اتوار، 21 فروری، 2016

ہمیں خود سے خطرہ ہے/تصنیف حیدر

میں نے نیوز چینل دیکھنا بند کردیا ہے۔ویسے بھی خبروں کی تجارت ہمارے یہاں بہت چل نکلی ہے۔یہ ایک اچھا سودا ہے، اس کے بہت سے پہلو ہیں، بہت سے زاویے ہیں۔ابتدا میں مجھے ٹیلی ویزن پر ہونے والی بحث بہت ہی اچھی لگا کرتی تھی، بہت غور سے سنا کرتا تھا۔ مگر میں اس تبدیلی کا گواہ ہوں، جس میں نیوز اینکر اس بحث کے تاروں کو جوڑنے والے ذریعے سے بڑھ کر ایک سوال طلب کرنے والا بابو بنا اور پھر دھیرے دھیرے غنڈہ بن گیا۔آپ کوئی بھی نیوز چینل لگائیے، نیوز چینلوں پر دندناتے، چیختے چنگھاڑتے نیوز اینکرز آپ کو سہماتے ہوئے، خوف کی ایک پرت چڑھانے کے لیے تیار رہیں گے۔ خبر سنانا، ایک بالکل الگ بات ہے، مگر اس پر اپنا تبصرہ پیش کرنا، اس کے حق میں فیصلہ دینا، کسی کو اچھا،برا ثابت کرنا ، یہ ساری باتیں ایسی ہیں، جن کی وجہ سے نیوز چینلز کے اینکر حضرات اب ہمارے سماج میں ایک ایسے فرد کے طور پر ابھرے ہیں، جنہوں نے پولیس کی غضب ناکیوں اور غنڈہ گردیوں کو بھی بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔پولیس والا آپ سے رشوت لے سکتا تھا، آپ کو جیل میں ڈال سکتا تھا، مگر اب بس یہ ہوگا کہ ایک روز آپ اپنے گھر بیٹھے ہونگے، کسی معاملے میں پولیس آپ سے تفتیش کرنے پہنچے گی اور وہاں خبر بنانے والی ایجنسی کا ایک دلال آپ کی ٹوہ میں موجود ہوگا اور پولیس جوں ہی آپ کا دروازہ کھٹکھٹائے گی ، وہ اس خبر کو ہاتھوں پر آگ کی طرح رکھ کر بھاگنے کی صورت اپنے چینل پہنچے گا اور اس بات کی تصدیق کردے گا کہ ہاں بھئی! فلانے کے گھر پولیس پہنچی ہے۔انسانی زندگی کے بالکل ذاتی معاملات میں دخل دینے کا پورا حق رکھنے والا یہ نیوز چینل اب ایک خبر بھاڑے کے ایک ٹٹو اینکر سے بنوائے گا اور پھر کچھ ہی دیر میں آپ ایک اچھے خاصے عزت دار شخص سے کریمنل، دیش دروہی ، فاشسٹ، سماج کے لیے خطرہ اور پھانسی کے حق دار شخص بن جائیں گے۔اس رویے سے زیادہ خطرناک مجھے یہ بات نظر آتی ہے کہ نیوز چینلز کے اسٹوڈیو میں کوئی شریف آدمی، جو کہ ایک اچھے عہدے پر فائز ہے، بیٹھا ہے اور میڈیا کا اجارہ دار اینکر اس سے دھمکا دھمکا کر اپنی مرضی کے جوابات حاصل کرنا چاہ رہا ہے، اب ایسے میں اس کی زبان پھسلے، وہ گھبراجائے، وہ پریشان ہو، ماتھے سے پسینہ پونچھے اور شامت اعمال اس کے منہ سے کوئی ایسا لفظ نکلے جس سے نیوز اینکر کو اپنی مرضی کا جواب بنانے کا موقع مل جائے، پھر ایک خبر تیار۔ نیچے فوراہی ایک پٹی چلنے لگے گی۔دنیا کے تمام بڑے ذہن ایسے نیوز چینلوں کو طلاق دے چکے ہیں، بعضوں نے تو انٹرویو تک پر پابندی لگا دی ہے۔آخر پیسے جمع کرنے کی دھن میں لوگوں کو اس طرح بے وقوف بنانے کا گر یہ نیوز چینلز کس طرح ایجاد کرلیتے ہیں۔اس کا جواب شاید ہمیں اپنے ہی گریبانوں میں ملے۔ہم لوگ وقت کے ساتھ بدلے نہیں، کچھ لوگوں نے ہمارے حق میں ہمیشہ سے جو فیصلہ کیا، ہم اسے چپ چاپ قبول کرتے چلے آئے۔ایک دن کچھ لوگ اٹھے ، انہوں نے کہا کہ ہم نے تمہیں غلام بنالیا ہے، ہم نے ان کی آقائی قبول کرلی، ایک روز کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم نے ملک تقسیم کردیا ہے، ہم نے ان کے اس فیصلے پر بھی اپنی کروڑوں جانیں قربان کردیں۔ یہ ایسے ہی کچھ لوگ زندگی کے ہر شعبے میں ہمیں اپنا غلام بنائے رکھتے ہیں۔ مذہبی اعتبار جس طرح ہمیں ایک ملا، ایک پروہت کی ضرورت ہوتی ہے، جو ہمارے اور خدا کے معاملات کے درمیان لٹھ لیے ہمیشہ کھڑا رہے، اسی طرح دنیاوی زندگی میں بھی ہمیں ایک ایسے نمائندے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، جو ہماری بات کرسکے، ہماری زبان بول سکے۔اگر کوئی نیوز چینل، ایسی خبریں دکھاکر ٹی آرپی لوٹ رہا ہے، جس سے نفرت پیدا ہوتی ہے، تو مان لیجیے کہ ہمارا نمائندہ ہماری ہی زبان پروس رہا ہے، جو کتنا ہی زہر آلود کیوں نہ ہو، مگر ہمیں اسے کھانے کی عادت ہے، شوق ہے، لت ہے۔وہ ہمارا نمائندہ ہے، تو ہم بھی تو کہیں نہ کہیں ایسے ہی ہیں۔بہت جلدی میں باتوں پر یقین کرلینے والے، بہت تیزی سے کسی کے حق میں فیصلہ کرلینے والے۔اس کی مثال اگر بہت سامنے کی دی جائے تو یہ ہوگی کہ اگر کسی عورت کو ہم سڑک پر سگریٹ پیتے، ٹھٹحہ لگاتے، پھٹی ہوئی ٹائٹ جینس پہنے دیکھ لیں تو اس کے حق میں جھٹ ایک فیصلہ صاد رکردیتے ہیں۔
اب بات کرتے ہیں جے این یو کی۔آج سے پہلے میرا اس معاملے میں یہ موقف تھا کہ اگر اس ملک میں کسی نے 'پاکستان زندہ باد'کے نعرے لگائے ہیں تو اس نے غلط کیا ہے اور اب بھی یہی مانتا ہوں کہ اس ملک میں پاکستان زندہ باد کے نعرے نہیں لگنے چاہیے، بلکہ کوئی بھی ایسی بات جو ایک ساتھ بہت سارے ہندوستانیوں کی دل آزاری کا باعث بنے، اسے کرنے کا حق کسی کو نہیں ہے۔مگر آج زی نیوز کے ایک صحافی کے اعتراف نے یہ بات صاف کردی ہے کہ جس ویڈیو کو اس گناہ کا مرکزی حوالہ بنایا گیا، اس میں پاکستان زندہ باد کے نعرے موجود ہی نہیں تھے۔سو ایسے میں وہ تمام لوگ جو وہاں تھے، کسی طرح قصور وار نہیں ہیں اور ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہیے۔اور اگر اس قسم کے نعرے اس میں موجود ہیں بھی،تو وہ کن لوگوں نے لگائے ہیں ، ان کو کیا سزادینی چاہیے،اس کا فیصلہ ہمیں نہیں عدالت کو کرنا ہے۔میری ذاتی رائے میں جس ملک میں آپ رہتے ہیں اس کی ترقی کی فکر، اس میں امن کی بحالی کی خواہش اچھی بات ہے،ہمیں ملک پرستی کے بجائے ملک سازی پر دھیان چاہیےکیونکہ سخت گیر قسم کی ملک پرستی ایک خراب چیز ہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح مذہب پرستی بہت سی بربادیاں لایا کرتی ہے، میرے نزدیک ہم اس پرانی حالت سے آج تک کیوں نہیں نکل پائے جس میں ایک بے جان جھنڈے کو اٹھائے رکھنے والا علمبردار، اپنی جان گنواکر اس جھنڈے کی حفاظت کیا کرتا تھا۔ میرے نزدیک کوئی بھی جھنڈا انسانی زندگی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔لیکن اس ذاتی رائے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں کسی اور کو جھنڈے کے احترام سے روکوں یا ملک پرست لوگوں کو برا بھلا کہوں۔مگر اتنا دھیان رکھیے کہ آپ کی ملک پرستی کہیں کسی اور کے جان و مال کے نقصان کا سبب تو نہیں بن رہی ہے۔اگر بن رہی ہے ، اگر ایسا ہورہا ہے، اگر اس سے بھی دہشت کے وہی تسمےپھوٹ رہے ہیں جو مذہب پرستی نے پیدا کیے ہیں تو پھر آپ کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔جہاں تک سوال ہے پھانسی کا، تو کسی بھی شخص کو پھانسی ملنی چاہیے یا نہیں۔اس کا فیصلہ صرف عدالتوں کو کرنا چاہیے، اگر آپ کی نظر میں عدالت اس کا فیصلہ کرنے کے لیے نا کافی ہے تو مان لیجیے کہ آپ جس جھنڈے کے لیے لڑ مررہے ہیں، اس کا سارا غرور وہاں کے سیکولر آئین کی بدولت ہے، اور جب یہ آئین ہی تار تار ہوگیا تو اس جھنڈے کی عظمت کوئی اہمیت نہیں رکھتی، اس کا وجود آپ نے خود خطرے میں ڈال دیا ہے،اس لیے خود سے سوال کیجیے کہ کیا یہ غداری کی ہی ایک صورت نہیں، کیا یہ آپ کی وہ نادان دوستی نہیں، جس سے بہتر کسی دانا کی دشمنی ہوتی ہے۔اور پھر ہر شخص کو پھانسی دینے کی سوچ کیا دہشت گردانہ نہیں ہے، دہشت گرد اور کرتا کیا ہے، اس میں اور آپ میں صرف اتنا فرق ہے کہ وہ قانون کے وجود سے انکار کرتے ہوئے کسی کو جان سے ماردینے کا فیصلہ خود کرتا ہے اور آپ کسی کو جان سے مارنے کے لیے قانون اور حکومت پر دبائو بنانا چاہتے ہیں، تو پھر آپ میں اور دہشت گرد میں صرف بال برابر ہی تو فرق رہا۔جب اپنا آئینہ گندا ہو، اس پر کیچڑ لگی ہو تو چہرے کی بدرونقی و بد صورتی کا الزام کسی اور پر دینے کا کیا مطلب ہے۔پھانسی ایک ایسا مرض ہے، جس کے خلاف دنیا کے بڑے لوگ رہے ہیں۔مثالیں بہت ہیں، مگر صرف اتنی بات سمجھیے کہ کسی کو جان سے ماردینے سے برائی جڑ سے ختم نہیں ہوسکتی، برائی ایک وائرس کی طرح ہے، جب آپ کے کمپیوٹر میں وائرس آتا ہے تو آپ اینٹی وائرس سے کام لیتے ہیں یا ہتھوڑا اٹھا کر اسی کو توڑدیتے ہیں۔اپنی عام زندگی سے کچھ سیکھیے، اپنے ارد گرد نظر ڈالیے، کیا ایسے لوگ نہیں ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی میں بدسے بدتر گناہ کیے اور ایک عمر پر جاکر انہیں اس کی سنگینی کا احسا س ہوا اور وہ اچھے راستے کی طرف لوٹ آئے۔پھانسی دے کر آپ انسان کو اس منزل سے دور کردیتے ہیں، جہاں اس کا احساس نہ صرف اس کے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی اچھائی کا سبب بن سکے۔اور پھانسی ہمارے ملکوں میں ویسے بھی سیاست کا ایک بڑا سہارا بنی ہوئی ہے، ہمارے سیاسی دوستوں کو جب محسوس ہوتا ہے کہ کسی کو پھانسی دینے سے ان کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوگا تو وہ دیش بھکتی ، ریپ یا کسی اور جرم کی پاداش میں لوگوں کو پھانسی پر چڑھا دیتے ہیں۔پھانسی ایک آدمی کو دی جاتی ہے، مگر اس سے ایک قسم کا آکروش لوگوں میں پیدا ہوتا ہے، وہ جو اسے غلط سمجھتے ہیں، کسی بھی نظریاتی وجہ سے، اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ پھانسی سماجی نقطہ نظر سے بھی ایک تباہ کن فیصلے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ انسانی ذہن کا مسئلہ بڑا عجیب و غریب ہے، جب اسے اپنے آس پاس اندھیرا محسوس ہوتا ہے ، تو ایک حد پر جاکر وہ اس اندھیرے کو قبول کرلیتا ہے، چاہے وہ موت کا ہی اندھیرا کیوں نہ ہو، ایسا بہت سے لوگ کرتے ہیں، روہت ویمولا نے بھی ایسا ہی کیا تھا، اس لیے موت مسئلے کا حل نہیں، اس اندھیرے کو روشنی میں بدلنے کی ضرورت ہے۔پھانسی اس اندھیرے کو کچھ ذہنوں میں اور گہرا کردیتی ہے، اس لیے یہ نفسیاتی طور پر بھی خطرناک ہے۔الغرض میں پھانسی کے جتنے بھی نقصانات گنوائوں کم ہے۔اور پھر ایسی جلد بازی کیوں مچی ہے ہمارے معاشرے میں، کسی نے اگر ملک کے خلاف نعرہ لگایا ہے تو اس سے وجہ پوچھیے، کوئی آزادی کا مطالبہ کرتا ہے تو اس سے پوچھیے، معلوم کیجیے ، جانیے کہ آخر اسے ہمارے ساتھ رہنے میں تکلیف کیا ہے، کیوں وہ ہم سے الگ ہونا چاہتا ہے، اس کی اس تکلیف کو دور کرنے سے ہی مسائل ختم ہونگے۔ہمیں وہ ماحول پیدا کرنا ہوگا، جس میں کوئی بھی ہندوستانی ہمارے ساتھ رہتے ہوئے سماجی، نفسیاتی،مذہبی سطح پر خود کو تنہااور کٹا ہوا نہ سمجھے، اسے محسوس ہو کہ ہمیں اس کے اپنے ہیں، جن کے ساتھ اسے تقویت محسوس ہوتی ہے، ہمیں لوگوں کے حقوق کا احساس کرنا ہوگا۔ہر خبر پر چاہے وہ کیسی ہی کیوں نہ وہ، فورا یقین کرلینے سے وہ ایک خبر نہیں رہ جاتی بلکہ ایک خنجر بن جاتی ہے، یہ خنجر صرف تباہی پیدا کرتا ہے۔
نعرہ کیا ہے، اس پربھی غور کیجیے، نعرے کے دو نفسیاتی پہلو ہیں، نعرے ایک جانب جھوٹے لوگوں کی قوت کا احساس کرانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں تو دوسری جانب سماج میں گھلے ہوئے کرب کے نمائندے ہیں۔نعرہ پہلی صورت میں تب لگایا جاتا ہے ، جب کسی پر اپنے گروہ ہونے کا رعب طاری کیا جائے اور دوسری صورت میں تب لگایا جاتا ہے، جب کسی سماج نے اجتماعی چیخ بلند کی ہو، آپ کے گھر میں کوئی درد سے کراہے، چیخے تو آپ اس پر تنگ ذہنی، کم قوت برداشت کا الزام لگاتے ہیں، اسے گھر سے باہر نکال دینے کی دھمکی دیتے ہیں یا پھر اسے ڈاکٹر کو دکھاتے ہیں، یہ چیخ چاہے اس کے کسی درد کی وجہ سے ہویا ذہنی توازن بگڑنے کی وجہ سے، اس کا درد جسمانی ہو یا ذہنی، علاج تو اس کا ڈاکٹر ہی کے پاس ہوگانا، اس لیے نعرے لگانے والوں کے دکھ اور درد کا علاج بھی ہمارے پاس ہے، کیونکہ سماج کے درد کا علاج کرنے والا تنہا ڈاکٹر صرف سماج ہی ہوا کرتا ہے۔اگر آپ اس درد کا علاج نہیں کریں گے تو یہ متعدی مرض کل آپ تک بھی ضرور پہنچے گا یا تو پھر تیار رہیے اس دن کے لیے کہ جب آپ چیخیں لگارہے ہوں اور یہی سماج، آپ کی جانب انگلی اٹھا کر کہہ رہا ہو کہ یہ شخص تو پاگل ہوا ہے، چنانچہ اسے پھانسی پر لٹکائو، ہم اس کی شکل نہیں دیکھنا چاہتے۔
حکومتوں سے سوال کیجیے، ان سے پوچھیے کہ پانچ برس کی حکومت کا تسلسل پچھلے ستربرسوں سے جاری ہے، اسی طرح جس طرح سورج نکلتا اور ڈوبتا ہے، مگر ہماری حالت کیوں نہیں بدلتی، ہمارے امراض کا علاج کب ہوگا، کب ہم غور کرنے کے لائق ہونگے، کب تک ہماری امن ، تعلیم اور ایک بہتر ذہن رکھنے والے سماج کی خواہشیں مذہب اور ملک پرستی کی گود میں لقوہ مارے بیٹھی رہیں گی۔ ہمیں جنگ قبول نہیں، ہمیں نفرت قبول نہیں، ہمیں درد قبول نہیں، پھر آخر ہم پر یہ چیزیں کیوں مسلط کردی گئی ہیں، اگر آپ سے یہ بھاری پتھر نہیں اٹھ رہا تو اسے چوم کر چھوڑتے کیوں نہیں۔کیوں جونک کی طرح ہمارا خون پچھلی سات دہائیوں سے چوسے چلے جارہے ہیں۔ہم نہیں سمجھتے کہ کسی کی آواز ، خواہ وہ ہمارے حق میں ہو یا ہمارے خلاف اس طرح دبائی جانی چاہیے، جس طرح آپ دبانے کا ہنر جانتے ہیں، آپ کا بہت اچھا طریقہ کار رہا ہے کہ اول کوئی مسئلہ سر ابھارتا ہے، پھر جب وہ بڑھ جاتا ہے اور اس کی لپٹیں آپ کے دامن تک پہنچنے لگتی ہیں تو آپ مذہب و ملک کی محبت کے جھوٹے توہین آمیز الزامات عائد کرکے ہمیں ہی آپس میں لڑوادیتے ہیں۔ہمیں نہ ملک کے لیے کرائے کے ٹٹوئوں کی ضرورت ہے، نہ مذہب کے لیے۔خدا کے ساتھ اپنے معاملے میں ہم اکیلے ہونگے، جس طرح زندگی کے معاملے میں ہیں اور اسی طرح ہمیں دھرتی کے معاملے میں ہونا چاہیے۔
ہم کہنا چاہتے ہیں کہ ہماری حفاظت کے نام پر جنگی ٹینکوں پر اتنا پیسہ برباد مت کیجیے ،بلکہ دن رات ایک کرکے محنت کرنے والے سپاہی کی تنخواہ بڑھائیے، اتنی کہ اس کے گھر میں پلنے والے بچوں کو اعلی ٰ سے اعلٰی تعلیم ملنے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ہماری خاطرسی سی ٹی وی کیمروں ، بندوقوں، لڑنے والے طیاروں کو خرید کر ہمارا گرواور گورو مت بڑھائیے بلکہ ہمیں آپسی محبت اور بنیادی حقوق کا سب سے زیادہ خیال رکھنے والے ملک کا فخر عطا کیجیے۔اور اگر ایسا نہیں ہورہا ہے تو آپ ہمیں بے وقوف بنارہے ہیں، ہمارے نام پر اپنی جیبیں گرم کررہے ہیں اور ہمارے ان پڑھ، جاہل اور لڑاکو ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اس وقت بھی کسی لمبے سے سفید ٹب میں ہلکے گرم پانی میں ننگے بیٹھ کر ہماری بربادی کا ایک نیا طریقہ سوچ رہے ہیں۔اگر یہ جمہوریت ہے، جس کا سارا دارو مدار آپ کی اس جگاڑو طبیعت کے بل پر ہے تو معاف کیجیے، ہم اسے جمہوریت نہیں سمجھتے، نراج قرار دیتے ہیں، ایمرجنسی سمجھتے ہیں، ڈکٹیٹر شپ گردانتے ہیں۔آپ نے تو ہندوستان کی عظیم الشان ، رنگا رنگ تہذیب کو اس کگار پر پہنچادیا ہے کہ آج مسلمان ہی کیا سیکولر ہندو کو بھی کوئی شخص بہت آسانی سے پاکستانی قرار دے سکتا ہے، اسے دیش دروہی کہہ سکتا ہے، سر عام پیٹ سکتا ہے، اور اسےپھانسی پر چڑھانے کے لیے ماحول تیار کرسکتا ہے، اس کا کریئر تباہ کرسکتا ہے، بلکہ ضرورت پڑے تو لوگوں کا نمائندہ نیتا ہونے کے باوجود اسے گولی مار سکتا ہے اور اس قتل پر فخر کرسکتا ہے۔ہمیں ایسا ہندوستان کبھی نہیں چاہیے تھا،سو اگر آپ نے یہ ماحول پیدا ہونے دیا ہے تو پہلے خود سوچیے کہ گاندھی کے اس ملک میں سب سے بڑا غدار کون ہے۔
کچھ باتیں اردو والوں سے
یہ وقت ہندوستان پر برا ہے، ہندوستان جو ہمارا ملک ہے، ہمارا گھر ہے، اس میں کہیں مہنگائی، کہیں تعلیم ، کہیں مذہب، کہیں آزادی اظہار کے نام پر ہمیں برباد کرنے کے بہت سے طریقے ایجاد کیے جارہے ہیں، انہیں مارکیٹ میں پہنچایا جارہا ہے، عام کیا جارہا ہے اور مقبول بنایا جارہا ہے۔ایسے میں ہم اردو والے، جن کی قربانیاں اس ملک کو آزاد کرانے میں کسی طور کم نہیں تھیں، آج کیسے خاموش رہ سکتے ہیں۔ہماری ذمہ داری صرف اس کی آزادی تک نہیں تھی، ہمیں اسے ایک خوشحال، ترقی یافتہ ملک کی صورت میں دیکھنا ہے، ہم ایک سیکولر زبان کے ماننے والے ہیں، ہمارا میر، ہمارا غالب، ہمارا منٹو، ہماری عصمت اورہماری قرۃ العین حیدر اس دھرتی سے اگنے والے وہ سورج ہیں، جنہوں نے مذہب، ذات پات کے نام پر پلنے اور چلنے والی سیاست کے گلے پر انگوٹھا رکھنے کی ہمت کی ہے، ہمیں ایک مذہب سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، ہمیں شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتار ہا ہے، ہمارے رسم الخط کو غیر ملکی قرار دیا گیا ہے، ہماری آوازوں کا کبھی تمسخر اڑایا گیا ہے، کبھی ہمیں ایک پچھڑے ہوئے، مفلوک الحال طبقے کی نمائندگی کرنے والی زبان سمجھا گیا ہے، مگر ان سب باتوں کے باوجود ہم اپنے فرض سے سبکدوش نہیں ہوسکتے۔ہمیں چاہیے کہ اپنے رسائل ، اپنے اخبارات، اپنی آواز سب جگہوں پر اس ملک کی ترقی اور امن کے لیے کام جاری رکھیں۔ہمیں ہندوستان میں رہنے والوں کی بربادی قبول نہیں، پڑوسی ملکوں کی دشمنی قبول نہیں، آزادی اظہار کو دبانے والی سازشیں قبول نہیں۔مانا کہ ہماری آواز چھوٹی ہے، ہماری زبان کی اوقات کم ہے، جس کی وجہ ہماری ہی ترقی کے نام پر روپیہ بٹورنے والی، ہمیں صرف اٹھارہ سو ستاون سے پہلے کی تہذیب کا ایک کھوٹا سکہ سمجھنے والی، ہمیں تفریح ، رومانیت اور محبت جیسے چھچھور پن کی شاندار روایت کا قائم مقام منوانے والی کمپینیوں کا ہاتھ زیادہ ہے، مگر حقیقت ایسی نہیں ہے، ہم اتنے ہی سیکولر ہیں، جتنے گاندھی تھے، جنتے ابوالکلام تھے،ہم ہر سچے انقلاب سے جڑنے والے لوگ ہیں، ڈرنے والے نہیں۔کوئی جیل ہمیں ڈرا نہیں سکی، کوئی عہدہ ہمیں للچا نہیں سکا، ہم ہندوستان کی ایک معزز زبان بولنے والے اچھے لوگ ہیں، اس لیے وقت ہے کہ اچھائی کا ساتھ دیں، کیونکہ برا وقت جیسا بھی ہو، گزر جائے گا۔ہم صرف سچ سکھانے والے نہیں، سچ کو جینے والے لوگ ہیں۔


1 تبصرہ:

گمنام کہا...

تصنیف ، آپ نے بہت عمدگی سے تمام مسلے کا ذکر کیا اور تجزیہ پیش کیا. اس عمر میں اتنی اچھی سوچ کم لوگوں میں دیکھی ہے. الله کامیاب کرے اور اپنے حفظ و امان میں رکھے .اپ اردو ادب کے لیے جو کر رہے ہیں وہ قابل قدر ہے . ھنا
--

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *