سلمان حیدر نے یہ نظمیں میری درخواست پر کچھ عرصہ قبل بھیجی تھیں۔میں اپنی دیگر مصروفیات کی بنا پر انہیں بے حد پسند کرنے کے باوجود اپلوڈ نہیں کرسکا۔سلمان حیدر کی نظمیں بلاشبہ اردو ادب کے نظم ذخیرے میں ایک اہم اضافہ ہیں۔ان کی شاعری کا اپنا طرز ہے اور وہ ہر طور پر دوسروں سے منفرد اور ہمہ وقت بھلائی اور خون میں ڈوبے سیارے کوعقل کے ناخن لینے کی طرف راغب کرنے والے شاعر ہیں۔ایسے میں جب اردو کے بیشتر ادیب اور لکھنے والے ان کے اچانک غائب ہوجانے سے غم و غصہ میں مبتلا ہیں، میں ادبی دنیا پر یہ نظمیں اپلوڈ کررہا ہوں تاکہ جن افراد تک ان کی سچی اور اونچی آواز نہ پہنچی ہو، پہنچ سکے ۔ہم امید کرتے ہیں کہ وہ جہاں بھی ہوں بخیر و عافیت ہوں اور جلد لوٹ آئیں تاکہ ان کے رشتہ داروں، عزیز واقارب کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری اور نثر کے دلدادہ سینکڑوں قارئین کے دلوں کو بھی چین کی سانس میسر آئے۔یہ نظمیں بیک وقت ان کی جرات اور جد و جہد کی نمائندہ بھی ہیں اور انسانیت کے لیے بطور شاعر آواز اٹھانے کے ہنر سے بہرہ مند کرنے والی بھی۔(تصنیف حیدر)
سوال
سڑکوں پہ سناٹا ہے اور
جن عمروں میں
مائیں بیٹوں کے سگریٹ سے سلگے کپڑوں کی جیبوں میں
کوئی مہکتا خط دیکھیں تو
ہنس کر واپس رکھ دیتی تھیں
ان عمروں میں
اب ماووں کو
جسموں میں بارود کی بو اور لاشوں میں سکے کے چھید رلا دیتے ہیں
دل پر زخم اٹھانے والی عمر میں لڑکے
کمرے کی دیوار کے گھاو
بندوقوں کی تصویروں سے ڈھک دینے پر
آمادہ کیسے ہوتے ہیں
فتووں کی دھاریں ذہنوں
آخر کیسے کند کرتی ہیں
جنت میں جو کچھ بھی ہو گا
اس دنیا کو کون جہنم کر دیتا ہے
ماووں کی گودوں سے اٹھ کر
موت کی گود میں سونے والو
کچھ تو بولو۔۔
***
بوسہ
جھیل کنارا
حبس میں ڈوبی بوجھل بھاری شام
تین طرف جنگل کی خوشبو
چوتھی کھونٹ طلسم
سات درا اک شہر کے جس میں صدیوں بوڑھے بھید
پہلے در کا بھید ہوا الہام ابھی اس پل میں
ہاتھوں سے تن ڈھکتی مورت میں آدم کا جایا
تو بھی کچھ تو بول ترا کیا نام
ابھی اس پل میں۔۔۔
***
جنون
فضائیں تھک چکی ہیں
جسم ڈھوتی گاڑیوں کی سسکیاں
اور سائرن کے بین سن سن کے
دور و دیوار کے نتھنے جھلسنے لگ گئےبارودکیبو سے
بدن کے چیتھڑے چن چن کےاب بیزار ہیں گلیاں
وہ ملبہ
آگ کا چاٹا ہوا ملبہ
اکٹھا کرتے کرتے خاک داں تنگ آ چکے ہیں
مگر انسان اکتاتا نہیں ہے۔۔۔
٭٭٭
ابلاغ: بغیر لفظوں کے ایک نظم
ایک بےچہرہ خواب
ایک بے نام خوشبو میں لپٹا ہوا
ایک خوشبو کہ جس نے کوئی رنگ پہنا نہ ہو
ایک خاموش لے
ایک لے میرے کانوں میں رس گھولتی
اپنی عریانیوں میں لپیٹا ہوا ایک سر
ایک سر جس کی بنتر میں آواز کی گانٹھ آئ نہ ہو
جس کے شفاف تن پر کسی لفظ کا کوئی گہنا نہ ہو
لفظ سے ماورا
ایک نغمہ کسی نے جو گایا نہ ہو
جس میں برتے ہوے ایک بھی حرف کا کوئی سایہ نہ ہو
جو کسی سانس میں بھی سمایا نہ ہو
یہ بہت ہو
ہمیں اور کچھ اس سے کہنا نہ ہو....
٭٭٭
خواہش
ماہ و سال سے تھوڑا ہٹ کے
دشت اور در سے دور
ہجر وصال کی زد سے باہر
رات اور دن کے پار
کبھی فرصت سے مل یار
تن کی مٹی جھاڑ دے
من مندر کی کھڑکی کھول
آوازوں کے جنگل میں
کبھی چپ کی بولی بول
میری آنکھ کے درپن میں
دیکھ اپنا روپ سروپ
میرے عشق کے گہنے سے
کبھی اپنا آپ سنوار
کبھی فرصت سے مل یار
کبھی اپنے آپ سے باہر آ
ٹک بیٹھ ہمارے ساتھ
چل دُکھ دریا کے پار چلیں
لا ہاتھ میں دے دے ہاتھ
ہم اپنا ہونا تیاگ کے
تیرے ہونے پر تیار
کبھی فرصت سےمل یار۔۔۔
٭٭٭
سگریٹ
میں کہ اک اور گزرتے ہوے پل کے ہمراہ
اپنی خوشبو میں بسا
آپ ہی آپ سلگتا ہوا کاغذ کا وجود
ہاتھ پھیلا کے کسی راکھ سے اٹتے ہوے برتن میں مسل دیتا ہوں
راکھ کےڈھیر پہ کچھ دیر کو رکتا ہے دھواں
وو سیاہ پوش وجود
مجھ سے کہتا ہے کے تم وقت کا انداز لیے ہو لیکن
(وقت جو روز نجانے کتنے
دھیمے خاموش سلگتے ہوے انسانوں کو
خاک کے بار تلے یونہی مسل دیتا ہے)
وقت کو ہاتھ کے پھیلانے کی حاجت بھی نہیں....
٭٭٭
پورا دن اور آدھا میں
(وحید احمد کے سحر میں لکھی گئی اک نظم)
آنکھ کھلی تو
سلوٹ سلوٹ بستر سے
خود کو چن چن کے
کپڑوں کی گٹھڑی میں باندھا
پیروں کی بیساکھی لی اور باہر نکلے
دفتر کے دروازے پر
اک کاغذ کالا کرنے کے سکے لینے کو دفتر پہنچے
علم کی ردّی آدھی بیچی
آدھی بانٹ کے لوگوں پر احسان دھرا
اور اپنا آپ اٹھا کرنکلے
شام ہوئی تھی
قہوہ خانے میں پہنچے تو
کچھ زیادہ چھوٹے سر والے بحث رہے تھے
آدمی آج ادھورا کیوں ہے
ان پر اپنے پورے سر کا رعب جمایا
چبا چبا کے لفظ تھوکتے رات اتاری
محفل جب برخاست ہوئی تو
اگلے دن کے بارے سوچا
اگالدان کو الٹا پلٹا
لفظ اٹھاۓ
جھاڑ پونچھ کے پھر سے نگلے
ٹھوکر ٹھوکر رستہ چلتے گھر تک آیے
بوتل کھولی
اپنے تن کی باڑ پھلانگی
تیرے نام اک نظم لکھی تو
ہر مصرعے میں اپنی ذات کے ٹکڑے باندھے
تیرے ہجر کی چادر میں ہمیں اپنے ٹکڑے چنتے دیکھتا چاند کبھی کا ڈوب گیا ......
٭٭٭
گوادر چھاؤنی
اگر کہیں ان کے بس میں ہو تو
وطن کی مٹی کےچپے چپے پہ چھاؤنی ہو
اگر کہیں ان کے بس میں ہو تو
بدن کی مٹی کےچپے چپے پہ چھاؤنی ہو
جو لوگ اب تک مسائل ہست و بود ہی سے نمٹ رہے تھے
اب ان میں اک فصل نیست کٹتی ہو اور نابود اگ رہا ہو
اگر کہیں ان کےبس میں ہو تو
زمین سے بارود اگ رہا ہو
اگر کہیں ان کےبس میں ہو تو
ہماری سانسوں کے راستے پے بھی ایک چوکی ہمارے اپنے مفاد میں ہو
یہ ٹینک رستے میں آنے والے مکان مسمار کر کے رکھ دیں
یہ کہنہ سوچیں
مرے وطن کے جوان مسمار کر کے رکھ دیں
یہ لوگ وہ ہیں
کہ چاند تارا مرے وطن کا نشان سنگین میں پرو دیں
اگر کہیں ان کےبس میں ہو تو
یہ نظم سن کر
خیال کو بوٹ سے کچل دیں
زبان سنگین میں پرو دیں
اگر کہیں ان کے بس میں ہو تو ......
٭٭٭
محبت
محبت کیفیت ہے
وصال اور ہجر سے لفظوں کے دامن میں یہ پوری آ نہیں سکتی
میں کہتا ہوں وصال
اور ہونٹ بھی اک دوسرے سے مس نہیں ہوتے
میں کتنا ہجر لکھوں لفظ تو جوڑے ہی جاتے ہیں
جو تجھ میں اور مجھ میں ہے
وہ دوری آ نہیں سکتی۔۔۔
٭٭٭
محبت روایت نہیں ہے
محبت وہ پامال رستہ نہیں ہے
کے آتے ہوئے موڑ کی ہر خبر
کرم خوردہ کتابوں کے بوسیدہ صفحوں کی دھندلی لکیروں میں چھپ چھپ کے عریاں ہوئی ہو
محبت کی تصویر کس نے بنائی
محبت سفر کا سفرنامہ کس نے لکھا ہے
اگر کوئی اک گمشدہ سی صدی میں
ادھر سے گزر بھی گیا تھا
تو اس کو خبر کیا
کوئی بیتا موسم انہی پتھروں کی کسی درز میں کوئی کونپل کھلا کر گیا ہو
محبت کا ہر تجربہ دوسرے سے علیحدہ نا ہوتا
تو یہ جھریوں سی دراڑوں سے لبریز پتھر سے چہرے
ہمیں اپنے پانمال رستوں پہ انگلی پکٹر کر چلاتے
یہ خود ہم سے کہتے کے جاو محبت کرو
مگر جان جاناں
ہمارا تمہارا یہی مسئلہ ہے
بغاوت روایت نہیں ہے۔۔۔
٭٭٭
حویلی
وقت کی ریت کے کچھ آخری ذرے ہیں مری مٹھی میں
تن پہ ہر بیتے ہوئے پل کے لیے اک سلوٹ
ذہن کے گوشوں میں یادوں کی نمی
اور دیواروں پہ دیمک زدہ لمحوں کو لئے
چوکھٹوں میں کئی دھندلے چہرے
صحن ماضی میں کئی گمشدہنسلوں کی وراثت کا امیں
ایستادہ کوئی بوڑھا برگد
فرش پر وقت کے برتے ہوئے پیلے پتے
ہاں مگر ایک دھڑکتا ہوا دل
جو ترے ساتھ کٹے وقت میں زندہ ہے ابھی
جس کی دھڑکن سے مرے جسم کو خوف آتا ہے
بالکل ایسے مری بوسیدہ حویلی جیسے
تیری انگڑائی کے لمحوں میں لرز اٹھتی تھی۔۔۔
٭٭٭
دیوتا
میں جانتا ہوں
تمہیں مری آرزو نہیں ہے
طلب مری آنکھ میں مچل کے ہی اتنی ارزاں ہوئی ہے ورنہ
میں اپنے دامن میں ذات کی کرچیاں سمیٹے
کھنکتی مسکان بھیک لینے
تمہارے رستے میں روز اپنا سوال آنکھوں میں لے کے بیٹھوں
یہ خو مری تو نہیں تھی جاناں
میں جانتا ہوں تم اس قدر دیوتا تو ہو ہی
کہ دل کے حالات جانتے ہو
سوال لب پہ نا آنے پائے
دعا کو حرف قبولیت بھی عطا کرو تم
تم اس قدر بھی خدا نہیں ہو
میں اپنے دامن کا کل اثاثہ ملا کے مٹی میں ہاتھ جوڑوں اور
اور اپنے ہونے کی بھیک مانگوں
میں اس قدر آدمی نہیں ہوں۔۔۔
٭٭٭
لیکن
پہلی بارش جیسا تیرا چہرہ تھا
دل پتھر کی ہر ہر درز میں
کوئی کونپل پھوٹ گئی تھی
اک اک ریخ کا ہاتھ پکڑ کے
تیری یاد کی بیل بدن پر پھیل رہی تھی
اور پھوار پڑی پھر اک دن
تن چنری کی سلوٹ سلوٹ
زہر اور نمو کی کاہی رنگت رچی ہوئی تھی
نخل دار پہ بور آنے کا موسم بھی تھا
دلّی کی گلیوں میں اس دن
میر نام کے سودائی کا ماتم بھی تھا
گھر میں بہار آئ تو غالب
ذات کے کسی بیابان میں تھا
دست صبا نے دستک دی تو
فیض ابھی تک
غم جہاں کے زندان میں تھا .....
٭٭٭
سن باتھ
تمہارے ہاتھ کی خوشبو
مرے الجھے ہوئے بالوں سے لپٹی ہے
تمہارے لمس کا ہر ذائقہ محفوظ ہے اب تک
مری پوروں کے ہونٹوں پر
بدن پر گھاس کے پتوں نے رستہ روک رکھا تھا
پسینے کی لکیروں کا
مری بھیگی ہتھیلی کے تلے
خواہش بدن میں کپکپاتی تھی
تو جیسے جھیل کے ساحل پہ ٹھہری کشتیاں
اٹھکھیلیاں کرتے ہوئے پانی پہ
ہلکورے سے لیتی تھیں
تمہارے جسم پے اگتی سنہری گھاس میں
جب جب ہوائیں سرسراتی تھیں
تو میری ریڑھ کی ہڈی میں سرکنڈے لچکتے تھے
بدن سے دھوپ کا مخمل اٹھا کر
ہوائیں سرمئی بادل کے پیچھے پھینک آتی تھیں
تو ہم سوکھے ہوئے پتوں کی چادر اوڑھ لیتے تھے
وہ اک لمحہ کہ جس میں چار موسم اور دو ہم تھے
وہیں پر ہے
ابد کی جھیل کے ازلی کنارے پر
٭٭٭
4 تبصرے:
Very profound poems...inspiring...khalid sohail
ہم شعر پڑھنے اور سننے والے ہیں، جنس سخن کے صارفین، سلمان حیدر کی مثال کے مصداق قہوہ خانوں میں بڑے سروں والوں کے تھوکے ہوئے لفظ چاٹنے والے۔ شاعر کا لکھا ہوا؛ پرانی حویلی کے برگد کے بھیدوں، بندوقوں کی تصویروں سے ڈھکے دیواروں کے گھاؤوں، سنگین میں پروئے ہوئے چاند تارے اور آوازوں کے جنگل میں لاپتہ ہوئی خاموشی کا المیہ پڑھنے کے تب تک روادار نہیں ہیں جب تک ہمیں شاعر خود المیہ بن کر نہ دکھائے۔ سلمان حیدر اپنی ہر نظم پر سولہ آنے کھرا آیا ہے اور اپنے ہر مصرعے پر یکسر پورا اترا ہے۔ سو میرے مقہور و مظلوم شاعر، جب تم محتسب کے محبس سے گھر لوٹو، اور یہاں اپنی نظموں کی اشاعت کی خبر پاؤ، تو پائین میں صنف سخن کے اس صارف کا پیغام پاؤ گے کہ تمہاری نظمیں اب خیر سے پڑھی جا رہی ہیں؛
نخل دار پہ بور آنے کا موسم بھی تھا
دلّی کی گلیوں میں اس دن
میر نام کے سودائی کا ماتم بھی تھا
گھر میں بہار آئی تو غالب
ذات کے کسی بیاباں میں تھا
دست صبا نے دستک دی تو
فیض ابھی تک
غم جہاں کے زنداں میں تھا۔۔
آپ کے مدلل اور خوبصورت تبصرے کے بعد مزید تبصرے کی گنجائش نکالنا بہت مشکل کام ہے۔ میں آپ سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں۔۔۔
ایک تبصرہ شائع کریں