فاروق مضطرکا سن پیدائش1954ہے۔آپ اسعدؔ بدایونی، زیبؔ غوری،بانیؔ،عرفان صدیقی،بمل کرشن اشکؔ،شہریارؔ،عادل منصوری،محمد علوی،پرتپال سنگھ بیتاب وغیرہ جیسے ممتاز ہندوستانی غزل گو شعرا کے ہم عصر ہیں۔ مضطرؔ شمس الرحمٰن فاروقی کی جدیدیت کی تحریک سے متاثر اور’’ شب خون‘‘ سے وابستہ رہے۔ستر کی دہائی میں ایک طرف جہاں جدید غزل کے نامور شاعر ظفر اقبال کی غزل غیرمعمولی شہرت حاصل کر رہی تھی وہیں مضطرؔ تواتر سے ’’ شب خون‘‘ سمیت برصغیر کے اہم پرچوں میں چھپتے رہے۔انہوں نے اس وقت’’ دھنک‘‘ نام سے جموں کشمیر سے ایک انتہائی معیاری پرچہ بھی نکالا جس کے کئی شمارے آج بھی دستاویزی اہمیت رکھتے ہیں۔مضطرؔ نے بہت کم شاعری کی کیونکہ وہ جلد ہی مولانا وحید الدین خاں کی اسلامی نظریاتی تحریک سے وابستہ ہوئے اور عملی طور پر تعلیمی شعبہ میں بیش بہا خدمات انجام دیں، جو جاری ہیں۔فاروق مضطرؔ نے ظفر اقبال کی طرح تجربات کو اپنایا تاہم زبان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے گریز کیا۔ظفرا قبال کی غزل کا رنگ وآہنگ ہندوستان میں’’شب خون‘‘ کے توسط سے سب کے سر پر جادو بن کر چڑھا لیکن مضطرؔ اپنا سفر جاری نہ رکھ سکے۔سخن وری سے دستکش ہوئے لیکن تحقیق،جستجو، مشاہدہ اور شعرو ادب سے عشق آج بھی جس کا تس موجود ہے۔ان کی غزلیں اور نظمیں جو فی الوقت دستیاب ہو سکی ہیں پیش کی جا رہی ہیں۔(خالد کرار)
غزلیں
یُوں
حجرہ ٔ خیال میں بیٹھا ہوا ہوں میں
گویا
مرا وجود نہیں واہمہ ہوں میں
پھیلا
ہے جب سے گھر میں سمندر سکوت کا
بے
چارگی کی چھت پہ کھڑا چیختا ہوں میں
دیکھو
مری جبیں پہ مرے عہد کے نقوش
رکھو
مجھے سنبھال کے اِک آئینہ ہوں میں
اب
تک شب ِ قیام کا اک سلسلہ بھی تھا
اب
آفتاب بن کے سفر پر چلا ہوں میں
خود
سے تو روشناس ابھی تک نہ ہو سکا
یہ
اتفاق ہے کہ جو تم سے ملا ہوں میں
---
صلیب
ِ موجہ ٔ آب و ہوا پہ لکھا ہوں
ازل
سے تا بہ ابد حرف حرف بکھرا ہوں
وجودِ
وہم مرا ہمسفر رہا دن بھر
فصیل
ِ شام سے دیکھا تو سایہ سایہ ہوں
سمیٹ
لے گے کسی دن نگاہ موسم کی
شجر
شجر پہ ابھی اپنا نام لکھتا ہوں
چہار
سمت گھرا ہوں میں پانیوں میں یہاں
مرا
یہ کرب کہ اک ڈوبتا جزیزہ ہوں
ہوا
کے ساتھ کہاں تک اُڑان بھرتا ہوں
حدود
ِ جسم میں اک پر کٹا پرندہ ہوں
---
شفق
شب سے ابھرتا ہوا سُورج سوچیں
برف
تہہ سے کوئی چشمہ اُبلتا دیکھیں
تیری
آنکھ کو بھی پشت پہ چپکا دیکھیں
سطح
ِ آب پہ ہم نقش ِ کف ِ پا ڈھونڈیں
روشنی،
دُھوپ ،ہوا مل کے کیا سب نے نڈھال
اب
تمنا ہے کسی اندھے کنویں میں بھٹکیں
جلتے
بجھتے ہوئے اس شہر پہ کیا کچھ لکھا
آج
سب لکھا ہوا آنکھ پہ لاکر رکھ دیں
جانے
کیوں ڈوبتا رہتا ہوں میں اپنے اندر
جانے
کیوں سوجھتی رہتی ہیں یہ اُلٹی باتیں
چھین
لیں اپنی مروّت کا یہ زینہ گر ہم
آج
مضطرؔ اسے آکاش سے گرتا دیکھیں
---
اُجلے
ماتھے پہ نام لکھ رکھیں
خواہشوں
کا مقام لکھ رکھیں
پھر
ہوس کو ہے حسرت ِ پرواز
آپ
دانہ و دام لکھ رکھیں
ورنہ
ہم اس کو بھول جائیں گے
سبز
حرفوں میں نام لکھ رکھیں
جانے
کس سمت کل ہوا لے جائے
لمحہ
ٔ شاد کام لکھ رکھیں
اپنے
ہونے کا کچھ یقیں کر لیں
ریت
پر نقش و نام لکھ رکھیں
شب
کو ٹھٹھریں گے سب در و دیوار
دُھوپ
کچھ اپنے نام لکھ رکھیں
زردیاں
اوڑھنے لگا سُورج
نامہ
ٔ خوف ِ شام لکھ رکھیں
پیلے
پیلے بدن،ہوا، موسم
پیلا
پیلا تمام لکھ رکھیں
آنے
والے اُداس نسلوں کے
سلسلہ
وار نام لکھ رکھیں
---
قربتیں
بڑھ گئی نگاہوں کی
اب
حدیں ختم ہیں لباسوں کی
دھوپ
روکے کھڑی ہے کس کے لئے
یہ
سر ِ راہ قطار پیڑوں کی
اور
پھیلے گا آگ کا دریا
اور
جھلسے گی کھال چہروں کی
خودکشی
کا سفر بھی سہل نہیں
بھیڑ
سی ہے لگی سوالوں کی
کون
خود میں سمو سکا ہے کبھی
وسعتیں
لازوال لمحوں کی
کب
سے دہرا رہا ہوں میں مضطرؔ
ایک
فہرست چند ناموں کی
---
میں
طائر ِ وجود یا برگ ِ خیال تھا
بس
اس قدر ہے یاد کہ میں ڈال ڈال تھا
لمحوں
میں مجھ کو بانٹ گیا کوئی کالا ہاتھ
ورنہ
میں آپ اپنا طلوع و زوال تھا
چہرے
کھلی کتابوں کی مانند تھے مگر
بے
روشنائی لکھے کو پڑھنا محال تھا
مضطرؔ
ہر آئینے میں تھا عکس ِ بہار بس
میں
اپنی آرزو سے بہت پائمال تھا
---
مگر
ان آنکھوں میں کس صبح کے حوالے تھے
ہمارے
نام کے سارے حروف کالے تھے
یہ
خاک و باد یہ ظلمات و نور و بحر و بر
کتاب
ِ جاں میں یہ کس ذات کے حوالے تھے
ہے
رنگ رنگ مگر آفتاب آئینہ
جبین
ِ شب پہ تو لکھے سوال کالے تھے
مثال
ِ برق گری ایک آن تیغ ہوا
ابھی
دریچوں سے لوگوں نے سر نکالے تھے
یہاں
جو آج شجر سایہ دار ہے مضطرؔ
یہیں پہ ہم بھی کبھی برگ و بار والے تھے
---
نہ
پانیوں کا اضطرار شہر میں
نہ
موسموں کا اعتبار شہر میں
مثال
ِ موجہ ٔ ہوا اِدھر ، اُدھر
رواں
دواں ہے انتشار شہر میں
ہے
شب گئے گھروں میں روشنی سی کیا
ہے
سب کو کس کا انتظار شہر میں
ہر
اک نگاہ، بے مقام بے جہت
ہر
ایک جسم بے دیار شہر میں
ہر
ایک رنگ آئینے پہ گرد سا!
ہر
ایک نقش دل فگار شہر میں
خدا
کے نام جھوٹ سچ کے سلسلے
خدا
بہت ہے نامدار شہر میں
---
آنکھوں
میں موج موج کوئی سوچنے لگا
پانی
میں بے ثبات نگر ڈوبنے لگا
اک
شاخ ِ رنگ ہات سے موسم کے چھٹ گئی
خالی
بدن رگوں میں کوئی لوٹنے لگا
ہے
اپنے درمیان کوئی فصل ِ ناروا
دہلیز
پہ کھڑا میں کسے سوچنے لگا
وہ
روزنِ خیال، صدا، سائیگی سماں
پھر
حرف زہر زہر زباں گھولنے لگا
میں
ایک برگ ِ خشک کبھی کا اسیر گرد
پھر
کون ڈال ڈال مجھے ٹانکنے لگا
میں
بولتا رہا تو کسے نے نہیں سُنا
میں
چُپ ہوا تو سارا نگر گونجنے لگا
---
اپنی
آنکھوں کے حصاروں سے نکل کر دیکھنا
تو
کسی دن اپنے نہ ہونے کا منظر دیکھنا
اک
عدم معلوم مدت سے میں تیری زد میں ہوں
خود
کو لمحہ بھر مرا قیدی بنا کر دیکھنا
شام،
گہرے پانیوں میں ڈوب کر ایک بار پھر
شہر
کے موجود منظر کو پلٹ کر دیکھنا
دیکھنا
پچھلے پہر خوابوں کی اک اندھی قطار
آسماں
پر ٹوٹتے تاروں کا منظر دیکھنا
میرا
اپنے آپ سے باہر بکھر جانا تمام
اور
خزاں دیدہ پرندوں کا مرا گھر دیکھنا
رنگ
اپنے آپ ہی سب کے سب زائل ہوئے
ہے
عبث دیوار پر یہ نقش و پیکر دیکھنا
میں
کہ خود مضطرؔ فصیل ِ جسم کے اُس پار ہوں
کیا
بھنور کا خوف اب کیسا سمندر دیکھنا
---
ظفر
اقبال اور بانیؔ کے نام
بدن
کا رنگ لہو کا ہنر لکھا کس نے
سراپا
برگ ِ حیا تر بہ تر لکھا کس نے
چرا
گیا ہے سکون و ثبات خانہ کون
ہماری
آنکھوں میں یہ رہگذر لکھا کس نے
کبھی
جو پائوں میں زنجیر تھی تو کیسی تھی
یہ
اب کے حکم سفر در سفر لکھا کس نے
زمیں
پہ کون سپید و سیہ میں حائل ہے
فلک
فضا میں یہ باآب زر لکھا کس نے
چمن
چمن جو اُڑی ہے وہ خاک کیسی ہے
یہ
دشت دشت شجر در شجر لکھا کس نے
یہ
کیا ہوا کہ اُبھر آیا دُھند میں اک نقش
یہ
لوح ِ برف پہ حرف ِ شرر لکھا کس نے
ابھی
تو سر پہ کھلا آسمان روشن تھا
یہ
ابر و باد پہ برق و شرر لکھا کس نے
یہ
کون لوگ تھے اجلی حسیں نقابوں میں
یہ
دست ِ سنگ کو آئینہ گر لکھا کس نے
کسی
کے ہاتھ میں مشعل کسی کے ہاتھ میں خواب
جبین
ِ گُل پہ ہوا کا خطر لکھا کس نے
---
نقش
آخر آپ اپنا حادثہ ہو جائے گا
اور
طے وہم و یقیں کا مرحلہ ہو جائے گا
گُونج
اٹھیں گے درودیوار اپنے کرب سے
لفظ
جو تشنہ ہے معنی آشنا ہو جائے گا
جسم
بھی پگھلیں سائے بھی نہ ٹھہریں گے کہیں
جانے
کب یہ سبز منظر بھی ہوا ہو جائے گا
لوگ
سب اس کی کہانی جان لیں گے حرف حرف
اور
وہ خوش پوش کھل کر بے رِدا ہو جائے گا
پیڑ
اُگلیں گے سیاہی کا سمندر دیکھنا
موسم
ِ خوش رنگ مضطرؔ زخم ِ پا ہو جائے گا
---
سوچ
بھی اُس دن کو جب تُونے مجھے سوچا نہ تھا
کوئی
دریا دشت کے اطراف میں بہتا نہ تھا
اُس
کو کب فرصت تھی جو چہروں کو پڑھتا غور سے
ورنہ
سطحِ آئینہ کا ہر ورق سادہ نہ تھا
جانے
کیوں اب رات دن گھر میں پڑا رہتا ہے وہ
پہلے
یوں خود میں کبھی سِمٹا ہوا رہتا نہ تھا
خوشبوئوں
رنگوں کو پی لیتی ہے آکر زرد شام
پیڑ
ہے اندیشہ ٔ انجام تو سوکھا نہ تھا
شاہراہوں
سے گریزاں ہے مگر کچھ سوچ کر
عادتاً
پہلے تو وہ پگڈنڈیاں چلتا نہ تھا
---
ہر
نئے موڑ دھوپ کا صحرا
کارواںساز
رہ گئے تنہا
سایہ
ٔ شاخ ِ گل سے نامانوس
وہ
کوئی پالتو کبوتر تھا
وہ
کوئی ریشمی لباس میں تھی
میں
کوئی پھول تھا جو مُرجھایا
چاندنی
چار دن بہت سوئی
پانچویں
دن خمار ٹوٹ گیا
مچھلیاں
خود فریب ہوتی ہیں
اک
مچھیرے نہ تبصرہ لکھا
واپسی
اب گھروںمیں ناممکن
دور
تک بے گمان سناٹا
آسماں
سوچ کر اُڑان بھری
چار
سمتوں سے اک خلا اُبھرا
کشتیاں
ساحلوں پہ ڈوب چلیں
وہ
کھلے پانیوں میں کُود پڑا
روشنی
کے حلیف بھگتیں گے
تیرگی
کی جبین پر لکھا
---
یہ
گرد ِ راہ، یہ ماحول، یہ دُھواں جیسے
ہوا
کے رُخ پہ ہو تحریر داستاں جیسے
ہمارا
ربط و تعلق ہے چند شاموں کا
شجر
پہ طائر ِ موسم کا آشیاں جیسے
عجیب
خوف سا ہے پتھروں کی زد پر ہوں
بدن
ہواپنا کوئی کانچ کا مکاں جیسے
یہ
آسمان و زمیں کو طلسم کب ٹُوٹے
ہر
اک وجود معلق ہو درمیاں جیسے
لب
و دہن سے کوئی کام ہی نہیں لیتا
ہر
ایک بات ہے ناقابل ِ بیاں جیسے
---
نظمیں
مافیا
آئینہ
آسمان روشن تر
روشنی
سائبان کے باہر
آنکھ
میں پیلے رنگ کی پرتیں
سائیگی
سائبان کے اندر
سائیگی
کا نشان کُبڑا پن
****
دیوار
رنگ،
آواز،دُھوپ، سایہ،حرف!
عکس،
اظہار، بے نوا، بربط
آسماں،
آندھیاں، اندھیرا،آنکھ
سانس
روکے کھڑی رہی دیوار
****
تعاقب
شب
و روز
جانے
مجھے کیوں یہ احساس ہے
کوئی
میرے تعاقب میں بڑھتا چلا آرہا ہے
میں کود ہی کہ ان بھاری قدموں کی آواز کے بوجھ
سے
دب رہا ہوں
کہ
میں اپنے ہی دست و باز میں اب لمحہ لمحہ سمٹنے لگا ہوں!
میں
اب خود ہی میں ذرّہ ذرّرہ بکھرنے لگا ہوں!!
میں
اب اپنی ہمسائیگی سے بھی ڈرنے لگا ہوں !!!
میں
شاید! خود اپنی صدا کے تعاقب میں چلنے لگا ہوں
کہ
تشکیک
اور لایقینی
کے
دُھندلے مناظر لئے آنکھ میں
آپ
اپنے لہو کے دہکتے جہنم میں
جلنے
لگا ہوں!
مرے
حافظے میں تعاقب کی کوئی بھیانک کہانی ہے
محفوظ
شاید!!
****
اپنی
آگ میں
میں.....!
برف
سے ڈھکی چٹان سے پھسل پھسل گیا
(مچل گیا)
میں
لمحہ لمحہ
اک
جہنمی طلب میں مُبتلا
حد
ِ نگاہ
دن
کی کالی کھائی تک پھسل گیا
آفتاب
اپنی
آگ کے ھصار میں پگھل گیا
دُعا
کا ہاتھ جل گیا
****
نظم
اے
سبک سادہ نشاں، پانی کی لہر
اے
گُل ِ امکاں خبر موج ِ ہوا
میں....زیاں
احساس قطرہ قطرہ رات
تو....سفر،
ساکت سمندر، دائرہ
طائر
ِ لاہوت کا نغمہ عدم
اک
صلیب ِ شاخ پہ آنکھیں سزا
****
سبز
آغاز سے سرخ انجام تک
الف
سے آدمی!
الف
سے آم ہے!!
دھوپ
بے رنگ ہے
درد
بے نام ہے!!
آنکھ
کم کوش ہے!
آنکھ
خاموش ہے!!
دُھوپ
سے درد تک!
رنگ
سے نام تک!!
سبز
آغاز سے!
سرخ
انجام تک!!
(صید سے دام تک)
ایک
آواز ہے!
سلسلہ
،سلسلہ!!
ایک
احساس ہے!
دائرہ
دائرہ!!
دائرہ
دائرہ!!
سلسلہ
سلسلہ !!
ایک
تو قید ہے!
ایک
میں قید ہوں
ایک
تو دام ہے!
ایک
میں دام ہوں!
(ایک تو صید ہے
ایک
میں صید ہوں)
صید
سے دام تک!
رنگ
سے نام تک!!
سبز
آغاز سے!
سرخ
انجام تک!
ایک
آواز ہے!
ایک
احساس ہے!
سلسلہ،
سلسلہ!
دائرہ،
دائرہ!!
****
لوگ
خاموش تھے
سحر
کے اُفق سے
دیر
تک بارش ِ سنگ ہوتی رہی
اور
شیشے کے سارے مکاں ڈھیر ہو کے رہے
دست
و بازو کٹے
پائوں
مجروح تھے
ذہن
میں کرچیاں کُھب گئیں
اب
کے چہرے پہ آنکھیں نہیں
زخم
تھے
کس
طرح جاگتے
کس
لئے جاگتے
دیر
تک یونہی سوتے رہے
لوگ
کیا جانے کیا سوچ کر
مطمئن
ہو گئے
لوگ
خاموش تھے
****
نجات
آئینوں
کے بھرے سمندر میں
اک
اَنا جاگتا جزیزہ ہے
اور
جزیرے میں یوں کھڑا ہوں میں
پانیوں
میں بفیض ِ عکسِ تمام
ڈوبتا
اور ابھرتا رہتا ہوں
ٹوٹتا
اور بکھرتا رہتا ہوں
آئینوں
کے بھرے سمندر میں
****
کتبہ
الججہنی،
آشفتگی، آمادگی
رات
بھر کالے سوالوں کے نگرمیں گھوم پھر کر
صبح
اپنے آپ میں جو لوٹ آیا
ایک
بوسیدہ عمارت کا کوئی کتبہ ہے وہ!
اور
اب
یونہی
اپنے آپ میں سمٹا ہوا رہتا ہے وہ!!
****
شہر
کی آنکھوں میں
میں
پہاڑوں سے اتر آیا
تو
مجھ
پر یہ کھلا
اب
پلٹ جانے کی خواہش ہے فضول!
سارے
رستے بند ہیں
شہر
کی آنکھوں میں اک پیغام ہے میرے لئے
****
موسم
اپنی
آنکھیں بند کر لیں
اپنے
ذہنوں کے دریچے بند کر لیں
ہونٹ
سی لیں
ورنہ!
ہم
سب!
زرد
پیڑوں سے چپک جائیں گے پتوں کی طرح
****
شہر
(انتظار حسین کی نذر)
شہر،
آسودہ ذہنوں کی آماجگاہ ہے
تو
پھر صاحبو!
کیوں؟درختوں
کو کٹوا دیا
اور
ان
کی جگہ
آج،
ہر سمت
ویران،خالی
عمارات کے سلسلے ہیں فقط!
****
اندھا
سفر
جانے
کب سے یونہی جسموں کے خرابوں میں
آوارہ
یہ لوگ!
چہرہ
چہرہ....گردگرد!!
دست
و پا....درماندگی!!
جانے
کب تک لوگ چلتے رہیں گے
اپنے
کاندھوں پر لئے ان دیکھا بوجھ
****
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں