(اوشو سے کیا جانے والا یہ سوال، دراصل لڑکیوں کے کالج میں ان کی کی گئی
ایک تقریر کے بعد ایک آدمی نے کیا تھا، اوشو نے اپنے جواب کے آخر میں اس
بات پر افسوس ظاہر کیا تھا کہ اتنی دیر لڑکیوں کے سامنے ، ان کے حقوق اور
ان کی آزادی کے تعلق سے باتیں کرنے کے باوجودان میں سے کسی نے سوال نہ کیا،
بلکہ ان کے تعلق سے محض ایک آدمی نے سوال داغا۔خیر، اوشو کی یہ تقریر بڑی
دلچسپ ہے، اس میں دنیا بھر میں رائج لیڈیز فرسٹ کے تصور کو عورتوں کی ایک
فریب کاربے عزتی سے تعبیر کیا گیا ہے، ساتھ ہی عورت کو سماج کے کن شعبوں
میں سے مردکو بے دخل کردینا چاہیے اور کن شعبوں کی تعلیم اسے نہیں حاصل
کرنی چاہیے اس پراوشو نے بہت تفصیل سے بات کی ہے۔اتفاق و اختلاف اپنی جگہ،
مگر یہ تقاریر سوچنے کے فن میں ماہر بنانا جانتی ہیں۔مذکورہ تقریرکو اوشو
کی عورتوں اور لڑکیوں کے تعلق سے جمع کردہ ایک کتاب ’ناری اور کرانتی‘ یعنی
عورت اور انقلاب میں شامل کیا گیا ہے، جس کو ’سادگی سے بغاوت‘ کا عنوان
دیا گیا ہے۔)
سوال: ہندوستان میں ہم عورت کو برابری کا درجہ دیتے ہیں، عزت دیتے ہیں۔میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ امریکا جیسے ملک میں جہاں بچپن سے سوسائٹی میں آدمی اور عوت میں کسی بھی قسم کا فرق نہیں ہوتا ہے۔جہاں بچے آزادانہ ماحول میں ملتے ہیں،کھیلتے ہیں، کیا وہاں پر جو لوگ ہیں وہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ خلوص اور محبت کے ساتھ رہتے ہیں؟کیا وہاں کے بچے اپنے ماں باپ کی زندگی کے آدرش اور کارآمد مقاصد کے ساتھ بڑے ہوتے ہیں؟ہم لوگ جہاں تک جانتے ہیں، وہاں کے بچے روز روز خاندان سے ٹوٹ رہے ہیں، خاندان بکھر رہا ہے۔آپ کا اس تعلق سے کیا کہنا ہے؟
جواب: آپ نے دو تین باتیں اٹھائیں، وہ سب کار آمد ہیں اور سمجھنے جیسی ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم اس بھر م میں ہمیشہ سے رہے ہیں کہ ہم عورت کی عزت کرتے ہیں۔اصل میں عزت کی بات بہت دھوکے کی اور ڈس پوزیشن کی بات ہے۔کیونکہ جس عورت کی ہم عزت کرتے ہیں، اسے ہم نے ہزاروں سال تک تعلیم کیوں نہیں دی؟جس عورت کی ہم عزت کرتے ہیں اس عورت کو ہم نے نجات پانے کا حق کیوں نہیں دیا ہے۔جس عورت کی ہم عزت کرتے ہیں ،اس عورت کو ہم نے اونچا اٹھانے کے لیے پانچ ہزار سالوں میں کیا کیا؟ اگر عزت دل سے تھی تو اس کے نتائج دکھائی دیتے۔لیکن اس کے کوئی نتائج دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ہاں، عزت سیتا جیسی عورتوں کے لیے ہے، وہ عزت اس لیے ہے کہ اس عزت کے ذریعے ہم عورت کو مرد کا غلام بنانے کے لائق ہوسکیں۔عزت، ایک بہت بہتر ترکیب ہے۔
ابھی میں
پٹنہ میں تھا۔تو ’پری‘ کے جگت گرو شنکر اچاریہ ایک سبھا میں بول رہے تھے ،
میں بھی اس سبھا میں تھا۔وہ عورتوں کو سمجھا رہے تھے کہ ہم تو تمہیں سدا سے
دیوی مانتے ہیں۔اس لیے ہم نے تمہیں تعلیم نہیں دی۔کیونکہ دیویوں کے لیے
تعلیم کی کیا ضرورت، وہ تو علم لے کر ہی پیدا ہوتی ہیں۔انہوں نے ایک نہایت
بھونڈی بات کہی، اور انہوں نے یہ کہا کہ ہندو مذہب میں عورتوں کو اس لیے
تعلیم نہیں دی جاتی کہ ہم تو مانتے ہیں کہ عورت تو ہمیشہ سے تعلیم یافتہ ہے
ہی۔اس لیے ہم نے تعلیم نہیں دی۔انہوں نے یہ بھی بڑے مزے کی بات کہی کہ
ہندوستان میں اگرکوئی عورت پنڈت کی پتنی ہے تو پنڈت کی پتنی ہونے سے
پنڈتائن ہوجاتی ہے، اسے الگ سے پنڈت ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔یہ کوئی
عام آدمی کہہ رہا ہوتا تو ہنسی میں ٹالا جاسکتا تھا ۔جب شنکر اچاریہ کی
حیثیت کا کوئی آدمی یہ کہے تو بات قابل غور و فکر ہے۔تب تو میں یہ کہوں گا
کہ مہربانی فرما کر آپ عورتوں کو عزت نہ دیں۔اور عزت ضروری بھی نہیں ہے،
عزت کی کوئی خاص وجہ بھی نہیں ہے۔نہ توعورتوں کو مردوں کو عزت دینے کی کوئی
ضرورت ہے، نہ مردوں کو عورتوں کو۔دونوں برابر ہیں تو عزت کا سوال کہاں سے
اٹھتا ہے۔اصل میں جہاں عزت ہے، وہاں بے عزتی بھی ہوگی۔برابری نہ عزت کرتی
ہے ، نہ بے عزتی۔دونوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔برابری کافی ہے۔برابری کا
مطلب ہے، دونوں کی عزت۔ہم دونوں ایک دوسرے کی اتنی عزت کرتے ہیں، جتنا
دونوں کی برابری کے لیے ضروری ہے۔اس سے زیادہ کوئی ضرورت نہیں ہے۔عورت کو
آسمان پر بٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔کیونکہ بٹھانے کی کوئی وجہ بھی نہیں
ہے۔وہ اتنی ہی زمینی ہے، دیوی وغیرہ نہیں، جتنا کہ آدمی زمینی ہے۔
دوسری بات آپ نے نہایت اہم اٹھائی ہے۔وہ سوال یہ ہے کہ امریکا میں خاندان زیادہ دکھی ہے۔یہ بات سچ ہے، اسے میں قبول کرتا ہوں کہ امریکا میں خاندان زیادہ دکھی ہے، لیکن دوسری بات میں قبول نہیں کرتا کہ ہندوستان میں خاندان زیادہ سکھی ہے۔اور ایک قیمتی بات آپ کو سجھانا چاہتا ہوں کہ خاندان وہاں زیادہ دکھی اس لیے ہے کہ خاندان وہاں سکھی ہونے کی کوشش کررہا ہے۔وہاں خاندان کے دکھ کا جو سبب ہے ، وہ سکھ کی بڑھتی ہوئی شدت ہے۔اصل میں جس مقدار میں ہم سکھ کو بڑھاتے ہیں اس مقدار میں دکھ بھی بڑھ جاتا ہے۔
جیسے ہندوستان میں خاندان کم دکھی ہے، کیونکہ خاندان کم سکھی بھی ہے۔ہندوستان میں ہم نے وہ سارے خطرے ہی الگ کردیے ہیں جس سے سکھ ہوسکتا ہے، اگر کسی شخص کا بال وواہ(بچپن میں شادی)کیا گیاہے تو اس کی زندگی میں اور بھی خاندان کا دکھ کم ہوگا، کیونکہ سکھ بھی کم ہوگا۔اصل میں جو چیز جتنا سکھ دے سکتی ہے، اتنا ہی دکھ دے سکتی ہے۔دکھ اور سکھ کی صلاحیتیں برابر ہوتی ہیں۔اگر ایک آدمی نے محبت سے شادی کی ہے و اس کی زندگی میں دکھ زیادہ ہوتا ہے کیونکہ اس نے زندگی میں زیادہ سکھ پانے کی کوشش بھی کی ہے۔جب میں کسی سے محبت کرتا ہوں اور اس سے شادی کرتا ہوں تو جو سکھ میں پاتا ہوں وہ بال وواہ کرنے والا نہیں پاسکتا۔لازمی ہے کہ میں محبت کی شادی ٹوٹنے پر جو دکھ پاؤں گا، بال وواہ کرنے والا وہ کبھی نہیں پاسکتا، کیونکہ محبت تھی ہی نہیں ،تو ٹوٹے گی کیا خاک۔ٹوٹنے کے لیے بھی محبت تو ہونی ہی چاہیے۔ایک غریب آدمی اپنی غریبی میں اتنا دکھی نہیں ہوتا ، جتنا ایک امیر آدمی اچانک غریب ہوجانے پر ہوتا ہے۔لازمی ہے، کیونکہ امیر آدمی نے سکھ بھی جانا، غریب آدمی نے سکھ ہی نہیں جانا۔ایک امیر آدمی اگر غریب ہوتا ہے تو اسے غریبی اکھرتی ہے، غریب آدمی کو غریبی کبھی اتنی نہیں اکھرتی۔مگر اس کا کیا یہ مطلب ہے کہ ہم لوگوں کو یہ کہیں کہ امیر ہونے کی کوشش مت کرنا کیونکہ اگر غریب ہوگئے تو بہت تکلیف ہوگی،اس لیے غریب ہی بنے رہنا۔
دوسری بات آپ نے نہایت اہم اٹھائی ہے۔وہ سوال یہ ہے کہ امریکا میں خاندان زیادہ دکھی ہے۔یہ بات سچ ہے، اسے میں قبول کرتا ہوں کہ امریکا میں خاندان زیادہ دکھی ہے، لیکن دوسری بات میں قبول نہیں کرتا کہ ہندوستان میں خاندان زیادہ سکھی ہے۔اور ایک قیمتی بات آپ کو سجھانا چاہتا ہوں کہ خاندان وہاں زیادہ دکھی اس لیے ہے کہ خاندان وہاں سکھی ہونے کی کوشش کررہا ہے۔وہاں خاندان کے دکھ کا جو سبب ہے ، وہ سکھ کی بڑھتی ہوئی شدت ہے۔اصل میں جس مقدار میں ہم سکھ کو بڑھاتے ہیں اس مقدار میں دکھ بھی بڑھ جاتا ہے۔
جیسے ہندوستان میں خاندان کم دکھی ہے، کیونکہ خاندان کم سکھی بھی ہے۔ہندوستان میں ہم نے وہ سارے خطرے ہی الگ کردیے ہیں جس سے سکھ ہوسکتا ہے، اگر کسی شخص کا بال وواہ(بچپن میں شادی)کیا گیاہے تو اس کی زندگی میں اور بھی خاندان کا دکھ کم ہوگا، کیونکہ سکھ بھی کم ہوگا۔اصل میں جو چیز جتنا سکھ دے سکتی ہے، اتنا ہی دکھ دے سکتی ہے۔دکھ اور سکھ کی صلاحیتیں برابر ہوتی ہیں۔اگر ایک آدمی نے محبت سے شادی کی ہے و اس کی زندگی میں دکھ زیادہ ہوتا ہے کیونکہ اس نے زندگی میں زیادہ سکھ پانے کی کوشش بھی کی ہے۔جب میں کسی سے محبت کرتا ہوں اور اس سے شادی کرتا ہوں تو جو سکھ میں پاتا ہوں وہ بال وواہ کرنے والا نہیں پاسکتا۔لازمی ہے کہ میں محبت کی شادی ٹوٹنے پر جو دکھ پاؤں گا، بال وواہ کرنے والا وہ کبھی نہیں پاسکتا، کیونکہ محبت تھی ہی نہیں ،تو ٹوٹے گی کیا خاک۔ٹوٹنے کے لیے بھی محبت تو ہونی ہی چاہیے۔ایک غریب آدمی اپنی غریبی میں اتنا دکھی نہیں ہوتا ، جتنا ایک امیر آدمی اچانک غریب ہوجانے پر ہوتا ہے۔لازمی ہے، کیونکہ امیر آدمی نے سکھ بھی جانا، غریب آدمی نے سکھ ہی نہیں جانا۔ایک امیر آدمی اگر غریب ہوتا ہے تو اسے غریبی اکھرتی ہے، غریب آدمی کو غریبی کبھی اتنی نہیں اکھرتی۔مگر اس کا کیا یہ مطلب ہے کہ ہم لوگوں کو یہ کہیں کہ امیر ہونے کی کوشش مت کرنا کیونکہ اگر غریب ہوگئے تو بہت تکلیف ہوگی،اس لیے غریب ہی بنے رہنا۔
نہیں، ہندوستان کی جو ترکیب تھی وہ یہ تھی کہ محبت ایک بہت ہی گہرا جذبہ ہے۔اس کا سکھ بہت گہرا ہے۔لیکن ظاہر ہے اتنے گہرے سکھ کو جو حاصل کرنے جائے گا، تو وہ کبھی اس کے ٹوٹ جانے پر اتنے ہی گہرے دکھ کا بھی شکار ہوجائے گا۔اس لیے ہم نے محبت کوراستے سے ہٹا ہی دیا تھا۔ہم پنڈت سے پوچھ لیتے تھے۔باپ طے کرتا تھا، ماں طے کرتی تھی،خاندان طے کرتا تھا۔صرف جن کی شادی ہونی تھی ،وہ ہی طے کرنے سے قاصر تھے، باقی سارے لوگ طے کرتے تھے۔ایک چھ سال، آٹھ سال، دس سال کے لڑکے کی آٹھ سال ، چھ سال کی لڑکی سے شادی ہورہی ہے۔یہ دونوں شادی میں پارٹی نہیں تھے، پارٹی دوسری تھیں جو شادی کرارہی تھیں۔ان کی زندگی میں کبھی دکھ زیادہ نہیں آئے گا،کیونکہ ان کی زندگی میں سکھ کبھی زیادہ نہیں آئے گا۔
سقراط سے کسی نے مرنے سے پہلے ایک سوال پوچھا تھاکہ تم اگر ایک مطمئین سور ہوسکوتو مطمئین سور ہونا پسند کروگے یا غیر مطمئین سقراط؟سقراط نے کہا کہ میں غیر مطمئین سقراط ہونا پسند کروں گا کیونکہ مطمئین سور کو یہ بھی خبر نہیں ہوگی کہ وہ مطمئین ہے۔مطمئین ہونے کی خبر ہوسکے، اس کے لیے غیر مطئمین ہونے کی صلاحیت بہت ضروری ہے۔تو میں مانتا ہوں کہ امریکا میں زیادہ دکھ پیدا ہوا ہے۔کیونکہ امریکا نے زیادہ سکھ چاہا ہے۔اور امریکا زیادہ سکھ کو تلاش کررہا ہے۔لیکن آپ کی حالت میں بہتر نہیں مانتا۔اگر آپ اور امریکا میں مجھے چننا پڑے تو میں امریکا کو چنوں گا، آپ کو نہیں چنوں گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا جو رسرچ کررہا ہے، وہ ابھی بیس پچیس تیس سال کی رسرچ ہے۔اگر امریکا کے تجربے کو دو سو سال کا موقع ملا تو امریکا مزید سکھ کو تلاش کرلے گا۔اور آپ پانچ ہزار سال سے اس تجربے کو کررہے ہیں اور کسی طرح کا سکھ نہیں تلاش کرسکے ہیں، اور آپ کا تجربہ اچھی طرح سے ناکام ہوگیا ہے، امریکا کے تجربے کو موقع ملنے دیں، وقت ملنے دیں، اور امریکا کے دکھ کی جو باتیں ہندوستان میں کی جاتی ہیں۔وہ ، وہ لوگ کرتے ہیں جو ہندوستان کی تہذیب کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ دیکھو وہاں کتنا دکھ ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے سکھ کو تلاش کیا ہے، جو سکھ کو بلائے گا، وہ دکھ بھی پائے گا۔اگر میں پہاڑ پر چڑھنا چاہوں گا تو میں کھائی میں گرنے کا خطرہ مول لیتا ہوں، اگر کھائی میں نہ گرنا ہو تو سیدھی زمین پر چلنا بہتر ہے۔سیدھی زمین پر چلنے والا کہہ سکتا ہے کہ دیکھو وہ جو ایوریسٹ پر چڑھ رہا ہے ، کھائی میں گرگیا، ہم کبھی نہیں گرتے۔آپ کبھی نہیں گرتے، یہ سچ ہے، لیکن آپ کبھی اٹھتے بھی نہیں ، یہ بھی سچ ہے۔اور آپ گرتے اس لیے نہیں ، کہ آپ کبھی چڑھتے بھی نہیں۔لیکن میں مانتا ہوں کہ جوکھم اٹھانا یا رسک لینا ہی چاہیے۔اور یہ بھی میں جانتا ہوں کہ امریکا میں خاندان میں استقلال کی کمی ہوگئی ہے، اور یہ کمی بڑھتی ہی جائے گی۔اگر خاندان میں استقلال قائم رکھنا ہے تو اسے محبت سے بچانا ضروری ہے، تب خاندان ایک ڈیڈ انسٹی ٹیوشن ہے، جو مرے گا نہیں۔کیونکہ وہ پہلے سے ہی مرا ہوا ہے۔مردے کبھی نہیں مرتے۔اس لیے ہوسکتا ہے قبروں میں گڑے مردے یہ سوچتے ہوں کہ ہم بڑے مزے میں ہیں، کیونکہ ہم کبھی نہیں مرتے۔بستی میں جو لوگ ہیں وہ بڑے دکھ میں ہیں۔کیونکہ انہیں مرنا پڑتا ہے۔اصل میں جو نظام پہلے سے مردہ ہوتا ہے، وہ کبھی نہیں مرتا۔امریکا نے خطرہ مول لیا اور میں چاہتا ہوں کہ ہندوستان کے بیٹے اور بیٹیاں بھی وہ خطرہ مول لیں۔میں کیوں چاہتا ہوں؟ کیونکہ اس خطرے کے مول لینے کے ساتھ تکلیف تو آئے گی، جوکھم تو اٹھانا پڑے گا، مگر سکھ کی امید بھی پیدا ہوجائے گی اور جب سکھ اور دکھ کی امید پوری طرح پیدا ہوجائے گی تو ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم کیا چنتے ہیں؟اگر ہمیں دکھ چننا ہے تو ہم دکھ چن سکتے ہیں اور اگر ہمیں سکھ چننا ہے تو ہم سکھ چن سکتے ہیں۔اس ملک نے کچھ ایسا انتظام کیا ہے کہ ان میں سے کسی کا بھی انتخاب کرنا آپ کے ہاتھ میں نہیں ہے۔
ایک بڑی مزیدار بات ہے۔ماں کو ہم کبھی بدل نہیں سکتے ، میری ماں جو ہے، وہ ہے، کیونکہ میں اس کے یہاں پیدا ہوگیا۔اب ماں کو بدلنا ممکن نہیں۔باپ کو بھی میں نہیں بدل سکتا، میں اپنے بھائی کو نہیں بدل سکتا، بہن کونہیں بدل سکتا، یہ سب گون فیکٹرس (Given Factors)ہیں۔ان کو میں پہلے سے اپنے ارد گرد پاتا ہوں، یہ میرے فیصلے کے مطابق میرے نہیں ہیں۔صرف ایک فیصلے کا امکان ہے میری زندگی میں کہ میں اپنی بیوی کو چن سکتا ہوں، اور کوئی دوسرا فیصلہ نہیں ہے۔باقی تمام رشتے طے ہیں۔ہندوستان کی چال یہ تھی کہ بیوی کو بھی ’گون‘ بنادیا گیا تھا۔اس کے بھی انتخاب کا کوئی راستہ نہیں تھا۔آدمی جب ہوش میں آتا تو وہ پہلے سے اپنی بیوی کو موجود پاتا۔جب وہ محبت کرنے کے لائق ہوتا تو اسے معلوم ہوتا کہ بیوی موجود ہے، شوہر موجود ہے، یہ بھی گون فیکٹرس تھے۔لیکن دھیان رہے زندگی جتنا انتخاب کرتی ہے، اتنی فری ہوتی ہے۔میں مانتا ہوں کہ انسان کا ایک بہت بڑا حق ہندوستان نے ضبط کررکھا تھا۔جہاں حق ہوتا ہے، وہاں بھول کا اندیشہ ہے۔قیدی کوئی بھول نہیں کرتے، کیونکہ ہاتھ میں زنجیریں ہوتی ہیں، بھول تو آزاد لوگ کرتے ہیں، جہاں ہاتھ میں زنجیریں نہیں ہوتیں،لیکن پھر بھی میں میں قیدی ہونے کے حق میں نہیں ہوں۔کیونکہ وہاں کوئی بھول نہیں ہوتی،میں میں سڑک پر چلنے کے حق میں ہوں جہاں بھول ہوسکتی ہے۔
لیکن وہ بھول ہم کریں ، یہ ضروری نہیں۔امریکا میں جو بھول ہورہی ہے، وہ ہم بھی کریں، یہ ضروری نہیں ہے اور امریکا کے بچے بھی بہت زیادہ دنوں تک کریں گے ، یہ بھی ضروری نہیں ہے۔اور امریکا کے بچے جو بھول کررہے ہیں اس کے لیے وہ بچے ذمہ دار نہیں ہیں، امریکا کی مری ہوئی ہزاروں نسلیں ذمہ دار ہیں۔اس کاسبب ہے کہ اگر کچھ لوگوں کوہم صدیوں تک بھوکا رکھیں اور پھریکدم انہیں کھانے کی آزادی مل جائے تو لوگ اگر زیادہ کھا جائیں تو اسے کھانے کی آزادی کی ذمہ داری نہیں کہا جاسکتا، یہ ہزاروں سال کی بھوک کا نتیجہ ہے۔امریکا میں ہزاروں سالوں تک جس عیسائیت کا اثر تھا، سیکڑوں سالوں سے یورپ میں جو عیسائیت حاوی ہے، اس نے لوگوں کی جنسی اشتہا بڑھا دی ہے۔اس نے لوگوں کی جنسی خواہشوں کو دبایا ہے، اب ایک دم سے آزادی ملی ہے تو لوگ دوسری حد تک پہنچ گئے ہیں۔لیکن زیادہ دنوں تک یہ حالات نہیں رہیں گے۔وہ واپس لوٹ آئیں گے۔ہم بھی اسی حالت میں ہیں، ہمیں بھی بہت ڈر لگتا ہے کہ ہم نے اگر محبت کی آزادی دے دی تو کہیں خاندانی نظام درہم برہم نہ ہوجائے۔لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ اگر محبت کے بغیر خاندان بچتا ہے تو بچانے لائق نہیں ہے۔ہم کیوں بچائیں اسے؟اور اگر محبت کے ساتھ خاندان ٹوٹتا بھی ہے، تب بھی یہ جوکھم اٹھانا چاہیے۔لیکن میں نہیں مانتا کہ محبت کے ساتھ خاندان ٹوٹ ہی جائے گا، سو پچاس برسوں کے عرصے میں خاندان اکھڑ سکتا ہے، مگر وہ لوٹ آئے گا۔روس میں جب پہلی دفعہ طلاق شروع ہوئی تو طلاق کا آنکڑا ایک دم بڑھ گیا ، تیس اور پیتیس فی صد تک طلاق پہنچ گئی ، روس کے سیاسی افراد بہت گھبرائے اور انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تب تو سوفی صد تک بھی طلاق پہنچ سکتی ہے۔لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری، طلاق کا آنکڑا نیچے گرگیا۔آج روس میں تقریباً پانچ فی صد طلاق رہ گئی ہے۔اور روس کے مفکرین کا خیال ہے کہ آنے والی صدی میں طلاق اور کم ہوجائے گی۔اصل میں کوئی بھی قید سے جب ایک دم چھوٹتا ہے تو دوسری حد پر پہنچ جاتا ہے۔امریکا میں ایسا ہوا ہے، لیکن ہم بھی ایسا ہی کریں، یہ ضروری نہیں ہے۔لیکن اگر ہم نے اپنے بچوں کو بہت دن تک روکا تو ویسا ہی ہوگا جیسا امریکا کے باپوں نے اپنے بچوں کو روک کر کروایا ہے۔
اگر ہندوستان کے ماں باپ سمجھدار ہیں تو انہیں دھیرے دھیرے بند ڈھیلے کردینے چاہیے،ایک دم سے نہیں، بہت آہستگی سے بند ٹوٹ جانے چاہیے کہ ہمیں پتہ بھی نہ چلے کہ ہم کب قید سے آزاد ہوگئے ہیں۔اگر ایک دم سے بند ٹوٹتے ہیں تو خطرے ہوتے ہیں۔امریکا میں جو خطرہ ہوا ہے ، وہ ہمیں اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے، مگر امریکا کے خطرے سے ڈر کر ہم جو ہیں، ہمیں وہی بنے رہنے کی اور بھی ضرورت نہیں ہے۔اس کے اور بہت سے پہلوہیں۔جن پر میں کبھی دوبارہ آپ سے بات کروں گا۔لیکن ایک بات میں جو بھی کہتا ہوں، وہ ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔میں جو بھی کہتا ہوں وہ سوچنے کے لیے کافی ہے۔آپ سوچیں اتنا کافی ہے۔مجھ سے راضی ہوں، یہ ضروری نہیں، میں اتنا ہی کرپاؤں کہ آپ سوچنے کے لائق ہوجائیں تو میرا کام مکمل ہوجائے گا، آپ مجھ سے راضی ہونگے ، اس کی مجھے کوئی خواہش نہیں ہے۔جلدی کسی سے راضی ہونا بھی نہیں چاہیے، وہ کمزور دماغ کا ثبوت ہے۔سوچنا چاہیے، لڑنا چاہیے، جھگڑنا چاہیے۔اپنے من میں پوری طرح لڑیں،جھگڑیں مجھ سے۔
کتاب کی پہلی اشاعت: 2007
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں