جمعرات، 8 دسمبر، 2016

صبح کی سرخی/جوزف میگنس وینر

جوزف میگنس وینر(14نومبر1891-14دسمبر1973) جرمنی کے افسانہ نگار، شاعر اور ڈرامہ نگار تھے۔وہ اڈولف ہٹلر کے ان وفادار ترین پیروکار قلمکاروں میں شامل تھے۔جنہوں نے زندگی بھر نازی جرمنی سے اپنی وفاداری کے ایک معاہدے کو منظور کیا تھا۔صبح کی سرخی، دراصل میری درخواست پر معروف قلم کارو ترجمہ نگار عاصم بخشی نے انگریزی سے ترجمہ کی ہے۔یہ کہانی پہلی اور دوسری جنگ عظیم سے تعلق رکھنے والی کہانیوں کے ایک انتخاب سے چنی گئی ہے، جس کا تعلق پہلی جنگ عظیم کے پس منظر سے ہے۔حالانکہ کہانی میں جرمنی –بلغاریہ ملٹری اتحادکے سیاق سے افسانہ نگار کی ان ممالک سے محبت اور ملٹری کی وہ حمایت نظر آتی ہے، جس پر وینر کو ان کے زمانے اور بعد کے ناقدین نے نشانہ بنایا تھا لیکن اس میں ایک ایسا پہلو بھی موجود ہے، جو فاشزم اور نیشنلزم کی بنیاد پر پیداہونے، پنپنے اور برباد ہونے والی ایک سیاسی پارٹی کے وفادار شخص کو بھی جنگ کا ایک ایسا مایوس اور تباہ کن منظر دکھانے سے نہ روک سکا جس کے جلو میں سوائے لہو کی گاڑھی گرج کے اور کچھ بھی دکھائی یا سنائی نہیں پڑتا۔میں چاہتا ہوں کہ ان انتخابات کے علاوہ بھی جنگ پر جو بہترین کہانیاں لکھی گئی ہیں، ان کو ایک انتخاب میں شامل کرکے لوگوں کو پڑھوایا جائے تاکہ وہ سمجھیں کہ جنگ سوائے حسرت و یاس کے علاوہ اور کوئی دوسرا منظر اپنے پیچھے نہیں چھوڑ جاتی۔میں عاصم بخشی کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری درخواست کو قبول کیا اور اس طرح یہ کہانی ادبی دنیا کے ذریعے آپ لوگوں تک پہنچ سکی۔(تصنیف حیدر)

یہ میرے دوست ایوان ساووف کی کہانی ہے جو بلغاری فوج کی تھرڈ بٹالین میں ایک سینئرماتحت افسر تھا اور میری نگاہوں کے سامنے سرویائی سلسلۂ کوہ میں ایبار اور موراوا کے درمیان قائم کردہ محاذ پر کام آیا۔جنگِ عظیم کے دوسرے سال کے اواخرِ خزاں میں میری سالگرہ سے اگلے روز کا قصہ ہے کہ میں سفیدے کے دو مُردہ درختوں کے بیچ جھاڑیوں میں اپنی سالگرہ کی خوشی منا رہا تھا۔ کیمپ کے جلتے الاؤ اور اُن کے بھڑکتے شعلوں میں سرمئی آسمان سے کبھی کبھار گرتے اکا دکا برف کے گالے مکمل تنہائی کے احساس کو مزید گہرا کر رہے تھے۔یاد پڑتا ہے کہ یہ منظر مجھے اچانک ذرا مزاحیہ سا لگا تھا۔ کسی معرکے سے ایک دن قبل محاذ پر سرگرم ایک سپاہی کے لئے صرف چوبیس برس قبل پیدا ہونے کا واقعہ آخر کیا اہمیت رکھتا تھا؟ پھر بھی موت کا خیال اتنا ہی لغو تھا۔ بھلا کوئی اپنی سالگرہ سے ایک دن پہلے بھی مرتا ہے! لہذا میں نے خود کو لمبے کوٹ میں مزید سختی سے لپیٹتے ہوئے جھنڈ کی آڑ میں پناہ لی اور مانوس درختوں کی بل کھاتی ننگی شاخوں کے بیچ سے جھانکتے آسمان پر چمکتے ہوئے ستاروں کو دیکھنے لگا۔
صبح تین بجے الارم بج گیا۔ بویریائی دستے کی فرسٹ انفنٹری بٹالین نے حملہ کرنا تھا۔ نیند میں گیلے جھنڈ سے باہر سرک رہا تھا کہ میں نے ایوان ساووف کو ایلپائن کور کے سٹاف افسروں کے ہمراہ گزرتے دیکھا۔ اس کے ہاتھ میں جی ایچ کیو کا ایک نقشہ تھا اور وہ شمال کی جانب اشارہ کر رہا تھا۔میں چھلانگ مار کر اس کی جانب بڑھتے ہوئے یہ کہنے ہی والاتھا کہ ’’ایوان ساووف، کیا میں تمہیں یاد ہوں؟ کیا جینا یاد نہیں، جب ہم ملے تھے؟ میں جانتا ہوں تم افسر ہو اور میں صرف ایک سپاہی لیکن مجھے آگے بڑھ کر ہاتھ تو ملانا ہی چاہئے۔‘‘دوسرے افسر شاید چونک کر پیچھے ہٹ جاتے کیوں کہ دو دستوں کے لئے کئی سالوں کی جدائی کے بعد کسی معرکے کی صبح ملنا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔
لیکن میں ان دو درختوں کے درمیان سے باہر نہ نکلا۔وہیں دونوں گیلے تنوں کو ہاتھوں سے دبائے کھڑا رہا۔ میں سپاہی تھا اور آخر انتظار کرنا تو سیکھ ہی چکا تھا۔ایوان ساووف دوسروں کے ہمراہ دھند میں غائب ہو گیااور بٹالین آگے بڑھ گئی۔
لیکن صبح کی پہلی کرنوںمیں بے گیاہ اونچائیوں پر بکھری ہوئی پست قامت جھاڑیوں کے منور ہوتے سمے، جب وہ سرمئی سپاہی ایک بھوری ندی کو پار کرتے ہوئے ایک اجاڑ تنگنائے میں نیچے اتر رہے تھے تو مجھے ایک بار پھر ایوان ساووف کا خیال آیا۔
جینا کی و ہ پُرکیف راتیں میرے ذہن میں نہیں تھیں جب ہم بادۂ احمر سے لطف اٹھاتے، ملی ترانے گنگناتے ، ایک دوسرے سے بغل گیر، فلسفہ آمیز گپ شپ لگاتے آس پاس کے مطمئن شہری راہگیروں کے اضطراب کا باعث بن رہے تھے۔ نہیں ، میں اس فولادی نیلے بالوں، زیتونی چہرے پر اکڑی ہوئی پلکوں اور مضبوط مخروطی ہاتھوں والے نوجوان بلغاری مصور کے بارے میں بھی نہیں سوچ رہا تھا۔ ہمارے ان دوسرے رفیقوں کے نزدیک جن کے ساتھ ہم آسمان پر تاروں کے مدھم ہو جانے اور پرندوں کے گیت چھیڑنے تک ہم رقص رہتے، وہ کام میں صبح شام ایک کر دینے والا ایک خوش مزاج بانکا تھا جو سارا دن تو زایس اور شاٹ کی فیکٹریوں میں دو پیسے کمانے کے لئے اپنی تکنیکی تصویروں کے ساتھ مشغول رہتا اور رات کا پہر دو پہر بس نیند کے حملوں سے نبرد آزما رہنے میں گزار دیتا۔ میرے ذہن میں تو وہ خوش نصیب لمحہ تھا جب مجھے اس کا دوسرا روپ دیکھنے کا موقع ملا۔
ایک دن وہ مجھے اپنی مخصوص گوشۂ تنہائی میں لے گیا، ایک مخدوش سا چوبارہ جہاں ساری جگہ بس پلنگ ، میز، کرسی اور نقاش تپائی نے ہی گھیر رکھی تھی۔میری طرف بے توجہی سے ایک ایسی خاکہ کشی کی کتاب پھینکنے کے بعد جو بس عام سے فطری مناظر،انسانی شبیہوں اور عمارتوں پر مشتمل تھی، اس نے ایک پردہ سرکایا جس کے پیچھے چنی ہوئی سفید دیوار پر ایک بہت بڑا کینوس نظر آ رہا تھا۔میری آنکھوں کے سامنے اس کی زندگی کی محنت تھی، بلاشبہ وہ خود کو جتنا بھی صرف کر سکتا تھا۔ نوکیلے پہاڑوں کے خدوخال کے عقب میں موجود ایک سرخ آسمان کے مقابل دو پہلوان اپنی آخری سانس تک کشتی میں مشغول تھے۔ دیومالائی قوت و جسامت والے دو برہنہ آدمی جو گنبد افلاک کو اپنے شعلہ آگیں غیظ و غضب سے بھڑکائے دے رہے تھے۔زمین اپنی آب و تاب میں آسمان کو چُھو رہی تھی اور لڑنے والوں کے اعضاء ایک ایسے کرّے پر پھیل رہے تھے جو محور سے کٹ کر دو حصوں میں جدا ہوتا محسوس ہوتا تھا۔ اب یاد آتا ہے کہ اس منظر نے مجھے کتنا متاثر کیا تھا لیکن ایوان ساووف بول پڑا: ’’جوسن یہ سب کچھ غلط ہے! یہ سرخ رنگ شعلہ آتشیں ہونا چاہئے، صبح کی سرخی ۔۔۔‘‘
صرف میں ہی جانتا ہوں کہ ساووف نے اس رنگ کے لئے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے۔ اُس کی اذیت آسیبی تھی، غیرمعقول اور ناامید کر دینے والی۔ وہ اپنے حقیر سے تختۂ مصوری سے اس قسم کا سرخ رنگ تخلیق نہیں کر سکتا تھا اور باالآخر ایک دن اس نے مجھے کہہ ہی دیا کہ وہ اپنے وطن بلغاریہ میں ایک اور طلوعِ سحر دیکھے بغیر اس تصویر کو مزید ہاتھ نہیں لگا پائے گا۔ انہی گرمیوں میں جنگ شروع ہو گئی ۔میں نے خود کو اپنے دوست اور اُس کی اُس نامکمل تصویر سے جدا کیا جو یک لخت تقدیر کی لکھی ایک زمانی علامت میں ڈھل چکی تھی ۔۔۔او راب۔۔۔
چار دن بعد اُس سے دوبارہ ملا قات یوں ہوئی کہ میں ایک سرویائی گاؤں کے آگے نصب حفاظتی چوکی پر کھڑا تھا جب دو بلغاری افسران اپنے گھوڑوں پر سامنے سے آتے دکھائی دئیے۔ وہ ایک دوسرے کے پہلو میں سست رفتار دُلکی چال سے ہم رکاب تھے اور ایک کا بازو دوسرے کے کاندھوں پر تھا۔ ان کے سامنے سے گزرنے کے بعد ہی میں نے ایوان ساووف کو پہچانا۔ اسی صبح جب ہم ایک نامعلوم منزل یعنی آمسل کے معرکے کے لئے نکل رہے تھے تو میں نے اسے دوبارہ دیکھا لیکن کچھ نہیں بولا۔
پیش قدمی کا نقارہ بجتے ہی میرا دل بلیّوں اچھلنے لگا۔ ہم ایک پہاڑی کی چوٹی پر قبضہ کر چکے تھے اور ہمارے مقابل وادی کی دوسری جانب سرویائی تھے۔ سنگینیں چڑھاتے ہوئے دشمن کی گامزن گولیاں پرندوں کی طرح ہمارے اوپر سے گزر رہی تھیں کہ اچانک کمان دار کا حکم ہمارے کانوں میں گونجا،’’حملہ!‘‘۔ چلّاتے ہوئے حملے کے لئے بڑھے تو سیٹیاں بجاتی گولیاں ہمارے آس پاس سے گزر رہی تھیں۔ پہاڑوں کے نام کون جانتا تھا، بس اتنا ہی معلوم تھا کہ بلغاریہ اور مقدونیہ ہمارے بائیں جانب ہیں، مونٹی نیگرو دائیں اور دشمن شمال کی سمت میں ہے۔ مکئی کے ایک کھیت کو چیرتے، بھوسے اور جھاڑیوں کو قدموں تلے روندتے ہوئے ایک وادی سے گزرنے کے بعد اب ہم ایک چڑھائی چڑھ رہے تھے۔ اسی اثناء میں سرویائی ٹوپیوں والے دو جوانوں نے ہینڈ گرینیڈ پھینکے جن میں سے ایک ہمارے ایک ساتھی کو لگا ، لیکن بہرحال ہم نے پہاڑی پر قابض ہوتے ہوئے سرویائی جوانوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ آگے بڑھتے ہوئے لگاتار فائرنگ جاری تھی ، زمین مسلسل لرز رہی تھی اور ہم لڑکھڑاتے ہوئے خالی مورچوں کے درمیان سے گزر رہے تھے۔ایک جوان رک کر روٹی یا تمباکو کی تلاش میں ایک مردہ سرویائی کا رسدی تھیلا علیحدہ کرنے لگا۔ آخر کار ہم دوسری پہاڑی تک پہنچ گئے جہاں بھورے سبز سرویائیوں کا ایک لشکر ڈھلوان سے چپکا نظر آ ر ہاتھا۔ اسی جگہ دشمن سے تقریباً تین سو گز پہلے ہمارا رستہ ایک پتھریلی دیوار نے روکا۔حکم ملا کہ اس کے سامنے پوزیشن لیتے ہوئے فائرنگ جاری رکھیں۔دشمن بے تحاشہ فائر کر رہا تھا ، گولیوں کی بوچھاڑ پتھروں کو توڑ رہی تھی اور ہمارے قدموں تلے موجود خود رو جھاڑیوں کے چیتھڑے اڑا رہی تھی۔ ایک دفعہ پھر حملے کا حکم ملا تو ہم ایک وحشیانہ مسرت کے ساتھ جست لگا کر آگے بڑھے۔ سرویائی قطاریں افراتفری کا شکار ہو کر ٹوٹ گئیں،باریش اجنبی چہرے اپنی ٹوٹی پھوٹی ناکارہ بندوقوں کے ساتھ ہمارے ارد گرد موجود تھے۔ نقل و حمل دستے کے سپاہیوں نے قیدیوں کو نرغے میں لے لیا جب کہ ہم فرار ہوتے دشمن کے تعاقب میں دریا تک جا پہنچے۔
اس دن ہم نے سات پہاڑیوں پر پیش قدمی کی۔ ساعتیں شمار کرنے کا موقع کہاں تھا، نہ اماں ابا کا کوئی خیال، شام ڈھلے ہی ہم پر کُھلا کہ ہم کہاں پہنچ چکے ہیں۔یہ ایک اونچی پتھریلی پہاڑی تھی جس پر کسی قسم کی کوئی آڑ موجود نہیں تھی۔ ہمارے مقابل پہاڑی کے پیچھے، افق پر سرویائی فوجیوں کے محفوظ دستے موجود تھے۔ وہ اب بھی مسلسل فائر کررہے تھے لیکن جیت ہماری ہی تھی۔ اب پہلی بار ہمارے افسروں نے نقشے نکالے اور یہ معلوم ہوا کہ ہم احکامات میں دی گئی مطلوبہ سرحد سے آگے نکل آئے ہیں۔لہٰذا ہم نے ایک گھنٹہ واپسی کا سفر کیا اور خیمہ زن ہو گئے۔
اب یہ معلوم ہوا کہ ہم ایک افسر پیچھے بھول آئے ہیں۔ جب ہم اس اونچی پہاڑی کی ڈھلوان پر لیٹے تھے تو کمپنی نمبر ۲ کا کماندار ،نوجوان کپتان ’پی‘صرف ایک جوان کے ہمراہ اس مقصد سے ہاتھوں پیروں کے بل چلتا ہوا وادی میں داخل ہوا تھا کہ ایک ایسی بارودی چرخی پر قبضہ کر لے جس کی مدد سے دشمن مسلسل فائر کر رہا تھا۔شام ڈھلے واپس لوٹتے ہوئے ہم اس بہادر سپاہی کو بھول آئے تھے، لہٰذا کرنل نے کپتان کو واپس لانے کے لئے رضاکار طلب کئے۔ اچانک بجلی سی کوند گئی، جوان اُچک اُچک کر خود کو پیش کر رہے تھے، میں نے دیکھا کہ ایوان ساووف اس پارٹی کی کمان کے لئے خود کو پیش کر رہا تھا اور تھوڑی پس و پیش کے بعد کرنل نے آخر کار اس کی بات مان لی۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ رہتے ہوئے اس ساکت و پُراسرار رات میں نکل پڑے۔
ایوان ساووف راستے سے خوب واقف تھا اسی لئے اس نے خود کو راہنمائی کے لئے پیش کیا تھا۔ میں جلد ہی باقی ساتھیوں کے بیچ سے گزرتا ہوا اس کے بازو میں پہنچ گیا۔میں نے ابھی ’’جینا، جوسن،‘‘ ہی کہا تھا کہ اس نے اپنی گہری کھنکھارتی آواز میں قہقہہ لگایا اور ہم ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔ رات کی تاریکی میں دور دور سے لپکتی گولیوں کی جھنکارسنائی دے رہی تھی۔ میں اسے چار ہفتے قبل فرانس کے ایک معرکے میں کام آ جانے والے اپنے بھائی کے متعلق بتاتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ اب اس ملک میں وہی میرا بھائی ہے۔ ہم ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے ،آہستگی سے دھند کی ایک سرنگ میں نشیب و فراز طے کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے، جب گئے دنوں کی طرح ایک بار پھر تفلسف آمیز گپ شپ شروع ہو گئی ۔ اُس تصویر ، ان دو پہلوانوں اور شعلہ آگیں آسمان کا ذکر چھڑ گیا۔ ’’میں نے اب تک اسے پینٹ نہیں کیا،‘‘ اس نے میرے ہمراہ ایک ہیولا نما اونچائی طے کرتے ہوئے سرگوشی کی۔۔۔’’جنگ کے بعد ہم ایک بار پھر اکٹھے ہوں گے، جینا، میونخ یا صوفیہ میں۔‘‘
اچانک پتہ چلا کہ ہم ایک غلط پگڈنڈی پر ہیں۔ مکمل ابر آلود آسمان سے ہمیں ذرا سی روشنی بھی میسر نہیں تھی اور جب ہم نے سمت نما کے مطابق چلنے کی کوشش کی تو پہاڑی نالوں اور کھائیوں تک تو پہنچے لیکن اس گہری وادی کا کوئی نشان نہ تھا جہاں بارودی چرخی نصب تھی۔ دشمن کے فائر کی گونج ہمیں اِدھر اُدھر بھٹکاتی رہی، دھند روشن ہوتی گئی ، یہاں تک کہ صبح کے تقریباً پانچ بجے ہمیں اپنے نیچے ا س منحوس سرویائی بارودی چرخی کے پہیے نظر آئے۔
دور اونچائی سے آتی سرویائی گولیوں کی مسلسل سیٹیوں تلے ، ہم بہت دھیان سےہاتھوں پیروں کے بل نیچے جانے لگے۔ عجیب بات تھی کہ چرخی جنگلی پہاڑی چشمے کےتیز دھارے کی قوت سے اب بھی چل رہی تھی۔ ہم رینگتے ہوئے قریب پہنچے ، کوئی حرکت تو نہیں تھی لیکن ہمیں پہیے کے نیچے ایک آدمی بیٹھا نظر آیا۔ اپنی بندوقوں سے حفاظتی قفل ہٹاتے ہوئے ہم نے اسے للکارا۔ وہ کمپنی نمبر ۲ کا حوالدار ’کے‘ تھا جس کے قدموں میں کپتان ’پی‘ پڑا تھا جو ران میں گولی لگنے کے باعث زیادہ خون بہہ جانے سے مر چکا تھا۔ لاش کی حفاظت کرتے جوان کو ہوش میں لانے میں کافی وقت لگا۔ پھر ہم نے ایک قبر کھودی اور مردہ آدمی کو اس طرح اُس میں لٹا دیا کہ چہرہ دشمن کی طرف تھا اور ٹانگیں شمال میں بنجر پہاڑ کی ڈھلوان کی جانب۔ زمین سخت اور پتھریلی تھی اور ہماری کدالیں چل رہی تھیں کہ صبح کاذب کی روشنی دکھائی دی۔قبر کے دامن میں صلیب نصب کرتے کرتے مردہ جوان کی ہیلمٹ ایک لطیف سی سرخی میں نہا گئی۔ ہمیں فوراً دوڑتے ہوئے آڑ لینی چاہئے تھی لیکن سورج ہم سے زیادہ طاقت ور تھا۔ وہ مشرق میں موجود دندانی پہاڑیوں کے عقب میں ہمارے خوابیدہ وطن بلغاریہ سے آہستگی سے ابھرا اور مقدونی پہاڑیوں کو اپنے سیلِ نُور میں بہا کر لے گیا۔ایبار اور موراوا کے بیچ صبح کی سرخ چمک نے ہم پرانے ، سخت جان سپاہیوں کو اپنے گھٹنوں پر گرا دیا۔
اسی لمحے میں نے ایوان ساووف کو عبادت کی سرشاری میں ڈوبے ہوئے ایک انسان کے رُوپ میں دیکھا۔ اُس کی تجسس سے لبریز آنکھوں پر ایک پردہ سا پڑا تھا، ایک ایسا پردہ جو نزدیک ہوتی موت کو آنکھوں سے اوجھل کر دے۔ وہ موت کو آتے نہیں دیکھ سکتا تھا کہ اس لمحے موت اس کے لیے قطعی نامانوس تھی۔ لیکن میں، اس کا دوست، موت کو بخوبی دیکھ رہا تھا ۔۔۔ایوان ساووف اوپر اٹھا تو چہرہ اُس کے وطن کی جانب تھا۔ صبح کی کرب انگیز ، پرسکون سرخی دیکھتے ہوئے وہ میری جانب مڑا اور کہا:’’تم نے دن نکلتے دیکھا۔ یہ ہوتا ہے سرخ۔۔۔‘‘ اسی لمحے پہاڑی کے بالائی کنارے سے ایک گولی آ کر اسے لگی۔ میں نے اس کے لبوں پر ایک متکبرانہ سی مسکراہٹ دیکھی لیکن گولی اس کا دل چیر چکی تھی۔ اس نے صبح کی سرخی میں اپنا وطن دیکھ لیا تھا۔ کاش وہ اسے پینٹ بھی کر سکتا۔۔۔!
تو اب ہمیں ایک اور قبر کھودنا تھی ۔ لیکن ہم نے ایوان ساووف کو جرمن افسر کے بازو میں ہی دفنا دیا، چند قد م مشترکہ زمین پر موجود دو فوجی کامریڈوں کے بیچ سرحدوں کی ضرورت بھی کیا تھی۔ جرمن قبر کی مٹی ہی بلغاری سینے پر گر رہی تھی سو ہم نے ان کے ہاتھ ایک دوسرے میں تھما دئیے۔ جب ہم صبح کی سرخی میں واپس لوٹ رہے تھے تو مکمل سکوت تھا ۔آخری گولی چل چکی تھی۔
***

ترجمہ: عاصم بخشی

جمعرات، 1 دسمبر، 2016

صحافی اور قلم کار کی کوئی قومیت نہیں ہوتی: شامل شمس

کچھ روز پہلے میں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ ادب، صحافت، سماجیات ، فلسفہ اور نفسیات کےعلاوہ دیگر کئی شعبوں سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد کا انٹرویو کیا جائے، جن کی باتوں سے ہم کچھ سمجھ اور سیکھ بھی سکیں اور ان پر گفتگو کرکے اپنے ذہن کے دروازوں کو نئی سمتوں میں کھولنے کے لائق بن سکیں۔سیکھنے اور جاننے کا سب سے بہتر طریقہ گفتگو ہے۔ میں نے اس سے پہلے بھی دس سوالوں کی ایک ایسی سیریز خود اپنی تربیت کے لیے شروع کی تھی، جس میں بہت سے لکھنے والوں سے سوالات کرکے، مجھے خود اپنا محاسبہ کرنے کا بھی موقع ملا تھا۔شامل شمس جرمنی کے عالمی براڈکاسٹر، ڈی ڈبلیو بمعنی ڈوئچے ویلے سے وابستہ ہیں۔ادب اور شاعری سے ان کا ایک خاص تعلق رہا ہے۔اس لحاظ سے وہ ایک جانب اگر عالمی صحافت کے معیارات پر نظر رکھتے ہیں تو دوسری جانب برصغیر کی اردو صحافت اور اس میں جنم لینے اور پنپنے والے ادب کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔اس گفتگو کی نوعیت بالکل غیر رسمی ہے۔میں سوال کے معاملے میں کسی قسم کا تکلف روا رکھنا جائز نہیں سمجھتا، کیونکہ یہ میرے سیکھنے کی طلب سے تعلق رکھتا ہے۔اسی طرح جواب خواہ کتنا ہی صاف اور میری لاعلمی و کم عقلی کو نمایاں کرتا ہو، مجھے اس کے سامنے آنے سے بھی کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔کیونکہ میرے نزدیک بغلیں جھانکنے سے زیادہ بہتر عمل اپنے گریبان میں جھانکنا ہے۔یہ اس سلسلے کا پہلا انٹرویو ہے اور آپ دیکھیں گے کہ ابھی مزید ایسے انٹرویوز سامنے آسکیں گے، جن کی مدد سے ہم مختلف شعبوں کے بارے میں دلچسپ باتیں کرنے اور جاننے کا موقع حاصل کریں گے۔اس سلسلے میں میری کئی اہم لوگوں سے بات ہوچکی ہے اور امید ہے کہ ادبی دنیا کا یہ سلسلہ بھی ، اس کے گزشتہ سلسلوں کی طرح آپ کو مایوس نہیں کرے گا۔شکریہ

ا۔د: شامل صاحب! آداب! آپ ایک معروف صحافی ہیں۔ دنیا کے ایک بہت بڑے صحافتی ادارے سے آپ کا تعلق ہے۔ پہلا اور بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اردو میں لکھنے والے صحافیوں اور گلوبل لینگویج یعنی کہ انگریزی زبان میں لکھنے والے صحافیوں کےدرمیان آپ کوئی خاص فرق محسوس کرتے ہیں؟

ش۔ش: پاکستان میں موجود وہ صحافی جو اردو میں لکھ رہے ہیں، یا جو اردو نشریاتی اداروں سے منسلک ہیں، اور وہ جو پاکستان میں انگریزی صحافت کر رہے ہیں، ان میں خاصا فرق ہے۔ ایک فرق تو خود زبان کا ہے، یعنی وہ جن کے لیے لکھ یا بول رہے ہیں ان کے سماجی اور معاشی رویے بے حد مختلف ہیں۔ یہ طبقاتی معاملہ بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ پاکستان کی اردو صحافت کے پڑھنے، سننے اور دیکھنے والے انگریزی زبان بولنے والوں سے مختلف رویے رکھتے ہیں۔ اس کا پس منظر نو آبادیاتی دور میں تلاش کیا جانا چاہیے۔ اس صورت حال کے باعث حکمران طبقے کو اس بات سے غرض نہیں کہ انگریزی زبان میں کیا لکھا جا رہا ہے۔ اس کی پہنچ عوام میں دور تک نہیں ہے۔ لہٰذا وہ فوج پر تنقید بھی کھل کر کرتے ہیں، بلوچستان کے مسئلے پر بھی رائے دیتے ہیں، جو اگر اردو زبان میں کام کرنے والا صحافی اسی طرح سے کرے تو اس کے لیے مسائل پیدا ہونا لازمی سی بات ہے۔
دوسری بات ’اپروچ‘ کی ہے، چیزوں کو دیکھنے کی۔ زبان ہی کی وجہ سے اردو صحافی تمام امور کو ایک نسبتاً تنگ تناظر میں دیکھنے کا عادی ہے۔ ہر بات پاکستان کی سیاست کے گرد گھومتی ہے۔ مطالعے میں کمی کے باعث وہ چیزوں کو وسیع، عالمی تناظر میں دیکھ نہیں پاتے۔ دنیا میں کیا ہو رہا ہے اس سے اسے خاص دل چسپی نہیں۔ یہ باتیں اس کے ’کنٹیکسٹ‘ کو محدود کر دیتی ہیں۔ پہلے ایسا نہیں تھا۔ تقسیم ہند سے پہلے اور بعد کی اردو صحافت سے وابستہ افراد گلوب پر نظر رکھتے تھے، وہ تاریخ سے بھی واقف تھے، ان کا مطالعہ وسیع تھا۔ وہ صرف ترجمے یا ترجموں کے ترجمے نہیں پڑھتے تھے، انہیں کئی زبانیں آتی تھیں۔ تاہم اب یہ صورت حال نہیں رہی۔ اب تو زبان کے معاملے میں بھی اردو صحافیوں کی کم دل چسپی ہے۔ غلط سلط لکھا جا رہا اور اس کو جائز قرار دیا جا رہا ہے۔
سو فرق تو ہے۔ لیکن میں یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ پاکستان اور ہندوستان میں انگریزی صحافت سے وابستہ ہر شخص عالم فاضل ہے۔ یہاں بھی ایک طبقہ ایسا آ گیا ہے جو کہ شاید زبان تو درست لکھ سکتا ہے مگر اس کی علوم پر کوئی دسترس نہیں۔ بہت سے نوجوان انگریزی صحافیوں نے شاید تقسیم ہند پر کوئی کتاب بھی نہ پڑھی ہو۔ چومسکی کو پڑھا ہو گا، سمجھا کم ہوگا۔

ا۔د: برصغیر ہند کے تعلق سے یا اس میں موجود صحافت پر سیاست کس قدر اثر انداز ہوتی ہے، کیا یہاں کے اداروں اور صحافیوں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ خاص طور پر یورپی اور امریکی صحافت کے مقابلے میں یہاں کی صحافت کن اسباب کی بنیاد پر کمزور یا طاقتور ہے؟

ش۔ش: ایک وقت تھا جب صحافت کو ایک ’واچ ڈاگ‘ کی حیثیت حاصل تھی۔ مارکیٹ اکانومی کے زمانے میں صحافت اس طرح تو کہیں بھی ’آزاد‘ نہیں جن معنوں میں آپ بات کر رہے ہیں۔ امریکا اور جرمنی میں بھی منڈی سے تعلق رکھنے والے عوامل مکمل آزادی کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ ان جگہوں پر بہرحال اس حد تک تو آزادی ہے کہ آپ کسی سیاست دان، فوجی یا مذہب پر تنقید کر سکتے ہیں، اس خوف کے بغیر کے اس سے ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو گا۔ ہمارے ملکوں میں تو صحافیوں پر سیاسی دباؤ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اب وہ ’سیلف سنسرشپ‘ کی طرف رواں دواں ہیں۔ آپ مذہب پر بات نہیں کر سکتے، آپ فوج پر تنقید جائز نہیں کر سکتے۔
بر صغیر میں صحافت کی بنیاد تو بہت مضبوط تھی۔ پہلے اس کو تقسیم ہند سے نقصان پہنچا، پھر پاکستان اور بھارت میں انتہا پسندی کے فروغ سے۔ اصل مسئلہ تعلیم کی کمی کا ہے۔ دیکھیے صحافت کا تعلق لفظ سے ہے، پڑھنے سے ہے، لکھنے سے ہے۔ ایک تو تعلیم کا برا حال ہے، اس پر صحافیوں نے پڑھنا لکھنا بھی چھوڑ رکھا ہے۔ یہ صورت حال جرمنی اور برطانیہ میں تو نہیں ہو سکتی۔ یہاں کے صحافی تو بے حد پڑھتے لکھتے ہیں۔ رائے دینے کے لیے رائے کا ’انفارمڈ‘ ہونا ضروری ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے صحافیوں اور سڑک پر بیٹھے کسی نائی کی رائے میں کچھ ذیادہ فرق نہیں ہوتا۔ اور یہ بات میں ان کے لیے بھی کہہ ہا ہوں جو ٹی وی چینلز یا سوشل میڈیا پر دانش وری جھاڑ رہے ہوتے ہیں۔

ا۔د: ہر خبر کا ایک پس منظر ہوتا ہے، کیا خبر کی ترسیل میں کسی قسم کی بھول چوک سے لوگوں میں غلط فہمیاں نہیں پیدا ہوسکتی ہیں۔ یا میں یہ پوچھوں تو زیادہ مناسب ہے کہ خبر نالج کی ایک شاخ ہونے کے بجائے عام طور پر ہمارے معاشروں میں لوگوں کو بھڑکانے، بہکانے یا اکسانے کی ایک بہت ادنیٰ کوشش ہوتی ہے۔ کیا آپ کی رائے میں یہ اعتراض درست ہے؟

ش۔ش: بات یہ ہے کہ مین سٹریم میڈیا 'آزاد' نہیں ہے۔ جن مثالی معنوں میں ہم 'آزاد' دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہر میڈیا ہائوز کی ایک پالیسی تو ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر مغربی میڈیا آرگنائزیشنز جمہوریت اور انسانی حقوق کو اہمیت دیتی ہیں۔ عرب ممالک میں آپ کو اس پہ اصرار نہیں ملے گا۔ میں نے اسی لیے ایک ایسے میڈیا ہائوز کا انتخاب کیا جو میرے نظریات، یعنی جمہوریت دوستی اور پلورل ازم کی بالادستی سے میل کھاتا ہے۔ میں پاکستانی میڈیا میں کام کرسکتا ہوں مگر کروں گا نہیں۔ وہاں میرا نظریاتی تضاد پیدا ہوجائے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے بین الاقوامی اداروں میں بھی ایسا لوگ کام کررہے ہیں جو مغرب سے بیر رکھتے ہیں اور سعودی عرب کے حامی ہیں، لیکن وہ ریاض میں جا کر کام نہیں کرنا چاہتے۔ ان کو معلوم ہے کہ وہاں ان کی اپنی آزادی خطرے میں پڑ جائے گی۔

ا۔د: خبر، بڑے اداروں کے لیے پیسہ کمانے کا ذریعہ بن گئی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بی بی سی، سی این این اور ڈی ڈبلیو جیسے بڑے ادارے بھی اب ایسی نیوز شائع کرتے ہیں، جن سے انہیں سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ لائکس اور کمنٹس مل سکیں، خواہ وہ ان کی موافقت میں ہوں یا مخالفت میں۔ اس اٹینشن سیکر یا سینسیشن پیدا کرنے والی صحافت کو آپ کس قدر کارگر یا مضر مانتے ہیں؟

ش۔ش: جی ہاں، یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جیسا میں نے پہلے کہا، سماج میں کسی بھی پیشے کو آپ معیشت اور اقتصادی و پیداواری رشتوں سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھ سکتے۔ ریٹنگ کی دوڑ تو ہر جگہ ہے۔ اس وجہ سے صحافت کا معیار دنیا بھر میں تنزلی کی طرف گامزن ہے۔ ایک اور مسئلہ سوشل میڈیا بہ ذات خود ہے۔ اس کی وجہ سے اب ہر شخص صحافی بھی ہے، شاعر بھی ہے، فوٹوگرافر بھی ہے۔ اب نہ کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے نہ محنت کرنے کی۔ یہ عوامی جرنل ازم کے لیے ایک اچھا پلیٹ فارم ضرور ہے مگر اس کے مجموعی اثرات زبان و صحافت پر منفی پڑ رہے ہیں۔ لیکھ جس طرح اچھی کتاب کو ٹی وی یا فلم مار نہیں سکتے، سوشل میڈیا کی شعبدے بازی بھی سنجیدہ صحافت کو دبا نہیں سکتی۔

ا۔د: کیا یہ سچ ہے کہ لوگوں کی دلچسپی نیوز کی اسی منفی رپورٹنگ کی وجہ سے زیادہ ہے، جس کی بنا پر وہ شریف زادوں کے یہاں بدنام ہے۔ کیونکہ تیز اور تیکھی خبروں کے زمانے میں مثبت اور اچھی اچھی باتوں سے کس شخص کو دلچسپی ہوسکتی ہے؟

ش۔ش: ہمارے ملکوں میں تعلیم کی کمی ہے۔ لوگ سنجیدہ موضوعات سے دور بھاگتے ہیں۔ پھر کارپوریٹ میڈیا کی وجہ سے ریٹنگ کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ دیکھیے صحافت خلا میں نہیں کی جاتی، جس طرح ادب ویکیوم میں نہیں تخلیق ہوتا۔ پورے سماج کے شعور کی سطح بلند ہوگی تو اس کے اثرات صحافت پر بھی پڑیں گے۔ اس لیے سماج کی ترقی اور ترقی پسندی کی تحریکیں چلنا ضروری ہیں۔ اس کے بغیر یہ مسائل ختم نہیں ہوں گے۔

ا۔د: کیا آپ ہمیں پیڈ میڈیا کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ اس کا وجود ہے، لیکن اس کی شناخت کیونکر کی جائے اور لوگوں میں اس کے منفی اثرات کو کیسے نمایاں کیا جاسکتا ہے؟

ش۔ش: بالکل ہے۔ کارپوریشنز سے لے کر حکمراں طبقے صحافیوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان تو اس کی ایک عمدہ مثال ہے۔ ہونڈا موٹر سائیکلس پر بیٹھنے والے صحافیوں کے پاس آج محل نما بنگلے اور لکژری گاڑیاں ہیں۔ یہ ایسے ہی نہیں آگئیں۔ نائن الیون کے بعد تو خوب پیسہ بنایا گیا۔ ہر کوئی صحافی اور سکیورٹی ایکسپرٹ بن گیا ہے۔ زیادہ تر اس میں پیڈ ہی ہیں۔

ا۔د: آپ کے بعض مضامین کے تعلق سے یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ آپ خود یا اپنے ادارے کی پالیسی کے مطابق اپنے مضامین میں تنقید و تجزیہ کا ایسا رخ اختیار کرتے ہیں، جو آپ کے ملک یا خطے کے لوگوں کے لیے غصے اور شرمندگی کا باعث ہو، آپ اس قسم کے الزامات کو کس حد تک صحیح مانتے ہیں؟

ش۔ش: مغربی دنیا جمہوریت اور آزادی اظہار پر یقین رکھتی ہے۔ جب کبھی جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی رائے خطرے میں دکھتی ہے، اور جو ان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے، میرا قلم اس کے خلاف اٹھتا ہے۔ ایک اور بات: میں پاکستانی صحافی نہیں ہوں، صرف صحافی ہوں۔ نہ پاکستانی ادیب کوئی چیز ہے، نہ نہ جرمن صحافی۔ قلم اٹھانے والے کا جغرافیائی حدود سے کوئی تعلق نہیں۔ ہاں یہ بات ہے کہ میں ایک خاص خطے کے بارے میں زیادہ علم رکھتا ہوں۔ میں جب لندن اسکول آف اکنامکس میں پاکستانی طالبان اور ریاست کے بارے میں تھیسس لکھ رہا تھا تو میں نے اس موضوع پر پچاسوں کتابیں اہو سینکڑوں علمی مضامین پڑھے تھے۔ اب میں اس موضوع پر زیادہ لکھتا ہوں۔ لیکن مجھے اس بات سے دل چسپی نہیں کہ اس خطے کے لوگ شرمند ہو رہے ہیں یا ان کا سر فخر سے بلند ہو رہا ہے۔ میں افغانستان کے مسائل پر بھی لکھتا ہوں حالاں کہ میں افغان نہیں ہوں۔ میں شیکسپیئر کے کام پر اپنی رائے دیتا رہا ہوں حالاں کہ میں انگریز نہیں ہوں۔ سو میرا تعلق علم سے ہے۔ جب میں شمالی کوریا کی حکومت پر تنقید کرتا ہوں تو اس کی وجہ بھی وہاں وہ مسائل ہیں جن پر قلم اٹھانا میرا فرض ہے۔ پاکستان کوئی مقدس گائے نہیں ہے۔ تنقید بھی اس لیے کی جاتی ہے کہ اس کے ذریعے بہتری کا راستہ نکل سکے۔ میری کوئی قومیت نہیں ہے نہ میں اسے مانتا ہوں۔ نہ ہی میرا کوئی مذہب ہے۔ نہ پاکستان میں ہوتے ہوئے تھا نہ اب ہے۔ اگر کسی کو میرے لکھے سے تکلیف ہوتی ہے تو وہ بھی جواب میں کوئی بادلیل مضمون لکھ دے۔ مجھے تو خوشی ہی ہوگی۔

ا۔د: آپ کے صحافیانہ تجزیے زیادہ تر جن خطوں یا علاقوں سے متعلق ہوتے ہیں، وہ متنازعہ ہوتے ہیں۔ ایک متنازعہ علاقے کے تعلق سے رپورٹنگ، کالم نویسی یا مضمون بندی کے وقت صحافی کا رویہ کس قسم کا ہونا چاہیے؟

ش۔ش: ’انفارمڈ‘ رائے ہونی چاہیے، اگر آپ رائے دے رہے ہیں۔ رپورٹننگ کر رہے ہیں تو آپ کو تصویر کے تمام رخ پیش کرنے چاہییں۔ ہمارے ہاں کے رپورٹرز رائے دینے لگتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ اینکر یا رپورٹر کا کام رائے دینا نہیں خبر پہنچانا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والے صحافیوں کی ایک ذمے داری یہ بھی ہے کہ وہ ان متنازعہ علاقوں کے متنازعہ موضوعات کو قلم کی گرفت میں لائیں اور لوگوں کے سامنے لائیں جو کہ مقامی صحافی کے لیے ممکن نہ ہو۔ کشمیر پر کھل کے بات کرنا شاید بھارت میں بہت سے صحافیوں کے لیے آسان کام نہ ہو، اسی طرح بلوچستان کے مسئلے پر کھل کے رائے دینا یا وہاں کی ان آوازوں کو پلیٹ فارم دینا جن کو مقامی میڈیا خوف اور پابندیوں کے باعث نہ دے سکتا ہو، وہ ہم دیتے ہیں۔ یہ ہماری ذمے داری ہے۔ آسام میں اگر ریاستی جبر ہے تو اسے ہم یہاں سے زیادہ ’آبجیکٹیو‘ طریقے سے پیش کر سکتے ہیں۔ اس پر ان مقامی طبقات کو تکلیف ہوتی ہے جو یہ آوازیں دنیا تک پہنچتے نہیں دیکھ سکتے۔ میں جب یہ کام کرتا ہوں تو پاکستان میں بعض حلقے اس پر اعتراض کرتے ہیں۔ وہ کرتے رہیں۔ ہم اپنا کام کرتے رہیں گے۔

ا۔د: آپ کہتے ہیں کہ رپورٹر کا کام صرف خبریں پہنچانا ہوتا ہے۔ کسی معاملے پر اپنی رائے پیش کرنا نہیں۔ لیکن ایسی رپورٹنگ کیسے ممکن ہے، جس میں صرف خبر پیش کی جائے۔ کیونکہ کیمرہ اپنے آپ میں ایک قسم کی جانبداری کا متحمل ہوسکتا ہے۔ اس پر آپ کیا کہیں گے۔

ش۔ش: ایسا ممکن ہے۔ خبر میں رائے شامل نہیں کرنی چاہیے۔ واقعی جیسے پیش آیا ہے اسے ویسے بتادینا چاہیے۔ تمام فریقین کا موقف پیش کردینا چاہیے۔ پاکستانی میڈیا میں رپورٹنگ میں رائے شامل ہوچکی ہے۔ ایسے الفاظ سے اجتناب کرنا چاہیے جس سے رپورٹر کی کسی ایک فریق سے ہمدردی یا ناراضی کا احساس ہو۔ آپ کو مثال دیتا ہوں، ہم 'پاکستان کے زیر انتظام کشمیر' لکھتے ہیں، انگریزی میں 'پاکستان-ایڈمنسٹریٹڈ کشمیر'۔ ہم 'جاں بحق' نہیں 'ہلاک' لکھتے ہیں۔ 'جاں بحق' کی اصطلاح مذہبی جرگوں سے جڑی ہے۔ اسی طرح دوسرے معاملات ہیں۔ میں جب اپنی رائے دیتا ہوں تو کھل کے لکھتا ہوں، سائیڈ لیتا ہوں۔ رپورٹنگ کرتے وقت سب سے اہم بات 'آبجکٹویٹی' ہوتی ہے۔ اسے کامپرومائز نہیں کرنا چاہیے۔

ا۔د: کیا صحافت ایک کنفیوزڈ شعبہ ہے، جسے ہم سماجی علوم کی ایک شاخ سے تعبیر کرسکتے ہوں جو چیزوں کے بارے میں ایک سٹیک رائے قائم کرکے ان کے استثنائی پہلوئوں کو فراموش کردیتا ہے۔

ش۔ش: صحافت اب ایک سپیشلائزڈ شعبہ بن چکا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ صحافت پڑھ کر اور اسے سیکھ کر کم لوگ آتے ہیں۔ پہلے کم از کم لوگ زبان پہ عبور حاصل کرکے آتے تھے۔ اب وہ بھی نہیں ہے۔ میں نے لندن سکول آف اکنومکس سے میڈیا سٹڈیز کی باقاعدہ تعلیم اس لیے لی تھی کہ میں اس سپیشلائزڈ فیلڈ کو سمجھنا اور سیکھنا چاہتا تھا۔ ہمارے ملکوں میں اب حال یہ ہے کہ جن کا املا درست نہیں، جنہیں اور کوئی نوکری نہیں مل سکی، وہ صحافت میں آگئے ہیں۔ کنفیوزڈ صحافت کا شعبہ نہیں وہ صحافی ہیں جنہیں اس شعبے کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ وہ کنفیوژن پھیلا رہے ہیں۔ اس سپیشلائزڈ فیلڈ کے لیے آپ کو متعدد ڈسپلنس پڑھنا پڑتے ہیں، جو 'کروس کٹنگ' ہیں۔

ا۔د: صحافی کی کیا کوئی آزادانہ حیثیت ہوتی ہے؟

ش۔ش: صحافی ہو یا شاعر یا ادیب، ان سے زیادہ آزاد کسی کو نہیں ہونا چاہیے۔ افسوس یہ ہے کہ اب قلم آزاد نہیں رہا۔ اس کے فیکٹرز میں نے اوپر بیان کردیے ہیں۔ صحافیوں کو اپنا آزادانہ تشخص قائم کرنے کے لیے جد و جہد کرنا ہوگی۔

ا۔د: برصغیر میں ایک کامیاب، غیر جانبدار اور ستھری صحافت کے تعلق سے آپ کا بنیادی خیال کیا ہے، یہ کن عوامل سے ممکن بنائی جاسکتی ہے۔

ش۔ش: جن چیزوں کا میں نے اوپر ذکر کیا اگر ان کا خیال رکھا جائے تو بر صغیر میں ایک اچھی صحافت کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *