پیر، 16 جنوری، 2017

ہندوستان میں اسلام کی اشاعت کے اسباب/ہربنس مکھیا

تاریخ داں اپنے وقت کے حالات بھی لکھتا ہے اور گزرے ہوئے وقت میں لکھی ہوئی تواریخ کا جائزہ بھی لیتا ہے۔ وہ لوگ جو صرف باتیں بناتے ہیں، جن کے پاس اپنی بات کے ثبوت میں صرف جذباتی فقرے اور دوسری قوموں کے لیے گالم گلوچ ہوا کرتی ہے، ان کی بات سننا اور اسے سچ مان لینا، بعض اوقات گمراہ کرتا ہے اور وہ بھی بے حد گمراہ۔ہمیں علم و دانائی کے راستے پر چلتے ہوئے سچ کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور نصابی کتابوں اور سنی سنائی باتوں سے آگے بڑھ کر ان باتوں تک پہنچنا چاہیے جو اصل تاریخ ہیں، نہ کہ تاریخ کا بہروپ۔میں نے عرفان حبیب کو پڑھ کر اس بات کا اندازہ لگایا تھا کہ تاریخ اگر غیر جانب دار مورخ کے ذریعے پڑھی جائے تو بہت سی باتیں آئینے کی طرح صاف ہوتی جاتی ہیں، ہمیں جن باتوں پر بہکایا، اکسایا یا پھر ڈرایا دھمکایا جاتا ہے، وہ سب کس قدر بوگس اور جھوٹی ہوسکتی ہیں، اس کا اندازہ ہربنس مکھیا کے اس چھوٹے سے خطبہ کو پڑھ کر لگایا جاسکتا ہے، جو کہ انہوں نے مارچ 2010 میں رام پور رضا لائبریری میں دیا تھا۔ ہربنس مکھیا نے ہندوستان پرمسلمان حکمرانوں کے اقتدار کو 'اسلامی حکومت' کے نام سے منسوب کرنے سے انکار کیا ہے، اسی طرح انہوں نے مسلمانوں کو اس 'شاندار ماضی' کے عذاب سے چھٹکارا دلانے کا ایک راستہ دکھایا ہے، جس کی بیماری ان پر حریص اور ناعاقبت اندیش مولویوں نے کالے جادو کی طرح پھونکی اور طاری کردی ہے۔یہ مضمون 'اردو ادب' کے اپریل تا جون 2011 کے شمارے میں شائع ہوا ہے، جو یہاں اطہر فاروقی، جنرل سکریٹری انجمن ترقی اردو ہند کے شکریے کے ساتھ اپلوڈ کیا جارہا ہے۔(تصنیف حیدر)

ڈاکٹر سیّد شاہد مہدی صاحب، پروفیسر شاہ عبدالسلام صاحب، ڈاکٹر ابوسعد اصلاحی صاحب اور خواتین و حضرات! رضا لائبریری سے کسی قسم کا تعلق ہونا اپنے آپ میں بڑے اعزاز کی بات ہے، اس لیے میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے اس موقعے پر مجھے یاد فرمایا۔ لگ بھگ 37 سال پہلے کی بات ہے جب میں اس لائبریری میں اپنے دوستوں کے ساتھ ایک طالبِ علم کی حیثیت سے آیا تھا۔ آج میں ایک مقرر کے طور پر آپ کے سامنے حاضر ہوں۔ اس عزت افزائی کا شکریہ میں کس طرح ادا کروں، میرے پاس الفاظ نہیں۔
اپنی آج کی گفتگو میں اپنے جو معروضات میں آپ کے سامنے پیش کرنے والا ہوں وہ کسی قسم کی قطعیت کے حامل نہیں بلکہ سراسر میری انفرادی فکر پر مبنی ہیں اس لیے ان میں کوئی ایسی بات نہیں جس پر بحث نہ ہوسکے۔ اس گفتگو کا مقصد تو یہ ہے کہ میں حقائق کی روشنی میں چند خیالات آپ کے سامنے پیش کردوں۔ آج کی گفتگو کے ذیل میں ایک حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد برصغیر ہندوستان میں ہے۔ اگر ہم ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کو ملاکر بات کریں تو مسلمانوں کی آبادی کا یہ سب سے بڑا علاقہ ہے۔ انڈونیشیا میں سب سے زیادہ مسلمان بتائے جاتے ہیں اس کے بعد کچھ سالوں تک ہندوستان دوسرے نمبر پر تھا، جہاں سب سے زیادہ مسلمان ہیں لیکن اِدھر چند سالوں سے پاکستان میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہوگئی۔ میں تو دراصل اُس ہندوستان کی بات کررہا ہوں، جس کی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ اس طرح ہم دیکھیں تو سب سے زیادہ مسلمان برصغیر ہندوستان میں ہیں۔ یہ گویا اہم حقیقت ہے۔ ظاہر ہے اس سے کئی سوال پیدا ہوں گے یعنی یہ کہ کیسے؟، کب؟ اور کیوں کر؟ اس علاقے میں مسلمانوں کی آبادی یہاں تک پہنچ گئی جہاں وہ آج ہے۔ آخر وہ کیا اسباب تھے؟ یہ ایک بڑا سوال ہے جس کو سمجھنا، جس کے روبرو ہونا ہمارے لیے لازمی بھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی۔
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اس موضوع پر ابھی تک کوئی ایک کتاب نہیں لکھی گئی ہے کہ برصغیر ہندوستان میں مسلمان کب؟ کیوں آکر آباد ہوئے؟ اس کے بھی کچھ اسباب ہیں جن پر میں ابھی تھوڑی دیر میں گفتگو کروں گا۔ لیکن ابھی فی الحال ہمیں اس بات پر غور کرنا ہے کہ اس موضوع پر آخر ایک بھی کتاب کیوں نہیں ہے؟ بہرحال کچھ کتابیں ہیں جن میں ہندوستان کے مخصوص علاقوں میں اسلام کی وسعت پر غور کیا گیا ہے۔ رچرڈ ایٹن نے اپنی کتاب ’بنگال میں اسلام کی کس طرح وسعت ہوئی‘ میں اس پر بہت اچھی تحقیق کی ہے۔ کشمیر کے اوپر دو کتابیں ہیں، ایک محمد اسحاق خاں صاحب کی کتاب ہے جو شاید ۹۳۔۱۹۹۲ء میں شائع ہوئی تھی، ایک کشمیر یونیورسٹی کے پروفیسر اشرف وانی کی کتاب ہے۔ دوسری کتاب ہے جس پر لوگوں کا اختلاف ہے کہ یہ اسحاق صاحب کی کتاب سے ملتی جلتی ہے یا پھر ایک مضمون ہے عنایت زیدی اور ان کی بیگم سنیتا زیدی کا جو انھوں نے راجستھان پر لکھا ہے۔ ’’راجستھان میں اسلام کی وسعت کیسے ہوئی‘ یہ ایک مضمون ہے، کتاب نہیں۔ حال ہی میں رچرڈ ایٹن کا ایک دوسرا مضمون شائع ہوا ہے کہ پنجاب اور بنگال میں اسلام کی وسعت کیسے ہوئی؟ اس موضوع پر صرف مضامین لکھے گئے ہیں اور کچھ علاقوں میں اس پر تحقیق کی گئی ہے جیسے کشمیر اور بنگال، اور تھوڑا بہت راجستھان اور پنجاب میں۔ لیکن پورے ہندوستان یا برصغیر میں کیسے اسلام کی وسعت ہوئی اس پر ایک بھی کتاب نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ مورخین کو یہ مسئلہ سوجھا یا دکھائی نہیں دیا، اس کی وجہ کچھ اور ہے جس کا میں تھوڑی دیر میں ذکر کروں گا۔ جیساکہ میں نے کہا کہ اس موضوع پر خاص طور پر کوئی کتاب نہیں لکھی گئی لیکن اس سے متعلق کچھ عمومی قسم کی آرا فضا میں ضرور گشت کرتی رہی ہیں۔
سب سے پہلے ہمیں اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ اسلام مذہب کی حیثیت سے ایک ایسا فکری نظام ہے جو ہمیں کئی سمتوں میں سوچنے کی دعوت دیتا ہے، ایک تو یہی کہ قرآن شریف میں اشارہ ہے کہ ’تمھارا مذہب تمھارے لیے میرا مذہب میرے لیے‘ قرآن شریف کی یہ آیت بالکل آزادی دیتی ہے کہ تم اپنا مذہب سنبھالو ہم اپنا مذہب سنبھالیں۔ ہم اس سے واقف ہیں۔ دوسری طرف کفر کے ساتھ عداوت کا بھی ایک جذبہ ہے، ایک زاویہ ہے جو کہ بہت مضبوط ہے۔ اسی اسلام میں یہ بھی جذبہ ہے اور صرف اسلام ہی میں نہیں بلکہ عیسائیت میں بھی ہے کہ چوں کہ حضرت عیسیٰ، عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق خدا کے بیٹے تھے، اس لیے اصل سچائی آخری سچائی ان کے ذریعے سے واضح ہوئی انسانیت کی وہ سچائی جو سبھی کے لیے آخری سچائی ہے باقی سب جھوٹ ہے۔ اس لیے ضروری تھا کہ یہ سچائی تمام جھوٹ کا قلع قمع کرے۔ اسی جھوٹ کو عربی میں کفر کہتے ہیں اس لیے اسلام پر بھی اس جھوٹ کا صفایا کرنا لازمی قرار پایا۔ عیسائیوں کا یہ نظریہ ہے کہ قیامت سے پہلے پوری کائنات میں عیسائیت پھیل جائے گی۔ ہر شخص عیسائی ہوجائے گا کیوں کہ عیسائی مذہب کے ماننے والوں کا نظریہ ہے کہ عیسیٰ خدا کے بیٹے ہیں۔ اہلِ اسلام حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا تو نہیں مانتے لیکن چوں کہ آنحضرت ﷺ خاتم الانبیا ہیں اس عقیدے کے مطابق تو آخری سچ اسلام ہی میں نازل ہوا ہے۔ چناں چہ اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ کفر کو ختم کرکے قیامت سے پہلے ساری کائنات میں اسلام پھیل جائے گا۔ ہر شخص مسلمان ہوجائے گا۔ یہ بھی ایک زاویہ ہے۔
اسلام صرف ایک نظریہ ہی نہیں، ایک رویّہ ہی نہیں بلکہ یہ کئی طرف اشارہ کرتا ہے جیساکہ میں نے کہا کہ اسلام کا ایک طرف یہ بھی اشارہ ہے کہ ’آپ کا مذہب آپ کے لیے اور میرا مذہب میرے لیے‘۔ دوسری طرف یہ بھی ہے کہ اسلام کی وسعت ایک طرح سے اس کے مرکز میں ہے، اس کی فطرت میں ہے جیساکہ عیسائیت میں ہے۔ میں ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں، یہ جذبہ صرف مذہبی رویّہ نہیں ہے جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے، مثلاً مارکسزم جو کہ غیرمذہبی رویہ ہے۔ مارکسزم میں بھی مرکزی بات یہی ہے کہ آخر میں ساری دنیا میں سوشلزم پھیل جائے گا کیوں کہ ان کے پاس بھی آخری سچ Class Sturggle کا ہے، یہ بھی ایک طرح کا زاویہ اور رویہ ہے کہ آخر میں مارکسزم ساری دنیا میں پھیل جائے گا۔ تو اگر یہ بات آپ مان کر چلتے ہیں کہ آخری سچ کا الہام آپ کو ودیعت ہوا ہے یا اس کا علم آپ کے پاس ہے تو وہ آخری سچ پھر ضرور پھیلے گا۔ اس کی وسعت ہوگی اور سچ کے اپنے اپنے نظریے اور عقیدے کے مطابق سچ مارکسزم میں بھی ہے۔ یہ ایک عام نظریہ ہے جس کی منطقی توجیہ یہ ہے کہ آپ اپنے اختیار کو کام میں لاتے ہوئے اس آخری سچ کی بقا کی، جس کی کہ آپ کے پاس Monopoly کوشش کریں تو اس میں کئی طرح کے نظریے، کئی طرح کے زاویے ہیں مثلاً ایک تو یہی کہ ’تمھارا مذہب تمھارے لیے اور میرا مذہب میرے لیے‘ اور دوسرا کفر کے خلاف جہاد لازم قرار دینا۔ یہ وہ جذبہ ہے جو مورخ ضیاء الدین برنی نے بیان کیا ہے۔
دوسری طرف شاعروں کا جذبہ ہے۔ شاعر کافر کا لفظ استعمال تب کرتے ہیں جب انھیں اپنے معشوق پر بے حد پیار آتا ہے تو اس کو کافر کہتے ہیں،بڑے بڑے شاعر، سب سے اعلا درجے کے شاعر، میرؔ اور غالبؔ جیسے شاعر۔ میرؔ :
دیکھی ہے جب سے اس بت کافر کی شکل میرؔ
جاتا نہیں ہے جی مرا اسلام کی طرف
یا غالبؔ :
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
کتنا خوب صورت شعر ہے۔ تو کافر وہ جس پر بہت پیار آئے جس کے لیے عداوت کا نہیں، پیار کا جذبہ پیدا ہو۔ تو یہ صرف ایک ہی زاویہ نہیں ہے، اس میں کئی طرح کے، مختلف قسم کے، ایک دوسرے کے مخالف بھی زاویے ہیں جو کہ کفر اور کافر دونوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
اگر ہم یہ مان کر چلتے ہیں کہ اسلام کی رو سے تبدیلیِ مذہب ایک طرح سے فرض بن جاتی ہے کیوں کہ آخری سچ اسلام میں نازل ہوا ہے، آخری سچ کا اسلام میں الہام ہوا ہے تو ہمارے سامنے ایک سوال یہ کھڑا ہوجاتا ہے کہ پھر کیسے اسلام کا پرچار ہوا؟ اس کی وسعت کیسے ہوئی؟ ایک عام رائے تو یہ ہے جس کا میں نے ذکر ابھی ابھی کیا ہے کہ جس کو بہت محنت سے پھیلایا جاتا ہے۔ خاص طور سے ہمارے سنگھ پریوار کے بھائی اس کو بہت محنت سے پھیلاتے ہیں، اس عام رائے کو کہ دو options ہیں یا اسلام قبول کیجیے یا قتل۔ اِمّا القتل و امّا الاسلام۔ ان کے مطابق عہدِ وسطیٰ کی جو حکومت تھی جو راج تھا وہ مسلمانوں کا راج تھا، ان کے سامنے دو ہی راستے تھے یا تو لوگوں کو مسلمان بنایا جائے یا ان کو قتل کردیا جائے، کیوں کہ اسلام ان پر یہ لازم کرتا ہے۔ اس لیے اسلامی حکومت نے یہ فرض اپنے اوپر قبول کیا اور اس پر عمل کیا۔ چناں چہ اب عام رائے یہ بنائی جارہی ہے کہ جو لوگ بھی ہندوستان میں مسلمان بنے وہ خوف اور دہشت کے سائے میں بنے۔
میں اس پر غور کرنا چاہوں گا کہ کیا واقعی تاریخ میں ایسا ہوا ہے؟ کیا واقعی عہدِ وسطیٰ کے ہندوستان کی اسلامی حکومت نے ایسا کیا؟ اس سلسلے میں کچھ حقائق کا اعادہ ضروری ہے۔ آزادی سے پہلے آخری بار مردم شماری ۱۹۴۱ء میں ہوئی تھی، اس مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں ۷ء۲۴ فیصدی مسلمان تھے یعنی ہندوستان یا پورے برصغیر میں ۲۵ فیصد مسلمان تھے۔ اس میں ایک اور بات کا اضافہ کرلیجیے کہ ۳۰۔۱۸۲۵ء کے آس پاس ایک انگریز بشپ ہیبر ہندوستان میں آئے اور انھوں نے اپنی کتاب میں یہ لکھا کہ ہندوستان میں ہر چھ اشخاص میں سے ایک مسلمان ہے یعنی تقریباً ۱۶ فیصدی مسلمان ہندوستان میں ہیں۔ ہندوستان میں ۳۰۔۱۸۲۵ء کے آس پاس مسلمانوں کی تعداد ۱۶ فیصد تھی اور ۱۹۴۱ء میں ۲۵ فیصدی ہوئی یعنی کہ ایک سو دس (۱۱۰) سالوں میں مسلمانوں کی آبادی میں لگ بھگ ۵۰ فیصدی کا اضافہ ہوا۔ ۱۶ فیصد سے لے کر ۲۵ فیصد تک وہ پہنچے ہیں ان ایک سو دس سالوں میں، جب ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت تھی۔ گویا ایک طرف تو مسلمانوں کی پورے ساڑھے چھ سو، سات سو سال کی حکومت میں صرف ۱۵،۱۶ فیصدی آبادی میں اسلام کی اشاعت ہوئی جب کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت تھی۔ اور اگر ہم بھی یہ مان کر چلتے ہیں اور بقول سنگھ پریوار ہندوستان کی مسلمان حکومت نے اپنے لیے یہ لازم قرار دے لیا تھا کہ وہ لوگوں کو مسلمان بنائے یا انھیں قتل کردے۔ اور دوسری طرف انگریزوں کے نوّے برس کے راج میں بغیر کسی زور زبردستی یہ آبادی بڑھ کر سولہ سے پچیس فیصدی تک پہنچ گئی۔
مجھے یہ ’مسلمان حکومت‘ لفظ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے ایک الجھن سی ہوتی ہے، یہ بہت صحیح اصطلاح نہیں ہے اس کی بہت ساری وجوہ ہیں اس وقت میں ان میں نہیں جانا چاہتا فی الحال یہ مان کر چل رہا ہوں کہ وہ اسلامی حکومت تھی تو پانچ سو چھ سو سالوں میں اسلامی حکومت کا یہ فرض بنتا تھا کہ وہ یا تو سبھی لوگوں کو مسلمان بناتے یا ان کو قتل کردیتے۔ آخر ۱۵،۱۶ فیصدی لوگوں کو مسلمان بنانے میں وہ اگر کامیاب ہوئے تو پھر کیسا فرض انھوں نے نبھایا۔
اس صورتِ حال سے ایک اور حقیقت سامنے آتی ہے جو اس سے بھی زیادہ دل چسپ ہے کہ اس آبادی کے مسئلے کو برصغیر کی تقسیم کو مدنظر رکھ کر غور کریں تو سب سے زیادہ اکثریت میں مسلمان یا تو کشمیر کی گھاٹی میں ہیں جہاں ۹۹۔۹۸ فیصدی مسلمان ہیں، یا کیرالہ کے مالابار علاقے میں جہاں پر وہ اکثریت میں ہیں یا موجودہ پاکستان میں ۹۸ فیصدی ہیں یا موجودہ بنگلہ دیش میں سب سے زیادہ اکثریت میں مسلمان ہیں۔ اگر ہم غور کریں تو یہ بات واضح ہوگی کہ ہندوستان کے برصغیر کے چار کونوں میں شمال، جنوب، مشرق، مغرب ان چار کونوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں او ریہ چار کونے وہ ہیں جہاں پر ہندوستان کی مسلم حکومت سب سے کمزور تھی یا بہت عارضی تھی۔ کیرالہ میں تو مسلم حکومت کبھی پہنچی ہی نہیں۔ اورنگ زیب تک کے زمانے میں کیرالہ اس حکومت سے باہر رہا ہے۔ پنجاب میں حکومت تھی، لیکن پنجاب بھی ہمیشہ سے غیر مستحکم علاقہ رہا ہے، وہاں بغاوتیں ہوتی رہیں، حملے ہوتے رہے۔ مغلوں کے حملے، منگولوں کے حملے ہوتے رہے۔ افغانوں نے مغلیہ حکومت کو بہت پریشان کیا۔ آج وہ پاکستان کو پریشان کررہے ہیں۔ پنجاب بہت غیر مستحکم علاقہ تھا جہاں پر حکومت پوری طرح سے کبھی بھی قائم نہیں ہوپائی تھی۔ اب جو بنگلہ دیش ہے وہاں بھی وہی حالت تھی، وہاں پر مسلمانوں کی Local dynasty تھی۔ وہاں پر بھی دلّی یا آگرہ کی حکومت ہمیشہ سے غیر مستحکم رہی تھی۔ میرے گُرو ڈاکٹر کے. ایم. اشرف بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ میں بنگالیوں کا بہت مداح ہوں کیوں کہ وہ ہمیشہ سے باغی رہے ہیں، وہ دلّی سلطنت اور مغلوں کے خلاف بغاوت کرتے رہے ہیں۔ کشمیر میں اسلام اکبر کے پہنچنے سے بہت پہلے پھیل چکا تھا، اکبر ۱۵۷۳ء میں وہاں پہنچا، اکبر کی حکومت وہاں سولہویں صدی کے آخری ربع میں پہنچی۔ تو مغلیہ سلطنت کا کشمیر میں اسلام کو پھیلانے میں کوئی ہاتھ نہیں ہے۔
کیرالہ میں جیساکہ میں نے کہا کہ کبھی یہ سلطنت وہاں تک پہنچ نہیں سکی تو ہندوستان کے برصغیر کے ان چار کونوں میں جہاں پر مسلمانوں کی تعداد اکثریت میں ہے وہاں پر مسلم حکومت سب سے کمزور رہی تھی۔ کبھی تھی، کبھی نہیں تھی۔ اور اگر تھی بھی تو متنازع تھی یا قطعی نہیں تھی۔ جہاں پر مسلمانوں کی حکومت لگ بھگ پانچ سو سال تک بڑی مضبوط رہی جیسے بہار، یوپی، دہلی، مشرقی پنجاب، وہاں پر بڑے عرصے تک بڑی مضبوطی اور اپنی مرکزیت کے دبدبے کے ساتھ مغلیہ اور دلّی سلطنت کی حکومت تھی، وہاں پر مسلمانوں کی تعداد کبھی ۱۷،۱۸ فیصدی سے زیادہ نہیں رہی ہے۔ مسلمان اقلیت میں رہے ہیں۔ اس حکومت کا جو گڑھ (heart land) تھا جہاں پر اس حکومت کو اپنا فرض ادا کرنا چاہیے تھا اگر ہم فرض مانتے ہیں کہ مسلمان بنائے یا لوگوں کو قتل کرے تو ہندوستان میں وہاں پہ سب سے کم مسلمان بنے ہیں اس لیے ہم اگر یہ Logic لے کر چلیں کہ اسلامی حکومت ایک فرض ادا کررہی تھی لوگوں کو مذہب تبدیل کرنے کا، لوگوں کو مسلمان بنانے کا، تو اس فرض میں یہ حکومت بالکل ناکام تھی اور ان حکومتوں نے اس طرح کوئی خاص کوشش بھی نہیں کی۔
اور اب میں اس کوشش کی طرف آپ کی توجّہ دلانا چاہوں گا کہ اس مغلیہ سلطنت نے کیا کوششیں کی تھیں؟ ہمیشہ یہ واقعات تاریخ میں ملتے ہیں کہ کسی نے بادشاہ کے خلاف بغاوت کی اور پکڑا گیا، بغاوت سے پہلے اس شخص کے بادشاہ سے بہت پرانے مراسم تھے اور انھیں خدمات و مراسم کو مدنظر رکھتے ہوئے بادشاہ نے کہا کہ اچھا تم اسلام قبول کرلو تو تمھاری جان بخش دیں گے، تمھیں معاف کردیں گے۔ کسی نے اس کو قبول کرلیا کسی نے نہیں کیا۔ جس نے قبول نہیں کیا اس کو قتل کردیا گیا۔ اس طرح کے واقعات ہمیں تاریخ میں ملتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات بھی ہمیں تاریخ کی کتابوں میں ملتے ہیں کہ کوئی ہندو شہزادہ اپنے والد محترم کے خلاف بغاوت کررہا ہے کیوں کہ وہ خود راجا بننا چاہتا ہے، اس کے والد اس کو راجا بنانے پر تیار نہیں ہیں اور وہ والد بہت لمبی عمر تک جیے چلا جارہا ہے جیسے کہ آج کل پرنس چارلس کے ساتھ انگلینڈ میں ہورہا ہے، تو ایسے شہزادے بغاوت کردیتے تھے اور کسی مسلم بادشاہ کے پاس پہنچتے تھے کہ اگر آپ میری مدد کریں تو میں مسلمان ہونے کو تیار ہوں کبھی بادشاہ مدد کرتا تھا کبھی نہیں کرتا تھا۔
اس قسم کے طرح طرح کے قصے ہمیں ملتے ہیں۔ کبھی یہ ہوتا تھا جیساکہ اکبر کے زمانے میں ہوا تھا۔ اکبر نے ہیمو کے ساتھ پانی پت میں لڑائی کی تھی، لڑائی میں ہیمو ہار گیا تو اکبر نے ہیمو کو یہ تجویز پیش کی کہ تم مسلمان ہوجاؤ تو میں تمھیں معاف کردوں گا تو ہیمو نے جواب دیا کہ اگر مجھے اس لڑائی میں فتح ہوتی تو شاید میں خدا کا شکر ادا کرنے کے لیے مسلمان ہوجاتا، اپنی جان بچانے کے لیے میں مسلمان ہونے کو تیار نہیں۔ یہ واقعہ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ میں اس لیے مسلمان ہونے کو تیار نہیں۔ پھر اس کو قتل کردیا گیا۔ یا پھر اس طرح کے قصے تاریخ میں اور بھی ملتے ہیں کہ کسی کو کسی خاتون سے محبت ہوگئی وہ مسلمان تھی تو اس لیے وہ مسلمان ہوگیا یا مسلمان بننے کی اجازت مانگی، کچھ کو اجازت مل گئی، کچھ کو نہیں ملی۔ یا یہ قصہ یا واقعہ بتاتے ہیں کہ کوئی ایک عیسائی تھے اس کو خبر یہ ملی کہ کوئی بادشاہ یا فلاں بادشاہ مسلمان بن جانے پر اتنی رقم ادا کرتا ہے تو اس کے لیے وہ مسلمان بن گئے، ایک بھائی صاحب تو عیسائی Traveller تھے وہ پیسے لے کر ایک بار مسلمان بن چکے تھے اور پھر وہ دوبارہ بادشاہ کے پاس پہنچ گئے اور اس نے بادشاہ کو کہا کہ مسلمان بننا چاہتا ہوں اور مجھے پیسے دیجیے۔ خیر ان کو پیسے نہیں ملے۔
تو انفرادی طور پر طرح طرح کے اسباب ہیں جن کی وجہ سے لوگ مسلمان بنے۔ کوئی بنا تو اس کو چھوڑ دیا، کچھ بنے تو برقرار ہیں۔ مورخ عبدالقادر بدایونی کو اکبر نے حکم دیا تھا کہ مہابھارت اور رامائن کا فارسی میں ترجمہ کریں تو اس کا ترجمہ کرتے کرتے ان کو برہمن کی مدد کی ضرورت ہوئی، اس کا تقرر ہوا تو برہمن سنسکرت سے پڑھ کر اس کے معنی بتاتا تھا، بتاتے بتاتے بحث ہونے لگی تو بدایونی نے اس کو بتایا کہ اسلام میں کتنی خوبیاں ہیں، خوبیاں بیان کیں، وہ خوبیاں سن کر وہ برہمن مسلمان ہوگیا۔ تو اس طرح کے بہت سارے قصے ہیں۔ کوئی اِس وجہ سے مسلمان بنا، کوئی اُس وجہ سے مسلمان بنا، کوئی نہیں بنا۔ اس طرح کے بہت سارے قصے تاریخ میں آتے ہیں۔ لیکن ایک تو یہ بات کہ افراد کی بات کو بہت زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ ایس. آر. شرما جو کہ ۴۰۔۱۹۳۰ء کے ہندوستان کے بہت اچھے مورخ تھے، انھوں نے ایک کتاب لکھی جو ہم سب نے پڑھی ہوگی ''Religious Policy of the Mughal Emperors"، اس میں انھوں نے تقریباً ۱۵۰ یا دو سو لوگوں کو گِنا ہے جو پورے مغلیہ سلطنت میں مسلمان بنے، ڈیڑھ ۔دوسو لوگ۔ یہ تعداد شرما صاحب نے گِن کر بتائی ہے۔ تو بتائیے کہ ۱۵۰ لوگوں کی کیا اہمیت ہے جب کہ لاکھوں کروڑوں لوگوں کی اس ہندوستان میں تعداد تھی۔ تو سرکار نے حکومت میں صرف ڈیڑھ دو سو لوگوں کی تعداد میں مسلمان بنائے۔
ایک تو یہ بات کہ جو لاکھوں کی تعداد میں کروڑوں کی تعداد میں مسلمان برصغیر ہند میں ہیں جن سے میں نے اپنی گفتگو کی شروعات کی تھی کہ جو مسلمان بنے ان سے کوئی explanation نہیں ملتا ہے۔ یہاں پر کوئی بنا، کوئی نہیں بنا۔ یہ کیسے مسلمان بنے، ہمیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پر رچرڈ ایٹن (Richard Eaton) نے کام کیا ہے اور کشمیر کے Context میں اسحاق خاں اور اشرف وانی نے بھی کام کیا ہے۔ رچرڈ ایٹن بنگال پر اسی قسم کی تحقیق کرچکے ہیں جیساکہ میں نے کہا کہ اُن کا ایک مضمون ہے جس میں اُنھوں نے بنگال اور پنجاب دونوں کا احاطہ کیا ہے اور اس میں اُنھوں نے ایک Grand Explanation دیا ہے کہ بنگال کے جن علاقوں سے انھوں نے اپنا کام شروع کیا تھا اب وہ بنگلہ دیش ہے، ان علاقوں میں دو طرح کے انقلابات آئے، ایک تو وہاں پر کھیتی پھیلی، اس delta کے علاقے میں کھیتی کی وسعت ہوئی اور اِس کاشت کی وسعت مسلمانوں نے کی جو وہاں جاکر بسے۔
دو سطح پر اسلام کا پھیلاؤ ہوا۔ ایک تو عرفان حبیب صاحب نے بہت پہلے ہمیں بیان دیا تھا کہ پنجاب میں جن کو آپ جاٹ کہتے ہیں وہ دراصل ملتان کے lower caste لوگ تھے جو کہ کاشتکاری سے بالکل واقف نہیں تھے لیکن آہستہ آہستہ کاشتکاری سے واقف ہوئے اور پنجاب میں آکر انھوں نے کاشتکاری بھی سیکھی اور کاشتکاری پر عمل کیا۔ اُن میں social upliftment ہوا جو کہ middle class ہے۔ ایک تو وہ ہوا، دوسرا یہ ہوا کہ مسلمانوں نے ان علاقوں میں آکر کاشت کو وسعت دی اور ساتھ ساتھ اسلام کو بھی وسعت دی جس کے ذریعے بڑے پیمانے پر اسلام کی وسعت ہوئی، اس کا تعلق اس بات سے نہیں ہے کہ آپ یا تو مسلمان بنیے یا آپ کو قتل کردیا جائے گا۔ اُس کا تعلق کاشتکاری ecology سے economy سے ہے۔ اس کا تعلق population کے بڑے حصے سے ہے تو یہ وجہ ہے کہ ان علاقوں میں اسلام کا پھیلاؤ ہوا ہے، جنوب میں تو جیساکہ پروفیسر عبدالسلام نے فرمایا کہ وہاں پر عرب تاجر بہت پہلے سے آتے تھے، اسلام کے جنم سے بہت پہلے سے آتے تھے۔ بہت پہلے سے ہندوستانیوں کا عرب تاجروں کے ساتھ تجارتی تعلق تھا۔ تو وہاں تجارت بھی جاری رہی اور اس کے ساتھ اسلام بھی آیا اور ان کے ذریعے اسلام وہاں پر پھیلا۔
کشمیر میں جو main argument ہے، اشرف وانی صاحب اور اسحاق خاں صاحب کا argument یہ ہے کہ کشمیر میں صوفی ہمدانی تھے جنھیں نندرشی کہا جاتا ہے وہاں پر انھوں نے رشی روایت کے ذریعے اسلام کو پھیلایا۔ رشی روایت ہندو روایت نہیں ہے بلکہ اسلامی روایت ہے، وہاں پر جس کو رشی روایت کہا جاتا ہے، جس کا آپ ذکر کررہے تھے اسلام میں ایک peace/ شانتی/ امن کا پیغام ہے جس کو لے کر نندرشی وہاں پر آئے اور کشمیر میں اسلام پھیلا۔ اور یہی وجہ ہے کہ کشمیری اسلام کی فطرت سے دوسرے اسلام سے الگ رہے۔ ہندوستان کے باقی علاقوں کے اسلام سے بھی الگ رہے تو اس لیے الگ الگ علاقوں میں الگ الگ اسباب سے اسلام پھیلا اور الگ الگ اشخاص نے، الگ الگ افراد نے، الگ الگ وجوہ سے، الگ الگ motivation محرکات سے اسلام قبول کیا۔ تو اس کی ایک وجہ نہیں ہے، نہ کوئی ایک ایجنسی ہے جس کے ہاتھوں سے اسلام یہاں پر پھیلا ہے۔
میں اب اس پر غور کرنا چاہوں گا اور جواب دینا چاہوں گا کہ کیوں کوئی کتاب نہیں ہے ہمارے پاس جو ہمیں بتاسکے کہ ہندوستان میں اسلام کیسے پھیلا؟ ایک بھی کتاب نہیں، کیوں نہیں ہے؟ اس لیے نہیں ہے کہ اگر اسلام کسی ایک بادشاہ یا بادشاہوں کے ہاتھوں تلوار کے زور پر پھیلتا تو مورخین ضرور اس کا ذکر کرتے۔ مورخین میں طرح طرح کے مورخین تھے، ان میں ابوالفضل جیسے مورخ تھے جو کہ خود بڑے اچھے مسلمان تھے۔ پانچوں وقت کی نماز کے پابند تھے۔ لیکن وہ مذہب کو حکومت کی بنیاد سمجھنے سے انکار کرتے تھے، مذہب حکومت کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ یہ ان کی ideology تھی، یہ ان کی سوچ تھی وچار تھا۔ یہ ان کا خیال تھا۔
ایک طرف ابوالفض تھے، دوسری طرف ملاّ عبدالقادر بدایونی تھے جو کٹّر مسلمان تھے، بہت ہی کٹّر مسلمان تھے۔ امام تھے، ملاّ ان کا نام ہی تھا، ملاّ عبدالقادر بدایونی۔ انھوں نے ’منتخب التواریخ‘ اسی لیے لکھی تاکہ اسلام کا جھنڈا لہراسکیں۔ ان کا خیال تھا کہ ابوالفضل اپنی کتاب ’اکبرنامہ‘ میں اسلام سے انکار کررہے ہیں۔ اسلام کی حفاظت کرنے کے لیے کٹّر مسلمان ہونے کے ناتے انھوں نے ’منتخب التواریخ‘ لکھی تاکہ اسلام کی حفاظت ہوسکے۔ بیچ میں، میں نے ضیاء الدین برنی کا ذکر کیا ہے اور اس کے بیچ میں بھی تھے نظام الدین احمد بخشی، جو نہ کٹّر مسلمان تھے نہ کٹّر ابوالفضل کے مداح تھے۔ تو اس وقت طرح طرح کے مورخین تھے ان میں ہندو مورخین بھی تھے جیسے سجان رائے بھنڈاری، بھیم سین۔ انھوں نے بھی فارسی تاریخیں لکھی ہیں۔
میں مان سکتا ہوں کہ اگر کسی حاکم نے، کسی سلطان نے یا سلطانوں کے کسی گروہ نے زبردستی لوگوں کو مسلمان بنایا ہوتا تو کچھ مورخین جیسے بدایونی بڑے فخر سے اس کا ذکر کرتے کہ دیکھیے کتنا اچھا حاکم تھا، کتنا اچھا سلطان تھا جس نے لاکھوں کی تعداد میں مسلمان بنائے اور یہاں سے کفر کا نام و نشان مٹا دیا۔ یا پھر ہندو مورخین دکھ کے ساتھ کہتے کہ دیکھیے کیسا ظالم حاکم ہے جس نے ہندوؤں کو مسلمان بنایا۔ کسی نہ کسی طرح سے تاریخ کی کتابوں میں وہ ذکر ضرور آتا۔ لیکن یہ بڑی دل چسپ بات ہے کہ ان تاریخ کی کتابوں میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں ہے کہ اس سلطان نے اتنے مسلمان بنائے۔ اِکّا دُکّا تو چلیے یہ میں نے بتایا تھا آپ کو کہ کسی باغی کو انھوں نے کہا کہ تم مسلمان بن جاؤ یا کسی کو راجا بنوانے کے لیے اس کی مدد کی یا نہیں کی۔ ان سب کا تو ذکر آتا ہے۔ لیکن لاکھوں کی تعداد میں مسلمان بنایا ہو اس کا ذکر کسی بھی تاریخ میں نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ان باتوں کا ادب میں literature میں ذکر نہیں ہے جو کہ ہندی اور اردو ادب ہے۔ اردو تو بعد میں آئی ہندی ادب جو کہ زیادہ تر ہندوؤں نے لکھا ہے، کچھ مسلمان ادیب بھی ہوئے ہیں لیکن زیادہ تر ہندوؤں نے لکھا ہے ان میں کہیں یہ ذکر نہیں ہے کہ فلاں بادشاہ نے لوگوں کو زبردستی مذہب تبدیل کرایا۔ کہیں پر بھی ذکر نہیں ہے۔ ہماری تاریخ کی کتابیں خاموش ہیں اس بات کے ہمارے ماخذ بالکل خاموش ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں مذہب کی تبدیلی کیسے ہوئی؟ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے پاس اتنے ماخذ نہیں، sources نہیں، اتنا تحقیقی مواد نہیں کہ کوئی بھی مورخ اس موضوع پر تحقیق کرکے ہمیں ایک کتاب لکھ کر دے سکے کہ اس طرح سے یہاں پر مسلمان بنے۔
جیساکہ میں نے کہا کہ کشمیر وغیرہ پر تو کتابیں ہیں، لیکن باقی پورے ہندوستان میں اسلام کیسے پھیلا اس پر کوئی کتاب نہیں ہے۔ کتاب نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اعداد و شمار نہیں ہیں اور اعداد و شمار نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کی وسعت آہستہ آہستہ ہوئی ہے۔ مورخین ایک طرح سے رپورٹر ہوتے ہیں جیسے آج کل ٹیلی ویژن اور اخبار کے رپورٹر ہوتے ہیں۔ روزمرہ زندگی میں کیا ہورہا ہے اس میں ان کی دل چسپی نہیں ہوتی اس کو وہ رپورٹ نہیں کرتے۔ وہ رپورٹ اس بات کی کرتے ہیں جو غیر معمولی ہو جو کہ روزمرہ زندگی سے ہٹ کر ہو تو جو کام آہستہ آہستہ بڑے عرصے پر پھیل کر کے ہورہا ہے آہستہ آہستہ لوگ مسلمان بن رہے ہیں اس میں ان کی کوئی خاص دل چسپی نہیں ہوتی۔ ان کی دل چسپی اس بات میں ہوتی ہے کہ اگر کوئی بادشاہ لوگوں کو تلوار کے زور پر مسلمان بناتا یا انھیں لالچ دے کر کہتا کہ میں تمھیں یہ دے دوں گا، وہ دے دوں گا وغیرہ وغیرہ۔ ہم روزمرہ زندگی میں صبح اٹھ کر ناشتہ کرتے ہیں اور دوپہر کو کھانا کھاتے ہیں اور رات کو لوگ سوجاتے ہیں اس پر کوئی رپورٹنگ نہیں ہوتی ہے۔ یہ باتیں روزمرہ زندگی میں آہستہ آہستہ imperceptible طریقے سے ہوتی ہیں اس پر کوئی دل چسپی نہ اخبار کے رپورٹر کو ہوگی اور نہ ہمارے مورخین کو ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے مورخین نے اس بات کو درج نہیں کیا کہ یہ مذہب کی تبدیلی imperceptible طریقے سے ہورہی تھی۔ کسی ایک ایجنسی کے تحت نہیں، کسی ایک وجہ کے تحت نہیں کسی منظم پروگرام کے تحت نہیں بلکہ بہت سے اسباب کے تحت، بہت ساری ایجنسیوں کے تحت اور بہت لمبے عرصے تک پھیلنے کے بعد یہ مذہب کی تبدیلی ہوئی تھی اس لیے اس کے اعداد و شمار ہمارے پاں نہیں ہیں اس لیے ہم مجبور ہیں کہ کوئی مورخ اس پر ایک کتاب نہ لکھ سکا۔
یہاں پر میں یہ بھی کہہ دوں کہ غیر اسلامی مذہبوں سے صرف اسلام کی طرف مذہب کی تبدیلی نہیں ہوئی لیکن ہاں ایسا زیادہ تر ہوا لیکن دوسری طرف مسلمانوں کا بھی مذہب تبدیل ہوا ہے کئی جگہ پر ہوا ہے، کچھ انفرادی طور پر، کچھ اجتماعی شکل میں ہوا ہے۔ بنگال میں چیتنیہ مہاپربھو جو مہاتما تھے، سنت تھے انھوں نے پٹھانوں کو وشنو ہندو بنایا ہے۔ بنگال میں وہ اب تک ’پٹھان وشنو‘ کہے جاتے ہیں۔ ان کا نام ہی ہے ’پٹھان وشنو‘۔ حالاں کہ یہ بہت زیادہ تعداد میں نہیں ہیں لیکن بنے ہیں۔ کچھ افراد کے قصے آتے ہیں جنھوں نے کہ اسلام چھوڑکر ہندو مذہب قبول کیا ہے۔ اس کے علاوہ مندروں کو توڑنے کا بھی ذکر آتا ہے کہ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ مندروں کو توڑ کرکے لوگوں کو مذہب کی طرف لایا گیا۔ ان کو مذہب کی دعوت دی گئی۔ ان کو مائل کیا گیا یہ بھی ایک دل چسپ بات ہے کہ تقریباً بیس پچیس سال پہلے ایک تفصیل اخبار میں آئی تھی کہ عہدِ وسطیٰ میں تین سو مندروں کو توڑا گیا تھا۔ پھر ایک آدھ سال چھ مہینے میں تین سو سے تین ہزار ہوگئے، ایک اور زیرو لگادیا گیا۔ پھر دو سال گزرے تو پھر تیس ہزار ہوگئے، ایک اور صفر لگ گیا۔ تیس ہزار مندر توڑ دیے، پھر وہ زیرو لگاتے لگاتے تھک گئے تو انھوں نے تیس ہزار کو ساٹھ ہزار کردیا۔ تیس ہزار کو دو سے ضرب کرکے ساٹھ ہزار ہندر۔ آخری جو آنکڑا ہمیں دیا گیا کہ عہدِ وسطیٰ میں ساٹھ ہزار مندر توڑے گئے تھے۔ ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ مندر نہیں تھا، یہ مجھے مورخ ہونے کی صورت میں پورا یقین ہے، میرے اس کے جو ثبوت ہیں وہ بالکل واضح ہیں جس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہاں پر مندر تھا۔
انیسویں صدی میں وہاں ایک رام مندر ہونے کا پرچار کیا گیا۔ اس سے پہلے جہاں بابری مسجد تھی وہاں رام مندر کا یا کسی مندر کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ لیکن یہ ایک الگ بات ہے میں اس میں ابھی نہیں جارہا۔ رچرڈ ایٹن جس کا میں باربار ذکر کررہا ہوں جو کہ امریکن مورخ ہیں وہ نہ ہندوؤں کے حامی ہیں اور نہ مسلمانوں کے مخالف۔ فارسی بہت اچھی جانتے ہیں۔ ایران میں فارسی انھوں نے سیکھی ہے۔ وہ صرف حامی ہیں تو تاریخ کے حامی ہیں، تاریخ انھیں جس طرف لے جاتی ہے وہ اُسی طرف چلے جاتے ہیں۔
انھوں نے اس پر تحقیق کی ہے، ان کا بہت مشہور مضمون ''temple desecration in medieaval India" میں انھوں نے ایک ہزار عیسوی سے لے کر ۱۷۶۰ء تک ۷۶۰ سالوں میں توڑے گئے ایک ایک مندر کا ذکر کیا ہے کہ یہ مندر اس سال یہاں پر ٹوٹا، کس نے تُڑوایا یا کسی کے کہنے پر توڑا گیا؟ اور اس کے ماخذ کا بھی انھوں نے ذکر کیا ہے کہ کہاں سے ان کو یہ اطلاع (Information) ملی۔ اس کا انھوں نے گوشوارہ بنایا ہے۔ ۷۶۰ سال میں ۸۰ مندر نظر آئے جو توڑے گئے جن میں بڑے بھی ہیں چھوٹے بھی ہیں، طرح طرح کے ہیں۔ اس میں بابری مسجد نہیں ہے۔ رام مندر نہیں ہے۔ یہ بات صرف ان کی تحقیق کی بنا پر نہیں کہہ رہا، میں نے خود بھی تحقیق کی ہے۔ بہرحال یہ الگ مسئلہ ہے۔ لگ بھگ آٹھ سو سالوں میں ۸۰ مندر توڑے گئے ہیں تو آٹھ سو سالوں میں ۸۰ مندر توڑ کرکے آپ دوسرے لوگوں کو اس بات پر قائل کرلیں گے کہ وہ اپنے مذہب کو تبدیل کردیں، عقل میں یہ باتیں بیٹھتی نہیں ہیں۔
ویسے یہ الگ بات ہے کہ کسی کا مندر توڑکر ان کو آپ مذہب تبدیل کرنے کے لیے مائل کرلیں؟ وہ اپنے آپ میں بحث کا مسئلہ ہے۔ میں نہیں سمجھتا، اس طرح سے کوئی اپنا مذہب تبدیل کرلے گا۔ بہرحال اس کو اگر مان بھی لیا جائے کہ اس طرح سے لوگ مذہب تبدیل کریں گے تو آٹھ سو سالوں میں ۸۰ مندر توڑکر لوگوں کو لاکھوں کی تعداد میں مسلمان بنایا گیا۔ یہ بات سمجھ میں آتی نہیں ہے۔
ایک بات جو ہم سب جانتے ہیں جس کا آپ نے بھی ذکر کیا کہ صوفیوں نے اسلام کی طرف لوگوں کو مائل کیا۔ یہ بات کچھ حد تک صحیح ہے کہ صوفیوں نے اسلام کی طرف اپنے طرزِ عمل سے ان کو مائل کیا۔ اپنی فراخ دلی سے ان کو مائل کیا، یہ بات صحیح ہے۔ ان کے ملفوظات میں اس کا ذکر بھی آتا ہے لیکن اتنے بڑے پیمانے پر صوفیا نے غیر مسلمانوں کو مسلمان بنایا اس کی ہمیں تاریخ میں کوئی شہادت نہیں ملتی۔ صوفیوں کے ملفوظات میں بھی اس کی کوئی شہادت نہیں ملتی، بلکہ ایک دل چسپ حقیقت یہ ہے کہ صوفیا نے زیادہ تر ایک مسلم اکثریت والے علاقے سے دوسرے مسلم اکثریت والے علاقے کی طرف سفر کیا ہے۔ اگر آپ غیر مسلمانوں کو اسلام کی طرف مائل کرنا چاہتے ہوں تو ظاہر ہے جہاں پر مسلمانوں کی تعداد کم ہے وہاں پر جاکر بسیں گے تاکہ آپ ان کو مائل کرسکیں لیکن صوفیا کا جو سفرنامہ ہے اس کا آپ مشاہدہ کریں تو وہ ایک غیر مسلم علاقے سے دوسرے غیر مسلم علاقے میں نہیں جارہے ہیں، وہ ایسے علاقے میں جارہے ہیں جہاں پر کہ مسلم اکثریت میں ہیں۔ تو وہ مسلم علاقوں سے مسلم علاقوں میں جارہے ہیں تو اس لیے یہ کہنا کہ صوفیا مذہب کی تبدیلی کا ایک بہت بڑا ذریعہ تھے، ثابت نہیں ہوتا۔ جو بات میں مورخ کے طور پر کہہ رہا ہوں تبدیلیِ مذہب کے بہت ساری وجوہ ہیں جن کا Table نہیں بنایا جاسکتا۔ ایک، دو، تین، چار؛ اسی طرح سے بہت سارے اسباب ہیں، بہت ساری ایجنسیاں ہیں، بہت ساری وجوہ ہیں اور بہت لمبے عرصے تک imperceptibly؛ یہ طریقہ شروع ہوا جو اسلامی حکومت کے بعد بھی چلتا رہا ہے جہاں سے میں نے اپنی بات شروع کی تھی کہ سب سے زیادہ تعداد میں تقریباً پچاس فیصدی تعداد میں مسلمان ہندوستان میں تب بنے ہیں جب یہاں انگریزوں کی حکومت تھی۔
آخر میں ایک بات اور کہنا چاہوں گا کہ ہندوستانی اسلام کا اپنا مزاج ہے۔ اگرچہ اسلام اور عیسائیت میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں لیکن پھر بھی اسلام کا مزاج عیسائیت سے جداگانہ ہے۔ مشترکہ میں جو باتیں ہیں ان میں نماز پڑھنا، حج پر جانا، روزہ رکھنا مشترک ہیں لیکن جو مرکزی فطرت ہے وہ بالکل الگ ہے۔ اسی ایک بہت دل چسپ فطرت کا نمونہ مجھے ابھی نظر آیا جب ہم نے آج کی یہ تقریب شروع کی تو آپ نے ہمارے ہاتھوں سے دیا جلوایا۔ ہندو مندروں میں دیا اس وقت جلایا جاتا ہے جب کسی تقریب کا افتتاح ہوتا ہے۔ یہ اپنے آپ میں فطرت ہے، ان قدروں کا نمونہ ہے جس میں مخالفت نہیں، عداوت نہیں بلکہ مل کر چلنے کا جذبہ ہے۔
یہ ہندوستانی اسلام کی فطرت ہے اور اسی لیے ہمارے وزیر اعظم نے شاید سال ڈیڑھ سال پہلے، دو سال پہلے ایک بیان میں کہا تھا اور یہ بیان بہت دل چسپ تھا کہ القاعدہ کی تنظیم میں آپ کو ایک بھی ہندوستانی مسلمان نہیں ملے گا۔ یہ انھوں نے publicly بیان دیا تھا جو کہ بڑی صحیح بات ہے۔ فخر کرنے والی بات ہے کہ القاعدہ اور طالبان کا کوئی ہندوستانی مسلمان ممبر نہیں ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں میں ہندوؤں کی طرح تشدد پسند ہیں؟ یہ ایک حقیقت ہے جن سے ہم روبرو ہیں لیکن طالبان کے لیول پر طالبان کے معیار یا القاعدہ کے معیار پر ہندوستانی مسلمان آپ کو نہیں ملے گا۔ اس بیان میں بڑی سچائی ہے اور اسی کا ایک اشارہ یہ بھی ہے اور مجھے بڑا فخر اس بات پر ہوا کہ پچھلے سال شاید ستمبر/ اکتوبر میں چھ ہزار ہندوستانی علما حضرات حیدرآباد میں جمع ہوئے اور انھوں نے دہشت گردی کے خلاف فتویٰ دیا۔ دنیا کے یہ کسی اور اسلامی ملک میں نہیں ہوا صرف ہمارے ہندوستان کے مسلمانوں نے ایسا قدم اٹھایا۔ وہ بھی ایک، دو، چار، چھ لوگوں نے نہیں، چھ ہزار علما نے فتویٰ دیا کہ دہشت گردی اسلام کے خلاف ہے۔ تو یہ ہندوستانی اسلام کا مزاج ہے۔ یہ وہ قدر ہے جو ہندوستان کی دھرتی سے جُڑی ہوئی ہے۔ ہندوستان کی زمین سے پیدا ہوئی ہے، جس نے ہندوستان کے نہ صرف مسلمانوں کو بچاکر رکھا ہوا ہے بلکہ ہندوستانیت کو بچاکر رکھا ہوا ہے، جس پر ہمیں فخر ہونا چاہیے۔ بہت بہت شکریہ!
***

پیر، 9 جنوری، 2017

سلمان حیدر کی نظمیں

سلمان حیدر نے یہ نظمیں میری درخواست پر کچھ عرصہ قبل بھیجی تھیں۔میں اپنی دیگر مصروفیات کی بنا پر انہیں بے حد پسند کرنے کے باوجود اپلوڈ نہیں کرسکا۔سلمان حیدر کی نظمیں بلاشبہ اردو ادب کے نظم ذخیرے میں ایک اہم اضافہ ہیں۔ان کی شاعری کا اپنا طرز ہے اور وہ ہر طور پر دوسروں سے منفرد اور ہمہ وقت بھلائی اور خون میں ڈوبے سیارے کوعقل کے ناخن لینے کی طرف راغب کرنے والے شاعر ہیں۔ایسے میں جب اردو کے بیشتر ادیب اور لکھنے والے ان کے اچانک غائب ہوجانے سے غم و غصہ میں مبتلا ہیں، میں ادبی دنیا پر یہ نظمیں اپلوڈ کررہا ہوں تاکہ جن افراد تک ان کی سچی اور اونچی آواز نہ پہنچی ہو، پہنچ سکے ۔ہم امید کرتے ہیں کہ وہ جہاں بھی ہوں بخیر و عافیت ہوں اور جلد لوٹ آئیں تاکہ ان کے رشتہ داروں، عزیز واقارب کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری اور نثر کے دلدادہ سینکڑوں قارئین کے دلوں کو بھی چین کی سانس میسر آئے۔یہ نظمیں بیک وقت ان کی جرات اور جد و جہد کی نمائندہ بھی ہیں اور انسانیت کے لیے بطور شاعر آواز اٹھانے کے ہنر سے بہرہ مند کرنے والی بھی۔(تصنیف حیدر)

سوال

سڑکوں پہ سناٹا ہے اور
جن عمروں میں
مائیں بیٹوں کے سگریٹ سے سلگے کپڑوں کی جیبوں میں
کوئی مہکتا خط دیکھیں تو
ہنس کر واپس رکھ دیتی تھیں
ان عمروں میں
اب ماووں کو
جسموں میں بارود کی بو اور لاشوں میں سکے کے چھید رلا دیتے ہیں
دل پر زخم اٹھانے والی عمر میں لڑکے
کمرے کی دیوار کے گھاو
بندوقوں کی تصویروں سے ڈھک دینے پر
آمادہ کیسے ہوتے ہیں
فتووں کی دھاریں ذہنوں
آخر کیسے کند کرتی ہیں
جنت میں جو کچھ بھی ہو گا
اس دنیا کو کون جہنم کر دیتا ہے
ماووں کی گودوں سے اٹھ کر
موت کی گود میں سونے والو
کچھ تو بولو۔۔
***

بوسہ

جھیل کنارا
حبس میں ڈوبی بوجھل بھاری شام
تین طرف جنگل کی خوشبو
چوتھی کھونٹ طلسم
سات درا اک شہر کے جس میں صدیوں بوڑھے بھید
پہلے در کا بھید ہوا الہام ابھی اس پل میں
ہاتھوں سے تن ڈھکتی مورت میں آدم کا جایا
تو بھی کچھ تو بول ترا کیا نام
ابھی اس پل میں۔۔۔
***

جنون

فضائیں تھک چکی ہیں
جسم ڈھوتی گاڑیوں کی سسکیاں
اور سائرن کے بین سن سن کے
دور و دیوار کے نتھنے جھلسنے لگ گئےبارودکیبو سے
بدن کے چیتھڑے چن چن کےاب بیزار ہیں گلیاں
وہ ملبہ
آگ کا چاٹا ہوا ملبہ
اکٹھا کرتے کرتے خاک داں تنگ آ چکے ہیں
مگر انسان اکتاتا نہیں ہے۔۔۔
٭٭٭

ابلاغ: بغیر لفظوں کے ایک نظم

ایک بےچہرہ خواب
ایک بے نام خوشبو میں لپٹا ہوا
ایک خوشبو کہ جس نے کوئی رنگ پہنا نہ ہو
ایک خاموش لے
ایک لے میرے کانوں میں رس گھولتی
اپنی عریانیوں میں لپیٹا ہوا ایک سر
ایک سر جس کی بنتر میں آواز کی گانٹھ آئ نہ ہو
جس کے شفاف تن پر کسی لفظ کا کوئی گہنا نہ ہو
لفظ سے ماورا
ایک نغمہ کسی نے جو گایا نہ ہو
جس میں برتے ہوے ایک بھی حرف کا کوئی سایہ نہ ہو
جو کسی سانس میں بھی سمایا نہ ہو
یہ بہت ہو
ہمیں اور کچھ اس سے کہنا نہ ہو....
٭٭٭

خواہش

ماہ و سال سے تھوڑا ہٹ کے
دشت اور در سے دور
ہجر وصال کی زد سے باہر
رات اور دن کے پار
کبھی فرصت سے مل یار

تن کی مٹی جھاڑ دے
من مندر کی کھڑکی کھول
آوازوں کے جنگل میں
کبھی چپ کی بولی بول
میری آنکھ کے درپن میں
دیکھ اپنا روپ سروپ
میرے عشق کے گہنے سے
کبھی اپنا آپ سنوار
کبھی فرصت سے مل یار

کبھی اپنے آپ سے باہر آ
ٹک بیٹھ ہمارے ساتھ
چل دُکھ دریا کے پار چلیں
لا ہاتھ میں دے دے ہاتھ
ہم اپنا ہونا تیاگ کے
تیرے ہونے پر تیار
کبھی فرصت سےمل یار۔۔۔
٭٭٭


سگریٹ

میں کہ اک اور گزرتے ہوے پل کے ہمراہ
اپنی خوشبو میں بسا
آپ ہی آپ سلگتا ہوا کاغذ کا وجود
ہاتھ پھیلا کے کسی راکھ سے اٹتے ہوے برتن میں مسل دیتا ہوں

راکھ کےڈھیر پہ کچھ دیر کو رکتا ہے دھواں
وو سیاہ پوش وجود
مجھ سے کہتا ہے کے تم وقت کا انداز لیے ہو لیکن
(وقت جو روز نجانے کتنے
دھیمے خاموش سلگتے ہوے انسانوں کو
خاک کے بار تلے یونہی مسل دیتا ہے)
وقت کو ہاتھ کے پھیلانے کی حاجت بھی نہیں....
٭٭٭

پورا دن اور آدھا میں
(وحید احمد کے سحر میں لکھی گئی اک نظم)

آنکھ کھلی تو
سلوٹ سلوٹ بستر سے
خود کو چن چن کے
کپڑوں کی گٹھڑی میں باندھا
پیروں کی بیساکھی لی اور باہر نکلے
دفتر کے دروازے پر
اک کاغذ کالا کرنے کے سکے لینے کو دفتر پہنچے
علم کی ردّی آدھی بیچی
آدھی بانٹ کے لوگوں پر احسان دھرا
اور اپنا آپ اٹھا کرنکلے
شام ہوئی تھی
قہوہ خانے میں پہنچے تو
کچھ زیادہ چھوٹے سر والے بحث رہے تھے
آدمی آج ادھورا کیوں ہے
ان پر اپنے پورے سر کا رعب جمایا
چبا چبا کے لفظ تھوکتے رات اتاری
محفل جب برخاست ہوئی تو
اگلے دن کے بارے سوچا
اگالدان کو الٹا پلٹا
لفظ اٹھاۓ
جھاڑ پونچھ کے پھر سے نگلے
ٹھوکر ٹھوکر رستہ چلتے گھر تک آیے
بوتل کھولی
اپنے تن کی باڑ پھلانگی
تیرے نام اک نظم لکھی تو
ہر مصرعے میں اپنی ذات کے ٹکڑے باندھے
تیرے ہجر کی چادر میں ہمیں اپنے ٹکڑے چنتے دیکھتا چاند کبھی کا ڈوب گیا ......
٭٭٭

گوادر چھاؤنی

اگر کہیں ان کے بس میں ہو تو
وطن کی مٹی کےچپے چپے پہ چھاؤنی ہو
اگر کہیں ان کے بس میں ہو تو
بدن کی مٹی کےچپے چپے پہ چھاؤنی ہو
جو لوگ اب تک مسائل ہست و بود ہی سے نمٹ رہے تھے
اب ان میں اک فصل نیست کٹتی ہو اور نابود اگ رہا ہو
اگر کہیں ان کےبس میں ہو تو
زمین سے بارود اگ رہا ہو

اگر کہیں ان کےبس میں ہو تو
ہماری سانسوں کے راستے پے بھی ایک چوکی ہمارے اپنے مفاد میں ہو
یہ ٹینک رستے میں آنے والے مکان مسمار کر کے رکھ دیں
یہ کہنہ سوچیں
مرے وطن کے جوان مسمار کر کے رکھ دیں
یہ لوگ وہ ہیں
کہ چاند تارا مرے وطن کا نشان سنگین میں پرو دیں
اگر کہیں ان کےبس میں ہو تو
یہ نظم سن کر
خیال کو بوٹ سے کچل دیں
زبان سنگین میں پرو دیں
اگر کہیں ان کے بس میں ہو تو ......
٭٭٭

محبت

محبت کیفیت ہے
وصال اور ہجر سے لفظوں کے دامن میں یہ پوری آ نہیں سکتی
میں کہتا ہوں وصال
اور ہونٹ بھی اک دوسرے سے مس نہیں ہوتے
میں کتنا ہجر لکھوں لفظ تو جوڑے ہی جاتے ہیں
جو تجھ میں اور مجھ میں ہے
وہ دوری آ نہیں سکتی۔۔۔
٭٭٭

محبت روایت نہیں ہے

محبت وہ پامال رستہ نہیں ہے
کے آتے ہوئے موڑ کی ہر خبر
کرم خوردہ کتابوں کے بوسیدہ صفحوں کی دھندلی لکیروں میں چھپ چھپ کے عریاں ہوئی ہو
محبت کی تصویر کس نے بنائی
محبت سفر کا سفرنامہ کس نے لکھا ہے
اگر کوئی اک گمشدہ سی صدی میں
ادھر سے گزر بھی گیا تھا
تو اس کو خبر کیا
کوئی بیتا موسم انہی پتھروں کی کسی درز میں کوئی کونپل کھلا کر گیا ہو
محبت کا ہر تجربہ دوسرے سے علیحدہ نا ہوتا
تو یہ جھریوں سی دراڑوں سے لبریز پتھر سے چہرے
ہمیں اپنے پانمال رستوں پہ انگلی پکٹر کر چلاتے
یہ خود ہم سے کہتے کے جاو محبت کرو
مگر جان جاناں
ہمارا تمہارا یہی مسئلہ ہے
بغاوت روایت نہیں ہے۔۔۔
٭٭٭

حویلی

وقت کی ریت کے کچھ آخری ذرے ہیں مری مٹھی میں
تن پہ ہر بیتے ہوئے پل کے لیے اک سلوٹ
ذہن کے گوشوں میں یادوں کی نمی
اور دیواروں پہ دیمک زدہ لمحوں کو لئے
چوکھٹوں میں کئی دھندلے چہرے
صحن ماضی میں کئی گمشدہنسلوں کی وراثت کا امیں
ایستادہ کوئی بوڑھا برگد
فرش پر وقت کے برتے ہوئے پیلے پتے

ہاں مگر ایک دھڑکتا ہوا دل
جو ترے ساتھ کٹے وقت میں زندہ ہے ابھی
جس کی دھڑکن سے مرے جسم کو خوف آتا ہے
بالکل ایسے مری بوسیدہ حویلی جیسے
تیری انگڑائی کے لمحوں میں لرز اٹھتی تھی۔۔۔
٭٭٭

دیوتا

میں جانتا ہوں
تمہیں مری آرزو نہیں ہے
طلب مری آنکھ میں مچل کے ہی اتنی ارزاں ہوئی ہے ورنہ
میں اپنے دامن میں ذات کی کرچیاں سمیٹے
کھنکتی مسکان بھیک لینے
تمہارے رستے میں روز اپنا سوال آنکھوں میں لے کے بیٹھوں
یہ خو مری تو نہیں تھی جاناں

میں جانتا ہوں تم اس قدر دیوتا تو ہو ہی
کہ دل کے حالات جانتے ہو
سوال لب پہ نا آنے پائے
دعا کو حرف قبولیت بھی عطا کرو تم
تم اس قدر بھی خدا نہیں ہو

میں اپنے دامن کا کل اثاثہ ملا کے مٹی میں ہاتھ جوڑوں اور
اور اپنے ہونے کی بھیک مانگوں
میں اس قدر آدمی نہیں ہوں۔۔۔
٭٭٭

لیکن
پہلی بارش جیسا تیرا چہرہ تھا
دل پتھر کی ہر ہر درز میں
کوئی کونپل پھوٹ گئی تھی
اک اک ریخ کا ہاتھ پکڑ کے
تیری یاد کی بیل بدن پر پھیل رہی تھی
اور پھوار پڑی پھر اک دن
تن چنری کی سلوٹ سلوٹ
زہر اور نمو کی کاہی رنگت رچی ہوئی تھی
نخل دار پہ بور آنے کا موسم بھی تھا
دلّی کی گلیوں میں اس دن
میر نام کے سودائی کا ماتم بھی تھا
گھر میں بہار آئ تو غالب
ذات کے کسی بیابان میں تھا
دست صبا نے دستک دی تو
فیض ابھی تک
غم جہاں کے زندان میں تھا .....
٭٭٭

سن باتھ

تمہارے ہاتھ کی خوشبو
مرے الجھے ہوئے بالوں سے لپٹی ہے
تمہارے لمس کا ہر ذائقہ محفوظ ہے اب تک
مری پوروں کے ہونٹوں پر
بدن پر گھاس کے پتوں نے رستہ روک رکھا تھا
پسینے کی لکیروں کا
مری بھیگی ہتھیلی کے تلے
خواہش بدن میں کپکپاتی تھی
تو جیسے جھیل کے ساحل پہ ٹھہری کشتیاں
اٹھکھیلیاں کرتے ہوئے پانی پہ
ہلکورے سے لیتی تھیں
تمہارے جسم پے اگتی سنہری گھاس میں
جب جب ہوائیں سرسراتی تھیں
تو میری ریڑھ کی ہڈی میں سرکنڈے لچکتے تھے
بدن سے دھوپ کا مخمل اٹھا کر
ہوائیں سرمئی بادل کے پیچھے پھینک آتی تھیں
تو ہم سوکھے ہوئے پتوں کی چادر اوڑھ لیتے تھے
وہ اک لمحہ کہ جس میں چار موسم اور دو ہم تھے
وہیں پر ہے
ابد کی جھیل کے ازلی کنارے پر
٭٭٭


پیر، 2 جنوری، 2017

بہشت کے دروازے پر /نورالہدیٰ شاہ

نورالہدیٰ شاہ کا اپنا ایک طریقہ ہے، ظالم اور بے حس معاشرے کو چٹکیاں لینے کا۔یہ طریقہ عام طور پر اردو ادب میں بہت معروف نہیں ہے، کیونکہ اسے نبھانے میں بڑی دقت پیش آتی ہے اور مکالموں کو صحیح طور پر نہ لکھنا، بیانیہ کو ٹھیک طور سے نہ تراشنا کہانی کو بگاڑ بھی سکتا ہے۔ ان کی پچھلی کہانی جو میں نے ریکارڈ کی تھی، اس میں بھی مرکزی کردار ایک نہایت مظلوم شخص تھا اور یہاں بھی ایک مظلوم اور معصوم عورت موجود ہے، بلکہ کچھ عورتیں۔ کسی بھی معاشرے میں عورت کو چاہے کتنے ہی پست درجے پر رکھ دیا جائے، اسے کتنا ہی حقیر، گناہ پر آمادہ کرنے والا پرزہ یا پھر جنس کی پیاس بجھانے کے لیے خریدی گئی پراپرٹی سمجھ کر حاشیے پر ڈال دیا جائے۔لیکن عورت کا وجود، اس کے ساتھ برتے گئے رویے اور اس کی حالت ہی کسی بھی مخصوص سماج کی صحیح آئنہ دار ہوتی ہے۔اب اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ مذاہب کے یہاں اصل میں عورت کا تصور کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم عورت کو مذاہب کے تصورات پر تولنے میں اس قدر سنجیدگی سے کام کیوں لیتے ہیں۔یہ کہانی عورت سے ڈرے ہوئے سماج میں جنم لینے والی شدت پسندی کا وہ المیہ بیان کرتی ہے، جس کا مرکز و محور بالآخر ایک عورت (حور) ہی ہے۔(تصنیف حیدر)

میری اور اس کی ملاقات بہشت کے بند پڑے دروازے پر ہوئی تھی۔
میں اُس سے زرا دیر پہلے، بڑی لمبی اور کٹھن مسافت کے بعد، پیچیدہ در پیچیدہ راستوں سے گزرتی، اپنے لہولہان پُرزوں کا بوجھ اُٹھائے، تھکن سے چوُر بہشت کے بند پڑے دروازے تک پہنچی تھی اور ٹوٹ چکی سانس کے ساتھ دروازے کے سامنے یوں آ گری تھی، جیسے شکار ہو چکا پرندہ!
مجھ سے کچھ ہی دیر بعد وہ بھی لہولہان، ایک ہاتھ میں اپنا کٹا سر پکڑے ہوئے اور دوسرے ہاتھ سے اپنے ٹکڑوں کا ڈھیر گھسیٹتا، ہانپتا ہوا، میرے سامنے بہشت کے بند دروازے پر یوں اُترا تھا، جیسے بہت جلدی میں اندھا دھند دوڑا چلا آ رہا ہو! اپنے اِرد گِرد کا بھی ہوش نہ تھااُسے! بس پہنچتے ہی اُس نے بہشت کے دروازے سے اپنے پُرزے اور تن سے جُدا ہو چکا سر ٹکرانا اور چلّانا شروع کر دیا کہ "دروازہ کھولو ۔۔۔ میں آ گیا ہوں ۔۔۔۔ حوروں کو بتاؤ میں پہنچ چکا ہوں ۔۔۔ فرشتوں سے کہو میں بہشت کے دروازے پر کھڑا ہوں۔۔۔ فرشتو! ۔۔۔۔۔ حورو! ۔۔۔۔ آؤ ۔۔۔۔ مجھے سلام پیش کرو ۔۔۔ میں زیادہ دیر انتظار نہیں کر سکتا۔۔۔ میں بہت تھکا ہوا ہوں۔۔۔ سیدھا قربانی دے کر آ رہا ہوں۔۔۔ ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا ہوں۔۔۔۔دروازہ کھولو ۔۔۔۔دروازہ کھولو ۔۔۔۔۔۔ حورو!۔۔۔۔ دروازہ کھولو ۔۔۔۔فرشتو! ۔۔۔ دروازہ کھولو ۔۔۔۔۔ حورو! ۔۔۔فرشتو ! "
بڑا ہی مالکانہ انداز تھا اُس کا! جیسے یہ طے تھا کہ اس دروازے کو اُس کے لیے کھلنا ہی ہے!
مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان کی حدِ نگاہ سے بھی اونچا، خلا میں کہیں جا کر اوجھل ہوتا ہوا بھاری اور دبیز دروازہ یوں ساکت و جامد کھڑا تھا جیسے ایک سانس جتنی جنبش کی بھی اجازت نہ ہو اُسے! سیاہی مائل قدیم ترین لکڑی پر پڑی خراشیں بتا رہی تھیں کہ میری اور اُس کی طرح کے کئی اِس دروازے سے سر ٹکراتے رہے ہیں! کس پر یہ دروازہ کھلا اور کس پر نہیں، کسی بھی نشاں میں مگر کوئی جواب نہ تھا!
وہ اپنا تن سے جُدا ہو چکا سر بہشت کے بند دروازے سے ٹکراتے ٹکراتے جب نڈہال ہوا تو شاید پہلی بار میری طرف متوجہ ہوا۔ مگر یوں چونکا جیسے میری موجودگی اس کے لیے مقامِ حیرت ہو! اس کی کٹی پھٹی پیشانی پر بل سا پڑ گیا
" تو کون ہے؟"
"میں؟"
میں نے اپنے کٹ چکے پُزوں پر نگاہ ڈالی تو لگا کہ کچھ بھی تو نہیں رہی میں! سوائے گوشت کے لوتھڑوں کے! پر جس احساس کی شدت کے ساتھ میں بارود، دھول اور دھویں سے تڑپ کر اُٹھی تھی اور آہ و بکا کرتی اِس طرف دوڑی چلی آئی تھی، وہی بے اختیار کہہ بیٹھی
" میں ایک ماں ہوں "
اُس نے مجھے سر سے پاؤں تک ایک حقارت بھری نگاہ سے دیکھا
" مگر توُ تو عورت ہے!"
"عورت ہی تو ماں ہوتی ہے" میں نے اُسے یاد دلانا چاہا
"مگر یہاں بہشت کے دروازے پر ایک عورت کا کیا کام! "
بہشت پر اُس کے مالکانہ انداز سے میں گھبرا گئی تھی کہ کہیں وہ اس دروازے سے مجھے ہٹانے کا اختیار نہ رکھتا ہو!
" میں تو بس اس دروازے کے راستے ایک زرا سی فریاد بھیجنے آئی ہوں اپنے ربّ کے حضور"
" فریاد؟ کیسی فریاد؟ بہشت فریاد داخل کرنے کی جگہ نہیں ہے عورت! بہشت تو مومن کے عمل کا صلہ ہے۔۔۔۔جیسے میں اپنا صلہ لینے آیا ہوں"
ساتھ ہی اُس نے اپنے کٹے پھٹے کندھوں کو یوں چوڑا کیا جیسے اپنے سینے پر لگا کوئی تمغہ دکھانا چاہتا ہو مجھے! لمحہ بھر میں ہی اُس نے مجھے کسی ایسے ملزم کا سا کر دیا تھا جو پرائے گھر کے دروازے پر مشکوک حالت میں پکڑا گیا ہو اور اب اپنی صفائی پیش کر رہا ہو!
" نہیں نہیں ۔۔۔۔ میں کوئی صلہ مانگنے نہیں آئی۔۔۔۔
میں تو خودکُش دھماکے میں مارے گئے لوگوں میں سے ایک ہوں۔۔۔۔۔ پیچھے رہ گئے میرے چار چھوٹے چھوٹے سے بچّے دھماکے والی جگہ پر مجھے آوازیں دیتے پھر رہے ہیں اور بکھرے پڑے انسانی اعضاء میں مجھے ڈھونڈ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ ماں ہوں نا۔۔۔ بے بسی کے ساتھ اُن کی بے بسی دیکھ نہیں سکتی۔۔۔ ابھی تو وہ خود سے جینا بھی نہیں سیکھ پائے کہ میں پُرزے پُرزے ہو کر بکھر گئی! بس یہی فریاد اپنے رب تک پہنچانے نکلی ہوں کہ دیکھ میرے ساتھ تیرے اس جہاں میں کیا ہو گیا!"
جواب میں اپنی کٹی گردن کو اونچا کر کے اُس نے ایک مغرور سی مسکراہٹ کے ساتھ مجھے دیکھا اور ایک متکبّر سی ہنسی ہنس دیا
" اس طرح کے دھماکوں میں تو ہوتا ہے اس طرح۔۔۔۔۔ کُفار اسی طرح کی اجتماعی موت مرتے ہیں"
" کُفار!"
مجھ سے اُس کا یہ الزام قبول نہ ہوا۔ تڑپ اُٹھی میں
" نہیں نہیں ۔۔۔۔۔ وہاں بہت سے مسلمان بھی تھے۔۔۔۔میں بھی مسلمان ہوں"
" اچھا! مسلمان ہے توُ! ۔۔۔۔ نماز پڑھتی ہے؟"
"کبھی کبھی۔۔۔ "
ساتھ ہی میں نے شرمندگی سے سر جھکا لیا
"پردہ کرتی ہے؟ "
میری ڈھلکی گردن انکار میں ہلی اور دوبارہ ڈھلک گئی
"نہیں ۔۔۔۔ "
"بازار جاتی رہی ہے نا؟"
"ہاں ۔۔۔۔"
"نا محرم مردوں کے منہ بھی لگتی ہوگی توُ؟ "
"ہاں ۔۔۔۔۔"
میں بہشت کے بند دروازے کی دہلیز پر گڑی جا رہی تھی اور وہ اپنے ٹکڑے جوڑتا جاتا تھا اور میرے گناہوں کی فہرست کھولتا جاتا تھا۔
" عورت ہی مرد کو گمراہ کرتی ہے، یہ جانتی ہے نا توُ!"
" عورت فتنہ ہے، یہ جانتی ہے نا توُ؟"
" عورت دنیا کی گندگی ہے، یہ بھی جانتی ہوگی توُ!"
" پھر بھی کہتی ہے کہ مسلمان ہے توُ! ۔۔۔۔۔ اور وہ جو لوگ دھماکے میں مرے ہیں نا۔۔۔۔۔ وہ بھی تجھ جیسے نام کے مسلمان تھے۔۔۔۔۔ تجھ جیسوں کے لیے بہشت کا دروازہ نہیں کھلے گا۔۔۔۔۔ جا۔۔۔ واپس چلی جا"
اب اس کے ٹکڑے ہم آواز ہو کر بول رہے تھے جیسے بہت سارے آدمی بول رہے ہوں!
' تیرے لیے بہشت کا دروازہ نہیں کھلے گا ۔۔۔۔ تیرے لیے بہشت کا دروازہ نہیں کھلے گا ۔۔۔۔۔۔ جا۔۔۔۔ واپس چلی جا۔۔۔۔۔ جا۔۔۔۔۔۔ واپس چلی جا ۔۔۔۔۔۔"
اک شور سا مچ گیا تھا چاروں اور، جیسے شام ڈھلے کے وقت بہت سے کوّے ہم آواز ہو کر چیخ و پکار مچا رہے ہوں! اس نے ایک حقارت بھری نگاہ مجھ پر ڈالی اور بڑے مغرورانہ انداز میں مسکرایا
" ابھی یہ دروازہ کھلے گا۔۔۔۔ مگر حوریں مجھے لینے آئیں گی، اس لیے۔۔۔۔۔۔ اور تمہیں یہاں سے ہٹانے کے لیے دوزخ کے داروغہ کو بلایا جائے گا"
میرے مضطرب دل میں اُمید کی ایک بجھی بجھی سی چنگاری پھر سے سُلگ اٹھی کہ میں نہ سہی، وہ تو بہشت میں اندر جائے گا ہی ۔۔۔۔ میری فریاد بھی اس کے زریعے وہاں تک پہنچ جائے شاید، جہاں تک پہنچانے کے لیے میں اس لامتناہی سفر میں اُتر پڑی ہوں!
میں نے اپنے پُرزے اس کے پیروں میں بچھا دیے
" تم تو بہشت میں داخل ہو گے ہی ۔۔۔۔ بس میری فریاد بھی ساتھ لیتے جانا۔۔۔ کسی حور یا فرشتے کے حوالے کر دینا، آگے میرے ربّ تک پہنچانے کے لیے"
اس نے فوراً اپنے پیر میرے پرُزوں سے پرے کرتے ہوئے سمیٹ لیے، جیسے برہمن اچھوت سے پرے ہٹتا ہے!
" میں اپنے تمام گناہ معاف کروا چکا ہوں۔۔۔۔۔۔ اب کسی عورت کا زکر بھی اپنے ساتھ بہشت میں نہیں لے جا سکتا"
ایک متکبرانہ نگاہ مجھ پر ڈال کر وہ پلٹا اور اپنا تن سے جُدا سر بہشت کے دروازے سے ٹکراتے ہوئے اب کے اُس کا انداز اُس فاتح کا سا تھا جو مفتوح شہر کے دروازے پر کھڑا ہو!
" حورو! ۔۔۔ سُن رہی ہو! دروازہ کھولو ۔۔۔۔ یہ میں ہوں ۔۔۔۔ تمہارا حقدار ۔۔۔۔ میں نے ثواب جیت لیا ہے۔۔۔آؤ آ کر دیکھو ۔۔۔ میں نے گردن کٹا لی ہے۔۔۔ میرے گناہ دُھل چکے ہیں۔۔۔آؤ ۔۔۔ مجھے بہشت کے اندر لے چلو ۔۔۔۔ حورو ۔۔۔۔ فرشتو ۔۔۔۔۔سُن رہے ہو!۔۔۔"
دروازہ ہُنوز ساکت و جامد، حدِ نگاہ سے بھی اونچا، یوں کھڑا رہا جیسے دم نکلتے سانس جتنی جنبش کی بھی اجازت نہ ہو اُسے! اُس کی آواز بھی اُس سناّٹے تلے بلآخر دب گئی اور اُس کے لہولہان پُرزے، سارے کے سارے دروازے کی چوکھٹ کے باہر نڈہال ہو کر ایک ایک کر کے دوبارہ ڈھیر ہوتے چلے گئے۔ ایک طویل سکوت کے بعد اس کا سر اس کے پُرزوں پر سے زرا سا لُڑھک کر ایک بار پھر میری طرف مُڑا۔
نفرت کے ساتھ تھک چکی آواز میں وہ مجھ پر غرّایا
"بہشت کا یہ دروازہ صرف تیری وجہ سے نہیں کھل رہا گنہگار عورت! صرف تیری وجہ سے۔۔۔۔۔۔ کہا تھا نا تجھے کہ بہشت عورت کے لیے نہیں ہے۔۔۔۔۔ بہشت صرف مجھ جیسے مومن کے لیے ہے جو تجھ جیسے گناہگاروں کا خاتمہ کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ اُٹھ۔۔۔ اُٹھا اپنی فریاد کی گٹھری ۔۔۔۔ واپس اسے پھینک دنیا کے کچرے میں، جہاں سے اُٹھا لائی ہے تو۔۔۔۔یا دوزخ کے دروازے پر جا کر بیٹھ ۔۔۔۔اور وہاں اپنی باری کا انتظار کر۔۔۔۔"
میں نے التجا آمیز نظروں سے اسے دیکھا
" اس گٹھری میں صرف میری فریاد نہیں ہے۔۔۔۔۔ جو لوگ اُس دھماکے میں مارے گئے ہیں نا۔۔۔ اُن کی ماؤں کی فریاد بھی اسی میں بھر لائی ہوں۔۔۔۔۔وہ بدنصیب پیچھے زندہ رہ گئی ہیں، اس لیے آ نہیں سکتی تھیں"
اپنی بات کا یقین دلانے کے لیے میں نے اُس کے سامنے گٹھری کھولنا چاہی مگر اُس نے نفرت سے منہ پھیر لیا
" نہیں نہیں ۔۔۔۔ میرے سامنے اتنی ساری عورتوں کی گٹھری کھولنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔"
میں نے مایوس ہو کر فریاد بھری گٹھری واپس سے لپیٹ لی اور اپنے عورت پنے پر شرمندگی کے ساتھ بہشت کے بند پڑے دروازے سے لوٹ جانے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ میں پلٹ چکی تھی اور وہ میرے عقب میں بہشت کے بند پڑے دروازے پر اب ایک نئے یقین کے ساتھ پھر سے پکار رہا تھا۔
" حورو! ۔۔۔ فرشتو! ۔۔۔ مبارک ہو۔۔۔ عورت جا چکی ہے۔۔۔اب صرف میں کھڑا ہوں دروازے پر۔۔۔ اب کھول دو دروازہ مجھ پر ۔۔۔۔ یقین کرو ۔۔۔۔ اب صرف میں ہوں۔۔۔صرف میں"
میں بھی اسی یقین کے ساتھ کہ میرے پیچھے بہشت کا دروازہ اُس کے لیے کھل ہی جائے گا، پیچھے مُڑ کر دیکھے بغیر پُل صراط کے پہلے موڑ کی طرف مڑی ہی تھی کہ پیچھے سے آتی آواز پر ٹھٹک کر ٹھہر گئی۔ کسی نے شاید مجھے ہی مخاطب کیا تھا، بھر آئے ہوئے بادلوں کی سی بھاری بھاری سی گرج آواز میں لیے ہوئے
" یہاں کوئی ماں آئی ہوئی ہے کیا؟"
پلٹ کر دیکھا۔ وہ پریشان اور چُپ سا، میری ہی طرف اُلجھی نظروں سے دیکھ رہا تھا
" تم نے پکارا مجھے؟" میں نے بے یقینی سے پوچھا۔ اُس نے اُسی حقارت کے ساتھ انکار میں صرف گردن ہلا دی۔ اگلے لمحے بدستور بند پڑے دروازے کے اندر کی جانب سے پھر وہی گرج سی گونجی
"یہاں کوئی ماں فریاد لائی ہے کیا؟"
ایک میں ہی تو ماں تھی وہاں! مجھے ہی پکارا جا رہا ہے! ۔۔۔۔۔۔ یقیناً مجھے ہی! مگر دروازے کے باہر تنا کھڑا وہ، اب بھی میرے راستے کی رکاوٹ بنا ہوا تھا اور میں دروازے کی طرف بے اختیار بڑھتے بڑھتے، دروازے سے کچھ فاصلے پر سہم کر ٹھہر گئی۔ اندر سے پھر آواز آئی
" دروازے کے قریب آؤ عورت"
" اسی لیے تو قریب نہیں آ رہی کہ میں عورت ہوں! "
میں بدستور خود پر گڑی اُس کی نگاہوں سے نگاہیں چُرائے ہوئے تھی
" معاملہ عورت اور مرد کا نہیں ہے اس وقت ۔۔۔۔۔۔ صرف ایک ماں کی فریاد سننے کا حکم ہے۔۔۔۔۔۔ اس لیے کہ تمہاری سسکیوں کی آواز بہت دور تک جا رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔ دروازے کے قریب آؤ ۔۔۔ اور اپنی فریاد بیان کرو"
اس بار بند پڑے دروازے کے قریب ہوئی تو یوں لگا جیسے میں اپنی مر چکی ماں کے سینے کے قریب آ گئی ہوں! میری ماں جو بچپن میں زرا زرا سی چوٹ پر مجھے سینے سے لگا لیا کرتی تھی۔۔۔بلکل اسی طرح دل چاہا کہ دروازے سے لپٹ جاؤں۔ دروازے پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دوں۔ اتنی آہ و بکا کروں کہ دروازہ پگھل جائے اور میں اُس میں جذب ہو جاؤں!
جس طرح بچپن میں سسک سسک کر ماں کو اپنی چوٹ دکھایا کرتی تھی، اُسی طرح بہشت کے بند دروازے کی دہلیز پر اپنا زخمی ہو چکا دل رکھ دوں اور دروازے کے دوسری طرف جو بھی ہے اُسے کہوں کہ بس یہی آہ و بکا فریاد ہے میری۔۔۔۔۔ بس یہی آہ و بکا پہنچا دو میرے ربّ کی بارگاہ میں۔
مگر ابھی تک سہمی ہوئی تھی میں۔ وہ اب بھی میرے عقب میں اِستادہ تھا اور اُس کی نظریں مجھے اپنی پشت پر اب بھی گڑی ہوں محسوس ہو رہی تھیں، یوں جیسے وہ کسی بھی لمحے مجھے پشت سے گھسیٹ کر اس دروازے سے جُدا کر سکتا ہے!
" فریاد کرو"
اندر سے آنے والی گرج میں اب حکم تھا اور میری آواز میں سسکی
" جناب! میں خودکُش دھماکے میں کئی ٹکڑوں میں کٹ کر جان سے جا چکی ماں ہوں ۔۔۔۔ میرے چار چھوٹے چھوٹے بچّے۔۔۔۔۔۔۔"
" معلوم ہے۔ کچھ بھی چھُپا ہوا نہیں ہے۔۔۔ صرف فریاد کرو" گرج میں مزید گرج اُتر آئی۔
" میرے بچے مجھے بکھرے پڑے انسانی اعضاء میں تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔۔۔۔"
" یہ بھی علم میں ہے۔۔۔۔ صرف فریاد کرو۔۔۔ماں کی فریاد سننے کا حکم ہے"
" خود کُش دھماکے کے اُس چوراہے پر کئی ماؤں کے بیٹے لہولہان بکھرے پڑے ہیں جناب! اور اُن کی ماؤں کی فریاد گٹھری میں بھر لائی ہوں ۔۔۔۔ مائیں برس ہا برس لہوُ پسینہ۔۔۔. جسم و جاں اور رت جگے بلو بلو کر۔۔۔۔۔ بڑی مشکل سے اولاد کو جوان کرتی ہیں جناب! یہ کیا کہ ماؤں کے پیروں تلے کا بہشت ابھی مکمل ہرا بھرا ہی نہ ہو کہ کوئی بھی آکر اُسے جلا دے! فریاد ہے ان سب کی میرے ربّ سے جناب!"
"ماؤں کی فریاد کی گٹھری کھول دو" اندر سے آواز آئی۔
زخمی، کٹے ہاتھوں کی اُنگلیوں کو سمیٹ کر میں نے گٹھری کھول دی۔ گٹھری میں بھری ماؤں کی فریاد سسکیوں میں بدل گئی اور سسکیاں گٹھری سے نکل نکل کر بہشت کے بند پڑے دروازے سے یوں لپٹتی گئیں، جیسے مسلسل برستی برسات کے قطرے در قطرے!
اچانک وہ میرے عقب سے چیخا
" دیکھا جناب! دیکھا! ۔۔۔۔ ان میں عیسائیوں اور ہندوؤں کی بھی مائیں ہیں! ان کا خاتمہ عین ثواب ہے اور خاتمہ کرنے والے پر بہشت کا دروازہ کھلنا چاہیے جناب!"
ساتھ ہی وہ اسی مالکانہ اختیار کے ساتھ اپنے کٹے ہاتھوں سے دروازے پر پھسلتی زار و قطار سسکیوں کو پونچھنے ہی لگا تھا کہ اندر سے آتی آواز اُس پر گرجی
" رک جاؤ ۔۔۔۔ "
وہ ساکت سا ہو کر ٹھہر کر رہ گیا۔ آواز کی گرج پر گو کہ اس کی طرح میں بھی سہم سہم سی جاتی تھی مگر اب وہ مجھ سے نظریں چرا رہا تھا، جیسے میں اس سے نظریں چراتی رہی تھی۔
" تم کون ہوتے ہو ماؤں کی فریاد کا مذہب چننے والے!"
"میں ۔۔۔۔!" وہ حیرت اور بے یقینی سے یوں چونکا جیسے حیران ہو کہ اسے کیسے نہیں پہچانا جا رہا!
" آپ نہیں جانتے جناب! کہ میں کون ہوں!"
" معلوم ہے اسی دھماکے کے خود کُش بمبار ہو " اندر سے بے تاثر آواز میں جواب آیا
" پھر بھی آپ مجھے قریب آنے سے روک رہے ہیں! دروازہ کھولیے جناب اور مجھے اندر آنے دیجیے۔۔۔۔۔حوریں کب سے میری منتظر ہیں اور میں کب سے باہر کھڑا ہوں"
" حوروں کو تمہارے لیے قبولیت دینے کی اجازت نہیں دی گئی"
" کیسے قبولیت کی اجازت نہیں دی گئی! میں سر کٹا چکا ہوں۔۔۔ یہ رہا میرا سر ۔۔۔۔ میں پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا ہوں ۔۔۔۔ یہ رہے میرے ٹکڑے ۔۔۔۔ "
وہ دیوانہ وار اپنا سر اور ٹکڑے اُٹھا اُٹھا کر بہشت کے بند دروازے کے سامنے لہراتا جاتا تھا اور چیختا جاتا تھا۔
" اپنا سر اور ٹکڑے واپس اُٹھا لو۔۔۔۔۔ سر حوروں اور بہشت کے لیے نہیں کٹایا جاتا۔۔۔۔۔۔ سر صرف راہِ حق میں کٹتا ہے ۔۔۔۔ راہِ حق بھی وہ جو کسی بے خبر اور بے گناہ پر موت بن کر نہیں ٹوٹتی ۔۔۔بلکہ سینہ تان کر ظلم اور ناحق کے سامنے کھڑی ہوتی ہے۔۔۔۔ اُس مقام پر سر کٹتا ہے۔۔۔۔۔ ورنہ جان جس کے قبضے میں ہے۔۔۔۔ اسے کسی کی جان کی ضرورت نہیں۔۔۔۔ اور یہ جو تم لائے ہو ۔۔۔۔ یہ گندگی کا ڈھیر ہے۔۔۔۔ اور کچھ بھی نہیں"
اس کی خون آلود آنکھوں میں آنسوؤں کا سا پانی اُترنے لگا۔ وہ مزید کچھ بول نہیں پا رہا تھا اب ۔۔۔۔۔ گو کہ بار بار اپنے پھٹے ہونٹوں کو کھولتا بھی تھا۔ بس ایک گھُٹی گھُٹی سی آواز نکلی اس کے اندر سے
" پھر۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔؟"
بہشت کے بند پڑے دروازے پر جیسے انگنت گھنے بادل گرجتے ہوئے اترتے چلے آ رہے تھے
" پھر یہ کہ ۔۔۔۔۔۔۔ فریاد کا معاملہ بڑا ہی سخت ہے لڑکے! ۔۔۔کوئی عورت اور مرد نہیں ہے فریاد کے معاملے میں ۔۔۔۔۔ فریاد کے معاملے میں کوئی مذہب بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔ بہشت و دوزخ سے بھی پہلے ۔۔۔۔۔ ہر چیز فریاد کی چھلنی سے گزرتی ہے ۔۔۔۔۔ بڑی رفتار ہے فریاد کی ۔۔۔۔ وہاں تک پہنچتی ہے سیدھی، جہاں فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں ۔۔۔۔۔ اُٹھا اپنے پُرزے ۔۔۔۔۔ اور لوٹ جا ۔۔۔۔ابھی ایک ایک ماں کی فریاد کی چھلنی سے گزرے گا تیرا معاملہ ۔۔۔۔۔۔۔ حوریں اور فرشتے سب ہی فریاد کے سامنے بے بس ہیں ۔۔۔۔۔۔ اُٹھا اپنے پُرزے اور لوٹ جا"
اندر سے آتی آواز میں سرد مہری اُتر آئی تھی اور وہ شکست زدہ سا جوں جوں اپنے پُرزے سمیٹتا جاتا تھا، پُرزے مزید پُرزے ہو کر اس کے ہاتھوں سے نکلتے اور بکھرتے جاتے تھے۔
ان ہی بکھرتے سمٹتے پرزوں کے بیچ میں نے دیکھا، اس کی اپنی ماں کی سسکیاں بھی پڑی سسک رہی تھیں! مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے آگے بڑھ کر اس کی ماں کی سسکیوں کو سمیٹا اور ساتھ لائی ہوئی فریاد کی پوٹلی پر رکھ دیا۔
وہ اپنے پُرزے سمیٹ کر پل صراط کی بال سے بھی باریک اور تلوار کی دھار سے بھی تیز پگڈنڈی کی طرف مڑ چکا تھا اور اس کی ماں کی سسکیاں بہشت کے دروازے سے لپٹ لپٹ کر سسک رہی تھیں " میں نے اپنی کوکھ سے انسان جنا تھا جناب! ۔۔۔۔ پتہ نہیں کب اسے انسان کھا گئے اور پتہ نہیں کب وہ انسان نہ رہا!"
٭٭٭

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *