بدھ، 30 مارچ، 2016

وجود کی ناقابلِ برداشت لطافت(حصہ دوم)/میلان کنڈیرا

(دوسرا حصہ : روح اور جسم )

(۱)
مصنف کا قاری کو یہ باور کرانے کی کوشش کرنا مہمل ہو گا کہ اس کے کرداروں کا کبھی حقیقی وجود رہا ہے۔ یہ کسی ماں کی کوکھ سے پیدا نہیں ہوئے ہیں بل کہ ان کا وجود تو ایک بنیادی صورتِ حال کے دو ایک تحریک آور فقروں کا رہینِ منت ہے۔ توماش "Einmal ist keinmal" کا زائیدہ تھا اور تیریزا پیٹ کی گڑگڑاہٹ سے پیدا ہوئی تھی۔
جب وہ پہلی بار توماش کے فلیٹ آئی، تو اس کے پیٹ میں گڑگڑاہٹ ہونے لگی۔ اس میں تعجب کی کیا بات ہے، ناشتے کے بعد سے ایک سینڈوچ کے علاوہ، جو گاڑی میں سوار ہونے سے پہلے پلیٹ فارم پر بڑی جلدبازی میں حلق سے اتارا گیا تھا، اس نے کچھ اور نہیں کھایا تھا۔ اس کی ساری توجہ تو آنے والے سفر پر مرتکز تھی، جس میں اسے کھانے پینے کا خیال نہیں رہا تھا۔ لیکن جب ہم جسم سے غافل ہو جاتے ہیں تو زیادہ آسانی سے اس کا شکار بن جاتے ہیں۔ توماش کے سامنے کھڑے اپنے پیٹ کا احتجاج سنتے ہوئے اسے سخت برا لگ رہا تھا۔ اس کا جی چاہا کہ روپڑے۔ خوش قسمتی سے چند لمحوں بعد توماش نے اپنی بانہیں اس کے گرد ڈال دیں اور وہ اپنے شکم سے اٹھتی ہوئی آوازوں کو بھول بھال گئی۔

(۲)
سو تیریزا نے ایک ایسی صورتِ حال سے جنم لیا تھا جو بڑی بے دردی کے ساتھ جسم اور روح کی ناقابل مصالحت ثنویت کا انکشاف کرتی ہے، ایک بڑے بنیادی انسانی تجربے کا۔
ایک زمانہ ہوا کہ آدمی اپنے سینے میں دِل کی باقاعدہ دھڑکنوں کی آواز کو حیرت کے ساتھ سُنا کرتا تھا، ان کی ماہیت سے قطعی بے خبر۔ وہ جسم جیسی اتنی اجنبی اور نامانوس شے کے ساتھ خود کو نسبت دینے کا اہل نہیں تھا۔ جسم ایک قفس تھا، اور اس کے اندر کوئی چیز تھی جو دیکھتی، سنتی، خوف کرتی، سوچتی اور تعجب کرتی تھی۔ اور یہ چیز جسم کے حساب کتاب کے بعد باقی بچ رہنے والی چیز، روح تھی۔
آج، ظاہر ہے جسم نامانوس نہیں رہا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے سینے میں دھڑکنے والی چیز دل ہے اور ناک اس نلکی کی ٹونٹی ہے جو جسم سے باہر کو نکلی ہوئی ہے تاکہ آکسیجن کو پھیپھڑوں تک پہنچائے۔ چہرہ ایک آلہ جاتی پینل سے زیادہ نہیں جس کا کام ساری جسمانی عملیات (میکینزمس) کا اندراج کرنا ہے: ہضم، سماعت، تنفس، خیال۔
جب سے انسان نے جسم کے ہر عضو کوالگ الگ نام دینا سیکھ لیا ہے، جسم نے بھی اسے تنگ کرنا کم کر دیا ہے۔ آدمی نے یہ بھی سیکھ لیا ہے کہ روح حرکت پذیر دماغ کے خاکستری مادے کے علاوہ کچھ نہیں۔ جسم و روح کی یہ عجیب ثنویت سائنسی اصطلاحات میں دب دبا کر رہ گئی ہے، اور ہم اس کی ایک فرسودہ تعصب کے طور پر ہنسی اُڑا سکتے ہیں۔
لیکن کسی گرفتارِ محبت سے اپنے پیٹ کی گڑگڑاہٹ کو سننے کے لیے ذرا کَہ کر تو دیکھیں،جسم و روح کی وحدت، سائنسی عہد کا وہ غنائی التباس، چشم زدن میں رفوچکر ہو جائے گا۔

(۳)
تیریزا نے اپنے جسم کے ذریعے خود کو دیکھنے کی کوشش کی تھی۔ اسی لیے وہ بچپن ہی سے اکثر آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوتی۔ اور چوں کہ اسے اس بات سے خوف آتا تھا کہ کہیں اس کی ماں اس کی چوری نہ پکڑ لے، آئینے میں اس کی ہر تاک جھانک خفیہ برائی کا شائبہ لیے ہوتی۔
یہ خودنمائی کا احساس نہیں تھا جو اسے کشاں کشاں آئینے تک لے آتا تھا۔ یہ تو خود اپنے ’’میں‘‘ کو دیکھنے کی حیرت تھی۔ وہ بھول جاتی کہ اپنے جسم کی عملیات کے آلہ جاتی پینل کو دیکھ رہی ہے۔ اسے تو بس یوں لگتا جیسے وہ اپنی روح کو اپنے چہرے کے خط وخال سے جھلکتا ہوا دیکھ رہی ہو۔ وہ بھول جاتی کہ ناک محض ایک نلکی کی ٹونٹی ہے جو پھیپھڑوں کو آکسیجن پہنچانے پر مامورہے۔ یہ اسے اپنی فطرت کا حقیقی اظہار نظر آنے لگتی۔
اپنے سراپے کا دیر تک جائزہ لیتے ہوئے، کبھی کبھار وہ اپنے چہرے میں خود اپنی ماں کے خط و خال کا عکس دیکھ کر مضطرب ہو جاتی۔ پھر وہ کچھ اور بھی جم کر اپنے پیکر پر غور کرتی، اس کوشش میں کہ کچھ نہیں تو تصور ہی میں ماں کے خط و خال کو بے دخل کر دے، اور اسی کو باقی رہنے دے جو صرف اس کا اپنا ہے۔ اور جب کبھی وہ اس کوشش میں کام یاب ہو جاتی، تو یہ نشاط مدہوشی سے کم نہ ہوتا، اس کی رُوح اٹھ کر اس کے جسم کی سطح پر آ جاتی، جیسے کسی جہاز کے احشا سے یک بارگی نکل کر عرشے پر ہر طرف پھیلتا ہوا عملہ جو آسمان کی طرف ہاتھ لہرا رہا ہو اور مارے بہجت کے نغمہ سنج ہو۔

(۴)
وہ اپنی ماں پر جاتی تھی، اور صرف جسمانی اعتبار ہی سے نہیں، کبھی کبھی تو مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے اس کی پوری زندگی اس کی ماں کی زندگی ہی کا تسلسل ہو، بالکل اسی طرح جیسے بلیئرڈ کی میز پر گولوں کی دوڑ کھلاڑی کی بانھ کی حرکت کا تسلسل ہوتی ہے۔
یہ کہاں اور کب شروع ہوئی تھی، وہ حرکت جو آگے چل کر تیریزا کی زندگی میں بدل گئی؟
شاید اس وقت جب تیریزا کا نانا جو پراگ میں ایک بیوپاری تھا سب کو سنانے کے لیے اپنی بیٹی، یعنی تیریزا کی ماں کی خوب صورتی کے گن گانے لگا تھا۔ وہ جب تین یا چار سال کی تھی تو وہ اس سے کہا کرتا تھا کہ وہ ہو بہ ہُو رفائیل کی میڈونا کا پیکر ہے۔ تیریزا کی چار سالہ ماں یہ بات کبھی فراموش نہ کر سکی۔ جب وہ سکول میں ایک نوجوان لڑکی کی طرح اپنے ڈیسک سے لگ کر بیٹھتی تو استادوں کی کسی بات پر توجہ نہیں دیتی تھی، بس بیٹھی بیٹھی اسی خیال میں گم رہتی کہ وہ کن کن پینٹنگز جیسی ہے۔
پھر اس کی شادی کا وقت آیا۔ نو آدمی اس کے طلب گار تھے۔ وہ سب کے سب اس کے گرد دو زانو ہو گئے۔ کسی شہ زادی کی طرح ان کے درمیان کھڑے ہوئے اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ چُنے تو آخر کس کو چُنے۔ ایک سبھوں سے زیادہ شکیل و جمیل تھا، ایک اور سب سے زیادہ تیز فہم، تیسرا سب سے زیادہ مال دار، چوتھا سب سے زیادہ کسرتی جسم کا مالک، پانچواں بہترین خاندان کا سپوت، چھٹا شعر سناتا تھا، ساتواں خوب گھوما پھراہوا تھا، آٹھواں وائلن بجاتا تھا اور نواں سب سے زیادہ مردانہ تھا۔ لیکن ان کے دو زانو ہونے کا انداز یک ساں تھا۔ ان سبھوں کے گھٹنوں پر ایک جیسے گٹے پڑے ہوئے تھے۔
بالآخر جب اس نے نویں کا انتخاب کر ڈالا تواس کی وجہ اتنی زیادہ اس کا مردانہ پن نہیں تھی جتنی یہ بات کہ جب جفتی کے دوران اس نے اس سے سرگوشی میں کہا تھا، ’’ذرا خیال رکھنا‘‘، تو اس نے جان بوجھ کر لاپروائی کا ثبوت دیا تھا، اور وہ اس سے شادی کرنے پر مجبور ہو گئی تھی کیوں کہ اسے کوئی ایسا ڈاکٹر نہ مل سکا تھا جو حمل گرانے پر راضی ہو جاتا۔ سو یوں تیریزا کا دنیا میں ورود ہوا ۔ ملک بھر سے متعدد رشتے دار بھاگے آئے تاکہ بچہ گاڑی پر جھک کر بچوں کی طرح تتلا تتلا کر باتیں کریں۔ لیکن تیریزا کی ماں نے بالکل اس طرح باتیں نہیں کیں۔ اس نے تو سرے سے بات ہی نہیں کی۔ اس نے دوسرے آٹھ طلب گاروں کے بارے میں سوچا جو سب کے سب نویں سے بہ درجہ ہا بہتر تھے۔
بیٹی ہی کی طرح تیریزا کی ماں بھی اکثر آئینے میں اپنا سراپا دیکھتی تھی۔ ایک دن اسے اپنی آنکھوں کے قریب جھریاں نظر آئیں اور فیصلہ کر ڈالا کہ اس کی شادی کے کوئی معنیٰ نہیں نکلتے۔ اسی زمانے میں اس کی ایک مردانہ صفات سے تہی آدمی سے ملاقات ہو گئی جس کے نامۂ اعمال میں جعل سازی کے کئی الزامات تھے۔ دو ناکام یاب شادیوں کا تو ذکر ہی کیا۔ اب اسے ان گٹے پڑے گھٹنوں والے طلب گاروں سے نفرت ہو گئی۔ منھ کا مزہ بدلنے کی خاطر اس کا جی چاہا کہ کبھی خود بھی کسی کے سامنے دو زانو ہو جائے۔ اور وہ شوہر اور تیریزا کو ان کے حال پر چھوڑ چھاڑ کر اپنے نئے دھوکے باز دوست کے آگے دو زانو ہو گئی۔
سب سے زیادہ مردانہ آدمی سب سے زیادہ پژمردہ آدمی بن گیا۔ اتنا پژمردہ کہ اب اسے کسی چیز کی پروا نہیں رہی۔ وہ جو ذہن میں ہوتا کھلم کھلا بک دیتا اور اشتراکی پولیس نے، جو اس کے بے دھڑک بیانات سے کھلبلا گئی تھی، اسے گرفتار کر لیا، مقدمہ دائر کر دیا، اور جیل میں ایک لمبی مدت کی قید کا فیصلہ سنا دیا۔ انھوں نے اس کے فلیٹ پر تالا ڈالا اور تیریزا کو اس کی ماں کے پاس بھیج دیا۔
جیل خانے میں تھوڑی ہی مدت گزارنے کے بعد وہ سب سے پژمردہ آدمی جاں بہ حق ہوا اور تیریزا اور اس کی ماں پہاڑوں کے قریب ایک چھوٹے سے شہر میں ماں کے دھوکے باز کے ساتھ رہنے چلی آئیں۔ دھوکے باز ایک دفتر میں کام کرتا تھا، اور تیریزا کی ماں ایک مکان میں۔ اس کی ماں نے تین بچے اور جنے۔ پھراس نے ایک بار اور آئینہ دیکھا اور دریافت کیا کہ وہ بوڑھی اور بدصورت ہو گئی ہے۔

(۵)
جب اسے یہ احساس ہوا کہ وہ سب کچھ کھو چکی ہے تو اس نے مجرم کی تلاش شروع کی۔ کسی سے بھی کام چل سکتا تھا: اس کا پہلا خاوند، مردانہ اور محبت کیے جانے سے محروم، جس نے اس کی سرگوشی میں کی ہوئی تنبیہ کی پروا نہیں کی تھی اس کا دوسرا خاوند مردانگی سے محروم لیکن بہت زیادہ چاہا جانے والا، جو اسے پراگ سے ایک چھوٹے سے شہر میں گھسیٹ لایا تھا اور ایک کے بعد ایک نئی عورت سے تعلق پیدا کر کے اسے مسلسل رقابت کے عذاب میں لٹکا رکھا تھا۔ لیکن ان دونوں کے باب میں وہ بے بس تھی۔ ایک تیریزا ہی وہ واحد متنفس تھی جو اس کی تھی اور فرار کرنے سے معذور، وہ یرغمال جو تمام مجرموں کا کفارہ ادا کر سکتی تھی۔
حقیقت میں کیا وہ خود اپنی ماں کی قسمت کا تعین کرنے کی اصلی مجرم نہیں تھی؟ وہ جو مردوں میں سے سب سے زیادہ مرد کے تخم اور عورتوں میں سے حسین ترین عورت کے بیضے کی مہمل مڈبھیڑ کا نتیجہ تھی؟ ہاں، یہ تیریزا کہلانے والا وہی بدشگون لمحہ تھا جس میں لمبے فاصلے کی وہ دوڑ، اس کی ماں کی زندگی، شروع ہوئی تھی جس کا پہلا قدم ہی غلط اٹھا تھا۔
تیریزا کی ماں اسے کبھی یہ یاد دلانے سے باز نہیں رہی کہ ماں ہونے کا مطلب ہر چیز کو قربان کرنا ہے۔ اس کے الفاظ میں صداقت کی گونج تھی، کیوں کہ اس کے پیچھے ایسی عورت کا تجربہ تھا جس نے اپنی بیٹی کی وجہ سے سب کچھ کھو دیا تھا۔ تیریزا سنتی اور یقین کر لیتی کہ ماں ہونا زندگی کی اعلیٰ ترین قدر ہے اور ماں ہونا ایک عظیم قربانی ہے۔ اور اگر ماں قربانی مجسم ہے، تو پھر ظاہر ہے بیٹی صرف ایک پاپ ہی ہو سکتی ہے، جس کی تلافی کا کوئی امکان نہ ہو۔

(۶)
ظاہر ہے تیریزا کو اس رات کی کہانی معلوم نہیں تھی جب اس کی ماں نے اس کے باپ کے کان میں سرگوشی کی تھی کہ ’’ذرا خیال رکھنا‘‘۔ اس کا احساس جرم گناہ اول ہی کی طرح مبہم تھا لیکن اس نے اس سے رہائی پانے کی مقدور بھر کوشش ضرور کی۔ اس کی ماں نے پندرہ سال کی عمر میں اسے اسکول سے اٹھا لیا اور تیریزا ویٹریس کی حیثیت سے کام کرنے لگی اور اپنی ساری آمدنی ماں کے حوالے کر دیتی۔ وہ اپنی ماں کی محبت کے حصول کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار تھی۔ وہ گھر چلاتی، اپنے بھائی بہنوں کی دیکھ بھال کرتی، اور اتوار کا سارا دن گھر کی صفائی اورگھر والوں کے کپڑے لتے دھونے میں گزارتی۔ یہ بڑی قابل رحم بات تھی کیوں کہ وہ اپنی جماعت کی ذہین ترین طالب علم تھی۔ وہ جب بھی کپڑے دھوتی، ٹب کے پاس ایک کتاب رکھ لیتی۔ صفحے الٹتے وقت دھلائی کا پانی ان پر ٹپکنے لگتا۔
گھر پر ایسی کوئی چیز نہیں تھی جسے شرم و حیا کہا جا سکے۔ اس کی ماں فلیٹ میں اپنے زیریں کپڑوں میں گھومتی پھرتی، کبھی انگیا کے بغیر اور کبھی، گرمیوں کے دنوں میں، مادرزاد برہنہ۔ اس کا سوتیلا باپ برہنہ جسم تو نہیں پھرتا تھا، لیکن جب بھی تیریزا غسل کر رہی ہوتی وہ غسل خانے میں ضرور نکل آتا۔ ایک بار تیریزا نے اندر سے چٹخنی چڑھا دی جس پر اس کی ماں طیش میں آ گئی تھی۔ ’’کیا سمجھتی ہو اپنے باپ کو، ہاں؟ تمھارے خیال میں وہ تمھارے حسن کا ایک ٹکڑا نوچ لے گا؟‘‘۔
(اس تصادم سے عیاں ہے کہ بیٹی سے نفرت شوہر پر شک و شبہ کرنے سے کہیں زیادہ تھی۔ بیٹی کا جرم لامنتہا تھا، جس میں شوہر کی بے وفائیاں بھی شامل تھیں۔ تیریزا کی یہ خواہش کہ رہائی پائے اور اپنے حقوق پر اصرار کرے۔جیسے غسل خانے میں اندر سے قفل لگا لینے کا حق۔اس کی ماں کی نظروں میں شوہر کے تیریزا میں شہوانی دل چسپی لینے کے امکان کے مقابلے میں زیادہ قابل اعتراض تھی)۔
ایک بار سردیوں میں جب گھر میں روشنیاں جل رہی تھیں اس کی ماں نے برہنہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ تیریزا نے جھپٹ کر پردے کھینچ دیے کہ کہیں کوئی سڑک کے پار سے اسے دیکھ نہ لے۔ اسے اپنے پیچھے ماں کا قہقہ سنائی دیا۔ اگلے روز ماں نے کچھ دوستوں کو مدعو کیا ہوا تھا: ایک ہمسائی، جو اس کی ہم کار تھی، مقامی اسکول کی ایک ناظمہ، اور دو یا تین اور عورتیں جو عام طور پر باقاعدہ ملا کرتی تھیں۔ تیریزا اور ان میں کی کسی ایک عورت کا سولہ سالہ لڑکا ایک بار سلام علیک کرنے اندر آئے اور ماں نے ان کی موجودگی سے فوری فائدہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ تیریزا نے کیسے ماں کی شرم و حیا کی حفاظت کی تھی۔ وہ ہنسی اور بقیہ عورتیں بھی ہنسی میں شامل ہو گئیں۔ ’’تیریزا اس بات سے مفاہمت نہیں کر سکتی کہ انسانی جسم پیشاب اور ریح خارج کرتا ہے،‘‘ اس نے کہا۔ تیریزا لال بہوٹی ہو گئی، لیکن اس کی ماں بھلا کب چپ ہونے والی تھی۔ ’’اس میں ایسی کیا بری بات ہے؟‘‘ اور اپنے سوال کے جواب میں اس نے بڑے زور سے گوز ماری۔ ساری عورتیں ایک بار پھر ہنسنے لگیں۔

(۷)
ماں زور سے ناک سِنکا کرتی، لوگوں سے کھلے بندوں اپنی جنسی زندگی کی باتیں کرتی، اور اپنے نقلی دانتوں کی نمائش سے لطف اٹھاتی۔ اسے انھیں اپنی زبان کی گردش سے ڈھیلا کرنے میں مہارت حاصل تھی، اور ایک کشادہ مسکراہٹ کے ساتھ اوپری چوکھٹے کو زیریں چوکھٹے پر اس طرح گرا دیتی کہ جس سے اس کا چہرہ خاصا مکروہ نظر آنے لگتا۔
اس کا طرز عمل بس ایک عظیم الشان اشارہ تھا، حسن و شباب سے پیچھا چھڑانے کا۔ ان دنوں میں جب اس کے نوطلب گار اس کے گرد دائرے کی صورت گھٹنے ٹیک رہے تھے، وہ بڑے خوف و ہراس کے ساتھ اپنی برہنگی کی حفاظت کیا کرتی تھی، یوں جیسے اپنے جسم کی قدروقیمت کا اظہار اس شرم و حیا کے ذریعے کر رہی ہو جسے وہ اس سے ملتزم سمجھتی تھی۔ اب وہ اس شرم و حیا ہی کو نہیں کھو بیٹھی تھی، اس نے تو فیصلہ کن طور پر اس سے اپنا ناتا ہی توڑ لیا تھا، اپنی نویافتہ بے حیائی کو اپنی زندگی کے بیچ میں ایک حد فاصل کی طرح استعمال کرتے ہوئے اور یہ اعلان کرتے ہوئے کہ شباب اور حسن کی ارزش میں مبالغے سے کام لیاجاتا ہے اور کہ یہ مہمل ہیں۔
تیریزا مجھے اسی اشارے کا تسلسل معلوم ہوتی ہے جس کے ذریعے اس کی ماں نے ایک نوجوان حسینہ کے طور پر اپنی زندگی کو اتار پھینکا تھا، اپنے پیچھے کہیں بہت دُور۔
(اور اگر تیریزا کی حرکت کرنے کے انداز میں ایک اضطرابی کیفیت ہے، اگر اس کے اشاروں میں ایک مخصوص پرسہولت تمکنت کی کمی ہے، تو ہمیں اس پر حیران نہیں ہونا چاہیے: اس کی ماں کی پُرشکوہ، وحشت انگیز اور خود تخریبی روش اس پر اپنا ان مٹ نقش چھوڑ گئی ہے)۔

(۸)
تیریزا کی ماں انصاف مانگتی تھی۔ وہ مجرم کو سزا بھگتتے دیکھنا چاہتی تھی۔ اسی لیے وہ اس پر مصر تھی کہ اس کی بیٹی بے حیائی کی دنیا میں اس کا ساتھ دے، جہاں شباب اور حسن کی کوئی وقعت نہیں ہوتی، جہاں زندگی جسموں کے ایک وسیع کونسن ٹریشن کیمپ کے علاوہ کچھ نہیں، ایک بالکل دوسرے جیسا، اور ایسی روحوں کے ساتھ جو غیر مرئی ہوں۔
اب ہم تیریزا کے پُراسرار عیب کا مفہوم بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں، اس کا دیر دیر تک آئینے میں اپنا جائزہ لینا۔ یہ اس کی اپنی ماں کے خلاف جنگ تھی۔ یہ ایک ایسا جسم ہونے کی آرزو تھی جو دوسرے جسموں سے مختلف ہو، یہ دیکھنے کا ارمان کہ اس کے چہرے کی سطح پر روح کے عملے کا وہ عکس ہے جو دندناتا ہوا نیچے سے اوپر آ رہا ہو۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا: اس کی روح ۔اس کی غم زدہ جھجھکو ،منکسر روح۔اس کے شکم کی گہرائیوں میں چھپی بیٹھی تھی اور اپنے کو ظاہر کرنے پر شرم سار تھی۔
اور اس کی یہی حالت اس دن بھی تھی جب وہ پہلی بار توماش سے ملی۔ ہوٹل کے ریستوران میں مست شرابیوں کے بیچ سے اپنا راستہ بناتا ہوا اس کا جسم ٹرے پر دھری بیئر کی بوتلوں اور گلاسوں کے دباؤ سے خم کھانے لگا، اور اس کی روح پیٹ یا لبلبے کی سطح کے پاس کہیں امڈ آئی۔ دریں اثنا توماش نے اسے بلایا۔ اس بلاوے کی بڑی وقعت تھی کیوں کہ یہ ایک ایسے آدمی کی طرف سے آ رہا تھا جو نہ اس کی ماں سے واقف تھا نہ ان شرابیوں سے جو روز ہی اپنے گھسے پٹے فحش کلمات دہرانے کے عادی تھے۔ اس کی اس حیثیت نے کہ باہر کا فرد ہے اس کا رتبہ اوروں سے بلند کر دیا تھا۔
اس کے علاوہ ایک شے اوربھی تھی جو اس کے رتبے میں اضافہ کر رہی تھی: اس کے سامنے میز پر ایک کتاب کھلی ہوئی تھی۔ اس ریستوران میں اس سے پہلے کسی نے کتاب نہیں کھولی تھی۔ تیریزا کی نظروں میں کتابیں ایک خفیہ برادری کا عَلم تھیں۔ اپنے چاروں طرف پھیلی ہوئی ناشائستہ اور غلیظ دنیا کے خلاف اس کے پاس بس ایک ہی حربہ تھا۔وہ کتابیں اور خاص طور پر ناول، جو وہ بلدی کتب خانے سے مستعار لے آتی تھی۔ اس نے کتنے ہی پڑھ ڈالے تھے ،فیلڈنگ سے لے کر تو مس مَن تک۔ یہ کتابیں اسے ایک ایسی زندگی سے جو اسے غیر مطمئن لگتی تھی خیالی فرار کا امکان ہی نہیں مہیا کرتی تھیں، اس کے لیے مادی اشیا کی حیثیت سے بھی بامعنی تھیں، بغل میں کتاب دبائے سڑکوں پر چلنے سے اسے عشق تھا۔ اس کے نزدیک کتاب کی وہی اہمیت تھی جو سو سال پہلے ایک نفیس بید کی کسی طرح دار]ڈینڈی[ کے لیے ہوا کرتی تھی۔ یہ اسے دوسروں سے ممیز کرتی تھی۔
(کتاب کا طرح دار کی نفیس بید سے موازنہ پوری طرح درست نہیں ہے۔ ایک طرح دار کی بید اسے ممیز سے کچھ زیادہ ہی کرتی تھی۔یہ اسے جدید اور مروجہ مذاق کے مطابق]اپ ٹو ڈیٹ[‘ بناتی تھی۔ کتاب تیریزا کو مختلف تو ضرور بناتی تھی لیکن فرسودہ مذاق رکھنے والی بھی۔ اس میں شک نہیں کہ وہ اپنی کم عمری کے باعث یہ دیکھنے سے قاصر تھی کہ دوسروں کو کیسی نظر آتی ہے۔ ٹرانزسٹر ریڈیو اپنے کان سے بھڑائے برابر سے گزرتے ہوئے نوجوان اسے نہایت گاودی معلوم ہوتے تھے۔ یہ خیال اسے کبھی نہیں آیا کہ وہ جدید تھے)۔
سو جو آدمی اسے بلا رہا تھا وہ بہ یک وقت ایک اجنبی بھی تھا اور خفیہ برادری کا رکن بھی۔ اس نے اسے بڑی شرافت سے بلایا تھا، اور تیریزا کو اپنی روح رگوں اورپوروں سے دیوانہ وار اُبل کر سطح پر آتی ہوئی محسوس ہوئی تاکہ خود کو اس کے سامنے کھول کر رکھ دے۔

(۹)
زیورچ سے پراگ لوٹ آنے کے بعد توماش کو اس بات سے بے اطمینانی محسوس ہونے لگی کہ تیریزا سے اس کی واقفیت چھہ عدد بعید از امکان اتفاقات کا نتیجہ ہے۔
لیکن حقیقت میں ایک واقعے کو معرضِ وجود میں لانے کے لیے جتنے زیادہ ناگہانی حادثات کی ضرورت ہو تو کیا ٹھیک اسی اعتبار سے وہ واقعہ زیادہ اہم اور قابل ذکر نہیں ہوتا؟
اتفاق اور صرف اتفاق ہمارے لیے ایک پیغام کا حامل ہوتا ہے۔ ہر چیز جو ضرورت کے تحت واقع ہوتی ہے، ہر چیز جو متوقع ہوتی ہے، باقاعدگی سے روز روز دہرائی جاتی ہے، گونگی ہوتی ہے۔ صرف اتفاق ہی ہم سے کلام کر سکتا ہے۔ ہم اس کا پیغام اسی طرح پڑھتے ہیں جس طرح خانہ بہ دوش]جپسی[پیالی کی تہ میں قہوے کی تلچھٹ سے بننے والی اشکال کو۔
ہوٹل کے ریستوراں میں توماش تیریزا کو ایک خالص اتفاق کی طرح نظر آیا تھا۔ وہ وہاں بیٹھا ایک کھلی ہوئی کتاب کے مطالعے میں غرق تھا کہ اچانک نظر اس کی طرف اٹھائی، مسکرایا، اور کہا ’’ایک کونیاک، بہ راہِ مہربانی‘‘۔
اس وقت اتفاق سے ریڈیو پر موسیقی آ رہی تھی۔ کونیاک لینے کاؤنٹر کے پیچھے جاتے ہوئے تیریزا نے ریڈیوکی آواز اونچی کر دی۔ وہ پہچان گئی کہ بیتھوون ہے۔ وہ اس کی موسیقی سے اس وقت سے واقف تھی جب پراگ کا ایک اسٹرنگ کوارٹیٹ ان کے شہر آیا تھا۔ تیریزا (جو جیسا کہ ہمیں معلوم ہے، کسی ’’ارفع چیز‘‘ کی آرزومند تھی) کونسرٹ سننے گئی۔ ہال تقریباً خالی تھا۔ دیگر سامعین میں صرف مقامی دوا فروش اور اس کی بیوی ہی تھے۔ اور اگرچہ اسٹیج پر چار موسیقی نوازوں کے سامنے صرف تین سامعین ہی تھے، انھوں نے از راہ عنایت کونسرٹ منسوخ نہیں کیا، اوربیتھوون کے آخری تین کوارٹیٹس پر مشتمل ایک انفرادی پروگرام پیش کیا۔
پھر دوافروش نے موسیقاروں کو کھانے پر مدعو کیا اور سامعین میں شامل لڑکی کو بھی ساتھ آنے کے لیے کہا۔ اس وقت سے بیتھوون اس کے لیے اس دنیا کا پیکر بن گیا تھا جو دوسری جانب آباد تھی۔ وہ دنیا جس کی اسے حسرت تھی۔ توماش کی کونیاک اٹھائے کونے کے ساتھ مڑتے ہوئے اس نے اتفاق کے پیغام کو پڑھنے کی کوشش کی: یہ کیسے ممکن تھا کہ ٹھیک جس لمحے وہ ایک پُرکشش دکھائی دینے والے اجنبی کے لیے کونیاک کے آرڈر کی تعمیل کر رہی تھی اسے بیتھوون سنائی دیا؟
ضرورت کوئی جادوئی قاعدے نہیں جانتی۔یہ سب تو اتفاق کے حصے میں آتے ہیں۔ اگر ایک محبت کو ناقابل فراموش ہونا ہے تو پھر اتفاقات کو فوراً پھڑپھڑاتے ہوئے اس کی طرف اس طرح اُڑ کر آنا چاہیے جس طرح پرندے فرانسیس اسیسی کے کندھوں کی طرف آتے تھے۔

(۱۰)
اس نے اسے کونیاک کی قیمت ادا کرنے کے لیے واپس بلایا۔ اپنی کتاب (خفیہ برادری کی علامت) بند کی، اور تیریزا کو خیال آیا کہ پوچھے کیا پڑھ رہا ہے۔
’’کیا تم بل میرے کمرے کے اخراجات میں شامل کر سکتی ہو؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ہاں‘‘۔ اس نے جواب دیا ’’آپ کس نمبر کے کمرے میں ٹھہرے ہوئے ہیں؟‘‘۔
اس نے اپنی کنجی دکھائی، جو ایک چوبی ٹکڑے سے نتھی تھی جس پر چھہ کا عدد سرخ رنگ سے لکھا ہوا تھا۔
’’یہ عجیب بات ہے‘‘۔ وہ بولی ’’چھہ‘‘۔
’’اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟‘‘۔ اس نے پوچھا۔
تیریزا کو اچانک پراگ کا وہ گھر یاد آ گیا جس میں وہ لوگ اس کے والدین کی علاحدگی سے پہلے رہا کرتے تھے اور جس کا نمبر بھی چھہ تھا۔ لیکن اس نے جواب میں کچھ اور بتا دیا (جسے ہم اس کی چال بازیوں کی ذیل میں ڈال سکتے ہیں)۔ ’’آپ چھہ نمبر کے کمرے میں ٹھہرے ہوئے ہیں اور میری شفٹ چھہ بجے ختم ہوتی ہے‘‘۔
’’خیر، میری ٹرین سات بجے روانہ ہو گی‘‘ ، اجنبی نے کہا۔
اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ جواب میں کیا کہے، چناں چہ اس نے بل دست خط کرنے کے واسطے پیش کر دیا اور اسے لے کر ریسیپشن ڈیسک کی طرف چل دی۔ جب اس نے اپنا کام ختم کیا، اجنبی اب اور وہاں میز پر موجود نہیں تھا۔ کیا وہ اس کے محتاط پیغام کو سمجھ گیا تھا؟ وہ ایک ہیجان کے عالم میں ریستوراں سے نکلی۔
ہوٹل کے مقابل ایک چھوٹا خشک سا پارک تھا، اتنا ہی حقیر فقیر جتنا کسی چھوٹے سے شہر کا پارک ہو سکتا ہے، لیکن تیریزا کو یہ ہمیشہ ہی ایک جزیرۂ حسن نظر آیا تھا۔ اس میں گھاس تھی، سفیدے کے چار درخت ،بینچیں، ایک بیدِمجنوں اور فورستھیا کی چند جھاڑیاں۔
وہ ایک پیلے رنگ کی بینچ پر بیٹھا ہوا تھا جہاں سے ریستوراں میں داخلے کا دروازہ صاف نظر آ رہا تھا۔ عین وہی بینچ جس پر وہ پچھلے روز اپنی گود میں ایک کتاب کھولے بیٹھی تھی! اس وقت اسے معلوم ہو گیا (اتفاق کی چڑیاں اس کے شانوں پر اترنا شروع کر چکی تھیں) کہ یہ اجنبی اس کی تقدیر ہے۔ توماش نے اسے آواز دے کر بلایا ، اپنے برابر بیٹھنے کی دعوت دی۔ (اس کی روح کا عملہ تیزی سے کود کر اس کے جسم کے عرشے پر آ گیا) پھر وہ اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی اسٹیشن تک آئی، اور توماش نے الوداع کے طور پر اسے اپنا ملاقاتی کارڈ دیا ’’اگر کبھی تمھارا پراگ آنا ہو....‘‘

(۱۱)
اس کارڈ سے کہیں زیادہ جو اس نے آخری لمحے میں اس کی طرف بڑھا دیا تھا، یہ ان تمام اتفاقات کی پکار تھی (کتاب ،بیتھوون، نمبر چھہ، پارک کی پیلی بینچ) جس نے اسے اپنا گھر چھوڑنے اور اپنی قسمت کو بدلنے کی ہمت دلائی۔ ہو سکتا ہے یہ چند اتفاقات ہی ہوں (سرِ راہے واجبی سے، بل کہ بے کیف، جن کی ایک بے رونق شہر سے توقع کی جا سکتی ہے) جو اس کی محبت کو حرکت میں لے آئے تھے اور اسے توانائی کا ایسا وسیلہ فراہم کر دیا تھا جسے وہ آخر عمر تک پوری طرح صرف نہیں کر پائی تھی۔
ہماری روزمرہ کی زندگی پر اتفاقات کی بم باری ہوتی رہتی ہے یا، اگر زیادہ درست طریقے پر کہیں تو، لوگوں اور واقعات سے ہماری ناگہانی مڈبھیڑوں کی جنھیں ہم اتفاقات کا نام دیتے ہیں۔ ’’اتفاق‘‘ کا مطلب ہے کہ دو وارداتیں ناگہانی طور پر ایک ہی وقت میں واقع ہوں، وہ ملتے ہیں۔ توماش ہوٹل کے ریستوران میں ٹھیک اس وقت نمودار ہوتا ہے جب ریڈیو پربیتھوون کی موسیقی بج رہی ہے۔ ہم ایسے اتفاقات کی اکثریت پر سرے سے متوجہ ہی نہیں ہوتے۔ وہ کرسی جس پر توماش بیٹھا تھا اگر اس پر اس کی بہ جائے مقامی قصاب بیٹھا ہوتا تو تیریزا کی توجہ میں یہ بات کبھی نہیں آتی کہ ریڈیو پر بیتھوون کی موسیقی بج رہی ہے (اگرچہ بیتھوون اور قصاب کی ملاقات بھی ایک دل چسپ اتفاق ہوتی)۔ لیکن اس کی نوخاستہ چاہت نے اس کے احساس حسن کو مشتعل کر دیا تھا اور وہ ساری زندگی اس موسیقی کو نہیں بھولے گی۔ یہ اسے جب بھی سنائی دے گی، اس پر اثر کیے بغیر نہ رہے گی۔ اس لمحے اس کے گردوپیش میں رونما ہونے والی ہر چیز اس موسیقی کی بہ دولت ایک ہالہ نورمیں داخل ہو جایا کرے گی اور اس کا حسن اختیار کر لیا کرے گی۔
اس ناول کے شروع ہی میں جسے وہ بغل میں دبائے توماش سے ملنے گئی تھی ، انّا کی ورونسکی سے بڑے عجیب حالات میں ملاقات ہوتی ہے:دونوں ایک ریلوے اسٹیشن پر ہوتے ہیں کہ کوئی شخص گاڑی کے نیچے آ جاتا ہے۔ ناول کے اختتام پر،ا نّا خود کو ایک ریل گاڑی کے پہیوں کے نیچے ڈال دیتی ہے۔ یہ متناسب بندش۔آغاز اور اختتام دونوں میں ایک ہی خیال رونما ہوتا ہے۔شاید آپ کو خاصی ’’ناولی‘‘ معلوم ہو، اور میں اسے قبول کرنے کے لیے تیار ہوں، لیکن صرف اس شرط پر کہ آپ لفظ ’’ناولی‘‘ میں ’’خیالی‘‘، ’’گھڑنت‘‘ اور ’’خلافِ زندگی‘‘ جیسے تصورات کی بازگشت سننے سے احتراز کریں۔ یہ اس لیے کہ انسانی زندگیاں ٹھیک اسی روش پر تشکیل پاتی ہیں۔
یہ موسیقی کی طرح تشکیل دی جاتی ہیں۔ اپنے احساس حسن کی قیادت میں ایک فرد کسی ناگہانی واقعے (بیتھوون کی موسیقی، ریل کے نیچے آ کر موت) کو ایک خیال]موتیف[ میں بدل دیتا ہے، جو پھر اس فرد کی زندگی کی ترکیب میں ایک مستقل مقام اختیار کر لیتا ہے۔ انّا خودکشی کا کوئی اور راستہ بھی اختیار کر سکتی تھی لیکن موت اور اسٹیشن کے موتیف نے، جو محبت کی پیدائش سے ناقابل فراموش طریقے پر بندھا ہوا تھا، اسے مایوسی کی گھڑیوں میں اپنے تاریک حسن سے ترغیب دلائی۔ شدید ترین دل گیری کے لمحات میں بھی ایک فرد اپنی زندگی کی تشکیل محبت کے قوانین کے مطابق ہی کرتا ہے، گو اسے اس کا احساس نہیں ہوتا۔
چناں چہ پُراسرار اتفاقات (جیسے ا نّا، ورونسکی، ریلوے اسٹیشن، اور موت کی ملاقات یا بیتھوون، توماش، تیریزا اور کونیاک کی ملاقات) سے مسحور ہونے پر ناول کی سرزنش کرنا غلط ہے، ہاں ان روزمرہ کے اتفاقات سے کورچشمی کرنے پر ایک آدمی کی سرزنش کرنا بالکل درست ہے کیوں کہ اس صورت میں وہ اپنی زندگی کو حسن کے ایک بُعد سے محروم کر رہا ہوتا ہے۔

(۱۲)
اپنے شانوں پر پھڑپھڑاتی ہوئی اتفاقات کی چڑیوں سے تحریک پا کر تیریزا نے ہفتے بھر کی چھٹی لی اور اپنی ماں سے ایک لفظ بھی کہے بغیر، پراگ جانے والی ریل میں جا سوار ہوئی۔ دورانِ سفر، اس نے ٹوائلیٹ کے بار بار چکر لگائے تاکہ آئینے میں دیکھے اور اپنی روح سے منت سماجت کرے کہ وہ اس کی زندگی کے اس سب سے زیادہ اہم دن اس کے جسم کے عرشے سے ایک لمحے کے لیے بھی جدا نہ ہو۔ ٹوائلیٹ کے ایک چکر کے دوران اپنے سراپے کا جائزہ لیتے ہوئے وہ اچانک خوف سے سٹپٹا گئی: اسے اپنے حلق میں خراش سی محسوس ہوئی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ زندگی کے اس اہم ترین دن اسے کوئی بیماری لاحق ہو رہی ہے؟
لیکن اب واپس نہیں لوٹا جا سکتا تھا۔ چناں چہ اس نے اسٹیشن پر اُترتے ہی توماش کو فون کیا، اور جس دم توماش نے دروازہ کھولا اس کا پیٹ شدت سے گڑبڑانے لگا۔ وہ سخت شرمندہ ہوئی۔ اسے یوں لگا جیسے وہ اپنی ماں کو پیٹ میں لیے لیے پھر رہی ہو اور اسی نے توماش سے اس کی ملاقات میں بھنگ ڈالنے کے لیے قہقہ لگایا ہو۔
اولین چند ثانیوں تک اسے یہ خوف لاحق رہا کہ ان ناشائستہ آوازوں کے باعث جو اس سے خارج ہو رہی تھیں کہیں وہ اسے باہر ہی نہ نکال دے، لیکن پھر توماش نے اپنی بانہیں اس کے گرد ڈال دیں۔ وہ اپنی گڑگڑاہٹوں کو نظراندازکرنے پر اس کی ممنون تھی، اور بڑے جوش سے اسے چومنے لگی۔ اس کی آنکھیں کہرانے لگیں۔ پہلامنٹ گزرنے سے پہلے ہی وہ بھوگ میں جتے ہوئے تھے۔ اس وقت تک اسے تپ چڑھ چکا تھا۔ وہ فلو میں مبتلا ہو چکی تھی۔ پھیپھڑوں کو آکسیجن پہنچانے والی نلکی کی ٹونٹی ٹھساٹھس بھر گئی تھی اور سرخ پڑ گئی تھی۔
جب اس نے دوبارہ پراگ کا سفر کیا تو اس کے ساتھ ایک وزنی سوٹ کیس تھا۔ اس نے اپنی ساری چیزیں اس میں بھر لی تھیں اور مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ اب کبھی اس چھوٹے سے شہر لوٹ کر نہیں آئے گی۔ اس نے اسے اگلی شام اپنے گھر آنے کے لیے کہا تھا۔ وہ رات تیریزا نے ایک سستے سے ہوٹل میں گزاری۔ صبح ہونے پر وہ اپنا بھاری بھر کم سوٹ کیس لے کر اسٹیشن پہنچی، اسے وہاں چھوڑا، اور بغل میں ’’ انّا کرے نینا‘‘ دبائے سارا دن پراگ کی سڑکوں پر مٹرگشت کرتی رہی۔ دروازے کی گھنٹی بجاتے وقت اور جب توماش نے دروازہ کھولا اس وقت بھی اس نے کتاب بغل سے جدا نہیں کی۔ یہ توماش کی دنیا میں داخلے کے ٹکٹ کی طرح تھی۔ اسے احساس ہوا کہ اس کے پاس اس بدبخت ٹکٹ کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے، اور اس خیال سے اس کی آنکھیں تقریباً بھر آئیں۔ خود کو رونے سے باز رکھنے کے لیے وہ بہت زیادہ باتیں کرنے لگی اور خوب بلند آواز میں، اور وہ ہنسی بھی۔ اور توماش نے اسے ایک بار پھر اپنی آغوش میں لے لیا اور انھوں نے جفتی کی۔ وہ ایک کہر میں داخل ہو گئی تھی جس میں کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا اورصرف اس کی چیخیں ہی سنی جا سکتی تھیں۔

(۱۳)
وہ کوئی سرد آہ نہیں تھی، کوئی کراہ نہیں تھی۔وہ تو واقعی ایک چیخ تھی۔ وہ اتنے زور سے چیخی تھی کہ توماش کو اپنا سر اس کے چہرے سے دور کر لینا پڑا، اس ڈر سے کہ کان سے اتنے قریب اس کی آواز کہیں پردہ ہی نہ پھاڑ دے۔ وہ چیخ شہوت پرستی کا اظہار نہیں تھی۔ شہوت پرستی تو تمام حواس کے مکمل اجتماع کا نام ہے۔ ایک فرد اپنے شریک کو بڑے انہماک سے دیکھتا ہے، ہر ہر آواز کو پورا زور لگا کر گرفت میں لاتا ہے لیکن اس کی چیخ کا مدعا تو تمام حواس کو اپاہج کر دینا تھا، تمام بصارت اور سماعت کو معطل کر دینا تھا۔ جو چیز چیخ رہی تھی وہ اس کے عشق کی سادہ لوح مثالیت پسندی تھی جو تمام تضادات کو، جسم اور روح کی ثنویت کو، اور شاید وقت کو بھی بے دخل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
کیا اس کی آنکھیں مندی ہوئی تھیں؟ نہیں، لیکن وہ کسی طرف دیکھ بھی نہیں رہی تھی۔ اس نے تو انھیں چھت کے خلا میں جما رکھا تھا۔ اب تب وہ اپنا سر بڑی سختی کے ساتھ ایک طرف سے دوسری طرف جھٹکتی۔
جب چیخ ٹھنڈی پڑ گئی تو وہ اس کے پہلو میں ہی سو گئی، اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے پکڑے۔ وہ اس کا ہاتھ پوری رات پکڑے رہی۔
آٹھ سال کی عمر میں بھی وہ ایک ہاتھ کو دوسرے میں دبائے ہی سوتی اور تصور کرتی کہ اس نے اس آدمی کا ہاتھ پکڑا ہوا ہے جسے چاہتی ہے، وہ آدمی جو اس کی زندگی کا ماحصل ہے۔ تواگر اس نے اپنی نیند میں توماش کا ہاتھ اتنی سختی سے دبائے رکھا تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کیوں: وہ بچپن سے اس کی مشق کرتی آ رہی تھی۔

(۱۴)
ایک عورت جسے کسی ’’ارفع شے‘‘ کی جستجو کرنے کی اجازت دینے کی بہ جائے مست شرابیوں کو مسلسل بیئر مہیا کرنے اور بھائی بہنوں کو دھلے زیر جامے فراہم کرنے پر مجبور کر دیا جائے، وہ اپنے اندر توانائی کے بھاری ذخیرے جمع کر لیتی ہے، ایسی توانائی جس کا اپنی کتابوں کے اوپر جمائیاں لیتے ہوئے دانش گاہ کے طالب علموں نے کبھی تصور بھی نہ کیا ہو گا۔ تیریزا نے ان کے مقابلے میں کہیں زیادہ پڑھا تھا اور زندگی کے بارے میں کہیں زیادہ علم حاصل کیا تھا، لیکن اسے اس کا احساس کبھی نہیں ہو گا۔ دانش گاہ کے فارغ التحصیل اور اس شخص کے درمیان جس نے خود ہی پڑھا لکھا ہو فرق اتنا زیادہ وسعت علم میں نہیں ہوتا جتنا توانائی اور اعتماد کی وسعت میں۔ اس نے جس گرم جوشی کے ساتھ خود کو پراگ کی زندگی کے حوالے کر دیا تھا وہ شوریدہ اور خطرناک دونوں ہی تھی۔ اسے مسلسل یہی دھڑکا لگا ہوا تھا کہ کوئی دن جاتا ہے کوئی اس سے آ کر کہے گا، ’’تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ جہاں سے آئی ہو وہیں واپس چلی جاؤ!‘‘۔ زندگی سے اس کا سارا شوق بس ایک سوت کے تار سے لٹکا ہوا تھا: توماش کی آواز۔ کیوں کہ یہ توماش کی آواز ہی تھی جس نے ایک بار اس کی کچ دل روح کو اس کے شکم کی گہرائیوں سے بہلا پھسلا کے باہر نکالا تھا جہاں وہ روپوش ہو کے بیٹھی تھی۔
تیریزا کے پاس ڈارک روم کی ملازمت تھی، لیکن یہ اس کے لیے ناکافی تھی۔ وہ تصویریں کھینچنا چاہتی تھی، انھیں ڈیویلپ کرنا نہیں۔ توماش کی دوست سبینا نے اسے چند مشہور فوٹوگرافروں کی کتابیں مستعار دے دی تھیں، پھر اسے ایک کیفے میں مدعو کر کے کھلی ہوئی کتابوں میں اس چیز کی نشان دہی کی تھی جو ہر تصویر کو دل چسپ بناتی تھی۔ تیریزا خاموش ارتکاز سے سنتی رہی، ایسا ارتکاز جس کی جھلک کم ہی پروفیسروں کو اپنے شاگردوں کے چہروں میں نظر آتی ہے۔
سبینا کے طفیل ہی اسے پینٹنگ اور فوٹوگرافی کا فرق سمجھ میں آیا، اور اس نے توماش کو مجبور کیا کہ وہ اسے پراگ میں لگنے والی ہر نمائش دکھانے لے جایا کرے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی تصویریں اس مصور ہفتہ وار رسالے میں چھپنے لگیں جہاں وہ ملازم تھی۔ رفتہ رفتہ اسے ڈارک روم سے نجات ملی اور وہ بھی پیشہ ور فوٹوگرافروں کے طائفے میں شامل ہو گئی۔
اس دن شام کو وہ اور توماش دوستوں کے ساتھ ایک بار میں اس کی ترقی کی خوشی منانے کے لیے جمع ہوئے۔ سبھوں نے رقص کیا۔ توماش منھ چڑھائے بے کیفی سے الگ تھلگ کھڑا ہو گیا۔ گھر پر، تیریزا کے کریدنے پر، اس نے اعتراف کیا کہ اپنے ایک ہم کار کے ساتھ تیریزا کے رقص کرنے پر اسے رقابت محسوس ہوئی تھی۔
’’تمھارا مطلب ہے تمھیں واقعی رقابت محسوس ہو رہی تھی؟‘‘ کم از کم دس یا زائد بار اس نے استفسار کیا، بے یقینی سے، یوں جیسے ابھی ابھی کسی نے اسے اطلاع دی ہو کہ اسے نوبیل پرائز ملا ہے۔
پھر تیریزا نے اپنی بانہہ اس کی کمر کے گرد ڈال دی اور کمرے میں رقص کرنے لگی۔ یہ وہ جنبشِ پا نہیں تھی جس کا مظاہرہ اس نے بڑے رسان سے بار میں کیا تھا۔ یہ دیہاتی پولکا سے ملتی جلتی کوئی چیز تھی، ایک وحشیانہ دھماچوکڑی جس کے دوران اس کی ٹانگیں ہوا میں اچھل رہی تھیں اور دھڑ سارے کمرے میں گدے کھاتا پھر رہا تھا۔ ساتھ ساتھ توماش بھی کھنچا پھر رہا تھا۔
بہت وقت نہیں گزرا تھا کہ بدقسمتی سے وہ خود بھی رقابت محسوس کرنے لگی، اور توماش نے اس رقابت کو نوبیل پرائز نہیں گردانا، بل کہ ایک بوجھ سمجھا، ایسا بوجھ جو اس پر اپنی موت کے قریب آنے تک سوار رہے گا۔

(۱۵)
جب وہ تیرنے کے تالاب کے گرد برہنہ جسم دوسری برہنہ عورتوں کے ساتھ مارچ کر رہی تھی، توماش ان کے اوپر تالاب کی محرابی چھت سے لٹکی ہوئی ایک چنگیری میں کھڑا ہوا تھا، ان پر چلا رہا تھا، انھیں گانے اور اٹھک بیٹھک کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔ جس لمحے ان میں سے کسی نے بھی غلط اٹھک بیٹھک کی، وہ اسے گولی مار دے گا۔
مجھے اس خواب کی طرف مراجعت کی اجازت دیں۔ اس کی دہشت توماش کے پہلی بار پستول داغنے سے نہیں شروع ہوئی تھی؛یہ تو ابتدا ہی سے دہشت ناک تھا۔ ننگی عورتوں کے ساتھ ایک قطار کی صورت میں خود بھی برہنہ جسم مارچ کرنا تیریزاکے نزدیک دہشت کے پیکر کا جوہری عنصر تھا۔ جب وہ اپنے گھر رہتی تھی، اس کی ماں نے اسے غسل خانے کے دروازے کو اندر سے مقفل کرنے کی ممانعت کر رکھی تھی۔ اس نہی سے اس کی مراد یہ تھی: تمھارا جسم بالکل دوسرے جسموں کی طرح ہے؛ تمھیں شرم محسوس کرنے کا کوئی حق نہیں؛ تمھارے پاس ایک ایسی چیز کو پوشیدہ رکھنے کا کوئی جواز نہیں جو ایک جیسی کروڑوں نقلوں میں موجود ہے۔ اس کی ماں کی دنیا میں سارے جسم ایک جیسے تھے اور ایک دوسرے کے پیچھے قطار بند مارچ کرتے تھے۔ تیریزا بچپن ہی سے برہنگی کو کونسن ٹریشن کیمپ کی یک سانیت کی علامت کے طور پر دیکھتی چلی آئی تھی، ایک ذلت کی علامت۔
خواب کے بالکل شروع میں ایک دہشت اور بھی تھی: ساری عورتوں کے لیے گانا ضروری تھا! یہی نہیں کہ ان کے جسم ایک جیسے تھے، ایک جیسے بے قدروقیمت، یہی نہیں کہ ان کے جسم روح سے عاری گونج پیدا کرنے والے میکینزمس تھے۔ بل کہ عورتیں اس کی خوشی بھی منا رہی تھیں۔ وہ روح کی متانت سے سبک دوش ہونے پر۔وہ قابل خندہ زعم،وہ خام خیالی یک تائی۔ ایک دوسری جیسی ہونے پر شادماں تھیں۔ تیریزا نے ان کے ساتھ گایا تو، لیکن خوشی نہیں منائی۔ وہ گائی تو اس لیے کہ خوف زدہ تھی کہ اگر نہیں گائے گی تو دوسری عورتیں اسے مار ڈالیں گی۔
لیکن توماش کے ان پر گولیاں چلانے کا کیا مطلب تھا، ٹپ ٹپ تالاب میں مردہ گرا دینے کا؟
عورتیں جو اپنے ایک جیسی ہونے پر، کسی بھی تنوع سے تہی ہونے پر خوشی سے پھولی نہ سما رہی تھیں، درحقیقت اپنے سروں پر منڈلاتی ہوئی ہلاکت کا جشن منا رہی تھیں، جو اُن کی یک سانیت کو مطلق بنا دے گی۔ سو توماش کی گولیوں کے دھماکے ان کی مریضانہ مارچ کا محض ایک پرمسرت نقطہ عروج تھے۔ پستول کے ہر دھماکے کی گونج کے بعد وہ ٹوٹ کر ایک پُرمسرت قہقہ لگاتیں اور جوں ہی ایک لاش سطح آب کے نیچے غرق ہوجاتی، وہ اور بھی زور زور سے گانے لگتیں۔
لیکن گولی چلانے والا توماش ہی کیوں تھا اور بقیوں کے ساتھ تیریزا کو بھی کیوں گولی مارنے کے درپے تھا؟اس لیے کہ یہ وہی تھا جس نے تیریزا کو ان عورتوں میں شامل ہونے کے لیے بھیجا تھا اور خواب یہی توماش کو بتانا چاہتا تھا، وہ بات جو تیریزا خود اس سے نہیں کَہ سکتی تھی۔ وہ اپنی ماں کی دنیا سے نجات حاصل کرنے کے لیے اس کے پاس آئی تھی، ایک دنیا جس میں تمام جسم مساوی تھے۔ وہ اس کے پاس اپنے جسم کی انفرادیت قائم کرنے کے لیے آئی تھی، اسے ناقابل بدل بنانے کے لیے۔ لیکن توماش نے بھی تیریزا اور دوسری عورتوں کے درمیان مساوات کا نشان کھینچ دیا تھا: وہ ان سبھوں کو ایک ہی طرح چومتا، ایک ہی طرح تھپ تھپاتا، تیریزا کے جسم اور دوسری عورتوں کے جسم میں کوئی، مطلق کوئی فرق نہیں کرتا تھا۔ اس نے اسے پھر اسی دنیا میں واپس بھیج دیا تھا جس سے فرار پانے کی اس نے جستجو کی تھی، دوسری برہنہ عورتوں کے ساتھ برہنہ مارچ کرنے کے لیے لوٹا دیا تھا۔

(۱۶)
وہ خوابوں کے تین سلسلے یکے بعد دیگرے دیکھتی: ایک تو وہ جس میں بلیاں نہایت غضب ناکی سے ہر طرف دوڑتی پھر رہی ہوتیں اور اس رنج و محن کا حوالہ تھیں جو اس نے اپنی زندگی میں اٹھایا تھا؛ دوسرے میں وہ پیکر دکھائی دیتے جن کا تعلق اس کی گردن مارنے سے تھا اور تھوڑی تھوڑی تبدیلی سے مختلف قالب میں رونما ہوتے رہتے تھے؛ اور تیسرا اُس کی موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں ہوتا، جس میں ذلت ایک غیر مختتم کیفیت میں بدل جاتی۔
ان خوابوں میں تعبیر کے لیے کچھ دھرا ہی نہیں تھا۔ توماش پر تہمت اتنی واضح تھی کہ جو واحد ردِعمل وہ ظاہر کر سکتا تھا یہی تھا کہ سر جھکا لے اور خاموشی سے اس کا ہاتھ تھپ تھپاتا رہے۔
خواب بڑے بلیغ تھے، لیکن خوب صورت بھی۔ یہ وہ پہلو تھا جو فروئیڈ کے نظریۂ خواب میں ذکر پانے سے بچ رہا تھا۔ خواب دیکھنا محض پیغام رسانی (یا، آپ چاہیں تو، اشاراتی پیغام رسانی) کا عمل ہی نہیں؛ یہ ایک جمالیاتی کارگزاری بھی ہے، تخیل کا ایک کھیل، ایک کھیل جس کی بہ ذاتہٖ قدروقیمت ہے۔ ہمارے خواب ثابت کرتے ہیں کہ خیال کرنا۔ان چیزوں کا خواب دیکھنا جو ابھی واقع نہیں ہوئی ہیں۔انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے۔ اور سارا خطرہ بھی اسی میں ہے۔ اگر خواب خوش نما نہ ہوں تو بہت جلد بھلا دیے جائیں۔ لیکن تیریزا اپنے خوابوں کی طرف بار بار لوٹ کر آتی رہی، اپنے ذہن میں انھیں گزارتی رہی۔ انھیں اساطیر کا جامہ پہناتی رہی۔ توماش تیریزا کے خوابوں کے دردانگیز حسن کے زائیدہ سحر کے سائے میں سانس لے رہا تھا۔
’’پیاری تیریزا، شیریں تیریزا، میں تمھیں کس چیز کے بدلے کھوئے دے رہا ہوں؟‘‘ ایک بار جب وہ دونوں کسی شراب خانے میں آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، اس نے تیریزا سے کہا۔ ’’تم ہر رات موت کا خواب بالکل اس طرح دیکھتی ہو جیسے واقعی اس دنیا سے گزر جانے کی خواہش مند ہو...‘‘
یہ دن کا وقت تھا؛خرد اور قوتِ ارادی اپنی اپنی جگہوں پر واپس آ چکے تھے۔ تیریزا کے جواب دیتے وقت سرخ شراب کا ایک قطرہ اس کے گلاس پر آہستہ خرامی سے نیچے کی طرف بہ رہا تھا۔ ’’توماش، میں اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتی۔ آہ، میں جانتی ہوں۔ میں جانتی ہوں کہ تم مجھے چاہتے ہو۔ میں جانتی ہوں کہ تمھاری بے وفائیاں کوئی بہت بڑا المیہ نہیں...‘‘
اس نے محبت بھری نظروں سے اس کو دیکھا، لیکن اسے سامنے کھڑی رات سے خوف آ رہا تھا، اپنے خوابوں سے۔ اس کی زندگی دونیم ہو چکی تھی۔ دن اور رات دونوں ہی اس کے حصول کے لیے باہم دست بہ گریباں تھے‘‘۔

(۱۷)
ہر وہ شخص جس کے عزم کا ہدف کوئی ’’ارفع چیز‘‘ ہو، اسے کسی نہ کسی دن گھمیری لاحق ہونے کی توقع کرنی چاہیے۔ گھمیری کیا ہے؟ نیچے گہرائی میں گرنے کا خوف؟ لیکن اگر بات یہی ہے تو پھر یہ ہمیں اس وقت بھی کیوں محسوس ہوتی ہے جب مشاہدے کے مینارے میں مضبوط حفاظتی جنگلا لگا ہو؟ نہیں، گھمیری نیچے گرنے کے خوف سے مختلف کوئی شے ہے۔ یہ ہمارے نیچے سے آتی ہوئی خالی پن کی آواز ہے جو ترغیب دلاتی ہے اور ہمیں اپنی طرف کھینچتی ہے، یہ نیچے گرنے کی خواہش ہے، جس کے خلاف، خوف زدہ، ہم اپنی مدافعت کرتے ہیں۔
تیرنے کے تالاب کے گرد مارچ کرتی ہوئی برہنہ عورتیں، جنازہ گاڑیوں میں پڑی لاشیں، اس بات پرمسرور کہ وہ بھی مر گئی ہے ۔یہی وہ ’تحت الثریٰ‘ تھاجس سے اسے خوف آتا تھا، جس سے ایک بار پہلے اس نے فرار کیا تھا لیکن جو پُراسرار طریقے پر اسے اپنی طرف لوٹ آنے کے اشارے کر رہا تھا۔ یہی اس کی گھمیری تھے: اسے ایک شیریں (تقریباً شادماں) بلاوا سنائی دیا کہ اپنی قسمت اور روح سے کنارہ کش ہو جائے۔ بے روح بلاوے کی یگانگت۔ اور کم ہمتی کے لمحات میں وہ اس بلاوے پر لبیک کہنے اور ماں کے پاس واپس لوٹ جانے کے لیے خود کو آمادہ پاتی۔ وہ اپنی روح کے عملے کو اپنے جسم کے عرشے سے برخاست کرنے کے لیے تیار ہو جاتی؛ اپنی ماں کی دوستوں میں شامل ہونے اور جب ان میں سے کوئی ریح خارج کرے تو ہنس دینے کے لیے مستعد؛ان کے ساتھ تالاب کے گرد برہنہ مارچ کرنے اور گانے کے لیے تیار۔

(۱۸)
ٹھیک ہے، تیریزا گھر چھوڑنے کے دن تک اپنی ماں سے برسرپیکار رہی، لیکن ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ اس نے کبھی اس سے محبت کرنا نہیں چھوڑا تھا۔ وہ اس کے لیے کچھ بھی کر سکتی تھی، بہ شرطے کہ اس نے پیار بھری آواز میں درخواست کی ہوتی۔ اسے چھوڑنے کی تنہا وجہ یہی تھی کہ اسے وہ آواز کبھی سنائی نہ دی۔
جب ماں کو اندازہ ہوا کہ اس کی جارحیت بیٹی کے آگے لاچار ہو گئی ہے تو اس نے اسے جھگڑالو خط لکھنے شروع کر دیے، جن میں اپنے شوہر، اپنے بوس، اپنی صحت، اپنے بچوں کے شکوے شکایات ہوتیں، اور اس بات کی یقین دہانی کہ اس کی زندگی میں اب صرف تیریزا ہی باقی رہ گئی ہے۔ تیریزا کو یوں لگا کہ بالآخر بیس برسوں بعد وہ اپنی ماں کی محبت بھری آواز سن رہی ہے، اور واپس لوٹ جانے کا خیال کیا۔ اس وجہ سے اور بھی کہ وہ اپنے کو حد درجہ بے حوصلہ اور توماش کی بے وفائیوں سے اتنا زیادہ خستہ و لاغر محسوس کر رہی تھی۔ یہ اس کی مجبوری کا بھانڈا پھوڑ رہی تھیں جو اسے گھمیری تک، نیچے گرنے کی اس غیر مغلوب آرزو تک لے جا رہا تھا۔
ایک روز اس کی ماں نے یہ بتانے کے لیے فون کیا کہ اسے سرطان لاحق ہے اور بس چند مہینے کی مہمان ہے۔ اس خبر نے توماش کی بے وفائیوں پر تیریزا کی یاس کو بغاوت میں بدل دیا۔ اس نے اپنی ماں سے دغا کی تھی۔ اس نے خود پر لعن طعن کرتے ہوئے کہا، اور ایک ایسے آدمی کی خاطر جو اُس سے پیار نہیں کرتا تھا۔ وہ ان ساری باتوں کو بھول جانے کے لیے تیار تھی جو اس کی ماں نے اسے اذیت پہنچانے کے لیے کی تھیں۔ اب وہ اس حالت میں تھی کہ اسے سمجھ سکتی تھی؛ دونوں یک ساں صورتِ حال سے دوچار تھیں: اس کی ماں اس کے سوتیلے باپ کو بالکل اسی طرح چاہتی تھی جس طرح تیریزا توماش کو، اور اس کا سوتیلا باپ اپنی بے وفائیوں سے ماں کو اسی طرح عذاب پہنچا رہا تھا جس طرح توماش اسے اپنی بے وفائیوں سے دق کرتا تھا۔ اس کی ماں کی کینہ پروری کی وجہ وہ تکلیفیں تھیں جو اس نے جھیلی تھیں۔
تیریزا نے توماش کو بتایا کہ اس کی ماں بیمار ہے اور وہ ایک ہفتے کے لیے اسے دیکھنے جا رہی ہے۔ اس کی آوازکینے سے چھلک رہی تھی۔
اس احساس سے کہ ماں کے پاس لوٹنے کے بلاوے کی اصل وجہ گھمیری ہے، توماش نے سفر کی مخالفت کی۔ اس نے اس چھوٹے سے شہر کے اسپتال کو فون کیا۔ سرطان کی وارداتوں کے رکارڈ سارے ملک میں بڑی جزرسی کے ساتھ رکھے جاتے تھے، اس لیے اسے یہ معلوم کر لینے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی کہ اس مرض کا تیریزا کی ماں کی بابت شک نہیں کیا گیا تھا اور نہ اس نے ایک سال سے زائد عرصے میں کسی ڈاکٹر کا منھ ہی دیکھا تھا۔
تیریزا نے توماش کی بات مان لی اور اپنی ماں کی عیادت کے لیے نہیں گئی۔ اس فیصلے کے چند گھنٹوں بعد وہ سڑک پر گر پڑی اور گھٹنا زخمی کر لیا۔ وہ لڑکھڑا لڑکھڑا کر چلنے لگی۔ تقریباً روز ہی گر پڑتی، چیزوں سے ٹکرا جاتی یا، کم سے کم، چیزیں گرا دیتی۔
وہ نیچے گر جانے کی ناقابلِ تسخیر خواہش کی گرفت میں تھی۔ وہ گھمیری کی مسلسل کیفیت میں رہ رہی تھی۔’’مجھے اٹھا دو‘‘، ایسے شخص کا پیغام ہے جو مسلسل گر پڑتا ہے۔ توماش، صبر و تحمل کے ساتھ، اسے اٹھاتا رہا۔

(۱۹)
’’میں تمھارے ساتھ اپنے اسٹوڈیو میں جفتی کرنا چاہتی ہوں۔ یہ ایک اسٹیج کی طرح ہو گا جس کے گرد خلقت جمع ہو گی۔ تماش بینوں کو قریب آنے کی اجازت نہیں ہو گی، لیکن وہ ہم سے اپنی نظریں نہیں ہٹا سکیں گے۔‘‘
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، پیکر کی اولین سفاکی کسی قدر ماند پڑ گئی اور وہ تیریزا کو برانگیخت کرنے لگا۔ جب وہ جفتی کر رہے ہوتے تو وہ توماش سے سرگوشیوں میں اس کی تفاصیل کا ذکر کرتی۔
پھر اسے خیال آیا کہ توماش کی بے وفائیوں میں اسے جو ملامت نظر آتی ہے اس سے گریز کرنے کی ایک صورت نکل سکتی ہے: توماش کو بس اتنا ہی چاہیے کہ جب اپنی داشتاؤں سے ملنے جاتا ہے تو اسے بھی ساتھ لے جایا کرے! اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ اس کا جسم ایک بار پھر تمام جسموں میں پہلا اور منفرد بن جائے۔ اس کا جسم اس کا نائب، اس کا معاون، اس کا ہم زاد بن جائے۔
’’میں ان کے کپڑے اتار کر انھیں تمھارے لیے برہنہ کیا کروں گی، انھیں نہلاؤں گی، تمھارے پاس لاؤں گی...‘‘ جب وہ ایک دوسرے میں پیوست ہوتے تو وہ اس کے کان میں کہتی۔ اسے ارمان تھا کہ وہ دونوں ایک دوسرے میں ضم ہو کر ایک دوجنسی وجود بن جائیں۔ اس صورت میں دوسری عورتوں کے جسم ان کے کھلونے ہوں گے۔

(۲۰)
آہ، اس کی کثیر الزواج زندگی کا ہم زاد ہونا! توماش نے اسے سمجھنے سے انکار کر دیا، لیکن یہ خیال تیریزا کے ذہن سے نکل نہ پایا، اور اس نے سبینا سے دوستی بڑھانے کی کوشش کی۔ تیریزا نے پہل سبینا کی سلسلہ وار تصویریں اتارنے کی پیش کش سے کی۔
سبینا نے تیریزا کو اپنے فلیٹ آنے کی دعوت دی، اور تیریزا نے بالآخر وہ کشادہ کمرا اور اس کی مرکزی شے دیکھ ہی لی: ایک وسیع، چوکور چبوترا نما پلنگ۔
’’مجھے سخت برا لگ رہا ہے کہ تم یہاں پہلے کبھی نہیں آئیں‘‘۔ سبینا نے اسے وہ تصویریں دکھاتے ہوئے کہا جو دیوار سے ٹکی تھیں۔ اس نے ایک پرانا کینوس بھی نکالا، ایک فولادی ساخت جو زیر تعمیر تھی، جو اس نے اپنے اسکول کے دنوں میں بنائی تھی، وہ دور جس میں طالب علموں سے کٹر حقیقت پسندی کی پیروی کا مطالبہ کیا جاتا تھا (وہ آرٹ جو حقیقت پسندانہ نہیں تھا اس کی بابت یہ فرض کیا جاتا تھا کہ سوشل ازم کی بنیادوں کی ساری توانائی چاٹ جائے گا)۔ روح عصر کی مطابقت میں اس نے اپنے اساتذہ سے بھی زیادہ کٹر ہونے کی کوشش کی تھی اور اس طرز پر پینٹ کیا تھا کہ موقلم کی ضربیں مخفی رہیں اور تصویر رنگین فوٹوگرافی سے زیادہ قریب نظر آئے۔
’’یہ رہی ایک تصویر جس پر اتفاقاً مجھ سے سرخ رنگ ٹپک گیا تھا۔ شروع میں مَیں کافی پریشان ہوئی، لیکن بعد میں اس سے لطف اٹھانے لگی۔ رنگ کا بہاؤ ایک دراڑ کی طرح دکھائی دیتا تھا؛ اس نے عمارت کی جگہ کو ایک کہنہ، خستہ حال پس منظر کی شکل دے دی تھی، ایک پس منظر جس پر ایک عمارتی جگہ پینٹ کی گئی تھی۔ میں دراڑ سے یوں ہی چھیڑخانی کرنے لگی، اسے بھرنے لگی، یہ سوچنے لگی کہ اس کے پیچھے کیا دکھائی دیتا ہو گا۔ اور اس طرح میں نے اپنی پینٹنگز کا پہلا سلسلہ شروع کیا۔ میں نے اسے ’مناظر کے پیچھے‘ کا نام دیا۔ ظاہر ہے، یہ میں کسی کو دکھا وکھا نہیں سکتی تھی۔ مجھے ایکیڈمی باہر کر دیا جاتا۔ سطح پر ایک خالص حقیقی دنیا تھی، لیکن اس کے نیچے، چٹخے ہوئے کینوس کے منظر کے عقب میں، کوئی اور ہی شے گھات لگائے بیٹھی تھی، کوئی پُراسرار یا تجریدی شے‘‘۔
ایک لمحے کے توقف کے بعد اس نے اضافہ کیا۔ ’’سطح پر ایک قابلِ فہم دروغ؛ نیچے، ایک ناقابلِ فہم صداقت‘‘۔
تیریزا اس کی بات ایسے شدید انہماک سے سنتی رہی جو کم ہی پروفیسر حضرات کو کبھی کسی طالب علم کے چہرے پر نظر آتا ہے اور اسے یہ احساس ہونے لگا کہ سبینا کی سبھی پینٹنگز، سابقہ اور حالیہ، حقیقت میں ایک ہی خیال کو اجاگر کرتی ہیں، کہ ان سبھوں میں دو موضوعات، دو دنیاؤں کا سنگم پیش کیا گیا ہے، کہ یہ سب کی سب، یوں کہیے، ایک ڈبل ایکس پوزر ہیں۔ ایک زمینی منظر جس کے آر پار ایک پرانی طرز کا ٹیبل لیمپ جل رہا ہے۔ فطری سادگی سے متصف ایک اسٹل لائف جس میں سیب، خشک میوے اور موم بتیوں سے جگمگاتا ہوا ایک چھوٹا سا کرسمس ٹِری ہے اور ایک ہاتھ دکھایا گیا ہے جو کینوس کو چیرتا پھاڑتا چلا جا رہا ہے۔
اسے سبینا کے لیے اپنے میں تحسین ابلتی ہوئی محسوس ہوئی، اور چوں کہ سبینا کا رویہ اس کے ساتھ دوستانہ تھا، یہ تحسین خوف اور شبہے سے آزاد تھی اور جلد ہی دوستی میں بدل گئی۔
وہ یہ تقریباً بھول گئی کہ یہاں تصویریں کھینچنے آئی ہے۔ سبینا کو اس کی یاددہانی کرانی پڑی۔ با لآخر تیریزا نے پینٹنگز سے نظریں پھرائیں توکیا دیکھتی ہے کہ کمرے کے وسط میں پلنگ ایک چبوترے کی طرح رکھا ہوا ہے۔

(۲۱)
پلنگ کے برابر ایک چھوٹی سی میز تھی جس پر انسانی سر کا مثالی ڈھانچا پڑا ہوا تھا، ویساہی جس پر موتراش وگ چڑھاتے ہیں۔ سبینا کے وگ اسٹینڈ پروگ کی بہ جائے ایک بولر ہیٹ آرائشی طور پر رکھا ہوا تھا۔ ’’یہ میرے دادا کا ہوا کرتا تھا‘‘، اس نے مسکرا کر بتایا۔
یہ اس قسم کا ہیٹ تھا۔سیاہ، سخت، گول۔جو تیریزا نے صرف پردۂ سیمیں پر ہی دیکھا تھا، چیپلن جس طرح کا ہیٹ پہنتا تھا ویسا ہی۔ تیریزا بھی جواباً مسکرا دی، اور ہیٹ اٹھا کر کچھ دیر تک اسے بہ غور دیکھنے کے بعد کہا، ’’اسے پہن کر تصویر اترواؤ گی؟‘‘
سبینا اس خیال پر دیر تک ہنستی رہی۔ تیریزا نے بولر ہیٹ واپس رکھ دیا، کیمرا اٹھایا اور تصویریں کھینچنے لگی۔
جب اس عمل میں کوئی گھنٹا بھر گزر گیا تو وہ اچانک بولی، ’’چند برہنہ تصویریں اتروانے کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘۔
’’برہنہ تصویریں؟‘‘۔ سبینا ہنس پڑی۔
’’ہاں‘‘، تیریزا نے کہا، اپنی پیش کش کو زیادہ بے باکی سے دہراتے ہوئے، ’’برہنہ تصویریں‘‘۔
’’تو اس پر ایک جام ہو جائے‘‘، سبینا نے کہا، اور شراب کی بوتل کھولی۔
تیریزا کواپنا جسم بے جان پڑتا محسوس ہوا؛ اچانک اس کی زبان گنگ ہو کر رہ گئی۔ درایں اثنا سبینا شراب ہاتھ میں لیے آگے پیچھے قدم اٹھاتی رہی اور اپنے دادا کے بارے میں مسلسل بولتی رہی جو ایک چھوٹے سے شہر کا رئیس بلدیہ تھا؛ سبینا نے خود کبھی اسے نہیں دیکھا تھا؛ اس کی باقیات میں صرف یہ بولر ہیٹ تھا اور ایک تصویر جس میں ایک بلند سے چبوترے پر چند معززین بیٹھے ہوئے تھے؛ ان میں سے ایک اس کا دادا تھا؛ یہ بالکل واضح نہیں تھا کہ وہ سب وہاں چبوترے پر بیٹھے کیا کر رہے تھے۔ شاید کسی تقریب کی قیادت کر رہے تھے، کسی رفیق معزز کی یادگار کی نقاب کشائی جس نے کبھی خود بھی عوامی تقاریب میں ایک بولرہیٹ ڈاٹا ہو گا۔
سبینا بولر ہیٹ اور اپنے دادا کے بارے میں مسلسل بولتی رہی تا آں کہ تیسرا جام چڑھانے کے بعد ’’بس ابھی واپس آئی‘‘ کہا اور غسل خانے میں روپوش ہو گئی۔
وہ اپنی باتھ روب پہنے ہوئے نکلی۔ تیریزا نے کیمرا اٹھا کر اپنی آنکھ سے لگایا۔ سبینا نے اپنی روب کھول ڈالی۔

(۲۲)
کیمرا تیریزا کے کام دو طرح سے آیا: ایک میکانکی آنکھ جس کے ذریعے وہ توماش کی داشتہ کا مشاہدہ کر سکتی تھی اور خود اپنے چہرے کو اس سے پوشیدہ رکھ سکتی تھی۔
سبینا کو روب سے پوری طرح باہر نکلنے پر خود کو قائل کرنے میں کچھ دیر لگی۔ وہ جِس صورت حال میں خود کو پا رہی تھی وہ اس کی توقع سے کچھ زیادہ ہی کٹھن ثابت ہو رہی تھی۔ چند منٹ پوز کرنے کے بعد، وہ تیریزا کے پاس آئی اور بولی، ’’اب تمھاری تصویریں کھینچنے کی میری باری ہے۔ اتارو کپڑے!‘‘۔
’’اُتارو کپڑے!‘‘ وہ حکم تھا جو سبینا نے اتنی بار توماش کو دیتے ہوئے سنا تھا یہ کہ اس کے حافظے میں نقش ہو کر رہ گیا تھا۔ اسی طرح توماش کی داشتہ نے توماش کی بیوی کو توماش کا حکم ابھی ابھی دیا تھا۔ دونوں عورتیں ایک جیسے طلسمی لفظ میں ایک دوسرے سے بندھی تھیں۔ یہ توماش کا خاص انداز تھا جس میں وہ کسی عورت سے اپنی سیدھی سادی گفت گو کو ناگہاں ایک شہوانی صورت حال میں بدل دیتا تھا۔ پیار سے تھپ تھپانے، خوش آمدید کہنے، منت سماجت کرنے کی بہ جائے وہ ایک حکم صادر کرتا، اور اچانک، غیر متوقع طور پر، نرمی لیکن استقامت، اور تحکم سے صادر کرتا، اور فاصلے سے: ایسے موقعوں پر وہ اس عورت کو بالکل نہیں چھوتا تھا جسے مخاطب کر رہا ہو۔ یہ حکم وہ اکثر تیریزا کو بھی دیتا تھا، اور اگرچہ وہ اسے بڑی نرمی سے صادر کرتا، اگرچہ محض سرگوشی میں ہی، یہ تھا آخر کو ایک حکم ہی، اور اس کی تعمیل کرتے ہوئے تیریزا کبھی جنسی طور پر برانگیختہ ہونے میں ناکام نہ رہتی۔ اور اب اس لفظ کو سنتے ہی اسے بجا لانے کی خواہش اور بھی تند ہو گئی، کیوں کہ ایک اجنبی کے حکم کی تعمیل ایک خاص قسم کی دیوانگی ہے، ایک دیوانگی جو یہاں کچھ اور بھی زیادہ نشہ آور ہو گئی تھی کیوں کہ یہ حکم کوئی مرد نہیں دے رہا تھا بل کہ ایک عورت۔
سبینا نے کیمرا اس کے ہاتھ سے لے لیا، اور تیریزا نے اپنے کپڑے بدن سے جدا کر دیے۔ وہ اب سبینا کے سامنے ننگی اور نہتی کھڑی تھی۔ سچ مچ نہتی: اس آلے سے محروم جسے وہ اپنے چہرے کو چھپانے اور سبینا پر ایک ہتھیار کی طرح شست باندھنے کے لیے استعمال کر رہی تھی۔ اب وہ پورے طور پر توماش کی داشتہ کے رحم و کرم پر تھی۔ اس تعمیل کی دل کشی نے تیریزا کو مدہوش کر دیا۔ اس نے خواہش کی کہ یہ لمحات جن میں وہ سبینا کے مقابل ننگی کھڑی ہے کبھی ختم نہ ہوں۔
میرا خیال ہے کہ سبینا بھی صورت حال کی عجیب سحر آفرینی کو محسوس کر رہی تھی: اس کے عاشق کی بیوی عجیب اطاعت گزاری اور شرم و جھجک کے ساتھ اس کے سامنے کھڑی ہے۔ لیکن دو تین بار شٹر دبانے کے بعد، اس سحر سے تقریباً ہراساں اور اسے زائل کرنے کے لیے بے قرار ہو کر، اس نے بڑے زور کا قہقہ لگایا۔
تیریزا نے اس کااتباع کیا، اوردونوں کپڑے پہننے لگیں۔

(۲۳)
روسی سامراج کے تمام گزشتہ جرائم بڑے محتاط پردے کے پیچھے عمل میں آئے تھے۔ ایک لاکھ لتھوے نیوں کا ملک سے جبری اخراج، پولینڈ کے لاکھوں باشندوں کا قتل عام، کرے میا کے تتار کا صفایا، ہماری یاد میں محفوظ ہے، لیکن ان کی کوئی صوری شہادت موجود نہیں؛ چناں چہ، جلد یا بہ دیر انھیں جعلی قرار دے دیا جائے گا۔ لیکن یہ چیکوسلواکیا پر ۸۶۹۱ء کے حملے کے ساتھ پیش نہیں آئے گا، جس کی جامد اور متحرک دونوں طرح کی تصاویر ساری دنیا کے دستاویزاتی ذخیروں میں جمع کر دی گئی ہیں۔
چیک فوٹوگرافروں اور کیمرامینوں کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ کرنے کے لیے جوواحد چیز باقی رہ گئی ہے وہ صرف انھی کے اختیار میں ہے: مستقبل بعید کے لیے تشدد کے چہرے کا تحفظ۔ لگاتار سات دنوں تک تیریزا سڑکوں پر ماری ماری پھرتی رہی، اور روسی سپاہیوں اور آفیسروں کی بڑی مشتبہ حالتوں کی تصویریں اتاریں۔ روسی نہیں جانتے تھے کہ کریں تو کیا کریں۔ انھیں بڑی احتیاط کے ساتھ سبق پڑھایا گیا تھا کہ اگر کوئی ان پر بندوق چلائے یا پتھر پھینکے تو انھیں کیا کرنا چاہیے، لیکن اگر کوئی عدسے کا رُخ ان کے سامنے کر دے تو ان کا طرز عمل کیا ہونا چاہیے کی بابت انھیں کسی قسم کی ہدایات نہیں دی گئی تھیں۔
اس نے تصویروں کے رول کے بعد رول اتارے اور ان میں سے تقریباً آدھے بغیر ڈیویلپ کیے ہی، غیر ملکی صحافیوں کے حوالے کر دیے (سرحدیں ہنوز کھلی ہوئی تھیں اور وہاں سے گزرنے والے نامہ نگار کسی بھی شہادت کے حصول کے لیے شکرگزار تھے) ۔ اس کی بہتیری تصویریں مغربی اخباروں تک جا پہنچیں۔ یہ ٹینکوں، تہدیدی مکوں کی تصویریں تھیں، مسمار گھروں، سرخ اور سفید اور نیلے چیک پرچموں میں لپٹی ہوئی، خون آلود لاشوں، موٹرسائیکلوں پر ٹینکوں کے گرد پوری رفتار سے دوڑ لگاتے اور لمبے لمبے ہَتھوں پر چیک جھنڈے لہراتے ہوئے جوانوں کی، ناقابل یقین طور پر کوتاہ اسکرٹ پہنے ہوئے چیک لڑکیوں کی، جو جنسی طور پر بری طرح بھوکے روسی سپاہ کے عین سامنے الل ٹپ راہ گیروں کو چوم کر روسیوں کی اشتہا کو بھڑکا رہی تھیں۔ جیسا کہ میں نے کہا، روسی حملہ ایک المیہ ہی نہیں تھا؛ یہ نفرت کی رنگ لی تھا جس سے ایک عجیب (اوراب اور ناقابل تشریح) جوش کی لہر ابلی پڑ رہی تھی۔

(۲۴)
وہ اپنے ساتھ کوئی پچاس کے قریب تصویریں سوئٹزرلینڈ لائی تھی۔ وہ تصویریں جو اس نے حتی المقدور احتیاط اور مہارت کے ساتھ اتاری تھیں۔ یہ اس نے ایک کثیر الاشاعت مصور رسالے کو پیش کیں۔ مدیر نے بڑی مہربانی کے ساتھ اس کی پذیرائی کی (سبھی چیکوں کے گرد ان کی بدقسمتی کا ہالہ ابھی تک پڑا ہوا تھا، اور نیک سیرت، سوئس متاثر ہوتے تھے)؛ اس نے اسے نشست پیش کی، تصویروں کو دیکھا، ان کی تعریف کی، اور پھر وضاحت کی کہ چوں کہ واقعات کو گزرے اب اچھا خاصا وقت ہو چکا ہے، ان کے چھپنے کا ادنیٰ سا امکان بھی نہیں (’’یہ بات نہیں کہ یہ تصویریں دل کش نہیں!‘‘)
’’لیکن پراگ کی افتاد ختم نہیں ہوئی ہے!‘‘ اس نے احتجاج کیا، اور اپنی خستہ سی جرمن میں یہ بتانے کی کوشش کی کہ ٹھیک اسی لمحے، اس کے باوجود کہ ملک پر قبضہ ہے، ہر چیز قابضوں کے خلاف جا رہی ہے، کارگاہوں میں کارکنوں کے حلقے قائم ہو رہے ہیں، طلبا ہڑتالیں منعقد کر رہے ہیں اور یہ مطالبہ کہ روسی رخصت ہوں، اور سارا ملک جو سوچ رہا ہے اس کا برملا اظہار بھی کر رہا ہے۔ ’’یہی تو اتنی ناقابل یقین بات ہے! اور یہاں کسی کو پروا ہی نہیں رہی‘‘۔
جب ایک چاق چوبند عورت دفتر میں داخل ہوئی اور ان کی گفت گو میں دخل اندازہو ئی تو مدیر کی مسرت کا ٹھکانا نہیں رہا۔ عورت نے ایک فولڈر مدیر کو پکڑا دیا اور کہا، ’’یہ رہا نیوڈسٹ بیچ والا مضمون‘‘۔
مدیر کو اس نزاکت کا خوب احساس تھا کہ ایک چیک شہری کو جس نے ٹینکوں کی تصویریں اتاری ہوں ساحل آب پر برہنہ لوگوں کی تصویریں سخت بے ہودہ نظر آئیں گی۔ اس نے فولڈر ڈیسک پر دور کھسکا دیا اور بڑی تیزی سے عورت سے کہا، ’’اپنے ایک چیک ہم کار سے ملو گی؟ یہ میرے لیے بڑی شان دار تصویریں لائی ہیں‘‘۔
عورت نے تیریزا سے ہاتھ ملایا اور اس کی تصویریں اٹھا لیں اور کہا، ’’اتنے میں میری تصویریں بھی دیکھو‘‘۔
تیریزا فولڈر کی طرف جھکی اور تصویریں نکالیں۔
مدیر نے تقریباً معذرت کے انداز میں تیریزا سے کہا، ’’یہ یقیناً تمھاری تصویروں سے بالکل مختلف ہیں‘‘۔
’’ارے کہاں؟‘‘ تیریزا بولی۔ ’’بالکل ویسی ہی تو ہیں‘‘۔
یہ بات نہ مدیر کی سمجھ میں آئی نہ دوسری عورت کی، اور خود مجھے بھی اس کی تشریح کرنے میں مشکل محسوس ہو رہی ہے کہ ایک نیوڈسٹ بیچ کا روسی حملہ سے مقابلہ کرتے وقت تیریزا کے ذہن میں کیا تھا۔ تصویریں دیکھتے ہوئے وہ ایک تصویر پر آ کر تھوڑی دیر کے لیے رُک گئی جس میں چار لوگوں کے ایک خاندان کو دائرے کی شکل میں کھڑا دکھایا گیا تھا: ایک برہنہ ماں جو اپنے بچوں پر جھکی ہوئی تھی، اس کے تھل تھلاتے ہوئے پستان کسی بکری یا گائے کے تھنوں کی طرح نیچے کو لٹکے ہوئے تھے، اور دوسری طرف اس کا شوہر بھی اسی طرح جھکا ہوا تھا، اس کا عضو اور فوطے بھی کسی چھوٹے سے تھن جیسے لگ رہے تھے۔
’’تمھیں پسند نہیں آئیں؟‘‘ مدیر نے پوچھا۔
’’اچھی تصویریں ہیں‘‘۔
’’یہ ان کے موضوع پر دنگ رہ گئی ہیں‘‘، عورت بولی۔ ’’میں تم پر بس ایک نگاہ ڈال کر ہی کَہ سکتی ہوں کہ تمھارا کبھی کسی نیوڈ بیچ پر گزر نہیں ہوا ہے‘‘۔
’’نہیں‘‘ تیریزا نے جواب دیا۔
مدیرمسکرا دیا۔ ’’تم نے دیکھا، یہ قیاس کرنا کتنا آسان ہے کہ تم کہاں سے آئی ہو۔ اشتراکی ملک ہیبت ناک طورپر کٹر واقع ہوئے ہیں‘‘۔
’’برہنہ جسم میں عیب کی کوئی بات نہیں‘‘، عورت مادرانہ شفقت سے بولی۔ ’’یہ بالکل حسب معمول بات ہے اور ہر حسب معمول بات خوب صورت ہوتی ہے‘‘۔
تیریزا کی نگاہوں کے سامنے اپنی ماں کی تصویر تیر گئی جس میں وہ ان کے فلیٹ میں برہنہ گھومتی پھر رہی تھی۔ وہ اپنے پیچھے اب بھی اس قہقہے کی آواز سن سکتی تھی جب وہ دوڑ کر پردے گرا رہی تھی کہ کہیں پڑوسی اس کی ماں کو ننگا نہ دیکھ لیں۔

(۲۵)
فوٹوگرافر عورت نے تیریزا کو رسالے کے کیفے ٹیریا میں کافی پینے کے لیے مدعو کیا۔ ’’تمھاری تصویریں بے حد دل چسپ ہیں۔ یہ بات میری توجہ میں آئے بغیر نہ رہ سکی کہ تمھیں نسوانی جسم کا کتنا زبردست شعور ہے۔ تم میری بات سمجھ رہی ہو گی۔ شہوت انگیز انداز میں وہ لڑکیاں‘‘۔
’’وہی جو روسی ٹینکوں کے سامنے راہ گیروں کو چوم رہی ہیں؟‘‘
’’ہاں۔ تم ایک درجۂ اول کی فیشن فوٹوگرافر بن سکتی ہو، کیا سمجھیں؟ لیکن پہلے تمھیں ایک موڈل تلاش کرنا پڑے گا، اپنے جیسا ہی کوئی شخص جو پاؤں جمانے کے لیے ہاتھ پیر مار رہا ہو۔ پھر تم تصویروں کا ایک پورٹ فولیو مرتب کر کے ایجنسیوں کو دکھا سکو گی۔ اپنا نام پیدا کرنے میں کچھ وقت ضرور لگے گا، ظاہر ہے، لیکن میں تمھارے لیے ایک چیز یہیں کھڑے کھڑے کر سکتی ہوں: چلو، میں تمھارا تعارف ہمارے گارڈن سیکشن کے ایڈیٹر سے کروا دیتی ہوں۔ شاید اسے ناگ پھنی، گلاب، اور ایسی ہی دوسری چیزوں کی ضرورت ہو‘‘۔
’’تمھارا بہت بہت شکریہ‘‘، تیریزا نے بڑے اخلاص سے کہا، کیوں کہ یہ بالکل واضح تھا کہ اس کے سامنے بیٹھی ہوئی عورت خیر خواہی سے لب ریز تھی۔
لیکن پھر اس نے اپنے سے کہا، ناگ پھنیوں کی تصویریں اتارنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ زیورچ میں بھی اسی تجربے سے دوبارہ گزرنے کی اسے کوئی خواہش نہیں جس سے وہ پہلے پراگ میں گزر چکی ہے: ملازمت اور کیریئر کے واسطے لڑائیاں، ہر اس تصویر پر جو شائع ہوتی ہے۔ اس کی بلند حوصلگی انا کی تسکین کی خاطر کبھی نہیں رہی تھی۔ وہ تو صرف اتنا ہی چاہتی تھی کہ کسی طرح اپنی ماں کی دنیا سے چھٹکارا ملے۔ ہاں، یہ اسے بالکل صاف نظر آ رہا تھا: وہ تصویریں اتارنے کی بابت خواہ کتنی بھی گرم جوش رہی ہو، حقیقت میں وہ اس گرم جوشی کا رُخ کسی بھی کوشش کی طرف اسی آسانی کے ساتھ موڑ سکتی ہے۔ فوٹوگرافی ’’کسی بلند تر چیز‘‘ تک پہنچنے اور توماش کے ساتھ زندگی گزارنے کے ایک ذریعے سے زیادہ کچھ اور نہیں تھی۔
وہ بولی، ’’میرا شوہر ڈاکٹر ہے۔ وہ میری کفالت کر سکتا ہے۔ مجھے تصویریں کھینچنے کی ضرورت نہیں‘‘۔
فوٹوگرافرعورت نے کہا، ’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنا عمدہ کام کرنے کے بعد تم اسے اتنی آسانی سے کیسے تج دے سکتی ہو‘‘۔
ہاں، حملے کی تصویریں کچھ اور ہی چیز تھیں۔ یہ اس نے توماش کی خاطر نہیں اتاری تھیں بل کہ ایک شدید جذبے سے مجبور ہو کر۔ لیکن یہ جذبہ فوٹوگرافی نہیں تھا۔ اس نے یہ شدید نفرت کے باعث اتاری تھیں۔ یہ صورتِ حال پھرکبھی واقع نہیں ہوگی اور یہ تصویریں، جن کو اتارنے کا محرک ایک شدید جذبہ تھا، تو ان کا کوئی گاہک نہیں تھا، کیوں کہ یہ پرانی ہو چکی تھیں۔ صرف ناگ پھنی اور سدا بہار پودے ہی کشش رکھتے ہیں۔
وہ بولی، ’’تم بڑی مہربان ہو، سچ، لیکن میرا گھر رہنا ہی بہترہو گا۔ مجھے ملازمت کی ضرورت نہیں‘‘۔
عورت نے کہا، ’’لیکن گھر پر بیٹھے بیٹھے کیا تم اپنے کو تکمیل یافتہ محسوس کرسکو گی؟‘‘
تیریزا نے جواب دیا،’’ناگ پھنیوں کی تصویریں اتارنے سے کہیں زیادہ تکمیل یافتہ‘‘۔
عورت بولی، ’’چاہے ناگ پھنیوں کی تصویریں ہی کھینچ رہی ہو، کم از کم اپنی زندگی تو گزار رہی ہو گی۔ اگر تم صرف اپنے شوہر کے لیے ہی زندہ رہتی ہو، تو تمھاری اپنی کوئی زندگی نہیں‘‘۔
تیریزا کو ایک بارگی برہمی محسوس ہوئی: ’’میرا شوہر میری زندگی ہے، ناگ پھنی نہیں‘‘۔
فوٹوگرافرعورت نے بھی ترکی بہ ترکی جواب داغ دیا: ’’یعنی تم اپنے کو خوش و خرم خیال کرتی ہو؟‘‘
تیریزا، ہنوز برہم ،بولی، ’’اس میں کیا شک ہے کہ میں خوش و خرم ہوں!‘‘
عورت نے کہا، ’’یہ بات صرف اس قسم کی عورت ہی کَہ سکتی ہے جو بہت ...‘‘ وہ ایک دم رُک گئی۔
تیریزا نے اس کی بات خود ہی پوری کر دی’’ ...محدود ہے۔ تمھارا یہی مطلب ہے نا؟‘‘
عورت نے خود پر دوبارہ قابو پا لیا اور بولی، ’’محدود نہیں... اگلے وقتوں کی‘‘۔
’’تم صحیح کَہ رہی ہو‘‘، تیریزا نے ملال کے ساتھ کہا۔ ’’میرا شوہر بھی بالکل یہی کہتا ہے‘‘۔

(۲۶)
لیکن توماش مسلسل دنوں تک اسپتال ہی میں رہتا، اور وہ گھر پر اکیلی۔ کم از کم پاس کرے نن تو تھا جسے لمبی سیروں پر ساتھ لے جا سکتی تھی! گھر لوٹ کر وہ جرمن اور فرانسیسی کے قواعد کے مطالعے میں غرق ہو جاتی۔ لیکن اداسی کے باعث ان پر ارتکاز کرنے میں دشواری ہوتی۔ ذہن بارہا دوب چیک کی اس تقریر کے طرف بھٹک جاتاجو اس نے موسکو سے واپسی پر ریڈیو پر کی تھی۔ اگرچہ وہ مکمل بھول گئی تھی کہ اس نے کہا کیاتھا، وہ اب بھی اس کی تھرتھراتی ہوئی آواز سُن سکتی تھی۔ اسے خیال آیا کہ غیرملکی سپاہیوں نے اسے، ایک خودمختار ریاست کے سربراہ کو، کس طرح اپنے ہی ملک میں زیر حراست لے لیا تھا، چار دن تک یوکرینی پہاڑوں میں قید رکھا تھا، اس سے کہا تھا کہ اس کا کام تمام کر دیں گے۔ جس طرح، دس سال قبل، انھوں نے اس کے ہنگیرین مماثل ایمرے ناج کا کام تمام کر دیا تھا۔پھر ماسکو بھیج دیا گیا تھا ،غسل اور شیو کرنے کا حکم دیا تھا،کپڑے تبدیل کرنے اور ٹائی باندھنے کا، اس کی سزا میں تخفیف سے آگاہ کیا تھا، ایک بار پھر اپنے کو ریاست کا سربراہ سمجھنے کی ہدایت کی تھی، میز پر بریزنیف کے مقابل بٹھایا تھا، اور اسے عمل کرنے پر مجبور کیا تھا۔
وہ لوٹ آیا تھا، ہزیمت خوردہ، اپنی سرافگندہ قوم سے خطاب کرنے۔ اسے اتنا ذلیل کیا گیا تھا کہ اس سے بولنا دوبھرہو رہا تھا۔ اس کے جملوں کے درمیان وہ ہول ناک وقفے، تیریزا انھیں کبھی نہیں بھول سکتی تھی۔ کیا وہ اتنا زیادہ نڈھال تھا؟ کیا انھوں نے اسے منشیات پلا دی تھیں؟ یا یہ صرف مایوسی کا کیا دھرا تھا؟ اگر دوب چیک کا کچھ بھی باقی نہیں رہ جانے والا تھا، تو کم از کم وہ تکلیف دہ طور پر طویل وقفے جن میں اس سے سانس بھی نہیں لی جا رہی تھی، جب وہ ریڈیو سے چپکی ہوئی پوری قوم کے سامنے ہانپ رہا تھا، کم از کم وہ وقفے ضرور باقی رہ جائیں گے۔ ان وقفوں میں وہ تمام ہول ناکی سمٹ آئی تھی جو ان کے ملک پر نازل ہوئی تھی۔
وہ حملے کا ساتواں دن تھا۔ اس نے تقریر ایک اخبار کے ایڈیٹوریل آفس میں سنی جو راتوں رات مزاحمت کے ترجمان میں بدل گیا تھا۔ وہاں پر موجود ہر متنفس اس لمحے دوب چیک سے نفرت کر رہا تھا۔ انھوں نے اسے مفاہمت کرنے پر سخت سُست کہا؛ وہ اس کی سبک سری میں خود اپنی توہین محسوس کر رہے تھے؛ اس کا بوداپن ان کے جذبات مجروح کر رہا تھا۔
زیورچ میں ان دنوں کی بابت سوچتے ہوئے اسے اس شخص سے اب اور کراہت نہیں محسوس ہو رہی تھی۔ لفظ ’’کم زور‘‘ میں اب اور ایک فیصلے کی گونج سنائی نہیں دے رہی تھی۔ ہر وہ شخص جس کا سامنا بھاری طاقت سے ہو، کم زور ہی ہوتا ہے خواہ اس کا جسم دوب چیک جتنا کسرتی کیوں نہ ہو۔ ٹھیک وہی بوداپن جو اس وقت اتنا ناقابلِ برداشت اور مکروہ نظر آتا تھا، وہ بوداپن جس نے تیریزا اور توماش کو اپنے ملک کے باہر پہنچا دیا تھا، اچانک اسے کشش انگیز معلوم ہونے لگا۔ اسے احساس ہوا کہ اس کا مقام کم زوروں کے ساتھ ہے، کم زوروں کے ڈیرے میں، کم زوروں کے ملک میں، اور یہ کہ اسے ان کے ساتھ ٹھیک اسی لیے وفاداری کرنی ہے کیوں کہ وہ کم زور ہیں اور جملوں کے بیچ دَم لینے کے لیے ہانپنے لگتے ہیں۔
اسے ان کی کم زوری میں وہی دل کشی نظر آئی جو گھمیری میں ہوتی ہے۔ وہ اس کی طرف اس لیے کھنچی چلی گئی کہ خودکم زور تھی۔ ایک بار پھر وہ رقابت محسوس کرنے لگی اور ایک بار پھر اس کے ہاتھ کپکپانے لگے۔ جب یہ بات توماش کی توجہ میں آئی تو اس نے وہی کیا جو وہ ہمیشہ سے کرتا چلا آیا تھا: اس نے تیریزا کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے اور تسلی دینے کے لیے انھیں زور زور سے دبانے لگا۔ اس نے تڑپ کر اپنے ہاتھ کھینچ لیے۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں‘‘۔
’’تم کیا چاہتی ہو کہ میں تمھارے لیے کروں؟‘‘
’’میں چاہتی ہوں کہ تم بوڑھے ہو جاؤ۔ دس سال بوڑھے۔ بیس سال بوڑھے!‘‘
اس کا مطلب تھا: میں چاہتی ہوں کہ تم کم زور ہو جاؤ۔ اتنے ہی کم زور جتنی میں ہوں۔

(۲۷)
کرے نن سوئٹزرلینڈ نقل مکانی پر خوشی سے بے قابو نہیں ہو گیا۔ کرے نن کو تبدیلی سے نفرت تھی۔ کتے کے وقت کو ایک سیدھی لکیر کے سہارے ترتیب نہیں دیا جا سکتا؛ وہ آگے اور آگے نہیں بڑھتا چلا جاتا، ایک چیز سے دوسری چیز کی طرف بل کہ ایک دائرے کی شکل میں حرکت کرتا ہے، گھڑی کی سوئیوں کی طرح، جو۔اور یہ بھی دیوانہ وار آگے بڑھنے پر غیر آمادہ۔ڈائل پر گول گول گھومتی رہتی ہیں، روز روز اور ایک ہی ڈگر پر۔ پراگ میں جب توماش اور تیریزا کوئی نئی کرسی خریدتے یا کسی پھولوں کے گملے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے، تو کرے نن اس عمل کو ناگواری سے دیکھتا۔ یہ اس کے احساس وقت میں کھنڈت ڈال دیتا تھا۔ یوں معلوم ہوتا جیسے وہ ڈائل کے عددوں کو ہراپھرا کر گھڑی کی سوئیوں کو غچا دے رہے ہوں۔
اس کے باوجود، اس نے جلد ہی پرانے نظام اور سابقہ شعائر کو زیورچ کے فلیٹ میں دوبارہ قائم کر لیا۔ پراگ ہی کی طرح وہ ان کے پلنگ پر جست لگا کر پہنچتا اور نئے دن میں ان کا استقبال کرتا، تیریزا کی صبح گاہی خریداری کی سیر میں اس کی رفاقت کرتا، اور اس کا یقین بھی کر لیتا کہ اسے دوسری سیروں پر بھی لے جایا جائے گا۔
یہ ان کی زندگی کی ٹائم پیس تھا۔ مایوسی کے وقتوں میں، تیریزا کو اپنی یاددہانی کرنی پڑتی کہ اور کچھ نہیں تو اس کی خاطر ہی اسے ہمت سے کام لینا چاہیے، کیوں کہ وہ اس کے مقابلے میں کم زور ہے، شاید دوب چیک اور ان کے متروکہ وطن سے بھی زیادہ کم زور۔
ایک روز جب وہ سیر سے لوٹے، فون کی گھنٹی بج رہی تھی۔ اس نے چونگا اٹھایا اور پوچھا کون ہے۔
یہ کسی عورت کی آواز تھی جو جرمن بول رہی تھی اور توماش کا پوچھ رہی تھی۔ یہ ایک بے صبری آواز تھی، اور تیریزا کو اس میں تمسخر کا شائبہ بھی محسوس ہوا۔ جب اس نے بتایا کہ توماش موجود نہیں اور اسے نہیں معلوم کہ کب لوٹے گا، تو لائن کی دوسری طرف عورت ہنسنے لگی اور خدا حافظ کہے بغیر ہی فون رکھ دیا۔
تیریزا کو معلوم تھاکہ اس بات کی کوئی اہمیت نہیں۔ اسپتال کی کوئی نرس ہو سکتی تھی، مریض، سیکرٹری، کوئی بھی۔ اس کے باوجود اس کا سکون درہم برہم ہوگیا اور وہ کسی چیز پر ٹھیک سے توجہ نہ دے سکی۔ تب ہی اسے احساس ہوا کہ اس توانائی کی تھوڑی سی مقدار بھی اس میں باقی نہیں بچی ہے جو اسے گھر پر میسر تھی: وہ اس بالکل غیر اہم واقعے کو برداشت کرنے کی مطلقاً نااہل تھی۔
غیرملک میں ہونے کا مطلب ہوتا ہے کہ آدمی کسی زمین کے بہت اوپر تنے ہوئے تار پر چل رہا ہے اور نیچے وہ حفاظتی جال بھی نہیں لگا ہوا ہے جو اس کا ملک مہیا کرتا ہے جہاں اس کا کنبہ کٹم ہوتا ہے، ہم کار ہوتے ہیں، دوست احباب ہوتے ہیں، جہاں وہ جو کہنا چاہتا ہے آسانی سے کَہ سکتا ہے، اور اس زبان میں جسے وہ بچپن سے جانتا ہے۔ پراگ میں اگر وہ توماش کی دست نگر تھی تو ان معاملات میں جن کا تعلق دل سے تھا؛یہاں وہ ہر معاملے میں اس کی محتاج تھی۔ اگریہاں توماش نے اسے چھوڑ دیا تو وہ کیا کرے گی؟ کیا اسے اپنی ساری زندگی اسے کھو دینے کے خوف میں گزارنی پڑے گی؟
اس نے خود سے کہا : ان کی واقفیت کی بنیاد شروع ہی سے ایک غلطی پر پڑی تھی۔ اس کی بغل میں دبی ہوئی ’’اینا کرے نینا‘‘ کی جلد جعلی کاغذات کی طرح تھی؛ اس نے توماش کو غلط تاثر دیا تھا۔ اپنی چاہت کے باوجود انھوں نے ایک دوسرے کی زندگی جہنم بنا رکھی تھی کہ وہ ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے، تو یہ محض اس بات کا ثبوت تھا کہ غلطی کا سرچشمہ خودوہ نہیں تھے، ان کا طور طریق اور احساس کا تلون نہیں تھا بل کہ ان کی عدم واقفیت یا ان مل بے جوڑی تھی: وہ زوروار تھا اور وہ کم زور ۔ وہ دوب چیک کی طرح تھی، جو ایک جملے کے درمیان تین سیکنڈ کا وقفہ ڈال دیتا تھا؛ وہ اپنے ملک کی طرح تھی جو تتلا تتلا کر بولتا تھا، سانس لینے کے لیے ہانپتا تھا، بولنے سے عاجز۔
لیکن جب زوروار اتنے کم زور ہوں کہ کم زوروں کو بھی جراحت نہ پہنچا سکیں، تو کم زوروں کو کم از کم اتنا بل وان تو ہونا چاہیے کہ چھوڑ کر جا سکیں۔
اور اپنے سے یہ سب کہنے کے بعد، اس نے اپنا چہرہ کرے نن کے پشم دار سر سے لگا کر دبایا اور بولی، ’’معاف کرنا، کرے نن۔ لگتا ہے تمھیں ایک بار پھر ہجرت کرنی پڑے گی‘‘۔

(۲۸)
ریل گاڑی کے ڈبے میں ایک کونے میں دبکے بیٹھے ہوئے، اس حال میں کہ وزنی سوٹ کیس سر کے اوپر رکھا ہوا تھا اور کیرے نن ٹانگوں میں بھنچا ہوا تھا، وہ مستقل ہوٹل کے ریستوراں کے باورچی کی بابت سوچتی رہی جب وہ وہاں کام کرتی تھی اور اپنی ماں کے ساتھ ہی رہتی تھی۔ باورچی اس کے کولھوں پر چپت مارنے کا کوئی موقع نہیں جانے دیتا تھا، اور سب کے سامنے یہ پوچھنے سے نہیں تھکتاتھا کہ وہ کب ہاں کرے گی اور اس کے ساتھ سوئے گی۔ عجیب بات تھی کہ صرف وہی اب اسے یاد آ رہا تھا۔ وہ ہمیشہ اس چیز کی اولین مثال رہا تھا جس سے اسے کراہت محسوس ہوتی تھی۔ لیکن اب وہ صرف اتنا ہی سوچ سکتی تھی کہ اس کا پتا لگائے اور اس سے کہے، ’’تم کہا کرتے تھے کہ میرے ساتھ سونا چاہتے ہو۔ تو لو، میں حاضر ہوں‘‘۔
وہ کوئی ایسی بات کر گزرنے کے لیے بے چین تھی کہ جس کے بعد اس کا توماش کے پاس لوٹ آنا ممکن نہ رہے۔ وہ اپنی زندگی کے گزشتہ سات سال بڑی بے دردی کے ساتھ مٹا دینا چاہتی تھی۔ یہ گھمیری تھی۔ یہ نیچے گرنے کی سر کو چڑھ جانے والی، ناقابلِ مغلوب خواہش تھی۔
ہم گھمیری کو کم زوروں کا نشہ بھی کَہ سکتے ہیں۔ اس کم زوری سے آگاہ آدمی اس کا مقابلہ کرنے کی بہ جائے اس کے آگے ہتھیار ڈال دیتا ہے۔ وہ کم زوری سے نشے میں آیا ہوا ہوتا ہے، اور بھی زیادہ کم زور ہو جانے کی خواش کرتا ہے، سب کے سامنے بیچ چوراہے پر گر جانے کی خواہش کرتا ہے، نیچے گر جانے کی خواہش کرتا ہے، تحت الثریٰ میں پہنچ جانے کی۔
اس نے پراگ کے باہر جا بسنے اور اپنا فوٹوگرافی کا پیشہ چھوڑ دینے کے لیے خود کو راضی کرنے کی کوشش کی۔ وہ اس چھوٹے سے شہر واپس چلی جائے گی جہاں سے کبھی توماش کی آواز اسے پھسلا کرباہر نکال لائی تھی۔
لیکن پراگ پہنچتے ہی اسے معلوم ہوا کہ متعدد عملی معاملات کو یک سو کرنا ہے اور یوں اپنی روانگی کو ملتوی کرتی رہی۔
پانچویں دن، توماش اچانک وہاں آ پہنچا۔ کرے نن اس پر خوب اچھلنے کودنے لگا، چناں چہ آپس میں کسی قسم کی رسمی گفت گو کا آغاز کرنے میں انھیں اچھا خاصا وقت لگ گیا۔ دونوں کو یوں لگا جیسے کسی برف پوش میدان میں کھڑے مارے سردی کے کپکپا رہے ہوں۔
پھر وہ ان عاشق و معشوق کی طرح جنھوں نے پہلے کبھی بوس و کنار نہ کیا ہو ساتھ ساتھ حرکت کرنے لگے۔
’’سب کچھ ٹھیک رہا ؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ہاں‘‘ ، وہ جواب میں بولی۔
’’رسالے کے دفتر گئی تھیں؟‘‘
’’انھیں فون کیا تھا‘‘۔
’’اور؟‘‘۔
’’ابھی تک توکچھ نہیں۔ میں انتظار کر رہی ہوں‘‘۔
’’کس بات کا ؟‘‘
تیریزا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اس سے یہ نہیں کَہ سکتی تھی کہ وہ اس کا انتظار کر رہی تھی۔

(۲۹)
اب ہم اس لمحے کی طرف لوٹتے ہیں جس کے بارے میں ہمیں پہلے ہی معلوم ہے۔ توماش بڑے شدید طور پر ناشاد تھا اور اس کے پیٹ میں سخت درد ہو رہا تھا۔ بہت رات گزر جانے سے پہلے اسے نیند نہ آ سکی۔
اس کے بعد جلد ہی تیریزا جاگ پڑی۔ (روسی جہاز پراگ پر دائرے کی صورت میں پرواز کر رہے تھے، اور ان کے شور کے باعث سونا ناممکن تھا۔) پہلا خیال جو اسے آیا یہ تھا کہ وہ اسی کی خاطر لوٹ آیا ہے؛ اسی کی خاطر اس نے اپنی تقدیر بدل لی ہے۔ وہ اب اور تیریزا کا ذمے دار نہیں ہو گا؛ اب تیریزا کو اس کی ذمے داری سنبھالنی ہو گی۔
یہ ذمے داری اسے محسوس ہوئی، اس سے کہیں زیادہ طاقت کی مقتضی تھی جو وہ اکٹھی کرسکتی تھی۔
اچانک اسے یاد آیا کہ گزشتہ دن فلیٹ کے دروازے پر توماش کے نمودار ہونے سے ذرا پہلے گرجے کی گھنٹیوں نے چھہ بجائے تھے۔ جس دن وہ پہلی بار ملے تھے، اس کی شفٹ بھی چھہ بجے ہی ختم ہوئی تھی۔ اس نے اسے اپنے سامنے پیلی بینچ پر بیٹھے دیکھا تھا اور گرجے کے گھنٹا گھر نے چھہ بجائے تھے۔
نہیں، یہ کوئی توہم نہیں بل کہ ایک احساسِ حسن تھا جس نے اس کی گری گری حالت سے نجات دلائی اور اسے زندہ رہنے کے لیے ایک تازہ ولولے سے بھر دیا۔ اتفاقات کے طیور ایک بار پھر اس کے کندھوں پر اتر رہے تھے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے اور وہ اپنے پہلو میں توماش کے سانس لینے کی آواز کو سن کر ناقابلِ بیان طور پر خوش تھی۔

ترجمہ: محمد عمر میمن

جمعہ، 25 مارچ، 2016

وجود کی ناقابل برداشت لطافت(حصہ اول)/میلان کنڈیرا

(پہلاحصہ:لطافت اورکثافت)
(۱)
ابدی بازگشت کا تصور خاصہ پُراسرا رہے، اورنیچے (Nietzsche) نے فلسفیوں کو اس کے ذریعے اکثرالجھا دیا ہے: یہ سوچنا کہ ہر شے ٹھیک جس طرح ہم نے اس کا تجربہ کیا تھا اسی طرح دوبارہ واقع ہوتی ہے، اور یہی بازگردی خود بھی لامتناہی طریقے پراپنے کودہراتی ہے! یہ باولی اسطور کس بات پر دلالت کرتی ہے؟
اسے منفی طور پر بیان کریں تو ابدی بازگشت کی اسطور کے مطابق ایک زندگی جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اوجھل ہوچکی ہے، جو لوٹ کر نہیں آتی، ایک سائے کی طرح ہے، بے وزن، پہلے سے مردہ، اور اگر یہ ہول ناک، خوب صورت، یا رفعت آشنا تھی، تو اس کی ہول ناکی، رفعت، خوب صورتی بے معنی ہے۔ اس پر چودھویں صدی کے دو افریقی قبائل کے درمیان ہونے والی جنگ سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں، ایک ایسی جنگ جس نے تقدیرِ عالم میں کوئی فرق نہیں پیدا کیا، اگر چہ لکھوکھا سیاہ فام شدید کرب کے عالم میں اس کی بھینٹ چڑھے۔
اگر چودھویں صدی کے افریقا کے دو قبائل کے درمیان جنگ ابدی بازگشت کے اصول پراپنے کو بار بار دہرائے تو کیا اس سے خود اس کی تقدیر بدل جائے گی؟
بالکل بدل جائے گی: یہ ایک ٹھوس تودا بن جائے گی، ایک ابھارکی صورت دائماًآگے کو نکلا ہوا ، اپنی پوچی میں لا علاج۔
اگر انقلابِ فرانس ابدیت تک بار بار ہوتا رہے، تو فرانسیسی تاریخ داں روبس (Robespierre)
پر کم تر فخر کریں گے۔ لیکن چوں کہ ان کا تعلق ایک ایسی چیز سے ہے جو پھر واقع نہیں ہوگی، انقلاب کا خونیں عرصہ محض لفظوں، نظریات، اور بحث مباحثوں میں بدل کر رہ گیا ہے، بال و پر سے لطیف تر بن گیا ہے، جس سے کسی کو بھی خوف نہیں آتا۔ تاریخ میں صرف ایک بار ہی واقع ہونے والے روبس پئیر اور اس روبس پئیر کے درمیان جو ابدتک فرانسیسیوں کے سر قلم کرنے کے لیے لوٹ کر آتا رہتا ہے ایک لامتناہی فرق ہے۔
چلو اس پر اتفاق کریں کہ ابدی بازگشت سے مراد ایک ایسا تناظر ہے جس میں چیزیں جس طرح ہم انھیں جانتے ہیں اس سے مختلف نظر آتی ہیں: اس تناظر میں وہ ان اسباب و علل کے بغیر نمودار ہوتی ہیں جو ان کی آنی جانی نوعیت کی شدّت کو کم کردیتے ہیں۔ شدّت کو کم کرنے والے اسباب و علل ہمیں فیصلہ صادر کرنے سے باز رکھتے ہیں۔ آخر ہم کیسے کسی ایسی چیز کو موردِ الزام ٹھہرا سکتے ہیں جوزودگزر ہو، ابھی راہ ہی میں ہو؟ زائلی کے جھٹ پٹے میں، ہر شے ناستلجیا کی فضا سے اجاگر ہونے لگتی ہے، حتیٰ کہ گیوتین(سر قلم کرنے کی مشین) بھی۔
بہت زیادہ پہلے کی بات نہیں، میں نے ایک بے حد ناقابلِ یقین احساس کو ناگہانی اپنے میں سر اٹھاتے ہوئے پایا۔ ہٹلر کے بارے میں ایک کتاب کی ورق گردانی کرتے وقت مَیں اس کی بعض تصویروں سے متاثر ہوا: انھوں نے مجھے میرا بچپن یاد دلادیا۔ میری نشوو نما جنگ کے زمانے میں ہوئی تھی؛ میرے بہت سے رشتے دار ہٹلر کے کونسن ٹریشن کیمپوں میں فنا ہوگئے تھے؛ لیکن میری زندگی کے ایک گم گشتہ دور کی یادوں سے ان کا کیا مقابلہ ہوسکتا تھا، ایک ایسے دور سے جو لوٹ کر نہیں آنے والا تھا؟
ہٹلر سے یہ مصالحت ایک ایسی دنیا کی عمیق اخلاقی کج روی کا انکشاف کرتی ہے جس کا دارومدار بازگشت کے عدم وجود پر ہے، کیوں کہ اس دنیا میں ہر بات کو پہلے سے ہی معاف کردیا جاتا ہے اور، اسی لیے، ہر چیزکو کلبیت زدگی کے باعث کرگزرنے کی اجازت ہوتی ہے۔

(۲)
اگر ہماری زندگی کا ہر پَل خود کو لامتناہی طور پر دہرائے تو ہم جیزز کرائسٹ کی طرح ابدتک صلیب پر چڑھے رہیں۔ یہ بڑا ہول ناک خیال ہے۔ ابدی بازگشت کی دنیا میں، ہماری ہر حرکت پرناقابلِ برداشت ذمے داری کا بوجھ پڑا ہوتا ہے۔ اسی لیے نیچے(Nietzsche) ابدی بازگشت کے تصور کو سخت ترین بوجھ کہتا تھا (das schwerste Gewicht) ۔
اگر ابدی بازگشت ایک سخت ترین بوجھ ہے، تو ہماری زندگیاں اس کے مقابل اپنی تمام شان دارلطافت کے ساتھ کھڑی ہوسکتی ہیں۔
لیکن کیا گراں باری واقعتاً نفرت انگیز اور لطافت پُر شکوہ ہے؟
سخت ترین بوجھ ہمیں کچل کر رکھ دیتا ہے، ہم اس کے نیچے دب جاتے ہیں ، یہ ہمیں زمین پر بے نقل و حرکت کردیتا ہے۔ لیکن ہر دور کی عشقیہ شاعری میں عورت مرد کے جسم کے بوجھ سے دب جانے کی آرزو کرتی ہے۔ چناں چہ سخت ترین بوجھ بہ یک وقت زندگی کی شدید ترین آسودگی کا پیکر بھی ہوتا ہے۔ بوجھ جتنا زیادہ سخت ہوتا ہے، ہماری زندگی اتنی ہی زیادہ زمین سے قریب آجاتی ہے، اتنی ہی زیادہ حقیقی اور سچی بن جاتی ہے۔
اس کے برعکس، بوجھ سے مطلق آزادی آدمی کو ہوا سے لطیف تر بنا دیتی ہے، تاکہ بلندیوں میں پرواز کرسکے، زندگی سے اور اپنی حیاتِ دنیوی سے رخصت ہو، اور صرف نصف حقیقی رہ جائے، اس کی حرکات اتنی ہی آزاد جتنی کہ وہ بے معنی ہیں۔
تو پھر ہم کیا اختیار کریں؟ وزن یا لطافت؟
چھٹی صدی ماقبلِ مسیح میں پارمینیڈیز (Parmenides)نے یہی سوال اٹھایا تھا: اس نے دنیا کو متخالف اشیاکی جوڑیوں میں منقسم کیا: نور؍ظلمت،نفاست؍درشتی، گرمی؍سردی، وجود؍عدم۔ نصف ضدّوں کو مثبت قرار دیا (نور، نفاست، گرمی، وجود) اور بقیوں کو منفی۔مثبت اور منفی اقطاب میں یہ تقسیم ہمیں بچکانہ حد تک سیدھی سادی نظر آسکتی ہے اِلّا یہ کہ ایک دشواری ہے: ان میں سے کون سی مثبت ہے ، کثافت یا لطافت؟
پارمینیڈیز کا جواب تھا: لطافت مثبت ہے، کثافت منفی۔
کیا وہ درستی پر تھا یا نہیں تھا؟ سوال یہ ہے۔ اگر کوئی بات یقین کے درجے کو پہنچ سکتی ہے تو وہ یہ ہے: لطافت؍کثافت کا تضاد سب سے زیادہ پُراسرار، سب سے زیادہ مبہم ہے۔

(۳)
میں توماش کے بارے میں برسوں سے غور کررہا ہوں۔ لیکن صرف انھیں تفکرات کی روشنی میں مَیں اسے صاف صاف دیکھا سکا۔ میں نے اسے کھڑکی میں کھڑے صحن کے پار مقابل دیواروں کو گھورتے ہوئے پایا، اس سے لاعلم کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔
تیریزا سے اس کی پہلی ملاقاتیں ہفتے پہلے ایک چھوٹے سے چیک شہر میں ہوئی تھی۔ انھوں نے بہ مشکل ایک گھنٹا ہی ساتھ گزارا تھا۔ وہ اس کے ساتھ اسٹیشن تک آئی تھی اور اس وقت تک اس کے ساتھ انتظار کرتی رہی تھی جب تک کہ وہ ریل گاڑی میں سوار نہ ہوگیا۔ دس دن بعد وہ اس سے ملنے آئی۔ انھوں نے اس کی آمد والے دن ہی جفتی کی۔ اُسی رات اسے بخار چڑھ گیا اور وہ پورا ہفتہ فلو میں مبتلا فلیٹ ہی میں پڑی رہی۔
وہ اس تقریباً اجنبی کے لیے ایک ناقابلِ بیان محبت محسوس کرنے لگا تھا؛ وہ اسے ایک بچّی نظر آتی تھی، ایک بچی جسے کسی نے نرسل کی ٹوکری میں رخنے بھرنے کے لیے قیر ڈال کر دھارے کے رخ پر بہا دیا ہو تاکہ توماش اسے اٹھا کر اپنے بستر کے کنارے پر لے آئے۔
وہ اس کے ساتھ ہفتہ بھر رہی، تا آں کہ دوبارہ صحت یاب ہوگئی، پھر اپنے شہر لوٹ گئی، جو پراگ سے کوئی سوا سو میل کی مسافت پرواقع تھا۔ پھر وہ وقت آیا جس کا میں نے ابھی ابھی ذکر کیا ہے اور جسے مَیں توماش کی زندگی کی کلید کے طور پر دیکھتا ہوں: کھڑکی میں ایستادہ، صحن کے اوپر سے نظر الانگتا ہوااپنے مقابل دیواروں کو گھورتے ہوئے سوچ میں غرق۔
کیا وہ اسے ہمیشہ کے لیے پراگ بلالے؟ اسے ذمے داری کا خوف تھا۔ اگر اس نے آنے کی دعوت دی تو وہ آکر رہے گی اور اپنی زندگی اس کی نذر کردے گی۔
یا وہ اس کی طرف پیش قدمی کرنے سے احتراز کرے؟ اس صورت میں وہ ایک مضافاتی شہر کے ہوٹل ریستوراں میں ایک ویٹرس ہی رہے گی اور وہ اسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھ سکے گا۔
وہ کیا چاہتا ہے۔۔۔ وہ آئے یا نہ آئے؟
اس نے صحن کے اوپر سے مقابل دیواروں کو دیکھا، کسی جواب کی تلاش میں۔
وہ رہ رہ کر اسے اپنے بستر پر لیٹے ہوئے یاد کرتا رہا؛ وہ اسے اپنی سابقہ زندگی میں کسی فرد کو یاد نہیں دلاتی تھی۔ وہ نہ داشتہ تھی نہ بیوی۔ وہ تو ایک بچی تھی جسے اس نے قیر لگی نرسلوں کی ٹوکری سے اٹھایا تھا جو اس کے بستر کے کنارے کی طرف بہا دی گئی تھی۔ وہ سو گئی۔ توماش اس کے برابر دو زانو ہوگیا۔ اس کی تپ میں پھنکتی ہوئی سانسوں میں تیزی آگئی اور اس نے ایک کم زور سی کراہ لی۔ توماش نے اپنا چہرہ اس کے چہرے سے بھڑا کر نیند ہی میں چند تسکین آمیز کلمات سرگوشی میں ادا کیے۔ کچھ دیر کے بعد اسے اس کا تنفس اپنے معمول پر آتا ہوا محسوس ہوا اور اس کا چہرہ لاشعوری طور پر توماش کے چہرے کی طرف اٹھنے لگا۔ اسے اس کے تپ کی لطیف مہک سنگھائی دی اور وہ اس میں سانسیں لینے لگا، جیسے اس کے جسم کی قربت سے خود کو بے تحاشاسیراب کرنے کا کوشاں ہو۔ اور یہ خیال کہ وہ ایک زمانے سے اس کے ساتھ رہی ہو اور اب پڑی مر رہی ہویک بارگی اس کے تخیل میں تیر گیا۔ اسے اچانک صاف صاف یہ احساس ہوا کہ وہ اس کی موت سے جاں بر نہ ہوسکے گا۔ وہ اسی کے برابر لیٹ جائے گا اور اسی کے ساتھ مرنا چاہے گا۔ اس نے تکیے پر اس کے چہرے کے برابر ہی اپنا چہرہ رکھ کردبایااور بڑی دیر تک وہیں رہنے دیا۔
فی الوقت وہ کھڑکی میں کھڑا اُس لمحے کو یاد کررہا تھا۔ اگر محبت اس سے اپنا اعلان نہیں کررہی تھی تو یہ کیا تھا؟
لیکن کیا یہ محبت ہی تھی؟ اس کے پہلو میں مرنے کا احساس بلاشبہ مبالغہ آمیزتھا: اس نے اپنی پوری زندگی میں آج سے پہلے اسے ایک بارہی دیکھا تھا! کیا یہ کسی ایسے آدمی کا بس ہسٹریا ہی نہیں تھا جو اپنی گہرائیوں میں محبت سے متعلق اپنی بے توفیقی سے آگاہ اسے طاری کرنے کی خودفریبانہ ضرورت محسوس کررہا ہو؟اس کا لاشعور اس درجہ بزدل تھا کہ اپنی واجبی سی کومیڈی کے لیے جو بہترین ساتھی منتخب کرسکتا تھا وہ ایک بے چاری مضافاتی ویٹرس تھی جس کا اس کی زندگی میں شامل ہونے کا سرے سے کوئی امکان ہی نہیں تھا!
صحن کے اوپر سے میلی سی دیواروں کو دیکھتے ہوے اسے محسوس ہوا کہ وہ بالکل نہیں جانتا کہ یہ ہسٹریا تھا یا محبت۔
اور اسے اس بات سے کلفت ہورہی تھی کہ ایسی صورتِ حال میں جس میں ایک حقیقی آدمی کو فوراً معلوم ہوتا ہے کہ اسے کیا کرنا چاہیے، وہ خود پس و پیش کا شکار ہوگیا ہے اور ان بے حد حسین لمحات کو جن کا اس نے اپنی زندگی میں تجربہ کیا ہو (اس کا بستر پر دوزانو ہو کر بیٹھنا اور یہ سوچنا کہ وہ اس کی موت سے جاں بر نہ ہوسکے گا) اپنی معنویت سے محروم کیے دے رہا تھا۔
وہ اس وقت تک خود پرجھنجلایا رہاجب تک یہ احساس نہ ہوگیا کہ کیا کرنا چاہیے اس کی یہ لاعلمی درحقیقت بڑی فطری بات ہے۔
ہم کبھی یہ نہیں جان سکتے کہ کیا خواہش کریں کیوں کہ صرف ایک زندگی گزارتے ہوئے نہ تو ہم اس کا سابقہ زندگیوں سے مقابلہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی اپنی آنے والی زندگیوں میں اسے درجۂ کمال کو پہنچا سکتے ہیں۔
کیا تیریزا کے ساتھ ہونا بہتر تھا یا اکیلے رہنا؟
کون سا فیصلہ بہتر ہے ، اس کی آزمائش کا کوئی طریقہ نہیں، کیوں کہ مقابلے کی کوئی بنیاد نہیں۔ ہم جو پیش آتا ہے ، متنبہ کیے بغیر،اسے جھیلتے ہیں، کسی اداکار کی طرح جو اسٹیج پر بغیر رہرسل کیے پہنچ جائے۔ اگر زندگی کا پہلا رہرسل خود زندگی ہی ہو توبھلا ایسی زندگی کس قابل ہے؟اسی لیے زندگی ہمیشہ ایک خاکے کی طرح ہوتی ہے۔ نہیں، ’’خاکہ‘‘ مناسب لفظ نہیں، کیوں کہ خاکہ کسی چیز کا ہوتا ہے، کسی تصویر کی بیرونی خطوط اندازی، جب کہ وہ خاکہ جو ہماری زندگی ہے، کسی چیز کا خاکہ نہیں، وہ بیرونی خطوط جن میں کوئی تصویر نہیں۔Einmal ist keinmal توماش خود سے کہتا ہے۔جو ایک ہی بار ہوتا ہے،جرمن قول کے مطابق، بہتر ہے کہ کبھی ہوا ہی نہ ہوتا۔ اگر زندہ رہنے کے لیے ہم سب کے پاس ایک ہی زندگی ہے، تویہ بہتر ہوتا کہ ہم کبھی زندہ ہی نہ ہوتے۔

(۴)
لیکن پھر ایک دن اسپتال میں ، آپریشنوں کے درمیانی وقفے میں، ایک نرس نے اسے فون سننے کے لیے بلایا۔ اسے ریسیور سے تیریزا کی آواز آتی سنائی دی۔ وہ اسے ریلوے اسٹیشن سے فون کررہی تھی۔ وہ خوشی سے بے قابو ہوگیا۔ بدقسمتی سے اُس شام وہ مصروف تھا اور اگلے دن سے پہلے اسے اپنے ہاں نہ بلا سکا۔ فون واپس رکھتے ہی وہ خود کو لعنت ملامت کرنے لگا کہ کیوں نہیں اسے سیدھے وہاں جانے کے لیے کہا۔بہ ہر صورت، اس کے پاس اپنی مصروفیت منسوخ کرنے کے لیے کافی وقت تھا ! اس نے تصور کرنے کی کوشش کی کہ ان کی ملاقات سے پہلے کے چھتیس گھنٹوں تک تیریزا پراگ میں کیا کچھ کرے گی، اور یہ خیال آیا کہ چھلانگ لگا کر کار میں جا بیٹھے اور سڑکوں پر اس کی تلاش میں نکل کھڑا ہو۔
وہ اگلی شام آئی، شانے سے ایک ہینڈ بیگ لٹکائے، پہلے سے بھی زیادہ خوش وضع۔ اس کی بغل میں ایک ضخیم سی کتاب دبی ہوئی تھی۔ یہ ’’اینا کرے نینا‘‘ تھی۔ وہ اچھے موڈ میں تھی، حتیٰ کہ تھوڑا سا غل غپاڑہ بھی مچا رہی تھی، اور اسے یہ محسوس کرانے کی کوشش کی کہ وہ بس اتفاقیہ ہی اس کی طرف آنکلی ہے، کچھ ایسا ہی ہوا: وہ پراگ کسی کام کے سلسلے میں آئی تھی، شاید (اس مقام پر وہ کچھ گول مول سی ہوگئی) کسی کام وام کی تلاش میں۔
بعد میں، جب وہ بستر میں ایک دوسرے کے پہلو میں برہنہ پڑے ہوئے تھے اور شہوت کا زور ٹوٹ چکا تھا، اس نے پوچھا کہ وہ کہاں ٹھہری ہوئی ہے۔ اس وقت تک رات ہوچکی تھی، اور اس نے تیریزاکو کار میں وہاں پہنچانے کی پیشکش کی۔ اس نے سراسیمہ ہوکر جواب دیا کہ اسے ہنوز ہوٹل تلاش کرنا ہے اور یہ کہ وہ اپنا سوٹ کیس اسٹیشن پر چھوڑ آئی ہے۔
صرف دو دن پہلے اسے یہ دھڑکا لگا ہوا تھا کہ اگراس نے تیریزا کو پراگ آنے کی دعوت دی تو وہ اپنی جان اس کی نذر کردے گی۔ جب اس نے بتایا کہ اس کا سوٹ کیس اسٹیشن پر ہے، تو اسے فوری یہ احساس ہوا کہ اس میں اس کی جان رکھی ہوئی ہے اور وہ اسے اسٹیشن پر صرف اتنی دیر کے لیے رکھ آئی ہے جب تک اسے یہ اس کی نذر کرنے کا موقع نہیں مل جاتا۔
دونوں اس کی کار میں آبیٹھے جو گھر کے سامنے کھڑی ہوئی تھی اور اسٹیشن پہنچے۔ اس نے سوٹ کیس چھڑایا (یہ کافی بڑا اور بے تحاشا وزنی تھا) اور اسے اور تیریزا کو لے کر واپس گھر پہنچا۔
اس نے یہ اچانک فیصلہ کیسے کرلیا تھا جب کہ پورے ایک پندھرواڑے تک وہ اس قدر ڈانواڈول رہا تھا کہ اسے ایک پوسٹ کارڈ بھیج کر یہ بھی نہ پوچھ سکا کہ کس حال میں ہے ۔
خود اسے تعجب تھا۔ اس نے اپنے اصولوں کے خلاف عمل کیا تھا۔ دس سال پہلے، جب اس نے اپنی بیوی کو طلاق دی تھی، تو اس نے اس موقعے کی خوشی اسی طرح منائی تھی جس طرح اورلوگ شادی کی خوشی مناتے ہیں۔ اس نے سمجھ لیا تھا کہ وہ کسی بھی عورت کے ساتھ رہنے کے لیے پیدا نہیں ہوا ہے اور صرف ایک غیر شادی شدہ کی جون ہی میں اپنا آپا پوری طرح برقرار رکھ سکتا ہے۔ اس نے اپنی زندگی کو اس طرح مرتب کرنے کی کوشش کی کہ کوئی عورت بھی اس کے گھر میں اپنے سوٹ کیس سمیت داخل نہ ہوسکے۔ اس کے فلیٹ میں صرف ایک بستر ہونے کی وجہ بھی یہی تھی۔ اگرچہ یہ کافی کشادہ تھا، توماش اپنی داشتاؤں سے یہی کہتا کہ وہ کسی کے پہلو میں سو ئے تو نیند نہیں آتی، اور آدھی رات گزرنے پرانھیں کار میں بٹھا کران کے گھر چھوڑ آتاتھا۔توجس بات نے تیریزا کی پہلی آمد پر اس کے ساتھ بستر میں رات گزارنے سے اسے باز رکھا تو وہ فلو نہیں تھی۔ پہلی رات وہ اپنی کشادہ سی آرام کرسی پر سویا تھا، اور ہفتے کے بقیہ دنوں ہر رات اسپتال چلا گیا تھا جہاں اس نے اپنے دفتر میں ایک کھاٹ ڈال رکھی تھی۔
لیکن اِس بار اسے تیریزا کے پہلو میں نیند آگئی۔ اگلی صبح جب اس کی نیند ٹوٹی تو اسے اپنے برابر تیریزا نظر آئی، ہنوز محوِ خواب، اور اس کا ہاتھ تھامے ہوئے (مضبوطی کے ساتھ: وہ اسے اس کی گرفت سے آزاد نہ کرسکا)، اور وہ لاتحاشا وزنی سوٹ کیس بستر کے برابر ہی پڑا تھا۔
اس کی گرفت سے اپنا ہاتھ چھڑانے سے وہ اس خوف کی وجہ سے بازرہا کہ کہیں وہ اٹھ نہ جائے، اور بڑی احتیاط سے اپنے پہلو کے بل ہوگیا تاکہ اسے نظر بھر کردیکھ سکے۔
ایک بار پھر اسے یہی خیال گزرا کہ تیریزا ایک بچی ہے جسے قیر لگی نرسلوں کی ٹوکری میں رکھ کر دھارے کے بہاؤ پر ڈال دیا گیا ہے۔ وہ ایسی ٹوکری کو جس میں ایک بچی پڑی ہے بھلا کیسے طوفانی دریا میں دھارے کے رخ بہنے دے سکتا ہے!اگر فرعون کی بیٹی نے موجوں کے منھ سے اس ٹوکری کو نہ نکال لیا ہوتا جو ننّھے موسیٰ کو لیے جارہی تھی، تو آج’’ تورات‘‘کا وجود نہ ہوتا، نہ کوئی تہذیب، جسے ہم تہذیب سمجھتے ہیں، ہوتی !کتنی بہت سی قدیم اساطیراس بچے کو بچانے سے شروع ہوتی ہیں جسے تقدیر کے رحم و کرم پر اکیلا چھوڑ دیا گیا ہو! اگر پولی بس نے (Polybus)نوخیز اوڈیپس کو اپنی پناہ میں نہ لیا ہوتا تو سوفوکلیز اپنا حسین ترین المیہ نہ لکھتا!
اُس وقت توماش کو یہ احساس نہیں ہوا کہ استعارے خطر ناک ہوتے ہیں۔ استعاروں کے ساتھ چھیڑ خانی نہیں کرنی چاہیے۔ ایک واحد استعارہ محبت کو جنم دے سکتا ہے۔

(۵)
وہ اپنی بیوی کے ساتھ دو سال کی مختصر مدت ہی رہا تھا، اور ان کے ایک بیٹا ہوا۔ طلاق کی کارروائی میں جج نے شیرخوار کو ماں کی تحویل میں دے دیا تھا اور توماش کو یہ حکم کہ اپنی تنخواہ کا ایک تہائی اس کی دیکھ بھال کے واسطے دیا کرے۔ اس نے توماش کو ہر دوسرے ہفتے بچے سے جاکر ملنے کا حق بھی دیا۔
لیکن ہر مرتبہ جب وہ اس سے ملنے والا ہوتا، ماں بچے کو اپنے ہی پاس رکھنے کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ تراش لیتی۔ جلد ہی اسے یہ احساس ہوگیا کہ اُن کے لیے قیمتی تحائف لانے سے معاملہ شاید نسبتاً آسان ہوجائے، کہ بچے کی محبت کے لیے اس سے ماں کو رشوت دینے کی توقع کی جارہی تھی۔ اسے ایک ایسا مستقبل نظر آیا جس میں وہ بچے میں اپنے خیالات کا نقش بٹھانے کی کوششیں کررہا ہے، وہ خیالات جو ہر طرح سے ماں کے خیالات کے الٹ تھے۔ اس خیال ہی سے وہ نڈھال ہوگیا۔ جب ایک اتوار کو بچے کی ماں نے ایک بار پھر ایک مقررہ ملاقات منسوخ کردی تو توماش نے کھڑے کھڑے فیصلہ کر ڈالا کہ وہ اب کبھی بچے سے ملنے نہیں جائے گا۔
کسی اور کے مقابلے میں اسے اس بچے کے لیے زیادہ جذبہ محسوس کرنے کی کیا ضرورت ہے جس سے اس کا واحد بندھن ایک ناعاقبت اندیش رات سے بیش نہیں؟ وہ دیکھ بھال کی رقم پابندی سے ادا کرتا رہے گا؛ وہ بس یہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی محض پدرانہ جذبات کی خاطر اسے بچے کے لیے لڑنے پر مجبور کردے!
یہ کہنا بے ضرورت ہے کہ اسے کوئی ہم درد ی کرنے والا نہیں ملا۔ خود اس کے والدین نے کھلم کھلا اسے لعن طعن کی؛ اگر توماش اپنے بچے میں دل چسپی لینے کا انکاری ہے تو وہ، توماش کے والدین، خود اپنے لڑکے میں مزید دل چسپی نہیں لیں گے۔ انھوں نے اپنی بہو سے اچھے تعلقات قائم رکھنے کا خوب مظاہرہ کیا اور اپنے موقف اور احساسِ عدل کا خوب خوب نقّارہ پیٹا۔
چناں چہ فعلاً چشم زدن ہی میں اس نے بہ یک وقت بیوی، بچے، اورماں باپ سے پیچھا چھڑالیا۔ جو واحد چیز انھوں نے وراثتاً اسے ودیعت کی وہ عورتوں کا خوف تھی۔ توماش ان کی خواہش کرتاتو تھا لیکن ان سے ڈرتا بھی تھا۔ خوف اور خواہش میں مصالحت کی احتیاج کے باعث اس نے وہ حکمت عملی ڈھونڈ نکالی جسے اس نے’’شہوانی تعلق‘‘ کا نام دیا۔ وہ اپنی آشنا عورتوں سے کہتا: صرف وہی تعلق فریقین کو خوش کرسکتا ہے جس میں جذباتیت کا کہیں گزر نہ ہو اور جس میں کوئی فریق دوسرے کی زندگی اور آزادی پر کوئی حق نہیں جتاتا ہو۔
یہ خاطر جمع کرنے کے لیے کہ شہوانی تعلق کبھی محبت کی جراحت میں تبدیل نہ ہوجائے، وہ اپنی ہر دیرینہ داشتہ سے صرف وقفوں وقفوں بعدہی ملتا ۔ وہ اس طریقۂ کار کو بے عیب سمجھتا اور اپنے دوستوں میں اس کی ترویج کرتا: ’’اہم بات تین کے اصول کا التزام ہے۔ یا آدمی عورت سے جلد جلد تین بار ملے اور پھر کبھی نہیں، یا سالوں تعلق قائم رکھے لیکن یہ پکا کرلے کہ ملاقاتوں کے درمیان کم از کم تین ہفتوں کا وقفہ ہو۔‘‘
تین کے اصول نے توماش کو اس کا اہل بنادیا کہ بعض عورتوں سے اپنے معاشقے صحیح سلامت رکھے اوربہت سی دوسری عورتوں کے ساتھ قلیل مدّتی معاشقے بھی جاری رکھے۔ اسے ہمیشہ صحیح نہیں سمجھا جاتا تھا۔جو عورت اسے سب سے بہتر طور پر سمجھتی تھی وہ بس سبینا ہی تھی۔ وہ ایک پینٹر تھی۔ ’’میں تمھیں جس وجہ سے پسند کرتی ہوں،‘‘ وہ اس سے کہتی، ’’وہ یہ ہے کہ تم کِچ (kitsch)کا بالکل اُلٹ ہو۔ کِچ کی راج دھانی میں تم ایک عفریت ثابت ہوگے۔‘‘
اور جب اسے تیریزا کے لیے پراگ میں ملازمت دلوانے کی ضرورت آ پڑی تو یہ سبینا ہی تھی جس کااس نے رخ کیا۔ شہوانی دوستی کے غیر نوشتہ اصولوں پر عمل کرتے ہوئے سبینا نے حتّی المقدور سب کچھ کرنے کا وعدہ کیا اور سچ مچ جلد ہی ایک مصورہفتہ وار رسالے کے ڈارک روم میں تیریزا کے لیے ایک اسامی ڈھونڈ نکالی۔یہ ٹھیک ہے کہ اس کی نئی ملازمت میں کسی خاص اہلیت کی ضرورت نہیں تھی، اس نے کم از کم اس کی حیثیت ایک ویٹرس سے پریس کے ایک رکن میں بڑھا دی۔ جب سبینا نے بہ نفسِ نفیس تیریزا کا تعارف ہفتہ وار رسالے کے ہر کارگزارسے کرایا تو توماش کو پتا چل گیا کہ داشتاؤں میں سبینا سے بہتر اس کی کوئی اور دوست نہیں رہی ہے۔

(۶)
شہوانی دوستی کے غیر نوشتہ معاہدے کی رو سے توماش پر یہ شرط عائد ہوتی تھی کہ وہ ہرنوع کی محبت کو اپنی زندگی سے بے دخل کردے۔ جس لمحے وہ اس شق کی خلاف ورزی کرے گا، اس کی دوسری داشتاؤں کی حیثیت کم ہوجائے گی ا ور وہ بغاوت پر کمربستہ ہوجائیں گی۔
نتیجے کے طور پر اس نے تیریزا اور اس کے وزنی سوٹ کیس کے لیے ایک کمرا کرائے پر لے لیا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کی خیر خبر رکھے، اس کی حفاظت کرے، اس کی موجودگی سے لطف اندوز ہو، لیکن اس نے اپنی زندگی کی روش کو تبدیل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں محسوس کی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ لوگوں کو بھنک ہوجائے کہ تیریزا اس کی رہائش گاہ پر ہی سوتی ہے: رات ساتھ گزارنا محبت کی شہادتِ جرم ہے۔
وہ دوسری عورتوں کے ساتھ کبھی رات نہیں گزارتا تھا۔ اگر ان کی قیام گاہ پر ہوتا تو یہ کام آسان تھا: وہ جب چاہے وہاں سے جا سکتا تھا۔ لیکن اگر وہ اس کے یہاں آئی ہوئی ہوتیں توصورتِ حال نازک ہوجاتی اور اسے بتانا پڑتا کہ نصف شب گزرنے پر وہ انھیں کار میں گھر چھوڑ آئے گا کیوں کہ وہ بے خوابی کا شکار ہے اور کسی دوسرے کے قریب لیٹے تو نیندکا آنا ناممکن ہے۔ اگرچہ یہ بات صداقت سے دور نہیں تھی، ان سے پوری صداقت بیان کرنے کی جرأت اسے کبھی نہیں ہوئی: جفتی کے بعد تنہا ہونے کی ایک بے قابو خواہش اس پر حاوی ہوجاتی؛ بیچ رات میں کسی اجنبی جسم کے برابر جگنا اسے ناگوار گزرتا تھا، اور صبح کسی دخل انداز کے ساتھ اٹھنے سے اسے کراہت محسوس ہوتی تھی؛ اسے اس کی بالکل خواہش نہیں تھی کہ کوئی اسے برش سے دانت مانجھتے ہوئے سنے، نہ بے تکلف ناشتے کا خیال ہی اس کے لیے باعثِ ترغیب تھا۔
یہی وجہ تھی کہ بیدار ہونے پر یہ دیکھ کر کہ تیریزا بڑی مضبوطی سے اس کا ہاتھ دبا رہی ہے اسے اتنا شدید تعجب ہوا۔ وہاں لیٹے ہوئے اور اسے دیکھتے ہوئے اسے ٹھیک سے سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا ماجرا ہوا ہے۔ لیکن جب اس نے پچھلی چند ساعتوں کی یادآوری کی تو اسے ان سے ایک ان جانی مسرت کی لو پھوٹتی ہوئی محسوس ہوئی جس کا اس سے پہلے اسے کبھی تجربہ نہیں ہوا تھا۔
اس کے بعد سے دونوں ہی ساتھ ساتھ سونے کے منتظر رہنے لگے۔ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ ان کی جفتی کی غرض و غایت اتنی حصولِ لذّت نہیں تھی جتنی وہ نیند جو اس کے بعد آتی تھی۔تیریزا خاص طور پر اس سے متاثر ہوتی۔ جب کبھی اسے اپنے کرائے کے کمرے میں رات گزارنی پڑتی (جو بہت جلد توماش کے لیے عدم موجودگی کا عذر بن گیا تھا) تو اسے نیند ہی نہ آتی؛ لیکن چاہے وہ کتنی ہی پریشان اور پراگندہ خاطر کیوں نہ رہی ہو توماش کی بانہوں میں آسانی سے سوجاتی۔ وہ اسے سرگوشیوں میں پریوں کی کہانیاں سناتا جو اس نے وہیں اس کے بارے میں گڑھی ہوتیں، یہ بے معنی باتیں، لفظ جو وہ بڑی یک رنگی سے دہراتا، لفظ جو تسکین آور یا مزاحیہ ہوتے، جو اسے تھپک تھپک کر رات کے اولیں خوابوں میں لے جانے والے مبہم نظاروں میں بدل جاتے۔ تیریزا کی نیند پر اس کی پوری عمل داری تھی: وہ ٹھیک جس لمحے چاہتا وہ اونگھ جاتی۔
جب وہ سو رہے ہوتے تو وہ توماش کو اسی طرح تھامے رہتی جیسے پہلی رات، اس کی کلائی، انگلی، یا ٹخنے کو مضبوطی سے گرفت میں لیے ہوئے۔ اگر وہ اس کو بیدار کیے بغیر جنبش کرنا چاہتا، تو اسے کوئی حکمتِ عملی استعمال کرنی پڑتی۔ اس کی گرفت سے اپنی انگلی (کلائی، ٹخنا) آزاد کرانے کے بعد، ایک ایسا عمل جو کبھی اسے جزوی طور پر بیدار کیے بغیر نہ رہتا کیوں کہ وہ اپنی نیند میں بھی اس کی نگہ بانی کررہی ہوتی، وہ کوئی چیز (ایک گول مول تہ کیا ہوا شب خوابی کے لباس کا بالائی حصہ، سلیپر، کتاب) اس کی گرفت میں دے کراسے تسکین دیتا، جسے وہ پھر اتنی مضبوطی سے پکڑ لیتی جیسے یہ توماش کے بدن ہی کا کوئی حصہ ہو۔
ایک بارجب توماش نے اسے بس تھپک تھپک کر سلایا ہی تھا لیکن وہ ابھی خواب کی ڈیوڑھی سے آگے نہ بڑھی تھی اور ردِ عمل ظاہر کرنے پر قادر تھی، وہ اس سے بولا، ’’خدا حافظ، میں اب جا رہا ہوں۔‘‘ ’’کہاں؟‘‘ وہ نیند میں بڑبڑائی۔ ’’دور،‘‘ اس نے درشتی سے جواب دیا۔ ’’تو پھر میں بھی تمھارے ساتھ چل رہی ہوں،‘‘ وہ بولی، بستر میں ایک دم چوکس ہوتے ہوئے۔ ’’نہیں، تم نہیں چل سکتیں۔ میں ہمیشہ کے لیے جارہا ہوں،‘‘ وہ بولا، کمرے سے باہر ہال میں جاتے ہوئے۔ وہ اٹھ بیٹھی اور اس کے پیچھے پیچھے باہر نکل آئی، آنکھیں چندھیاتے ہوئے۔ اپنے کوتاہ نائٹ ڈریس کے نیچے وہ برہنہ تھی۔ اس کا چہرہ خالی خالی تھا، بے تاثر، لیکن وہ بڑی پھرتی سے حرکت کررہی تھی۔ وہ چلتے ہوے فلیٹ کے ہال سے عمارت کے ہال میں آیا (جسے سارے کرائے دارمشترکہ استعمال کرتے تھے) ، اور دروازہ اس کے منھ پر بند کردیا۔ اس نے اسے دھڑ سے کھول دیا اور اس کا تعاقب جاری رکھا، اپنی نیند میں قائل کہ وہ واقعی اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جارہا ہے اور تیریزا کو کسی نہ کسی طرح اسے روکنا چاہیے۔ وہ زینے سے اتر کر پہلی لینڈنگ پر آیا اور وہاں اس کا انتظار کرنے لگا۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے سیڑھیاں اتر کر آئی، اس کا ہاتھ پکڑ لیا، اور واپس بستر پر لے آئی۔ توماش اس نتیجے پر پہنچا: ایک عورت کے ساتھ جفتی کرنا اور ایک عورت کے ساتھ سونا دو مختلف شدید جذبے ہیں، محض مختلف ہی نہیں بل کہ ایک دوسرے کی ضدبھی۔محبت اپنا اظہارجفتی کی خواہش میں نہیں کرتی (ایک ایسی خواہش جو عورتوں کی ایک لا محدود تعداد کو محیط ہوتی ہے) بل کہ ساتھ سونے کی خواہش میں (وہ خواہش جو صرف ایک عورت تک محدود ہوتی ہے)۔

(۷)
دورانِ شب وہ نیند میں کراہنے لگی۔ توماش نے اسے جگایا، لیکن اس کے چہرے کو دیکھتے ہی وہ نفرت بھری آواز میں بولی، ’’مجھ سے دور ہو! مجھ سے دور ہو!‘‘اس کے بعد اس نے توماش سے اپنا خواب بیان کیا: وہ دونوں اور سبینا ایک بڑے سے کمرے میں تھے۔ کمرے کے وسط میں ایک پلنگ رکھا تھا۔ یہ تھئیٹر کے چبوترے کی طرح تھا۔ توماش نے اسے کونے میں کھڑے ہوجانے کا حکم دیا تاکہ وہ سبینا کے ساتھ جفتی کرے۔اس منظر سے تیریزا کو ناقابلِ برداشت تکلیف پہنچی۔ اس امید میں کہ جسم کی تکلیف سے شاید دل کی تکلیف میں افاقہ ہوجائے، اس نے اپنی انگلیوں کے ناخنوں کے نیچے سوئیاں چبھوئیں۔ ‘‘اتنی شدید تکلیف ہوئی،‘‘ اس نے کہا، اپنے ہاتھوں کو سختی سے مٹھیوں کی شکل میں بھینچتے ہوئے جیسے وہ سچ مچ زخمی ہوں۔
توماش نے اسے اپنے سے لگالیا، اور وہ (بڑی دیر تک شدت سے تڑپتی ہوئی) اس کی بانہوں میں سوگئی۔
اگلے دن خواب کی بابت سوچتے ہوئے اسے کچھ یادسا آیا۔ اس نے ڈیسک کی ایک دراز کھولی اور ان خطوط کا پیکٹ نکالا جو سبینا نے اسے لکھے تھے۔ اسے یہ عبارت ڈھونڈ نکالنے میں زیادہ دیر نہیں لگی: ’’میں تمھارے ساتھ اپنے اسٹودیو میں جفتی کرنا چاہتی ہوں۔ یہ ایک اسٹیج کی طرح ہوگا جس کے گردخلقت جمع ہوگی۔ تماش بینوں کو قریب آنے کی اجازت نہیں ہوگی، لیکن وہ ہم پر سے اپنی نظریں نہیں ہٹا سکیں گے۔‘‘
بد ترین یہ کہ خط پر تاریخ پڑی تھی۔ یہ ابھی حال ہی میں لکھا گیا تھا، تیریزا کے توماش کے یہاں آجانے کے بہت بعد میں۔
’’تو تم میرے خط ٹٹولتی رہی ہو!‘‘
اس نے تردید نہیں کی۔ ’’تو پھر مجھے نکال دو!‘‘
لیکن اس نے اسے نکال نہیں دیا۔ وہ اسے تصور میں سبینا کے اسٹوڈیو کی دیوار سے بھڑے بیٹھے ناخنوں کے نیچے سوئیاں چبھوتے ہوئے دیکھ سکتا تھا۔ اس نے اس کی انگلیاں اپنے ہاتھوں میں لے کرتھپ تھپائیں، پھر اپنے لبوں سے لگا کر چومیں، یوں جیسے خون کے قطرے ابھی تک ان پر ہوں۔
اس کے بعد سے گویا ہر چیز اس کے خلاف سازش میں لگی ہوئی تھی۔ مشکل سے کوئی ایسا دن رہا ہوگا جب تیریزا کو اس کی خفیہ زندگی کی کسی نہ کسی بات کا علم نہ ہوجاتا ہو۔
اول اول تو اس نے سب باتوں کی تردید کر ڈالی۔ پھر، جب شہادت بالکل صریح ہوگئی، تو اس نے یہ تاویل پیش کی کہ ا س کا کثیر الازواج شعارِ زندگی کسی بھی طرح اس کی اس سے محبت کے خلاف نہیں جاتا۔ اس کے بیان میں آشفتگی تھی: پہلے اپنی بے وفائیوں سے مکرنا ، اور پھرانھیں جائز قرار دینے کی کوشش۔
ایک دفعہ فون پر کسی عورت سے ڈیٹ مقرر کرنے کے بعد وہ اسے خدا حافظ کَہ رہا تھا کہ برابر والے کمرے سے ایک عجیب سی آواز آئی جیسے دانت کٹکٹا رہے ہوں۔
وہ اس کے جانے بغیر اتفاقیہ گھر لوٹ آئی تھی۔ وہ دوا کی بوتل سے کچھ اپنے حلق میں انڈیل رہی تھی اور اس کا ہاتھ اس شدّت سے کانپ رہا تھا کہ بوتل اس کے دانتوں سے ٹکرا کر بجنے لگی۔
وہ اس کی طرف یوں جھپٹا جیسے اسے ڈوبنے سے بچانے کی کوشش کررہا ہو۔ بوتل فرش پر آرہی، اور قالین پر ولیرین (valerian)کے قطروں کے داغ ڈال دیے۔ اس نے خوب ہاتھا پائی کی، اور توماش کو کوئی پندرہ منٹ تک اسے جکڑے رکھنا پڑا تاآں کہ اس کا سکون بہ حال ہوا۔
اسے معلوم تھا کہ وہ جس حالت میں ہے اس کا دفاع نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ اس کی بنیاد سراسر غیر مساوات پر تھی۔
سبینا کی مراسلت کا علم ہونے سے پہلے ایک شام وہ چند دوستوں کے ساتھ تیریزا کی نئی ملازمت کی خوشی منانے ایک بارگئے ہوئے تھے۔ ہفتہ واری اخبار میں اس کی ڈارک روم ٹیکنیشین سے اسٹاف فوٹوگرافر میں ترقی ہوگئی تھی۔ چوں کہ توماش کو رقص وقص سے بہت زیادہ دل چسپی نہیں تھی،اس کے ایک عمر میں ذرا چھوٹے ہم کار نے یہ ذمے داری سنبھال لی۔ ڈانس فلور پر وہ دونوں بڑا شان دار جوڑا لگ رہے تھے اورتوماش کو تیریزا پہلے سے کہیں زیادہ حسین نظر آئی۔ جس نپی تلی سرعت اور پاسِ خاطر سے تیریزا اپنے ساتھی کی حرکات کی پیش بینی کررہی تھی توماش اسے حیرت سے دیکھتا رہا۔رقص اسے اس بات کا اعلانیہ معلوم ہوا کہ اس کی عقیدت مندی، توماش کی ہر للک کو پورا کرنے کی اس کی پُرجوش خواہش کاتوماش کی ذات سے کوئی ناگزیرتعلق نہیں تھا، بل کہ وہ توکسی بھی مرد کے بلاوے کا جواب دینے کے لیے تیار ہوتی جس سے توماش کی بہ جائے اس کی ملاقات ہوئی ہوتی۔ تیریزا اور اپنے اس نوجوان ہم کار کو عاشقوں کے روپ میں تصوّر کرنے میں اسے کوئی دقّت پیش نہ آئی۔ اوراس آسانی سے یہ افسانہ گھڑ لینے پر اسے تکلیف محسوس ہوئی۔ اسے لگا کہ تیریزا کے جسم کا کسی بھی مرد جسم سے بھڑے ہوئے ہونے کا خیال بالکل کیا جاسکتا تھا، اور اس خیال سے اس کی طبیعت مکدّر ہوگئی۔ اس دن، گھر پر، بڑی رات گزر جانے کے بعد ہی کہیں جاکر، اس نے تیریزا سے اپنی رقابت کا اعتراف کیا۔
اس لایعنی رقابت نے جس کی اساس تخمین و ظن پر قائم تھی یہ ثابت کردیا کہ وہ تیریزا کی (جنسی)وفاداری کوان دونوں کے تعلق کا ایک غیر مشروط بنیادی اصول گردانتا ہے ۔ تو اس صورت میں وہ کیسے خود اپنی سچ مچ کی داشتاؤں سے اس کی رقابت پر بے اطمینانی کا اظہار کرسکتا ہے۔

(۸)
دن کے وقت اس نے توماش کے بیان پر یقین کرنے کی (اگرچہ جزوی کام یابی کے ساتھ) کوشش کی، اور پہلے جتنی ہی ہشاش بشاش نظر آنے کی بھی۔ لیکن رقابت جس پردن میں کسی طرح قابو پالیا گیا تھا اس کے خوابوں میں اور بھی زیادہ تندی کے ساتھ پھٹ پڑی، جن میں کے ہر خواب کی انتہا ایک دکھ بھری چیخ پر ہوئی جسے وہ اسے جگا کر ہی فرو کرسکا۔
اس کے خواب ٹیلی وژن کے سیریلز کے موضوعات اور معمولی سی تبدیلی کے ساتھ پیش کی جانے والی قسطوں کی طرح بار بار لوٹ آتے۔ مثال کے طور پر، وہ بار بار یہ خواب دیکھتی کہ بلّیاں اس کے چہرے پر کود پھاندرہی ہیں اور اس کی جلد میں پنجے گاڑ رہی ہیں۔ اس کی تعبیر کے لیے ہمیں بہت دور جانے کی ضرورت نہیں: چیک سلینگ میں ’’کیٹ‘‘ کا مطلب ایک حسین عورت ہوتا ہے۔ تیریزا خود کو عورتوں، سب عورتوں سے ہراساں دیکھتی۔ تمام عورتیں توماش کی امکانی داشتائیں تھیں، اور اسے ان سب سے خوف آتا تھا۔
خوابوں کے ایک اور سلسلے میں وہ دیکھتی کہ اسے اپنی موت سے ہم کنار کیا جارہا ہے۔ ایک بار، جب اس نے رات کے سنّاٹے میں دہشت ناک چیخ ماری اور توماش نے اسے جگا یا ، تو اس نے اپنا خواب بیان کردیا: ’’میں ایک بڑے سے اندرونی سوئمنگ پول میں تھی۔ اس میں ہم بیس عورتیں تھیں۔ ہم برہنہ تھیں اور ہمیں پول کے گرد مارچ کرنی پڑ رہی تھی۔ چھت سے ایک ٹوکری لٹکی ہوئی تھی اور اس میں ایک آدمی کھڑا تھا۔ مرد کے سر پر ایک چوڑی کناری والا ہیٹ منڈھا تھا جس سے اس کا چہرہ چھپ گیا تھا، لیکن مجھے دکھائی دے رہا تھا کہ یہ تم ہو۔ تم ہمیں حکم دیتے رہے۔ ہم پر چلّاتے رہے۔ مارچ کرتے ہوے ہمیں گانا بھی پڑ رہاتھا، گانا اوربیٹھکیں لگانا۔اگر کوئی بھی قاعدے سے نہیں بیٹھک لگاتا تو تم اس پر پستول داغ دوگے اور وہ مرجائے گی اور تالاب میں جاگرے گی۔ جس پر سبھوں کو ہنسی آگئی اور وہ اور زور زور سے گانے لگیں۔ تمھاری آنکھیں ہم پر گڑی ہوئی تھیں، اور جس لمحے ہم سے کوئی بھول چوک ہوجاتی تو تم گولی ماردیتے۔ تالاب لاشوں سے بھرا تھا جوسطحِ آب کے بس ذرا ہی نیچے تیر رہی تھیں۔ مجھے معلوم تھا کہ ایک بار اوربیٹھک لگانے کی طاقت مجھ میں نہیں رہی ہے اور تم مجھے گولی مارنے والے ہو!‘‘
ایک تیسرے سلسلے میں وہ مر چکی ہوتی۔
وہ ایک فرنیچر کی وین جتنی بڑی جنازہ گاڑی میں پڑی ہے اور اس کے چاروں طرف مردہ عورتیں ہیں۔ اتنی زیادہ کہ پچھلا دروازہ بند نہیں ہورہا اور متعدد ٹانگیں باہر کو نکلی جھول رہی ہیں۔
’’لیکن میں مردہ نہیں ہوں!‘‘ تیریزا چلائی۔ ’’محسوس کرنے کی قدرت مجھ میں اب بھی باقی ہے۔‘‘
’’اور ہم بھی،‘‘ لاشیں ہنس پڑیں۔
ان کی ہنسی ان زندہ عورتوں کی ہنسی کی مانندہی تھی جو بڑی بشاشت کے ساتھ اس سے کہتیں کہ یہ بالکل معمول کے مطابق تھا کہ ایک دن اس کے دانت خراب ہوجائیں گے، رحم میں عیب آجائے گا، جھریاں نکل آئیں گی، کیوں کہ ان سب کے دانت خراب تھے، رحم میں نقص پڑ گیا تھا، جھریاں نکل آئی تھیں۔ وہی ہنسی ہنستے ہوئے انھوں نے اسے بتایا کہ وہ مرچکی ہے اور یہ عین حسبِ معمول ہے!
اچانک اسے پیشاب خارج کرنے کی حاجت محسوس ہوئی۔ ’’دیکھا نا تم نے،‘‘ اس نے چلا کر کہا، ’’مجھے پیشاب آرہا ہے۔ یہ اس کا حتمی ثبوت ہے کہ میں مری نہیں ہوں!‘‘
لیکن وہ دوبارہ صرف ہنس پڑیں۔ ’’پیشاب لگنا ٹھیک معمول کے مطابق ہے!‘‘ وہ بولیں۔ ’’اس قسم کی چیز تم بہت دنوں تک محسوس کرتی رہوگی۔ اُس آدمی کی طرح جو بازو کٹ جانے کے بعد بھی اسے اپنی جگہ پر ہی محسوس کرتا ہے۔چاہے ہمارے اندر پیشاب کا ایک قطرہ بھی موجودنہ ہو، پیشاب کرنے کی حاجت قائم رہے گی۔‘‘
تیریزا بستر میں توماش کے جسم سے بھڑ گئی۔ ’’اور مجھ سے ان کا اندازِ گفتگو! پرانے دوستوں جیسا، لوگ جو مجھے ہمیشہ سے جانتے ہوں۔ ان کے ساتھ ابد تک رہنے کے خیال ہی سے میں بدحواس ہوگئی۔‘‘
(۹)
وہ تمام زبانیں جو لاطینی سے نکلی ہیں "compassion" (’’ترحّم‘‘،’’ ہم دردی‘‘)کا لفظ ، بہ معنیٰ "with"کے سابقے کے ساتھ اساسی معنیٰ "suffering" (لاطینیِ متاخر، passio com-) کے لفظ کو جوڑ کر بناتی ہیں ۔ دیگر زبانوں میں۔۔۔مثلاً چیک، پولش، جرمن، اور سوئیڈش۔۔۔اس لفظ کا ترجمہ ایک اسم کے ذریعے ہوتا ہے جو ایسے ہی ایک اور سابقے"feeling" (’’احساس‘‘)کے لفظ کے ساتھ ملا کر بنایا جاتا ہے (چیک: sou-cit؛ پولش، wsp243l-czucie؛ جرمن، Mit-gef252hl؛ سوئیڈش، med-k228nsla )۔
اُن زبانوں میں جن کی اصل لاطینی ہے، "compassion"(ہم دردی)کا مطلب ہے: ہم سرد مہری کے ساتھ دوسروں کو تکلیف پہنچتے ہوے نہیں دیکھ سکتے ہیں؛ یا، ہم ان لوگوں کے لیے ہم دردی محسوس کرتے ہیں جو تکلیف اٹھا رہے ہوں۔ اس سے تقریباًملتے جلتے معنیٰ کا ایک اور لفظ ہے، "pity" (فرانسیسی، piti233؛ اتالوی، piet224، وغیرہ )، جس میں تکلیف اٹھانے والے کے حق میں ایک نوع کی کرم فرمائی کا مفہوم پایا جاتا ہے۔"To take pity on a woman" (’’ایک عورت پر ترس کھانا‘‘) کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم اس عورت کے مقابلے میں بہتر ہیں، کہ ہم خود کو اس کی سطح پرفروتن کررہے ہیں، اپنے کو گرا رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ"compassion" کا لفظ عام طور پرشک و شبہ کو ہوا دیتا ہے؛ یہ ایک ایسے جذبے پر دلالت کرتا ہے جو کمتر ، دوسرے درجے کا شمار کیا جاتا ہے جس کا محبت سے بہت کم سروکار ہے۔ کسی سے بہ وجہِ ہمدردی محبت کرنا، درحقیقت محبت نہ کرنے کے برابر ہے۔
ان زبانوں میں جو "compassion" ’’تکلیف‘‘ کے مادّے سے نہیں بل کہ ’’احساس‘‘ کے مادّے سے اخذ کرتی ہیں، لفظ کم و بیش انھی معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے ، لیکن قطعیت کے ساتھ یہ کہنا کہ یہ ایک برے یا کم تر جذبے پر دلالت کرتا ہے مشکل ہے۔ اس کے اشتقاق کی خفیہ قوّت اس لفظ کو ایک اور روشنی سے معمور کردیتی ہے اور اسے وسیع تر معنیٰ عطا کرتی ہے: کم پیشن(ہم احساسی) رکھنے کا مطلب صرف یہی نہیں ہوتا کہ آدمی دوسرے کی بد قسمتی کو برداشت کرے بل کہ اس کے ہم راہ کوئی جذبہ ۔۔۔شادمانی، تشویش،خوشی، درد۔۔۔بھی محسوس کرے۔ چناں چہ اس نوع کا کم پیشن (soucit, wsp243lczucie, Mitgef252hl,medk228nsla کے مفہوم میں) عاطفانہ تخیل کی بیش سے بیش قدرت پر دلالت کرتا ہے، ادراک سے ماورا خیال رسانی (telepathy) ، تو گویا یہ جذبات کے نظامِ مراتب میں افضل ترین ہے۔
توماش پر اپنے ناخنوں کے نیچے سوئیاں گھسیڑنے والے خواب کا انکشاف کر کے تیریزا نے نادانستہ یہ انکشاف بھی کردیا تھاکہ وہ اس کی ڈیسک کھکھولتی رہی ہے۔ اگر وہ کوئی اور عورت رہی ہوتی تو توماش اس سے کبھی دوبارہ بات تک نہ کرتا۔ تیریزا نے جو اس حقیقت سے آگاہ تھی کہا،’’ تو پھرمجھے نکال دو!‘‘ لیکن اسے باہر نکال دینے کی بہ جائے توماش نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور اس کی انگلیوں کی پوریں چوم لیں، کیوں کہ ٹھیک اس لمحے خود اسے تیریزا کے ناخنوں کا درد محسوس ہورہا تھا، اتنے یقینی طور پر جیسے اس کی انگلیوں کی رگیں سیدھی اس کے دماغ سے متّصل ہوں۔کوئی بھی جو شیطان کے عطیے کم پیشن کو( فیلنگ، ہم احساسی) سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہا ہے تیریزا کو اس کے کیے پر سرد مہری کے ساتھ لعن طعن کرے گا، کیوں کہ خلوت(پرائے ویسی)ایک مقدس چیز ہے اور درازیں جن میں نجی مراسلت رکھی ہو انھیں ٹٹولنا نہیں چاہیے۔ لیکن چوں کہ کم پیشن توماش کی قسمت (یا لعنت )تھا، اسے محسوس ہوا کہ وہ خود ڈیسک کی کھلی ہوئی دراز کے سامنے گھٹنے ٹیکے بیٹھا ہے، سبینا کے خط سے نظریں ہٹانے سے یکسر عاجز۔ وہ تیریزا کو سمجھتا تھا، اور نہ صرف یہ کہ وہ ا س پر برہم ہونے کی صلاحیت سے عاری تھا، بل کہ وہ تو اس سے اوربھی زیادہ محبت کرتا تھا۔

(۱۰)
اس کی حرکات میں اتاولاپن اور ناپائے داری آگئی۔توماش کی بے وفائی سے پردہ اٹھے دو سال ہورہے تھے، اور صورتِ حال بد تر ہوگئی تھی۔ کوئی چارۂ کار نہیں تھا۔
کیا وہ واقعی اپنے شہوانی تعلقات سے تائب ہونے کے قابل نہیں تھا؟ بالکل نہیں تھا۔ اگر ایسا کرتا تو اس کے بخیے ادھڑ جاتے۔ اس میں ہمّت نہیں تھی کہ دوسری عورتوں کی چاٹ پر قابو پاسکے۔ پھر یہ کہ اسے اس کی کوئی خاص ضرورت بھی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔یہ بات کہ اس کی معرکہ آرائیوں سے تیریزا کو کوئی گزند نہیں پہنچتی تھی یہ خود اس سے زیادہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ تو پھر ان سے کیوں دست بردار ہوا جائے؟ یہ اتنا ہی بے معنی تھا جتنا یہ کہ وہ سوکر (فٹ بال)کے مقابلے دیکھنا چھوڑدے۔
لیکن کیا یہ اب بھی بھوگ ولاس ہی کا معاملہ ہے؟ کسی عورت سے ملاقات کے لیے نکلتے ہوئے اسے خاصی ناگواری محسوس ہونے لگتی اوروہ اپنے سے عہد کرتا کہ اب دوبارہ اس سے نہیں ملے گا۔ تیریزا کا پیکر ہمہ وقت اس کی نظروں کے آگے تیرتا رہتا، اور اسے محو کرنے کا واحدذریعہ یہ تھا کہ وہ فوراً پی کر مدہوش ہوجائے ۔ تیریزا سے ملنے کے بعد سے وہ کبھی الکحل پیے بغیر دوسری عورتوں کے ساتھ جفتی نہیں کرسکا تھا!لیکن اس کی سانسوں میں بسی الکحل کی بو تیریزا کی نظر میں اس کی بے وفائی کا قطعی ثبوت ہوتی۔
وہ ایک دام میں آپھنسا تھا: ان سے ملاقات کے لیے جاتے ہوئے بھی وہ ان سے بے رغبتی محسوس کرتا تھا ، لیکن اگر ایک دن بھی ان کے بغیر گزرتا تو وہ واپس فون کی طرف بھاگتا، ان سے رابطہ قائم کرنے کو بے تاب۔
لیکن سبینا کے ساتھ وہ اب بھی کافی آسودگی محسوس کرتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ وہ محتاط ہے اور ان کی ملاقات کا بھانڈا نہیں پھوڑے گی۔ اس کا اسٹوڈیو اس کے ماضی کی کسی یادگار کی طرح اس کی پذیرائی کرتا، اس کا غیر شادی شدہ فرحت آسا ماضی۔
شاید اسے خود اس کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ کتنا بدل گیا ہے: اسے اب گھر دیر سے لوٹنے سے خوف آتا تھا، کیوں کہ تیریزا اس کے انتظار میں سوئی نہیں ہوگی۔ پھر ایک دن سبینا نے جفتی کے دوران اسے اپنی گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے اور جفتی کو اس کے انجام تک پہنچانے میں جلد بازی کرتے ہوئے بھانپ لیا۔
بعد میں، ہنوز برہنہ اور اسٹوڈیو پار کرتے ہوئے وہ ایک ایزل کے سامنے آکر رک گئی جس پر ایک نیم مکمل پینٹنگ چڑھی ہوئی تھی اور اسے کن انکھیوں سے جلدی جلدی اپنے کپڑے پہنتے ہوئے دیکھا۔
جب اس نے کپڑے پوری طرح پہن لیے اور صرف ایک پیر ہی ننگا رہ گیاتو اس نے کمرے میں نظر دوڑائی، اور پھر چاروں ہاتھ پاؤں پرمیز کے نیچے تلاش جاری رکھی۔
’’تم میری ساری پینٹنگز کے موضوع میں بدلتے ہوئے نظر آرہے ہو،‘‘ وہ بولی۔ ’’دو دنیاؤں کا سنجوگ۔ ایک ڈبل ایکسپوزر۔عیاش توماش کے خاکے سے ناقابلِ یقین طور پر جھانکتا ہوا ایک رومان پسند عاشق کا چہرہ۔یا، برعکس، ترستین (Tristan)میں، ہمیشہ تیریزا کے خیال میں گم، مجھے ایک عیاش کی حسین، اور دغا کھائی ہوئی دنیا دکھائی دیتی ہے۔‘‘
توماش نے اپنے کو سیدھا کیا اور، بٹی ہوئی توجہ کے ساتھ سبینا کی بات سنی۔
’’کیا ڈھونڈ رہے ہو؟‘‘
’’موزہ۔‘‘
اس نے توماش کے ساتھ مل کر پورا کمرا کھنگال مارا، اور توماش پھر سے ہاتھ اور پیروں کے بَل ہوکر میز کے نیچے کھوجنے لگا۔
’’تمھارا موزہ تو کہیں دکھائی نہیں دے رہا،‘‘ سبینا بولی۔ ’’تم اس کے بغیر ہی یہاں آئے ہوگے۔‘‘
’’یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘اس نے اپنی گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے چلا کر کہا ۔ ’’میں صرف ایک موزہ پہنے یہاں نہیں آیا تھا، یا آیا تھا؟‘‘
’’یہ ناممکن نہیں۔ اِن دنوں تم کافی غائب دماغ رہنے لگے ہو۔ جب دیکھو کہیں جانے کی جلدی پڑی ہے، گھڑی پر نظر ہے۔ اگر تم ایک موزہ پہننا بھول گئے ہو تو مجھے اس پر ذرا تعجب نہیں ہوگا۔‘‘
وہ بس اپنے ننگے پیر پر جوتا پہننے ہی والا تھا۔ ’’باہر سردی ہے،‘‘ سبینا بولی۔ ’’میں تمھیں اپنا ایک اسٹاکنگ دے دیتی ہوں۔‘‘
اس نے اسے ایک لمبا، سفید، فیشن ایبل، بڑے خانوں کی جالی والا اسٹاکنگ پکڑا دیا۔
توماش کو خوب پتا تھا کہ وہ اس سے جفتی کے دوران گھڑی دیکھنے کا بدلہ لے رہی ہے ۔ اسی نے اس کا موزہ کہیں چھپا دیا تھا۔ باہر واقعی سردی تھی، اور اس کے سوا چارہ نہیں تھا کہ اس کی پیشکش قبول کرلے۔وہ اس حالت میں گھر پہنچا کہ ایک پیر پر موزہ چڑھا تھا اور دوسرے پر بڑے خانوں کا جالی دار اسٹاکنگ جسے اس نے تہ کرکے ٹخنوں تک گرا لیا تھا۔
وہ ایک مخمصے میں گرفتار ہوگیا تھا:اپنی داشتہ کی نظروں میں اس پر تیریزا کی محبت کا کلنگ لگا تھا ؛ تیریزا کی نظروں میں، اپنی داشتہ سے معرکہ آرائیوں کا بٹّا۔

(۱۱)
تیریزا کی اذیتوں کی شدت کو کم کرنے کے لیے اس نے اس سے شادی کرلی (اب بالآخر وہ کرائے کا کمرا چھوڑ سکتے تھے، جس میں کافی مدت سے اس کا قیام نہیں رہا تھا) اور ایک کتے کاپِلّا اسے لا دیا۔
یہ ایک ہم کار کے سینٹ برنارڈ کے پیٹ سے تھا۔نطفہ ٹھہرانے والا ایک ہمسائے کا جرمن شیپرڈ تھا۔ ان ننھے دوغلوں کا کوئی طلب گار نہیں تھا اور اس کے ہم کار کو انھیں ماردینے میں تامل تھا۔
پِلّوں کا معائنہ کرتے ہوے توماش کو پتا تھا کہ جنھیں مسترد کردے گا انھیں مرنا پڑے گا۔ اس کی کیفیت جمہوریہ کے صدر کی سی تھی جو چار قیدیوں کے سامنے کھڑا تھا جنھیں سزائے موت سنا ئی جاچکی تھی اور اسے اختیار دیا گیا تھا کہ ان میں سے صرف ایک ہی کو معاف کر سکتا ہے۔ بالآخر اس نے اپنا انتخاب کر ہی لیا: ایک کتیا جس کا جسم جرمن شیپرڈ کی یاددلاتا تھا اور جس کا سر اپنی سینٹ برنارڈ ماں کا سا تھا۔ وہ اسے تیریزا کے واسطے گھر لایا، جس نے اسے اٹھا لیا اور اپنے سینے سے لگا کر بھینچا۔ پِلّے نے فوراً اس کے بلاؤز پر دھار ماردی۔
اب وہ اسے کوئی نام دینے کی جستجو میں لگ گئے۔ توماش چاہتا ہے کہ نام ایسا ہو کہ جس سے صریح طور پر ظاہر ہوجائے کہ یہ تیریزا کا ہے، اور معاًاسے اُس کتاب کا خیال آیا جواس وقت تیریزا کی بغل میں دبی ہوئی تھی جب وہ اطلاع دیے بغیر پراگ وارد ہوئی تھی۔ اس نے تجویز کیا کہ وہ پِلّے کوٹولسٹوئے کہا کریں۔
’’یہ ٹولسٹوئے نہیں ہوسکتا،‘‘ تیریزا نے کہا۔ ’’یہ مادہ ہے۔ اینا کرے نینا کیسا رہے گا؟‘‘
’’یہ اینا کرے نینا نہیں ہوسکتی،‘‘ توماش بولا۔ ’’کسی بھی عورت کا چہرہ اتنا مضحکہ خیز نہیں ہوسکتا۔ یہ کیرے نِن سے کہیں زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔بالکل، اینا کا شوہر۔ میں نے ہمیشہ اس کا تصور بالکل اسی طرح کیا ہے۔‘‘
’’لیکن کیرے نِن کہنے سے اس کی جنسیت متاثر نہیں ہوگی؟‘‘
’’یہ بالکل ممکن ہے،‘‘ توماش بولا، ’’کہ اگر ایک کتیا کو مستقل نر نام لے کر مخاطب کیا جائے تواس میں لیسبین میلانات پیدا ہوجائیں۔ ‘‘
تعجب کی بات ہے کہ توماش کے الفاظ سچ ثابت ہوگئے۔ اگرچہ کتیاں اپنی مالکاؤں کے مقابلے میں اپنے مالکوں سے زیادہ پیارکرتی ہیں، کیرے نِن استثنا ثابت ہوا اور اس نے یہ فیصلہ کیا کہ اسے تیریزا سے محبت ہے۔ اس پر توماش اس کا ممنون تھا۔ وہ پِلّے کا سر تھپتھپا کر کہتا، ’’بہت خوب، کیرے نِن!یہی تو ہے جس کے لیے مجھے تمھاری ضرورت تھی۔یہ مجھ اکیلے سے بھلا کہاں سنبھلنے والی ہے، تمھیں میری مدد کرنی ہوگی۔‘‘
لیکن کیرے نِن کی مدد کے باوجود توماش تیریزا کو خوش رکھنے میں ناکام رہا۔ اسے اپنے ناکام رہنے کا احساس چند سال بعد ہوا، اس کے ملک پر روسی ٹینکوں کا قبضہ ہونے کے تقریباً دسویں دن۔ یہ اگست ۱۹۲۸ء تھا، اور توماش کو زیورچ کے ایک اسپتال سے یومیہ ٹیلی فون آرہے تھے۔ اس اسپتال کا افسرِ اعلیٰ، ایک ڈاکٹر جس نے ایک بین الاقوامی کانفرنس کے دوران توماش سے دوستی لگالی تھی، اس کے بارے میں متفکر تھا اور مسلسل اسے ملازمت پیش کر رہا تھا۔

(۱۲)
اگر توماش نے سوئس ڈاکٹر کی پیش کش بلا تامل ردکردی تو یہ تیریزا کی خاطر تھا۔ اس نے فرض کرلیا تھا کہ وہ جانا نہیں چاہے گی۔ اس نے قبضے کا پہلا ہفتہ ایک قسم کی سحر زدگی کے عالم میں گزارا تھا جو تقریباً مسرت سے مشابہ تھی۔ اپنا کیمراا ٹھائے سڑکوں پر مٹر گشت کرنے کے بعد وہ فلم کے رول غیر ملکی صحافیوں کے حوالے کردیتی جو ان کے لیے باقاعدہ ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے۔ ایک بار جب وہ حد سے گزرگئی اورایک آفیسر کا کلوز اَپ لے ڈالا جولوگوں کے ایک گروہ پر اپنی پستول تانے ہوئے تھا، تو اسے گرفتار کرلیا گیااور پوری رات روسی ملٹری ہیڈ کوارٹرز میں رکھا گیا۔ وہاں انھوں نے اسے گولی مارنے کی دھمکی دی، لیکن جیسے ہی انھوں نے اسے چھوڑا، وہ واپس اپنے کیمرے سمیت سڑکوں پر پہنچ گئی۔
توماش کو اسی وجہ سے تعجب ہوا جب قبضے کے دسویں دن وہ بولی، ’’تم سوئٹزر لینڈ کیوں نہیں جانا چاہتے؟‘‘
’’کیوں جاؤں؟‘‘
’’یہاں تمھاری جان ضیق میں کردیں گے۔‘‘
’’کسی کی بھی کرسکتے ہیں،‘‘ تو ماش نے ہاتھ لہرا کر جواب دیا۔ ’’اور تم؟ کیا تم باہر رہ سکتی ہو؟‘‘
’’کیوں نہیں؟‘‘
’’تم نے اس ملک کی خاطر اپنی جان خطرے میں ڈالی ہوئی ہے۔ اتنی بے فکری سے اسے کیسے چھوڑ سکتی ہو؟‘‘
’’ دوب چیک کے لوٹ آنے سے حالات بدل گئے ہیں،‘‘ تیریزا بولی۔
اور یہ تھا بھی ٹھیک: خام خیالی کی زائیدہ وہ عام خوشی کی لہر ایک ہفتے سے زیادہ قائم نہ رہ سکی۔ روسی فوج ملک کے نمائندوں کو مجرموں کی طرح گھسیٹ لے گئی ، کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ کہاں تھے۔ ہر متنفس ان کی زندگی کے بارے میں خوف زدہ تھا، اور روسیوں سے نفرت لوگوں پر شراب کے نشے کی طرح سوار ہوگئی تھی۔ایک نفرت کے نشے میں دھت رنگ رلی ۔ چیک شہروں کو ہاتھ سے رنگے پوسٹروں سے سجایا گیا جن پر طنزیہ فقرے، پھڑکتے ہوئے قول، نظمیں، اور بریزنیف اور ا س کے سپاہیوں کے کارٹون بنے تھے جن کا ایکو ایک آدمی سرکس کے مسخروں کی طرح مذاق اڑا رہا تھا۔ لیکن کوئی رنگ رلی ابد تک نہیں منائی جاسکتی۔ اس اثنا میں روسیوں نے چیک نمائندوں سے ماسکو میں ایک اقرار نامے پر جبراً دست خط کروالیے تھے۔ جب دوب چیک انھیں لے کر پراگ واپس پہنچاتو ریڈیو سے ایک تقریر نشر کی۔ اپنی چھہ روزہ حراست سے اس کی حالت اس قدر ابتر ہوگئی تھی کہ اس سے بہ مشکل بولا جارہا تھا؛ وہ مسلسل ہکلا اور ہانپ رہا تھا، جملوں کے درمیان لمبے لمبے وقفے پڑ گئے تھے، تیس سیکنڈ جتنے لمبے۔
مصالحت سے ملک بد ترین صورتِ حال کا شکار ہونے سے بچ گیا: قتلِ عام اور سائبریا دیس نکالا جس سے ہر فرد و بشر خائف تھا۔ لیکن ایک بات صاف تھی: ملک کو فاتح کے سامنے سر جھکانا پڑے گا۔ دوب چیک کی طرح ہی ہمیشہ ہکلاتا، تتلاتا ، اور ہانپتا رہے گا۔ رنگ رلی ختم شد۔ یومیہ ذلّت و خفّت شروع ہوچکی تھی۔
تیریزا نے یہ سب توماش کو سمجھایا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ سب صحیح ہے۔ لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ ان تمام باتوں کے نیچے ایک اور ، زیادہ بنیادی حقیقت بھی پوشیدہ ہے، وہ وجہ جس کے سبب وہ پراگ چھوڑنا چاہتی تھی:حقیقت میں وہ پہلے کبھی خوش نہیں رہی تھی۔
جن دنوں وہ سڑکوں پر روسی سپاہیوں کی تصویریں کھینچتی پھرتی تھی اور خطرے سے آنکھیں چار کرتی تھی وہ اس کی زندگی کے بہترین دن تھے۔ وہ واحد وقت جب اس کے خوابوں کی ٹیلی وژن سیریز معطل ہوگئی تھی اور اس نے چند مسرت آگیں راتوں کا لطف اٹھایا تھا۔ روسی اپنے ٹینکوں میں اس کے لیے توازن کی سوغات لائے تھے، اور اب جب کہ وہ دورۂ نشاط لپٹ چکا تھا، اسے اپنی راتوں سے پھر خوف آنے لگا تھا اور ان سے فرار ہونا چاہتی تھی۔ اسے اب معلوم ہوگیا تھا کہ بعض صورتوں میں وہ خود کو قوی اور آسودہ محسوس کرسکتی ہے، اور وہ دنیا میں نکل جانے اور ان صورتوں کا کہیں اور تجربہ کرنے کی آرزومند تھی۔
’’تمھیں یہ بات پریشان نہیں کرتی کہ سبینا بھی سوئٹزرلینڈپہنچ گئی ہے؟‘‘ توماش نے پوچھا۔
’’جنیوا، زیورچ نہیں،‘‘ تیریزا نے جواب دیا۔’’ پراگ کے مقابلے میں وہ وہاں کم مصیبت کا باعث ہوگی۔‘‘
وہ شخص جو اپنے گھر کو چھوڑنے کی تمنا کرتا ہے ایک ناخوش آدمی ہوتا ہے۔ چناں چہ توماش نے تیریزا کی ملک چھوڑنے کی خواہش کو اسی طرح قبول کرلیا جس طرح کوئی مجرم اپنا فیصلہ قبول کرتا ہے، اور ایک دن اس نے تیریزا اور کیرے نِن کے ساتھ خود کو سؤٹزرلینڈ کے سب سے بڑے شہر میں پایا۔

(۱۳)
وہ دونوں کے خالی فلیٹ کے لیے ایک پلنگ خرید لایا (اس سے زیادہ فرنیچر خریدنے کے لیے ابھی ان کے پاس پیسے نہیں تھے) اور اپنے کام میں اس چالیس سالہ آدمی کے جنون کے ساتھ جٹ گیا جو ایک نئی زندگی کی ابتدا کررہا ہو۔
اس نے جنیوا کئی ٹیلی فون کیے۔ اتفاق کی بات ہے کہ روسی حملے کے ہفتہ بھر بعد وہاں سبینا کی تصویروں کی نمائش لگائی گئی تھی اور اس کے ننھے سے ملک سے ہم دردی کی لہر میں آکر جنیوا کے آرٹ کے سرپرستوں نے اس کی ساری پینٹنگز خرید ڈالی تھیں۔
’’روسیوں کا سو شکر، میں ایک مال دار عورت ہوں،‘‘ وہ بولی، ٹیلی فون کے آلے میں منھ ڈال کر ہنستے ہوئے۔ اس نے توماش کو آکر اس کا نیا اسٹوڈیو دیکھنے کی دعوت دی، اور یقین دلایا کہ یہ پراگ والے اسٹوڈیو سے جس سے وہ واقف تھابہت زیادہ مختلف نہیں۔
وہ بڑی خوشی سے اس سے ملنے جاتا لیکن تیریزا سے اپنی غیر حاضری کی وجہ بیان کرنے کاکوئی بہانہ نہ مل سکا۔ چناں چہ سبینا خود ہی زیورچ آپہنچی۔ وہ ایک ہوٹل میں ٹھہری۔ کام کے بعد توماش اس سے ملنے گیا۔ اس نے پہلے ریسپشن ڈیسک سے فون کیا، پھر زینے سے اوپر گیا۔ جب سبینا نے دروازہ کھولاتو وہ اس کے سامنے اپنی حسین لمبی ٹانگوں پر کھڑی ہوئی تھی اور صرف پینٹیز اور انگیا پہنے ہوئے تھی۔ اور ایک کالے رنگ کا بولر ہیٹ۔ وہ وہیں کھڑی اسے گھورتی رہی، کچھ کہے یا ہلے جلے بغیر۔ توماش نے بھی یہی کیا۔ اچانک اسے اندازہ ہوا کہ وہ اس بات سے کس قدر متاثر ہوا ہے۔ اس نے بولر ہیٹ سبینا کے سر سے جدا کیااور بستر کے سرھانے پڑی میز پر رکھ دیا۔پھر انھوں نے کچھ کہے سنے بغیر جفتی کی۔
ہوٹل سے اپنے فلیٹ جاتے ہوئے (جس میں اب میز، کرسیاں، صوفہ، اور قالین آگئے تھے) اس نے مسرت کے ساتھ سوچا کہ وہ اپنا طرزِ حیات اپنے ساتھ لیتا آیا ہے، بالکل جس طرح ایک گھونگا اپنا گھر اپنے ساتھ ساتھ لیے پھرتا ہے۔ تیریزا اور سبینا اس کی زندگی کے دو قطبوں کی نمائندگی کرتی تھیں، جدا جدا اور ناقابلِ مصالحت، اس کے باوجود مساوی طور پر دل کش۔
لیکن یہ کہ وہ اپنی زندگی کو سہارا دینے والا نظام ہر جگہ اپنے ساتھ لیے لیے پھرتا ہے ، تو اس کا مطلب تھا کہ تیریزا کو اپنے خواب اب بھی نظر آتے رہے۔
انھیں زیورچ میں رہتے ہوئے چھہ سات ماہ گزرے تھے کہ ایک رات دیر سے گھر لوٹنے پر اسے میز پر ایک رقعہ ملا جس میں اسے مطلع کیا گیا تھا کہ وہ پراگ چلی گئی ہے۔ اس لیے چلی گئی ہے کہ غیر ملک میں رہنے کا پِتّا اس میں نہیں ۔ وہ جانتی تھی کہ اسے توماش کو سہارا دینا چاہیے ، لیکن یہ نہیں جانتی تھی کہ کیسے۔ وہ سادہ لوحی میں یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ باہر جاکر اپنے کو بدل سکے گی۔ اس کا خیال تھا کہ حملے کے دوران جو کچھ اس نے جھیلا تھا اس کے بعد وہ کم سواد نہیں رہے گی، بالغ ہوجائے گی، عقل مند اور قوی، لیکن اس نے اپنی بساط کا اندازہ کرنے میں کچھ زیادہ ہی خوش فہمی سے کام لیا تھا۔ وہ اسے اور گراں بار کیے دے رہی تھی لیکن اب اور نہیں کرے گی۔ اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے اس نے ضروری نتائج نکال لیے تھے۔ اور کیرے نِن کو ساتھ لے جانے پر وہ معافی کی خواست گار ہے۔
اس نے کچھ خواب آور گولیاں حلق سے اتاریں لیکن تا دمِ سحرآنکھ نہ لگی۔خوش قسمتی سے یہ سنیچر کا دن تھا اور وہ گھر رہ سکتا تھا۔ اس نے صورتِ حال کا ایک سو پچاسویں بار جائزہ لیا : اس کے ملک اور بقیہ دنیا کے درمیان سرحد یں اب کھلی ہوئی نہیں تھیں۔ کوئی ٹیلی گرام یا ٹیلی فون اسے واپس نہیں لاسکتا تھا۔ اقتدار و اختیار کے مالک اسے ملک سے باہر نہیں جانے دیں گے۔ اس کی روانگی سٹ پٹادینے کی حد تک قطعی تھی۔

(۱۴)
یہ احساس کہ وہ بالکل مجبور ہے کسی ہتھوڑے کی ضرب سے کم نہ تھا، اس کے باوجود یہ بڑے حیرت انگیز طور پر اطمینان بخش بھی تھا۔ کوئی اسے فیصلہ کرنے پر مجبور نہیں کررہا تھا۔ اسے سامنے والے گھروں کی دیواروں کو تکتے ہوے یہ غور کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ اس کے ساتھ رہے یا نہ رہے۔ یہ فیصلہ تو تیریزا نے خود ہی کردیا تھا۔
وہ کھانا کھانے ریستوراں گیا ۔ وہ عجیب سی پستی محسوس کررہا تھا، لیکن دورانِ طعام اس کی اولین درماندگی چھٹنے لگی، اس کا زور ٹوٹنے لگا اور جلد ہی جو باقی بچ رہا وہ بس اداسی تھی۔ پیچھے مڑ کر ان سالوں پر نظر ڈالتے ہوے جو اس نے تیریزا کے ساتھ گزارے تھے اسے یوں لگا جیسے ان کی کہانی کا اس سے بہتر کوئی اورانجام نہیں ہوسکتا تھا۔ اگر کسی نے یہ کہانی گڑھی ہوتی، تو اسے اسی طرح اس کا خاتمہ کرنا پڑتا۔
ایک دن تیریزا بن بلائے اس کے پاس آئی تھی۔ ایک دن بالکل اسی طرح وہ چلی گئی تھی۔ وہ ایک وزنی سوٹ کیس اٹھائے آئی تھی۔ وہ ایک وزنی سوٹ کیس اٹھائے رخصت ہوگئی تھی۔
اس نے بِل ادا کیا، ریستوراں سے نکلا، اور سڑکوں پر مٹر گشت کرنے لگا، اس کی اداسی دم بہ دم حسین تر ہوتی جارہی تھی۔ اس نے زندگی کے سات سال تیریزا کے ساتھ گزارے تھے، اور اب اسے احساس ہوا کے یہ سال پیچھے مڑ کر دیکھنے پر اس سے زیادہ دل کش تھے جب وہ انھیں گزار رہا تھا۔
تیریزا سے اس کی محبت ایک خوب صورت چیز تھی، لیکن وہ تھکا دینے والی بھی تھی: اسے مسلسل اس سے باتیں چھپانی پڑتی تھیں، دکھاوا کرنا پڑتا تھا، اصلیت پر پردہ ڈالنا پڑتا تھا، تلافی کرنی پڑتی تھی، اس کا حوصلہ بڑھانا پڑتا تھا، اسے سکون دلانا پڑتا تھا، اپنے جذبات کا ثبوت مہیّا کرنا پڑتا تھا، اس کی رقابت ، اذیّت اور خوابوں کی حمایت کرنی پڑتی تھی، اپنے کو مجرم محسوس کرنا پڑتا تھا، بہانے تراشنے اور معافیاں مانگنی پڑتی تھیں۔وہ جو تھکا دینے والا تھا اب غائب ہوچکا تھااورباقی رہ جانے والا صرف حسن تھا۔
سنیچر نے اسے زیورچ میں پہلی بار مڑ گشت کرتے ہوئے پایا، اپنی آزادی کی نشہ آور مہک میں سانس لیتے ہوئے۔ ہر نکّڑ کے پیچھے نئی مہم جوئیاں چھپی بیٹھی تھیں۔ مستقبل بارِ دگر ایک اسرار تھا۔ وہ ایک بار پھر غیر شادی شدہ زندگی کی طرف لوٹ رہا تھا، وہ زندگی جس کے لیے وہ کبھی سمجھتا تھا کہ اسے پیدا کیا گیا ہے، وہ زندگی جو اسے وہی رہنے دے گی جو وہ حقیقت میں تھا۔
سات سال تک وہ اس سے بندھا رہا تھا، اس کا ہر ہر قدم اس کی باز پرس کا تابع تھا۔ یوں جیسے اس نے اس کے پیروں میں آہنی گولے باندھ دیے ہوں۔یک بارگی اس کے قدم سبک ہوگئے تھے۔ وہ بلندیوں میں اڑا جارہا تھا۔ وہ پارمینیڈیز کی طلسماتی سرزمینوں میں داخل ہوگیا تھا: وہ وجود کی شیریں لطافت سے لطف اندوز ہورہا تھا۔
(کیا اس کا دل چاہا کہ جنیوا میں سبینا کو فون کرے؟ ان عورتوں میں سے اِس یا اُس سے رابطہ قائم کرے جن سے ان چند ماہ کی مدت میں زیورچ میں اس کی ملاقات ہوئی تھی؟ نہیں، ذرا بھی نہیں۔شاید اسے احساس تھا کہ کوئی بھی عورت تیریزا کی یاد کو ناقابلِ برداشت بنا دے گی۔)

(۱۵)
یہ عجیب دل گیر دل کشی اتوارکی شام تک قائم رہی۔ پیر کے دن، سب کچھ بدل گیا۔تیریزا اس کے خیالات میں در آئی: اس نے اسے وہاں بیٹھے اپنا الوداعی خط لکھتے ہوے تصور کیا؛ اسے اس کے ہاتھ کپکپاتے ہوئے محسوس ہوئے؛ اسے ایک ہاتھ سے اپنا بھاری سوٹ کیس گھسیٹتے اور دوسرے میں کیرے نِن کی زنجیر تھامے ہوئے دیکھا؛ اس نے اسے پراگ میں اپنے فلیٹ کا تالا کھولتے ہوئے دیکھا، اور دروازے کھولنے پر جس مطلق واماندگی نے اس کا استقبال کیا ہوگا اس کی اذیّت محسوس کی۔
افسردگی کے ان دو خوب صورت دنوں کے دوران اس کے کم پیشن (ٹیلی پیتھی کی نحوست) نے چھٹی لے رکھی تھی ۔ وہ کسی جہازی کی اتوار کی گہری نیند سورہا تھا جسے دن بھر کی کڑی مشقت کے بعدپیر کے کام کے لیے اپنی ساری قوت مجتمع کرنے کی ضرورت ہو۔
ان مریضوں کی بہ جائے جن کا معائنہ کررہا تھا، توماش کو تیریزا نظر آتی رہی۔ اس نے اپنی یاددہانی کی کوشش کی: اس کی بابت مت سوچو! اس کی بابت مت سوچو! اس نے اپنے سے کہا، میں کم پیشن سے بے زار ہوگیا ہوں۔ یہ اچھا ہوا کہ وہ چلی گئی ہے اور اب میں اسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھوں گا، اگرچہ یہ تیریزا نہیں جس سے مجھے گلو خلاصی چاہیے ۔۔۔بل کہ وہ بیماری، کم پیشن، جس کی بابت مجھے یہ گمان تھا کہ میں اس کے چھوت سے محفوظ ہوں تاآں کہ یہ اس نے مجھے لگا دیا۔
ہفتے اور اتوار کو اسے وجود کی شیریں لطافت مستقبل کی گہرائیوں سے اپنی طرف اٹھتی ہوئی محسوس ہوئی۔ پیر کے دن اس پر ایسے بوجھ کی مار پڑی کہ جس سے وہ پہلے کبھی واقف نہیں رہا تھا۔ اس کے مقابلے میں روسی ٹینکوں کا ٹنوں فولاد ہیچ تھا۔کیوں کہ دنیا میں کم پیشن سے زیادہ بھاری کوئی اور چیز نہیں۔ خود اپنا درد کبھی اتنا بوجھل نہیں معلوم ہوتا جتنا وہ درد جو آدمی دوسرے کے ساتھ، دوسرے کے لیے محسوس کرتا ہے، ایک درد جسے تخیل نے شدید بنا دیا ہوتا ہے اور سینکڑوں بازگشتوں نے طویل تر۔
وہ مسلسل اپنی تنبیہ کرتا رہا کہ کم پیشن کے آگے سپر انداز نہ ہو، اور کم پیشن سر جھکائے اوربہ ظاہر مجرم ضمیری کے ساتھ سنتا رہا۔کم پیشن کو معلوم تھا کہ وہ بہت زیادہ گستاخی دکھا رہا ہے، اس کے باوجود وہ اپنی جگہ پر ڈٹا رہا، اور تیریزا کے چلے جانے کے پانچویں دن توماش نے اپنے اسپتال کے افسرِ اعلیٰ(وہ شخص جس نے پراگ میں اسے روزانہ فون کیے تھے)کو مطلع کیا کہ اسے فوراً لوٹنا ہے۔ اسے ندامت تھی۔ اسے پتا تھا کہ افسرِ اعلیٰ کو یہ حرکت بڑی غیر ذمے دارانہ اور ناقابلِ معافی معلوم ہوگی۔ اس کے جی میں آئی کہ وہ اپنا دل کھول کر رکھ دے اور اسے تیریزا کی کہانی سنادے اور وہ خط جو وہ اس کے لیے میز پر چھوڑ گئی تھی۔ لیکن آخر میں اس نے یہ نہیں کیا۔ سوئس ڈاکٹر کے نقطۂ نظر سے تیریزا کی حرکت صرف ہسٹریائی اور قابلِ نفرین ہی ہوتی۔ اور توماش کسی کو اس کے بارے میں برا سوچنے کی اجازت نہیں دے سکتا تھا۔
اسپتال کے افسِراعلیٰ نے فی الواقع اس بات کا بہت برا مانا۔
توماش نے اپنے شانے اچکائے اور کہا، "Es muss sein. Es muss sein" (’’یہ ضرور ہونا ہے۔ یہ ضرور ہونا ہے‘‘)۔
یہ ایک تلمیح تھی۔ بیتھون کے آخری کوارٹیٹ کے آخری مؤمینٹ کی بنیاد مندرجہ ذیل دو موتیف (خاص خیالوں)پر ہے:
لفظوں کے معنیٰ کو بالکل واضح کرنے کے لیے، بیتھون نے مؤمینٹ کی شروعات
اس فقرے سے کی، "Der schwergefasste Entschluss" ، جس کا عام طور پر یہ ترجمہ کیا جاتا ہے: ’’ایک مشکل حل۔‘‘
بیتھون کی طرف یہ اشارہ دراصل تیریزا کے طرف توماش کی واپسی کا پہلا قدم تھا، کیوں کہ اسی نے اسے بیتھون کے کوارٹیٹس اور سوناٹاز کے رکارڈ خریدنے کی تحریک دلائی تھی۔
یہ تلمیح اس کے قیاس سے اور بھی زیادہ بامحل تھی کیوں کہ سوئس ڈاکٹر موسیقی کا بڑا دل دادہ تھا۔ اس نے بڑے سکون سے مسکراتے ہوے پوچھا، بیتھون ہی کے موتیف کی نغمگی میں، "Muss es sein?" (’’کیایہ ضرور ہونا ہے؟‘‘)
"Ya, es muss sein!" (’’ہاں، یہ ضرور ہونا ہے!‘‘)توماش نے دوبارہ کہا۔

(۱۶)
پارمینیڈیز کے برخلاف، بیتھون بہ ظاہر ثقل کو ایک مثبت چیزگردانتا تھا۔ چوں کہ جرمن لفظ schwerکا مطلب ’’مشکل‘‘ اور ’’وزنی‘‘دونوں ہی ہے، بیتھون کے ’’مشکل حل‘‘ کو’’وزنی‘‘ اور ’’بوجھل حل‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔ وزنی حل صداے تقدیر سے ہم آہنگ ہے ("Es muss sein!") ؛ احتیاج، وزن، اور قدروقیمت تین تصورات ہیں جو ایک دوسرے سے لاینفک طور پر جڑے ہوے ہیں: صرف احتیاج ہی وزنی ہوتی ہے، اور صرف وہی جو وزنی ہے قدروقیمت کا حامل ہوتا ہے۔
یہ ایک ایسا ایقان ہے جو بیتھون کی موسیقی کا زائیدہ ہے، اور اگرچہ ہم اس امکان (یا احتمال) کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ اپنی اصلیت کے لیے یہ بیتھون سے زیادہ اس کے شارحین کا رہینِ منت ہے ، ہم سب کم و بیش اس ایقان میں شریک ہیں: ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ آدمی کی عظمت اس حقیقت سے پھوٹتی ہے کہ وہ اپنی تقدیر کا بوجھ اسی طرح برداشتکرتا ہے جس طرح ایٹلس آسمانوں کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھا۔ بیتھون کا ہیرو مابعد الطبیعیاتی بوجھوں کو اٹھانے والا ہوتاہے۔
توماش سوئس سرحد کے قریب پہنچا ۔ میرے خیال میں ایک رنجیدہ خاطر ، دماغ کو صدمہ پہنچا ہوا بیتھون، بہ نفسِ نفیس، جو مقامی آگ بجھانے والے عملے کے براس بینڈ کی وطن کو الوداع کہنے والے سنگیت میں قیادت کررہا تھا، ایک "Es Muss Sein" مارچ۔
پھر توماش نے چیک سرحد پار کی اور روسی ٹینکوں کی قطاروں نے اس کی پذیرائی کی۔ اسے اپنی کار روک دینی پڑی اور آدھا گھنٹا انتظار کرنا پڑا تا آں کہ وہ گزر گئے۔کالی وردی میں ملبوس اسلحہ بند فوجوں کا ایک دہشت ناک سپاہی دوراہے پر کھڑا ٹریفک کی ہدایت کررہا تھا ،یوں جیسے ملک کی ہر سڑک اس کی اور تنہا اسی کی ملکیت ہو۔
"Es muss sein!" توماش نے اپنے سے دہرایا، لیکن پھر شک میں پڑ گیا۔ کیا واقعی یہی ہونا ضروری تھا؟
ہاں زیورچ میںیہ سوچتے ہوئے رہنا کہ تیریزا پراگ میں اکیلی پڑی ہے اس کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔
لیکن وہ کب تک کم پیشن کی اذیّت برداشت کر سکتا تھا؟ اپنی پوری زندگی؟ ایک سال؟ یا ایک ماہ؟ یا صرف ایک ہفتہ؟
یہ وہ کیسے جان سکتا تھا؟ اس کا اندازہ اس نے کیسے کیا ہوتا؟
اسکول کا کوئی بچہ بھی فزکس کی تجربہ گاہ میں مختلف سائنسی مفروضوں کی آزمائش کے لیے تجربے کرسکتا تھا۔ لیکن انسان، کیوں کہ زندہ رہنے کے لیے اسے صرف ایک زندگی ہی ملی ہے، یہ جاننے کے لیے کہ آیا اپنے پیشن (کم پیشن) کا اتّباع کرے یا نہ کرے ،تجربے نہیں کرسکتا۔
تو ذہن میں ان خیالات کو لیے اس نے اپنے فلیٹ کا دروازہ کھولا۔ کیرے نِن نے اس پر جست بھر کر اور اس کے چہرے کو چاٹتے ہوے اس کی گھر واپسی قدرے آسان کردی۔ تیریزا کی بانہوں میں خود کو ڈال دینے کی خواہش (جسے وہ زیورچ میں اپنی کار میں سوار ہوتے وقت بھی محسوس کرسکتا تھا)بالکل زائل ہوچکی تھی۔ اس نے اپنے تخیل میں خود کو ایک برفانی میدان کے بیچ اس کے مقابل کھڑا ہوا تصور کیا تھا، دونوں کے دونوں سردی سے کپکپاتے ہوئے۔

(۱۷)
قبضے کی ابتداہی سے روس کے ملٹری ہوائی جہاز پوری رات پراگ کے اوپر پرواز کرتے رہے تھے۔ توماش کو، جسے اب اور شوروشغب کی عادت نہیں رہی تھی ، سونا دوبھر ہوگیا۔
نیند میں ڈوبی تیریزا کے پہلو میں بے چینی سے کروٹیں بدلتے ہوئے، اسے وہ بات یاد آگئی جو اس نے مدتوں پہلے ایک بے اہمیت گفت گو کے دوران کہی تھی۔ وہ اس کے دوست ’’ز‘‘ کے بارے میں باتیں کررہے تھے کہ تیریزانے اعلان کیا، ’’اگر میری ملاقات تم سے نہ ہوئی ہوتی تو مجھے یقیناً اس سے محبت ہوجاتی۔‘‘
اُس وقت بھی اس کے الفاظ نے توماش پر افسردگی کی ایک عجیب کیفیت طاری کردی تھی، اور اِس وقت بھی اسے محسوس ہوا کہ یہ بس اتفاق ہی تھا کہ تیریزا اس سے محبت کرتی تھی اور اس کے دوست ’’ز‘‘ سے نہیں۔ اس کی توماش سے جنسی طور پر تکمیل یافتہ محبت کو چھوڑ کر، عالمِ امکان میں، دوسرے بے شمار مردوں کی وہ محبتیں تھیں جو جنسی تکمیل سے ناآشنا رہی تھیں۔
ہم اس خیال کو فی الفور رد کردیتے ہیں کہ ہماری زندگی کی محبت کوئی لطیف اور بے وزن چیز ہوتی ہے؛ ہم یہ فرض کرلیتے ہیں کہ ہماری محبت ایسی ہے جیسا اسے ہونا چاہیے، کہ یہ نہ ہو تو ہماری زندگی پہلی جیسی نہیں رہے گی؛ ہم محسوس کرتے ہیں کہ بیتھون بہ ذاتِ خود ہماری عظیم محبت کے واسطے "Es muss sein!" بجا رہا ہے۔
توماش نے اپنے دوست ’’ز‘‘ سے متعلق اکثر تیریزا کے فقرے کی بابت سوچا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کی زندگی کی داستانِ عشق "Es muss sein!" (’’ایسا ہی ہونا چاہیے‘‘)کی مثال نہیں پیش کرتی تھی، بل کہ"Es k246nnte anders sein" (’’ اس کے الٹ بھی ہوسکتا ہے‘‘)کی۔
سات سال پہلے ایک پیچیدہ نیوراتی واردات بس اتفاقاً تیریزا کے شہر کے اسپتال میں دریافت ہوئی۔ طبّی مشورے کے لیے پراگ میں توماش کے اسپتال کے چیف سرجن کو بلابھیجا گیا، لیکن توماش کے اسپتال کا چیف سرجن اتفاقاً عرق النسا میں مبتلا تھا، اور چوں کہ وہ ہلنے جلنے سے معذور تھا اس نے اپنی بہ جائے توماش کو مضافاتی اسپتال بھیج دیا۔ اُس شہر میں کئی ہوٹل تھے، لیکن توماش کو اتفاقاً اس ہوٹل میں کمرا دیا گیاجس میں تیریزا ملازم تھی۔ گاڑی کی روانگی سے پہلے اس کے پاس اتفاقاً کافی خالی وقت تھا کہ ہوٹل کے ریستوراں ہو آئے۔ اتفاقاً تیریزا ڈیوٹی پر تھی اور اتفاقاً توماش کی میز ہی پر سرو کررہی تھی۔ توماش کو تیریزا کے پاس لانے میں چھ اتفاقی وارداتیں لگی تھیں، جیسے اس کی طرف جانے میں خود اسے کوئی رغبت نہ ہو۔
وہ اُسی کی خاطر پراگ لوٹ آیا تھا۔ اتنا اہم فیصلہ اتنی ناگہانی محبت پر ٹِکا ہوا تھا، ایسی محبت جو سرے سے وجود ہی میں نہ آتی اگر سات سال پہلے چیف سرجن کو عرق النسا لاحق نہ ہوا ہوتا۔ اور وہ عورت، وہ مطلق ناگہانیت کی تجسیم، اب پھر اس کے پہلو میں محوِ خواب تھی، گہری گہری سانسیں لے رہی تھی۔
کافی رات گزر چکی تھی۔ اس کے پیٹ میں گڑبڑاہٹ ہونے لگی، جیسا کہ جسمانی فشار کے دوران اس کے ساتھ عموماً ہوتا تھا۔
ایک دو بار اس کا تنفس ہلکے ہلکے خراٹوں میں بدل گیا۔ توماش نے کوئی کم پیشن محسوس نہیں کیا۔ کچھ محسوس کیا تو بس یہ پیٹ کا دباؤ ہی تھا اور واپس لوٹ آنے کی مایوسی۔

ترجمہ: محمد عمر میمن
بشکریہ سمبل، شمارہ چار

(جاری ہے)

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *