منقسم تھی۔ ہندو پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات کے لیے اردو یعنی اردوداں مسلمانوں کو استعمال کرنے سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اردوداں مسلمانوں کو ہندستان کی مشترکہ تعلیمی دولت، ثقافتی وراثت اور اقتصادی پالیسیوں سے فیص یاب ہونے والوں کی فہرست میں جیسے بھی ممکن ہو شامل کیا جائے۔ ہندستان جیسی پسماندہ اقتصادیات اور اردوداں مسلمانوں کے اپنے ماضی کے تئیں مریضانہ رویوں کے سبب یہ کام اردو والے خود کبھی نہیں کرسکیں گے۔ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کو خصوصی اقدام کرنے ہوں گے کہ سول سوسائٹی کی بقا، اس کے تحفظ اور اس کی قوت جن لوگوں کی اولین ترجیحات ہیں، وہ اردوداں مسلم معاشرے کے لیے ایسا کچھ کریں کہ خود اردو والے سول سوسائٹی کی تشکیل کے عمل میں شریک ہوجائیں؛ سول سوسائٹی کی برکتوں سے فیض یاب ہوکر لسانی فسطائیت اور مذہبی شدت پسندی کی لعنت سے باہر آسکیں۔ آخرش اس خواب کی معجزہ نما تعبیر صرف ترقی پسند سیاست کے ذریعے ممکن ہے جس کی طرف ابھی کوئی عملی پیش قدمی کسی طرف سے نہیں ہوئی۔یہ بڑا مشکل کام ہے۔ ایک پھوڑا ہے جس نے کینسر کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اس پھوڑے کو چھونے سے ہر شخص ڈرتا ہے۔
اردو ادب کی حد تک اس تشدد اور دہشت گردی پر گفتگو کرنے کے بجاے جس کے لیے اردو کا استعمال زبان کے طور پر کیا گیا، اردو کے کسی ادیب سے کسی عملی Political initiative کی توقع کی ہی نہیں جاسکتی۔ ادب کا سہارا لے کر بے عملی کا کینسر اردو کے نام نہاد ادبی معاشرے کے پورے وجود میں سرایت کرگیا ہے۔ اس کارِ خیر کے لیے حکومتِ ہند کی فنڈنگ صوبائی حکومتوں سے لے کر مرکزِ ہندستان دلی تک سب جگہ بہ آسانی اور وافر موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس پھوڑے کو کیسے چھیڑا جائے کہ اس کی جراحی ہوسکے۔ ٹیکس دہندہ کے پیسے کو مالِ غنیمت سمجھ کر اسے خرد برد کرنے والوں میں ہندستان کے نام نہاد ترقی پسند کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔
اس پھوڑے کو چھیڑنے کا عمل مگر ناگزیر ہے۔ یہ بھی طے ہے کہ اس عمل سے نقصان ضرور ہوگا ممکن ہے جسم کا کچھ حصہ یا بڑا حصہ کاٹنا پڑے لیکن یہ سب کرکے بھی اگر دماغ کو بچایا جاسکے تو یہ سول سوسائٹی کی بڑی خدمت ہوگی۔ برِصغیر ہندو پاکستان کی مسلم آبادی کا اتنا بڑا حصہ ہندستان میں آباد ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں فیصلہ کن رول ادا کرسکتا ہے مگر وہ اب مکمل طور پر فرقہ پرست مسلم سیاست میں تبدیل ہوچکا ہے؛ ہر طرح کی بین الاقوامی مسلم دہشت گردی کا دل سے ہم نوا ہے۔ ترقی پسند لفظ سے چڑ اس کی سرشت میں ہے اور ترقی پسند سیاست کے ساتھ اس کا اینٹ اور گھڑے جیسا بیر ہے۔ اگر اس اردو فرقہ پرستی کا ہم مقابلہ کرسکیں تو شاید کل کسی اور موجِ خوں کے سر پر سے گزرنے کا خطرہ ٹل جائے، ایک اور پاکستان یا پھر ایک اور بنگلہ دیش بن کر کوئی ملک، آبادی کا کوئی حصہ اسلامی بم میں تبدیل ہونے سے بچ جائے۔
ہندستان کا اردو داں معاشرہ جس روز ترقی پسند سیاست کا ہم نوا ہوگیا باقی خطرات اپنے آپ ٹل جائیں گے، ہند و پاکستان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا تناور درخت زمین پر آرہے گا۔ کچھ لوگوں کو اگر اس بات کا دعوا ہے کہ وہ ہند و پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات کے حامی ہیں تو انھیں صرف ایک ہی کام کرنا ہے اور وہ کام ترقی پسند سیاست کی کھلی حمایت کرنے کا کام ہے جس کے لیے ہر قدم پر خطرات ہیں۔ اس عمل میں سب سے بڑا خطرہ Populist approach سے ہے جو automatic resistance کے لازمی component کا کام کرتی رہی ہے۔ ہندستان کے اردوداں معاشرے نے جس روز ترقی پسند سیاسی عمل میں شرکت کی طرف پیش قدمی کی، ہند و پاکستان کے تعلقات اپنے آپ ٹھیک ہوجائیں گے۔ یہ کام مگر کب ہوگا، ہوگا بھی یا نہیں، یہ بات کم سے کم مجھے نہیں معلوم۔
(بمبئی یونی ورسٹی کے سیمینار منعقدہ 5-7 مارچ 2007 میں پڑھا گیا۔ دراصل یہ میرے نوٹس ہیں اور مجھے انھیں ایک مضمون کی شکل میں ترتیب دینے کا موقع نہیں ملا۔)
***
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں