جمعہ، 21 اکتوبر، 2016

منیر جعفری شہید/ژولیاں

کوفی گھڑسوارکربلا کے سورج تلے اکھٹے ہوے ہیں۔ عمربن سعد ان سے مخاطب ہورہا ہے: ’’سپاہیو، تہانکوں ای فتح تے فخر کرنا چاہیدا! اینہدا اجر تہانکوں خدا ڈے سی۔‘‘ پھر وہ گویا ہورہا ہے: ’’لیکن ہِک کم باقی اے۔ ساڈے امیر دا حکم اے کہ حسینی فوج دیاں لاشاں کوں کچلا ونجے۔ آئو! میدان دی طرف جُلو۔‘‘ یہ حکم داغ دیا گیا اور کوفی رسالہ عمر بن سعد کی کمان میں میدان کی طرف روانہ ہورہا ہے۔ کربلا کے میدان پر بہتّر پاکیزہ میّتیں پامالی کی منتظر ہیں۔ کوفی اپنے گھوڑوں کو مہمیز لگاتے ہوے اس میدان کے قریب آرہے ہیں۔ اور اچانک ایک گھڑسوار عمر بن سعد کو پکارتا ہے، ’’حضور، حُر کوں بخشو، او ساڈے قبیلے دا ہے۔‘‘ عمر بن سعد سب کو حکم دیتا ہے، ’’حُر کوں بخش ڈیو۔‘‘ پھر ایک دوسرا گھڑ سوار عرض کرتا ہے، ’’حضور، علی اکبرکوں کچلنا نئیں چاہیدا۔ اندی ماں ساڈے قبیلے دی اے۔‘‘ اور عمر بن سعد علی اکبر کی میت کو بچانے کا حکم دیتا ہے۔ اب ایک تیسرا گھڑسوار ملتمس ہورہا ہے،’’حضورسائیں، عباس دی والدہ ساڈے قبیلے دی اے۔‘‘ عمر بن سعد عباس کی لاش کو بھی پامالی سے مستثنیٰ کردیتا ہے۔ پھر ایک چوتھا گھڑسوار اس کو پکار رہا ہے۔ اور ایک پانچواں۔ اسی طرح، بالٓاخر، میدانِ کربلا کی ستر میتیں ظلم وجبراور تذلیل سے بچ جائیں گی اور دو میّتیں کوفیوں کے گھوڑوں سے کچلی جائیں گی۔ حسین سید الشہدا کی عظیم اور پُرنور میت اور آپ کے فرزندِ شیرخوار اصغر کی صغیر سی میت۔
میں مجلس کے اس موڑ پر آکر اپنے آنسوئوں کو اپنی شال کے ایک سرے سے خشک کررہا ہوں اور ایک پل کے لیے نیچے نظر ڈال رہا ہوں۔ نیچے، میرے پائوں تلے، کائنات کی لاانتہا وسعتوں میں ، منجملہ دیگر ستاروں اور سیاروں کے، وہ کرۂ ارض جگمگارہا ہے جو پینتیس سال تک، میری پیدائش سے لے کر میرے قتل ہونے تک، میرا مسکن رہا۔ اس کے گرد وہ چاند گردش کررہا ہے جو ساری عمر میرا دائمی محبوب رہا۔ پھر میں آنکھیں اٹھارہا ہوں۔ اوپر، رفعتوں میں، باب الشہدا چمک رہا ہے، جس کی دہلیز پر سلطانِ کربلا جناب اپنے بیٹے اصغر کو گود میں اٹھائے کھڑے ہیں۔ وہ میری مجلس کو سماعت فرمارہے ہیں۔ میرے اس بلند منبر کے سامنے سامعین کا کثیر مجمع ہے۔ سب کے چہروں پر اکتاہٹ اور خستگی عیاں ہے۔ سامعین میرے منھ سے بہتّرہزار مجلسیں سن چکے ہیں۔ ان کی آنکھیں آنسوئوں کی کثرت سے بے نور ہوئی ہیں۔ان کے گلے نعروں کی تکرار سے چھل گئے ہیں۔ ان کے سینے ماتموں کی شدت سے خونم خون ہوے ہیں۔ ان کے قدموں میں ان کا لہو مسلسل بہہ رہا ہے۔ میری مجلسوں نے ان سامعین کا امتحان لیا۔ سامعین وجد میں آئے، اور ان کے وجد میں آنے سے میرے آخری کفارے کی ادائیگی ہوگئی۔ اب جناب سید الشہدا امام حسین اپنی غیبی دہلیز سے ہماری طرف اشارہ فرمارہے ہیں۔ اب اس دہلیز کو پھلانگنا ہے جس کے آگے ہرعہد کے شہدا ہمارا انتظار کررہے ہیں۔
مجلس اختتام پذیر ہورہی ہے۔ یہ میری آخری مجلس ہے۔ میں اسے چند اشعارکے ساتھ ختم کررہا ہوں:
توحید کی چاہت ہے تو پھر کرب و بلا چل
ورنہ یہ کلی کھل کے کھلی ہے نہ کھلے گی
مسجد کی صفوں سے کبھی مقتل کی طرف دیکھ
توحید تو شبیر کے سجدے میں ملے گی
اس مجلس کے ساتھ میری زندگی کا قصہ تمام ہورہا ہے۔ اب وقت آیا ہے یہ قصہ سنانے کا۔

ابو بہت عرصے سے دیوانے تھے۔ میری والدہ مجھے جنم دیتے دیتے رحلت کرگئی تھیں۔ ان کی وفات سے ابو کو جو صدمہ پہنچا تھا وہ اس قدر شدید تھا کہ انھوں نے نہ صرف دوسری شادی سے انکار کر دیا تھا بلکہ دنیا کی کارروائیوں سے کامل سبکدوشی لی تھی۔ وہ پورا دن اپنے کمرے میں بند ہوکر سوگ مناتے تھے۔ ہمارے گھر والے ان کے کمرے کی دہلیز پر پانی کا ایک گھڑا اور تھوڑی سی خوراک رکھ دیتے تھے۔ ابو جھٹ سے دروازہ کھول کر، ان سادہ سی سوغاتوں کو اٹھا کے، اپنے کمرے کی پراسرار تاریکیوں میں ٹھونس لیتے تھے۔ اور جوں ہی ان کا دروازہ کھلتا تھا، ایک موٹا سا بادل اندر سے اڑ کر، گھر کی راہداریوں سے گزرتے ہوے کسی دیوار، الماری یا پنکھے سے ٹکرانے جاتا تھا۔ اس بادل کی گزران سے ہمارے درودیوار معطر ہوجاتے تھے۔ یہ بادل مجھے حیران کردیتا تھا۔میں اس کو ایک طلسمی بادل سمجھتا تھا۔ ہوش سنبھالنے کے بعد میں نے کچھ لوگوں سے سنا کہ یہ بادل دراصل ایک چلم کی نالی سے خارج ہوتا تھا۔ اس چلم میں ایک ایسی چیزجلتی تھی جسے ہمارے دیہاتی لوگ ’فقیری‘ کہتے تھے۔ ابو میری والدہ کی بے وقت موت کا غم غلط کرنے کے لیے اپنی چلم میں دن بھر فقیری پیتے تھے، اور مدام اپنے پیداکردہ بادل کے مخملی ہالے میں رہتے تھے۔
رات کو ابو اپنا دروازہ کھولتے تھے۔ پھر وہ برہنہ پا اور برہنہ سر، ہاتھ میں ایک لاٹھی لیے، لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوے تھل کا رخ کرتے تھے۔ تھل ہماری بستی کے گرداگرد پھیلا ہوا تھا۔ ابو رات بھر تھل کے ریتیلے قالین پراپنی لاٹھی سے عجیب وغریب نقش و نگار تراشتے چلے جاتے تھے۔ان کی عقل مختل تھی اور ان کی روح بے قابو۔ وہ ایک مجذوب درویش کی طرح تھل کی نادیدہ ڈگروں پر چل کر اپنی انوکھی اور گھائل سی آواز میں ورد کرتے تھے، اور گردوپیش ریت کے بھولے بسرے ذروں سے لے کر عرش کے بے صورت مکینوں تک، سب ان کاورد سنتے تھے۔ چاندنی بھی گوش برآواز تھی، جسے وہ لاٹھی اٹھا کر گھنٹوں پکارا کرتے تھے:
کہاں پائوں؟ کہاں پائوں یار
جن انسان ملائک سارے
کیا سگلا سنسار
حیرت دے قلزم وچ کل تھیے
مستغرق سرشار
صوفی شاغل گیانی دھیانی
گئے اوڑ ک سب ہار
لیکن چاندنی انھیں جواب دینے کی زحمت نہیں کرتی تھی۔ اور جب رات کے روزنوں سے اجالا جھانکنے لگتا تھا، جب ریت پر شبنم کے اشک صفِ ماتم بچھاتے تھے اور فجر کی اذان اپنے پاک تیشے سے خلا کو چاک کردیتی تھی تو ابو اپنا ورد منقطع کر کے، ایک ہزیمت خوردہ سپاہی کی شرمساری سے، لاٹھی ٹیکتے ہوے گھر کی طرف پلٹتے تھے۔ گھر آکر وہ اپنے کمرے کا دروازہ بندکرتے تھے اور کچھ ہی دیر بعد ان کے خراٹے ان کے کمرے سے بلندہوکراہلِ خانہ کو ان کے نیند میں ہونے کی تسلی دیتے تھے۔
وہ جوانی سے ذاکری کرتے آرہے تھے۔ عالمِ دیوانگی میں بھی انھوں نے ذاکری ترک نہیں کی تھی۔ وہ اب تک منبروں پر دیکھے جاتے تھے۔ لیکن ان کا مجلس پڑھنے کا انداز پہلے سے مختلف تھا۔ پہلے وہ ضبط اور سلیقے سے پڑھتے تھے اور مصائب بیان کرتے وقت بھی جذبات سے مغلوب نہیں ہوتے تھے۔ اسی وجہ سے انھیں ’ٹھنڈا ذاکر‘ کا لقب دیا گیا تھا۔ اب وہ منبر پر بیٹھتے ہی وجد میں آتے تھے۔ ان کی آواز گھن گرجتی تھی اور ان کے الفاظ سامعین پر یوں برستے تھے جیسے فوجِ حسین پر یزیدیوں کے نیزے۔مصائب کی نوبت نہیں آتی تھی اور ان کے سامعین گریے میں آچکے ہوتےتھے۔ ان کی آہ وزاری اور ان کی ہچکیاں ابو کی بےخودی کو انگیزتی تھیں، قہر اور جلال ان پر نازل ہوتے تھے۔
وہ عموماً امامِ کربلا کی آخری رات بیان کرتے تھے— دشت کی ویرانی میں آپ کی عبادت کی رات۔ آپ کے اہلِ خانہ پیاس سے نڈھال تھے اور آسمان نے غم واندوہ کا لبادہ اوڑھا ہوا تھا۔ کچھ ہی گھنٹے بعد دھرتی گھوڑوں اورپیادوں کے پائووں تلے ہلنے والی تھی اور دشت لہو میں نہانے والا تھا۔ جوں جوں ابو کا بیان اپنے مراحل طے کرتا تھا، ان کی بے خودی شدت پکڑتی تھی، اور اسی عمل کے ساتھ ساتھ ان کی زبان کی کایاکلپ ہوتی تھی۔ ابو مجلس کے شروع میں ہماری اس سیدھی سادی بولی میں اظہارِ خیال کرتے تھے جس میں سے پھونس، چولھے اور گوبر کی بو آتی تھی۔ پھر وہ اس بولی کو چھوڑ کر اردو کی ابریشمی پہاڑیوں کی طرف روانہ ہوجاتے تھے۔ پھر ان پہاڑیوں سے اتر کر وہ فارسی کی شاداب وادیوں میں تھوڑی دیر گھومتے تھے اور آخرکارعربی کے سنگلاخ کوہساروں پر چڑھائی کرتے تھے۔ عربی بولتے ہوے وہ یوں کانپتے تھے گویا رعد ان کی سماعت میں آگیا ہو۔ وہ پھر اس مسلسل کپکپی کی وجہ سے اپنی مجلس روکنے پرمجبور ہوتے تھے۔ سامعین ان کی دیکھا دیکھی اپنی آہ وزاری روکتے تھے اور ہمہ تن گوش ہوجاتے تھے۔ دو چار منٹ کے بعد ان کی کپکپی رک جاتی تھی اور وہ اچانک بول پڑتے تھے۔ پیشگوئیوں کی ایک آبشار ان کے منھ سے رواں ہوتی تھی اور سامعین اس آبشار سے ایک ایک لفظ پی جاتے تھے۔
ابو کی پیشگوئیاں مشہور تھیں۔ وہ مجذوب ہوکر حالتِ حال سے زیادہ حالتِ آئندہ کے شناسا ہوگئے تھے۔ اور لوگوں میں ان کا احترام اس قدر تھا کہ وہ منبر سے اترتے ہی دست بوسیوں اور قدم بوسیوں سے دوچار ہوجاتے تھے۔ یہ احترام جھیلنے کے بعد وہ تھل کی راہ لیتے تھے۔

ابو کی دیوانگی دیکھتے ہوے میں بڑا ہوگیا۔ میرا بچپن گزر گیا۔ میرا لڑکپن شروع ہوگیا۔ اور جب میں پندرہ سال کا ہوگیا، میں نے خود کو ایک دوراہے پر پایا۔ ایک راہ دیوانگی کی جانب جارہی تھی اور دوسری راہ دنیا کی طرف۔ دنیا والی راہ میں تدریس، زمینداری اور ملازمت کا نٹوں کی طرح بچھی ہوئی تھیں۔ دیوانگی والی راہ میں عزت، آگہی اور آزادی پھولوں کی طرح بکھری پڑی تھیں۔ میں نے اپنے ابو کاراستہ اختیارکیا۔ مجھ پر ان کی دیوانگی طاری ہونے لگی۔ میں رات کو چاندنی سے ملنے کے لیے تھل کی طرف جاتا تھا۔
چاندنی مجھے بہت تکلیف دیتی تھی۔ وہ رات گئے مجھے بستر سے اٹھاتی تھی اور کوچ کا حکم دیتی تھی۔ چاندنی سے میں کس طرح حجت کرسکتا تھا؟ میں چاندنی کا حبشی غلام تھا۔ وہ میری سفید فام رانی تھی۔ اس کی حکم عدولی موت کے مترادف تھی، سو میں مجبور ہوکر تھل کے چار پانچ طواف کرکے گھر کی طرف پلٹتا تھا۔ وقفے وقفے سے ایک آواز اندھیرے کی رِدا کو چیرتی تھی:
کہاں پائوں؟ کہاں پائوں یار؟
وہ ابو کی آواز تھی۔ ان پر بھی چاندنی بہت جبر کرتی تھی۔
چاندنی کبھی کبھی مجھے تڑپانے کے لیے بادلوں میں چھپتی تھی اور میں گھنٹوں تھل کی ظلمتوں میں اس کے درشن کا انتظار کرتا تھا۔ اور جب وہ بادلوں سے نکلتی تھی تو دنیا کے دربار میں سب مخلوق اور سب اشیا اس کے ماتحت ہوجاتی تھیں۔ تھل کے وحشی جانور رکوع میں جاتے تھے اور بستی کے مکانات قدم بوسی کےلیے جھک جاتے تھے۔ مسجد کا مینار سجدہ کرتا تھا اور ریت کے ٹیلے سرِتسلیم خم کرتے تھے۔ دھرتی کی چھاتیوں پر ان سب کا وزن پڑتا تھا۔ ان چھاتیوں سے دودھ کی ایک جھیل امنڈآتی تھی۔ میں اس جھیل میں تیرنے کا جتن کرتا تھا، لیکن میری غرقابی یقینی تھی۔ میں مولا سے رحم کی اپیل کرنے کے لیے ایک مرثیے کے دلخراش بند سناتا تھا:

حضرت پر ادھر ہوتی ہے اعدا کی چڑھائی
تنہائی، نہ بیٹا نہ بھتیجا ہے نہ بھائی
سیدانیاں دیتی ہیں محمد کی دہائی
اعدا میں یہ غل ہے کہ کرو فتح لڑائی
ڈوبے ہوے خوں میں شہدا گرد پڑے ہیں
گھوڑے پر اکیلے شہِ ابرار کھڑے ہیں
دودھ کی جھیل یکلخت سوکھ جاتی تھی اور ہمارا تھل دشتِ کربلا کا بھیس دھار لیتا تھا۔ چاندنی بادلوں کے سیاہ خیمے میں بین کرتی تھی اور لڑائی کی آوازیں دشت پر رینگ رینگ کر میرے کانوں تک آتی تھیں۔ نیزے، تیر اور سنانیں ہرسو برستی تھیں اور شہداے کربلا کی روحیں میرے جسد کے گرداگرد گنگناتی تھیں۔ میں یہ سارا منظر گردوپیش کی مخلوق اور اشیا کے آگے بیان کرتا تھا۔ میں ان راتوں میں تھل کا ذاکر بن جاتا تھا۔
پھر ایک روز جب میں چاندنی کا انتظار کررہا تھا، ایک شعر میری زبان پر بے اختیار آیا:
وہ ماہتاب جو ڈوبا ہوا ملال میں تھا
مجھے خبر ہی نہیں میں کسی خیال میں تھا
وہ میرا پہلا شعر تھا۔ یہ شعر چاندنی کی طرف سے ایک تحفہ تھا۔ عرش اور فرش کے درمیانی پل پر چل کر وہ سیدھا میرے پاس آیا تھا۔ چاندنی کا آشیرباد مجھے حاصل تھا۔ اور اب میری حالت یہ تھی کہ میں نہ مجازی نہ حقیقی تھا۔ میرے پائوں ریت کے اسیر تھے اور میرا رخ غیب کی جانب تھا۔
فجر کی اذان فضا میں گونجتی تھی۔ شہداے کربلا فردوسِ بریں کی طرف لوٹتے تھے اور چاندنی ارشاد فرماتی تھی:’’تخلیہ!‘‘ میں ایک ناکام دزدِ آتش کی طرح منھ لٹکا کر، سرجھکا کر گھر واپس آتا تھا۔ ریت کی لوح پر کچھ پراسرار تحریر یں مرقوم تھیں۔ وہ ابو کی لاٹھی کے نشان تھے۔ ابو اذان سنتے ہی گھر چلےگئے تھے۔ دن کے رائیگاں اجالے اور انسانوں کی فضول گہماگہمیوں سے انھیں سخت الجھن تھی۔ وہ اب اپنے کمرے میں آرام فرمارہے تھے۔ حیران کن بات یہ تھی کہ جب ہم دونوں ایک ہی تھل میں رات بھر ماہ بینی کرتے تھے،ہماری مڈبھیڑ کبھی نہیں ہوئی۔ تھل کے سمندر میں ہمارے تنکے ہمیشہ دور دور تھے۔ ہمارے تنکے ایک بار بھی واصل کیوں نہیں ہوے؟

ابو کی پیشگوئیوں کا چرچا دور دور تک تھا۔ سیاستدان انتخابات سے پہلے ان کی پیشگوئیاں سننے ان کے پاس آتے تھے، کیونکہ یہ مشہور تھا کہ ان کی سب پیشگوئیاں پوری ہوتی تھیں۔ سیاسی حلقوں میں ان پیشگوئیوں کی شہرت بڑھ گئی، اور وہ دن بھی آیا جب ہمارے ملک کا مقبول ترین سیاست دان ابو سے ملنے تشریف لایا۔ دارالحکومت میں اسے ایک اہم وزارت کی پیشکش ہوئی تھی۔ فیصلہ کرنے سے پہلے وہ ابو کی پیشگوئی سننا چاہ رہا تھا۔ اس کے ہمراہ اس کی صاحبزادی تھی۔ دونوں ایک خصوصی ہیلی کاپٹرمیں آئے تھے جو اب بستی سے تھوڑے فاصلے پر تھل میں کھڑا تھا۔ بیسیوں پولیس اہلکار چیونٹیوں کی طرح ان دونوں کے گردوپیش کلبلا رہے تھے۔ سیاست دان اور اس کی صاحبزادی ہماری بستی کی خطرناک دھوپ کا سامنا کرنے کے لیے موٹی کالی عینکوں سے لیس ہوے تھے۔ دونوں کو جلدی تھی۔ سیاست دان کو شام تک ایوانِ صدر میں اپنا فیصلہ سنانا تھا، اور اس کی صاحبزادی رات کو پڑھائی کے لیے ولایت جارہی تھی۔ دونوں جلدی جلدی ابو کے کمرے میں داخل ہوے ۔ میں ان کے دو رکنی وفد کے جلو میں تھا۔ کمرے کا نقشہ عجیب تھا۔ دیواروں پر فارسی اور عربی کے جملے لکھے تھے۔ ایک چارپائی کے سوا کوئی سازوسامان نہیں تھا۔ ابو فرش پر دراز تھے اور کمرے کی چھت کے پنکھے کو یوں تک رہے تھے گویا وہ عرشِ بریں کا ایک دریچہ تھا۔ ایک بادل ابو کے جسم کی نگہبانی کررہا تھا۔ فرش پر ابو کی بغل میں ایک چلم پڑی ہوئی تھی۔ سیاست دان اور اس کی صاحبزادی نے ابو کے سامنے اپنی عینکیں اتاریں اور سیاست دان نے دعاسلام کے بعد اپنا سوال پوچھا، لیکن ابو ایک گستاخانہ خاموشی سے عرشِ بریں کے دریچے کو تکتے رہے۔ ہم سب پریشان تھے۔ ابو کی یہ بے لحاظی ہمیں نقصان پہنچا سکتی تھی، ہمارے نام کو مٹی میں ملا سکتی تھی۔ ایک پرانے نوکر نے ہم سب کی پریشانی دیکھ کر میرے والد کی چلم کو اٹھا کر فقیری سے بھرا۔ پھر اس نے چلم جلائی اور ابو کے مہربند ہونٹوں کی طرف بڑھائی۔ ابو نے چلم کے سرے کو یوں چوسا جیسے کوئی طفلِ شیرخوار اپنی ماں کی چوچی کو چوستا ہو۔ ہمارے دونوں مہمان یہ دیکھ کر حیرت کے بت بن گئے تھے اور ہم شرمندہ ہورہے تھے۔ پھر نوکر نے بے دردی سے ابو کے ہونٹوں سے چلم ہٹائی اور ابو نے منھ سے دھویں کی لمبی جلیبی اگل کر اپنی مجلسوں کی خاص آواز میں ایک کہانی چھیڑی:’’خدا دے فضل نال توں وزیر بن وے سیں، پر ہک غنیم ملک تے قابض تھے سی۔ او تینکوں پھانسی ڈے سی۔ تیڈی پھانسی دے بعد، تیڈی دھی تیڈی جگہ گھن سی۔ پراوبھی بری نظر توں ناں بچ سی۔‘‘سیاست دان یہ کہانی سن کر تردد میں پڑگیا۔ پسینے کے موٹے قطرے اس کی پیشانی پر ڈھلک گئے۔ اس کے ہونٹ ٹیڑھے ہوگئے اور ابو کے پوپلے منھ پر ایک ظریفانہ تبسم کھل اٹھا۔ آج ایک نشئی ذاکر نے اپنے عہد کے متکبر سلطان کو شکست وریخت کا مزہ چکھا یا تھا۔ سیاست دان کی صاحبزادی غافل اور بے پروا تھی، گویا ان سب معاملوں سے اس کا کوئی علاقہ نہیں تھا۔ میں اس کی بے حسی پر حیران تھا اور غور سے اس کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے تیور اس عظیم اور المناک مستقبل کی علامتوں سے عاری تھے جس کا اعلان ابو نے کیا تھا۔ اس کے کتابی چہرے، لمبی ناک، کالی آنکھوں اور لمبی لٹوں سے ڈھکی ہوئی پیشانی میں نہ کسی درجے کی حکمت تھی نہ کسی قسم کا جلال تھا۔ پھر اچانک ہم دونوں کی نظریں چار ہوئیں اور میرا تاثر یکدم بدل گیا۔
صاحبزادی کی آنکھیں کیا چیز تھیں! ان آنکھوں کے آئینوں میں فردا کے وعدے وفا ہوتے تھے۔ ان آنکھوں کے آسمانوں میں جرأت کے باز محوِ پرواز تھے۔ ان آنکھوں کے طاسوں میں دانائی کی ندیا ں بہا کرتی تھیں۔ ان آنکھوں کے گردابوں میں قہر کے طوفان پلا کرتے تھے۔ ان آنکھوں نے مجھے دو نیم کردیا تھا۔ ایک حصہ میرے تصرف میں تھا، دوسرا ان آنکھوں میں مقیم تھا۔ میری ذات نے صاحبزادی کی ذات کو سراہا بھی تھا اور قبول بھی کیا تھا لیکن صاحبزادی، چند لمحوں کے بعد، اپنے مضطرب ابو کو ساتھ لے کر، اپنی اڑن طشتری میں ایک شاندار اور پرآشوب مقدر کی جانب روانہ ہونے والی تھیں۔ ان سے میں دوبارہ کب ملنے والا تھا؟ میرے دونوں حصے کب واصل ہونے والے تھے؟ معلوم نہیں۔ شاید مجھے پوری عمر ادھورا رہنا تھا۔یہ ادھورا پن مجھے برداشت نہیں تھا۔ مجھے تازیست اپنے دونوں حصوں کو ملانے کی جدوجہد کرنا تھی۔
ابو کی پیشگوئیاں ختم ہوگئی تھیں اور وہ اپنی فقیری پی کر سوگئے تھے۔ وہ رات سے پہلے نہیں جاگنے والے تھے۔ میں ان کے پہلو میں بیٹھا تھا۔ سیاست دان اور اس کی صاحبزادی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے تھے اور ہمارا گھر ان کی رونق اور تجلی سے خالی ہوگیا تھا۔ اس گھر میں دوافراد ہمیشہ کے لیے ادھورے تھے۔ ایک میرے خوابیدہ ابو تھے جنھیں میری ماں کی وفات نے معذور کیا تھا؛ ایک میں تھا، ان کا مہجور اور دلفگار صاحبزادہ، ایک نارسا صاحبزادی پر فدا۔

ابو کی پیشگوئیاں حسبِ معمول پوری ہوئیں۔ سیاست دان نے وزارت قبول کی اور ترقی کے زینے طے کیے۔ لیکن ایک غنیم نے زبردستی ہمارے ملک کا تخت سنبھالا۔ اس نے سیاست دان کو اول درجے کا غدار قرار دے کر اپنی دار پر کھینچا۔ صاحبزادی غنیم کی تحویل میں آگئی۔ ایک غدار کی بیٹی ہونے کی پاداش میں اس کو مہینوں تک ایک صحرائی زنداں میں قیدوبند کی صعوبتیں اٹھانی پڑیں۔
یزیدی ہمارے ملک کے کونے کونے میں موجود تھے اور غنیم نے آتے ہی ان کی لگام ڈھیلی چھوڑ دی تھی۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے قریہ بہ قریہ، کوبہ کو، یزیدیوں کے لشکر پنپنے لگے۔ سادات ان کے دشمنِ دیرینہ تھے۔ ہماری بیخ کنی انھیں مطلوب تھی۔ ہمارے علاقے میں سپاہِ شہدا ہمارے خلاف صف بستہ تھی۔ سپاہِ شہدا مقامی یزیدیوں کا لشکر تھا۔ اس کے رضاکار کافی تعداد میں تھے۔ وہ تھل کے علاقے کو ہم سے خالی کروانا چاہتے تھے، اور ہمارے ڈاکٹروں، وکلا، شعرا اور اساتذہ کو دھمکیوں کے خط بھیجتے تھے۔ موصوفین کو کفر چھوڑنے کے لیے چوبیس گھنٹوں کی مہلت ملتی تھی۔ اس خط کی وصولی کے بعد بزدل افراد تھل سے ہجرت کرتے تھے اور جاں نثار اپنی جگہوں پر ڈٹ کر شہادت کا انتظار کرتے تھے۔ سپاہِ شہدا کی مہلت کے ختم ہونے کے بعد یہ جاں نثار لقمۂ اجل ہوجاتے تھے۔
میں اس وقت ایک کالج کا طالب علم تھا۔ تھل میں میری ماہ بینیاں ختم ہوگئی تھیں۔ میں اپنے کالج کی ماہ جبینوں پر فدا ہوتا تھا۔ میں سینکڑوں غزلیں اور نظمیں ان کے یاقوتی ہونٹوں، سروقامت بدنوں اور لمبے لمبے بالوں پر نچھاور کرچکا تھا۔ میں عشق کرنے میں مصروف تھا۔ مجھ رومانیت پسند عاشق کے پاس سپاہِ شہدا کے بارے میں سوچنے کی فرصت کہاں تھی ۔ ہرتین دنوں بعد کسی سید کے قتل کی خبر ملتی تھی۔ اس کے ورثا ہجرت پر مجبور ہوجاتے تھے اور مقتول کا چہلم پردیس میں منایاجاتا تھا۔ لیکن مجھے ان موجودہ خطروں سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ مولا کے تحفظ پر میرا بھروسا قائم تھا۔ مولا نے اپنے فضل وکرم سے میرے گھر کو تا حال سلامت رکھا تھا۔ بلائیں بظاہر ہمارے گھر کے راستے سے ناآشنا تھیں۔ اور میرا بھروسا قائم رہتا اگر ایک روز گھر کے پتے پر سپاہِ شہدا کی طرف سے ایک چٹھی نہ آتی۔
میں ایک دل پھینک طالب علم تھا اور میرے ابو سرتاپا مجذوبیت میں ملبوس تھے۔ ہم دونوں بلائوں کا سامنا کرنے کی طاقت سے محروم تھے۔ مجھے اپنی جان عزیز تھی، میں نے ہجرت کا فیصلہ کیا۔ لیکن ابو نے ہلنے کا نام بھی نہیں لیا۔وہ ان تھل والے سادات کا ساتھ چھوڑنے پر تیار نہیں تھے جو برسوں سے ان کی مجلسوں کو اپنی گریہ وزاری کا شرف بخش رہے تھے۔ میں نے اپنے ابو سے بارہا ساتھ چلنے کا التماس کیا لیکن انھوں نے میری نہیں مانی اور مجھے اکیلے جانا پڑا، آزردہ اور دل برداشتہ، ابو کو سپاہِ شہدا کے شکنجوں میں چھوڑکر۔

طرب نگر ہمارے صوبے کا وسیع ترین شہر تھا۔ میں نے طرب نگر کے ایک کالج میں داخلہ لیا اور مجھے کالج کے قدیم ہوسٹل میں ایک کمرہ مل گیا۔ لیکن کالج میں میری حاضری تھی نہ ہوسٹل میں میرا قیام تھا۔ اس شہر میں شعرا حضرات بڑی تعداد میں تھے اور میں ان کی صحبت میں اپنے شب وروز گزارتا تھا۔
شعرا حضرات کچھ مخصوص چائے خانوں میں منڈلی لگاتے تھے۔ میں چائے خانوں میں ہر وقت بیٹھتا تھا۔ بحثیں گرم تھیں، لیکن چونکہ غنیم کے پولسیے اور پولسیوں کے مخبر سب جگہ موجود تھے، چائے خانوں کے شعرا عموماً ولایتی ادب یا افلاطونی فلسفے کو اپنی بحثوں کا موضوع بناتے تھے۔ اور جب کوئی سر پھرا نوجوان ان طولانی اور بے معنی بحثوں سے اکتا کر غنیم پر تبصرہ کرتا تھا، کوئی نہ کوئی تیوری چڑھانے والا بابا اس سے چائے خانے سے تشریف لے جانے کی گزارش کرتا تھا۔ غنیم کے ڈر سے شعرا حضرات اپنے چائے خانوں میں صداے احتجاج بلند کرنے سے قاصر تھے۔ لیکن چونکہ زمانے کے ظلم وستم پر سکوت اختیار کرنا ان کے شایانِ شان نہیں تھا، سب اپنے شاہپاروں میں غنیم کو استعاراتی اور کنایتی گالیاں دیتے تھے۔غنیم کا قانون سخت تھا۔ گستاخانہ یا ناقدانہ باتوں کی پاداش میں مجرموں کو سرِ بازار کوڑے مارے جاتے تھے۔ ان کوڑوں نے سبھی زبانوں سے حق گوئی کی قوت چھین لی تھی۔ اور اس منافقانہ دور میں ایک ہی شاعر اپنی آواز بلند کرنے کی جرأت رکھتا تھا۔ یہ صاف گو اور بےباک شاعر اصغر رنجش تھا۔
اصغر رنجش فربہ اور عیاش تھے۔ وہ ہررات چائے خانوں کے منافقین کو خدا حافظ کہہ کر بازارِ حسن کا رخ کرتے تھے اور صبح تک شراب اور شہوت کے نشے میں دھت رہتے تھے۔ غنیم کی پولیس بازارِ حسن کو ختم کرنے میں ناکام ہوئی تھی۔ سب چکلے بظاہر بند تھے، لیکن پچھواڑوں میں سبھی دروازے کھلے رہتے تھے۔ شوقین لوگ ان دروازوں سے داخل ہوتے تھے۔ اصغر رنجش بازارِ حسن کے ایک ایک خفیہ چکلے سے واقف تھے۔ میں ان کا شاگرد بن گیا تھا اور وہ میری تربیت کی خاطر مجھے اپنے ساتھ بازارِ حسن کی سیر کے لیے لے کر جاتے تھے۔ پوری راتیں چکلوں میں بسر ہوتی تھیں۔ وہاں میرے استادِ محترم ٹیڑھی میڑھی شکلوں والے دلّالوں کے ساتھ جوا کھیلتے تھے اور پوپلے منھ والے سازندوں کے ساتھ فقیری پیتے تھے۔ پھر رات بھیگ جاتی تھی۔ وہ وسکی پیتے پیتے حسینائوں کے مجرے دیکھتے تھے، پھر ایک حسینہ کو چن کر چکلے کی بالائی منزل پر لے جاتے تھے۔ میں نیچے، رقص گاہ میں، گھڑی دیکھتے دیکھتے اپنے استاد کا انتظار کرتا تھا۔ ایک گھنٹے کے بعد میرے استاد رقص گاہ میں رونق افروز ہوتے تھے۔ ہم دونوں رخصت ہوتے تھے۔ استاد کے پائوں لڑکھڑاتے تھے اور ان کے منھ سے شراب کی ڈکاریں آتی تھیں۔ ممکن نہیں تھا کہ انھیں اس حالت میں گھر بھیجوں، سو میں ان کو اپنے کندھے کا سہارا دے کر اپنے ہوسٹل تک لے کر جاتا تھا۔ میں ان کو اپنے کمرے میں سلاتا تھا، اپنے بستر پر لٹا کر۔ وہ لیٹتے ہی نشے میں سرہلاکر اور آنکھیں میچ کر، تحت اللفظ ایک لرزاں آواز میں دس بارہ شعر کہتے تھے، جنھیں میں ایک شاگرد کی سی فرمانبرداری سے اپنی کاپی میں حرف بحرف رقم کرتا تھا۔ ان کے تحت اللفظ کہے ہوے اشعار اتنے رعب دار اور عمیق تھے کہ گمان نہیں گزرتا تھا کہ ان کی تخلیق کے وقت شاعر پوری طرح بدمست تھا۔ مصرعے مربوط ہوتے تھے اور الفاظ منظم۔ استاد کی ہنرمندی اور تخلیقیت مجھے پریشان کرتی تھی۔ شاعری ان کے گھر کی لونڈی تھی، جبکہ ملکۂ سخن تک میری پہنچ سطحی اور سرسری تھی۔

طرب نگر میں دوسال کا عرصہ گزر گیا۔ میں ایک بار بھی گھر نہیں لوٹا،اور میں نے آہستہ آہستہ گھر کی خبر لینی بند کی تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ ابو خیریت سے تھے۔ سپاہِ شہدا نے انھیں دھمکی دی تھی، لیکن مہلت کے ختم ہونے کے دو سال بعد بھی ان کی طرف سے کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی۔ انھیں یقیناً غیب کا نادیدہ تحفظ حاصل تھا۔ کوئی شرپسند ان کے پاس پھٹک بھی نہیں سکتا تھا۔ ابو کی ماہ بینیاں،تھل نوردیاں اور فقیری نوشیاں بدستور جاری تھیں۔
یہاں طرب نگر میں میری تربیت زوروں پر تھی۔ میں استاد محترم کے ساتھ باقاعدگی سے بازارِ حسن کی سیر کرتا تھا۔ یہ سیر خطرے سے خالی نہیں تھی، لیکن خطرہ عیاشی کی لذت کو بڑھاتا تھا۔ بازارِ حسن کے چاروں طرف پولیس کے ناکے تھے۔ ہمیں ایک پتلی گلی کے اندر سے گھسنا پڑتا تھا۔ اسی گلی سے ہم نشے کی حالت میں چند گھنٹے بعد نکلتے تھے۔ میں اپنی پہلے والی پاکیزگی کھو چکا تھا۔ میں اپنے استادِ محترم کی طرح جوا کھیلتا تھا، وسکی پیتا تھا، مجرے دیکھتا تھا، اور دلربا رقاصائوں کو بالائی منزل پر لے کر جاتا تھا۔ میںہرلحاظ سے اپنے استادِ گرامی کا چربہ تھا۔
ان کا چربہ میں اس لحاظ سے بھی تھا کہ میں رات کے آخری پہروں میں بازارِ حسن سے لوٹ کر شراب کے نشے میں بہکتے ہوے مشقِ سخن کرتا تھا۔ استادِ محترم کی صحبت میں میری غزلیں معیاری ہوگئی تھیں۔ نہ کوئی شعر معنی سے خالی تھا اور نہ کوئی مصرع وزن سے خارج۔ میں چائے خانوں میں ادبی بابوں کو اپنی غزلیں سناتا جاتا تھا۔ بابے ان کی سماعت فرماکر بہت دادیں دیتے تھے، لیکن سب اندر اندر کڑھتے تھے اور اصغر رنجش سے جلتے تھے جس نے دو سالوں میں مجھ جیسے دیہاتی تک بند کو شعر تراشنے کے قابل بنایا تھا۔ پھر میں نے استاد کی معیت میں اپنا پہلا مشاعرہ پڑھا، اور مشاعروں کا سلسلہ چل نکلا۔ مجھے سب جگہ مدعو کیاجاتا تھا۔ میری آواز نوجوانوں کی آواز تصور کی جاتی تھی۔ میرے اشعار نوجوان پیڑھی کے جذبات کی ترجمانی کرتے تھے۔ میری خوب حوصلہ افزائی ہوئی۔ میں نے غزلوں کے انبار لگائے۔ ایک مجموعہ خود بخود مرتب ہوگیا۔ حضرت اصغر رنجش نے اس مجموعے کا دیباچہ لکھا جس میں وہ اپنے قابل ترین شاگرد کو ایک خراج پیش کررہے تھے۔ مجموعے کی کافی کاپیاں بک گئیں۔ مجموعے اور مشاعروں نے مجھے بہت نفع دیا۔ میں ذہنی اور معاشی طور پر پوری طرح خود کفیل ہوگیا۔
ان سلسلوں کی بدولت مجھ میں ایک نئی شخصیت ابھری تھی اور میری سابقہ شخصیت حذف ہوگئی تھی۔ گھر کی یاد پوری طرح مٹ گئی تھی اور میرا ماضی میرے پیچھے کھسکتا چلا جارہا تھا۔ ابو، سپاہِ شہدا ، سپاہِ شہدا کی دھمکیاں ، دھمکائے جانے والوں کی موت، موت کا ڈر، سب ماضی کے قصے تھے۔ یہ انوکھے پرندے میری زندگی کی شاخ سے کب کے اڑ چکے تھے۔ امروز کے دلکش چمن سے دیروز کا کریہہ سایہ کب کا ہٹ چکا تھا۔ لیکن میرے ماضی نے رفت گزشت ہونے سے پہلے مجھ سے انتقام لیا اور میرے چمن نے اس کے وار سے ایک کاری زخم اٹھایا۔

اب میرا ہوسٹل کا کمرہ میرا حقیقی گھر تھا۔ دنیا میں میرے لیے یہی رین بسیرا تھا جہاں میں مشاعروں اور بازارِ حسن سے لوٹ کر قیام کرتا تھا۔ اسی کمرے پر میں رات کے تین چار بجے، رقاصائوں کے سستے عطر سے معطر ہوکر، ہوائوں میں سگریٹ کے بے معنی چھلے بناتے ہوے، لڑکھڑاتے پاؤوں سے واپس آتا تھا۔ میں اس وسیع وعریض ہوسٹل میں دیر تک اپنا کمرہ ڈھونڈتا تھا اور تلاشِ بسیار کے بعد جب میں کمرے کا تالا کھولتا تھا تومجھ میں صرف بستر پر لڑھکنے کی سکت ہوتی تھی۔ میں تیزی سے نیند کے ٹھنڈے پاتال میں اترتا چلاجاتا تھا۔ اس میں اکثر مقبول ومقتول سیاست دان کی صاحبزادی مجھ سے ملنے آتی تھیں۔ صاحبزادی صحرائی زنداں میں اپنی سزا کاٹنے کے بعد جلاوطن ہوگئی تھیں۔ وہ ولایت سے اپنے والدِ مرحوم کی سیاسی جماعت چلاتی تھیں۔ وہ اپنی مصروفیات سے فرصت نکال کر میری نیندوں کے پاتال میں اترتی تھیں۔ ان کی نفیس خوشبو پاتال کی شب گزیدہ ہوا پر غلبہ پاجاتی تھی اور پاتال کی تاریکی ان کے چہرے کے نور سے مات کھاتی تھی۔ ان کی آنکھیں جھلمل جھلمل کرتی تھیں اور پاتال منور ہوجاتا تھا۔ اس منور فضا میں صاحبزادی کے تن بدن کا سارا نقشہ آشکارا ہوجاتا تھا۔ ان کے باریک لباس کے آرپار ان کی چھاتیاں، ان کی ناف اور ان کی رانیں نظر آتی تھیں جنھیں دیکھ کر میں بہک جاتا تھا۔ لیکن میری سیدانہ تہذیب نفس صاحبزادی کی پاکیزگی کا دفاع کرنے پر فوراً آمادہ ہوجاتی تھی اور احترام میری امنگوں پر غالب آتا تھا۔ اس اثنا میں صاحبزادی میری نگاہوں کی شہوت سے ناراض ہوچکی ہوتی تھیں۔ وہ بولنے پر راضی نہیں تھیں۔ اظہارِ خیال کے لیے وہ اشاروں سے کام لیتی تھیں اورا شاروں سے پاتال کی ایک دیوار کی طرف مجھے توجہ دلاتی تھیں۔ اس دیوار پر یزیدیوں کی فلم چلتی تھی۔ ان کے کارواں ہمارے وطن کی طرف گامزن تھے۔ ان کے خچروں، اونٹوں اور گھوڑوں پر کلاشنکوف، اسٹنگر اور مشین گن کی لمبی نالیاں چمکتی تھیں۔ یزیدی بیرونِ ملک سے تربیت لینے کے بعد ہمارے وطن کے بیابانوں اور شہروں کی طرف آرہے تھے۔ وہ بارودی سرنگیں بنانے، دستی بم اچھالنے اور شب خون مارنے میں ماہر ہوگئے تھے۔ وہ نت نئے ظلموں پر کمربستہ تھے۔ وطن کی معذور سرحدیں اور عاقبت نااندیش فوج اس لشکرِجفا کو روکنے کی کہاں اہل تھیں! میں گھبرا جاتا تھا، میری دھڑکنیں تیز ہوجاتی تھیں اور میری آنکھیں یکدم کھل جاتی تھیں۔ نیند کے منور پاتال کی جگہ میرے ویران سیلن زدہ کمرے نے لی تھی۔ صاحبزادی اپنی خوشبو اور خاموشی لے کر ولایت چلی گئی تھیں اور یزیدی لشکری ہنوز بیرونِ ملک میں تربیت کے مدارج طے کررہے تھے۔ مجھے اپنے خوابوں سے پیشگوئیوں کی بو آتی تھی۔ ممکن تھا کہ ابو کی پیشگویانہ صلاحیت میری دسترس میں آئی تھی۔ لیکن جب ابو حیات تھے، مجھے ان کی وراثت کیوں ملی تھی؟

پھر ایک رات صاحبزادی ایک غیر معمولی پوشاک زیبِ تن کرکے میری نیندوں کے پاتال میں آئی۔ اس نے اپنے باریک لباس کی جگہ ایک ڈھیلا ڈھالا برقع پہنا تھا۔ اس کے تن بدن کا حسن سیاہ رنگ میں پنہاں تھا۔ حجاب سے اس کے چہرے کا دائرہ جھانک رہا تھا۔ اس کی آنکھیں سوگوار تھیں۔ ان آنکھوں کی سوگ بھری خاموشی مجھے پرسہ دے رہی تھی۔لیکن یہ پرسہ کس لیے تھا؟ میرا کون سا عزیز ملکِ عدم کا راہی بن گیا تھا؟ میں نے صاحبزادی سے پوچھا، ’’میڈا کیہڑا عزیز مر گیا؟‘‘ اور اس نے لب کھولے بغیر پاتال کے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا۔ وہاں ایک تابوت پڑا تھا۔ تابوت میں ایک کفنائی ہوئی ہستی ابد کی نیند سورہی تھی۔ اس ہستی کا چہرہ کفن سے ابھرا تھا۔ وہ ایک مانوس چہرہ تھا، ایک غمگین اور دیوانہ، حزیں اور ہزیمت خوردہ چہرہ، جس کو میں نے ہزار بار دیکھا تھا۔ اور وہ کسی مقتولِ جفا کا چہرہ تھا کیونکہ اس کے ماتھے پر ایک گولی کا نشان نمودار تھا۔ وہ میرے والدِ محترم کا چہرہ تھا۔
میری نیند کھلی۔ ایک انجان مخلوق میرے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹارہی تھی۔ اس کابوس کے بعد کون آدمی مجھ سے ملنے کا خواہاں تھا؟ میں اپنے بستر سے اٹھا اور میں نے دروازہ کھولا۔میرے ہوسٹل کے وارڈن صاحب میری دہلیز پر کھڑے تھے۔ وارڈن صاحب ایک عام نوکر کی طرح شرمندہ اور لاچار تھے۔ ان کی آنکھیں دوزخمی ابابیل تھیں، ان کا چہرہ ایک اداس گھونسلا تھا۔ اس سنجیدہ اور رنجیدہ آدمی کے آگے میں کتنا بے ڈھب لگ رہا تھا۔ میں ایک سمندری لٹیرا تھا۔ میرے بالوں کو پردیس کی ہوائوں نے بکھیرا تھا اور میرے تن بدن کو جزیرے جزیرے کی پریوں نے اپنے ناخنوں سے نوچاتھا۔ میرے منھ سے ولایتی مشروبات کی غلیظ بوآرہی تھی اور میری آنکھوں میں قحبائی وصلتوں کا نشہ باقی تھا۔ لیکن وارڈن صاحب میری خوبو سے سراسر غافل تھے۔ وہ مجھے ایک بری خبر سنانے آئے تھے۔میری بستی سے ایک کال آئی تھی۔ میرے والد صاحب رات کو قتل ہوگئے تھے اور مجھے شام تک ان کے جنازے میں شریک ہونا تھا۔

میں اپنے بھولے بسرے گھر کی طرف روانہ ہوگیا اور راہِ دور دراز طے کرکے شام کے وقت گھر پہنچا۔ جنازہ میرے آتے ہی اٹھ گیا۔ میں میت اٹھانے والوں میں شامل ہوگیا۔ ابو کی میت انتہائی بھاری تھی، گویا اس میں سادات کی گزشتہ تاریخ کے سارے دکھ سماگئے ہوں۔ جنازے کے تمام شرکا مہر بہ لب تھے اور خاموشی کے بے کنار سمندر پر افسوس کی نائو ڈولتی تھی۔ زوال آمادہ سورج لہولہان تھا اور رات سوگ کا لباس پہن کر دبےپاؤں آ رہی تھی۔ قبرستان تھل سے متصل تھا۔ قبرستان تک پولیس کا ایک دستہ ہمارے ہمراہ تھا جس کی ساری نفری خوف سے کانپ رہی تھی۔ انھیں معلوم تھا کہ جہاں جہاں یزیدیوں کے دشمن مجمع لگاتے ہیں، وہاں وہاں موقعے کی تاک میں یزیدی پھرتے ہیں۔
ہم قبرستان پر پہنچ گئے۔ ابو کی خالی قبر میری والدہ کی قبر کی بغل میں میت نگلنے کی منتظر تھی۔ ہم نے اس بھوکی قبر میں میت اتاری۔ میں تلقین کے لیے قبر میں اترا۔اوپر دھرتی کے پشتے پر ایک ریش دار آدمی دعا پڑھ رہا تھا۔ نیچےزمین تلے میںاپنے بازوئوں کے تیشوں کو جوڑ کر ابو کے کفنائے ہوے کاندھوں کو اٹھا رہا تھا۔ ابو کی میت حنوط شدہ لگ رہی تھی۔ میت کا انگ انگ اکڑا ہوا تھا۔ میت میں ایک سانپ کی سوکھی ٹھنڈ تھی۔ تلقین کے دوران میں خوب پسینہ بہارہا تھا اور نیچے میرے پسینے کے قطرے کفن کے سمندر میں جذب ہورہے تھے۔ اس سمندر پر لہریں ہی لہریں تھیں۔ اور اچانک ان لہروں سے ابو کا چہرہ ابھر آیا۔ ان کا چہرہ کالا تھا، ان کے لب سفید تھے، اور ان کے چوکور ماتھے پر موت کا تلک جھلک رہا تھا۔ فقط ایک گولی اس ماتھے میں اتاری گئی تھی۔ فقط ایک گولی ان بخیل یزیدیوں کی طرف سے ابو پر خرچ ہوئی تھی جس کے وسیلے سے ان کی فلک جُو روح جسدِ خاکی سے رہائی پا گئی تھی۔ اس تلک کو دیکھ کر میں بلک گیا۔ پشیمانی مجھے دھنس رہی تھی۔ افسوس مجھے کھارہا تھا۔ یہ تلقین ایک کٹھن سزا تھی۔ اچانک میرے کانوں میں ایک آواز گونجی: ’’پتر،جی بھر کے رو، پر ایہہ گل یاد رکھیں کہ میدانِ کربلا وچ علی اکبر نے اپنے پیو کول پہلے شہید تھیناں اپنا فرض سمجھیا ہئے تے توں شہردے گشتی خانیاں وچ اپنے پیودی شہادت دا انتظار کریندا رہیا۔‘‘

دھرتی پر ریش دار آدمی کی دعا جاری تھی۔ دھرتی تلے میں تائب ہورہا تھا۔ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ میرے نالائق ہاتھ میرے والد شہید کو کروٹیں دینے کا حق نہیں رکھتے۔ میں ایک گھٹیا آدمی تھا، ایک فرزندِ ناخلف، ایک شہدہ، جبلت اور شہرت کی بندگی کرنے والا۔ شرکاے جنازہ اگر مہذب نہ ہوتے تو مجھ پر تھوک دیتے، اور میں ان تھوکوں کے لائق بھی نہیں تھا۔
ریش دار آدمی کی دعا ختم ہوگئی۔ میں نے قبر کی دائمی گہرائیوں سے نکل کر زمین کی فانی ریت پر پائوں دھرے۔ شرکاے جنازہ قبر میں مٹی پھینکنے لگے، لیکن میری ندامت نے مجھے ان میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ میرے ابو کو یقیناً میری دوزخی مٹی کی ضرورت نہیں تھی۔ سو میں قبرستان سے رخصت ہوگیا۔ میرے پائوں بس اڈے کی طرف اٹھ گئے۔ وہاں طرب نگر کی بس میرے انتظار میں کھڑی تھی۔ بس چل پڑی۔ میں پچھتاوے کی طویل یاترا پر چل نکلا۔

طرب نگر واپس آنے کے بعد میں نے اپنے ہوسٹل کے کمرے میں پناہ لی اور میں اس کمرے میں نظر بند ہوگیا۔ میرا دروازہ مقفل تھا۔ باہر نکلنا میرے لیے حرام تھا۔ میری آنکھوں کو نہ دن نہ رات دیکھنے کا موقع ملتا تھا۔ عزلت میری سلطنت اور میری قید تھی۔
میں دن رات اپنے بستر پر دراز رہتا تھا اور کروٹیں لیتے لیتے عجیب عجیب لفظوں کا ورد کرتا رہتا تھا۔ میرے ابو کی دیوانگی پنچھی بن کے، ان کے جسدِ خاکی سے اڑتے ہوے، میری ذات کی ڈالی پر آگئی تھی۔ اس دیوانہ کیفیت میں ابو کا مردہ چہرہ میری آنکھوں میں ہروقت پھرتا تھا۔ نیند مجھ سے گریزاں تھی۔ احساسِ گناہ مجھے ایک پل بھی سونے نہیں دیتا تھا۔ میں کبھی خوابوں، کبھی بیداری میں ایک منظر بار بار دیکھتا تھا۔ میں ایک طمنچہ دیکھتا تھا، ابو کے ماتھے کی طرف تنا ہوا۔ ایک منھ ’’کافر‘‘ کا لفظ اگل رہا تھا، ایک گولی کی آواز فضا کو چیر رہی تھی، اور تھل کاریشمی دامن ابو کے خون سے داغدار ہورہا تھا۔ اب ابو کی روح مجھ سے انصاف مانگ رہی تھی۔ یہ انصاف بھلا مجھ جیسا کمزور اور عیاش انسان کہاں سے لاسکتا تھا؟ اور کس طرح؟ یہ دونوں سوال مجھے دن رات تڑپاتے تھے، اور میں لاجواب رہتا تھا۔
دیوانگی نے عزلت نشینی سے مل کے میرے کمرے کو ایک آبدوز میں بدل دیا تھا۔ یہ آبدوز نہ جانے کن پانیوں میں اترتی جارہی تھی۔ شروع شروع میں ساحل سے کچھ آوازیں آتی تھیں۔ میرے ہوسٹل کے لڑکے مجھے اپنی آبدوز سے باہر آنے کو کہہ رہے تھے، لیکن آبدوز کسی وجہ سے رک ہی نہیں پارہی تھی، اور ساحل والوں کی آوازیں یکے بعد دیگرے فنا ہوگئیں۔ ایک اتھاہ خاموشی ہرسو پھیل گئی۔ یہ خاموشی مجھے ایک فیصلہ سنانے پر اکسا رہی تھی۔ میرا دماغ گہرائیوں میں اترتے اترتے آہستہ آہستہ دنیاوی آلائشوں سے پاک ہوگیا تھا۔ میرے پہلے والے وسوسے ساحل پر رہ گئے تھے اور میں مقدر کے اندوہناک اژدہے کی قدم بوسی پر راضی تھا۔ اگر میں اپنے ابو کو انصاف نہیں دلا سکتا تھا تو کم از کم ان کا جانشین بن سکتا تھا۔ میں نے بستی واپس جانے کا فیصلہ کیا اور ذاکری کرنے کی ٹھان لی۔

ابو کی پہلی برسی بستی میں منائی جارہی تھی۔ ان کے عزیز اور شیدائی تھل کے اطراف وجوانب سے حاضری دینے آئے تھے۔ اس موقعے پر مجھے اپنی پہلی مجلس پڑھنی تھی۔ بستی کے عزاخانے میں سینکڑوں سیاہ پوش سامعین اکھٹے ہوے تھے۔ ان میں ہرطبقے کے لوگ موجود تھے — کسان ، چرواہے، دستکار، دکاندار، زمیندار اور افسرانِ بالا — اور سب یکساں طریقے سے دوپہر کی شدید گرمی میں جھلس رہے تھے۔ عز اخانے کے پنکھے خراب تھے۔ ہواگراں اور تپاں تھی۔ سامعین کے سیاہ کپڑے پسینے میں تربتر تھے۔
میں بھی سیاہ پوش تھا اور اس گردن جھکانے والی گرمی کے باوجود منبر پر سیدھا بیٹھا تھا۔ میرے شانے ایک پشمینے کی قیمتی شال سے آراستہ تھے۔ یہ شال اس شدید گرمی سے میری بےسروکاری کا ناقابلِ تردید ثبوت تھی۔ سرمے کی آمیزش سے میری آنکھیں شعلہ بار ہوگئی تھیں اور میں پورے زور سے آبدوز میں گزارے ہوے دنوں کی کیفیت کو اپنے دل ودماغ پر طاری کررہا تھا۔ آبدوز میں زیرِ آب ہوکر میں نے وقت کے بھنبھناتے لحظوں کو خاموشی کے مرتبان میں قید ہوتے دیکھا تھا۔ اس آبدوز انہ کیفیت کے اثر میں آکر میں نے اپنی اولین مجلس کا آغاز کیا۔
آغاز ایک لمبی دعا سے ہوا۔ دعا پڑھتے وقت میری آواز سپاٹ تھی اور میرے لبوں سے ایک ماورائی سُراڑرہا تھا۔ دعا ابو کی روح کے دائمی سکون کے لیے تھی۔ میں وقفے وقفے سے اپنا ماورائی سُر الاپتے ہوے سامعین پر نظریں جماتا تھا۔ میں ان کو ایک خوفناک انداز میں دیکھتا تھا، گویا میں نے ان کی صفوں میں اپنے ابو کا قاتل پکڑا تھا۔ میری آنکھیں سرخ تھیں۔ ان آنکھوں نے دشمنوں کا خون بہت پیا تھا۔ یہ مجلس ان دشمنوں کے لیے ایک تنبیہ تھی جنھوں نے ہماری خاندانی ذاکری کو تہس نہس کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔
میں نے اپنی دعا ختم کی اور اہلِ مجلس کو بلند ترین آواز میں نعرۂ حیدری لگانے کو کہا۔ فرمانبردار سامعین نے نعرہ لگایا۔ میں نے ان کو فتح مندانہ نظروں سے دیکھا۔ وہ میرے ماتحت تھے،میرے وفادار سپاہی۔ میں ان کا امام اور سالار تھا۔ نعرۂ حیدری ہمارا اعلانِ جنگ تھا۔ میں لڑائی سے پہلے اپنے مجاہدوں کے حوصلے بڑھا رہا تھا۔ دشمن ہمارے دشت میں خیمہ زن تھے۔ ان کا تعلق سپاہِ شہداسے تھا۔ سپاہ ِشہدا سپاہِ یزید کی ایک پلٹن تھی۔ سپاہِ شہدا ہمیں بہت سے چراغوں کی تابناکی سے محروم کرچکی تھی۔ ہمارے کتنے روشن دماغ بزرگ اور بھائی ان کی گولیوں سے وفات پاچکے تھے۔ سالوں سے ابلیس کے یہ حواری ہماری گلی کوچوں اور صحرائوں میں پھر رہے تھے اور سادات کی جان لے کر اپنی نئی کارستانیوں کی نوید دینے اپنے یزید کے مکروہ دربار میں حاضر ہوتے تھے۔ انھی لوگوں نے ایک سال پہلے ایک نیک سید کا خون کیا تھا۔ وہ حضرت میرے والدِ محترم تھے جن کی ناوقت رحلت کا افسوس کرنے ہم سب یہاں موجود تھے...میں بولتا جارہا تھا۔ میری آبدوزانہ کیفیت مجھ سے بہت کچھ بلوا رہی تھی۔ سامعین میرا ایک ایک فقرہ ذہن نشین کررہے تھے۔ ایک نیا خون میری رگوں میں رواں تھا۔ ابو کاخون رائیگاں نہیں گیا تھا۔ اس خون کی ایک ایک بوند، میری شریانوں میں جم کر میری ذات کو ایک نئے جوش سے نوازے جارہی تھی۔
مجلس کا پہلا حصہ ختم ہوچکا تھا۔ میں نے ڈھیروں سیاسی اور غیرسیاسی باتیں کی تھیں۔ اب اس دنیا کو طاقِ نسیاں پر رکھ کے دین کے تقاضے پورے کرنے تھے۔ مصائب بیان کرنے تھے۔ میں نے آنکھیں میچ لیں، اور میرے آگے کا منظر بدل گیا۔ میں نے پورے سوزوگداز سے منظر کا ایک ایک جزو بیان کیا۔ سامنے ایک دورافتادہ آسمان تھا۔ کربلا کا دلگیر سورج اس آسمان کا اسیر تھا۔اس سورج تلے میدانِ جنگ میں اکہتر میتیں پڑی تھیں اور خیموں سے سیدانیوں کے بین بلند ہورہے تھے۔ بین کی آواز میدان میں آپ کے گوشِ مبارک تک آرہی تھی۔ آپ اکہتر میّتوں کی خاموش منڈلی میں تن تنہا تھے اور بارہ کوفی گھڑ سوار آپ کو گھیر رہے تھے۔ آپ کا دستِ مبارک آپ کی تلوار کے قبضے پر تھا اور آپ، ان ظالم نیزوں سے غافل جوکہ آپ کے شکستہ تن پر برسائے جارہے تھے، اور ان جابر پتھروں سے بے پروا جوکہ آپ کے رستے ہوے زخموں پر پھینکے جارہے تھے، ملک الموت سے آنکھیں ملا رہے تھے۔ آپ کے مبارک چہرے پر ایک ایسا کرب جلوہ دے رہا تھا جو کہ میں نے اپنے ابو مرحوم کے چہرے پر پہلے دیکھا تھا۔ اور آپ کے خدوخال میرے ابو سے اتنے مماثل تھے کہ میں اس ہم آہنگی سے دھوکا کھانے لگا تھا۔ ابو میرے سامنے تھے۔ وہ امام عالی مرتبت کے لبادے میں ظہور کررہے تھے۔
میںنے اس وقت آنکھیں کھولیں۔ جو منظر میری پلکوں کی اوٹ میں پنپ رہا تھا وہ اوجھل ہوگیا۔ اس کی جگہ ایک عزا خانہ تھا، رقت اور آہ وبکا کے حصار میں۔ ساری مجلس گریے میں آئی تھی۔ کوئی رومال سے اشک پونچھ رہا تھا، کوئی گلا پھاڑ کر رورہا تھا، کوئی پورا زور لگاکے چھاتی پیٹ رہا تھا۔ اور ان اشک شوئیوں، آہ وزاریوں اور سینہ کوبیوں نے ایک عجیب شدت سے میرے حوصلے بڑھائے۔ بولتے بولتے میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنی پشمینے کی شال کو اٹھایا اور یوں مروڑا اور گرداگرد لہرایا گویا وہ کسی یزیدی کا ملعون جسم تھا۔ مجھے اس دشمنِ بدعہد سے نبردآزما دیکھ کر سامعین چیخ چیخ کرکہرام مچانے لگے۔ قیامت قریب تھی۔ یہ قیامت میری انتھک محنت کا پھل تھی۔ یہ حشر میرے الفاظ کے اسلحوں نے برپاکیا تھا۔ میں مطمئن تھا۔ میری آنکھیں اور میرے کان جشن منارہے تھے۔ اور اچانک ایک معجزہ ظہور پذیر ہوا۔ عزا خانے کی چھت کھل گئی اور میرے پائوں خودبخود منبر سے اٹھ گئے۔ میں ہوا کے زینے پر چڑھ رہا تھا۔ میں بلند سے بلند تر ہورہا تھا۔ میں سوے فلک جارہاتھا۔ پھر میرے آگے آسمانی رفعتوں میں ایک درخشاں دروازہ اجاگر ہوا۔ وہ باب الشہدا تھا۔ حضرت امامِ پاک اس کی دہلیز کو پاٹ کر فردوسِ بریں میں داخل ہوگئے تھے۔ اب باب الشہدا کے باہر سینکڑوں متوفی سادات کا جمگھٹا تھا۔ فرشتے باری باری ان کی تفتیش کررہے تھے۔ صاف باطن سادات فرشتوں سے پروانۂ راہداری لے کر اندر چلے جاتے تھے۔ دعوے کرنے والے سادات زندوں کی سرزمین کی طرف واپس بھیجے جاتے تھے۔ اور اس جمگھٹے میں اچانک میرے ابو مرحوم مجھے نظر آئے۔ وہ عرش کے فرشتوں کا آشیرباد لے کر باب الشہدا کی دہلیز الانگھ رہے تھے۔
ابو کا دیدار مکمل نہیں ہونے پایا تھا کہ کششِ ثقل میرے پائوں کھینچنے لگی۔ میں منبر پر واپس آ گیا۔ معجزے کے دوران میری مجلس اختتام پذیر ہوچکی تھی۔ سامعین نے مجھے یوں مبہوت اور بےصدا پاکر تھوڑی دیر صبر کیا تھا۔ پھر جب انھوں نے مجھے اپنی معجزہ بینی میں پوری طرح غرق دیکھا تھا تو وہ سب ایک ساتھ اٹھ گئے تھے۔ اب عزاخانے میں خاموشی کا راج تھا اور اندھیرے کی حکمرانی۔ میں بے یقینی سے اپنے گردوپیش دیکھ رہا تھا۔ اتنے کم لمحوں میں اتنا وقت کیسے گزرا تھا؟ اچانک فرش پر کچھ کرنیں پڑنے لگیں۔ چاندنی عزاخانے کے ایک دریچے سے جھانک رہی تھی اور وہ مجھے دیدار پر بلا رہی تھی۔ میں عزا خانے سے نکلا اور لمبے قدموں سے تھل کا رخ کرنے لگا۔ تھل میں ریت کے ٹیلے رقصاں تھے۔ چاندنی انھیں نچارہی تھی۔ اور اب مجھے یقین تھا کہ کسی نہ کسی ٹیلے کے جنباںدامن میں مجھے اپنے ابو کا سایہ دکھنے والا تھا۔

اس مجلس کے بعد میری زندگی کا ایک نیادور شروع ہوگیا — ذاکری کا دور۔ جس کثرت سے مجھے کچھ عرصہ پہلے مشاعروں کے دعوت نامے ملتے تھے، اب اسی کثرت سے مجلس پڑھنے کی فرمائشیں میری طرف آتی تھیں۔ عزاخانے میری بےخودی کے قائل تھے۔ اہلِ مجلس کو میری آبدوزانہ کیفیت کا انتظار رہتا تھا۔ سارا جہاں میرا مجذوبانہ بیان سن کر وجد میں آتا تھا اور میری مقبولیت صبارفتاری سے ملک کے اطراف وجوانب میں پھیلتی تھی۔ مجلسیں پڑھنے کے لیے میں ملک کے گوشے گوشے کا سفر کرتا تھا۔ کچھ کوہستانی گوشے تھے، برف سےڈھکے ہوے ، جہاں اہلِ مجلس کے دانت ہروقت بجتے تھے۔ کچھ سرحدی گوشے تھے جہاں ہمارے عَلم ہمسایہ ملک کے فوجیوں کے اہداف بنتے تھے۔ کچھ صحرائی گوشے تھے جن کی ویرانیوں میں میری آواز صداے بازگشت بن کر دس میل آگے سنی جاتی تھی۔ اور کچھ ساحلی گوشے تھے جہاں ہوائوں کی منھ زوری اس قدر تھی کہ مجھے سامعین تک اپنے الفاظ پہنچانے کے لیے چیخنا پڑتا تھا۔ یہ سارے گوشے میرے دیکھے بھالے تھے۔ لیکن کسی گوشے کی مجھ پر چھاپ نہیں پڑی تھی۔ نام اور نقشے مجھے بھول جاتے تھے۔ کہاں کس طرح کے چہرے پائے جاتے تھے؟ کہاں کس طرح کی قدرت دیکھی جاتی تھی؟ مجھے کچھ یاد نہیں تھا۔ بس سفر یاد تھے۔ ان سفروں میں دو چار بندوق بردار میرے ساتھ ہوتے تھے اورہم ایک بکتر بند گاڑی میں بیٹھ کر دشت وجبل، کوہ ودمن، بحروبر سے گزر کر مختلف منزلوں پر پہنچتے تھے۔ منزلیں کثیر ومتنوع تھیں لیکن سفر ہمیشہ ایک ہی طرح کے تھے اور مجلسوں کے رسم ورواج ایک ہی جیسے تھے۔ پورے ملک میں ایک ہی جیسے منبر تھے جن کو میری شعلہ بیانی بھسم کرتی تھی، ایک ہی جیسے عزا خانے تھے جو میری آہٹیں سنتے ہی میرے سحر تلے آتے تھے، اور ایک ہی جیسے سامعین تھےجو میرے عطاکردہ کرب واندوہ کے لیے میرے بے حد شکر گذار تھے۔
میری مجلسوں کی طرز کیا تھی؟ سب سے پہلے میں مجلس کو گرمانے کے لیے اعداے دین کا ذکر کرتا تھا۔ آج کل کے اعداے دین سپاہِ شہدا کے رضاکار بن جاتے تھے۔ ایک سہ رکنی شوریٰ اس روسیاہ تنظیم کی روح رواں تھی۔ پہلا رکن ملک آفاق تھا جو اپنے تہہ خانے میں بیٹھ کرتباہی کے منصوبے بناتا تھا۔ دوسرا اکرم طرب نگری تھا جو بیرونِ ملک کی تربیت گاہوں میں نوخیز مرتدوں کو تعلیمِ جنگ دیتا تھا۔ تیسرا مولانا افضل طارق تھا جس کے منافرت انگیز خطبے دیہاتی اور شہری عوام کے ہوش اڑاتے تھے۔ میں ان تینوں ملعونوں کا نام لیتا تھا اور میرے سامعین، جو ان کا تذکرہ کرنے سے بھی ڈرتے تھے، میری دلیری کی داد دیا کرتے تھے۔ اس طولانی تمہید کے بعد میں مقرر سے ذاکر بن جاتا تھا اور اپنے منفرد انداز میں مصائب سنانے لگ پڑتا تھا۔ مصائب چھیڑتے ہی مجھ پر الہام نازل ہوتا تھا۔ میری آنکھوں میں کوہِ طور جیسی دمک تھی، میرے لبوں پر ڈھیروں مقدس نام کھلتے تھے، اور میری آواز میں سوز کے ایسے زیروبم تھے کہ عرش کے مکین مجھ پر ترس کھاکر اپنی سیڑھیاں میری طرف اتارتے تھے۔ میں ان سیڑھیوں پر چڑھتا تھا اور غیب کی پناہ میں آتا تھا۔ غیب سے میری واپسی تاخیر سے ہوتی تھی۔ سامعین آنسو پونچھ کر مجلس سے اٹھ جاتے تھے۔ان کی نگاہوں میں تعجب اور رشک تھا۔ انسان ہوکے میں نے اتنا بلند مرتبہ کیسے حاصل کیا تھا؟
اس اثنا میں غنیم ایک طیارے کے حادثے میں مرگیا۔ جمہوریت بحال ہوگئی۔ صاحبزادی ولایت سے واپس آگئیں اور واپس آکر وہ میرے ابو کی پیشگوئی کے عین مطابق اپنے والد مرحوم کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوگئیں۔ لیکن ان کی حکومت یزیدیوں کا بال بھی بیکا نہ کرسکی۔ یزیدی ملک کے پہاڑوں اور صحرائوں کو اپنی کمیںگاہ بنا چکے تھے۔ کوئی انھیں روک نہیں سکتا تھا۔ وہ اپنی کمیںگاہوں سے نکل کر ہمارے بھائیوں کو شہید کرتے تھے اور ہمارے مجمعوں کوگولیوں کے میلے بناتے تھے۔ ہمارے عزا خانے کیا، ہمارے قبرستان بھی ان ستم ایجادوں کی زد میں تھے۔ لیکن ہماری دُرگت کی طرف کوئی سیاست دان توجہ نہیں دیتا تھا۔ سب خوفزدہ تھے۔ سب نے اندر خانے یزیدیوں سے معاہدے کر رکھے تھے۔ لیکن ایک صاحبزادی تھیں جو اپنی تقریروں میں ہمارے دشمنوں کے خلاف آواز اٹھاتی تھیں۔ اور ہم ان سے بڑی خوش گمان قسم کی امیدیں وابستہ کیے بیٹھے تھے۔ میں اپنی مجلسوں میں اکثر ان کی مدح سرائی کرتا تھا۔ میں سیاسی معاملوں میں پہلے سے زیادہ صاف گو اور جانبدار تھا۔ میری بےباکی میری شہرت کی کنجی تھی۔ میں تمام سادات کی نظر میں ایک جری اور سچا آدمی تھا، خوف اور بزدلی سے نابلد۔ میں ایک ملک گیر مسافر بھی تھا، اور ملک کے جس علاقے میں پہنچتا تھا وہاں ہمت اور شجاعت کے گل کھلاتا تھا۔ میں ہوائوں میں جنگ کا علم لہراتا تھا اور جنگ لڑنے کے لیے میں نے اپنے آپ کو آہن میں ڈھالا تھا۔ میری حرکات وسکنات اور میرے الفاظ لوہے کی طرح ٹھوس تھے اور میرا یہ لوہا میری دیوانگی کی حفاظت کرتا تھا۔

صاحبزادی کئی دنوں سے میرے سپنوں سے غائب تھیں۔ ان کی غیرحاضری میں مجھے اپنے سپنوں میں صرف اور صرف یزیدی نظر آتے تھے۔ ہررات ان کے لمبے قافلے میری خوابیدہ آنکھوں سے گزرتے تھے۔ سب کے شانوں پر اے کے 47جھولتے تھے، سب کی پیٹیوں پر دستی بم کھنکتے تھے اور سب کے سروں میں قتل وغارت کے خواب چمکتے تھے۔ اور ایک رات ، ایک طویل وقفے کے بعد صاحبزادی میرے سپنوں میں واپس آئیں۔
اس رات میں نے صاحبزادی کو دارالحکومت کے ایک تاریخی باغ میں تقریر کرتے دیکھا۔ اس تقریر میں وہ اپنے حامیوں اور شیدائیوں کے سامنے اپنے والد صاحب کی مثال پیش کررہی تھیں جنھوں نے اپنے خون سے عوام کے پیار کا بدلہ دیا تھا۔صاحبزادی اسی نسبت سے خود کو عوام کی بہن قرار دے رہی تھیں۔ ان کے الفاظ سن کر حامیوں اور شیدائیوں کے دل انس سے چھلک رہے تھے۔ سب وفا اور محبت کے نعرے لگا رہے تھے اور تقریر ان کے نعروں کے ساتھ ختم ہوئی۔ صاحبزادی ایک ذاکرہ کے سےرعب سے اپنے اسٹیج سے اتریں اور اپنی بکتر بند گاڑی کی طرف قدم بڑھانے لگیں۔ لیکن دل جلے حامی اور شیدائی ان کے قرب سے فیض پانے کے لیے انھیں گھیر چکے تھے۔ صاحبزادی کے محافظ بصد مشکل انھیں راستے سے ہٹا رہے تھے۔ صاحبزادی ان محافظوں کے جلو میں سلام کرتے ہوے، ہلہ شیریاں سنتے ہوے اور ہاتھ ہلاتے ہوے آرہی تھیں۔ وہ آخرکار اپنی بکتر بند گاڑی پر پہنچ گئیں اور اس میں بیٹھ گئیں۔ گاڑی اسٹارٹ ہوئی، لیکن حامیوں اور شیدائیوں کابےپناہ پیار صاحبزادی کی گاڑی کو ایک انچ بھی بڑھنے نہیں دے رہا تھا۔ گاڑی کا اتنی دیر تک ہجوم میں کھڑے ہونا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ اس طرح ایک ناگ کو حامیوں اور شیدائیوں کے آگے پیچھے سے گزر کر اپنے شکار کی طرف رینگنے کی پوری مہلت مل رہی تھی۔ ناگ قریب آرہا تھا اور صاحبزادی خطرے کو درخورِ اعتنا نہ سمجھ کر اپنے ڈرائیور سے گاڑی کی چھت کھولنے کو کہنے لگیں ۔ چھت فوراً کھل گئی اور صاحبزادی کھڑے ہوکر تمام آنکھوں کا چراغ بن گئی۔ وہ اپنی لمبی اور شائستہ انگلیوں سے وی کا نشان بنا رہی تھیں۔ اور اس نشان کو دیکھنے کے بعد حامیوں اور شیدائیوں پر گویا جنات کا حملہ ہوا۔ سب تڑپ رہے تھے، چیخ رہے تھے اور زقندیں بھررہے تھے۔ بے ہنگمی کے ان لمحوں سے فائدہ اٹھا کر ناگ اپنے شکار کو ڈسنے کے لیے اچھل پڑا۔ ایک دھماکا ہوا۔ بیسیوں حامیوں کی انتڑیاں پیٹ سے خارج ہو کر زمین پر گرپڑیں۔ بیسیوں شیدائیوں کی کھوپڑیاں تنوں سے جدا ہوکر آسمان میں اڑ گئیں۔ صاحبزادی کی گاڑی اس دھماکے کی زد میں آکر نذرِآتش ہوگئی۔ آگ کے لمبے شعلوں تلے صاحبزادی کا خون ڈگمگا رہا تھا۔ باب الشہدا کی دہلیز پر ایک نئی روح پروانہ ٔ راہداری کی منتظر تھی۔ لیکن میرا سپنا یہاں ختم نہیں ہوا۔ اب مجھے وہ میدانِ جنگ، جہاں صاحبزادی اپنے حامیوں اور شیدائیوں کے ساتھ کھیت ہوئی تھیں، رات کے آخری پہر کی پھیکی سی روشنی میں نظر آرہا تھا۔ میدانِ جنگ شبنم میں شرابور اور کہرے میں پوشیدہ تھا۔ میدانِ جنگ پر لاشیں اور انسانی اعضا جابجا بکھرے تھے اور میدان کے اردگرد ایمبولینس اور پولیس کی وین کی بتیاں جھلک رہی تھیں۔ شہر کے تمام سائرن رات کے سناٹے میں بین کررہے تھے۔ ان کی آواز سے میری نیند کھلی۔ میری آنکھیں نم تھیں۔ غیب سے ایک آئندہ شہادت کا پیغام ملا تھا۔

میں نے طرب نگر کے ایک نوآباد علاقے میں ایک کوٹھی کرائے پر لی تھی۔ میرے سفروں کے سلسلے میں جب کوئی وقفہ آتا تھا تو میں اسی کوٹھی میں آرام کرتا تھا۔ میں اس علاقے میں پوری طرح گمنام تھا۔ نہ میرے ہمسائے مجھے جانتے تھے نہ میرے آشنائوں کو میرے ایڈریس کا علم تھا۔ معاشرے کی نظریں میرے دروازے کی حد تک تھیں۔ میری دہلیز کے ساتھ وہ قیمتی خلوت شروع ہوتی تھی جس میں میں کسی کو مخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔میں رات بھر اپنی کوٹھی میں شرابیں پیتا تھا اور مشقِ سخن کرتا تھا۔ میری مجلسوں نے میری غزل گوئی کو ختم کیا تھا؛ میں اب صرف نعتیں، منقبتیں اور سلام لکھتا تھا۔ میرے تخیل کے پردے پر علی، حسین اور زینب کے مبارک چہرے ہروقت روشن تھے۔ میں ان کی شان میں خامہ فرسائی کرتا تھا۔ شرابیں میرے ذہن کو نئے نئے زاویوں سے نوازتی تھیں۔ کچھ نادر سی تشبیہات اور عجیب سے استعارات میرے قلم سے نکلتے تھے۔ کچھ ماورائی مناظر میرے قرطاس سے ابھرتے تھے۔ لیکن میں اپنے موضوع کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتا تھا۔ چونکہ میں اپنے اشعار مجلسوں میں سناتا تھا، اور اہلِ مجلس رقت میں آنے کے لیے اختصار مانگتے تھے، تو میں دس بارہ بند میں اپنی تخلیقیں سمیٹتا تھا۔ بے تحاشا لکھنے کی مجھے تشنگی رہتی تھی۔ سو میں نے ایک روز پورےمہینے کی چھٹی لی اور اسکاچ کی تیس بوتلیں منگوائیں۔ پھر میں کوٹھی میں محصور ہوکر قرطاس کو سیاہ کرنے لگا۔ مجھے تب تک لکھنا تھا جب تک تشنگی تھی۔ اس تشنگی کو بجھانے کے لیے میں ایک عریض وبسیط نظم میں کائنات کے سارے انقلاب بیان کرنے جارہا تھا۔ اس کائناتی نظم کو میں نے ’’موجِ تخلیق‘‘ کا عنوان دے رکھا تھا۔
میرا قلم تیس دن اور تیس راتیں رواں رہا۔ میں تیس دن اور تیس راتیں شراب کی مستیوں میں مستغرق رہا۔ میں اسکاچ کی بوتلیں ایک ایک کرکے پی رہا تھا اور نشے کی شدت میں کمی آنے نہیں دیتا تھا۔ اس نشے کے تسلسل سے میری نظم ارتقاپذیر تھی۔ پہلے پہلے دنوں میں میں نے کائنات کی جگہ ایک خلاے محض دیکھا۔ رب ہی یہاں زندہ اور پائندہ تھا۔ رب کے سوا ایک ازلی خاموشی تھی اور ایک لامحدود ویرانی۔ پھر رب نے اپنی عبادت کے واسطے کرۂ ارض کو خلق کیا۔ اور جلد ہی رب کے بھیجے ہوے نبی اور رسول بساطِ ارض پر وارد ہوے۔ وہ رب کے پُرنور احکام ساتھ لے کر آئے تھے۔ ان احکام کے نفاذ سے رب کی سلطنت صحراؤں، کوہوں اور وادیوں میں استوار ہوئی۔ لیکن فتنے نے اس سلطنت کو زیروزبر کر دیا۔ حق پرستوں کو مرتدوں کے زہر،تلوار اور تیرونشتر نے مار دیا۔ نبی زادوں کی صف اجڑ گئی۔ اور حسین بن علی نے اپنے بزرگوں کی طرح جامِ شہادت نوش فرمایا۔ اور حسین بن علی کا نام شہادتوں کی خونم خون تاریخ میں جلی حروف میں درج ہو گیا۔ شہادت کا نام ہے حسین۔ بغاوت کا نام ہے حسین۔ دشمنوں کی مکار صفوں کے آگے شجاعت کا نام ہے حسین۔ میں اپنی کائناتی نظم کو ایک سلام کے ساتھ ختم کرنے پر مجبور تھا۔ ذاکری میرے تن من پر غالب آئی تھی۔ میرا مجلسوں میں پروردہ تخیل مجھے ہر پل میدانِ کربلا کی طرف دھکیلتا تھا۔ میں تیس دنوں اور تیس راتوں کے بعد شہادتِ حسین بیان کر کے خاموش ہو گیا۔ میں نے اشعار سے سجے ہوے قرطاس کے برابر اپنا قلم رکھ دیا، ایک آخری جام پیا اور ایک آخری سگریٹ جلایا۔ کوٹھی کے باہر اس نو آباد علاقے کے مکان نیند سے بیدار ہورہے تھے۔ سورج کا آتشیں سیارہ ان مکانوں کی اوٹ سے ابھر رہا تھا۔ سورج رفعتوں کی طرف گرمِ سفر تھا۔ میں بہت جلد اسی طرح گرمِ سفر ہونے والا تھا۔ شام کو مجھے ایک دور افتادہ قصبے میں ایک مجلس پڑھنی تھی۔

میری بکتربندگاڑی کے شیشوں میں کچھ دیر تک شہر کے لاتعداد مکانات تانتا باندھتے رہے، پھر دیہات کے پہلے پہلے علاقے دکھائی پڑنے لگے۔ فضا یخ تھی، دھند چھائی ہوئی تھی اور اس دھند میں ہماری سڑک عدم سے عدم کو جانے والی ایک راہگزر معلوم ہورہی تھی۔ شراب کا ذائقہ میری زبان تلے دفن تھا اور سفر میرے بچے کھچے خمار کو انگیز کررہا تھا۔میری مست آنکھیں وقفے وقفے سے بند ہو جاتی تھیں، اور جب وہ کھلتی تھیں، طرح طرح کی زمستانی مخلوقات ان کے آگے شیشوں میں نمودار ہوتی تھیں۔کچھ بے چہرہ مخلوقات سڑک کے متوازی راستوں پر اپنی زنگ آلود سائیکلیں چلارہی تھیں، کچھ منتظر مخلوقات اسٹاپوں پر ٹرک کے غبار کوتک رہی تھیں، اور کچھ خانہ بدوش مخلوقات خچروں کے دوش پر نقل مکانی کررہی تھیں۔ خانہ بدوشوں کے قافلے دیکھ کر مجھے ایک قدیم اور پاک قافلہ یاد آرہا تھا۔ آلِ نبی کا قافلہ پردۂ دماغ پر ابھر رہا تھا۔ دشتِ جفا اس سراسیمہ اور پریشاںحال قافلے کی منزلِ مقصود تھا۔ پیاس آلِ نبی کو ستا رہی تھی۔ مشکیزے خالی کے خالی تھے۔ میں نے سوچا، شام کو میں کس طرح کی مجلس پڑھنے جارہا تھا؟ میں شامِ غریباں یا شہادت سنانے والا تھا؟ میں نے یہ فیصلہ شام کے موڈ پر چھوڑ دیا۔
دیہات کی وسعتیں لاانتہا تھیں لیکن میں ایک ہی دن میں ان وسعتوں کو طے کر گیا۔ سورج زوال پر آیا تھا اور دیہاتوں کے بعد دشت کی بساط چارسو پھیل گئی تھی۔ دشت کی ریت میں ریت کا ایک قصبہ کھڑا تھا۔ میری ذاکری مجھے اس خاک نگر تک نہ جانے کیسے لے کر آئی تھی۔ مجلس پڑھ کر مجھے یہاں پر ایک رائیگاں شام گزارنی تھی، شراب اورنشے سے خالی۔ اس شام کے دل دہلانے والے تصور نے مجھے شہادتوں کی جگہ شامِ غریباں سنانے پر مجبورکیا۔

اس دور افتادہ خاک نگر میں میری مجلس اختتام پذیر ہوئی تھی۔ شامِ غریباں سناتے سناتے شام کا بیشتر حصہ بیت گیا تھا۔ سامعین نے میرے بیان کے وسیلے سے حسینی خیموں کو نذرِ آتش ہوتے ہوے دیکھا تھا اور خیموں سے بھاگنے والی سیدانیوں کی آہ و بکا سنی تھی۔ سیدانیاں اپنے بچوں کو گود میں اٹھا کر ایک ٹیلے کی چوٹی تک پہنچی تھیں۔ اس اونچی جگہ سے میدانِ جنگ نظر آرہا تھا جہاں اہلِ وفا اور اہلِ ستم کا خوںآشام تصادم ہو رہا تھا۔ میدانِ جنگ سے موت کی بو آرہی تھی۔ سیدانیاں اپنے ٹیلے پر مبہوت تھیں، اور وہ اچانک چونک پڑیں۔ ان کے پیچھے ایک گھوڑا ہنہنا رہا تھا۔ گھوڑے کا شہسوار ایک لمبے حضرت تھے، ایک عبا میں محجوب، ایک شمشیر سے مسلح۔ زینب نے ان حضرت کو پہچانا۔ وہ ان کے والد محترم تھے۔ وہ سیدانیوں کے نالے سن کر ابد کی نیند سے بیدار ہوے تھے اور نجف سے تشریف لائے تھے۔ انھوں نے گھوڑے سے اترکر باری باری سب مستورات کو پیار دیا، اور جب انھوں نے زینب کو دیکھا تو شمشیر سے اپنی عبا کا ایک حصہ کاٹا اور اس عارضی پیوند سے اپنی بیٹی کا برہنہ سر ڈھانپا۔ پھر وہ گھوڑے پہ چڑھ کر اپنی آخری آرام گاہ کی طرف مراجعت کر گئے۔ میری مجلس اس نرالے منظر کے ساتھ ختم ہو گئی تھی۔
خاک نگر کے ناظم نےمیرے اعزاز میں اپنے گھر ایک دعوت رکھی تھی۔ اس دعوت میں ناظم نے اس قصبے کی کچھ عظیم ہستیوں کو بلایا تھا— ایک مونچھوں والا چودھری، دوفربہ وکیل، ایک نابینا حکیم، دو بونے قاضی اور ایک گیسودراز شاعر ان کے مہمان تھے۔ مجھے نوٹنکیوں کے ان سب کرداروں سے متعارف ہونے کی سعادت حاصل ہوئی اور یہ سب اپنے چکنے چپڑے الفاظ اور لیسدار فقروں سے میری تعریف و توصیف کرنے پر مصر ہوے۔ میری طبیعت مالش کر رہی تھی۔ میں تنہائی کے لیے تڑپ رہا تھا۔ میری شہرت یافتہ شال میں ایک ولایتی بوتل چھپی ہوئی تھی جوکہ ایک پراسرار مداح نے مجھے مجلس سے پہلے عنایت کی تھی۔ میں پہلی فرصت میں اس بوتل کو کھولنے جارہا تھا۔ میں صبر و تحمل سے ایک مناسب موقعے کا انتظار کر رہا تھا، لیکن میری بوتل نوش ہونے کے لیے بے تاب تھی۔ وہ اندر اندر سے میری شال کو چاک کر رہی تھی اور مجھے لگ رہا تھا کہ میںنے اس شال میں ایک بوتل کی جگہ سپارٹا کے دلیر بچے کی لومڑی چھپا رکھی تھی۔
کھانا پروسا گیا۔ بیٹھک کی میز کے چمکیلے دسترخوان پر بریانی کا ایک پہاڑ جلوہ دینے لگا اور حلیم کی ایک جھیل جھلملانے لگی، اور ان دونوں پر کبابوں کے لشکر کا پہرہ تھا۔ میں نے ہاتھ دھونے کے بہانے بیت الخلا کی راہ لی۔ ایک تیرہ و تاریک گلیارے سے گزرا۔ پھر بیت الخلا پہنچا، جس میں داخل ہو کر میں نے اپنی شال کے اندر سے بوتل نکالی۔ میں نے بوتل کھولی اور منھ سے لگائی۔ وہ آتشِ سیال میرے حلق سے اترنے لگی جس کے سہارے کے بغیر میری شامیں بوریت سے کراہتی تھیں۔ لیکن آتشِ سیال کچھ زیادہ تیز تھی۔ میرا گلا جل رہا تھا۔ میری انتڑیاں اینٹھ رہی تھیں۔ میں نے ضد سے ٹیڑھی میڑھی شکلیں بناتے ہوے تین گھونٹ پیے اور بوتل خود بخود میرے منھ سے سرک گئی۔ میرے جسم پر قیامت آ رہی تھی۔ میری ٹانگیں لرزاں تھیں، میرا منھ مسخ شدہ تھا،میری کمر خمیدہ تھی اور میری آنکھوں کے آگے سب چیزیں بے تحاشا بڑھ چکی تھیں۔ بیت الخلا کی زنجیر بامِ فلک کی اونچائی پر تھی اور بیت الخلا کا سوراخ سمندر کی طرح گہرا تھا۔ روز ن سیاروں کی دوری پر تھے اور بوتل میں گنگا اور فرات کا سارا پانی سما چکا تھا۔ میں نے بوتل بند کی، شال میں چھپائی اور بیت الخلا سے نکلا۔ میں دوبارہ اس تیرہ و تاریک گلیارے سے گزرا جہاں سے میں دس منٹ پہلے نہ جانے کتنی امیدیں لے کر چلا آیا تھا۔ میں دعوت پر واپس جا رہا تھا لیکن میرا قیامت زدہ جسم مجھے ٹھیک طرح چلنے نہیں دے رہا تھا۔ میرا پیٹ ایک آتش کدہ تھا اور میرے حلق میں دو شیطانی انگلیاں گھسی ہوئی تھیں۔ میں ان انگلیوں کو نکالنے کے لیے زور زور سے کھانس رہا تھا۔ اور میں اس گمبھیر حالت میں دعوت کی میز پر پہنچا۔ سب مہمان مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ میری طبیعت اچانک کیسے خراب ہوئی تھی؟ میں گرنے کو تھا۔ ایک مہمان میری مدد کو اٹھا۔ میں نے اس کو ہاتھ کے ایک اشارے سے سمجھایا کہ مجھے اس کے سہارے کی ضرورت نہیں تھی۔ ضرورت مجھے اس وقت کسی انسان کی نہیں تھی۔ صرف مولا مجھے بچا سکتا تھا۔ اب ایک پورا ہاتھ میرے گلے کو مروڑ رہا تھا۔ کیا وہ ابلیس یا یزید کا ہاتھ تھا؟ معلوم نہیں۔ لیکن میری مزاحمت عبث تھی۔ یہی ظالم ہاتھ صدیوں سے سادات کی بستیوں، نسلوں اور فصلوں کا ستیاناس کر رہا تھا۔ میری ساری قوم اس کا مقابلہ کرنے سے قاصر تھی۔ میں کون تھا اس کو روکنے والا؟ میرا ذہن ماؤف تھا۔ میری آنکھیں بے نور تھیں۔ کچھ نہیں دکھائی دے رہا تھا سواے ایک رنگ کے جس میں سب رنگ ضم ہوے تھے؛ سواے ایک روپ کے جس میں سب روپ ڈھل چکے تھے، سواے ایک وجود کے جس میں سارے وجود شامل تھے۔ غیب کا لمس میرے رگ و پے میں گھل چکا تھا۔ میں ایک تڑاکے کے ساتھ زمیں بوس ہو گیا۔ جونہی میرا جسم فرش پر ڈھے گیا، میری شال کھل گئی اور میری بوتل خاک نگر کے ناظم اور اس کے معزز مہمانوں کے سامنے لڑھک گئی۔ اس خفیہ بوتل سے آٹھ دس گھونٹ پیے جاچکے تھے۔ اس بوتل کی دو نمبر شراب میں زہرِ ہلاہل تھوڑی مقدار میں ملا ہوا تھا۔

زہرِ ہلاہل ایک ہمسایہ قصبے کے فوجی ہسپتال میں میرے پیٹ سے نکالا گیا۔ میں اس ہسپتال میں چھ دن زیرِ علاج رہا اور ساتویں دن جب میں شفایاب ہو کر رخصت ہو رہا تھا، فوجی ہسپتال کے سفید داڑھی والے سرجن نے مجھے اپنے پاس بٹھایا اور سرگوشی میں ہجرت کا مشورہ دیا۔ ان کے نزدیک چونکہ میرا نام سپاہِ شہدا کی ہٹ لسٹ میں شامل تھا، تو میری اور میرے گردوپیش کے لوگوں کی جان مستقل خطرے میں تھی۔ اس بار سپاہِ شہدا کے ستم گروں نے مجھے مارنے کے لیے زہر کا استعمال کیا تھا؛ اگلی بار وہ گولیوں اور بارود سے کام لینے جارہے تھے اور میرے ساتھ میرے بیسیوں شیدائی کام آنے والے تھے۔ مجلسیں کہاں محفوظ تھیں؟ سپاہِ شہدا کی مار انتہائی لمبی تھی۔ ان کے نشانہ باز اگر چاہتے تو مجھے میرے گھر میں بھی مار سکتے تھے۔ میری ہجرت صرف میری نہیں، بلکہ بہت سارے افراد کی جان بچا سکتی تھی۔ میں تردد کے عالم میں ہسپتال سے روانہ ہوا۔ لیکن مجھے تھوڑی دیر بعد امریکہ کے سادات کی دعوت یاد آئی۔ کئی مہینوں سے وہاں کے کچھ مہاجر سادات مجھے بلا رہے تھے۔ ان کے بقول میں وہاں پر سکون سے مجلسیں پڑھتے پڑھتے کئی سال گزار سکتا تھا۔ پھر میں نے سوچا: کیوں نہیں؟ کچھ عرصے تک وہاں پناہ لی جاسکتی تھی۔ اس دوران شاید سپاہِ شہدا کے بدذات رضاکار مجھے بھولنے والے تھے۔ میں نے جلدی جلدی اپنی کوٹھی خالی کی، اپنا ویزا بنوایا اور امریکہ کے لیے روانہ ہو گیا۔
میں نے ایک طویل سفر کے بعد سات سمندر پار کی اس سرزمین پر قدم رکھا اور میں نے دیکھا کہ عفریت یہاں سے بہت گزرے تھے۔ انھوں نے یہاں کی سب چیزیں تراشی تھیں— پہاڑ، خیابان اور خرابے — اور وہ سبکدوشی لے کر، اپنی آخری عمر میں، پتھرانے کے بعد اونچی عمارتوں میں بدل گئے تھے۔ میں نے اسی طرح کی ایک عفریتی عمارت کی بیسویں منزل پر امریکہ میں اپنی پہلی مجلس پڑھی۔ شہر کی افقی اور عمودی روشنیاں اس بیسویں منزل کے عزا خانے میں جگمگا رہی تھیں۔ میں ان روشنیوں کے سحر میں آکر روشن بیاں ہو گیا تھا اور امریکہ کے سادات مجھ سے بے حد متاثر ہوے تھے۔امریکہ کے چاروں طرف سے بلاوے آئے۔ہیوسٹن، ڈیلس، نیویارک اور سان دیاگو میں مجھے یاد فرمایا گیا۔ میں نے ان سب شہروں میں جاکر مجلسیں پڑھیں۔ اور مزید مجلسوں کے لیے مزید شہروں سے بلاوے آئے۔ ایرپورٹ، ہوٹل اور ہائی وے میرے دن رات کے ساتھی بن گئے۔
جہازوں کے دریچوں سے اور کمروں کی کھڑکیوں سے میں اس نئی سرزمین کا معائنہ کرتا تھا۔ شہر یہاں متعدد تھے لیکن جنگلوں، پہاڑوں اور دشتوں کو شمار کرنا ناممکن تھا۔ امریکہ کے پورے پورے صوبے بے آباد تھے۔ انسان کہاں غائب ہوگئے تھے؟ وہ شہروں کے فلک بوس پنجروں اور یکساں مکانات میںمقیم تھے۔ انسانوں کی کم نمائی کی وجہ سے اس سرزمین پہ ایک وسیع تنہائی محسوس ہوتی تھی۔ اس تنہائی کی وجہ سے میں بے حسی کا شکار ہوگیا۔ میں اپنی مرضی کے خلاف مادہّ پرست اور مفادپرست ہوگیا۔ میرے احساسات اور جذبات ہوا ہوگئے۔ میرا دماغ ایک حساب کرنے والی مشین بن گیا۔ اس نئی کیفیت میں میرے شب وروز بے کیف ہوگئے۔ امریکہ میں مجھے تحفظ مل گیا تھا، لیکن اس تحفظ کے عو ض میں مجھے اس نئی سرزمین کے پتھرائے ہوے عفریتوں کی بیگانگی بھی مل گئی تھی۔
میں شروع شروع میں اپنی مجلسیں پڑھنے کے بعد اپنے ہوٹل کے کمرے میں بیٹھ کرصبح تک سگریٹ پیتے پیتے ٹی وی دیکھتا تھا۔ ٹی وی پربے شمار کالی، گوری اور سانولی خواتین برہنگی کی حالت میں دعوتِ نفس دیتی تھیں۔ انھیں دیکھ کرمجھے طرب نگر کی رنگین راتیں بے اختیار یاد آتی تھیں جب چند نوٹ دے کرصنفِ نازک کی لذیذ قربت میسر آتی تھی۔ ٹی وی کی خواتین طرب نگر کی رقاصائوں سے آمیز ہوتے ہوےمجھے تڑپاتی تھیں۔ اور ایک رات مجھ سے رہا نہیں گیا۔ میں نے ٹی وی بند کیا اور کمرے سے نکلا۔ ہوٹل کے باہر میں نے ایک کیب روکی اور کیب والے کوکسی رنگین جگہ لے جانے کو کہا۔ اس شہر میں بازارِ حسن ندارد تھا، سو کیب والا مجھے ایک ’جنٹل مینز کلب‘ پر لے کر گیا۔ اور جب میں جنٹل مینز کلب میں داخل ہوا، میں نے دیکھاکہ اندر شہر کے شب گردوں کا پورا لشکر میری گھات پر لگا بیٹھا تھا۔ نیم مدوّرصوفوں پر ان گنت دل جلے ، نوخیز عشاق ، طلاق شدہ خاوند اور خزاں رسیدہ شرابی بیٹھے ہوے تھے، اور سب مصروفِ تماشا تھے۔ ان کے سامنے دو اسٹیج پر دو رقاصائیں ایک نیلی پیلی بیہودہ روشنی میں جھومتے جھومتے بے لباس ہورہی تھیں۔ میں نے ایک صوفے پربیٹھ کراسکاچ منگوائی اور شب گردوں کے لشکر نے مجھ پرنظریں دوڑائیں۔میں شرماسا گیالیکن مجھے یہ دیکھ کرحیرت ہوئی کہ حالانکہ میں یہاں پر کسی کو نہیں جانتا تھا،تاہم یہ سب افرادمجھے آشنا لگتے تھے۔ ان میں نہ کوفی تھے اور نہ سیّد، نہ رئیس تھے نہ فقیر، نہ مومن تھے نہ ذاکر، لیکن سب اتفاق سے میرے ہم مسلک معلوم ہوتے تھے۔ ہم سب کی کتاب انجیلِ غم تھی۔ ہم سب زندگی کے ہزیمت خوردگاں تھے، شہروں کے بن باسیے تھے، شراب کے رسیے تھے۔ ہم اپنے بن باس کا دکھ دور کرنے کے لیے شباب پر اپنی سب کمائیاں اڑاتے تھے۔ میں نے اس رات اس جنٹل مینز کلب میں آٹھ سو ڈالر خرچ کیے، اسکاچ اور شمپین کے بے حساب جام پیے، رقاصائوں کے قدموں میں ان گنت نذرانے رکھے اور سینے سے میرا سارا غبار نکلا۔ اس خوشگوار تجربے کے بعد میں نے سب راتیں کسی نہ کسی جنٹل مینز کلب میں گزاریں۔ میرے لسانی وسائل محدود تھے۔ کسی سے گپ لگانا میرے بس سے باہر تھا۔ اور جب کوئی رقاصہ اپنا مجرا پورا کرکے اسٹیج سے اترکر میری میز کے قریب آتی تھی اور پوچھتی تھی: ’’ہائو آر یو ٹوڈے؟‘‘ تو میں مسکرانے یا سرہلانے پر قناعت کرتا تھا۔ میں اشاروں میں اس کو بیٹھنے کی دعوت دیتا تھا اور اپنی طرف سے اس کو شمپین پلاتا تھا۔ ہم دونوں خاموشی سے جام ٹکراتے تھے۔ اور جلدہی شمپین کا دیا ہوا سرور ہمارے بیچ ایک بے لفظ مکالمہ بُن لیتا تھا۔ میں ہررات مدہوشی کی حالت میں اپنے شبستان پر واپس آتا تھا۔ لیکن یہ سوچ کر مجھے قلق ہوتا تھا کہ برسوں پہلے میری پہلی عیاشیوں میں میرے استادِ محترم میرے شریک تھےاور اب ان پختہ بے راہ رویوں میں میرا ساتھی میری اجنبیت ہی تھی۔
میری شہرت امریکہ کی حدود سے آگے بڑھ گئی۔ بیرو نِ ملک سے دعوتیں آئیں۔ ٹورنٹو، وینکوور، لندن اور اوسلوکے عزا خانوں میں میری آواز گونجی۔ پھر خلیجِ فارس اور افریقہ کے سادات مجھے یاد کرنے لگے۔ سو میں نے دوبئی ، دوحہ، ماریشس اور مڈگاسکر کا سفر کیا۔ پھر دور دور کی جگہوں سے دعوتیں آنے لگیں اور میں سنگا پور، آسٹریلیااور نیوزی لینڈ کے سادات کے پاس چلا گیا۔میں اب ایک بین الاقوامی ذاکر بن گیا۔ میں ہرروز ایک نئے ملک میں پایاجاتا تھا۔ طیارے کے ناتمام سفروں کے دوران میں بزنس کلاس کی ایک آرام دہ سیٹ میں بیٹھ کر پشت پیچھے کرکے اسکاچ پیتے پیتے دیس پردیس کے اخبار کھنگالتا تھا، اور مجھے کہیں نہ کہیں وطن کی کوئی نہ کوئی خبر ملتی تھی۔
وطن کی خبریں حوصلہ شکن تھیں۔ میرے ملک پر ایک نیا غنیم قابض ہوگیا تھا جو پچھلے غنیم سے نسبتاً نرم مزاج تھا۔ اس کی نرمی دیکھ کر یزیدی بے لگام ہوگئے تھے۔ انھوں نے پورے ملک میں دھماکوں کا ایک ایسا سلسلہ چھیڑا تھاکہ ہماری دھرتی ایک قبرستان بن گئی تھی اور ہماری ندیاں شہدا کے خون سے سرخ ہوگئی تھیں۔ اخبار پڑھ کر میرا دل رنج وغصے سے پھڑکتا تھا۔ یہ رنج وغصہ مجلسوں میں اپنا پوراکام دکھاتا تھا۔ خیروشر کی جنگ میری آواز کے میدان میں لڑی جاتی تھی۔ اس جنگ وجدل میں اہلِ خیر شرپسندوں سے ہمیشہ مات کھاتے تھے۔ سادات اور دیگر احرار ہزاروں کی تعداد میں کھیت ہوتے تھے۔ میرےالفاظ سن کر دنیا بھر کے سادات رو پڑتے تھے۔ اہلِ مجلس کو ایک گہرا صدمہ پہنچتا تھا، اور اس سے پہلے کہ وہ اس صدمے سے جانبر ہوجائیں، میں منبر سے رخصت ہوجاتا تھا۔ مجلس میں جو نیاز اور نذرانے ملتے تھے، میں جنٹل مینز کلب میں جاکر شراب اور رقاصائوں پر خرچ کرتا تھا۔
صاحبزادی کے متعلق اخباروں میں مجھے اکثر خبریں ملتی تھیں۔ وہ غنیم کی آمریت سے بچنے کے لیے پردیس آئی تھیں اور میری طرح جہاں گردی میں مصروف تھیں۔ وہ اپنے بین الاقوامی جلسوں میں انہی سادات کی ڈھارس بندھاتی تھی جن کا میں اپنی مجلسوں میں دل توڑ چکا تھا۔اور عجیب یہ تھا کہ ہم جو جہاں بھر میں ایک ہی نسل کے سامعین سے مخاطب ہوتے تھے، ہمیں کبھی باہم ہونے کا اتفاق نہیں ہوا۔

میں نے بہت سفر کیے تھے۔ مجلسیں پڑھنے کے واسطے میں نے کرۂ ارض کا دو تین مرتبہ طواف کیا تھا۔ اب آرام ضروری تھا۔ میں اپنے کچھ کرم فرمائوں کے خرچے پر میامی میں مہنگے سورج تلے استراحت کرنے چلا گیا۔
میامی میں سمندر کنارے کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں میرے لیے ایک سوئیٹ بک ہوئی تھی۔ سمندر سوئیٹ کی کھلی کھلی کھڑکیوں میں جھومتا تھا۔ سمندر میں سینکڑوں لوگ اشنان یا تیراکی کرتے تھے۔ ساحلوں پر ہزاروں سیاح ٹہلتے تھے۔ ان میں بہت سارے رستم تھے جن کے سینے فراخ تھے اور شانے کشادہ، اور بہت سی اپسرائیں تھیں جو کہ اپنے بدنوں پر سونے کا ایک لیپ لگاتی تھیں، اپنے شمس ناآشنا حسن کو دھوپ سے بچانے کے لیے ۔ میں ان اساطیری کرداروں کو دیکھ کر احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتا تھا، اور اس ناگوار احساسِ کمتری کے علاج کے لیے میں شام ڈھلے جنٹل مینز کلبوں میں بیٹھتا تھا۔ وہاں کوئی احساسِ کمتری نہیں تھا۔ سب لوگ میری طرح ہزیمت خوردہ تھے۔ میں جنٹل مینز کلبوں میں ناکام اداکاروں، غربت زدہ لکھ پتیوں اور جنونی جواریوں کے ساتھ جام ٹکراتا تھا۔ میں مقامی زبان بہتر طریقے سے بولتا تھا اور نسلوں کی پہچان رکھتا تھا۔ میں محض ایک نظر ڈال کر کسی کو ہسپانوی ، آئرش، اطالوی یا یہودی بتا سکتا تھا۔ میں اسکاچ پیتے پیتے اور ننگی رقاصائیں دیکھتے دیکھتے رات بھر اپنے ہم مسلکوں کی رام کہانیاں سنتا تھا۔ میری عقل غافل تھی، میری مخمور آنکھیں بار بار بند ہو رہی تھیں، لیکن میں ہرکہانی آخر تک سنتا تھا۔ ان لوگوں کی صحبت مجھے صرف اپنی تنہائی دور کرنے کے لیے درکار تھی۔ میری ذات اس وسیع وعریض ملک کی آباد اور غیرآباد ویرانیوں میں بہت اکیلی تھی۔ اور حقیقت یہ تھی کہ اتنی ساری ننگی رقاصائوں کا نظارہ کرنے کے بعد میں ایک عورت کی ہم بستری کے لیے تڑپنے لگا۔ ایک رات جنٹل مینز کلب کے ہم سبو نے مجھے بتایا کہ شہر سے کافی ہٹ کے ایک بدنام علاقے میں کچھ کالی عورتیں اپنا جسم بیچتی تھیں۔ میں نے جھٹ سے ایک بکائو جسم خریدنے کی ٹھان لی۔
اگلی رات جنٹل مینز کلب جانے کے بجاے میں نے ایک کیب میں بدنام علاقے کا رخ کیا۔ جب میں اس علاقے میں پہنچا تو میں نے ایک کھیل کے میدان کے پاس ایک ویران بس اسٹاپ دیکھا۔ کچھ دوری پر ایک اشارے کی لال ہری روشنیاں دمک رہی تھیں۔ بس اسٹاپ اور اشارے کے درمیان ڈھیر ساری سیاہ فام کسبیاں سرگرداں تھیں۔ ان کی پیتل کی ٹانگیں اندھیرے میں چمک رہی تھیں، ان کی آبنوس کی چھاتیاں انگیائوں سے چھلک رہی تھیں، ان کی سرمہ آگیں آنکھیں گردوپیش کا جائزہ لے رہی تھیں، اونچی ایڑیوں والی جوتیاں ایک بے پناہ ضد کے ساتھ فٹ پاتھ کو جھاڑ رہی تھیں۔ میں نے ایک گہری سانس لی اور فٹ پاتھ پر چلتی ایک سادہ سی دخترِ حبش پسند کرلی۔ میں اس کو کیب میں بٹھا کر اپنے ہوٹل لے کر گیا۔ پورے راستے میں اس کو گھورتا گیا۔ ـوہ گزارے کے لائق ہی تھی۔ جسامت معقول سی تھی، چہرہ نمک سے عاری نہیں تھا، جلد کافی حد تک تروتازہ تھی لیکن اس کی رانیں اور چھاتیاں اس قدر گول اور نرم تھیں کہ ان کو دیکھ کر میں انھیں سہلانے، چاٹنے اور چومنے کے لیے بے تاب ہورہا تھا۔ میری سوئیٹ میں آتے ہی میری دخترِحبش نے غسلخانے کی راہ لی۔ غسلخانے کا دروازہ اس کی لاپروا عجلت کی وجہ سے کھلا رہ گیااور میں نے دیکھا کہ وہ اپنا بیگ کھول رہی ہے اور اندر سے ایک چھوٹی سی چلم نکال رہی ہے۔ پھر وہ چلم میں ایک خفیف سا دانہ ڈال رہی ہے، چلم جلا رہی ہے اور ایک لمبا کش لے رہی ہے۔ اسی لمحے ایک عجیب بو چاروں طرف پھیل گئی، ایک ربڑ کی سی بو جو کہ ہمارے یہاں کی فقیری کی بو سے دس گنا تیز تھی۔ دخترِ حبش اپنی چلم چھوڑ کر غسلخانے سے نکل آئی۔ وہ میرے وار سہنے کے لیے پوری طرح تیار تھی۔ میں بے قابو تھا۔ رات بڑھتی گئی اور ہمارے جسم ملتے گئے، جڑتے گئے، ٹکراتے گئے، پلٹتے گئے۔ پروگرام پر پروگرام ہوے، اور میری لذتوں نے مجھے بامِ فلک پر چڑھایا۔ ہرپروگرام سے پہلے دخترِ حبش نے غسلخانے میں جاکر اپنی چلم کے کش لیے۔ اور آخر کار مجھے کرید ہوئی۔ میں نے چلم پینے کی تمنا ظاہر کی، اور اس نے تھوڑی سی حجت کے بعد چلم بھری اور میرے ہاتھ میں دے دی۔ میں نے ایک گہرا کش لیا اور اچانک اس نیارے مقام پر پہنچ گیاجہاں ابو اپنی چلم کے دوش پر پہنچا کرتے تھے۔ یہاں سب چیزیں وحدت کی غماز تھیں۔ دیروز ، امروز اور فردا ہمنوا تھے اور خارج داخل کا آئینہ تھا۔ ابد کی صدائیں سن سن کےسب چیزیں چپ ہوگئی تھیں۔ بس آبِ حیات کے فواروں کی مدھم مدھم سرگوشیاں سماعت تک آتی تھیں۔ فوارے اپنی کانچ کی سی آواز میں ہردم گنگناتے تھے۔ میں نے دخترِحبش کے ساتھ پوپھٹنے تک پروگرام کیے۔ پھر جب بڑی بڑی کھڑکیوں میں سویرے کی روشنی آنکھ مارنے لگی تو دخترِحبش ایک گراں انعام لے کر میری سوئیٹ سے رخصت ہوگئی۔ میں نے احتیاطاً اس کا نمبر لیاتھا۔ اگلے دنوں میں میں نے اس کو روز بلایا۔ میں اس کے لذیذ جسم کا جتنا احسان مند تھا،اس کی طلسمی چلم کابھی اتنا ہی ممنون تھا۔ دونوں نے اپنی فیاضی میں مجھے ہفت افلاک کا تماشائی بننے کا اعزاز بخشا تھا۔

میامی میں میری چھٹیاں لمبی ہوگئی تھیں۔ میں سات ہفتوں سے عزاخانوں سے غائب تھا۔ میں نے بے راہ روی کو اپنی روش بنا رکھا تھا۔ دخترانِ حبش کے تماش بینوں اور ولایتی فقیری کے خوگروں میں میرا شمار تھا۔ لیکن میرا دل آہستہ آہستہ پشیمان ہونے لگا تھا۔ سو میں نے ایک دن اپنے کرم فرمائوں سے رابطہ کیا۔ اتفاق سے ماہِ محرم چل رہا تھا اور میری مجلسیں امریکہ کے تمام عزا خانوں میں درکار تھیں۔ ایک طویل پروگرام میرے لیے مرتب ہوا۔ میں نے میامی سے اجازت لی اور نت نئی مجلسیں پڑھنے مختلف شہروں کی طرف روانہ ہوگیا۔ میں نے اپنے پروگرام کی پہلی مجلس کینسس سٹی میں پڑھی۔ عزاخانے میں ریش دار حضرات اور محجوب مستورات دیکھ کر مجھے دھچکا لگا، کیونکہ سات ہفتوں سے میرے آس پاس میں صرف عریانیاں تھیں۔ لیکن مجلس کے دوران میری دبی ہوئی شرافت نے سر اٹھایا اور میرے مزاج نے میامی والے شہدےپن کو خیر باد کہا۔ اس مجلس کے بعدمہتمموں نے مجھے ایک دیسی ریسٹورنٹ میں کھانا کھلایا، اور وطن کی خبریں سنائیں۔ تازہ خبریں یہ تھیں کہ غنیمِ نو نے عوام کو اپنی اعتدال پسندی کا قائل کرنے کے لیے صاحبزادی کو وطن آنے کی اجازت دی تھی۔ صاحبزادی جس دن وطن آئی تھیں، یزیدیوں نے ایک خودکش حملے سے ان کی پذیرائی کی تھی۔ وہ بال بال بچی تھیں لیکن ان کے بیسیوں حامی اور شیدائی اس حملے میں وفات پاگئے تھے۔ اب چونکہ صاحبزادی غنیمِ نو کی نااہلی اور یزیدیوں کی طاقتوری کے خلاف صداے احتجاج بلند کرتی تھیں ، اس لیے عوام لاکھوں کی تعداد میں اپنی جان دائوں پر لگا کران کے جلسوں میں آتے تھے۔ عوام کاہرکس وناکس سرفروشی سے ان کا ساتھ دے رہا تھا۔ غنیمِ نو اور یزیدی صاحبزادی کی مقبولیت سے خفا تھے۔ ان روسیاہوں کی نگاہِ بد صاحبزادی پر جمی تھی۔ کینسس سٹی کے مہتمموں سے یہ خبریں سن کر میں کانپنے لگا۔ بہت سال پہلے کا ایک خواب مجھے اچانک یاد آیا تھا۔
کینسس سٹی سے میں سان فرانسسکو چلا گیا، اور سان فرانسسکو چھوڑ کرمیں نے آٹھ دس شہروں کا پھیرا لگایا۔ سب عزا خانوں میںسامعین آپس میں صاحبزادی کی باتیں کرتے تھے۔ ان کی سرفروشی اور ان کے شوقِ شہادت کوسراہا جاتا تھا۔میں یہ تعریفیں سن کرپریشان ہوجاتا تھا۔ میں اندر اندر صاحبزادی سے جلنے لگا۔ لیکن اس جلن کی ضرورت ہی کیا تھی؟ میں کس معاملے میں ان کی برابری کر سکتا تھا؟ میں محض ایک لذتیا ذاکر تھا۔ میں نے اتنی شہادتیں سنائی تھیں کہ شہادت میرا نام سن کر بھاگ جاتی تھی۔ اور میں نے اتنے گناہ کیے تھے کہ احساسِ گناہ ختم ہوگیا تھا۔ موت میری دانست میں ایک انعام نہیں بلکہ ایک ناانصافی تھی۔ میری زندگی دنیاوی مزوں کی محتاج تھی۔ دنیا کے سواد تیاگنے پر میرا دل آمادہ نہیں تھا۔ سو میں اس اجنبی سرزمین پرموجیں کرتا رہا، مزے لوٹتا رہا۔ میں نے مزید مجلسیں پڑھیں، اور مزید جنٹل مینز کلبوں کا جائزہ لیا۔ مزید اسکاچ پی۔ پھر ایک روز یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔
میں اس دن مجلس پڑھنے واشنگٹن جارہا تھا۔ میں نے طیارے میں اپنی سیٹ کے پاس ایک تازہ اخبار دیکھا۔ اخبار اٹھا کرمیں نے شہ سرخیاں پڑھیں، اور ایک خبر نے مجھے چونکا دیا۔ میرے وطن کی صاحبزادی دارالحکومت کے ایک تاریخی باغ میں ایک عوامی جلسے کے بعد شہید ہوگئی تھیں۔ آخرکاریزیدی، جو ازل سے ان کے تعاقب میں تھے،ان کی جان لینے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ اخبار کی شہ سرخیاں دم کے دم میں میرے بے بس اور نکمے آنسوئوں سے تر ہوئیں۔ ایک ڈرائونا خواب پورا ہوگیاتھا۔ ایک رُلانے والے ذاکر کو رُلایا گیا تھا۔ میرا صنم، میرا آدرش رحلت کرگیا تھا۔ میرا نصف حصہ مجھ سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگیا تھا۔ میں آنسوئوں کے سیل کوروکنے کے لیے آنکھیں میچ رہا تھا۔ اور طیارے میں ایک اعلان ہوا۔ ہم کچھ ہی دیر میں واشنگٹن کے ہوائی اڈے پر اترنے والے تھے۔یہ اعلان کسی دور افتادہ برف زار سے آرہا تھا۔ جاڑا پڑنے لگا۔ میرے اعضا تھرتھرانے لگے، اور میرے وجود میں کہرے کا پردہ گرپڑا۔ ٹھنڈ کی شدت کو جھیلنے کے لیے مجھے پینا تھا، بے حساب پینا تھا۔ نیچے ، زمین پر، واشنگٹن شہر کے شراب خانے کھل رہے تھے اور اوپر ، طیارے میں ، میں ان میں آسرا لینے کے لیے بے تاب ہورہا تھا۔

واشنگٹن شہر اندھیرے کی لپیٹ میں آچکا تھا۔ بارش شروع ہوئی تھی اور ہوائیں جاگ اٹھیں تھیں۔ فٹ پاتھوں پرچھتریوں کامیلہ زوروں پر تھا۔ فٹ پاتھوں کی بھیگی بھیگی چمڑی پرگاڑیوں اور دکانوں کی بوقلموں بتیاں عکس ریز تھیں۔ میں نہ جانے کب سے، اس مجلس سے سراسر بے نیاز جس کے لیے میں اس شہر میں آیا تھا،اپنے غمگین اور گراں دل کی سولی اٹھاکرروشن اور سیال فٹ پاتھوں پرقدم بڑھائےجارہا تھا۔ میرا پورا دن شراب خانوں کی زیارت میں بیت گیا تھا۔ میں سخت نشے میں تھا۔ شہر کے راہگیر میری آنکھوں سے اوجھل تھے۔ میں ان سے ٹکراتا تھا، وہ چند الفاظ بول دیتے تھے۔ ان الفاظ کو میں سن نہیں پاتا تھا، چونکہ میں مزید راہگیروں سے ٹکرانے کے لیے آگے بڑھ چکا ہوتا تھا۔ اس میلے جھمیلے میں مجھے لگ رہا تھاکہ ہرکوئی میری طرح بدمست ہے۔ اس انجان شہر میں مدہوشی میری خضرِ راہ تھی اور میرا ملال زدہ دل ایک آخری آسرے کا متلاشی تھا۔ اچانک ایک سڑک کے نکڑ پر ’آرچی بالڈ جنٹل مینز کلب ‘کا بورڈ مجھے دکھائی پڑا۔ کیا میں کرب والم کی اس کیفیت میں عورتوں کی فحاشیوں کی پذیرائی کر سکتا تھا؟میں کرسکتا تھاشاید ۔ فحاشی میں ازل سے بڑے بڑے راز اور پیغام مضمر ہیں۔ فحاشی کا سامنا کرناناگزیر تھا۔ میں نے آرچی بالڈ کا بھاری دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوگیا۔
اندر تاریکی کا ریشم پھیلا ہوا تھا اور گرمی بہت شدید تھی۔ یوں لگا گویا میں حضرت یونس کی مچھلی کے پیٹ میں پہنچا تھا۔ اس مچھلی کے تاریک اور گرم پیٹ میں دو عریاں جسم جلوہ خیز تھے۔ دو الگ اسٹیج پر ، دو پول کے گرداگرد، دو بے لباس رقاصائیں گھوم رہی تھیں۔میں اسٹیج کے درمیان بیٹھ گیا، اور میں نے آرچی بالڈ کے بے نام ساقی سے ایک اسکاچ مانگی۔ اسکاچ کا ایک ڈرنک میرے پاس آیا جسے میں نے دو گھونٹ میں پی لیا۔ میرے نشے نے ایک اور مرحلہ طےکیا۔ میں نے اپنی ڈانواڈول نظریں بائیں والے اسٹیج کی رقاصہ پر جمائیں۔ رقاصہ ایک دخترِ حبش تھی جس کا کل پہناوا دو لمبے چمڑے کے بوٹوں پرمشتمل تھا۔ اس کی بے عیب اور بے داغ جلد ، چوبِ صندلی میں ترشی ترشائی ، اس کی اصلی پوشش تھی۔ وہ اپنے پول کے گرد گھومتے گھومتے ایک ٹانگ اٹھاکر رانوں کا سنجوگ دکھاتی تھی، اور میرا جی بہت چاہ رہا تھا کہ میں اس کے آگے کوئی نذرانہ پیش کروں، لیکن میرے ضمیر نے مجھے روکا۔ اس دخترِ حبش کی عریانی بے مطلب تھی، اس کا رقص رائیگاں اور بے معنی تھا۔ اس کا جسم روح سے عاری تھا۔ اس کا وجود بے بنیاد تھا۔ اس کے سامنے کیا نذرانہ پیش کرنا تھا؟ میں نے دوسرے اسٹیج پرنظریں دوڑائیں ۔ دوسرے اسٹیج کی رقاصہ بے حد شانت تھی۔ وہ حاضر اور غیبی تماش بینوں کی شہوانی نظروں سے بے پروا، سست روی سے اپنے پول کے گرد گھوم رہی تھی۔ اس کی عریانی علامت تھی اس کے عجز کی۔ اس کا رقص فنا کی طرف ایک دعوت تھا۔ میں نے اس کو غور سے دیکھا۔ بدن نازک تھا، بال سیاہی مائل تھے، چہرہ سانولا تھا، مژگاں دراز تھے اور آنکھیں سرمہ آگیں تھیں۔ یہ حلیہ بشرہ دیکھ کرمجھے طرب نگر کی لڑکیاں بے اختیار یاد آئیں۔ اسی طرح کی دوشیزائیں سر پرچادر لیے، بانہوں کو لمبی آستینوں سے ڈھانپ کرطرب نگر کے کالجوں کے گردونواح میں سویرے سویرے دیکھی جاسکتی تھیں۔ وہی لڑکیاں شام کواپنی مائوں کے ساتھ بازاروں کی افراتفری میں خریداریاں کرتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ رات میں وہ درگاہوں کے صحنوں میں پاک درختوں پردھاگے باندھتی تھیں۔ ماہِ رمضان میں وہ سارے روزے رکھتی تھیں اور ماہِ محرم میں ٹی وی میں مجھ جیسے ذاکروں کی مجلسیں دیکھ کر بدکتی تھیں۔ یہ رقاصہ ایک نذرانے کی مستحق تھی۔ میں جیبیں ٹٹول ٹٹول کراس کے اسٹیج کی طرف پائوں بڑھانے لگا۔ سو ڈالر کا ایک نوٹ دائیں جیب سے نکلا۔ یہ نوٹ تھام کرمیں اسٹیج کے سامنے کھڑا ہوگیا اور انتظار کرنے لگا۔ رقاصہ اپنا پول چھوڑ کرمیرا نذرانہ قبول کرنے میری طرف آئی، اور میں نے اس کے سینے میں کوئی ڈگمگاتی چیز دیکھی۔وہ ایک تعویذ تھا۔رقاصہ نے قریب آکر ایک مخصوص محویت سے اپنی دائیں ٹانگ میری طرف پھیلائی۔اس ٹانگ پرایک سفید گارٹنر نمایاں تھا جس میں میری سحرزدہ انگلیوں نے بے دھیانی سے سو ڈالر کا نوٹ گھسیڑا ۔ دراصل میری آنکھیں اس کے تعویذ کی جانب نگراں تھیں۔تعویذ میں جو دعا محبوس تھی، اس کا ایک ایک حرف میری آنکھوں میں آشکارا ہورہا تھا۔ اس دعا کے راستے خالقِ کون ومکاں کی تجلیاں میری ذات پرنازل ہورہی تھیں۔ ان تجلیوں کی توانائی ایسی تھی کہ میری ذات ان کے ہالے میں آکے اتنی ہی برہنہ تھی جتنی کہ میرے آگے اس تعویذ والی رقاصہ کا تن۔
کیا میں ایک غیبی سازش کے دام میں آیا تھا؟ جی ہاں۔ لیکن اس سازش میں میری اصلاح مقصود تھی۔ میرے وطن کی ایک شائستہ دوشیزہ نے اس تعویذ کا مظاہرہ کرنے کے لیے لاتعداد پردیسیوں کے سامنے اپنے سارے کپڑے اتارے تھے ۔ اور اس مظاہرے سے میں بے حد متاثر ہو رہا تھا۔ میرا خالق مجھے اپنی متعدد آنکھوں سے گھور رہا تھا۔ اس کے سامنے میں ندامتوں کا ایک پلندہ تھا۔ میرے پائوں تلے زمین آہستہ آہستہ سرک رہی تھی اور میں سوالوں کے نرغے میں تھا۔ میں اس پردیسی مجرا خانے میں کیا کررہا تھا؟ میں اپنے وطن میں کیوں نہیں موجود تھا؟ جب صاحبزادی شہید ہوگئی تھیں، اور میرے وطن کے سادات روسیاہوں کی زد میں تھے، تو میں یہاں عیاشیوں کی افیم پینے میں کیوں مصروف تھا؟ مانا کہ شہادت میری پہنچ سے باہر تھی، لیکن میں کم از کم اپنے بھائیوں کا ساتھ دے سکتا تھا۔ خبردار! اگر میں نے وطن واپسی میں مزید تاخیر کی، صاحبِ لازوال میر ا کوئی گناہ نہیں بخشیں گے۔ میں نے راضی بہ رضا گھر لوٹنے کا فیصلہ کیا۔

وطن کا ماحول خون آلود تھا۔ صاحبزادی کی شہادت کے بعد یزیدیوں کی کارروائیاں تیز اور وسیع ہوگئی تھیں۔ وہ اب سرکاری عمارتوں کوہدف بناتے تھے۔ عدالتیں ، تھانے، اسکول، اسٹیشن اور تفتیشی مراکز ان کے خودکش حملوں سے تباہ ہورہے تھے۔ غنیمِ نو ان کے آگے بے بس تھا۔ اس کی پولیس اور اس کی فوج ساحلوں سے اس سیلِ بلا کا نظارہ کررہی تھی۔
اس ماحول میں سادات بہت ہراساں تھے۔ ان کی پوری پوری صفیں تلف ہوئی تھیں۔ مزید اِتلافوں کا خدشہ تھا۔ اب سب کواپنی جان کی پڑی تھی۔ پہلی والی جاںنثاری بگڑتے حالات کی نذر ہو گئی تھی۔ سادات نے اپنے تحفظ کی خاطر کچھ تدبیریں اپنائی تھیں۔ تعزیے پولیس کی نفری کے ساتھ نکالے جاتے تھے، جلسے خفیہ جگہوں پربرپاہوتے تھے اور مجلسیں صرف اہم موقعوں پر پڑھی جاتی تھیں۔ اپنے وطن لوٹ کرمیں نے ذاکری کوجاری رکھنا چاہا تھا ، لیکن اس دہشت زدہ ماحول میں مجھے مہینے میں صرف دو یا تین بلاوے آتے تھے۔ مجلسوں سے مجھے کوئی خاص آمدنی نہیں ملنے والی تھی۔ میری خوش نصیبی تھی کہ میں نے پردیس میں ایک خاطر خواہ سرمایہ جمع کیا تھا جس پربرسوں تک میرا گزارہ چل سکتا تھا۔ میں ان دنوں میں فارغ کا فارغ تھا۔ لیکن اس فراغت کے باوجود شعر مجھ سے لکھے نہیں جاتے تھے۔ ملکۂ سخن مجھ سے روٹھی ہوئی تھی، اور میں اسے منانے کی کوئی خاص کوشش نہیں کرتا تھا۔
وطن لوٹ آنے کے بعد میں نے طرب نگر کے سب سے بڑے ہوٹل میں سکونت اختیار کی تھی۔ یزیدیوں نے مجھے اپنی طرف سے واجب القتل ٹھہرایا تھا۔ میں اب صرف ایک بند اور ناقابلِ رسائی عمارت میں محفوظ تھا۔ اس ہوٹل میں ، جس کے گردوپیش ایک اونچی فصیل کھڑی تھی، اور جس کے چاروں دروں پرسکیورٹی والے نوواردوں کی تلاشی لیتے تھے، میں سلامت تھا۔ میں صرف مجلسیں پڑھنے کے لیے اپنے ہوٹل سے باہر آتا تھا، اور جب مجلسوں کی خاطر دور دور علاقوں کے لیے نکلتا تھا تو پورے راستے میں پولیس کی گاڑیوں کا ایک لمبا قافلہ میرے ہمراہ ہوتاتھا۔ میں اپنے ہوٹل میں محفوظ تھا، لیکن ہررات ملک الموت میرے سرھانے آنے میں کامیاب ہوتا تھا۔ وہ میرے چہرے کے آگے اپنا چہرہ رکھتا تھا۔ اس کی زرد آنکھیں میرا خوفزدہ گوشت تولتی تھیں۔ اس کی یخ سانسیں میری گرم سانسوں کا محاصرہ کرتی تھیں۔ اس کے نیلے لب مجھے ساتھ آنے کو کہتے تھے۔ میں اپنی جاں بخشی کے لیے منتیں کرتا تھا۔ میں جھوٹ بول کرمہلت مانگتا تھا۔ میں عرض کرتا تھاکہ میرے کچھ کام تاحال تکمیل کے محتاج تھے۔ کچھ لازمی فرائض کو نبھانا تھا۔ کچھ اہم خدمات کوانجام دینا تھا۔ ملک الموت رحم دل ہونے کے علاوہ زوداعتبار بھی تھا۔ وہ میری باتوں میں آتا تھا۔ مجھے اپنی مطلوبہ مہلت ملتی تھی۔ میں پھر آگے اپنے بیان سے مکرتا تھا۔ نہ فرائض کی ادائیگی ہوتی تھی، نہ خدمات کی انجام دہی ۔ میں سست کا سست تھا اور کل وقتی فرصت کا مزہ لوٹتا رہتا تھا۔
میں فراغت کے اس عالم میں دن بھراپنی کھڑکی سے دنیا دیکھتا تھا۔ ہوٹل کی فصیلوں کے آگے ایک خیاباں گزرتی تھی۔ اس خیابان پربیشتر وقت ایک بے ہنگام سا ٹریفک رواں تھا۔ میں گھنٹوں وسکی پیتے پیتے خیابان کا نظارہ کرتا تھا اور اس زمانے کو یاد کرتا تھا جب میں ٹریفک میں شریک ہونے کا مجاز تھا۔ شام کے وقت میامی کی فحش یادیں مجھے ستانے لگتی تھیں اور مجھے کھڑکی اور خیابان کے سامنے یہ اعتراف کرنا پڑتا تھاکہ اس شہر کی سیاہ فام کسبی اور اس کی پردیسی چلم کی صحبت میں میں نے اپنی زندگی کے عمدہ ترین لمحے گزارے تھے۔ اس زندگی میں بے راہ روی ہی مجھے خوش کرسکی تھی۔ سو میں نے کسبیوں کے ساتھ پھر سے ربط وضبط بڑھایا۔
کسبیاں میرے ہوٹل میں آتی رہتی تھیں۔ ہوٹل کی انتظامیہ مہمانوں کی سہولت کے لیے ان کی آمدروفت سے آنکھیں پھیرتی تھی۔ ہوٹل کے ویٹر اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ ہرایک کے پاس دس بارہ لڑکیوں کے فون نمبر تھے۔ میں ان ویٹروں کے ذریعے ہرہفتے عموماً تین چار لڑکیاں منگواتا تھا۔ مجھے نت نئے جسموں کا سواد لینے کا شوق تھا۔ میں ہرلڑکی کے ساتھ فقط ایک رات گزارتا تھا۔ اور میری راتیں اتنی رنگین اور فاعل تھیں کہ ملک الموت شرمندہ ہوکر میرے سرھانے سے پلٹتا تھا۔ صبح ، جب میرا سارا بدن ٹوٹنے کو ہوتا اور میرے کان لڑکی کی نقلی آہیں سن سن کرپک چکے ہوتے ، تو میرا دل تنہائی کے لیے بے چین ہوتا تھا۔ میں لڑکی کوبڑے بڑے نوٹ پکڑا کربھگا دیتا تھااور اپنی کھڑکی کے سامنے بیٹھ کر، ایک آخری جام پیتے پیتے، چڑھتے سورج کا نظارہ کرتا تھا۔ اذانیں تنبیہوں کی سی درشتی سے فضا میں گونجتی تھیں۔ خیابان پرصرف کتے اور جمعدار نظر آتے تھے۔ میں اپنا جام خالی کرنے کے بعد نیند کے پاتال میں اتر جاتا تھا۔ اور نیند کا پاتال ان دنوں میں اس قدر تیرہ اور تاریک تھا کہ خواب اس کی گہرائیوں سے گزرنے میں ناکام رہتے تھے۔

ایک دن میرے کمرے کے دروازے پرایک دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا۔ ایک لڑکی میری دہلیز پر کھڑی تھی۔ اس نے اپنے دوپٹے سے ڈھانکے ہوے سینے سے ایک کاپی کے ساتھ میرا پہلا مجموعۂ اشعار چمٹایا تھا۔ اس نے فوراً کہا،’’سلام علیکم۔ سر، میرا نام ثنا تبسم ہے۔ میں ایم اے اردو کی طالبہ ہوں۔ میں آپ کی غزلیات کے متعلق ایک مقالہ لکھنا چاہتی ہوں۔ آپ سے کچھ سوال پوچھنے تھے۔‘‘ میں نے اس کوبےیقینی سے دیکھا ۔ جب میں یہاں پوری حفاظت سے رہتا تھا، یہ لڑکی میرے پاس کیسے آئی تھی؟ بہرحال اس لڑکی سے کوئی ایسی بو نہیں آرہی تھی۔ وہ مڈل کلاس کی ایک پڑھی لکھی لڑکی نظر آرہی تھی۔ اس کے گالوں میں شرمساری کی سرخی تھی اور فرطِ انکسار اس کا سر جھکا رہی تھی۔ میں نے اس کو اند رآنے کو کہااور اپنے کمرے کے صوفے پر بٹھایا۔ میں اس کے سامنے ایک کرسی پر بیٹھ گیا، اور اس سے پہلے کہ میں چائے پانی کاپوچھوں، وہ گویا ہوئی:’’ سر، میں آپ کا قیمتی وقت ضائع نہیں کروں گی۔ سر، مجھے آپ کے تخلیقی سفر کے حوالے سے کچھ پوچھنا تھا۔‘‘ میں نے اس کو سر سے پائوں تک دیکھا۔ اس کے پاکیزہ لباس کے اندر اس کا مزیدار جسم پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ اس کی لمبی آستینوں میں دو نفیس بازوہل رہے تھے۔ اس کی چست شلوار میں دو گداز رانیں جھوم رہی تھیں۔ اس کی باریک قمیص میں دو جاندار چھاتیاں ڈول رہی تھیں۔ یہ لڑکی میری تیکھی نظروں کے آگے آرچی بالڈ کی تعویذ والی رقاصہ کی طرح برہنہ تن تھی۔ میں نے کہا،’’ پوچھیے، ‘‘اور اس نے اپنا پہلا سوال داغ دیا:’’ آپ نے پہلا شعر کس عمر میں کہا؟ ‘‘میں نے سنجیدگی سے جواب دیا، ’’چودہ سال کی عمر میں۔ ‘‘ ’’اس کی شانِ نزول یاد ہے؟ ‘‘میں نے ایک شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ’’میں ایک لڑکی کے عشق میں مبتلا تھا۔ وہ بالکل آپ کی طرح تھی۔‘‘ ثنا اپنی کاپی میں میرے جواب قلمبند کر رہی تھی۔ میرے اس جواب کے بعد اس کی پنسل رک گئی اور اس کے حیا دار گالوں کی سرخی تیز ہوگئی۔ میں اچانک اپنی کرسی سے اٹھ کرصوفے پرا س کے پہلو میں بیٹھ گیا۔ اب اس کی سانسیں قریب تھیں اور میری گردن ان سانسوں سے مس ہورہی تھی۔ ان سانسوں کے لمس اور مشک سے میں مدہوش ہوتا جارہا تھا۔ میں رفتہ رفتہ بہک رہا تھا۔ ثنا نے میرے عجیب رویے کودرگزر کرکے اپنا اگلا سوال پوچھا:’’آپ نے کن استادوں سے اصلاح لی؟ ‘‘ اب میں ہوش کھو بیٹھا تھا۔ میں نے ثنا کو اپنی آغوش میں لیا اور اس کے معصوم لبوں پر اپنے بزرگانہ لب جمائے۔ اس نے پورے زور سے اپنا منھ ہٹایا۔’’یہ آپ کیا کررہے ہیں؟میں اس کام کے لیے نہیں آئی ہوں۔‘‘لیکن بے خودی نے میرے کان بند کردیے تھے۔ میں نے اس کو اپنی بانہوں میں گھیرا، اس کے لبوں کو اپنے لبوں سے مسدود کردیا، اور اس کی قمیص کے گلے میں ایک ہاتھ ڈالا۔ ثنا ہانپ رہی تھی۔ وہ پوری طرح میرے نرغے میں تھی۔ میرا ہاتھ اس کی چھاتیوں کو دبوچ رہا تھا اور میرے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر چسپاں تھے۔ میری خشک زبان ان ہونٹوں سے پرے ایک نخلستان کی تلاش کررہی تھی۔ثنا کی کاپی، پنسل اور کتاب باری باری فرش پر گرگئی،اور اس نے واجبی سی مزاحمتوں کے بعد یہ کہہ کر ہتھیار ڈالے: ’’سر، میں کنڈوم کے بغیر پروگرام نہیں کروں گی۔‘‘
ثنا نے دم کے دم میں اپنے کپڑے اتارے ۔ پھر وہ صوفے پر دراز ہوگئی اور میں نے اس کی ذات میں اپنے بدن کے کانٹے پیوست کیے۔ثنا اختلاط کے دوران خاموش اور بےپروا تھی۔نہ وہ لذت کی آوازیں نکال رہی تھی نہ درد کی آہیں بھر رہی تھی۔ وہ ایک عجیب فرمانبرداری سے، زبان پر ایک حرف لائے بغیر ، اپنے جسم سے مجھے استفادہ کرنے دے رہی تھی اور اس کی خاموشی مجھے تمام جنسی کام کرنے کی اجازت دے رہی تھی۔
میں فارغ ہوگیا۔ ثنا نے میرے تخموں کوصوفے کے ایک تکیے سے پونچھا اور فوراً اپنے کپڑے سمیٹنے لگی۔اس نے کہا،’’مجھے جانا ہے۔‘‘ میں اس کو افسوس سے دیکھ رہا تھا۔ایک غیر متوقع اداسی مجھ پر حاوی ہورہی تھی۔وہ فی الحال کپڑے پہن رہی تھی۔ وہ چند منٹ میں میرے دائرے سے نکلنے والی تھی،اور میں پہلی دفعہ ایک عورت کواپنے پاس روکنا چاہ رہا تھا۔ روکنا خیر ناممکن تھا۔ میں نے اس سے صرف نمبر مانگا، اور اس نے ایک موبائل نمبر دے کرکہا،’’یہ میری امی کا موبائل نمبر ہے۔ موبائل گھر پر ہوتا ہے۔ آپ نے صرف خدیجہ کا پوچھنا ہے اور میری امی آپ سے میری بات کرائے گی۔‘‘اب وہ دروازے کے پاس کھڑی تھی۔ اس کے سینے سے چمٹی ہوئی پنسل ، کاپی اور کتاب مجھے الوداع کہہ رہی تھی۔ لیکن رخصت ہونے سے پہلے اس نے شرمندگی سے پوچھا،’’اگر میں آپ سے کچھ پوچھوںتو آپ برا تو نہیں منائیں گے؟ ‘‘ میں نے نفی میں سرہلایااور وہ اپنے اَوازار لہجے میں گویا ہوئی،’’میری ماں بیمار ہے۔ گھر میں اس کی دوائیوں کے پیسے نہیں ہیں۔مجھے پانچ ہزار روپے ادھار دیں گے؟ ‘‘میں نے اپنے بٹوے سے پانچ نہیں بلکہ دس ہزار روپے نکالے۔ اس نے نوٹ پکڑے، ’’تھینک یو‘‘ کہااور دروازہ کھول کرچل پڑی۔ میں ہکا بکا رہ گیا۔ وہ کون تھی؟ کوئی کسبی یا کوئی شریف لڑکی؟ اور وہ میرے پاس آنے میں کیسے کامیاب ہوئی تھی؟ یہ سوالات فی الحال اپنے جوابوں سے محروم تھے۔اور یہ سوالات ویسے بھی غیر ضروری تھے۔ ایک سودا میرے سر میں سماچکا تھا۔ ثنا کی آرزو ایک ناگ کی سی بے رحمی سے مجھے ڈس رہی تھی۔

لیکن ثنا سے میری اگلی ملاقات کب ہوسکتی تھی؟ مجھے آنے والے دنوں میں طرب نگر سے غیرحاضر ہونا تھا۔ وطن کے ایک جنوبی شہر میں ایک مجلس پڑھنی تھی۔ بلاوے آج کل اتنے کم آتے تھے کہ اپنی کوئی بھی مجلس منسوخ کرنا مناسب نہیں تھا۔ سو میں جنوب کی طرف چل پڑا، پولیس کی بکتربند گاڑیوں کے ایک قافلے کے ساتھ، اور میں نے سارے راستے میں سکوت اختیار کیے رکھا۔ لاتعداد موڑ آئے، لاتعداد قصبےگزر گئے، سورج ڈوب گیا اور کچھ گھنٹوں کے بعد ابھر آیا، اور میں اجالے اور اندھیرے سے بے خبر ساکت اور گم صم رہا۔ثنا میری خاموشی کی وجہ تھی۔ اس کے متعلق سوالات کا ایک انبار میرے سر پر کھڑا تھا۔ یہ انبار بڑھتا جارہا تھا۔ اس کے وزن سے میرے سر میں دراڑیں پڑرہی تھیں۔ اور آخرکار جب میں تیرہ گھنٹوں کے سفر کے بعد اپنی منزل پر پہنچا، میرا سر دراڑوں کی بھرمار کی وجہ سے پھٹنے کو تھا۔ اور جب میں نے اپنی مجلس چھیڑی، مجھے یہ احساس ہوا کہ وہ میری آخری مجلس تھی۔
میرے پاس کم فرصت با قی تھی۔ یزیدیوں کا دام روزبروز پھیل رہا تھا۔ میں اس دام سے بچنے والا نہیں تھا۔ میری عمر گھٹ رہی تھی اور میرے گناہ بڑھ رہے تھے۔ اس آخری مجلس میں میں اپنے تمام گناہوں کا کفارہ اداکرنا چاہ رہا تھا۔سو میں نے اپنی پوری قوت سے سامعین کورلایا۔ میدانِ کربلا پرسرجمع ہوے تھے۔ پھر شہنشاہِ کربلا کا بریدہ سر اس انبار سے نکالاگیاتھا۔سرِ حسین نے ایک سنان کی اَنی پرکربلا سے دمشق تک کا راستہ طے کیا تھا۔ راستے میں بے شمار صحرا، کوہسار، بیابان اور قصبے عبور ہوے تھےاور آپ کے سرِ مبارک سے خون کے قطرے جابجا گرے تھے۔ اور قطرے جہاں جہاں گرے تھے وہاں وہاں یا کوئی گلزار ابھرا تھا یا کوئی چشمہ پھوٹا تھا۔آپ کی نم آنکھیں پورے راستے میں کھلی رہ گئی تھیں، اور جن جن کوفیوں نے ان پاک نینوں سے اپنی گستاخ آنکھیں ملانے کی جسارت کی تھی، وہ توبہ کرکے ریگستانوں میں چھائوں ڈھونڈنے چلے گئے تھے۔ میں ایک عجیب وحشت میں مبتلا تھا۔ میں نے مجلس کو سرِ حسین کی یاد میں طمانچے مار مار کراپنے سروں کوپھوڑنے کو کہا، خونِ حسین کی عبادت میں اپنے خون سے عزا خانے کافرش سجانے کو کہا، اور چشمانِ حسین کے احترام میں آنسو بہابہا کراپنی آنکھیں تباہ کرنے کو کہا۔اور یہ کہتے کہتے میں نے منبر پرطمانچے مارمارکراپنے سر کو لہولہان کیا، اپنی رگیں دانتوں سے کاٹ کراپنے اردگرد خون کا ایک ہار بنایا، اور غضب کے آنسو رورو کراپنی آنکھوں کو نابینا کردیا۔ میں اپنے موجودہ اور گزشتہ گناہوں کا کفارہ ادا کیے جارہا تھا۔ میں کفارہ ادا کیے جا رہاتھا اپنی فطری بزدلی، اپنی مجرمانہ لاپروائی اور ام الخبائث سے اپنی دوستی کا۔ میں کفارہ ادا کیے جارہا تھا بازارِ حسن میں اپنی عیاشیوں ، مجراخانوں میں اپنی فضول خرچیوں اور ہوٹلوں میں اپنی بے راہ رویوں کا۔ اور ہر کفارے کے بعد میرے کان خالقِ کون ومکاں کے دہانۂ منور کے قریب آرہے تھے۔ اور اب ان کی آواز میرے کانوں میں گونج رہی تھی۔ وہ فرمارہے تھے کہ میری شہادت مزید تاخیر گوارا نہیں کرسکتی تھی۔ میری بے کار زندگی اب صرف شہادت کے ذریعے رنگ لاسکتی تھی۔ اس خیروشر کی طویل جنگ میں مجھے جلدازجلد اپنے عزیزوں کی طرح کھیت ہونے کاشرف حاصل کرنا تھا۔ لیکن اس شرف کے حصول سے پہلے مجھے ایک بار ، ایک آخری بار، ثنا سے ملنا تھا۔ میں نے اپنی مجلس کے فوراً بعد طرب نگر کی طرف مراجعت کی۔

ہوٹل پہنچتے ہی میں نے ثنا کا نمبر ملایا۔ اس نے خود ہی فون اٹھایا۔ لیکن وہ میرے پاس آنے سے معذو ر تھی۔ اس کے سارے پیسے اس کی امی کی مہنگی دوائیوں پر خرچ ہوے تھے۔ وہ بہت دور رہتی تھی اور اس کی جیب میں ویگن کے ٹکٹ کے پیسے بھی نہیں تھے۔ ان جملوں نے مجھے بہت دکھ پہنچایا، لیکن میں نے ڈھیروں اصرار کیا۔ وہ کہاں رہتی تھی؟ میں اس سے وہاں مل سکتا تھا۔ اس سے ملنا میرے لیے اشد ضروری تھا۔ اس کی ملاقات سے میری موت مشروط تھی— میری مطلوبہ موت ۔ ثنا آخرکار میری ضد میں آگئی۔ اس نے شہر کے ایک نوآباد علاقے کی نشان دہی کی۔ وہ اس علاقے کے ایک خالی فلیٹ میں مجھ سے ملنے آسکتی تھی۔ مجھے اکیلے آنا تھا، اپنے محافظوں کے بغیر ، تاکہ ہمسایوں کو شک نہ پڑے۔ میں نے اس کی ساری باتیں مان لیں۔
میں نے فون رکھا۔ میں اپنے آپ پر حیران تھا۔ جب مجھے معلوم تھاکہ خارجی فضا لعنتوں سے پر تھی، میں ایک مشکوک لڑکی سے ملنے کی غرض سے تن تنہا ایک انجان جگہ جانے پر کیوں بضد تھا؟ کیا پتا؟ ممکن تھا کہ ثنا یزیدیوں کے ساتھ ملی ہوئی تھی۔ ممکن تھا کہ یزیدی اس نوآباد علاقے کے کسی نکڑ پرمیری گھات پرلگے بیٹھے تھے۔ عورت میری سب سے بڑی کمزوری تھی۔ اس کمزوری سے فائدہ اٹھاکریزیدی مجھے ختم کرنے والے تھے۔ ایک عورت سے ملنے کی جلدی میں میں ان کی گھات میں آرہا تھا۔ میں نے احتیاطاً اپنا حلیہ بدلا، آنکھوں کوکالی عینک میں چھپایا، سرکوایک نمازی ٹوپی سے ڈھانکا اور چہرے کوایک پشمینے کی شال میں غائب کردیا۔ پھر میں نے ایک آخری جام پی کر اپنی خطرناک منزل کا رخ کیا۔
ثنا کے فلیٹ پہنچنے میں مجھے پورے دوگھنٹے لگ گئے۔ میں ایک معمولی سے رکشے میں بیٹھ گیا تھا اور یہ رکشہ رخصت ہونے کے فوراً بعد شہر کے رش میں پھنس گیا تھا۔ ہراشارے پرہزاروں گاڑیاں رکی تھیں اور ہر گاڑی کے سوار ایک دائمی انتظار میں گرفتار تھے۔ شہر کی سب گھڑیاں گرمی سے پگھل چکی تھیں، لہٰذا شہر کے تمام سوار لازمانی کے اسیر ہوگئے تھے۔ لیکن میں لازمانی کی حدود میں نہیں تھا۔ مجھے جلدی تھی۔ میرا وقت تنگ تھا۔ رش سے بچنے کے لیے رکشہ والا کالونیوں کے اندر سے یا سروس روڈوں سے اپنی گاڑی نکال رہا تھا اور میں اس کے کندھے پراپنا دستِ شفقت رکھ کراس کوشاباشیاں دے رہا تھا۔ رش میں پھنسے ہوے لوگ شیشوں سے گردنیں نکال کرہمیں دیکھ رہے تھے۔ میرا ضدی رکشہ تیز جارہا تھا اور اس کے آگے شہر کورنش بجالانے پرمجبور تھا۔
ثنا ایک عمارت کی تیسری منزل کے ایک خالی فلیٹ میں میری منتظر تھی۔ آس پاس کی کھڑکیوں اور دروازوں سے روتے بچوں اور گھریلو لڑائیوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ میں ثنا کے قرب کا انتہائی مشتاق تھا۔ میں نے اس کواندر آتے ہی اپنی آغوش میں لیا اور فرش پر لٹایا۔ پھر میں نے اس کی شلوار اتاری اور ، فوراً ، کھردرے فرش پراس کے ساتھ ایک پروگرام کیا۔ ثنا ، اپنی عادت کے مطابق ، ایک برف کی سل بنی تھی۔ وہ نہ خوشی نہ غم کا اظہار کررہی تھی۔ میں بے چین اور بے دم تھا۔ میں اس کے جسم کے کواڑ پریوں دستک دے رہا تھا جیسے مفلس خیرات کے واسطے مزاروں کے دروازوں پردیتے ہیں۔ اور جب ثنا کا کواڑ کھل گیا، میرے بیج پھوٹ پڑے اور میری آئندہ نسلیں ثنا کی کوکھ میں پھیل گئیں، میری تشنگی یکدم بجھ گئی۔ میری روح مطمئن تھی۔ میں نے موت کوہرا کیا تھا۔
میں کھڑا ہوگیا اور ثنا کو تکنے لگا۔ وہ فرش پر لیٹی ہوئی تھی، میلی اور بدحواس ۔ میں نےاپنے بٹوے سے دس ہزار روپے نکالے اور ثنا کو دکھاتے ہوے درشتی سے کہا،’’یہ سارے نوٹ تمھیں مل جائیں گے، لیکن ایک بات بتائو۔ تم کون ہو، اور میرے پاس تمھیں کس نے بھیجا؟ ‘‘ میرے نوٹوں نے ثنا کوحق گوئی کی راہ دکھائی۔ اس نے کمر سیدھی کرکے کہا،’’میں اصل میں نائٹیں کرتی ہوں۔ حالانکہ میں بی اے پاس ہوں، میری مجبوری ہے۔ میری کچھ دوست آپ کے ہوٹل میں کام کرتی تھیں ۔ انھوں نے آپ کا بتایا اور ...‘‘ ’’بس ٹھیک ہے!‘‘ میں نے اس کا قطعِ کلام کیا۔ اس کا پول کھل گیا تھا۔ اس کا طلسم ٹوٹ گیا تھا۔ ثنا ایک معمولی سی کسبی تھی۔ اس نے مجھے اپنے ہی مفاد کے لیے پھنسایا تھا۔ یزیدیوں کے ساتھ اس کا جوڑتوڑ نہیں تھا۔ میں نے اس کواپنے نوٹ پکڑائے۔ نوٹ پکڑتے وقت وہ پشیمان لگ رہی تھی، لیکن یہ کہنا مشکل تھا کہ وہ کس بات پرپچھتا رہی تھی۔ مجھ سے جھوٹ بولنے پر یامیرے سامنے سچ اگلنے پر؟ میں دروازے کی طرف بڑھ گیا اور دروازہ کھول کر مڑگیا۔ میں نے ثناکو الوداع کہا۔ پھر میں فلیٹ کے باہر آیا اور سیڑھیاں اترنے لگا۔
رات ہوگئی تھی۔ سیڑھیوں میں ایک آہنی اندھیرا میری گھات لگارہا تھا۔ پھر ایک کھڑکی سے چاندنی جھانکنے لگی اور چاندنی کی نظریں کرنوں کا روپ دھارتی چلی گئیں۔ کرنیں مجھے زینوں کی ظلمت میں راہ دکھا رہی تھیں اور میرا سایہ میرے پائوں گھسیٹ کرمجھے آگے لے جارہا تھا۔ میں آخری سیڑھی سے اترا اور سڑک پر چلنے لگا۔ اب سڑک پرہو کا عالم تھا۔ طرب نگر کے اس نوآباد علاقے کے مکیں اپنی کمیں گاہوں میں چپ بیٹھے تھے۔ مجھے کوئی سواری ڈھونڈنی تھی۔آگے، ایک چوک پر، دوتین رکشوں کی بتیاں دکھائی پڑیں۔ میری آس جاگ گئی۔ اس چوک پرسواری کا بندوبست ممکن تھا۔ میں اس کی طرف تیزی سے قدم بڑھانے لگا۔ اس شانت سی سڑک پرچلتے ہوے مجھےاچانک اپنے علاقے کا تھل یاد آیا— وہ خاموش تھل جس کی پہنائیوں میں مَیں اور میرے ابو رات کوپھرا کرتے تھے۔ ہمارے تھل کے سکوت اور اس سڑک کی شانتی میں کوئی بڑا فرق نہیں تھا۔ سڑک دراصل انتظار میں تھی۔ یہاں کوئی وی آئی پی حضرات عنقریب تشریف فرما ہونے والےتھے، جن کے لیے راہگیر وں اور سواریوں کی آمدروفت کو پوری طرح معطل کیا گیا تھا۔ پھر ، اچانک، ایک مشین میرے پیچھے گرج گئی۔ میں نے مڑکر دیکھا۔ ایک بائیک میری طرف آرہی تھی جس پردو نقاب پوش افراد سوار تھے۔ ڈرائیور کے پیچھے ایک فرد بیٹھا ہوا تھا جوکہ ایک بندوق سے لیس تھا۔ میں نے سانس روکی اور نادِ علی پڑھی۔ یزیدیوں کومیری ٹوہ لگی تھی۔ یزید کا رسالہ میرے پاس آرہا تھا۔

یزید کے شہسوار مجھے قتل کرکے فرار ہوگئے تھے اور اب میرا جسم سڑک پرپڑا تھا۔ میں ہلنے سے قاصر تھا اور ایک ٹھنڈی ہوا میرے انگ انگ میں نفوذ کررہی تھی۔ میں آہستہ آہستہ ایک لاش کی شکل اختیار کررہا تھا اور گزشتہ ساعتوں کی فلم میرے تصور کے پردے پرمسلسل چل رہی تھی۔ یزیدیوں کی بائیک میری بغل میں رکی تھی اور جس فرد نے ہاتھ میں بندوق اٹھائی تھی اس نے مجھ پرنشانہ تان لیا تھا اور لبلبی دبائی تھی۔ گولیوں کے ایک برسٹ نے میرے تن کوجگہ جگہ سے چھلنی کردیا تھا اور میں زمین پرگر پڑا تھا۔ ’’شیعہ کافر !‘‘ کا نعرہ ہوا میں گونج گیا تھا اور بائیک، ایک خشمگیں دیوتا کی طرح، گھن گرجتے ہوے نکل پڑی تھی۔
میں سپاہِ شہدا کے رضاکاروں کی گولیوں سے مرا تھا۔ سلطانِ کربلاجناب عرشِ بریں پرمجھے بلا رہے تھے۔
میری روح میرے قفسِ فانی سے اڑ گئی اور اڑان کے دوران میری لاش ایک نقطے کی طرح خفیف ہوگئی۔ میری روح برق کی رفتار سے پرواز آزما تھی۔ وہ سڑک جس پرمیری لاش پڑی تھی، سمٹتی گئی اور طرب نگر شہر کا پورا نقشہ اجاگر ہوگیا۔ چوک ، سڑکیں، تالاب، محلے اور نالے دائروں ، لکیروں، نقطوں اور مربعوں کی شکل میں نظر آرہے تھے۔ پھر طرب نگر شہر مختصر ہوتے ہوتے کرۂ ارض کی پیشانی پر ایک تلک بن گیا اور اوپر آسمان میں ایک بے کراں گنبد آشکار ا ہوگیا۔ اس گنبد کے بام پرایک درخشاں دروازہ جلوہ نما تھا۔ اس کی دہلیز سے تجلی برس رہی تھی۔ میں اس دروازے کوپہچان گیا۔ وہ باب الشہدا تھا۔ میں نے اپنی پہلی مجلس میں اس کودیکھا تھا۔ دہلیز پربہتّر سائے منڈلارہے تھے۔ ان کے پیچھے ہزاروں قدیم اور جدید ہیولے میرے منتظر تھے۔ مجھے شک پڑا : کیا میری روح شہدا کی روحوں کی مانند فردوسِ بریں میں داخل ہونے والی ہے؟ اچانک، ہوا کے ایک زوردار جھونکے نے میری روح کوباب الشہدا کی مخالف سمت میں دھکیل دیا، اور اوپر سے ایک آواز گونجی۔ شہدا کے سردار مجھ سے میری بولی میں مخاطب ہورہے تھے۔ وہ فرمارہے تھے:’’توں ساڈے کول آون دے لائق نئیں ۔ تیڈی آخری مجلس تیڈے گناہواں دے کفارے واسطے کافی نئیں۔ تیڈے کفارے دے واسطے تینکوں اتھاں ای بہتّر ہزار مجلساں پڑھن پوسن۔ ‘‘
TT

بدھ، 19 اکتوبر، 2016

منٹو/ذوالفقار عادل

ذوالفقار عادل اردو غزل کے حوالے سے ایسی منفرد شخصیت کے طور پر نمایاں ہوئے ہیں کہ پاکستان کے جدید شعری منظرنامے پر ادریس بابر کے بعد ان کا نام مجھے سب سے زیادہ اہم معلوم ہوتا ہے۔یہ میری ذاتی رائے ہے، ممکن ہے آپ کو اس سے اختلاف ہو مگر ذوالفقار عادل کے پہلے شعری مجموعے 'شرق مرے شمال میں'کو پڑھ کر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ایسا مجموعہ جس میں کوئی ایک غزل بھی اضافی یا خراب محسوس نہ ہو، اپنے عہد کے لیے ایک مثالی کتاب کی اہمیت رکھتا ہے۔کئی دنوں پہلے انہوں نے مجھے اپنی کہانی 'منٹو'پڑھوائی۔کہانی پڑھ کر مجھے محسوس ہوا کہ وہ واقعی اپنے اندر ایک اچھے فکشن نگار کا جوہر بھی رکھتے ہیں، صغیر ملال اس حوالے سے سب سے اہم تخلیق کار تھے، جنہوں نے شاعری اور فکشن دونوں میں کمال نقش پیدا کیے ہیں۔فی الحال ذوالفقار عادل کی یہ کہانی، ان کی شخصیت اور تخلیق کے ایک بالکل دوسرے پہلو کو ہمارے سامنے لاتی ہے، بظاہر یہ افسانہ منٹو کے اردو گرد علامتی انداز میں چکر لگاتا ہے، لیکن اس میں اور بھی دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کہانی منٹو سے زیادہ منٹو کے قاری کی ہے۔شکریہ(تصنیف حیدر)

یہ گلدان میرے لئے ایک مصیبت بنا ہوا ہے۔اِس سے آنے والی غیر ضروری خوشبو نے میرا جینا دوبھر کر دیا ہے۔یہاں تک کہ یہ خوشبو میرے معمولات میں خلل کا سبب بن رہی ہے۔
ممکن ہے کبھی کسی نے اس میں ایسے پھول رکھ دیے ہوں یا ایسا عطر چھڑک دیا ہو جس کی خوشبو بہت دیرپا ہے۔میں پیتل کے اِس گلدان کو کئی بار دھو چکا ہوں لیکن یہ خوشبو جانا تو دور کی بات، کم ہونے کا نام بھی نہیں لیتی۔یہ ایک قدیم اور قیمتی گلدان ہے اور گلدان کی حد تک مجھے بے حد پسند ہے۔میں نے اسے نوادرات کی دکان سے مہنگے داموں خریدا تھا۔میں اسے کہیں پھینکنا بھی نہیں چاہتا۔میں نے ایک سے زیادہ مرتبہ اسے کمرے سے باہر رکھ کر بھی دیکھا ہے لیکن اس سے بھی فرق نہیں پڑا اور میں یہ فیصلہ نہیں کر سکا کہ یہ غیر ضروری خوشبو میرے کمرے میں رچ بس گئی ہے یا یہ گلدان کمرے سے باہر رہ کر بھی کمرے کو مہکا رہا ہے۔اس خوشبو کی وجہ سے میری طبیعت بوجھل رہنے لگ گئی ہے اور میں کوئی بھی کام توجہ اور انہماک سے کرنے کے قابل نہیں رہا ہوں۔
میں جانتا ہوں کہ اس مسئلے کا حل منٹو کے پاس ہے مگر منٹو سے ملنا آسان نہیں ہے۔

منٹو جب اس قصبے میں آیا تھا تو لوگ اسے ایک عام شعبدہ گر کی حیثیت سے جانتے تھے۔ابتدا میں اس نے جو شعبدے دکھائے تھے وہ بہت کم لوگوں کو یاد ہیں۔اس کی شہرت کا آغاز اس وقت ہوا جب اس نے ایک بد بو دار رومال کو مجمع کے سامنے خوشبو دار بنا دیا اور ایک خوشبودار پھول سے خوشبو ختم کردی۔یہ رومال اس نے مجمع میں موجود ایک شخص سے لیا تھا جسے سارا مجمع پہلے سے جانتا تھااور پھول ،پھولوں کی دکان سے سب کے سامنے منگوایا گیا تھا۔
کچھ لوگوں کا تب بھی یہی خیال تھا کہ یہ دھوکا ہے، یہ شخص آنکھ بچا کر بدبو یا خوشبو چیزوں پر چھڑک دیتا ہوگا، لیکن جب دو بار دھلنے کے بعد بھی اس رومال میں پہلے جتنی خوشبو موجود رہی تو لوگوں نے منٹو کو آزمانے کا فیصلہ کر لیا۔
اس آزمائش کو دیکھنے وہ لوگ بھی کھنچے چلے آئے جو اس طرح کے مجمع میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔لوگ مختلف طرح کی بدبو دار اور خوشبودار چیزیں اٹھا لائے تھے۔ سب حیران رہ گئے جب ایک بڑے مجمع کے سامنے منٹو نے اُس تازہ گلاب میں بدبو پیدا کر دی جسے ایک شخص خود توڑ کر لایا تھا اورمختلف چیزوں میں لوگوں کی مرضی کے مطابق بدبو یا خوشبو ڈال دی۔منٹو کو اندازہ تھا کہ لوگ اس کے لباس پر بھی شک کریں گے کہ کہیں اس نے کوئی چیز لباس میں نہ چھپا رکھی ہو۔آغازہی میں اس نے ایک ایک کرکے سارا لباس اتار دیا،اُس جانگیے کے علاوہ جسے اتارنے کی لوگوں نے اجازت نہیں دی۔
منٹو نے لوگوں کی خواہش کے مطابق چیزوں کی خوشبو کوبڑھا بھی دیا، بدبو کو کم یا زیادہ کرکے بھی دکھا دیا، بدبو اور خوشبو کو ایک دوسرے سے بدل بھی دیا اور ہر طرح کی بو کو ختم بھی کر دیا۔
وہ بدبو اور خوشبو کا دورانیہ بھی لوگوں کی خواہش کے مطابق کم یا زیادہ کر سکتا تھا۔ایک پھول جس میں ایک دن تک بدبو آئی ، پھر اس کی اصل خوشبو بحال ہو گئی، ایک رومال جس میں صرف رات کے وقت خوشبو آتی تھی، ایک لباس جو ایک ہفتے تک خوشبو دیتا رہا اور ایک برتن جو ایک مہینے تک مہکتا رہا۔
قصبے اور اس کے نواحی علاقوں میں شہرت کے لئے یہ سب کافی تھا۔منٹو کی شہرت اس وقت تمام حدیں پار کر گئی جب ایک دن اس نے ایک بد صورت شخص کے چہرے پر ہاتھ رکھا،کچھ پڑھا، سات مرتبہ ہاتھ پھیرا اور جب ساتویں مرتبہ ہاتھ ہٹایا تو وہ ایک خوبصورت یا احتیاطاًیوں کہیے کہ بہت حد تک قبول صورت شخص بن چکا تھا۔اِس کمال نے منٹو کی مقبولیت کو چار چاند لگا دیے۔عورتوں میں یہ کمال ایسا مقبول ہوا کہ عام آدمی کے لئے منٹو سے ملنا ہی مشکل ہو گیا۔

ابتدائی طور پر منٹو نے اپنے شعبدے بازار میں،چوراہے پر، کسی گلی کے کونے پرمجمع لگا کر دکھانے شروع کیے لیکن اپنی شہرت میں اضافے کے ساتھ اسے چوراہے کی اس دکان میں منتقل ہونا پڑاجس میں ایک کرسی ،مختصر سامان اور ایک بیاض کے علاوہ کچھ نہ تھا اور جہاں لوگ اپنے اپنے مسائل حل کروانے آتے تھے۔
منٹو کے علاوہ دوسرا شخص، جو منٹو کی غیر موجودگی میں بھی اس دکان میں موجود رہتا تھا، فضل تھا۔منٹو کے قصبے میں آنے سے پہلے فضل اپنے دن رات قصبے کے بازار میں یا چوراہے پر کسی بھی جگہ بسر کر لیا کرتا تھا۔لوگ اُسے کھانے پینے اور پہننے کی چیزیں دے دیتے تھے لیکن اس سے زیادہ الجھنے سے گریز کرتے تھے۔ اس کی بڑی وجہ وہ گالیاں تھیں جو وہ بات بات پر اور کبھی کبھی کسی وجہ کے بغیر بھی دیتا رہتا تھا۔لوگ اسے پاگل سمجھتے تھے اور اس کی گالیوں پر بھی اس سے گریز ہی کو ترجیح دیتے تھے۔منٹو کے دکان میں منتقل ہونے کے بعد فضل کو ایک مستقل ٹھکانہ مل گیا تھااور اسے منٹو کے خدمت گار کے طور پر جانا جانے لگا تھا۔
خوب صورتی کا جادو دکھانے کے بعد اس کے پاس لوگوں کی بڑی تعداد آنے لگی جن میں اکثریت عورتوں کی تھی۔لوگوں کو اس بات پر بھی یقین تھا کہ جو شخص چیزوں میں حسن اور خوشبو پیدا کر سکتا ہے، وہ بیماریوں کا علاج بھی کر سکتا ہے۔ اگر ابھی نہیں تو کبھی نہ کبھی وہ ایسا ضرور کرے گا۔
مجمع زیادہ بڑھا تو عورتوں نے منٹو کو ہی اپنے پاس بلوانا شروع کر دیا۔یوں منٹو سے ملنے کے اوقات مقرر رہے نہ مقام۔منٹو کا زیادہ وقت اُن عورتوں کے پاس گزرنے لگا جن کی شہرت عام لوگوں کی نظر میں اچھی نہیں تھی۔اس بات نے خود منٹو کی شہرت کو بھی نقصان پہنچایا،لیکن منٹو کو، جو بدصورتی اور خوبصورتی ،اور بدبو اور خوشبو کو ایک دوسرے سے بدل دینے کا ماہر تھا، اچھے یا برے سے کیافرق پڑ سکتا تھا۔
منٹو کی دکان پر آنے والے طویل انتظار کی زحمت سے گزرنے لگے ، وہ بھی فضل کی موجودگی میں جو کسی بھی وقت گالیوں کا انبار لگا سکتا تھا۔

منٹو اُس کا اصل نام نہیں تھا۔ اس نے کبھی کسی مجمع میں اپنا نام نہیں بتایا۔جب اس کی شہرت بڑھی تو لوگوں کو ایک نام کی ضرورت پیش آئی جس سے وہ اسے پکار سکیں۔اس سے جب بھی اس کا نام پوچھا گیا اس نے اس سوال کواپنے کسی شعبدے کے نیچے دبا دیا۔
لوگوں کو اسے منٹو کا نام دینا پڑا کہ اس کا حلیہ اور شکل کافی حد تک ایک تاجر سے ملتے تھے جو منٹو کے نام سے مشہور تھااور قصبے میں نصف صدی تک اپنا کاروبار چلانے کے بعد مر چکا تھا۔یہ بھی ایک اتفاق تھا کہ چوراہے کی یہ دکان جسے منٹو نے اپنا ٹھکانہ بنایا تھا،دراصل تاجر منٹو کی دکان تھی جو اس کے ورثاء نے بیچ دی تھی۔کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ جادوگر دراصل اس منٹو کا بیٹا ہے،یہ کہیں چلا گیا تھا اور اب اپنے باپ کے مرنے کے بعد واپس لوٹا ہے،جبکہ سارا قصبہ جانتا تھا کہ تاجر منٹو بے اولاد تھا۔
منٹو کو اپنے نام پر کوئی اعتراض نہیں تھا، وہ جانتا تھا کہ لوگ اسے منٹو کہتے ہیں ،سو جب کوئی اسے منٹو کہہ کر پکارتا تو وہ متوجہ ہو جایا کرتا تھا۔
میں جب اس قصبے میں آیا تو منٹو کی شناخت ایک جادوگر کی حیثیت سے ہو چکی تھی۔میرے یہاں آنے کا مقصد بظاہر تو کاروبار ہی تھا،لیکن درحقیقت مجھے منٹو کی شہرت نے بھی بہت متاثر کیا تھا۔

منٹو کے پاس آنے والوں میں بڑی تعداد اُن لوگوں کی بھی تھی،جو منٹو سے یہ جادو سیکھنا چاہتے تھے۔میں بھی ان میں شامل تھا۔منٹو نے نہ تو کبھی کسی کو کچھ سکھایا،نہ ہی شاگردی میں آنے کے لئے کسی کی حوصلہ افزائی کی۔شاگرد بننے اور سیکھنے کے خواہش مند پھر بھی اس کی کرسی کے سامنے بیٹھے رہتے اور دیکھتے رہتے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔
جس چیز میں خوشبو پیداکرنا ہوتی،وہ اسے دائیں ہاتھ میں اٹھاتا،پھر کچھ پڑھنا شروع کر دیتا، پھر بائیں ہاتھ میں اچھال دیتا۔ یوں وہ سات مرتبہ ہاتھ تبدیل کرتا۔کوئی برتن ہوتا تو ہر باروہ ہاتھ تبدیل کرتے ہوئے اسے الٹا کر کے جھاڑتا،اگر لباس ہوتا تو آغازہی میں اسے الٹا کر کے جھٹک لیتا۔اگر بدبو پیدا کرنا مقصود ہوتا تو وہ بائیں ہاتھ سے آغاز کرتا۔کبھی کبھی وہ یہ عمل دو بار بھی کیا کرتا تھا۔لیکن ہر بار عمل کے بعد نتیجہ وہی برآمد ہوتا جو اس چیز کو لانے والا چاہتا تھا۔
سڑک کنارے مجمع لگانے سے دکان میں بیٹھنے تک،اس نے کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگا۔لوگ اپنی مرضی اور خوشی سے رقم یا تحائف اُسے یا فضل کو تھما جاتے تھے۔

سیکھنے والوں کے لئے معمہ یہ تھا کہ وہ پڑھتا کیا ہے۔اسی جستجو میں لوگوں کی توجہ کا مرکز وہ بیاض بن گئی جو دکان میں کرسی کے پاس رکھی ہوتی تھی۔پھر ایک دن ایک شخص نے منٹو اور فضل کی موجودگی میں ہمت کرکے وہ بیاض اٹھائی اور اسے پڑھنا شروع کر دیا۔منٹو نے اسے منع نہیں کیا۔فضل نے اسے گھور کر دیکھا لیکن منٹو کی خاموشی کی وجہ سے خود بھی خاموش رہا۔پھر اس نے وہ کلام نقل کرنا شروع کر دیا۔منٹو نے تب بھی کوئی توجہ نہیں دی۔فضل نے بھی کچھ نہیں کہا۔
اس کے بعد کچھ ہی دنوں میں تمام سیکھنے والوں نے وہ بیاض ایک ایک کرکے اپنے پاس نقل کر لی۔نقل کرنے والوں میں میں بھی شامل تھا۔نقل کرنے کا یہ عمل منٹو کی موجودگی میں ہی ممکن تھا،اس کی غیر موجودگی میں فضل اس کی کسی چیز کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتا تھا۔
پھر ایک دن ایک شاگرد نے یہ دعویٰ کیا کہ اسے وہ جادو آگیا ہے جس کے لئے منٹو مشہور ہے۔منٹو کے کمیاب ہونے سے فائدہ اٹھا کر اس شاگرد نے چوراہے سے کچھ فاصلے پر ایک دکان میں بیٹھنا شروع کر دیا۔منٹو کے طویل انتظار سے پریشان لوگ اس کے پاس جانے لگے۔
پھر کچھ دن کے وقفے سے ایک اور شاگرد سامنے آگیا۔اس کا بھی یہی دعویٰ تھا۔اس نے بھی قصبے میں ایک جگہ اپنا ٹھکانہ بنا لیا۔ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ ایک اور شاگرد یہی دعویٰ کرتا پایا گیا۔اس نے قصبے کی بجائے نواح کا رخ کیا۔پھر کچھ اور شاگرد مختلف سمتوں میں روانہ ہوئے۔
نواح سے خبر آئی کہ ایک شخص نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ وہ دراصل منٹو کا نہیں منٹو کے استاد کا شاگرد ہے۔یعنی منٹو کا ہم منصب ہے۔ایک اور شخص نے تو حد ہی کر دی جب اُس نے خود کو منٹو کا استاد قرار دے دیااور دعویٰ کیا کہ منٹو نے دراصل اُس سے یہ ہنر سیکھا ہے؛وہ اب تک اِس لیے خاموش تھاکہ اس کا چہیتا شاگرد منٹو پہلے اپنا نام بنا لے،وہ خود تو بنا ہی لے گا، منٹو کا استاد جو ہوا۔
منٹو کے معمولات میں اِس سے ذرا بھی فرق نہیں پڑا۔

میں یہ ہنر صرف سیکھنے کے لئے سیکھنا چاہتا تھا۔ میرامقصد نہ تو کوئی ٹھکانہ بنا کر دولت کمانا تھا،نہ ہی کوئی دعویٰ کرنا۔میری خواہش تھی کہ گلدان سے آنے والی غیر ضروری خوشبو کو یہ ہنر سیکھ کر میں خود کم کروں۔
بیاض کے کلام کو اپنے پاس نقل کرنے کے بعد، پہلے تو میں نے اُس کلام کو بغور پڑھا۔وہ کلام کچھ شاعری، کچھ کہانیوں اور کچھ بے ربط اور نہ سمجھ آنے والی تحریروں پر مشتمل تھا۔بہت سے ایسے لفظ تھے جن کا مطلب میں نہیں سمجھ سکتا تھا۔میں نے تجربات شروع کر دیے۔
میں نے اپنے ذہن میں وہ عمل دہرایا جو منٹو کیا کرتا تھا، پھر بائیں ہاتھ میں گلدان پکڑ کر ایک کلام کو پڑھنا شروع کر دیااور گلدان کو بائیں سے دائیں اور دائیں سے بائیں ہاتھ میں بالکل اُسی طرح گھماتا رہاجس طرح منٹو گھمایا کرتا تھا۔پھر دوسرا کلام، پھر تیسرا................
یہ ایک صبر آزما کام تھا۔ تیسرے دن تک میں بیاض میں موجود سارا کلام پڑھ کر تھک چکا تھا اور یہ تسلیم کر چکا تھا کہ منٹو جو کچھ پڑھتا ہے اُس کا اِس بیاض سے کوئی تعلق نہیں ہے۔دو دن بعد مجھے ایک خیال آیا اور میں نے ایک بار پھر نئے جذبے کے ساتھ وہ عمل شروع کیا۔اِس بار میں نے سارے کلام کو الٹا پڑھا۔ایسا کرتے ہوئے مجھے زیادہ وقت لگا۔ساتویں دن جب میں کلام کا ایسا حصہ پڑھ رہا تھاجو نامانوس الفاظ پر مشتمل تھا، مجھے محسوس ہوا کہ گلدان کی خوشبو ختم ہو گئی ہے۔یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔میں نے بار بار گلدان کو سونگھا ، مجھے یقین نہیں آرہا تھا۔میں اپنی کامیابی کی تصدیق کرنا چاہتا تھا۔
میں گلدان کو لے کر باہر نکلا۔گلی کے کونے پر،پرچون کی دکان پر بیٹھا دکان دار مجھے فارغ نظر آیا۔میں تیز تیز قدم اُٹھاتا اُس کے پاس گیا۔ گلدان اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے میں نے کہا’’اِسے سونگھیے۔‘‘
منٹو کی وجہ سے سارا قصبہ خوشبو اور بدبو سونگھنے کا عادی ہو چکا تھا۔دکان دار کو حیرت نہیں ہوئی۔اُس نے گلدان کو سونگھا۔میں بغور اُس کے چہرے کا جائزہ لینے لگا۔اس نے دوبارہ سونگھا، پھر تیسری بار، پھر چوتھی بار،جیسے وہ کسی فیصلے پر نہیں پہنچ پا رہا ہو۔ مجھ سے صبر نہیں ہو سکا۔
’’کوئی بو نہیں ہے نا!‘‘
دکان دار خاموش رہا۔میں پھر بول اٹھا۔
’’خوشبو تو نہیں ہے نا!‘‘
دکان دار نے ایک نظر میری طرف دیکھا، ایک بار اور گلدان کو سونگھا اور بولا
’’ہاں،خوشبو تو نہیں لگتی لیکن.............‘‘
’’لیکن کیا....؟‘‘
میری بے صبری بڑھتی جا رہی تھی۔
’’کوئی بو ہے ضرور...‘‘ دکان دار نے غیر یقینی انداز میں کہا۔
’’خوشبو تو نہیں ہے نا!‘‘ میں نے پھر زور دے کر پوچھا۔
’’ہاں ...شاید...‘‘دکان دار نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
’’خوشبو تو نہیں ہے، لیکن کوئی مدھم سی بو ہے جو نہ خوشبو ہے، نہ بد بو۔‘‘
میرے لئے یہ تصدیق کافی تھی کہ گلدان سے کم از کم خوشبو نہیں آ رہی۔میں نے گلدان واپس لیا اور خوشی خوشی اپنے کمرے میں لوٹ آیا۔میرا ایک بڑا مسئلہ حل ہو چکا تھا۔میرے بازوؤں میں درد ہو رہا تھا، اِس عمل نے مجھے اتنا تھکا دیا تھا کہ آرام کرنے کے علاوہ میں کچھ اور سوچ ہی نہیں سکتا تھا۔
مجھے اندازہ نہیں ہوا کہ میں کتنی دیر سویا ہوں لیکن جب میں اٹھا تو کمرے میں ایک نا مانوس ، بہت تیز اورناقابلِ برداشت بو موجود تھی، جو نہ خوشبو تھی،نہ بدبو۔ عین اُسی لمحے مجھے منٹو کے مقام اور مرتبے کا اندازہ ہو گیا اور اِس بات کا بھی کہ منٹو کے شاگردوں ،ہم منصبوں اور استادوں کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
عمل ایک بار پھر شروع ہوا۔اِس بار میں نے صرف اُسی کلام کو بار بار الٹا اور پھر سیدھا پڑھا جس کے پڑھنے سے خوشبو غائب ہو گئی تھی۔تین بار الٹا اور پھر تین بار سیدھا پڑھنے کے بعدوہ نا قابلِ برداشت تیز بُو ،ایک بار پھر اُسی غیر ضروری خوشبو میں بدل چکی تھی،لیکن یہ خوشبو پہلے سے زیادہ تیز تھی۔میں عمل دہراتا رہا، یہاں تک کہ خوشبو ویسی ہی ہو گئی ،جیسی پہلے تھی۔

منٹو کا مشاہدہ کرتے ہوئے میں نے دیکھا تھا کہ ساتویں اور آخری مرتبہ وہ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں چیزاچھالتا نہیں ہے،وہ خود اچھل کر دوسرے ہاتھ میں چلی جاتی ہے۔اتنا غور سے شاید اسے کوئی نہیں دیکھ سکا تھا۔اپنے عمل کی کامیابی کا یقین مجھے اس لئے بھی نہیں تھا کہ ساتویں مرتبہ بھی گلدان کو میں نے ہی اچھالا تھا،وہ خود اچھل کر دوسرے ہاتھ میں نہیں گیا تھا۔میں جان گیا تھا کہ منٹو اور دوسرے عمل کرنے والوں میںیہی بنیادی فرق ہے۔
منٹو کے شاگردوں کی ناکامی کی خبریں آنا شروع ہو گئیں۔یہ تمام شاگرد خوشبو اور بدبو کو کم یا زیادہ تو کر لیتے تھے،لیکن نہ اسے برقرار رکھ سکتے تھے ،نہ ان میں وہ مہارت تھی جس کے لئے منٹو مشہورتھا۔کچھ نے بدبو کم کی تو خوشبو بڑھا دی،کچھ سے بدبو کم ہی نہیں ہوئی،اور بڑھ گئی۔کچھ نے خوشبو کی بجائے ایک نامانوس،تیز اور ناقابلِ برداشت بو کا اضافہ کر دیا۔منٹو کے شاگردوں کو منہ چھپانا پڑا یا بستی ہی چھوڑنا پڑی۔منٹو کی استادی کے دعویدار کو مار تک کھانا پڑی۔اُس نے ایک دلہن کے عروسی لباس میں خوشبو ڈالی تھی جو شادی کی رات اِتنی شدید بد بو میں تبدیل ہو گئی کہ لباس کو آگ لگانا پڑی۔

میرا مسئلہ جوں کا توں ہے،گلدان اور غیر ضروری خوشبو۔میں جانتا ہوں کہ کسی بھی عمل کا کوئی فائدہ نہیں،میرا مسئلہ صرف منٹو ہی حل کر سکتا ہے۔میں اُس کی دکان پر کئی بار جا چکا ہوں اور یہ جاننے کے لئے کہ منٹو کہاں ہے،فضل سے کئی بار گالیاں کھا چکا ہوں۔اُن تمام چوباروں اور گلیوں میں بھی جا چکا ہوں،جہاں میرے عِلم کے مطابق منٹو کو ہونا چاہیے لیکن وہ مجھے کہیں نہیں ملا۔
منٹو کے دکان پر آنے کا کوئی وقت طے نہیں ہے،نہ یہ معلوم ہے کہ وہ کتنی دیر بیٹھے گا۔اور اگر منٹو مل بھی جائے اور آپ اپنا مسئلہ بتا بھی دیں، تب بھی ضروری نہیں کہ وہ آپ کے لئے فوری طور پر عمل کرنا شروع کر دے۔وہ خاموش رہتا ہے،بالکل خاموش۔یوں بھی ہوتا ہے کہ کوئی اپنا مسئلہ بیان کر رہا ہوتا ہے اور وہ اٹھ کر چل دیتا ہے۔
میں اِس خوشبو سے اِتنا تنگ آگیا ہوں کہ آخر یہ فیصلہ کر کے کہ جب تک منٹو نہیں آئے گا،میں اُس کی دکان پر بیٹھا رہوں گا،میں اُس کی دکان پر آ گیا۔اُس کی دکان پر بیٹھ کر اس کا انتظار کرنا آسان نہیں ہے۔اس کی سب سے بڑی اور واحد وجہ فضل ہے۔وہ پھٹے سے کُرتے اور میلی سی دھوتی میں ملبوس دکان پر بیٹھا رہتا ہے۔منٹو کی موجودگی میں وہ اُس کے سر میں تیل لگاتا ہے،ہاتھ پاؤں کی مالش کرتا ہے،اُس کے کھانے پینے کا خیال رکھتا ہے اور غیر موجودگی میں جب اس کا جی چاہتا ہے ،صفائی کرنے لگتا ہے،دھوتی میں ستر پوشی کا خیال رکھے بغیر لیٹا رہتا ہے یا پھر گالیاں دیتا رہتا ہے۔
وہ عام طور پر ہر سوال کے جواب میں گالیاں دیتا ہے، جی چاہے تو جواب بھی دے دیتا ہے۔اُس کی گالیاں معیار اور مقدار کے اعتبار سے اُس درجے کی ہوتی ہیں کہ عام آدمی اُن کی تاب نہیں لا سکتا۔وہ بات کرتے ہوئے ہکلاتا ہے،لیکن گالیاں روانی سے دیتا ہے۔دکان پر جو بھی منٹو کا پتا کرنے آتا ہے،اُسے منٹو کا پتا چلے نہ چلے،فضل کی گالیاں ضرور سننا پڑتی ہیں۔
اِس واقعے سے پہلے فضل کا نام کیا تھا، یہ اب کسی کو یاد نہیں۔ منٹو کے قصبے میں آنے سے پہلے کی بات ہے کہ ایک دن مسجد میں اذان شروع ہوئی تو فضل نے اونچی آواز میں گالیاں دینا شروع کر دیں۔لوگوں نے اِس بات کا بُرا منایا لیکن نظر انداز کر دیا۔لیکن جب اگلی اذان شروع ہوتے ہی فضل نے ایک بار پھربلند آواز میں غلیظ گالیوں کا سلسلہ شروع کیا تو ہنگامہ برپا ہو گیا۔لوگ فضل کو مارنے کے لئے چڑھ دوڑے۔ اپنے دفاع کے لئے فضل کے پاس مزید گالیاں تھیں۔کچھ لوگوں نے بیچ بچاؤ کرایا اور اُس کی دماغی حالت کا فائدہ دے کے زیادہ زخمی ہونے سے بچا لیا۔
تحقیقات سے پتا چلا کہ دراصل فضل کو اذان سے کوئی مسئلہ نہیں تھا،اُس آواز سے تھا جو اذان بن کر فضل کے کانوں تک پہنچ رہی تھی۔یہ آواز مولوی فضل کی تھی۔مولوی فضل عام طور پر اذان نہیں دیتا تھا لیکن اُس دن مؤذن کے نہ ہونے کی وجہ سے اُسے اذان دینا پڑی تھی۔فضل کو مولوی فضل سے اِتنی چڑ تھی کہ وہ اُس کی آواز بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
مولوی فضل نے اذان کی آواز پر گالیاں دینے کے جرم میں فضل کو واجب القتل قرار دے دیا۔بیچ بچاؤ کرانے والے گروہ نے، جن میں کچھ ایسے لوگ بھی شامِل تھے جو با قاعدہ نمازی تو نہیں تھے لیکن مسجد کو باقاعدگی سے ایک بڑی رقم چندہ کے طور پر دیا کرتے تھے،مولوی فضل کو سمجھایا کہ ایک مفقود العقل شخص کو واجب القتل قرار نہیں دیا جا سکتا۔اُس گروہ نے مولوی سے درخواست کی کہ وہ اذان نہ دیا کرے۔مولوی اِس بات پر بھی طیش میں آگیا کہ ایک مسلمان کو اذان دینے سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔
مؤذن واپس آگیا لیکن یہ مسئلہ کئی دن تک زیرِ بحث رہا۔بعدمیں جب ایک بار پھر مؤذن کہیں غائب ہوا تو مولوی فضل نے خود اذان نہیں دی۔ مولوی فضل کے حامیوں نے اِس کی وجہ یہ بتائی کہ مولوی نہیں چاہتا کہ خود اذان دے کرایک پاگل شخص کو اذان کے دوران گالیاں دینے کے انتہائی مکروہ عمل کا موقع دے، جبکہ کچھ اور لوگوں کا کہنا تھا کہ مولوی فضل کچھ لوگوں کو ،جو باقاعدہ نماز پڑھنے کے ثواب سے پہلے ہی محروم ہیں،اُن کی بات نہ مان کر،چندہ دینے کے ثواب سے بھی محروم نہیں رکھنا چاہتا۔

فضل کو مولوی فضل سے کیوں چڑ تھی،اس پر لوگوں کی مختلف رائے تھی۔کچھ کے خیال میں مولوی نے اُس کے ساتھ کوئی حرکت کی تھی، ممکن ہے لڑکپن میں، اور کچھ کا کہنا تھا کہ ستر پوشی کا خیال نہ رکھنے اور منع کرنے کے باوجود مسجد کے سامنے والی نالی پر بیٹھ کر پیشاب کرنے کے جرم میں،مولوی نے اُسے اِس طرح مارا تھا کہ اُس کے نازک اعضاء بُری طرح متاثر ہوئے تھے۔
فضل کا نام اِس واقعے کے بعد سے فضل پڑا۔کچھ لوگ اُسے آتا جاتا دیکھ کر فضل کے نام سے چھیڑتے تھے اور وہ گالیاں دینا شروع کر دیتا تھا۔رفتہ رفتہ لوگ اس کا اصل نام بھول گئے اور اس نے بھی اپنی چھیڑ کو اپنے نام کے طور پر قبول کر لیا۔
اِس کی شاید ایک وجہ اور بھی ہو۔اُسے کچھ بھی کہہ کر پکار لیں ، وہ توجہ نہیں دیتا۔جب اسے فضل کہہ کر پکارا جاتا ہے تو فوراً پکارنے والے کی آنکھوں میں دیکھتا ہے۔اگر اُسے شبہ ہو جائے کہ اُسے چھیڑا جا رہا ہے تو گالیوں کی بارش شروع ہو جاتی ہے اور اگراُسے لگے کہ اسے چھیڑا نہیں گیا ،تو اُس کی مرضی ہے، جواب دے یا گالیاں۔

جب سے منٹو چوراہے کی اِس دکان میں آیا ہے، لوگوں نے فضل کو اُس کے ساتھ ہی دیکھا ہے۔وہ منٹو کی موجودگی میں بھی گالیاں دے دیتا ہے۔منٹو اُس کی گالیوں پر مسکراتا رہتا ہے۔ان دونوں کے درمیان کوئی خاص تعلق ہے جسے اُن کی آنکھوں سے محسوس کیا جا سکتا ہے، جب وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں۔اِس تعلق کے بارے میں لوگوں کی مختلف رائے ہے۔کچھ کے خیال میں یہ دونوں باپ،بیٹا ہیں،کچھ کے خیال میں فضل منٹو کا استاد ہے اورکچھ کے خیال میں فضل ہی دراصل منٹو ہے۔منٹو ایک روح ہے جو آتا جاتا رہتا ہے اور فضل ایک جسم ، جو ہروقت موجود رہتا ہے۔اِس خیا ل کو اِس بات سے تقویت ملی کہ ایک بار ایک شخص نے فضل سے پوچھا۔
’’منٹو کہاں ہے؟‘‘
فضل نے ضروری گالیوں کے بعد سینہ تان کر کہا۔
’’نظر نہیں آرہا؟‘‘

مجھے اِس دکان پر بیٹھے ہوئے دو دن ہو چکے ہیں لیکن منٹو نہیں آیا۔یہاں وقت گزارنے کے لئے بیاض سے بہتر کچھ بھی نہیں تھا۔طویل انتظار سے تنگ آ کر جب میں نے بیاض کو ہاتھ لگایا تو مجھے یقین تھا کہ فضل مجھے ایسا کرنے سے روک دے گا۔لیکن فضل نے صرف گالیاں دینے پر ہی اکتفا کیا،جن کا میں پہلے ہی عادی ہو چکا ہوں۔ممکن ہے وہ مجھے بیاض اٹھانے سے بھی روک دیتا اگرمیں گالیوں سے گھبرائے بغیر اُس کی طرف ایک مسکراہٹ بھری نظر نہ ڈالتا۔گالیاں کچھ دیر میں رُک گئیں لیکن بیاض بہت دیر سے میرے ساتھ ہے۔
اِس دوران میں نے اِس بیاض کو دو مرتبہ پڑھ لیا ہے۔ہر نئی خواندگی پر مجھے کچھ نئی چیزیں سمجھ آنے لگی ہیں اور میری دلچسپی کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جا رہی ہے۔
میرے یہاں بہت دیر تک بیاض میں غرق بیٹھے رہنے کی وجہ سے کچھ لوگ مجھے ہی منٹو سمجھنے لگے ہیں۔کل شام نواح سے کچھ نئے لوگ آئے اوربہت دیر تک مجھے منٹو سمجھ کرخاموش بیٹھے رہے۔آخر ہمت کرکے انہوں نے پوچھا تو میں نے بتایا کہ منٹو ابھی موجود نہیں ہے۔اُن کے جانے کے بعد فضل نے میری طرف دیکھا اور عجیب سے لہجے میں پوچھا۔
’’تو بنے گا منٹو؟‘‘
میں اِس بات کا کوئی جواب نہیں دے سکا۔

منٹو کی طویل غیر حاضری نے میر ی پریشانی میں اضافہ کر دیا ہے۔اب اپنے گلدان سے زیادہ مجھے اِس بات کی فکر لاحق ہے کہ اگر منٹو نہ آیا تو کیا ہوگا۔بدبو کو تو عطرفروش عطر چھڑک کر کم کر ہی لیں گے، لیکن غیر ضروری خوشبوؤں کو کون کم کرے گا۔
ایک بار جب مجھے اپنے کمرے تک جانے کی ضرورت محسوس ہوئی،میں اس گلدان کو بھی واپس رکھ آیا جسے دو دن سے اپنے ساتھ دکان پر رکھے بیٹھا تھا اور واپسی پر ایک بار پھر ہر اُس جگہ گیا جہاں منٹو کے پائے جانے کا ذرا بھی امکان تھا۔لیکن مجھے ہر جگہ سے ایک بار پھر یہ کہ کر لوٹا دیا گیاکہ’’ابھی نہیں آیا‘‘ یا ’’بس ابھی نکلا ہے‘‘۔ میں مایوس ہوکر پھر دکان پر آ بیٹھا ہوں۔
مجھے خیال آیا کہ کہیں وہ قصبہ چھوڑ کر چلا تو نہیں گیا۔آخر میں نے فضل کو مخاطب کرنے کا خطرہ مول لے لیا۔
’’میں سارا قصبہ چھان آیا ہوں، وہ مجھے کہیں نہیں ملا۔‘‘
فضل چند لمحے میری آنکھوں میں جھانکتا رہا،پھر اچانک ہنسا اور پہلی بار گالیاں دیے بغیر ہکلاتے ہوئے بولا۔
’’وہ.....؟ کوفتے کھا رہا ہے..........کوفتے۔‘‘
مجھے کچھ اطمینان ہوا۔کچھ دیر بعد فضل اچانک بولا۔
’’وہ جادوگر نہیں ہے....!‘‘
میں نے سوالیہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھا۔
’’وہ حکیم ہے.....حکیم۔علاج کرتا ہے........آنکھ کا....ناک کا......زبان کا.......دل دماغ کا....‘‘
میں اُس کی باتیں سمجھ سکتا تھا لیکن زبان پر مجھے حیرت ہوئی۔مجھے لگا کہ منٹو چیزوں کے ذائقے بھی بدل سکتا ہے لیکن یہ ہنر وہ منظرِعام پر نہیں لایا،یا پھر اپنے ابتدائی دنوں میں یہ شعبدہ دکھا چکا ہے جو مقبول نہیں ہو سکا۔فضل سے مزید کچھ پوچھنا بیکار تھا۔
کچھ دیر میں ایک برقع پوش عورت کھانا لے کر آئی اور فضل کے سامنے رکھ دیا۔میں اندازہ لگا سکتا تھا کہ یہ کھانا کِس چوبارے سے آیا ہے۔ فضل نے اُسے قہر آلود نظروں سے گھورا اور گالیوں کی بوچھاڑ کر دی۔عورت خاموش کھڑی اُس کی گالیاں سنتی رہی۔فضل گالیاں دے کر تھک گیا تو بولا۔
’’اتنی دیر کر دی تو نے......اتنی دیر.........جا........دفع ہو جا....‘‘
عورت نے جھک کر ہاتھ کے اشارے سے اُسے سلام کیا اور چلی گئی۔
فضل نے کھانے کا ڈبہ کھولا۔شوربے میں کوفتے تیر رہے تھے۔فضل نے شوربے میں انگلیاں ڈبو کر ایک کوفتہ اِس طرح نکالا جیسے برسوں کا بھوکا ہو، اور کھانے لگا۔پھر میری طرف دیکھ کر بولا۔
’’کھائے گا...؟‘‘
میں نے انکار میں سر ہلا دیا۔پچھلے دو دنوں میں میں اُس کے لئے مختلف گھروں سے کھانا آتا ہوا دیکھ رہا تھا،لیکن وہ کھاتا کب تھا، اِس پر میں نے توجہ نہیں دی۔میں اُسے پہلی مرتبہ کھاتا ہوا دیکھ رہا تھا۔
فضل نے دوسرا کوفتہ نکالا اور ہنستے ہوئے بولا۔
’’ذائقہ دیکھ اِس کا.....‘‘
تیسرا کوفتہ کھاتے ہوئے فضل اچانک رُک گیا،میری آنکھوں میں جھانکا اور ہکلاتے ہوئے بولا۔
’’یہ کوفتہ....میں ایک دن باہر رکھ دوں نا...........اِس میں بو آ جائے گی.....‘‘
کچھ دیر مجھے گھورتا رہا ،پھر بولا۔
’’تو مرے گا نا........تیرے اندر بھی بو آ جائے گی..........کچھ نہ کرو .........بو آپ ہی آجاتی ہے.........ہر شے میں.....سارے جگ میں.......‘‘
کچھ دیر رکا ،پھر ایک جوش کے ساتھ ہکلائے بغیر بولا۔
’’کہاں سے آتی ہے بو، کہاں سے آتی ہے؟‘‘
کچھ دیر سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھتا رہا، پھرسینے پر ہاتھ مار کر بولا۔
’’اندر سے....‘‘
اُس نے تیسرا کوفتہ منہ میں رکھا، نِگلا اور چوتھا کوفتہ اٹھاتے ہوئے، میری طرف دیکھے بغیر مجھ سے مخاطب ہو کر بولا۔
’’کوفتے کھایا کر......کوفتے.....‘‘
***

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *