بدھ، 30 ستمبر، 2015

سریندر پرکاش (خصوصی گوشہ)/نقاط۔9


سریندر پرکاش کے افسانے/شمس الرحمن فاروقی

اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کردیا
اس مصرع کو دو طرح پڑھا جاسکتاہے۔ایک تو اس معنی میں کہ ’’بس اتنی سی بات تھی جسے بڑھا چڑھا کر افسانہ بنا ڈالا‘‘ اور ایک انبساط واستعجاب کے لہجے میں کہ ’’صرف اتنی سی بات کو اس طرح کہا کہ افسانہ بن گئی‘‘ پہلا رویہ نئے افسانے کے بہت سے قاریوں کا ہے، اور دوسرا نئے افسانہ نگار کا۔اگرچہ آج کل نئے پرانے کی بحث شعر کے میدان میں زیادہ ہو رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ نئے افسانے کا ناتیار قاری خود کو اس دنیا میں مبہوت اور چکراتا ہوا دیکھتا ہے،اور شعر کا قاری اس کیفیت سے اگرچہ دوچار ہوتا ہے، لیکن اس شدت سے نہیں ۔ کچھ دن ہوئے’’صاف‘‘ اور’’سلیس‘‘ افسانے کے ایک نقاد نے ایک نئے افسانے کے بارے میں لکھاتھا کہ اگر اس کا سر بہ مہر حل ایڈیٹر رسالہ ہذا کے دفتر میں محفوظ ہوتا اور قارئین حسبِ توفیق افسانے کے حل بھیجتے اور انہیں مقررہ تاریخ پر سرکاری حل سے ملایا جاتا اور نتیجے کا اعلان کیا جاتا تو بہت خوب ہوتا۔ مجھے اس بات سے بحث نہیں کہ وہ افسانہ اچھا تھا یا بُرا،بنیادی نقطہ یہ ہے کہ نقاد کو ایسی تجویز پیش کرنے کی ضرورت ہوئی۔ یہ ضرورت اس ذہنی کیفیت کی نشان دہی کرتی ہے کہ جس کا میں نے اُوپر ذکر کیا ہے۔ نئے افسانے کے مقابلے میں نئی شاعری پر اس وقت جو مفصل بحث ہو رہی ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہمارے یہاں نئے افسانہ کے اچھے نمائندے، اچھے نئے شاعروں کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔
نیا افسانہ نئی شاعری کے مقابلے میں زیادہ حیران کن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تنقید کرتے وقت ہم اکثر وبیشتر یہ بات نظر انداز کردیتے ہیں کہ ادب حکیمانہ یا سائنسی تعمق اور موشگافی کا نام نہیں ہے،بلکہ انسانی تجربات کو الفاظ کا لباس پہنانے کا نام ہے۔پھر بھی،ادب کی مقصدیت اور سماجی اور فلسفیانہ معنویت کے نظریوں کے قائل ہونے کے باوجود، شعر پڑھتے اور شعر پسند کرتے وقت اکثر لوگ اس خارجی نظریئے کو غیر شعوری طور پر ترک کردیتے ہیں۔ مثلاً

مرگ مجنوں پہ عقل گم ہے میر
کیا دوانے نے موت پائی ہے
میر

کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد
غالب

میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ مرے گہر کی آبرو
میں ہوں خذف تو تو مجھے گوہر شاہ دار کر
اقبال

دور دروازہ کھلا کوئی کوئی بند ہوا
دور اترا کسی تالے میں خنجر
(فیض)
یہ اشعار بہتریں شاعری کا نمونہ ہیں،لیکن ان میں کوئی غیر معمولی کیا، معمولی فلسفیانہ یا حکیمانہ مظروف نہیں ہے۔فلسفیانہ یا حکیمانہ تو جانے دیجئے، ان شعروں میں بات ہی کیا کہی گئی ہے؟
میر: اے میر مجنوں کی موت پر عقل گُم ہے، دیوانے نے کیا موت پائی ہے!
ہم سوال کرسکتے ہیں کہ بات کیا ہُوئی؟لیکن پھر بھی شعراء انتہائی خوبصورت اور شدید تاثر کا حامل ہے۔یہی حال اور اشعار کا بھی ہے۔ لہٰذا حقیقت یہ ہے کہ شعر میں کوئی اس قسم کا مغز نہیں ہوتا جسے مجرد فلسفیانہ یا عقلی حیثیت سے کسی بہت بڑی قیمت کا حامل کہا جائے۔ عام طور پر شعر میں کہی ہوئی بات، شعر سے الگ کر لی جائے توکم حقیقت معلوم ہونے لگتی ہے۔
یہی حال افسانے کا بھی ہے۔شعر اورافسانہ دونوں زبان کے خلاقانہ اور صنعت گرانہ استعمال کا نام ہیں ۔لیکن جس حقیقت کو ہم شعر پڑھتے وقت غیر شعوری طور پر نظر انداز کر دیتے ہیں، وہی ہمیں افسانے میں باربار تنگ کرتی ہے۔پریم چند کے افسانوں کا موضوع یا مظروف کسان کی بدحالی یا نچلے متوسط طبقے کی ستم کُشی ہے۔ منٹو کے افسانوں کا مظروف جنس ہے۔عصمت کے افسانوں کا مظروف متوسط طبقے کی لڑکیوں کی کچلی ہوئی جنسیت ہے۔سریندر پرکاش کے افسانوں کا موضوع یا مظروف کیا ہے؟ یہ سوال ہمارے سامنے پہاڑ کی طرح کھڑا ہو جاتاہے۔ہم افسانے کو کوئی برتن سمجھتے ہیں اور اس کی کہانی یا واقعہ کو کوئی مظروف ، جسے برتن میں رکھ دیا گیا ہے۔لیکن اگر شعر کا کوئی مظروف نہیں ہوتا تو افسانے کاکیا کیوں ہو؟ جب آپ شعر میں کہی ہُوئی بات کو شعر سے الگ کر کے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ کوہ قاف کے طلائی زیورات کی طرح مٹی معلوم ہونے لگتا ہے تو افسانے کے ساتھ یہی عمل کیوں نہ رونما ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ عمل رونما ہوتا ہے، لیکن ہم نظریاتی ضدی پن کی وجہ سے کوہ قاف کے سونے کو بھی اصلی سونا سمجھنے پر مصررہتے ہیں ۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شاعر یا افسانہ نگار کچھ کہنا نہیں چاہتا، یا اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔اس کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ شاعر یا افسانہ نگاراپنی بات کو محدود یا مدلل یا منطقی نہ رکھ کر اسے نسبتہً کم محدود، کم مدلل لیکن زیادہ وجدانی، کم منطقی لیکن زیادہ مابعد الطبیعاتی رکھنا چاہتا ہے۔سریندر پرکاش کے پاس بھی کہنے کو اسی طرح کی باتیں ہیں جیسی عصمت منٹو کرشن چندر یا پریم چند کے پاس تھیں۔ہر افسانہ نگار اپنے تجربات ہی سے آغاز کرتا ہے، اور ہر انسا ن کے تجربات میں کم سے کم اس قدر مماثلت تو ہوتی ہی ہے جتنی دو انسانوں میں ہوتی ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ سریندر پرکاش اپنے تجربات کے اصلی خام مال سے نزدیک تر رہنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ تجربہ اپنی پُوری بھیانک عریانی اور مہیب حسن اور سحر انگیزتازگی کے ساتھ سامنے آسکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سریندر پرکاش کا افسانہ اپنے پیش روؤں کی نفی نہیں کرتا، اور نہ پُرانی روایت کی اصلیت سے انکار کرتا ہے۔تجربہ کو محدود، مدلل اور منطقی کر کے بھی بہت اچھا افسانہ بن سکتاہے۔ لیکن بنیادی حقیقت یہ ہے کہ پریم چند کے افسانوں کی قدروقیمت اس وجہ سے نہیں ہے کہ ان میں نچلے طبقے کی زبوں حالی اور کم نصیبی کا ذکر ہے۔ بلکہ اس وجہ سے کہ پریم چند نے اپنے تجربات کو دوسروں کی بہ نسبت زیادہ ہنرمندی اور شدید تر خلاقانہ قوت کے ساتھ دوبارہ خلق کیا۔ ورنہ غریبوں کی ہم دردی میں سینکڑوں اور لوگوں نے بھی افسانے لکھے ہیں ۔ اور غریبوں کی ہم دردی کوئی ایسا گہرا موضوع نہیں ہے جو فی نفسہ کسی ادب پارے کو وقعت وعظمت بخش دے۔
سریندر پرکاش اور پریم چند کے درمیان دو طرح کے فاصلے ہیں۔ایک تو ذہنی فاصلہ ، اور دوسرا تکنیکی، ذہنی فاصلہ اس قدر تحیر واستعجاب کا سبب نہیں بن سکتا جس قدر تکنیکی فاصلہ اکثربن جاتا ہے۔ میر اور غالب کے ذہن ایک دوسرے سے خاصے دُور ہیں ، لیکن تکنیکی مماثلت کی وجہ سے میر اور غالب بادی النظر میں ایک دوسرے سے بہت زیادہ متغائر نہیں نظر آتے۔ جب فن پارہ خلق کرنے یا اس کو بنانے کا ڈھنگ بھی مختلف ہو اور ذہن بھی،تو ایک عجیب وغریب نفسیاتی فصل کا احساس ہوتا ہے اور بہت سے قاری اس فصل کی خلیج کو آسانی سے نہیں پاٹ پاتے۔لوکاچ جیسے ماہر نقاد نے ایک بار اسپنڈر سے دورانِ گفتگو کہا کہ ممکن ہے کہ جوائس، پردست، کافکا وغیرہ بہت بڑے ناول نگار ہوں لیکن میں انہیں خوشی سے نہیں پڑھ پاتا۔ سینٹ آگسٹائن نے بڑی اچھی بات کہی تھی!’’میں اعتقاد رکھتا ہوں،تاکہ سمجھ سکوں‘‘ ۔ نکتہ یہ ہے کہ اعتقاد یا یقین اولین شرط ہے،فہم یا ابلاغ کی سطح اسی وقت بلند ہوتی ہے جب یہ یقین ہو کہ کچھ ہے جو فہم کے قابل ہے اور جس کی ترسیل کیلئے افسانہ نگار نے کچھ جتن کئے ہیں۔ لوکاچ اسی مثبت یقین کی کمی کا ماراہوا ہونے کیوجہ سے جوائس کو سمجھنے کی اولین منزل تک نہیں پہنچ پایا۔ اگر آپ نئے افسانے کو پہلے ہی سے گردن زدنی فرض کئے ہُوئے ہیں تو آپ کی قلبِ ماہیئت میری تحریروں کے وسیلہ سے شاید ہی ہو سکے گی۔ لیکن اگر آپ ان افسانوں کو یہ سمجھ کر پڑھیں گے کہ ان کی تخلیق کرنے والے کا ذہن اور تکنیک دونوں اپنے پیش روؤں سے مختلف ہیں تو ان کی صنعت گری آپ پرکھل جائے گی۔
سریندر پرکاش کی تکنیک پریم چندیا عصمت یا بیدی سے کس طرح مختلف ہے؟ سب سے پہلا فرق تو وہی ہے جو تمام منطقی اور وجدانی ادب کا مابہ الامتیاز ہے: ان افسانوں میں کہانی آگے نہیں بڑھتی، بلکہ نمو کرتی ہے۔یعنی یہ افسانے تعمیر کئے ہُوئے نہیں ہیں، بلکہ کسی پودے کی طرح بالیدہ ہیں۔ ان میں غالب کے مصرعے کی طرح لباس نظم میں بالیدن مضمون حالی ہے کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ افسانے زمان میں نہیں بڑھتے پھیلتے بلکہ مکان میں بڑھتے پھیلتے ہیں۔ان کے واقعات میں زمانی تسلسل اورنقطۂِ آغاز و اختتام نہیں ہے۔یہ کوئی بنابنایا قصہ نہیں کہتے، بلکہ ان کے قصے کی حرکت گھڑی کے پنڈولم کی طرح آگے اور پیچھے دونوں طرف اس قدر برابر مقدار میں ہے کہ یہ ٹھہرے ہُوئے معلوم ہوتے ہیں۔ یہ افسانے محض بے پلاٹ کے نہیں ہیں، اگر پلاٹ نہ ہو، لیکن کردار زمان میں حرکت کرتا رہے تو بھی افسانے کو ایک داخلی ربط میسر ہو جاتاہے۔ان کہانیوں کے کردار بھی کسی نقطۂِ وقت پر ٹھہرے ہوئے اور اس میں گرفتار ہیں۔ اگر وہ حرکت بھی کرتے ہیں تو اپنے اپنے ذہنوں کی خلاؤں میں۔ اس طرح کی کہانیوں میں ایک انوکھی بے بدنی ( s Bodylessnes) پائی جاتی ہے جو بیک وقت مضطرب بھی کرتی ہے اور متحیر بھی ۔۔۔ممکن ہے۔کہ یہ تمام افسانے بحیثیت مجموعی عہد حاضر کے پرچھائیں نما انسان کی تمثیل ہوں ۔ یاممکن ہے کہ ان کے کرداروں کاپرچھائیں پن ذہن انسان کی گہرائیوں میں باہم نبردآزما ان گنت جبلتوں، نیم شعوری اور تحت الشعوری آگاہیوں اور پیچیدگیوں کو احاطہ کرنے کا ایک ذریعہ ہو۔ بہرصورت ان کہانیوں میں ایک تقریباً ناقابلِ برداشت خلانظر آتا ہے۔اس خلاء میں پلاٹ کے جزیرے نہ ڈھونڈیئے ، بلکہ سایہ نما ستاروں کے جھُرمٹوں کی طرح کرداروں کو نیم تاریکی میں ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے دیکھیے تو ان کہانیوں کی معنویت نظرآئیگی۔بے بدنی اور سایہ آساحرکت کی اس فضا کو ان تمثیلوں کے ذریعے بھی سمجھا جاسکتا ہے جو ان افسانوں میں استعمال ہُوئی ہیں۔ یہ تمثیلیں اساطیری ، ذاتی یا مذہبی نہیں ہیں، بلکہ خواب کی دنیا سے مستعار لی گئی ہیں۔خواب میں لاتعداد صورتیں بنتی بگڑتی رہتی ہیں اور ان گنت مادی اشیاء ہر طرح کے غیر متوقع روپ دھارتی رہتی ہیں لیکن خواب دیکھنے والے کو حیرت نہیں ہوتی (خوف شاید محسوس ہوتا ہو) ۔ یہ تمام شکلیں اپنی لاشعوری یا تحت الشعوری اصل بھی رکھتی ہیں۔ Dream Symbolism کا بنیادی عنصر اس کی واقعیت ہے جو انتہائی غیر واقعی شکلوں میں نمودار ہوتی ہیں ۔ ہم خواب میں گھڑیوں کو گانا گاتے، درختوں کو چلتے پھرتے ، کرسی میز کو رقص کرتے دیکھتے ہیں اورخود کو اس حیرت کدہ میں اجنبی پاتے ہُوئے بھی ان کی واقفیت پر شبہ نہیں کرتے۔ سریندر پرکاش نے خواب کی تمثیلوں کو صرف مشینی طور پر نہیں اپنایاہے۔ بلکہ انہوں نے ان افسانوں کے ذریعے شعور واحساس کی اس نیم بیدار منزل کو گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے جہاں تجربہ سُپر ایگو کے قیود وبند میں محبوس نہیں ہوتا، بلکہ آزاد تلازمۂ خیال کے سہارے نت نئی شکلیں بناتاہے۔




تعارف وانتخاب:زاہد امروز


محبت کی گلیوں کانَے نواز داستان گو:سریندر پرکاش


کسی افسانے کو پڑھتے ہوئے ہم عموماً پلاٹ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب پلاٹ سمجھ میں آجاتا ہے تو کہانی اپنے کرداروں سمیت کھل جاتی ہے۔واقعہ اپنی زمانی و مکانی بُنت میں اَن کہی باتوں کی اشاریت لیے قاری پر عیاں ہوجاتا ہے اور بات سمجھ میں آجاتی ہے مگر بعض اوقات ہم شدید مشکل کا شکار ہوجاتے ہیں جب افسانہ پہلی یا دوسری قرات کے بعد بھی گرفت میں نہیں آتا۔عموماً ایسی کہانی یا افسانے میں ابہام کا گمان ہونے لگتا ہے اور ہم سوچنے لگتے ہیں کہ کہانی خود لکھاری کیگرفت سے نکل گئی ہے اور لکھاری فنّی کمزوری یا جلد بازی کے باعث اسے مکمل سانچے میں متشکل نہیں کرپایا۔
سریندر پرکاش کے افسانے پڑھتے ہوئے یہ گمان ہمیں باربار گزرتا ہے۔آخر کیا وجہ ہے افسانہ ہر دوسرے قدم پر نیا موڑ لے لیتا ہے۔ہم کہانی کی میکانیات سمجھنے کے قریب پہنچتے ہیں کہ کوئی انجان کردار آدھمکتا ہے اور ہم اُلجھ کر کسی نئی تفہیم کا سوچنے لگتے ہیں۔کیا یہ مصنف کا نُقص ہے یا فنی ابہام؟ آخر اس کردار کی کیا ضرورت تھی؟یہ بات یہاں کس مناسبت سے کی گئی ہے؟ اس نوعیت کے سوال فوراً ذہن میں اُبھرنے لگتے ہیں۔علامتی افسانہ اسی طرز کی اُلجھنوں سے دوچار ہے۔نظم ہو یا نثر قاری کو متن سے معنی اخذ کرنے کے لیے مروجہ سانچوں سے باہر آکر نئی شعریات میں غوطہ زَن ہونا پڑتا ہے۔سریندر پرکاش کے افسانوں کے ساتھ بھی اسی نوعیت کے مسائل وابستہ ہیں۔سریندر جدید علامتی افسانہ نگاری کا ایک اہم نام ہے۔اُس کا فن جس گہرے مطالعہ اور توجہ کا متقاضی ہے وہ اُسے ابھی تک نہیں مل سکا۔سریندر کے ساتھ اور بھی اہم علامتی افسانہ نگار موجود تھے جن میں نمایاں نام انور سجاد،بلراج مینرا،شامل ہیں۔اپنے ہم عصروں سے سریندر کئی اعتبار سے مختلف ہے۔اُس کے موضوعات،تکنیک اور اسلوب کو سمجھنے کے لیے ہمیں اُس کی علامتوں کو غیر روایتی زاویہ نگاہ سے دیکھنا ہوگا۔سریندر کے جن افسانوں کا یہاں انتخاب کیا گیا ہے،ہم انھیں سامنے رکھ کر اُس کے فن کے چند پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میرے خیال میں سریندر کا افسانہ اپنا پلاٹ کسی واقعے یا ایک کردار کے گرد نہیں بناتا بلکہ یہ افسانے کا سماجی یا سیاسی ہیولا ہوتا ہے جس کے جھکڑ میں کہانی خود بہ خود اُڑتی جاتی ہے اور کردار ،واقعات ضرورت کے مطابق اپنا وجود اس ہیولے سے منسلک کرتے جاتے ہیں۔کیفیت ، منظر یا احساس کرداروں کے ذریعے اُبھر کر سامنے آجاتے ہیں۔یوں افسانہ اپنے بہایو میں نظم کی سی شکل اپنا لیتا ہے اور دورانِ مطالعہ قاری کو یہ دشواری درپیش رہتی ہے کہ علامت کی تفہیم نہیں ہو پاتی اور بعض جگہوں پر افسانہ اچانک کسی اجنبی سمت جست بھرتا ہے اور قاری اُس کا تعاقب نہ کر سکنے پر حیران بھی ہوتا ہے اور کبھی کبھی جھنجھلانے لگتا ہے کہ ابھی تو یہ یہاں تھا،اچانک وہاں کیسے چلا گیا۔افسانہ اپنے تخلیقی مزاج میں پلاٹ یا کرداروں میں مجسم نہیں ہوتا بلکہ خیال کے تابع آگے بڑھتا ہے اورتمام ضروریات کو اسی مرکزی خیال کے تابع پورا کرتا چلا جاتا ہے۔یہ افسانے کا بالکل اجنبی اور غیر روایتی رنگ ہے۔اگرچہ ان پر مبہم ہونے کا گماں ہوتا ہے اور بہت سی جگہیں اپنا جواز مہیا کیے بغیر آگے بڑھ جاتی ہیں مثلاً’’جمغوزہ الفریم‘‘میں جو بے شکل آدمی سائیکل پر آتا ہے اور فوارے کے پاس آکرجہاں ایک بے چین کتّیا بیٹھی رہتی ہے،اس کے سائیکل کی چین اُتر جاتی ہے۔کہانی اپنی تفہیم کروا دیتی ہے اگر چین اُترنے کا عمل نفی کردیا جائے مگر ممکن ہے یہ کسی اور سمت اشارہ ہو اور قاری ابھی اُسے سمجھ نہ پایا ہو یہ افسانہ تہذیبی بوسیدگی اور اجڑے ہوئے خون آلود ماضی کا نقشہ پیش کرتا ہے۔’’جمغوزہ الفریم‘‘ اگر ہمارے اس خطے کی علامت ہے اور فوارے کے پاس بیٹھی کتیا اُن لٹیرے بادشاہوں اور حکمرانوں کی علامت ہو سکتی ہے جو انسانی گوشت کے ٹکڑوں پر پلتی ہے اور گوشت نہ ملنے پر بے چین ہو کر بھونکنے لگتی ہے۔جب کمرے میں پڑی لاش اپنے جسم کا ٹکڑا اُتار کر اُس کی طرف پھینک دیتی ہے تو وہ کتیا اُسے کھاتے ہوئے چُپ ہوجاتی ہے۔یقیناً یہاں وہ لاش بے حس اور مجبور رعایا کی علامت ہے جو اپنی قابلِ ترس حالت سے باہر نکلنے کی سکت نہیں رکھتی۔نسلوں سے یہی عمل جاری ہے اور کمرے میں اچانک داخل ہونے والا چھوٹا لڑکا جس کے چہرے پر ڈاڑھی اور ذہن بالغ ہے،اُس اگلی نسل کی علامت ہے جو اُسی دائروی سفر میں خرچ ہوتی نظر آ رہی ہے مگر سائیکل پر آنے والا بے شکل شخص کون ہو سکتاہے جو دوبارہ آتا ہے اور بتاتا ہے’’یہ ماضی ہے‘‘ کیا ہم اِسے وہ دانش ور یا تاریخ دان کہہ سکتے ہیں جسے سماج قبول نہیں کرتا اور اُس کی بے چہرگی یہاں اپنا جواز مہیا کر دیتی ہے۔
اسی طرح’’برف پر مکالمہ‘‘ بھی سماجی رویّوں کا عکاس افسانہ ہے جس میں لکھاری نہایت خوبصورتی سے سوسائٹی کو ایک گاؤں کی علامت میں تصویر پیش کرتا ہے جہاں کسی شخص کے زندہ رہنے کی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے بازو کہنیوں تک کاٹ کر برف میں دبا دے۔ٹھنڈی زندگی کے جوش مارنے پر خون کا ایک قطرہ اُچھل کر باہر آ ٹپکتا ہے اور ہر طرف سُرخ سُرخ پھول کھل اُٹھتے ہیں۔سُرخ پھولوں کی یہ فصل جسے وہ بہار سمجھتے ہیں دراصل اُن کی ویرانی کا موسم ہے جو صدیوں سے اُن پر گزررہا ہے۔اُس سے بھی چھٹی لے کر گاؤں واپس آنے پر بازو کہنیوں تک کٹوانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے مگر وہ بھاگ نکلتا ہے۔گاؤں تلواروں کے ساتھ اُس کا تعاقب کرتاہے۔یہاں سریندر کہانی کو نئے موڑ سے متعارف کرواتے ہیں اور اُس کا Protagonistایک نفسیاتی سوال سے دوچار ہوتا ہے کہ واپس جا کر چھٹی ختم ہونے سے پہلے دفتر چلے جانا ندامت کا باعث ہوگا یا کٹے بازوؤں سے وقت پر جانا؟وہ بازو کٹوا کر اجتماعی محرومی اور غلامی کا حصہ نہیں بننا چاہتا مگر وہ کردار جو اُسے اسٹیشن کے راستے پر ملتاہے۔کہانی کی تفہیم نو کرنے لگتا ہے یعنی بے کراں سمندر جس میں سنہری مچھلیاں تیرتی ہیں اس سوال پر برفیلے موسم میں بدل جاتا کہ ’’پانی کہاں سے آتا ہے؟‘‘یوں معلوم ہوتا گویا انسانی اِرتقا کی کہانی ہے جو صدیوں پر محیط مسافرت کا نقشہ کھینچتی ہے اور ایک وقت آئے گا کہ زندگی اپنا دائرہ مکمل کرنے کے لیے واپس اُسی راستے پر ہولے گی اور سمندر میں ڈھل جائے گی مگر اجتماعی محرومی کے ساتھ۔۔۔اگر اِن دونوں کو جوڑ کر افسانہ نگار کا نقطۂ نظرسمجھنے کی کوشش کی جائے تو ہم یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اُس کے مطابق صدیوں کا ارتقائی عمل جو دنیا کو بے کراں سمندر سے خشک بنجر برفیلے موسم تک لے آیا ہے جس میں کوئی فصل نہیں اُگ سکتی اور ایک محرومی مسلسل ہمارے ساتھ وابستہ ہے۔دراصل تنزلی کا سفر تھا اور وہ وقت آئے گا کہ انسان واپس اپنی اصل کی طرف لوٹ جائے گا۔
’’بجوکا‘‘ میں افسانہ نگار نے زرعی پس منظر ترتیب دے کر ہندوستانی معاشرے کی بات کی ہے اور ’’بجوکا‘‘ جیسی بے جان شے جو اُس کسان نے فصل کی حفاظت کرنے کے لیے اپنے کھیت میں گاڑ رکھی ہے،متحرک ہوتی ہے اور کسان کی فصل کاٹنے لگتی ہے۔بجوکا کا جو حلیہ اور خاکہ افسانہ نگار نے کھینچا ہے،نہایت حیران کُن اور کمال فن کارانہ صلاحیت کا غمّاز ہے۔قاری اس اعلیٰ’’ تخلیقیت‘‘ پر ششدر رہ جاتا ہے۔یہاں بجوکا کا کردار خصوصاً پاکستانی معاشرے کی سوفیصد درست عکاسی کرتا ہے کہ خالی بو شرٹ جوکسی فوجی کی ہے اور سر پر ٹوپی،پتلون اور باقی تمام چیزیں جو بجوکا کی تیاری میں صرف ہوئی ہیں،انگریز نوآبادیات سے سیکھے طرزِ حکومت کو فوجی اقتدار کی شکل میں تسلسل میں رکھنا اور عوام کے حقوق کو سلب کرلینا اور قابض ہوجانا اس افسانے کا مرکزی نقطہ ہیں۔بجوکا کی اہمیت حقیقی زندگی میں ایک علامتی محافظ سے زیادہ کچھ نہیں مگر جب وہ درانتی لے کر کھیت میں فصل کاٹنے لگتا ہے ہماری سوسائٹی کا عکاس بن جاتا ہے۔سریندر کا یہ کردار اعلیٰ فن کی بلند مقامیت پر براجمان اس افسانے کو مکمل اور شاہکار بنا دیتا ہے۔شاید یہ کردار اُردو کا منفرد ترین کردار ہے۔
سریندر پرکاش اپنے معروض سے جُڑا ہُوا سیاسی بصیرت رکھنے والا گہرا تخلیق کار ہے۔جدید افسانے کی علامت نگاری کی تحریک سریندر پرکاش کی افسانوی دنیا کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔سریندر نے بہت تھوڑا لکھا مگر معیار میں بہت بھاری۔۔۔
زیرِ نظر انتخاب میں اُن کی چند تحریریں پیش کی جا رہی ہیں جو اُن کے تخلیقی منہاج کا ابتدائیہ فراہم کریں گی۔


رونے کی آواز


فلاورانڈرٹری اِزفری
سامنے والی کرسی پر بیٹھا ابھی ابھی وہ گارہاتھا۔مگر اب کرسی کی سیٹ پر اس کے جسم کے دباؤ کا نشان ہی باقی ہے۔کتنا اچھا گاتا ہے وہ۔۔۔ مجھے مغربی موسیقی اور شاعری سے کچھ ایسی دلچسپی تو نہیں ہے۔مگر وہ کم بخت گاتا ہی کچھ اس طرح ہے کہ میں کھو سا جاتا ہوں ۔ وہ گاتارہا اور میں سوچتا رہا۔ ’’کیاپھول درخت کے سائے تلے واقعی آزاد ہے؟‘‘
وہ اب جاچکا ہے۔ جن سُروں میں وہ گارہاتھا وہ اپنی گونج بھی کھو چکے ہیں ۔مگر الفاظ سے میں ابھی تک اُلجھا ہوا ہوں۔
’’فلاورانڈرٹری اِزفری‘‘ ’’Flower Under Tree Is Free‘‘
اس سے ایک بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ الفاظ کی عمرسر سے لمبی ہوتی ہے۔شام، جب وہ مجھ سے ملا خاصا نشے میں تھا۔طالب علموں کے ایک گروہ نے دن میں اُسے گھیر لیا تھا، وہ اس کے ملک کے گیت اس سے سنتے رہے اور شراب پیتے پلاتے رہے۔میرے کندھے پر اپنا دایاں ہاتھ رکھتے ہُوئے اس نے مُجھے سارے دن کا قصہ سنایا۔اور پھر کہنے لگا۔’’ گھر سے جب نکلا تھا تو میرے ذہن میں یہ فتور تھا کہ ساری دنیا پیدل گھوم کر اپنا ہم شکل تلاش کروں گا۔آٹھ برس ہونے کو آئے مجھے دوسروں کے ہم شکل تو ملتے رہے مگر اپنا ہم شکل اب تک نہیں ملا‘‘۔
’’کیا کہیں تمہیں کوئی میرا ہم شکل ملا؟‘‘ میں نے مُسکرا کر پُوچھا
’’ ہاں! سیکنڈی نیویا میں!‘‘اس نے میری طرف دیکھے بغیر اور اپنے ذہن پر زور دیئے بغیر جواب دیا۔
رات گئے تک ہم سڑکوں پر مارے مارے پھرتے رہے۔جب تھک گئے تو گھر کا رُخ کیا۔وہ کمرے میں داخل ہُوا،کرسی پر بیٹھا،دو ایک منٹ اِدھر اُدھر کی باتیں کرتا رہاپھر اس نے ایک دم اپنا مخصوص گیت گانا شروع کردیا۔
میں نے پوُچھا۔’’ اس گیت میں جو الفاظ ہیں ان کے معنی کیا ہیں؟‘‘
’’معنی کوئی ساتھ نہیں دیتا،صرف الفاظ دیتاہے۔دیتا بھی کیا ہے بس ان پر اپنے معنی کی مہر ثبت کردیتا ہے۔اور ہم ان میں سے اپنے معنی تلاش کرتے ہیں ! ‘‘ اس نے جواب دیا۔کرسی پر سے اُٹھتے ہُوئے اس نے کمرے کی بے ترتیبی کا جائزہ لیا اور پھر اچانک بول اُٹھا۔’’تم شادی کیوں نہیں کر لیتے اچھے خاصے معمولی آدمی ہو۔‘‘ میں بوکھلا سا گیا۔
’’بات دراصل یہ ہے۔‘‘ میں نے اس کے قریب ہوتے ہوئے کہا۔’’ہماری بلڈنگ کے اوپر والی منزل میں ایک دشنو بابو رہتے ہیں ۔وہ اس بلڈنگ کے مالک بھی ہیں۔ہم سب ان کے کرایہ دار ہیں ۔بہت سال پہلے جب وہ بالکل معمولی آدمی تھے تو انہوں نے ایک لڑکی سے شادی کی تھی۔جس کا نام ’’سرسوتی‘‘ ہے۔پھر اچانک دشنو بابو ایک مالدار عورت لکشمی سے ٹکراگئے۔تب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے ’’لکشمی ‘‘ سے اپنا دوسرا بیاہ رچالیا۔اب لکشمی اور دشنو دونوں آرام سے زندگی بسر کرتے ہیں ۔اور بے چاری ’’سرسوتی‘‘ رات رات بھر سیڑھیوں میں بیٹھی روتی رہتی ہے۔اسی ہنگامے کی وجہ سے میں ابھی تک طے نہیں کرپایا کہ مجھے کسی سرسوتی سے شادی کرنی چاہیئے تھی یا کسی لکشمی سے!‘‘
اس نے میرے چہرے کی طرف غور سے دیکھا،اس کی آنکھوں کے سُرخ ڈورے اس کے چہرے کو خوف ناک بنا رہے تھے۔پھر اس نے ایک دم سے گُڈنائٹ! کہا اور تیزی سیڑھیاں اتر گیا۔ اپنی اسی طرح کی حرکتوں اور باتوں کی وجہ سے وہ کبھی کبھی مجھے گوشت پوست کے آدمی کی بجائے کوئی خیال لگتا ہے جو سمندر پار سے یہاں آگیا ہو۔
جس عمارت کے ایک کمرے میں میں رہتا ہُوں۔اس کے سب کمروں کی دیواریں کہیں نہ کہیں ، جیسے تیسے ایک دوسرے سے مشترک ہیں۔ جس کی وجہ سے ایک کمرے کے اندر کی آواز یا خاموشی دوسرے میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔میں سوچتا ہوں، میری آواز یا خاموشی یا پھر چند لمحے پہلے میرے کمرے میں گونجنے والی اس کے گانے کی آواز بھی ضرور کہیں نہ کہیں پہنچی ہو گی۔
باہر شاید رات نے صبح کی طرف اپنا سفر شروع کردیاہے۔ اِردگرد کے سب گھروں کی بتیاں بُجھ گئی ہیں ۔ہر طرف اندھیرا ہے۔اور خاموشی دیمک کی طرح ہر طرف آہستہ آہستہ رینگے جارہی ہے۔میں دروازے کی چٹخی چڑھا کر اور مدھم بتی جلاکر اپنے بستر پر لیٹ گیا ہُوں۔
مدھم روشنی میں سفید چادر میں لپٹا ہوا اپنا جسم مجھے کفن میں لپٹی ہوئی لاش کی طرح لگتا ہے۔تنہائی، تاریکی اور خاموشی میں ایسا خیال خوف زدہ کر ہی دیتا ہے۔ جیسے خواب میں بلندی سے گرتے ہوئے آدمی کا جسم اور ذہن سُن ہوجاتے ہیں۔ایسی ہی میری کیفیت ہے۔دھیرے دھیرے میں نیچے گِر رہاہوں اور پھر اچانک مجھے لگتا ہے میں اپنے جسم میں واپس آگیاہوں۔
باہر سے کسی کے رونے کی آواز آرہی ہے شاید سرسوتی اور لکشمی میں پھر جھگڑا ہوا ہے اورسرسوتی کے رونے کی آواز سیڑھی، سیڑھی اُتر کر نیچے میرے کمرے کے دروازے تک آگئی ہے، مگر یہ تو کسی بچے کے رونے کی آواز ہے!میں محسوس کرتا ہوں۔۔۔ ٹھیک ہے پڑوس والوں کا بچہ اچانک بُھوک کی وجہ سے رونے لگ گیا ہوگا۔ اور اس کی ماں بدستور نیند میں بے خبر سو رہی ہوگی یاپھر شاید ایسا بھی تو ہوسکتاہے کہ وہ مر گئی ہو اور بچہ بلک بلک کے رو رہاہو۔آواز آہستہ آہستہ قریب ہو کر واضح ہوتی جارہی ہے۔پھر مجھے لگتا ہے کہ ایک بچہ میرے ہی پہلو میں پڑا رورہا ہے۔اور کفن میں لپٹی میری لاش میں کوئی حرکت نہیں ہورہی۔
’’اگر درخت تہذیب کی علامت ہے تو ہم اس کے سائے میں روتے ہُوئے آزاد پھول ہیں۔میرے ذہن میں اچانک اس کے الفاظ کے معنی کِھل اُٹھے ہیں جن کے سر وہ اپنے ساتھ لے گیاتھا۔
بچہ بدستور رو رہا ہے۔دھیرے دھیرے اس کی آواز میں درد اور دُکھ کی لہریں شامل ہوتی جارہی ہیں۔جیسے اسے پتہ چل گیا ہو کہ اس کی ماں مر گئی ہے۔مگر اسے یہ کس نے بتایاہوگا؟ اس کے باپ نے؟ مگر وہ تو بدستور سو رہا ہے۔کیونکہ اس کی آواز میں اس کے باپ کی آواز ابھی شامل نہیں ہوئی۔ یہ تو ہر کسی کو آپ ہی پتہ چل جاتا ہے کہ اس کی ماں مر گئی ہے۔مجھے نہیں پتہ چل گیا تھا! ۔۔۔ بچے کے رونے کی آواز میری آواز سے کتنی ملتی جُلتی ہے۔۔۔!
پھر اس کے الفاظ میرے کان میں گونجنے لگے۔’’اچھے خاصے معمولی آدمی ہو‘‘ ۔ میں واقعی معمولی آدمی ہوں۔ہر صبح اپنے گھر سے تیار ہو کر نکلتا ہُوں۔ دروازہ بند کرتے ہُوئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے الوداع کہتا ہُوں۔سورج کی طرف مُنہ کر کے دن بھر بھاگتا رہتاہُوں اور رات ہونے پر اپنے آپ کو گھر کے دروازے پہ کھڑا پاتاہُوں۔
صبح سب سے پہلے سارس کی طرح اُڑتا ہوا میں اس عمارت تک جاتا ہُوں ۔ جہاں ایک عورت خوبصورت کیبن میں گلاس ٹاپ کے میز پر اپنی سفید مرمریں باہیں پھیلائے گھومنے والی کرسی پر بیٹھی رہتی ہے۔وہ اپنے سفید بالوں کو ہر روز خضاب سے رنگ کر آتی ہے۔میز پر پھیلی ہوئی اس کی باہیں ۔ اس طرح لگتی ہیں کہ جیسے کسی عورت کی برہنہ ٹانگیں ہوں۔
کیبن کے اردگرد سے کئی سیڑھیاں اُوپر چڑھتی ہیں ۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے میں اس کیبن کے شیشوں میں سے اکثر جھانکتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ اگر وہ واقعی اپنی ننگی ٹانگیں میز پر پھیلائے ہوئے ہے تو۔۔۔
۔۔۔! سیڑھیاں جہاں سے شروع ہوتی ہیں۔ وہاں داہنے طرف ایک بڑی سی الماری لگی ہوئی ہے۔جس میں چھوٹے چھوٹے بنک کے لاکروں جیسے کئی خانے بنے ہوئے ہیں جن میں ہر آدمی اپنی ذاتی چیزیں رکھ سکتا ہے۔مگر میں ہر روز اپنی ذات ہی کو اس میں بند کر کے سیڑھیاں چڑھ جاتا ہوں۔ اور پھر شام کو جاتے ہوئے دوبارہ اسے نکال لیتا ہوں ۔باہر تھیٹر والوں کی گاڑی کھڑی رہتی ہے۔اس کا ڈرائیور مجھے آنکھوں کے اشارے سے بیٹھنے کے لئے کہتا ہے اور میں شہر کے جدید ترین تھیٹر میں پہنچا دیاجا تاہوں ۔ جس کا پنڈال بالکل سرکس کے پنڈال کے جیسا ہے۔میں اس تھیٹر میں پچھلے اٹھارہ برس سے ایک ہی رول ادا کر رہاہوں۔سٹیج بالکل وسط میں ہے۔اور میرا پہلا میک اپ اتار کر اگلی در، کامیک اپ اور لباس پہنا دیاجاتاہے۔ مکالمے سب بیک گراؤنڈ سے ہوتے ہیں ۔مجھے صرف للی پت والوں کی مار کھانے کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ان کے ننھے ننھے سوئیوں جیسے بھالے میرے جسم میں چبھتے ہیں۔ان کے کمانوں سے نکلے ہوئے چھوٹے چھوٹے تیر میرے جسم میں پیوست ہوجاتے ہیں ۔ میرے مساموں سے خون کی بوندیں پسینے کی طرح نکلتی ہیں۔ مجھ میں خوبی بس یہی ہے کہ میں تکلیف کا اظہار نہیں کرتا اس لئے اتنے برسوں سے یہ سب چل رہاہے۔یہاں سے مجھے ملتا کچھ بھی نہیں یہ تو محض ہابی کے طور پر ہے۔پھر جب شو ختم ہوجاتاہے تو مجھے ایک اسٹریچر پر لٹا کر ایک باتھ روم میں لے جاتے ہیں۔جہاں الکوحل سے بھرے ہوئے ٹب میں مجھے ڈال دیاجاتاہے۔ الکوحل میرے زخموں میں ٹیسیں پیدا کرتی ہے۔پھر ایک دم ایک خنکی کی لہر میرے جسم میں دوڑ جاتی ہے اور میں تازہ دم ہو کر گھر کی طرف بڑھتا ہوں۔
ایک دن عجیب تماشا ہوا ۔جب اس عمارت کے دروازے بند ہونے کا وقت آیا تب میں پیشاب خانے میں تھا۔میرے پیچھے دھپ سے دروازہ بند ہوا۔میں گھبرا کر زور زور سے دروازہ پیٹنے لگا تب ایک آدمی نے آکر دروازہ کھولا۔ میں اس تصور سے ہی اس قدر گھبراگیا تھا کہ اگر مجھے ساری رات اس پیشاب خانے میں بند رہنا پڑتا تو میری کیا حالت ہوتی۔گھبراہٹ میں چلتے وقت میں نے اس کیبن کی طرف بھی دھیان نہ دیا کہ آیا وہ عورت چلی گئی ہے یا نہیں۔ اور نہ ہی اس لاکر میں رکھی ہوئی اپنی ذات ہی نکالنے کا خیال آیا۔ باہر تھیٹر کی گاڑی کاڈرائیور ہارن پر ہارن بجائے جارہاتھا۔ میں بھاگتا ہوا گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی چل دی۔
میں بہت پریشان تھا کہ آج میں اپنی ذات کے بغیر اپنا رول کیسے ادا کر پاؤں گا۔مگر میری حیرانی کی انتہاء نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ اس دن شو ختم ہونے پر بھیڑ اپنی کرسیوں سے اُٹھ کر میری طرف لپکی اور میری اداکاری کو اتنا قدرتی بتایا کہ میں خود بھی حیران رہ گیا۔
تب سے میں نے اپنی ذات کو اس لاکر ہی میں پڑا رہنے دیا ہے۔
ہوا کے ایک جھونکے نے کھڑکی کے پٹ کو زور سے پٹخ دیا ہے۔ میں پھر اپنے کمرے کے ماحول کی خوشبو محسوس کرنے لگا ہُوں۔۔۔ سیڑھیوں پر بیٹھی ہوئی سرسوتی کی سسکیوں کی آواز روتے ہوئے بچے کی کرب ناک آواز میں اب ایک اور آدمی کی آواز بھی شامل ہو گئی ہے۔ شاید بچے کا باپ بھی جاگ گیا ہے۔ وہ اپنی بیوی کی لاش اور بلکتے ہوئے بچے کو سیکھ کر ضبط نہ کر سکا۔
ایک اچھے پڑوسی کے ناطے میرا فرض ہے کہ ان کے سُکھ، دُکھ میں حصہ بٹاؤں،کیوں کہ ہم سب ایک ہی درخت کے سائے تلے کِھلے ہوئے آزاد پُھول ہیں۔
میرا جی چاہتا ہے کہ، میں اپنے کمرے کی چاروں دیواروں میں سے ایک ایک اینٹ اکھاڑ کر ارد گرد کے کمروں میں جھانک کر انہیں سوتے ہوئے یا روتے ہوئے دیکھوں۔کیوں کہ دونوں ہی حالتوں میں آدمی بے بسی کی حالت میں ہوتا ہے۔ مگر میں بھی کتنا کمینہ آدمی ہوں لوگوں کو بے بسی کی حالت میں دیکھنے کے شوق میں سارے کمرے کی دیواریں اکھاڑدینا چاہتاہوں ۔
میں نے پھر اپنے آپ کو اٹھ کر ان کے کمروں میں جاکر ان کے رونے کی وجہ دریافت کرنے پر آمادہ کیا۔ رونے کی آوازیں اب کافی بلند ہو چکی تھیں۔اور ان کی وجہ سے کمرے میں بند رہنا ممکن نہ تھا۔میں نے وہی کفن جیسی سفید چادر اپنے گرد لپیٹی اور سیاہ سلیپر پہن کر دروازے کی طرف بڑھا۔جُوں ہی میں نے دروازے کی چٹخنی کی طرف ہاتھ بڑھایا کہ باہر سے کسی نے دروازے پر دستک دی،میں نے جھٹ سے دروازہ کھول دیا۔
سیڑھیوں میں بیٹھ کر رونے والی سرسوتی ، بلک بلک کر رونے والا بچہ، مری ہوئی عورت اور اس کا مجبور خاوند چاروں باہر کھڑے تھے۔چاروں نے یک زبان مجھ سے پوچھا۔
’’ کیا بات ہے آپ اتنی دیر سے رورہے ہیں ؟ ایک اچھے پڑوسی کے ناطے ہم نے اپنا فرض سمجھا کہ۔۔۔!‘‘


دوسرے آدمی کا ڈرائینگ روم

سمندر پھلانگ کر ہم نے جب میدان عبور کئے تو دیکھا کہ پگڈنڈیاں ہاتھ کی انگلیوں کی طرح پہاڑوں پر پھیل گئیں ۔ میں اک ذرا رُکا اور ان پر نظر ڈالی جو باجھل سر جھکائے ایک دوسرے کے پیچھے چلے جارہے تھے ۔ میں بے پناہ اپنائیت کے احساس سے لبریز ہو گیا۔۔۔ تب علیحدگی کے بے نام جذبے نے ذہن میں ایک کسک کی صورت اختیا کی اور میں انتہائی غم زدہ ‘ سر جھکائے وادی میں اُتر گیا۔
جب پیچھے مُڑ کر دیکھا تو وہ سب تھوتھنیاں اُٹھائے میری طرف دیکھ رہے تھے۔بار بار سر ہلا کر وہ اپنی رفاقت کا اظہار کرتے، ان کی گردنوں میں بندھی ہوئی دھات کی گھنٹیاں’’الوداع، الوداع‘‘ پکار رہی تھیں۔ اور ان کی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں کے کونوں پر آنسو موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔
میرے ہونٹ شدت سے کانپے، آنکھیں مند گئیں، پاؤں رُک گئے مگر پھر بھی میں بھاری قدموں سے آگے بڑھا، حتیٰ کہ میں ان کے لئے اور وہ میرے لئے دُور اُفق پر لرزاں نکتے کی صورت اختیار کرگئے۔
وادی میں اُونچے اُونچے بے ترتیب درخت جابجا پھیلے ہوئے تھے جن کے جسموں کی خوشبو فضاء میں گُھل گئی تھی۔ نئے راستوں پر چلنے سے دل میں رہ رہ کے امنگ سی پیدا ہوتی۔سورج مسکراتا ہوا پہاڑ پر سیڑھی سیڑھی چڑھ رہا تھا کہ میں گرد آلود پگڈنڈیوں کو چھو ڑ کر صاف شفاف، چکنی سڑکوں پر آگیا۔پختہ سڑکوں پر صرف میرے پاؤں سے جھڑتی ہوئی گرد تھی جو میں پگڈنڈیوں سے لے کر آیا تھا۔۔۔ یا پھر میرے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی۔
چکنی سڑکوں کی سیاہی دھیرے دھیرے اُبھر کر فضا میں تحلیل ہونے لگی اور اُفق پر سورج کمزوری سے لڑھکنے لگا۔
ابھی جھٹپٹا ہی تھا کہ میں ایک گول کشادہ مکان کے بڑے سے پھاٹک پر آرُکا۔ نئے خوبصورت پھولوں سے لدی جھاڑیوں اور کنجوں میں سے ہوتی ہوئی ایک روش اُونچے اُونچے ستونوں والے برآمدے تک چلی گئی جس پر بکھرے ہوئے پتھر دن کی آخری زرد دھوپ میں چمچمارہے تھے۔ میں نپے تُلے قدم رکھتا ہوا یوں آگے بڑھا جیسے پہلے بھی کئی بار یہاں آ چکا ہوں۔
خاموش، ویران برآمدے میں میری آواز گونجی۔ مجھے تعجب سا ہوا۔ یوں محسوس ہوا کہ جیسے کوئی مجھے پکار رہا ہے۔ میں آپ ہی آپ مسکرادیا۔کوئی جواب نہ پا کر آگے بڑھا اور بڑے سے ولندیزی دروازے نے مجھے باہیں پھیلا کر خوش آمدید کہا۔
ولندیزی دروازوں کے ساتھ ہی قدیم آریائی جھروکوں ایسی کھڑکیاں تھیں اور ان سب پر گہرے کتھئی رنگ کے بھاری پردے لٹک رہے تھے جن کی سجاوٹ سے سارے کمرے میں گہرے دھندلکے کا احساس ہورہاتھا۔ ماحول کی اس ایکا ایکی تبدیلی نے مجھ پر ایک عجیب کیفیت طاری کر دی اور میں سہما سہما کھڑا ہوگیا۔
’’۔۔۔ نیند کی جھپکی تھی شاید؟‘‘
نیم تاریک کمرے میں سہماسہما سا صوفے کے گُد گُدے پن میں دھنستا ہوا پاتال میں اُترا جارہاہُوں ۔ آتش دان میں آگ بُجھ گئی ہے پھر بھی راکھ میں چُھپی بیٹھی چنگاریوں کی چمک گہرے سبز ریشمی قالیں پر ابھی موجود ہے۔ کارنر ٹیبل پر رکھے دھات کے گل دان کو میرے بڑے سے ہاتھ نے چُھو کر چھوڑ دیا ہے۔ اس کے جسم کی خُنکی ابھی تک انگلیوں پر محسوس ہو رہی ہے۔ گل دان کا اپنا ایک الگ وجود میں نے قبول کر لیا ہے۔ ہاتھ میرا ہے اسی لئے احساس بھی میرا ہے۔لیکن گل دان نے میرے احساس کو قبول نہیں کیا ہے۔
مجھے ’’اس کا‘‘ انتظار ہے۔’’وہ‘‘ اندر کاریڈار میں کُھلنے والے دروازے سے پردہ سرکا کر مسکراتا ہوا نکلے گا۔اور میں بوکھلاہٹ میں اٹھ کر اس کی طرف بڑھوں گا۔اور پھر ہم دونوں بڑی گرم جوشی سے ملیں گے۔ وہ بڑا خوش سلیقہ آدمی ہے۔ڈرائینگ روم کی سجاوٹ، رنگوں کا انتخاب، آرائشی چیزوں کی سج دھج ۔۔۔ سب میں ایک’’ گریس ‘‘ ہے۔ نہ جانے وہ کب سے ان کے بارے میں سوچ رہا تھا، ان کے لئے بھٹک رہا تھا۔۔۔ اور تب کہیں جاکر وہ سب کرپایاہے۔
آتش دان بلیک ماربل کو کاٹ کر بنایا گیا ہے۔ جس پر جابجا غیر مسلسل سفید دھاریاں ہیں۔میں کچھ دیر تک ان دھاریوں کو غور سے دیکھتا رہا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے وہ دھاریاں طویل وعریض صحرا کے’’لینڈ اسکیپ‘‘ سے مشابہ ہیں۔بالکل خالی صحرا، اداس، خاموش۔ اور میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس صحرا میں کھو گیا اور ریت کے جھکڑنے مجھے اپنے اندر گم کر لیا۔اور میں ویسے ہی سہما سہما خوف زدہ سا اپنے آپ کو ڈھونڈنے کے لئے اس صحرا کی طرف بڑھا۔
میں آتش دان پر بنی کارنس پر ہاتھ جما کر، جھک کر اپنے آپ کو تلاش کرنے لگا۔کارنس پر ایک تصویر رکھی تھی جو بے دھیانی میں میرا ہاتھ لگنے سے گِر گئی۔میں نے اس تصویر کو اُٹھا کر دیکھا: ایک خوش پوش آدمی گود میں ایک ننھی سی بچی کو اُٹھائے بیٹھا ہے اور اس کے بائیں کندھے سے بھڑائے ایک عورت بیٹھی ہے۔ دونوں مسکرا رہے ہیں اور بچی ان کی طرف مُڑ کر دیکھ رہی ہے۔ نہ جانے کیوں مجھے خیال آیا کہ کبھی ایسی ہی تصویر کھینچوانے کے لئے میں بھی بیٹھا تھا اور فوٹو گرافر نے کہا تھا:
’’ذرا مسکرائیے!‘‘
ہم تینوں مسکرائے اور فوٹوگرافر نے کہا: ’’تھینک یو‘‘ اور ہم اُٹھ کر بیٹھ گئے۔ہم ابھی تک بکھرے ہوئے ہیں۔اگر اکٹھے بھی ہو جائیں تو مسکرا نہیں سکتے۔ باقی تصویر ویسی کی ویسی کھِنچ جائے گی۔
لیکن’’وہ‘‘ تصویر میں مسکرا رہا ہے، اس کی بیوی بھی مسکرا رہی ہے اور بچی بھی شاید، کیوں کہ اس کا چہرہ دکھائی نہیں دیتا۔ ایسے ہی مسکراتا ہوا وہ پچھلے دروازے سے وارد ہو گا۔ اور اس کی بیوی پچھلے کمروں میں کسی بیڈروم میں بیٹھی مسکرا رہی ہو گی۔اور بچی شاید مکان کے پچھواڑے خوب صورت، پُر سکون کنجوں میں تتلیاں پکڑ رہی ہو گی۔
صوفے کے سائیڈ ٹیبل پر پینے کے لئے کچھ رکھ دیا گیا ہے۔ جب میں اس تصویر کے بارے میں سوچتا رہا تھا اور اپنے آپ کو صحرا میں کھوج رہا تھا تو کوئی چپکے سے نارنگی کے رنگ کی کسیچیز کا گلاس رکھ گیا تھا۔
’’ٹھک۔۔۔ ٹھک۔۔۔ ٹھک‘‘۔ برآمدے سے کسی کے زمین پر لاٹھی ٹیک کر چلنے کی آواز آرہی ہے:بڑی مسلسل، بڑی متوازن، بڑی باقاعدہ۔ میں دروازے کا پردہ سرکاکر سر باہر نکال کر دیکھتا ہوں۔کوئی آہستہ آہستہ چلتا ہوا برآمدے کے خم سے مڑ گیا اور اب اس کی پُشت بھی غائب ہو گئی ہے اور لاٹھی ٹیکنے کی آواز ہر لحظہ دُور ہوتی جارہی ہے۔
’’سمندر کنارے کا کوئی شہر ہے؟ میں سمندر کے بارے میں اتنا فکر مند کیوں ہُوں؟‘‘ میرے ذہن میں سمندر اپنی بے کرانی،اپنی گہرائی اور اپنے مدوجزر کے ساتھ پھیلتا چلا گیااور میں محسوس کرنے لگا کہ یہ واقعی سمندر کنارے کاکوئی شہر ہے اور میں ایک کمزور سی، نحیف سی چھوٹی سی کشتی کی طرح ہچکولے کھاتا ہوا، ڈولتا ہوا کھڑکی تک پہنچا اور چھٹ سے پردہ ہٹا دیا۔
’’باہر شاید برف گِر رہی ہے‘‘۔’’ایک ایک گالا، ایک ایک گالا‘‘۔ میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور میرا ہاتھ کھڑکی سے باہر فضاء میں دھیرے دھیرے کبھی سیدھا کبھی اُلٹا حرکت کرنے لگا مگر ایک گالا بھی اس پر نہ گرا، ایک ذرا سی خُنکی بھی اس پر محسوس نہ ہوئی۔
’’قدیم آریائی جھرکوں ایسی کھڑکی!‘‘ میں بٹر بٹر اس کی طرف دیکھنے لگا۔
’’برف کہاں ہے؟‘‘ ’’نہیں، کہیں نہیں!‘‘ میں خود ہی سوال کرتا ہوں اور پھر خود ہی جواب دیتا ہوں، مگر اس سوال اور جواب کی آواز کہیں سنائی نہیں دیتی، صرف محسوس ہوتی ہے: ایک اداس، پُراسرار سرگوشی۔۔۔ اور میں اس احساس سے خوف زدہ ہو کر پھر اس گل دان کی طرف پلٹتا ہوں جس نے سب سے پہلے اس کمرے میں میرے احساس کو بیدار کیا تھا۔
بڑا سا گول گل دان جس پر بڑی ترتیب سے نقش ونگار بنائے گئے تھے بالکل بے حرکت پڑا ہے اور اس میں شروع جاڑوں کے پھول سجے ہوئے ہیں۔ یہ پھول کس ہاتھ نے سجائے ہیں؟ گل دان سے ہٹ کر میرا ذہن کچھ ہاتھوں کے بارے میں سوچتا ہے جن میں پھول ہیں۔پھر ہوا کھڑکی کے پردوں کو چھیڑتی ہے، دروازے کا پردہ بھی سرسراتاہے اور میں بالکل تنہا ان تمام چیزوں کے بارے میں سوچتا ہوں اور محسوس کرتا ہوں اور پھر غم زدہ ہو جاتاہوں۔ بے وجہ کا غم، بے بنیاد اکیلا پن۔
ایک سانپ میرے ذہن میں پھن پھیلا کر اپنی تیز تڑپتی ہوئی سرخ زبان نکال کر اِدھر اُدھر دیکھتا ہے، پھر آہستہ سے نیچے قالین پر اُتر جاتا ہے اور تیزی سے چلتا ہوا پیچھے والے دروازے کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ میں خوف زدگی کی انتہائی کیفیت میں چیخ اُٹھتا ہوں اور میری نظروں کے سامنے بیڈروم میں بیٹھی ہوئی، مسکراتی ہوئی ایک عورت انگڑائی لیتی ہے اور تتلیاں پکڑتی ہوئی ایک بچی زقند بھرتی ہے اور میں صوفے کی پُشت کو مضبوطی سے تھام لیتاہوں اور آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔ سارا منظر کہیں دُور اندھیرے میں آہستہ آہستہ گم ہو جاتاہے۔
’’وہ ابھی نہیں آیا۔رات باہر لان میں اُتر آئی ہو گی‘‘۔ لاٹھی ٹیکنے کی آواز پھر قریب آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ میں تیزی سے بڑھ کر دروازے کا پردہ ہٹا دیتا ہوں۔ ایک اندھا، ادھیڑعمر آدمی لاٹھی کے سہارے بڑھ رہاہے۔۔۔ نپے تُلے قدموں کے ساتھ لاٹھی کی باقاعدگی سے ابھرتی ہوئی آواز کے ساتھ۔ اس سے پیشتر کہ میں اسے بڑھ کر روکوں‘ وہ آگے بڑھ جاتا ہے اور خاموشی سے برآمدے کے خم سے مُڑجاتاہے۔ ایکا ایکی پلٹ کر میں کمرے کے خالی پن کوگُھورتا ہوں ۔ بڑا خوبصورت کمرہ ہے۔ دیوار پر بارہ سنگے کا ایک سر ٹنگا ہوا ہے اور اس کے نیچے ایک بڑا ہی مرصع تیر کمان آرائش کے لئے لٹکا ہوا ہے۔کھڑکی اور دروازے کے درمیان والی دیوار کے خالی پن کو بھرنے کے لئے چوڑے سنہری چوکھٹ والی ایک بڑی سی تصویر ٹنگی ہے جس میں ہزار رنگوں والی ان گنت جنگلی چڑیاں پُھدکتی ہوئی محسوس ہوتی نظر آرہی ہیں۔
’’سب خوب ہے ! ہر چیز جازب ہے ! تمام کچھ اپنانے کو جی چاہتا ہے۔ کاش! اے کاش! یہ سب کچھ میرا ہوتا۔یہ صوفہ، کانر ٹیبل پر پڑا ہوا گل دان، بک کیس میں پڑی ہوئی کتابیں، کارنس پر رکھی ہوئی تصویر، گہرے سبز قالین کا گُدگُداپن، آریائی جھروکوں ایسی کھڑکیاں، ولندیزی دروازے پر سرسراتے ہوئے پردے، بیڈروم میں مسکراتی عورت، تتلیاں پکڑتی ہوئی بچی اور ان تمام چیزوں کے اپنا ہونے کا ہمہ گیر، بھرپور احساس‘‘۔
’’مگر نہیں۔۔۔ یں۔یں۔ں!‘‘۔ اُف! میری آواز اس قدر بلند کیوں ہے؟‘‘ مجھے اپنے چِلانے پر ندامت محسوس ہوتی ہے۔ ندامت، خوف اور اجنبیت کے احساس سے میں گزر جاتاہوں اور پھر مجھے اپنا وجود گہرے سبز قالین پر اوندھا پڑا محسوس ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے کوئی آدمی قالین کو اپنی انگلیوں میں بھر لینے کی کوشش میں تڑپ رہاہے، رو رہا ہے اور پھر اس کی ہچکی بندھ جاتی ہے۔
’’خاموش ہو جاؤ۔۔۔ خاموش!‘‘ میں گہرے غم میں ڈوب کر اسے کہتا ہوں اور میرے اپنے آنسو ڈھلک کر میرے رخساروں تک آجاتے ہیں اور میں اسے ویسے ہی خاموشی سے تڑپتا ہوا دیکھتا ہوں۔
’’ ٹھک۔۔۔ٹھک۔۔۔ٹھک‘‘۔ میں تیزی سے دروازے کی طرف بڑھتا ہوں۔ ’’رُک جاؤ۔۔۔ و۔۔۔ و۔۔۔و !‘‘ میں دھاڑتا ہوں ۔ اندھا بالکل میرے قریب سے گزر گیا ہے۔ اس پر میری آواز کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔میں لپک کر اسے پکڑنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن ناکام رہتا ہوں۔ (یہ میری زندگی کی بہت سی ناکامیوں میں سے ایک ناکامی ہے۔میں اسے پہلے دن سے ہی پکڑنے میں ناکام رہاہوں)۔ وہ برآمدے کے موڑسے اوجھل ہو گیا ہے۔
اندر وہ قالین پر اوندھا پڑاابھی تک بسور رہا ہے ۔ پیچھے کُھلنے والے دروازوں پر ذرا بھی جنبش نہیں ہوتی۔ سانپ کے مکان میں گھس جانے سے ذرا بھی ہلچل پیدا نہیں ہوتی۔(’’اُف کتنے بے حس لوگ ہیں! ‘‘)
اسی دروازے کے قریب تپائی پر کانسے میں ڈھلا ایک بوڑھا بیٹھا بڑی بے فکری سے ناریل پی رہا ہے۔
’’اچھا تو میں چلتاہوں‘‘۔
’’چلتا ہوں ؟ مگر کہاں؟‘‘۔ سوال اور جواب دونوں ہاتھ پھیلائے نظریں ایک دوسرے پر گاڑے کھڑے ہیں اور میں آہستہ سے سِرک کر اس مجمعے کے پاس پہنچ جاتا ہوں۔
’’پانی تو پی لیجئے‘‘۔ ایک بڑی ہی میٹھی آواز کمرے میں گونجی۔
’’نہیں ، بس اب میں چلتا ہوں، بہت دیر ہو گئی ‘‘۔ میں پلٹے بغیر، اس عورت کو دیکھے بغیر ہی جواب دیتا ہوں ۔
’’لیکن کہاں؟‘‘ آواز پھر اُبھری اور پھیل گئی۔ (سوال اور جواب نے مل کر شرارت کی ہے شاید! اور اب میں ان کے درمیان کھڑا ہوں اور میرے لئے ان کی فتح مند نظروں کی تاب لانا مشکل ہورہاہے اور میں سر جھکا کر خاموش ہو جاتا ہوں)۔
’’یہ سب اگر نہ ہو سکے تو بھی کوئی بات نہیں۔ مگر اتنا تو ہو ہی سکتاہے کہ میں اس بوڑھے کی طرح بے فکری سے بیٹھا تمباکو پیتا رہوں؟‘‘
’’پہلے کانسے میں ڈھلنا پڑے گا!‘‘ قالین پر اوندھے پڑے آدمی نے کہا اور اُٹھ کر آتش دان پر بنے صحرا میں گم ہوگیا۔
’’کیا کوئی مجھے کانسے میں ڈھالے گا؟‘‘ میں نے مجسمے کو مخاطب کر کے کہا۔بوڑھے نے تمباکو کا ایک لمبا کَش لگایا اور مسکراتے ہوئے دھواں میرے چہرے پر چھوڑ دیا۔قدیم آریائی جھروکوں ایسی کھڑکیوں کے پردے سرسرائے اور بڑی سی تصویر میں ہزار رنگوں والی جنگلی چڑیوں نے پُھدک کر اپنی اپنی جگہیں بدل لیں۔ میں خوف زدگی کے انتہائی احساس سے لڑکھڑاتا ہوا سائیڈ ٹیبل تک پہنچا اور غٹا غٹ سارا گلاس چڑھاگیا۔
’’ابھی اسے صحرا میں کھوجنا ہے۔ شاید اس شدید برف باری میں بھاگ کر جانا پڑے۔یا پھر سمندر کنارے کے شہر میں‘‘۔(کشتی بہرحال ساحل تک پہنچنی چاہیئے)
(ایک بپھرا ہوا سمندر، ایک ریت اُڑاتا صحرا اور ایک برف کا طوفان اور میں اکیلا آدمی! میں کیا کچھ کر لوں گا؟)میں دل ہی دل میں اس چیز کو گالی دیتا ہوں۔جو یہ سب کچھ سوچتی ہے مگر نظر نہیں آتی اور مجھ نحیف، کمزور، بے سہارا۔۔۔ کو بھٹکاتی پھرتی ہے۔
’’ٹھک۔۔۔ٹھک۔۔۔ٹھک‘‘۔ وہ پھر گزر گیا ہے۔ میں اسے پکڑ نہیں سکتا، اس بات نہیں کر سکتا۔ وہ گونگا، بہرہ، اندھا۔ذہن میں سوراخ کرتی ہوئی اس کی لاٹھی کی آواز۔
’’چلو بھائی چلو‘‘۔ دروازے پر کسی نے دستک دی ہے۔
’’مگر وہ تو ابھی آیا نہیں‘‘۔ میں نے جواب دیا۔
’’اب نہیں پھر سہی ، دیکھو دیر ہو رہی ہے‘‘۔ آواز باہر لان میں سے گونج کر آرہی ہے۔
’’ذرا سنو!پھر کب آنا ہوگا؟‘‘ میں نے پلٹ کر ڈرائینگ روم میں چاروں طرف نظریں گھمائیں جو مجھے انتہائی پسند تھا۔۔۔ پُرسکون، آرام دہ، ’’کوزی‘‘۔
جواب میں وہ قہقہہ لگا کر ہنسا۔شاید وہ میری حریص نگاہوں کامطلب سمجھ گیا تھا۔
لاٹھی ٹیکنے کی آواز بڑی جلدی جلدی دروازے پر سنائی دی۔شاید اسے بھی جلدی ہے۔باہر صرف آواز تھی۔ایک اس کے قہقہے کی آواز، دوسری اندھے کی لاٹھی کی آواز۔اور رات باہر لان میں اُتر کر سارے میں پھیل گئی تھی۔۔۔ شروع جاڑوں کی اندھیری رات۔
’’یہ سب تمہارا ہی تو تھا۔مگر اب اس سے زیادہ نہیں۔بہت دیر ہو رہی ہے‘‘۔ اس کی آواز پھر گونجی، پھیلی اور سمٹ کر پھر باہر واپس چلی گئی۔
میں کسی انجانی چیز کے کھوجانے کے غم سے پُھوٹ پُھوٹ کر رونے لگا۔’’مجھے تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا‘‘۔میں چیخا۔’’کم از کم میں پچھلے دروازے سے اندر جا کر ان میں ایک لمحے کے لئے بیٹھ تو جاتا۔ان کی چاہت، ان کی اپنائیت کی گرمی سے اپنی آغوش کے خالی پن کو آسودہ کر لیتا۔یہ ظلم ہے ۔۔۔ سراسر ظلم!‘‘
’’ہا۔۔۔ہا۔۔۔ہا‘‘۔
میں نے قالین کو ایک نظر دیکھا اور پھر بڑھ کر اسے اپنی باہوں میں بھر لینے کے لئے اس پر اوندھا لیٹ گیا۔اور میری پشیمانی کے آنسوؤں سے اس کا دامن بھیگنے لگا۔اور پھر صحرا میں بھٹکا ہوا آدمی آہستہ سے چل کر میرے قریب آکر بیٹھ گیا۔کانسے میں ڈھلے ہوئے بوڑھے نے ایک اور گہرا کَش لیا اور تمباکو کا دھواں میری طرف اُگل دیا۔
میں نے پھٹی پھٹی نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا اور پُوچھنا چاہا:’’دیکھ رہے ہو؟ یہ سب دیکھ رہے ہو نا؟‘‘ ایکا ایکی میں نے اپنی بے چارگی پر قابو پایا اور بازو لہراکر کہنا چاہا:’’ سنو! تم سب سُن لو۔ سمندر کنارے کے شہر کا پتہ ہے نا؟اگر کبھی کوئی کمزور، نحیف، بے سہاراکشتی ساحل سے آکر لگے تو سمجھ جانا کہ وہ میں ہوں !‘‘۔


بجوکا

پریم چند کی کہانی کا’ہوری‘ اتنا بوڑھا ہو چکا تھاکہ اس کی پلکوں اور بھوؤں تک کے بال سفید ہو گئے تھے کمر میں خم پڑگیاتھا اور ہاتھوں کی نسیں سانولے کھُردرے گوشت سے اُبھر آئی تھیں۔
اس اثناء میں اس کے ہاں دو بیٹے ہوئے تھے‘ جو اب نہیں رہے۔ایک گنگا میں نہا رہا تھا کہ ڈوب گیا اور دوسرا پولیس مقابلے میں مارا گیا۔پولیس کے ساتھ اس کا مقابلہ کیوں ہوا اس میں کچھ ایسی بتانے کی بات نہیں ۔جب بھی کوئی آدمی اپنے وجود سے واقف ہوتا ہے اور اپنے اِرد گرد پھیلی ہوئی بے چینی محسوس کرنے لگتا ہے تو اس کا پولیس کے ساتھ مقابلہ ہو جانا قدرتی ہو جاتا۔بس ایسا ہی کچھ اس کے ساتھ ہوا تھا۔۔۔ اور بُوڑھے ہوری کے ہاتھ ہل کے ہتھے کو تھامے ہوئے ایک بار ڈھیلے پڑے ذرا کانپے اور پھر ان کی گرفت اپنے آپ مضبوط ہو گئی۔اس نے بیلوں کو ہانک لگائی اور ہل کا پھل زمین کا سینہ چیرتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
اس دن آسمان سورج نکلنے سے پہلے کچھ زیادہ ہی سرخ تھااور ہوری کے آنگن کے کنویں کے گرد پانچوں بچے ننگ دھڑنگ بیٹھے نہا رہے تھے۔اس کی بڑی بہو کنویں سے پانی نکال نکال کر ان پر باری باری اُنڈیلتی جارہی تھی اور وہ اُچھلتے ہوئے اپنا پنڈا ملتے پانی اُچھال رہے تھے۔چھوٹی بہو بڑی بڑی روٹیاں بنا کر چنگیری میں ڈال رہی تھی اور ہوری اندر کپڑے بدل کر پگڑی باندھ رہا تھا۔ پگڑی باندھ کر اس نے طاقچے میں رکھے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا۔۔۔ سارے چہرے پر لکیریں پھیل گئیں۔ اس نے قریب ہی لٹکی ہوئی ہنو مان جی کی چھوٹی سی تصویر کے سامنے آنکھیں بند کر کے دونوں ہاتھ جوڑ کر سر جھکایا اور پھر دروازے میں سے گزر کر باہر آنگن میں آگیا۔
’’ سب تیار ہیں ؟‘‘اس نے قدرے اونچی آواز میں پُوچھا۔
’’ ہاں باپُو۔۔۔‘‘سب بچے ایک ساتھ بول اُٹھے۔بہوؤں نے اپنے سروں پر پہلودرست کئے اور ان کے ہاتھ تیزی سے چلنے لگے۔ہوری نے دیکھاکہ کوئی بھی تیار نہیں تھا۔سب جھوٹ بول رہے تھے۔اس نے سوچا یہ جھوٹ ہماری زندگی کے لئے کتنا ضروری ہے۔اگر بھگوان نے ہمیں جھوٹ جیسی نعمت نہ دی ہوتی تو لوگ دھڑا دھڑ مرنے لگ جاتے۔ اس کے پاس جینے کا کوئی بہانہ نہ رہ جاتا۔ہم پہلے جھوٹ بولتے ہیں اور پھر اسے سچ کرنے کی کوشش میں دیر تک زندہ رہتے ہیں ۔
ہوری کے پوتے پوتیاں اور بہوئیں ۔۔۔ ابھی ابھی بولے ہوئے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں پوری تندہی سے جُت گئیں ۔جب تک ہوری نے ایک کونے میں پڑے کٹائی کے اوزار نکالے۔۔۔ اور اب وہ سچ مُچ تیار ہو چکے تھے۔
ان کا کھیت لہلہا اُٹھا تھا۔فصل پک گئی تھی اور آج کٹائی کا دن تھا۔ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی تہوار ہو۔سب بڑے چاؤ سے جلد از جلد کھیت پر پہنچنے کی کوشش میں تھے کہ انہوں نے دیکھا سورج کی سنہری کرنوں نے سارے گھر کو اپنے جادو میں جکڑ لیا ہے۔
ہوری نے انگوچھا کندھے پر رکھتے ہوئے سوچا۔کتنا اچھا سمے آپہنچا ہے نہ اہلمد کی دھونس نہ بنئے کا کھٹکا نہ انگریز کی زور زبردستی اور نہ زمیندار کا حصہ۔۔۔ اس کی نظروں کے سامنے ہرے ہرے خوشے جھوم اٹھے۔
’’چلو بابو‘‘ ۔ اس کے بڑے پوتے نے اس کی انگلی پکڑ لی‘ باقی بچے اس کی ٹانگوں کے ساتھ لپٹ گئے۔بڑی بہو نے کوٹھری کا دروازہ بند نہ کیا اور چھوٹی بہو نے روٹیوں کی پوٹلی سر پر رکھی۔
بیر بجرنگی کا نام لے کر سب باہر کی چاردیواری والے دروازے میں سے نکل کر گلی میں آگئے اور پھر دائیں طرف مُڑ کر اپنے کھیت کی طرف بڑھنے لگے۔
گاؤں کی گلیوں ‘ گلیاروں میں چہل پہل شروع ہو چکی تھی۔ لوگ کھیتوں کو آجارہے تھے۔سب کے دلوں میں مُسرّت کے انار چھوٹتے محسوس ہو رہے تھے۔سب کی آنکھیں پکی فصلیں دیکھ کر چمک رہی تھیں ۔ہوری کو لگا کہ جیسے زندگی کل سے آج ذرا مختلف ہے۔اس نے پلٹ کر اپنے پیچھے آتے ہوئے بچوں کی طرف دیکھا۔وہ بالک ویسے ہی لگ رہے تھے جیسے کسان کے بچے ہوتے ہیں ۔سانولے مریل سے۔۔۔جو جیپ گاڑی کے پہیوں کی آواز اور موسم کی آہٹ سے ڈر جاتے ہیں۔بہوئیں ویسی ہی تھیں جیسے غریب کسان کی بیوہ عورتیں ہوتی ہیں۔چہرے گھونگھٹوں میں چُھپے ہوئے اور لباس کی ایک ایک سلوٹ میں غریبی جوؤں کی طرح چھُپی بیٹھی۔
وہ سر جھکاکر آگے بڑھنے لگا۔گاؤں کے آخری مکان سے گزر کر آگے کھلے کھیت تھے۔قریب ہی رہٹ خاموش کھڑا تھا۔نیم کے درخت کے نیچے ایک کتابے فکری سے سویا ہوا تھا۔دُور طویلے میں کچھ گائیں ‘ بھینسیں اور بیل چارہ کھا کر پھنکار رہے تھے۔سامنے دُور دُور تک لہلہاتے ہوئے سنہری کھیت تھے۔۔۔ ان سب کھیتوں کے بعد ذرا دُور جب یہ سب کھیت ختم ہو جائیں گے اور پھر چھوٹا سا نالہ پار کر کے الگ تھلگ ہوری کا کھیت تھا جس میں جھونا پک کر انگڑائیاں لے رہا تھا۔
وہ سب پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے دُور سے ایسے لگ رہے تھے جیسے رنگ برنگے کپڑے سوکھی گھاس پر رینگ رہے ہوں۔۔۔وہ سب اپنے کھیت کی طرف جا رہے تھے۔جس کے آگے تھل تھا۔دُور دُور تک پھیلا ہوا جس میں کہیں ہریالی نظر نہ آتی تھی بس تھوڑی بے جان مٹی تھی۔جس میں پاؤں رکھتے ہی دھنس جاتا تھا۔اور مٹی یُوں بُھربھری ہوگئی تھی کہ جیسے اس کے دونوں بیٹوں کی ہڈیاں چتا میں جل کر پھول بن گئی تھیں اور پھر ہاتھ لگاتے ہی ریت کی طرح بکھر جاتی تھیں۔وہ تھل دھیرے دھیرے بڑھ رہا تھا۔ ہوری کو یاد آیا پچھلے پچاس برسوں میں وہ دو ہاتھ آگے بڑھ آیا تھا۔ہوری چاہتا تھا کہ جب تک بچے جوان ہوں وہ تھل اس کے کھیت تک نہ پہنچے اور تب تک وہ خود کسی تھل کا حصہ بن چکا ہو گا۔
پگڈنڈیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اور اس پر ہوری اور اس کے خاندان کے لوگوں کے حرکت کرتے ہوئے ننگے پاؤں۔۔۔
سورج آسمان کی مشرقی کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھ رہا تھا۔
چلتے چلتے ان کے پاؤں مٹی سے اٹ گئے تھے۔کئی اِرد گرد کے کھیتوں میں لوگ کٹائی کرنے میں مصروف تھے وہ آتے جاتے کو رام رام کہتے اور پھر کسی انجانے جوش اور ولولے کے ساتھ ٹہنیوں کو درانتی سے کاٹ کر ایک طرف رکھ دیتے۔
انہوں نے باری باری نالہ پار کیا۔ نالے میں پانی نام کو بھی نہ تھا۔۔۔اندر کی ریت ملی مٹی بالکل خشک ہو چکی تھی اور اس پر عجیب و غریب نقش و نگار بنے تھے۔وہ پانی کے پاؤں کے نشان تھے۔۔۔ اور سامنے لہلہاتا ہوا کھیت نظر آرہاتھا۔سب کا دل بلیوں اُچھلنے لگا۔۔۔فصل کٹے گی تو ان کا آنگن پُھوس سے بھر جائے گا اور کوٹھری اناج سے پھر کھٹیا پر بیٹھ کر بھات کھانے کا مزہ آئے گا۔کیا ڈکاریں آئیں گی پیٹ بھر جانے کے بعد ان سب نے ایک ہی بار سوچا۔
اچانک ہوری کے قدم رُک گئے۔وہ سب بھی رُک گئے۔ہوری کھیت کی طرف حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔وہ سب کبھی ہوری کو اور کبھی کھیت کو دیکھ رہے تھے کہ اچانک ہوری کے جسم میں جیسے بجلی کی سی پُھرتی پیدا ہو ئی۔اس نے چند قدم آگے بڑھ کر بڑے جوش سے آواز لگائی۔
’’ ابے کون ہے۔۔۔ے۔۔۔ے۔۔۔؟‘‘
اور پھر سب نے دیکھاان کے کھیت میں سے کوئی جواب نہ ملا۔اب وہ قریب آچکے تھے اور کھیت کے دوسرے کونے پر درانتی چلنے کی سراپ سراپ چلنے کی آواز بالکل صاف سنائی دے رہی تھی۔سب قدرے سہم گئے۔ پھر ہوری نے ہمت سے للکارا۔
’’کون ہے حرام کا جنا۔۔۔ بولتا کیوں نہیں؟‘‘اور اپنے ہاتھ میں پکڑی درانتی سونت لی۔
اچانک کھیت کے پرلے حصے میں سے ایک ڈھانچہ سا اُبھرا اور جیسے مسکرا کر انہیں دیکھنے لگا ہو۔۔۔ پھر اس کی آواز سنائی دی۔
’’میں ہوں ہوری کاکا۔۔۔ بجوکا!‘‘اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑی درانتی فضامیں ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
سب کی مارے خوف کے گُھٹی گُھٹی سی چیخ نکل گئی۔ان کے رنگ زرد پڑ گئے اور ہوری کے ہونٹوں پر گویا سفید پپڑی سی جم گئی۔۔۔ کچھ دیر کے لئے سب سکتے میں آگئے اور بالکل خاموش کھڑے رہے۔۔۔وہ کچھ دیر کتنی تھی؟ایک پل ایک صدی یا پھر ایک یُگ۔۔۔اس کا ان میں سے کسی کو اندازہ نہ ہوا۔جب تک انہوں نے ہوری کی غصہ سے کانپتی ہوئی آواز نہ سنی انہیں اپنی زندگی کا احساس نہ ہوا۔
’’ تم ۔۔۔ بجوکا۔۔۔ تم۔ارے تم کو تو میں نے کھیت کی نگرانی کے لئے بنایا تھا۔۔۔بانس کی پھانکوں سے اور تم کو اس انگریز شکاری کے کپڑے پہنائے تھے جس کے شکار میں میرا باپ ہانکا لگاتا تھا اور وہ جاتے ہوئے خوش ہو کر اپنے پھٹے ہوئے خاکی کپڑے میرے باپ کو دے گیا تھا۔تیرا چہرہ میرے گھر کی بے کار ہانڈی سے بنا تھااور اس پر اسی انگریز شکاری کا ٹوپا رکھ دیا تھا ارے تو بے جان پتلا میری فصل کاٹ رہا ہے؟‘‘
ہوری کہتا ہوا آگے بڑھ رہاتھا اور بجوکا بدستور ان کی طرف دیکھتا ہوا مسکراتا رہا تھا۔جیسے اس پر ہوری کی کسی بات کا کوئی اثر نہ ہوا ہو۔جیسے ہی وہ قریب پہنچے انہوں نے دیکھا ۔۔۔ فصل ایک چوتھائی کے قریب کٹ چکی ہے اور بجوکا اس کے قریب درانتی ہاتھ میں لئے مسکرارہاہے۔ وہ سب حیران ہوئے کہ اس کے پاس درانتی کہاں سے آگئی۔۔۔وہ کئی مہینوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔بے جان بجو کا دونوں ہاتھوں سے خالی کھڑا رہتا تھا۔۔۔مگر آج ۔۔۔ وہ آدمی لگ رہا تھا۔گوشت پوست کا ان جیسا آدمی ۔۔۔ یہ منظر دیکھ کر ہوری تو جیسے پاگل ہو اُٹھا۔اس نے آگے بڑھ کر اسے ایک زوردار دھکا دیا۔۔۔ مگر بجوکا تو اپنی جگہ سے بالکل نہ ہلا۔البتہ ہوری اپنے ہی زور کی مار کھا کر دور جاگرا۔۔۔سب لوگ چیختے ہوئے ہوری کی طرف بڑھے۔وہ اپنی کمر پر ہاتھ رکھے اٹھنے کی کوشش کررہا تھا ۔۔۔ سب نے اسے سہارا دیا اور اس نے خوف زدہ ہو کر بجوکا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔’’ تَو۔۔۔تُو مجھ سے بھی طاقتور ہو چکا ہے بجوکا! مجھ سے۔۔۔؟جس نے تمہیں اپنے ہاتھوں سے بنایا۔اپنی فصل کی حفاظت کے واسطے‘‘۔
بجوکا حسبِ معمول مسکرارہاتھا‘ پھر بولا۔’’ تم خواہ مخواہ خفا ہو رہے ہو ہوری کاکا میں نے تو صرف اپنے حصے کی فصل کاٹی ہے۔ایک چوتھائی۔۔۔‘‘
’’ لیکن تم کو کیا حق ہے میرے بچوں کا حصہ لینے کا۔تم کون ہوتے ہو؟‘‘
’’ میرا حق ہے ہوری کاکا۔۔۔کیوں کہ میں ہوں ۔۔۔اور میں نے اس کھیت کی حفاظت کی ہے‘‘۔
’’ لیکن میں نے تو تمہیں بے جان سمجھ کر یہاں کھڑا کیا تھا اور بے جان چیز کاکوئی حق نہیں ۔ یہ تمہارے ہاتھ میں درانتی کہاں سے آگئی؟‘‘
بجوکا نے ایک زور دار قہقہہ لگایا’’ تم بڑے بھولے ہو ۔۔۔ہوری کاکا!۔خود ہی مجھ سے باتیں کر رہے ہو!۔۔۔اور پھر مجھ کو بے جان سمجھتے ہو۔۔۔؟‘‘
’’ لیکن تم کو یہ درانتی اور زندگی کس نے دی۔۔۔؟ میں نے تو نہیں دی تھی!‘‘
’’ یہ مجھے آپ سے آپ مل گئی ۔۔۔جس دن تم نے مجھے بنانے کے لئے بانس کی پھانکیں چیری تھیں۔انگریز شکاری کے پھٹے پرانے کپڑے لائے تھے‘ گھر کی بے کار ہانڈی پر میری آنکھیں ‘ ناک اور کان بنایا تھا۔اسی دن ان سب چیزوں میں زندگی کلبلا رہی تھی اور یہ سب مل کر میں بنا اور میں فصل پکنے تک یہاں کھڑارہا اور ایک درانتی میرے سارے وجود میں سے آہستہ آہستہ نکلتی رہی ۔۔۔ اور جب فصل پک گئی وہ درانتی میرے ہاتھ میں تھی۔لیکن میں نے تمہاری امانت میں خیانت نہیں کی۔۔۔ میں آج کے دن کا انتظار کرتا رہا اور آج تم اپنی فصل کاٹنے آئے ہو۔۔۔میں نے اپنا حصہ کاٹ لیا‘اس میں بگڑنے کی کیا بات ‘‘۔۔۔بجوکا نے آہستہ آہستہ سب کہا ۔۔۔ تاکہ ان سب کو اس کی بات اچھی طرح سمجھ میں آجائے۔
’’نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔یہ سب سازش ہے ۔ میں تمہیں زندہ نہیں مانتا۔یہ سب چھلاوہ ہے۔میں پنچائت سے اس کا فیصلہ کراؤں گا۔تم درانتی پھینک دو۔میں تمہیں ایک تنکا بھی لے جانے نہیں دوں گا۔۔۔‘‘ ہوری چیخا اور بجوکا نے مسکراتے ہوئے درانتی پھینک دی۔
گاؤں کی چوپال پر پنچائت لگی۔۔۔پنچ اور سر پنچ سب موجود تھے۔ہوری ۔۔۔اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ پنچ میں بیٹھا تھا۔اس کا چہرہ مارے غم کے مُرجھایا ہوا تھا۔اس کی دونوں بہوئیں دوسری عورتوں کے ساتھ کھڑی تھیں اور بجوکا کا انتظار تھا۔آج پنچائت نے اپنا فیصلہ سنانا تھا۔مقدمہ کے دونوں فریق اپنا اپنا بیان دے چکے تھے۔
آخر دُور سے بجوکا خراماں خراماں آتا دکھائی دیا۔۔۔سب کی نظریں اس طرف اُٹھ گئیں وہ ویسے ہی مسکراتا ہوا آرہاتھا۔جیسے ہی وہ چوپال میں داخل ہوا۔سب غیرارادی طور پر اُٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے سر تعظیماًجھک گئے۔ہوری یہ تماشا دیکھ کر تڑپ اُٹھا اسے لگا کہ جیسے بجوکا نے سارے گاؤں کے لوگوں کاضمیر خرید لیا ہے۔پنچائت کا انصاف خرید لیا ہے۔وہ تیز پانی میں بے بس آدمی کی طرح ہاتھ پاؤں مارتا ہوا محسوس کرنے لگا۔
’’ سنو۔۔۔یہ شاید ہماری زندگی کی آخری فصل ہے ۔ابھی تھل کھیت سے کچھ دُوری پر ہے ۔ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں ‘ کہ اپنی فصل کی حفاظت کے لئے پھر کبھی بجوکا نہ بنانا۔اگلے برس جب ہل چلیں گے ۔۔۔بیج بویا جائے گا اور بارش کا امرت کھیت میں سے کونپلوں کو جنم دے گا۔تو مجھے ایک بانس پر باندھ کر ایک کھیت میں کھڑا کردینا ۔۔۔بجوکا کی جگہ پر۔میں تب تک تمہاری فصلوں کی حفاظت کروں گا‘ جب تک تھل آگے بڑھ کر کھیت کی مٹی کو نگل نہیں لے گا اور تمہارے کھیتوں کی مٹی بُھربھری نہیں ہوجائے گی۔مجھے وہاں سے ہٹانا نہیں۔۔۔ کہ بجوکا بے جان نہیں ہوتا۔۔۔آپ سے آپ اسے زندگی مل جاتی ہے اور اس کا وجود اسے درانتی تھمادیتا ہے اور اس کا فصل کی ایک چوتھائی پر حق ہو جاتا ہے‘‘۔ہوری نے کہا اور پھر آہستہ آہستہ اپنے کھیت کی طرف بڑھا۔اس کے پوتے اور پوتیاں اس کے پیچھے تھے اور پھر اس کی بہوئیں اور ان کے پیچھے گاؤں کے دوسرے لوگ سر جھکائے ہوئے چل رہے تھے۔
کھیت کے قریب پہنچ کر ہوری گرا اور ختم ہو گیا‘ اس کے پوتے پوتیوں نے اسے ایک بانس سے باندھنا شروع کیا اور باقی کے لوگ یہ تماشا دیکھتے رہے۔بجوکا نے اپنے سر پر رکھا شکاری ٹوپا اُتار کر سینے کے ساتھ لگا لیا اور اپنا سر جھکا دیا۔


بشکریہ: قاسم یعقوب

پیر، 28 ستمبر، 2015

فاروق مضطر (انتخاب)

فاروق مضطرکا سن پیدائش1954ہے۔آپ اسعدؔ بدایونی، زیبؔ غوری،بانیؔ،عرفان صدیقی،بمل کرشن اشکؔ،شہریارؔ،عادل منصوری،محمد علوی،پرتپال سنگھ بیتاب وغیرہ جیسے ممتاز ہندوستانی غزل گو شعرا کے ہم عصر ہیں۔ مضطرؔ شمس الرحمٰن فاروقی کی جدیدیت کی تحریک سے متاثر اور’’ شب خون‘‘ سے وابستہ رہے۔ستر کی دہائی میں ایک طرف جہاں جدید غزل کے نامور شاعر ظفر اقبال کی غزل غیرمعمولی شہرت حاصل کر رہی تھی وہیں مضطرؔ تواتر سے ’’ شب خون‘‘ سمیت برصغیر کے اہم پرچوں میں چھپتے رہے۔انہوں نے اس وقت’’ دھنک‘‘ نام سے جموں کشمیر سے ایک انتہائی معیاری پرچہ بھی نکالا جس کے کئی شمارے آج بھی دستاویزی اہمیت رکھتے ہیں۔مضطرؔ نے بہت کم شاعری کی کیونکہ وہ جلد ہی مولانا وحید الدین خاں کی اسلامی نظریاتی تحریک سے وابستہ ہوئے اور عملی طور پر تعلیمی شعبہ میں بیش بہا خدمات انجام دیں، جو جاری ہیں۔فاروق مضطرؔ نے ظفر اقبال کی طرح تجربات کو اپنایا تاہم زبان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے گریز کیا۔ظفرا قبال کی غزل کا رنگ وآہنگ ہندوستان میں’’شب خون‘‘ کے توسط سے سب کے سر پر جادو بن کر چڑھا لیکن مضطرؔ اپنا سفر جاری نہ رکھ سکے۔سخن وری سے دستکش ہوئے لیکن تحقیق،جستجو، مشاہدہ اور شعرو ادب سے عشق آج بھی جس کا تس موجود ہے۔ان کی غزلیں اور نظمیں جو فی الوقت دستیاب ہو سکی ہیں پیش کی جا رہی ہیں۔(خالد کرار)

 
غزلیں

یُوں حجرہ ٔ خیال میں بیٹھا ہوا ہوں میں
گویا مرا وجود نہیں واہمہ ہوں میں
پھیلا ہے جب سے گھر میں سمندر سکوت کا
بے چارگی کی چھت پہ کھڑا چیختا ہوں میں
دیکھو مری جبیں پہ مرے عہد کے نقوش
رکھو مجھے سنبھال کے اِک آئینہ ہوں میں
اب تک شب ِ قیام کا اک سلسلہ بھی تھا
اب آفتاب بن کے سفر پر چلا ہوں میں
خود سے تو روشناس ابھی تک نہ ہو سکا
یہ اتفاق ہے کہ جو تم سے ملا ہوں میں
---
صلیب ِ موجہ ٔ آب و ہوا پہ لکھا ہوں
ازل سے تا بہ ابد حرف حرف بکھرا ہوں
وجودِ وہم مرا ہمسفر رہا دن بھر
فصیل ِ شام سے دیکھا تو سایہ سایہ ہوں
سمیٹ لے گے کسی دن نگاہ موسم کی
شجر شجر پہ ابھی اپنا نام لکھتا ہوں
چہار سمت گھرا ہوں میں پانیوں میں یہاں
مرا یہ کرب کہ اک ڈوبتا جزیزہ ہوں
ہوا کے ساتھ کہاں تک اُڑان بھرتا ہوں
حدود ِ جسم میں اک پر کٹا پرندہ ہوں
---
شفق شب سے ابھرتا ہوا سُورج سوچیں
برف تہہ سے کوئی چشمہ اُبلتا دیکھیں
تیری آنکھ کو بھی پشت پہ چپکا دیکھیں
سطح ِ آب پہ ہم نقش ِ کف ِ پا ڈھونڈیں
روشنی، دُھوپ ،ہوا مل کے کیا سب نے نڈھال
اب تمنا ہے کسی اندھے کنویں میں بھٹکیں
جلتے بجھتے ہوئے اس شہر پہ کیا کچھ لکھا
آج سب لکھا ہوا آنکھ پہ لاکر رکھ دیں
جانے کیوں ڈوبتا رہتا ہوں میں اپنے اندر
جانے کیوں سوجھتی رہتی ہیں یہ اُلٹی باتیں
چھین لیں اپنی مروّت کا یہ زینہ گر ہم
آج مضطرؔ اسے آکاش سے گرتا دیکھیں
---
اُجلے ماتھے پہ نام لکھ رکھیں
خواہشوں کا مقام لکھ رکھیں
پھر ہوس کو ہے حسرت ِ پرواز
آپ دانہ و دام لکھ رکھیں
ورنہ ہم اس کو بھول جائیں گے
سبز حرفوں میں نام لکھ رکھیں
جانے کس سمت کل ہوا لے جائے
لمحہ ٔ شاد کام لکھ رکھیں
اپنے ہونے کا کچھ یقیں کر لیں
ریت پر نقش و نام لکھ رکھیں
شب کو ٹھٹھریں گے سب در و دیوار
دُھوپ کچھ اپنے نام لکھ رکھیں
زردیاں اوڑھنے لگا سُورج
نامہ ٔ خوف ِ شام لکھ رکھیں
پیلے پیلے بدن،ہوا، موسم
پیلا پیلا تمام لکھ رکھیں
آنے والے اُداس نسلوں کے
سلسلہ وار نام لکھ رکھیں
---
قربتیں بڑھ گئی نگاہوں کی
اب حدیں ختم ہیں لباسوں کی
دھوپ روکے کھڑی ہے کس کے لئے
یہ سر ِ راہ قطار پیڑوں کی
اور پھیلے گا آگ کا دریا
اور جھلسے گی کھال چہروں کی
خودکشی کا سفر بھی سہل نہیں
بھیڑ سی ہے لگی سوالوں کی
کون خود میں سمو سکا ہے کبھی
وسعتیں لازوال لمحوں کی
کب سے دہرا رہا ہوں میں مضطرؔ
ایک فہرست چند ناموں کی
---
میں طائر ِ وجود یا برگ ِ خیال تھا
بس اس قدر ہے یاد کہ میں ڈال ڈال تھا
لمحوں میں مجھ کو بانٹ گیا کوئی کالا ہاتھ
ورنہ میں آپ اپنا طلوع و زوال تھا
چہرے کھلی کتابوں کی مانند تھے مگر
بے روشنائی لکھے کو پڑھنا محال تھا
مضطرؔ ہر آئینے میں تھا عکس ِ بہار بس
میں اپنی آرزو سے بہت پائمال تھا
---
مگر ان آنکھوں میں کس صبح کے حوالے تھے
ہمارے نام کے سارے حروف کالے تھے
یہ خاک و باد یہ ظلمات و نور و بحر و بر
کتاب ِ جاں میں یہ کس ذات کے حوالے تھے
ہے رنگ رنگ مگر آفتاب آئینہ
جبین ِ شب پہ تو لکھے سوال کالے تھے
مثال ِ برق گری ایک آن تیغ ہوا
ابھی دریچوں سے لوگوں نے سر نکالے تھے
یہاں جو آج شجر سایہ دار ہے مضطرؔ
یہیں  پہ ہم بھی کبھی برگ و بار والے تھے
---
نہ پانیوں کا اضطرار شہر میں
نہ موسموں کا اعتبار شہر میں
مثال ِ موجہ ٔ ہوا اِدھر ، اُدھر
رواں دواں ہے انتشار شہر میں
ہے شب گئے گھروں میں روشنی سی کیا
ہے سب کو کس کا انتظار شہر میں
ہر اک نگاہ، بے مقام بے جہت
ہر ایک جسم بے دیار شہر میں
ہر ایک رنگ آئینے پہ گرد سا!
ہر ایک نقش دل فگار شہر میں
خدا کے نام جھوٹ سچ کے سلسلے
خدا بہت ہے نامدار شہر میں
---
آنکھوں میں موج موج کوئی سوچنے لگا
پانی میں بے ثبات نگر ڈوبنے لگا
اک شاخ ِ رنگ ہات سے موسم کے چھٹ گئی
خالی بدن رگوں میں کوئی لوٹنے لگا
ہے اپنے درمیان کوئی فصل ِ ناروا
دہلیز پہ کھڑا میں کسے سوچنے لگا
وہ روزنِ خیال، صدا، سائیگی سماں
پھر حرف زہر زہر زباں گھولنے لگا
میں ایک برگ ِ خشک کبھی کا اسیر گرد
پھر کون ڈال ڈال مجھے ٹانکنے لگا
میں بولتا رہا تو کسے نے نہیں سُنا
میں چُپ ہوا تو سارا نگر گونجنے لگا
---
اپنی آنکھوں کے حصاروں سے نکل کر دیکھنا
تو کسی دن اپنے نہ ہونے کا منظر دیکھنا
اک عدم معلوم مدت سے میں تیری زد میں ہوں
خود کو لمحہ بھر مرا قیدی بنا کر دیکھنا
شام، گہرے پانیوں میں ڈوب کر ایک بار پھر
شہر کے موجود منظر کو پلٹ کر دیکھنا
دیکھنا پچھلے پہر خوابوں کی اک اندھی قطار
آسماں پر ٹوٹتے تاروں کا منظر دیکھنا
میرا اپنے آپ سے باہر بکھر جانا تمام
اور خزاں دیدہ پرندوں کا مرا گھر دیکھنا
رنگ اپنے آپ ہی سب کے سب زائل ہوئے
ہے عبث دیوار پر یہ نقش و پیکر دیکھنا
میں کہ خود مضطرؔ فصیل ِ جسم کے اُس پار ہوں
کیا بھنور کا خوف اب کیسا سمندر دیکھنا
---
ظفر اقبال اور بانیؔ کے نام

بدن کا رنگ لہو کا ہنر لکھا کس نے
سراپا برگ ِ حیا تر بہ تر لکھا کس نے
چرا گیا ہے سکون و ثبات خانہ کون
ہماری آنکھوں میں یہ رہگذر لکھا کس نے
کبھی جو پائوں میں زنجیر تھی تو کیسی تھی
یہ اب کے حکم سفر در سفر لکھا کس نے
زمیں پہ کون سپید و سیہ میں حائل ہے
فلک فضا میں یہ باآب زر لکھا کس نے
چمن چمن جو اُڑی ہے وہ خاک کیسی ہے
یہ دشت دشت شجر در شجر لکھا کس نے
یہ کیا ہوا کہ اُبھر آیا دُھند میں اک نقش
یہ لوح ِ برف پہ حرف ِ شرر لکھا کس نے
ابھی تو سر پہ کھلا آسمان روشن تھا
یہ ابر و باد پہ برق و شرر لکھا کس نے
یہ کون لوگ تھے اجلی حسیں نقابوں میں
یہ دست ِ سنگ کو آئینہ گر لکھا کس نے
کسی کے ہاتھ میں مشعل کسی کے ہاتھ میں خواب
جبین ِ گُل پہ ہوا کا خطر لکھا کس نے
---
نقش آخر آپ اپنا حادثہ ہو جائے گا
اور طے وہم و یقیں کا مرحلہ ہو جائے گا
گُونج اٹھیں گے درودیوار اپنے کرب سے
لفظ جو تشنہ ہے معنی آشنا ہو جائے گا
جسم بھی پگھلیں سائے بھی نہ ٹھہریں گے کہیں
جانے کب یہ سبز منظر بھی ہوا ہو جائے گا
لوگ سب اس کی کہانی جان لیں گے حرف حرف
اور وہ خوش پوش کھل کر بے رِدا ہو جائے گا
پیڑ اُگلیں گے سیاہی کا سمندر دیکھنا
موسم ِ خوش رنگ مضطرؔ زخم ِ پا ہو جائے گا
---
سوچ بھی اُس دن کو جب تُونے مجھے سوچا نہ تھا
کوئی دریا دشت کے اطراف میں بہتا نہ تھا
اُس کو کب فرصت تھی جو چہروں کو پڑھتا غور سے
ورنہ سطحِ آئینہ کا ہر ورق سادہ نہ تھا
جانے کیوں اب رات دن گھر میں پڑا رہتا ہے وہ
پہلے یوں خود میں کبھی سِمٹا ہوا رہتا نہ تھا
خوشبوئوں رنگوں کو پی لیتی ہے آکر زرد شام
پیڑ ہے اندیشہ ٔ انجام تو سوکھا نہ تھا
شاہراہوں سے گریزاں ہے مگر کچھ سوچ کر
عادتاً پہلے تو وہ پگڈنڈیاں چلتا نہ تھا
---
ہر نئے موڑ دھوپ کا صحرا
کارواںساز رہ گئے تنہا
سایہ ٔ شاخ ِ  گل سے نامانوس
وہ کوئی پالتو کبوتر تھا
وہ کوئی ریشمی لباس میں تھی
میں کوئی پھول تھا جو مُرجھایا
چاندنی چار دن بہت سوئی
پانچویں دن خمار ٹوٹ گیا
مچھلیاں خود فریب ہوتی ہیں
اک مچھیرے نہ تبصرہ لکھا
واپسی اب گھروںمیں ناممکن
دور تک بے گمان سناٹا
آسماں سوچ کر اُڑان بھری
چار سمتوں سے اک خلا اُبھرا
کشتیاں ساحلوں پہ ڈوب چلیں
وہ کھلے پانیوں میں کُود پڑا
روشنی کے حلیف بھگتیں گے
تیرگی کی جبین پر لکھا
---
یہ گرد ِ راہ، یہ ماحول، یہ دُھواں جیسے
ہوا کے رُخ پہ ہو تحریر داستاں جیسے
ہمارا ربط و تعلق ہے چند شاموں کا
شجر پہ طائر ِ موسم کا آشیاں جیسے
عجیب خوف سا ہے پتھروں کی زد پر ہوں
بدن ہواپنا کوئی کانچ کا مکاں جیسے
یہ آسمان و زمیں کو طلسم کب ٹُوٹے
ہر اک وجود معلق ہو درمیاں جیسے
لب و دہن سے کوئی کام ہی نہیں لیتا
ہر ایک بات ہے ناقابل ِ بیاں جیسے
---

نظمیں

مافیا

آئینہ آسمان روشن تر
روشنی سائبان کے باہر
آنکھ میں پیلے رنگ کی پرتیں
سائیگی سائبان کے اندر
سائیگی کا نشان کُبڑا پن
****
دیوار

رنگ، آواز،دُھوپ، سایہ،حرف!
عکس، اظہار، بے نوا، بربط
آسماں، آندھیاں، اندھیرا،آنکھ
سانس روکے کھڑی رہی دیوار
****
تعاقب

شب و روز
جانے مجھے کیوں یہ احساس ہے
کوئی میرے تعاقب میں بڑھتا چلا آرہا ہے
 میں کود ہی کہ ان بھاری قدموں کی آواز کے بوجھ
سے دب رہا ہوں
کہ میں اپنے ہی دست و باز میں اب لمحہ لمحہ سمٹنے لگا ہوں!
میں اب خود ہی میں ذرّہ ذرّرہ بکھرنے لگا ہوں!!
میں اب اپنی ہمسائیگی سے بھی ڈرنے لگا ہوں !!!
میں شاید! خود اپنی صدا کے تعاقب میں چلنے لگا ہوں
کہ
تشکیک اور لایقینی
کے دُھندلے مناظر لئے آنکھ میں
آپ اپنے لہو کے دہکتے جہنم میں
جلنے لگا ہوں!
مرے حافظے میں تعاقب کی کوئی بھیانک کہانی ہے
محفوظ شاید!!
****
اپنی آگ میں

میں.....!
برف سے ڈھکی چٹان سے پھسل پھسل گیا
(مچل گیا)
میں لمحہ لمحہ
اک جہنمی طلب میں مُبتلا
حد ِ نگاہ
دن کی کالی کھائی تک پھسل گیا
آفتاب
اپنی آگ کے ھصار میں پگھل گیا
دُعا کا ہاتھ جل گیا
****
نظم

اے سبک سادہ نشاں، پانی کی لہر
اے گُل ِ امکاں خبر موج ِ ہوا
میں....زیاں احساس قطرہ قطرہ رات
تو....سفر، ساکت سمندر، دائرہ
طائر ِ لاہوت کا نغمہ عدم
اک صلیب ِ شاخ پہ آنکھیں سزا
****
سبز آغاز سے سرخ انجام تک

الف سے آدمی!
الف سے آم ہے!!
دھوپ بے رنگ ہے
درد بے نام ہے!!

آنکھ کم کوش ہے!
آنکھ خاموش ہے!!

دُھوپ سے درد تک!
رنگ سے نام تک!!
سبز آغاز سے!
سرخ انجام تک!!
(صید سے دام تک)

ایک آواز ہے!
سلسلہ ،سلسلہ!!
ایک احساس ہے!
دائرہ دائرہ!!

دائرہ دائرہ!!
سلسلہ سلسلہ !!
ایک تو قید ہے!
ایک میں قید ہوں
ایک تو دام ہے!
ایک میں دام ہوں!
(ایک تو صید ہے
ایک میں صید ہوں)

صید سے دام تک!
رنگ سے نام تک!!
سبز آغاز سے!
سرخ انجام تک!
ایک آواز ہے!
ایک احساس ہے!
سلسلہ، سلسلہ!
دائرہ، دائرہ!!
****
لوگ خاموش تھے

سحر کے اُفق سے
دیر تک بارش ِ سنگ ہوتی رہی
اور شیشے کے سارے مکاں ڈھیر ہو کے رہے

دست و بازو کٹے
پائوں مجروح تھے
ذہن میں کرچیاں کُھب گئیں
اب کے چہرے پہ آنکھیں نہیں
زخم تھے

کس طرح جاگتے
کس لئے جاگتے
دیر تک یونہی سوتے رہے
لوگ کیا جانے کیا سوچ کر
مطمئن ہو گئے
لوگ خاموش تھے
****
نجات

آئینوں کے بھرے سمندر میں
اک اَنا جاگتا جزیزہ ہے
اور جزیرے میں یوں کھڑا ہوں میں
پانیوں میں بفیض ِ عکسِ تمام
ڈوبتا اور ابھرتا رہتا ہوں
ٹوٹتا اور بکھرتا رہتا ہوں
آئینوں کے بھرے سمندر میں
****
 
کتبہ

الججہنی، آشفتگی، آمادگی
رات بھر کالے سوالوں کے نگرمیں گھوم پھر کر
صبح اپنے آپ میں جو لوٹ آیا
ایک بوسیدہ عمارت کا کوئی کتبہ ہے وہ!
اور اب
یونہی اپنے آپ میں سمٹا ہوا رہتا ہے وہ!!
****
شہر کی آنکھوں میں

میں پہاڑوں سے اتر آیا
تو
مجھ پر یہ کھلا
اب پلٹ جانے کی خواہش ہے فضول!
سارے رستے بند ہیں
شہر کی آنکھوں میں اک پیغام ہے میرے لئے
****
موسم

اپنی آنکھیں بند کر لیں
اپنے ذہنوں کے دریچے بند کر لیں
ہونٹ سی لیں
ورنہ!
ہم سب!
زرد پیڑوں سے چپک جائیں گے پتوں کی طرح
****
شہر

(انتظار حسین کی نذر)
شہر، آسودہ ذہنوں کی آماجگاہ ہے
تو پھر صاحبو!
کیوں؟درختوں کو کٹوا دیا
اور
ان کی جگہ
آج، ہر سمت
ویران،خالی عمارات کے سلسلے ہیں فقط!
****
اندھا سفر

جانے کب سے یونہی جسموں کے خرابوں میں
آوارہ یہ لوگ!
چہرہ چہرہ....گردگرد!!
دست و پا....درماندگی!!
جانے کب تک لوگ چلتے رہیں گے
اپنے کاندھوں پر لئے ان دیکھا بوجھ
****
 

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *