جب پہلی بار یہ اصطلاح میرے ذہن میں پیدا ہوئی تو میں نے خود غور کیا کہ تخلیقی حس کے بارے میں تو کئی بار سوچا ہے، اس پر گفتگو کی ہے، اس کے بارے میں بہت کچھ کہا سنا جاسکتا ہے، مگر اس غیر تخلیقی حس کو میں کیسے خود پر واضح کروں گا، اور آخر اس اصطلاح کاادب سے کیا علاقہ ہے،ظاہر سی بات ہے کہ جن محسوسات میں اپنے غیر تخلیقی ہونے کا جواز موجود ہو، وہ ادب کا حصہ کیسے بن سکتی ہیں۔مگر اردو ادب کی جو صورت حال ہے، آئے دن سرکاری، غیر سرکاری اردو کے رسائل میں جس طرح کی تحریریں، شاعری یا افسانے شائع ہوتے ہیں، اس کو دیکھ کر بعض دفعہ اس اصطلاح پر غور کرنے اور اسے خود پر واضح کرتے رہنے کو میں ضروری سمجھتا ہوں۔ادب کیا ہے، ادب کا سارا سروکار تخلیق سے ہے، تخلیق کا واسطہ اس بنیادی احساس سے ہے جو لکھنے والے کو کسی واقعے کے پیدا کرنے یا تاریخ کے کسی واقعے کو نئے سرے سے زندہ کرنے اور اس میں اپنے اندرون کی ہلچل کو دکھانے کی قوت عطا کرتا ہے۔یہ احساس کہاں سے آتا ہے، کیا یہ کوئی ماورائی شے ہے؟ کیا واقعی خداداد نامی کوئی چیز ہے، جسے ہمیں تسلیم کرنا ہوگا۔آخر کیوں لکھنے کی جانب لوگ عموماً کم عمری سے ہی راغب ہوتے ہیں، مگر ایسی بھی کئی مثالیں ہیں، جن کی زندگی میں لکھنے والا بچہ ان کی ادھیڑ عمر میں اندر ہی اندر اچانک پیدا ہوگیا،یا پھر کچھ ایسے ہیں جنہوں نے زندگی کے کسی خاص حصے میں کچھ اچھی تحریریں لکھیں اور پھر ساری عمر خاموش رہے۔پھر اگر کوئی شے خداداد ہے تو اس کا احاطہ کس طرح کیا جاسکتا ہے۔سائنس کی مانیں تو ہمارے رائٹر ہوسکنے کی صلاحیت ہمارے جینوٹائپ میں زندگی کے جرثوموں کی بناوٹ کے وقت سے موجود ہوتی ہے۔مگر اس لکھنے کی صلاحیت کے آگے کا مسئلہ دوسرا ہے۔یعنی کہ میں لکھ سکتا ہوں، یہ ایک خداداد صلاحیت ہوسکتی ہے، مگر حس اور خاص طور پر تخلیقی حس مجھے کچھ بیرونی چیزوں کی بدولت حاصل ہوتی ہے، جیسے کہ زندگی کا مشاہدہ، کچھ الگ ہونے کی خواہش اور ماحول کی بہت ساری ادلتی بدلتی چیزیں۔پھر اس پر اصرار ضروری ہے کہ مجھے جو لکھنا ہے، وہ دوسروں سے ہٹ کر لکھنا ہے، اور یہ اصرار اتنا شدید ہونا چاہیے کہ اسے لاشعور کا ایک حقیقی جز بن جانا چاہیے، اب یہ الگ ہونا، ہٹ کر لکھنا۔اس کے خارجی اصول طے نہیں ہوسکتے، اس کے لیے دماغ میں نئے لفظوں کی کھپت، خیالات کو یکسر الٹ کر دیکھتے رہنے کی عادت اور ادب کے میدان میں خود کو آزاد ، بہت آزاد رکھنے کی ضرورت ہے۔اردو میں تخلیقی حس کے زیادہ پروان نہ چڑھ پانے کے پیچھے کچھ عجیب سی مجبوریاں ہیں۔اول تو ہمارے جو چنندہ شاعر و افسانہ نگار، جن کے اندر کچھ اچھا لکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، وہ بہت جلد اس ترکیب کو نظر انداز کردیتے ہیں جو تحریر کو رواں بناتی ہے، جس کے ذریعے تخلیق بے ڈھب اور بے ترتیب ہوتے ہوئے بھی متن سے باہر نکل کر قاری کے آس پاس منڈراتے رہنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔پھر جلد ہی شہرت پالینے اور اس کے ذریعے کچھ نہ کچھ حاصل کرتے رہنے کا مسئلہ، جیسے اوندھے سیدھے سیمناروں یا مشاعروں کا حصہ بننے کی خواہش، خواہ اس میں کتنے ہی بے تکے لوگ شرکت کررہے ہوں۔اس سے بہتر ہے کہ انسان اپنا وقت آرٹ کے کسی دوسرے شعبے کا شعور پیدا کرنے میں صرف کردے، جیسے کوئی بہترین فلم دیکھ لینا، اچھے گانے سننا،کوئی اچھا ناول پڑھنا، قدرت کے تراشے ہوئے کسی بہترین منظر کا لطف لینا، ہواؤں سے لڑنا یا پھر شراب پی لینا۔ان سب سے ہمیں اپنے لاشعور میں ایک قسم کی جرات پیدا کرنے کا حوصلہ ملے گا۔تخلیقی سطح پر خود کو ہوشیار بنانے کی ایک ترکیب یہ بھی ہے کہ ہم خود کو رد کرنا سیکھیں۔رد کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم لکھ لکھ کر چیزیں کاٹیں، بلکہ ہمارے خیالات ہمیں تخلیق کے نام پر جس کہانی یا شعر یا دوسرے وسیلۂ اظہار کی طرف لے جائیں ہم اس میں داخل ہونے سے پہلے خیالات کی ترتیب کو ٹٹولیں، ان کے کھرے کھوٹے ہونے کا فرق محسوس کریں اور سمجھیں کہ ان میں کس پہلوسے کوئی نئی بات موجود ہے۔یہ بات فی الواقع کہی جاسکتی ہے کہ ادب میں یہ تمام باتیں بہت شعوری سطح پر نہیں ممکن ہیں۔اس لیے ہمیں اس پوری ترتیب کو اپنی فطرت کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔ہمیں کلاسیک کی نبض پر انگلی رکھ کر اس کی بہتی ہوئی زندگی، تازہ کاری اور خوش اسلوبی کے اسباب دریافت کرنے چاہیے۔لکھنا یا لکھ دینا کوئی کمال نہیں۔واقعہ سادہ ہو یا اس میں کتنا ہی نمک مرچ لگا ہوا ہو۔ہمیں ادب اور غیر ادب میں تمیز کرنے کے بعد تخلیق کے معیارات بھی خود پر نمایاں کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ویسے یہ بات ضمنی سی ہے مگر مجھے کہنا چاہیے کہ اگر ہم ایک اچھا ادبی معاشرہ بنانا چاہتے ہیں، جس میں چاہے دس بارہ اچھے ادیب ہی کیوں نہ ہوں تو ان کو مشاعروں اور سستے سیمناروں سے بچنا چاہیے،کیونکہ آج کل کے ان پروگراموں میں جس طرح کے لوگ شرکت کررہے ہیں ، وہ زیادہ تر بے وقوف قسم کے، الھڑ اورغیر علمی لوگ ہیں، جن کا ادب سے دور کا بھی واسطہ نہیں،جو صرف کسی یونیورسٹی کے برائے نام پروفیسر ہیںیا پھر میراجی اور منٹو جیسا حلیہ بنا کر پھرنے والے جعلی ادیب یا ایسے کچھ لوگ جن کو شاعری میں سیاست، سماج اور ایسے ہی قسم کے دوسرے موضوعات کو ٹھونسنے کا بڑا شوق ہے، شاعری مشاعروں میں اب ایک بکنے والی رانڈ کی ہی طرح ہے۔ہاتھ ہلا ہلا کر ایک متشاعر شخص اس کے کپڑوں کو ادھیڑتا ہے، سامعین چیخ چیخ کر اس ننگی، ادھ مری اور لٹی ہوئی شاعری کو خوشی سے دیکھتے اور شور مچاتے ہیں، ہندی میں لکھی ہوئی غزلیں، نظمیں پڑھنے والے خود کو اردو کا ادیب اور شاعر کہلوانا پسند کرتے ہیں۔یہ کوئی تعصب کی بات نہیں اور نہ میری شخصیت کے ساتھ ایسا کوئی متعصبانہ بھوت وابستہ ہے، جو ہندی اردو کے قضیے کو اور ہوا دینا چاہتا ہو، مگر مجھے یہ بات کہنے میں ذرا بھی جھجھکنا نہیں چاہیے کہ ہندی میں لکھی ہوئی غزلیں، ہندی شاعری ہی کا حصہ ہوسکتی ہیں، اردو کا نہیں، ویسے تو مشاعرے میں جو لوگ اردو میں لکھا ہوا کلام پڑھتے ہیں وہ بھی اردو ادب کا حصہ نہیں ہوتا۔مگر ہندی میں لکھنے والوں کے لیے میں یہ بات وثوق سے اس لیے کہہ سکتا ہوں کیونکہ جتنی ہلکی پھلکی اردو وہ اپنی شاعری میں استعمال کرتے ہیں،اتنا تو سدرشن فاخر جیسے ہندی غزل گو بھی استعمال کرلیا کرتے ہیں۔ادبیت تو ایک دور کا مسئلہ ہے، مگر لسانی سطح پر بھی مشاعرے ایک بھیانک سیاسی ٹولی یا اجتماع کا بدل ہوتے جارہے ہیں۔قیصرالجعفری جیسے شاعروں تک بھی مشاعرے کا میدان، طوائف کا بستر نہیں بنا تھا، لیکن اب صورت حال بدل چکی ہے۔اب ہر سنجیدہ اردو داں شخص کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اردو کی ترقی کے نام پر گلیوں، چوراہوں،محلوں اور ہوٹلوں میں جو مشاعرے منعقد ہورہے ہیں، وہ اردو کے ارتقا کے بجائے اس کی شرمندگی کاباعث زیادہ ہیں۔اس میں شرکت کرنے والوں کے درمیان ادبی وقار تو دور کی بات ہے، ادبی پھکڑ پن بھی اچھی طرح پیدا نہیں ہوپائے گا۔ان تمام لوگوں میں جو شہرت کے ایسے وسائل ڈھونڈتے ہیں، ایک قسم کی غیر تخلیقی حس ہوتی ہے۔جو انہیں پہلے ہی اس بات کا احساس کروادیتی ہے کہ ان میں فیض احمد فیض، راشد، میراجی یا عصمت چغتائی ہونے کی صلاحیت موجود نہیں ہے، چنانچہ یہ اس کی عزت کرتے ہوئے اپنے آپ کو ادب کے اس ریڈ ایریا میں دھکیلنے پر تیار ہوجاتے ہیں، جہاں ہونٹوں پر گاڑھی لپ اسٹک لگائے، شہرت کی کالی، بدہنگم اور ہزاروں جسموں کے نیچے سے گزرنے والی دیوی، ان کے ساتھ ہم بستری پر گالیاں بکتے ہوئے، انہیں شرمناک پھبکیاں کستے ہوئے تیار ہوجاتی ہے، اور یہ اسے ہی اپنی ذات کی تسکین کا ایک اہم ذریعہ بنالیتے ہیں۔مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ اس مشاعراتی بدنظمی کا شکار صرف بد ترین اور گھامڑ قسم کے لوگ ہی نہیں ہوتے، بلکہ اچھی صلاحیتوں والے کچھ نوجوان بھی خود کو چند سکوں یا چند تعریفی جملوں کے بدلے زنگ لگوانے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔
اس کے برعکس ایک اور قسم کے لوگ ہیں جو اس طرح کی غیر تخَلیقی حس کو قبول کرتے ہیں، مگر وہ تخلیقیت پر بے ہودہ اصرار کرنے یا اس کو ماننے کے باوجود خود کو ذلیل و خوار کرنے سے بچانے کے لیے اپنی ذات پر محنت کرتے ہیں، وہ ادب کے اہم مسائل کو سمجھنے ، اس کی افہام و تفہیم اور اپنے رد وقبول کے مسائل پر غور کرتے ہیں، تو ایک اچھی خاصی مشقت کے بعد ان میں تخلیق اور اس کے اہم مسائل سے نپٹنے کی ہمت پیدا ہوجاتی ہے۔وہ خود کو ڈبو ڈبو کر تیراکی کا ہنر سیکھتے ہیں اور کنارے پر پہنچنے سے بھی خود کو باز رکھتے ہیں۔ادب اسی قسم کی غیر تخلیقی حس کا خیر مقدم کرتا ہے۔اس میں ایسے لوگوں کے لیے بڑی جگہ ہے جو اپنی کمزوریوں، اپنی غلطیوں اور اپنی بے وقوفیوں کو بے شرمی سے قبول کرلیں۔ان کے اندر چٹانوں سی ڈھٹائی نہ ہو،بلکہ پانی سی روانی ہو۔وہ مسلسل آگے بڑھنے اور اپنے آپ کو ہر لمحہ ایک نئے ذہنی خلفشار کی نذر کرنے پر تیار ہوں۔کیونکہ وہ سمجھ جاتے ہیں کہ بہرحال ادب کے بازار میں خیال کی قیمتیں زیادہ ہیں اور یہاں شہرت کے سکے بھی اکثر کھوٹے ثابت ہوتے ہیں۔
نئی دہلی
موبائل: +91-9540391666
sayyed.tasneef@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں