بدھ، 29 اکتوبر، 2014

محاورے کا مسئلہ: محمد حسن عسکری

(ہر ادب کی ایک روایت ہوتی ہے، یہ روایت صرف لکھنے کی روایت ہی نہیں ہوتی، بلکہ زمانوں کے مختلف تجربات کو تحریر میں ڈھالنے کی صلاحیت کے زندہ رکھنے، چمکانے اور مزید روشن بنانے کی مستقل کوشش ہوتی ہے۔جس ادب میں یہ کوشش ماند پڑجائے، اس پر زوال کے بادل منڈرانے لگتے ہیں۔محمد حسن عسکری نے ’ستارہ اور بادبان‘ میں شامل کئی مضامین میں اردو ادب کی اس زوال پذیر صورت حال کے اسباب جاننے کی کوشش کی ہے، ان کی تحریریں فکر کو جلا دیتی ہیں، مگر افسوس کہ ہمیں تخلیقی سطح پر ان تحریروں سے جتنا فائدہ ہونا تھا، عسکری کو ’اعلیٰ ذہن‘ کے شوکیس میں سجادینے سے اتنا ہی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔زیر نظر مضمون ’محاوروں کا مسئلہ‘ عسکری نے 1954میں یعنی آج سے ساٹھ سال قبل لکھا تھا۔ان ساٹھ سالوں میں ہم نے ان باریک مسائل پر بہت غور کرنے کا دکھ نہیں بھوگا ہے ، جس میں ادیبوں کا اپنی روایت سے بھرپور فائدہ اٹھانا، پیروئ مغرب کے بھونڈے طریقوں پر دھیان دینا اور الفاظ کے وسیع و عریض میدان میں تخلیق کے بیج بونا وغیرہ شامل ہیں۔اس تحریر کو ایک نظر پھر سے دیکھتے ہیں ، شاید عسکری کی کچھ باتیں ابھی بھی ہمارے لکھنے اور سوچنے کے طور طریقوں پر پتھر اٹھائے کھڑی ہوں۔)



کم بخت ادب میں جہاں اور بیس مصیبتیں ہیں وہاں ایک جھگڑا یہ بھی ہے کہ اس کے ایک عنصر کو باقی عناصر سے الگ کرکے سمجھنا چاہیں تو بات آدھی پونی رہ جاتی ہے، یہاں وہ ڈاکٹروں والی بات نہیں چلتی کہ کوئی کان کے امراض کا ماہر ہے تو کوئی ناک کی بیماریوں کا۔ادب پارہ عناصر کا مجموعہ نہیں ہوتا۔یہاں تو کُل ہی اصل چیز ہے۔کہیں سے اینٹ کہیں سے روڑا لے کر اور چاہیں جو بن جائے، ادب نہیں بنتا۔ادب کا معاملہ تو وہی ہے جو اشیا کا ہے۔اشیا میں لمبائی ہوتی ہے اور چوڑائی بھی۔لیکن ایک کے بغیر دوسری وجود میں نہیں آسکتیں،ادب کے بارے میں سوچنے بیٹھیں تو یہی الجھن پیش آتی ہے۔ابھی ایک پہلو کے متعلق کوئی بات کہہ کے مطمئین بھی نہیں ہونے پائے تھے کہ پتہ چلا یہ پہلو دوسرے پہلو سے جڑا ہوا ہے۔جبھی تو ادب تنقید کا کام ہوا سے لڑنے کے برابر ہے۔مثلاً میں نے کچھ دن سے غل مچا رکھا ہے کہ ہمارے ادیبوں کو الفاظ پر قدرت حاصل نہیں۔اس لیے ہمارا سب سے پہلا کام ہے کہ الفاظ کو قابو میں لائیں، اس سیدھے سادے بیان سے بظاہر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ادیب لوگ روز صبح اٹھ کر نہار منہ لغت کا ایک صفحہ رٹ لیا کریں یا پرانی کتابیں پڑھ پڑھ کر اچھے لفظوں کی ایک فہرست تیار کریں اور پھر اس فکر میں رہیں کہ موقع بہ موقع ایک زور دار سا لفظ ٹکا دیں۔اگر بفرض محال اس طرح اچھی نثر یا نظم لکھی بھی جاسکے تو محض ایک افسانہ چھپوانے کی خاطر اتنا جھنجھٹ کون پالے گا کہ نوراللغت کی چار جلدیں ہر وقت کندھے پر اٹھائے رکھے۔اصل پوچھنے کی بات تو یہ ہے کہ لفظ یاد کس طرح رہتے ہیں اور لفظوں پر قابو کیسے پایا جاتا ہے۔آخر وہ کیا چیز تھی جس نے اکیلے شیکسپئر کو چھبیس ہزار الفاظ دے دیے۔حالانکہ ہماری پوری اردو زبان میں کل ملا کر چھپن ہزار الفاظ ہیں، اور آج کل کے ادیبوں کے پاس تو شاید دو تین ہزار سے زیادہ نہ ہونگے۔یہ کیا قصہ ہے؟
الفاظ اس آدمی کو یاد ہوتے ہیں جو زندہ ہو یعنی جسے زندگی کے عوامل اور مظاہر سے جذباتی تعلق ہو اور جو اس تعلق سے جھجھکے یا گھبرائے نہیں۔ادیبوں کو چھوڑیے ، ہم آپ جیسے عام آدمی جو الفاظ بولتے ہیں اس میں ہماری پوری جسمانی، ذہنی اور جذباتی سوانح عمری بند ہوتی ہے۔گویا ہر آدمی دن بھر اپنی داستان اور بچپن سے لے کر آج تک اپنی تاریخ بیان کرتاپھر تا ہے۔ان میں سے بہت سے لفظ تو ایسے تجربات کی نمائندگی کرتے ہیں جنہیں ہمارے شعور نے بھی قبول کرلیا ہے۔بہت سے لفظوں میں وہ تجربات چھپے بیٹھے رہتے ہیں جن سے شعور بچتا ہے لیکن جنہیں لاشعور ہمارے اوپر ٹھونستا ہے۔دوسری طرف ایسے بھی لفظ ہوتے ہیں جنہیں ہم حافظے کی گولیاں کھانے کے بعد بھی یادنہیں رکھ سکتے،کیونکہ ان کا تعلق ایسے ناخوشگوار تجربات سے ہوتا ہے، جن سے ہم دامن چھڑانا چاہتے ہیں۔ہم کتنے اور کس قسم کے الفاظ پر قابو حاصل کرسکتے ہیں اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہمیں زندگی سے رابطہ کتنا ہے، اور ہم خوشگوار اور ناخوشگوار دونوں قسم کے تجربات قبول کرنے کی ہمت کتنی رکھتے ہیں۔جی ہاں، خوشگوار تجربے کو بھی قبول کرنے کے لیے ہمت چاہیے، بقول فراق صاحب’ بلائیں یہ بھی محبت کے سر گئی ہونگی!‘ ۔اس میں بھی نفی خودی کا کرب برداشت کیے بغیر گزارہ نہیں ہوتا۔خو د پرست آدمی نشاط کے قابل رہتا ہے نہ غم کے۔اگر کوئی سکڑ ، سمٹ کے بالکل اندر بند ہوجائے تو اسے لفظوں کی ضرورت ہی نہ پڑے گی۔کیونکہ الفاظ تو اس تعلق کا ذریعۂ اظہار ہے جو ہمارے اور خارجی چیزوں کے درمیان ہوتا ہے۔خدا نے حضرت آدم کو سب سے پہلے چیزوں کے نام سکھائے تھے۔پھر الفاظ محل اظہار کا ذریعہ ہی نہیں ہیں، ان کے پیچھے یہ خواہش کام کرتی ہے کہ ہم دوسروں سے تعلق پیدا کریں۔چنانچہ لفظوں کو قابو میں لانے کے لیے آدمی کے اندر دو چیزیں ہونی چاہئیں ۔ایک زندہ رہنے اور زندگی سے دلچسپی رکھنے کی خواہش۔دوسرے انسانوں سے تعلق رکھنے کی خواہش، شیکسپئر نے چھبیس ہزار الفاظ لغت میں سے نقل نہیں کیے تھے، بلکہ چیزوں اورانسانوں کی دنیا سے چھبیس ہزار طرح متاثر ہوا تھا۔کیونکہ ایک سیدھا سادا اور بذات خود مہمل سا لفظ’ اور‘ استعمال کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی شخصیت میں اتنی لچک موجود ہے کہ وہ اپنی دلچسپی کو ایک چیز سے دوسری چیز تک منتقل کرسکے اس کے اندر گیرائی ہے کہ بیک وقت دو چیزوں کا احاطہ کرسکے۔بہت سے لوگوں کی شخصیت ٹھٹھر کے رہ جاتی ہے۔تو اسی لیے کہ وہ اپنی روح کی گہرائیوں میں سے ’اور‘ کہنے کی ہمت نہیں رکھتے۔میں شاعرانہ مبالغے سے کام نہیں لے رہا۔یہ ذرا سا لفظ ’ اور‘ کتنا عظیم ہے۔اس میں تو ایک پوری کائنات سماسکتی ہے۔اتنی جھک سے مقصود میرا بس اتنا تھا کہ ادیبوں کے پاس لفظ کم رہ جائیں تو پورے معاشرے کو گھبرا جانا چاہیے۔یہ تو ایک بہت بڑے سماجی خلل کی علامت ہے۔باعمل لوگ ادب جیسی بے مصرف چیز سے ہزار بیگانہ رہیں لیکن ادب میں ان کی نبض دھڑکتی ہے۔ادب میں لفظوں کا توڑا ہوجائے تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ معاشرے کو زندگی سے وسیع دلچسپی نہیں رہی یا تجربات کو قبول کرنے کی ہمت نہیں پڑتی۔جب ادب مرنے لگے تو ادیبوں ہی کو نہیں بلکہ سارے معاشرے کو دعائے قنوت پڑھنی چاہیے۔
 

خیر اب لمبی چوڑی باتیں چھوڑ کے یہ دیکھیں کہ آج کل کے ادب میں لفظوں کے قحط کی نوعیت کیا ہے۔فی الحال محاورے کا معاملہ لیجیے۔بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ محاوروں کے استعمال کی ضرورت ہی کیا ہے۔اگر سیدھے سادے لفظوں سے کام چل جائے تو اس تکلف میں کیوں پڑیں؟دو چار لوگ ایسے بھی ہیں جو چاہتے ہیں کہ محاورے استعمال ہوں اور اس کی صورت وہ یہ بتاتے ہیں کہ پرانا ادب پڑھا جائے۔اگر اس طرح کے محاوروں کا استعمال سیکھا جاسکتا ہے تو پھر وہ لغت والا نسخہ ہی کیا برا ہے؟ خیر اپنی اپنی رائے تو اس معاملے میں سبھی دے لیتے ہیں۔کوئی محاوروں کو قبول کرتا ہے، کوئی رد۔لیکن جو بات پوچھنے کی ہے وہ کوئی نہیں پوچھتا، اصل سوال تو یہ ہے کہ محاورے کب استعمال ہوتے ہیں اور کیوں؟اور محاوروں میں ہوتا کیا ہے؟ وہ ہمیں پسند کیوں آتے ہیں؟ان سے بیان میں اضافہ کیا ہوتا ہے؟
خالص نظریاتی بحث تو مجھے آتی نہیں۔ایک آدھ محاورے کو الٹ پلٹ کر دیکھتا ہوں کہ اس کے کیا معنی نکلتے ہیں۔سرشار نے کہیں لکھا ہے۔۔۔’چراغ میں بتی پڑی اور اس نیک بخت نے چادر تانی۔‘ اس اچھے خاصے طویل جملے کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ وہ لڑکی شام ہی سے سو جاتی ہے، تو جو بات کم لفظوں میں ادا ہوجائے، اسے زیادہ لفظوں میں کیوں کہا جائے؟اس سے فائدہ؟فائدہ یہ ہے کہ جملے کا اصل مطلب وہ نہیں ہے جو میں نے بیان کیا ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔’شام ہونا‘ تو فطرت کا عمل ہے۔’چراغ میں بتی پڑنا‘ انسانوں کی دنیا کا عمل ہے جو ایک فطری عمل کے ساتھ وقوع پذیر ہوتا ہے اور یہ عمل خاصہ ہنگامہ خیز ہے۔جن لوگوں نے وہ زمانہ دیکھا ہے، جب سرسوں کے تیل کے چراغ جلتے تھے، انہیں یاد ہوگا کہ چراغ میں بتی پڑنے کے بعد کتنی چل پول مچتی تھی، اندھیرا ہوچلا، ادھر بتی کے لیے روئی ڈھونڈی جارہی ہے۔روئی مل گئی تو جلدی میں بتی ٹھیک طرح نہیں بٹی جارہی۔کبھی بہت موٹی ہوگئی، کبھی بہت پتلی۔دوسری طرف بچے بڑی بہن کے ہاتھ سے روئی چھین رہے ہیں۔یہی وقت کھانا پکنے کا ہے۔توے پر روٹی نظر نہیں آرہی، روٹی پکانے والی الگ چلا رہی ہے، وغیرہ وغیرہ۔’چراغ میں بتی پڑنا‘ کے معنی محض یہ نہیں کہ شام ہوگئی۔اس فقرے کے ساتھ اجتماعی زندگی کا ایک پورا منظر سامنے آتا ہے۔اس محاورے میں فطرت کی زندگی اور انسانی زندگی گھل مل کر ایک ہوگئی ہے۔بلکہ شام کے اندھیرے اور سناٹے پر انسانوں کی زندگی کی ہما ہمی غالب آگئی ہے۔سرشار نے یہ نہیں کہا کہ سورج غروب ہوتے ہی سوجانا صحت کے لیے مضر ہے۔انہیں تو اس پر تعجب ہوا ہے کہ ایسے وقت جب گھر کے چھوٹے بڑے سب ایک جگہ جمع ہوں اور اتنی چہل پہل ہورہی ہو، ایک آدمی سب سے منہ موڑ کر الگ جالیٹے۔انہیں اعتراض یہ ہے کہ سونے والی نے اجتماعی زندگی سے بے تعلقی کیسے برتی؟پھر ’چادر تاننا‘ بھی سوجانے سے مختلف چیز ہے۔اس میں ایک اکتاہٹ کا احساس ہے۔یعنی آدمی زندگی کی سرگرمیوں سے تھک جانے کے بعد ایک شعوری فعل کے ذریعے اپنے آپ کو دوسروں سے الگ کرکے چادر کے نیچے پناہ لیتا ہے۔سرشار نے محض ایک واقعہ نہیں بیان کیا۔بلکہ عام انسانوں کے طرز عمل کاتقاضا دکھایا ہے۔اس انفرادی فعل کے پیچھے سے اجتماعی زندگی جھانک رہی ہے۔محاوروں کے ذریعے پس منظر اور پیش منظر ایک دوسرے میں پیوست ہوگئے ہیں۔اب ایک ضرب المثل لیجیے۔’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔‘اس میں ایک عمومی تصور ایک خاص واقعے کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔یہ ایک استعارہ ہے جو بقول ارسطو شاعری کی جان ہے۔تو ایسے بھی محاورے اور ضرب الامثال ہوتی ہیں جو محض بیان سے آگے بڑھ کے شاعری بن جاتی ہیں۔پھر مندرجہ بالا فقرے میں گھریلوزندگی کے کئی پہلو نظر آتے ہیں۔خاص طور سے بعض جانوروں کو انسانوں کی زندگی میں جو دخل ہے اس کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے۔
غرض محاوروں میں اجتماعی زندگی کی تصویریں’سماج کے تصورات اور معتقدات‘ انسان، فطرت اور کائنات کے متعلق سماج کا رویہ، یہ سب باتیں جھلکتی ہیں۔محاورے صرف خوب صورت فقرے نہیں،یہ تو اجتماعی تجربے کے ٹکڑے ہیں۔جن میں سماج کی پوری شخصیت بستی ہے۔محاورہ استعمال کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے انفرادی تجربے کو اجتماعی تجربے کے پس منظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔محاورہ فرد کو معاشرے میں گھلادیتا ہے۔تخصیص میں تعمیم اور تعمیم میں تخصیص پیدا کرتا ہے۔محاورہ ہمیں بتاتا ہے کہ فرد کے ایک تجربے کو اس کے دوسرے تجربوں سے ، فرد کے تجربے کو سماج کے تجربے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔محاورہ جزو کو خالی جزو نہیں رہنے دیتا۔اسے کل میں ڈبوتا ہے۔ہمیں زندگی کی پیچیدگیاں اور رنگا رنگی یاد دلاتا ہے۔اس کے ذریعے مختلف تجربات کا تضاد اور تقابل نظر کے سامنے آتا ہے۔چونکہ محاورہ فرد کو کھینچ کے پھر اجتماعی زندگی میں واپس لے آتا ہے، اس لیے اسی وقت استعمال ہوتا ہے جب فرد اپنے معاشرے سے تعلق برقرار رکھنا چاہے۔یعنی محاورہ ایک مربوط اور منضبط معاشرے کی پیداوار ہے۔جب فرد اپنے معاشرے سے بچھڑ جائے اور وہ دوبارہ معاشرے میں گھل مل جانے کی خواہش بھی نہ رکھتا ہو تو پھر نہ تو محاورے استعمال ہوسکتے ہیں نہ ان کی ضرورت باقی رہتی ہے۔

اردو شاعری میں محاوروں سے اجتناب سب سے پہلے ہمیں غالب کے یہاں نظر آتا ہے۔کیونکہ ان کی خواہش تو یہ تھی کہ ’عرش سے پرے ہوتا کاشکے مکاں اپنا‘ آسمان سے پرے کوئی مطلق اور مجرد تجربہ ہوتا ہو تو ہوتا ہو انسانوں کا اجتماعی تجربہ نہیں ہوتا۔اس دنیا میں تو فرد اپنے تجربے ہی کو ایک مطلق چیز سمجھ سکتا ہے، اسے اوروں کے تجربے سے اپنے تجربے کا مقابلہ کرنے کی ضرورت نہیں پیش آتی۔تو پھر غالب محاورے کیوں استعمال کرتے؟اگر غالب کے خطوط موجود نہ ہوتے تو ہمیں ان کی شخصیت بڑی چھوٹی اور گھٹی ہوئی نظر آتی۔غالب کی غزل میں ان کی شخصیت کی عظمت چاہے آگئی ہو، وسعت نہیں آنے پائی، غالب کو دو چیزوں نے مارا۔ایک تو اپنے آپ کو دوسرے انسانوں سے الگ رکھنے کی خواہش، دوسرے فلسفیانہ باتیں بگھارنے کا شوق۔’عالم تمام حلقۂ دام خیال ہے‘ ۔۔۔۔یہ بات اپنی جگہ درست سہی، مگر سچا خیال بھی اسی وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب ٹھوس چیزوں پر نظر ہو۔ارسطو نے کہا ہے کہ نوجوان لوگ فلسفی نہیں بن سکتے کیونکہ ان کی اصول سازی اور خیال آرائی کے پیچھے خصوصی تجربات کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔اس اعتبار سے غالب اپنی فکری زندگی میں ہمیشہ لڑتے ہی رہے۔جہاں تک مفکر ہونے کا تعلق ہے غالب کیرکے گور کے گھٹنے تک بھی نہیں پہنچتے، لیکن کیرکے گور کا زبردست امتیاز یہی ہے کہ اس کا ہر خیال انفرادی یا اجتماعی زندگی کے کسی نہ کسی ٹھوس تجربے سے نکلتا ہے۔بہرحال غالب تو ایک ایسے رجحان کی نمائندگی کررہے تھے جو ہمارے معاشرے میں پیدا ہوچکا تھا۔یعنی فرد کے دل میں سماج سے الگ ہونے کی خواہش، جب فرد کی زندگی پرانے اجتماعی مناسبات سے واقعی الگ ہوگئی تو نیاز فتح پوری وغیرہ کا ادب سامنے آیا۔ان لوگوں کا عقیدہ تھا کہ ادیب کے تجربات عام آدمی کے تجربات سے الگ اور جمالیاتی نوعیت کے ہوتے ہیں اور ادیب تصورات کی دنیا میں رہتا ہے۔فارسی اور عربی کے الفاظ کی تعداد زیادہ ہوجانے کے یہی معنی ہیں۔ان ادیبوں کو تو یہی منظور تھا کہ اپنے تجربات کاا ختصاص اور ندرت دکھائیں اور اجتماعی تجربات کا سایہ تک اپنے اوپر نہ پڑپائے چنانچہ محاورے اسی لیے ترک کیے گئے تاکہ اجتماعی زندگی بن بلائے مہمان کی طرح نہ گھس پڑے۔
رہے سن 36کے بعد والے ادیب تو عقیدے کے اعتبار سے تو وہ اجتماعی زندگی کے قائل تھے مگر خاندان ، مذہب وغیرہ سماجی اداروں پر یقین نہ رکھتے تھے۔یعنی وہ موجودہ اجتماعی زندگی کو رد کرکے اپنا تعلق ایک آئندہ اور خیالی اجتماعی زندگی سے استوار کرنا چاہتے تھے۔پھر دوسری طرف کسی طرح کی اجتماعی زندگی سے انہیں جذباتی علاقہ نہ تھا۔۔۔اس کے مشاہدے کی خواہش ضرور تھی(یہاں میں ایک عام رجحان کا ذکر کررہا ہوں۔انفرادی حیثیت سے احمد علی، عصمت چغتائی، انتظار حسین وغیرہ میں زندگی سے محبت نظر آتی ہے)جو لوگ اجتماعی زندگی سے اس بری طرح کٹ گئے ہوں وہ اگر چاہیں بھی تو محاورے استعمال نہیں کرسکتے۔کیونکہ اجتماعی زندگی ان کی شخصیت میں اس طرح جذب ہی نہیں ہوئی، جیسے سرشار، نذیر احمد اور راشد الخیری میں رس بس گئی تھی۔یہ لوگ ’چراغ میں بتی پڑی‘ کہہ ہی نہیں سکتے۔کیونکہ شام کے تصور کے ساتھ ان کے ذہن میں اجتماعی زندگی کا کوئی منظر نہیں ابھرتا۔یہ تو ’چادرتاننا‘بھی نہیں کہہ سکتے۔کیونکہ انہیں انسانوں کے چھوٹے سے چھوٹے فعل سے وہ دلچسپی نہیں جو سرشار کو تھی۔یہ لوگ تو ایسی جگہ محض ’سونا‘ کہیں گے۔یعنی ایسا لفظ استعمال کریں گے جو ایک جسمانی فعل تو ضرور دکھائے مگر انسانی مناسبات سے خالی ہو۔
تو محاورے کا مسئلہ محض ادبی مسئلہ نہیں۔بلکہ ہماری پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی کا مسئلہ ہے۔ہمارے ذہن میں محاورے اس وقت آئیں گے۔جب ہم اجتماعی زندگی سے جذباتی تعلق رکھتے ہوں، اور اپنے معاشرے کو قبول کریں۔محاورے تو اجتماعی زندگی کی طرح شاعری میں اجتماعی زندگی کے (myths)ہیں۔جب تک ہمیں اجتماعی زندگی میں شاعری نظر آئے گی ہم محاورے بھی استعمال نہیں کرسکیں گے۔کیونکہ سماجی پس منظر بدل چکا ہے اور ان کے ذریعے ہمارے ذہن میں کوئی تصویر نہیں ابھرتی۔زندگی کی شکلیں بدل جاتیں تو محاورے بھی نئے بننے چاہئیں ۔لیکن غضب تو یہی ہوا ہے کہ نئے محاوروں کی پیدائش بالکل رک گئی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنی زندگی سے تخلیقی دلچسپی اور گہرا جذباتی تعلق باقی نہیں رہا۔دوسرے ہماری زندگی اجزا میں بٹ گئی ہے۔کل کا احساس غائب ہوگیا ہے۔ہم اپنے تجربات کو ایک دوسرے میں گھلا ملا کر ایک نہیں بنا سکتے۔اسی لیے ہمارا ذہن نئے محاورے ایجاد نہیں کرتا۔ذہن میں یہ صلاحیت تو اسی وقت آتی ہے جب فرد اور معاشرے میں سچا ربط ہو۔جان بوجھ کر محاوروں کی لین ڈوری لگادینے کا مطلب اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ یہ ایک نقلی ربط پیدا کرنے کی کوشش ہے۔محاورے اسی وقت قابو میں آئیں گے جب ادیبوں کو ہی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کے سب افراد کو اجتماعی زندگی میں ڈوب جانے کی لگ ہو، اور نئے محاورے اس وقت پیدا ہونگے جب فرد اور جماعت کا ربط اتنا گہرا ہو کہ ہمیں اس ربط کی موجودگی کا خیال بھی نہ آئے۔

منگل، 28 اکتوبر، 2014

عورت تو دیوی ہے، وہ پہلے سے تعلیم یافتہ ہے، اسے تعلیم کی کیا ضرورت ہے؟

(اوشو سے کیا جانے والا یہ سوال، دراصل لڑکیوں کے کالج میں ان کی کی گئی ایک تقریر کے بعد ایک آدمی نے کیا تھا، اوشو نے اپنے جواب کے آخر میں اس بات پر افسوس ظاہر کیا تھا کہ اتنی دیر لڑکیوں کے سامنے ، ان کے حقوق اور ان کی آزادی کے تعلق سے باتیں کرنے کے باوجودان میں سے کسی نے سوال نہ کیا، بلکہ ان کے تعلق سے محض ایک آدمی نے سوال داغا۔خیر، اوشو کی یہ تقریر بڑی دلچسپ ہے، اس میں دنیا بھر میں رائج لیڈیز فرسٹ کے تصور کو عورتوں کی ایک فریب کاربے عزتی سے تعبیر کیا گیا ہے، ساتھ ہی عورت کو سماج کے کن شعبوں میں سے مردکو بے دخل کردینا چاہیے اور کن شعبوں کی تعلیم اسے نہیں حاصل کرنی چاہیے اس پراوشو نے بہت تفصیل سے بات کی ہے۔اتفاق و اختلاف اپنی جگہ، مگر یہ تقاریر سوچنے کے فن میں ماہر بنانا جانتی ہیں۔مذکورہ تقریرکو اوشو کی عورتوں اور لڑکیوں کے تعلق سے جمع کردہ ایک کتاب ’ناری اور کرانتی‘ یعنی عورت اور انقلاب میں شامل کیا گیا ہے، جس کو ’سادگی سے بغاوت‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔)
 
سوال: ہندوستان میں ہم عورت کو برابری کا درجہ دیتے ہیں، عزت دیتے ہیں۔میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ امریکا جیسے ملک میں جہاں بچپن سے سوسائٹی میں آدمی اور عوت میں کسی بھی قسم کا فرق نہیں ہوتا ہے۔جہاں بچے آزادانہ ماحول میں ملتے ہیں،کھیلتے ہیں، کیا وہاں پر جو لوگ ہیں وہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ خلوص اور محبت کے ساتھ رہتے ہیں؟کیا وہاں کے بچے اپنے ماں باپ کی زندگی کے آدرش اور کارآمد مقاصد کے ساتھ بڑے ہوتے ہیں؟ہم لوگ جہاں تک جانتے ہیں، وہاں کے بچے روز روز خاندان سے ٹوٹ رہے ہیں، خاندان بکھر رہا ہے۔آپ کا اس تعلق سے کیا کہنا ہے؟

جواب: آپ نے دو تین باتیں اٹھائیں، وہ سب کار آمد ہیں اور سمجھنے جیسی ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم اس بھر م میں ہمیشہ سے رہے ہیں کہ ہم عورت کی عزت کرتے ہیں۔اصل میں عزت کی بات بہت دھوکے کی اور ڈس پوزیشن کی بات ہے۔کیونکہ جس عورت کی ہم عزت کرتے ہیں، اسے ہم نے ہزاروں سال تک تعلیم کیوں نہیں دی؟جس عورت کی ہم عزت کرتے ہیں اس عورت کو ہم نے نجات پانے کا حق کیوں نہیں دیا ہے۔جس عورت کی ہم عزت کرتے ہیں ،اس عورت کو ہم نے اونچا اٹھانے کے لیے پانچ ہزار سالوں میں کیا کیا؟ اگر عزت دل سے تھی تو اس کے نتائج دکھائی دیتے۔لیکن اس کے کوئی نتائج دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ہاں، عزت سیتا جیسی عورتوں کے لیے ہے، وہ عزت اس لیے ہے کہ اس عزت کے ذریعے ہم عورت کو مرد کا غلام بنانے کے لائق ہوسکیں۔عزت، ایک بہت بہتر ترکیب ہے۔

ابھی میں پٹنہ میں تھا۔تو ’پری‘ کے جگت گرو شنکر اچاریہ ایک سبھا میں بول رہے تھے ، میں بھی اس سبھا میں تھا۔وہ عورتوں کو سمجھا رہے تھے کہ ہم تو تمہیں سدا سے دیوی مانتے ہیں۔اس لیے ہم نے تمہیں تعلیم نہیں دی۔کیونکہ دیویوں کے لیے تعلیم کی کیا ضرورت، وہ تو علم لے کر ہی پیدا ہوتی ہیں۔انہوں نے ایک نہایت بھونڈی بات کہی، اور انہوں نے یہ کہا کہ ہندو مذہب میں عورتوں کو اس لیے تعلیم نہیں دی جاتی کہ ہم تو مانتے ہیں کہ عورت تو ہمیشہ سے تعلیم یافتہ ہے ہی۔اس لیے ہم نے تعلیم نہیں دی۔انہوں نے یہ بھی بڑے مزے کی بات کہی کہ ہندوستان میں اگرکوئی عورت پنڈت کی پتنی ہے تو پنڈت کی پتنی ہونے سے پنڈتائن ہوجاتی ہے، اسے الگ سے پنڈت ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔یہ کوئی عام آدمی کہہ رہا ہوتا تو ہنسی میں ٹالا جاسکتا تھا ۔جب شنکر اچاریہ کی حیثیت کا کوئی آدمی یہ کہے تو بات قابل غور و فکر ہے۔تب تو میں یہ کہوں گا کہ مہربانی فرما کر آپ عورتوں کو عزت نہ دیں۔اور عزت ضروری بھی نہیں ہے، عزت کی کوئی خاص وجہ بھی نہیں ہے۔نہ توعورتوں کو مردوں کو عزت دینے کی کوئی ضرورت ہے، نہ مردوں کو عورتوں کو۔دونوں برابر ہیں تو عزت کا سوال کہاں سے اٹھتا ہے۔اصل میں جہاں عزت ہے، وہاں بے عزتی بھی ہوگی۔برابری نہ عزت کرتی ہے ، نہ بے عزتی۔دونوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔برابری کافی ہے۔برابری کا مطلب ہے، دونوں کی عزت۔ہم دونوں ایک دوسرے کی اتنی عزت کرتے ہیں، جتنا دونوں کی برابری کے لیے ضروری ہے۔اس سے زیادہ کوئی ضرورت نہیں ہے۔عورت کو آسمان پر بٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔کیونکہ بٹھانے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے۔وہ اتنی ہی زمینی ہے، دیوی وغیرہ نہیں، جتنا کہ آدمی زمینی ہے۔
دوسری بات آپ نے نہایت اہم اٹھائی ہے۔وہ سوال یہ ہے کہ امریکا میں خاندان زیادہ دکھی ہے۔یہ بات سچ ہے، اسے میں قبول کرتا ہوں کہ امریکا میں خاندان زیادہ دکھی ہے، لیکن دوسری بات میں قبول نہیں کرتا کہ ہندوستان میں خاندان زیادہ سکھی ہے۔اور ایک قیمتی بات آپ کو سجھانا چاہتا ہوں کہ خاندان وہاں زیادہ دکھی اس لیے ہے کہ خاندان وہاں سکھی ہونے کی کوشش کررہا ہے۔وہاں خاندان کے دکھ کا جو سبب ہے ، وہ سکھ کی بڑھتی ہوئی شدت ہے۔اصل میں جس مقدار میں ہم سکھ کو بڑھاتے ہیں اس مقدار میں دکھ بھی بڑھ جاتا ہے۔
جیسے ہندوستان میں خاندان کم دکھی ہے، کیونکہ خاندان کم سکھی بھی ہے۔ہندوستان میں ہم نے وہ سارے خطرے ہی الگ کردیے ہیں جس سے سکھ ہوسکتا ہے، اگر کسی شخص کا بال وواہ(بچپن میں شادی)کیا گیاہے تو اس کی زندگی میں اور بھی خاندان کا دکھ کم ہوگا، کیونکہ سکھ بھی کم ہوگا۔اصل میں جو چیز جتنا سکھ دے سکتی ہے، اتنا ہی دکھ دے سکتی ہے۔دکھ اور سکھ کی صلاحیتیں برابر ہوتی ہیں۔اگر ایک آدمی نے محبت سے شادی کی ہے و اس کی زندگی میں دکھ زیادہ ہوتا ہے کیونکہ اس نے زندگی میں زیادہ سکھ پانے کی کوشش بھی کی ہے۔جب میں کسی سے محبت کرتا ہوں اور اس سے شادی کرتا ہوں تو جو سکھ میں پاتا ہوں وہ بال وواہ کرنے والا نہیں پاسکتا۔لازمی ہے کہ میں محبت کی شادی ٹوٹنے پر جو دکھ پاؤں گا، بال وواہ کرنے والا وہ کبھی نہیں پاسکتا، کیونکہ محبت تھی ہی نہیں ،تو ٹوٹے گی کیا خاک۔ٹوٹنے کے لیے بھی محبت تو ہونی ہی چاہیے۔ایک غریب آدمی اپنی غریبی میں اتنا دکھی نہیں ہوتا ، جتنا ایک امیر آدمی اچانک غریب ہوجانے پر ہوتا ہے۔لازمی ہے، کیونکہ امیر آدمی نے سکھ بھی جانا، غریب آدمی نے سکھ ہی نہیں جانا۔ایک امیر آدمی اگر غریب ہوتا ہے تو اسے غریبی اکھرتی ہے، غریب آدمی کو غریبی کبھی اتنی نہیں اکھرتی۔مگر اس کا کیا یہ مطلب ہے کہ ہم لوگوں کو یہ کہیں کہ امیر ہونے کی کوشش مت کرنا کیونکہ اگر غریب ہوگئے تو بہت تکلیف ہوگی،اس لیے غریب ہی بنے رہنا۔

نہیں، ہندوستان کی جو ترکیب تھی وہ یہ تھی کہ محبت ایک بہت ہی گہرا جذبہ ہے۔اس کا سکھ بہت گہرا ہے۔لیکن ظاہر ہے اتنے گہرے سکھ کو جو حاصل کرنے جائے گا، تو وہ کبھی اس کے ٹوٹ جانے پر اتنے ہی گہرے دکھ کا بھی شکار ہوجائے گا۔اس لیے ہم نے محبت کوراستے سے ہٹا ہی دیا تھا۔ہم پنڈت سے پوچھ لیتے تھے۔باپ طے کرتا تھا، ماں طے کرتی تھی،خاندان طے کرتا تھا۔صرف جن کی شادی ہونی تھی ،وہ ہی طے کرنے سے قاصر تھے، باقی سارے لوگ طے کرتے تھے۔ایک چھ سال، آٹھ سال، دس سال کے لڑکے کی آٹھ سال ، چھ سال کی لڑکی سے شادی ہورہی ہے۔یہ دونوں شادی میں پارٹی نہیں تھے، پارٹی دوسری تھیں جو شادی کرارہی تھیں۔ان کی زندگی میں کبھی دکھ زیادہ نہیں آئے گا،کیونکہ ان کی زندگی میں سکھ کبھی زیادہ نہیں آئے گا۔
سقراط سے کسی نے مرنے سے پہلے ایک سوال پوچھا تھاکہ تم اگر ایک مطمئین سور ہوسکوتو مطمئین سور ہونا پسند کروگے یا غیر مطمئین سقراط؟سقراط نے کہا کہ میں غیر مطمئین سقراط ہونا پسند کروں گا کیونکہ مطمئین سور کو یہ بھی خبر نہیں ہوگی کہ وہ مطمئین ہے۔مطمئین ہونے کی خبر ہوسکے، اس کے لیے غیر مطئمین ہونے کی صلاحیت بہت ضروری ہے۔تو میں مانتا ہوں کہ امریکا میں زیادہ دکھ پیدا ہوا ہے۔کیونکہ امریکا نے زیادہ سکھ چاہا ہے۔اور امریکا زیادہ سکھ کو تلاش کررہا ہے۔لیکن آپ کی حالت میں بہتر نہیں مانتا۔اگر آپ اور امریکا میں مجھے چننا پڑے تو میں امریکا کو چنوں گا، آپ کو نہیں چنوں گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا جو رسرچ کررہا ہے، وہ ابھی بیس پچیس تیس سال کی رسرچ ہے۔اگر امریکا کے تجربے کو دو سو سال کا موقع ملا تو امریکا مزید سکھ کو تلاش کرلے گا۔اور آپ پانچ ہزار سال سے اس تجربے کو کررہے ہیں اور کسی طرح کا سکھ نہیں تلاش کرسکے ہیں، اور آپ کا تجربہ اچھی طرح سے ناکام ہوگیا ہے، امریکا کے تجربے کو موقع ملنے دیں، وقت ملنے دیں، اور امریکا کے دکھ کی جو باتیں ہندوستان میں کی جاتی ہیں۔وہ ، وہ لوگ کرتے ہیں جو ہندوستان کی تہذیب کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ دیکھو وہاں کتنا دکھ ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے سکھ کو تلاش کیا ہے، جو سکھ کو بلائے گا، وہ دکھ بھی پائے گا۔اگر میں پہاڑ پر چڑھنا چاہوں گا تو میں کھائی میں گرنے کا خطرہ مول لیتا ہوں، اگر کھائی میں نہ گرنا ہو تو سیدھی زمین پر چلنا بہتر ہے۔سیدھی زمین پر چلنے والا کہہ سکتا ہے کہ دیکھو وہ جو ایوریسٹ پر چڑھ رہا ہے ، کھائی میں گرگیا، ہم کبھی نہیں گرتے۔آپ کبھی نہیں گرتے، یہ سچ ہے، لیکن آپ کبھی اٹھتے بھی نہیں ، یہ بھی سچ ہے۔اور آپ گرتے اس لیے نہیں ، کہ آپ کبھی چڑھتے بھی نہیں۔لیکن میں مانتا ہوں کہ جوکھم اٹھانا یا رسک لینا ہی چاہیے۔اور یہ بھی میں جانتا ہوں کہ امریکا میں خاندان میں استقلال کی کمی ہوگئی ہے، اور یہ کمی بڑھتی ہی جائے گی۔اگر خاندان میں استقلال قائم رکھنا ہے تو اسے محبت سے بچانا ضروری ہے، تب خاندان ایک ڈیڈ انسٹی ٹیوشن ہے، جو مرے گا نہیں۔کیونکہ وہ پہلے سے ہی مرا ہوا ہے۔مردے کبھی نہیں مرتے۔اس لیے ہوسکتا ہے قبروں میں گڑے مردے یہ سوچتے ہوں کہ ہم بڑے مزے میں ہیں، کیونکہ ہم کبھی نہیں مرتے۔بستی میں جو لوگ ہیں وہ بڑے دکھ میں ہیں۔کیونکہ انہیں مرنا پڑتا ہے۔اصل میں جو نظام پہلے سے مردہ ہوتا ہے، وہ کبھی نہیں مرتا۔امریکا نے خطرہ مول لیا اور میں چاہتا ہوں کہ ہندوستان کے بیٹے اور بیٹیاں بھی وہ خطرہ مول لیں۔میں کیوں چاہتا ہوں؟ کیونکہ اس خطرے کے مول لینے کے ساتھ تکلیف تو آئے گی، جوکھم تو اٹھانا پڑے گا، مگر سکھ کی امید بھی پیدا ہوجائے گی اور جب سکھ اور دکھ کی امید پوری طرح پیدا ہوجائے گی تو ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم کیا چنتے ہیں؟اگر ہمیں دکھ چننا ہے تو ہم دکھ چن سکتے ہیں اور اگر ہمیں سکھ چننا ہے تو ہم سکھ چن سکتے ہیں۔اس ملک نے کچھ ایسا انتظام کیا ہے کہ ان میں سے کسی کا بھی انتخاب کرنا آپ کے ہاتھ میں نہیں ہے۔
ایک بڑی مزیدار بات ہے۔ماں کو ہم کبھی بدل نہیں سکتے ، میری ماں جو ہے، وہ ہے، کیونکہ میں اس کے یہاں پیدا ہوگیا۔اب ماں کو بدلنا ممکن نہیں۔باپ کو بھی میں نہیں بدل سکتا، میں اپنے بھائی کو نہیں بدل سکتا، بہن کونہیں بدل سکتا، یہ سب گون فیکٹرس (Given Factors)ہیں۔ان کو میں پہلے سے اپنے ارد گرد پاتا ہوں، یہ میرے فیصلے کے مطابق میرے نہیں ہیں۔صرف ایک فیصلے کا امکان ہے میری زندگی میں کہ میں اپنی بیوی کو چن سکتا ہوں، اور کوئی دوسرا فیصلہ نہیں ہے۔باقی تمام رشتے طے ہیں۔ہندوستان کی چال یہ تھی کہ بیوی کو بھی ’گون‘ بنادیا گیا تھا۔اس کے بھی انتخاب کا کوئی راستہ نہیں تھا۔آدمی جب ہوش میں آتا تو وہ پہلے سے اپنی بیوی کو موجود پاتا۔جب وہ محبت کرنے کے لائق ہوتا تو اسے معلوم ہوتا کہ بیوی موجود ہے، شوہر موجود ہے، یہ بھی گون فیکٹرس تھے۔لیکن دھیان رہے زندگی جتنا انتخاب کرتی ہے، اتنی فری ہوتی ہے۔میں مانتا ہوں کہ انسان کا ایک بہت بڑا حق ہندوستان نے ضبط کررکھا تھا۔جہاں حق ہوتا ہے، وہاں بھول کا اندیشہ ہے۔قیدی کوئی بھول نہیں کرتے، کیونکہ ہاتھ میں زنجیریں ہوتی ہیں، بھول تو آزاد لوگ کرتے ہیں، جہاں ہاتھ میں زنجیریں نہیں ہوتیں،لیکن پھر بھی میں میں قیدی ہونے کے حق میں نہیں ہوں۔کیونکہ وہاں کوئی بھول نہیں ہوتی،میں میں سڑک پر چلنے کے حق میں ہوں جہاں بھول ہوسکتی ہے۔
لیکن وہ بھول ہم کریں ، یہ ضروری نہیں۔امریکا میں جو بھول ہورہی ہے، وہ ہم بھی کریں، یہ ضروری نہیں ہے اور امریکا کے بچے بھی بہت زیادہ دنوں تک کریں گے ، یہ بھی ضروری نہیں ہے۔اور امریکا کے بچے جو بھول کررہے ہیں اس کے لیے وہ بچے ذمہ دار نہیں ہیں، امریکا کی مری ہوئی ہزاروں نسلیں ذمہ دار ہیں۔اس کاسبب ہے کہ اگر کچھ لوگوں کوہم صدیوں تک بھوکا رکھیں اور پھریکدم انہیں کھانے کی آزادی مل جائے تو لوگ اگر زیادہ کھا جائیں تو اسے کھانے کی آزادی کی ذمہ داری نہیں کہا جاسکتا، یہ ہزاروں سال کی بھوک کا نتیجہ ہے۔امریکا میں ہزاروں سالوں تک جس عیسائیت کا اثر تھا، سیکڑوں سالوں سے یورپ میں جو عیسائیت حاوی ہے، اس نے لوگوں کی جنسی اشتہا بڑھا دی ہے۔اس نے لوگوں کی جنسی خواہشوں کو دبایا ہے، اب ایک دم سے آزادی ملی ہے تو لوگ دوسری حد تک پہنچ گئے ہیں۔لیکن زیادہ دنوں تک یہ حالات نہیں رہیں گے۔وہ واپس لوٹ آئیں گے۔ہم بھی اسی حالت میں ہیں، ہمیں بھی بہت ڈر لگتا ہے کہ ہم نے اگر محبت کی آزادی دے دی تو کہیں خاندانی نظام درہم برہم نہ ہوجائے۔لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ اگر محبت کے بغیر خاندان بچتا ہے تو بچانے لائق نہیں ہے۔ہم کیوں بچائیں اسے؟اور اگر محبت کے ساتھ خاندان ٹوٹتا بھی ہے، تب بھی یہ جوکھم اٹھانا چاہیے۔لیکن میں نہیں مانتا کہ محبت کے ساتھ خاندان ٹوٹ ہی جائے گا، سو پچاس برسوں کے عرصے میں خاندان اکھڑ سکتا ہے، مگر وہ لوٹ آئے گا۔روس میں جب پہلی دفعہ طلاق شروع ہوئی تو طلاق کا آنکڑا ایک دم بڑھ گیا ، تیس اور پیتیس فی صد تک طلاق پہنچ گئی ، روس کے سیاسی افراد بہت گھبرائے اور انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تب تو سوفی صد تک بھی طلاق پہنچ سکتی ہے۔لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری، طلاق کا آنکڑا نیچے گرگیا۔آج روس میں تقریباً پانچ فی صد طلاق رہ گئی ہے۔اور روس کے مفکرین کا خیال ہے کہ آنے والی صدی میں طلاق اور کم ہوجائے گی۔اصل میں کوئی بھی قید سے جب ایک دم چھوٹتا ہے تو دوسری حد پر پہنچ جاتا ہے۔امریکا میں ایسا ہوا ہے، لیکن ہم بھی ایسا ہی کریں، یہ ضروری نہیں ہے۔لیکن اگر ہم نے اپنے بچوں کو بہت دن تک روکا تو ویسا ہی ہوگا جیسا امریکا کے باپوں نے اپنے بچوں کو روک کر کروایا ہے۔

اگر ہندوستان کے ماں باپ سمجھدار ہیں تو انہیں دھیرے دھیرے بند ڈھیلے کردینے چاہیے،ایک دم سے نہیں، بہت آہستگی سے بند ٹوٹ جانے چاہیے کہ ہمیں پتہ بھی نہ چلے کہ ہم کب قید سے آزاد ہوگئے ہیں۔اگر ایک دم سے بند ٹوٹتے ہیں تو خطرے ہوتے ہیں۔امریکا میں جو خطرہ ہوا ہے ، وہ ہمیں اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے، مگر امریکا کے خطرے سے ڈر کر ہم جو ہیں، ہمیں وہی بنے رہنے کی اور بھی ضرورت نہیں ہے۔اس کے اور بہت سے پہلوہیں۔جن پر میں کبھی دوبارہ آپ سے بات کروں گا۔لیکن ایک بات میں جو بھی کہتا ہوں، وہ ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔میں جو بھی کہتا ہوں وہ سوچنے کے لیے کافی ہے۔آپ سوچیں اتنا کافی ہے۔مجھ سے راضی ہوں، یہ ضروری نہیں، میں اتنا ہی کرپاؤں کہ آپ سوچنے کے لائق ہوجائیں تو میرا کام مکمل ہوجائے گا، آپ مجھ سے راضی ہونگے ، اس کی مجھے کوئی خواہش نہیں ہے۔جلدی کسی سے راضی ہونا بھی نہیں چاہیے، وہ کمزور دماغ کا ثبوت ہے۔سوچنا چاہیے، لڑنا چاہیے، جھگڑنا چاہیے۔اپنے من میں پوری طرح لڑیں،جھگڑیں مجھ سے۔


کتاب کی پہلی اشاعت: 2007

پیر، 27 اکتوبر، 2014

غیر تخلیقی حس اور ادب کا معاملہ


جب پہلی بار یہ اصطلاح میرے ذہن میں پیدا ہوئی تو میں نے خود غور کیا کہ تخلیقی حس کے بارے میں تو کئی بار سوچا ہے، اس پر گفتگو کی ہے، اس کے بارے میں بہت کچھ کہا سنا جاسکتا ہے، مگر اس غیر تخلیقی حس کو میں کیسے خود پر واضح کروں گا، اور آخر اس اصطلاح کاادب سے کیا علاقہ ہے،ظاہر سی بات ہے کہ جن محسوسات میں اپنے غیر تخلیقی ہونے کا جواز موجود ہو، وہ ادب کا حصہ کیسے بن سکتی ہیں۔مگر اردو ادب کی جو صورت حال ہے، آئے دن سرکاری، غیر سرکاری اردو کے رسائل میں جس طرح کی تحریریں، شاعری یا افسانے شائع ہوتے ہیں، اس کو دیکھ کر بعض دفعہ اس اصطلاح پر غور کرنے اور اسے خود پر واضح کرتے رہنے کو میں ضروری سمجھتا ہوں۔ادب کیا ہے، ادب کا سارا سروکار تخلیق سے ہے، تخلیق کا واسطہ اس بنیادی احساس سے ہے جو لکھنے والے کو کسی واقعے کے پیدا کرنے یا تاریخ کے کسی واقعے کو نئے سرے سے زندہ کرنے اور اس میں اپنے اندرون کی ہلچل کو دکھانے کی قوت عطا کرتا ہے۔یہ احساس کہاں سے آتا ہے، کیا یہ کوئی ماورائی شے ہے؟ کیا واقعی خداداد نامی کوئی چیز ہے، جسے ہمیں تسلیم کرنا ہوگا۔آخر کیوں لکھنے کی جانب لوگ عموماً کم عمری سے ہی راغب ہوتے ہیں، مگر ایسی بھی کئی مثالیں ہیں، جن کی زندگی میں لکھنے والا بچہ ان کی ادھیڑ عمر میں اندر ہی اندر اچانک پیدا ہوگیا،یا پھر کچھ ایسے ہیں جنہوں نے زندگی کے کسی خاص حصے میں کچھ اچھی تحریریں لکھیں اور پھر ساری عمر خاموش رہے۔پھر اگر کوئی شے خداداد ہے تو اس کا احاطہ کس طرح کیا جاسکتا ہے۔سائنس کی مانیں تو ہمارے رائٹر ہوسکنے کی صلاحیت ہمارے جینوٹائپ میں زندگی کے جرثوموں کی بناوٹ کے وقت سے موجود ہوتی ہے۔مگر اس لکھنے کی صلاحیت کے آگے کا مسئلہ دوسرا ہے۔یعنی کہ میں لکھ سکتا ہوں، یہ ایک خداداد صلاحیت ہوسکتی ہے، مگر حس اور خاص طور پر تخلیقی حس مجھے کچھ بیرونی چیزوں کی بدولت حاصل ہوتی ہے، جیسے کہ زندگی کا مشاہدہ، کچھ الگ ہونے کی خواہش اور ماحول کی بہت ساری ادلتی بدلتی چیزیں۔پھر اس پر اصرار ضروری ہے کہ مجھے جو لکھنا ہے، وہ دوسروں سے ہٹ کر لکھنا ہے، اور یہ اصرار اتنا شدید ہونا چاہیے کہ اسے لاشعور کا ایک حقیقی جز بن جانا چاہیے، اب یہ الگ ہونا، ہٹ کر لکھنا۔اس کے خارجی اصول طے نہیں ہوسکتے، اس کے لیے دماغ میں نئے لفظوں کی کھپت، خیالات کو یکسر الٹ کر دیکھتے رہنے کی عادت اور ادب کے میدان میں خود کو آزاد ، بہت آزاد رکھنے کی ضرورت ہے۔اردو میں تخلیقی حس کے زیادہ پروان نہ چڑھ پانے کے پیچھے کچھ عجیب سی مجبوریاں ہیں۔اول تو ہمارے جو چنندہ شاعر و افسانہ نگار، جن کے اندر کچھ اچھا لکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، وہ بہت جلد اس ترکیب کو نظر انداز کردیتے ہیں جو تحریر کو رواں بناتی ہے، جس کے ذریعے تخلیق بے ڈھب اور بے ترتیب ہوتے ہوئے بھی متن سے باہر نکل کر قاری کے آس پاس منڈراتے رہنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔پھر جلد ہی شہرت پالینے اور اس کے ذریعے کچھ نہ کچھ حاصل کرتے رہنے کا مسئلہ، جیسے اوندھے سیدھے سیمناروں یا مشاعروں کا حصہ بننے کی خواہش، خواہ اس میں کتنے ہی بے تکے لوگ شرکت کررہے ہوں۔اس سے بہتر ہے کہ انسان اپنا وقت آرٹ کے کسی دوسرے شعبے کا شعور پیدا کرنے میں صرف کردے، جیسے کوئی بہترین فلم دیکھ لینا، اچھے گانے سننا،کوئی اچھا ناول پڑھنا، قدرت کے تراشے ہوئے کسی بہترین منظر کا لطف لینا، ہواؤں سے لڑنا یا پھر شراب پی لینا۔ان سب سے ہمیں اپنے لاشعور میں ایک قسم کی جرات پیدا کرنے کا حوصلہ ملے گا۔تخلیقی سطح پر خود کو ہوشیار بنانے کی ایک ترکیب یہ بھی ہے کہ ہم خود کو رد کرنا سیکھیں۔رد کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم لکھ لکھ کر چیزیں کاٹیں، بلکہ ہمارے خیالات ہمیں تخلیق کے نام پر جس کہانی یا شعر یا دوسرے وسیلۂ اظہار کی طرف لے جائیں ہم اس میں داخل ہونے سے پہلے خیالات کی ترتیب کو ٹٹولیں، ان کے کھرے کھوٹے ہونے کا فرق محسوس کریں اور سمجھیں کہ ان میں کس پہلوسے کوئی نئی بات موجود ہے۔یہ بات فی الواقع کہی جاسکتی ہے کہ ادب میں یہ تمام باتیں بہت شعوری سطح پر نہیں ممکن ہیں۔اس لیے ہمیں اس پوری ترتیب کو اپنی فطرت کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔ہمیں کلاسیک کی نبض پر انگلی رکھ کر اس کی بہتی ہوئی زندگی، تازہ کاری اور خوش اسلوبی کے اسباب دریافت کرنے چاہیے۔لکھنا یا لکھ دینا کوئی کمال نہیں۔واقعہ سادہ ہو یا اس میں کتنا ہی نمک مرچ لگا ہوا ہو۔ہمیں ادب اور غیر ادب میں تمیز کرنے کے بعد تخلیق کے معیارات بھی خود پر نمایاں کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ویسے یہ بات ضمنی سی ہے مگر مجھے کہنا چاہیے کہ اگر ہم ایک اچھا ادبی معاشرہ بنانا چاہتے ہیں، جس میں چاہے دس بارہ اچھے ادیب ہی کیوں نہ ہوں تو ان کو مشاعروں اور سستے سیمناروں سے بچنا چاہیے،کیونکہ آج کل کے ان پروگراموں میں جس طرح کے لوگ شرکت کررہے ہیں ، وہ زیادہ تر بے وقوف قسم کے، الھڑ اورغیر علمی لوگ ہیں، جن کا ادب سے دور کا بھی واسطہ نہیں،جو صرف کسی یونیورسٹی کے برائے نام پروفیسر ہیںیا پھر میراجی اور منٹو جیسا حلیہ بنا کر پھرنے والے جعلی ادیب یا ایسے کچھ لوگ جن کو شاعری میں سیاست، سماج اور ایسے ہی قسم کے دوسرے موضوعات کو ٹھونسنے کا بڑا شوق ہے، شاعری مشاعروں میں اب ایک بکنے والی رانڈ کی ہی طرح ہے۔ہاتھ ہلا ہلا کر ایک متشاعر شخص اس کے کپڑوں کو ادھیڑتا ہے، سامعین چیخ چیخ کر اس ننگی، ادھ مری اور لٹی ہوئی شاعری کو خوشی سے دیکھتے اور شور مچاتے ہیں، ہندی میں لکھی ہوئی غزلیں، نظمیں پڑھنے والے خود کو اردو کا ادیب اور شاعر کہلوانا پسند کرتے ہیں۔یہ کوئی تعصب کی بات نہیں اور نہ میری شخصیت کے ساتھ ایسا کوئی متعصبانہ بھوت وابستہ ہے، جو ہندی اردو کے قضیے کو اور ہوا دینا چاہتا ہو، مگر مجھے یہ بات کہنے میں ذرا بھی جھجھکنا نہیں چاہیے کہ ہندی میں لکھی ہوئی غزلیں، ہندی شاعری ہی کا حصہ ہوسکتی ہیں، اردو کا نہیں، ویسے تو مشاعرے میں جو لوگ اردو میں لکھا ہوا کلام پڑھتے ہیں وہ بھی اردو ادب کا حصہ نہیں ہوتا۔مگر ہندی میں لکھنے والوں کے لیے میں یہ بات وثوق سے اس لیے کہہ سکتا ہوں کیونکہ جتنی ہلکی پھلکی اردو وہ اپنی شاعری میں استعمال کرتے ہیں،اتنا تو سدرشن فاخر جیسے ہندی غزل گو بھی استعمال کرلیا کرتے ہیں۔ادبیت تو ایک دور کا مسئلہ ہے، مگر لسانی سطح پر بھی مشاعرے ایک بھیانک سیاسی ٹولی یا اجتماع کا بدل ہوتے جارہے ہیں۔قیصرالجعفری جیسے شاعروں تک بھی مشاعرے کا میدان، طوائف کا بستر نہیں بنا تھا، لیکن اب صورت حال بدل چکی ہے۔اب ہر سنجیدہ اردو داں شخص کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اردو کی ترقی کے نام پر گلیوں، چوراہوں،محلوں اور ہوٹلوں میں جو مشاعرے منعقد ہورہے ہیں، وہ اردو کے ارتقا کے بجائے اس کی شرمندگی کاباعث زیادہ ہیں۔اس میں شرکت کرنے والوں کے درمیان ادبی وقار تو دور کی بات ہے، ادبی پھکڑ پن بھی اچھی طرح پیدا نہیں ہوپائے گا۔ان تمام لوگوں میں جو شہرت کے ایسے وسائل ڈھونڈتے ہیں، ایک قسم کی غیر تخلیقی حس ہوتی ہے۔جو انہیں پہلے ہی اس بات کا احساس کروادیتی ہے کہ ان میں فیض احمد فیض، راشد، میراجی یا عصمت چغتائی ہونے کی صلاحیت موجود نہیں ہے، چنانچہ یہ اس کی عزت کرتے ہوئے اپنے آپ کو ادب کے اس ریڈ ایریا میں دھکیلنے پر تیار ہوجاتے ہیں، جہاں ہونٹوں پر گاڑھی لپ اسٹک لگائے، شہرت کی کالی، بدہنگم اور ہزاروں جسموں کے نیچے سے گزرنے والی دیوی، ان کے ساتھ ہم بستری پر گالیاں بکتے ہوئے، انہیں شرمناک پھبکیاں کستے ہوئے تیار ہوجاتی ہے، اور یہ اسے ہی اپنی ذات کی تسکین کا ایک اہم ذریعہ بنالیتے ہیں۔مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ اس مشاعراتی بدنظمی کا شکار صرف بد ترین اور گھامڑ قسم کے لوگ ہی نہیں ہوتے، بلکہ اچھی صلاحیتوں والے کچھ نوجوان بھی خود کو چند سکوں یا چند تعریفی جملوں کے بدلے زنگ لگوانے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔

اس کے برعکس ایک اور قسم کے لوگ ہیں جو اس طرح کی غیر تخَلیقی حس کو قبول کرتے ہیں، مگر وہ تخلیقیت پر بے ہودہ اصرار کرنے یا اس کو ماننے کے باوجود خود کو ذلیل و خوار کرنے سے بچانے کے لیے اپنی ذات پر محنت کرتے ہیں، وہ ادب کے اہم مسائل کو سمجھنے ، اس کی افہام و تفہیم اور اپنے رد وقبول کے مسائل پر غور کرتے ہیں، تو ایک اچھی خاصی مشقت کے بعد ان میں تخلیق اور اس کے اہم مسائل سے نپٹنے کی ہمت پیدا ہوجاتی ہے۔وہ خود کو ڈبو ڈبو کر تیراکی کا ہنر سیکھتے ہیں اور کنارے پر پہنچنے سے بھی خود کو باز رکھتے ہیں۔ادب اسی قسم کی غیر تخلیقی حس کا خیر مقدم کرتا ہے۔اس میں ایسے لوگوں کے لیے بڑی جگہ ہے جو اپنی کمزوریوں، اپنی غلطیوں اور اپنی بے وقوفیوں کو بے شرمی سے قبول کرلیں۔ان کے اندر چٹانوں سی ڈھٹائی نہ ہو،بلکہ پانی سی روانی ہو۔وہ مسلسل آگے بڑھنے اور اپنے آپ کو ہر لمحہ ایک نئے ذہنی خلفشار کی نذر کرنے پر تیار ہوں۔کیونکہ وہ سمجھ جاتے ہیں کہ بہرحال ادب کے بازار میں خیال کی قیمتیں زیادہ ہیں اور یہاں شہرت کے سکے بھی اکثر کھوٹے ثابت ہوتے ہیں۔
نئی دہلی
موبائل: +91-9540391666
sayyed.tasneef@gmail.com

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *