اتوار، 21 اگست، 2016

جنگل کا قانون/ غنی پرواز

غنی پرواز 15 اگست 1945 کو پیدا ہوئے تھے۔اس وقت وہ پاکستان میں بلوچستان کے شہر تربت میں مقیم ہیں۔بچپن سے ہی ادب کی جانب ان کا رجحان تھا، انہوں نے اپنی اب تک زندگی میں کہانیوں، شاعری، تنقیدی، تحقیق اور دوسرے کئی موضوعات سے متعلق قریب سو کتابیں لکھی ہیں، جن میں سے ستائیس شائع ہوچکی ہیں،انہیں کئی اہم اعزازات سے نوازا بھی گیا ہے۔مندرجہ ذیل کہانی اپنے سے زیادہ طاقتور لوگوں میں گھرے ایک ایسے شخص کی داستان ہے، جس کی آنکھوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے، خاص طور پر ان آنکھوں کی جن کا علاج کیا جاچکا ہواور جن میں جھلملاہٹ کے بجائے حقیقت کو دیکھنے یا دیکھ سکنے کی ہمت پیدا ہوگئی ہو۔کہانی کا انتخاب 'پاکستانی ادب 2002'کے نثر پرمخصوص شمارے سے کیا گیا ہے۔اکادمی ادبیات ، پاکستان کے ذریعے شائع ہونے والے اس رسالے کے مذکورہ شمارے کو منشا یاد اور محمد حمید شاہد نے ترتیب دیا ہے۔شکریہ!(تصنیف حیدر)
٭٭٭

دفتر میں داخل ہوتے ہی وہ حیران رہ گیا۔ کیونکہ دفتر کے تمام ملازمین کے چہرے اسے بہت عجیب دکھائی دے رہے تھے۔ کچھ کی آنکھیں باہر نکلی ہوئی تھیں۔ کچھ کے کان کھڑے ہوگئے تھے۔ کچھ کی زبانیں نیچے لٹکی ہوئی تھیں اور کچھ کے ہونٹ پھولے ہوئے تھے۔ وہ حیرانی سے کھڑا سب کو تکتا رہا۔
بابو آفتاب نے سر اٹھایا اور باہر نکلی ہوئی آنکھیں مزید باہر نکالیں۔
'تم آج ہمیں اس طرح دیکھ رہے ہو، جیسے ہم کسی دوسری دنیا کی مخلوق ہیں۔'
اسسٹنٹ امداد نے اپنا سر اوپر اٹھایا اور کھڑے ہوئے کان مزید کھڑے کیے۔ 'تم ہمیں اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو۔'
کیشیر ظہیر نے سر اٹھایا اور اپنی لٹکی ہوئی زبان اور زیادہ لٹکالی۔
'آج اس کی طبیعت ٹھیک نہیں۔'
ہیڈ کلرک مزمل نے سر اٹھایا اور پھولے ہوئے ہونٹوں کو اور زیادہ پھلایا۔
'اسے ٹھیک کرنا پڑے گا۔'
وہ آگے بڑھا اور سب کے بیچ میں کھڑا ہوگیا۔ 'لیکن آپ لوگوں کی حالت اس طرح کیوں ہے؟'
سب نے پہلے ایک دوسرے کی طرف اور پھر اس کی طرف دیکھا۔
'ہمیں کیا ہوا ہے بھلا؟'
وہ طنزیہ انداز سے مسکرایا: 'کچھ کی آنکھیں باہر نکلی ہوئی ہیں، کچھ کے کان کھڑے ہیں، کچھ کی زبانیں لٹکی ہوئی ہیں، کچھ کے ہونٹ پھولے ہوئے ہیں۔'
بابو آفتاب جلدی جلدی اپنی جیب سے چھوٹا سا آئینہ نکال کر خود کو دیکھنے لگا۔ 'جھوٹ کیوں بولتے ہو؟'
باقی لوگ بھی جلدی جلدی اٹھے اور بابو آفتاب کے چھوٹے سے آئینے میں خود کو دیکھنے لگے۔ 'تم تو بہت بڑے جھوٹۓ ہو۔' کسی نے کہا۔
'تم اتنے بڑے جھوٹ کیوں بولتے ہو؟' کسی اور نے کہا۔
'مذاق کیوں کرتے ہو؟' ایک نے پوچھا۔
'اس قسم کا مذاق ٹھیک نہیں۔' دوسرے نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
ہیڈ کلرک مزمل چھوٹا آئینہ دیکھنے سے مطمئین نہیں ہوا۔ اس لیے اٹیچ باتھ روم گیا اور بڑے آئینے میں خود کو دیکھ کر آگیا۔ 'جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے۔'
وہ اپنی کرسی پر بیٹھ کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔ 'میں نہیں جانتا کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے یا اس کا سر نہیں ہوتا، لیکن یہ اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ آپ ٹھیک نہیں ہیں۔'
'کیا بات ہے، جو آپ سبھی لوگ حیران و پریشان نظر آرہے ہیں۔' چیئر میں کی سیکرٹری فرحت بھی دفتر میں داخل ہوگئی۔
'اطہر کا کہنا یہ ہے کہ آج ہم سب کے چہرے بگڑے ہوئے ہیں۔' ہیڈ کلرک مزمل اس کی جانب متوجہ ہوا۔
'آپ کے چہروں کو تو کچھ نہیں ہوا ہے۔' فرحتت نے سب کے چہروں پر نگاہ ڈالی۔
'تم اپنی خیر منائو۔' اطہر مسکرایا۔
'مجھے کیا ہوا ہے؟' فرحت سٹپٹائی۔
'تمہارے گال سوجے ہوئے ہیں۔'
'باپ رے باپ!' اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا کر اٹیچ باتھ روم کا رخ کیا۔ اور کچھ دیر بعد واپس لوٹ آئی۔ 'تم بڑے مکار ہو۔ چوکیدای کے لائق نہیں۔'
'اس نے ہمارا تو ستیہ ناس کردیا، لیکن آپ کو بھی نہیں بخشا۔ صاحب کے پاس اس کی شکایت کرنی چاہیے۔'
'بے فکر رہیں۔ ظاہر صاحب کو آنے تو دیں۔ میں اس کا علاج خود کرائوں گی۔'
یکایک دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور چیئرمین ظاہر علی اندر داخل ہوا۔ اس نے سب کی جانب سرسری سی نگاہ ڈالی اور اپنے کمرے میں گھس گیا۔ اسی اثنا میں فرحت بھی جلدی جلدی اس کے کمرے میں چلی گئی۔
'کیا بات ہے؟۔۔۔۔آج تم سب کے چہروں پر ہوائیاں سی اڑ رہی ہیں۔' چیئرمین ظاہر علی نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے اپنا سیاہ چشمہ اتار کر میز پر رکھ دیا۔
'آج اطہر کا دماغ پھر گیا ہے'
'کیسے؟'
'سب کو برا بھلا کہہ رہا ہے۔'
'تم اپنی کرسی سنبھالو۔ میں اسے ابھی بلاتا ہوں۔'
'جی صاحب!' گھنٹی کی آواز پر چپراسی جمعہ اندر داخل ہوا۔
'اطہر کو بلائو۔' چیئرمین نے حکم دیا۔
'صاحب!۔۔۔۔۔۔آپ نے مجھے بلایا ہے؟' اطہر نے آتے ہی پوچھا اور حیرانی سے اسے دیکھنے لگا۔
'ہاں! سنا ہے تم لوگوں کو برا بھلا کہہ رہے ہو؟'
'میں نے کسی کو برا بھلا نہیں کہا ہے۔' اطہر نے کہا۔ 'میں نے تو وہی کہا ہے جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔'
'آخر تم نے کیا دیکھا ہے؟'
'یہی کہ سب کی شکلیں بگڑی ہوئی ہیں۔'
'مثلاً۔۔۔۔۔کس طرح؟'
مثلاًآفتاب کی آنکھیں باہر نکلی ہوئی ہیں۔ امداد کے کان کھڑے ہیں۔ ظہیر کی زبان لٹکی ہوئی ہے۔ مزمل کے ہونٹ پھولے ہوئے ہیں اور فرحت کے گال سوجے ہوئے ہیں۔'
'مجھے بھی تم مسلسل عجیب انداز سے دیکھ رہے ہو۔ کیا مجھ میں بھی اس قسم کی کوئی تبدیلی دکھائی دے رہی ہے؟'
'معاف کیجیے گا صاحب! آپ سے گستاخی نہیں کرسکتا۔'
'کیوں؟'
'آپ ہمارے صاحب جو ہیں۔'
'اگر کچھ دیکھ رہے ہو تو بتائو۔'
'اچھا، تو پھر گستاخی معاف، ماشا اللہ آپ کی توند آج بہت بھاری لگ رہی ہے اور باہر کو نکلی جارہی ہے۔' اس نے خوف سے لرزتے ہوئے دیکھا۔
چیئرمین خاموشی سے اٹھا اور اپنے کمرے کے باتھ روم میں گھس گیا۔ کچھ دیر بعد واپس آیا اور اسے گھور گھور کے دیکھنے لگا۔ 'تم بڑے خبیث ہو۔'
اطہر سر سے پائوں تک کانپنے لگا۔ 'صاحب! مجھے معاف کیجیے۔'

'تم معافی کے نہیں سزا کے قابل ہو۔'
چیئر مین نے غصے بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا اور گھنٹی بجائی۔ چپراسی بھاگتا ہوا اندر داخل ہوا۔
'جی صاحب!'
'ذرا ان لوگوں کو بلائو تو۔۔۔۔'
'کن لوگوں کو صاحب؟'
'آفتاب، ظہیر اور مزمل کو'
'ٹھیک ہے صاحب!' وہ جلدی جلدی واپس چلا گیا اور کچھ دیر بعد تینوں آگئے۔
'تم لوگ ایک دوسرے میں نئی تبدیلی دیکھتے ہو؟' چیئرمین نے فکر مندی سے سب کی طرف دیکھا۔
'نہیں!' سب نے نفی میں سرہلایا۔
'مجھ میں کوئی تبدیلی؟'
نہیں!'
'تو پھر یہ کمبخت ایسا کیوں بولتا ہے؟' وہ غصے کے مارے پیچ و تاب کھارہا تھا۔
'صاحب! اس کی آنکھیں خراب ہیں۔' مزمل نے اطہر کی آنکھوں کی طرف اشارہ کیا۔
'مزمل ٹھیک کہتا ہے۔ تمہاری آنکھیں خراب ہیں۔' چیئرمین نے اطہر کی جانب دیکھا۔
'میری آنکھیں۔۔۔خراب تھیں۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔۔'
'لیکن کیا؟'
'لیکن ان کا علاج کروالیا ہے۔۔۔۔'
'علاج نے تمہاری آنکھوں کو بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔' چیئرمین نے اس کی آنکھوں کے اندر دیکھا۔ 'لیکن تمہاری آنکھوں میں خرابی کیا تھی، جو تم نے علاج کروا کے انہیں بگاڑ دیا ہے؟'
'میری آنکھیں جھلملاتی تھیں۔۔۔۔'
'آنکھیں جھلملاتی تھیں؟۔۔۔۔۔۔بھلا آنکھیں بھی کبھی جھلملاتی ہیں؟'
'جی ہاں صاحب!۔۔۔۔۔جھلملاتی تھیں اور مجھے یوں محسوس ہوتا تھا، جیسے میری آنکھوں کے اندر نئی اور زیادہ روشن آنکھیں اگ رہی ہیں۔'
'کس ڈاکٹر نے ان کا علاج کیا ہے؟ اور کس قسم کا علاج کیا ہے؟'
'ڈاکٹر صالح میمن نے آپریشن۔۔۔۔۔'
'چاہے جس نے بھی آپریشن کیا ہو، مگر مجھے لگتا ہے کہ یہ آپریشن الٹا ہوا ہے۔'
'آپریشن الٹا؟'
'ہاں الٹا ہوا ہے۔'چیئرمین نے اپنا سر اثبات میں ہلایا۔ 'لیکن جناب! میری آنکھوں کی روشنی میں پہلے سے کافی اضافہ ہوا ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے، جیسے میں اندرونی چیزوں کو بھی دیکھ سکتا ہوں۔'
'کیا مطلب ہے تمہارا اندرونی چیزوں سے۔۔۔۔؟'
'یعنی میں دیکھ رہا ہوں کہ باہر نکلی ہوئی آنکھیں کیا دیکھ رہی ہیں۔گھرے ہوئے کان کیا سن رہے ہیں۔لٹکی ہوئی زبانیں کیا کہہ رہی ہیں۔ پھولے ہوئے ہونٹ کیا مانگ رہے ہیں۔ سوجے ہوئے گال کیا تلاشتے ہیں اور موٹی۔۔۔۔۔'
'بس بے ادب۔۔۔۔۔' وہ مسلسل بولتا جارہا تھا کہ چیئرمین نے اس کی بات سختی سے کاٹی۔ 'اگر تم ہمارے پرانے ملازم نہ ہوتے تو میں ابھی اسی وقت تمہیں نوکری سے نکال دیتا۔'
'رحم کیجیے صاحب!'اس نے اپنے دونوں ہاتھ باندھ لیے۔'مجھ معاف کردیجیے۔'
'ایک شرط پرتمہیں معاف کرسکتا ہوں، صرف ایک شرط پر۔'چیئرمین نے اپنی کرسی آگے کی طرف کھینچ لی اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا۔
'مجھے ہر شرط ۔۔۔منظور ہے۔'اطہر نے اپنا سر جھکالیا۔
'میں ڈاکٹر سلیم سے تمہارا ایک سیدھا آپریشن کرائوں گا۔اور آپریشن کی فیس اور اخراجات تھوڑا تھوڑا کرکے تمہاری تنخواہ سے کاٹوں گا۔ چیئرمین نے اپنا فیصلہ سنادیا۔
'تم کیا کہتے ہو؟'مزمل طنزاً مسکرایا۔
'میں بھلا کیا کہہ سکتا ہوں؟' اطہر نے بے بسی کا اظہار کیا۔
آپریشن کے بعد، جب اس کی آنکھیں ٹھیک ہوگئیں اور وہ پھر سے دفتر جانے لگا تو اب اس کی نگاہوں میں ہر شخص اپنی اصل حالت میں تھا۔ کسی کی آنکھیں،کان، زبان، گال، توند یا کوئی اور چیز بگڑی ہوئی نہیں تھی۔
وہ دروازے کے قریب کھڑا تھا کہ چیئرمین آپہنچا۔
اب تمہاری آنکھیں کیسی ہیں؟'چیئرمین نے طنزاً پوچھا۔
ہمیشہ کی طرح ہیں۔'اطہر نے حسرت سے جواب دیا۔
'یاد رکھو، انسان کے لیے آنکھوں کی زیادہ روشنی ٹھیک نہیں۔'چیئرمین نے اسے اچھی طرح سے سمجھایا۔
'کیونکہ آنکھوں کی زیادہ روشنی انسان کو زیادہ مصیبتوں میں ڈال سکتی ہے۔'
'میں آپ کی یہ نصیحت کبھی نہیں بھلائوں گا۔'اطہر تلخی سے مسکرایا۔'کیونکہ میں زیادہ مصیبتیں برداشت نہیں کرسکتا۔'
٭٭٭

(بلوچی کہانی)
اردو ترجمہ: حمل غنی
مشمولہ 'پاکستانی ادب'2002، مرتبین منشا یاد، محمد حمید شاہد

جمعہ، 12 اگست، 2016

سعادت حسن منٹو کے دو مضامین

سعادت حسن منٹو کے دو مضامین'عصمت فروشی' اور 'لوگ اپنے آپ کو مدہوش کیوں کرتے ہیں' دو بہت متنازعہ قسم کے موضوعات پر لکھے گئے مضامین ہیں۔میں منٹو کی تحریروں کا عاشق ہوں، اسے پڑھتے وقت مجھے جو خوشی محسوس ہوتی ہے، وہ بیان سے باہر ہے۔لیکن اس کی اصل وجہ منٹو کی صاف گوئی ہے، وہ بغیر جھجھک کے اپنی بات کہتا ہے ۔حالانکہ ان دونوں مضامین میں سے موخرالذکر کا موقف ، اس کی اپنی زندگی کے انجام کی جانب بھی ہمارا دھیان لے جاتا ہے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ منٹو کی موت کن وجوہات کی بنا پر ہوئی، ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کتنی ایسی باتیں ہم کو کہنا سکھائی تھیں، جن کو صرف ایک سچا اور بے باک لکھنے والا ہی بیان کرسکتا ہے۔سچ ، سب سے پہلے اپنے بارے میں بیان کیا جانا بہت ضروری ہے۔یہ جاننا ضروری ہے کہ دوسروں کو کچھ بتانے یا ان کی کردارکشی کرنے سے پہلے ہم اپنی ذات کو کس قدر کھنگال سکے ہیں، منٹو نے تو اپنا خاکہ کھینچتے وقت ذات کی کھرچنوں کو بھی نہیں چھوڑا۔لیکن اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کو خود کی تعریف یا خود پر تنقید کروانے کے لیے کسی دوسرے کی ذات کا سہارا نہیں لینا پڑتا، اس کے لیے اپنی سطریں ہی کافی ہوتی ہیں۔عصمت فروشی پر لکھا گیا اس کا مضمون مکمل طور پر ہماری سوسائٹی اور اس کے دوہرے رنگ پر طمانچہ ہے۔وہ ان عورتوں سے ہمدردی کا تقاضہ نہیں کرتا، بلکہ انہیں ان کا حق دیے جانے کا مطالبہ کرتا ہے۔جس طرح وہ بتاتا ہے کہ خود کو مدہوش کرنے والے(جن میں وہ خود بھی شامل ہے) اپنی ضمیر کی آواز کو دبانے کے لیے کیوں ایسا کرتے ہیں اور کون سے عوامل انہیں ایسا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔شکریہ(تصنیف حیدر)

عصمت فروشی


عصمت فروشی کوئی خلاف عقل یا خلاف قانون چیز نہیں ہے۔ یہ ایک پیشہ ہے جس کو اختیار کرنے والی عورتیں چند سماجی ضروریات پوری کرتی ہیں جس شے کے گاہک موجود ہوں، اگر وہ مارکیٹ میں نظر آئے تو ہمیں تعجب نہ کرنا چاہیئے، اگر ہمیں ہر شہر میں ایسی عورتیں نظر آتی ہیں جو اس جسمانی تجارت سے اپنا پیٹ پالتی ہیں تو ہمیں ان کے ذریعہ معاش پر کوئی اعتراض نہ ہونا چاہیئے۔ اس لیئے کہ ہر شہر میں ان کے گاہک موجود ہیں۔
عصمت فروشی کو گناہ کبیرہ یقین کیا جاتا ہے ممکن ہے یہ بہت بڑا گناہ ہو، مگر ہم مذہبی نقطۂ نظر سے اس کو جانچنا نہیں چاہتے۔ گناہ اور ثواب، سزا اور جزا کی بھولبھلیوں میں پھنس کر آدمی کسی مسئلے پر ٹھنڈے دل سے غور نہیں کر سکتا۔ مذہب خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، اگر اس میں لپٹ کر کسی اور مسئلے کو دیکھا جائے تو ہمیں بہت ہی مغز دردی کرنی پڑے گی۔ اس لیئے مذہب کو عصمت فروشی سے الگ کر کے ہم نے ایک طرف رکھ دیا ہے۔
عصمت فروشی کیا ہے؟ ۔۔۔ عصمت کو بیچنا۔ یعنی اس گوہر کو بیچنا جس کو عورت کی زندگی کا سب سے قیمتی زیور یقین کیا جاتا ہے۔ اس زیور کی قدر اسلیئے بہت زیادہ بڑھ گئی ہے کہ تجربے نے ہمیں بتایا ہے کہ عورت جب ایک بار اس کو کھو دیتی ہے تو سماج کی نگاہوں میں اس کی کوئی عزت نہیں رہتی۔ یہ گوہر کئی طریقوں سے ضائع ہوتا ہے۔ جب عورت کی شادی ہو جائے تو یہ گوہر خاوند کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ بعض اوقات مرد اسے زبردستی حاصل کر لیتے ہیں اور بعض اوقات شادی کے بغیر عورتیں اسے اپنے دل پسند مردوں کے حوالے کر دیتی ہیں۔ بعض حالات سے مجبور ہو کر اسے بیچ دیتی ہیں اور بعض اس کی تجارت کرتی ہیں۔
ہم ان عورتوں کے متعلق کچھ کہنا چاہتے ہیں جو پیشے کے طور پر اپنی عصمت بیچتی ہیں حالانکہ یہ بالکل واضح چیز ہے کہ عصمت صرف ایک بار کھوئی یا بیچی جا سکتی ہے، بار بار اس کو بیچا یا کھویا نہیں جا سکتا، لیکن چونکہ اس پیشے کو عرفِ عام میں عصمت فروشی کہا جاتا ہے اسلیئے ہم اسے عصمت فروشی ہی کہیں گے۔
عصمت فروش عورت ایک زمانے سے دنیا کی سب سے ذلیل ہستی سمجھی جاتی رہی ہے مگر کیا ہم نے غور کیا ہے کہ ہم میں سے اکثر ایسی ذلیل و خوار ہستیوں کے در پر ٹھوکریں کھاتے ہیں؟ ۔۔۔ کیا ہمارے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہوتا کہ ہم بھی ذلیل ہیں۔
مقام تاسف ہے کہ مردوں نے اس پر کبھی غور نہیں کیا۔ مرد اپنے دامن پر ذلت کے ہر دھبے کو عصمت فروش عورت کے دل کی سیاہی سے تعبیر کرے گا۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ عورتوں میں خواہ وہ کسبی ہوں یا غیر کسبی ہوں، ننانوے فیصدی ایسی ہوں گی جن کے دل عصمت فروشی کی تاریک تجارت کے باوجود بدکار مردوں کے دل کی بہ نسبت کہیں زیادہ روشن ہوں گے۔ موجودہ نظام کے تحت جس کی باگ ڈور صرف مردوں کے ہاتھ میں ہے، عورت خواہ وہ عصمت فروش ہو یا باعصمت، ہمیشہ دبی رہی ہے۔ مرد کو اختیار ہوگا کہ وہ اس کے متعلق جو چاہے رائے قائم کرئے۔
ہم نے متعدد بار اپنے کانوں سے تعیش پسند امیروں کو اپنا مال و اسباب شہوت کے تنور میں ایندھن کے طور پر جلا کر یہ کہتے سنا ہے کہ فلاں طوائف یا فلاں ویشیا نے ان کو تباہ و برباد کر دیا ہے ۔۔۔ یہ معمّاابھی تک ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔
ویشیا یا طوائف اپنے تجارتی اصولوں کے ماتحت ہر مرد سے جو اس کے پاس گاہک کے طور پر آتا ہے، زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنے کی کوشش کرے گی، اگر وہ مناسب داموں پر یا حیرت انگیز قیمت پر اپنا مال بیچتی ہے تو یہ اس کا پیشہ ہے بنیا بھی تو سودا تولتے وقت ڈنڈی مار جاتا ہے۔ بعض دکانیں زیادہ قیمت پر اپنا مال بیچتی ہیں۔ بعض کم قیمت پر۔
تعجب تو اس بات کا ہے کہ جب صدیوں سے ہم یہ سن رہے ہیں کہ ویشیا کا ڈسا ہوا پانی نہیں مانگتا تو ہم کیوں اپنے آپ کو اس سے ڈسواتے ہیں اور پھر کیوں خود ہی رونا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ ویشیا ارادتاً یا کسی انتقامی جذبے کے زیراثر مردوں کے مال و زر پر ہاتھ نہیں ڈالتی۔ وہ سودا کرتی ہے اور کماتی ہے۔ مرد اپنی جسمانی خواہشات کی تکمیل کا معاوضہ ادا کرتے ہیں اور بس!
ممکن ہے ویشیا کسی مرد سے محبت کرتی ہو لیکن ہر وہ گاہک جو ایک خاص بندے کے زیراثر اس کی دکان میں جاتا ہے، دل میں یہ خواہش بھی پیدا کر لے کہ وہ اس سے سچی محبت کرے تو یہ کیونکر ممکن ہے؟ ۔۔۔ ہم اگر کسی دکان سے ایک روپے کا آٹا لینے جائیں تو ہماری یہ توقع قطعی طور پر مضحکہ خیز ہوگی کہ وہ ہمیں اپنے گھر میں مدعو کرے گا اور سر کے گنج کا کوئی لاجواب نسخہ بتائے گا۔
ویشیا اپنے اس گاہک کے روبروجو اس سے محبت کا طالب ہے، اپنے چہرے پر مصنوعی محبت کے جذبات پیدا کرے گی۔ یہ چیز گاہک کو خوش کر دے گی، مگر یہ عورت اپنے سینے کی گہرائیوں میں سے ہر مرد کیلئیجو شراب پی کر اس کے کوٹھے پر جھومنے لگتا ہے اور رومان کی ایک نئی دنیا بسانا چاہتا ہے، محبت کی پاک اور صاف آواز نہیں نکال سکتی۔
ویشیا کو صرف باہر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے رنگ روپ اس کی بھڑکیلی پوشاک اور اس کے مکان کی آرائش و زیبائش دیکھ کر یہی نتیجہ مرتب کیا جاتا ہے کہ وہ خوش حال ہے۔ یہ درست نہیں۔
جس عورت کے دروازے شہر کے ہر اس شخص کیلئے کھلے ہیں جو اپنی جیبوں میں چاندی کے چند سکے رکھتا ہو۔ خواہ وہ موچی ہو یا بھنگی، لنگڑا ہو یا لُولا۔ خوبصورت ہو یا کر یہہ المنظر، اس کی زندگی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ایک بدصورت مرد جس کے منہ سے پائیوریا لگے دانتوں کے تعفن کے بھبکے نکلتے ہیں، ایک نفاست پسند ویشیا کے ہاں آتا ہے، چونکہ اس کی گرہ میں اس ویشیا کے جسم کو ایک خاص وقت تک خریدنے کیلئیدام موجود ہیں۔ وہ نفرت کے باوجود اس گاہک کو نہیں موڑ سکتی۔ سینے پر پتھر رکھ کر اس کو اپنے اس گاہک کی بدصورتی اور اس کے منہ کا تعفن برداشت کرنا ہی پڑے گا۔ وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ اس کا ہر گاہک اپولو نہیں ہو سکتا۔
ٹائپسٹ عورتوں کو حیرت سے نہیں دیکھا جاتا۔ وہ عورتیں جودا یہ گیری کا کام کرتی ہیں، انہیں حیرت اور نفرت سے نہیں دیکھا جاتا۔ وہ عورتیں جو گندگی سر پر اٹھاتی ہیں، ان کی طرف حقارت سے نہیں دیکھا جاتا، لیکن تعجب ہے کہ ان عورتوں کو جو اوچھے یا بھونڈے طریقے سے اپنا جسم بیچتی ہیں حیرت، نفرت اور حقارت سے دیکھا جاتا ہے !
حضرات یہ جسم فروشی ضروری ہے۔ آپ شہر میں خوبصورت اور نفیس گاڑیاں دیکھتے ہیں ۔۔۔ یہ خوبصورت اور نفیس گاڑیاں کوڑا کرکٹ اٹھانے کے کام نہیں آ سکتیں۔ گندگی اور غلاظت اٹھا کر باہر پھینکنے کیلئے اور گاڑیاں موجود ہیں جنہیں آپ کم دیکھتے ہیں اور اگر دیکھتے ہیں تو فوراً اپنی ناک پر رومال رکھ لیتے ہیں ۔۔۔ ان گاڑیوں کا وجود ضروری ہے اور ان عورتوں کا وجود بھی ضروری ہے جو آپ کی غلاظت اٹھاتی ہیں، اگر یہ عورتیں نہ ہوتیں تو ہمارے سب گلی کوچے مردوں کی غلیظ حرکات سے بھرے ہوتے۔
یہ عورتیں اجڑے ہوئے باغ ہیں، گھورے ہیں جن پر گندے پانی کی موریاں بہہ رہی ہوں، یہ ان گندی موریوں ہی پر زندہ رہتی ہیں ۔۔۔ ہر انسان کیسے ایک جیسے شاندار طریقے پر زندگی بسر کر سکتا ہے؟
ذرا خیال فرمایئے، شہر کے ایک کونے میں ایک ویشیا کا مکان ہے، رات کی سیاہی میں ایک مرد جو اپنے سینے میں اس سے بھی زیادہ سیاہ دل رکھتا ہے، اپنے جسم کی آگ ٹھنڈی کرنے کیلئے بے دھڑک اس کے مکان میں چلا جاتا ہے ۔ ویشیا اس مرد کے دل کی سیاہی سے واقف ہے۔ اس سے نفرت بھی کرتی ہے۔ اچھی طرح جانتی ہے کہ اس کا وجود دامنِ انسانیت پر ایک بدنما دھبہ ہے۔ اس کو معلو م ہے کہ وہ ازمنۂ بربریت کا ایک خوفناک نمونہ ہے، مگر وہ اپنے گھر کے دروازے اس پر بند نہیں کرسکتی۔ جو دروازے معاشی کشمکش نے ایک دفعہ کھول دیئے ہوں ، بہت مشکل سے بند کیئے جاسکتے ہیں۔
یہ ویشیا جو عورت پہلے ہے ، ویشیا بعد میں ، اس مرد کو چند سکوں کے عوض اپنا جسم حوالے کردیتی ہے لیکن اس کی روح اس وقت جسم میں نہیں ہوتی ۔ ایک ویشیا کے الفاظ سنیئے۔ ’’لوگ مجھے باہر کھیتوں میں لے جاتے ہیں۔۔۔ میں لیٹی رہتی ہوں بالکل بے حس و بے حرکت ، لیکن میری آنکھیں کھلی رہتی ہیں ۔ میں دور ۔۔۔ بہت دور ان درختوں کو دیکھتی رہتی ہوں ، جن کی چھاؤں میں کئی بکریاں آپس میں لڑ جھگڑ رہی ہوتی ہیں ۔ کتنا پیارا منظر ہوتا ہے ۔ میں بکریاں گننا شروع کردیتی ہوں یا پیڑوں کی ٹہنیوں پر کوؤں کو شمار کرنے لگتی ہوں ۔ انیس ،بیس ۔۔۔اکیس بائیس۔۔۔ اور مجھے معلوم بھی نہیں ہوتا کہ میرا ساتھی اپنے کام سے فارغ ہوکر ایک طرف ہانپ رہا ہے۔‘‘
مشاہدہ بتاتا ہے کہ ویشیا ئیں عام طور پر خدا ترس ہوتی ہیں ۔ ہر ہندو ویشیا کے مکان پر کسی نہ کسی کمرے میں آپ کو کرشن بھگوان یا گنیش مہاراج کی مورتی یا تصویر ضرور نظر آئیگی ۔ وہ اس مورتی کی اسی قدر صدق دل سے پوجا کرتی ہے جتنی ایک باعصمت یا گھریلو عورت کرسکتی ہے۔ اسی طرح وہ ویشیا جو مسلمان ہے ، ماہِ رمضان میں روزے ضرور رکھے گی، محرم میں اپنا کاروبار بندرکھے گی، سیاہ کپڑے پہنے گی، غریبوں کی مدد کرے گی اور خاص خا ص موقعوں پر خدا کے حضور میں عجز و نیاز کا نذرانہ بھی ضرور پیش کرے گی۔ بادی النظر میں عصمت باختہ عورتوں کو مذہب سے یہ لگاؤ ایک ڈھونگ معلوم ہوتا ہے مگر حقیقت میں یہ ان کی روح کا وہ حصہ پیش کرتا ہے جو سماج کے زنگ سے یہ عورتیں بچا بچا کے رکھتی ہیں۔
دوسرے مذہب کی ویشیا ئیں بھی آپ کو روحانی طور پر اپنے مذہب کے ساتھ بڑی مضبوطی کے ساتھ جکڑی نظر آئیں گی ۔ کرسچین ویشیا گرجے میں نماز کیلئے ضرور جائیگی۔ کنواری مریم کی تصویر کے پاس دیا ضرور جلائے گی۔ دراصل اس تجارت میں ویشیا اپنے جسم کو لگاتی ہے نہ کہ روح کو ۔ بھنگ یا چرس بیچنے والا ضروری نہیں کہ ان منشیات کا عادی ہو، ٹھیک اسی طرح ہر مولوی یا پنڈت پاکپاز نہیں ہوسکتا ۔
جسم داغا جاسکتا ہے مگر روح نہیں داغی جاسکتی۔
ویشیا ا پنی تاریک تجارت کے باوجود روشن روح کی مالک ہوسکتی ہے ۔ وہ اپنے جسم کی قیمت بڑی بے دردی سے وصول کرتی ہے۔ مگر وہ غریبوں کی وسیع پیمانے پر مدد بھی کرسکتی ہے۔ بڑے بڑے امیر اس کے دل میں اپنی محبت پیدا نہ کرسکے ہوں۔ مگر وہ سڑکوں پر سونے والے ایک آوارہ گرد کی پھٹی ہوئی جیب میں اپنا دل ڈال سکتی ہے۔
ویشیا دولت کی بھوکی ہوتی ہے ، لیکن کیا دولت کی بھوکی محبت کی بھوک نہیں ہوسکتی؟
یہ ایسا سوال ہے جس کے جواب میں ہمیں تفصیل سے کام لینا پڑے گا۔
خاندانی ویشیا اور نوکسبی ویشیا میں بہت فرق ہے اور پھر وہ عورتیں یا لڑکیاں جو اپنے غریب ماں باپ یا اپنے یتیم بچوں کی پرورش کیلئے مجبوراً اپنا جسم چھپ چھپ کر فروخت کرتی ہیں، ان کی حیثیت متذکرہ صدر اقسام سے بالکل جداگانہ ہے۔
خاندانی ویشیا سے ہماری مراد وہ کسبی عورت ہے جو ویشیا کے بطن سے پیدا ہوتی ہے اور اسی کے گھر میں پالی پوسی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ عورت جس کو خاص اصولوں کے تحت ویشیا بننے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ایسی عورتیں جو اس ماحول میں پرورش پاتی ہیں، عشق و محبت کو عام طور پر ایسا سکہ تصور کرتی ہیں جو ان کے بازار میں نہیں چل سکتا۔ یہ نظریہ درست ہے ا سلیئے کہ اگر وہ ہر اس مرد کو جوان کے پاس چند لمحات گزارنے کیلئے آئے، اپنا دل حوالے کر دیں تو ظاہر ہے کہ وہ اپنے کاروبار میں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔
عام طور پر یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ اس سکول کی ویشیاؤں کے سینے میں عشق و محبت کا عنصر کم ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ دوسری عورتوں کے مقابلے میں مردوں سے عشق کرنے میں بڑی احتیاط اور بڑے بخل سے کام لیتی ہیں۔ مردوں سے روزانہ میل جول ان کے دل میں ایک ناقابل بیان تلخی پیدا کر دیتا ہے۔ وہ مردوں کو حیوانوں سے بدتر سمجھنے لگتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ اس ضمن میں ایک حد تک ’’منکر‘‘ ہو جاتی ہیں، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کا سینہ محبت کے لطیف جذبات سے خالی ہوتا ہے۔
جس طرح بھنگن کی لڑکی کو گندگی کا پہلا ٹوکرا اٹھاتے وقت گھن نہیں آئے گی اسی طرح اپنے پیشے کا پہلا قدم اٹھاتے وقت ایسی ویشیاؤں کو بھی حجاب محسوس نہیں ہوگا۔ آہستہ آہستہ حیا اور جھجک سے متعلقہ قریب قریب تمام جذبات ان میں گھس گھسا کر ہٹ جاتے ہیں ۔۔۔ چکلے کے اندر جہاں شہوت پرست مردوں کیلئے ان عورتوں کے مکان کھلے رہتے ہیں، لطیف جذبات کیسے داخل ہو سکتے ہیں۔
جس طرح باعصمت عورتیں ویشیاؤں کی طرف حیرت اور تعجب سے دیکھتی ہیں، ٹھیک اسی طرح وہ بھی ان کی طرف اسی نظر سے دیکھتی ہیں۔ اوّل الذکر کے پیش نظر یہ استفہام ہوتا ہے۔ ’’کیا عورت اس قدر ذلیل ہو سکتی ہے؟‘‘ موخر الذکر یہ سوچتی ہیں۔ ’’یہ پاک باز عورتیں کیسی ہیں ۔۔۔ کیا ہیں؟‘‘
ویشیا جس کی ماں ویشیا تھی جس کی دادی ویشیا تھی جس کی پردادی ویشیا تھی، جس نے ویشیا کا دودھ پیا، جو عصمت فروشی کے گہوارے میں پلی، وہیں بڑی ہوئی، جس کی تجارت کا آغاز بھی وہیں شروع ہوا، عصمت اور باعصمت عورتوں کے متعلق کیا سمجھ سکتی ہے۔
ان سو لڑکیوں میں سے جو ویشیاؤں کے گھر میں پیدا ہوتی ہیں۔ شاید ایک دو کے دل میں اپنے گردوپیش کے ماحول سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور وہ اپنے جسم کو صرف ایک مرد کے حوالے کرنے کا تہیہ کرتی ہیں، لیکن باقی سب اسی راستے پر چلتی ہیں جو ان کی ماؤں نے ان کیلئے منتخب کیا ہوتا ہے۔
جس طرح ایک دکاندار کا بیٹا اپنی نئی دکان کھولنے کا شوق رکھتا ہے اور اس شوق کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتا ہے، ٹھیک اسی طرح ویشیاؤں کی جوان لڑکیاں اپنا پیشہ شروع کرنے کا بڑا چاؤ رکھتی ہیں، چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ ایسی لڑکیاں نت نئے طریقوں سے اپنے جسم اور حسن کی نمائش کرتی ہیں۔ جب وہ اپنی تجارت کا آغاز کرتی ہیں تو باقاعدہ رسوم ادا کی جاتی ہیں۔ ایک خاص اہتمام کے ماتحت یہ سب کچھ کیا جاتا ہے جیساکہ دوسرے تجارتی کاموں کی بنیاد رکھتے وقت خاص رسوم کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔
ان حالات کے تحت جیسا کہ ظاہر ہے، متذکرہ صدر قسم کی ویشیاؤں کے دل میں عشق پیدا ہونا مشکل ہے، یہاں عشق سے ہماری مراد وہی عشق ہے، جو ہمارے یہاں عرصہ دراز سے رائج ہے۔ ہیر رانجھا اور سسّی پنوں والا عشق۔
ایسی ویشیائیں عشق کرتی ہیں، مگر ان کا عشق بالکل جدا قسم کا ہوتا ہے۔ یہ لیلیٰ مجنوں اور ہیر رانجھے والا عشق نہیں کر سکتیں۔ ا سلیئے کہ یہ ان کی تجارت پر بہت برا اثر ڈالتا ہے، اگر کوئی ویشیا اپنے اوقات تجارت میں سے چند لمحات ایسے مرد کو دے جس سے اسے روپے پیسے کا لالچ نہ ہو تو ہم اسے عشق و محبت کہیں گے۔ اصولاً ویشیا کو صرف مرد کی دولت سے محبت ہوتی ہے، اگر وہ کسی مرد سے اس کی دولت کی خاطر نہیں بلکہ صرف اس کی خاطر ملے تو یہ اصول ٹوٹ جائے گا اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی ظاہر ہو جائے گا کہ اس ویشیا کی جیب نہیں بلکہ اس کا دل کارفرما ہے۔ جب دل کارفرما ہو تو عشق و محبت کے جذبے کا پیدا ہونا لازمی ہے۔
چونکہ عام طور پر عورت سے عشق و محبت کرنے کا واحد مقصد جسمانی لذت ہوتا ہے ا سلیئے ہم یہاں بھی جسمانی لذتوں ہی کو عشق کے اس جذبے کا محرک سمجھیں گے گو اس کے علاوہ اور بہت سی چیزیں اس کی تخلیق و تولید کی مہیج ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ویشیا جو اپنے کوٹھے پر ہر مرد پر حکم چلانے کی عادی ہوتی ہے۔ غیر مختتم ناز برادریوں سے سخت تنگ آ جاتی ہے۔ اس کو آقا بننا پسند ہے، مگر کبھی کبھی وہ غلام بننا بھی چاہتی ہے۔ ہر فرمائش پوری ہو جانے میں اس کو بہت فائدہ ہے مگر انکار میں اور ہی لذت ہے۔ وہ ہر طرف سے دولت سمیٹتی ہے۔ یہ کام اس کا معمول بن جاتا ہے۔ ا سلیئے کبھی کبھی اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ بھی کسی کیلئے خرچ کرے، اگر سب اس کی خوشامد کرتے ہیں تو وہ بھی کسی کی خوشامد کرے، اگر وہ ضد کرتی ہے تو کوئی اس سے بھی ضد کرے۔ وہ سب کو دھتکارتی ہے تو کوئی اسے بھی دھتکارے ستائے مارے پیٹے۔ یہ تمام چیزیں مل کر اس کے دل میں ایک خاص مرد کو اپنا رفیق بنانے پر مجبور کر تی ہیں، چنانچہ وہ انتخاب کرتی ہے۔
انتخاب کا یہ وقت بہت نازک ہوتا ہے۔ بہت ممکن ہے وہ کسی رئیس زادے پر اپنے دل کے خاص دروازے کھول دے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے کوٹھے پر چلمیں بھرنے والے چرس نوش میراثی کے غلیظ قدموں میں اپنا وہ سر رکھ دے جس کے بالوں کو چومنے کیلئے بڑے بڑے راجاؤں اور مہاراجوں نے کئی کئی ہزار طلائی اشرفیاں پانی کی طرح بہا دی تھیں اور پھر اس وقت بھی کوئی تعجب نہ ہونا چاہیئے جب وہ غلیظ آدمی اس سر کو ٹھوکر مار کر پرے ہٹا دے۔ اس قسم کے واقعات دیکھنے اور سننے میں آ چکے ہیں۔
ہمارے یہاں ایک مشہور طوائف اس وقت تک موجود ہے۔ جس کے عشق میں ایک نواب مدتوں لٹو بنا رہا مگر وہ ایک نہایت ہی معمولی آدمی کے عشق میں گرفتار تھی۔ طوائف نواب کے عشق کا مضحکہ اڑاتی تھی اور ادھر اس کے اپنے عشق کا مضحکہ اڑایا جاتا تھا۔ نواب طوائف کے عشق میں رسوا ہوا اور طوائف اس آدمی کے عشق میں بدنام ہوئی۔
عام عورتوں کے مقابلے میں ان ویشیاؤں کے عشق کی شدت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ا سلیئے کہ یہ مردوں کے ساتھ ملنے جلنے سے نت نئے عاشقانہ جذبات سے متعارف ہوتی رہتی ہیں۔ جب یہ خود اس میں گرفتار ہوتی ہیں تو ان کو جلن زیادہ محسوس ہوتی ہے۔
ایسے بازاروں میں جہاں یہ عورتیں رہتی ہیں، آپ کو متذکرہ صدر قسم کی کئی کہانیاں سننے میں آ سکتی ہیں۔ خاص کر ان تعیش پسند امیروں کو جن کی تھیلیوں کے منہ ان جسم فروش عورتوں کے کوٹھوں پر کھلتے ہیں۔ ایسی کہانیاں ازبر ہیں۔ جن کو وہ اکثر مزے لے لے کر دوسروں کو سنانے کے عادی ہیں۔ سارنگئے، میراثی طبلچی اور وہ لوگ جن کی آمدورفت ایسے کوٹھوں پر عام رہتی ہے، آپ کو بہت دلچسپ قصے سنائیں گے۔
انہی لوگوں سے سنے سنائے قصوں میں ہم ایک ایسی ویشیا کی کہانی مثال کے طور پر پیش کر سکتے ہیں جو کہ ہزاروں اور لاکھوں میں کھیلتی تھی، مگر اس کا دل ایک چیتھڑے لٹکائے مزدور کے کھردرے پیروں تلے ہر روز روندا جاتا تھا۔ وہ ہر شب اپنے دولت مند پرستاروں سے سیم وزر کے انبار جمع کرتی تھی مگر ایک مزدور کے میلے کچیلے سینے میں دھڑکتے ہوئے دل تک اس کا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا تھا۔ کہتے ہیں کہ یہ نازک بدن اس مزدور کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئیکئی بار سڑک کے پتھروں پر سوئی۔
اس قسم کا تضاد و تخائف جو عشق و محبت کا اصلی رنگ ہے، قحبہ خانوں میں دیکھا جائے تو بہت شوخ پُراسرار حد تک رومانی نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ صرف عقبی منظر ہے جو پیش منظر کے ہر نقش کو ابھارتا ہے چونکہ عام طور پر ویشیا کے بارے میں یہی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سونا کھودنے والی کدال ہے اور محبت کے جذبات سے قطعی طور پر عاری ہے، ا سلیئے جب کبھی کسی ویشیا کے عشق کی ایسی داستان سننے میں آتی ہے تو بڑی عجیب و غریب اور پُر اسرار معلوم ہوتی ہے۔ ہم ایسی داستانوں کو اسی وجہ سے عام عورتوں اور مردوں کے معاشقوں کی بہ نسبت زیادہ دلچسپی سے سنتے ہیں۔ جیسے کسی مافوق العادت حادثے کی تفصیل سن رہے ہیں۔ حالانکہ دل اور اس کی دھڑکنوں سے عصمت فروشی یا عصمت مآبی کا کوئی تعلق نہیں ۔۔۔ ایک باعصمت عورت کے سینے میں محبت سے عاری دل ہو سکتا ہے اور اس کے برعکس چکلے کی ایک ادنیٰ ترین ویشیا محبت سے بھرپور دل کی مالک ہو سکتی ہے۔
ہر عورت ویشیا نہیں ہوتی لیکن ہر ویشیا عورت ہوتی ہے۔ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے۔
ویشیاؤں کے عشق میں ایک خاص بات قابل ذکر ہے۔ ان کا عشق ان کے روز مرّہ کے معمول پر بہت کم اثر ڈالتا ہے۔ ایسی بہت کم طوائفیں ملیں گی جنہوں نے اس جذبے کی خاطر اپنا کاروبار قطعی طور پر بند کر دیا ہو (کسی شریف لڑکی کے عشق میں گرفتار ہو کر شہر کا شریف دکاندار بھی اپنی دکان بند نہیں کرے گا) عام طور پر یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ اپنے عشق کے ساتھ ساتھ اپنا کاروبار بھی جاری رکھتی ہیں۔ دراصل مال و دولت حاصل کرنے کی ایک تاجرانہ طلب ان میں پیدا ہو جاتی ہے۔ نت نئے گاہک بنانا اور ہر روز اپنا مال بیچنا ایک عادت سی بن جاتی ہے اور یہی عادت بعد میں طبیعت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس طور پر کہ پھر اس کی زندگی کے دوسرے شعبوں سے کوئی سروکار نہیں رہتا۔ جس طرح گھر کے نوکر جھٹ پٹ اپنے آقاؤں کے بستر لگا کر اپنے آرام کا خیال کرتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح یہ عورتیں بھی اپنے گاہکوں کو نمٹا کر اپنی خوشی اور راحت کی طرف پلٹ آتی ہیں۔
دل ایسی شے نہیں جو بانٹی جا سکے اور مرد کے مقابلے میں عورت کم ہر جائی ہوتی ہے۔ چونکہ ویشیا عورت ہے ا سلیئے وہ اپنا دل تمام گاہکوں میں تقسیم نہیں کر سکتی۔ عورت کے متعلق مشہور ہے کہ وہ اپنی زندگی میں صرف ایک مرد سے محبت کرتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بہت حد تک ٹھیک ہے۔ ویشیا صرف اسی مرد پر اپنے دل کے تمام دروازے کھولے گی۔ جس سے اسے محبت ہو۔ ہر آنے جانے والے مرد کیلئے وہ ایسا نہیں کر سکتی۔
ویشیاؤں کے بارے میں عام طور پر یہ شکایت سننے میں آتی ہے کہ وہ بڑی بے رحم اور جلاّد صفت ہوتی ہیں ممکن ہے سو میں سے پانچ چھ اس نوعیت کی ہوں مگر سب کی سب ایسی نہیں ہوتیں بلکہ یوں کہیئیکہ نہیں ہو سکتیں۔ ویشیا اور باعصمت عورت کا مقابلہ ہر گز ہر گز نہیں کرنا چاہیئے۔ ان دونوں کا مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ویشیا خود کماتی ہے اور باعصمت عورت کے پاس کما کر لانے والے کئی موجود ہوتے ہیں۔
ہمارے کانوں میں ایک ویشیا کے یہ لفظ ابھی تک گونج رہے ہیں، جو اس کے دل کی تمام گہرائیاں پیش کرتے ہیں۔ آپ بھی سنیئے!
’’ویشیا ایک بے کس اور بے یارومددگار عورت ہے۔ اس کے پاس ہر روز سینکڑوں مرد آتے ہیں، ایک ہی خواہش لے کر ۔۔۔ وہ اپنے چاہنے والوں کے ہجوم میں بھی اکیلی رہتی ہے ۔۔۔ بالکل تن تنہا ۔۔۔ وہ رات کے اندھیرے میں چلنے والی ریل گاڑی ہے جو مسافروں کو اپنے اپنے ٹھکانے پر پہنچا کر ایک آہنی چھت کے نیچے خالی کھڑی رہتی ہے۔ بالکل خالی دھوئیں اور گردوغبار سے اٹی ہوئی ۔۔۔ لوگ ہمیں برا کہتے ہیں۔ معلوم نہیں کیوں؟ ۔۔۔ وہی مرد جو رات کی تاریکی میں ہم سے راحت مول لے کر جاتے ہیں، دن کے اجالے میں ہمیں نفرت و حقارت سے دیکھتے ہیں ۔۔۔ ہم کھلے بندوں اپنا جسم بیچتی ہیں اور اس کو راز بنا کر نہیں رکھتیں۔ وہ ہمارے پاس یہ جنس خریدنے کیلئے آتے ہیں اور اس سودے کو راز بنا کر رکھتے ہیں ۔۔۔ سمجھ میں نہیں آتا کیوں؟‘‘
ذرا اس ویشیا کا تصور کیجئے جس کا اس دنیا میں کوئی بھی نہ ہو۔ نہ بھائی نہ بہن نہ ماں نہ باپ اور نہ کوئی دوست۔ اپنے گاہکوں سے فراغت پا کر جب وہ کمرے میں اکیلی بالکل اکیلی رہ جاتی ہوگی تو اس کے دل و دماغ کی کیا کیفیت ہوگی ؟ ۔۔۔ یہ تاریکی اس اندھیرے میں اور کتنی تاریک ہو جاتی ہوگی۔
اگر سارا دن ٹوکری ڈھونے کے بعد مزدور کو اپنی تھکان دور کرنے کا کوئی ذریعہ نظر نہ آئے، اپنی دل بستگی کیلئے بیوی کی باتیں اسے نصیب نہ ہوں، نہ اس کی ماں ہو جو اس کے تھکے ہوئے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کی تمام تکلیفیں دور کر دے تو بتایئے اس مزدور کی کیا حالت ہوگی؟
اس مزدور اور اس ویشیا دونوں کی حالت ایک جیسی ہے۔ویشیا ایک رنگین شے نظر آتی ہے ۔۔۔ کیوں ؟
اس سوال کے جواب کیلئے ہمیں اپنا دل ٹٹولنا پڑے گا یہ کمزوری ہم مردوں کی نگاہوں کی ہے اور اس کمزوری کے اسباب تلاش کرنے کیلئے ہمیں اپنے آپ ہی سے بات چیت کرنا پڑے گی۔ اس بارے میں غوروفکر کے بعد ہم جو معلوم کر سکے ہیں یہ ہے۔
ویشیا کا نام لیتے وقت ہمارے دماغ میں ایک ایسی عورت کا تصور پیدا ہوتا ہے، جو مرد کی شہوانی خواہشات اس کی مرضی اور ضرورت کے مطابق پوری کر سکتی ہے، گو عورت اور ویشیا پن دو بالکل جدا چیزیں ہیں مگر جب ہم کسی ویشیا کے بارے میں کچھ سوچتے ہیں تو اس وقت عورت مع اپنے پیشے کے سامنے آ جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان پر اس کے ماحول اور اس کے پیشے کا بہت اثر ہوتا ہے، مگر کوئی وقت ایسا بھی ہوتا ہے جب وہ ان تمام چیزوں سے الگ ہٹ کر صرف انسان ہوتا ہے۔ اسی طرح کوئی ایسا وقت بھی ضرور آتا ہوگا جب ویشیا اپنے پیشے کا لباس اتار کر صرف عورت رہ جاتی ہو گی مگر افسوس ہے کہ ہم ہر وقت عورت اور ویشیا کو ایک ہی جگہ دیکھنے کے عادی ہیں۔
جب ویشیا کو ہم اس عینک سے دیکھیں تو ہمیں اس کے ساتھ ہی وہ چیز بھی نظر آتی ہے جسے ہم مرد عیش و عشرت سے تعبیر کرتے ہیں اور عیش و عشرت کا مطلب عام طور پر جسمانی لذت ہوتا ہے۔
جسمانی لذت کیا ہے؟
ایک وقتی حظ جو ہمیں اپنی بیوی یا کسی اور عورت کی مدد سے حاصل ہوتا ہے۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ شادی شدہ مرد اپنی بیویاں چھوڑ کر اس وقتی لذت کیلئے بازاری عورتوں کے پاس کیوں جاتے ہیں؟ جب ان لوگوں کی جسمانی خواہشات گھر میں پوری ہو سکتی ہیں تو وہ اس کیلئے باہر کیوں مارے مارے پھرتے ہیں؟
اس سوال کا جواب مشکل نہیں۔ آپ کو ایسے کئی آدمی نظر آئیں گے جو گھر کے مرغن اور لذیذ کھانے چھوڑ کر ہوٹلوں میں جاتے ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کو ہوٹلوں کے کھانے کی چاٹ پڑ جاتی ہے۔ ہوٹل کی چیزوں میں غذائیت کم ہوتی ہے مگر ان میں ایک اور شے ہوتی ہے جو ان لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ اسے ہم ’’ہوٹلیت‘‘ کہہ سکتے ہیں، ایک ایسی برائی جو وصف بن جاتی ہے بلکہ یوں کہیئے کہ ایک کشش بن جاتی ہے۔ اس میں ہوٹل کے مالکوں کے فن کا دخل بھی ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ جو ماحول ہوٹل میں میسر آ سکتا ہے، انہیں اپنے گھر میں نصیب نہیں ہو سکتا۔ انسان طبعاً تنوع پسند ہے، ا سلیئے جب وہ اپنے روزمرہ کے پروگرام میں تبدیلی چاہے تو تعجب نہ ہونا چاہیئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہوٹلوں میں ان لوگوں کو اچھا کھانا نہیں مل سکتا اور اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ یہاں گھر کی بہ نسبت زیادہ خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے مگر یہی چیز تو یہ لوگ چاہتے ہیں۔ یہی فرق تو انہیں گھر سے کھینچ کر ہوٹلوں میں لاتا ہے۔ یہ نادانی ہے مگر لطف یہ ہے کہ انہیں اسی نادانی ہی میں تو مزا آتا ہے۔
ان شادی شدہ مردوں کا بھی یہی حال ہے جو اپنی بیویاں چھوڑ کر بازاری عورتوں کی آغوش میں لذت تلاش کرنے آتے ہیں۔ اب آپ پوچھیں گے کہ آیا ان لوگوں کو اس تلاش میں کامیابی ہوتی ہے؟ ۔۔۔ ہم کہیں گے یقیناً ۔۔۔ جن عورتوں کے پاس یہ لوگ جاتے ہیں اس فن کی ماہر ہوتی ہیں۔ وہ یہی چیز تو بیچتی ہیں۔ ان کا پیشہ ہی یہ ہے کہ گھریلو عورتوں سے بالکل مختلف رنگ کی لذت پیش کریں، اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان کا کاروبار کیسے چل سکتا ہے؟
جیساکہ ہم اس مقالے کے آغاز میں کہہ چکے ہیں۔ عصمت فروشی خلاف عقل چیز نہیں۔
***

لوگ اپنے آپ کو مدہوش کیوں کرتے ہیں؟


اس حقیقت کی کیا توضیح ہو سکتی ہے کہ لوگ ایسی اشیاء استعمال میں لاتے ہیں جو انہیں بے خود و مدہوش بنا دیں۔ مثال کے طور پر شراب، بیئر، چرس، گانجا، افیم، تمباکو اور دوسری چیزیں جو زیادہ عام نہیں مثلاً ایتھر، مارفیا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔۔ ان منشیات کا استعمال کیوں شروع ہوا؟ ۔۔۔۔۔۔ ان کا استعمال اتنی جلدی کیوں عام ہو گیا ہے۔ مہذب اور غیر مہذب لوگوں میں ان کی کھپت کیوں روز بروز بڑھ رہی ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ یہ کیا بات ہے کہ جہاں شراب یا بیئر نہیں ملتی، وہاں افیم گانجا اور چرس وغیرہ کا استعمال عام ہے اور تمباکو دنیا کے ہر کونے میں پیا جاتا ہے۔
لوگ اپنے آپ کو مدہوش کیوں کرتے ہیں ؟
آپ کسی سے یہ سوال پوچھئے کہ اس نے کیوں پینا شروع کی اور یہ کہ اب وہ کیوں پیتا ہے تو وہ غالباً یہ جواب دے گا۔ ’’شراب بڑی خوش گوار چیز ہے ۔۔۔۔۔۔ اور پھر سبھی تو پیتے ہیں۔‘‘ شاید وہ یہ بھی کہے۔ ’’میں پیتا ہوں ا سلیئے کہ مجھے اس سے فرحت حاصل ہوتی ہے! ‘‘ اور وہ لوگ جنہوں نے آج تک اس بات پر غور کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی کہ شراب بری چیز ہے یا اچھی۔ اپنے جواب میں یہ کہیں گے کہ وہ صحت قائم رکھنے کیلئے شراب پیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ ایک ایسا بیان ہے جو آج سے بہت عرصہ پہلے بے بنیاد ثابت ہو چکا ہے۔
کسی تمباکو پینے والے سے پوچھئے کہ حضرت آپ نے کس ضرورت کے ماتحت تمباکو پینا شروع کیا اور اب آپ تمباکو کیوں پیتے ہیں۔ تو اس کا جواب بھی کچھ اس قسم کا ہوگا۔ ’’وقت کاٹنے کیلئے ہر شخص تمباکو پیتا ہے !‘‘
وقت کاٹنے کیلئے، فرحت حاصل کرنے کیلئے ۔۔۔۔۔۔ وقت کاٹنے کیلئے فرحت حاصل کرنے کیلئے اگر کوئی اپنی انگلیاں چٹخائے، سیٹی بجائے، کچھ گنگنائے یا اسی قسم کی کوئی اور چیز کرئے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ اسلیئے کہ ایسا کرنے سے نیچر کی دولت ضائع نہیں ہوتی اور نہ کوئی ایسی چیز ہی خرچ ہوتی ہے، جس کے بنانے پر بے شمار سرمایہ اور محنت صرف ہوئی ہو۔ اس کے علاوہ اس سے نہ اپنے آپ کو اور نہ دوسروں کو کوئی دکھ ہی پہنچتا ہے، لیکن تمباکو، چرس ،شراب اور افیم بنانے پر لاکھوں آدمیوں کی محنت خرچ ہوتی ہے اور کروڑوں ایکڑ زمین بھنگ، پوست، انگور اور تمباکوکی کاشت کیلئے وقف کر دی جاتی ہے۔ علاوہ بریں یہ مسلمہ نقصان دہ چیزیں نہایت ہی خطرناک برائیاں پیدا کرنے کا موجب ہوتی ہیں اور لوگوں کو متعدی امراض اور جنگوں سے کہیں زیادہ تباہ و برباد کرتی ہیں۔ یہ تمام حقائق روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ اس لیئے ظاہر ہے کہ ان کا استعمال ’’وقت کاٹنے کیلئے، فرحت حاصل کرنے کیلئے ‘‘ ہر گز ہر گز نہیں ہو سکتا اور نہ یہ بہانہ ہی چل سکتا ہے کہ’’ہر شخص پیتا ہے۔‘‘
ان کے استعمال کی کوئی اور ہی وجہ ہے۔
ہم ہر روز ایسے آدمیوں سے ملتے ہیں جو اپنے بال بچوں سے محبت کرتے ہیں اور جو ان کیلئے ہر قسم کی قربانی کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں، لیکن وہ اس کے باوصف شراب بھنگ افیون یا چرس پر اتنا روپیہ خرچ کرتے ہیں جو ان کے غربت زدہ اہل و عیال کی حالت بہتر بنا سکتا ہے یا کم از کم ان کو افلاس سے نجات دلا سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے اہل و عیال کی ضروریات اور ان کی مشکلات پر مدہوش کرنے والی چیزوں کو ترجیح دیتا ہے تو کوئی اور ہی معقول وجہ کارفرما ہوتی ہے۔ یہاں ’’وقت کاٹنے، فرحت حاصل کرنے کیلئے اور ہر شخص پیتا ہے۔‘‘ کی دلیل عائد نہیں ہو سکتی۔ کوئی ٹھوس وجہ اس فعل کے ساتھ وابستہ ہے۔
یہ ٹھوس وجہ ۔۔۔۔۔۔ جیساکہ میں نے اس موضوع پر کتابیں پڑھ کر دوسرے لوگوں کا مشاہدہ کر کے اور خاص طور پر اپنی اس حالت کا اندازہ کرنے کے بعد جب میں شراب اور تمباکو کو پیا کرتا تھا۔ سوچا ہے، مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کی جا سکتی ہے۔
اگر کوئی شخص اپنی زندگی پر نظر کرے تو اکثر اوقات وہ اپنے اندر دو ہستیاں موجود پائے گا۔ ایک اندھی اور جسمانی ہے۔ دوسری بصارت کی مالک ہے، یعنی روحانی، اول الذکر اندھا حیوانی وجود کھاتا ہے، پیتا ہے، آرام کرتا ہے، سوتا ہے، بڑھتا ہے، حرکت کرتا ہے، بالکل کوک بھری مشین کے مانند اور روحانی وجود جو کہ دیکھتا ہے یعنی بصارت کا مالک ہے، حیوانی وجود سے بندھا ہوا ہے، یہ اپنے آپ کچھ نہیں کرتا۔ صرف اپنے ساتھی کی حرکات جانچتا رہتا ہے۔ جب یہ حیوانی وجودکے کسی عمل کو پسند کرتا ہے تو اس کے اندر گھل مل جاتا ہے اور جب یہ حیوانی وجود کے کسی عمل کو ناپسند کرتا ہے تو اس سے الگ ہوجاتا ہے ۔
اس مشاہدہ و ملاحظہ کرنے والے وجود کی تشبیہہ کمپاس کی سوئی سے دی جا سکتی ہے ۔جس کا ایک سرا شمال کی طرف اور دوسرا سرا جنوب کی طرف رہتا ہے۔ ہم کو اصل سمت اور اس سوئی کا فرق صرف اسی صورت میں معلوم ہوتا ہے، اگر ہم غلط سمت جا رہے ہوں۔ ٹھیک اسی طرح روحانی وجود (جس کے اظہار کو ہم عام طور پر ضمیر کہتے ہیں) کا ایک سرا برائی کی طرف رہتا ہے اور دوسرا سرا اچھائی کی طرف، اس روحانی وجود کی موجودگی سے باخبر ہونے کیلئے ہمیں کوئی ایسا فعل کرنا پڑے گا، جو ضمیر کے خلاف ہو کیونکہ حیوانی وجود کا رخ اس مقام سے ہٹ جائے گا جس کی طرف ضمیر اشارہ کرتا رہتا ہے۔
جس طرح وہ جہاز ران جو اس بات سے آگاہ ہو کہ وہ غلط رستے پر جا رہا ہے، اب تک کمپاس کے مطابق اپنا رخ ٹھیک نہ کر لے یا اپنی غلطی کے احساس کو قطعی طور پر مٹا دے، چپو نہیں چلا سکتا اور نہ بادبانوں ہی سے کام لے سکتا ہے، ٹھیک اسی طرح وہ انسان جو اپنے حیوانی وجود کی حرکات اور ضمیر کی آواز کی دوئی سے آگاہ ہو، صرف اس صورت میں اپنا کام جاری رکھ سکتا ہے، اگر وہ اسے ضمیر کے مطالبات کے ساتھ ہم آہنگ و منضبط کر دے، یا پھر ان اشارات سے بالکل غافل ہو جائے جو ضمیر اس کے حیوانی وجود کی غلط روی پر اس تک پہنچاتا ہے۔
انسانی زندگی ان دو سرگرمیوں یا عامل قوتوں پر مشتمل ہے۔
۱۔ اپنے افعال کو ضمیر کے ساتھ ہم آہنگ کرنا۔
۲۔ ضمیر کی آواز پر اپنے کان بند کر لینا تاکہ حسب معمول زندگی بسر کی جا سکے۔
بعض حضرات پہلی بات پر عمل کرتے ہیں اور بعض دوسری پر۔ اول الذکر بات صرف اخلاقی روشنی سے حاصل ہوتی ہے اور آخرالذکر بات کیلئے یعنی ضمیر کی آواز پر اپنے کان بند کرلینے کیلئے دو ذریعے ہیں۔ ایک خارجی اور ایک اندرونی۔ خارجی ذریعہ یہ ہے کہ خود کو ایسے مشاغل میں مصروف رکھا جائے جو ہماری توجہ ضمیر کے اشارات سے ہٹائے رکھیں اور اندرونی ذریعہ یہ ہے کہ خود ضمیر ہی کی روشنی کو آہستہ آہستہ گل کر دیا جائے اور اس میں اندھیرا پیدا کر دیا جائے۔
اپنے سامنے کی چیزوں کو نہ دیکھنے کیلئے انسان کے پاس دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ نگاہیں ہٹا کر کسی دوسری چیز کو دیکھنا شروع کر دیاجائے، جو زیادہ جاذب نظر ہوں اور دوسرا یہ کہ اپنی آنکھوں کی بصارت کو مسدود کر دیا جائے، اسی طرح انسان ضمیر کی آواز پر اپنے کان دو طریقوں سے بند کر سکتا ہے۔ پہلا طریقہ خارجی ہے یعنی یہ کہ وہ اپنی توجہ مختلف مشاغل، تفکرات، کھیلوں وغیرہ کی طرف مبذول کر دے اور دوسرا طریقہ اندرونی ہے یعنی یہ کہ وہ توجہ پیدا کرنے والے عضو ہی کو معطل کر دے۔
ان لوگوں کیلئے جن کی قوت احساس کند ہوتی ہے اور جن کے اخلاقی احساسات محدود ہوتے ہیں، بیرونی تفریحات اکثر اوقات اس بات کیلئے کافی ہوتی ہیں کہ وہ ضمیر کے اشارات نہ سمجھیں، لیکن ان لوگوں کیلئے جو اخلاقی طور پر کافی حساس ہوتے ہیں، ایسی تفریحات بالکل ناکافی ہوتی ہیں۔
بیرونی ذرائع پورے طور پر شعور اور ضمیر کی آواز کو نہیں دبا سکتے اور نہ وہ شعور کے مطالبات ہی سے ہمیں قطعی طورپر غافل کر سکتے ہیں۔ اس لیئے ظاہر ہے کہ یہ احساس یہ شعور ہماری زندگی میں روڑے اٹکانا شروع کر دیتا ہے۔ اب وہ لوگ جو اپنے دن حسب سابق گزارنا چاہتے ہیں، اندرونی قابل اعتماد طریقے کو استعمال کرتے ہیں۔ یعنی یہ کہ ضمیر ہی کو تاریک بنا دیا جائے، چنانچہ اس کام کیلئے وہ دماغ کو مدہوش بنانے والی چیزوں سے زہر آلود کرتے ہیں۔
(۲)
شراب، افیم، چرس، بھنگ اور تمباکو کا عالمگیر استعمال اس لیئے نہیں ہوتا کہ یہ چیزیں فرحت یا دل بستگی کا سامان مہیا کرتی ہیں، بلکہ ان کا استعمال صرف اس لیئے کیا جاتا ہے کہ ضمیر کے مطالبات سے خود کو چھپا لیا جائے۔
میں ایک روز بازار میں جا رہا تھا۔ میرے پاس سے دو گاڑی بان گزر رہے تھے۔ ان میں سے ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا۔ ’’بے شک جب ہم ہوش میں ہوں تو ایسا کرتے ہوئے ہمیں شرم محسوس ہوتی ہے۔‘‘ جب آدمی ہوش میں ہو تو اسے کوئی خاص کام کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے اور جب وہ شراب میں مخمور ہو تو اسے وہی کام ٹھیک معلوم ہوتا ہے۔ ان الفاظ میں وہ وجہ پوشیدہ ہے جو انسانوں کو مدہوش بنانے والی اشیاء کی طرف راغب کرتی ہے، لوگ ان اشیاء کو یا تو ا سلیئے استعمال کرتے ہیں کہ شرم کے ان احساسات کو دبا دیں جو کسی غلط کام کرنے پر پیدا ہوتے ہیں یا پہلے ہی سے خود پر ایسی حالت طاری کر لیں جس میں وہ ضمیر کے خلاف کام کر سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ اپنے حیوانی وجود کی اطاعت کر سکتے ہیں۔
ہوش کی حالت میں مرد ویشیا کے مکان پر جانے سے ڈرتا ہے۔ چوری کرنے سے خوف کھاتا ہے اور کسی کو قتل کرنے کی جرأت نہیں کرتا، لیکن یہ تمام کام کرتے ہوئے شرابی کو کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اسلیئے یہ ثابت ہوا کہ اگر کوئی آدمی اپنے ضمیر کے خلاف کام کرنا چاہے تو اسے خود کو مدہوش کرنا پڑتا ہے۔
مجھے اس باورچی کا بیان یاد آ جاتا ہے جس نے میری ایک بوڑھی رشتہ دار کو قتل کر دیا تھا۔ اس نے عدالت میں کہا تھا کہ جب اس نے اپنی داشتہ (ایک نوکرانی) کو باہر بھیج دیا اور کام کرنے کا وقت قریب آ گیا تو اس نے چاقو لے کر کمرۂ خواب میں جانا چاہا، لیکن اس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ ہوش کی حالت میں وہ یہ کام نہیں کر سکے گا، چنانچہ وہ لوٹا اور ’’وودکا‘‘ کے دو گلاس پینے کے بعد اس نے خود کو قتل کیلئیبالکل تیار پایا، چنانچہ اس نے کمرے میں جا کر بڑھیا کو ہلاک کر دیا۔ یہاں اسی گاڑیبان کی بات یاد آ جاتی ہے کہ ’’جب ہم ہوش میں ہوں تو ایسا کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے۔‘‘
دس میں سے نو جرم اسی طریقے پر کیئے جاتے ہیں، یعنی اس بات پر عمل کیا جاتا ہے۔ ’’ہمت حاصل کرنے کیلئے شراب پیو۔‘‘
وہ عورتیں جو اپنی عصمت کھوتی ہیں، ان میں سے پچاس فیصدی ایسی ہوتی ہیں جو شراب کے نشے میں اپنی زندگی کا بہترین زیور اتار کر پھینک دیتی ہیں۔ ویشیاؤں کے ہاں اکثر وہی لوگ جاتے ہیں جو شرابی ہوں، چونکہ لوگ شراب کے اس اثر سے واقف ہیں کہ یہ ضمیر کی آواز بالکل دبا دیتی ہے، ا سلیئے وہ اسے جان بوجھ کر اسی کام کیلئیپیتے ہیں۔
لوگ صرف اپنے ضمیر ہی کی آواز دبانے کیلئے شراب نہیں پیتے بلکہ دوسروں کو بھی اپنے ضمیر سے غافل کرنے کیلئے شراب پلاتے ہیں۔ جنگ میں دو بدو لڑائی کے وقت فوجیوں کو عام طور پر شراب پلائی جاتی ہے۔ سبستوپول پر جب فرانسیسی فوجیوں نے حملہ کیا تھا تو وہ سب کے سب مخمور تھے۔
جب کسی جگہ پر قبضہ کیا جاتا ہے اور فوجی وہاں کے بے یارومددگار بچوں اور بوڑھوں کو مارنے سے انکار کر دیتے ہیں تو عام طور پر ان کوشراب سے مدہوش کرنے کے احکام جاری کیئے جاتے ہیں، مخموری کی حالت میں وہ اس کام کیلئے تیار ہو جاتے ہیں جو ان سے چاہا جاتا ہے۔
ایسے لوگوں کی کئی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے کوئی غلط کام کرنے کے بعد شراب نوشی شروع کی۔ چونکہ وہ اپنی ندامت دور کرنا چاہتے تھے ا سلیئے انہوں نے خود کو مدہوش بنانا شروع کر دیا اور پھر سب لوگ جانتے ہیں کہ وہ لوگ جو بری زندگی بسر کرتے ہیں، منشیات کی طرف جلد راغب ہوتے ہیں۔ چور اچکے رہزن اور ویشیائیں بغیر شراب کے زندہ نہیں رہ سکتیں۔
ہر شخص یہ جانتا ہے اور تسلیم کرتا ہے کہ مدہوش بنانے والی چیزوں کا استعمال باعث ہے ضمیر کی ٹیسیں اور یہ کہ زندگی کے غیر اخلاقی رستوں پر چلتے وقت مدہوش بنانے والی اشیاء کا استعمال صرف اس لیئے کیا جاتا ہے کہ ضمیر کو کند بنا دیا جائے اور یہ بھی ہر شخص پر واضح ہے کہ مدہوش بنانے والی چیزوں کا استعمال ضمیر کو کند بنا دیتا ہے اور یہ کہ مخموری کی حالت میں آدمی وہ فعل بھی کر گزرتا ہے، جو ہوش کی حالت میں وہ کبھی نہیں کر سکتا۔ بلکہ یوں کہئے کہ جس کا اسے کبھی قیاس بھی نہیں ہوگا۔ ہر شخص ان باتوں کو تسلیم کرتا ہے، مانتا ہے لیکن جب مدہوش بنانے والی اشیاء چوری چکاری، قتل و غارت یا تشدد پر منتج نہیں ہوتیں۔ جب ان کو کسی بھیانک جرم کے بعد استعمال نہیں کیا جاتا۔ جب ان کو ایسے لوگ استعمال میں لاتے ہیں جو مجرم نہیں ہوتے اور جب ایسی چیزیں تھوڑی تھوڑی مقدار میں استعمال کی جاتی ہیں تو عام طور پر کسی وجہ سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مدہوش بنانے والی اشیاء ضمیر کو کند نہیں بناتیں۔ چنانچہ اسی خیال کہ ماتحت یہ کہا جاتا ہے کہ تھوڑی مقدار میں شراب ،بیئر، افیون وغیرہ صرف فرحت حاصل کرنے کیلئے استعمال کی جاتی ہیں اور یوں ان کا ضمیر پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
کہا جاتا ہے کہ جب معمولی مدہوشی کے بعد کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا جاتا، نہ چوری کی جاتی ہے اور نہ قتل کیا جاتا ہے، تو وہ بیہودہ اور فضول حرکات جو عام طور پر دیکھنے میں آتی ہیں، ان کا مدہوشی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ وہ خود بخود وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ جب یہ لوگ جرائم سے متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرتے، تو انہیں اپنے ضمیر کی آواز دبانے کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں ہو سکتی اور یہ کہ وہ زندگی جو منشیات کے عادی بسر کرتے ہیں، بڑی اچھی زندگی ہوتی ہے اور اگر وہ اس عادت کو چھوڑ دیں تو بھی ان کی زندگی ویسی ہی اچھی رہ سکتی ہے یہ بھی فرض کر لیا گیا ہے کہ مدہوش بنانے والی چیزوں کا متواتر و مسلسل استعمال ان کے ضمیر کو قطعی طور پر تاریک نہیں بناتا۔
گوہر شخص تجربے کی بنا پر جانتا ہے کہ شراب اور تمباکو سے انسان کے دل و دماغ کی ہئیت تبدیل ہو جاتی ہے، ان چیزوں کے استعمال سے ان افعال پر شرم محسوس نہیں ہوتی، جن پر ہوش کی حالت میں ہونی چاہیئے۔ ضمیر کی ہر چٹکی پر انسان کسی مدہوش بنانے والی چیز کی طرف رجوع کرتا ہے۔ نشے کی حالت میں اپنی زندگی اور اپنے حالات کا اندازہ نہیں کر سکتا، منشیات کا باقاعدہ اور مسلسل استعمال وہی نفسیاتی خلل پیدا کرتا ہے جو ان کا غیر معتدل اور بے قاعدہ استعمال پیدا کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود ان لوگوں کو جو تمباکو اور شراب اعتدال سے پیتے ہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ منشیات اپنے ضمیر کو کند بنانے کیلئے استعمال نہیں کرتے بلکہ صرف ذائقے اور فرحت کیلئے استعمال میں لاتے ہیں۔
لیکن ان لوگوں کو غیر جانب دارانہ طریقے پر بڑی متانت اور سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے پر غور کرنا چاہیئے۔۔۔۔۔۔ ایسے نہیں سوچنا چاہیئے گویا سر کی بلا ٹال دی گئی ہے بلکہ اس کو سمجھنا چاہیئے ۔ اولاً یہ کہ جب منشیات زیادہ مقدار میں باقاعدہ استعمال کی جائیں تو ضمیر کو کند بنا دیتی ہیں تو ان کا تھوڑی مقدار میں باقاعدہ استعمال بھی ایسے ہی نتائج پیدا کرتا ہوگا، ثانیاً یہ کہ تمام منشیات، ضمیر کو کند بنانے کی خاصیت رکھتی ہیں، دونوں حالتوں میں ان کی یہ خاصیت برقرار رہتی ہے، خواہ ان کے اثر کے تحت ایسے الفاظ زبان پر آئیں، یا ایسے احساسات دل میں پیدا ہوں جو ہوش کی حالت میں پیدا نہیں ہونے چاہیئے تھے اورثالثاً یہ کہ اگر چوروں، ڈاکوؤں اور ویشیاؤں کو اپنے ضمیر کند کرنے کیلئے منشیات کی حاجت ہوتی ہے تو ان لوگوں کو بھی جو اپنے ضمیر کے خلاف کوئی کام یا پیشہ اختیار کرتے ہیں (خواہ یہ کام اور پیشے آپ کے نزدیک بڑے باوقار اور موزوں ترین ہوں) ان چیزوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
مختصر الفاظ میں ہم اس حقیقت سے ہر گز ہر گز انکار نہیں کر سکتے کہ منشیات کا استعمال خواہ وہ تھوڑی مقدار میں اور باقاعدہ ہو۔ یا زیادہ مقدار میں اور بے قاعدہ۔ اونچے طبقے میں ہو یا نچلے طبقے میں۔ صرف ایک ہی ضرورت کے ماتحت عمل میں آتا ہے اور وہ ضرورت ضمیر کی آواز کو دبانے کی ہے تاکہ راستے میں کوئی حائل نہ ہو۔
(۳)
صرف ان چند الفاظ میں منشیات و مسکرات اور تمباکو (جو عام پیا جاتا ہے اور جو سب سے زیادہ مضرت رساں ہے) کے عالمگیر استعمال کا راز پوشیدہ ہے۔
یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ تمباکو تازگی بخشتا ہے، خیالات کو صاف کرتا ہے اور لوگوں کی توجہ اپنی طرف ایسے ہی مبذول کرتا ہے جیسے دوسری چیزیں اور یہ کہ شراب کے مانند اس کا ضمیر پر کچھ اثر نہیں پڑتا، لیکن اگر بڑے غور سے ان حالتوں کا مشاہدہ و مطالعہ کیا جائے جن میں تمباکو پینے کی خواہش پیدا ہوتی ہے تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ ضمیر پر تمباکو کا وہی اثر ہوتا ہے جو شراب کا ہوتا ہے، اگر تمباکو واقعی تازگی بخشنے یا خیالات صاف کرنے والا ہوتا تو اس کی شدید طلب ہر گز ہر گز پیدا نہ ہوتی۔ ایسی طلب جو خاص خاص مواقع پر نمودار ہو اور لوگ یہ ہر گز ہر گز نہ کہتے کہ ہم بھوکے رہ سکتے ہیں، لیکن تمباکو ضرور پئیں گے۔
اس باورچی نے جس نے اپنی مالکہ کو قتل کر دیا تھا، کہا تھا کہ جب کمرۂ خواب میں داخل ہو کر اس نے بڑھیا کے گلے پر چھری پھیر دی اور خون کے فوارے چھوٹنے لگے تو اس کی ہمت، اس کی طاقت جواب دے گئی، ’’میں اپنا کام پوری طرح ختم نہ کر سکا۔ اس نے عدالت میں بیان دیا، چنانچہ کمرے سے باہر نکل کر میں نے سگریٹ سلگایا۔‘‘
سگریٹ پی کر اور خود کو مدہوش کرنے کے بعد وہ اس قابل ہوا کہ واپس جا کر بڑھیا کے سر کو تن سے جدا کر دے، ظاہر ہے کہ اس وقت اس کے دل میں سگریٹ پینے کی خواہش اس لیئے پیدا نہ ہو ئی کہ وہ اپنے خیالات کو صاف کرنا چاہتا تھا یا فرحت حاصل کرنا چاہتا تھا، بلکہ اس وقت اس کو اپنی وہ چیز کند بنانا تھی، جو اس برے کام کی تکمیل سے روک رہی تھی۔
ہر تمباکو نوش تھوڑے سے غورو فکر کے بعد معلوم کر سکتا ہے کہ ایسے خاص لمحات آتے ہیں جب وہ خود کو تمباکو سے مدہوش بنانا چاہتا ہے ، ان دونوں کو پیش نظر رکھ کر جب میں تمباکو کو پیا کرتا تھا آپ کو ایک واقعہ بتاتا ہوں۔ جب مجھے اس کی طلب محسوس ہوا کرتی تھی۔ عام طور پر میں ایسے لمحات میں تمباکو پیا کرتا تھا جب کسی بات کی یاد کو فراموش کر دینا چاہتا تھا۔ جب میں کسی چیز کو بھول جانا چاہتا تھا یا سرے ہی سے غور و فکر کرنا نہیں چاہتا تھا۔
میں بے کار بیٹھا ہوتا تھا۔ مجھے معلوم ہوتا تھا کہ مجھے کام کرنا ہے، لیکن چونکہ میں ایسے ہی بے کار بیٹھا رہنا چاہتا تھا اس لیئے میں تمباکو پینا شروع کر دیتا تھا۔ میں نے کسی کے ساتھ وعدہ کیا ہوتا تھا کہ میں اس کے یہاں پانچ بجے ضرور آؤں گا لیکن جب یہ وعدہ پورا نہ ہوتا تو اس کے احساس کو بھلانے کیلئے میں تمباکو پینا شروع کر دیتا تھا۔ طبیعت میں چڑچڑے پن کے باعث میں اگر کسی کو ناخوشگوار کلمات کہہ دیتا تو اس غلطی کے احساس کو دور کرنے کیلئے پائپ سلگا لیا کرتا تھا۔ تاش کھیلنے کے دوران میں اگر میں توقع سے زیادہ رقم ہار جاتا تو تمباکو پینا شروع دیتا تھا۔ مجھ سے اگر کوئی بری حرکت سرزد ہو جاتی تھی اور اس کا اعتراف کرنے کو جی نہیں چاہتا تھا تو پائپ پینے لگ جاتا تھا اور دوسروں کو قصور وار ٹھہرانا شروع کر دیتا تھا۔ کوئی مضمون لکھتے وقت اگر مجھے پوری طرح تسکین حاصل نہیں ہوتی تھی اور ہونا یہ چاہیئے تھا کہ میں لکھنا ترک کر دوں، لیکن میں زبردستی اس مضمون کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ اس لیئے میں تمباکو نوشی شروع کر دیتا تھا۔ کسی سے گفتگو کرتے وقت اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کی بات کو نہیں سمجھ رہے، لیکن چونکہ میں اپنی رائے کا اظہار جاری رکھنا چاہتا تھا۔ اس لیئے میں تمباکو پینا شروع کر دیتا تھا۔
تمباکو اور دوسری مدہوش بنانے والی چیزوں میں یہ امتیازی فرق ہے کہ اس کے ذریعے ہم بڑی آسانی کے ساتھ خود کو مدہوش بنا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کا بظاہر بالکل بے ضرر اور نقل پذیر ہونا ہے۔ افیم بھنگ اور شراب وغیرہ استعمال کرنے کیلئے ابتدائی تیاریاں کرنا پڑتی ہیں اور دیگر لوازمات کی بھی ضرورت ہوتی ہے مگر تمباکو ہر وقت جیب میں رکھا جا سکتا ہے اور اس کے پینے کیلئے اور لوازمات کی ضرورت نہیں ہوتی۔ شراب اور گانجا پینے والوں کو دیکھ کر عام طور پر لوگ ہیبت زدہ ہوجاتے ہیں، لیکن تمباکو پینے والے اس قسم کی کیفیت پیدا نہیں کرتے۔ لوگ ان سے دور ہٹنے کی کوشش نہیں کرتے۔ شراب افیون اور گانجا وغیرہ تمام حسیات پر اثرانداز ہوتے ہیں اور یہ اثر دیر تک قائم رہتا ہے مگر تمباکو سے ایسا نہیں ہوتا۔ آپ کوئی ایسا کام کرنا چاہتے ہیں جو آپ کو نہیں کرنا چاہیئے تو آپ سگریٹ پی کر خود کو بقدر ضرورت مدہوش بنا لیتے ہیں، اس کے بعد آپ پھر ہوش میں آ جاتے ہیں اور اچھی طرح سوچنے لگتے ہیں۔ یا فرض کر لیا جائے کہ آپ نے کوئی ایسا کام کیا ہے، جو آپ کو نہیں کرنا چاہیئے تھا تو آپ سگریٹ پیتے ہیں اور اس غلطی کے احساس کو مٹا کر کوئی اور کام کرنے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ تمباکو نہ کسی طلب کو پورا کرنے کیلئے اور نہ وقت کاٹنے کیلئے پیا جاتا ہے، بلکہ صرف اپنا ضمیر کند بنانے کیلئیپیا جاتا ہے اور کیا ان تمام امور سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انسان کی زندگی اور اس کے دل میں تمباکو پینے کی خواہش کے درمیان ایک گہرا رشتہ ہے۔
لڑکے کب تمباکو پینا شروع کرتے ہیں؟ ۔۔۔ عام طور پر اس وقت جب وہ اپنے بچپن کی معصومیت کھو دیتے ہیں۔ یہ کیا بات ہے جب انسان اپنی زندگی کے اخلاقی راستوں پر گامزن ہوتا ہے تو وہ تمباکو کی عادت ترک کر دیتا ہے اور جب ان راستوں سے ہٹ جاتا ہے تو پھر تمباکو پینا شروع کر دیتا ہے؟ ۔۔۔ کیا وجہ ہے کہ سب قمار باز تمباکو کے عادی ہوتے ہیں ؟ ۔۔۔ وہ عورتیں جو ہموار زندگی بسر کرتی ہیں، کیوں بہت کم تمباکو پیتی ہیں؟ ۔۔۔ ویشیائیں اور دیوانے سب کے سب تمباکو کے عادی کیوں ہوتے ہیں؟ ۔۔۔ عادت عادت ہے، لیکن تمباکو نوشی یقیناًضمیر کو کند بنانے والی خواہش سے متعلق ہے اور اس سے یہ خواہش پوری ہوتی ہے۔
عام طورپر کہا جاتا ہے (میں خود بھی یہی کہا کرتا تھا) کہ تمباکو پینے سے دماغی کام اچھی طرح ہوتا ہے، اگر ہم دماغی کام کی مقدار کو پیش نظر رکھیں تو یہ بیان بلاشک و شبہ صداقت پر مبنی ہے۔ وہ شخص جو تمباکو پیتا ہے اور جو انجام کار اپنے خیالات کو جانچنے اور پرکھنے کی قوت کھو دیتا ہے، عام طور پر یہ خیال کرتا ہے کہ اس کے دماغ میں بے شمار خیالات آ رہے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس کے دماغ میں واقعی بے شمار خیالات آ رہے ہیں۔ دراصل بات یہ ہوتی ہے کہ اسے اپنے خیالات پر قابو نہیں رہتا اور وہ غلط نتیجہ مرتب کر لیتا ہے۔
جب آدمی کام کرنے لگے تو اسے اپنے اندر دوو جودوں کا احساس ہوتا ہے۔ ایک وہ وجود جو کام کرتا ہے اور دوسرا وہ جو جانچتا رہتا ہے۔ یہ جانچ جس قدر کڑی ہوگی، اسی قدر کام سست رفتاری سے، مگر اچھا اور پختہ ہوگا اور اگر یہ جانچ پڑتال کمزور ہوگی تو کام جلدی مگر خام ہوگا۔ جب کام کرنے والے پر مدہوشی طار ی ہوتی ہے تو کام کی مقدار بڑھ جاتی ہے، مگر اس میں اچھائی پیدا نہیں ہوتی۔
لوگ عام طور پر کہتے ہیں ’’اگر میں تمباکو نہ پیوں تو لکھ ہی نہیں سکتا۔ شروع کرتا ہوں مگر لکھ ہی نہیں سکتا‘‘ ۔۔۔۔۔۔ میں بھی یہی کہا کرتا تھا، لیکن سوچنا یہ ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ ۔۔۔ میرا خیال یہ ہے کہ اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ آپ لکھنا ہی نہیں چاہتے ہیں یاپھر یہ ہونا چاہیئے کہ آپ کے شعور میں لکھنے کی خواہش ابھی تک خام ہے، اس کی صرف دھندلی سی صورت آپ کی نظروں کے سامنے آ رہی ہے۔ جس کی خبر آپ کے اندر والا نقاد بشرطیکہ وہ مدہوش نہ ہو، آپ کو پہنچا دیتا ہے ، اگر آپ تمباکو نہ پئیں تو آپ یقیناً یا تو لکھنے کا خیال ہی چھوڑ دیں گے یا پھر اس دھندلے خیال کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کریں گے تاکہ وہ پختگی اختیار کرئے اور آپ کی نظروں کے سامنے صحیح شکل میں آ جائے، لیکن اگر آپ نے تمباکو پی لیا اور آپ کے اندر والا نقاد مدہوش ہو جائے گا اور وہ روک جو آپ کے راستے میں تھی ہٹ جائے گی۔ تمباکو پینے سے پہلے جو خیال آپ کو بالکل مبہم اور فضول نظر آتا تھا، تمباکو پینے کے بعد اہمیت اختیار کر لیتا ہے، وہ رکاوٹیں جو آپ کے راستے میں حائل تھیں، دور ہو جاتی ہیں۔ آپ لکھنا شروع کر دیتے ہیں اور زیادہ تیزی کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔ !
(۴)
لیکن کیا معمولی اور حقیر سانشہ جو شراب اور تمباکو کے معتدل استعمال سے پیدا ہوتا ہے، اہم نتائج کا باعث ہوتا ہے؟ ۔۔۔ اگر کوئی شخص گانجا اور شراب پی کر گر پڑے اور اپنے حواس کھودے تو یقیناً اہم نتائج پیدا ہو سکتے ہیں، لیکن اگر تمباکو اور گانجا وغیرہ
تھوڑی سی مقدار میں استعمال کیا جائے جو معمولی نشہ پیدا کرے تو اس سے خطرناک نتائج برآمد نہیں ہو سکتے ۔۔۔ یہ بیان عام طور پر سننے میں آتا ہے اور فرض کر لیا گیا ہے کہ معمولی سی مدہوشی برا اثر پیدا نہیں کرتی، یہ تو ایسا ہی ہے، اگر یہ خیال کر لیا جائے کہ پتھر پر گھڑی کو پٹک دینے سے اس کو نقصان پہنچے گا، لیکن معمولی سا گردوغبار اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
یہ خیال رکھنا چا ہیئے کہ انسان کی زندگی کو وہ کام حرکت یا اکساہٹ نہیں بخشتا جو ہاتھوں پیروں یا پیٹھ سے کیا جائے بلکہ وہ کام حرکت بخشتا ہے جو ضمیر کرے۔ ہاتھوں اور پیروں سے اگر کوئی کام شروع کیا جائے تو شعوری احساس میں ردوبدل کا ہونا ضروری ہے اور یہی ردوبدل بعد کی حرکات کو واضح اور ممیز کرتا ہے، حالانکہ یہ بالکل معمولی اور ناقابل ادراک ہوتا ہے۔
برولوف (روس کا ایک مشہور و معروف مصور۔ ۱۸۵۲ ۔ ۱۷۹۹) نے ایک روز اپنے شاگرد کی کھینچی ہوئی تصویر کی اصلاح کی۔ اصلاح شدہ تصویر کو دیکھ کر شاگرد ایکاایکی بول اٹھا۔ ’’آپ نے برش سے صرف چھوٹے چھوٹے نشان بنائے لیکن اس میں جان پیدا کر دی۔‘‘ برولوف نے جواب دیا۔ ’’آرٹ وہیں سے شروع ہوتا ہے جہاں سے یہ چھوٹے چھوٹے نشان شروع ہوتے ہیں۔‘‘
برولوف کا کہنا بالکل درست ہے۔ صرف آرٹ ہی کے بارے میں نہیں بلکہ تمام زندگی پر اس کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ ہم بلاخوف تردید کہہ سکتے ہیں کہ صحیح زندگی کا آغاز وہیں سے ہوتا ہے، جہاں سے ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کا ہوتا ہے۔ جہاں ہمارے قیاس کے مطابق ناقابل ادراک تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اصل زندگی وہاں بسر نہیں کی جاتی جہاں بڑے بڑے خارجی انقلاب آتے ہیں۔ جہاں لوگ چلتے پھرتے ہیں، لڑتے ہیں اور ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں ۔۔۔ بلکہ وہاں بسر کی جاتی ہے جہاں بالکل ننھی ننھی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔
ننھی ننھی تبدیلیاں ۔۔۔ لیکن ان ہی سے نہایت ہولناک اور نہایت اہم نتائج وابستہ ہوتے ہیں۔ کسی کام کا ارادہ کرنے سے لے کر اس کے کر گزرنے تک بہت سی مادی تبدیلیاں پیدا ہو سکتی ہیں، ۔۔۔ گھر کے گھر تباہ و برباد ہو سکتے ہیں، دھن دولت کا ستیاناس ہو سکتا ہے اور انسانوں کی غارت گری عمل میں آ سکتی ہے، لیکن اس سے زیادہ اہم چیز وہ ہے جو انسان کے شعور میں چھپی ہوئی ہے۔ امکان یعنی ہو سکنے کی تحدید شعور ہی کرتا ہے۔
شعور کے اندر چھوٹی سے چھوٹی تبدیلی بھی ناقابل قیاس نتائج پیدا کرنے کا موجب ہو سکتی ہے۔ آپ کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں۔ اس کا انسان کی اختیاری قوت یا عقیدہ جبر یعنی جبریت سے کوئی تعلق ہے۔ اس پر بحت کرنا بالکل فضول ہے۔ اس سوال کا فیصلہ کیئے بغیر کہ آیا انسان اپنی خواہش کے مطابق کام کر سکتا ہے یا نہیں (یہ سوال میرے نزدیک درست نہیں ہے) میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب انسانی سرگرمیاں اور شعور کی خفیف ترین تبدیلیاں لازم و ملزوم ہیں تو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے (ہم اختیاری قوت کی موجودگی کو تسلیم کریں یا نہ کریں) کہ ہم خاص طور پر ان حالات کا جائزہ لیں جن کے تحت یہ خفیف ترین تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔ کوئی چیز تولتے وقت ہمیں ترازو کے پلڑوں کا خاص طور پر دھیان رکھنا پڑتا ہے۔
ہمیں حتی الامکان اس بات کی کوشش کرنا چا ہیئے کہ اپنے آپ کو اور دوسروں کو ایسے حالات سے دور رکھیں جو خیال کی اس نزاکت اور صفائی پر اثرانداز ہوتے ہوں۔ جن کے بغیر شعور اپنا کام صحیح طور پر نہیں کر سکتا۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں منشیات کا استعمال ہر گز ہر گز نہیں کرنا چاہیئے۔ اسلیئے کہ وہ ضمیر و شعور کے کام میں رخنہ اندازی کرتا ہے۔
چونکہ انسان بیک وقت روحانی اور حیوانی مخلوق ہے، اس لیئے ہو سکتا ہے کہ وہ کبھی ان اشیاء سے متاثر ہو جائے جو اس کی روحانی فطرت پر اثرانداز ہوتی ہیں اور کبھی ان اشیاء سے متاثر ہو جائے جو اس کی حیوانی فطرت پر اتر انداز ہوتی ہیں جیسا کہ کلاک سوئیوں کے ذریعے سے بھی متحرک ہو سکتا ہے اور بڑے پہیئے کے ذریعے سے بھی حرکت میں آ سکتا ہے۔ جس طرح بہتر صورت یہ ہے کہ کلا ک کو اس کی اندرونی مشینری کے ذریعے سے منضبط کیا جائے۔ ٹھیک اسی طرح انسان خود کو ضمیر باشعورکے ذریعے سے باضابطہ بنا سکتا ہے۔
(۵)
لوگ وقتی طور پر اداسی دور کرنے کیلئے یا فرحت حاصل کرنیکیلئے شراب نہیں پیتے اور نہ وہ ا سلیئے پیتے ہیں کہ یہ خوش گوار شے ہے بلکہ اپنے اندر اپنے ضمیر کی آواز غرق کرنے کیلئے پیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس سے بہت ہولناک نتائج برآمد ہوتے ہوں گے۔ ذرا اسی عمارت کے نقشے کا تصور کیجئے جس کی دیواریں اور کونے ضروری آلات کی مدد کے بغیر تیار کیئے گئے ہوں گے۔ کیا ایسی عمارت پائیدار ہو سکتی ہے؟
لیکن لوگ پھر بھی اپنے آپ کو مدہوش کرتے ہیں۔ جب زندگی ضمیر کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوتی تو ضمیر کو توڑ مروڑ کر اس کے ساتھ منضبط کر دیا جاتا ہے۔
ضمیر کو مدہوش بنانے کی صحیح اہمیت معلوم کرنے کیلئے آپ اپنی زندگی کے ہر دور کے روحانی لمحات کو پیش نظر ر کھیئے۔ آپ کو یاد آ جائے گا کہ ہر دور میں آپ کے سامنے کوئی نہ کوئی اخلاقی سوال تھا، جس کو آپ حل کرنا چاہتے تھے اور جس کے حل ہونے سے آپ کی زندگی کی بہتری وابستہ تھی۔ اس سوال کو حل کرنے کیلئے توجہ کے اجتماع و ارتکاز کی ضرورت تھی، ہر محنت و مشقت سے متعلقہ کام کرنے میں اور خاص طور پر اس کے شروع کرتے وقت ا یسے لمحات آتے ہیں، جب یہ مشکل اور تکلیف دہ معلوم ہوا کرتا ہے اور جب انسانی کمزوری یہ خواہش پیدا کرتی ہے کہ اس کو چھوڑ دیا جائے۔ جسمانی کام تکلیف دہ معلوم ہوتا ہے اور دماغی کام اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ محسوس ہوتا ہے۔ جیساکہ ژونگ کہتا ہے کہ لوگ عام طور پر اس وقت سوچنا بند کر دینا چاہتے ہیں۔ جب کوئی خیال مشکل محسوس ہوتا ہے، لیکن میں کہوں گا کہ یہیں جہاں سے یہ مشکل شروع ہوتی ہے، سوچنا یعنی غوروفکر بارآور ہونا شروع ہوتا ہے۔
جب آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے پیش نظر سوالات کے تصفیے پر محنت صرف ہوگی جو عام طور پر تکلیف دہ ہوتی ہے تو اس کے دل میں اس الجھن سے نجات حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے، اگر اس کے پاس خود کو مدہوش بنانے والے ذرائع نہ ہوتے تو وہ اپنے ضمیر سے ان سوالات کو کبھی خارج نہ کر سکتا۔ جو اس کے درپیش تھے، لیکن چونکہ اس کو ایسے ذرائع معلوم نہیں جن سے ان خیالات کو بھگایا جا سکتا ہے۔ اس لیئے وہ بوقت ضرورت انہیں استعمال کرتا ہے۔
جونہی حل طلب سوالات اس کو دق کرنا شروع کرتے ہیں، دکھ دینے لگتے ہیں۔ وہ جھٹ سے ان ذرائع کی طرف رجوع کرتا ہے اور ان تکلیف دہ سوالوں کی پیداکردہ پریشانی سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ضمیر ان سوالوں کا حل طلب کرنا بند کر دیتا ہے اور یہ غیر حل شدہ سوال آئندہ روحانی لمحات تک غیر حل شدہ رہتے ہیں اور جب یہ لمحات آتے ہیں تو پھر وہ انہی ذرائع کو استعمال کرتا ہے اور انجام کا ر وہ اپنی زندگی اسی طرح گزار دیتا ہے اور اخلاقی سوالات جو اس کے درپیش تھے، ویسے کے ویسے حل طلب رہتے ہیں۔ حالانکہ ان سوالات کے حل ہونے ہی میں زندگی کی ساری حرکت پوشیدہ ہے۔
ایسے لوگوں کی مثال بالکل اس انسان کے مانند ہے، جو گدلے پانی کے پاس کھڑا ہو اور اس کے اندر داخل ہو کر موتی نکالنے سے گھبراتا ہو، چنانچہ بار بار جب کہ پانی پرسکون اور شفاف ہونے لگے تو وہ اسے ہلا کر پھر گدلا بنا دے۔
اگر آپ اس زمانے کو پیش نظر رکھیں جب آپ تمباکو اور شراب پیا کرتے تھے یا دوسرے پینے والوں کے متعلق اپنے تجربے پر نظر کریں تو آپ کو منشیات کے عادی لوگوں اور منشیات سے پرہیز کرنے والوں کے درمیان ایک مستقل منقسم لکیر نظر آئے گی لوگ جس قدر زیادہ منشیات کو استعمال کریں گے، اسی قدر وہ اخلاقی طور پر غیر حساس ہوتے چلے جائیں گے۔
(۶)
جیساکہ عام طور پر کہا جاتا ہے افیم اور گانجا کے نتائج بڑے ہولناک ہوتے ہیں جیساکہ ہم جانتے ہیں پکے شرابیوں کیلئے شراب نہایت مہلک نتائج کا موجب ہوتی ہے اور اس سے زیادہ شراب، بیئر، تمباکو وغیرہ کا معتدل استعمال جو بالکل بے ضرر سمجھا جاتا ہے، ہماری سوسائٹی کیلئے ہولناک نتائج کا باعث ہوتا ہے۔
نتائج فطری طور پر ہولناک اور خطرناک ہونے چاہئیں، اس حقیقت کے پیش نظر کہ سوسائٹی کی معاشرتی، فکری، سائنٹیفک ادبی اور فنی سرگرمیاں زیادہ تر ان لوگوں سے متعلق ہیں جو غیر معتدل ہوتے ہیں یعنی جو شراب پیتے ہیں۔
عام طور پر فرض کر لیا جاتا ہے کہ وہ لوگ جو کھانا کھانے کے بعد شراب پیتے ہیں دوسرے روز کام کے اوقات میں بالکل ٹھیک اور معتدل حالت میں ہوتے ہیں۔ لیکن یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ وہ لوگ جو شراب بیئر یا کسی اور نشیلی چیز کے ایک دو گلاس پیتے ہیں، دوسرے دن ان پر غنودگی کی حالت طاری ہوتی ہے اور وہ خود کو اداس اداس محسوس کرتے ہیں جس کا بالآخر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مشتعل ہو جاتے ہیں۔ ان کی دماغی پژمردگی اور ناتوانی کو تمباکو نوشی اور بھی زیادہ بڑھا دیتی ہے۔ تمباکو اور شراب کو اعتدال کے ساتھ استعمال کرنے والے اگر اپنے دماغ کو اصلی حالت میں لانا چاہیں تو کم از کم ایک ہفتہ درکار ہوگا مگر ایسا شازو نادر کیا جاتا ہے۔
چنانچہ ثابت ہوا کہ ہمارے درمیان جو کچھ بھی ہوتا ہے (خواہ اس کی ذمہ داری ان لوگوں کے سر پر ہو، جو حکومت کرتے ہیں یا دوسروں کو سبق دیتے ہیں۔ خواہ اس کی ذمہ داری ان لوگوں سے متعلق ہو، جو محکوم ہیں اور دوسروں سے سبق لیتے ہیں) سنجیدہ و متین حالت میں نہیں ہوتا۔
اگر میں یہ کہوں کہ ہماری زندگیوں کے انتشار اور ان کے ضعف کا باعث مدہوشی کی وہ مستقل حالت ہے، جس میں کہ اکثر لوگ رہتے ہیں تو آپ اسے مذاق نہ سمجھیئے گا، اگر لوگ مدہوشی کی حالت میں نہ ہوں تو ہمارے ارد گرد جو کچھ ہو رہا ہے کیا کسی کے وہم و گمان میں آ سکتا ہے۔ ایفل ٹاور بنانے سے لے کر فوجی ملازمت اختیار کرنے تک۔
کسی ضرورت کے بغیر ایک کمپنی بنائی جاتی ہے، سرمایہ اکٹھا کیا جاتا ہے، لوگ محنت و مشقت کرتے ہیں، حساب لگاتے ہیں، سکیمیں تیار کرتے ہیں۔ لاکھوں ٹن لوہا ایک منار بنانے پر صرف کر دیا جاتا ہے۔ اس مینار کی تعمیر دوسرے لوگوں کے دلوں میں اس سے بڑے میناربنانے کی خواہش پیدا کرتی ہے، ذرا غور فرمایئے کیا صحیح دماغی حالت میں ایسی فضول باتیں سوجھ سکتی ہیں؟
ایک اور مثال لیجئے۔ یورپی اقوام کئی برسوں سے ایسے عمدہ طریقے ایجاد کرنے پر غور و فکر کر رہی ہیں جن سے انسانوں کو ہلاک کیا جا سکے اور لاکھوں نوجوانوں کو بالغ ہونے کے ساتھ ہی قتل و غارت کے طریقے سکھائے جاتے ہیں، ہر شخص جانتا ہے کہ اب بربری لوگوں کے حملوں کا کوئی خطرہ نہیں رہا، لیکن یہ جنگی تیاریاں متمدن و مہذب اقوام عمل میں لاتی ہیں، جو عیسائی مذہب رکھتی ہیں اور پھر وہ ایک دوسرے سے نبرد آزما ہونے کی کوششیں کرتی ہیں ۔۔۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ یہ تکلیف دہ، ضرر رساں، سکون شکن، تباہ کن اور اخلاق و ادراک کے خلاف ہے، لیکن اس کے باوجود سب باہمی قتل و غارت کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔
بعض سیاسی تدبیریں سوچتے ہیں کہ کیسے، کس کس کے ساتھ مل کر اور کس کو تباہ و برباد کرنا چا ہیئے، بعض ان لوگوں کی تنظیم کرتے ہیں جن کو قتل و غارت گری کے سبق دیئے جا رہے ہوتے ہیں، بعض اپنے ضمیر اپنے ادراک اور اپنی مرضی کے خلاف قتل و غارت کی ان تیاریوں کے سامنے اپنا سر جھکا دیتے ہیں۔ کیا متین و سنجیدہ لوگ ایسا کر سکتے ہیں ؟ ۔۔۔ صرف شرابی ہی ایسے کام کر سکتے ہیں جو سنجیدگی و متانت کی صحیح حالت تک کبھی نہیں پہنچتے۔
میرا خیال ہے کہ آج سے پہلے لوگ کبھی ایسی زندگی بسر نہیں کرتے تھے۔ جس میں ضمیر اور افعال کے درمیان اس قدر فاصلہ ہو کہ انسانیت ایک جگہ گڑ گئی ہے۔ رک گئی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی خارجی سبب نے اسے فطری حالت اختیار کرنے سے روک رکھا ہے جو اسے من حیث العلت اختیار کرنا چاہیئے تھا اور یہ سبب ۔۔۔۔۔۔ اگرچہ یہ اکیلا ہی نہ ہو یقیناً جسمانی طور پر خود کو مدہوش کرتا ہے اور یہ سب سے بڑا سبب ہے جس کے ذریعے سے لوگ اپنے آپ کو دن بدن کمزور اور ضعیف بنا رہے ہیں۔
انسانیت کی تاریخ میں وہ دن قابل یادگار ہوگا جب اس خطرناک برائی سے نجات حاصل کی جائے گی اور وہ دن دور نہیں اس لیئے کہ اس برائی کے نتائج سے لوگ اچھی طرح آگاہ ہو چکے ہیں۔ مدہوش بنانے والی اشیاء کے متعلق لوگوں کا نظریہ بہت حد تک تبدیل ہو چکا ہے اور ان اشیاء کے خطرناک نقصانات سے لوگ اچھی طرح واقف ہو گئے ہیں۔ اب وہ دن بہت نزدیک ہے، جب یہ بیداری لوگوں کو ان مدہوش بنانے والی چیزوں سے ہمیشہکیلئے نجات دلا دے گی اور ان کی آنکھیں کھول دے گی تاکہ وہ اپنے ضمیر کے مطالبات دیکھ سکیں اور ان پر غور کر سکیں۔
***



جمعرات، 11 اگست، 2016

آزادی کے بعد ہندستان میں اُردو زبان و تعلیم کے مطالعے کے چند زاویے/ رالف رسل

رالف رسل کا ایک نہایت قابل غور مضمون آج ادبی دنیا پر اپلوڈ کیا جارہا ہے۔ یہ مضمون ہر اردو جاننے والے شخص کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اس کے مطالعے سے ہمارے اندر ایک جانب اگر اپنی تحسیب کا حوصلہ پیدا ہوگا تو دوسری جانب ہم اس بات کا اندازہ لگانے میں بھی کامیاب ہوں گے کہ جن مسائل کی جانب مضمون نگار نے 1998 یعنی کہ آج سے قریب اٹھارہ سال پہلے اشارہ کیا تھا ، ہم آج بھی ان سے کس قدر پیچھا چھڑا سکے ہیں۔ یہ مضمون ہمارے بہت سے نامور مصنفین و ناقدین کے تعصب اور ان کے خیالات کی ناپختگی کااحساس بھی دلاتا ہے۔رالف رسل کا غیر جانبدارانہ اسلوب اسی بات سے واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے جہاں کسی ایک مصنف کی کسی ایک بات سے اتفاق کیا ہے تو وہیں اس کی دوسری بات سے اپنے سخت اختلاف کو بھی نمایاں کرنے میں نہیں چوکے ہیں۔ہم اس مضمون کو پڑھ کر سمجھ سکتے ہیں کہ جو ادارے آج صرف سیاسی و معاشی قسم کے مفاد حاصل کرنے والے نام نہاد محبان اردو کا اڈہ بن چکے ہیں، ان کی شروعات کس نیت سے ہوئی اور انہوں نے ابتد امیں ہی کیسے گل کھلائے۔ یونیورسٹیوں میں اردو کی تعلیم کس طرح متاثر ہوئی اور دیوناگری رسم الخط کا خیال کس طرح اردو کے بہت اچھے لکھنے والوں کے نزدیک بھی ناپسندیدہ تجویز کی صورت میں قائم ہوسکا۔یہ تمام سوال اور ان کے جوابات رالف رسل کی تحقیق، تجزیے اور تنقیدی ہنر کا اعادہ کراتے ہیں۔مجھے ان کی یہ بات بہت اچھی معلوم ہوئی کہ انہوں نے اردو کو ایک جانب مسلمانوں کی مخصوص زبان ہونے کے لیبل سے چھٹکارا دلانے پر زور دیا تو دوسری جانب اردو کے لیے اہل اردو کو حکومت یا حکومتی اداروں کے بجائے خود پر بھروسہ کرنے کا مخلصانہ اور صحیح مشورہ دیا۔واقعی جو لوگ خود کوئی کام کرنے کا جذبہ نہ رکھتے ہوں ان کا مٹ جانا کوئی بہت تعجب کی بات نہیں ہے۔میں اس مضمون کی فراہمی کے لیے اطہر فاروقی صاحب کا بے حد شکرگزار ہوں۔(تصنیف حیدر)


مولانا ابوالکلام آزاد ریسرچ اینڈ ایجوکیشنل فاؤنڈیشن سکندرآباد ضلع بلند شہر (اترپردیش ) کے اردو زبان و تعلیم کے موضوع پر منعقد ہونے والے ایک سمینار میں مدعو کرتے ہوئے مجھے جب منتظمین کی طرف سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ میں زبان، ادب اور تعلیم کے مسائل کے کسی زاویے پر اپنا مقالہ تحریر کروں۔میں نے اس دعوت نامے کو اس ذہنی تاثّر کے ساتھ قبول کیا کہ میں غیر اُردو داں حضرات کے لیے اُردو کے موضوع پر اپنا مقالہ تحریر کروں گا۔ کچھ روز کے بعد مجھے یہ اطلاع دی گئی کہ سمینار کے عنوان سے لفظ ’ادب‘ خارج کردیا گیا ہے۔کیوں کہ سمینار کے منتظمین اپنی توجہ صرف اُردو زبان و تعلیم کے مسائل پر مرکوز کرنا چاہتے ہیں لیکن مجھے یہ آزادی ضرور دی گئی کہ اگر میری خواہش اور دل چسپی غیر اُردو داں حضرات کے لیے اردو ادب کے موضوع پر مقالہ لکھنے میں ہے تو وہ منتظمین کے لیے قابلِ قبول ہوگا۔ لیکن میں نے منتظمین کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے مقالے کے بیش تر حصّے کوآزادی کے بعد ہندستان میں اردو کے سیاسی و سماجی مسائل اور اُردو تعلیم کے ناگفتہ بہ حالات کی تفصیل جیسے اہم موضوع تک محدود و مرکوز رکھا ہے اور اُردو کی عمومی صورتِ حال پر بھی اپنے تجربے کے مطابق روشنی ڈالی ہے البتہ مقالے کے صرف آخری حصّے میں اردو ادب کے بارے میں چند عمومی معروضات پیش کیے ہیں۔
راقم الحروف کی اپنے بارے میں یہ دیانت دارانہ راے ہے اور اس میں روایتی انکساری کو کوئی دخل نہیں کہ وہ 1947 کے بعد اردو کے مکمل منظر نامے کا بھر پور جائزہ لینے کا اہل نہیں ہے۔ لندن یونی ورسٹی کے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریکن اسٹڈیز میں اُردو لیکچرر کی حیثیت سے تقرری کے بعد مجھے تین مختلف مواقع پر ایک ایک سال کی مکمل تعلیمی رخصت پر ہندستان میں رہنے اور اُردو کے حالات کا قریب سے جائزہ لینے کا اتفاق ہوا۔ ہندستان کے سفر کے لیے میں نے آخری تعلیمی رخصت 1965 میں لی تھی جسے اب ایک مدّت گزر چکی ہے۔ تاہم اپنے سفر کے دوران مجھے ہندستان کی اُردو دنیا میں رونما ہونے والے واقعات اور تبدیلیوں کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔

1949 تا 1965
میری پہلی تعلیمی رخصت 1949 سے 1950 تک کے عرصے پر محیط ہے اور میں نے اس برس کا بیش تر حصّہ علی گڑھ میں گزارا۔یہ وہ دور تھا جب ڈاکٹر ذاکر حسین علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شیخ الجامعہ تھے اس دور میں اردو جن حالات سے دوچار تھی آپ لوگ اُن سے ضرور واقف ہوں گے۔ صوبائی حکومتیں خصوصاًاترپردیش اور کسی حد تک بہار کے علاقے میں، جنھیں آپ اردو کا قبلہ کہہ سکتے ہیں اردو کو برباد کرنے کی ہر ممکن کوششیں کر رہی تھیں اور تب سے آج تک یہ صورتِ حال مسلسل برقرار رہی ہے۔ البتہ ماضی قریب میں اس صورتِ حال میں کچھ تبدیلیاں ضرور رونما ہوئی ہیں۔ آزادی کے بعد کے ابتدائی برسوں میں اردو داں حلقے کے وہ لوگ جو اردو زبان کی ممکنہ حد تک حفاظت کرنا چاہتے تھے، اس کی ترقی کے خواہاں تھے اور ساتھ ہی اردو مخالف پالیسیوں کی مخالفت پرکمربستہ رہنا چاہتے تھے۔ وہ لوگ اپنی تمام تر نیک نیتی کے باوجود اپنی خواہشات کی تکمیل یعنی اردو کی ترقی اور حکومت کی اردو مخالفت پالیسیوں کے عدمِ نفاذ کے لیے خود کچھ کرنے کے بجاے حکومت کے ذریعے ہی اپنے مقاصد کا حصول چاہتے تھے جو باہم متضاد اور ناممکن باتیں تھیں۔ مثال کے طور پر ہر شخص جانتا ہے کہ نہرو جو خود اردو داں تھے اور مرکزی حکومت کے سربراہ کے طور پر اردو کی ترویج و ترقی کے لیے کچھ کرنے کی خواہش بھی رکھتے تھے مگر اس وقت مرکزی حکومت اس حیثیت میں نہیں تھی کہ اترپردیش کی حکومت کو اس کی اردو کُش پالیسیوں سے روک سکتی یا اُردو کی ترویج کے لیے کچھ اقدام کرنے پر رضا مند کرسکتی۔ صوبائی حکومتوں کے روبرو بے بس ہونے کے باوجود مرکزی حکومت زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتی تھی کہ اُردو کے مویّدین کے ذریعے چلائی جانے والی انجمنوں کو مالی امداد اور حمایت فراہم کرے مگر اس کے لیے اُردو تحریک کے قائدین کا مخلص ہونا ضروری تھا۔

1965کے بعد
1965کے بعد اُردو کے سلسلے میں جو کچھ وقوع پذیر ہوا اس کے متعلق میری معلومات کا بہت کچھ انحصار خصوصاًاس مواد پر ہے جو مجھے مولانا آزاد ریسرچ اینڈ ایجوکیشنل فاؤنڈیشن کے اربابِ بست و کشاد کی طرف سے فراہم کرایا گیا۔ اس مواد کا بیش تر حصّہ ہندو پاکستان میں شائع ہونے والی انگریزی تحریروں پر مشتمل ہے جو 1988 اور اس کے بعد کے دور میں شائع ہوئیں۔ ماضی قریب میں اطہر فاروقی کے تحقیقی مقالے کی ایک عکسی نقل، جو انھوں نے پی. ایچ. ڈی کی ڈگری کے لیے ’’ آزادی کے بعد ہندستان میں اردو کا سیاسی و سماجی مطالعہ‘‘ کے عنوان سے جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی ، نئی دہلی میں داخل کیا تھا مجھے 1996 میں استفادے کے لیے موصول ہوگئی تھی۔ میں اپنے دوست سوم آنند کے ایک معلومات افزا مضمون جو براڈ فورڈ سے شائع ہونے والے اردو ہفت روزہ ’راوی‘ میں شائع ہوا تھا ،سے بھی استفادہ کیا ہے۔مولانا آزاد فاؤنڈیشن کے ذریعے فراہم کیے گئے مواد میں کچھ مضامین میں نے نسبتاً اہم پائے، اس لیے، آئندہ سطور میں میں ان مضامین ہی سے جامع حوالہ جات پیش کردوں گا۔ ان میں سے کچھ حوالے (راقم الحروف کے ذریعے) انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیے گئے ہیں اور بعض حوالہ جات براہِ راست اردو مضامین سے نقل کیے گئے ہیں۔

اُردو کے لیے انفرادی اور اجتماعی کوششیں:
ظاہر ہے کہ 1947 کے بعد ہندستان میں اُردو کے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے میں سرکاری اور نیم سرکاری انجمنوں کی حکمتِ عملی کے بارے میں ضرور گفتگو کروں گا۔ لیکن اس سے قبل میں اُردو بولنے والے لوگوں اور ان کے تشکیل کردہ رضارکار اداروں کے طریقۂ کار پر گفتگو کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ آزادی کے بعد ہندستان میں اُردو جن خطرات سے دوچار تھی ان میں اُردو کے رضاکار اداروں اور انجمنوں کا کیا رول رہا اس کا تجزیہ کرنا از بس ضروری ہے۔
اُردو کی ترویج کے لیے جو موثر اقدام اردو داں حضرات کی طرف سے کیے جاسکتے ہیں ان میں پہلا طریقہ جس پر وہ عمل پیرا ہوسکتے ہیں، یہ ہے کہ اپنے بچوں کو اردو پڑھنا اور لکھنا سکھانے کی ضمانت لیں۔ اگر اسکولوں کی طرف سے اردو کی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں ہے تو یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ انتظام کریں لیکن مشاہدہ یہ ہے کہ بیش تر اردو والے ایسا نہیں کرتے۔ میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ اردو بولنے والے ان لوگوں تک نے بھی جن کی اپنی زندگیاں عموماً اردو کے لیے وقف تھیں اور ان کے بچّے اردو میں دل چسپی بھی لیتے تھے، اپنے بچّوں کو اردو پڑھنا اور لکھنا نہیں سکھایا، ان کے لیے اردو صرف گھر کے اندر بولی جانے والی زبان تھی یا ہے۔ ایسے بہت سے لوگ بھی اردو شاعری کا ذوق رکھتے ہیں اور مشاعروں میں جانا پسند کرتے ہیں جو اردو سے بالکل واقف نہیں ہوتے۔ یادش بخیر، ایک مرتبہ میں اپنے ایک دوست (مرحوم) حبیب الرحمن خاں سے ملاقات کی غرض سے گیا۔ وہ ماسکو میں رہتے تھے جہاں سے ان کی ایک نوجوان خاتون رشتے دار آئی ہوئی تھیں۔میں نے دیکھا کہ وہ اپنی پسندکے اشعار دیوناگری رسم الخط میں درج کر رہی تھیں۔ ایک اور موقعے پر میں عصمت چغتائی سے ملا۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کی بیٹی کو اردو نہیں آتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ والدین یہ انتظام کیوں نہیں کرتے کہ ان کے بچّے اردو پڑھنا سیکھیں؟ میری اپنی راے یہ ہے کہ چاہے کتنی بھی مشکلات در پیش کیوں نہ ہوں، یہ محبّانِ اردو کی اوّلین ذمے داری ہے کہ وہ اپنے بچّوں کے لیے اردو کی تعلیم کے حصول کا انتظام خود کریں۔ وہ ایسا کرسکتے تھے اور ان کو ایسا کرنا چاہیے تھا لیکن اگر میرا اندازہ غلط نہیں ہے تو انھوں نے ایسا نہیں کیا ہے۔
اردو والوں کو یہ بات واضح طور پر معلوم ہونی چاہیے کہ اردو کے تحفّظ کے لائحۂ عمل کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اردو میں مہارت رکھنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو۔ اردو میں مہارت رکھنے سے میری مراد یہ نہیں کہ وہ اردو بولنے پر غیر معمولی عبور رکھتے ہوں بلکہ ضروری یہ ہے کہ وہ اس اردو سے واقف ہوں جو تحریری شکل میں موجود ہے اور جس کے مطالعے سے اردو ادب کا ذوق بیدار ہوسکتا ہے۔ میری مراد واضح طور پر یہ ہے کہ اردو جاننے کا مطلب اردو رسمِ خط سے واقفیت ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ آئندہ سطور میں جن حالات کا ذکر کروں گا ان کے لیے ہندستان میں اس وقت کس حد تک فضا سازگار ہے۔ میں سب سے پہلے اس نکتے پر زور دینا چاہتا ہوں کہ اگر کسی شخص کو اردو میں مہارت رکھنے والے لوگوں کی تعداد کے اضافے میں دل چسپی ہے تو بغیر کسی بیرونی مدد کے انفرادی حیثیت سے اس مقصد کے حصول کے لیے عملاً کچھ نہ کچھ ضرورکرسکتا ہے۔ اس کے لیے اسے جس جذبے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ہے ا س کام کو کرنے کی خواہش کا جذبہ، رضاکارانہ طور پر کچھ وقت صرف کرنے کا جذبہ اور اپنے طور پر کچھ وسائل مہیا کرنے کا جذبہ۔ اس سیاق و سباق میں برطانیہ جیسے ممالک میں آکر آباد ہونے والی بہت سی لسانی و تہذیبی اقوام کے طرزِ عمل سے سبق حاصل کیا جاسکتا ہے۔مثال کے طور پر برطانیہ میں سکونت اختیار کرنے والے گجراتی ، پنجابی، ایرانی، اردو داں، پولش زبان بولنے والے اور دوسرے لوگ بھی تقریباً ایسے ہی حالات سے دوچار ہیں جن سے ہندستان میں اردو داں حضرات کے بچّے گزر رہے ہیں۔ برطانیہ میں وہ لوگ اپنے بچّوں کو اپنی موروثی زبان کی اس سے بہتر تعلیم دینا چاہتے ہیں جو برطانیہ میں اسکولوں اور تعلیمی نظام میں رائج ہے۔اس کے لیے وہ حالات کے مطابق کام کرتے ہیں یعنی وہ خود ہی جزوقتی کلاسوں کا انتظام کرتے ہیں، کمرے کرایے پر لیتے ہیں یا گھروں میں ہی نسبتاً بڑے کمروں میں انتظام کرکے اپنے بچّوں کو اپنی موروثی زبان کی کچھ نہ کچھ تعلیم دیتے ہیں۔ میرے خیال میں اس کی بہ ظاہر کوئی وجہ نہیں کہ ہندستان میں اردوداں حضرات بھی اپنے بچّوں کو رضارکارانہ طور پر تعلیم دینے کے لیے جزوقتی تعلیم پر عمل پیرا نہ ہوں۔

بڑے اداروں کا رول:
معاصر ہندستان میں اردو زبان کے مسائل سے متعلق متعدد معاملات ایسے ہیں جن میں فردِ واحد یا چھوٹے چھوٹے رضارکار اداروں کے لیے کوئی پیش رفت ممکن نہیں اور یہی امر مجھے صوبائی یا کل ہند سطح پر اردو کے فروغ کے لیے قائم کیے گئے اداروں کے بارے میں لکھنے اور ان کی کارکردگی کا مکمل تجزیہ کرنے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔
میں یہ محسوں کرتا ہوں کہ اردو کے ان بڑے اداروں کی کارکردگی کے منصفانہ محاسبے کے لیے ہمارے پاس ان اداروں سے متعلق تمام تفصیلات کا موجود ہونا ضروری ہے۔ اسی سبب اور اسی نوعیت کی معلومات مہیا کرنے کی غرض سے میں نے 4 جون 1996 کو انجمن ترقی اردو (ہند) اور ترقی اردو بیورو کو خطوط تحریر کیے۔ ترقی اردو بیورو کو لکھے گئے خط میں مندرجہ ذیل اقتباس بھی شامل ہے:
’’ کیاآپ مجھے گجرال کمیشن رپورٹ اور اس کے بعد قائم ہونے والی سردار جعفری کمیٹی کی نقول روانہ کرسکتے ہیں؟‘‘
(ان رپورٹوں کے بارے میں تفصیلی طور پر میں آگے لکھوں گا۔)
’’کیا آپ ترقی اردو بیورو سے متعلق مجھے ایسا مواد روانہ فرما سکتے ہیں جن سے مندرجہ ذیل سوالات کا جواب مل سکے؟
(۱) کیا میرا یہ خیال درست ہے کہ ترقی اردو بیورو مکمل طور پر سرکاری امداد پر منحصر ادارہ ہے؟
(۲) اس ادارے کا آئین اور باضابطہ اغراض و مقاصد کیا ہیں؟
(۳) ادارے کے اربابِ اختیار کون لوگ ہیں اور ان کا انتخاب کس طرح عمل میں آتا ہے؟
(۴) کیا ادارے کی کاروائیوں کی روداد پابندی سے شائع ہوتی ہے اگر ہاں توکتنے دن میں اور اگر نہیں تو کیا اس روداد کی غیر رسمی تفصیلات موجود ہیں؟
میں بے حد ممنون ہوں گا اگر آپ اس خط کا جواب جلد از جلد دینے اور متعلقہ تمام مواد ہوائی ڈاک سے روانہ فرمانے کی زحمت گوارا کریں۔ میں یقیناً اس مد میں ہونے والے آپ کے تمام مصارف (مع ڈاک خرچ وغیرہ) ادا کروں گا۔‘‘

جب مجھے ان خطوط کا دونوں اداروں میں سے کسی بھی ادارے کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا تو میں نے جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے سابق رئیسِ جامعہ جناب سید مظفر حسین برنی سے رابطہ قائم کیا۔انھوں نے از راہِ مہربانی نہ صرف فوراً جواب دینے کی زحمت کی بلکہ مجھے گجرال کمیشن اور سردار جعفری کمیٹی کی رپورٹوں کی کاپیاں بھی روانہ فرمائیں اور مطلع کیا کہ انھوں نے انجمن ترقی اردو (ہند) کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر خلیق انجم اور ترقی اردو بیورو کی ڈائریکٹر فہمیدہ بیگم سے رابطہ قائم کیا تھا اور ان دونوں عہدیداران نے مجھے خط لکھنے کا وعدہ کیا ہے(خلیق انجم صاحب نے جلد ہی خط لکھنے کا وعدہ آج تک پورا نہیں کیا)لیکن اسی دوران مظفّر حسین برنی صاحب نے دونوں اداروں یعنی انجمن ترقی اردو (ہند) اور ترقی اردو بیورو کے بارے میں کچھ اور معلومات فراہم کیں۔ انجمن کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
’’یہ (انجمن ترقی اردو، ہند) مکمل طور پر سرکاری امداد یافتہ ادارہ نہیں ہے۔ البتہ دہلی انتظامیہ کی طرف سے اس کو ڈیڑھ لاکھ روپے سالانہ گرانٹ ضرور ملتی ہے۔ انجمن کی کئی منزلہ عمارت اردو گھر کے کرایے سے ہونے والی آمدنی انجمن کے اخراجات کے لیے وافر ہے۔ اس کی مجلسِ عاملہ میں چالیس رُکن ہیں جن کا انتخاب ہر پانچ سال کے بعد عمل میں آتا ہے۔ میرے لیے یہ بات یقین سے کہنا مشکل ہے کہ انجمن کے اراکین پابندی سے حکومت کو اس کی کارکردگی کی رپورٹ پیش کرتے ہیں۔‘‘
ترقی اردو بیورو کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
’’یہ مکمل طور پر سرکاری امداد یافتہ ادارہ ہے۔ یہاں بھی حکومت کو دی جانے والی رپورٹ میں پابندی قائم نہیں رہ پاتی۔ مگر فی الحال بیورو اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہے۔‘‘

چند دنوں بعد برنی صاحب نے مجھے ان دونوں اداروں کی شائع شدہ رپورٹیں بھی روانہ فرمائیں۔ ایک رپورٹ انجمن کے ہفت روزہ ترجمان ’ہماری زبان‘ کے خصوصی شمارے (یکم اکتوبر 1977 ) میں شائع ہوئی تھی اور دوسری بیورو کے ذریعے جاری کردہ پمفلٹ کے دو شماروں (خبرنامہ جنوری تا جولائی1983 اور جون1998) کی شکل میں تھی۔
اس مقالے کے ضابطۂ تحریر میں آنے تک (دسمبر1998)مجھے ان دونوں اداروں میں سے کسی کی بھی طرف سے اب تک کوئی خط موصول نہیں ہوا ہے۔ اس تمام مواد کے جو اُن دونوں اداروں سے متعلق اب تک مجھے موصول ہوا ہے، تفصیلی مطالعے کے پیشِ نظر مجھے یہ کہنے میں کوئی تکلّف نہیں کہ گزشتہ دو دہائیوں میں بالخصوص انجمن ترقی اردو (ہند) کا رویّہ اردو کی بقا اور ترویج کے لیے ہر سطح پر مایوس کُن ہی رہا ہے۔ انجمن سے میرا رابطہ 1949-50کے درمیان اور 1964-65 اور اس کے بعد کے برسوں میں بھی اور اس وقت بھی انجمن کے حالات کو حوصلہ افزا نہیں کہا جاسکتا۔ اس مرتبہ بھی اس مضمون کو تحریر کرنے کے سلسلے میں انجمن کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر خلیق انجم کے تعاون کا جو تجربہ مجھے ہوا اُسے کسی بھی طرح خوش گوار تجربہ نہیں کہا جاسکتا۔
کچھ دنوں پہلے ’’انڈین ریویو آف بکس‘‘ (جلد ۵ شمارہ ۱، 15ستمبر تا 15نومبر 1995 ) میں میرا ایک مضمون شائع ہوا تھا۔ میرا خیال ہے کہ میرا یہ مضمون آپ میں سے بیش تر حضرات کی نظر سے نہیں گزرا ہوگا ،اس لیے، میں اس میں سے ایک طویل اقتباس پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا:
’’ان تمام برسوں میں تصویر کاسب سے زیادہ پریشان کُن پہلو(کسی سخت لفظ کا استعمال میں دانستہ طور پر نہیں کر رہا ہوں) ان لوگوں کی بے عملی اور عدمِ تحریک ہے جو خود کو اردو بولنے والوں کی جماعت کا رہنما تصور کرتے ہیں۔ یہ بات 1949 ہی میں جب میں اُن میں سے کئی حضرات سے پہلی مرتبہ ملا تھا مجھ پر روشن ہوگئی تھی۔۔۔ میں موضوع سے نہیں ہٹوں گا(اور صرف یہ کہنے پر اکتفا کروں گا، جو مجھے ضرور کہنا بھی چاہیے کہ ان لوگوں کو اردو سے کوئی محبت نہیں تھی) اردو کی ترقی اور فلاح کے لیے قائم کیے گئے اداروں کو مرکزی حکومت کی جانب سے ابتدا میں کافی وسائل فراہم کیے گئے تھے لیکن ان اداروں کا طرزِ عمل کسی طرح بھی متاثر کن نہیں تھا۔ 1949-50میں میرا ان لوگوں سے کئی مرتبہ تبادلۂ خیال ہوا جو سرکاری امداد سے چلنے والے اردو اداروں مثلاً انجمن ترقی اردو کی مجلسِ منتظمہ میں فروکش تھے۔ اس وقت بھی میں نے اُن سے عرض کی تھی کہ وہ ان اداروں کے ذریعے اردو کی بقا اور ترویج کے لیے مبسوط لائحۂ عمل مرتب کریں اور اس کے اطلاق کے لیے سنجیدگی سے کوشش کریں۔ میں نے اُن کی توجہ اِس اہم بات کی طرف مبذول کرائی تھی کہ اردو میں اہم اور عظیم ترین کلاسیکی متون کی اشاعتیں موجود نہیں ہیں۔ آکس فورڈ کلاسیکی متون(Oxford Classical Texts) کی مثال پیش کرتے ہوئے میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس سیریز کے تحت لاطینی اور یونانی زبانوں کے عظیم و قدیم مصنفّین کی تصنیفات کو شائع کیا گیا ہے۔ ان متون کو مرتب کرنے کا مقصد ممکن حد تک صحت کے ساتھ ان متون کو شائع کرنا تھا۔میں نے انجمن کے اربابِ اختیار سے یہ بھی عرض کیا تھا کہ اگر وہ کچھ اور نہیں صرف قدیم متون کی صحت کے ساتھ اشاعت کی طرف بھی توجہ دیں تویہ اپنے آپ میں بڑا وقیع کام ہوگا۔ مگر بیس برس بعد بھی اس سلسلے میں انجمن کا واحد کارنامہ ’دیوانِ غالب‘ (اردو) مرتبہ امتیاز علی خاں عرشی تک محدود تھا۔ انجمن نے مبیّنہ طور پر ایسے کچھ اور منصوبے شروع تو کیے مگر وہ نہ تو آگے بڑھ سکے اور نہ ہی ان میں سے کوئی اولوالعزم منصوبہ اپنے اختتام کو پہنچ سکا۔ ان منصوبوں کے سلسلے میں جو کام ہونا چاہیے تھا اور بغیر کسی دشواری کے مکمل کرکے شائع کیا جاسکتا تھا مگر اسے شروع ہی نہیں کیا گیا۔
مجھے پروفیسر آلِ احمد سرور کے ساتھ 1965 میں ہونے والی گفتگو آج بھی بہ خوبی یاد ہے جس میں میں نے بہ اصرار اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ غالبؔ کی تمام تحریروں کے مستند متون تیار کرنے کا کام فوراً شروع کردیا جائے تاکہ غالب صدی (1969) تک ان کو شائع کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں جو کچھ شائع ہوا وہ غالبؔ کے خطوط کی ایک جلد تھی، جو 1930 میں شائع شدہ خطوطِ غالب کی ذلّت آمیز اشاعتِ مکرّر سے زیادہ کچھ نہ تھی۔
اسی صحبت میں پروفیسر سرور نے مجھے بتایا تھا کہ انھوں نے میکش اکبر آبادی سے فرہنگِ نظیر اکبر آبادی تیار کرنے کو کہا تھا اور یہ کام مکمل ہو کر اُن تک پہنچ چکا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ پھر اسے فوراً کیوں نہ شائع کردیا جائے کیوں کہ اس کا استعمال ایک ایسے مکمل اردو۔اردو لغت کے طور پر کیا جاسکتا ہے جس کی اشاعت کا منصوبہ آپ کافی دن سے بنارہے ہیں۔ پروفیسر سرور نے میری اس تجویز کو مسترد کردیا اور 30برس کے بعد بھی ہم اردو والوں کے پاس نہ تو کوئی مکمل اردو۔اردو لغت موجود ہے اور نہ ہی کوئی فرہنگ ۔ کچھ عرصے بعد مجھے معلوم ہوا کہ میکش اکبر آبادی کی مرتب کردہ فرہنگ ہی ضائع ہوگئی۔ اس قسم کی بے توجہی کی متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ مگر میرا خیال ہے کہ وہ سب عبرت انگیز مثالیں بھی صرف نمونے ہی کا کام کریں گی۔‘‘

اطہر فاروقی کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں (اخبارِ نو ،۲ تا ۸ دسمبر 1988 ) رشید حسن خاں اسی نوعیت کے کچھ اور واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’بورڈ (بیورو) نے بہت پہلے منصوبہ بنایا تھا کہ اردو کا مکمل لغت چار پانچ جلدوں میں مرتب کرایا جائے گا۔ اس کے لیے ہندستان کے نہایت مشہور لوگوں کا انتخاب کیا گیا اور ایک ایک جلد بانٹ دی گئی۔ برسوں تک ان لوگوں کو باقاعدہ معاوضہ ادا کیا جاتا رہا۔ ان کو ایک ایک معاون بھی دیا گیا۔ برسوں کے بعد معلوم ہوا کہ لغت مکمل نہیں ہوا سب سے جب حساب طلبی کا وقت آیا تو ان سب مخدومین اور محترمین نے ، جو مشہور بلکہ اشتہاری ادیب تھے،کام ویسا کا ویسا واپس کردیا۔ اس کے بعد و ہ کام ڈاکٹر مسعود حسین خاں کے سپرد کیا گیا کہ آپ اردو لغت کی تدوین فرمائیں۔ میں نے ان سے ایک بار کام کی کیفیت پوچھی تو کہنے لگے ارے کیا کہتے ہو، بوریوں میں بھری ہوئی کچھ چیزیں آئی تھیں جن کو صحیح طور پر رکھنا مشکل تھا اور نہایت درجہ ناقص طور پر اس کا کام کیا گیا تھا۔ غضب یہ ہے کہ سال ڈیڑھ سال کے بعد وہ کام بھی ختم ہوگیا۔ اب وہ کام بھی نہیں ہورہا ہے... ایک مختصر لغت ابھی ضرور چھپا ہے میں نے اس کو اسی طرح پڑھا جیسے میں اور کتابیں پڑھتا ہوں۔ مجھے تو ا س کا ایک صفحہ ایسا نہیں ملا جس پر ایک یا دو تین مختلف قسم کی غلطیاں نہ ہوں۔‘‘

رشید حسن خاں کی اس گفتگوسے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو۔انگریزی (یاانگریزی۔اردو) لغت کے منصوبے کا بھی وہی حشر ہوا جو فرہنگِ نظیر اکبر آبادی کا ہوا تھا۔ کافی عرصے پہلے مجھے بتایا گیا تھا کہ کلیم الدین احمد بھی ایک لغت ترتیب دے رہے ہیں جو مکمل ہونے والی تھی مگر اس کے بعد ہنوز میں نے اس لغت کے بارے میں کچھ نہیں سُنا۔
اپنے مذکورہ انٹرویو میں رشید حسن خاں نے ایک اور اسکینڈل کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں جس کے بارے میں مجھے معمولی نوعیت کی جانکاری تھی۔ وہ کہتے ہیں:
’’یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ چار ضخیم جلدوں میں اردو ادب کی تاریخ مرتّب کی جائے۔ اس کے لیے علی گڑھ یونی ورسٹی کو مناسب رقم دی گئی۔ یونی ورسٹی نے شروع میں بہت اچھا منصوبہ بنایا۔ کاغذ پر جو تفصیلات سامنے آئیں وہ اتنی اچھی تھیں کہ ہم سب کو یقین ہوگیا کہ اب یہ جو تاریخ ادبِ اردو لکھی جائے گی وہ واقعی اعلا درجے کی ہوگی۔ اردو کے نو(9) بہت مشہور اور ذی وقعت اہلِ علم کو اس میں شامل کیا گیا پہلی جلد کے مقالات لکھنے کے لیے جو 1200سے1700تک کے زمانے پر مشتمل تھی۔ اس کی پہلی جلد جب چھپ کر آئی اور میں نے اس کو پڑھا تواندازہ نہیں کرسکتے ہیں کہ میری حیرت کا کیا عالم تھا۔ اس کے کسی حوالے کو اعتماد کے ساتھ نقل کیا ہی نہیں جاسکتا۔جتنے اقتباسات دیے گئے ان میں سے بیش تر کی عبارت قابلِ اعتماد نہیں۔ میں نے اسی زمانے میں اس پر ایک مفصّل تبصرہ لکھا تھا۔ جس زمانے میں یہ تبصرہ شائع ہوا، اس تبصرے نے بہت شہرت پائی۔ یہ تبصرہ پہلی بار رسالہ ’تحریک‘ میں چھپا تھا اور اس رسالے سے کئی جگہ نقل کیا گیا۔ بہت چرچے رہے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ وہ پہلی جلد باضابطہ بازار سے اُٹھالی گئی اور یونی ورسٹی میں لے جاکر اس کا ڈھیرلگا دیا گیااور یہ کہا گیا کہ اب اس کو تصحیح کے بعد بازار میں بھیجا جائے گا۔ آج تک نہ تو اس کی پہلی جلد کی تصحیح ہوئی اور نہ باقی جلدیں شائع ہوسکیں۔‘‘

ِ جس زمانے کا یہ قصّہ ہے اس کے آس پاس ہی 1969 میں ترقی اردو بیورو کا قیام عمل میں آیا۔ میرا تاثّریہ تھا کہ اردو لغت کا منصوبہ بھی انجمن نے شروع کیا تھا مگر رشید حسن خاں کے انٹرویو سے تفصیلات معلوم ہوئیں کہ اصل میں یہ منصوبہ ترقی اردو بیورو کا تھا (جسے اس زمانے میں ترقی ارد و بورڈ کہا جاتا تھا اور جو اَب قومی اردو کونسل بن چکی ہے)بیورو کے کارہاے نمایاں سے میری واقفیت کچھ زیادہ نہیں ہے مگر پروفیسر عتیق احمد صدیقی نے اپنے ایک مضمون ’’اسٹیٹس آف اردو ان انڈیا‘‘ (دی نیشن لاہور ، 4 اکتوبر 1994) کے ذریعے اس کی کاکردگی سے متعلق تفصیلات فراہم کی ہیں:
’’ترقی اردو بیورو جس کا قیام مرکزی حکومتِ ہند کے ذریعے عمل میں آیا تھا اب تک تقریباً 700 بے مقصد کتابیں شائع کر چکی ہے جن میں اکثریت تراجم کی ہے۔ اسی طرح ساہتیہ اکادمی اور نیشنل بک ٹرسٹ بھی (یہ دونوں ہی سرکاری ادارے ہیں) کثیر تعداد میں بے مصرف اردو کتب شائع کرچکے ہیں۔‘‘

اسی مضمون میں آگے چل کر وہ مختلف صوبوں میں قائم شدہ اردو اکادمیوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’بہت سے صوبوں میں مثلاً یوپی، بہار، مغربی بنگال، ہریانہ، مہاراشٹر، آندھرا پردیش اور اُڑیسہ وغیرہ کی صوبائی حکومتوں نے اُردو اکادمیاں قائم کی ہیں ۔ یہ اکادمیاں بھی اردو کی نام نہاد خدمت میں مثلاً کتابوں کی اشاعت ، مصنّفین کو کتب کی اشاعت کے لیے مالی مدد فراہم کرنا، مصنّفین اور طلبہ کو وظائف وغیرہ دینے میں مصروف ہیں۔‘‘

ممکن ہے کہ صدیقی صاحب کی اس راے کے بارے میں یہ نتیجہ اخذ کر لیا جائے کہ انھوں نے ایک سخت نتیجہ اخذ کر لیا ہے اور شائع ہونے والی تمام کتب بے مقصد اور مصنّفین کو ان سرکاری اداروں کی طرف سے دی جانے والی امداد مکمل طور پر بے مصرف نہیں ہوسکتی۔ بہر حال میرا اپنا خیال یہ ہے کہ پروفیسر صدیقی کی راے میں کافی وزن ہے اور اس زمانے میں اپنے ذاتی تجربے کے ذریعے میں نے ان اداروں کے حالات کے بارے میں جو راے قائم کی تھی وہ آج کے حالات پر بھی منطبق ہوتی ہے۔
’ دی نیشن‘ لاہور ہی کے 8جولائی 1994 کے شمارے میں شمس الرحمن فاروقی کاایک انٹرویو شائع ہوا ہے۔ یونی ورسٹیوں کے شعبہ ہاے اردو کے بارے میں وہ کہتے ہیں:
’’ ... یونی ورسٹیوں کے اردو شعبوں کے اساتذہ نے اپنی نوکری بچانے کے لیے جو مفاد پرستانہ لائحۂ عمل مرتّب کیا اُس نے اردو کی بنیادوں کو اُکھاڑ پھینکا۔اردو کو بچانے میں انھیں کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ اردو اساتذہ نے اپنے نئے ترتیب شدہ لائحۂ عمل کے مطابق یونی ورسٹی کے اربابِ اقتدار کو اس بات پر راضی کر لیا کہ جن طالب علموں نے کسی بھی سطح پر اردو کا مطالعہ نہیں کیا ہے یا جو اچھے طالب علم نہیں ہیں، اگر وہ ایک مضمون کے طور پر بی. اے میں اردو کو اختیار کرنا چاہیں یا اردو میں ایم. اے کرنا چاہیں تو انھیں داخلے کی اجازت دی جائے۔ صرف اپنی نوکری کے تحفّظ کے لیے ذاتی مفادات کے تابع بالخصوص یونی ورسٹیوں کے اردو اساتذہ کا یہ قدم اردو کے لیے بے حد ضرر رساں ثابت ہوا۔ ان کے اس اقدام کے نتیجے میں یونی ورسٹیوں کے اردو طالبِ علموں میں اکثریت جاہلوں کی ہوگئی ہے۔ بی. اے میں اردو کو بہ حیثیت مضمون اختیار کرنے والے یا اردو میں ایم. اے کرنے والے طلبہ میں اکثریت ان کی تھی جن کی علمی صلاحیت بہت کم تھی اور دوسرے طریقوں کے ذریعے انھیں یونی ورسٹی میں کبھی داخلہ نہیں مل سکتا تھا۔ یہ اس صدی کے چھٹے دہے کی بات ہے جب یونیورسٹیوں کے اردو شعبوں میں ان ہی جاہل طالبِ علموں کی بھرتی بہ طور اُستاد شروع ہوئی۔ پھر ان اساتذہ کے جاہل شاگردوں کی کھیپیں تیار ہونا شروع ہوئیں اور جاہل درجاہل کا یہ سلسلہ اب خدا جانے کب رُکے۔‘‘

اِن آرا کا تجزیہ کرنے کے بعد مختصراً اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ اردو کے قائدین نہ صرف یہ کہ اردو کے لیے ایسا کچھ بھی کرنے میں ناکام رہے جو وہ اپنی پیش قدمی سے کرسکتے تھے بلکہ وہ اپنے وہ وعدے بھی وفا کرنے میں ناکام رہے جن کے لیے وہ اپنی اُجرت بھی وصول کرتے رہے ہیں۔ اس پر طرّہ یہ کہ انھوں نے ایسے اقدام بھی کیے جو بہ قول شمس الرحمن فاروقی ’’اردو کے لیے بے حد ضرر رساں ثابت ہوئے‘‘انہی کارنامو ں کے سبب اردو کے ان پرچم بردار قائدین کے لیے رشید حسن خاں کے یہ سخت الفاظ دُرست معلوم ہوتے ہیں کہ ’’ یہ لوگ بوالہوسی ‘‘ اور بے ضمیری کے جال میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ ان کے یہاں ایمان داری کا تصوّر تو تقریباً مر چکا ہے... اس حد تک دنیا دار ، اس حد تک جاہ طلب اور گھٹیا گروپ بازی میں گرفتار لوگ ہیں...۔‘‘
یہاں ضمناً میں یہ بات بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ افسوس ناک امر ہے کہ رشید حسن خاں نے ان سارے معروف لوگوں کے نام ظاہر نہیں کیے جن کے لیے انھوں نے ان سخت الفاظ کا (لیکن پوری طرح دُرست) استعمال کیا ہے۔ یہ لوگ گمنامی کی ڈھال کے مستحق ہرگز نہیں ہیں اور کسی بھی صورت میں قرائنی تفصیلات کے ذریعے ان شخصیات کی شناخت قطعاً مشکل نہیں ہے لیکن میرا خیال یہ ہے کہ ان لوگوں کو پوری طرح بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔
اب ہمیں کسی قدر تفصیل میں جاکر ان اقدامات کا جائزہ لینا ہوگا جو مرکزی حکومت تقریباً گذشتہ دو دہوں سے کرتی رہی ہے۔

1970 اور اس کے بعد
سوم آنند کے مضمون سے مجھے ہندستان میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے رشتوں اور ان کی اردو پالیسیوں کے مابین اختلافات سے متعلق یہ معلوم ہوا کہ یہ پالیسیاں ان گذشتہ پالیسیوں سے مختلف نہیں تھیں جن کا مشاہدہ میں ایک عرصہ پہلے کر چکا تھا۔ ہندستان کی مرکزی حکومت اندرا گاندھی کے دور سے ہی اپنی کسی نہ کسی پالیسی کے تحت اردو کی بقا و ترقی کے لیے کچھ نہ کچھ اقدام کرتی رہی ہے۔ ان اقدام کے بارے میں تفصیل میں جانے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ میرے خیال میں آپ تمام حضرات کے علم میں یہ بات ضرور ہوگی کہ مرکزی حکومت نے ایسی تمام پالیسیاں جن سے یہ تاثّر عام ہے کہ حکومت اردو کی بقا و فروغ کی خواہاں ہے ، اس لیے، نہیں روا رکھی تھیں کہ حکومت کو اردو سے واقعتا کسی قسم کی کوئی دل چسپی تھی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اُن پالیسیوں کے نفاذ کا مقصد سیاسی مفادات کا حصول تھا۔ سوم آنند ہی کے مضمون سے مجھے یہ بھی علم ہوا کہ اندرا گاندھی نے اپنے دورِ اقتدار میں 1972 میں اندرکمار گجرال کی صدارت میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس کا کام اردو کی ترویج کے امکانات کا جائزہ لینا تھا۔ ڈھائی سو صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ 1975 میں 187 سفارشات کے ساتھ پیش کی گئی۔
سوم آنند کے مطابق یہ رپورٹ ’’سرد خانے میں چلی گئی‘‘ جس کا سب سے بڑا سبب جگ جیون رام کی شدید اردو مخالفت تھا اور مادام اندرا گاندھی اس دور کے سیاسی حالات میں جگ جیون رام کی مخالفت لینا نہیں چاہتی تھیں۔
بہر حال،مناسب وقت آنے پر گجرال کمیٹی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی گئی اور پھر مختلف ، کافی فصل سے ، دو کمیٹیاں اس امر کا جائزہ لینے کے لیے قائم کی گئیں کہ گجرال کمیٹی کی کون سی سفارشات کا نفاذ عملاً ممکن ہے۔پہلی سب کمیٹی 1979 میں آلِ احمد سرور کی صدارت میں بنی جس کا کام گجرال کمیٹی کی سفارشات کا جائزہ لینا تھا ( اس کمیٹی نے اپنا کام 1983 میں مکمل کر لیا) دوسری کمیٹی علی سردار جعفری کی صدارت میں فروری1990 میں تشکیل دی گئی جس نے غیر معمولی مستعدی کا ثبوت دیتے ہوئے ستمبر1990 میں حکومت کو اپنی رپورٹ پیش کردی۔ جعفری کمیٹی نے یہ تصدیق کی کہ گجرال کمیٹی کی پچانوے فی صد سفارشات کو عملی جامہ پہنایا ہی نہیں گیاہے۔ 1989 میں حکومتِ بہار اور اس کے بعد حکومتِ اترپردیش نے کاغذ پر ہی صحیح اردو کو اپنے اپنے صوبوں کی دفتری کام کاج کی زبان کے طور پر قبول کر لیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ گجرال کمیٹی کی سفارشات میں یہ سفارش شامل ہی نہیں کی گئی تھی۔
یہاں میں اس امر پر حیرت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ مولانا آزاد فاؤنڈیشن کی طرف سے مجھے ابتداً جو شائع شدہ مواد فراہم کیا گیا تھا اس میں گجرال کمیٹی، سرور کمیٹی یاجعفری کمیٹی کا کوئی حوالہ سرے سے موجود ہی نہیں تھا(البتہ اطہر فاروقی کے پی. ایچ. ڈی کے مقالے میں گجرال کمیٹی کا تعارف اور اس کی سفارشات کی ایک طویل تلخیص شامل ہے۔ مگر چوں کہ اطہر فاروقی کا مقالہ مجھے دیر سے موصول ہوا، اس لیے، ابتداً میں اس بات پر حیرت کرتا رہا کہ گجرال کمیٹی سے متعلق مواد کس لیے روانہ نہیں کیا گیا)۔

خود مختار اداروں اور انجمنوں کارول:
مجھے بہ خوبی اندازہ ہے کہ قومی اردو کونسل جیسے اداروں کی بے عملی کے سبب پیدا شدہ بے اطمینانی اور مایوسی عام طور پر لوگوں کو ایسے اداروں سے پوری طرح مایوس کردیتی ہے اور نتیجتاًایسی انجمنیں وجود میں آنے لگتی ہیں جو کسی بھی طرح کی سرکاری امداد یا تعاون قبول کرنے سے انکار کر کے خود کو حکومت کے احسان اور پالیسی دونوں سے اپنے آپ کو آزاد کر لیتی ہیں۔ہندستان میں اردو کے موجودہ حالات میں یہ بے اطمینانی مبارک ہے کیوں کہ حقیقتاً ایسی خود مختار انجمنوں کی آج بے حد ضرورت ہے۔ مجھے یہ جان کر خوش گوار تعجب ہوا کہ مولانا آزاد ریسرچ اینڈ ایجوکیشنل فاؤنڈیشن ایک ایسا ہی خود مختار ادارہ ہے جو حکومت کی امداد تو دور حکومت سے کسی طرح کا تعلق رکھنے والے اہلِ قلم تک سے کسی طرح کا کوئی رابطہ رکھنا پسند نہیں کرتا۔ ابتداً مجھے مولانا آزاد فاؤنڈیشن کے اس رویّے کے بارے میں کوئی خبر نہ تھی۔ سب سے تعجب خیز بات یہ ہے کہ فاؤنڈیشن کی طرف سے دعوت نامہ ملنے کے کئی مہینے کے بعد میں اس رویّے سے واقف ہوسکا۔ فاؤنڈیشن کے بارے میں استفسار پر اس کے نائب صدر امان اللہ خالد نے اپنے 14 مئی 1996 کے خط کے ذریعے مجھے پہلی بار یہ اطلاع بہم پہنچائی۔ یہاں میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ اس خط کے حوالے سے کچھ ضروری باتوں کا اندراج اس مقالے میں کروں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ مولانا آزاد فاؤنڈیشن کا رجسٹریشن 1989 میں کرایا گیا۔ فاؤنڈیشن کے مربّی سکندر آباد کے وہ تمام حضرات ہیں جو تقسیم کے بعد اردو پر پڑنے والے پیمبری وقت میں ستائش و صلے کی ہر تمنّا سے بے نیاز ہوکر بہت خاموشی کے ساتھ بادِ مخالف کے تیز جھونکوں میں اردو کی شمع روشن کیے رہے ... (سکندر آباد اترپردیش کے ضلع بلند شہر کا ایک قصبہ ہے جس کی کل آبادی کا تقریباً 45 فی صد حصّہ مسلمانوں پر مشتمل ہے‘‘ ... مولانا آزاد فاؤنڈیشن کی مجلسِ عاملہ میں ایسے سات حضرات شامل ہیں ... ہماری روزِ اوّل سے یہی کوشش اور پالیسی ہے کہ حکومتِ ہند سے کسی طرح کی کوئی مدد قبول نہ کی جائے تاکہ براہِ راست یا بالواسطہ حکومت کی پالیسیاں ہمارے کام پر اثر انداز نہ ہوسکیں۔ اس طرح کے نظریات کے ساتھ کسی ادارے کو ہندستان میں چلانا آج بھی بہت مشکل ہے اور ایسی تمام مشکلیں ہم برداشت کر رہے ہیں۔‘‘
12 اگست 1996 کے ایک اور خط کے ذریعے وہ اس سلسلے میں مزید اطلاعات بہم پہنچاتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ فاؤنڈیشن کے اراکین نے ابتدا ہی سے یہ طے کیا تھاکہ فاؤنڈیشن کاکوئی رکن حکومتِ ہند کی ملازمت قبول نہیں کرے گا۔ وہ کسی سرکاری یا غیر سرکاری کمیٹی کا رُکن نہیں بنے گا اور حکومتِ ہند سے خود کو براہِ راست یا بالواسطہ وابستہ نہیں کرے گا۔وہ حکومتِ ہند سے کسی طرح کی کوئی مالی امداد ، وظیفہ اور انعام بھی قبول نہیں کرے گا۔ وہ اس بات کی بھی حتّی الامکان کوشش کرے گا کہ ایسے سمینار یا مشاعرے میں حصّہ نہ لے جس کا کسی بھی طرح حکومتِ ہندسے کوئی تعلق ہو۔ وہ حکومت سے جزوی طور پر امداد یافتہ اردو رسائل میں اپنی تخلیقات کی اشاعت سے ممکن حد تک گریز کرے گا۔ خوشی کا مقام ہے کہ آج تک فاؤنڈیشن کے تمام اراکین اِس غیر تحریری ضابطے پر عمل پیرا ہیں۔‘‘
اوّل الذکر خط کے ذریعے مجھے یہ اطلاع ملی تھی:
’’فاؤنڈیشن کے مقاصد کے تحت سکندر آباد میں گذشتہ دس سال سے دو اردو میڈیم جونیر ہائی اسکول چل رہے ہیں۔ فاؤنڈیشن کے ان دو اسکولوں کے علاوہ اترپردیش میں صرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے دو جونیر ہائی اسکول اور ہیں۔‘‘

ایک تیسرے خط کے ذریعے مجھے مندرجۂ ذیل معلومات بھی فراہم کرائی گئیں:
’’ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے دونوں اردو میڈیم اسکولوں میں انگریزی ذریعۂ تعلیم بھی موجود ہے اور بیشتر والدین اپنے بچّوں کو انگریزی ذریعۂ تعلیم ہی میں بھیجتے ہیں۔ اردو ذریعۂ تعلیم نچلے طبقے کے وہ بچّے اختیار کرتے ہیں جن کے لیے کسی بھی طرح انگریزی ذریعۂ تعلیم کا بوجھ برداشت کرنا ممکن نہیں ہوتا، ہر چند کہ مسلم یونی ورسٹی کے دونوں اسکولوں میں انگریزی ذریعۂ تعلیم کا معیار بہت پست ہے۔ مختصر یہ کہ مسلم یونی ورسٹی کے ان دو اسکولوں میں بھی اردو ذریعۂ تعلیم کی سانسیں اُکھڑ رہی ہیں اور آئندہ چند سال میں یہ نام نہاد اردو ذریعۂ تعلیم بھی ختم ہو جائے گا۔‘‘
14مئی 1996 کے خط میں آگے لکھا تھا:
’’ فاؤنڈیشن اب تک دو اہم موضوعات پر سمینار منعقد کر چکی ہے ... ایک اردو ذریعۂ تعلیم کے مسائل اور دوسرا ہندستانی مسلمان اور پریس کے موضوعات پر۔ اس میں پیش کیے گئے مقالات دنیا بھر کے مقتدراخبارات و رسائل میں شائع ہوئے۔
مولانا آزاد فاؤنڈیشن کے تمام فنڈ مقامی باشندوں سے بہ قدرِ ضرورت چندے کی شکل میں حاصل کیے جاسکتے ہیں۔‘‘

میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ سرکاری انعام یافتہ انجمنوں کے خلاف ہندستان کے اردو والوں کی بے اطمینانی اور بے یقینی قطعاً جائزہے اور اردو کے حقوق کے لیے صرف اپنے زورِ بازو کے بل پر جدّ و جہد اور خود مختار اداروں کا قیام ایک خوش آئند قدم ہے لیکن اس سے یہ مراد بھی نہیں لینا چاہیے کہ اردو والے سرکاری امداد یافتہ اداروں کے معاملات میں کوئی دل چسپی ہی نہ لیں۔اردو کی ترویج کے لیے قائم کی گئی انجمنیں، ادارے، اکادمیاں اور بیورو وغیرہ اگر اطمینان بخش کام نہیں کر رہے ہیں تو ان پر منظّم طریقے سے کھلے عام تنقید کی جانی چاہیے اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان سرکاری اداروں کے منظور شدہ پروگراموں کو عملی جامہ پہنائے جانے کے لیے وسیع پیمانے پر اور مسلسل جدّو جہد کرنا چاہیے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مولانا آزاد فاؤنڈیشن جیسی انجمنوں کو اردو کی ترویج و ترقی کے لیے مربوط پروگراموں کے تحت منظّم طور پر سرگرمِ عمل ہونا چاہیے اور اپنی پالیسیوں اور پروگراموں کی اشاعت کرنا چاہیے۔
مولانا آزاد فاؤنڈیشن کی طرف سے سمینار کے دعوت نامے کے ساتھ جو شائع شدہ مواد مجھے موصول ہوا تھا اس میں لاہور سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامے ’دی نیشن‘ کے 25 دسمبر 1992کے شمارے میں احمد رشید شروانی کا ایک مضمون ’’ہندی مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی ‘‘ بھی شامل تھا۔ میں اس مضمون کے ان آخری دو پیراگرافوں سے حوالہ پیش کروں گا جن کا تعلق مندرجہ بالا بحث اور مولانا آزاد فاؤنڈیشن جیسے خود مختار اداروں کے رول سے ہے۔ شروانی صاحب لکھتے ہیں:
’’ آخر میں، میں صرف یہ کہوں گا کہ بنیادی طور پر یہ حکومتِ ہند کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا انتظام کرے کہ مسلمان بچّے بہتر تعلیم حاصل کرسکیں۔ کیا مسلمان ’بھارت ماتا‘ کے بچّے نہیں ہیں؟ بھارت ماتا کے یہ کروڑوں بچّے اگر تعلیم کے میدان میں پس ماندہ ہیں تو یہ صرف حکومت کی خطا ہے۔
لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم مسلمان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور صرف اس کا انتظار کرتے رہیں کہ حکومت کب اپنا فرض ادا کرتی ہے۔ چوں کہ ہمارے بچّوں کا مستقبل ان کی تعلیم پر منحصر ہے ، اس لیے، ہمیں حکومت کے رویّے اور کارکردگی سے بے نیاز ہوکر اپنے بچّوں کی تعلیم کے لیے ممکنہ حد تک مسلسل سعی کرتے رہنا چاہیے۔‘‘
مجھے ان دونوں باتوں میں سے کسی سے بھی اختلاف نہیں ہے لیکن ان اقتباسات کو پڑھنے کے بعد جو شے میری توجہ فوراً اپنی طرف مبذول کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ بنیادی طور پر مسلم بچّوں کی تعلیمی سطح کو بہتر بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے تب بھی یہ واضح نہیں ہوتا کہ مصنّف کا اس سیاق و سباق میں منشا کیا ہے اور مسلم بچّوں کی تعلیمی سطح بلند کرنے کے لیے وہ حکومت سے کن اقدام کی توقّع کرتا ہے۔ شروانی صاحب نے پورے مضمون میں ایسی کوئی بھی ٹھوس تجویز پیش نہیں کی ہے جس سے یہ اندازہ کیا جاسکے کہ حکومت کو اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے کیا اقدام کرنے چاہئیں اور کون سی حکمتِ عملی بروے کار لانا چاہیے۔ کوئی بھی قاری مسلم تعلیمی پس ماندگی پر اس اہم اور طویل مضمون کے بارے میں یہی خیال کرے گا کہ فاضل مصنّف کے ذہن میں مسلم بچّوں کا تعلیمی معیار بلند کرنے کے لیے دو سطح پر واضح تجاویز ہوں گی... ایک یہ کہ حکومت کی حکمتِ عملی کیا ہو اور دوسری یہ کہ اس حکمتِ عملی کے نفاذ کے لیے اردو بولنے والا طبقہ حکومت پر کس طرح دباؤ ڈالے۔ شروانی صاحب آخری اقتباس میں لکھتے ہیں کہ ’’ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مسلمان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور صرف اس کا انتظار کرتے رہیں کہ حکومت کب اپنا فرض ادا کرتی ہے۔‘‘ یہ بات بالکل درست ہے لیکن اس بیان سے بھی ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ اب تک اردو کے رہنماؤں نے کیا کچھ کیا ہے یا اپنے بچوں کو تعلیم دینے کی غرض سے ان کو کیا رویّہ اختیار کرناچاہیے۔ مصنّف کا خیال ہے کہ ’’ہمیں اپنے بچّوں کی بہتر تعلیم کے لیے ممکنہ حد تک مسلسل سعی کرتے رہنا چاہیے۔‘‘ یہ بات بھی صحیح ہے لیکن یہ کیسے پتا چلے کہ اب تک آپ کیا کرتے رہے ہیں اور کیا کیا کچھ کرنا
آپ کے دائرۂ اختیار میں ہے؟ یا یہ کہ اردو کے قائدین کے ذریعے آپ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ ان سارے امور پر مصنّف خاموش ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ نکات ہیں جن پر زیادہ واضح اور مدلّل فکر کی ضرورت ہے۔

اردو کے قائدین کی خامیاں اور کمزوریاں:
اردو کے قائدین کے رویّے پر میں یہ کہنے کے لیے مجبور ہوں کہ میرے ذاتی مشاہدے کی حد تک اردو کے قائدین اردوکے لیے خود کچھ کرنے کے بجاے ہمیشہ صرف دوسرے لوگوں کو ہی کچھ کرنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں۔ ان کے اس رویّے کے لیے ان کا وہ تاریخی پس منظر ذمے دار ہے جس میں وہ سیکڑوں سال تک ہندستان میں برسرِ اقتدار اشراف کے طور پر گزر اوقات کرتے رہے ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی جو خود بھی اترپردیش کے اشرافیہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، اطہر فاروقی کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں (دی نیشن لاہور، 8 جنوری 1994) ایک غیر معمولی بات (جسے خوش آئند بھی کہا جاسکتا ہے) کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ:
’’اترپردیش کے مسلمان احساسِ برتری کا شکار رہے ہیں جسے میں حقیقتاً ایک احمقانہ بات تصوّر کرتا ہوں۔‘‘
مجھ جیسے بیرونی آدمی کے لیے شمس الرحمن فاروقی صاحب کا یہ بیان چونکا دینے والی بات ہے۔ اترپردیش کے مسلمانوں کی یہ صفت اس رویّے میں بھی ظاہر ہے جس کی طرف میں نے اپنی ایک تحریر میں اشارہ بھی کیا ہے ( بلکہ طنزکے ساتھ اشارہ کیا ہے)کہ:
’’یوپی کا شریف زادہ خود ایسا کوئی کام نہیں کرتا جس کو وہ دوسرے لوگوں سے حکم صادر فرما کر یا پھر خوشامد اور چاپلوسی سے کراسکتا ہے۔‘‘

قارئین حضرات مجھے اس صاف گوئی کے لیے معاف فرمائیں کہ میں ایک ایسی تجویز پر اظہارِ راے کر رہا ہوں جس کی حمایت اطہر فاروقی اور سوم آنند دونوں نے کی ہے (حالاں کہ سوم آنند یوپی کاشریف زادہ نہیں ہے جب کہ اطہر فاروقی کا تعلق اشرافیہ طبقے سے ہے)۔ اس تجویز کے مطابق ہندستان میں اردو تعلیم کو مذہبی تعلیم کے بنیادی اداروں مثلاً دینی مدرسوں وغیرہ جو ابتداً صرف اسلامی تعلیم کے لیے قائم کیے گئے تھے، کا لازمی حصّہ بنا دیا جانا چاہیے۔ میرے خیال میں اس تجویز میں کوئی دم نہیں ہے۔ اس کے کئی وجوہ ہیں۔ اوّل تو یہ کہ جو کام آپ کوخود کرنا چاہیے اس کے لیے آپ کوئی دوسرا سہارا کیوں تلاش کر رہے ہیں۔ آپ کو خود ہی اردو تعلیم کا نظم کرنا ہوگا۔ دوم یہ کہ کہیں بھی ایسے شواہد موجود نہیں ہیں جب دینی تعلیمی اداروں نے اردو تعلیم دینے میں یا اردو زبان و ادب کو کسی بھی سطح پر اپنے نصابِ تعلیم میں شامل کرنے میں دل چسپی رکھی ہو۔ دینی مدارس آزادی سے قبل سے لے کر آج تک مسلسل اپنا کام انجام دیتے رہے ہیں لیکن جہاں تک مجھے علم ہے، ان میں سے کسی نے بھی اپنے طلبہ کو تعارفی سطح تک کا اردو ادب پڑھانے میں کبھی کسی قسم کی دل چسپی کا اظہار نہیں کیاہے۔ وہ صرف اور صرف مذہبی سوالات سے جڑے ہوئے ہیں۔ مجھے اس پر اعتراض نہیں۔ اگر دینی مدارس صرف مذہب کے لیے فکر مند اور کوشاں ہیں تو یہ ان کا حق ہے۔ اگر آپ ان کو اردو پڑھانے کے لیے یا اردو کی صرف اتنی ہی تعلیم دینے کے لیے بھی رضامند کرسکیں جس سے ان کا طالبِ علم اردو ادب کا نہ صرف مطالعہ کرسکے بلکہ اسے دادِ تحسین بھی دے سکے ، تو آپ اس کے لیے کوشش کریں بلکہ ہر ممکن کوشش کریں۔اور جہاں کہیں آپ ان مدارس کو ایسا کرنے کے لیے راضی کرلیں تو اس کام کی تکمیل کے لیے ان کو ہر طرح سے مدد بھی دیں۔ لیکن میرا قیاس یہی ہے کہ مدارس کسی بھی بڑے پیمانے پر اس کام کے لیے تیار نہیں ہوں گے اور میں ایک مرتبہ پھر عرض کروں گا کہ اردو کے قائدین تو اپنے حصّے کا بوجھ دوسرے کے شانے پر ڈالنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ یہ کام انھیں خود کرنا چاہیے تھا لیکن افسوس ، صد افسوس کہ وہ ایسا نہیں کررہے ہیں۔ وہ کبھی دینی مدارس سے توقّعات وابستہ کرتے ہیں تو کبھی کسی اور طرح آسمانوں سے مدد کی امید رکھتے ہیں۔
میرا مشاہدہ یہ ہے کہ اشرف علی تھانوی کے زمانے سے (تقریباً سو برس پہلے سے جب انھوں نے ’’بہشتی زیور‘‘ لکھی) اب تک ان مدرسوں یا ان کے مدرّسین کے رویّوں میں کچھ خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ’’بہشتی زیور‘‘ کے دسویں باب میں ایک فہرست ان کتابوں پر مشتمل ہے جن کا مطالعہ اشرف علی تھانوی صاحب نے خواتین کے لیے ممنوع قرار دیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ یہاں سیاق و سباق مسلم خواتین کا ہے پھر بھی دو باتیں قابلِ غور ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہم خواتین کو وہ سب کچھ پڑھنے کے قابلِ بنانا چاہتے ہیں جو کچھ مرد پڑھ سکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ تھانوی صاحب نے خواتین کے لیے جن کتابوں کے مطالعے پر پابندی عاید کی ہے ان کا تعلق اس ادب سے ہے جس کا مطالعہ مردکرتا ہے۔ بہشتی زیور میں دی گئی اس فہرست میں تھانوی صاحب ’’دیوان اور غزلوں‘‘ کی کتب پر بھی پابندی عاید کرتے ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر وہ در حقیقت پوری اردو شاعری اور اردو شاعری کا یقیناً سب سے زیادہ اہم حصّہ جس میں اندر سبھا، بدرِ منیرکا قصّہ یعنی مثنوی میر حسن ، داستانِ امیر حمزہ، گلِ بکاؤلی اور اسی قسم کا دوسرا ادب بھی شامل ہے، خواتین کے لیے ممنوع قرار دیتے ہیں۔ اسی لیے مذہبی تعلیم کے لیے خو د کو وقف کرنے والے ان مدرّسین سے طلبہ کو اردو ادب کے بہترین سرمایے کی تعلیم دینے کی امید رکھنا تو میرے خیال میں آج بھی خیالی پلاؤ ہی ہے۔

کس حکمتِ عملی کی ضرورت ہے:
اب میں اس نکتے کی طرف رجوع کرتا ہوں کہ اردو کے قائدین کیا کریں۔ مجھے اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ وہ بات اُٹھائیں کہ حکومتِ ہند یا صوبائی حکومتوں وغیرہ کو فلاں فلاں کام کرنے چاہئیں، وہ ایسا کرنے کے لیے حکومتوں پر دباؤ بھی ڈالیں۔ مجھے اس میں بھی کوئی قباحت نظر نہیں آتی کہ وہ یہ کہیں کہ مدرّسین کو اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے کہ وہ دینی مدارس میں طلبہ کو اردو پڑھائیں... مجھے ان سب میں سے کسی بھی بات پر بھی کوئی اعتراض نہیں لیکن اس سب سے قطع نظر میں جس بات پر زور دینا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اردوکے قائدین اپنی بیش تر توجّہ اس پر صرف کریں کہ انھیں خود کیا کرنا چاہیے ، یہ دیکھے بغیر کہ دوسرے لوگ کچھ کر رہے ہیں یا نہیں کر رہے ہیں اور اسی لیے میں نے احمد رشید شروانی کے الفاظ کا حوالہ دیا ہے۔ میرے خیال میں وہ کہنا یہی چاہتے ہوں گے جو میں نے عرض کیا ہے مگر وہ کسی تفصیل میں نہیں گئے جب کہ انہیں ایسا کرنا چاہیے تھا۔
اب میں چند اہم نکات کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہوں گا جن کی طرف ، میرے خیال میں اردو کے سارے حامیوں اور قائدین کی توجہ بہت پہلے مرکوز ہوجانا چاہیے تھی اور کم از کم اب تو انھیں اس سلسلے میں مستعد ہوجانا چاہیے۔
سوم آنند کے مضمون (اشاعت 1992 )کا ایک حصّہ ہندستان میں اردو کے امکانات پر غور کرنے والے لوگوں کے لیے ایک بے حد اہم پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔ سوم آنند کہتے ہیں کہ حالاں کہ حکومت کی طرف سے اردو کو کافی مالی مراعات دی جاتی رہی ہیں لیکن اردو بولنے والے طبقے کے حالات کچھ ایسے ناگفتہ بہ ہیں کہ وہ ان مالی مراعات کا صحیح استعمال کبھی نہیں کرسکا۔ سوم آنند نے اپنے مضمون کے ایک اقتباس میں اس بات کو بڑے مناسب طریقے سے پیش کیا ہے۔ میں اسی اقتباس کو کچھ کاٹ چھانٹ کر پیش کر رہا ہوں۔ سوم آنند کا کہنا ہے کہ حکومتِ ہند اردو اخبارات کی مدد کے لیے کافی کوشاں رہتی ہے مگر اردو اخبارات اپنے حالات کے سبب ان مراعات سے کچھ بھی فائدہ اُٹھانے کی حالت میں نہیں ہیں... یہاں یونائٹڈ نیوز انڈیا (یواین آئی) نام کی ایک بڑی خبر رساں ایجنسی ہے۔ اس ادارے نے حکومتِ ہند کے کہنے سے اردو اخبارات کے لیے اردو ٹیلی پرنٹرسروس شروع کرنے کا فیصلہ کیا جس کے لیے حکومتِ ہند نے یو این آئی کو کئی لاکھ روپے کی گرانٹ بھی دی ۔ لیکن اردو پریس ان فراہم شدہ مواقع سے فائدہ اُٹھانے کے حالات میں نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس اسکیم کو کامیاب بنانے کے لیے یو این آئی نے چالیس اردو اخباروں کو اپنی خدمات پیش کیں لیکن اردو اخبارات آج تک اس سہولت کا فائدہ نہیں اُٹھا پائے ہیں۔
اس قسم کی دشواریاں کم نہیں ہیں۔ مثلاً ایسی سہولیات کے صحیح استعمال کے لیے اچھے مترجمین کی ضرورت ہوتی ہے جو اردو میں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو داں طبقے کی نئی نسل ایسے دور میں پیدا ہوئی ہے جب اردو کی تعلیم دینے کا رواج ہی نہیں رہا ہے۔ ایسے میں آپ اس نئے نوجوان طبقے سے یہ امید کیوں کرتے ہیں کہ وہ اچھی اردو جانتا ہوگا؟ اس پر طرّہ یہ کہ شمالی ہند کے نام نہاد ہندی علاقے میں انگریزی تعلیم کا معیار بھی بے حد خراب ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اردو اخباروں میں کام کرنے والے مترجمین نہ تو اچھی انگریزی جانتے ہیں اور نہ اچھی اردو ہی۔
دریں اثنا حکومتِ اترپردیش اردو کے تعلق سے اپنی قدیم اردو کُش پالیسی پر قائم ہے۔ اس سلسلے میں سوم آنند لکھتے ہیں:
’’اسی سبب سے مرکزی حکومت کسی نہ کسی حد تک مجبور ہے۔ اردو کو کس طرح جان بوجھ کر اترپردیش میں ختم کیا گیا میں اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ تقریباً بیس برس پہلے مرکزی حکومت نے اترپردیش حکومت کو اپنے یہاں پرائمری اسکولوں کے لیے سات ہزار اردو اساتذہ کی تقرری کا مشورہ دیا... اور یہ بھی کہا کہ ان اساتذہ کی تقرری اور تنخواہ کے اخراجات مرکزی حکومت برداشت کرے گی۔ اسی کے مطابق صوبے کے شعبۂ تعلیم نے ان اساتذہ کی تقرری تو کردی لیکن ان اساتذہ کے اسکولوں میں اردو پڑھانے کے لیے کوئی وقت متعین نہیں کیا گیا اور ان سے کہہ دیا گیا کہ جو بچّہ بھی اردو پڑھنا چاہے وہ اسکول کے وقت کے لیے مقرر کیے گئے وقت سے الگ وقت دے کر اردو پڑھے ، اور اردو کے لیے مقرر کیے گئے ان اساتذہ کو دوسرے مضامین پڑھانے کا حکم دے دیا گیا۔‘‘
سوم آنند کے مضمون سے یہ طویل اقتباس نقل کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیوں کہ میرا خیال یہ ہے کہ آپ میں سے بیش تر حضرات کی نظر سے یہ مضمون نہیں گزرا ہوگا۔
راقم الحروف کے نام اپنے 2اگست 1996 کے خط میں امان اللہ خالد نے اردو اساتذہ کی تقرری سے متعلق جو حقائق پیش کیے ہیں وہ سوم آنند کے ذریعے پیش کیے گئے حقائق سے مختلف ہیں۔ خالد صاحب کا کہنا ہے کہ ’’اصل واقعہ یہ ہے کہ اندرا گاندھی کی ذاتی کوشش سے اترپردیش میں کچھ اساتذہ بھرتی ضرور کیے گئے تھے مگر ان کی تنخواہ صوبائی حکومت کا محکمۂ تعلیم دیتا ہے اور مرکز کو ان سے کچھ لینا دینا نہیں۔‘‘
سوم آنند کا بیان ہے کہ یوپی میں انگریزی اور اردو جاننے والے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اس بیان کی روشنی میں مجھے حیرت اس بات پر تھی کہ ان سا ت ہزار اردو اساتذہ کو اگر واقعی اردو تدریس کا موقع دیا جاتا تو ان میں واقعتاً کتنے لوگ اردو پڑھانے کے قابل نکلتے۔ مجھے اپنے اس تجسّس کا جواب اطہر فاروقی کے مضمون ''URDU EDUCATION IN FOUR REPRESENTATIVE STATES'' جو’’ اکنامک اینڈ پالیٹکل ویکلی‘‘ کے یکم اپریل 1994 کے شمارے میں شائع ہوا ہے، مل گیا۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اترپردیش میں کچھ مقامات پر پرائمری سطح کے اردو ذریعۂ تعلیم کے بلدیاتی اسکول چلائے جاتے ہیں جن کے لیے اساتذہ کی تقرری بھی کی گئی تھی۔ مگر اردو ذریعۂ تعلیم کے ان نام نہاد بلدیاتی اسکولوں میں بھی اردو کی حیثیت بس ایک اختیاری مضمون کی ہوتی ہے۔ اردو اساتذہ کہلانے والے حضرات میں سے بیش تر لوگ اردو ذریعۂ تعلیم کے مفہوم سے بھی واقف نہیں ہیں۔
یوں اترپردیش میں اردو تعلیم کا مطلب ہے صرف ایک مضمون کے طور پر اردو کی تعلیم۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ یوپی میں بیش تر نام نہاد اردو اساتذہ پرائمری درجات کی اردو کتابیں بھی نہیں پڑھ سکتے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ یوپی کے یہ اردو اساتذہ درس و تدریس کے بجاے اپنے ذاتی کاروبار مثلاً کھیتی باڑی اور مویشی پروری وغیرہ کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں اور مہینے میں ایک آدھ بار اسکول کا بھی چکّر لگا آتے ہیں ... اس وقت (جب ان اساتذہ کا تقرر کیا گیا) حالات یہ تھے کہ جو بھی ہائی اسکول پاس مسلمان مل گیا اسی کو اردو استاد کے طور پر بھرتی کر لیا گیا۔ بعد میں انہی لوگوں کو براے نام درسی تربیت دے کر ان کو بلدیاتی اسکولوں میں متعین کر دیا گیا۔ ان اساتذہ کو یہ سہولت بھی مہیّا کرائی گئی کہ وہ اردو کا کوئی اور ینٹل امتحان پاس کرلیں۔ یہ بڑی ستم ظریفی ہے کہ ا س وقت اتنی بڑی مسلم آبادی میں اردو کے ساتھ ہائی سکول پاس مسلم نوجوان کا ملنا ناممکن الحصول کام تھا۔ اس اسکیم کے تحت بھرتی کیے گئے اساتذہ میں آج بھی بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اردو زبان کے حروفِ تہجّی کی بھی شناخت نہیں کرسکتے۔‘‘
اردو کی اس صورتِ حال سے مجھے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اردو داں لوگوں کے درمیان ایسے طبقات اور بھی ہیں (ان عظیم شخصیتوں کے علاوہ جن کو رشید حسن خاں نے لتاڑا ہے) جن کی صلاحیتیں مشکوک ہیں اور ان کو بھی ہدفِ تنقید بنایا جاسکتا ہے۔ اردو میں ایسا ہی ایک طبقہ کاتب حضرات کاہے۔ جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی میں اردو کے سابق استادڈاکٹر اشفاق محمد خاں کا خیال ہے کہ کاتب حضرات کے کارنامے اردو مصنفّین کو بے حد مایوس اور عملی سطح پر پریشان کردیتے ہیں۔ اپنی کتاب ’’مذہب اور سیکولرزم ‘‘ (1994) کے پیش لفظ میں صفحہ 9 پر وہ لکھتے ہیں:
’’اس مرتبہ کاتب حضرات نے مجھے بے حد ستایا۔ ستائے جانے کی ایک طویل داستان ہے جسے بیان کرنے کا یہ محل نہیں ہے۔ البتہ اتنا ضرور کہوں گا کہ آج تک کتابت کی تربیت کے جتنے مراکز قائم ہوچکے ہیں اور ہر سال ان میں سے جتنی تعداد میں کاتب حضرات تربیت پاکر کتابت کے بازار میں داخل ہوتے ہیں اسی قدر مصنّف ، مولف، مرتب حضرات ہمارے لائق کاتبین کی کرامات سے بے حد بیزار اور ستم رسیدہ نظر آتے ہیں۔‘‘
(کاتبوں کے خلاف حد درجہ بڑھی ہوئی اپنی ناراضگی میں ڈاکٹر اشفاق محمد خاں ایسا بیان تک جاری کردیتے ہیں جسے کسی صورت میں تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’جب جہلا کسی فنِ شریف کو صرف اور صرف اپنی روزی کا ذریعہ بنا لیتے ہیں تو پھر وہ نہ ہی فن رہتا ہے اور نہ اس کی شرافت۔‘‘ میرے خیال میں کتابت کو پیشے کے طور پر اختیار کرنے میں کوئی خرابی نہیں ہے اور ایسے متعدد کاتب حضرات گزرے ہیں جنھوں نے اپنے فن میں کمال حاصل کیا تھا)۔
جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ اردو کی ترویج کے لیے ہمیں ہر سطح پر اردو پر دسترس رکھنے والے لوگوں کی تعداد بڑھانے کی بے حد ضرورت ہے۔ اوپر بیان کیے گئے حقائق واضح طور پر میرے اس بیان کی صداقت کے ضامن ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بچوں اور بالغوں دونوں کے لیے اردو کلاسیں بے حد ضروری ہیں ورنہ اردو اساتذہ سے لے کر کاتبوں تک ہر سطح پر ہمارا سابقہ نااہل لوگوں سے پڑے گا۔ اب میں کچھ دوسری باتوں کی طرف رجوع کرتا ہوں۔

دیوناگری میں اردو:
اردو کی تمام انجمنوں کو خواہ وہ سرکاری امداد یافتہ ہوں خواہ رضاکار ، اس حقیقت کے نتائج پر غور کرنا ہوگا کہ بہت سے اردو بولنے والے لوگ اردو تو جانتے ہیں لیکن وہ اردو رسمِ خط سے واقف نہیں ہوتے۔ وہ لوگ اردو ادب پڑھنے کے بھی خواہش مند ہوتے ہیں لیکن وہ اردو ادب کا مطالعہ اسی وقت کرسکتے ہیں جب وہ دیو ناگری خط میں موجود ہو۔ میری راے میں اردو کے موجودہ تناظر میں سرکاری امداد یافتہ اداروں اور انجمنوں کی یہ پوری پوری ذمے داری ہے کہ وہ اردو کے اہم اور مقبولِ عام مصنّفین کی کتابیں دیوناگری رسمِ خط میں شائع کریں۔ دوسرے لوگوں کی طرف سے پیش رفت کا انتظار ان اداروں کو نہیں کرنا چاہیے۔ اگر یہ ادارے اردو کی ترویج کے واقعی خواہاں ہیں تو پھر انھیں ان محبّانِ اردو کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے جو اردو ادب کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں ، اردو ادب کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں لیکن اردو رسمِ خط سے واقف نہیں ہیں۔
دیوناگری رسمِ خط میں اردو ادب کی اشاعت سے اردو ادب کا حلقۂ قارئین صرف مذکورہ بالا طبقے تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ وہ ہندی داں قارئین بھی اس کی طرف متوجہ ہوں گے جو اردو جانتے تو نہیں ہیں لیکن اردو ادب کے اوصاف سے واقف ہونا چاہتے ہیں۔ میرے خیال میں ہندی داں حضرات کا حلقہ دوسرا بڑا حلقہ ہے جو (اردو داں حضرات کے علاوہ) اردو ادب کا ممکن قاری ہوسکتا ہے۔
ہم سب اس امر سے بہ خوبی واقف ہیں کہ ہندی داں طبقے میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اردو کے سخت اور کھلے مخالف ہیں لیکن یہ خیال غلط ہوگا کہ باقی ہندی داں حضرات کا رویّہ بھی انھیں لوگوں کے رویّے جیسا ہوگا جو اردو کے سخت مخالف ہیں۔ ہندی داں طبقے میں کافی بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو اردو کو اپنی پہلی زبان تو نہیں بنانا چاہتے مگر وہ یہ جاننے میں دل چسپی ضرور رکھتے ہیں کہ معاصر اردو ادب میں کیا کچھ پیش کیا جارہا ہے یا اردو کے کلاسیکی سرمایے میں کیا کیا کچھ موجود ہے۔ یہ بات ہندی اشاعت گھروں سے دیوناگری رسمِ خط میں شائع ہونے والی اردوادب کی کتب کی تعدادِ فروخت سے بہ خوبی ثابت ہوجاتی ہے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہندی کے ناشرین اردو کے بہت سے معروف و مقبول شعرا کا انتخاب دیوناگری میں شائع کر رہے ہیں۔ عصمت چغتائی نے خود مجھے تبایا تھا کہ اپنی عمر کے آخری دور میں ان کی کہانیوں کی اردو میں اشاعت سے قبل ہی دیوناگری میں شائع کرنے کے لیے ناشر مل جاتا تھا۔ امریکا کی وسکونسن یونی ورسٹی کے پروفیسر محمد عمر میمن نے 6 جون1996 کو لکھے گئے اپنے ایک خط میں مجھے اطلاع دی کہ منٹو کے تقریباً سارے افسانے اب دیوناگری میں بھی دستیاب ہیں۔ میرے تجربے کے مطابق اردو کے قائدین ان حالات سے یا تو بے خبر ہیں یا اگر باخبر ہیں بھی تو ان کا رویّہ اس سلسلے میں بے اعتنائی کا رویّہ ہے ... جو یقیناًغلط ہے۔
چھٹے دہے کی ابتدا میں اسکول آف اورینٹل اینڈ افریکن اسٹڈیز کے ایک ہندی داں رفیق کار نے جو اردو سے بھی واقف تھے، میری توجہ کئی جلدوں پر مشتمل ’’شعرو سخن‘‘ نام کی ایک کتاب کی طرف مبذول کرائی۔ یہ دیوناگری رسمِ خط میں اردو شاعری کا ایک جامع انتخاب تھا جس میں ہر صفحے پر حاشیے میں مرتّب نے اپنی دانست میں مشکل اردو الفاظ کے ہندی معنی یا متبادل الفاظ بھی درج کیے تھے۔ اگر میری یادداشت دھوکا نہیں دے رہی ہے توکافی عرصہ پہلے ، غالباً 1958 میں، الہ آباد سے شائع ہونے والا اردو ساہتیہ نام کا ایک مجلّہ دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ اس مجلّے میں معاصر اردو ادب کو دیوناگری رسمِ خط میں شائع کیا گیا تھا اور مشکل الفاظ کی تشریح بھی کی گئی تھی۔حال ہی میں میرے ایک سابق رفیقِ کار ڈیوڈ میتھیوز نے جو اَب بھی اسکول آف اورینٹل اینڈ افریکن اسٹڈیز میں اردو کا درس دیتے ہیں ، اردو شاعری کا ایک انتخاب (آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس ، نئی دہلی 1995) انگریزی ترجمے کے ساتھ شائع کیا ہے۔ یہ ایک ذولسانی کتاب ہے جس میں اُلٹے ہاتھ پر اردو متن اور اس کا انگریزی ترجمہ سیدھے ہاتھ پر دیا گیا ہے۔ ناشر کے مشورے پر ڈیوڈنے اردو متن کو دیوناگری رسمِ خط میں شاملِ کتاب کیا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت بھی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دیوناگری رسمِ خط میں اردو شاعری پڑھنے والے قارئین کا حلقہ اردو رسمِ خط جاننے والے قارئین سے کہیں زیاد وسیع ہے۔
تقریباً سات سال قبل راہی معصوم رضا کا ایک خیال آفریں انٹرویو ’اخبارِنو‘ کے9-15 فروری1990 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ یہ انٹرویو اطہر فاروقی نے لیا تھا جس میں راہی معصوم رضا نے کہا تھا کہ اگر اردو کے کلاسیکی سرمایے کو دیوناگری میں شائع نہیں کیا گیا تو آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے یہ سرمایہ بے معنی ہوجائے گا۔ میں اس پیش گوئی کو بے حد معقول تصوّر کرتا ہوں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے راہی صاحب کا خیال یہ ہے کہ اردو والوں کو اپنا خط ترک کرکے اس کی جگہ دیوناگری رسمِ خط اختیار کر لینا چاہیے۔
اپنے اسی انٹرویو میں راہی معصوم رضا یہ بھی یاد دہانی کراتے ہیں کہ 1945-50میں جب پروفیسر آلِ احمد سرور انجمن ترقی اردو کے جنرل سکریٹری تھے (یہاں راہی معصوم رضا کی یاد داشت خطا کر رہی ہے کیوں کہ سرور صاحب 1956 میں انجمن کے جنرل سکریٹری منتخب ہوئے تھے( تو انجمن نے ایک سرکلر جاری کیا تھا جس میں ایک سوال نامے کے ذریعے یہ مسئلہ اُٹھایا گیا تھا کہ اردو والے اپنا رسمِ خط ترک کرکے دیوناگری رسمِ خط اختیار کرنے کے لیے تیار ہوں گے یا نہیں۔ اس سرکلر میں پوچھا گیا تھا کہ کیا اردو کا رسمِ خط تبدیل کر دیا جائے یا اردو اپنے روایتی رسمِ خط میں لکھی جاتی رہے یا اسے رومن میں لکھنا شروع کردینا چاہیے یا پھر اس کو دیو ناگری رسمِ خط میں لکھا جائے؟راہی آگے کہتے ہیں کہ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ آلِ احمد سرور کی اس تحریک کا کیا انجام ہوا (میرا سوال یہ ہے کہ آپ اس بحث میں کیوں نہیں پڑنا چاہتے؟) امان اللہ خالد مجھے لکھتے ہیں کہ ’’ان کے (آلِ احمد سرور ) ایما پر انجمن اردو کے فارسی رسمِ خط کو دیوناگری میں تبدیل کرنے کی تحریک چلانا چاہتی تھی‘‘ لیکن راہی نے اپنے اس انٹرویو میں اس مسئلے پر روشنی نہیں ڈالی ہے۔
میرا اپنا خیال یہ ہے کہ دیوناگری رسمِ خط اختیار کرنے کے معاملے میں کوئی جبر قطعاً نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی ان لوگوں کی مخالفت بھی نہیں کی جانی چاہیے جو دیوناگری رسمِ خط استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ دیوناگری اور اردو رسمِ خط میں شائع ہونے والی کتب کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی ہونا چاہیے۔ اردو کے قائدین کے لیے یہ شرم کی بات ہے کہ وہ اس نوعیت کے اقدام نہیں کر رہے ہیں۔ ان کو ایسے لوگوں کا احسان مند ہونا چاہیے جن کو وہ اپنا دشمن تصوّر کرتے ہیں۔ لیکن وہی لوگ اردو ادب کو دیوناگری میں شائع کرنے کا کام کررہے ہیں۔
میں جس وقت اپنے اس مضمون کا ایک بڑا حصّہ (جو اَب تک پیش کیا جاچکا ہے) لکھ چکا تب مجھے’’گجرال کمیٹی رپورٹ کی سفارشات کے اختتامیے کا خلاصہ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کے پیرا گراف نمبر 191 کا ایک حصّہ یوں ہے:
’’اردو کتب کو دیوناگری رسمِ خط میں شائع کرنے کے حق میں بڑا مضبوط جواز موجود ہے ... دیوناگری میں شائع ہونے والے اردو شاعروں کے دواوین اور اردو شاعری کے انتخابات ہزاروں کی تعداد میں فروخت ہوئے ہیں۔ ہماری راے میں اس تجربے کو توسیع دے کر فکشن اور طنز و مزاح کو بھی اس میں شامل کر لیا جانا چاہیے۔‘‘
(میں عرض کر چکا ہوں کہ اس’’تجربے‘‘ کو ’’توسیع‘‘ دے دی گئی ہے۔)گجرال کمیٹی کی سفارشات کا جائزہ لینے کے لیے قائم ہونے والی آلِ احمد سرور کمیٹی نے اس سفارش کی حمایت کرتے ہوئے اس میں یہ بات بھی شامل کی کہ ’’حکومتِ ہند کو اس مقصد کے حصول کے لیے اس مد میں کچھ رقم بھی مختص کردینا چاہیے‘‘ (سفارش نمبر84) سردار جعفری کمیٹی نے بھی ان سفارشات کی حمایت کی۔ یہ سفارشات مستحسن بھی ہیں۔ ضرورت یہ معلوم کرنے کی ہے کہ کیا حکومت یا پھر اردو کی ترویج کے لیے قائم کیے گئے اداروں نے ان سفارشات کا کوئی نوٹس لیا ہے۔ ان تینوں کمیٹیوں میں سے تیسری کمیٹی کے چےئرمین علی سردار جعفری نے کافی عرصہ پہلے غالبؔ اور میرؔ کے دواوین دیوناگری رسمِ خط میں شائع کرکے ایک قابلِ تعریف اقدام کیا تھا لیکن نہیں معلوم کہ اس اقدام کے بعد اردو کیمپ سے کیا کسی اور نے بھی اسی طرح کا کوئی کام شروع کیا ہے یا نہیں۔ گو مجھے اس کا علم نہیں لیکن میرا قیاس یہ ہے کہ دیوناگری میں ایسی کتب ضرور شائع ہوئی ہوں گی۔
کچھ عرصہ پہلے 1990 میں اسٹرلنگ پبلشرز ، دہلی نے کے.سی. کانڈا کی ایک کتاب شائع کی تھی جس کا عنوان تھا:
''Masterpieces of Urdu Ghazal from the Seventeenth to the Twentieth Century"
اس کتاب کااڈیٹر ا س امر سے واقف تھا کہ ہر شخص اردو رسمِ خط نہیں پڑھ سکتا ہے۔ ا س لیے اس کتاب کی ترتیب میں اس نے ڈیوڈمیتھیوز سے مختلف طریقِ کار اختیار کیا۔ اس کتاب میں شاعری کا متن اردو رسمِ خط میں بائیں طرف اور دائیں طرف کے صفحے پر اس کا انگریزی ترجمہ اور پھر اردو متن کو رومن رسمِ خط میں درج کیا گیا ہے۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انھوں نے اسی طرح کے دو مجموعے اور ترتیب دیے ہیں:
Masterpieces of Urdu Rubaiyat اور Masterpieces fo Urdu Nazm ان تمام مثالوں سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ اردو شاعری ان لوگوں کو بھی اپیل کرتی ہے جو اردو رسمِ خط تو نہیں جانتے لیکن اگر انھیں اردو شاعری کسی ایسے رسمِ خط میں ملے جسے وہ پڑھ سکتے ہیں تو پھر وہ اس کے مطالعے میں دل چسپی لیتے ہیں۔
اردو ادب کو ممکنہ حد تک دیوناگری میں مہیّا کرانے کا لازمی نتیجہ جس کی بے حد ضرورت بھی ہے، یہ ہوگا کہ فسطائی ہندی قوّتوں کی ان کوششوں کو جو جدید ہندی میں سے نام نہاد غیر ہندی عناصر کو ختم کرنا چاہتے ہیں، کاری ضرب پہنچے گی۔
انگریزی ہفت روزہ’’مین اسٹریم ‘‘ کے سالنامے (1992) میں شائع شدہ اپنے ایک مضمون Future Prospects of Urdu in India میں اطہر فاروقی نے اسی طرح کی ایک غیر حقیقت پسندانہ راے ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ اگر مستقبل میں کبھی اردو دیوناگری رسمِ خط میں لکھی جانے لگی تو درحقیقت اردو اور ہندی کے درمیان امتیاز ختم ہوجائے گا۔‘‘یہ بات بالکل غلط ہے۔ حالات جس نہج پر پہنچ گئے ہیں وہاں اس خدشے کی کوئی گنجائش نہیں کہ اگر اردو دیوناگری رسمِ خط میں لکھی جائے گی تو دونوں زبانوں کے درمیان موجود حدِ فاصل معدوم ہوجائے گی۔دیوناگری رسمِ خط میں لکھی جاکر بھی اردو ہر حال میں اردو ہی رہے گی اور ہندی ہندی ہی رہے گی کیوں کہ ادبی سطح پر دونوں زبانوں نے اپنے آپ کو پہلی جنگِ عظیم سے قبل یعنی تقریباً اسّی سال پہلے ہی دو الگ اور مختلف بالذات زبانوں کے طور پر مستحکم کر لیا تھا۔ اسی زمانے میں اردو کو چھوڑ کر ہندی کی طرف پریم چند کی مراجعت اس کا واضح ثبوت ہے۔ اگر اردو کو دیوناگری میں لکھا بھی گیا تو اس سے ہندی زبان کو ان اردو الفاظ کو اپنے ذخیرۂ لغت میں شامل کرنے میں مدد ملے گی جن کو ختم کرنے کی کوششیں ہندی فسطائی قوّتیں کرتی رہی ہیں مگر ان کی تمام کوششوں کے باوجود وہی ذخیرۂ الفاظ دونوں زبانوں کا مشترکہ اثاثہ ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک اور معقول جواز ہے جو اردوقائدین کی عملی طور پر اردو ادب کو دیوناگری میں بھی شائع کرنے کی وکالت کی دلیل کو استحکام بخشتا ہے۔

اردو اور انگریزی:
اردو ادب کی دوسری زبانوں میں اشاعت کی (تجویز)مجھے اردو ادب کے شائقین کے ایک اور حلقے کے بارے میں غور کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ یہ حلقہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جن کی اردو ادب تک رسائی صرف انگریزی زبان کے ذریعے ہی ہوسکتی ہے۔ آپ میں سے کافی حضرات واقف ہوں گے کہ اردو ادب سے متعلق میرا کام اسی میدان میں ہے اور پروفیسر خورشید الاسلام کے ساتھ مل کر میں نے دو کتابیں تالیف کی ہیں۔ پہلی کتاب 'Three Mughal Poets' ہے جس میں میرؔ ، سوداؔ ، اور میر حسنؔ کو شامل کیا ہے۔جب کہ دوسری کتاب'Ghlib: Life and Letters' میں غالبؔ کی نمائندہ تحریروں کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ کتاب غالبؔ کے صرف اردو اور فارسی خطوط ہی نہیں بلکہ حالیؔ کی ’’یادگارِ غالبؔ ‘‘ کے متعدد اقتباسات پر بھی مشتمل ہے۔ یہ کتابیں کافی عرصہ پہلے 1968 میں شائع ہوئی تھیں۔ جب خورشید الاسلام صاحب اور میں ان کتب پر کام کر رہے تھے تو ہمارا خیال تھا کہ ان کتابوں کا بیش تر قاری انگریزی بولنے والی دنیا یعنی برطانیہ ، شمالی امریکہ اور آسٹریلیا وغیرہ میں ہوگا۔ لیکن گذشتہ برسوں میں یہ ثابت ہوا کہ برِ صغیر میں بھی ان کتابوں کے قارئین کی تعداد انگریزی بولنے والی دنیا کے قارئین کے مقابلے کہیں زیادہ ہے کیوں کہ برِّ صغیر کے ان لوگوں کے لیے اردو ادب تک رسائی صرف انگریزی زبان کے ذریعے ہی ممکن ہے کیوں کہ یہ لوگ اردو کے ساتھ ساتھ دیوناگری رسمِ خط یا اردو ہندی زبانوں سے بھی ناواقف ہیں۔ اس کا ثبوت اس بات سے بھی فراہم ہوتا ہے کہ ایک دوسال قبل آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس، نئی دلّی نے ان کتابوں کی مکرّر اشاعت کی تھی اور نئے اڈیشن ہندستان میں ہی کافی بڑی تعداد میں فروخت ہوئے۔ میرے اس خیال کی تائید مزید اس بات سے بھی ہوتی ہے جو مجھے ڈیوڈ میتھیوز نے ہندستان کے ایک اشاعتی ادارے روپا اینڈ کمپنی کے تعلق سے بتائی کہ وہ لوگ اردو ادب کے انگریزی تراجم شائع کرنے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ روپا اینڈ کمپنی نے میر انیس کا مشہور مرثیہ ’’جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے‘‘ ، جسے ڈیوڈ میتھیوز نے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے، 1994 میں شائع کیا تھا۔ انگریزی میں اس کتاب کو 'The Battle of Karbala' عنوان دیا گیا ہے۔
حالاں کہ اردو ادب کے دیگر زبانوں میں تراجم اور اشاعت سے متعلق گفتگو کرنا اصل موضوع یعنی ’’آزادی کے بعد اردو زبان اور تعلیم کے مسائل‘‘ سے بہ ظاہر ایک انحراف محسوس ہوتا ہے لیکن واقعتا ایسا نہیں ہے۔ انگریزی میں مترجمہ اردو ادب کے وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے قارئین کے وجود کو محسوس کرنا تنہا پبلشر تک محدود نہیں ہے بلکہ آج کے معاشرتی نظام کے کچھ مطالبات بھی ایسے ہیں جنھوں نے اس قسم کے تراجم کی راہ ہموار کی ہے۔ مثلاً مغرب میں تحریکِ نسائیت اور نسلی تعصب کے خلاف تحریکوں کے زور پکڑنے کے بعد بیش تر معروف اشاعتی ادارے خوف زدہ ہیں کہ کہیں اپنے کسی اقدام سے وہ بھی تحریکِ نسائیت اور نسلی تعصّب کے خلاف تحریک کی مخالف اقدار کے حامیوں کی صف میں شامل نہ ہوجائیں۔ ان کے اس خوف کا ایک دل چسپ نتیجہ یہ ہوا کہ اگر آپ ایک ایشیائی خاتون ہیں ، اچھی انگریزی جانتی ہیں اور اردو سے انگریزی میں ترجمہ کرسکتی ہیں تو پھر یہ آپ کے لیے سنہری موقع ہے کیوں کہ برطانیہ اور امریکہ میں ناشر فوراً آپ کے تراجم شائع کرنے کے لیے تیار ہوجائے گا،خصوصاً تب جب آپ کے تراجم خواتین کی تحریروں پر مشتمل ہوں۔ شاید آپ کو معلوم ہوگا کہ گذشتہ دنوں میں اس طرح کے تراجم (مثلاً عصمت چغتائی کے انگریزی تراجم) بہ کثرت شائع ہوئے ہیں۔ حالاں کہ یہ تمام گفتگو موضوع سے براہِ راست متعلق نہیں ہے لیکن اتنی تفصیل میں جانے کا سبب صرف یہ ہے کہ میں اس نکتے کو پیش کرنا چاہتا تھا حالاں کہ یہ سب محض اتفاقی اسباب ہیں جن کا اردو ادب کی اہمیت سے براہِ راست کچھ لینا دینا نہیں لیکن اس قسم کے اتفاقات اردو ادب کے قارئین کے حلقے کو وسیع ضرور کرتے ہیں اور ہمیں ایسے مواقع کا فائدہ اُٹھانے سے چوکنا نہیں چاہیے۔
انگریزی کے ذریعے اردو ادب پڑھنے والے قارئین کا ایک اور حلقہ ان اردو بولنے والے لوگوں کی دوسری اور تیسری نسل پر مشتمل ہے جو انگریزی بولنے والے علاقوں میں آکر بس گئے تھے۔ آپ میں سے بیش تر حضرات کو یہ علم ہوگا کہ برطانیہ اور شمالی امریکا میں یہ لوگ کافی بڑی تعداد میں اور یوروپ کے کچھ ممالک میں نسبتاً کچھ کم تعداد میں موجود ہیں۔ اس سیاق و سباق میں یہ بات بھی اہم ہے کہ آج انگریزی کے ذریعے اردو ادب پڑھنے والوں کی تعداد تیس چالیس سال قبل کے اس دور کے مقابلے کہیں زیادہ ہے جب خورشید الاسلام اور راقم الحروف نے مل کر ا س میدان میں کام کرنا شروع کیا تھا۔ آپ کو شاید علم ہوگا کہ 1986 میں ہندستان میں The Penguin Book of Modern Urdu Poetry محمود جمال نے جس کا انتخاب اور ترجمہ کیا تھا، شائع ہوئی تھی۔1989 میں پینگوئن ہی نے غالبؔ پر پون کے. ورما کی کتاب 'Ghalib: The Man, The Times' شائع کی تھی۔ فیضؔ کے بھی بہت سے تراجم ، جن میں سے ایک آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس نے بھی ماضی قریب میں شائع کیا ہے، اب تک شائع ہوچکے ہیں۔ بہر حال اس ساری بحث سے میرا عندیہ یہ ہے کہ وہ ادارے جو اردو کی ترویج و ترقی کے لیے کسی بھی طرح کی تشویش میں مبتلا ہیں ان کو صرف اردو رسمِ خط جاننے والے قارئین ہی پر توجہ نہیں دینا چاہیے۔ (جن پر کہ اب تک وہ دیتے رہے ہیں) بلکہ ان سارے قارئین کے بارے میں بھی غور کرنا چاہیے جن کا ذکر میں مندرجہ بالا سطور میں کرچکا ہوں۔ اگر آپ اس حقیقت کو تسلیم کرلیتے ہیں تو پھر دیگر تفصیلات کا لائحۂ عمل آپ ہی کو مرتّب کرنا ہوگا۔ لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اردو کے سرکاری و نیم سرکاری ادارے مثلاً انجمن ترقی اردو اور ترقی اردو بیورو وغیرہ جو کچھ کر رہے ہیں اس میں تھوڑی سی، مگر جامع تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ایسے رضاکار اداروں، اشاعت گھروں اور دیگر اداروں کوجو اردو کی ترویج کے لیے کام کر رہے ہیں، ضرورت پڑنے پر ہر قسم کی امداد جس میں یقیناً مالی امداد بھی شامل ہے فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے توقع ہے جو حضرات بھی اس نوعیت کے کسی ادارے سے کسی بھی حیثیت سے وابستہ ہیں اور ان اداروں پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کرسکتے ہیں، میری تجویز پر سنجیدگی سے غور فرمائیں گے اور اس سلسلے میں ایسی تفصیلات کا خاکہ مرتّب کریں گے جن کے نفاذ سے مثبت نتائج برآمد ہوسکیں۔

کچھ تنقید:
جس مواد کی بنیاد پر میں نے یہ مقالہ تحریر کیا ہے اس مواد کا بجاے خود تنقیدی جائزہ لینا بھی معروضیت کے نقطۂ نظر سے ضروری ہے۔مجھے امید ہے کہ میری اس جسارت سے آپ کبیدہ خاطر نہیں ہوں گے۔ میں یہ تنقید اس لیے بھی کر رہا ہوں کیوں کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان اغلاط کی (ان کو میں کم از کم اغلاط ہی تصوّر کرتا ہوں خواہ وہ رویّے کی ہوں یا نقطۂ نظر کی یا پھر لائحۂ عمل کی) تصحیح کر لینے سے اردو کے حقوق کے لیے جد و جہد کو بہر حال تقویت حاصل ہوگی اور ان لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا جو اردو کے فروغ کے مقاصد اور اس کی ترویج کی تحریک میں شمولیت اختیار کرنے کے خواہاں ہیں۔
میں اپنی اختلافی راے کا اظہار وحید الدین خاں کے اس اقتباس سے کرنا چاہتا ہوں جو ان کے مضمون Muslims and the Press کا جزو ہے۔ یہ مضمون لاہور کے انگریزی روز نامے دی نیشن میں 9جولائی 1993 میں شائع ہوا تھا۔ اس میں وحید الدین خاں لکھتے ہیں:
’’مجھے اصل شکایت نیشنل پریس سے نہیں بلکہ خود مسلمانوں کے اخباروں سے ہے۔ آج کے زمانے میں مسلمانوں کے تمام اخبارات احتجاج و شکایت اور قوم کے زخموں کی تجارت کر رہے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ زمانے کی مسلم صحافت عملاً صرف احتجاجی صحافت ہے جو کسی بھی طرح سے تعمیری صحافت نہیں ہے۔ مسلم صحافت کا اصل مسئلہ یہی ہے ۔ میں یہ کہنے کی اجازت چاہوں گا کہ جب مسلمانوں کا دانش ور طبقہ خود بھی کسی مثبت فکر سے بے بہرہ ہے تو پھر وہ عام مسلمانوں میں تعمیری شعور یا مثبت فکر پیدا کرنے کا کام کیوں کر کرسکتا ہے؟ مسلمانوں کے اخبار آج کیا کر رہے ہیں؟ وہ مسلمانوں کویہ یقین دلانے میں مصروف ہیں کہ تم ایک مظلوم اور محروم اقلیت ہو اور تمہارے لیے اس ملک میں جینے اور ترقی کرنے کے تمام راستے بند ہوچکے ہیں۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں مسائل اور مواقع دونوں ہی موجود ہیں۔ اس لیے صحیح اور درست شعور یہ ہے کہ آپ مسائل کے درمیان موجود پوشیدہ مواقع کو تلاش کریں اور لوگوں کو اس بات کی طرف متوجہ کریں کہ وہ مسائل کو نظر انداز کر کے مواقع کا فائدہ اُٹھائیں۔ صحیح فارمولا یہی ہے کہ ’’مسائل کو دباؤ اور موقع سے فائدہ اُٹھاؤ۔‘‘
مولانا آزاد فاؤنڈیشن کی وساطت سے مجھے جو مواد حاصل ہوا اس کی عام روش اسی تصویر کی عکّاسی کرتی ہے جو مندرجۂ بالا سطور میں مصنّف نے پیش کی ہے اور میں اس بارے میں وحیدا لدین خاں کے خیالات کی مکمل تائید کرتا ہوں ۔ میں یہ بھی عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھ سے جس طرح کا مضمون لکھنے کی فرمائش کی گئی تھی اس کے لیے اس سے کہیں زیادہ معلومات فراہم کرانے کی ضرورت تھی جو واقعتاً مجھے فراہم نہ ہوسکیں۔ حالاں کہ بعد میں مجھے ایسی بہت سی معلومات جن کی ابتداً ضرورت تھی، اطہرفاروقی کے اس مضمون سے فراہم ہوئیں جو آسٹریلین جرنل ’’ساؤتھ ایشیا‘‘ نے دسمبر 1995 کے شمارے میں شائع کیا تھا۔( اطہر فاروقی کا یہ مضمون بھی دراصل 30 مئی 1993 میں منعقد ہونے والے سمینار بہ عنوان ’’ہندستانی مسلمان اور پریس ‘‘ میں پڑھا گیا تھا)۔ مثال کے طور پر انگریزی روزنامے ہندستان ٹائمز، نئی دلّی، 10جنوری 1990کے اپنے شمارے میں خبر شائع کرتا ہے کہ اردو کا ایک روز نامہ دیوناگری رسمِ خط میں بھوپال سے اپنی اشاعت کا آغاز کر رہا ہے مگر اس خبر کے بعد مجھے اس سے متعلق کہیں سے کوئی تفصیلات دستیاب نہ ہوسکیں۔ یہ اخبار کب شروع ہوا، ہوا بھی یا نہیں، اس کے ناشر یا مدیر کون لوگ ہیں یا تھے اگر اشاعت شروع ہوئی تو اس کا سرکولیشن کیا ہے،اگر اخبار شروع ہوکربند ہوچکا ہے تو کب اور کیوں ،جیسے بہت سے سوال میرے ذہن میں ہیں جن کا کوئی جواب میرے پاس نہیں ہے۔ اس صورتِ حال میں اردو صحافت پر کوئی تبصرہ کرنا ممکن نہیں۔
مجھے انگریزی اور اردو پریس سے متعلق جو بھی تراشے فراہم کرائے گئے ان سب ہی میں اردو کے ساتھ روا رکھی گئی ناانصافیوں ہی کے بیان کی کثرت ہے۔ اردو اخبارات میں اردو سے متعلق شائع ہونے والی تحریروں کے جو تراشے ہیں اور ان میں جو کچھ حقائق پیش کیے گئے ہیں وہ پوری طرح درست ہیں۔ یہ قبول کرنے میں مجھے کوئی تکلّف نہیں ۔ اسی لیے میرے اس مضمون کا بیش تر حصّہ ان ہی حالات کا احاطہ کرتا ہے آزادی کے بعد اردو جن سے دوچار رہی۔ مگر پھر بھی یہ حالات کی مکمل اور صحیح تصویر نہیں ہے۔
اردو کے مسائل کی جو تصویر ان تحریروں میں پیش کی گئی ہے ان میں تاریخ کے حوالے سے حقائق کو مسخ کرکے پیش کیا گیا ہے۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ اردو کے حامیوں نے اپنی تحریروں میں بے ایمانی سے کام لیا ہے۔
آزادی کے بعد اردو زبان او رتعلیم کے مسائل سے متعلق میں نے اب تک جتنا کچھ مطالعہ کیا ہے اس میں اطہر فاروقی کا پی. ایچ ڈی کا مقالہ شاید سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ اردو کے مسائل کو پیش کرتا ہے مگر اردو کے حق میں مسائل کی شکل مسخ کرکے پیش کرنے کا سب سے زیادہ کام بھی انھوں نے ہی کیا ہے اور سیاق و سباق میں، میں انھیں سب سے زیادہ خطاوار تصوّر کرتا ہوں۔ ہندی اور ہندو شاونسٹوں پر ان کے اعتراضات جائز تو ہیں مگر ہندستان کے سیاسی اور تہذیبی منظر نامے ہندی اور ہندو شاونسٹوں کو اہمیت دینے کے معاملے میں وہ حد سے تجاوز کر گئے ہیں۔ اطہر فاروقی صاحب (دیگر مصنّفین بھی) دوسری طرف مسلمانوں کے اردو داں طبقے کے اس رویّے کے بارے میں ایک دم خاموش ہیں جو ہندی اور ہندو شاونزم ہی کی طرح خطرناک اور کہیں زیادہ طویل عرصے پر محیط ہے۔ اطہر فاروقی نے اپنی تحریروں کے ذریعے یہ تاثّر عام کرنے کی کوشش کی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جتنے بھی الزامات لگائے جاتے ہیں وہ یک سر غلط ہیں۔مثال کے طور پر وہ بار بار یہ تاثّر دیتے ہیں کہ تقسیم کے بعد ہندستان میں رہ جانے والے مسلمان کو پاکستان کے مطالبے سے کسی قسم کی کوئی ہم دردی نہیں تھی، اس لیے، ان کے خلاف ہندوؤں کا تعصّب غلط او رناجائز ہے۔میرے تجربے کے مطابق یہ تصویر کا صرف ایک رُخ ہے۔ تقسیم کے بعد ہندستان میں سکونت اختیار کرنے والے مسلمانوں میں سے بہت سے لوگ پاکستان نہیں گئے تو اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ وہ پاکستان جانا نہیں چاہتے تھے بلکہ دراصل یہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی سبب سے ہندستان میں رُکنے پر مجبور ہوگئے تھے ۔ ان حقائق کی پردہ پوشی نہیں کی جانی چاہیے تھی کیوں کہ یہ حقائق کسی بھی طرح اس دلیل کو کم زور یا کالعدم نہیں کرتے کہ مسلمان ہندستان میں مساوی حقوق کے یقیناً اتنے ہی حق دار ہیں جتنے ہندستان کے دیگر شہری۔
بیش تر مصنّفین جو اردو کے مسائل پر لکھتے ہیں وہ اردو والوں کے فسطائی رویّے کو پوری طرح نظر انداز کرنے کا کام بھی کرتے ہیں ۔ مثلاً دی نیشن لاہور میں 8 جولائی1994 میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں شمس الرحمن فاروقی مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کی شکست ، بنگلہ دیش کے قیام اور اس کے نتیجے میں بہاریوں کے ہندستان میں تیزی سے داخل ہوکر آباد ہونے کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب ان لوگوں نے ہندستان میں رہنے کا قطعی فیصلہ کر لیا ہے۔ وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ بہاریوں میں ایسے حبِّ وطن کے جذبے کے دوبارہ عود کر آنے کا سبب کیا ہے۔ حالات کی یہ بے حد غلط تصویر کشی ہے۔ بنگلہ دیش سے اردو داں بہاری اس لیے بھاگے کیوں کہ بنگلہ دیش کے اکثریتی فرقے کی آبادی یعنی بنگالی مسلمان ان سے اس لیے نفرت کرتے تھے کیوں کہ انھوں نے مغربی پاکستان کے جابر اور ظالم لوگوں کی حمایت کی تھی۔ بنگالی مسلمانوں کی یہ نفرت جائز تھی۔بنگالی مسلمانو ں پر پاکستانی فوج کے خوف ناک مظالم کے دور میں ہمہ وقت بہاری مسلمانوں نے مغربی پاکستان کی حمایت کی تھی۔اطہر فاروقی بھی ان تمام مظالم کے بارے میں تو مکمل طور پر خاموش ہیں مگر صرف ہندستان کی ’’جارحیت‘‘ کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اگر مسلمان مغربی پاکستان (اب صرف پاکستان) نہیں گئے تو اس کا سبب ان کی ہندستان سے والہانہ محبت نہیں بلکہ کچھ او ر ہے۔ پاکستان کو اب شمالی ہند کے ان مسلمانوں کی قطعی ضرورت نہیں تھی۔یہاں ان کا مقدّر مشرقی افریقی ہندستانیوں جیسا ہی تھا کہ وہ افریقہ کی اکثریتی آبادی پر مظالم کرنے والے برطانوی جابروں کے حلیف بنے اور انھوں نے افریقی دشمنی کے خوب خوب انعام حاصل کیے لیکن جب آزادی کا موقع آیا تو ان کی افادیت ختم ہوگئی۔ اس لیے ان کے برطانوی آقاؤں نے انھیں ان کی تقدیر کے حوالے کردیا۔ اس مثال میں ’بہاری‘ مشرقی افریقی ہندستانی کی علامت ہے اور ’’مغربی پاکستانی‘‘انگریزوں کی اور ’’بنگالی‘‘ افریقیوں کی تمثیل ہے۔ جن مصنّفین نے بھی اردو کے مسائل پر لکھا ہے انھو ں نے اترپردیش حکومت کو ہندی کو صوبے کی واحد سرکاری اور دفتری استعمال کی زبان بنانے کے لیے بالکل صحیح ہدفِ تنقید بنایا ہے مگر اسی منطق کی رو سے انھیں جموں اور کشمیر کی حکومت کو بھی اردو کو صوبے کی واحد سرکاری زبان بنانے کے لیے اسی شدو مد سے تنقید کا ہدف بنانا چاہیے تھا۔
’’مین اسٹریم‘‘ کے 1988 کے سال نامے میں سید شہاب الدین اپنے مضمون "Status of Urdu in India" میں ا س طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اردو صوبے (جموں و کشمیر ) کی سرکاری زبان اور ذریعۂ تعلیم ہے جب کہ اسے کل آبادی کے ایک بہت چھوٹے حصّے نے اپنی گھریلو زبان کے طور پر 1971 یا 1981 میں قبول کیا ہے جب کہ وہاں کی بیش تر آبادی کشمیری، ڈوگری یا ہندی کو اپنی زبان سمجھتی ہے۔‘‘

لیکن میں نے کبھی کسی مسلمان کو اس سوال پر کوئی مناسب موقف اختیار کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔
اردو کے متعلق اپنی تحریروں میں اطہر فاروقی نے اس دلیل کو کثرت سے (کبھی واضح طور پر اور کبھی بالواسطہ) دُہرایا ہے کہ وہ اردو داں حضرات جو کانگریس کی حمایت کرتے ہیں یا سرکاری امداد یافتہ انجمنوں سے کسی بھی حیثیت سے وابستہ ہیں، انھوں نے خود کو اردو دشمنوں کے ہاتھوں ’’فروخت کردیا ہے۔‘‘ بلاشبہ ان میں سے کچھ لوگوں نے ایسا کیا ہے لیکن یہ ایک بہت ہی سطحی تصویر کشی ہے۔ اطہر فاروقی نے ان مسلمانوں کو خصوصاً ہدفِ تنقید بنایا ہے جو حصولِ آزادی کی لڑائی کے زمانے ہی سے کانگریس سے وابستہ تھے اور آزادی کے بعد ہی اردو کے محاذ پر سرگرمِ عمل ہوئے۔ ان لوگوں کے خلاف ان کا لہجہ ناجائز اور غلط ہے۔ حیات اللہ انصاری کے بارے میں اسی قسم کا لہجہ اختیار کرتے ہوئے وہ لاہور کے روزنامے دی نیشن کے 15 جولائی 1994 کے شمارے میں یہ بیان دیتے ہیں کہ’’انھو ں نے اردوکا نعرہ تو لگایا لیکن واقعتاً انھیں مسلمانوں اور اردو کی فلاح سے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔‘‘ اسی جملے میں آگے وہ لکھتے ہیں کہ:
’’ذاکر حسین صاحب نے بیس لاکھ دستخطوں کی جو تحریک شروع کی تھی اسے انتہائی غیر حقیقی اور حالات سے فرار اختیار کرنے والی تحریک تصوّر کرتا ہوں۔ اسی لیے قدرتی طور پر اس تحریک کا کوئی نتیجہ بھی نہیں نکلا۔‘‘

’’انتہائی حقیقی اور فرار اختیار کرنے والی تحریک ‘‘ کا استعمال کیوں؟ اس سے ان کی مراد کیا ہے؟ ’’قدرتی طور پر‘‘ کس لیے؟ یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ دستخطوں کی اس تحریک کے وہ نتائج برآمد نہیں ہوئے جو مقصود تھے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اس کی کوئی افادیت نہیں تھی۔
اب میں وحیدالدین خاں کے مضمون کے اس اقتباس ،جس کا میں حوالہ دے چکا ہوں ،کے نتائج کی طرف لوٹتا ہوں۔ ان کا مشورہ ہے ’’مسائل کو دباؤ اور موقع کا فائدہ اُٹھاؤ‘‘ یعنی وہ حقائق پیدا کرو جن سے اردو کے مفاد کو مدد ملے۔ ایسے تین حقائق بے حد اہمیت کے حامل ہیں۔ اوّل یہ کہ ہندی شاونسٹوں کی تمام کوششوں کے باوجود بھی روز مرہ کی ترسیل کی زبان (لنگوافرینکا) اب بھی وہی ہے جو آزادی سے پہلے تھی، جو اتنی ہی ہندی ہے جتنی کہ وہ اردو ہے۔ ا س امر کا ثبوت ماضی قریب میں 1989 میں شائع ہونے والی ایک کتاب "Teach Yourself Hindi" ہے۔ اس کتاب کے آخر میں پیش کیے گئے الفاظ کی فرہنگ میں ایک صفحے پر 73 الفاظ میں سے 54 الفاظ اسی نوعیت کے ہیں اور زیادہ سے زیادہ 18 الفاظ ایسے ہیں جن کوشاید اردو بولنے والے لوگ نہ سمجھ سکیں۔ دوم ، مقبول ترین نام نہاد ہندی(؟) فلموں کو اسی طرح مکمل طور پر اردو فلمیں کہاجاسکتا ہے جس طرح انھیں ہندی کی ترویج کے سبب ہندی فلمیں کہا جانے لگا ہے۔ گجرال کمیٹی رپورٹ کے اختتامیے کی تلخیص کے پیراگراف نمبر 140 میں ٹھیک ہی کہا گیا ہے کہ’’ فلموں کا بڑا کنٹری بیوشن یہ ہے کہ انھوں نے ہندی اور اردو کے درمیان کسی دیوار کو کھڑے ہونے نہیں دیا ہے۔ ‘‘صرف یہ دونوں حقائق ہی اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ عام بول چال کی اردو ایک ایسی زبان ہے جسے کروڑوں ہند ستانی بہ مع غیر مسلم حضرات بھی سمجھ سکتے ہیں۔ سوم یہ کہ اردو ادب خصوصاً اردو شاعری میں دل چسپی رکھنے والے ایسے لوگ بھی بہت بڑی تعداد میں ابھی تک موجود ہیں جو اردو رسمِ خط سے واقف نہیں ہیں مگر ادبی زبان کو کچھ نہ کچھ سمجھتے ہیں۔ اسی لیے مجھے اطہر فاروقی کے اس بیان سے کہ اردو اب لازمی طور پر صرف مسلمانوں کی زبان ہے، اختلاف ہے۔ ان کے اس بیان میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اردو ہمیشہ سے ہی (لازمی طور پر) مسلمانوں کی زبان تھی۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ آزادی سے قبل وہ غیر مسلم اردو داں حضرات کے کہیں زیادہ بڑے طبقے کی زبان تھی۔ اس نکتے پر میرا اطہر فاروقی سے بنیادی طورپرکوئی اختلاف نہیں ہے لیکن میں نے جن مثبت حقائق کا ذکر کیا ہے ان کی روشنی میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے جو مسلسل یہ جتایا جائے کہ درحقیقت اردو داں طبقہ اور مسلمان فرقہ ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ اس طرح کا دباؤ دراصل اس اہم بات کو دھندلا دیتا ہے کہ مسلمانوں کے حقوق اور اردو کی ترویج کی حفاظت کے لیے صرف اکیلے مسلمان ہی ذمّے دار نہیں۔ مسلمانوں کے حقوق اور اردو کی ترویج کی باتیں ان تمام لوگوں کے لیے غور و فکر کا موضوع ہیں جو آزاد ہندستان کے اعلان شدہ نصب العین کو برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں۔ مسلمانوں کو بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ ایسے لوگوں تک رسائی حاصل کریں اور ان کے ساتھ مل کر ا س مشترکہ نصب العین کے حصول کے لیے کام کریں۔
(سہ ماہی ’ادیب‘، جامعہ اردو علی گڑھ ، ۱۹۹۹)

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *