جمعہ، 26 دسمبر، 2014

چرکین کی ساری غزلیں: حصہ-3



101
گئے جب شہر سے ہگنے کی خاطر بیاباں کو
صدائے گوز سمجھے نالۂ شیر نیستاں کو 

چمن میں جب قد موزوں کسی کا یاد آتا ہے 
کھڑی لینڈی سے بدتر جانتا ہوں سرد بستاں کو 

لگائے گا نہ منہ گر غیر جاکر گانڑ بھی رگڑے 
محبت ہوگئی ہے ان دنوں یہ ہم سے جاناں کو 

ہمارے ساتھ چلتے چلتے مجنوں کو جو دست آئے 
تو اس نے گانڑ پوچھی پھاڑ کر صحرا کے داماں کو 

ہگایا خون مدت تک خیال روئے رنگیں نے 
مروڑا پیٹ میں اٹھا جو دیکھا زلف پیچاں کو 

تبرا بھیج دنیا پر عدم کی راہ لے ناداں
نہ کر اس مزبلے میں بیٹھ کر آلودہ داماں کو 

وہ بلبل ہوں کہ جس کے نالۂ موزوں نے اے چرکیںؔ 
اڑایا چٹکیوں میں زمزمہ سنجان بستاں کو
***
102
چرکیں سے مدعی کو اگر عزم جنگ ہو
ناوک صدائے گوز ہو مقعد تفنگ ہو

ہتھیار تو ہر ایک کے دستوں پہ چھن گئے 
گنڑ چتڑی اب لڑے وہ جسے شوق جنگ ہو

بجھواؤ تیغ ناز کو لے کر گدھے کا موت
غیر نجس کے قتل کی جس دم امنگ ہو 

مطرب نہ کر چغانہ و شہرود پر گھمنڈ
جس ٹھیکرے میں موت دوں وہ جل ترنگ ہو 

چہرہ تمہارا ضعف سے ہے زرد شیخ جی 
حیض سفید پی لو تو پھر سرخ رنگ ہو 

اک پادری پسر کی محبت میں ہیں اسیر
دل اپنا کیوں نہ قائل قید فرنگ ہو 

غم خانۂ جہاں میں ہوں چرکیںؔ وہ تلخ کام
جلاب گر پیوں تو وہ جام شرنگ ہو
***
103
ہیں مریض چشم و لب اپنا اگر جلاب ہو
روغن بادام چرکیںؔ شربت عناب ہو 

رونق افزا ہو جو پاخانہ میں وہ رشک بہار
گل ہو لینڈی گو کی شبنم قطرۂ پیشاب ہو

بھوک سے مرتی ہے خلقت کچھ عجب اس کا نہیں 
کھاد بھی اکسیر کی مانند گر نایاب ہو 

کیجئے مضمون خون حیض میں رنگینیاں
تا زمین شعر رشک مسلخ قصاب ہو 

گانڑ دھونے سے نہ تو بھی شیخ کی نیت بھرے 
حوض تو کیا پشم ہے خالی اگر تالاب ہو 

اے صنم ہر اک برہمن دیکھ کر سجدہ کرے 
تیرے پاخانے کی چوکی میں اگر محراب ہو 

اب تو کیا ہے دیکھنا اس وقت تم چرکیںؔ کی قدر
لکھنؤ میں میرزا مہتر اگر نواب ہو 

آگے اس نو خط کے ہے اب سادہ رویوں کا یہ حال
جس طرے بے_قدر چرکیںؔ محمل کمخواب ہو
***
104
حیض کا سب رنگ ہے سو ہے برن میں آئنہ 
موت کا ہے ٹھیکرا دولہہ دولہن میں آئنہ 

کیوں نہ اس کی گانڑ کے نیچے بہے گنگا سدا
دیکھتا ہے منہ ترے چاہ ذقن میں آئنہ 

شیخ کی داڑھی کو مونڈیں گے گدھے کے موت سے 
کہہ دو ان سے میکشوں کی انجمن میں آئنہ 

گانڑ گل کی پھٹ گئی رخسار جاناں دیکھ کر 
دست بلبل کو بھلا کیوں کر چمن میں آئنہ 

تردۂ آئنہ چوکی عکس رخ سے بن گئی 
طشت ہے بیت الخلائے سیم تن میں آئنہ 

اس کاہر جوہر نہیں ہے کرم سے کم آنکھ میں 
چھوت گو کا ہے ترے بیت الحزن میں آئنہ 

نام چرکیںؔ پوچھتے حیرت سے کیا ہو شاعرو
ہے وہ پورب پچھم اور اتر دکن میں آئنہ 
***
105
اگر ہوتے نہ وارفتہ کسی زہرہ شمائل کے 
تو سڑتے کس لئے زنداں میں قیدی چاہ بابل کے 

ترے خال لب شیریں کے ہگنے میں جو یاد آئی 
جو نکلے پیٹ سے سدے وہ لڈو بن گئے تل کے 

ہوا ہے شوق کس رنگیں ادا کو زیب و زینت کا 
جو مشک وعود سے لوٹے بسائے جاتے ہیں گل کے 

اٹھے گو دلیلیں استبرے کی سنت پر 
عمل کرتے ہیں کب دانا سخن پر ایسے جاہل کے 

کسی کونی کی چربی سے مقرر اسکو ڈھالا ہے 
ہمیں بو گوز کی آئی دھوئیں سے شمع محفل کے 

مریدوں کی طرح دوں ان کو میں بھی دست بیعت کا 
کریں حل شیخ جی عقدے اگر عقد انامل کے 

بہت کی کنڈیاں لیکن پڑے ہیں آج تک چرکیںؔ 
ہمارے خوں کے دھبے پیلے پر تیغ قاتل کے 
***
106
رقیب اور شیخ کو اے یار گنڑ چتڑی لڑانیی ہے 
سر محفل ہمیں ان کو نیوں کی چل مٹانی ہے 

بت سیمیں کے پاخانے کی چوکی بھی ہے چاندی کی 
پھر اس طشت میں قلعی کی جا سونے کا پانی ہے 

نہ جا تو غیر کے گھگھیانے پر مفسد ہ وہ کونی 
وہ قابو چی بڑا ہے اس کی یہ منت زبانی ہے 

ابٹنا گو کا مل پہلے ہگوڑے غیر کے منہ پر 
شب عید اے صنم گر پاؤں میں مہندی لگانی ہے 

سدا کرتا ہے چلتے بیل کی وہ گانڑ میں انگلی 
لرزتا نام سے اس مہ کے ثو آسمانی ہے 

اگر ہو قبض افیوں سے پیو اے شیخ جی اس کو 
تمہارے واسطے دار و سڑے حقے کا پانی ہے 

میسر اس صنم کی گانڑ دھونے کا جو پانی ہے 
ترے حق میں وہ اے چرکینؔ آب زندگانی ہے 
***
107
چرکیںؔ اگلتی مجھ سے جو مردار کے لیے 
اک نام ہوتا یار کی تلوار کے لیے

دوبار راہ بول سے نکلے ہو شیخ جی 
واجب ہے غسل آپ پر ابرار کے لیے 

کس کا ہے نامہ بر یہ کبوتر کہ جس کی بیٹ
مرہم ہوئی ہے اس دل افگار کے لیے 

او شاہ حسن منہ سے گو ہر گھڑی نکال 
زیبا یہ گفتگو نہیں سردار کے لیے 

کس درجہ گو کی بو سے معطر ہوا دماغ
بو سے جو ہم نے مقعد دلدار کے لیے 

گو گل جلا کے آگ میں بیت الخلا کے بیچ
سفلی عمل پڑھیں گے کوئی یار کے لیے 

چرکیںؔ کو اپنے پاس سے اے گل جدا نہ کر
رہنے دے کھاد حسن کے گلزار کے لیے
***
108
زلف چھونے پہ جو دلدار خفا ہوتا ہے 
پائجامے میں مرا دست خطا ہوتا ہے 

دیکھ لیتا ہے مٹھولے جو لگاتے وہ مجھے 
ہو کے حیران وہ کہتا ہے یہ کیا ہوتا ہے 

سرکشوں کو بھی ہگاتا ہے وہ نیلا تھوتھا 
زلف خوباں کا بھی انداز برا ہوتا ہے 

پائخانہ اسے ٹھہراتے ہیں سارے شاعر
وصف جس بیت میں ہگنے کا بندھا ہوتا ہے 

شدت قبض سے پھر پادتا پھرتا ہے شیخ 
نشہ افیون کا جس وقت سوا ہوتا ہے 

پائخانے میںں وہ لے جاتے ہیں جو ساتھ مجے 
پاد کی طرح سے پھر غیر ہوا ہوتا ہے 

بھاگ کر چھپتا ہے پائخانہ میں چرکیںؔ اس دم 
دست اندازی پہ جب یار خفا ہوتا ہے 
***
109
داغے گا پٹاخا نہ وہ دلدار ہوئی 
چھوڑوں گا جو میں گوز کی یکبار ہوائی 

چر جائے کئی جا سے وہیں گانڑ فلک کی 
ماروں جو خدنگ کی دوچار ہوائی 

ہگتا تھا وہ بت ریتے میں اٹھا جو بگولا 
دشمن ہوئی نظارے کی دیوار ہوائی 

جب الشہیب گوز آپ کی مقعد سے چھٹے گا 
پکڑا نہیں جانے کا یہ رہوار ہوائی 

سرد آہوں سے میں چیرتا ہوں گانڑ کو ان کی 
جڑتا ہوں رقیبوں پہ یہ تلوار ہوائی 

ہگتا ہے اگر ہینگ لب یار کا بیمار
پستے کی کھلاتے ہیں پرستار ہوائی 

ال گل نے بلی اپنے کبوتر جو اڑائے 
چرکینؔ یہ سمجھا کہ ہے گلزار ہوائی 
***
110
گر آب دیکھ لیں تری تیغ خوش آب کی 
چر جائے گانڑ رستم و افرا سیاب کی 

میخانے میں ہوا مجھے ادرار اس قدر
ریلے میں موت کے بہی بوتل شراب کی 

دن کو بچوں بچوں نہ بچوں کیا ہو دیکھئے 
دستوں سے رات کو نہ فرصت ہو خواب کی 

منہ سڑ گیا ہے شیخ کا آتی ہے گو کی بو
جس دن سے اس نے کی ہے مذمت شراب کی 

ہے گانڑ غنچہ کانچ ہے اس گل کی رشک گل 
کیوں کر نہ بو ہو موت میں بوئے گلاب کی 

ہگ ہگ کے میں نے یار کے گھر میں کیا ہے ڈھیر
پاداش ہوگی کیا مرے فعل خراب کی 

شوال میں تو گانڑ کو چرکینؔ اپنی دھو 
ماہ صیام میں بڑی قلت تھی آب کی 
***
111
وفور شوق سے شافہ لیا ہے انگلی ڈالی ہے 
بڑے زوروں سے لینڈی شیخ نے باہر نکالی ہے 

وہ خود گندہ ہے جو گندہ مزاجوں کو ستاتا ہے 
نجاست کا سبب انساں کو گو کی پائمالی ہے 

ترے بیمار کو اتنی نہیں طاقت ہگے اٹھ کر 
تن کا ہیدہ اس کا رشک تصویر نہالی ہے 

پلا مے آج وہ ساقی کہ پاجامے میں ہگ ماریں
چمن ہے ابر ہے چلتی ہوائے برشکالی ہے 

ہمارے آگے بدتر گو بھرے سفرے سے بھی وہ ہے 
دہن جو تیرے وصف پاک سے اے یار خالی ہے 

شب دیجور بھی دیکھے تو ہگ دے مارے خطرے کے 
فراق یار میں وہ رات ہم پر آج کالی ہے 

کہے گا جو ہمیں چرکیںؔ برا وہ بھی سنے گا کچھ 
پڑی ہے چھینٹ اس پر جس نے گومیں اینٹ ڈالی ہے 
***
112
اہل ہنر سمجھتے ہیں اہل ہنر مجھے 
چرکیںؔ وہ خود لچر ہے جو سمجھے لچر مجھے

لاکھوں ہی احتلام ہوئے تا سحر مجھے 
سفرے کا کس کے دھیان رہا رات بھر مجھے 

مضمون خون حیض کی دقت میں وقت فکر
کھانا پڑا کمال ہی خون جگر مجھے 

سن رکھئے گو میں خوب سا نہلاؤں گا اسے
پھر غیر بزم یار میں گھورا اگر مجھے 

جس دن سے کاٹ کھایا ہے اس مار زلف نے 
گر دیکھوں کیچوا بھی تولگتا ہے ڈر مجھے 

یہ زور پر ہے وحشت دل اب تو اے پری 
پھٹ جائے گانڑ قیس کی ہے دیکھے اگر مجھے 

اک روز پھٹ نہ جائے کہیں سقف آسماں
چرکیںؔ تمہارے گوز سے لگتا ہ ڈر مجھے 
***
113
پھسکی میں تری باد بہاری کا اثر ہے 
سنبل اگر جھانٹیں تو سفر اگل تر ہے 

بنتی نظر آتی نہیں اس سیم بدن سے 
یاں گانڑ میں گو بھی نہیں وہ طالب زر ہے 

حاجت ہے ملاقات کی تو آئیے صاحب
پاخانہ جو مشہور ہے بندے ہی کا گھر ہے 

اے رشک چمن بے_ترے نظروں میں ہماری 
سوکھی ہوئی لینڈی سے بھی بدتر گل تر ہے 

جس فرے میں آلت کا ہوا ہو نہ کبھی دخل
گویا مرے نزدیک وہ ناسفتہ گہر ہے 

ہر لحظہ ہر اک بات میں گو اچھلے نہ کیونکر
چاہت جسے کہتے ہیں ادھر ہے نہ ادھر ہے 

چرکیںؔ کی خطا پر نہیں ہنسنے کی جگہ یار
ہگتا نہ ہو دنیا میں وہ کون ایسا بشر ہے 
***
114
غیر نجس کی قبض سے حالت تباہ ہے 
گردن جھکی ہے سفرے کی جانب نگاہ ہے 

چرکیںؔ تمہارے ہگنے کو بھی واہ واہ ہے 
مہتر چبوترے میں ہر اک داد خواہ ہے 

ہگنے کے وقت ہے جو رخ و زلف کا خیال ہے 
کوئی ہے لینڈی سرخ تو کوئی سیاہ ہے 

رکھ دیں گے اس اس کو نوچ کے ہم طشت یار میں 
پولا سی داڑھی شیخ کی مثل گیا ہے 

نے گانڑ کی تمیز ہے نے فرج کا ہی پاس
لوڑا کھڑا بھی اپنا عجب پادشاہ ہے 

کس طرح کھائیں کوفتوں پر ہم کو ہجر میں 
سدوں کا شک ہے لینڈیوں کا اشتباہ ہے 

وحشت کو اس کی دیکھ کے کہنے لگا وہ شوخ
چرکیںؔ ہمارا قیس کا بھی قبلہ گاہ ہے 
***
115
وہ مضمون گو کے پیدا کیجئے طبع گرامی سے 
جیبی انت یا چرکیں کا غل ہو گور جامی سے 

طرح عنبر کی بو کا وصف ہے ہم میں تو کیا حاصل 
رہے پھر گو کے گو باز آئے ایسی نیک نامی سے

سمند گوز بھی کوئی عجب منہ زور گھوڑا ہے 
پھٹی ہے شبہہ سواروں کی بھی جس کی بدلگامی ہے 

ہوا ہے شوق آرائش یہاں تک اس پر روکو
منڈھی جاتی ہے چوکی پائخانے کی تمامی سے

جو اپنے لب پہ بیٹھے آ کے ہگنے ہگ دیا اس نے 
یہی حاصل ہوا ہم کو فقط شیریں کلامی سے 

کیا کرتے ہیں اس سے دو بدو ہی گفتگو ہردم 
نہ مطلب نامہ و پیغام سے ہے نے پیامی سے 

لکھا رہنے دے چہرہ مہتروں میں زر کمائے گا
نہ اے چرکینؔ ہونا دست بردار اس اسامی سے 
***
116
کوئی مہتر ترے بیت الخلا میں جب کہ جاتا ہے 
نصیبوں پر ہمیں پھر اس کے کیا کیا رشک آتاہے

طلب کیجئے اگر بوستہ تو ہنس کر یہ سناتا ہے 
زمانے میں کوئی چرکینؔ کو بھی منہ لگاتاہے 

یہاں تک بدقماشی ہم سے ہے اس چرخ ابتر کی 
جو کھیلیں گنجفہ بھی تو برا ہی دست آتا ہے 

دل اپنا کاہ کی صورت اگرچہ پادہ پونی ہے 
و لیکن اس پہ بھی کیا کیا یہ کوہ غم اٹھاتا ہے 

ذرا اے بحر خوبی لے خبر تو اپنے چرکیںؔ کی 
ترے بیت الخلا کے حوض میں غوطے لگاتا ہے 
***
117
دید تیری گر نصیب اے مہ لقا ہو جائے گی
گھورا گھاری میں مری حاجت روا ہوجائے گی 

مان کہنا کھا نہ تو مجھ سے نجس کی ہڈیاں
گو سے لت پت چونچ تیری اے ہما ہوجائے گی

کوتھنے میں منہ بنائے گا جو وہ بت ناز سے 
اک ادا ہگنے میں بھی اس سے ادا ہوجائے گی

تنکے گھورے پر چنے گا بن کے دیوانوں کی شکل 
وہ پری عاشق سے اپنے گر حفا ہوجائے گا 

شیخ جی صاحب کریں گے تجھ سے بے_خطرے نکاح
دختر صوفی اگر تو پارسا ہوجائے گی

وصل کی شب بستر جاناں پہ میں نے ہگ دیا 
کیا سمجھتا تھا کہ یہ مجھ سے خطا ہوجائے گی 

قبض شدت اگر چرکیںؔ یہی عالم میں ہے 
کھاد بھی نایاب مثل کیمیا ہوجائے گی
***
118
کہدو خبر لے حسن کے اس بادشاہ سے 
چرکیںؔ پڑا ہے گھورے پہ حال تباہ سے 

کھانہ عبث ہے منہ سے غذائے لذیذ کو 
گو ہو کے ساری نکلے گی مقعد کی راہ سے 

دہشت سے میکشوں کی ہوا ہے یہ گوز بند
نکلا نہ شیخ بہر وضو خانقاہ سے 

ڈر سے ہمارے غیر کا پیشاب ہے خطا
جریاں نہیں ہوا ہے اسے ضعف باہ سے 

گوز شتر سمجھتا ہوں تحسین ناشناس
چرکیںؔ خوش اہل فہم کی ہوں واہ واہ سے
***
119
پدوڑی ہے نہ کر تو ہم زبانی 
یہ گو کھانی کی بلبل ہے نشانی 

لگوگے ہینگ ہگنے شیخ جی تم 
مضر ہے ماش کی یہ دال کھانی 

ہمارے آگے ہگ دیتا ہے دشمن 
یہ اس کونی کی شیخی ہے زبانی 

جگت کی غیر کو گوگل کھلا کر
نکالے اس نے گو کے دو معانی 

کرے گی قبض پادالون کھالو
یہ نسخہ سن لو چرکیںؔ کی زبانی 
***
120
نمک بن پاد کر اغیار کونی بے_حیائی سے 
سوا ان کی سڑی کوں ہے گڑھیا اور کھائی سے 

جو پتلی دال کھاکر شیخ اپھرے پیٹ بائی سے 
کرم تھوڑی سی کھا مرغی سوا ہے گرم رائی سے 

ترے بیمار کو دو تین ایسے دست آئے ہیں 
زمیں پر گانڑ کا گو بہہ چلا ہے چار پائی سے 

سر بازار کوڑی پاد پادو شیخ جی صاحب
زمانے میں کوئی بہتر نہیں ہے اس کمائی سے 

نکالا غیر کو بیت الخلا سے یار نے چرکیںؔ 
کھڑا ہے گھر پہ گو کھانے کو وہ سور ڈھٹائی سے
***
121
اک بوسے پہ کیوں بگڑ کے اٹھے 
گو کھایا جو اس سے لڑ کے اٹھے 

دیوانہ تیرا جو ہگنے بیٹھا 
پتھر لے لے کے لڑکے اٹھے 

اغیار نے ہگ دیا ہے ڈر سے 
تلوار جو ہم پکڑ کے اٹھے 

اس مہر کو گھر سے آتے دیکھا 
ہگنے کے لیے جو تڑکے اٹھے 

پایا نہ عصا جو شیخ جی نے 
آلت کو مرے پکڑ کے اٹھے 

بٹھلایا نہ اپنے پاس اس نے 
ہم گانڑ تلک رگڑ کے اٹھے 

قاتل کی گلی سے لاش چرکیںؔ 
ارمان یہ ہے کہ سڑ کے اٹھے
***
122
چرکیںؔ چمن میں آ کے جو یکبار ہوگئے 
ہر اک روش پہ کھاد کے انبار ہوگئے 

دولت کمائی ہے ترے صدقے سے اس قدر
مہتر تمام شہر کے زردار ہوگئے 

اس مزبلے میں بیٹھ کے سنڈاسیوں کی طرح 
لاکھوں نجاستوں میں گرفتار ہوگئے 

منہ گانڑ اور گوز شتر ہے تمہاری بات
القصہ آپ جھوٹوں کے سردار ہوگئے 

مجھ سخت جاں کی جھانٹ کے بھادیں ہوا نہ کچھ 
عاری تمہارے خنجر خوں خوار ہوگئے 

نے دست و پا کا ہوش ہے نے گانڑ کی خبر
کس درجہ محو صورت دلدار ہوگئے 

بیت الخلائے یار سے چرکیںؔ نکل کے ہم 
گھوے پہ بیٹھنے کے سزاوار ہوگئے
***
123
مشابہ غنچۂ گل ہے ہر اک لیلیٰ کے محمل سے 
صدائے گوز مجنوں آتی ہے صوت عنادل سے

غم فرقت سے لیلیٰ کی ہوا ہے ناتواں ایسا 
پھٹی جاتی ہے مقعد قیس کی بار سلاسل سے 

جو ہیں ناپاک ناپاکوں سے رغبت ان کو ہوتی ہے 
اگھوری موت اور گو کو ملاکر کھاتے ہیں دل سے 

فلک پر رشک کھائے مہر تاباں اے ہلال ابرو
جو دیکھے طشت پاخانے میں تیرے ماہ کامل سے 

عوض ہد ہد کے خوں کے حیض کے خوں سے وہ بھرتا ہے 
کبھی گر نقش حب چرکیںؔ لکھواتا ہے عامل سے
***
124
کوئل کو گانڑ کی خبر اے باغباں نہ تھی 
آموں پہ پادتی وہ پدوڑی کہاں نہ تھی 

گو کھایا قاضیوں نے جو رندوں پہ کی حرام 
بنت العنت تو زوجۂ پیر مغاں نہ تھی 

اغیار کی جو گانڑ بھی تھوکا بجا کیا 
کچھ عزت اس پدوڑے کی اے جان جاں نہ تھی 

گلشن خراب تو سن باد خزاں سے تھا 
گھوڑے کی لید تھی سمن وارغواں نہ تھی 

سڑتے تھے پھول جوش تھا گندہ بہار کا 
کچھ کم موتالی سے روش بوستاں نہ تھی 

منہ زور گویا باؤ کا گھوڑا ہے اس کا گوز
اغیار کے جو قبضے میں اس کی عناں نہ تھی 

چرکیںؔ نے طرفہ شستہ و رفتہ غزل کہی 
ایسی رواں طبیعت صاحبؔ قراں نہ تھی 
***
125
تیغ اس نے لگائی جب کمر سے 
مریخ نے ہگ دیا ہے ڈر سے 

کر بات نہ غیر فتنہ گر سے 
گو اچھلے گا خوب ادھر ادھر سے 

ٹل جائے گی ناف آئیں گے دست
تلوار نہ تو لگا کمر سے 

ہگنے میں بندھا جو زلف کا دھیان
پیچس رہی شام تک سحر سے 

ناداں اٹھا نہ بار عصیاں
یہ ٹوکرا گو کا پھینک سر سے 

اک موت کے ریلے میں بہادیں
رگ سامنے اپنے ابر برسے 

کہنے لگے مجھ سے ہٹ کے سڑئے 
بیٹھا جو میں لگ کے ان کے در سے

کیا دوں جواب میں شیخ بد کو 
گو کھانا ہے بحثنا لچر سے 

قسمت کی برائی دیکھوں چرکیںؔ 
گھورے پہ سڑے نکل کے گھر سے 
***
126
یہ قول ان کا ہے جن کا کوچۂ دلدار مسکن ہے
خیابان چمن میں کھڈیاں پاخانہ گلشن ہے 

نکالے جاتے ہیں محفل اس کی پاد کے ہاتھوں
کسی کو دوش کیا دیں گانڑ ہی یاں اپنی دشمن ہے 

وہ تیرا غمزۂ سرہنگ ہے او قاتل عالم 
دو پارہ جس کے دم سے سفرۂ اسقند و بہمن ہے 

خیال آتا ہے اے بت جب ترا وہ پاد دیتا ہے 
یہ سفرا غیر کا ہے یا کہ ناقوس برہمن ہے 

بجا ہے پادری مجھ کو کہیں گر سارے نصرانی 
پدوڑا میں ہوں عاشق میری معشوقہ فرنگن ہے 

نظر آتا ہے جب ہر اک فرنگی چھلکے دیتے ہیں 
کہوں کیا بول صاحب کے جو کچھ مکھڑے پہ جو بن ہے 

رہ مقعد ہزاروں ہی کی ماری اس نے اے چرکیںؔ 
ذکر اپنا بھی اپنے وقت کا اک مار رہزن ہے 
***
127
لڑتی ہیں آنکھیں اپنی اب اس شوخ وشنگ سے 
رستم کی گانڑ پھٹتی ہے جس خانہ جنگ سے 

سفرے کا غیر کے ہے بواسیر سے یہ حال
بندر کی گانڑ سرخ نہیں جس کے رنگ سے 

سدے نکل رہے ہیں زبس گولیوں کی طرح
کم گانڑ شیخ جی کی نہیں ہے تفنگ سے 

افسوس آج ان کو نہیں گانڑ کی خبر
کل تک خراج لیتے تھے جور وم و زنگ سے 

لبدی تم اس کی گانڑ پہ اب باندھو شیخ جی 
بہتر نہیں دوائے بواسیر بنگ سے 

منہ تک ہوئی نہ غیر کو اس بت کے دسترس
برسوں ہی گرچہ گانڑ گھسی در کے سنگ سے 

چرکیںؔ ہر ایک بیت میں اپنی ہزار بار
مضمون خون حیض بندھے لاکھ رنگ سے 
***
128
حال یہ شیخ کا ہے قبض کی بیماری سے 
پاد بھی گانڑ سے آتا ہے تو دشواری سے 

تن بدن پھنکتا ہے سوز اک کی بیماری سے 
بوند پیشاب کی کچھ کم نہیں چنگاری سے 

غیر کونی کو نہ دروازے تک آنے دے گا 
اس کے دل میں ہے یہ گھر میری وفاداری سے 

بات اچھی نہیں گو اچھلے گا اس میں صاحب
دستبردار ہو غیروں کی طرفداری سے 

پاس باقی نہ رہا گانڑ کا پاجامے تک 
حال اپنا یہ بہم پہنچا ہے بیکار سے 

یاں سیجو سوئے عدم گانڑ چھپا کر بھاگا
تھا عمر کو بھی مگر ڈر تری عیاری سے 

اہل عبرت کو ہو چرکیں نہ تعلق کا مزا
مرغ تصویر کو کیا کام کرفتاری سے 
***
129
پادے ہیں اطبا سبھی پوں پوں مرے آگے 
گنڑ گھسنیاں کرتا ہے فلاطوں مرے آگے 

بولائی مجھے دیکھتے ہی جوشش باراں
اک قطرۂ پیشاب ہے جیحوں مرے آگے 

وہ گرگ کہن سال ہوں میں دشت جنوں کا
کوں کھولے ہوئے پھرتا تھا مجنوں مرے آگے 

وہ کانچ دکھاتا نہیں اپنی مجھے ہرگز
لیتا ہے چھپا سفرۂ گلگوں مرے آگے 

اے مرغ چمن کیا ہے خوش آوازی پہ نازاں
ہے گوز ترا نالۂ موزوں مرے آگے 

اس زور سے پادو کہ دہل جائے فلک بھی 
اسرارؔ جو مجلس میں کرے چوں مرے آگے 

وہ میں نہیں چرکینؔ جو دب جاؤں کسی سے 
ہر ایک بنڈیلا ہے کم از جوں مرے آگے
***
130
صدائے گوز اے چرکیںؔ یہاں دمڑی کی چوں چوں ہے 
تری پھسکی کی یہ آواز نقارے کی دوں دوں ہے 

اگر کوڑی گرے گو میں اٹھا لے غیر دانتوں سے 
وہ مکھی چوس ہے کیا مال جس کے آگے قاروں سے 

لہو موتا کرے کب تک مریض غم ترا اوبت
خبر لے ہے خلل پتھری کا حال اس کا دگر گوں ہے 

نہ رکھ اغیار سگ سیرت سے گہرے ااب دست اے جاں
وہ گو کھاتا ہے اور ناشستہ اس ناپاک کی کوں ہے 

اڑادیں پاد سا نالہ نہ کیونکر مرغ گلشن کا 
ہماری آہ شور انگیز وہ دمڑی کی چوں چوں ہے 

مقشر شیخ کی کرلو ملاکر اس میں نوسادر
ہگوگے نیلا تھوتھا ورنہ حضرت زہر افیوں ہے 

نہ ملنا غیر سے اے جان گر وہ گانڑ بھی رگڑے 
نہ کرنا دوستی زنہار وہ موذی ہے میموں ہے 

مل ہے آگ جو کھاتا ہے انگارے وہ ہگتا ہے 
غذایاں خون دل اپنی ہے جاری گانڑ سے خوں ہے 

زمین شعر میں کیا کھڈیاں ہیں تونے بنوائیں 
جو اے چرکیںؔ پسند طبع تیری گو کا مضموں ہے 
***
131
آج دیکھئے چرکیںؔ کس کی موت آئی ہے 
اس نے زہر قاتل میں تیغ کیں بجھائی ہے 

خال روئے جاناں کی کیا کروں ثنا اے دل 
ہگ دیا ہے رستم نے جب وہ گولی کھائی ہے 

جھینپتی ہے آنکھ اس کی سامنے جب آتا ہے 
گانڑ غیر نے شاید آپ سے مرائی ہے 

زور ناتوانی ہے بسکہ ہجر کی شب میں 
ہگتی پادتی لب تک اپنے آہ آئی ہے 

مررہے ہیں آپہی ہم ہم سے نیم جانوں پر
گو کا کھانا او قاتل تیغ ازمائی ہے 

گانڑ کیوں چراتا ہے ہم سے پنجہ کرنے میں 
پادا پونی اے گل رو کیا تری کلائی ہے 

تھاپتا ہے گو ایسا ہو گیا ہے دیوانہ 
کس پری سے اے چرکیںؔ آج کل جدائی ہے 
***
132
روکتے گوز جو اپنا تو بڑی بات نہ تھی 
شیح صاحب میں تو اتنی بھی کرامات نہ تھی 

سو رہا گانڑ مرے منہ کی طرف کرکے وہ شوخ
ہجر کی رات سے کم وصل کی بھی رات نہ تھی 

گھس گیا پا کے میں تنہا اسے پاخانے میں 
وصل کی اس کے سوا اور کوئی گھات نہ تھی 

گانڑ کی طرح سے منہ اپنا چھپالیتے تھے 
میری اور آپ کی جب تک کہ ملاقات نہ تھی 

گو میں کس روز وہ غیروں کو نہ نہلاتا تھا 
کب مرے حال پہ اس بت کی عنایات نہ تھی 

ایک ہی موت کے ریلے میں بہے سیکڑوں گھر
دیکھی اس طرح کی ہم نے کبھی برسات نہ تھی 

مفت دم پر جو وہ چڑھتے تو بن آتی چرکیںؔ 
خرچی بلوانے کے قابل مری اوقات نہ تھی 
***
133
کوئی ثانی نہیں مہتر مری توقیر میں ہے 
کس کا پاخانہ گل انداموں کی جاگیر میں ہے 

ہگ دے مریخ فلک بھی جو چمکتی دیکھے 
آبداری یہ مرے ترک کی شمشیر میں ہے 

ہے یقیں گانڑ کے رستے سے نکل جائے گا دم 
مبتلا شیخ اب اس درجہ بواسیر میں ہے 

قصر قیصر میں بھی اے یار نہ ہوگا ہرگز
جو کہ عالم ترے پاخانے کی تعمیر میں ہے 

ہگ دے مجنوں بھی یقیں ہے جو اٹھائے یک بار
بوجھ بھاری یہ مرے پاؤں کی زنجیر میں ہے 

اس پری رو کے ہوا دل میں نہ اک بار اثر
عالم گوز شتر نالۂ شب گیر میں ہے 

جو کہ سنتا ہے وہ بے_ساختہ ہنس دیتا ہے 
عالم اب گوز کا چرکیںؔ تری تقریر میں ہے 
***
134
جو وہ پاخانہ دیکھے قصر شیریں کو ہکن بٹھولے 
گھسے گا گانڑ آ کے ہاں سر پھوڑتا سب تیشہ زن بھولے 

ہگوڑا غیر سگ سیرت تھا ہگ ہگ کر موا آخر
دیا اس کو نہ گو کے پوتڑے کا جو کفن بھولے 

سے گر نام مجھ دیوانے کا دہشت سے ہگ مارے 
لگے گو تھانپے قیس اپنا سب دیوانہ پن بھولے 

چراغ غول سمجھے چھوت گو کا دشت وحشت میں 
جو دیکھے کیچوئے صحرا میں مار راہ زن بھوے 

پھٹی گانڑ ان کی میرے نالۂ رنگیں کو سنتے ہی
ہوئے رودم دبا کر نالے مرغان چمن بھولے 

لگے گو تھانپے اے بت نہ دے گوبر کا وہ چوکا 
جو دیکھے تیرا پاخانہ کلیسا برہمن بھولے 

ہماری سی کرے گر سینہ کاوی اے بت شیریں
چرے گانڑ ایسی ساری تیشہ رانی تیشہ زن بھولے 

ہگے کو اپنے بلی کی طرح ممسک چھپاتے ہیں 
نہ ان کی صورت مسکیں پہ دزد نقب زن بھولے 

رقیبوں کی لڑاتے آنکھ ہم سے دپدپاتی ہے 
لگایا تھوک ایسا گانڑ میں سب بانکپن بھولے 

جو کھودے یار کے سنڈاس میں تو قبر چرکیںؔ کی 
قیامت تک نہ وہ احساں ترا اے گورکن بھولے
***
135
چرکیںؔ اگلتی مجھ سے جو ناکام کے لیے
اک نام ہوتا یار کی صمصام کے لیے

حاجت جو اس نگار کو استنجے کی ہوئی 
آنکھوں کے ڈھیلے عاشق بدنام کے لیے 

محتاج ہو کے گھر میں امیروں کے تو نہ جا 
دربار گانڑ پھاڑیں گے انعام کے لیے 

اس بات پر عمل کرو کروالو شیخ جی 
حقنہ بہت مفید ہے سرسام کے لیے 

چرکیںؔ نے پائخانے میں کی اپنی بود و باش
گوشہ نہ جب ملا کوئی آرام کے لیے 
***
136
کس طرح صاحب کو پھر اے بندہ پرور چاہئے 
گانڑ میں یاں گو نہیں ہے آپ کو زر چاہئے 

غیر کہتے ہیں کہ جان و مال تو کیا چیز ہے 
گانڑ تک حاضر ہے لیجیے آپ کو گر چاہیے 

دشمن بد گو کے منہ پر تو بڑا گو کا چڑھا 
ایسے کو ایسی سزا اے ماہ پیکر چاہیے 

جان دی ہے ہم نے اک مہتر پسر کے عشق میں 
اپنی مرقد پر گل آدم کی چادر چاہیے 

رکھ کے استنجے کا دھیلا سرتلے گھورے پہ لیٹ 
تجھ کو اے چرکینؔ کیا بالیں و بستر چاہیے
***
137
اس درجہ پائخانۂ جاناں بلند ہے 
سنڈاس جس کا چرخ بریں سے دو چند ہے 

کرتا نہیں ہے چوں کبھی رندوں کے روبرو
دہشت کے مارے شیخ کا یہ گوز بند ہے 

عاشق ہوں گو بھی اس بت شیریں کلامکا 
نزدیک اپنے شہد ہے مصری ہے قند ہے 

بیمار جو ہوا کسی سفرے کے عشق میں 
حقنہ کمال اس کے لیے سود مند ہے 

جس نے سنی ہے اس بت خوش گپ کی گفتگو
گوز شتر سمجھتا وہ ناصح کی پند ہے 

چرکیںؔ کی قدر کچھ نہیں لیتے ہیں کھاد مول
ہے سچ مثل کہ خلق بھی مردہ پسند ہے 
***
138
درد دل کی مرے چرکینؔ دوا لائے کوئی 
پائخانے تلک اس بت کو لگا لائے کوئی 

مرغ زریں ہے چغل یار کے پاخانے کا 
یاں تک اس سونے کی چڑیا کو اڑالائے کوئی 

غیر بکتا ہے تو بکنے دو وہ گو کھاتا ہے 
ایسے کونی کا سخن دھیان میں کیا لائے کوئی 

زر تو کیا گانڑ تلک بھی نہ کرے گا وہ عزیز
شکل لیلیٰ کی جو مجنوں کو دکھلائے کوئی 

آمد حیض ہے اس رشک چمن کی گدی
پھاڑ کر دامن گل جلد بنا لائے کوئی 

زمزمے سن کے مرے بند ہیں مرغان چمن
ان کو تھوڑی سی کرم جا کے کھلا لائے کوئی 

درد سر کایہی چرکینؔ کے بہتر ہے علاج
اس کا گو تھوڑا سا صندل میں ملا لائے کوئی 
***
139
ترا مریض یہ گو میں خراب رہتا ہے 
کہ جس سے مہتروں کو اجتناب رہتا ہے 

مروڑے پیٹ میں میرے ہی کچھ نہیں اٹھتے 
کمر کو آپ کی بھی پیچ و تاب رہتا ہے 

فلک شکوہ ہے اے بت وہ تیرا پاخانہ 
بجائے طشت جہاں آفتاب رہتا ہے 

نظر پڑی تری اے یار جب سے موت کی بوند
ذلیل آنکھوں میں در خوش آب رہتا ہے 

ملا ہے سارے زمانے سے تیرا قار ورہ 
ہمیں سے تجھ کو مگر اجتناب رہتا ہے 

پڑا جو رہتا ہے چرکینؔ اس کے کوچے میں 
حلال خوروں پہ اکثر عتاب رہتاہے
***
140
سوائے رنج کچھ حاصل نہیں اے دل ربا تجھ سے 
وہ گو کھاتے ہیں جو رکھتے ہیں امید وفا تجھ سے 

نہ ہوتا وصل کی شب میں نہ کیونکر وہ حفا تجھ سے 
ہگا بستر پہ اس گل کے ہوئی چرکیںؔ خطا تجھ سے 

نہ پائی اک دن ہگنے کی اجازت تیرے کوچے میں 
نہ اتنی بھی کبھی اپنی ہوئی حاجت روا تجھ سے 

نہیں محفل میں بھی اے شوخ تجھ کو گانڑ پر قابو
نکل جاتی ہے رک سکتی نہیں اتنی ہوا تجھ سے 

مثال گوز پاخانے سے باہر نکلا پڑتا ہے 
کہے چرکینؔ کیونکر اپنے دل کا مدعا تجھ سے 
***
141
کچھ ان دنوں یہ یار سے قار ورہ ملا ہے 
پادا بھی اگر اس نے ہے تو ہم سے کہا ہے 

برسوں ترے بیمار نے کہتے ہیں ہگی ہینگ
تپ موت گئی اب کوئی دو دن میں شفا ہے 

نالوں سے مرے پادتے پھرتے ہیں چمن میں 
سو مرتبہ گو بلبلوں کے منہ میں دیا ہے 

مے پیتا ہے پیشاب سے داڑھی بھی منڈائے 
گو کھانے میں اب شیخ کے کیا باقی رہا ہے 

کوچہ ترا اے رشک چمن دیکھا ہے جب سے 
سیر گل و گلزار پہ پیشاب کیا ہے 

جب غیر نے دیکھا ہے مجھے رعب سے میرے
ہگ مارا ہے پاجامے میں اور موت دیا ہے 

قار ورہ مرا دیکھ کے یہ بولے اطبا
غم کھایا بہت بند اسے ہیضہ ہوا ہے 

گو کھاتا ہے وہ گالیاں کھاتا نہیں تیری
یہ غیر اگھوری نہیں اے جان تو کیا ہے 

سد رہ دیوار صنم جو ہوئی خندق
چرکینؔ نے ہگ ہگ کے اسے پاٹ دیا ہے 
***
142
ترشوا کر گل نسرین و سمن پتھر کے 
اس نے پاخانے میں بنوائے چمن پتھر کے 

اے فلک زیر زمیں ان کی پھٹی جاتی ہے گانڑ
ڈھیر جن مردوں پہ ہیں سیکڑوں من پتھر کے 

نسبت ان ہونٹوں سے دینا انہیں گو کھانا ہے 
سب سمجھتے ہیں کہ ہیں لعل یمن پتھر کے 

پرسش روم جزا سے نہیں خطرہ ان کو 
دل مگر رکھتے ہیں دز دان کفن پتھر کے 

کیا کریں تجھ سے بھلا گفت و شنید اے چرکیںؔ 
ان بتوں کے ہیں لب و گوش و دہن پتھر کے 
***
143
دور بھاگیں اس ہوا سے کہدو قوم عاد سے 
ہوگئے ہیں گھر کے گھر برباد اپنے پاد سے 

اے فلک بیداد اتنی بھی غریبوں پر نہ کر
گانڑ کھجلایا کرے تا چند کوئی داد سے 

وقت مشکل کے نکلتا ہے دلا ہمدم سے کام
آئے افیونی کو غایط حقے کی امداد سے 

دامن کہسار کو ہگ ہگ کے آلودہ کرے
بیستوں پر سامنا کیجیے اگر فرہاد سے

سرخ پوشی کا اگر ہے شوق اے چرکینؔ تجھے 
خون حیض دختر رز کم نہیں ہے گاد سے
***
144
کریں گے بحث جو ہم شعر کے اصولوں کی 
تو ہوگی گانڑ غلط سارے بوالفضولوں کی 

نواز گنج میں میلا ہے آج گوگا کا 
ہنڈولے گڑتے ہیں تیاریاں ہیں جھولوں کی 

چمن میں جا کے جو یاد آئی اس کے گوز کی بو
ذرا دماغ کو بھائی نہ باس پھولوں کی 

کیا جو بوسہ طلب بولے گو نہ کھاؤ زیاد
قبول بات نہیں ہم کو ناقبولوں کی 

یہاں اگا نہںی چرکیںؔ ہمارا نخل مراد
وہاں ابھی سے ہیں تیاریاں بسولوں کی 
***
145
کرتے ہیں بہت صحبت دلدار میں گرمی 
گھس جائیگی سب مقعد اغیار میں گرمی 

گوگل تو نہ کھائے ہو بواسیر کی خاطر
رہتی ہے جو نبض بت عیار میں گرمی 

ہگ دیتے ہیں سن سن کے زمانے کے جکت رنگ
کرتا ہوں زنانوں سے جو بازار میں گرمی 

گوز اک کے آزار سے برسوں ہی ہگی ہینگ
کیا قہر کی تھی مقعد اغیار میں گرمی 

تو اچھلے گا اس درجہ کہ اٹھ جاؤ گے جل کر
کرتے ہو بہت بیٹھ کے دوچار میں گرمی

چرکیںؔ نہ جلی پھسکیاں میخانے میں مارو
چڑھ جائے گی مغز بت میخوار میں گرمی
***
146
منشی کچھ نہیںیہ نسخۂ معجون عنبر ہے 
دہی اپلے ملاکر شیخ جی کھالو تو بہتر ہے 

نہ کیونکر پادنے میں غیر حلقے گانڑ سے چھوڑے 
نہیں گانڑ اس کی آتش بازی کی گویا چھچھوندر ہے 

سڑی شبیہہ ہے کیا بوئے زلف یار سے دوں میں 
جسے کہتے ہیں سب عنبر حقیقت میں وہ گوبر ہے 

بدی میری نہ کر تو دوست سے دشمن سمجھ جی میں 
برا کہنا کسی کو اور گو کھانا برابر ہے 

رقیب مبتذل کی کھیلتی ہے گانڑ گنجیفہ
یہاں پچیسی آکر کھیلتا جب ہم سے دلبر ہے 

پلاکر میگنی خرگوش کی حقے میں اے رندو
پداؤ شیخ افیونی کو وہ گیدی بڑا خر ہے 

وہ بازی شہ کی سڑجاتی ہے چرکیںؔ کے نصیبوں سے 
جو بازی بوسہ بازی کھیلتا جاناں سے چوسر ہے 
***
147
بیت الخلائے یار ہے روز سعید ہے 
نظارۂ جمال ہے چرکیںؔ کو عید ہے 

دستوں پہ دست آتے ہیں بچھتے ہیں پوتڑے
اس حال میں نہ آؤ یہ تم سے بعید ہے 

دشمن کی گفتگو پہ عمل کیجئے نہ آپ 
جھوٹا ہے مفتری ہے وہ کونی پلید ہے 

پھولے نہیں سماتے ہیں گلچیں و باغباں
آئی بہار کھاد کی ہوتی خرید ہے 

دیکھا جو ماہ نو کو فلک پر تو یہ کھلا 
بیت الخلا کے قفل کی اس کے کلید ہے 

غیر نجس نہ آتش فرقت سے کیوں جلے 
کچھ اس میں شک نہںی ہے کہ ناری یزید ہے 

دیتا ہے گالیاں کبھی کہتا ہے گو نہ کھا 
اک بوسہ مانگنے پہ یہ گفت و شنید ہے 

سوجی ہیں آنکھیں رو رو کے سفرے کے عشق میں 
گو کا ضماد ایسے ورم کو مفید ہے 

آمد ہے خون حیض کی بنتی ہیں گدیاں
گودڑ کی لعل سے بھی زیادہ خرید ہے 

بیراگی اس کی پنجہ ہے کشتی ہے ٹوکرا
چرکینؔ گوگا پیر کے گھر کا مرید ہے 
***
148
صاحب کی بے_وفائی سے خطرہ نہیں مجھے
تم پھر گئے تو پھر گئے پروا نہیں مجھے 

ہاتھوں سے بے_زری کے ہواہوں یہ تنگ دست
اب قوت لا یموت بھی ملتا نہیں مجھے 

ناصح یہ گفتگو تری بیجا ہے گو نہ کھا 
اڑ پاد یاں سے دور ہو بھڑکا نہیں مجھے 

آلودہ ہوں نجاست دنیا میں رات دن 
کیا قہر ہے کہ خطرۂ عقبیٰ نہیں مجھے 

کڑوی لگے نہ آپ کو کیوں ترش گفتگو
مرغوب میٹھی بات ہے صفر انہیں مجھے

لوطی ہوں بچہ باز ہوں مقعد سے کام ہے 
او بحر حسن خواہش دریا نہیں مجھے 

دل دے کے اس پری کو جو گو تھا پتا پھروں
چرکیںؔ تمہاری طرح سے سودا نہیں مجھے 
***
149
جائے آرام ہے چرکیںؔ تو ہیں تھوڑی سی 
کسی کھڈی میں جو مل جائے زمیں تھوڑی سی 

جوہری کہتے ہیں دیکھ اس کے لب لعلیں کو
ہینگ بگوائے گا ہم کو یہ نگیں تھوڑی سی 

گو میں نہلائیے غیروں ہی کو غصہ ہو کے 
ہے بہت اپنے لیے چین جبیں تھوڑی سی 

روک کر گھوڑے کو اس نے مری تربت پ کہا 
لید کرنی ہو تو کرلے تو یہیں تھوڑی سی 

ہاتھ لگ جائے تو پارے کی طرح سے ماریں
ہم کو دے ڈالے اگر کوئی حسیں تھوڑی سی 

قبض ابنائے زمانہ کو ہواہے یاں تک
گھس لگانے کو کہیں کھاد نہیں تھوڑی سی 

کبھی چوموں کبھی چاٹوں کبھی آنکھوں سے لگاؤں
صاف سی گانڑ جو مل جائے کہیں تھوڑی سی 

پھسکیاں مارئیے ایسی کہ سڑا دیجے دماغ
دے جگہ ہم کو جو وہ اپنے قریں تھوڑی سی 

کوئی دم مجھ سے بد اختر کی بھی لینڈی تر ہو 
مہربانی کرے وہ ماہ جبیں تھوڑی سی 

اچھلے کس طرح نہ گو زیر فلک اے چرکیںؔ 
ہگنے والے ہیں بہت اور زمیں تھوڑی سی
***
150
صحت جاں سے تری تن میں مرے جاں آئی 
گوز سے بوئے گل و سنبل و ریحاں آئی

قبر پر آ کے بھی اس بت نے ہوتا افسوس
کام کچھ اپنے نہ مرگ شب ہجراں آئی 

نا گوارا ہوئی گلگشت چمن کی تکلیف
سر پھرانے تجھے اے سرد خراماں آئی 

گانڑ کی راہ گئی قبض سے جاں شیخ کی پر 
لینڈی سفرے سے نہ باہر کسی عنواں آئی 

نظر آنے لگا سنبل ہمیں پادا پونی 
یاد گلشن میں جو وہ زلف پریشاں آئی 

مارے دہشت کے نکل جائے گا دم گانڑ کی راہ 
تو مرے سامنے گر اے شب ہجراں آئی 

گو اچھالے گا سڑی ہوگا چنے گا تنکے 
وہ پری گھر میں جو چرکینؔ کے مہماں آئی 
***
151
جس نے بو سونگھی کبھی اس کے گل رخسار کی 
پاد کی بو اس کے آگے بو ہے پھر گلزرا کی 

میرے آگے چل نہ اے کبک دری بس گو نہ کھا 
یاں کبھی ہے دل میں چال اک سرو خوش رفتار کی 

وصل کا کرتا ہے وعدہ مجھ سے جب وہ بحر حسن 
گانڑ پھٹ کر حوض ہوجاتی ہے تب اغیار کی 

کیا کہوں کیسی شراب عشق ہے ساقی کڑی 
جس کو پیتے گانڑ پھٹتی ہے ہر اک میخوار کی 

خرمن گل باغ میں کہتا ہے جس کو باغباں
لید اس کو جانتا ہوں میں سمند یار کی 

عشق میں سفرے کے مرتا ہے ترے چل اس کو دیکھ 
ہگتے ہگتے غیر حالت ہے ترے بیمار کی 

موتتے اس قاتلہ کو دیکھ کر میں مرگیا 
موت کی بھی دھار گویا دھار تھی تلوار کی 

بزم رنداں میں جو آئے شیخ پھاڑیں اس کی گانڑ
دھجیاں میکش اڑائیں جبہ و دستار کی 

باغ گھورا سا نظر آتا ہے اس کی آنکھ میں 
سیر جو کرتا ہے اے چرکینؔ کوئے یار کی 
***
152
مال و دولت نے مجھے کشور ستانی چاہئے 
پائخانے کی صنم کے پاسبانی چاہئے 

حیض کے خوں سیہے بدتر یہ فراق یار میں 
کس کو اب ساقی شراب ارغوانی چاہئے 

چل مئے مقعد کم ہو حرمل و خرمل کا دور
شیخ جی کو گانڑ مستوں سے مرانی چاہئے 

دیکھے استادہ جو لینڈی تیری اے بالا بلند
خاک میں مل جائے سرو بوستانی چاہئے 

گانڑ ملنے میں چرانا عاشق دل خستہ سے 
یہ نہیں تجھ کو مرے محبوب جانی چاہئے 

گر یہی رفع حدث ہے شیخ جی تو ایک دن 
گوز کے صدمے سے پھٹ جائے میانی چاہئے 

صحبت ہم جنس باہم جنس ہوتی ہے برآر
تم کو معشوقہ بھی چرکیںؔ مہترانی چاہئے 
***
153
شوق گلگشت کا چرکینؔ کو جس دم ہوجائے 
گل ہر اک باغ میں رشک گل آدم ہوجائے 

جاکے گھورے پہ کریں گو کے جو مضموں موزوں 
اپنی ہر بیت میں پاخانے کا عالم ہوجائے 

بے بہا اس میں جڑے جاتے ہیں نگ سدوں کے 
شیخ کی گانڑ نہ کیوں غیر خاتم ہوجائے 

اور بھی اس کو پڑے گا گانڑ کلیجے جھگڑا 
جس سے خلطہ تجھے اے قاتل عالم ہوجائے 

دیکھ لے اس گل خوبی کی جو پیشاب کی بوند 
پانی پانی ہو گہر قطرۂ شبنم ہوجائے 

چوڑیاں کانچ کی ہاتھوں میں پہنتا ہے وہ شوخ 
پھبتی نیچے کی نہ نیچے پہ مسلم ہوجائے 

نام اگر چاہے تو مل جھک کے ہر اک سے چرکیںؔ 
قدم خم گشتہ ترا حلقۂ خاتم ہو جائے 
***
154
پیا ہے موت جو چرکیںؔ شراب کے بدلے
گڑک بھی لینڈیوں کی کھا کباب کے بدلے 

ہر بسہ نکلے گا اس مہ کی دیگ فشری کا 
طبق ہو مہر کا غوری کے قاب کے بدلے 

ہمیشہ شیخ سے یہ گفتگو ہے رندوں کی 
لگاؤ داڑھی میں نورا خضاب کے بدلے 

ہگے ہی دیتے ہیں عشاق مارے خطرے کے 
نظر جب آتے ہیں تیور جناب کے بدلے 

رہے گا موج پر گریوں ہی موت کا دریا 
ترے گی کشتی گردوں حباب کے بدلے 

رہیں گے یوں ہی گراں مغ بچوں کے گنڑ غمزے 
پویں گا گھونٹ کے سبزی شراب کے بدلے 

مریض عشق کا خط پڑھ کے اس نے اے چرکیںؔ 
جواب نامہ لکھا ہے جواب کے بدلے 
***
155
قول ہیں دام محبت کے گرفتاروں کے 
گانڑ پھٹ جائے جو غمزے سہے دلداروں کے 

ہجر میں نرگس بیمار کے آنکھوں میں مری 
غنچۂ گل نہیں قارورے ہیں بیماروں کے 

سر بازار چرا گانڑ کھسک جاتے ہیں 
سور چڑھتے نہیں منہ پر تری تلواروں کے 

ترے عشقا کو دکھلاتے ہیں عریاں تجھ کو
کیا ہیں روزن ترے پاخانے کی دیواروں کے 

اس قدر خطرۂ سیاد سے ہگ ہگ مارا 
گو سے لتھڑے ہیں قفس سارے گرفتاروں کے 

بلبلیں جمع ہیں گلزار سمجھ کر اس کو 
پھول گھورے پہ پڑیہیں جو ترے ہاروں کے 

جب سے رشک گل لالہ ترا سفرا دیکھا 
داغ دل ہوتا ہے نظارے سے گلزاروں کے 

شربت ورد جو پی کر وہ ہگیں پائیں شفا 
جو ہیں بیمار ترے پھول سے رخساروں کے 

شہر میں پھر نے سے چرکینؔ کے یہ خطرہ ہے 
گو سے پٹ جائیں نہ رستے کہیں بازاروں کے 
***
156
عجب تماشا ہو چرکینؔ بہار کے بدلے 
جو پھسکی شیخ جی چھوڑیں انار کے بدلے 

چمن میں گل کی جگہ پر پرے ہیں گو کے ڈھیر
دکھائی دیتے ہیں کوئے ہزار کے بدلے 

پڑا ہے گو میں وہ لت پت کسی نے اے گلرو
نہ پوتڑے بھی ترے غمگسار کے بدلے 

بڑھادو شوق سے پشموں کو شیخ جی صاحب
منڈاؤ داڑھی کو موئے مہار کے بدلے 

ہماری ہگنے میں نکلی ہے جان گانڑ کی راہ 
ضرور کھڈی میں رکھنا مزار کے بدلے 

کہے گی دیکھ کے کیا خلق شیخ جی صاحب
گلے میں جوتیاں پہنو نہ ہار کے بدلے 

اٹھاتے منہ سے ہو ناحق نقاب ہٹ کے سڑو
دکھاؤگو بھرا سفرا عذار کے بدلے 

کرے گا سامنا کیا پادنے میں شیخ اپنا 
جو شرط چاہے تو وہ ہاتھ مار کے بدلے 

جو ہم امیروں کی ڈیوڑھی پہ جاتے ہیں چرکیںؔ 
خواص روکتے ہیں چوبدار کے بدلے 
***
157
نجس کون سا وارد لکھنؤ ہے 
جدھر دیکھتا ہوں ادھر گو ہی گو ہے 

پھٹی شیخ کی ڈر سے رندوں کے ایسی
نہ ٹانکوں کا موقع نہ جائے رفو ہے 

ہزاروں ہیں مہتر پسر تک پری رو
پرستاں جسے کہتے ہیں لکھنؤ ہے 

ترے ہجر میں مجھ کو اے سرو رعنا 
بدر رو سے بدتر ہر اک آب جو ہے 

گیا ٹوٹ اک گوز میں شیخ صاحب
عجب پادا پونی تمہارا وضو ہے 

نہ کیوں کر ہو آپس میں پھر گوہا چھی چھی 
میں نازک مزاج اور وہ تند خو ہے 

عجب کیا جو پیچش ہو موئے کمر میں 
وہ مرغولہ رفتار و مرغولہ مو ہے 

محبت کہاں ہے عزیزوں میں چرکیںؔ 
منی سے سفید ان سبھوں کا لہو ہے 
***
158
آئی بہار چھوٹے چمن بوم و زاغ سے 
وہ بھی ہوں دن خزاں کہیں اڑپادے باغ سے 

روشن کیا ہے بزم میں یہ کس پدوڑے نے 
آتی ہے بوئے گوز جو دود چراغ سے 

کیا غنچہ ہو کے بلبلیں بیٹھیں گلوں کے پاس 
ہگنے کو باغباں کبھی نکلا جو باغ سے 

جراح کا یقین ہے سڑجائے گا دماغ
پھاہا اگر اٹھا مرے سینے کے داغ

شرم و حیا کو چھوڑئے گھر اپنا جانئے 

ہگ لیجے بندہ خانے میں صاحب فراغ سے 

کیا غیر تیرہ زو سے چھٹے جھوٹ بولنا 
خصلت نہ گو کے کھانے کیچھوٹے گی زاغ سے 

نمرود سا رقیب میں چرکیںؔ غرور تھا 
دو جوتیوں میں جھڑ گیا بھیجا دماغ سے 
***
159
مجھ کو اب اس حال میں کیا سیر گلشن چاہئے 
میں ہوں چرکیںؔ میرا اک گھورے پہ مسکن چاہئے 

قبض سے دھوبی کے سفرے میں یہ لینڈی اٹکی ہے 
کہتا پھرتا ہے مجھے شافے کو صابن چاہئے 

میں پدوڑا ہوں مری ہے صحت جاں پادنا 
ہائے صاحب آپ کو اتنا نہ قدغن چاہئے 

ہگتے ہگتے اس پری نے مجھ کو دیوانہ کیا 
گو بھرے دامن سے اب صحرا کا دامن چاہئے 

پیٹ سے نکلے نہ کیونکر گانڑ کی ہے راہ تنگ
یہ وہ سدے ہیں کشادہ جن کو روزن چاہئے 

ڈھیر اندھیری رات میں کر رکھتا ہوں میں لینڈیاں
مہتروں میں نام میرا ہووے روشن چاہئے 

میرے اس بت کی سنی ہگنے میں یہ غمزہ گری 
شیخ پادے چوں سے ہگ دیوے برہمن چاہیے 

گر یہی شدت رہی دستوں کی ہجر یار میں 
موت سا بہہ جائے سارا رنگ و روغن چاہئے 

گو اٹھاتے ہی اٹھاتے موت آنی ہے مجھے 
پائخانے میں مرا چرکینؔ مدفن چاہئے 
***
160
ہووے اے چرکیںؔ اگر بارش مرے پیشاب سے 
مہتروں کی مٹیاں بہتی پھریں سیلاب سے 

گانڑ کھولے سوتے ہیں وہ خاک پر زیر زمیں
پوتڑے سلتے تھے جن کے قاقم و سنجاب سے 

کانچ ہگتے میں جو اس گل کی نظر آئی مجھے 
میں نے جاناں ہے بھرا شیشہ شراب ناب سے 

دیکھے ہگتے گر اسے پاخانے میں پیر فلک 
گانڑ پوچھے پنجۂ خورشید عالم تاب سے 

ہگتے میں بھی ہے جو آرائش اسے مد نظر
چوکی منڈھوائی ہے اس نے چادر مہتاب سے 

خوش دماغی کا کروں اس گل کی کیا تحریر وصف
گانڑ بھی ہگ کر نہیں دھوتا گلاب ناب سے 

ناتوانی نے کیا چرکیںؔ مجھے مور ضعیف
موت کا ریلا بھی مجھ کو کم نہیں سیلاب سے
***

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *