جمعہ، 26 فروری، 2016

امبرٹو ایکو کی تخلیقی کائنات کا ایک تعارف/عاصم بخشی

اکیسویں صدی کے سترہویں برس کے ستم مسلسل جاری ہیں۔پرسوں صبح ہارپر لی کے مٹی ہونے کی خبر تو بس آئی گئی ہو گئی کہ ان کا ناول پڑھنے سے بہت پہلے گریگوری پیک ہمارے ذہن میں اپنی لازوال فلم کے ذریعے اس کہانی کو امر کر چکےتھے۔ اپنی کم نویسی کے باعث ہارپر لی نے ہمارے دل کا گوشہ تو ضرور اپنے نام کر لیا لیکن ان کا تخلیقی منطقہ اپنی تمام تر عظمت کے باوجود حد درجے محدود تھا۔ غم کی درست میزان تومشکل ہے، لیکن دن ڈھلے جب معلوم ہوا کہ امبرٹو ایکو بھی آخر حقیقت سے کچھ زائد ہو گئے ہیں تو دکھ اپنے انتظار حسین صاحب کے انتقال سے کچھ کم نہ تھا۔ وجہ شاید یہ ہے کہ قاری اور تخلیق کار کے درمیان بنیادی رشتہ کچھ ایسے دھاگوں سے بندھا ہوتا ہے جو خون یا مٹی کے رشتے کی طرح تقدیری نہیں ہوتے۔یہاں دکھ کی نوعیت ماورائے زمان و مکان ہوتی ہے اور تخلیق کار چاہے مشرق کا ہو یا مغرب کا ، لسانی حوالے سے اپنا ہو یا غیر ، ایک یاسیت کی سی کیفیت ہوتی ہے کہ بالآخر تخلیق کا سفر اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔ چوراسی سالہ امبرٹو ایکو کی سوانحی تفصیلات تو خیر باآسانی کہیں سےبھی تلاش کی جا سکتی ہیں اس لئے اس تحریر کا مقصد صرف زبانِ اردو کے قاری کو ان کی تخلیقی کائنات کی ایک تیزرفتار فضائی سیر سے زیادہ نہیں۔
ایکو بنیادی طور پر تو فلسفی ہی تھے اور علم العلامات ان کا تخصیصی شعبہ تھا لیکن نوعمری سے ہی تنہائی میں قصے کہانیاں لکھ رہے تھے جو آج تک منصۂ شہود پر نہیں آ سکے۔ اپنی بذلہ سنجی کے لئے مشہور تھے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ ہیں تو فلسفی لیکن ویک اینڈ پر ناول لکھتے ہیں۔ پھر ۱۹۸۰ میں اڑتالیس سال کی عمر میں جب انہوں نے اپنا پہلا سنجیدہ ناول ’’اسمِ گلاب ‘‘(The Name of the Rose)لکھا تو دنیائے ادب میں تہلکہ مچ گیا۔ ایکو کے بقول وہ طربیہ نگاری سے متعلق فلسفیانہ مباحث پر کوئی کتاب لکھنا چاہتے تھےلیکن اس کی بجائے یہ ناول لکھ دیا۔ اس معاملے میں ان کا کلاسیکی نظریہ یہی تھا کہ کئی ایسے پیچیدہ خیالات جن کو کسی لگی بندھی تھیوری میں قید کرنا ناممکن ہو کہانی کے ذریعے قاری تک پہنچائے جا سکتے ہیں۔یہ چودہویں صدی کی ایک اطالوی خانقاہ میں کچھ راہبوں پر توہینِ مذہب کے الزام کے گرد گھومتی ایک کہانی ہے۔ ہیرو ایک پادری ہے جسے اس الزام کی تحقیقات کے لئے اس خانقاہ میں بھیجا جاتا ہے۔ لیکن اس کے خانقاہ میں داخل ہوتے ہی یکے بعد دیگے قتل کے سات مختلف واقعات پیش آتے ہیں۔کہانی ایک ساتھ کئی مختلف سوالوں کے گرد گھومتی ہے ۔ خانقاہ میں کچھ راہبوں پر توہین مذہب کے الزام کی کیا حقیقت ہے؟ قتل کی ان بظاہر علیحدہ وارداتوں میں کیا قدرِ مشترک ہے؟ خانقاہ میں ایسا کونسا قیمتی راز دفن ہے جس کے گرد چودہویں صدی کی رہبانی سیاست اور اس کی کلیسائی سازشیں گھومتی ہیں؟ ایسے میں پادری ولیم اور اس کا شاگردِ خاص آڈسو ، ارسطو کی منطق، سینٹ ایکویناس کی الٰہیات اور راجر بیکن کی تجربی فکری آلات سے لیس خانقاہ کی اندھیری غلام گردشوں میں ثبوت جمع کرتے چلے جاتے ہیں۔ کہانی بالآخر ارسطو کی بوطیقا میں چھپے ایک راز پر ختم ہوتی ہے۔ناول کی ایک اہم ترین جہت قاری کے لئے ایک پہاڑ جیسا چیلنج پیش کرنا تھا جس کو پوری طرح سر کرنے کے لئے تو خیر ان گنت قرأتوں کی ضرورت ہے لیکن متن کی چند تہیں کھولنا بھی کچھ اتنا آسان نہیں تھا۔ایکو نے اس ضخیم ناول کو دراصل ایک پہاڑی سلسلے کی طرح ہی تخلیق کیا جس کے پہلے سو صفحات نہایت ادق تفصیلات سے اس طرح مزین کئے گئے تاکہ صرف سنجیدہ قارئین ہی ان سے آگے جا سکیں۔
اگر افسانوی تخلیقات کی حد تک ایکو کا بنیادی مقصد تلاش کرنا ہو تو وہ شاید مختلف زاویوں سے انسانی فکر کی احمقانہ جہت کی دریافت کا ایک مسلسل عمل ہے۔ ان کے ساتوں ناول کسی نہ کسی زاوئیے سے اسی ایک سوال کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں۔لیکن یہ بات ہرگز اس حد تک سادہ نہیں کیوں کہ ایکو کا مقصد ہرگز قاری کو تمسخر پر مائل کرنا نہیں بلکہ اسےاپنے کرداروں کے ساتھ ایک ایسے تعقلی اور جذباتی رشتے میں منسلک کرنا ہے کہ قاری کا شعور حقیقت اور حقیقت کی نقل کے بیچ امتیاز کے قابل ہی نہ رہے۔ ’اسمِ گلاب ‘ میں اس احمقانہ جہت کو قرونِ وسطیٰ کی مذہبی فکر میں کچھ اس طرح تلاش کیا گیا ہے کہ زمانۂ جدید میں موجود ایک قاری قرونِ وسطیٰ کے خانقاہی منظرنامے میں موجود کرداروں کی نفسیات کے تعقلی پیمانوں تک رسائی حاصل کرنے کے قابل ہو جائے۔ ایکو کا دوسرا مشہور ناول’ فوکو کا پنڈولم‘ (Foucault’s Pendulum) سازشی نظریات پیش کرنے والے ذہنوں کے ساتھ ایک لامتناہی مکالمہ محسوس ہوتا ہے۔ ناول کے تینوں کردارقدیم اور نادرفلسفیانہ اور مذہبی متون کے محققین ہیں جو مختلف زمانوں کے سازشی نظریات پر مبنی مخطوطات کے مطالعوں سے تنگ آ کر ازراہِ تفنن، ممکنہ طور پر ایک عظیم ترین سازشی نظریہ ایجاد کرتے ہیں جو آج تک کے مکمل زمانی ادوار پر محیط ایک خفیہ ’منصوبہ‘ ہے۔ جوں جوں کہانی آگے بڑھتی ہے مسائل پیچیدہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ شروع میں تو یہ تینوں کردار غیرشعوری طور پر خود ہی اس منصوبے کو حقیقت سمجھنے لگتے ہیں لیکن پھر ایسا ہوتا ہے کہ ان کا منصوبہ دنیا میں موجود دوسرے سازشی ذہنوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے جو اپنی نفسیات سے مجبور اس پر فوراً ایمان لے آتے ہیں۔ پورا ناول دقیق لیکن دلچسپ استدلالی مناظر سے اس طرح بھرا ہے کہ آپ ان کرداروں کو اپنے آس پاس گھومتا محسوس کرتے ہیں۔ ایک نمائندہ اقتباس پیشِ خدمت ہے:

’’میں تمہیں اس (مسئلے )کی اصل اہمیت سے آگاہ کرتا ہوں جو بادیٔ النظر میں محض ایک فضول ساماقوائی لطیفہ لگتا ہے۔ کاس کو معلوم تھا کہ اگر ایک برتن کو پانی سے بھر کر اوپر سے مکمل طورپر جکڑ دیا جائے تو نیچے سوراخ کرنے پر بھی پانی باہر نہیں آئے گا۔ لیکن اگر اوپر بھی سوراخ کردیا جائے تو فوراً پانی نیچے والے سوراخ سے بہہ نکلے گا۔‘‘
’’کیا یہ سامنے کی بات نہیں؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’ہوا اوپر سے داخل ہو گی اور پانی پر نیچے کی جانب دباؤ بڑھائے گی۔‘‘
’’وہی مخصوص سائنسی وضاحت جس میں یا علل اور آثار کو ایک دوسرے کی جگہ سمجھ لینے کی غلطی کی جاتی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ پانی دوسری صورت میں کیوں باہر آتا ہے بلکہ یہ کہ وہ پہلی صورت میں کیو ں باہر آنے سے انکار کر دیتا ہے۔‘‘
’’تو پھر وہ کیوں انکار کرتا ہے؟’’ گیرامونڈ نے تجسس سے پوچھا۔
’’کیوں کہ اگر وہ باہر نکل پڑے تو برتن میں خلا پیدا ہو جائے گا اور فطرت خلا سے نفرت کرتی ہے۔’خوفِ خلا‘ ایک روسیکروسی اصول تھا جسے جدید سائنس فراموش کر بیٹھی ہے۔ ‘‘
’’بہت خوب،‘‘ گیرامونڈ نے کہا۔ ’’ کاسوبون ، دھاتوں سے متعلق تمہاری شاندار مہماتی تخلیق میں ضرور ان باتوں کا ذکر ہونا چاہئے۔ اور دیکھو اب یہ نہ کہہ دینا کہ پانی دھات نہیں۔ اپنے تخیل کو استعمال کرنا سیکھو۔ ‘‘
’’معاف کرنا،‘‘ بیلبو ایگلی کی طرف دیکھتے ہوئے گویا ہوا ، ’’لیکن تمہارا استدلال’ تسبیب ماتقدم ‘کے منطقی مغالطے کی ایک مثال ہے یعنی وہ واقعہ جس کا ظہور بعد میں ہو رہا ہے کیسے اپنے سے قبل پیش آنے والے واقعے کی علت ہو سکتا ہے۔تمہیں سیدھے سادھے خطی انداز میں نہیں سوچنا چاہئے۔ ان چشموں میں موجود پانی ایسا نہیں کرتا۔ فطرت ایسا نہیں کرتی۔ فطرت وقت کو سرے سے جانتی ہی نہیں ۔ وقت تو مغرب کی ایجاد ہے۔‘‘

ایکو کی مکمل تخلیقی کائنات اسی قسم کے کرداروں سے بھری پڑی ہے۔ ان کے ایک اور ناول کے مرکزی کردار بادی لینو کو فطرت نے دو صلاحیتوں سے نواز اہے۔ وہ بہت سی زبانیں جانتا ہے اور بلا کا دروغ گو ہے۔ تیروہویں صدی کے شروع میں چوتھی صلیبی جنگ کے نتیجے میں جب قسطنطنیہ کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا رہی ہے، بادی لینو ایک اہم تاریخ دان کی جان بچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور ایک عجیب و غریب داستان کو تاریخ کا حصہ بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ایک اور کہانی کا مرکزی کردار اپنی یاداشت کچھ اس طرح کھو بیٹھتا ہے کہ خود سے متعلق تو کوئی تفصیلات یاد نہیں ہوتیں لیکن پڑھا ہوا ایک ایک لفظ یاد ہوتاہے، ہر کہانی کا مرکزی خیال اور تمام تر واقعات، ہر نظم کا ایک ایک مصرع اس کی یاداشت میں بالکل محفوظ ہوتا ہے۔ یہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے کہ وہ اپنی بچی کچھی یاداشت کی مدد سے کیسے اپنی نسل کا پورا زمانہ واپس حاصل کر لیتا ہے۔ ایک اور کردار طوفان کے بعد بحری جہاز پر اس طرح ہوش میں آتا ہے کہ تمام عملہ غائب ہوتا ہے اور ہر شے محفوظ ہوتی ہے۔ ایک اور عجیب و غریب کہانی میں یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا اس کہانی کا مرکزی کردار دنیا کے کونے کونے میں ہونے والی ہر سازش کا ذمہ دار ہے؟ راقم کی رائے میں ایکو کے کسی بھی ناول کا مرکزی خیال تلاش کرنا ایک پہیلی کا جواب بوجھنے سے کم نہیں، لیکن یہ ایک ایسی پہیلی ہے جس کے کئی ممکنہ جواب اس انتھک کوشش سے مشروط ہیں کہ بطور قاری آپ ان کے ضخیم ناولوں میں موجود معانی کی کتنی تہیں کھولنے کے قابل ہیں۔
ان کی تمام تر افسانوی تخلیق کا مجموعی مرکزِ فکر بھی یہی نظر آتا ہے کہ وہ تاریخی تناقضات کے اندر موجود دلچسپ تصورات کو اسی ایک سوال کے گرد گھومتا دیکھتے ہیں کہ آج مستند مانے جانے والے تاریخی حقائق بھی خود تاریخ ہی کے ان گنت واقعاتی عوامل کی پیچیدہ بھول بھلیوں کا شاخسانہ ہیں۔اس موضوع پر تقریباً پچاس ہزار نادر کتابوں اور ان گنت مخطوطات پر مشتمل ان کا عظیم کتب خانہ بلاشبہ عصرِ حاضر کے عظیم نوادرات میں سے ہے۔ کچھ اہم مبصرین کے نزدیک اسے عام فہم معنوں میں کتب خانے کی تعریف کی ایک ضد بھی قرار دیا جا سکتا ہے یعنی ایسی نادر کتابیں جنہیں نہ تو پڑھا جائے اور نہ ہی پڑھنے کی خواہش نہ ہو۔ خود ایکو کے بقول ان میں ایک بڑی تعداد ان کتب کی ہے جن میں موجود نظریات وقت نے غلط ثابت کئے۔ ایسی کتابیں جمع کرنے کے پیچھے ان کی اپنی تحقیق سے جڑے کئی سوالات موجود ہیں۔ وہ ان سوالات کو اپنے یک سطری تبصرے میں اس طرح سمجھاتے ہیں کہ اصل تاریخ ہارے ہوئے کرداروں کی ہے۔ کتاب بطور ایک تصور اور ان کے کتب خانے کے متعلق دلچسپ انکشافات سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کو کتابی شکل میں شائع شدہ ان سے کی گئی ایک گفتگو کو ضرور ملاحظہ کرنا چاہئے جس کا عنوان This is not the End of the Book ہے۔
ان کے غیرافسانوی کام پر تفصیلی نظر ڈالنے کے لئے بھی ایک پورا مضمون درکار ہے کیوں کہ یہ مکمل کام کئی دہائیوں پر پھیلا ہے جن میں ایکو کے نظریات کئی تبدیلیوں سے بھی گزرے ہیں جو ان کے مضامین کے بہت سے مجموعوں میں محفوظ ہیں۔ مجموعی طور پر ان کے لسانی نظریات پسِ جدیدیت کے فہم اور اس پر تنقید سے عبارت ہیں۔ اس ضمن میں ان کے کام کا ایک بڑا حصہ جمالیات سے متعلق ہے جہاں انہوں نے حُسن اور بدصورتی جیسے ناقابلِ فہم تصورات پر بہت دلچسپ پیرائے میں طبع آزمائی کی ہے۔ اپنی دونوں کتابوںمیں انہوں نے مغربی آرٹ کی تاریخ میں حسن اور بدصورتی کے بدلتے تصورات پر روشنی ڈالی ہے اور اس قسم کے دلچسپ سوالات اٹھائے ہیں کہ کیا بدصورتی بھی خوبصورتی کی طرح دیکھنے والے کی آنکھ میں ہی ہوتی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ جمالیاتی تاریخ نے بدہئیتی یا بدنمائی کے تصورات کو وہی اہمیت نہیں دی جو خوشنمائی یا خوبصورتی کو دی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ بدصورتی کو ہمیشہ خوبصورتی کی ضد ہی سمجھا گیا اور اس پر حتمیت سے تصور سازی کو دلچسپ ہی نہیں سمجھا گیا؟ جمالیاتی تاریخ ہی کی ذیل میں ان کا ایک عجیب و غریب کام’’ فہرست‘‘ کی شعریات سے متعلق ہے۔یہاں وہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ مغربی تہذیب میں فہرستوں کی بھرمار کے پیچھے کونسے دلچسپ عوامل کارفرما ہیں؟
بحیثیت مترجم اس دقیق جہانِ تخلیق میں کسی اجنبی تہذیب کے مسافر کی سیر کے امکانات کا نہایت مختصر سا جائزہ نہ لیا جائے تو تشنگی رہ جانے کا امکان ہے۔ ترجمے میں سے متعلق ان کے کچھ اہم دروس کو مضامین کی شکل میں Mouse or Rat? نامی ایک مجموعے کی شکل میں شائع کیا جا چکا ہے۔ ایکو کے اس قول کی اہمیت کہ ’ترجمہ فنِ ناکامی ہے‘ اس وقت واضح ہوتی ہے جب ان کے کسی بھی ناول کے کچھ حصوں کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ مثال کے طور ہر اگر اوپر دئیے گئے اقتباس کو بغور دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ ایک مترجم کو کس طرح پہلی کوشش میں حد درجے ناکامی کا سامنا کرتے ہوئے بہرحال اپنی تمام تر توجہ سمجھوتے پر مرکوز کرنی پڑتی ہے۔مثال کے طور پر مشرقی ثقافت میں ہنرمند طبقات مثلاً انجینئرنگ وغیرہ کے ساتھ کم سے کم درجے میں بھی کوئی ظرافت کی روایت نہیں ملتی۔ ایکو کے امریکی مترجم ولیم ویور یہاں hydraulic joke کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں جو ہماری ثقافت میں ماقوائی لطیفے کے طور پر ڈھل کر اگر بالکل بے معنی نہیں تو کم از کم بہت اجنبی محسوس ہوتی ہے۔ اس عبارت میں آگے چل کر ایکو اپنی اصل اطالوی تحریر میں ہی ایک لاطینی اصطلاح nequaquam vecui استعمال کرتے ہیں جسے ان کے امریکی مترجم نے ترجمے کے بغیر اسی طرح چھوڑ دینا مناسب سمجھا ۔ اس لاطینی عبارت کے کئی ترجمے ممکن ہیں اور اردو ترکیب ’’خوفِ خلا‘‘ ایک ناگزیر سمجھوتہ ہے تاکہ ایک نیم فلسفیانہ بلکہ اساطیری اصول کو کسی ترکیب میں قید کر کے خوشنما بنایا جا سکے۔ اسی طرح روسیکروسیت (Roscicrucianism) فری میسن قسم کی ایک نسبتاً کم مشہور روایت ہے جس سے متعلق فلسفیانہ یا نیم مذہبی عقائد پر مشتمل دو دستاویزات سترہویں صدی کے ابتدائی بیس سالوں میں منظرِ عام پر آئے۔ راقم کو کچھ تلاش کے بعد معلوم ہوا کہ ان دونوں دستاویزات کے قدیم مخطوطے ایکو کے کتب خانے میں موجود ہیں۔ ترجمے کے حوالے سے ذاتی رائے یہی ہے کہ اگر بورخیس کا ترجمہ زبانِ اردو میں ناگزیر سمجھوتے کے بعد بہرحال ممکن ہے اور ایک سے زیادہ بار کیا جا چکا ہے تو امبرٹو ایکو کے معاملے میں ان کے کسی بھی ناول کی ضخامت اور تقریباً ہر دوسرے یا تیسرے جملے میں متروک زبان اور زیادہ تر مفقود یا نادر حوالوں کے باعث کسی ادبی ادارے کی سرپرستی کے باوجود یہ کام کسی بھی مترجم کے لئے نہایت ہی مشکل ہے۔ بالفرض اگر بساط بھر عرق ریزی کے بعد اس ناممکن کو ممکن بھی کر دکھایا جائے تو زبانِ اردو میں شاید اس قسم کی نثر کے قارئین آٹے میں نمک کے برابر ہوں۔ لیکن بہرحال وہ جتنے بھی کم ہوں ،یوں معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اپنی زبان میں امبرٹو ایکو کے اجنبی اور سحر انگیز جہان کی سیر کا لطف اٹھانے کے لئے کافی انتظار کرنا پڑے گا۔
آخر میں پچھلی صدی کے اس عظیم ترین تخلیقی ذہن کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے ’فوکوکا پنڈولم‘ ہی میں موجود اپنے پسندیدہ مکالمے کا ترجمہ پیش کرنے کی جسارت کروں گا۔ یہ ایک طویل مکالمہ ہے لیکن گمان ہے کہ آپ ایکو کے اس عظیم نثری ٹکڑے میں موجود کرداروں اور ان کے استدلال کو اپنے آس پاس محسوس کر سکتےہیں۔

’’کیا تم کسی یونیورسٹی میں جاتے ہو یا پڑھائی وغیرہ کرتے ہو؟‘‘
’’ مانو یا نہ مانو لیکن ضروری نہیں کہ یہ دونوں قضایا باہم متناقض ہوں۔ میں ٹمپلر فرقے پر ایک تحقیقی مقالہ لکھنے کے آخری مراحل میں ہوں۔‘‘
’’کیا بکواس موضوع ہے،‘‘اس نے کہا۔ ’’میرا سمجھنا تھا کہ پاگل لوگ ہی اس موضوع میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘‘
’’نہیں، میں اصل چیز پڑھ رہا ہوں۔ ان پر چلنے والے مقدمے کی دستاویزات۔ خیر، تم ٹمپلر فرقے کے بارے میں کیا جانتےہو؟‘‘
’’میں ایک اشاعتی ادارے کے لئے کام کرتا ہوں۔ ہمیں پاگل اور عاقل، دونوں قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ کچھ عرصے بعد ایک مدیر کو خود بخود پاگلوں کی پہچان ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی بھی ٹمپلر فرقے کا موضوع چھیڑ دےتو وہ تقریباً ہمیشہ پاگل ہی ثابت ہو گا۔‘‘
’’کیا میں نہیں جانتا! ان کا نام ہی شیطانی ہے۔ لیکن تمام پاگل تو ٹمپلر کی بات نہیں کرتے۔ باقیوں کو تم کیسے پہچانتے ہو؟‘‘
’’میں ابھی وضاحت کرتا ہوں۔ میں نے تمہارا نام تو پوچھا ہی نہیں؟‘‘
’’کاسوبون۔‘‘
’’کاسوبون۔ وہ تو Middlemarch کا ایک کردار نہیں تھا؟‘‘
’’میں نہیں جانتا۔ نشاۃ ثانیہ کے دور میں اسی نام کا ایک ماہرِ لسانیات بھی گزرا ہے، لیکن میرا اس سے کوئی رشتہ نہیں۔ ‘‘
’’اگلا دور میری طرف سے ہو گا۔ دو اور جام دینا، پیلادے۔اچھاتو قصہ یوں ہے کہ اس دنیا میں چار قسم کے لوگ بستے ہیں: بدحواس، احمق، گھامڑ اور پاگل۔ ‘‘
’’اور اس میں سب شامل ہیں؟‘‘
’’ہاں بالکل۔ ہمارے سمیت۔ یا کم ازکم میرے سمیت۔ اگر تم بغور جائزہ لو تو ان اقسام میں ہر کوئی شامل ہو جاتا ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی وقت بدحواس، احمق، گھامڑ یا پاگل میں سے کچھ نہ کچھ ہوتا ہے۔ ایک عام ذی شعور انسان ان تمام اجزاء کا ایک مناسب مجموعہ ہوتا ہے، ان چار مثالی اقسام کا۔ ‘‘
’’Idealtypen۔‘‘
’’بہت خوب۔ تو تم جرمن جانتے ہو؟‘‘
’’بس اتنی کہ کتابیات نگاری کے لئے کام چل جائے۔‘‘
’’جب میں اسکول میں تھا تو کہا جاتا تھا کہ جسے جرمن آتی ہے وہ کبھی گریجویشن نہیں کر سکتا ۔ کیوں کہ ایک عمر لگ جاتی تھی جرمن آتے آتے۔ سنا ہے آج کل یہی معاملہ چینی زبان کے ساتھ ہے۔ ‘‘
’’میری جرمن اتنی اچھی نہیں لہٰذا گریجویشن کر ہی لوں گا۔ لیکن واپس تمہاری زمرہ بندی کی طرف آتے ہیں۔ غیرمعمولی ذہنوں کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ مثال کے طور پر آئن سٹائن؟‘‘
’’ ایک غیرمعمولی ذہن ان میں سے ایک جزو کو پوری چکا چوند سے اس طرح استعمال کرتا ہے کہ دوسرے اجزاء کو اسے لئے ایندھن کے طور پر استعمال کرتا ہے۔‘‘ وہ اپنے جام کا گھونٹ بھرتے ہوئے بولا۔ ’’کیا حال ہے جانم،‘‘ اس نے کہا۔ ’’تمہاری وہ خود کشی کی کوشش کہاں تک پہنچی ؟‘‘
’’ کہیں نہیں،‘‘ لڑکی نے سامنے سے گزرتے ہوئے جواب دیا۔’’میں اب اپنی مدد آپ کی خاطرایک جگہ کچھ لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے لگی ہوں۔‘‘
’’اچھا ہے، تمہارے لئے،‘‘بیلبو نے کہا۔ پھر واپس میری طرف مڑا۔ ’’یقینا بندہ کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر اجتماعی خود کشی بھی تو کر سکتا ہے۔ ‘‘
’’واپس پاگلوں کے موضوع پر آؤ۔‘‘
’’دیکھو میری بات کو بہت لغوی انداز میں نہ دیکھو۔ میں پوری کائنات کو کسی ضابطے میں باندھنے کی کوشش نہیں کر رہا۔ میں صرف اشاعتی ادارے کے تناظر میں ایک پاگل کی بات کر رہا ہوں۔یہ بس ایک وقتی سی تعریف ہے۔‘‘
’ٹھیک ہے۔ میری باری۔‘‘
’’ٹھیک ہے، پلادے، برف کم۔ ورنہ بہت جلدی خون میں مِل جاتی ہے۔ بدحواسوں کی بات کرتے ہیں۔بدحواس بات تک نہیں کر سکتے، وہ بس کچھ ہکلاتے ہیں یا بڑبڑاتے ہیں۔ تم نے دیکھا ہی ہو گا،جیسے وہ آدمی جو بدحواسی میں اپنے ماتھے پر آئس کریم مار لیتا ہے یا گھومتے دروازے میں غلط جانب سے داخل ہو جاتا ہے۔‘‘
’’یہ ممکن ہی نہیں۔‘‘
’’بدحواسوں کے لئے ممکن ہے۔ لیکن بدحواسوں سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں: یہ کبھی اشاعتی اداروں کے دفاتر کا رخ نہیں کرتے۔ تو ان کا ذکر چھوڑو۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘
’’احمق ہونا ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ یہ ایک قسم کا سماجی طرزِ عمل ہے۔احمق وہ ہے جو ہمیشہ اپنے جام سے باہر کی بات کرتا ہے۔ ‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’اس طرح۔‘‘ اس نے سامنے کاؤنٹر پر پڑے جام کی طرف اشارہ کیا۔ ’’وہ اپنے جام کے اندر موجود چیز کی بات کرنا چاہتا ہے لیکن کسی نہ کسی طرح اس میں ناکام ہوتا ہے۔ یہ وہ آدمی ہے جو ہمیشہ اپنی ہی دُم پر پیر رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ کسی ایسے بندے سے علیک سلیک کی خاطر اس کی بیوی کا حال پوچھ بیٹھے گا جس کی بیوی اسے ابھی ابھی چھوڑ کر گئی ہو۔ ‘‘
’’ہاں، میں کچھ ایسے لوگوں کو جانتا ہوں۔‘‘
’’احمقوں کی بڑی مانگ ہے، بالخصوص میل جول کے موقعوں پر۔ وہ ہر ایک کو شرمندہ کرتے ہیں لیکن گپ شپ کے لئے موضوع فراہم کر دیتے ہیں۔ اپنی مثبت شکل میں وہ سفارت کار بن جاتے ہیں۔ عین کسی سے غلطی سرزد ہونے کے موقع پر جام سے باہر کی بات کرنا موضوع تبدیل کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ لیکن احمقوں سے بھی ہمیں کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ کبھی تخلیقی نہیں ہوتے، ان کی تمام فن کاری مانگے کی ہوتی ہے، لہٰذا وہ کبھی ناشرین کو مسودے جمع نہیں کراتے۔ احمقوں کا یہ دعوی نہیں ہوتا کہ بلیاں بھونکتی ہیں لیکن وہ اس وقت بلیوں کا موضوع چھیڑ دیتے ہیں جب ہر کوئی کتوں کی بات کر رہا ہوتا ہے۔ وہ گفتگو کے تمام اصول توڑتے چلے جاتے ہیں اور جب آزادی کی انتہا پر ہوں تو پرشکوہ ہوتے ہیں۔ یہ ایک مرتی ہوئی نوع ہے، تمام بورژوا اخلاقیات کی تجسیم۔ انہیں تو مادام ورٹ ڈورین (Verdurin) کی بیٹھک میں ہونا چاہیئے یا پھر کہیں گہیرمونت (Guermantes) کے ساتھ۔ کیا تم طالبعلم اب بھی ایسی چیزیں پڑھتے ہو؟‘‘
’’میں تو پڑھتا ہوں۔‘‘
’’بس پھر یوں سمجھ لو کہ احمق کوئی ژواکیم مورات (Joachim Murat)ہے جو اپنے افسروں کی پریڈ کا معائنہ کر رہا ہے۔ وہ اپنے سامنے مارتینیک (Martinique)سے تعلق رکھنے والے ، سینے پر میڈل سجائے ایک افسر کو دیکھتا ہے۔ ’کیا تم سیاہ فام ہو؟‘ مورات پوچھتا ہے۔ ’’جی جناب!‘‘ وہ افسر جواب دیتا ہے۔ اور مورات کہتا ہے:’شاباش، شاباش، جاری رکھو!‘ یا اسی طرح کچھ۔ تم میری بات سمجھ رہے ہو نا؟معاف کرنا لیکن آج میں اپنی زندگی کے ایک تاریخی فیصلے کی خوشی منا رہا ہوں۔ میں نے پینا ترک کردیا ہے۔ اک اور دور؟ جواب نہ دینا، تم مجھے شرمندہ کر دو گے۔ پلادے!‘‘
’’اور گھامڑ؟‘‘
’’آہ، گھامڑ کبھی غلطی نہیں کرتے۔ ان کا استدلال خلط ملط ہوتا ہے۔ اس آدمی کی طرح جو کہتا ہے کہ تمام کتے پالتو ہوتے ہیں اور تمام کتے بھونکتے ہیں، اور چونکہ بلیاں بھی پالتو ہوتی ہیں لہٰذا وہ بھی بھونکتی ہیں۔ یا یوں کہ ایتھنز کے تمام باسی فانی ہیں اور پیرایوس کے تمام رہنے والے فانی ہیں لہٰذا پیرایوس کے رہنے والے تمام لوگ ایتھنز کے باسی ہیں۔ ‘‘
’’جو کہ وہ ہیں‘‘۔
’’ہاں، لیکن صرف حادثاتی طور پر۔ گھامڑ کبھی کبھار درست بات بھی کرتے ہیں لیکن ان کا استدلال غلط ہی ہوتا ہے۔ ‘‘
’’تمہارا یہ مطلب ہے کہ غلط بات کہنے میں کوئی مسئلہ نہیں جب تک استدلال درست ہو۔‘‘
’’ظاہر ہے۔ ورنہ ذی شعور حیوان ہونے کا مطلب ؟‘‘
’’تمام عظیم بن مانس حیات کی پست تر انواع سے ارتقأ کا نتیجہ ہیں ، انسان بھی حیات کی پست تر انواع سے ارتقاء کا نتیجہ ہے، لہٰذا انسان ایک عظیم بن مانس ہے۔ ‘‘
’’بہت خوب۔ اس طرح کے تمام دعووں کو دیکھ کر شک پڑتا ہے کہ کچھ غلط ہے لیکن کیا اور کیوں، یہ واضح کرنا محنت طلب ہے۔ گھامڑ عیار ہوتے ہیں۔ تم احمق کو فوراً شناخت کر لو گے (بدحواس کو تو خیر چھوڑو) لیکن گھامڑ کا استدلال تقریباً تمہارے جیسا ہی ہوتا ہے، دونوں کے بیچ لامتناہی حد تک کم فاصلہ ہے۔ گھامڑ منطقی مغالطوں کا ماہر ہوتا ہے۔ ایک مدیر کے لئے یہ بری خبر ہے۔ گھامڑ کی شناخت میں اس کی عمر لگ سکتی ہے۔ بہت سے گھامڑوں کی کتابیں شائع ہوتی چلی جا رہی ہیں کیوں کہ وہ پہلی نظر میں بہت معقول لگتے ہیں۔ مدیر گھامڑ چھانٹنےپر تو مامور نہیں۔ اگر سائنسی اکیڈمیاں یہ نہیں کر رہیں تو اسے کیا پڑی ہے؟‘‘
’’فلسفی بھی ایسے ہی ہیں۔ مثال کے طور پر سینٹ آنسلم کا وجودی استدلال سراسر گھامڑ پن ہے۔ خدا کا ہونا لازم ہے کیوں کہ میں اسے ایک ایسی ہستی کے طور پر تصور کر سکتا ہوں جو بشمول خاصیتِ وجود ہر اعتبار سے کامل ہو۔سینٹ نے فکر میں کسی شے کے ہونے اور حقیقت میں کسی شے کے ہونے کو خلط ملط کر دیا ہے۔ ‘‘
’’ یہ بات درست ہے لیکن گانیلن کا لکھا گیا ردّ بھی تو گھامڑ پن ہی ہے۔ میں سمندر میں ایک جزیرے کو تصور کر سکتا ہوں چاہے وہ اصل میں وجود نہ رکھتا ہو۔ وہ امکانی تصورات اور ناگزیر تصورات کو خلط ملط کر رہا ہے۔‘‘
’’گھامڑوں کے بیچ مقابلہ۔‘‘
’’بالکل۔ اور خدا اس مقابلے کے ایک ایک منٹ کا حظ اٹھاتا ہے۔ وہ آنسلم اور گانیلن کو گھامڑ ثابت کرنے کے لئے ناقابلِ تصور ہستی بننے کا انتخاب کرتا ہے۔ تخلیق کا کیا ہی ارفع مقصد ہے، یا یوں کہہ لو کہ خدا اسی لئے موجود ہے کہ کونیاتی گھامڑ پن کو آشکار کیا جا سکے۔‘‘
’’ہم گھامڑوں میں گھرے ہوئے ہیں۔‘‘
’’میرے اور تمہارے علاوہ ہر کوئی گھامڑ ہے۔ بلکہ اگر گستاخی نہ سمجھو تو یوں کہوں کہ تمہارے علاوہ۔ ‘‘
’’نہ جانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ نظریۂ گوڈل کا اس سارے مسئلے سے کوئی تعلق ہے۔‘‘
’’میں کیاجانوں، میں تو ایک بدحواس ہوں۔پلادے!‘‘
’’میری باری۔‘‘
’’کوئی مسئلہ نہیں، ہم آدھے آدھے کر لیں گے۔ کریٹ کے اپیمنیدس کا قول ہے کہ کریٹ کے تمام باسی جھوٹے ہیں۔ یہ یقیناً سچ ہو گا کیوں کہ وہ خود بھی کریٹ ہی کا رہنے والا ہے اور اپنے ہم وطنوں سے خوب واقف ہے۔‘‘
’’ یہ گھامڑ پن پر مبنی تفکر ہے۔‘‘
’’سینٹ پال۔ ٹائٹس کے نام خط۔ دوسری طرف اپیمنیدس کو جھوٹا ماننے والے تمام لوگوں پر لازم ہے کہ وہ یہ سمجھیں کہ کریٹ کے تمام لوگ جھوٹے نہیں ہیں، لیکن کریٹ کے باسی کریٹ کے باسیوں پر بھروسہ نہیں کرتے لہٰذا کریٹ کا کوئی بھی باسی اپیمنیدس کو جھوٹا نہیں کہتا۔ ‘‘
’’کیا یہ گھامڑ پن نہیں؟‘‘
’’تم فیصلہ کرو۔ میں تو بتا چکا ہوں کہ ان کی شناخت بہت مشکل ہے۔ گھامڑ تو نوبل انعام بھی جیت سکتےہیں۔‘‘
’’ذرا رکو۔ ان سب میں سے جو یہ نہیں مانتے کے خدا نے سات دنوں میں کائنات تخلیق کی، کچھ بنیاد پرست نہیں ہیں۔ لیکن ان سب میں سے جن کا یہ ماننا ہے کہ خدا نے سات دنوں میں یہ کائنات تخلیق کی، کچھ بنیاد پرست ہیں۔ لہٰذا جو یہ نہیں مانتے کہ خدا نے سات دنوں میں کائنات تخلیق کی، کچھ بنیاد پرست ہیں۔کیسا ہے؟‘‘
’’میرا خدایا، اگر میں سچ سچ کہوں تو میں نہیں جانتا۔ گھامڑ پن ہے یا نہیں؟‘‘
’’یقیناً ہے، چاہے یہ سچ بھی ہو۔ یہاں قیاسِ استخراج کے ایک بنیادی اصول کی خلاف ورزی ہو رہی ہے: عمومی نتائج دو مخصوص قضایا سے اخذ نہیں کئے جا سکتے۔‘‘
’’اور اگر تم گھامڑ ہوئے تو ؟‘‘
’’تو میں تو ایک شاندار معیت میں ہوں گا۔ ‘‘
’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ اور شاید ہم سے مختلف کسی منطقی نظام میں ہمارا گھامڑ پن دانشمندی کہلائے۔منطق کی تمام تاریخ گھامڑ پن کے کسی قابلِ قبول تصور کی تعریف کی کوششوں سے عبارت ہے۔ جو ایک بہت ہی وسیع منصوبہ ہے۔ ہر عظیم مفکر کسی اور کے نزدیک گھامڑ ہے۔‘‘
’’فکر گھامڑ پن کا ایک منظم اظہارہے۔‘‘
’’زبردست۔دو بج گئے ،پلادے کی جگہ بس کسی بھی وقت بند ہوا چاہتی ہے اور اب تک ہم پاگلوں پر نہیں پہنچے۔‘‘
’’بس میں اسی پر آ رہا تھا۔ پاگل کو باآسانی پہچانا جا سکتا ہے۔ وہ ایک ایسا گھامڑ ہے جو بس ٹامک ٹوئیاں مارتا رہتا ہے۔ گھامڑ اپنا نظریہ ثابت کرتا ہے، اس کے پاس بہرحال ایک منطق ہوتی ہے چاہے وہ کتنی ہی غلط کیوں نہ ہو۔ لیکن پاگل کا منطق سے کچھ لینا دینا نہیں، وہ چور راستوں سے مدد لیتا ہے۔ اس کے ہاں کوئی بھی چیز کسی بھی چیز کے اثبات میں لائی جا سکتی ہے۔ ایک پاگل سر تاپا پیش قیاسی مفروضات میں جکڑا ہوتا ہے اور اس کے سامنے آنے والی ہر حقیقت اس کے پاگل پن کو ثابت کرتی چلی جاتی ہے۔ آپ عقلِ عامہ کے ساتھ اس کے کھلواڑ اور اس کے القائی دعووں سے اسے پہچان سکتے ہیں، اور اس واقعے کی مدد سے بھی کہ جلد یا بدیر وہ ٹمپلر فرقے کا موضوع چھیڑ ہی دیتا ہے۔
’’ہمیشہ؟‘‘
’’ایسے پاگل بھی ہوتے ہیں جو ٹمپلروں کی بات نہیں چھیڑتے لیکن جو چھیڑتے ہیں وہی سب سے زیادہ عیار ہیں۔شروع میں وہ بالکل ٹھیک ٹھاک لگتے ہیں لیکن پھر اچانک۔۔۔‘‘ ٹمپلر فرقے کا ذکر چھڑا تو ابھی کل ہی کی بات ہے ایک شخص مجھے اسی موضوع پر ایک مسودہ دے گیا۔ ایک پاگل، لیکن چہرہ انسانوں جیسا۔ کتاب کی ابتداء تو کافی معقول ہے۔ تم دیکھنا پسند کرو گے؟‘‘
’’مجھے بہت خوشی ہو گی۔ شاید میں اس میں سے کچھ اپنے مقالے کے لئے بھی استعمال کر سکوں۔‘‘
’’مجھے اس پر شک ہی ہے۔ لیکن اگر آدھا گھنٹہ نکال سکو تو آ جانا۔ سینسیر رےناتو سے آتی ہوئی بس نمبر ۱۔ تمہارا آنا تم سے زیادہ میرے لئے مفید ہو گا۔ تم بتا سکو گے کہ کتاب کسی کام کی بھی ہے یا نہیں۔‘‘
’’ تم مجھ پر کیوں بھروسہ کر رہے ہو؟‘‘
’’کون کہتا ہے کہ میں تم پر بھروسہ کر رہا ہوں؟ لیکن اگر تم آئے تو بھروسہ کر لوں گا۔ میں تجسس پر بھروسہ کرتا ہوں۔ ‘‘
ایک طالبعلم غصے سے لال ہوتا ہوا اندر داخل ہوا۔ ’’کامریڈز! نہر کے اس طرف سے فاشسٹ آ رہے ہیں!‘‘
’’چلو ان کی خبر لیں،‘‘ تاتاری مونچھوں والے اسی آدمی نے کہا جس نے مجھے کروپسکایا (Krupskaya) والی بات پر دھمکی دی تھی۔ ’’آ جاؤ، کامریڈز!‘‘ اور وہ سب باہر نکل گئے۔
’’تم کیا کہتے ہو؟‘‘ میں نے ذرا شرمندگی محسوس کرتے ہوئے کہا۔ ’’ہم بھی ساتھ دیں؟‘‘
’’نہیں،‘‘ بیلبو بولا۔ ’’پلادے جگہ خالی کروانے کے لئے یہ حربے استعمال کرتا ہے۔ ویگن میں پہلی رات گزارنے کے لئے تو میں بہت زیادہ نشے میں ہوں۔ شاید ایک دم ترک کر دینے کے باعث یہ مسئلہ ہو رہا ہے۔ اب تک میں نے جو بھی کہا وہ جھوٹ تھا۔ شب بخیر، کاسوبون۔ ‘‘

مضمون نگار: عاصم بخشی

(یہی مضمون مشہور اردو ویب سائٹ ہم سب پر بھی دو قسطوں میں شائع کیا جاچکا ہے، جبکہ یہاں اس کو اس کی مکمل صورت میں ایک ساتھ اپلوڈ کیا جارہا ہے۔ا۔د)


اتوار، 21 فروری، 2016

ہمیں خود سے خطرہ ہے/تصنیف حیدر

میں نے نیوز چینل دیکھنا بند کردیا ہے۔ویسے بھی خبروں کی تجارت ہمارے یہاں بہت چل نکلی ہے۔یہ ایک اچھا سودا ہے، اس کے بہت سے پہلو ہیں، بہت سے زاویے ہیں۔ابتدا میں مجھے ٹیلی ویزن پر ہونے والی بحث بہت ہی اچھی لگا کرتی تھی، بہت غور سے سنا کرتا تھا۔ مگر میں اس تبدیلی کا گواہ ہوں، جس میں نیوز اینکر اس بحث کے تاروں کو جوڑنے والے ذریعے سے بڑھ کر ایک سوال طلب کرنے والا بابو بنا اور پھر دھیرے دھیرے غنڈہ بن گیا۔آپ کوئی بھی نیوز چینل لگائیے، نیوز چینلوں پر دندناتے، چیختے چنگھاڑتے نیوز اینکرز آپ کو سہماتے ہوئے، خوف کی ایک پرت چڑھانے کے لیے تیار رہیں گے۔ خبر سنانا، ایک بالکل الگ بات ہے، مگر اس پر اپنا تبصرہ پیش کرنا، اس کے حق میں فیصلہ دینا، کسی کو اچھا،برا ثابت کرنا ، یہ ساری باتیں ایسی ہیں، جن کی وجہ سے نیوز چینلز کے اینکر حضرات اب ہمارے سماج میں ایک ایسے فرد کے طور پر ابھرے ہیں، جنہوں نے پولیس کی غضب ناکیوں اور غنڈہ گردیوں کو بھی بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔پولیس والا آپ سے رشوت لے سکتا تھا، آپ کو جیل میں ڈال سکتا تھا، مگر اب بس یہ ہوگا کہ ایک روز آپ اپنے گھر بیٹھے ہونگے، کسی معاملے میں پولیس آپ سے تفتیش کرنے پہنچے گی اور وہاں خبر بنانے والی ایجنسی کا ایک دلال آپ کی ٹوہ میں موجود ہوگا اور پولیس جوں ہی آپ کا دروازہ کھٹکھٹائے گی ، وہ اس خبر کو ہاتھوں پر آگ کی طرح رکھ کر بھاگنے کی صورت اپنے چینل پہنچے گا اور اس بات کی تصدیق کردے گا کہ ہاں بھئی! فلانے کے گھر پولیس پہنچی ہے۔انسانی زندگی کے بالکل ذاتی معاملات میں دخل دینے کا پورا حق رکھنے والا یہ نیوز چینل اب ایک خبر بھاڑے کے ایک ٹٹو اینکر سے بنوائے گا اور پھر کچھ ہی دیر میں آپ ایک اچھے خاصے عزت دار شخص سے کریمنل، دیش دروہی ، فاشسٹ، سماج کے لیے خطرہ اور پھانسی کے حق دار شخص بن جائیں گے۔اس رویے سے زیادہ خطرناک مجھے یہ بات نظر آتی ہے کہ نیوز چینلز کے اسٹوڈیو میں کوئی شریف آدمی، جو کہ ایک اچھے عہدے پر فائز ہے، بیٹھا ہے اور میڈیا کا اجارہ دار اینکر اس سے دھمکا دھمکا کر اپنی مرضی کے جوابات حاصل کرنا چاہ رہا ہے، اب ایسے میں اس کی زبان پھسلے، وہ گھبراجائے، وہ پریشان ہو، ماتھے سے پسینہ پونچھے اور شامت اعمال اس کے منہ سے کوئی ایسا لفظ نکلے جس سے نیوز اینکر کو اپنی مرضی کا جواب بنانے کا موقع مل جائے، پھر ایک خبر تیار۔ نیچے فوراہی ایک پٹی چلنے لگے گی۔دنیا کے تمام بڑے ذہن ایسے نیوز چینلوں کو طلاق دے چکے ہیں، بعضوں نے تو انٹرویو تک پر پابندی لگا دی ہے۔آخر پیسے جمع کرنے کی دھن میں لوگوں کو اس طرح بے وقوف بنانے کا گر یہ نیوز چینلز کس طرح ایجاد کرلیتے ہیں۔اس کا جواب شاید ہمیں اپنے ہی گریبانوں میں ملے۔ہم لوگ وقت کے ساتھ بدلے نہیں، کچھ لوگوں نے ہمارے حق میں ہمیشہ سے جو فیصلہ کیا، ہم اسے چپ چاپ قبول کرتے چلے آئے۔ایک دن کچھ لوگ اٹھے ، انہوں نے کہا کہ ہم نے تمہیں غلام بنالیا ہے، ہم نے ان کی آقائی قبول کرلی، ایک روز کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم نے ملک تقسیم کردیا ہے، ہم نے ان کے اس فیصلے پر بھی اپنی کروڑوں جانیں قربان کردیں۔ یہ ایسے ہی کچھ لوگ زندگی کے ہر شعبے میں ہمیں اپنا غلام بنائے رکھتے ہیں۔ مذہبی اعتبار جس طرح ہمیں ایک ملا، ایک پروہت کی ضرورت ہوتی ہے، جو ہمارے اور خدا کے معاملات کے درمیان لٹھ لیے ہمیشہ کھڑا رہے، اسی طرح دنیاوی زندگی میں بھی ہمیں ایک ایسے نمائندے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، جو ہماری بات کرسکے، ہماری زبان بول سکے۔اگر کوئی نیوز چینل، ایسی خبریں دکھاکر ٹی آرپی لوٹ رہا ہے، جس سے نفرت پیدا ہوتی ہے، تو مان لیجیے کہ ہمارا نمائندہ ہماری ہی زبان پروس رہا ہے، جو کتنا ہی زہر آلود کیوں نہ ہو، مگر ہمیں اسے کھانے کی عادت ہے، شوق ہے، لت ہے۔وہ ہمارا نمائندہ ہے، تو ہم بھی تو کہیں نہ کہیں ایسے ہی ہیں۔بہت جلدی میں باتوں پر یقین کرلینے والے، بہت تیزی سے کسی کے حق میں فیصلہ کرلینے والے۔اس کی مثال اگر بہت سامنے کی دی جائے تو یہ ہوگی کہ اگر کسی عورت کو ہم سڑک پر سگریٹ پیتے، ٹھٹحہ لگاتے، پھٹی ہوئی ٹائٹ جینس پہنے دیکھ لیں تو اس کے حق میں جھٹ ایک فیصلہ صاد رکردیتے ہیں۔
اب بات کرتے ہیں جے این یو کی۔آج سے پہلے میرا اس معاملے میں یہ موقف تھا کہ اگر اس ملک میں کسی نے 'پاکستان زندہ باد'کے نعرے لگائے ہیں تو اس نے غلط کیا ہے اور اب بھی یہی مانتا ہوں کہ اس ملک میں پاکستان زندہ باد کے نعرے نہیں لگنے چاہیے، بلکہ کوئی بھی ایسی بات جو ایک ساتھ بہت سارے ہندوستانیوں کی دل آزاری کا باعث بنے، اسے کرنے کا حق کسی کو نہیں ہے۔مگر آج زی نیوز کے ایک صحافی کے اعتراف نے یہ بات صاف کردی ہے کہ جس ویڈیو کو اس گناہ کا مرکزی حوالہ بنایا گیا، اس میں پاکستان زندہ باد کے نعرے موجود ہی نہیں تھے۔سو ایسے میں وہ تمام لوگ جو وہاں تھے، کسی طرح قصور وار نہیں ہیں اور ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہیے۔اور اگر اس قسم کے نعرے اس میں موجود ہیں بھی،تو وہ کن لوگوں نے لگائے ہیں ، ان کو کیا سزادینی چاہیے،اس کا فیصلہ ہمیں نہیں عدالت کو کرنا ہے۔میری ذاتی رائے میں جس ملک میں آپ رہتے ہیں اس کی ترقی کی فکر، اس میں امن کی بحالی کی خواہش اچھی بات ہے،ہمیں ملک پرستی کے بجائے ملک سازی پر دھیان چاہیےکیونکہ سخت گیر قسم کی ملک پرستی ایک خراب چیز ہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح مذہب پرستی بہت سی بربادیاں لایا کرتی ہے، میرے نزدیک ہم اس پرانی حالت سے آج تک کیوں نہیں نکل پائے جس میں ایک بے جان جھنڈے کو اٹھائے رکھنے والا علمبردار، اپنی جان گنواکر اس جھنڈے کی حفاظت کیا کرتا تھا۔ میرے نزدیک کوئی بھی جھنڈا انسانی زندگی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔لیکن اس ذاتی رائے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں کسی اور کو جھنڈے کے احترام سے روکوں یا ملک پرست لوگوں کو برا بھلا کہوں۔مگر اتنا دھیان رکھیے کہ آپ کی ملک پرستی کہیں کسی اور کے جان و مال کے نقصان کا سبب تو نہیں بن رہی ہے۔اگر بن رہی ہے ، اگر ایسا ہورہا ہے، اگر اس سے بھی دہشت کے وہی تسمےپھوٹ رہے ہیں جو مذہب پرستی نے پیدا کیے ہیں تو پھر آپ کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔جہاں تک سوال ہے پھانسی کا، تو کسی بھی شخص کو پھانسی ملنی چاہیے یا نہیں۔اس کا فیصلہ صرف عدالتوں کو کرنا چاہیے، اگر آپ کی نظر میں عدالت اس کا فیصلہ کرنے کے لیے نا کافی ہے تو مان لیجیے کہ آپ جس جھنڈے کے لیے لڑ مررہے ہیں، اس کا سارا غرور وہاں کے سیکولر آئین کی بدولت ہے، اور جب یہ آئین ہی تار تار ہوگیا تو اس جھنڈے کی عظمت کوئی اہمیت نہیں رکھتی، اس کا وجود آپ نے خود خطرے میں ڈال دیا ہے،اس لیے خود سے سوال کیجیے کہ کیا یہ غداری کی ہی ایک صورت نہیں، کیا یہ آپ کی وہ نادان دوستی نہیں، جس سے بہتر کسی دانا کی دشمنی ہوتی ہے۔اور پھر ہر شخص کو پھانسی دینے کی سوچ کیا دہشت گردانہ نہیں ہے، دہشت گرد اور کرتا کیا ہے، اس میں اور آپ میں صرف اتنا فرق ہے کہ وہ قانون کے وجود سے انکار کرتے ہوئے کسی کو جان سے ماردینے کا فیصلہ خود کرتا ہے اور آپ کسی کو جان سے مارنے کے لیے قانون اور حکومت پر دبائو بنانا چاہتے ہیں، تو پھر آپ میں اور دہشت گرد میں صرف بال برابر ہی تو فرق رہا۔جب اپنا آئینہ گندا ہو، اس پر کیچڑ لگی ہو تو چہرے کی بدرونقی و بد صورتی کا الزام کسی اور پر دینے کا کیا مطلب ہے۔پھانسی ایک ایسا مرض ہے، جس کے خلاف دنیا کے بڑے لوگ رہے ہیں۔مثالیں بہت ہیں، مگر صرف اتنی بات سمجھیے کہ کسی کو جان سے ماردینے سے برائی جڑ سے ختم نہیں ہوسکتی، برائی ایک وائرس کی طرح ہے، جب آپ کے کمپیوٹر میں وائرس آتا ہے تو آپ اینٹی وائرس سے کام لیتے ہیں یا ہتھوڑا اٹھا کر اسی کو توڑدیتے ہیں۔اپنی عام زندگی سے کچھ سیکھیے، اپنے ارد گرد نظر ڈالیے، کیا ایسے لوگ نہیں ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی میں بدسے بدتر گناہ کیے اور ایک عمر پر جاکر انہیں اس کی سنگینی کا احسا س ہوا اور وہ اچھے راستے کی طرف لوٹ آئے۔پھانسی دے کر آپ انسان کو اس منزل سے دور کردیتے ہیں، جہاں اس کا احساس نہ صرف اس کے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی اچھائی کا سبب بن سکے۔اور پھانسی ہمارے ملکوں میں ویسے بھی سیاست کا ایک بڑا سہارا بنی ہوئی ہے، ہمارے سیاسی دوستوں کو جب محسوس ہوتا ہے کہ کسی کو پھانسی دینے سے ان کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوگا تو وہ دیش بھکتی ، ریپ یا کسی اور جرم کی پاداش میں لوگوں کو پھانسی پر چڑھا دیتے ہیں۔پھانسی ایک آدمی کو دی جاتی ہے، مگر اس سے ایک قسم کا آکروش لوگوں میں پیدا ہوتا ہے، وہ جو اسے غلط سمجھتے ہیں، کسی بھی نظریاتی وجہ سے، اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ پھانسی سماجی نقطہ نظر سے بھی ایک تباہ کن فیصلے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ انسانی ذہن کا مسئلہ بڑا عجیب و غریب ہے، جب اسے اپنے آس پاس اندھیرا محسوس ہوتا ہے ، تو ایک حد پر جاکر وہ اس اندھیرے کو قبول کرلیتا ہے، چاہے وہ موت کا ہی اندھیرا کیوں نہ ہو، ایسا بہت سے لوگ کرتے ہیں، روہت ویمولا نے بھی ایسا ہی کیا تھا، اس لیے موت مسئلے کا حل نہیں، اس اندھیرے کو روشنی میں بدلنے کی ضرورت ہے۔پھانسی اس اندھیرے کو کچھ ذہنوں میں اور گہرا کردیتی ہے، اس لیے یہ نفسیاتی طور پر بھی خطرناک ہے۔الغرض میں پھانسی کے جتنے بھی نقصانات گنوائوں کم ہے۔اور پھر ایسی جلد بازی کیوں مچی ہے ہمارے معاشرے میں، کسی نے اگر ملک کے خلاف نعرہ لگایا ہے تو اس سے وجہ پوچھیے، کوئی آزادی کا مطالبہ کرتا ہے تو اس سے پوچھیے، معلوم کیجیے ، جانیے کہ آخر اسے ہمارے ساتھ رہنے میں تکلیف کیا ہے، کیوں وہ ہم سے الگ ہونا چاہتا ہے، اس کی اس تکلیف کو دور کرنے سے ہی مسائل ختم ہونگے۔ہمیں وہ ماحول پیدا کرنا ہوگا، جس میں کوئی بھی ہندوستانی ہمارے ساتھ رہتے ہوئے سماجی، نفسیاتی،مذہبی سطح پر خود کو تنہااور کٹا ہوا نہ سمجھے، اسے محسوس ہو کہ ہمیں اس کے اپنے ہیں، جن کے ساتھ اسے تقویت محسوس ہوتی ہے، ہمیں لوگوں کے حقوق کا احساس کرنا ہوگا۔ہر خبر پر چاہے وہ کیسی ہی کیوں نہ وہ، فورا یقین کرلینے سے وہ ایک خبر نہیں رہ جاتی بلکہ ایک خنجر بن جاتی ہے، یہ خنجر صرف تباہی پیدا کرتا ہے۔
نعرہ کیا ہے، اس پربھی غور کیجیے، نعرے کے دو نفسیاتی پہلو ہیں، نعرے ایک جانب جھوٹے لوگوں کی قوت کا احساس کرانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں تو دوسری جانب سماج میں گھلے ہوئے کرب کے نمائندے ہیں۔نعرہ پہلی صورت میں تب لگایا جاتا ہے ، جب کسی پر اپنے گروہ ہونے کا رعب طاری کیا جائے اور دوسری صورت میں تب لگایا جاتا ہے، جب کسی سماج نے اجتماعی چیخ بلند کی ہو، آپ کے گھر میں کوئی درد سے کراہے، چیخے تو آپ اس پر تنگ ذہنی، کم قوت برداشت کا الزام لگاتے ہیں، اسے گھر سے باہر نکال دینے کی دھمکی دیتے ہیں یا پھر اسے ڈاکٹر کو دکھاتے ہیں، یہ چیخ چاہے اس کے کسی درد کی وجہ سے ہویا ذہنی توازن بگڑنے کی وجہ سے، اس کا درد جسمانی ہو یا ذہنی، علاج تو اس کا ڈاکٹر ہی کے پاس ہوگانا، اس لیے نعرے لگانے والوں کے دکھ اور درد کا علاج بھی ہمارے پاس ہے، کیونکہ سماج کے درد کا علاج کرنے والا تنہا ڈاکٹر صرف سماج ہی ہوا کرتا ہے۔اگر آپ اس درد کا علاج نہیں کریں گے تو یہ متعدی مرض کل آپ تک بھی ضرور پہنچے گا یا تو پھر تیار رہیے اس دن کے لیے کہ جب آپ چیخیں لگارہے ہوں اور یہی سماج، آپ کی جانب انگلی اٹھا کر کہہ رہا ہو کہ یہ شخص تو پاگل ہوا ہے، چنانچہ اسے پھانسی پر لٹکائو، ہم اس کی شکل نہیں دیکھنا چاہتے۔
حکومتوں سے سوال کیجیے، ان سے پوچھیے کہ پانچ برس کی حکومت کا تسلسل پچھلے ستربرسوں سے جاری ہے، اسی طرح جس طرح سورج نکلتا اور ڈوبتا ہے، مگر ہماری حالت کیوں نہیں بدلتی، ہمارے امراض کا علاج کب ہوگا، کب ہم غور کرنے کے لائق ہونگے، کب تک ہماری امن ، تعلیم اور ایک بہتر ذہن رکھنے والے سماج کی خواہشیں مذہب اور ملک پرستی کی گود میں لقوہ مارے بیٹھی رہیں گی۔ ہمیں جنگ قبول نہیں، ہمیں نفرت قبول نہیں، ہمیں درد قبول نہیں، پھر آخر ہم پر یہ چیزیں کیوں مسلط کردی گئی ہیں، اگر آپ سے یہ بھاری پتھر نہیں اٹھ رہا تو اسے چوم کر چھوڑتے کیوں نہیں۔کیوں جونک کی طرح ہمارا خون پچھلی سات دہائیوں سے چوسے چلے جارہے ہیں۔ہم نہیں سمجھتے کہ کسی کی آواز ، خواہ وہ ہمارے حق میں ہو یا ہمارے خلاف اس طرح دبائی جانی چاہیے، جس طرح آپ دبانے کا ہنر جانتے ہیں، آپ کا بہت اچھا طریقہ کار رہا ہے کہ اول کوئی مسئلہ سر ابھارتا ہے، پھر جب وہ بڑھ جاتا ہے اور اس کی لپٹیں آپ کے دامن تک پہنچنے لگتی ہیں تو آپ مذہب و ملک کی محبت کے جھوٹے توہین آمیز الزامات عائد کرکے ہمیں ہی آپس میں لڑوادیتے ہیں۔ہمیں نہ ملک کے لیے کرائے کے ٹٹوئوں کی ضرورت ہے، نہ مذہب کے لیے۔خدا کے ساتھ اپنے معاملے میں ہم اکیلے ہونگے، جس طرح زندگی کے معاملے میں ہیں اور اسی طرح ہمیں دھرتی کے معاملے میں ہونا چاہیے۔
ہم کہنا چاہتے ہیں کہ ہماری حفاظت کے نام پر جنگی ٹینکوں پر اتنا پیسہ برباد مت کیجیے ،بلکہ دن رات ایک کرکے محنت کرنے والے سپاہی کی تنخواہ بڑھائیے، اتنی کہ اس کے گھر میں پلنے والے بچوں کو اعلی ٰ سے اعلٰی تعلیم ملنے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ہماری خاطرسی سی ٹی وی کیمروں ، بندوقوں، لڑنے والے طیاروں کو خرید کر ہمارا گرواور گورو مت بڑھائیے بلکہ ہمیں آپسی محبت اور بنیادی حقوق کا سب سے زیادہ خیال رکھنے والے ملک کا فخر عطا کیجیے۔اور اگر ایسا نہیں ہورہا ہے تو آپ ہمیں بے وقوف بنارہے ہیں، ہمارے نام پر اپنی جیبیں گرم کررہے ہیں اور ہمارے ان پڑھ، جاہل اور لڑاکو ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اس وقت بھی کسی لمبے سے سفید ٹب میں ہلکے گرم پانی میں ننگے بیٹھ کر ہماری بربادی کا ایک نیا طریقہ سوچ رہے ہیں۔اگر یہ جمہوریت ہے، جس کا سارا دارو مدار آپ کی اس جگاڑو طبیعت کے بل پر ہے تو معاف کیجیے، ہم اسے جمہوریت نہیں سمجھتے، نراج قرار دیتے ہیں، ایمرجنسی سمجھتے ہیں، ڈکٹیٹر شپ گردانتے ہیں۔آپ نے تو ہندوستان کی عظیم الشان ، رنگا رنگ تہذیب کو اس کگار پر پہنچادیا ہے کہ آج مسلمان ہی کیا سیکولر ہندو کو بھی کوئی شخص بہت آسانی سے پاکستانی قرار دے سکتا ہے، اسے دیش دروہی کہہ سکتا ہے، سر عام پیٹ سکتا ہے، اور اسےپھانسی پر چڑھانے کے لیے ماحول تیار کرسکتا ہے، اس کا کریئر تباہ کرسکتا ہے، بلکہ ضرورت پڑے تو لوگوں کا نمائندہ نیتا ہونے کے باوجود اسے گولی مار سکتا ہے اور اس قتل پر فخر کرسکتا ہے۔ہمیں ایسا ہندوستان کبھی نہیں چاہیے تھا،سو اگر آپ نے یہ ماحول پیدا ہونے دیا ہے تو پہلے خود سوچیے کہ گاندھی کے اس ملک میں سب سے بڑا غدار کون ہے۔
کچھ باتیں اردو والوں سے
یہ وقت ہندوستان پر برا ہے، ہندوستان جو ہمارا ملک ہے، ہمارا گھر ہے، اس میں کہیں مہنگائی، کہیں تعلیم ، کہیں مذہب، کہیں آزادی اظہار کے نام پر ہمیں برباد کرنے کے بہت سے طریقے ایجاد کیے جارہے ہیں، انہیں مارکیٹ میں پہنچایا جارہا ہے، عام کیا جارہا ہے اور مقبول بنایا جارہا ہے۔ایسے میں ہم اردو والے، جن کی قربانیاں اس ملک کو آزاد کرانے میں کسی طور کم نہیں تھیں، آج کیسے خاموش رہ سکتے ہیں۔ہماری ذمہ داری صرف اس کی آزادی تک نہیں تھی، ہمیں اسے ایک خوشحال، ترقی یافتہ ملک کی صورت میں دیکھنا ہے، ہم ایک سیکولر زبان کے ماننے والے ہیں، ہمارا میر، ہمارا غالب، ہمارا منٹو، ہماری عصمت اورہماری قرۃ العین حیدر اس دھرتی سے اگنے والے وہ سورج ہیں، جنہوں نے مذہب، ذات پات کے نام پر پلنے اور چلنے والی سیاست کے گلے پر انگوٹھا رکھنے کی ہمت کی ہے، ہمیں ایک مذہب سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، ہمیں شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتار ہا ہے، ہمارے رسم الخط کو غیر ملکی قرار دیا گیا ہے، ہماری آوازوں کا کبھی تمسخر اڑایا گیا ہے، کبھی ہمیں ایک پچھڑے ہوئے، مفلوک الحال طبقے کی نمائندگی کرنے والی زبان سمجھا گیا ہے، مگر ان سب باتوں کے باوجود ہم اپنے فرض سے سبکدوش نہیں ہوسکتے۔ہمیں چاہیے کہ اپنے رسائل ، اپنے اخبارات، اپنی آواز سب جگہوں پر اس ملک کی ترقی اور امن کے لیے کام جاری رکھیں۔ہمیں ہندوستان میں رہنے والوں کی بربادی قبول نہیں، پڑوسی ملکوں کی دشمنی قبول نہیں، آزادی اظہار کو دبانے والی سازشیں قبول نہیں۔مانا کہ ہماری آواز چھوٹی ہے، ہماری زبان کی اوقات کم ہے، جس کی وجہ ہماری ہی ترقی کے نام پر روپیہ بٹورنے والی، ہمیں صرف اٹھارہ سو ستاون سے پہلے کی تہذیب کا ایک کھوٹا سکہ سمجھنے والی، ہمیں تفریح ، رومانیت اور محبت جیسے چھچھور پن کی شاندار روایت کا قائم مقام منوانے والی کمپینیوں کا ہاتھ زیادہ ہے، مگر حقیقت ایسی نہیں ہے، ہم اتنے ہی سیکولر ہیں، جتنے گاندھی تھے، جنتے ابوالکلام تھے،ہم ہر سچے انقلاب سے جڑنے والے لوگ ہیں، ڈرنے والے نہیں۔کوئی جیل ہمیں ڈرا نہیں سکی، کوئی عہدہ ہمیں للچا نہیں سکا، ہم ہندوستان کی ایک معزز زبان بولنے والے اچھے لوگ ہیں، اس لیے وقت ہے کہ اچھائی کا ساتھ دیں، کیونکہ برا وقت جیسا بھی ہو، گزر جائے گا۔ہم صرف سچ سکھانے والے نہیں، سچ کو جینے والے لوگ ہیں۔


منگل، 9 فروری، 2016

کلیات مجید امجد (حصہ چہارم)/فردا

ادبی دنیا پر اس پوسٹ کے ذریعے مجید امجد کا چوتھا مجموعہ کلام فردا اپلوڈ کیا جارہا ہے، اسی کے ساتھ مجید امجد کے کلیات کی اشاعت کا یہ پراجیکٹ یہاں تمام ہوتا ہے، ادبی دنیا کے ذریعے اب تک فیض احمد فیض، مجید امجد، سعادت حسن منٹو، قرۃ العین حیدر، عرفان صدیقی وغیرہ کے کلیات اپلوڈ کیے جاچکے ہیں۔ اور جلد ہی میراجی، ن۔م۔راشد، عادل منصوری، محمد علوی، عصمت چغتائی اور دیگر بہت سے ادیبوں کی کلیات کے پراجیکٹ بھی اپلوڈ کیے جائیں گے۔ اس سلسلے میں ہم اپنے معاونین کے بھی بے حد شکر گزار ہیں، جو ہمیں اکثر ٹائپ شدہ کلام مہیا کراتے رہتے ہیں۔امید ہے ادبی دنیا طلبا، اساتذہ، ادیب و محققین اور قارئین تک معیاری ادب پہنچانے میں کامیاب ہورہا ہے۔شکریہ(تصنیف حیدر)  
٭٭٭
1968 میں مجید امجد'فعلن فعلن'کے آہنگ سے مکمل طور پر مسحور ہوگئے تھے۔اس سے پہلے یہ واردات میر تقی میر پر بھی گزری تھی، جنہوں نے اس بحر میں دو تین سو غزلیں لکھ ڈالی تھیں۔میر کے بعد یہ بحر امجد کے مزاج کو راس آئی۔چنانچہ وہ چھ سات سال تک تمام نظمیں اسی بحر میں لکھتے چلے گئے۔ان نظموں کے بارے میں عام قاری کی رائے ہے کہ یہ ان کی کمزور نظمیں ہیں جبکہ بعض سنجیدہ قارئین اور وسیع المطالعہ ناقدین کے خیال میں یہ ان کی بہترین تخلیقاتت ہیں۔بہرحال یہ مستقبل کی نظمیں ہیں اور ان کی حیثیت کا تعین آنے والا زمانہ کرے گا۔(خواجہ محمد زکریا)


*** مسلَخ ***

روز اس مسلخ میں کٹتا ہے ڈھیروں گوشت
دھرتی کے اس تھال میں، ڈھیروں گوشت
اور پھر یہ سب ماس
چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں
بستی بستی گلیوں اور بازاروں میں
لمبی لمبی قطاروں میں
جدا جدا تقدیروں میں
بٹتا جاتا ہے...
ہر ٹکڑے کی اپنی آنکھیں، اپنا جسم اور اپنی روح
کہنے کو تو ہر ٹکڑے کا اپنا اپنا نام بھی ہے اور اپنا اپنا دیس بھی ہے
اپنی اپنی امنگیں بھی
… لیکن کچھ بھی ہو
آخر یہ سب کچھ کیا ہے
ڈھیروں گوشت
کھالیں، بھیجے، انتڑیاں
یہ سب خودآگاہ، جیالے لوگ
میں نے آج جنھیں اس برسوں پہلے کی تصویر میں دیکھا ہے
یہ سب جسم
جیتے ریشوں کے کس بل میں سنبھلتے ہوئے یہ دھڑ
آج کہاں ہیں یہ سب لوگ؟
اب تو ان کی بو تک بھی
شہرِ ابد کے تہہ خانوں سے نہیں آتی
باقی کیا ہے ... صرف
سورج کی اک چنگاری...
اَور اس چنگاری کے دل میں دھڑکنے والی کلی
جس کی ہر پتی کا ماس
فرد!...
عصر...!
حیات...!
(28-3-1968)

*** اس دن اس برفیلی تیز ہوا... ***

اس دِن اس برفیلی تیز ہوا کے سامنے میں کچھ پہلے سے بھی زیادہ بوڑھا بوڑھا سا لگتا تھا
شاید واقعی اتنے ترس کے قابل ہی تھا
اس دن تم نے مجھ سے کہا تھا
اک دن میرے لیے تم اس دنیا کو بدل دو گی، یہ تم نے کہا تھا
اس دن بھری سڑک پر تم نے پیڈل روک کے...
اپنے بائیسکل کو میرے بائیسکل کے ساتھ ساتھ چلا کر، مجھ سے کہا تھا:
’’آپ ایسے لوگوں کو بھی روز یہاں پتھر ڈھونے پڑتے ہیں، روٹی کے ٹکڑے کی خاطر‘‘
تھوڑی دور تک بھری سڑک پر، دو پہیوں کے ساتھ وہ دو پہیے ڈولے تھے
دندانوں میں ٹک ٹک کتے بولے تھے، سب دنیا نے دیکھا تھا
اور اس دن میں نے اپنے دل میں سوچا تھا
’’کیسا شہر ہے یہ بھی، ایسی ایسی باغی روحیں بھی اس میں بستی ہیں...‘‘
میں تو اسی تمھارے شہر میں اب بھی روز اک میز پہ پتھر ڈھونے جاتا ہوں
کاغذ کے پتھر
لیکن جانے تم اب کہاں ہو، اے ری گول مٹول، سیانی گڑیا
بیٹی! شاید تو تو کہیں کسی دہلیز پہ دو منقوط گلابی گال آنکھوں سے لگا کر
نئی سفید جرابوں والے کسی کے ننھے سے پیروں میں گرگابی کے تسمے کسنے بیٹھ گئیں
اور یہاں، ادھر اب، ساتھ ساتھ جڑے ہوئے میزوں کی ایک لمبی پٹڑی بچھ بھی چکی ہے
حدِ زمیں تک
ظلم کے ٹھیلے روز اس پٹڑی پر بےبس زندگیوں کو دور افق کے گڑھے میں ڈھونے
آتے ہیں!
اور میں، اب بھی تمھارے کہے پر، اس پٹڑی کے اک تختے پر
عمروں کی گنتی کے چھٹے دہے پر
اس دنیا کا رستہ دیکھ رہا ہوں جس میں تمھارے نازک دل کی
مقدس سچائی کا حوالہ بھی تھا
جانے پھر تم کب گزرو گی ادھر سے … اس دنیا کو ساتھ لیے…
(28-5-1968)

*** دنیا مرے لیے تھی... ***

دنیا مرے لیے تھی اک بےمصرف مصروفیت
جیسے تھا ہی نہیں میں اس دنیا میں
جیسے موت مرے جی میں جینے آئی ہو
پھر جب ان کے کرم سے ان کا نام مرے ہونٹوں پر آیا
سارا زمانہ، سب تقدیریں، دنیائیں اور چاند ستارے
سب کچھ تھا بس ایک تموّج
لہریں میں جن میں بہتا تھا
لہریں جو میرے جی میں بہتی تھیں
میں تو اس قابل بھی نہیں تھا...
یہ سب ان کا کرم تھا
وہ مجھ کو یاد آئے تھے
میں نے ان کو یاد کیا تھا
(20-6-1968)

*** اپنی آنکھ پہ... ***

اپنی آنکھ پہ پٹی باندھ کے دیکھو
اپنی اوٹ سے اپنے آپ کو دیکھو
اندھیارے میں سوچو
کس کے ٹھنڈے، مشفق، حکمت والے ہاتھ تھے جن میں
ٹھنڈی، تیز، کٹیلی دھار تھی دکھ کی
چرتی جلد سے گرتی انگارہ سی بوندیں
یہ اک سانس تو شاید...
اس اک رکتی رستی سانس کے بعد تو شاید
میلی گیلی کافوری مٹی کا بچھونا...
اس بچھونے سے میں اٹّھا
سدا جئیں وہ ٹھنڈے ہاتھ جنھوں نے پٹی باندھی
اب آنکھوں پر پٹی باندھ کے دیکھا، یہ دنیا کتنی اچھی ہے!
تنہا بیٹھ کے سوچا
اس اک اتنی اچھی دنیا میں بھی
کون ادھر کو میری جانب دیکھے گا
جب تک میری آنکھوں پر پٹی ہے!
(11-7-1968)

*** ایکسیڈنٹ ***

مجھ سے روز یہی کہتا ہے پکی سڑک پر وہ کالا سا داغ جو کچھ دن پہلے
سرخ لہو کا تھا اک چھینٹا، چکنا، گیلا، چمکیلا چمکیلا
مٹی اس پہ گری اور میلی سی اک پپڑی اس پر سے اتری، اور پھر سیندھوری سا اک خاکہ ابھرا
جو اب پکی سڑک پر کالا سا دھبا ہے، پسی ہوئی بجری میں جذب اور جامد ... ان مٹ!
مجھ سے روز یہی کہتا ہے، پکی سڑک پر مسلا ہوا وہ داغ لہو کا
’’میں نے تو پہلی بار اس دن
اپنی رنگ برنگی قاشوں والی گیند کے پیچھے
یونہی ذرا اک جست بھری تھی
ابھی تو میرا روغن بھی کچا تھا
اس مٹی پر مجھ کو انڈیل دیا یوں کس نے
اوں اوں ... میں نہیں مٹتا، میں تو ہوں، اَب بھی ہوں‘‘
میں یہ سن کر ڈر جاتا ہوں
کالی بجری کے روغن میں جینے والے اس معصوم لہو کی کون سنے گا؟
ممتا بک بھی چکی ہے چند ٹکوں میں
قانون آنکھیں میچے ہوئے ہے
قاتل پہیے بےپہرا ہیں
(21-7-1968)

*** کوہِ بلند ***

تو ہے لاکھوں کنکریوں کے بہم پیوست دلوں کا طلسم
تیرے لیے ہیں ٹھنڈی ہوائیں ان بےداغ دیاروں کی
جن پر پیلے، سرخ، سنہری دنوں کی حکومت ہے
ایک یہی رفعت
ترے وجود کی قدر بھی ہے اور قوت بھی
تیرا وجود جو اس پاتال سے لے کر اوپر کی ان نیلی حدوں تک ہے
تو اس اونچی مسند پر سے جھک کر دیکھ نہیں سکتا
لیکن اس پاتال کے پاس جہاں میں ہوں
بڑا ہی گدلا اور کٹیلا ... کالی مٹی والا پانی ہے
زہرکدوں سے آنے والی ندیوں کا پانی
جس کی دھار تری پتھریلی دیواروں سے جب ٹکراتی ہے
تو میرے سینے میں دِل کی ٹوٹی کنکری ڈوبنے لگتی ہے
اے رے اونچی مسند والے پہاڑ!
کبھی تو اپنی خاطر میری سمت بھی جھک کر دیکھ
(8-8-1968)

*** ڈر کاہے کا ***

ڈر کاہے کا
جتنا زور تمہارے خیال کی رو سے تمہارے بدن میں ہے وہ سارا زور لگا کر
(اور تمہاری صحت بھی تو خیر سے امڈی پڑتی ہے نا)
اپنے سارے بدن کا زور لگا کر
چھینو...
اس سے، حصہ اس کے روزینے کا
اس سے، ہرعکس اس کے آئینے کا
سب سے، حق جینے کا
ڈر کاہے کا
گرجو! اور کالے رسوں کی گرہیں کھل جائیں گی
بپھرو! اور جابر ہاتھوں کی ریکھائیں گھل گھل جائیں گی
جھپٹو! اور سب قدریں اک میزان میں تل جائیں گی
یوں بھی نہ مقصد حاصل ہو تو پھر کیا
دیکھو، تمہارے گٹھیلے جثّے میں ہے ذہن کی جتنی طاقت، اس کو کام میں لاؤ
اس اک حرف کو دیکھو، شکل ہے جس کی اک زنجیر کی صورت
بھرے کٹہرے میں تم میز پہ مکہ مار کے کہہ دو
’’یہ اک حرف تو اس پستک میں نہیں کہیں بھی...
پستک جس کے سب حرف اور سب سطریں سیدھی سیدھی ہیں‘‘
تم دیکھو گے، ترازو کا وہ پلڑا جس میں تم ہو، تمہاری جانب جھک جائے گا
رہ گئی اِک یہ مقدس مٹی ... ہمیں تو ہیں اس کے ریزہ چیں
ہم اس کی خاطر جی لیں گے، ہم اس کی خاطر مر لیں گے
(15-8-1968)

*** کمائی ***

بندے، جب مٹی کے اندر بھر جاتا ہے
لہو کا دھارا …
پھر جب آنکھیں روح کی ٹھنڈی سطح کو چھو کر دیکھتی ہیں دنیا کو
پھر جب یوں لگتا ہے جیسے
اس پنڈے میں کھلی ہے سارے دیس کی سرسوں
پھر جب بانہیں ٹیڑھی ہو کر جھولتی ہیں چلنے میں
پھرجب نفرت ایک ادھورے پیارے دیکھ کے، ہنستی ہے ان پر، وہ جن
کی سچی سوچیں چلہ کش رہتی ہیں
پھر جب دل کہتا ہے: ’’اے رے کرجوے! آج ہمارے لیے تم
کتنے کرمنڈل بھیجو گے امرت جل کے؟‘‘
تب ایسے میں، کون یہ جانے، بندے
کون اس بھید کو پائے بندے!
کون دیکھے لہو کی لہر کا سب روغن تو
اس بھوجن کا رس ہے
وہ بھوجن جو کوڑا کرکٹ ہے اور جس کو کتے بھی نہیں کھاتے
(11-8-1968)

*** نیلے تالاب ***

سب اس گھاٹ پہ اک جیسے ہیں
جب سے نیل گگن کی ٹینکی سے پانی برسا ہے
جب سے سات سمندر، سات بھرے ہوئے ٹب پانی کے
اس آنگن میں رکھے ہیں
پہلے بھی سب لوگ اس گھاٹ پہ اک جیسے تھے
اور ... اب بھی، اس کالے نل میں جب سے
کھٹ سے کھچ کر آنے والا پانی
چھک سے گرنے لگا ہے
چکنی اینٹوں والے گھاٹ پہ سارے خدا اور سارے فرشتے اور سب روحیں
اپنے غرور کی اس پھسلن میں اک جیسی ہیں
اے رے شہرِ ابد کے واٹر ورکس کے رکھیا
دِلوں کی صد رخ نلکی میں اپنی سطحیں ہموار نہ رکھ سکنے والے سب پانی
سارے مقدس پانی
کس طرح تیرے نیلے تالابوں میں آ کر یک سو ہو جاتے ہیں
(24-8-1968)

*** تب میرا دل… ***

تب میرا دل بجھ جاتا ہے
میں ہوں جگ جیون کے جوہر ڈھونڈنے والے جوہریوں کا جویا
میرا دل بچھ بچھ جاتا ہے
اس پتلے گیلے گیلے آبی کاغذ پر
جو یوں دور تک اس پانی پر چسپیدہ ہے
جس دن باری کا پانی لگتا ہے
اور سڑک کے ساتھ اک گھنے ذخیرے والی کیاری
تھمے ہوئے اور جمے ہوئے پارے سے بھر جاتی ہے
جب ان سطحوں پر کرنوں کی دھول بکھر جاتی ہے
اور ہوا کا ہلکے سے ہلکا جھونکا بھی ان کو چھونے سے ڈرتا ہے
تب تو ادھر ادھر ہی میرا دل کھنچتا ہے
مجھ کو بھا جاتی ہے
اچھے اچھے خیالوں کی چتریلی چادر اوڑھ کے ان چھتناروں میں یہ
بھٹکنے والی ٹھنڈک
سب کچھ تج کے، میں جب اس ٹھہرے پانی پر
سایوں اور شعاعوں کی جھلمل میں کھو جاتا ہوں
سارا آسمان اسی اجلے پانی پہ اتر کر مجھ کو دیکھ رہا ہوتا ہے
میں ہوں جگ جیون کے جوہر ڈھونڈنے والے جوہریوں کا جویا
(30-8-1968)

*** یہ سب دن... ***

یہ سب دن
تنہا، نا یکسو
یہ سب الجھاوے
کالی خوشیاں، کالے غم
اے رے دل
رہا ہے تو اب تک
کن بھگتانوں میں
اور اب بھی تو آگے ہے
ایک وہی گذران دنوں کی، جس کی رو
جذبوں اور خیالوں میں چکراتی ہے
ہم جیتے ہیں، ان روحوں کو بھلانے میں
سدا جو ہم کو یاد کریں
سدا جو ہم کو اپنے مشبک غرفوں سے دیکھیں
جیسے، پورب کی دیوار پہ، انگوروں کی بیلوں میں
بڑھتے، رکتے، ننھے ننھے، چمکیلے نقطے
کرنوں کے ریزے
جو ہر صبح
ہر جھونکے کے ساتھ
ان پتوں کی درزوں میں
اے رے دل
تیری خاطر جلتے بجھتے ہیں
کس کی خاطر یہ اک صبح؟
کس کی خاطر آج کا یہ اک دن؟
کیسا دن؟
یہاں تو ہے بس ایک وہی اندھیر دنوں کا جس کی رو
روحوں میں اور جسموں میں چکراتی ہے!
(31-8-1968)

*** اک دن ماں نے کہا ***

اب وہ لوگ جنھوں نے میرے بیٹوں کا ... خون پیا...
(میرے بیٹے تو سب ان کے بھائی تھے)...
اپنے وہ لوگ جنھوں نے میرے حصے کے روزینے کو ... اپنے جبڑوں میں ... بانٹ لیا
(میرا حصہ تو تھا صرف اک شیریں نام کا ذکر)...
اب وہ اپنے دل میں سمجھتے ہیں ... دنیا ان کی ہے...
لیکن کبھی اگر وہ دیکھیں تو ... میری بانہیں نہیں تھکیں ...
کبھی اگر وہ دیکھیں تو ... ان کے انھی قدموں کے تلے...
میرے الگ الگ دو ہاتھوں کی اک جڑی ہوئی مضبوط ہتھیلی ہے...
اسی ہتھیلی پر ہے ان کا سب تن و توش...
وہ اپنے قدموں کی طرف اک مرتبہ دیکھیں تو ... انھیں وہ سنگھٹ بھی نظر آئے جو...
ان ہاتھوں کے قطع کے درپے ہے...
لیکن وہ
دیکھتے ہیں بس اوپر اوپر، اس آکاش کی سمت...
وہ آکاش جو ان کی کھوپڑیوں کے نیچے، ان کے بھیجوں پر
نیلے رنگ کی چربی ہے...
کس سے کہوں میں
میرے یہ بیٹے بھی کیسے ہیں؟
(8-1968)

*** آواز کا امرت ***

اک اک روح کے آگے اک دیوار ہے اونچی گلے گلے تک
اک دیوار ہے رمزِ دروں کی
اس دیوار کے اندر کی جانب جتنا کچھ بھی ہوتا ہے
جس کے پاس خزانہ، اک دردانہ، یا اک تال مکھانہ
نقدِ باطن یا کم از کم ... آب و دانہ
جتنا کچھ بھی پاس ہو اتنی ہی دیوار یہ موٹی ہوتی ہے اور اس دوری کے باعث
اتنی ہی اس روح کی بات ذرا گھمبیر اور گہری ہو جاتی ہے
اپنے بوجھ سے بوجھل ہو جاتی ہے
دیر سے سننے میں آتی ہے
اپنے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے، روح نہ اس کا کوئی دھندا
اپنے پاس توصرف اک یہ آواز ہے جس کے آگے کوئی بھی دیوار نہیں ہے
سن سے تمہارے پاس پہنچ جاتی ہے
اس آواز میں رمزِ دروں کے سارے غیرمقطّر زہر ہیں، اس کا برا نہ مانو
کبھی کبھی جی میں آئے تو، سن لو
چن لو
رکھ لو
چکھ لو
(4-9-1968)

*** ’’تینوں رب دیاں رکھاں‘‘ ***

تاروں بھرے دریاؤں جیسی لمبی تانوں والا یہ نغمہ
دور پہاڑوں میں چکراتی ہواؤں جیسی ... پیچاں سی یہ لے
اب بھی جس کی گونج میں ایک مقدس دکھ کا بلاوا ہے
میں جب بھی یہ گانا سنتا ہوں
مجھ کو یاد آ جاتے ہیں وہ لوگ
جن کے لیے اس دن، آگ کی آندھی میں، یہ بول ہماری یادیں لے کر آئے تھے
مجھ کو یاد آجاتے ہیں وہ لوگ، جنھوں نے اس دن، اتنے دھماکوں میں
ان شبدوں کو سنا
اور ہمارے بارے میں سوچا
جو کچھ سوچا ... کر گزرے
ان کی انھی سوچوں کی دین ہیں یہ سب دن، ہم جن میں جیتے ہیں
جن میں جییں گے آنے والے جینے والے بھی
انہی دنوں کا سرگم میرے دل کی سپتک پر چھڑ جاتا ہے
جب بھی میں یہ گانا سنتا ہوں ...
(6-9-1968)

*** پھر جب دوستیوں ... ***

... پھر جب دوستیوں کے سمندر میں دم سادھ کے اترے
اور اک لمبے، گہرے، بے سدھ غوطے کے بعد ابھرے
اپنے دل کا خزف بھی اپنے پاس نہ تھا
باہر دیکھا ... باہر کوئی اور ہی دیس تھا
باہر ... کیسا بازو دار، لہکتا جنگل تھا
جنگل دوستیوں کا...
مشفق اجنبیوں کی طرح ہماری جانب دیکھنے والے چہرے دوستیوں کے
جی نے چاہا، اَب تو باقی عمر اسی جنگل میں پھول چنیں گے
جانے کتنے دن یوں جاگ سکیں گے، اس سے پہلے کہ اپنا دل کا سوکھا
پتا ٹوٹ گرے
(7-9-1968)

*** فرد ***

اتنے بڑے نظام میں صرف اک میری ہی نیکی سے کیا ہوتا ہے
میں تو اس سے زیادہ کر ہی کیا سکتا ہوں
میز پر اپنی ساری دنیا
کاغذ اور قلم اور ٹوٹی پھوٹی نظمیں
ساری چیزیں بڑے قرینے سے رکھ دی ہیں
دل میں بھری ہوئی ہیں اتنی اچھی اچھی باتیں
ان باتوں کا دھیان آتا ہے تو یہ سانس بڑی ہی بیش بہا لگتی ہے
مجھ کو بھی تو کیسی کیسی باتوں سے راحت ملتی ہے
مجھ کو اس راحت میں صادق پا کر
سارے جھوٹ مری تصدیق کو آ جاتے ہیں
ایک اگر میں سچا ہوتا
میری اس دنیا میں جتنے قرینے سجے ہوئے ہیں
ان کی جگہ بےترتیبی سے پڑے ہوئے کچھ ٹکڑے ہوتے
میرے جسم کے ٹکڑے، کالے جھوٹ کے اس چلتے آرے کے نیچے!
اتنے بڑے نظام سے میری اک نیکی ٹکرا سکتی تھی
اگر اک میں ہی سچا ہوتا
(8-9-1968)

*** کبھی کبھی وہ لوگ... ***

کبھی کبھی وہ لوگ بھی جن کا ناؤں لکھا ہے
کتنے موضعوں کے پٹواریوں کی کھیوٹ میں
میرے دل کے اندر بیٹھ کے میری باتوں کو سنتے ہیں
پیار سے مجھ کو دیکھتے ہیں یوں جیسے اس گودام میں کاغذ چاٹنے والا اک کیڑا ہوں
مجھے خبر ہے، دشمن اکثرغرانے سے پہلے ممیاتا ہے
لیکن میرا جی نہیں ڈرتا
مجھ پہ جھپٹ کر مجھ سے آخر وہ چھینیں گے بھی کیا
اپنے پاس کوئی رجواڑا لالچ کا نہیں ہے
اک دو حرف ہیں جن کی گرمی میرے لہو میں لہراتی ہے
ان لوگوں کی ریڑھ کی نلکی میں ہے گودا بھی سونے کا
کوئی کیسا ریلا آئے
ان کا پشتیبان وہ پشتہ بہہ نہیں سکتا، جس کے ذرّے آبِ زر سے جڑے ہیں
اے وہ، اپنے دوام کو جس نے حرف کے پیرائے میں دیکھا
تیرے سپرد ہیں میرے ٹوٹے پھوٹے مٹی کے یہ شبد کہ جن میں میری مٹی کی روزی ہے
(11-9-1968)

*** موانست ***

رات اچانک پھاٹک کا اک پہیہ رینگا
پگڈنڈی پر اک آہٹ نے ٹھوکر کھائی
کالے کالے پروں کو اوڑھ کے سونے والی وحشت
پاس کے پیڑ پہ کندے جھٹک کے چونکی، چیخی
جیسے کوئی اس کی طرف جھپٹا ہو
ڈرتے ڈرتے اس نے نیچے اندھیارے میں جھانکا:
’’اوہو یہ تو ایک وہی سایہ تھا
وہ جو روشنیوں کے پہلے پھیرے سے بھی پہلے
روز ادھر سے گزرتا ہے، اور پہلی کرن کی پینگ کے پڑنے سے بھی پہلے
چلتا چلتا اس باڑی میں کھو جاتا ہے
آج تو جانے کس لرزاں دھبے سے ٹکرایا، وہ پگلا
کویل نے یہ سوچا، پھر بےکھٹکے
پتوں کی اس سیج پہ تھوڑی دیر کو اونگھ گئی وہ
بوئے سحر کے مست بلاوے پر بےساختہ کوک اٹھنے سے پہلے!
(14-9-1968)

*** گوشت کی چادر ***

گوشت کی چادر لچکی، اس پر اک دو ترچھے شکن پڑے
اور بیل اَب نالے سے باہر تھا
اس کے لوہے کے بازو اور شانے
اور صاف، سفید سی کھال
اور وہ خم کھائے ہوئے سینگ
اور وہ جثّہ جیسے گوشت کی چادر
اور وہ اس کا وجود...
بے پندار
بے پروا
ہل کا اہل
جیوٹ اور مگن
جانے کب سے، جب سے کالی دھرتی پر
جیتے گوشت کی یہ اک چادر لچکی ہے
انسانوں نے سکھ کی فصلیں کاٹی ہیں
(17-9-1968)

*** بےربط ***

اسی کرے کے جوف سے تم نے کشید کیا
انگاروں سے بھرا ہوا سیال غرور
لیکن کس کی تھی یہ مٹی؟ ہم سب کی
اس مٹی کی وریدوں سے یہ کھچا ہوا سیال غرور
سب میں بٹ جاتا
تو یہ دیس دلوں کے سجدوں سے بس بس جاتا
تم نے بجھتے بھڑکتے ان انگاروں کو
اپنی روحوں میں بویا
اور نفرت کاٹی!
ان انگاروں پہ تم نے اپنے چہرے ڈھالے ٹکسالوں میں
مقصد لوہے اور فولاد کا یہ جنگل تو نہیں تھا، ہونے کو تو، جس کی
اک اک دھڑکن میں تہذیبیں ہیں
کیسی تہذیبیں؟
جب اک لرزش گہری ہو کر اترے گی سنگین چٹانوں میں
اور دھوئیں میں تیریں گی بےجان مقرض قاشیں دنیا کی
تب بھی صرف اک شے باقی رہ جائے گی
تم محسوس کرو تو آج بھی اس کا بوجھ تمہارے دل پر ہے
(17-9-1968)

*** بھائی کوسیجن، اتنی جلدی کیا تھی ***

(پس منظر: ستمبر68 کا سورج گرہن، جب روس کے سپٹنک نے چاند کے مدار پر گردش کی)
بھائی، اتنی جلدی کیا تھی...
دن ڈھلتے ہی ہم تو دور نِگر چشمے اپنی آنکھوں سے لگا کر بیٹھ گئے تھے، دیکھیں
کب سورج کے تھال پہ آ کر ٹھہرے تھوڑی دیر کو کالے چاند کا لرزاں دھبا
ہم یہ آس لگائے بیٹھے تھے، دیکھیں کب چاند کے گرد
اچانک چک چک چکراتا گزرے وہ چھوٹا سا اک رکشا
سورج کے چمکیلے گول کنارے کی پٹڑی پر چلتا، گھن سے اوجھل ہوتا، چکر کاٹ کے
سامنے آتا، دور سے دِکھتا رکشا
دل ہی دل میں ہم کہتے تھے، دیکھیں کیسا ہو یہ تماشا
وہ سورج کی آنکھ، اور اس میں چاند اک کالی پتلی، اور پھر اس پتلی کے گرد لڑھکتا
اک وہ سایہ
پھر یہ سب کچھ عکس بہ عکس ہماری آنکھ کی پتلی میں بھی
اک پل کے محور پر گھونے والے تین کرے…
اوہو اب تو آنکھیں بھی دُکھتی ہیں
اے لو، سورج پر سے ڈھل بھی گیا وہ سایہ ... لیکن تم نہیں آئے
سنا ہے تم تو اک دن پہلے کسی سدیمی دوری کے نزدیک خلا میں، وہیں کہیں تھے
اپنے چکراتے رکشا پر
جانے اک دن پہلے ہی تم کیوں لوٹ آئے، بھائی اتنی جلدی کیا تھی...
دیکھیں گردشِ دوراں کے دوران تمہاری سواری پھرکب گزرے ان راہوں سے
ایسے میں جب ہوں اک سیدھ میں تین کُرے اور تین زمانے...
اس دن ہم بھی تمہارے ساتھ چلیں گے اور اس دن ہم تو لوگوں کا کہنا مانیں گے
(24-9-1968)

*** مریض کی دعا ***

کل تک تو یہ دنیا
میرے لیے اک آئینہ تھی
جس میں میری نخوت
آنے والے کل کا یقینی چہرہ دیکھ کے اتراتی تھی
تو تو سب کچھ جاننے والا ہے: میں کتنا خویش غرض تھا
اب تک جب بھی تجھ کو یاد کیا ہے
اپنی نخوت کی اس بھول میں تجھ کو یاد کیا ہے
لیکن آج مجھے اس بات کا ڈر ہے:
کل — جب آنے والا کل آئے گا
میرے بےحس سرد مساموں کو وہ کھرچنے والی روشنیاں
اک ڈھیلے ٹاٹ کے جھول میں میرے جسم پہ شاید
جیتے دنوں کی آخری کرنیں ہوں گی
آج یہ میرا عہد ہے تجھ سے:
کل کو آنے والے کل کے بعد، اگر کچھ دن بھی میرے لیے ہیں
تو مرا اک اک دن اس دن کی اطاعت میں گزر جائے گا
تیرے خزانوں میں جو، میرے سمیت، سبھی کے لیے ہے
اور کسی کے لیے بھی نہیں ہے
تیرے غیب میں تو سب کچھ حاضر ہے
کل کے بعد بھی میرے ارادوں کو توفیق کے دن دے
اے وہ جس کے آج میں فرداؤں کے ابد ہیں
(30-9-1968)

*** وہ بھی اک کیا نام ہے ... ***

وہ بھی اک کیا نام ہے جو ہر دم ہے
ہم ہیں اور نہیں ہیں
ہم اور باقی جو کچھ بھی ہے
اس کا ہونا اس کے نہ ہونے کی خاطر ہے
پھر اس اک اک ہونی کا ہے جدا جدا اک نام بھی اپنا
اپنے اپنے نام ہیں چیزوں کے اور آدمیوں کے
نام ان جسموں میں جیتے ہیں
نام ان جسموں میں بےجسم ہیں اور جیتے ہیں
آج تو میں نے دیکھا، میرے جسم میں میرا نام نہیں تھا
جیسے اک احساس کی زد سے
مجھ میں میرا باطن ڈوب چلا ہو
ایسے میں، اس میرے نام سے خالی ہونے والے خلا میں
جب اک نام نے جھانکا، جانے کس کے نام نے جھانکا
پھر سے میرے قدموں کے نیچے میرے باطن کی مٹی تھی
میرے باطن کی مٹی
میرے نام کی جس سے نمود ہے
کیسا نام ہے یہ بھی جو ہر دم ہے
ہم ہی نہیں اس نام سے نامی!
(7-10-1968)

*** دن تو جیسے بھی ہوں... ***

دن تو جیسے بھی ہوں... آخر اک دن
دنوں کی اک اک سچائی کو جھوٹ کے تیشے مقرض کر دیتے ہیں
دیکھو... سوچو...
دل کی اس پیچاک میں ہیں جو شکنجے، وہ تو ویسے ہی تھے
اس پیچاک سے نچڑا ہوا وہ گیہوں، جو، زیتون کا رس تو ویسا ہی تھا
جسموں کی سب کارگہیں تو ویسی ہی تھیں
جب یہ سر فرعونوں کے آگے جھکتے تھے، تب بھی
جب اک گورا پلٹن اس سنگھاسن پر پہرا دیتی تھی، تب بھی
اور اب بھی جب ہم نے مستقبل کا سارا بوجھ اپنے شانوں پر بانٹ لیا ہے
گورا پلٹن کی سنگینوں کے سائے میں بھی بھوجن ملتا تھا
فرعونوں کی خدائی میں بھی بندے پتل بھات سے بھر لیتے تھے
اور اب اپنے گھروں میں ہم ہر ایک مثلج آسائش رکھتے ہیں
تو کیا صرف ہمیں سچے ہیں؟
کیا وہ سب جھوٹے تھے؟
یوں تو آج ہم ان پہ ترس کھاتے ہیں
جن کی پتھر ڈھوتی عاجزیاں فرعونوں کے چابک کھاتی تھیں
لیکن کیا اس بات کی ان کو خبرتھی ...
کیا اس بات کی ہم کو خبر ہے ...
اس دنیا میں جو کچھ بھی ہے، اس کا حاصل تو وہ سچائی ہے جس کو
آخر جھوٹ کے تیشے مقرض کر دیتے ہیں
پھر کیوں یہ سب دریا، چہروں، کھوپڑیوں کے دریا، ان گلیوں میں بہتے ہیں
شہرِ ازل کے اونچے پل کی کھڑی ڈھلان سے لے کر
ان گلیوں، ان دہلیزوں تک بہتے آتے دریا
دریا جن پہ شکن ہے ... چھاپ لہو کی
لہریں جن پہ بھنور ہیں ... لہو کی مہریں
آخر اس ریلے میں کون اچھا تھا ...
آخر سچ کے تٹ پر کون اترا ہے...؟
اپنی آنکھوں میں یوں کانٹے بھر کر میری جانب مت دیکھو...
میں سچ کہتا ہوں، سوچو!
آخر سچ کے تٹ پر کون اترا ہے!
(12-10-1968)

*** پھولوں کی پلٹن ***

آج تم ان گلیوں کے اکھڑے اکھڑے فرشوں پر چلتے ہو
بچو! آؤ تمہیں سنائیں گزرے ہوئے برسوں کی سہانی جنوریوں کی
کہانی
تب یہ فرش نئے تھے ...
صبح کو لمبے لمبے اوورکوٹ پہن کر لوگ گلی میں ٹہلنے آتے
ان کے پراٹھوں جیسے چہرے ہماری جانب جھکتے
لیکن ہم تو باتیں کرتے رہتے اور چلتے رہتے
پھر وہ ٹہلتے ٹہلتے ہمارے پاس آ جاتے
بڑے تصنع سے ہنستے اور کہتے:
’’ننھو! سردی تمہیں نہیں لگتی کیا؟‘‘
ہم سب بھرے بھرے جزدان سنبھالے
لوحیں ہاتھوں میں لٹکائے
بنا بٹن کے گریبانوں کے پلو ادھڑے کاجوں میں اٹکائے
تیز ہواؤں کی ٹھنڈک اپنی آنکھوں میں بھر کر
چلتے چلتے، تن کے کہتے:
’’نہیں تو، کیسی سردی
ہم کو تو نہیں لگتی…!‘‘
بچو! ہم ان اینٹوں کے ہم عمرہیں جن پر تم چلتے ہو
صبح کی ٹھنڈی دھوپ میں بہتی آج تمہاری اک اک صف کی وردی
ایک نئی تقدیرکا پہناوا ہے
اجلے اجلے پھولوں کی پلٹن میں چلنے والو
تمہیں خبر ہے، اس فٹ پاتھ سے تم کو دیکھنے والے
اَب وہ لوگ ہیں
جن کا بچپن ان خوابوں میں گزرا تھا جو آج تمہاری زندگیاں ہیں
(19-10-1968)

*** ایک نظمینہ ***

ٹیڑھے منہ اور کالی باتیں
کانٹے بھرے ہوئے آنکھوں میں
یہ دنیا، یہ دنیا والے
تو مت جا اس اور — باگیں موڑ بھی لے
دلوں کی اس دلدل کے کنارے
روپ گھمنڈ کے پتلے سارے
اک پر دوسرا کیچ اچھالے
اس تٹ پر مت ڈول — باگیں موڑ بھی لے
آگے بِس کی لہر ہے جل تھل
کس کی بابت ماتھے پر بل
اے رے دُکھے ہوئے دل والے
یوں مت، یوں مت سوچ — باگیں موڑ بھی لے
(25-10-1968)

*** لوگ یہ... ***

لوگ گہری نپی تلی تدبیروں والے
جانے ان لوگوں کو کیا ہے ...
کبھی کبھی یوں دیکھتے ہیں وہ مجھ کو، جیسے وہ کہتے ہوں:
’’آ اور پڑھ لے انھی ہماری آنکھوں میں تقدیریں اپنی‘‘
اور پھر کبھی کبھی تو ان کی نظریں یوں کہتی ہیں:
’’تو کیا چھپے گا ہم سے؟ ہم نے تو پڑھ لیں تیری آنکھوں میں سب تقدیریں تیری‘‘
جانے ان لوگوں کو کیا ہے؟
جانے ان لوگوں کے لہو میں چکنی سی یہ سیاہی کہاں سے آئی ہے جو
مجھ کو دیکھ کے ان کے چہروں کو فولادی رنگ کا کر دیتی ہے
میری قسمت کے یہ دام چکانے والے
میں تو ان کے دلوں کو پڑھ لیتا ہوں
میں تو ان کی روحوں پر چیچک کے داغوں کو بھی گن لیتا ہوں جب وہ
تازہ لہو سے بھر جاتے ہیں
میرے سامنے تو ہے ان کا وجود بس ایک تماشا ...
تیرے ارادوں کی نگری میں ان لوگوں کا تماشا
لوگ جو اپنی تدبیروں پر بھولے ہوئے ہیں
(30-10-1968)

*** یہ بھی کوئی بات ہے... ***

یہ بھی کوئی بات ہے کہنے کی
لیکن لو، ہم کہے ہی دیتے ہیں
دوہا، بول، کبت، کیا رکھا ہے ان میں ...
زخم بھلا کب سلے ہیں شبدوں سے ...
جلتی سطروں سے کب ڈھلی ہیں تقدیریں
بس، یہی، لے دے کے، کچھ عرصے کو
دھیمی دھیمی سی وہ جلن دب جاتی ہے
جو اس وقت ابھرتی ہے
جب دل میں گھن لگتا ہے
آخر ذرا سی اس تسکین کی خاطر کون
سارے جگ کا بیر سہے
کون کہے؟ کیا حاصل ہے اس بات کے کہنے سے؟
بات بھی یہ کہ زمانے میں:
زینہ بہ زینہ بندے پر تو بندے کی تلوار معلق ہے
چھوڑیں بھی اس بات کو، چلو یہی سوچیں
شاید اِک دن کوئی سچ اس سچ کو جھٹلا دے
(اپنا دل تو اگرچہ مشکل سے یہ مانے گا...!)
(7-11-1968)

*** بانگِ بقا ***

ساری نسل پہ گزرا ہے یہ قیامت کا اک دن
ایک ہی دن میں کٹ گئے کیسے کیسے رعنا، مست جوان
اب تو سب پر لازم ہے
حفظِ وجود
سعیِ بقا
جیسے بھی ہو، آج سے اک اک فرد کرے
زائد کام
بڑھ کر، چڑھ کر، گھُٹ کر، گھِس کر، پہلے سے بھی زیادہ کام
اب تو جٹ جائیں، اس کام میں سب کامی
رچ مچ کے اور مل جل کے
اک یہی کام
پس پس کے اور ہل ہل کے
دَم دَم، دُم دُم یہی جتن
کندے تول کے، پنجے جوڑ کے، پیہم اک یہی کام
ہم اس نسل کی رعنائی کے محافظ ہیں
نسلِ بیضا، فخرِ جن و انس و وحش و طیور
اب تو پیہم یہی جتن
جانے پھر کب چوبی تختے بچھ جائیں
اور ہمارے ویروں کے سر کٹنے لگیں
بڑی بڑی توندوں والے عفریتوں کی خاطر
جن کے پاک معطر جسم ہماری ہی روحوں کے فضلے ہیں!
(9-11-1968)

*** ایک صبح... سٹیڈیم ہوٹل میں ***

یوں تو اس چوکور تپائی کی اس سادہ سی بیٹھک میں کیا رکھا ہے
لکڑی کی اک عام سی شے ہے، پڑی ہے
یوں تو اس پر رکھے ہوئے گلدان میں کیا رکھا ہے
پیلے پیلے سے کچھ تازہ پھول ضرورہیں اس میں
پھول تو گلدانوں میں ہوتے ہی ہیں
اور پھر اس چوکور تپائی پہ گرنے والا ہوا کا ترچھا جھرنا
جس میں دھوپ کی نازک سی جھلکی سونے کا رنگ بکھیر گئی ہے
خیر، یہ دھوپ کی رنگت بھی تو جگہ جگہ ہے
لیکن یہ سب چیزیں، اور یہ چاروں خالی کرسیاں، اور یہ سب کچھ، مل کر
ایک عجیب آسودہ سی ترتیب ہے، ساکت ساکت
میرا ذہن کچھ اتنا الجھا ہوا ہے، مجھ کو چیزوں کی ترتیب اچھی لگتی ہے
جانے کون یہاں آ کر بیٹھے گا ...
سب کچھ اک آنے والے اچھے سمے کا ان ہونا پن ہے!
(11-11-1968)

*** دُور، اُدھر... ***

دُور، اُدھر اس سامنے والے رستے سے جب
آپس میں ٹکراتی آوازوں کی لہر اچھل کر میری جانب والے رستے تک آئی
بیچ میں نیچے پانی تھا ...
بیچ میں نیچے اک میدان اور اس میں گھاس اور پودے اور سب کچھ پانی میں تھا
ٹھنڈی رات کے سائے تھے
سامنے والے اس رستے سے آوازوں کی گونج جب اچھلی، نیچے پانی تھا
رات کے سایوں میں اس پانی پر اک چوٹ سی پڑتی تھی
تیزی سے اِک آہٹ ڈبکی بھرتی تیر کے بڑھتی تھی
گیلے گیلے پہناووں کو جھٹکتی کیچڑ میں تھپ تھپ چلتی تھی
(16-11-1968)

*** جدھر جدھر بھی... ***

جدھر جدھر بھی دیکھو...
ہر سو پھول ہیں، کانٹے ہیں، کرنیں ہیں، اندھیارا ہے
پھر یہ سب کچھ ... اک اک راحت، اک اک جھنجھٹ ... آپس میں گڈمڈ ہے،
اور یہ سب کچھ مجھ کو گھیرے ہوئے ہے
ہر دم ایک عجیب پریشانی ہے جس کے باعث
اپنے جی میں لہو کے پسینوں کی ٹھنڈک ہے
کتنے اچھے ہیں یہ سب الجھیڑے
سمے کی رو میں دھب دھب چلتے دھندے
کتنی بھلی ہے اک یہ بےمصرف سی مصروفیت
ذہن پہ اک یہ پردہ جس کے اوجھل ہیں وہ باتیں
جن کا دھیان بھی مجھ کو سب خوشیوں سے ناخوش کر سکتا ہے
دھیان ان کا جن کے قدموں کے نیچے میرے باطن کی مٹی ہے
اک دن یہ مٹی ان کے قدموں کے نیچے سے سرک گئی ... تو...
(7-12-1968)

*** چھٹی کے دن ***

چھٹی کے دن گھر سے تو وہ اس کارن نکلا تھا
ذرا گلی کے ہٹّی والے سے کچھ سودا سلف خریدے
اور پھر آ کر ترشے ہوئے کرداروں کے میلے میں گھومے ...
اس میلے میں وہ سب کچھ تھا
اس میلے کے باہر تو وہ اپنے آپ سے بھی چھپتا تھا
میں بھی اس میلے کے باہر اس سے پہلی بار ملا تھا
اس کے سان گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی، یوں میں اک دن، اتنے قریب سے
اس کی زمینی آنکھیں، اس کے نیلے چپٹے ہونٹ اور اس کے رخساروں کے
میلے ڈھیلے گول مسام بھی دیکھ سکوں گا
لیکن وہ نہیں جھجکا
میں ہی اس کے اصلی روپ کو دیکھ کے سہم گیا تھا
اُس کے گرد تو اک وہ مکر کا ہالا ہی اچھا تھا
یہ سوچا اور اس سے رخصت چاہی
اس دن شام کو پھر میلے میں اس سے ملا میں...
میں نے اس کو پایا سارے حربوں سے مسلح
چہرے پر اکسائے ہوئے کچھ ایسے تیور
جیسے وہ بس کاٹھ کی روٹی اور پرنور خیالوں پر زندہ ہو
(9-12-1968)

*** اُن لوگوں کے اندر ... ***

ان لوگوں کے اندر جن کے اندر میں بھی ہوں
میرے برعکس، ایسے بھی
ہیں کچھ لوگ
جن کی باتوں کے کچھ سچے روپ ان کے حربے ہیں
لیکن یہ سچ ان کا نہیں ہوتا
یہ سچ اوروں سے چھینا ہوا ہوتا ہے
اپنے جھوٹ اور اپنی بدی کو چھپانے کی خاطر
وہ اوروں کی اک اک اچھائی کو ہتھیا لیتے ہیں
اور پھر اس ہتھیار کو لے کر جب وہ چلتے ہیں
ساری دنیا ان سے ڈرتی ہے
یہ بھی کیسا زمانہ ہے
جب اچھوں کی سب اچھائیاں، بروں کے ہاتھوں میں حربے ہیں
سچے لوگ اگر جیوٹ ہوں، کون ان کے منہ آئے گا
جھوٹ کے اس تالاب کے سب کچھوے
اپنے اپنے خول میں، اپنے اپنے کالے ضمیروں میں
چھپ جائیں گے
(16-12-1968)

*** اے ری چڑیا ***

جانے اس روزن میں بیٹھے بیٹھے
تو کس دھیان میں تیری، چڑیا، اے ری چڑیا!
بیٹھے بیٹھے تو نے کتنی لاج سے دیکھا
پیتل کے اس اک تل کو جو تیری ناک میں ہے
اپنی پت پر یوں مت ریجھ، خبر ہے، باہر
اک اک ڈاین آنکھ کی پتلی تیری تاک میں ہے
تجھ کو یوں چمکارنے والوں میں ہے اک جگ تیرا بیری
چڑیا، اے ری چڑیا
بھولی، تو یوں اڑتی، پنکھ جھپکتی
یہاں کہاں آ ٹھہری، چڑیا، اے ری چڑیا
یہ تو میرے دل کا پنجرا ہے، تو اس میں
اپنی ٹوٹی پھوٹی خوشیاں ڈھونڈنے آئی ہے؟
پگلی، یہاں تو ہے ہیرے کی کنی کا چوگا
اور اک زخمی سانس اور پنجرے کی انگنائی ہے!
اڑ اور مہکی ہوئی بن بیلڑیوں میں
جاچن اپنی لے ری چڑیا، اے ری چڑیا!
(12-1-1969)

*** بہار کی چڑیا ***

اس کا سرما سارا گزرا دور کہیں اک دھوپ کے گھر میں ...
سرما جو اس کا بچپن تھا...
اب جب دن بدلے ہیں اور ہوا کی ردا سے برف کے ٹانکے ادھڑنے لگے ہیں
نئی رتوں کی یہ بنجارن بھی دیواروں سے ٹکراتی
آ نکلی ہے، اپنے منگیتر کے ساتھ، اس کمرے میں
اڑتی چہکتی گاتی
چوں چوں، چچ چچ
آہا، یہ بھی کیسا اک بسرام ہے، روزن جن میں خوشیاں پنکھ سمیٹ کے چہکیں
آنگن جن میں پھول اور ریزۂ زر کا ارزن
پل بھر تو اس طاق پہ بیٹھیں، چوں چوں، چچ چچ
لیکن اے ہے، کون ہے یہ اس شیش محلکے میں اس جیسی
کون ہے پہلے سے یہ بیرن
جھپٹ جھپٹ کر اس نے اس چہرے پر کالک مل دی
اور اب وہ اور اس کا منگیتر دونوں
گلے پھلا کر، کتنے تاؤ میں اس بےعکس آئینے کے آگے بیٹھے ہیں
باغی جو ہر دور میں اپنے سائے سے لڑنے آتے ہیں
(20-1-1969)

*** گہرے بھیدوں والے ***

گہرے بھیدوں والے، تیرا سحر ہی مجھ کو بجھائے یہ اک بات...
... بات ایک یہ بات کہ اپنے پاس ہے جو کچھ سب ہے تیری دین
اور پھر ... اک یہ برتا بھی تو تیری دین ہے جس پر ہم
اپنے آپ میں تل کر جیتے ہیں
کبھی کبھی تو اپنے آپ میں بھر جاتے ہیں ایک ہی ٹھنڈی سانس کے ساتھ
میلے من کی بھروائی
تو نے ہم کو سونپا بھی تو اک یہ کیسا کام
بیٹھے ہیں
آنکھیں روح کے بوجھ سے ابلی پڑتی ہیں
کہیں پپوٹوں میں ہے اپنے وجود کے ریزے کا اٹکاؤ سا
اب کیا ہو سکتا ہے، اپنے جواز کے آگے اپنی سب تردیدیں بے بس ہیں
اندر ہی اندر کوئی شے تالو سے ٹکرائی ہے
ہم کہتے ہیں: ’’اب تک ... ٹھیک ہے! ... آگے ... دیکھیں گے!‘‘
جانے یوں کن کن بھیدوں کی کٹھالی میں تو ہمیں پرکھتا ہے
جانے یہ بھی اک کیا بھید ہے، یہ جو میری بابت گمان کا ایک دکھاوا سا
میرے ذہن سے گزرا ہے!
(7-2-1969)

*** مرے ہوئے اس اک ڈھانچے... ***

مرے ہوئے اس اک ڈھانچے کے حق میں—
یہی تو ہے بس سارا غم اور سب اندوہ
یہی تو ہے اک دکھ کی صورت، ظاہر میں —
اور سارے مظاہر میں
سامنے والے دانتوں کے اندر کی طرف
جیبھ کی نوک مسوڑھوں کی سوجن کو اک دو بار چھوئے
بڑا کرم ہو اگر آنکھوں پر پلکیں بھی کچھ جھک آئیں
اشکوں کو تو دور سے آنا ہوتا ہے
اور ان کے آنے سے پہلے آپ کو جانے کی بھی جلدی ہے
تو بس اتنا کچھ ہی کافی ہے
اتنا کچھ ہی تو ہوتے ہیں سارے غم اور سارے سوگ
چہرے پر اک لمبی پیلاہٹ
اور ایسے میں جیبھ کی نوک مسوڑھوں سے یوں چپک چپک کے گرے
جیسے اک بے حرف آواز کہے
’’کتنا اچھا آدمی تھا... ‘‘
ذرا سے اپنے اس اک استحقاق کی خاطر آج تو میں نے مر کر بھی دیکھا
ایسا وقت جب آئے تو آپ اتنا کچھ تو کیجیے گا
اپنی اس
کم فرصت رنجوری کے باوصف
(27-2-1969)

*** اے رے من ... ***

اے رے من
تیرے بھی تو ہیں کیسے کیسے دکھاوے
آج تو میں نے بالکل واضح دیکھا... اس کا چہرہ
جسے وہ زندہ ہو...
دھوپ میں ... چلتے چلتے ... میں نے دیکھا اس کا چہرہ ...
چہرہ ... جیسے ہوا کی تہوں کا چھلکا...
میں جس دھوپ میں تھا وہ دھوپ تھی اس کے گرد اک چھتری
جس کی چمک میں
چینہ چینہ چیچک سے وہ چہرہ ویسا ہی چترک تھا
جیسا دنیا میں تھا...
اور وہ دانے اب بھی چمکتے چمکتے بھلے لگتے تھے
جانے اب وہ کس دنیا میں... کچی اینٹوں کی چھتری والے کون سے گھر میں
کن اندھیاروں میں ہو...
وہ… جس کی بابت سوچوں تو سینے میں اک جھلی تپ جاتی ہے
وہ جو مٹی میں اب مٹی کا چھلکا ہے ...
... مٹی جس پر بارش کے دانوں کے دھبے ہیں ...
شاید تیرا ہی یہ پاگل پن تھا... کون اب اس کو دیکھ سکے گا
اے رے من
تیرے بھی تو ہیں کیسے کیسے دکھاوے
تجھ پر ہنسنے کو جی چاہا
ورنہ یوں کوئی یاد آئے تو آنسو کس سے رک سکتے ہیں
(10-3-1969)

*** میٹنگ ***

ان کے جسموں کے پیچاک تو دیکھو
ان کے جسموں پر یہ زرہیں بھی تو دیکھو
سمٹے سمٹے لپیٹوں والی زرہیں
جن سے اپنے گمان میں وہ اپنی روحوں کی رکھوالی کرتے ہیں
سمٹے سمٹے لپیٹوں والی زرہیں
ان کی زرہیں تو ان کی سوچوں کے سمٹاوے ہیں
جن کے ذریعے
ہم پہ جھپٹنے سے پہلے وہ
اپنے آپ کو اپنی روح کے اک کونے میں سمیٹ لیا کرتے ہیں
اور پھر ان کے سب اعضا، سب عضلے
کسے کسے سے نظر آتے ہیں، جیسے رسّے
جیسے ابھی ابھی جب بٹے بٹے سے رسّوں کے یہ مٹّھے
کھل کر بکھریں گے تو اژدر بن جائیں گے
اس دن میں نے دیکھا جیسے
اک اک کرسی پر اک رسّوں کا مٹّھا بیٹھا ہو
(31-3-1969)

*** حضرت سید منظور حسین شاہ ***

(مکان شریفی)
میں نے اس کے ارادوں کا یہ سفر دیکھا ہے
ابھی ابھی وہ اس پُرنور حویلی میں تھا
جس کے گرد سنہرے گلابوں کے تختے تھے
اور اب وہ اس مٹی کے تابوت میں جا لیٹا ہے
میں نے دیکھا
اس نے اپنی اس اک عمر میں جتنی زندگیاں پائی تھیں
آج اس کی میّت کے ساتھ نہیں تھیں
وہ تو اب بھی سب کی سب اس دنیا میں ہیں
جو بھی چاہے ان کو چن لے اور آنکھوں سے لگا لے
(30-3-1969)

*** زائر ***

ان کی جیبوں میں ہیں ارض و بقا کی کلیدیں
لیکن ان گچھوں کی ایک بھی چابی ان کے دل کے کالے تالے کو نہیں لگتی
اور وہ ننگے پیروں چل کر تیری چوکھٹ پر آتے ہیں
تیرے جلالت والے چتر کے آگے جھک جاتے ہیں
ان کی روح کے ایک پرانے گڑھے سے خلوص کا لاوا ابل پڑتا ہے
وہ روتے ہیں
تجھ سے مانگتے ہیں وہ سب کچھ، جس کو تو نے تیاگ دیا تھا
اور ادھر اک میں ہوں
کیسے مانگوں تجھ سے وہ دنیا جس کا سورج اک دن تیرے دل سے ابھرا تھا
اپنے پاس تو اس دنیا کی ٹکٹ کے پیسے بھی نہیں ہوتے
جس دن ہوں بھی، اس دن اپنا ارادہ بھی نہیں ہوتا
تیری نورانی مٹی سے باہر جو مٹی ہے
جانے اس مٹی میں کیسے کیسے کافر تیری محبت میں جیتے ہیں
تو نے دیکھا؟
(14-4-1969)

*** میری عمر اور میرے گھر... ***

میری عمر اور میرے گھر سے باہر
اس دائم آباد محلے… اس اینٹوں کے ابد میں
وہ جو کچھ عمریں ہیں نیچی نیچی چھتوں کے نیچے...
ان کی نمود اور ان کی نمو سے میری پلکوں میں ٹھنڈی ٹھنڈی سوجن ہے
ان کو دیکھ کے میں دنیا کو بوجھل بوجھل نظروں سے تکنے لگتا ہوں
کتنے اچھے تھے وہ میرے گزرے دن جو اب ان عمروں میں ہیں
جب یہ عمریں میرے گزرے دنوں سے گزر کر
اک دن میرے نہ ہونے میں ہوں گی
تو جانے میری بابت کیا سوچیں گی...
اک یہ خیال آتے ہی میں نے اپنے گھر کی طرف دیکھا ہے
تو ان اینٹوں کی عمروں پر رشک آیا ہے
جیسے آج نقابوں میں یہ نظریں، بجلی کے ریشوں سے بنی ہوئی یہ خانے دار کمندیں
میری روح کو چھو کے پلٹ جاتی ہیں
ویسے ہی کل بھی شاید یہ نظریں اک بار اٹھیں ان اینٹوں کی جانب
اینٹوں کی یہ چادر جس کا اک پلو ہی باہر تیرے گا جب میرا پیکر
گارے کے گرداب میں ہو گا
پھر بھی آج تو سوکھے سوکھے حلق اور سوجی سوجی پلکوں سے
اس دنیا کو دیکھنے میں جو دکھ ہیں، جو ارمان ہیں، یہی تو عمروں کا حاصل ہیں
(13-5-1969)

*** بندے ***

بندے
جب پلکوں کے جڑے جڑے گچھوں کے نیچے تیری آنکھوں میں اک لمبے گھیرے والے
عندیے کا ہلکا سا پھیرا پڑتا ہے...
جب ایسے میں تیرے بھنچے ہوئے ہونٹوں پر ایک ارادے کا بوجھ آ پڑتا ہے
اور وہ ہونٹ آپس میں اور بھی دب جاتے ہیں
اور ٹھوڑی کے نیچے اطمینان کا اک لٹکاوا ابھر آتا ہے
تب تو تیرے گمان میں دنیا کے ہر ذرے پر تیرے چہرے کا سکہ ڈھل جاتا ہے
تب تو ڈرنے والے ڈر جاتے ہیں
اپنے غرور میں جینے والی مٹی کی اس اک مورت کو دیکھ کے
ڈرنے والے ڈر جاتے ہیں
اور میں اس تیری مورت کی بےعلمی سے ڈر جاتا ہوں
جس کو علم نہیں وہ کرنوں کی بوچھاڑ میں ہے اور ان جھالوں میں جھڑ جائے گی
اور یہ میرا ڈر ہی میری سب سے بڑی ڈھارس ہے، میری اس بےاطمینانی میں
تو میری اس ڈھارس سے ڈر، اپنے کالے ارادوں میں جینے والی مٹی کی مورت
(12-5-1969)

*** اپنے یہ ارمان... ***

اپنے یہ ارمان تو سب غرضیں ہیں، کھری بھی اور کھوٹی بھی
ان سب غرضوں کی دھن اس کی دھن ہے
اور ہمارے خیالوں کے اندر تو بھونروں کی روحوں کے بھنور ہیں
امڈ امڈ کر اپنی غرض کی سیدھ میں ہم آتے ہیں
جو بھی رستہ کاٹے اس کو ہم ڈستے ہیں
پھر جب من کی باتیں پوری ہوتی نظر نہیں آتیں
ذہن ہمارا دنیا والوں کے بھیدوں کو پرکھنے لگ جاتا ہے
اک یہ پرکھ ہی تو ہے جو یوں نفرت سکھلاتی ہے
اپنی محرومی لاکھوں شاخوں والی اک قدر ہے جس کی
سب سے مقدس ٹہنی پر نفرت کا پھل لگتا ہے
میرا جی تو بھر بھی چکا اس پھل سے
کب تک دیکھوں میں ٹیڑھی پلکوں سے ان لوگوں کو
میری دید سے جو غافل ہیں
کیوں نہ بہا دوں اک تنکے کی طرح اس دنیا کو اس ندی میں جو
تیری روح کے باغوں میں بہتی ہے
منوا، آج تو تو نے یہ کیا سوچا
سدا پھلیں یہ تیری میٹھی سوچیں، مورکھ منوا!
(13-6-1969)

*** وہ تلوار ابھی... ***

وہ تلوار ابھی تو اک فولادی خواب ہے تیرے ذہن کی ان تھک کارگہوں میں
اک دن جب یہ اصیل اور جوہردار عمل پارے آپس میں جڑ کر
تیرے دل کی نیام میں ڈھل جائیں گے
پھر جب اک دن یہ تلوار چلے گی...
لیکن اس دن کے آنے تک... ابھی تو کچھ دن...
لاکھوں روگوں والی نگری میں مٹی کی اس پٹڑی پر
اپنے دامن میں کیچڑ کے ان پھولوں کو لے کر چلنا ہو گا
ابھی تو اور بہت کچھ ہو گا
نیلی ٹین کی یہ چھت کڑکے گی اور سہما سہما وجود پچک جائے گا
باہر جانے کتنی آنکھیں ہنسیں گی اور جبڑے کھنکیں گے
ایسے میں تو گہری بنیادوں والے اک سانس کے بل پر ہی تو
ان سب کالی دنیاؤں کے بوجھ کو اپنے سر سے جھٹک سکے گا...
لیکن ابھی تو سب کچھ اک فولادی خواب ہے تیرے ذہن کی ان تھک کارگہوں میں
ابھی تو ہر ہونی ان ہونی نظر آتی ہے
ابھی تو سب کچھ ہو سکتا ہے ...
شاید تو تھک بھی جائے
شاید اپنے جی کے اسی جیالے پن میں تو جی بھی لے
(24-6-1969)

*** یہ دو پہیے... ***

یہ دو پہیے ارض و سما ہیں
اور اس اپنی عمر کی سب تسکینیں بچھی پڑی ہیں ان سڑکوں پر
دو پہیوں کے ارض و سما کا جستی دستہ تھام کے میں نے
چلتے چلتے اکثر سوچا ہے، یہ سڑکیں بھی کتنی اچھی ہیں
ان کے باعث میرے دھیان میں آ جاتے ہیں وہ سب اچھے اچھے کام
اور اچھی اچھی باتیں
جن کی خاطر میں نے
ارض و سما کے پہیوں کو اس نیلی پٹڑی پر گرداں رکھا ہے
اور، اک عمر کے بعد، اب یہ سمجھا ہوں: دھوپ کی لو میں تپتی ہوئی یہ بجریلی
سطحیں اچھی ہیں ان لوگوں سے
جو ان پر چلتے ہیں... جن کے غرور کی جھوٹی ٹھنڈک کبھی بھی ان کے دلوں میں
نہیں پگھلتی...
چلتے چلتے اکثر میں نے سوچا ہے، میں کن لوگوں کی دنیا میں ہوں
یہ سب کیسے لوگ ہیں، جن کی آنکھوں میں پتھرائے ہوئے پچھتاوے کبھی کبھی کروٹ نہیں بدلتے
لوگ جو اپنے سوا ہر اک شے کی جانب بے رخ ہیں
کس نے دیکھا، میرا دل تو بچھا ہوا ہے ان سڑکوں پر، ان بے رخ قدموں کے نیچے
کس نے دیکھے پہیے ارض و سما کے چلتے ہوئے ان بجریلی سطحوں پر
کس نے پہچانے وہ ہاتھ کہ جن کے بس میں ان پہیوں کی گردش کا ہر رخ ہے
اپنی دھن میں چلتے رہیو
چلتے پہیوں میں چکراتی ہیں جھنکاریں چلتے کُروں کی
پیڈل روک کے دیکھو، زنجیروں کے دندانوں میں کتے بول اٹھتے ہیں
(27-7-1969)

*** رکھیا اکھیاں ***

جھکی جھکی گھنگھور گھٹائیں
ساون، پھوار، ہوا، ہریاول
رس کی نیند میں جاگتی دنیا
کچھ تو بولو... تم کیوں ہنس دیں
پتھر کے چہرے پہ گڑی اکھیو ...
دل کہتا ہے، اب کیا ہو گا:
ندی ٹیلوں تک لچکے گی
بہنے والے بہتے بہتے
اپنی ہونی میں ڈوبیں گے
کچھ تو بولو... تم کیوں ہنس دیں
مجھ پہ ترس کھانے والی اکھیو...
تم جانو... یہ جھونکے کس کے
عندیے ہیں... اور یہ کن کن
تقدیروں کی برکھا میرے
ڈرے ہوئے جی میں اتری ہے
کچھ تو بولو... تم کیوں ہنس دیں
اپنے بھرم پہ لجائی ہوئی اکھیو...
(30-7-1969)

*** ورنہ تیرا وجود... ***

ورنہ تیرا وجود تو سچ کے سمندر میں ہے مٹی کا وہ پشتہ
جس کے باطن کی جھوٹی خودبستگیاں ہی اس کو سنبھالے ہوئے ہیں
پھر وہ کون ہے جو خود اپنے فوق سے تجھ کو یہ توفیق عطا کرتا ہے
تیرا ہونا ڈوبنے والوں کی آنکھوں میں ڈھارس بھر دیتا ہے
ورنہ تو تو خود اس ریلے میں ہے اک پشتہ، بہہ جانے والا
پھر وہ کون ہے جو یوں تیری سمت اشارہ کر کے
طوفانوں میں گھری ہوئی روحوں کی بے پتوار نگاہوں سے کہتا ہے:
اس تنکے کا بازو تھام لو، شاید تم بچ جاؤ، ڈوبنے سے بچ جاؤ
بندے، جانے کتنے لوگ ہیں جن کو تیری آس پہ جینا آساں ہے
اور تو خود وہ پشتہ جس کی جڑوں کو بھنور کی درانتی پیہم کاٹ رہی ہے
تو کیا کر سکتا ہے بندے
تو خود اپنے باطن کی جھوٹی خودبستگیوں کے سہارے پر باقی ہے
باقی تو ہے اک یہ سچ کا سمندر جس کی لہریں ہیں تقدیریں
اور ان تقدیروں کے اچھے اچھے دکھاوے
جانے کتنی آنکھوں میں بس جاتے ہیں، تیری نسبت سے!
کتنی آنکھوں میں ہے اک یہ اداس توقع
کتنی آنکھیں جن میں ایک ہی دیکھنے والا تیری جانب دیکھ رہا ہے کب تو اس کی جانب دیکھے
(4-9-1969)

*** غزل ***

ان گنت امروں میں اور کیا ہے ترے دل کے لیے
اک جیون ہار ڈر سا ہے ترے دل کے لیے
رک کے اس دھارے میں کچھ سوچ اک یہ اچھا سا خیال
جو ترے حق میں ہے، کیسا ہے ترے دل کے لیے
اپنے جی میں جی، مگر اس یاد سے غافل نہ جی
جو کسی کے دل میں زندہ ہے ترے دل کے لیے
سب ضمیروں کے ثمر ہیں، پستیاں، سچائیاں
جانے تیرے ذہن میں کیا ہے ترے دل کے لیے
والہانہ رابطوں میں جبر کے پہلو بھی دیکھ
جو بھی دل ہے ایک پنجرا ہے ترے دل کے لیے
تو کہ اپنے ساتھ ہے اپنے بدن کے واسطے
کوئی تیرے ساتھ تنہا ہے ترے دل کے لیے
تیری پلکیں جھک گئیں امجد دیے جب یوں جلے
جانے کس کا ذکر چمکا ہے ترے دل کے لیے
(14-9-1969)

*** گھور گھٹاؤں ***

گھور گھٹاؤں کے نیچے
پیڑوں کی لچکیلی باہیں
کونپلوں کے کنگن پہنے
جھک جھک کر
جھیل کے پانی پر سے چننے آئی ہیں
پیلے پیلے پتے اور بھورے بھورے بادل
جھیل کی جانب جھکی جھکی
رستے ہی میں جم گئیں شاخوں کی باہیں
جھیل سے کون اٹھا کر دے ان کو
پیلے پیلے پتے اور بھورے بھورے بادل
چاروں اور سے امڈی امڈی گہری چھاؤں، سہانی ہریاول
تھم گئی آ کر زنگ آلود سلاخوں والی اس کھڑکی کے پاس
جانے جھریوں والا کالا چمڑا میرے دل کا کب اس ٹھنڈک کو محسوس کرے
(19-9-1969)

*** اپنی خوب سی اک خوبی... ***

اپنی خوب سی ایک خوبی میں اس کے لیے اک مستی تھی
اور اپنی اس خوبی کے لچھن دیکھے اس نے، سب دنیا سے چھپ کر

اب وہ خوبی بھولا ہوا اک خوابِ خوباں ہے
لوگوں کے ذہنوں میں اس خوبی کی بابت اب اک میٹھی میٹھی نفرت ہے
پھر بھی کون اب ایسی باتوں کے بارے میں بات کرے
سب کی زبانیں چپ ہیں، سب کے دل اس علم پہ نادم ہیں
ساری معرفتیں اب بےبس ہیں
وہ مچھلی بس اک بار اس گندے پانی میں نہائی تھی
اور اب زریں طاق پہ اک شیشے کی صراحی میں لہراتی ہے
اب رنگیں صدفوں میں دھنسی ہوئی وہ سرخ مساموں والے گوشت کی گتھلی
بڑے بڑے لوگوں کی باتوں کے مفہوموں میں
تقدیروں کی کھسرپھسر سے بھرے ڈرائنگ روموں میں
تیرتی ہے، اتراتی ہے
مرغولوں کی باچھوں میں مسکاتی ہے
کیسی خوب سی وہ خوبی اس کو راس آئی ہے
تو کس دنیا سے ٹکرانے آیا ہے
تو کس جگ کی کایا بدلنے آیا ہے
کوڑھی اوگن ہار دِلا!
(12-9-1969)

*** دیوں کے جلنے سے... ***

دیوں کے جلنے سے پہلے
شام کی دھندلی ٹھنڈک میں
گھنے درختوں کے پیچھے
کل جب تیرے نام کی زرد سیاہی طلوع ہوئی
اور پھر اس کے بعد
رفتہ رفتہ جب ہر جانب سے
تیرے ذکر کی اک رمزیلی تاریکی ابھری
تاریکی جو تیرے نور کا اک رخ ہے
تو اس دم اک جابر دانائی
روحوں کی ظلمات سے یوں گزری
جیسے اچانک رستہ روک کے کوئی کسی سے کہے:
’’ادھر، ہماری جانب بھی تو دیکھ!
ان مردہ قلبوں کے اندر بجھتے ہوئے بلبوں کی نگری میں پھرنے والے
ہم تو اندھیروں میں بھی تیرے ساتھ ہیں
ہم جو اندھیروں کے اس بھیس میں اپنی روشنیوں میں اجاگر ہوتے ہیں
(11-10-1969)

*** ہم تارے، چاند ستارے ہیں ***

(بچوں کے لیے)
ہم تارے ہیں
ہم تارے، راج دلارے ہیں
ہم تارے، چاند ستارے ہیں
خوش خصلت ہیں، خوش طینت ہیں
ہم اس پرچم کی زینت ہیں
ہم جگ مگ کرتے تارے ہیں
ہم تارے، چاند ستارے ہیں
ان پیلے سبز دیاروں میں
اس دنیا کے اندھیاروں میں
ہم روشنیوں کے سہارے ہیں
ہم تارے، چاند ستارے ہیں
ہم پھول اور باس اور ہریالی
ہم علم اور امن اور خوش حالی
ہم پاک وطن کے دلارے ہیں
ہم تارے، چاند ستارے ہیں
اس جیتے دیس میں جینا ہے
خوشیوں کا امرت پینا ہے
یہ باغ، یہ پھول ہمارے ہیں
ہم تارے، چاند ستارے ہیں
(12-10-1969)

*** غزل ***

اک اچھائی میں سب کایا دنیا کی
اس برتاؤ میں ہے سب برتا دنیا کی
پھول تو سب اک جیسے ہیں سب مٹی کے
رُت کوئی بھی ہو دل کی یا دنیا کی
اس اک باڑ کے اندر سب کچھ اپنا ہے
باہر دنیا، کس کو پروا دنیا کی!
ان چمکیلے زینوں میں یہ خوش خوش لوگ
چہروں پر تسکینیں دنیا دنیا کی
اجلی کینچلیوں میں صاف تھرکتی ہے
ساری کوڑھ کلنکی مایا دنیا کی
پھر جب وقت بجھا تو ان پلکوں کے تلے
بہتے بہتے تھم گئی ندیا دنیا کی
جم گئے خود ہی اس دلدل میں، اور خود ہی
کریں شکایت، اہل دنیا، دنیا کی
دنیا کے ٹھکرائے ہوئے لوگوں کا کام
پہروں بیٹھے باتیں کرنا دنیا کی
دلوں پہ ظالم یکساں سچ کا پہرا ہے
کوئی تو جھوٹی ریت نبھا جا دنیا کی
(20-10-1969)

*** ننھی بھولی... ***

ننھی، بھولی، میلے میلے گالوں والی، بے سدھ سی اک بچی
تیری جانب دیکھ رہی ہے، دیکھ اس کی آنکھیں تیری توجہ کی پیاسی ہیں
اس کی نازک، بے حس ٹھوڑی کو اپنی انگلی کی سنہری پور سے مس تو کر، اور
اس سے اتنا تو پوچھ: ’’اچھی بلو! تو کیوں چپ ہے؟‘‘
اور جب وہ منھ پھیر کے اپنی آنکھیں اپنے ہی چہرے پہ جھکا لے
تو ہی بڑھ کر اس کے ماتھے کو اپنے ہونٹوں سے لگا لے، ہاں ایسے ہی
کیوں، اس جھنجھیلوے نے تجھ سے کہا کیا؟
یہ کیا؟ تیری آنکھیں بھیگ گئیں کیوں؟
اس نے تجھ سے کہا کیا؟
ساتوں آسمانوں کے مالک
اتنے پتلے دل والے مالک! ہم بھی روز اس چہرے کی کتھا سنتے ہیں
ہم تو کڑا کر لیتے ہیں اپنا جی، ایسے موقعوں پر!
(6-11-1969)

*** گستاپو ***

باتوں باتوں میں وہ لوگو ں کے ذہنوں سے کوڑا کرکٹ چن لیتا ہے
لوگوں کے ذہنوں سے، اوروں کے بارے میں، ایسی ایسی باتیں چن لیتا ہے
جو دنیا والوں کی کھلی باچھوں میں سفر کرتی ہیں
یہ باتیں اس کی دانست کا سرمایہ ہیں
یہ سرمایہ ایک گھمنڈ ہے کڑواہٹ کا
اس کے رخ پر بکھرا ہوا ہے وہ سب لوہا، جو اس کے دل کا لہجہ ہے
اس کے باہم بھنچے ہوئے ہونٹوں کا دباؤ جب اس کی آنکھوں کو چمکا دیتا ہے
عرش کے محلوں میں فرشتے اپنی شمعیں بجھا دیتے ہیں
میری طرف آج اس نے یوں دیکھا ہے
جیسے میں بھی اس کے غرور کا اک لقمہ ہوں، اس کی دانستوں میں
آخر اس کے پاس اک علم ہے میری بابت
آخر کل ہی تو وہ آسمانوں پر جا کر
اپنے ذہن کی چوپتری پر
آنے والے برے دنوں کا ٹیوا اتار کے لے آیا ہے
(16-11-1969)

*** تم کیا جانو... ***

تم کیا جانو، مجھ سے پوچھو، میں اس مٹی کی سوکھی پتلی تہہ پر کھیلا ہوں
اس مٹی کی تہہ کے نیچے گدلا گاڑھی گہرا پانی ہے سیلانی سیلابوں کا
پھر وہ دن بھی تھے کچھ بڑے البیلے اور تب علم بھی مجھ کو نہ تھا ان دنوں کا جب
ہر ذرہ سورج بن جاتا ہے
ہر سو مٹی کی اس سوکھی پتلی تہہ پر لوگ نرالے دنوں کی خوشی میں چوکڑیاں بھرتے پھرتے تھے
میری طرح سب کالے ذرے چمکیلے خوابوں میں گم تھے
اور کچھ میں بھی تھا اک ایسی دنیا میں، جس میں سارے لوگ اک جیسے تھے
تم کیا جانو، کن جتنوں سے اب میں ان وقتوں کے سارے کھتان اور ساری دلدلیں
پھاند کے اس دنیا تک پہنچا ہوں، جس میں اب میرے سوا سب کچھ ہے!
تم کیا جانو، تم تو آج اک مجھ سے نفرت کرنے والی شفقت اپنی آنکھوں میں بھر کر آئے ہو
یہ نفرت تو اک مزمن بےعلمی ہے
اور یہ شفقت بھی تو خودافروز دلوں کی اک متعدی بیماری ہے
میری ساری دعائیں تم پہ تصدق، کیا تم یوں میری بے مائیگیوں کا مول چکا سکتے ہو
دیکھو، تم خود مٹی کی اس سوکھی پتلی سی تہہ پر اور کروڑوں آدمیوں کے ساتھ کھڑے ہو
جس کے نیچے سیلانی سیلابوں کا پانی ہے!
(29-11-1969)

*** اور اب یہ اک سنبھلا سنبھلا... ***

اور اب یہ اک سنبھلا سنبھلا، تھکا تھکا سا شخص
اب بھی جس کے جھریوں والے چہرے پر اک پیلی سوچ کا بچپن ہے
ساری عمر اس کی
اپنی اس اک دھن کو بڑھاوا دینے میں گزری:
’’مگن مگن بیٹھیں…
چاندی کی چھت کے نیچے
اس قرنوں کے بچھونے پر
مگ مگن بیٹھیں!
چنیں خود اپنے خیالوں کے کنکر
یہ کنکر مل کر بن جائیں گے لوحیں
لوحیں جن کو دنیا اک دن پوجے گی...
اور اب یہ اک شخص
اک جانب کو اس کے قد کا جھکاؤ
اور اسی جانب کے بوٹ کی ایڑی گھسی ہوئی
اور اسی جانب کا کوٹ کا پلو مڑا ہوا، اک جامد بازو کے نیچے
اور وہ خود ساکت
اس کے گرد ہزاروں تیز ہراساں قدموں کا اک لہراتا جنگل
اور وہ ان قدموں کے سفر میں تنہا
جاتے جاتے کسی نے پوچھا: ’’بھائی کیسے ہو؟‘‘
اس کی آنکھوں میں بچپن لوٹ آیا
ہنس کے وہ کہنے لگا:
’’تم تو مجھے پہچانتے ہو، تم جانتے ہو جو زینہ تمھارے دل سے میرے دل تک ہے
تم میرے دل تک آ سکتے ہو
آؤ گے؟
آؤ، بیٹھ کے اپنے خیالوں کے کنکر رولیں
یہ کنکر مل کر بن جائیں گے لوحیں
لوحیں جن کو دنیا اک دن پوجے گی
اور پھر اک دن امڈ پڑے گا زمانہ ہماری طرف‘‘

اور وہ اک لمبے رستے کی شطرنجی پہ اکیلا کھڑا تھا
اور جو قدم اس نے ابھی آگے کو بڑھانا تھا اس ایک قدم کا کرب
اس کے بھربھرے سے چہرے کے میلے مساموں تک رس آیا تھا اور اس کا ماتھا چاندی کا تھا
(14-12-1969)

*** مینا***

جب تو ان کے گھر کے صحن میں اک مینا تھی، چاندی کے پنجرے میں
تجھ کو وہ دن اچھے لگتے تھے نا
تب تو تجھ کو اس کی خبر بھی نہیں تھی، تیرے آب و دانے میں کیا ہے
تجھ کو خبر بھی نہیں تھی...
تب تیرا چوگا تو انگوروں کے رس میں گندھا ہوا نمکیلا بھیجا تھا
ان جلتی آنکھوں والی بے تن کھوپڑیوں کا
جن کے مہین خلیوں میں اک وہ چنگاری چٹکی تھی جو سرِ بقا ہے!
تجھ کو وہ دن اچھے لگتے تھے نا
اور اب بھی تجھ کو وہ دن یاد آتے ہیں نا...اب بھی
اب جب تلواروں کی نوکیں تیرے گلے پر رکھ کر تجھ کو پیار بھری نفرت
سے یوں چمکارنے والے
اپنے جسموں کی مٹی میں خوابِ فنا ہیں
میری باتیں سن کر مجھ کو ٹک ٹک دیکھنے والی، چوکورآنکھوں والی مینا
ہاں وہ قاتل اچھے تھے نا
اب تجھ کو وہ دن یاد آتے ہیں نا
اب اس وادی کی بھرپور گھنی سبز لتا میں اڑنا اوریوں راتب چننا کتنا
مشکل ہے!
اب یوں اڑنے میں تیرے پر دُکھتے ہیں نا، مینا!
(14-12-1969)

*** سب کو برابر کا حصہ... ***

سب کو برابر کا حصہ ملتا ہے اس میعاد سے جس کو
دن کہتے ہیں
سب کے سروں پر
سورج کی تقدیرِ سفر، یکساں لمبی پٹڑی ہے
کسی کے آگے دن کا قد نہیں گھٹتا
کسی کی خاطر دن کی حد نہیں بڑھتی
سب دن اور سب کے دن کٹ جاتے ہیں
سب گزرے دن، سب کے گزرے دن سب اک جیسے ہیں
کھوئی ہوئی اس اک پونجی میں سب سانجھی ہیں
تیرے دن، جو تیری آنکھوں کی ٹھنڈک میں گزرے
میرے دن، جو میرے دل سے نہ گزرے
آج وہ کیا ہیں، کسی خلا کے خانے، خالی خالی خانے
دیکھیں تو سہی، کھولیں تو سہی، ان خانوں کو
(31-12-1969)

*** کہاں سفینے ... ***

کہاں سفینے اس خود موج سمندر میں ان روحوں جیسے
روحیں جن کے خیال سے میں جیتا ہوں
جب دریا چڑھتا ہے اور جب اس کی کوئی سیہ سی لہر اچانک
میرے دل کے ٹھنڈے پانیوں کو اپنے گھیرے میں لے لیتی ہے
تو میں سب پتواریں چھوڑ کے، بے بس ہو کے، اتر جاتا ہوں
ان ہوتے امروں کی منشاؤں میں
اور اس اک وقفے میں، ڈرتے ڈرتے
جلدی سے بھر لیتا ہوں، اپنی آنکھوں کی کشتیوں میں، ان سب لوگوں کو
جن کے خیال سے میں جیتا ہوں
تب میری پلکوں کے سایوں میں یہ روحیں، سب اک ساتھ، اکٹھی
کشاں کشاں، اس کوشش کے محور میں آ جانے کا جتن کرتی ہیں
جس کی کشش سے سب دریا چڑھتے ہیں
کہاں سفینے اس خود موج سمندر میں ان روحوں جیسے
روحیں جو میرے جی میں جیتی ہیں...
(1-1-1970)

*** سبھوں نے مل مل لیں... ***

سبھوں نے مل مل لیں اپنے چہروں پر
مٹیاں اپنی عمروں کی ... اور یوں جو جو شکلیں نتھری ہیں
ان سے ہی اَب ان کی پہچانیں ہیں
عمروں کی اس مٹی میں کرموں کے خمیر کی ابھرن ہیں یہ شکلیں
اپنی اپنی گزرانوں میں مسخ شدہ یہ چہرے فساد ہیں ان احوالوں کا
جن سے ہم سب گزرے ہیں
اک اک شخص کی شکل اس کی اپنی مشکل ہے
کاش اپنی اپنی مشکل کو سمجھ سکتے یہ لوگ کہ جن کی شکلیں
جن کے کرموں کے پھل
ان کی نظروں سے اوجھل ہیں
جن کی اصل مخفی شکلیں تو خود ان کی روحوں کے آئینوں میں بھی ان کے آگے
نہیں اترتیں
جن کی اصلی شکلیں تو حصہ ہیں اس اک بڑی بھری تصویر کا جس کو
ساری دنیا اس نفرت سے دیکھ رہی ہے!
(20-1-1970)

*** کل کچھ لڑکے… ***

کل کچھ لڑکے آپس میں باتیں کرتے جاتے تھے
ہم تو سب کچھ جانیں
سب کچھ، جس کو دنیا جانے، لیکن منہ سے نہ مانے
ری ری ری، ہم سب کچھ جانیں، کیا ہیں خوشیوں کے یہ سارے دکھاوے
یہ سب گھاتیں
میلی میلی گلیوں میں یہ لگتی اکھڑتی قناتیں
چہل پہل کے اک دو دن اور اک دو راتیں
گھی اور گڑ کے قوام سے بوجھل باتیں
سارے لوگ، اک جیسی ذاتیں
باہر، باہر، بڑے گھمنڈ اور بڑی تمکینیں
باہر باہر، خوشیوں کے سات آسمان اور سات زمینیں
اندر اندر، اتی اتی سی جاگیروں کی تسکینیں
اور وہ سب کچھ بھی ... ری ری ری! اچھا، اچھا، ہم نہیں کہتے!
اپنے چہرے ڈھانپ کے چلنے والی یہ سب قدریں اور ان کی تقدیسیں
یوں ہی ہم پر دانت نہ پیسیں
اچھا، اچھا، لو ہم منہ سے کچھ نہیں کہتے
گو ہم سب کچھ جانیں، سب کچھ جانیں
(20-10-1970)

*** کوہستانی جانوروں... ***

کوہستانی جانوروں برفانوں کی سمور
اس سرما میں تو...
اس کم سن فسطائیت کے گورے جسم پہ اب بھی ویسی ہی ہے
جیسی تھی منقوش عباؤں والے گزرے دنوں میں
تب بھی اس مٹی کے دل میں اپنے ہونے کا ڈر ویسا ہی تھا، جیسا اب ہے
ظلم کی اس بازی میں میرا خوف، اس لمبے عرصے کی شطرنجی پر
جانے کن تقدیروں کا پانسہ ہے
جانے اس اک ڈر کی بھی کتنی کڑیاں ہیں، جو سب کی سب میرے لیے ہیں
اور جن کی نسبت سے میری سچی باتیں بھی بےمصرف ہو جاتی ہیں
ورنہ میں تو سچے دل سے چاہوں، کاش اس کھٹ کھٹ چلتی، فربہ فربہ
گوشت کی گتھلی کے ساتھ اک ایسی کم وزنی بھی پروان چڑھے جو
اس مٹی کے ذرّوں کی طینت میں بٹی ہوئی ہے
لیکن زرد سمور میں لپٹا ہوا یہ مٹاپا
اس نے تو اب کس بھی لیے اپنے دل پر قبضے چاندی کے
اس نے تو اَب چھت بھی لیں سب اپنی سوچیں
اب تو اس کے ایک قدم کی پہنچ ہیں مجھ جیسوں کی صدہا عمریں
شاید میری مٹی اسی طرح سے اور ہزار برس ان کالی سرد ہواؤں میں تھرتھر
کانپے گی
روندے جانے کا ڈر اس کو روندے گا...
(26-1-1970)

*** اپنے لیکھ یہی تھے... ***

اپنے لیکھ یہی تھے، منوا
ورنہ میرا سچ تو سب کا علم ہے اور سب پر ظاہر ہے
میرا سچ تو ہے اس پنجر میں جینے والی اک بےبس آگاہی، جس کو سب
نے پرکھا ہے
میری سچائی کو سمجھنے والے، میرے سچ کے حق میں سچ ہوتے
تو یوں ان کے دلوں میں اک اک قبر نہ ہوتی میرے آنے والے دنوں کی
جیسا کچھ بھی ان کا گمان ان آنے والے دنوں کے بارے میں ہے
پھر میرا دل کیوں نہ دکھے جب میں یہ دیکھوں
میری سچائی کو سمجھنے والے
میری بابت اپنے علم کو جھٹلانے کی کوشش میں، ہر گری ہوئی رفعت کو اپناتے ہیں
پہلے میرے ہونے کو اپنے دل میں دفنا دیتے ہیں
اور پھرمیرے سامنے آ کرمیرے سچ پہ ترس کھاتے ہیں
اور یوں مجھ کو جتاتے ہیں کہ انہیں سب علم ہے، میرا سچ دم توڑ چکا ہے
میری سچائی کو سمجھنے والے بھی جب یوں کہتے ہوں
کون اس وار کو سہہ سکتا ہے
میرے دِل میں میرے سچ کے قدم اکھڑنے لگے ہیں
اب کوئی تو اک اور جھوٹی سچی ڈھارس، منوا
آخر جینا تو ہے
اور جینے کے جتنوں میں زخمی چیونٹی کی بےبس آگاہی بھی عقلِ کل ہے!
(3-2-1970)

*** اپنے دل میں ڈر... ***

اپنے دل میں ڈر ہو تو یہ بادل کس کو لبھا سکتے ہیں
اپنے دل میں ڈر ہو تو سب رُتیں ڈراؤنی لگتی ہیں اوراپنی طرف ہی گردن
جھک جاتی ہے
یہ تو اپنا حوصلہ تھا
اتنے اندیشوں میں بھی
نظریں اپنی جانب نہیں اٹّھیں اور اس گھنگھور گھنے کہرے میں جا ڈوبی ہیں
اور اَب میری ساری دنیا اس کہرے میں نہائی ہوئی ہریاول کا حصہ ہے
میری خوشیاں بھی اور ڈر بھی
اور اسی رستے پر میں نے... لوہے کے حلقوں میں ...
اک قیدی کو دیکھا
آہن چہرہ سپاہی کی جرسی کا رنگ اس قیدی کے رخ پر تھا
ہر اندیشہ تو اک کنڈی ہے جو دل کو اپنی جانب کھینچ کے رکھتی ہے اور وہ
آدمی بھی
کھچا ہوا تھا اپنے دل کے خوف کی جانب، جس کی کوئی رُت نہیں ہوتی
میں بھی اپنے اندیشوں کا قیدی ہوں، لیکن اس قیدی کے اندیشے تو
اک میرے سوا، سب کے ہیں
اک وہی اپنے اپنے دکھ کی کنڈی
جس کے کھچاؤ سے اک اک گردن اپنی جانب جھکی ہوئی ہے
ایسے میں اَب کون گھٹاؤں بھری اس صبحِ بہاراں کو دیکھے گا
جو ان بور لدے اندیشوں پر یوں جھکی ہوئی ہے آموں کے باغوں میں
مری روح کے سامنے
(9-3-1970)

*** دنوں کے اس آشوب... ***

دنوں کے اس آشوب کے ساتھ اک تیرے ذکر کا امن بھی جس کو مل جائے
اس کی خاطر ساری مٹھاسیں تیرے نام میں ہیں
تو ہی جس کی خاطر چاہے اپنے نام میں اپنی کشش رکھ دے
تیرے امر، تری منشائیں جس کے بھی حصے میں آ جائیں
نہیں تو باقی کیا ہے، مٹی میں مل جانے والی عمریں، مجھ جیسی
میں، جس کے دل کی موت میں اک یہ ڈھارس جیتی ہے
شاید یوں ہو، سب کچھ تیرے کرم کی رمزیں ہوں
میرا ایسے ایسے گمانوں میں گم رہنا بھی شاید تیرے کرم کی رمزیں ہوں
اِیسے اِیسے گمان
شاید تو
خود ہی اپنے آپ کو میرے دل سے بھلوا دیتا ہے
اور پھر خود ہی میری بھول پہ مجھ سے خفا ہو جاتا ہے
یوں دھتکارا ہوا میں جا گرتا ہوں، لوہے کی گردن والی ان کاٹھ کی روحوں میں
جن کے آسیبوں سے بچنے کی کوشش پھر مجھ کو تیرے امروں میں لے آتی ہے
اور میری سانسوں میں پھر سے وہ تسبیحیں گرداں ہو جاتی ہیں، جن میں تیرے نام کے دانے ہیں
اے وہ جس کے نام کے میٹھے ورد میں ازلوں سے وارد ہیں
سارے زمانے، سارے ابد
(17-3-1970)

*** فصلِ گل ***

تم نے میٹھے مٹروں کی ڈالی سے ڈرتے ڈرتے
تتلی جیسی ایک کلی کو توڑ کے سونگھا ... سوچا
اور پھر آنکھیں میچ کے اپنے آپ میں، خود ہی خود، کُملا گئے تم
اپنے پاگل پن میں اپنے آپ سے روٹھی ہوئی یہ خوشیاں تو سب مندے
کی باتیں ہیں
آخر ہم بھی تو ہیں
کتنا مال ہے اس دنیا کا جس کا بوجھ ہماری پلکوں پر ہے
اور یہ پلکیں ہیں جو پھر بھی تنی ہوئی ہیں
تم اک بار ہماری آنکھوں سے بھی تو دیکھو
اس پرگنے کی اک اک کیاری میں ہر پنکھڑی سونے کی ٹکلی ہے
اب کے ہم نے پہلے تو یہ پگھلی ہوئی سب اشرفیاں اپنی آڑھت میں سمیٹیں
اور پھر ان کی اصلی اوسوں کے ساتھ ان کے ٹرک بھر بھر کے بھیجے
میلے میں، جو اب کے پھولوں کی رت میں آیا ہے
سچ پوچھو تو بڑا لگا اب کے اپنا سیزن پھولوں کا
جانے تم کیوں سب چیزوں کو اپنی روح کے تہہ خانوں میں بھر لیتے ہو
ذرا اس اپنے دل کی کلی کو توڑ کے اپنی نوٹوں والی جیب میں رکھ لو
اور پھر مزے مزے سے پھرو اس پھلواڑی میں
ورنہ ان زرخیز بہاروں میں کُملا جاؤ گے
(24-3-1970)

*** بندے تو یہ کب مانے گا... ***

بندے تو یہ کب مانے گا، پھر بھی تیرے چہرے کی بھسماہٹ میں جو کچھ
میں نے دیکھا ہے، تجھ سے کہہ دوں
یہ تیراچہرہ! بس بھربھرا سا اور اس پر گزرے دنوں کے چکٹ سے
جیسے راکھ، اور اس کے مسام، اور کالا زرد لہو، اور سب کچھ
میلا میلا سا دکھ
تو جس کو پہلے سے جانتا ہے، وہ رمز اک تجھ سے کہہ دوں
میرا اندازہ ہے، عمر کی اس منزل پہ اگر تو اپنی ان بےچارگیوں پر
جبرکرے تو
یوں تیری آنکھوں میں لپک لپک کے نہ آئے
وہ شعلہ جو تیری روح میں بجھنے کو ہے
تو سمجھے گا، یہ سب شاید تیرے دل کی گلی سڑی سازش ہے
میں یہ تو جانوں، اس سازش کا سب ساز و سامان باہر سے آتا ہے
بندے، یہ تو دنیا ہے جو لوگوں سے کہتی ہے: ’’میری طرف آنکھیں
چمکا چمکا کر دیکھو‘‘
مرنے والا جاتے جاتے اس دھوکے میں آ جاتا ہے
اس دھوکے میں آنے والے کو اک یہ راحت ہے، اپنے آپ کو دھوکا
دے سکتا ہے
اپنی جانب آنے والی موت سے آنکھیں پھیر کے پل بھر اپنی بھول میں جی سکتا ہے
اور وہ ... تیری طرح ... آنکھیں چمکا چمکا کرسدا چمکنے والے چہروں کو
یوں حسرت سے تکتا ہے
بندے، اپنی آنکھوں میں اک یہ گدرائی ہوئی للچاہٹ لے کر مت پھر
اس دنیا میں
تیرے دل کے گڑھے میں تیری لحد کچھ اور بھی گہری ہو جائے گی
(1-4-1970)

*** شایرتیرے کرم... ***

شاید تیرے کرم کا اور ہی کچھ منشا ہو
یا اب جو میری حالت ہے، شاید اس میں
امر اک تیری قدرت کا ہو میرے حق میں
لیکن جس تکلیف میں میں ہوں، اس کے ہوتے ہوئے میرا دل تو باور نہیں کرتا
میرا دل تو بس اتنا کچھ مانے، بس اتنا کچھ جانے
تو چاہے تو ہر پانسے کو پلٹ سکتا ہے
عینِ کرم میں
عینِ غضب میں
میں تو اپنے خطروں، اپنی آرزوؤں میں بٹا ہوا اک وہ ذرہ ہوں
جس کے ذرا سے دل کو
ذرا سا ارماں ہے، ان امنوں کا جو تیرے چمنوں میں ہیں
(13-4-1970)

*** کون ایسا ہو گا... ***

کون ایسا ہو گا جو سب کے دلوں کی ٹھنڈک کا رسیا ہو
ایسے شخص کے من میں آئی ہوئی اک بات تو وہ جھونکا ہے
جو اک ساتھ زمانے بھر میں پھول کھلا دیتا ہے
اور یہ بات کہیں باہر سے تو نہیں آتی
یہ تو دل پر ایک گرہ ہے، جس کا کساؤ کبھی بھی کم نہیں ہوتا
جو بھی اسے محسوس کرے، یہ چوٹ سدا اس کے دل پر ہے
جب بھی کوئی اسے اپنی سانسوں میں ڈھونڈے
اس کی آنکھوں میں بھر جائیں وہ سیال شبیہیں
جن کے دکھ اور جن کے جتن ان بستیوں کے گہنے ہیں
جن کی خوشیوں کے لیے جینا ان بھیدوں میں جینا ہے جو
ازلوں سے ان ذرّوں کی جنبش ہیں
کون ایسا ہو گا جو اپنے دل کی کسک تک پہنچے
اور پھر ایک قدم خود پیچھے ہٹ کر
اپنی پہنچ کو اوروں کے لیے برتے، سب کے دلوں کی ٹھنڈک کے لیے برتے
کون ایسا ہے اس دنیا میں؟
کتنے خطرے دلوں کو دلوں سے ہیں... سوچوں تو میرا دل دُکھتا ہے!
گنگ زبانوں، بولتی آنکھوں والے چہرے قدم قدم پر مجھ سے جب یہ پوچھتے ہیں:
’’کون ایسا ہے؟ ہم کس سے پوچھیں؟‘‘
تو میرا دل دُکھتا ہے ... اور میرے سینے میں بھیدوں کا سب دھن
خاکستر ہو جاتا ہے
(21-4-1970)

*** آج تو جاتے جاتے... ***

آج تو جاتے جاتے اس نے مجھے اک ہامی بھرنے والے پیار سے دیکھا
بڑے اقرار سے دیکھا
اس اک آن میں میرے سان گمان میں بھی یہ با ت نہ تھی: یہ سب کچھ تھا
امکان میں
لیکن اس نے تو میری سانسوں کا ادھوراپن پہچان کے، سب کچھ جان کے بھی
یوں مجھے دیے للچاوے اپنی اک مسکان کے جس میں
ہارے ہوئے خود اس کے من کا سنبھالا بھی تھا
اور مجھ جیسے ترسے ہوئے پہ ترس کھانے کی کسک بھی
جاتے جاتے اس کے دل میں جانے کیا بات آئی ہو گی
... اور اک میں تھا
... اور اس دن اک میں تھا جس کے لیے ان کبھی نہ ملنے والی
سب اچھی اچھی خوشیوں میں کبھی نہ ملنے والے سب اچھے اچھے دکھ تھے
(27-4-1970)

*** پہلی سے پہلے ***

دن تو ایک سے ہوتے ہیں سب
لہو رگوں میں جب بہتا ہو
لیکن جانے اَب کے میرے ذہن میں یہ چنگاری سی کیسی چٹکی ہے
اب کے مہینے کے آخر میں یہ جو دن آئے ہیں
کچھ یوں لگے ہیں جیسے
انھی دنوں میں میرے وجود کے ذرّے کے لیے سب سورج چمکے ہوں
سب سورج
سب گردشیں
سب تاریخیں
سارے زوال، جو تہذیبوں کے سایوں میں، انسانوں کو روٹی کے ٹکڑے کے لیے
ترساتے آئے ہیں
سارے خیال جو آنے والوں اچھے دنوں کا دھن ہیں
اور جو موت کی وادی سے ہو کر ذہنوں میں آتے ہیں
(30-5-1970)

*** مورتی ***

کہاں ہے اب وہ جو برسوں پہلے اس ممٹی پر دنیا کے نرغے میں اک مورت تھی
اک مورت، خوابوں کے بچپن جس کی پرستش کرتے تھے
کہاں ہے اب وہ بےکل پلکوں والی پگلی سی اک سچائی
جو اس جھوٹی دنیا کو جھٹلانے آئی تھی
اس مٹی کے نیچے اب بھی اٹل حصاروں سے حجت کرنے والے اس جھونکے کے
پیوند ہماری ان سانسوں میں ہیں
لیکن جانے کہاں ہے اب وہ پگلی سی اک سچائی
یونہی کھنکتے کھنکتے قہقہوں والی ناداں عمریں کالی نیندوں میں کھو جاتی ہیں
کیسی ہیں یہ نیندیں، جن کے سمندر دلوں کے جزیروں کو ریزہ ریزہ کر دیتے ہیں
کیسے ہیں یہ ان نیندوں میں تیرنے والے، پلٹ پلٹ کر آنے والے خواب
... خواب
جن کا بچپن کبھی نہیں ڈھلتا!
(9-6-1970)

*** اے وہ جس کے لبوں... ***

اے وہ جس کے لبوں کی دعائیں میری زباں تک بھی پہنچی ہیں
اک پستک کے حوالے سے جو
دین تھی ایسے ہاتھوں کی، میں جن کو تھام کے اک دن خواب میں
علم کے سینہ یاب سمندر سے گزرا تھا
آج اس زہریلے پانی کے بھنور میں اپنے پاس یہی
اکھڑے اکھڑے بوسیدہ سے ورق ہیں
اور یہ مٹے مٹے سے لفظ کہ جن پر تیرے ہونٹوں کی مہریں ہیں
تیرے ہونٹوں کے دہرائے ہوئے یہ لفظ مرے ہونٹوں پر جب آتے ہیں
تو اس بھنور میں میرا دل بس سوچتا ہے اک تیری بابت
تیری بابت، تیرے زمانے، تیرے دنوں کی بابت
تو اور بٹے ہوئے رسوں جیسے وہ بازو
ٹکڑے ٹکڑے، اکڑے اکڑے سے وہ تیرے ہات کڑکتی پتواروں پر
— اور وہ تیرے تھکے تھکے سے چہرے پر ان تھک تسکینیں
جیسے دریا سب تیرے ہیں
جیسے لہروں سے لڑنے والے بازو سب تیرے ہیں
(17-6-1970)

*** گدلے پانی... ***

جو بھی بہتے دریا سے اپنا چلّو بھر لے، یہ دریا اس کا ہے
اپنی سب پاکیزگیوں کے ساتھ اس کا ہے
چاہے اس پانی میں جیسے بھی جوہر ہوں
اچھے برے جوہر، جو دریا کی سیال حقیقت میں اک ساتھ پنپ کر
بجھ کر، تپ کر، یوں ظاہرہیں، سب طاہر ہیں
جس کی پیاس کو اس پانی پر حق ہو
اسے بھلا کیوں شک ہو کہ ان قطروں میں مقیّد ہیں، وہ جوہر جو جیّد ہیں
دل میں پانی کی ٹھنڈک یہ کہتی ہے کہ طلب کا جو حاصل بھی ہے طیب ہے
ٹھنڈک پانے والا اسی یقین کے بل پر
اپنے گمان میں خوشیوں کی اس موج سے اپنی روح کے جوہڑ بھر لیتا ہے
جس کی چھلک اس کی آنکھوں کے ڈوروں تک آتی ہے
کتنے چہروں پر ہے اپنے آپ میں کافی ہونے کی اک یہ کیفیت
ان قدروں کی اچھی سی اک دین کہ جن کے مقدس دریا
سب گدلے ہیں!
(29-6-1970)

*** ہر سال ان صبحوں... ***

ہر سال ان صبحوں کے سفر میں ... اک دن ایسا بھی آتا ہے
جب پل بھر کو ذرا سرک جاتے ہیں میری کھڑکی کے آگے سے گھومتے گھومتے
سات کروڑ کُرے، اور سورج کے پیلے پھولوں والی پھلواڑی سے اک پتی اڑ کر
میرے میز پر آ گرتی ہے!
ان جنباں جہتوں میں ساکن!
تب اتنے میں سات کروڑ کُرے، پھر پاتالوں سے ابھر کر، اور کھڑکی کے سامنے آ کر
دھوپ کی اس چوکور سی ٹکڑی کو گہنا دیتے ہیں
آنے والے برس تک
اس کمرے تک واپس آنے میں مجھ کو اک دن، اس کو ایک برس لگتا ہے

آج بھی اک ایسا ہی دن ہے
ابھی ابھی اک آڑی ترچھی روشن سیڑھی، صدہا زاویوں کی، پل بھر کو جھک آئی تھی
اس کھڑکی تک
ایک لرزتی ہوئی موجودگی اس سیڑھی سے، ابھی ابھی، اس کمرے میں اتری تھی
برس برس ہونے کے پرتو کی یہ ایک پرت اس میز پہ دم بھر یوں ڈھلتی ہے
جانے باہر اس ہونی کے ہست میں کیا کیا کچھ ہے
آج یہ اپنے پاؤں تو پاتالوں میں گڑے ہوئے ہیں
(25-7-1970)

*** دامنِ دل ***

سدا رہے یہ دھلا دھلا اور ستھرا ستھرا
زندہ
اپنے وجود کی اصلیت سے منور
اس پر میل نہ رہنے پائے
اس کو گتھ دے
اس کو سل پہ پٹخ دے
اس کو توڑ مروڑ نچوڑ دے، کس دے
اس کو جھٹک دے
اس کی گیلی شکنیں چن لے
اس کو سچے سُکھ میں سُکھا!
(26-7-1970)

*** جلسہ ***

آج سحردم میں نے بھی رک کر وہ جلسہ دیکھا
پکی سڑک کے ساتھ، ذخیرے میں، ٹوٹی سوکھی شاخوں کے
چھدرے چھدرے سائبانوں کے نیچے
شیشم کے گنجان درختوں کے آپس میں جڑے تنے، سب
اس جلسے میں کھڑے تھے!
ایک گزرتے جھونکے کی جھنکار ذخیرے میں لرزاں تھی
’’آس پاس کی کالی رسموں کے سب کھیت ہرے ہیں
اور یہ پانی تمہاری باری کا تھا
اب کے بادل دریاؤں پر جا کر برسے
ان سے تمہارا بھی توعہدنامہ تھا
اب کیا ہو گا؟...
چلتے آروں کےآگے چرتے گرتے جسمو
پاتالوں میں گڑ جاؤ ورنہ‘‘
اس تیکھی حجت میں اتنی سچائی تھی
جثّے ان پیڑوں کے سب اک ساتھ ہلے غصّے میں ...
اور میری آنکھوں میں پھر گئے دکھ اک ایسے خیال کے، جس کی ثقافت
جانے کب سے اپنا مسکن ڈھونڈ رہی ہے!
(27-7-1970)

*** دل کا چھالا ***

پہلے آنکھ میں کڑوی سی اک لہر
اور پھر اک جرم
اور پھر یہ سب دکھ
سب دکھ، اس اک پاپ کی جنتا
سارے عذاب ضمیروں کو کجلانے والے
گہری کلنک بھری دکھتی ریکھائیں جن کے الجھاووں میں عمریں بٹ جاتی ہیں
اک ہونی کے کتنے جنموں میں اس پاپ کا لمبا پھیرا پڑتا ہے
دُنیا کو دکھ سے بھر دیتا ہے
اچھا تھا جب دل کا چھالا پھوٹا تھا، ہم اپنے قدموں میں رک جاتے
(18-8-1970)

*** عذاب ***

اپنے ثواب میں نیکی اپنے عذاب سے غافل رہ جائے تو
چھن جاتی ہیں جینے کی سب خوشیاں
ٹوٹ کے رہ جاتا ہے بھروسا اپنا اس نیکی پر
گھل جاتی ہے اپنے آپ سے نفرت میں اپنی ہر اچھائی
اپنے قلب کو اب کوئی چاہے جس قالب میں بھی ڈھالے
اب سب پچھتاوے ٹیسیں ہیں
اب دنیا کی آخری حد تک پھیلے ہوئے ان بادلوں کے نیچے یوں
پلکیں جھکا کر اپنے غموں کی پرستش بے مصروف ہے
باہر اب صرف آنکھیں دیکھتی ہیں... اور
باقی سارے بدن تیزابوں کے تالابوں میں تحلیل ہیں
آنکھیں دیکھتی ہیں... اور اس سے زیادہ کیا دیکھیں گی
سارے خداؤں نے منہ پھیر لیے ہیں
(30-8-1970)

*** موٹر ڈیلرز ***

ان کی کنپٹیوں کے نیچے
کالی لمبی قلمیں
ان کے رخساروں کے بھرے بھرے بھرپور غدودوں تک تھیں
تھوڑے تھوڑے وقفوں سے وہ زرد گلاسوں کو ہونٹوں سے الگ کرتے...
اور پھر دھیمی دھیمی باتیں کرتے
اپنی نئی نئی داشتاؤں کی
جن کے نام اور جن کے نرخ اس دن ہی اخباروں میں چھپے تھے
(7-9-1971)

*** اپنے بس میں... ***

اپنے بس میں تو بس اتنا کچھ تھا... اور وہ بھی، سب تیری خاطر
اس دل نے اپنائی، عمر بسر کرنے کی اک یہ نہج بھی، تیری خاطر
اپنی انا کی بھینٹ
تری خاطر تھی
نطق پہ مہریں تھیں سب تیری خاطر
تیرہ ضمیروں سے گزرا ہوں، گلیوں کی دیوار سے لگ کر، تیری خاطر
نخوت کے بازار میں میرے جسم پہ ٹھنڈی ہوا کی ردا بھی، تیری خاطر
شام کو جب ان دو شہروں کو ملانے والی لمبی، سیدھی، دہری سڑک پر
اتنے دیوں کی دوگانہ صفیں اک ساتھ جلی ہیں
اُن کی نیلی نیلی پیلی پیلی لووں کو اپنے جی میں اتار کے
آنکھیں میچ کے تجھ کو یاد کیا ہے، تیری خاطر
اے وہ، میرا سر جس کے نادیدہ پنجے میں ہے
جس کی انگلیاں میری کنپٹیوں میں گڑی ہوئی ہیں، جانے میری ہی کس
کیفیت میں، مجھے پٹخ دینے کو
اب میں کیسے پلٹ کر تیری جانب دیکھوں، اَب میں کیسے تجھے بتاؤں
اب بھی گرم ہے راکھ… مرے قدموں کے نیچے... میرے
دل کے بجھے ہوئے سورج کی!
12-9-1970)

*** نئے لوگو! ***

کچھ ایسی ہی آگیں میرے آگے بھی تھیں
میرے گرد بھی آپس میں جکڑی ہوئی جلتی لپٹوں کے کچھ ایسے ہی جنگلے تھے
جن سے باہر دور ادھر وہ پھول نظر آتے تھے جن پر میرے چہرے کی زردی تھی
میں بھی کہتا تھا ... اور میں اب بھی کہتا ہوں...
اک دن شعلوں کی یہ باڑ بجھے گی
اک دن اس پھلواڑی تک ہم بھی پہنچیں گے جس کی بہاریں ہماری روحوں
کے اندر ڈھلتی ہیں
اور میں تو اب بھی آپس میں الجھی ہوئی لپٹوں کے اس جنگلے میں ہوں
جس میں تم ہو
فرق اتنا ہے، تم نے ابھی یہ آگیں ہی دیکھی ہیں
تم نے ابھی جلتی جالیوں سے باہر نہیں جھانکا
ابھی تو ان شعلوں کی نوکیں تمہارے سینے میں پیوست ہوئی ہیں
اور تمہارے ذہن میں تازہ لہو نے غصہ بھری اک چٹکی لی ہے
لیکن میں کہتا ہوں، اک یہ ترنگ ہی توسب کچھ ہے
جو باقی رہتی ہے... اور جو تمہارے پاس ہے!
ورنہ تو میں اور تم اور سب آدمی باری باری انھی چتاؤں میں جل جل جائیں گے
جن کی لپٹیں ہمارے گرد اک جنگلا ہیں ...
(21-9-1970)

*** دروازے کے پھول ***

صبح کی دھوپ ان پھولوں کا دفتر تھی، جس میں
روز ان کی اک مسکراہٹ کی حاضری لگتی
شام کے سائے ان کی نیندوں کا آنگن تھے
صبح کو ہم اپنے اپنے کاموں پر جاتے تو اس سبز سڑک کے موڑ پہ
تازہ دم پھولوں کے رنگ برنگے تختے ہم سے کہتے:
’’کرنوں کا یہ دھن سب کا ہے، سب کا، اس میں
جیو، جیو، سب مل کر! سنگت سے ہے رنگت‘‘
پھر جب دن کی روشنیاں تھکتیں
تو اس موڑ پہ نیندیں اوڑھ کے سہمے ہوئے وہ پھول یہ ہم سے کہتے:
’’سب کا بیری ہے یہ اندھیرا
جلد اپنے اپنے اینٹوں سے چنے ہوئے سپنوں میں پہنچو
اچھا، کل کو ملیں گے، کل کو کھیلیں گے!‘‘
لیکن اب وہ تختے اجڑ گئے اور اب اس کوٹھی کے دروازے پر چکنی بجری ہے
اور تھرکتے چمکیلے پہیے ہیں
صاحب، تم نے تو اتنا بھی نہ دیکھا
یہ سب پھول تو خوشیاں تھیں، محنت کش خوشیاں
اور یہ لاکھوں کا حصہ تھیں
تم نے تو اتنا بھی نہ سوچا
اے رے ہم لوگوں کی راحتِ حق کی خاطر لڑنے والے وکیلِ جلیل!
(30-9-1970)

*** گداگر ***

چلتے چلتے رک کر، جھک کر، ادھر ادھر بے بس بے بس نظروں سے
دیکھنے والے
کبڑی پیٹھ اور پتھرائی ہوئی آنکھوں والے
بوڑھے بھک منگے، اس اپنی حیرانی کے فریضے میں تو واقعی تو کتنا
حیران نظر آتا ہے
جانے کس کے ارادے کی رمزیں اس تیری بے بسی کی قوت ہیں
پتھریلی روحوں کے صنم کدے میں جانے کون یہ کاسہ بدست کھڑا ہے
تجھ کو دیکھ کے میرا جی اس سے ڈرتا ہے
تیرے ڈرے ہوئے پیکر میں جس کی بےخوفی جیتی ہے
کسی دھیرج سے دھڑکتا ہو گا اس کا قلب کہ تو جس کا قالب ہے
اتنے سکون میں اس کے جتنے قصد ہیں، میں ان سے
ڈرتا ہوں
تیرے وجود کو یہ بےکل پن دے کر کس بےدردی سے وہ
دِلوں میں سچی ہمدردی کے درد جگاتا ہے ... اور
ہم کو ترساں دیکھ کے شاید خوش ہوتا ہے!
ابھی ابھی تو، یہیں کہیں تو میری غفلت میں تھا
اب کہتا ہوں، مجھ کو میری آگاہی میں کب یہ بھیک ملے گی
(4-10-1970)

*** اچھے آدمی... ***

اتنی اچھی صفتیں بھی تو نے اپنا لیں، اچھے آدمی
اور ان صفتوں کی سب تقدیسیں بھی سچی
اور ایمان کی اک وہ زرہ بھی اچھی
جس کو پہن کر تیرا دل اتنا مضبوط اور اتنا طاقتور ہے
اس دنیا اور اس دنیا کی سیاہ ہوائیں سب اس سے ٹکرا کے پلٹ
جاتی ہیں
اس ٹکراؤ میں تیرا سینہ خم نہیں کھاتا
اور اس فتح پر شرمائی ہوئی اک عظمت تیری آنکھوں میں بھر جاتی ہے
اور سانسوں کی کھچی لگاموں کے اندر اک رکا رکا موّاج سمندر
تیرے دل میں امڈ آتا ہے
اس سے زیادہ اور تجھے کیا چاہیے، بندے
چاہے تو ہر اس سچائی کو اپنی نظروں سے گرا دے
جو تیرے پندارمیں کم رفعت ہے
اس سے زیادہ تو اَب حجم نہیں بڑھ سکتا، اس شفاف چٹان کا، جو
اس تیرے سینے میں ہے
اپنی جگہ تو ایک الوہی سی یہ شکم سیری اچھی ہے... لیکن، اچھے آدمی
آخر کوئی خلا تو روح کی خالی بھی رکھ، ہم جیسوں کی افتادوں کے حق میں
(9-10-1970)

*** حرص ***

اوروں کی کیا کہیے، خود میرا دل بھی انگاروں کا مطبخ ہے
سدا مری آنکھوں میں اک وہ کشش دہکتی ہے جو
سب کو اپنی جانب کھینچ کے میرے وار کی زد میں لے آتی ہے
سب کچھ میری طلب کی تشنگیوں کے دہانے پر ہے
انگاروں کے اس مطبخ میں گرنے کو ہے
گاڑھا، لجز لہو، اک وہ کیلوس جو انگاروں کا استحالہ ہے
اس میرے دل کی کالی قوت ہے، میں جس کے بس میں ہوں
یہ قوت مجھ سے کہتی ہے
دیکھ، مرے انگارے میری تڑپ کا انگ ہیں، اب کچھ تو ان کی خاطر بھی
اور انگارے اگلتی سانسوں کے ساتھ اب میں
اس دنیا کے اندر اپنے شکار کی تلاش میں
اک اک روح کی گھات میں
اک اک روح کے سامنے سوالی بن کے کھڑا ہوں
میرے دل میں انگاروں کے دندانے پیہم جڑتے اور کھلتے ہیں
باہر کسی کرم کی بناوٹ میں ہونٹ ایک انوکھا ٹھہرا ٹھہرا ٹیڑھا زاویہ سا ہیں
کون مجھے اب پہچانے گا
کس طرح ہنس ہنس کر مجھ سے
ملتی ہے دنیا، بدبخت!
(10-10-1970)

*** دکھ کی جھپٹ میں ... ***

دُکھ کی جھپٹ میں آئے ہوئے دل
اب کہتے ہو
اس دن دکھ کی جھپٹ میں آئے کچھ لوگوں کی فریادوں کو
قرب اس موجودگی کا حاصل تھا
جس کے ہونے کو اس دن تم نے ہی دیکھا اور نہ ان لوگوں نے
اے دل، اب ان لوگوں کی منزل میں آ کر تم سمجھے ہو
ورنہ تم کہتے تھے، ان کی کون سنے گا
اور خود ان کو بھی یہ خبرنہیں تھی، اس دن کس کے قرب میں تھے وہ
اب کہتے ہو ... اب، جب
تم یہ دیکھتے ہو کہ تمہاری ان فریادوں سے باہر ہے وہ موجودگی
اب تو ان کی تلاش کرو جو اک دن اس کے قرب میں تھے اور
جن کو اس کے قرب کا علم تھا
(23-10-1970)

*** کب کے مٹی... ***

کب کے مٹی کی نیندوں میں سو بھی چکے وہ
میری نیندوں میں اب جاگنے والے
ابھی ابھی تو میری دنیا سوئی ہوئی تھی
ان کی جاگتی آنکھوں کے پہرے میں
ابھی ابھی وہ یہیں کہیں تھے، میرے خوابوں کی عمروں میں
ابھی ابھی اُن کے مٹیالے ابد کی ایک ذرا سی ڈالی گھلی تھی
ان میری آنکھوں میں
اور دکھائی دیے تھے، میری خودبیں بینائی میں
وہ سب ٹھنڈے ٹھنڈے سکھ جو
ان کے دلوں کا انس اور پیار تھے، میرے حق میں
ابھی ابھی تو اس میری بےفہمی کی فہمید میں تھا یہ سب کچھ
اور اب میرے جاگنے میں سب کھو گئے وہ میری نیندوں میں جاگنے والے
(28-10-1970)

*** جاگا ہوں تو... ***

جاگا ہوں تو جاگتی آنکھیں کہنے لگی ہیں: ’’یہ سب سپنے اپنے ہیں‘‘
جیسے میں ہی تو ہوں اپنے ہر سپنے میں
میں ہی تو ہوں اپنی جاگرتی میں
نیندوں کے اندر بھی، نیندوں کے باہر بھی، جو جو سمے گزرتے ہیں وہ میرے
ذہن میں سب ڈھلتے ہیں
دنیا کا ہر اک دن میرے ذہن میں ڈھل کر اک اور دن ہے
جیسا آج کا دن تھا
رات کو نیندوں میں کچھ اچھے اچھے لوگ ملے تھے، انھی چھتوں کے نیچے
جن کی دیواریں اب کب کی گر بھی چکی ہیں
دن کو میرے جاگنے میں کچھ اور ہی میلی میلی روحیں میرے ساتھ رہی ہیں
روحیں جن کی اونچی چھتوں کے نیچے میرے وجود کی دیواریں ہیں
کیسے کیسے نگر ہیں جو تیرے روز و شب کے پھیرے میں پڑتے ہیں
کیسی کیسی اقلیمیں ہیں میرے دل کے کوٹھے کے اندر، جو ڈھے بھی چکا ہے
آج تو جب سے جاگا ہوں، اپنی بابت اتنا کچھ سمجھ سکا ہوں
کالی گلیوں کی دھوپ اپنے چہرے پر مل کر یہ دنیا والوں سے ملنے والا
مر بھی چکا اب، اپنی نیندوں میں جینے کی خاطر
(13-12-1970)

*** جانے اصلی صورت... ***

جانے اصلی صورت کیا ہو، ذہن کی اس اک روکی
جس کے ساتھ بہا کی میری سوچ اور میری عمر اور میری دنیا
بہتے بہتے یوں تو جب بھی دیکھا، میرا دل اک وہ قوت تھی
جس کے آگے پہاڑ بھی تنکا تھے، یہ سب کچھ تو تھا
لیکن سدا یہی میں سمجھا
اک یہ دراڑ جو میرے پیہِ دماغ میں ہے، کون اس کو پھلانگ سکے گا
اک یہ دراڑ کہ جس کے ادھر ٹھٹک کر رہ جاتے ہیں سارے خیال اور سارے ارادے
جس کے ادھر میری ذلت ہے
جس کے ادھر میں اک بےبس قوت ہوں
اک یہ دراڑ کہ جس کے ورے وہ مقدس آگ ہے جس کی لو میں کلیوں کی برکھا ہے
اک یہ دراڑ جو میرے پیہِ دماغ میں ہے، کب اس کو پاٹ سکوں گا
اپنی حدوں کی حد سے آگے کب یہ قدم اٹھے گا
آگے، جہاں وہ سرشاری ہے جس کی کشید بھی اس میرے ہی ذہن میں ہوتی ہے
(15-12-1970)

*** ان سب لاکھوں کُروں... ***

ان سب لاکھوں کُروں، زمینوں کے اوپر لمبی سی قوس میں، یہ بلوریں جھرنا
جس کا ایک کنارا، دور، ان چھتناروں کے پیچھے، روشنیوں کی
ہمیشگیوں میں ڈوب رہا ہے
جس کا دھارا میرے سر پر چھت ہے
اور میں اس پھیلاؤ کے نیچے
کبھی نہ گرنے والی، گرتی گرتی چھت کے نیچے
ریزہ ریزہ کرنوں کے انبار کے نیچے
اپنے آپ میں سوچوں
ایسی شامیں تو جگ جگ ہیں
آگے تو جانے کیا کچھ ہے
لیکن ان سب ہوتے امروں کے ریلے میں
کہیں کسی امکان... ذرا سے اک امکان... کی اوٹ ایسی بھی تو ہو
جس میں سمٹ سکے یہ میلی میلی سی چھت
اور یہ اترے پلستر والی بوسیدہ دیواریں
جن کی کھڑکیاں میرے دل کی طرف کھلتی ہیں
(31-12-1970)

*** کندن ***

اپنے اندر جو کندن ہے اس کا لشکارا تو سدا ہماری آنکھوں میں جیتا ہے
سدا ہمارے ذہن میں اک چمکیلی راحت کے لالچ کو اکساتا ہے
لوگ، جب اپنے مطلبوں کی خاطر یوں عجز کی باتیں کر کے ہم کو عاجز کر دیتے ہیں
تو ایسے میں ہمارے اندر جو کندن ہے، ہماری آنکھوں میں آ کر
ایک لجاجت بھری ہنسی ہنستا ہے
اسی ہنسی کے پیچھے تحفظ کا اک ان دیکھا پنجہ بھی جھپٹتا ہے اور
نظر نہ آنے والا ایک تصرف کا جبڑا بھی غراتا ہے
یہ سنگین و ملائم رمز مروّت کی، سارے مفہوم ادا کر دیتی ہے ... اور
اسی کے پردے میں، گہرے بھیدوں کے اندر، زندگیوں کی حفاظت کرنے والی
خودغرضی جیتی ہے
اس سچّے لشکارے والے کھوٹے کندن کی ضو
سدا ہماری آنکھوں میں جیتی ہے
اور اس پر ہم کتنے خوش ہیں
(6-1-1971)

*** جب اطوار وطیرہ بن جاتے ہیں... ***

جب اطوار وطیرہ بن جاتے ہیں
اور لوگوں کے عمل میں جب اک رسم کا رس گدلا جاتا ہے
تب روحوں کو چیرنے والے تقاضے
ہوتے ہوتے، اپنے اعادے کےاندر ہی خود اپنی تکذیب میں مٹ جاتے ہیں
اور اچھے عملوں کی تعمیلوں میں اچھے عمل دھندلا جاتے ہیں
اور وہ سارے ظلم جنم لیتے ہیں، جو ہم روز روا رکھتے ہیں
کون بتائے، کتنے ظلم ہیں
جو ان معمولی معمولی باتوں کے معمول میں یوں ہم سے سرزد ہوتے ہیں
جیسے پتلیاں آنکھوں میں بےبس ہو ہو کر اپنے آپ پہ جم جائیں، جب
تھکے تھکے دل کے پیچھے اپنی کچھ اوچھی سوچیں، چلتے چلتے
آستینیں الٹا دیں
جیسے دل کو سیدھی راہ پہ لانے کا عندیہ
بےدھیانی میں، داڑھ تلے پس جائے
جیسے جی کو دُکھانے والی چیزیں سامنے آ آ کر
بےحس نظروں کا روزینہ بن جائیں
(6-1-1971)

*** طغیان ***

میرے اپنے ظلم اور میرے اپنے کفر کے آگے، مجھ میں یہ جو عاجزیاں ہیں
ان سے ملوث ہے میری ہستی
میں نے چاہا تھا ان عاجزیوں کی جگہ پر اک سنگین طمانیّت کو اپنے سینے میں رکھ
لوں جس میں نئی نئی کڑواہٹ کی خوشیاں ہوں
میں نے کچھ یہ مہم سر کر بھی لی تھی
لیکن چلتے چلتے ذرا سا ایک خیال آیا ہے
پھر کالی سی اک برگشتگی میرے ذہن میں چکرائی ہے
اور میری پلکوں کی ڈوریاں ڈھلک گئی ہیں
میرے مردہ دنوں کی کھوپڑیوں سے ظلم اور کفر کی میٹھی نظروں نے پھر سے
میری جانب جھانکا ہے
بیتے دنوں والا یہ چہرہ...
اس چہرے کو، اس چہرے کی آنکھوں کو، میں بھلا بھی چکا تھا
ان آنکھوں کو اپنے جذب اور اپنی کشش کا علم ہے، اور ان کے اس علم کے آگے
اب پھر میری خودآگاہی ماند ہے
اس طغیان کے آگے اب پھرعاجز ہوں
اب پھر، بصد خوشی اس اپنی عاجزی کے آگے بےبس ہوں
مجھ سے پوچھو... اپنی غرقابی کے اس احساس کی سطحیں بھی کتنی دلکش ہیں
(20-1-1971)

*** دنیا تیرے اندر... ***

دُنیا تیرے اندر سچائی کی وہ سب طاقت ہے جو کروڑوں جینے والے
جاننے والے ذرّوں سے مل کر بنتی ہے
جانے تیرے اندر کیسی کیسی رمزوں کی طاقت ہے
اتنی طاقت ہے تیرے پاس اور تو کتنی بےہمت ہے!
میں جو آزادی کی اِک انگڑائی بھر کر اتنے کالے چنگلوں سے نکلا ہوں
مجھ پر تیری آنکھوں کے انگارے کیوں ہنستے ہیں؟
میں جو اپنے ساتھ اتنے لمبے عرصے سے جنگ میں ہوں اور میں جو
اپنے آپ سے صلح پہ اب بھی کچھ آمادہ نہیں ہوں
تیرے لبوں پر میرے لیے اتنی زہریلی شفقت والے بول یہ کیوں ہیں؟
تیری اپنے ساتھ جو جنگ تھی تو نے ہار بھی دی اور مجھ کو اس حالت میں
دیکھ کے
اب جو طمانیت تیرے اندر سے چھلک کر تیری آنکھوں اور چہرے پر
بکھر گئی ہے
مجھ کو دیکھ کے، مجھ پر اپنی فوقیت کا یہ احساس کہ جو تیرے دل
میں امڈا ہے
کیا سب اسی لیے تھیں وہ رمزیں جن کی طاقت تیرے بس میں ہے؟

یہ میری نادانی ہے نا، اپنے آپ سے اب بھی جنگ میں ہوں اور اب
بھی اپنی گراوٹ سے لڑتا ہوں
دنیا تیری جامد عظمت مجھ کو دیکھ کے آج اس قہقہے میں کیوں پھڑپھڑاتی ہے؟
اس سے زیادہ بھلائی تیرے ساتھ میں کیا کر سکتا ہوں؟
(28-7-1971)

*** پچھلے برس ... ***

پچھلے برس جب یہ دن آئے تھے ... دن جو اس سال اَب بھی آئے ہیں ...
جب یہ بادل، جب یہ کہرا، جب یہ سرد ہوائیں ... جب یہ سب کچھ تھا
جو اب کے برس ہے
تب تو میرے ساتھ اک اپنے آپ کے گم ہو جانے کی آگاہی بھی تھی
تب تو اس پگڈنڈی پر بادل بھی دھول تھے، جس میں میرے پاؤں کھبے ہوئے تھے
تب تو میں اور یہ بستی اور یہ پگڈنڈی ... بادل ہی بادل تھے
آج اس پگڈنڈی پر چلتے ہوئے وہ اک دن یاد آتا ہے
اس دن بادل میرا پہناوا تھے
میں جب میلی سی اک صبح کی تنہائی میں ادھر سے پچھلے برس گزرا تھا
آج بھی بادل ... گیلی گیلی تہوں میں ڈھیر دھوئیں کے ... ادھر ادھر ہر سو ہیں
ڈھیر دھوئیں کے، قوسوں سے قوسوں تک، پیڑوں پر، کھیتوں میں، کچی دیواروں پر
صرف اک میرا دل ان سے خالی ہے
کیسے کیسے ابد... جو بیت گئے ہیں
(30-1-1971)

*** تو وہ پیاسی توجہ... ***

تو وہ پیاسی توجہ سدا رہی تھی کبھی جو میری طرف ہی
کیا دن تھے، تیرے ہونے میں سپنے تھے میری خوشیوں کے
اور اب میرے دل کے متّصل ہیں وہ فاصلے، جن کا کنارا دور اُدھر تیرے دل کی حد تک ہے
اور یہ فاصلہ بھی تو ہے اس زندگی میں اک موت کا رابطہ
اب اس موت میں جینے سے کیا حاصل
اس لمحے تو ساری دنیا میرے دل کے
اک لاحاصل سے احساس کا حصہ ہے اور
یہ سب کچھ تو شاید...
خود اپنی ہی طرف میری وہ توجہ ہے جو اب کے ہوئی ہے
اب جب سارے فاصلے زندگیوں کا فیصلہ بھی کر چکے ہیں
(10-2-1971)

*** اور وہ بھی اک کیسی... ***

اور وہ بھی اک کیسی محویت تھی جس میں سدا صدہا آنکھوں نے اٹھائے
اپنے نازک پردوں پر بوجھ اس موسیقی کے جو روحوں میں لہرا جاتی ہے
اور پھر اک وہ محویت بھی دین تھی کیسی کیسی آسودہ شاموں کی
ان گلیوں میں کیسے کیسے لوگ تھے، جو یوں اپنے دلوں کے گمانوں میں جیتے تھے
اک لمحے میں ابد کو دیکھنے کا احساس، عجب اک مستی تھی وہ
جس کے گمانوں میں جیتے تھے
ان کو اس کی خبر نہیں تھی، یہ گہری محویت
موجِ ابد کی رو سے کٹ کر گرا ہوا وہ ساکت لمحہ ہے جس کے ٹھہراؤ میں
رک جاتے ہیں
وہ سب ذکر کہ جن کو جاری ہی رہنا ہے
باہر دیکھو، اس دوار حقیقت کی جوکھم میں جو بھی پڑا اس کی آنکھوں میں تو بھر بھر گیا بوجھ
اس ذکر کا جو مٹی میں مل کے بھی مٹی نہیں ہوتا
سنبھلو... سوچو... تم کس محویت میں محو ہو لوگو
اپنے ذہن سے خود کو جھٹک کر، اپنے باہر دیکھو
(11-2-1971)

*** میرے سفر میں... ***

میرے سفر میں اک اک دن کا سورج اک اک دیس تھا
ان دیسوں کے اک اک باسی کے دل سے گزرا ہوں
میں نے دیکھا ان کے دلوں کے آنگن سونے کے تھے
ان کی مگن آنکھوں میں ڈورے سونے کے تھے
اک اک صبح کو ان کی سواری کے لیے آتی تھی سورج کی رتھ، سونے کی

لیکن آج یہ جس پر میری نظر رکی ہے، کون ہے یہ مٹی کا پتلا ان سڑکوں پر
جس کو دیکھ کے میرے جی میں بھر گئے ہیں وہ آنسو
آنسو جن کے سبب سے سونے کے وہ سب زنگار جو میرے عقیدوں پر
تھے، اترگئے ہیں
اور اَب یہاں کھڑا ہے، میرے سامنے، ننگے پاؤں وہ مٹی کا پتلا کیچڑ میں
کرنوں کے کیچڑ میں
اک وہ جس سے اس کے دیس کے سارے سورج ہم نے چھین لیے ہیں
اور میری نظروں کے سامنے اپنے کرموں کے کیچڑ میں لتھڑی ہوئی نظر آتی ہیں
ساری ملتیں جو اب تک ان دنوں کے دیسوں میں آئی ہیں
میرے سینے کے اندر اک چھوٹا سا کوٹھا گر پڑتا ہے اور
اک چھوٹے سے خیال کی دنیا ان میری آنکھوں میں امڈ آتی ہے
اور میرا دل مجھ سے پوچھتا ہے
جانے ہم اپنی روحوں میں کب اس سورج کو
ابھرا ہوا دیکھیں گے
وہ سورج جو اب تک کبھی نہیں ڈوبا
(3-3-1971)

*** ننھے کی نوبیں آنکھوں... ***

ننھے کی نوبیں آنکھوں میں تارا
اپنے اندر ساری دنیا کے عکس اب بھی اسی طرح لے کر آتا ہے
جیسے کروڑوں برس پہلے کے بچے
بچے انسانوں کے، بچے جانوروں کے، سب لے کر آتے تھے
اپنی آنکھ کے تل میں
اب بھی کوئی چڑیا چشمہ نہیں لگاتی
اب بھی نوبیں آنکھوں والی کھلنڈری ننھی ننھی نئی نویلی نسلیں
دیکھتے دیکھتے دور ان بھرے چوراہوں پر سے
صدہا پہیوں کے جنباں رخنوں کے اندر، اپنے چلتے پیڈلوں، ڈولتے
ہینڈلوں کے ساتھ
کس تیزی سے گزر جاتی ہیں
میرا دل میری عینک کے منفی ہندسوں والے شیشوں کے پیچھے حیران ہے
میں جو بمشکل بہتے ہجوموں کے ساحل پر اپنے اوسانوں کو سنبھالے ہوئے ہوں
کون اس جانب دیکھے گا
جس جانب میں ہوں
جس جانب سب نے جانا ہے
(16-3-1971)

*** کہنے کو تو... ***

کہنے کو تو ہم سب جانے کیا کچھ ہیں ....
جتنے ذریعے خیر کے ہیں، ہم ان کی جانب کہنے کو تو بڑھتے ہیں
کس کا کلیجہ ہے دنیا کی دیکھتی آنکھوں کے آگے
اپنے دل کی بدی کی سمت بڑھے
لیکن تم نے دیکھا، جب بھی چکناچور ضمیروں والے سماجوں میں
کوئی خیر کی منزل سامنے آتی ہے
تم نے دیکھا، کیسی کیسی اپاہج نیکیاں اپنے بجتے جبڑوں کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں
دیکھنے میں تو اتنے سیدھے صراطوں پر چلنے والی...
اور جب ان کی آنکھوں کے رستے ان کے دلوں میں گزر کر دیکھو تو
اندر...
اندر... گھات لگائے ان کے ضمیروں میں مضمر ہیں وہ سب تیز نگاہوں والے
کالے ارادے، جو موقع پا کر
خیر کی ہرمنزل پہ جھپٹتے ہیں
روحوں میں جم جانے والے سیسے کی خاطر...
(14-5-1971)


*** میں کس جگ مگ میں... ***

میں کس جگ مگ میں تھا اب تک...
کہاں تھا اب تک اک یہ خیال کہ جس کی روشنی میں آج اپنی بابت سوچا ہے تو
خود کو اک ظلمت کی منزل میں پایا ہے...
جو بھی اچھائی ہے، مجھ تک آتے آتے میرا عیب ہے
رستے جہاں تک سب آ کر ملتے ہیں، منزل ظلمت کی ہے میں جس میں ہوں
میں... جو اپنی بے سر و سامانی میں تیرے ذکر کا اہل نہیں ہوں...
اندیشوں سے بھرا ہوا یہ سر تو کھڑکھڑاتی ہوئی مٹی کا اک ٹھیکرا ہے جو
تیرے قدموں پر جھک جائے تو بھی
تیری جلالت کا رتبہ نہیں بڑھتا، جو پہلے ہی اوجِ مراتب پر ہے
وہ سب رستے تیرے علم میں ہیں جو
میرے دل کی ظلمت پر آ کرملتے ہیں
اور جو تیری صداقت کے سرچشموں سے پھوٹے تھے
صدہا سمتوں سے آنے والے ان رستوں کے پیچھے
روشنیوں کے ابد ہیں
جن کی اوٹ میں آگے ظلمت کی منزل ہے، میں جس میں ہوں
باقی سب دنیا اب بھی اس جگ مگ میں ہے، جس سے ابھی ابھی میں
باہر آیا ہوں
(29-5-1971)


*** جب اک بے حق... ***

جب اک بے حق استحقاق کے بل پر ... راحت کی اک دنیا
جینے والی روحوں کے عفریتوں کے حصے میں آ جاتی ہے
تو اک مشکل ابھرتی ہے: عمروں میں ان خوشیوں کا دور آتا ہے
جن کے تقدس کو زندہ رہنے والی سب اچھی قدروں نے تسلیم کیا ہے

ایسے میں اب آخر کوئی کتنا بھی سچا ہو، کیوں وہ الجھے ان لوگوں سے
جن کی اک اک سانس محافظ ہے ان کی جھوٹی راحت کے اس قلعے کی
آخر دنیا تو یہی کہتی آئی ہے، یہ راحت اک وہ حق ہے جو سب دستوروں
کا ثمر ہے
اک وہ حق جس کی خاطر ہر فرد اپنے ہونے کی میٹھی سزا چکھتا ہے
سب کچھ بھول کے اپنی ہستی کی سرمستی میں جیتا ہے
لیکن اپنے حق کے جواز کی بابت کچھ سوچے تو اس کی سوچ میں سیسہ بھر جاتا ہے
اس کی آنکھوں اور چہرے پر اک ٹھنڈی ٹھنڈی پتھریلی چمک بکھر جاتی ہے
کون اس حق سے الجھ سکتا ہے، کون اسے جھٹلا سکتا ہے
میں نے دیکھی ہے جو کچھ اس حق سے ٹکرانے والی حجت کی سزا ہے
میں کہتا ہوں، پھر بھی دِل کو چیرنے والا اپنا یہ دکھ اچھا اس راحت سے
جس میں اس دنیا کو سہارا دینے والی غمگیں نیکیاں سب گہنا جاتی ہیں
(2-7-1971)

*** اپنی بابت... ***

اپنی بابت تو ہم تم یہ جانتے ہیں کہ ہماری منزلت اور ہمارے منصب
مٹی کے رشتے ہیں
لیکن، میں کہتا ہوں: یہ جو سارے ادارے، یہ جو ساری تنظیمیں اور تملیکیں ہیں
یہ سب جگہیں کتنی تکریموں والی ہیں
جو بھی قوت کے ان سرچشموں پر قوت حاصل کر لے
اس کے بس میں ہے ان دنوں میں وہ تقدیریں بھر دے
جن میں لاکھوں انسانوں کے ضمیروں کی خوشیاں مضمر ہیں
لیکن، اَب ان جگہوں پر جن لوگوں کے پنجے ہیں
کیسے ان کے ارادوں کے قبضے ان کی سانسوں پر کسے ہوئے ہیں
اور کتنے آسودہ ہیں وہ اپنے عزمِ ستم پر ...
بندے، جانے وہ دن کب آئے گا
جب یہ لوگ بھی جانیں گے کہ سبھی یہ ان کے منصب مٹی کے رشتے ہیں
وہ دن جس کے تقدس کے آگے ہم نے تو ہمیشہ اپنے آپ کو بے قوت پایا ہے
(10-7-1971)

*** آنکھیں ہیں جو... ***

آنکھیں ہیں جو مجھ پہ گڑی ہیں
چہرے ہیں جو میری جانب جھکے ہوئے ہیں
آنکھیں، جن کو دیکھ کے میرے دل کے تختے دھڑکنے لگ جاتے ہیں
چہرے، جن کے آگے میری روح کے بادباں ڈول جاتے ہیں
آنکھیں گردابوں کی
چہرے طوفانوں کے
اور یہ موجیں
یہ دشمن آنکھوں والے عفریتوں اور ان کے چکراتے وجودوں کے پیچاک، ابھرتے،
بڑھتے، میری سمت امڈتے
سب کچھ ایک ذرا سی جنبش ان سرشار ہواؤں کی جو
ازل سے ابد تک بہتی ہیں اور جن کی لگامیں
ایسے ہاتھوں میں ہیں جن کی ہتھیلیوں پر یہ سارے سفینے ہیں روحوں کے
بجتے تختے... ڈولتے بادبان… اور ڈر اس کا جس کا سہارا ہے
(27-7-1971)

*** اب تو دن تھے ***

اب تو دن تھے
یہی تو دن تھے
دن جو اک شخص کے حق میں جدا جدا تقدیر ہیں
جانے میرے دنوں کا فیصلہ کیا ہو میرے حق میں
لیکن پھر بھی یہی تو وہ دن ہیں جن کی پتھریلی تھاہ میں مل جاتی ہے
غواصوں کو
دولت
دولت بھی ایسے حرفوں کی... جن کے سانچوں میں اسموں کے ابد ڈھلتے ہیں
اب تو دن تھے
پھر تو...
پھر تو یہ ذلت تک بھی باقی نہ رہے گی جس میں میری آسائش مجھ کو زندہ رکھتی ہے
اب تو دن تھے، میرے دل میں بسنے والی بڑی پرانی بے دلی
تو اک بار تو میرے قلم کو اپنے بھید عطا کر دیتی
پھر تو ریت کی چادر ابھرے گی اور ڈھانپ دے گی ان زخموں کو جو
تیری مردہ مسکراہٹ نے مجھے بخشے ہیں
(22-8-1971)

*** سب کچھ جھکی جھکی... ***

سب کچھ جھکی جھکی ان جھونپڑیوں والے میرے دِل کے گاؤں میں ہے
جو میری ان پلکوں کی چھاؤں میں ہے
جب یہ پلکیں میرے دل کی جانب جھکتی ہیں
باہر لاکھوں زندگیوں کے قبیلے
بازو جھٹک جھٹک کر کوسنے والی نفرتیں
کالے جنگل، جن کی جڑیں سب میرے سینے میں ہیں
باہرمینہ برسا ہے
باہر چھتناروں کے دھلے دھلے پہناوے، گیلی گیلی دھرتی اور چمکیلی سڑکیں
اور اندر میرے کمرے میں دیواریں مجھ سے کہتی ہیں:
’’... آج ہمارے پاس بھی بیٹھو...
ہم نے تو دیا تمہیں یہ دل، یہ گاؤں، کہ جو اس لمحے تمہاری ان پلکوں کی
چھاؤں میں ہے‘‘
(24-8-1971)

*** ان کے دلوں کے اندر... ***

ان کے دلوں کے اندر تو نہیں، لیکن ان کے مکانوں کے اندر تو دیکھو
کتنی ویرانی... جس سے ان کے دل بے وقعت ہیں ...
کتنی ویرانی... جس سے ان کے چمکیلے آنگنوں کی رونق ہے...
چھوٹے بڑے لوگ ان شہروں کے اپنے چھوٹے بڑے مکانوں میں سب اک جیسے ہیں
دیواروں سے پھسل کر آنگنوں کی ڈھلوان تکونوں تک جو دھوپ اتری ہے
سب زردی ہے چہروں کی ان شہر والوں کے
اپنے آپ سے اکتائی ہوئی سب عاجز خوشیاں ہیں جو چہروں اور آنگنوں پر پھیلی ہیں
باہر ... کھوکھلے قہقہے، جن میں ٹین کی روحیں بجتی ہیں...
اندر ... کچھ ... کاٹھ کی راحتیں، دیمک کے جبڑوں میں...
(24-10-1971)

*** بندے جب تو... ***

بندے، جب تو اپنی سوچ میں کوشاں ہوتا ہے اس زندگی کے لیے
جس کی خاطر تیری روح ڈکارتی ہے تیرے دل کی دھڑکن میں
ٹھنڈے میٹھے پانی
سانس میں روغنی باس... اور
اینٹوں کی عشرت میں نئی قمیصوں کی طنّاز کریزیں
اور اس اپنی سوچ میں کوشاں رہنے پر جب تیری آنکھیں
نئے نئے چمکیلے دکھوں سے بھر جاتی ہیں
تجھے خبر ہے تب تو کتنا قریب آ جاتا ہے اس دِن کے
جس کی روشنیوں پر تیرے دل کے اندھیروں کا سایہ ہے
اور... اس دن کے آگے کیا ہے؟ تجھ کو بتاؤں
تو دیکھے تو آگے تجھ کو زمانے کا وہ ان دیکھا دور دکھائی دے گا
میں نے اپنی عمر میں جس کو مرتے ہوئے دیکھا تھا
کیا تو انھی دنوں کی زنجیروں کو پھر سے پہن لینے پر آمادہ ہے؟
کیسے کیسے خیال مرے دِل میں آتے ہیں
لرزا دینے والے دھیان ان دنوں کے جب لاکھوں لوگوں نے اندھیری
رات کا کالا آٹا
اپنے آنسوؤں میں گوندھا تھا
کالے آٹے ... کالے پانی...
نہیں نہیں ... میرا یہ بدن تو میرا بدن ہے جو اس مٹی ہی کے لیے تھا
لیکن... میرا دل... میرا دل تو تیرے سینے کے لیے ہے
(30-10-1971)

*** مصطفیٰ زیدی ***

اے وہ جس نے اپنی صدا میں اپنی بقا کو ڈھونڈا
اے وہ جس کی صدا کو بہا لے گئیں کڑکتی کالی آندھیاں خونی ویرانوں کی

مجھ بے دست و پا کا دل دُکھتا ہے، جانے اک وہ کیسی گھڑی تھی
اس دن، ساتوں آسمانوں کی گرتی چھتوں کے نیچے
تو نے جب اپنے جی میں اپنے آخری سانس کی ٹھنڈی چاپ سنی تھی
جانے تو نے ذرا سے اس وقفے میں کیا کیا سوچا ہو گا
اب میں کیسے تجھے بتاؤں
اب بھی ہست کا صحرا اسی طرح خود موج ہے
اب بھی تیرے دل کا منور ذرّہ تیری مٹی سے باغی ہے
کون اب تجھ سے پوچھے
تو نے اپنےغموں کےغم میں خیالوں کے جواب ڈھونڈے تھے
کیا وہ سب اس مٹی سے باہر تھے
جس مٹی کو تیرے ذہن نے اپنے وجود سے جھٹک دیا تھا؟
کس کے پاس جواب ہے اس کا؟
کون بتائے، کس دنیا کے کن ظلموں نے لوٹ لیں...
سدا چمکنے والی تیری وہ مشفق آنکھیں اور تیرا انس بھرا وہ چہرا
اور وہ ذہن کہ جس کے طوفانوں میں تو نے عمر بسر کی موت کے ساحل تک
صدیوں تک بھیگی پلکوں سے دنیا چنے گی
موت کے ساحل پر بکھرے ہوئے روشن ذرّے تیری صداؤں کے
(21-11-1971)

*** غزل ***

جنگ بھی، تیرا دھیان بھی، ہم بھی
سائرن بھی، اذان بھی، ہم بھی
سب تری ہی اماں میں شب بیدار
مورچے بھی، مکان بھی، ہم بھی
تیری منشاؤں کے محاذ پہ ہیں
چھاؤنی کے جوان بھی، ہم بھی
دیکھنے والے، یہ نظارہ بھی دیکھ
عزم بھی، امتحان بھی، ہم بھی
اک عجب اعتماد سینوں میں
فتح کا یہ نشان بھی، ہم بھی
تو بھی اور تیری نصرتوں کے ساتھ
شہر میں ٹکا خان بھی، ہم بھی
(12-12-1971)

*** اے قوم ***

پھولوں میں سانس لے کہ برستے بموں میں جی
اب اپنی زندگی کے مقدس غموں میں جی
وہ مائیں جن کے لال لہو میں نہا گئے
صدیوں اَب ان کے آنسوؤں، اکھڑے دموں میں جی
جب تک نہ تیری فتح کی فجریں طلوع ہوں
بارود سے اٹی ہوئی ان شبنموں میں جی
ان آبناؤں سے ابھر، ان ساحلوں پہ لڑ
ان جنگلوں میں جاگ اور ان دمدموں میں جی
پیڑوں سے مورچے میں جو تجھ کو سنائی دیں
آزاد ہم صفیروں کے ان زمزموں میں جی
بندوقوں کو بیانِ غمِ دل کا اذن دے
اک آگ بن کے پوربوں اور پچھموں میں جی
(18-12-1971)

*** ہم تو سدا... ***

’’ہم تو سدا تمہاری پلکوں کے نزدیک رہے ہیں‘‘... آنسو ہم سے کہتے ہیں...
’’تمہیں تو تھے جن کی آنکھوں پہ تمہارے بھرے بھرے پھیپھڑوں کے
ٹھنڈے ٹھنڈے دخان تھے
اور تم ہم سے ہو گئے تھے کچھ اتنے بے نسبت
اتنے بے نسبت کہ تم اپنے لہو کو پانی نہیں سمجھتے تھے...‘‘
آنسو سچ کہتے ہیں، ہم اب سمجھے ہیں
اب ہم روئے ہیں تو آنسو ہم پر ہنستے ہیں
بہہ گئے نا ہم سب کے لہو پانی کی طرح اس اپنے دیس میں
اس اپنے گھر میں…
آج ہم اپنے جیالے بیٹوں کو روتے ہیں تو
آنسو ہم پر ہنستے ہیں
اس مٹی کے وہ بیٹے ہم نے قیمت ہی نہ جانی جن کے چہروں کی
اور ہم بھرے بھرے
پھیپھڑوں کے
ٹھنڈے ٹھنڈے دخانوں کے پیچھے
یہی سمجھتے رہے کہ ہمارا لہو تو گاڑھا ہے
لیکن ہم بھی اور ہماری عظمت بھی، اب سب کچھ پانی پانی ہے
اب ہم روئے ہیں تو آنسو ہماری آنکھوں میں ہم پر ہنستے ہیں
(20-12-1971)

*** 21 دسمبر 1971 ***

رات آئی ہے، اَب تو تمہارے چمکتے چہروں سے بھی ڈر لگتا ہے
اے میرے آنگن میں کھلنے والے سفید گلاب کے پھولو
شام سے تم بھی میرے کمرے کے گلدان میں آ جاؤ ... ورنہ راتوں کو
آسمانوں پر اڑنے والے بارودی عفریت اس چاندنی میں جب
چمک تمہارے چہروں کی دیکھیں گے
تو میرے ہونے پر جل جل جائیں گے اور جھپٹ جھپٹ کر
موت ک تپتے دھمکتے گڑھوں سے بھر بھر دیں گے اس آنگن کو
اب تو تمہارا ہونا اک خدشہ ہے
اب تو تمہارا ہونا... سب کی موت ہے
شاخ سے ٹوٹ کے میرے خود آگاہ خیالوں کے گلدان میں اَب آ جاؤ
...اور یوں مت سہمو... کل پھر یہ ٹہنیاں پھوٹیں گی... کل پھر سے پھوٹیں گی
سب ٹہنیاں
آتی صبحوں میں پھر ہم سب مل کے کھلیں گے اس پھلواڑی میں...
(21-12-1971)

*** ریڈیو پر اک قیدی … ***

ریڈیو پر اک قیدی مجھ سے کہتا ہے:
’’میں سلامت ہوں
سنتے ہو... میں زندہ ہوں!‘‘
بھائی ... تو یہ کس سے مخاطب ہے...
ہم کب زندہ ہیں؟
اپنی اس چمکیلی زندگی کے لیے تیری مقدس زندگی کا یوں سودا کر کے
کب کے مر بھی چکے ہم
ہم اس قبرستان میں ہیں…
...ہم اب اپنی قبروں سے باہر بھی نہیں جھانکتے
ہم کیا جانیں، کس طرح ان پر باہر تیری دکھی پکاروں کے یہ ماتمی دیے روشن ہیں
جن کے اجالوں میں اب دنیا ان لوحوں پہ ہمارے ناموں کو پہچان رہی ہے
(25-12-1971)

*** سب کچھ ریت... ***

سب کچھ ریت ... سرکتی ریت...
ریت کہ جس کی ابھی ابھی قائم اور ابھی ابھی مسمار تہیں... تقدیروں کے
پلٹاوے ہیں
جل تھل... اتھل پتھل سب... جیسے ریت کی سطحوں پر کچھ مٹتی سلوٹیں
کیسی ہے یہ بھوری اور بھسمنت اور بھربھری ریت
جس کے ذرا ذرا سے ہر ذرّے میں پہاڑوں کا دل ہے
ابھی ابھی ان ذرّوں میں اک دھڑکن تڑپی تھی
ابھی ابھی اک سلطنت ڈوبی ہے
ابھی ابھی ریتوں کی سلوٹوں کا اک کنگرہ ٹوٹا ہے
سب کچھ ریت... سرکتی ریت...
(31-12-1971)

*** چیونٹیوں کے ان قافلوں... ***

چیونٹیوں کے ان قافلوں کے اندر میں وہ مناد ہوں
جس کی آنکھوں میں جب آتی آندھیوں اور طوفانوں کی اک خبر ابھرتی ہے
تو ان آندھیوں اور طوفانوں کی آواز کو قافلے سن نہیں سکتے
لیکن میرے دِل کا خوف، جو میرے علم کی عادت ہے
ان قافلوں کے حق میں اک ڈھال ہے
تقدیروں کی یہ خبریں اور ان کے سب دکھ میرے لیے ہیں
لیکن کس نے میری خبروں کو میری آواز کے پیکر میں دیکھا ہے
کس نے سنی ہے جاننے والی یہ آواز جو سب کے سروں پر ڈھال ہے
سدا جییں ان صحنوں میں یہ دھیرے دھیرے رینگنے والی ننھی ننھی جیتی لکیریں
جن کے ذرا ذرا سے الجھاوے ہی اُن کے کڑے مسائل ہیں
ان دکھوں سے بھی بڑھ کر
جو آسمانوں کے علموں نے مجھ کو سونپے ہیں
(3-1-1972)

*** 8 جنوری 1972 ***

ان سالوں میں
سیہ قتالوں میں
چلی ہیں جتنی تلواریں بنگالوں میں
ان کے زخم اتنے گہرے ہیں روحوں کے پاتالوں میں
صدیوں تک روئیں گی قسمتیں... جکڑی ہوئی جنجالوں میں
ظالم آنکھوں والے خداؤں کی ان چالوں میں
دکھوں، وبالوں میں
قحطوں، کالوں میں
کالی تہذیبوں کی رات آئی ہے اجالوں میں

اور اب ان زخموں کے اندمالوں میں، اپنے اپنے خیالوں میں
چلنے لگی ہیں کروڑوں جبڑوں تھوتھنیوں میں زبانیں
جیبھیں جٹی ہوئی بےمصرف قیلوں قالوں میں
کوئی تو میری بےزبانی کے معنی ڈھونڈے ان حالوں کے حوالوں میں...
(8-1-1972)

*** جنگی قیدی کے نام ***

وہاں جہاں مشکلوں سے آزاد گلشنوں کی ہوائیں پہنچیں
وہیں کہیں دور ادھر تمہاری دکھوں بھری کال کوٹھڑی تک
ہمارے ٹوٹے ہوئے دلوں کی صدائیں پہنچیں
دعائیں پہنچیں
وفائیں پہنچیں
(1972)

*** میلی میلی نگاہوں... ***

میلی میلی نگاہوں کی اس بھیڑ کے اندر اور بھی گھس کر دیکھو
قاتل جبڑوں کے جڑتے دندانوں میں شاید اک رخنہ امن کا بھی ہو
اپنے بچاؤ میں اس سے زیادہ کیسے بچے رہو گے
پہلے ہی سے اس دیوار تک ہٹے ہوئے ہو جس کے آگے ... آگ ہے …
ان شعلوں کے چلتے آروں کے اندر ہی کوئی رخنہ امن کا ڈھونڈو
یہ مامن تو... تمہارے دلوں کے کسی گوشے میں جدا نہیں ہے
یہ مامن تو... تمہاری دنیاؤں کے کسی گوشے میں جدا نہیں ہے
اندر بھی، باہر بھی، ایک ہی لشکر ہے جس کی دو ٹکڑیاں
جنگ میں ہیں آپس میں تمہارے دلوں کی سرحد پر، جس کے اندر کی جانب
اتنی دور تک
تم کو پیچھے ہٹنا پڑا ہے...
اس جمگھٹ میں اب اک بار تو ہلّا بول کے اپنے دلوں کے اندر کا اک وہ
گوشہ امن کا اپنے واسطے ڈھونڈو
جس پر زندگی کے لشکر کی دو باہم متحارب ٹکڑیوں کا مشترکہ قبضہ رہا ہے
اب تک...
(10-1-1972)

*** باہر اک دریا... ***

باہر اک دریا پیلی آنکھوں کا لہراتا ہے
آنکھیں، جن میں پتوں کا پانی رس رس آتا ہے
ہم کو دیکھ کے
اب ایسے میں کس کس بوجھ کو سر سے جھٹکیں
دل میں نیکیاں دہل دہل جائیں اور اپنے گن ڈھارس نہ بنیں

ہر جانب سے ذہنوں میں امڈی ہوئی کالی حرصیں
اپنے برچھے تان کے دھیرے دھیرے گھات میں
ہم کو دیکھ کے
اب ایسے میں کون بتائے، کن جتنوں سے ہم نے اپنی دبلی پسلیوں کے نیچے ان
اپنے دِلوں میں سنبھال کے رکھی ہیں یہ اتنی اذیت دینے والی سب تسکینیں
جن کے باعث
ہم پتوں کے پانیوں سے بھری ہوئی ان صدہا آنکھوں کے سامنے ڈرتے بھی ہیں
اور اس ڈر میں جینے کا دکھ خوشی خوشی سے سہتے بھی ہیں
(31-1-1972)

*** لمبی دھوپ کے... ***

لمبی دھوپ کے ڈھلنے پر اب مدتوں کے بعد ایک یہ دن آیا ہے
دن جو ایسے دنوں کی یاد دلاتا ہے جو سدا ہمارے ساتھ ہیں
اس کہرے میں، اس جاڑے میں
امڈے ہوئے ان ریزہ ریزہ بادلوں میں وہ سب نزدیکیاں ہیں جو
میرے وجود کا طلسم رہی ہیں
ورنہ کتنے دور ہیں دکھ جو صدیوں کا حصہ ہیں
کتنی دور ہے موت جو ان سب بستیوں پر چھائی ہے، ان سب ہستیوں کا
حصہ ہے
اس لمحے تو دکھ اور موت کی ان نزدیکیوں میں بھی زیادہ قریب ہے
وہ غافل کر دینے والی بے حس زندگی
اور وہ زندہ رکھنے والی جابرغفلت
جو اس میرے وجود کا طلسم ہے
اس ٹھنڈک میں یہ اک دھیمی دھیمی سی مانوس تمازت
ساری بھولیں، سارے خیال، اس کی کونپلیں
میرے گھر میں آم کے پیڑ کے نیچے تو خندق ہے، اب کے کھاد اس کو کیسے ڈالیں گے؟
کب آئیں گے آنے والے دِن اور بور اور کونپلیں؟
کبھی نہ آنے والی رتوں کے دھیان کہ جن پر آج تو نظریں جم جاتی ہیں
اور میں سوچتا بھی نہیں، کیا کوئی کل بھی آئے گا؟
ساری ندامتیں بھول گیا ہوں
اور وہ سب نزدیکیاں جن کو میں نے اَب تک اتنی دوری سے دیکھا ہے
آج تو وہ سب میرے سامنے ہیں، اس جاڑے میں مدت کے بعد آنے
والے اس کہرے میں
(23-1-1972)

*** اندر روحوں میں... ***

اندر روحوں میں جو اک روشن روشن قوت ہے، وہ تو ہماری ہے اور بےتسخیر ہے
یوں ہی سمجھ لیں
پھر بھی لاکھ بچائیں اپنے دلوں کو، دھبا تو پڑ ہی جاتا ہے
یہ نورانی قوت تو مٹی کے رابطوں سے ہے
چھتیں رکوعوں کی، ڈھالیں سجدوں کی، اور دعاؤں کے سب قلعے
کوئی تمہارے حلق پہ جب مٹی کا انگوٹھا رکھ کر کچھ کہتا ہے
تو سب قلعے گر پڑتے ہیں
چڑیا اپنی پیاس بجھانے سمندر کے ساحل پر آتی ہے تو اپنی ننھی چونچ میں
کتنا پانی پی لیتی ہے!
نیکی بھی تو سمندر ہے جو سب روحوں میں روشن روشن اور مواج ہے
ہم کتنا پانی پی لیں گے اس سے؟
لاکھ بچائیں، دھبا تو پڑ ہی جاتا ہے دل پر
ان پہ سلام کہ جن کے قدموں کی مٹی سے دونوں جہانوں
کی تقدیسیں ہیں
(25-1-1972)

*** اس دنیا نے اَب تک... ***

اس دنیا نے اَب تک ہم کو ہمارے جس بھی دکھاوے سے پہچانا
ہم نے اس کی پرستش کی ہے
اور اب اس کی حفاظت کرتے کرتے اس کی حقیقت کو بھی کھو بیٹھے ہیں
سچ تو تھا ہی نہیں کچھ پہلے سے، اور جھوٹ کی جو اک صورت تھی وہ بھی
نہ رہی اب
اب تو دنیا سے چھپ چھپ کر ان دیسوں میں ہم پھرتے ہیں
جن میں کوئی ہمیں پہچاننے والا نہیں ہے

اب تو نہ اپنے سامنے آ سکتے ہیں... اپنا دکھاوا ہی ہم پر ہنستا ہے
اور نہ غیروں ہی کے آگے اپنے اصلی روپ کو لا سکتے ہیں
...خیر سے بغیر اس اپنے دکھاوے کے ہم ہیں ہی کیا!
اب انجانے دیسوں میں پھرتے پھرتے اپنے دکھ یاد آئے ہیں
اب ان دکھوں میں جینا، اب اس نامحرم اور مونس دھوپ میں پھرنا
اپنے خلاف عمل کرنا ہے ... اپنے دکھاوے کو جھٹلانا ہے
اپنے لیکھ پہ اب پچھتانا ہی اچھا جس میں سب سچی پہچانیں ہیں
اک یہ روپ ہی جس کی ذلت کی عزتیں اک جیسی ہیں، ہماری نظروں میں بھی اور
غیروں کی نظروں میں بھی!
(6-2-1972)

*** دکھیاری ماؤں نے ... ***

دکھیاری ماؤں نے اپنے دبلے آنسوؤں میں پالا اپنے جن بیٹوں کو
ان بیٹوں کی عفتوں پر سورج بھی پلکیں بچھا دیتے ہیں
جب بھی لہو میں مقدس مٹی کی یہ طینت گھلتی ہے تو کیسی کیسی
سلسبیلیں ہیں جو ان نینوں میں اُمڈ آتی ہیں
لیکن کون ان سادہ سادہ دنیاؤں کی سنے گا
جو ان پلکوں کے سایوں میں حدِ افق تک بالیدہ ہیں

لیکن ان کی کون سنے گا
آگے تو ہر جا ایسی آنکھیں ہیں جن کے پردوں کے پیچھے
ایسے ایسے خدا اَب گھورتے ہیں، سب مجھ جیسے خدا اورسب تجھ جیسے خدا
جو کالی لمبی جریبوں سے اپنے جثوں اور اپنی کبریائی کو ناپ کر
آنے والی تقدیروں کا زائچہ کھینچنے کے عادی ہیں
ہم، جن کی آنکھوں پہ ہمارے ضمیروں کے خمیازوں کا پردہ ہے
کب ان سلسبیلوں کو دیکھیں گے، کب دیکھیں گے ان سلسبیلوں کو
جن پر آسمانوں کے دِل بھی پسیجے ہوئے ہیں
(15-2-1972)

*** کبھی کبھی تو... ***

کبھی کبھی تو خوداندوزی کی کیفیت میں، جب
میرا کاسۂ سر ٹھوڑی تک اس میرے سینے میں دھنس جاتا ہے
اور جب میری گردن ہل بھی نہیں سکتی، اور ایسے میں جب
اس دنیا کی بابت میرا جھوٹا سچاعلم مری آنکھوں سے اس دنیا کی جانب
جھانکتا ہے تو
مجھ میں اک فوقیّت کا احساس ابھرتا ہے اور میں کس نفرت سے ان سب
لوگوں کو ٹکٹکی باندھ کے دیکھتا ہوں جو
میرے جھوٹے سچے علم اور میری جھوٹی سچی فوقیّت کا ماخذ ہیں
اوروں کے بھیدوں اور ان بھیدوں کے عیبوں سے آگاہی کیسی فوقیت
ہے جس میں
میرا دل اک کبریائی سے بھر جاتا ہے
اور میں اپنے آپ سے غافل ہو جاتا ہوں
اس اک آگاہی میں کیسی کیسی غفلتیں اور بےعلمیاں ہیں، یہ کس کو خبر ہے
لیکن وہ جو اک کیفیّت ہے، جب کاسۂ سر اس طرح سے تھوڑی تک سینے
کے خول میں دھنس جاتا ہے
اور جب گردن ہل بھی نہیں سکتی اور آنکھیں ٹکٹکی باندھ کے
اپنے شکار کی جانب گھورتی ہیں، اک وہ کیفیت تو بندے کے خدا ہونے کی گھڑی ہوتی ہے
ساری گراوٹیں اس جھوٹی فوقیت سے اگتی ہیں
پھر بھی دنیا تو صرف ان لوگوں سے ڈرتی ہےنا جن کی گراوٹیں دوسروں
کے عیبوں کو جانتی ہیں
کون مجھے پہچانے گا؟ کہنے کو تو سب کے دلوں کے دروں خانے میں میرا
صدق گزر رکھتا ہے
(27-2-1972)

*** ڈھلتے اندھیروں میں... ***

ڈھلتے اندھیروں میں، کچی مٹی پر، کولتار کی سڑکوں پر، ہر جانب
وہی پرانی، کھدی ہوئی سی لکیریں پہیوں کی اور وہی پرانی گرد، عناد
اور جمگھٹ
وہ پرانی روندی ہوئی سی صبحیں...
لیکن کہاں سے آئی ہیں یہ دل کے مساموں میں بھر جانے والی مہکاریں
اَن دیکھے پھولوں کی
کانوں کے پردے بجتے نظر آتے ہیں... تھمے ہوئے سب شور اور دل
کے پردے بجتے نظر آتے ہیں...
ازلیں بھی ایسی ہی خوشبوؤں میں جاگی ہوں گی
شام کی سڑکیں، وہی پرانے چہرے
سارے دن کی تھکی ہوئی یہ عبودیت
اور بےمہرنگاہوں کے آواز ے ہر سو
سب لوگ اپنے دلوں کی دھرتی پر بےمامن، سب ان راہوں پر بےمنزل
یونہی جانے کب سے...
اور بستی کی دیواروں کے ساتھ ساتھ اب کتنے سکون سے نہر میں پانی
دھیرے دھیرے چمکتا چمکتا رواں ہے... اب، جب رات کا سارا کالا بوجھ
ان گھنے گھنے پیڑوں پر آن جھکا ہے
دیواروں کے گھیرے میں اب یہ کیسی نیندیں سلگ اٹھی ہیں جن کے عبیری دھوئیں میں موت
اور زیست کی سرحدیں مل جاتی ہیں
ایک زمانہ ختم ہوا ہے ... اک دن گزرا ہے
(31-3-1972)

*** سدا زمانوں کے اندر... ***

سدا زمانوں کے اندر...
ذہنوں میں بھی، اور زبانوں پر بھی، تیرے ہیں بے جسم وجودوں والے جو جو نام
اُن کے ابد کیسے ہیں، اور کیا ہیں
سب کچھ بس اتنا کہ ہم اب بھی ان ناموں کو دہرا کر اپنے جی کو گدلا کر لیتے ہیں
ورنہ یوں تو جانے کب سے طاقِ جہاں پہ ابد کے مرتبانوں میں ان کے مرتبے
پڑے پڑے سب گلتے ہیں
کبھی کبھی ان مرتبانوں سے ذرا ذرا سا دکھ چکھ کر ہم اپنی روح کا ذائقہ بدل لیتے ہیں
اور اپنے جی کو گدلا کر لیتے ہیں
لیکن اس سے ان جسموں کو اب کیا لابھ ہے جو خود تو اب مٹی ہیں اور جن کے نام
ہمارے ذہنوں میں بھی اور زبانوں پر بھی جاری ہیں
ان سے تو اچھا ہے گتھم گتھا بازاروں میں اس بھرپور طمانیت سے شاپنگ کرنے والا یہ اک شخص
کوئی ابد بھی جس کی قیمتی مٹی کا زنگار نہیں ہے
ایسے میں اب کون ان کو پہچانے، کون اب ان کے ابد کی حقیقت کو جانے
اک اک کر کے کاٹ گئے ظلموں کے ٹوکے جن کی عمروں کو، اک اک کر کے، اک اک کر کے
(16-3-1972)

*** اور وہ لوگ... ***

اور وہ لوگ اپنے ناموں کے حرفوں میں اب بھی زندہ ہیں جب وہ نام ہماری زبانوں پر آتے ہیں
ہم... جو اپنی بقا میں موت کا سلسلہ ہیں
ہم سے اچھے ہیں وہ لوگ
پھول ہمارے باغوں میں جن کی قبروں کے لیے کھلتے ہیں
ہم جو گردش کرنے والے کُروں کے پاتالوں کی مٹی میں بے تذکرہ ذرّے ہیں
ہم ہی تو ہیں وہ جیتی مرتی روحیں، جن کے ہونے اور نہ ہونے کا یہ دائرہ ان ناموں کی
بقا کا دائرہ ہے
جن ناموں کے ذکر کی خاطر ہم بےتذکرہ ہیں
سب کچھ دیکھ کے
سب کچھ جانچ کے
اب بھی لمبی بےانت آنتیں یوں دن رات اس موجِ غرور کو کشید کرنے میں لگی ہیں
جن سے ہماری آنکھیں بھری ہوئی ہیں اور
اب بھی ہم ان ناموں سے بےنسبت ہیں جن کی بقا کی خاطر ہم بےتذکرہ ہیں
(23-3-1972)

*** پختہ وصفوں کے بل پر... ***

پختہ وصفوں کے بل پر، بےحد قربانیوں کے بعد، اک ایسی منزل آتی ہے
جہاں پہنچ کر اس مقصد کی طمانیت ملتی ہے
جس کی بلندی ایک گراوٹ کی جانب بڑھتی ہے
اور اس لمبے سفر میں اک یہ گراوٹ بھی کیسی منزل ہے!
جہاں پہنچ کر انساں اپنے وصفوں سے واصف نہیں رہتا
لیکن دنیا والے اس کے پہلے وصفوں ہی کی بنا پر اس کی گراوٹ سے بے دل نہیں ہوتے
اک یہ کیسی منزل ہے جس تک جب کوئی پہنچتا ہے تو اس کے سوجے ہوئے پپوٹوں کے
نیچے اس کی آنکھوں میں پتلیاں کم حرکت کرتی ہیں
اس کی نظریں اپنی کامیابی پر رکی جمی رہتی ہیں
اور وہ بےنسبت ہو جاتا ہے، اس دنیا سے بھی جس کو اس کے سفر کی کہانی یاد ہے
کیسا یہ گھن ہے جو سینہ تان کے چلنے والی تقدیسوں کے پنجر میں سب جوہر چاٹ جاتا ہے
اور ہر جانب اونچے مقصدوں کے سنگین لبادے اوڑھ کے کھوکھلی روحیں
اکڑ اکڑ کے چلتی نظر آتی ہیں
کون انھیں پہچانے، سونے کی تہہ پانی میں ہے اور مٹی کا چہرہ باہر ان سطحوں پر
(26-3-1972)

*** ساتوں آسمانوں... ***

ساتوں آسمانوں کے عکس اور کنکر آ آ کر گرتے ہیں خیالوں کے خانوں میں
یہ سب کچھ ان الگ الگ خانوں میں اک وہ یکجا مخفی قوت ہے جو
مجھ پر ظاہر تو نہیں لیکن جو یوں ہونے میں میری ہونی کے ساتھ ہے
میرے شعور کو ان کا علم نہیں ہوتا، میں پل پل جن جن وارداتوں میں بہہ جاتا ہوں
اور اپنے ہونے کی جس جس ہونی میں ہوتا ہوں...
اور جب کوئی مجھے یوں سنبھالتا ہے جیسے وہ میرے ساتھ ہے
اک یہ خودآگاہ سی بےخبری جو میرے شعور کا جوہر بھی ہے
اور جو میرے شعور کے علم سے باہر بھی ہے
زندگی میں اک زندگی، آسمانوں سے آنے والی مٹی جس کی روح ہے
(4-5-1972)

*** اپنے آپ کو ... ***

اپنے آپ کو بھولے ہوئے ہونے میں جب اس اپنی بھول کو بھی تم
بھولے رہو گے
تو ان پتھریلے فرشوں پر چلتے چلتے اچانک کبھی کبھی تم یوں محسوس کرو گے
جیسے گہری شاموں کی ہلکی سانسوں میں
جی اٹّھا ہے وہ سب کچھ جو غربِ غروب میں اتنے فاصلوں پر ہے
زمانوں سے بھی باہر
اور تم لوٹ آئے ہو خود اپنی یادوں میں اس کے ہمراہ
اپنے آپ کو بھولے ہوئے ہونے میں بھی...
(25-5-1972)

*** دلوں کی ان فولادی ... ***

دلوں کی ان فولادی بیٹھکوں میں کس تک ان مفہوموں کے سب معنی پہنچے ہیں
مفہوم ان حرفوں کے جن کی عبارت کھردرے کاغذ کے میلوں لمبے مسطر پر
روزانہ لاکھوں بھوکی آنکھوں کا ناشتہ ہے
کس کے فہم نے معنی جذب کیے ان سب حرفوں کے
جن کی کالی روشنائی سے لہو رستا ہے
کس نے ان حرفوں سے رستے لہو کو دیکھا
لہو... لہو ہم سب کا، دھانی دیسوں، گدلی آبناؤں میں

کس نے جانا
ان صبحوں میں، ان میزوں پر
ورق الٹتے ہی ہر روز اک خونیں عہد گزرتا ہے
مارملیڈ لگے توسوں کے درمیان ...
ورق الٹ کر، لو وہ زوں زوں کرتے گھوم گئے پھر سب دل اپنے اپنے محور پر
اپنے اپنے اطمینانوں میں
اپنا دل تو دیکھے دنوں سے دکھنے لگا ہے
(27-5-1972)

*** زندگیوں کے نازک... ***

زندگیوں کے نازک نازک دکھی دکھی موڑوں پر جو جو لمحے آتے ہیں
اک دن اپنے سارے آنسوؤں سمیت، بھنچے ہونٹوں کے پیچھے، دلوں کی تاریکی
میں مر جاتے ہیں
اُن کو کیوں مرنا تھا؟
یہ جذبے تو اس اک سچائی سے پھوٹتے ہیں جو روحوں کا جوہر ہیں
لیکن یہ دل کیوں ان جذبوں کا مدفن ہے؟
پاؤں پھر بھی ڈگ مگ ڈولتے ہیں، گلیوں کی رسموں میں...
مرنے والے ساتھی کے ماتھے کو چومنے والے تھرتھر کانپتے ہونٹ
یہ سب کچھ بھول کے
پھر بھی ان صحنوں کی ریتوں میں ہنستے بولتے جی جاتے ہیں
مند جانے والی آنکھیں مٹی میں سو گئیں، جینے والے اقراروں کے سامنے
بندے، تو ان آنکھوں میں ان سب اقراروں کا شاہد ہے
یہ کس سانحے کے پنجر نے تیرے دل کے مدفن میں کروٹ بدلی ہے؟
تو کیا سمجھا بندے؟
شاید سارے سچ تو اس سچائی میں ہیں جس کا کسی کے ساتھ اقرار نہیں
(27-5-1972)

*** تیری نیندیں... ***

تیری نیندیں جانتی ہیں ری منو ...
تیری لمبی بے کھٹکا نیندیں جانتی ہیں کیا...
تجھ کو تھپکنے والے ٹھنڈے ہاتھوں کے پیچھے یہ کس کا دل ہے؟
اور یہ جو نیندیں لانے والی کم سن صبحیں آئی ہیں
کتنے اندھیروں کے ساتھ اب اس اک دل میں ابھری ہیں؟
اک دل، تجھ کو تھپکنے والے ہاتھوں کا بازو
گندمی محنت زاروں، دھانی کاجواڑوں اور بے رزق دروں میں
لاکھوں ہاتھ پنگھوڑے جھلانے والے، اور ان کے پیچھے اک یہ دل
اک دل، ان ہاتھوں کا بازو...
تجھ کو خبر ہے ری منو، تیری نیندوں کو دیکھ کر
آج تو یہ اک دل کن دنیاؤں میں جاگا ہے جو اس کی آخری دھڑکن سے بھی ورے ہیں
کالے سماج... بلکتے بچپن اور اپاہج عمریں
آج بھی اپنی دھڑکنوں میں یہ اک دل تیرے لیے کیا کر سکتا ہے
کل بھی وقت کا پیکر کیا کر سکے گا، یہ دل جس کا ٹوٹا ہوا بازو ہے
کاش ایسے دن بھی آئیں جب یہ دل تیرے جاگنے میں اک شاداں بہناپے کی
مسکانوں میں جاگے
(10-6-1972)

*** ان بے داغ ... ***

ان بے داغ دبیز غلافوں کے عطروں میں یوں تو سب کچھ ہے
...جن کو تمھاری آنکھیں چومتی ہیں
ان شفاف چمکتی دہلیزوں میں یوں تو سب کچھ ہے
...جن پہ تمھارے سجدے بچھتے ہیں
پُرہیبت دیواروں، میناروں اور گنبدوں کے سایوں میں یوں تو سب کچھ ہے
...جن میں داخل ہوتے ہی تمھاری سانسیں
ابد کے بوجھ کے نیچے رک رک جاتی ہیں
تقدیسوں کے اسیرو، تم یہ بھی تو سوچتے
اصل میں سب کچھ تو وہ برتاوے تھے جن کو عمروں کے اس ٹکڑے نے اپنایا جو اب
ان قبروں کی مقدس مٹی ہے
تم بھی اس اک پل کو جگمگا سکتے ہو
جس کا تمھاری عمر اک ٹکڑا ہے
ورنہ یوں ہی ان اپنی سچی سوچوں میں ٹھوکریں کھاؤ گے
(9-7-1972)

*** جس بھی روح کا... ***

جس بھی روح کا گھونگھٹ سرکاؤ… نیچے اک
منفعت کا رخ اپنے اطمینانوں میں روشن ہے
ہم سمجھے تھے، گھرتے امڈتے بادلوں کے نیچے جب ٹھنڈی ہوا چلے گی
دن بدلیں گے...
لیکن اب دیکھا ہے، گھنے گھنے سایوں کے نیچے
زندگیوں کی سلسبیلوں میں
ڈھکی ڈھکی جن نالیوں سے پانی آ آ کر گرتا ہے
سب زیرِ زمین نظاموں کی نیلی کڑیاں ہیں!
سب تملیکیں ہیں! سب تذلیلیں ہیں!
کون سہارا دے گا ان کو جن کے لیے سب کچھ اک کرب ہے
کون سہارا دے گا ان کو جن کا سہارا آسمانوں کے خلاؤں میں بکھرا ہوا
دھندلا دھندلا سا اک عکس ہے
میں ان عکسوں کا عکاس ہوں...
(11-7-1972)

*** باڑیوں میں مینہ... ***

باڑیوں میں مینہ کا پانی، اور ان کے ساتھ ساتھ آگے تک
کیچڑ کیچڑ ڈھلوانوں کی نم مٹی پہ چمکتی ٹھیکریاں اور تنکے
جن میں کھبے کھبے سے نقش، ان قدموں کے جو
ادھر سے جیسے ابھی ابھی گزرے تھے، زمانوں کے اوجھل!
اب کوسوں خطّوں دور، ان اینٹوں کے گھیرے میں یوں بیٹھ کر سوچنا ان روحوں
کے بارے میں
گونگی، منہمک چیونٹیاں تھیں اپنے اپنے جتنوں میں
اپنی اپنی نارسائی میں
اب اس ٹھنڈی سانس کے قلعے میں یوں بیٹھ کر سوچنا...
کتنی بڑی ہزیمت ہے ان آہنی خوشیوں کی جن کی نوکیلی باڑ سے
باہر ہیں ان روحوں کے وہ سب دکھ اور وہ سب
نیکیاں جو زینہ تھیں اس قلعے تک
آج اس ٹھنڈی سانس کے قلعے میں یہ آہنی خوشیاں سب کتنی بے امن ہیں
سارے امن تو ان نازک اندیشوں والی زندگیوں ہی میں تھے
جن کے نقشِ قدم کیچڑ کیچڑ ڈھلوانوں سے جیتی گلیوں تک جاتے تھے
(19-7-1972)

*** اس کو علم ہے... ***

اس کو علم ہے، اب وہ ایک سیاہ گڑھے کے دہانے پر ہے
آگے … اک وہ گڑھا ہے اور اس کا وہ اگلا قدم ہے
اب بھی اس کی بےحس،بے دانت، اوچھی، مسترخی باچھیں ہنستی ہیں
اس کا دل نہیں ہنستا اور اس کی باچھیں ہیں جو ہنستی ہیں
یہ اک پُرتحقیر تلطّف دھار ہے اس تلوار کی جس کی زد اتنی کاری ہے
سب اس وار سے اپنی ذلت کی عظمت پاتے ہیں
اس خوش بخت کو علم ہے، اس کے دن تھوڑے ہیں
اس کو علم ہے، اس کا آخری وار اور اس کا اگلا قدم اک ساتھ پڑیں گے
آگے اک وہ گڑھا ہے اور اس کا وہ اگلا قدم ہے
اب ایسے میں جتنے سانس بھی ہیں اس گڑھے سے باہر
جس سے کبھی کوئی باہر نہیں نکلا
اس کی یہ کوشش ہے، وہ اس وقفے کے اندر بھر لے اپنی باچھوں میں
کچھ گھونٹ اور بھی
خوشیوں کے اس گاڑھے جوشاندے کے
جس میں مظلوموں کا لہو پکتا ہے
(1-8-1972)

*** اب بھی آنکھیں... ***

اب بھی آنکھیں ان کو ڈھونڈتی ہیں جو اب بھی آنکھوں میں بستے ہیں
ہر جانب بستے ہیں وہ ... ہم جن کا بھرم تھے جب وہ تھے
اب بھی ہمارے ساتھ ہیں ان کے دکھ، ہم جن کا مداوا تھے جب وہ تھے

اب تو ان کے رابطے
ہماری زندگیوں کے غیاب میں
جینے والے کشف ہیں
کون بتائے اپنے رازوں میں ہیں کتنی بیکراں... یہ بے فاصلہ دوریاں
جانے کن اقلیموں سے آتے ہیں خیالوں کے ہلکے ہلکے سے جھکولے
جو ... چپکے سے ... دھیرے دھیرے ... روحوں کے کنجوں میں سرسراتے ہیں
تو آنکھوں میں بھر بھر جاتی ہیں مٹی ان آستانوں کی...
جن کے امٹ نشانوں کے سامنے
ان کے دعا کے ہاتھ ہمارے لیے اٹھے تھے
ان کی سانسوں میں جینے والے زمانے ہمارے دلوں میں جاگتے ہیں... اور اب بھی
ہماری آنکھوں میں بستے ہیں وہ، ہم جن کے ضمیروں میں تھے جب وہ تھے
(1-8-1972)

*** اور ان خارزاروں میں... ***

اور ان خارزاروں میں چلتے چلتے خیال آتا ہے
سدا ہمارے دلوں میں چٹکنے والی کلیوں کی یہ بہاریں
جن صبحوں اور جن شاموں کا موسم ہیں
وہ دن آئیں گے تو...

اور کانٹوں کی ٹوٹتی نوکیں ہمارے قدموں کے نیچے کڑکڑانے لگتی ہیں
اور سانسوں کی لہر میں لوہے کی سیال سی پتری جڑ جاتی ہے
اور زمین کی پیٹھ پر اپنا بوجھ بہت کم رہ جاتا ہے
اب تک ہم نے کیسے کیسے یقینوں کے ان نیلم جڑے پیالوں میں عمروں کا زہر پیا ہے
یوں کتنے دڑبوں میں آس کے چہروں پر اک مٹیالی سی دمک جیتی ہے
آسمانوں کو گونجتی پہنائی میں ہمارے نام کے ذرّے بکھر بکھر جاتے ہیں
کبھی نہ مرجھانے والے پھولوں کے ڈھیر ہمارے من میں
اور یہ سب کچھ...
اور یہ سب کچھ ایسے وقت میں جب اپنے دامن میں پیتل کی اک پنکھڑی بھی نہیں ہوتی
(10-8-1972)

*** بھولے ہوئے وہ لبھاوے... ***

بھولے ہوئے وہ لبھاوے تب تو کتنے سچے کتنے کھرے تھے
تب تو اپنے وقت کی سچائی تھیں گزری ہوئی وہ جھوٹی خوشیاں
جو اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کے اک دن سیدھی اس میرے دل میں آئی تھیں
اب تو سچ مچ وہ خوشیاں جھوٹی لگتی ہیں، اب کہتا ہوں، کتنا بھولنہار تھا تب میں ...
اب تو اور ہی جھوٹی سی اک اپنی سوجھ کی سچائی پر اتراتا ہوں
جانے اس کروٹ کو آگے چل کر میں اک بھول ہی سمجھوں
شاید سب یہ گزرنے والے دن ہوں دکھاوے ان سب آنے والے دنوں کے
دن اب جن کے لوبھ میں جینا ہو گا
دن جو میرے دل تک میرے جھوٹ کی سیڑھیاں ہیں
میری موت کی سچائی تک
(10-8-1972)

*** تو تو سب کچھ ***

تو تو سب کچھ جانتا ہے، وہ کیسی کیسی شکستہ کمر توقیریں تھیں جن کی خاطر
تجھ سے طاغی ہو کر ڈوبا رہا ہوں
اس اک گہری ٹھنڈی سانس میں
جس کے چلتے آرے کی یہ دھار اب
میرے دل کو چیرنے لگی ہے
سب کچھ والے، سب کچھ تو تجھ سے تھا
اپنی روح کے اس خاکی سے دکھاوے کی خاطر، اک میں ہی
جھوٹے خیالوں کی یہ کچی تیلیاں جوڑ کے
اپنے گمانوں کے قلعے میں یوں اب تک دربند تھا
ورنہ ساری صولتیں تو اس نام کو حاصل تھیں جو تیرے ظاہر و مخفی وجود سے باہر
تیرا اسم ہے
سچی عزتوں والے، ان سب کائناتوں میں جو کچھ عیاں ہے اس سے بھی بڑھ کر
اظہر ہیں تیری عطائیں، جن کے ستر میں ناموس
ان سب ناموں کے جو سورج کے نیچے جلتے ہیں
یا جو مٹی کے اندر جیتے ہیں
مرے نجس، نکمے، ناری نام کو اپنے کرم کی رمزوں کے زمروں میں رکھنا
(11-8-1972)

*** مجھ کو ڈر نہیں... ***

مجھ کو ڈر نہیں اس کا، آج اگر میں ڈرتا ہوں اس قہقہے سے جو میری اس آواز سے ٹکرایا ہے
یہ میری آواز جو اک اور شخص کے دل سے سدا ابھری ہے...
آج اس خوف کا دن ابھرا ہے، اور کل بھی شاید یہ قہقہہ حاوی ہو گا اس آواز پہ جو میری آواز ہے
اور جو اک اور شخص کے دل سے سدا ابھری ہے
اور اس شخص کا دل تو گونجتا زمانہ ہے، اور میرے دل میں کبھی نہیں بیتا وہ دن جب
ان راہوں پر
اس کے تنہا ہاتھ میں مشعل کی لو اور اس کے تنہا قدموں میں زمانوں کی آہٹ
اک ساتھ بڑھی تھی میری جانب
آج اک قہقہے کی کالی قاتل برچھی، جو میرے دل کو کاٹ گئی ہے
اس آواز کے سینے میں پیوست ہے
آج اس قہقہے سے ڈرتا ہوں، لیکن آج کے اپنے ڈر سے میں نہیں ڈرتا
اک دن آئے گا جب وقت اپنی آواز میں جاگے گا، سب کالے قاتل قہقہوں پر حاوی
(18-8-1972)

*** غزل ***

اک سانس کی مدھم لو تو یہی، اک پل تو یہی، اک چھن تو یہی
تج دو کہ برت لو، دل تو یہی، چن لو کہ گنوا دو، دن تو یہی
لرزاں ہے لہو کی خلیجوں میں، پیچاں ہے بدن کی نسیجوں میں
اک بجھتے ہوئے شعلے کا سفر، کچھ دن ہو اگر کچھ دن تو یہی
بل کھائے، دکھے، نظروں سے رِسے، سانسوں میں بہے، سوچوں میں جلے
بجھتے ہوئے اس شعلے کے جتن، ہے کچھ بھی اگر کچھ دن تو یہی
میں ذہن پہ اپنے گہری شکن، میں صدق میں اپنے بھٹکا ہوا
ان بندھنوں میں اک انگڑائی، منزل ہے جو کوئی کٹھن تو یہی
اس ڈھب سے جییں سینوں کے شرر، جھونکوں میں گھلیں، قدروں میں تلیں
کاوش ہے کوئی مشکل تو یہی، کوشش ہے کوئی ممکن تو یہی
پھر برف گری، اک گزری ہوئی پت جھڑ کی بہاریں یاد آئیں
اس رُت کی نچنت ہواؤں میں ہیں، کچھ ٹیسیں اتنی دکھن تو یہی
(8-9-1972)

*** عرشوں تک... ***

عرشوں تک اونچے آدرش کے فیضانوں میں بھی
اسی طرح سے ہمیشہ ڈرتے رہے ہیں لوگ ان لوگوں سے جو
اپنے لمبے بازوؤں میں سب تدبیریں رکھتے ہیں
اور یہ کون بتائے، اس اک ڈر کے ناطے کتنے کچے ہیں، کتنے سچے ہیں

تدبیروں والوں کی گردنیں ہل نہیں سکتیں
لیکن ڈرے ہوئے لوگوں کی اک اک التجا کو اپنی پلکوں سے چن لیتی ہیں وہ آنکھیں جو
ان سب موٹی موٹی گردنوں، خودسر کھوپڑیوں سے جھانکتی ہیں، فاتح فاتح، نازاں نازاں
اور یوں طاغی روحوں کو عظمت کی غذا ملتی ہے
اور یوں ناتواں چیونٹیاں قدموں کے نیچے پسنے سے بچ جاتی ہیں
اور میں نے یہ دیکھا ہے روز ان خشت کدوں کے اندر اک اک ہمہماتے چھتے میں
جس میٹھے، مٹیالے شہد کی بانٹ ہے
اس کو نارسا عاجزیاں ان پھولوں سے حاصل کرنی ہیں جو
فرعونوں کے باغوں میں کھلتے ہیں
زینہ بہ زینہ، اک اک بام پہ بت اور ان کی لکھ لٹ آنکھیں، ہنستی، ارذل خوشیاں بانٹتی
روز و شب کی احتیاجوں میں... یوں ہی فرشوں کے دھندے چلتے ہیں
عرشوں تک اونچے آدرشوں کے سایوں میں
(12-9-1972)

*** کل... جب... ***

آخرتمہیں بھی سوجھی یوں ہم ڈرے ہوؤں سے ڈرنے کی
نا بھئی، اب ہم پھر نہ کہیں گے بات یہ جینے مرنے کی
ابھی سنی جو تم نے کتھا یہ موت کے مشکل لمحے کی
وہ تو جیتے جی، خود جی سے گزرتی سوچ کی کروٹ تھی
کاہے کو تم گھبرا گئے، یہ تو روپ تھا خود سے لگاوٹ کا
یونہی ذرا کچھ اپنے آپ سے روٹھ کے ہم نے دیکھا تھا
اچھا، مان لیا... ہیں زخم ان بھیدوں کے سب دُکھن بھرے
ہونے اور نہ ہونے کے اس الجھیڑے میں کون پڑے
چھوڑیں بھی وہ جھوٹی سچی بات... ذرا اب دنیا کو
اک نظر ہم اپنی شکم سیر آنکھوں سے بھی دیکھیں تو
تمہیں خبر ہے، تم سچے ہو، دنیا کی یہ انوکھی دھج
صرف اِک سورج سے ہے، وہ بھی تمہارے چہرے کا سورج
تم سچے ہو، جو کچھ بھی ہے جیتے دنوں کا میلا ہے
مٹی جسم ہے، مٹی نور ہے، مٹی وقت کا ریلا ہے
ہرے بھرے میدان، ابلتے قریے، باسمتی کی باس
سانسیں، عمریں، قدریں... سب کچھ سکے، پہیے، چربی، ماس
سب تقدیریں، سب ہنگامے، سب یہ مسائل بھنور بھنور
سب کچھ ایک خنک سا جھونکا، تمہارے رخ کے پسینے پر
اچھا، اب توخوش ہو... اَب بھی سنو تو میرا دل یہ کہے
بھائی، کل کیا ہو گا ... کل جب بیگھے خون میں بھیگ گئے
(14-9-1972)

*** دل تو دھڑکتے... ***

دل تو دھڑکتے آگے بڑھتے قدموں کا اک سلسلہ ہے
دل کا قدم جو گزرتے وقت کی منزل طے کرتا ہے
ساتھ ہی، ایک ہی وقت میں، بیتے وقتوں کی جانب بھی بڑھتا ہے
دل پر وقت کی جو منزل ہے، طے نہیں ہوتی...
بس اک انجانی سی آگہی ہے جس کی بیدارمسافت پر سب مرحلے
اک ساتھ اپنی گزرانوں کی نیندوں میں
جاگتے ہیں
بیٹھے بیٹھے آج اس کیفیت سے ڈر اٹھا ہوں، جس کو میں پہچانتا ہوں اورجس کی بابت
جانتاہوں، یہ کیفیت اس وقت ابھرے گی
آنے والے دِن جب گزرے دنوں کی منزل سے گزریں گے
گزرے ہوئے زمانوں کی منزل سے گزرنے والے... آنے والے دنوں کا
خیال آتے ہی
وقتوں کی کچھ سطحیں دل کے دھڑکتے قدموں کے نیچے سے سرک گئی ہیں
دل کو سہارا دینے والا اِک ڈر، من کو لبھانے والی ایک اداسی
جن کا کوئی ابد ہے اور نہ عدم ہے
پل بھر میری زیست کا حصہ رہے ہیں
گزرے دنوں کی خوشیاں آنے والے غموں کا جزو نظرآتی ہیں
(16-9-1972)

*** اور یہ انساں... ***

اور یہ انساں... جو مٹی کا اِک ذرّہ ہے... جو مٹی سے بھی کم تر ہے
اپنے لیے ڈھونڈے تو اُس کے سارے شرف سچی تمکینوں میں ہیں
لیکن کیا یہ تکریمیں ملتی ہیں
زر کی چمک سے؟
تہذیبوں کی چھب سے؟
سلطنتوں کی دھج سے؟
نہیں... نہیں تو!
پھر کیوں مٹی کے اس ذرّے کو سجدہ کیا اک اک طاقت نے؟
کیا اس کی رفعت ہی کی یہ سب تسخیریں ہیں؟
میں بتلا دوں:
کیا اس کی قوت اور کیسی اس کی تسخیریں؟
میں بتلا دوں:
قاہر جذبوں کے آگے بے بس ہونے میں مٹی کا یہ ذرّہ
اپنے آپ میں
جب مٹی سے بھی کم تر ہو جاتا ہے، سننے والا اس کی سنتا ہے
سننے والا جس کی سنے، وہ تو اپنے مٹی ہونےمیں بھی انمول ہے
(24-9-1972)

*** اور پھر اک دن... ***

اور پھر اک دن میں اور تم جب ان اونچی نیچی دیواروں کے جھرمٹ میں اترے
جن میں کبھی ہماری روحوں کو زندہ چن دیا گیا تھا...
اس وقت آنگن آنگن میں، ترچھی کرنوں نے
دھوپ کے کنگرے سایوں کی قاشوں میں ٹانک دیے تھے
دیکھا ہوا سا کوئی سماں پرانا اس دن ہم نے دیکھا
یوں لگتا تھا جیسے آسمانوں کی روشنیاں جھک کر اس اک قریے کو دیکھ رہی تھیں
اور ہمیں تب وہ دن یاد آئے جب موت ہماری زندگیوں سے گزر رہی تھی، ایسی ہی
صبحوں کی اوٹ میں
ہم ان زینہ بہ زینہ منڈیروں کے جھرمٹ میں تھے اور اس شہر کے لوگ
اب بھی گلیوں میں
خوانچے لگائے اپنی زندگیوں کو بیچ رہے تھے
اور پھر ہم نے سوچا، کون اچھا ہے، ہم جو مردہ چہروں سے جینے کی خواہش
پاتے ہیں، یا وہ جو
ہم کو زندہ دیکھ کے ہماری موت کو مان لیتے ہیں
ابھی ابھی تو میرے ساتھ تھے تم، اے گزرے ہوئے زمانوں کے خیالو! پھر کب لوٹو گے؟
اک دن پھر بھی تمہارے ساتھ اس خاک کے تختے تک جاؤں گا
جس سے ڈھکے ہوئے بے نور گڑھوں میں کچھ نادیدہ آنکھیں
ہم کو دیکھ کے اَب بھی ہنس ہنس اٹھتی نظر آتی ہیں
(28-9-1972)

*** لیکن سچ تو یہ ہے... ***

لیکن سچ تو یہ ہے، صرف ہمیں جھٹلا سکتے ہیں اپنی جھوٹی سچائی کو
ورنہ اپنا حال تو یہ ہے، ظاہر کرنے کو تو یوں ظاہر کرنا جیسے ہم جیتے ہیں بس کچھ
ایسے خود مست یقینوں میں جو
صرف ہمیں کو اپنے بارے میں حاصل ہیں...
لیکن اندر ہی اندر یہ باور کرنا ’’آنے والی اگلی سانس تو بڑی کٹھن ہو گی، جب تک
ہم اپنے اس بہروپ کو ترک نہیں کر دیتے‘‘
زندگیوں کے برتاووں میں اپنے جھوٹ سے ہم لوگوں کو دہلاتے ہیں
اور اپنے سچ سے خود سہمے ہوئے رہتے ہیں
ایسا کون ہے جس کی طلب دنیا میں بے بہروپ ہے
اور خودمست آنکھوں کی ساحر ٹکٹکی اور لب بستہ حلقوموں کی مخفی تلخی
کے پیچھے تو جانے کس کس مجبوری کا عمل ہے
کالی ریت کے جلتے صحراؤں میں شکم کی پیاس انہی خودمست آنکھوں کے روشن
روزنوں سے میٹھے چشموں کی چمک کو سونگھتی ہے
لوگ کسی کو کتنا ہی بےفکر تفکر والا سمجھیں، پر یہ تو اس کا دل ہے
جانتا ہے، میٹھے چشمے کتنے دور ہیں جو لوگوں کو اس کی آنکھوں میں لہراتے نظر آتے ہیں
(29-9-1972)

*** ہم تو اسی تمہارے سچ... ***

ہم تو اسی تمہارے سچ کے کباڑ میں تمہارے ساتھ یہیں پر کُرم کُرم بستے ہیں
تم کیا جانو...
اکھڑی ہوئی جڑوں والی دیواریں گرتے گرتے ماتھے جوڑ کے جس کونے میں ٹھٹک گئی تھیں
وہیں کہیں وہ چھوٹی سی میری دنیا تھی... یہ بسرام تو تیاگ میں مجھ کو ملا تھا...

’’اور تمہیں کیا چاہیے... مزے مزے سے بیٹھ کے
اپنے دانت اَب کچکچاؤ تم اندھیروں سے اس بھرے ہوئے چھوٹے سے ڈبے میں
یہ چھت جس پر ڈھکنا ہے
چونک کے میں نے دیکھا، گلتے، بھربھرے کاغذ، اک میری نظم کے سارے حرف
اب ان کے جبڑوں میں تھے
اور تب میں نے سوچا، دھنسی پرانی لحدوں میں بل کھاتے کرمکوں کی خوشدامنیں
دیمکیں سچ کہتی ہیں
جو اس گدلی یکسوئی میں بیٹھ کے کالی روشنائی کے ریزوں کو یوں کُرم کُرم چبتی ہیں
لاکھ حرفوں میں علموں کا جو گودا تھا، اَب وہ ان دانتوں کی کترن ہے...
تلواروں کی نوکوں سے لکھے ہوئے لفظوں کی صورت میں سرسراتی زنجیریں اب
ان آنتوں کی اترن ہیں
سارے لیکھک اپنی لکھتوں میں پس گئے ان جبڑوں کے بیچ... ان سب پر
دھوپ کفن تھی
دیمکیں سچ کہتی ہیں... واقعی باہر موت کی شرطوں پر جیتے ہیں جینے والے...
اکثر میرے تعاقب میں آئی ہیں ان آنکھوں کی گردش کرتی کرگسی پتلیاں
آنکھیں جو یوں اپنی پلکوں پر میرے لفظوں کو تولنے میں میری نبضوں کے بقایوں کو بھی
گن لیتی ہیں
’’تم رہو ڈرتے عقباؤں سے... ہم سے جو پوچھو تو ہماری ہی سب گوتیں ہیں
جو آخرتوں کے گوشت کدوں میں، زعفرانی ڈوروں والی کافوری خلعتیں اوڑھ کے
مزے مزے سے مٹی چچوڑتی ہیں
تم پڑے یونہی ڈرتے رہو اے لمبی ٹانگوں والے انسانی مکوڑو...‘‘
(8-10-1972)

*** کبھی کبھی تو زندگیاں... ***

کبھی کبھی تو زندگیاں کچھ اتنے وقت میں اپنی مرادیں حاصل کر لیتی ہیں
جتنے وقت میں لقمہ پلیٹ سے منہ میں پہنچتا ہے... اور
اکثر ایسی مرادوں کی تو پہنچ بھی لقموں تک ہوتی ہے
اور جب ایسی منزلیں بارور ہوتی ہیں تو شہر پنپتے ہیں اورگاؤں پھبکتے ہیں... اور
تہذیبوں کی منڈیوں میں ہرجانب قسطاسوں کی ٹیڑھی ڈنڈیاں، روز و شب تیزی تیزی سے
انسانوں کی جھولیوں میں رزقوں کی دھڑیاں الٹتی ہیں... اور
بھرے سماجوں میں شدھ تلقینوں کی ڈونڈیاں پیٹنے والے بھی اپنی اپنی پیغمبریوں کی
تنخواہیں پاتے ہیں...
لیکن کس کو خبر ہے، ایسی بھی ہیں منزلیں جن تک جانے والے رستوں پر نہ دعا کا سایہ
ہے نہ قضا کا گڑھا ہے
کچھ ہے بھی تو بس اپنی سوچوں کی دھجیوں میں سمٹی ہوئی اک بےچارگی، جس کی بےصدا
ہوک میں عمریں ڈوب جاتی ہیں
اور قطبوں سے قطبوں تک اڑ اڑ کر جانے والے تھکے پروں کی کمانیں بھی تو
اک منزل پہ چمکتی آبناؤں کی سمت لچک جاتی ہیں ...
لیکن ہائے وہ منزلیں، جن تک ہر سچائی رستہ ہے اور ہر سچائی موت کا جیتا نام ہے
(19-10-1972)

*** سب سینوں میں... ***

سب سینوں میں یکساں بٹے ہوئے ہیں علم اک دوسرے کے سب احوالوں کے
اور سب سینے خالی ہیں ان دانستوں سے
جن میں یک جانی کی نشو و نما ہوتی ہے
اپنی اپنی اناؤں کے ان بےتسنیم بہشتوں میں سب الگ تھلگ ہیں
ان کے علموں کی ڈالی پر استفہاموں کا میوہ نہیں لگتا
سب نے اپنی دانستوں سے ابھرنے والے سوالوں کی جانب دروازے اپنے دلوں کے مقفل کر کے
چابیاں اب دوزخ کے پچھواڑے میں پھینک بھی دی ہیں
ایسے میں اَب کون سنے گا کسی کا شکوہ
اندر تو سینوں میں پہلے سے اتنا غوغا ہے اپنی ہی سانسوں کا
راکھ کے ذرّوں سے زر ریز ے نتھارنے والے اشک آلود خیالو!
کہو تمہیں کچھ سوجھا، اپنے غبار کی اوٹ میں
ہمیں تو پہلے ہی سے پتا تھا
مرنے سے پہلے لوگ اپنے جاننے والوں کےعملوں میں مرتے ہیں
(4-11-1972)

*** برسوں عرصوں میں... ***

برسوں عرصوں میں اب نیندوں میں جاگے ہیں
خواب، جو جاگتے دنوں کے آنسوؤں میں جیتے تھے
خواب، جو کل بیداری میں بھی اپنے نہیں تھے
جو اب نیندوں میں بھی اپنے نہیں ہیں
صرف یہ آنسو ہمیشہ سے اپنے تھے، جن میں ان خوابوں کی جوت جلی تھی
کسے خبر کیسی ہیں دوریوں کی یہ دنیائیں جو برسوں عرصوں ہمارے دلوں سے بعید رہتی ہیں
اور اچانک کبھی ہم اپنی زندگیوں کو ان کے چمکتے مدار میں پاتے ہیں پل بھر کو
پل بھر اتنے قریب تک آ کر پھر وہ دوریاں اپنے سدیمی سفر پر ہم سے دور اور دورتر ہو جاتی ہیں
اور ہمارے آنسوؤں میں ان کے عکسوں کی قربتیں بھی دھندلا جاتی ہیں...
کیسے ہیں یہ انجمیں قافلے، جن کا پڑاؤ کبھی برسوں میں پل بھر کو روحوں کے
ساحلوں پر ہوتا ہے
تو وقتوں کے دریاؤں میں روشنیوں کے دودھ بہتے ہیں
اور پھر عمر بھر آنکھیں اپنے آنسوؤں میں ان تسکینوں کو ترستی رہ جاتی ہیں
(7-11-1972)

*** آنے والے ساحلوں پر... ***

آنے والے ساحلوں پر تو جانے کن قدروں کی میزانیں ہیں
لیکن ان سب بھرے جہازوں کو دیکھو، یہ قدآور مستول اور ممتلی بادبان...
عرشے عرشے پر یہ بوجھل روحوں، چکنی آنکھوں والے مسافر ...
کس نخوت سے، کن اطمینانوں میں تیرتے ہیں یہ بیڑے...
جن میں لدے ہوئے یہ خزانے آنے والے ساحلوں پر سب مٹی کے دانے ہیں

اور اس ڈوبنے والے کو دیکھو... اک موج کے بل پر آخری بار ابھر کر
دور سے اس نے بادبانوں کی دھندلی قوس کو کس حسرت سے دیکھا...
اور اس کے دل میں وہ دولت تھی، آنے والے ساحل جس کی قیمت ہیں ...
اور ان جیتی ہانپتی سڑکوں کے پتھریلے سمندر... مڑتے اور لہراتے...
اپنی منجدھاروں اور اپنے ساحلوں کو یوں روز اچھالتے ہیں میری نظروں کے سامنے
دنیاؤں اورعقباؤں کے اس سنگھم پر...
اور میں خالی ہاتھوں سوچتا ہوں… کون ایسا ہے جو
ان سنگین تریڑوں کے جب پار اترے تو اس کے پاس وہ سامگری ہو
آنے والے گھاٹ پہ جس کا مول ہے
(1-12-1972)

*** خوردبینوں پہ جھکی... ***

خوردبینوں پہ جھکی آنکھوں کی ٹکٹکی کے نیچے دنیا کے چمکیلے شیشے پر اپنے لہو کی چکٹ میں
کلبلاتے، بےکل جرثومو!
دیکھو، تمہارے سروں پر گرداں خوردبینوں میں گھورتی آنکھیں تقدیروں کی
تم سے کیا کہتی ہیں، سنو تو...
’’بھرے کُرے پر جڑجڑ جیتے کرمکو، تم کب تک سورج کی کرنوں کا میٹھا کیچڑ چاٹو گے...
گیلا ریتلا سرد اندھیرا ہے آگے تو...

آگے تو جو کچھ ہو ...
لیکن آج تمہارے جڑے جڑے جسموں کی لپٹوں اور تمہاری گتھم گتھا روحوں کے گچھوں کے
اندر جب میرے دبلے سے دل نے اچانک
اپنے اکیلے پن میں اپنا رخ اپنی جانب دیکھا ہے تو تم میں ہوتے ہوئے بھی میرے دل کو تم پہ
ترس آیا ہے
آگے تو جو کچھ ہو...
دنیا کے دھبے میں بھری ہوئی ہم سب بےچہرہ بےکل روحیں، ہم سب کلبلاتے جرثومے
آگے جو کچھ ہو... اِک بار تو خود پہ ترس کھا کر دیکھیں...
شاید ہم کو دیکھنے کے لیے تقدیروں کو اپنی خوردبینوں کے زاویے بدلنے پڑیں...
(9-12-1972)

*** صدیوں تک... ***

صدیوں تک، اقلیموں اقلیموں، زندہ رہتا ہے ایک ہی جسم
پگھلا ہوا، بےجسم ... اک جسم
اپنے چلن کے چولے میں
ایک یہی پیکر
جس میں روحیں آ آ کر اپنی میعادوں میں چکراتی ہیں، کھو جاتی ہیں
زندہ رہتا ہے صدیوں کے کبڑے گھروندوں میں
زندہ ہواؤں میں

اور جب اس کا زمانہ نیلے دھوؤں میں گہنا جاتا ہے
تو بھی اس کی زندگی لہک لہک جاتی ہے ان آنکھوں میں جو
گھنے گھنے باغوں کی طراوتوں سے بھر جاتی ہیں، جب تانبے کی دیواروں کے جنگل میں کہیں
شہنائی کی دھن بجتی ہے
کالے کھمبوں کی نوکیں جب آسمانوں کے سائبانوں کو چھید دیتی ہیں
تو بھی، سدا اک جیتی سوچ کے سانچے میں ڈھل جاتی ہیں سایوں کی عمریں
جب کالے بادل گھر گھر کر آتے ہیں
لوہے کی لچکیلی پٹڑیاں جب عفریتوں کے قدموں سے کڑکڑاتی ہیں
تو بھی، سدا اِک گہری سانس کی نزدیکی میں سما جاتی ہیں ترستی دوریاں
شام کو جب تاروں کے ابد جل اٹھتے ہیں
(17-12-1972)

*** اپنے دکھوں کی مستی میں... ***

اپنے دکھوں کی مستی میں اک وہ خنداں چہرہ، جو میرے لیے خنداں تھا
اور وہ اپنی اک جنبش سے دونوں جہانوں کی سب زنجیروں کو جھٹک دینے والی بےکل پلکیں اور
وہ جذبیلی باغی آنکھیں، جو میری خاطر باغی تھیں
چاندنی میں کفنائے ہوئے ظلموں کی بستی کے ٹوٹے فرشوں پر
ان دو محرم سانسوں کے ادوار ... ان دو مونس قدموں کے زمانے
عجب ارادوں والی رات کے واقعے
جیتے واقعے
جن کے سامنے اپنے دل کی پسپائی کا میں شاہد ہوں
میں شاہد ہوں، جو کچھ بیتا اس سرکش مٹی کی طینت میں تھا
وہ سب کچھ اس طاغی دریا کی اک طغیانی تھی
دریا... جس نے صدیوں پہلے بھی اپنے رستے سے پلٹ کر اپنی ریت کی چادر پر
اک جلتی روح کی خاکستر کو جگہ دی
اک دنیا شاہد ہے، راکھ کی اس ڈھیری کے سامنے آج بھی
ارمانوں کی جبینیں جھک جھک جاتی ہیں، جس طرح میری روح ہمیشہ اس خنداں
چہرے کے دھیان میں جھکی ہے
جب سے میرے دِل کے دریاؤں نے رستے بدلے ہیں
(1-1-1973)

*** کالے بادل... ***

کالے بادل! تیرے خوف میں ڈوب کے میرے دریا رک جاتے ہیں
کالے بادل! تیری رو کے ساتھ امڈتے اندیشوں کی بابت سوچوں یا ان چڑھتے
پانیوں کو دیکھوں
جن پر یہ میری ناؤ رواں ہے ایسے ساحلوں کی جانب جو
میری آنکھوں میں بسنے والے چہروں کی اقلیمیں ہیں
تیری پرچھائیں کی حقیقت سے ڈرنے میں اپنی حقیقت بھی
مجھ کو پرچھائیں نظر آتی ہے
مجھ اک سائے کے یہ خدشے اور تجھ ایک حقیقت کی یہ ہیبتیں
ایک سدیمی ضابطے کی تربیتیں ہیں، جس سے ان دنیاؤں کی نمو ہے
کالے بادل! میرے ڈر کو جانچ اور اپنے دخانوں ہی میں بکھر کے گزر جا
ان دریاؤں کو بہنے دے جن میں میرے خیالوں کے یہ دھارے لہراتے ہیں
دھوپ ان پانیوں پر کھیلے گی تو وہ جزیرے چمکیں گے جو میری آنکھوں میں
بسنے والے چہروں کی اقلیمیں ہیں
(19-1-1973)

*** اندر سے اک دُموی لہر... ***

اندر سے اک دموی لہر ابھر کے جب ان کے چہرے کی وریدوں میں بھر جاتی ہے اور
جب اس امتلا میں لو گ اپنی گلابی آنکھوں کے بےحرف تبسم سے مجھ کو اپنے دل کی اک
تیکھی بات سناتے ہیں
تو میں کہتا ہوں: ’’مولا، تو نے دیکھا، میں تیری اک کیسی دنیا میں ہوں‘‘
پل بھر آنکھوں کے گوشوں تک آ کے پلٹتی پتلیاں، مجھ کو اچانک سامنے پا کر پہلے
تو دانستہ اچٹ جاتی ہیں
اور پھر دوسرے لمحے ہنستی آنکھوں کی جھیلوں میں تیر کے میری جانب جب کچھ اتنے
تپاک سے امڈ پرتی ہیں
تو میں کہتا ہوں: ’’مولا، تو نے دیکھا، میرے یہ اتنے صادق رابطے تیرے کیسے کیسے
بندوں سے ہیں‘‘
مجھ کو دیکھے بغیر جنھیں سب علم ہے، میں کس عالم میں ہوں، کچھ ایسی آنکھیں جب میری
جانب یوں تکتی ہیں
جیسے دنیا والے اک میّت کو اس کے مرے ہوئے ہونے کے وثوق میں تکتے ہیں
تو میں کہتا ہوں: ’’مولا! ان لوگوں کو میری زندگی کی بھی خبر دے‘‘
باہر گیلی گیلی سڑکوں پر، سرما کے ٹھنڈے محرم جھونکوں کے ساتھ، اس پامال سہانی دھوپ
میں تھوڑی دور چلا ہوں تو اب میرا دل کہتا ہے:
’’مولا، تیری معرفتیں تو انسانوں کے جمگھٹ میں تھیں، میں کیوں پڑا رہا اپنے ہی خیالوں کی
اس اندھیری کٹیا میں اب تک؟‘‘
(22-1-1973

*** دوسروں کے بھی علم... ***

دوسروں کے بھی علم سے باہر ہیں
وہ سب وابستگیاں جو میرے علم کی سرشاری ہیں
میرے علم سے بھی باہر ہیں
وہ سب وابستگیاں جو دوسرے کے علموں میں عزیز ہیں
لیکن سب وابستگیاں... سب کی وابستگیاں ان روحوں سے ہیں
جو مٹی میں یکساں، یک منزل ہیں
اک اک قبر پہ جلنے والا دیا گو الگ الگ گھر سے آتا ہے
لیکن سارے دیوں کی روشنیاں مل کر مٹی کے اک ہی عالم میں جھلملاتی ہیں
ایک ہی عالم، اپنے غیبوں میں ہر سو حاضر، حاوی
جس کے الگ الگ ڈانڈے اک اک دل سے ملے ہوئے ہیں
آسمانوں کے پیچھے؟
کہیں مٹی کے نیچے؟
جانے کہاں بہتا ہے آنسوؤں میں لتھڑی ہوئی نسبتوں کا وہ دریا...
جس کی اس اک رو کو ہی پہچانتا ہے ہر شخص جو صرف اس کے دل تک آتی ہے
وہ دریا جس کی طغیانیاں ناموجود زمانوں کے ساحل سے چھلک کے ہماری ان
پلکوں سے ٹپکتی ہیں تو
ہم کو ایک ایک دیا اک اک تربت پر الگ الگ جل اٹھتا نظر آتا ہے
سب علموں کی یہ تفریقیں ہیں، ورنہ آنسو کب جانب دار ہوئے ہیں
(5-2-1973)

*** بستے رہے سب... ***

بستے رہے سب تیرے بصرے، کوفے
اور نیزے پر بازاروں بازاروں گزرا
سر ... سرور کا
قید میں منزلوں منزلوں روئی
بیٹی ماہِ عرب کی!
اور ان شاموں کے نخلستانوں میں گھر گھر روشن رہے الاؤ
چھینٹے پہنچے تیری رضا کے ریاضوں تک خونِ شہدا کے
اور تیری دنیا کے دمشقوں میں بےداغ پھریں زرکار عبائیں
سامنے لہو بھرے طشتوں میں تھے مقتول گلابوں کے چہرے فرشوں پر
اور ظلموں کے درباروں میں آہن پوش ضمیروں کے دیدے بےنم تھے
مالک، تو ہی ان سب شقی جہانوں کے غوغا میں
ہمیں عطا کر
زیرِ لب ترتیلیں ان ناموں کی، جن پر تیرے لبوں کی مہریں ہیں
(12-2-1973)

*** دو پہیوں کا جستی دستہ... ***

دو پہیوں کا جستی دستہ تھام کے چلتے پھرتے میں نے
سدا اسی اک تول میں اک محسوس نہ ہونے والے چین سے
اس دنیا کو دیکھا
بڑھتے مڑتے، کالے بھنور سڑکوں کے
اور دورویہ وہ تختے پھولوں کے
پھول بلاتے بھی تھے اور میں رک بھی نہیں سکتا تھا
وہ دو پہیے ارض و سما تھے، وہ دو پہیے رک بھی نہیں سکتے تھے
پھولوں کے وہ دورویہ تختے ... اکثر ان کی بابت سوچا
کبھی تو آ کر باہم جڑتے چلے جائیں یہ تختے
ان پہیوں کے ساتھ ساتھ ان میرے قدموں کے نیچے
آگے... دور تک... جہاں بھنور ان سڑکوں کے مڑتے ہیں
(24-2-1972)

*** بات کرے بالک سے... ***

بات کرے بالک سے... اور بولے رہ چلتوں سے
اک یہ ذرا کچھ ڈھلی ہوئی شوبھا والی کوملتا
اس کے ستے ستے بال اور پیلی مانگ سے کچھ سرکا ہوا آنچل
دکھی دکھی سی دِکھنے کی کوشش کا دکھ
اس کے چہرے کو چمکائے اور اس کے دل کو اک ڈھارس سی دے
بڑے یقینوں میں مڑ مڑ کر دیکھے، جیسے کچھ رستے میں بھول آئی ہو
مڑنے میں وہ بات کرے اپنے پیچھے چلتے بالک سے، لیکن بولے مجھ سے، میری جانب
اپنی بات اور اپنی نظر کو یک جا کر کے!
دیکھنے میں شاید میں اتنا بھلا مانس نہیں لگتا
(24-2-1973)

*** جب صرف اپنی بابت... ***

جب صرف اپنی بابت اپنے خیالوں کا اک دیا مرے من میں جلتا رہ جاتا ہے
جب باقی دنیا والوں کے دلوں میں جو جو اندیشے ہیں ان کے الاؤ مری نظروں
میں بجھ جاتے ہیں
تب تو یوں لگتا ہے جیسے کچھ دیواریں ہیں جو میرے چاروں جانب اٹھ آئی ہیں
میں جن میں زندہ چن دیا گیا ہوں
اور پھر دوسرے لمحے اس دیوار سے ٹیک لگا کر... اپنے آپ کو بھول کر
میں نے اپنی روح کے دریاؤں کو جب بھی سامنے پھیلے ہوئے خودموج سمندر کی
وسعت میں سمو دیا ہے
میری قبر کی جامد پسلیاں اِک غافل کر دینے والے سانس کی زد سے دھڑک اٹھی ہیں
لیکن اس اک بےبہا غفلت کو اپنانا بھی تو کتنا کٹھن ہے
پھر دیواریں میرے گرد اٹھ آتی ہیں اور...
پھرخودآگہی کا دھندلا سا مقدس دیا مری ہستی کی قبر پر ٹمٹمانے لگتا ہے
(25-2-1973)

*** پھر مجھ پر بوجھ... ***

پھر مجھ پر بوجھ آ پڑتا ہے ان نظروں کا
جو دنیا میں واحد نظریں ہیں جو دنیا کی ہر شے میں مجھ کو دیکھتی ہیں ... اک مجھ کو
اور یوں مجھ کو دیکھنے میں ان آنکھوں کے آنسو حائل نہیں ہوتے، بلکہ پلٹ جاتے ہیں
پھر اس بوجھ کے نیچے میری اپاہج معرفتوں کا بازوبڑھ کے مرے دل کی کھڑکی کو
کھول دیتا ہے
جس کے کواڑوں سے پھر آ کر ٹکراتے ہیں
باہر زور سے چلنے والی غفلتوں کی آندھی کے تیز تیز جھونکے! وہ کھڑکی زور سے بند
ہو جاتی ہے اور
پھر ان سہمی ہوئی پتھریلی مستطیلوں سے ابل پڑتا ہے
اجلی اجلی زندگیوں کا دریا
جس کا پانی اتنا مہین ہے، سونے کے ذرے اس میں تیرتے صاف نظر آتے ہیں
جن میں میرے خیال بھٹک جاتے ہیں
سر سے سارے بوجھ اتر جاتے ہیں
بجلی کے پنکھے کی طوفانی جھنکارمیں
میرے چہرے پر ٹھنڈے جھونکے کی جھالریں بکھر جاتی ہیں
اور پھر یہ بھی نہیں میں سوچتا، میں کس جنت میں دوزخی ہوں
(1-3-1973)

*** کیسے دن ہیں... ***

کیسے دن ہیں! اب کے تو مجھ جیسی طاغی کو بھی، جس کی غفلت اتنی دوختہ چشم ہے
تو نے دکھائے
اپنے زمانے — جب وہ غیب کدوں سے چھلک کر پت جھڑ کی صبحوں میں جھلک
پڑتے ہیں
اپنے چشمے — جب ان میں بادل بہتے ہیں
اپنی جنتیں — جب وہ دوام کے بور سے لد جاتی ہیں
میں کب اس قابل تھا...
دنیا میں کون اس قابل تھا
دیکھ لے، ان راہوں پر تیری دنیا کے لوگ اپنے قیمتی فرغلوں، میلے کمبلوں میں
ڈوبے ہوئے کتنے
بےنسبت پھرتے ہیں ان مست ہواؤں سے جو تیرے لاکھوں جہانوں کی
گردش کا ثمر ہیں
(8-3-1973)

*** ان کو جینے کی مہلت... ***

ان کو جینے کی مہلت دے، جو تیرے بندوں کی خاطر جیتے ہیں
ورنہ ... تو ... اس نگری کا اک اک نگ کھوٹا ہے
...کوئی نہیں جو ناتواں ذرّوں کا راکھی ہو
کون ان کا راکھی ہے، صرف ان کی یہی دو آنکھیں، جن کی نگہداری میں زندہ ہیں
یہ ناتواں ذرّے
ذرّے، جن میں عزتیں ٹمٹماتی ہیں اس اک گھر کی جس پر محجوب اندیشوں
کی چھت ہے
ان آنکھوں میں جلنے والے مقدس ارمانوں کو روشن رکھ
میں ان آنکھوں کے ارمانوں کے دکھ میں جیتا ہوں
یہ دکھ مجھ کو زندگی سے بھی عزیز ہے
ان کو جینے کی مہلت دے جن کے جیتے رہنے میں اس دکھ، اس غم کی عفت ہے
ان کے دن تھوڑے ہوں تو میری زندگی ان کو دے دے
اس ہونی کے ہونے تک تو... اپنے ہونے تک تو... میں ہوں
اس وقفے کو ایسی راحتوں سے بھر دے، کچھ ایسی راحتیں
جو میں ان دو نگہدار آنکھوں کو دے سکوں، حیائیں جن کی زندگی ہیں
(21-3-1973)

*** جن لفظوں میں... ***

جن لفظوں میں ہمارے دلوں کی بیعتیں ہیں، کیا صرف وہ لفظ ہمارے کچھ بھی نہ کرنے
کا کفارہ بن سکتے ہیں؟
کی ا کچھ چیختے معنوں والی سطریں سہارا بن سکتی ہیں ان کا
جن کی آنکھوں میں اس دیس کی حد ویراں صحنوں تک ہے؟
کیسے یہ شعر اور کیا ان کی حقیقت؟
نا صاحب، اس اپنے لفظوں بھرے کنستر سے چلّو بھر کے بھیک کسی کو دے کر
ہم سے اپنے قرض نہیں اتریں گے
اور یہ قرض اب تک کس سے اور کب اترے ہیں
لاکھوں نصرت مند ہجوموں کی خنداں خنداں خونیں آنکھوں سے بھرے ہوئے
تاریخ کے چوراہوں پر
صاحبِ تخت خداوندوں کی کٹتی گردنیں بھی حل کر نہ سکیں یہ مسائل
اک سائل کے مسائل
اپنے اپنے عروجوں کی افتادگیوں میں ڈوب گئیں سب تہذیبیں، سب فلسفے...
تو اَب یہ سب حرف، زبوروں میں جو مجلّد ہیں، کیا حاصل ان کا...
جب تک میرا یہ دکھ خود میرے لہو کی دھڑکتی ٹکسالوں میں ڈھل کے دعاؤں بھری اس اک
میلی جھولی میں نہ کھنکے
جو رستے کے کنارے مرے قدموں پہ بچھی ہے
(24-4-1973)

*** غزل ***

اور اَب یہ کہتا ہوں، یہ جرم تو روا رکھتا
میں عمر اپنے لیے بھی تو کچھ بچا رکھتا
خیال صبحوں، کرن ساحلوں کی اوٹ سدا
میں موتیوں جڑی بنسی کی لے جگا رکھتا
جب آسماں پہ خداؤں کے لفظ ٹکراتے
میں اپنی سوچ کی بےحرف لو جلا رکھتا
ہوا کے سایوں میں، ہجر اور ہجرتوں کے وہ خواب
میں اپنے دل میں وہ سب منزلیں سجا رکھتا
انھی حدوں تک ابھرتی یہ لہر جس میں ہوں میں
اگر میں سب یہ سمندر بھی وقت کا رکھتا
پلٹ پڑا ہوں شعاعوں کے چیتھڑے اوڑھے
نشیبِ زینۂ ایام پر عصا رکھتا
یہ کون ہے جو مری زندگی میں آ آ کر
ہے مجھ میں کھوئے مرے جی کو ڈھونڈھتا، رکھتا
غموں کے سبز تبسم سے کنج مہکے ہیں
سمے کے سم کے ثمر ہیں، میں اور کیا رکھتا
کسی خیال میں ہوں یا کسی خلا میں ہوں
کہاں ہوں، کوئی جہاں تو مرا پتا رکھتا
جو شکوہ اب ہے، یہی ابتدا میں تھا امجد
کریم تھا، مری کوشش میں انتہا رکھتا
(24-5-1973)

*** صبح ہوئی ہے... ***

صبح ہوئی ہے، صبح جو نیندوں میں جینے والی اک موت سے جاگ اٹھنے کی انگڑائی ہے
سونے والو، تمہاری خاک آلودہ لمبی نیندیں میری اک اک شب کی
نیند کی ہمیشگیاں ہیں
سونے والو، جیسی تمہارے وقتوں میں تھی، اب بھی اسی طرح سے ہے یہ دنیا
صبحیں ... اور ان کے بعد آتی شاموں کے کالے جھونکے جن کے دامن میں
موت ہے نیندوں میں ابدائی ہوئی
اور گلی کی ٹوٹی سلاخوں والی نالی تک آ کر جب اک بوڑھے نے
اپنے کھوکھلے پوپلے سے جبڑے کو عصا کے خم پر رکھ کے جنازہ برداروں سے پوچھا:
’’کون تھا؟‘‘ ... تو گدرایا ہوا اک ماتمی بولا:
’’کوئی مہلت مند تھا، ہم تو کاندھا دینے چل پڑے اس کے ساتھ، کہ وہ سو برس جیا تھا‘‘
اور اک بےآب آنسو کی سسکی جب
بھرے محلے کے دروازوں اور منڈیروں سے گزری تو موت کی لذت سے
سب چہرے تمتما اٹھے
یہ سب اپنے خواب ہیں، سونے والو
خواب ہمارے جن میں تمہاری دنیا جاگتی ہے، اے سونے والو!
ہر روز ان صبحوں میں، اک اک شب کی موت کے ڈھلنے پر، اک اَن دیکھے
طائر کے گیت میں
مرنے والوں کے یہ بول ابھرتے ہیں: ’’جیہو ... جیورے ... جیو جیورے...!‘‘
سونے والو، تمہیں خبر ہے
اپنی ان نیندوں سے جاگ کے جب میں تمہارے دھیان میں جیتا ہوں تو
تمہاری نیندوں میں کفنائے ہوئے ارمان
مرے جینے میں جاگتے ہیں
(19-5-1973)

*** میرے دل میں ... ***

میرے دل میں غم کے دشنے کی دھار اتری ہے
دل کا اک ٹکڑا دل سے کٹ کر گرنے کو ہے
ایسے میں اک مونس سچائی ہنستی ہوئی میرے سامنے آتی ہے
اور میں اک ہاتھ سے اپنے دل کے گرتے ہوئے ٹکڑے کو دل پر جوڑ کے، کس کے
گہرے کرب کی لذت میں مسکا کر
دوسرے ہاتھ سے اس کو بڑھ کے سلام کرتا ہوں
پھر میں دیکھتا ہوں، دنیا والوں کی ملاقاتوں میں ہمیشہ
ہر سچائی کا اک ہاتھ تو صرفِ مصافحہ ہوتا ہے
اور دوسرا ہاتھ اتنی ہی مضبوطی سے اپنے دل کی گرتی ہوئی اک پھانک کو
دل کے ساتھ دبائے ہوئے ہوتا ہے
سچی بات جو دل کو لبھاتی ہے، اک دل سے دوسرے دل تک کس مشکل سے
سفر کرتی ہے
اتنی برکتوں والے مکر کی بھی کیا بات ہے
(30-5-1973)

*** مطلب تو ہے وہی ... ***

مطلب تو ہے وہی ... تم چاہے برف کے بلاکوں سے اک بھرے ہوئے رہڑے کو کھینچو...
(سامنے پل کی چڑھائی ہے، ہاں، دیکھ کے، بوٹ نہ پھسلیں...
اور اب تھم کے، آگے رستہ صاف ہے، عینک کے گیلے شیشوں کو پونچھو ... چلو ... چلو)
یا اک ڈسک پہ جھک کے لفظ تراشو، اپنے دل کی چٹان کو توڑ کے
دونوں صورتیں، ایک ہی بات
تمھیں تو اک اَن دیکھے تازیانے کی بےآواز آواز پر
عدل کی چکی پیسنی ہے اور عدل کی چکی میں خود بھی پسنا ہے
اس چکی سے گرتا گرم سنہرے آٹے کا جھرنا تو جانے کس کس کیفیت میں گندھے گا
اپنے جتنوں میں تم جن رتنوں کو ڈھونڈ رہے ہو، جانے کن پتنوں کے پار ملیں گے
اس دوران میں کُرے پھسلتے رہیں گے
جسموں کی سوجی ہوئی لہروں کا فرش اس دریا پر ٹوٹتا جڑتا رہے گا
کہیں کناری دار آنچل کے بیضوی چوکھٹے میں اک چہرہ
اک لب بستہ چہرہ
اپنے آپ یہ اپنی آنکھیں جھکاتے
سوچے گا: تم اس کی جانب کب دیکھو گے!

اور کہیں ظلموں کی زد میں دکھ کی اک چیخ
اپنے دردوں میں بہہ جائے گی یہ جان کے: تم امداد کو آ نہ سکو گے
ہاں... تو ... ڈر گئے نا تم ... تم اور کر بھی کیا سکتے تھے
اک یہ ڈر ہی تو وہ تمھاری قوت ہے، تم جس پہ بھروسا کر سکتے ہو
اک بار اور اپنی پوری قوت سے توجہ
ورنہ برف کے لفظوں میں سب آگ پگھل جائے گی
(12-6-1973)

*** کچھ دن پہلے... ***

کچھ دن پہلے کی بارش کے بعد… اب گیلی فضائیں سوکھ کے تڑخنے لگی ہیں
دھول کے ہلکے ہلکے آسمان جھکے ہوئے ہیں پانیوں پر جو
بھرے ہوئے ہیں دھان کی اک کیاری میں، پکی سڑک کے ساتھ ساتھ
سورج گرد کے پیچھے چھپا ہوا ہے
کیسا دن ہے
صرف اک ٹھنڈے سے جھونکے کی کمی ہے جس کا گزر ان آسمانوں میں ہے نہ
خیالوں میں
پکی سڑک پر صدہا پہیے گردش میں ہیں، کالے رزقوں کی سمت، آگ لگی آوازوں کے ساتھ
... اور
اک میں سوچتا ہوں، ہر سو، ہر شے پر، گرد کی تہہ کیوں ہے، موت پر بھی
اور زندگی پر بھی...
دل کہتا ہے:
شاید مینہ پھر بھی برسے گا
(13-7-1973)

*** غزل ***

بچا کے رکھا ہے جس کو غروبِ جاں کے لیے
یہ ایک صبح تو ہے سیرِ بوستاں کے لیے
چلیں کہیں تو سیہ دل زمانوں میں ہوں گی
فراغتیں بھی اس اک صدقِ رائیگاں کے لیے
لکھے ہیں لوحوں پہ جو مردہ لفظ، ان میں جییں
اس اپنی زیست کے اسرار کے بیاں کے لیے
پکارتی رہی ہنسی، بھٹک گئے ریوڑ
نئے گیاہ، نئے چشمۂ رواں کے لیے
سحر کو نکلا ہوں مینہ میں اکیلا کس کے لیے؟
درخت، ابر، ہوا، بوئے ہمرہاں کے لیے
سوادِ نور سے دیکھیں تو تب سراغ ملے
کہ کس مقام کی ظلمت ہے کس جہاں کے لیے
تو روشنی کے ملیدے میں رزق کی خاطر
میں روشنائی کے گودے میں آب و ناں کے لیے
ترس رہے ہیں سدا خشت خشت لمحوں کے دیس
جو میرے دل میں ہے اس شہرِ بےمکاں کے لیے
یہ نین، جلتی لووں، جیتی نیکیوں والے
گھنے بہشتوں کا سایہ ہیں ارضِ جاں کے لیے
ضمیرِ خاک میں خفتہ ہے میرا دل امجد
کہ نیند مجھ کو ملی خوابِ رفتگاں کے لیے
(14-7-1973)

*** ہر جانب ہیں... ***

ہر جا نب ہیں دلوں ضمیروں میں کالے طوفانوں والے لفظ۔ ہزاروں گھنی بھنووں کے نیچے
گھات میں
اب تو میرے لبوں تک آ بھی، حرفِ زندہ
ہر جانب گلیوں کے دلدلی تالابوں میں، بےستر، ہراساں کھڑی ہیں روحیں
قدم کھبے ہیں نیلے کیچڑ میں، اور ان کی ڈوبتی نظروں میں اک بار ذرا تیری تھی ان کی زندگی
ابھی ابھی، اک پل کو
اور اب پھر کالے طوفانوں والے لفظ ان کے لیے جانے کیا کیا سندیسے لائے ہیں
ان کو زندہ رکھیو، حرفِ زندہ!
مدتوں سے بے یاد ہے تو میرے نسیانوں میں، اے حرفِ زندہ
اب تو میرے لبوں پر آ بھی
اب ... جب میرے دیکھتے دیکھتے کالے طوفانوں والے لفظوں کا آبی فرش اک
بچھ بچھ گیا ہے، دور افق کے پیچھے، کہیں ان پانیوں تک جن پر اک ناخدا پیغمبر کی دعاؤں
کے بجرے تیرے تھے
میرے نسیانوں میں جہندہ، حرفِ زندہ
تیرے معنوں میں موّاج ہیں وہ سب علم جو روحوں کو کھیتے ہیں اس اک گھاٹ کی سمت
جہاں امید اور خوف کے ڈانڈے مل جاتے ہیں
اب تو ساری دنیا میں سے جس اک شخص کو ڈوبنا ہے، وہ میں ہوں
اب تو ساری دنیا میں وہ شخص جو تیر کے بچ نکلے گا، میں ہوں
(17-8-1973)

*** کیا قیمت... ***

کیا قیمت اس مٹی کی جو اب مٹی بھی نہیں ہے
آنسوؤں کے پانی سے نمک کا مالیدہ ہے
لاکھوں رُتیں گلابوں کی اس میں کافور ہیں
اس مٹی میں سونے والے نام سدا باقی ہیں دنیا والوں کے حرفوں کے حنوط سے
اس کی اک ڈھیری پر آنکھیں میچ کے ہاتھ اٹھاؤ تو دھیان ایسے ایسے خیالوں
کی جانب جاتے ہیں
جن سے دونوں جہاں زندہ ہیں
لیکن ہائے وہ مٹی جو اب مٹی میں مٹی بھی نہیں ہے
جس پر صدیوں کے گارے کی تہیں ہیں
دیکھو تو یہ مٹی کہاں نہیں ہے، کہاں کہاں یہ ہاتھ اٹھیں گے
کس کو خبر ان ٹھیکریوں سے ڈھکی ہوئی ڈھلوان کے نیچے
ان آہن ریزوں سے چنی ہوئی بنیاد کے نیچے
کس کس سونے والے کے کچے مسکن کی ڈاٹ ہے جس میں دیے ابد کے ٹمٹماتے ہیں
کہاں کہاں یہ ہاتھ اٹھیں گے
چلتے چلتے ذرا ٹھٹک کر سوچو تو، اک جھونکے میں لپٹ ہے ایسے ایسے
خیالوں کی جن سے یہ دونوں جہاں زندہ ہیں
(29-8-1973)

*** اے ری صبح... ***

اے ری صبح کی اجلی زرق برق گزرگاہوں پر چیختی، اڑتی، بےبس خوشبو
یہ نفرت کی دولت تجھ کو بھی تو خرید سکتی ہے
تو نے یہ تو دیکھا ہوتا، تیرا نظر نہ آنے والا بدن کن کن بدنوں پہ لباس ہے
تجھ سے اور کیا ہو سکتا تھا
اس طرح اب جن پیرہنوں نے تجھ کو جھٹک دیا ہے
تو نے ان کی سجل کریزوں پر یوں ٹوٹ کے گرنا ہی تھا
کیسی ہیں یہ سپردگیاں جن میں سچ کی رمزوں کی پسپائی ہے
تو نے یہ تو دیکھا ہوتا، تو جن شستہ پہناووں پر یوں لہلوٹ ہے
ان سے ڈھکے ہوئے جثّوں میں پل پل کیسے تریڑے پڑتے ہیں اس زرد لہو کے
جو کالے رزقوں سے کشید ہوتا ہے
اے اس دنیا کی اچھائیوں کے تت ست میں پنپنے والی روحوں کی روح
کبھی تو تو ان باغوں سے بھی گزرتی
جہاں وہ مہکتے پھول نہیں کھلتے جو دوزخوں کی ٹھنڈک ہیں
(16-9-1973)

*** اے دل اب تو... ***

اے دل، اب تو کچھ ڈر
اپنے یقینوں سے ڈر
اپنے نہ ڈرنے سے ڈر
اب تو تو نے اپنے سپنوں میں خود سن لیے ایسے ایسے بول
ان سنے ... سہانے
چلتی مشین گنوں سے چھدے ہوئے وہ بول، اک ان جانی بولی میں
بول، کہ جو مرنے والوں کی آخری کراہوں میں دم بھر کو جیے تھے
جب چوبی کھمبوں سے
بندھے ہوئے اعضا اس کڑے کساؤ میں آزادی سے تڑپ بھی نہیں سکے تھے
اور کھمبوں سے ڈھلک گئے تھے
گولیوں سے دھنکے ہوئے
ریزہ ریزہ
خوں چکاں!
اور ... وہ ان کے آخری مختصر، بول سہانے
اَن جانے وطنوں کے ترانوں کے وہ ٹوٹتے جڑے ماترے
اپنے اختیاروں میں اتنے بےبس اور اپنے اطمینانوں میں اتنے بےکل

وہ سب اتنے مقدس حرف جو خواب میں ان سب تصویروں کے ساتھ ابھرے تھے
خواب میں کتنے اچھے لگے تھے... اور اب جاگنے میں تجھ کو اپنے آپ پہ حیرت کیوں ہے
اب وہ پنکھڑیاں اس عجلت سے جھٹک بھی دیں تو نے اپنے دامن سے
اے دل، کچھ ڈر
اے دل، کچھ دیکھ
کتنے قیمتی، کتنے نازک ہیں یہ رابطے جن سے نظام ان تیری ٹک ٹک چلتی راحتوں کے
قائم ہیں ...
(18-9-1973)

*** اور ہمارے وجود... ***

اور ہمارے وجود، ہمارے خیال، ہماری عاجزیاں… سب اس کے لیے ہیں
جس کو ان کی ضرورت بھی نہیں، اپنی منشاؤں میں... اپنے فیصلوں کے وقت
سدا، زمانوں زمانوں، تہذیبوں تہذیبوں، کیسے کیسے تمرد والے قہقہے
اس کو بھلا دینے میں ابھرے ہیں جو ہمارے نسیانوں میں ہمیشہ سے اک جیتی یاد ہے
اپنے آپ کو دیکھوں تو خود بھی اپنے گمانوں کے بارے میں کیسے خیال رکھتا ہوں
میری حد تک فرق اتنا ہے
مجھ کو بھی اوروں کے جھوٹ نے روند ڈالا ہے
اب میں کس پر جھپٹوں، اس سچائی کے بل پر جو مجھ میں ہے اور جس کو جھٹلانے میں
لگی رہی ہیں میرے لہو کی گردشیں
کچھ ہو... اس کے ہست کا اجرا یا اس کے عندیے کی قطعّیت
کچھ ہو ... ہر حالت میں اس کو پسند ہے صرف اک وہ سچائی
جو سب سے پہلے مٹی کے اک پتلے کے دل میں سہمی ہوئی اتری تھی
اک ہی سچا انسان اس کے سامنے رہا ہے، ہر عالم میں، لاکھوں تیرتی ڈوبتی
تہذیبوں کے درمیان
(8-10-1973)

*** غزل ***

مل کر سب تعمیر کریں اک ارماں
اک یہ ملک، اور رزق اور گیت اور خوشیاں
جیتی مٹی! تیرے نام کی ٹھنڈک
میرے اک اک گرم آنسو میں پنہاں
گلی کوئی بےنام، مکاں میں بےنمبر
ہے آباد مرا گھر، کنعاں کنعاں
شفق دھلی میزوں کے گرد وہ چہرے
آنکھیں جن میں جییں کسی کے پیماں
دور سے دیکھو، اونچا پل اس شہر کا
پانیوں پر اک لوہے کی یہ کہکشاں
ذکر کا اک پل اس کمرے میں گراں اور
اک بےمصرف سال کا چلّہ ارزاں
لوحیں طاق پہ ہیں اور ان کے نوشتے
تقدیروں میں تڑپنے والے طوفاں
دنیا اک دائم آباد محلہ
اس اینٹوں کے ابد میں سائے انساں
(23-10-1973)

*** غزل ***

پھر تو سب ہمدرد بہت افسوس کے ساتھ یہ کہتے تھے
خود ہی لڑے بھنور سے! کیوں زحمت کی؟ ہم جو بیٹھے تھے
دلوں کے علموں سے وہ اجالا تھا، ہر چہرہ کالا تھا
یوں تو کس نے اپنے بھید کسی کو نہیں بتائے تھے
ماتھے جب سجدوں سے اٹھے تو صفوں صفوں جو فرشتے تھے
سب اس شہر کے تھے اور ہم ان سب کے جاننے والے تھے
اہلِ حضور کی بات نہ پوچھو، کبھی کبھی ان کے دن بھی
سوزِ صفا کی اک صفراوی اکتاہٹ میں کٹتے تھے
قالینوں پر بیٹھ کے عظمت والے سوگ میں جب روئے
دیمک لگے ضمیر اس عزتِ غم پر کیا اترائے تھے
جن کی جیبھ کے کنڈل میں تھا نیشِ عقرب کا پیوند
لکھا ہے، ان بدسخنوں کی قوم پہ اژدر برسے تھے
جن کے لہو سے نکھر رہی ہیں یہ سرسبز ہمیشگیاں
ازلوں سے وہ صادق جذبوں، طیب رزقوں والے تھے
(30-10-1973)

*** غزل ***

بنے یہ زہر ہی وجہِ شفا، جو تو چاہے
خرید لوں میں یہ نقلی دوا، جو تو چاہے
یہ زرد پنکھڑیاں جن پر کہ حرف حرف ہوں میں
ہوائے شام میں مہکیں ذرا، جو تو چاہے
تجھے تو علم ہے، کیوں میں نے اس طرح چاہا
جو تو نے یوں نہیں چاہا تو کیا، جو تو چاہے
جب ایک سانس گھسے، ساتھ ایک نوٹ پسے
نظامِ زر کی حسیں آسیا، جو تو چاہے
بس اک تری ہی شکم سیر روح ہے آزاد
اب اے اسیرِ کمندِ ہوا، جو تو چاہے
ذرا شکوہِ دو عالم کے گنبدوں میں لرز
پھر اس کے بعد ترا فیصلہ، جو تو چاہے
سلام ان پہ، تہہِ تیغ بھی جنھوں نے کہا
جو تیرا حکم، جو تیری رضا، جو تو چاہے
جو تیرے باغ میں مزدوریاں کریں امجد
کھلیں وہ پھول بھی اک مرتبہ، جو تو چاہے
(14-11-1974)

*** غزل ***

ہر وقت فکرِ مرگِ غریبانہ چاہیے
صحّت کا ایک پہلو مریضانہ چاہیے
دنیائے بے طریق میں جس سمت بھی چلو
رستے میں اک سلامِ رفیقانہ چاہیے
آنکھوں میں امڈے روح کی نزدیکیوں کے ساتھ
ایسا بھی ایک دور کا یارانہ چاہیے
کیا پستیوں کی ذلتیں، کیا عظمتوں کے فوز
اپنے لیے عذاب جداگانہ چاہیے
اب دردِ شش بھی سانس کی کوشش میں ہے شریک
اب کیا ہو، اب تو نیند کو آ جانا چاہیے
روشن ترائیوں سے اترتی ہوا میں آج
دو چار گام لغزشِ مستانہ چاہیے
امجد ان اشکبار زمانوں کے واسطے
اک ساعتِ بہار کا نذرانہ چاہیے
(19-11-1973)

*** غزل ***

صبحوں کی وادیوں میں گلوں کے پڑاؤ تھے
دور ایک بانسری پہ یہ دھن: ’پھر کب آؤ گے؟‘
اک بات رہ گئی کہ جو دل میں نہ لب پہ تھی
اس اک سخن کے وقت کے سینے پہ گھاؤ تھے
کھلتی کلی کھلی کسی تاکید سے نہیں
ان سے وہ ربط ہے جو الگ ہے لگاؤ سے
عیب اپنی خوبیوں کے چنے اپنے غیب میں
جب کھنکھنائے قہقہوں میں من گھناؤنے
کاغذ کے پانیوں سے جو ابھرے تو دور تک
پتھر کی ایک لہر پہ تختے تھے ناؤ کے
کیا رو تھی جو نشیبِ افق سے مری طرف
تیری پلٹ پلٹ کے ندی کے بہاؤ سے
امجد جہاں بھی ہوں میں، سب اس کے دیار ہیں
کنجن سہاؤنے ہوں کہ جھنگڑ ڈوراؤنے
(29-11-1973)

*** غزل ***

چمن تو ہیں نئی صبحوں کے دائمی، پھر بھی
ہے میرے ساتھ تو اب ختم قرنِ آخر بھی
مری ہی عمر تھی جو میں نے رائیگاں سمجھی
کسی کے پاس نہ تھا ایک سانس وافر بھی
خود اپنے غیب میں بن باس بھی ملا مجھ کو
میں اس جہان کے ہر سانحے میں حاضر بھی
ہیں یہ کھنچاؤ جو چہروں پہ آب و ناں کے لیے
انھی کا حصہ ہے میرا سکونِ خاطر بھی
میں اس جواز میں نادم بھی اپنے صدق پہ ہوں
میں اس گنہ میں ہوں اپنی خطا سے منکر بھی
یہ کس کے اذن سے ہیں اور یہ کیا زمانے ہیں
جو زندگی میں مرے ساتھ ہیں مسافر بھی
ہیں تیری گھات میں امجد جو آسمانوں کے ذہن
ذرا بہ پاسِ وفا ان کے دام میں گر بھی
(30-12-1973)

*** یہ دن، یہ تیرے شگفتہ دنوں کا آخری دن ***

یہ دن، یہ تیرے شگفتہ دنوں کا آخری دن
کہ جس کے ساتھ ہوئے ختم لاکھ دورِ زماں
چناب چین وہ دنیا، یہ عصر راوی رو
کبھی نہ ٹوٹنے والی رفاقتوں کے جہاں
وہ سب روابطِ دیرینہ یاد آتے ہیں
ترا خلوص، تری دوستی، ترے احساں
مسرتوں میں لہکتے ہرے بھرے ایام
قدم قدم پہ ترا لطفِ خاص ہمدمِ جاں
اور اب یہ تیرگیاں... اب کہاں تلاش کریں
وہ شخص پیکرِ صدق اور وہ فرد فیض رساں
رہِ عدم کے مسافر، ذرا پلٹ کے تو دیکھ
گرفتہ جاں ہے ترے غم میں بزمِ ہم نفساں
ترے کرم کی بہاروں میں سوگوار ہیں، دیکھ
ترے چمن کے گل و سرو و لالہ و ریحاں
امڈ امڈ کے سدا گزرے گی غموں کی یہ موج
دلوں کی بستیوں سے تا بہ ساحلِ دوراں
ابھی ابھی وہ یہیں تھا... زمانہ سوچے گا
انھی گلوں میں ہیں اس کے تبسموں کے نشاں
ابھی ابھی انھی کنجوں میں اس کے سائے تھے
ابھی ابھی تو وہ تھا ان برآمدوں میں یہاں
کوئی یقین کرے گا، اک ایسی عظمت بھی
کبھی تھی حصۂ دنیا، کبھی تھی جزوِ جہاں
ہمی نے دیکھا ہے اس کو، ہمیں خبر ہے وہ شخص
دلوں کی روشنیاں تھا، دلوں کی زندگیاں
ہمیں خبر ہے، بڑے حلم و آبرو والے
ترا مقام کسی اور کو نصیب کہاں
زمانہ سوچے گا، وہ ایک کون تھا تجھ سا
جو ان دیاروں سے گزرا تھا یوں گہر افشاں
اور اب جو تو نہیں، کچھ بھی نہیں، نہ ہم نہ حیات
ہر ایک سمت اندھیرا، ہر ایک سمت خزاں
جگہ جگہ تری موجودگی کو پاتے ہیں
ہمارے دردِ فراواں، ہمارے اشکِ رواں
ترے لیے جھکے مینائے کوثر و تسنیم
ترے لیے کھلیں درہائے روضۂ رضواں
(1973)

*** قطعہ ***

سنا ہے میں نے کہ شعری* تمھاری سمتِ سفر
بساطِ گل پہ بچھی برف کی سلوں میں ہے
تمھارا قافلۂ شوق جاگزیں اب کے
کنارِ کوہ پہ نیلم کے ساحلوں میں ہے
تمھیں تلاش ہے جس عالمِ مسرت کی
وہ سبز کنجوں نہ گل پوش منزلوں میں ہے
تمھارے بعد مجید امجد اور انجم ** نے
بسا لیا وہ سوات ان کے جو دلوں میں ہے
لذیذ پانی پیا، سیب کھائے، شعر پڑھے
اک ایسا دن کہاں دنیا کی محفلوں میں ہے
ہماری روح کی سیف الملوک جھیل کے پاس
ہمارا تذکرہ جنت شمائلوں میں ہے
کبھی کبھی جو ہمارے دلوں میں جھانکتا ہے
کہاں وہ لمحہ زمانے کے محملوں میں ہے
(24-4-1974)

(نوٹ: یہ قطعہ ارتجالاً لکھا گیا تھا۔)
* مجید امجد کے نہایت عزیز دوست جن کا قیام جھنگ میں تھا۔ انتقال ہو چکا ہے۔
**پروفیسر تقی انجم، سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج جھنگ: انتقال لاہور 2004


*** غزل ***

نئی صبحوں کی سیر کا یہ خیال
اپنے طغیان کی سزا یہ خیال
میّتوں کو لحد میں کلپائے
ہو سکے سجدہ اک ادا، یہ خیال
سب کی روحیں تھیں ریت کے بربط
اک مری زیست میں جیا یہ خیال
اتنے رنگوں میں یہ گلاب کے پھول
اتنے رنگوں میں موت کا یہ خیال
ابر ہیں امجد اور یہ جنتِ برگ
دیکھ سمتوں کو ربط کا یہ خیال
(1974)

(وفات کے بعد نامکمل شکل میں ملی)


رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *