رالف رسل کا ایک نہایت قابل غور مضمون آج ادبی دنیا پر اپلوڈ کیا جارہا ہے۔ یہ مضمون ہر اردو جاننے والے شخص کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اس کے مطالعے سے ہمارے اندر ایک جانب اگر اپنی تحسیب کا حوصلہ پیدا ہوگا تو دوسری جانب ہم اس بات کا اندازہ لگانے میں بھی کامیاب ہوں گے کہ جن مسائل کی جانب مضمون نگار نے 1998 یعنی کہ آج سے قریب اٹھارہ سال پہلے اشارہ کیا تھا ، ہم آج بھی ان سے کس قدر پیچھا چھڑا سکے ہیں۔ یہ مضمون ہمارے بہت سے نامور مصنفین و ناقدین کے تعصب اور ان کے خیالات کی ناپختگی کااحساس بھی دلاتا ہے۔رالف رسل کا غیر جانبدارانہ اسلوب اسی بات سے واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے جہاں کسی ایک مصنف کی کسی ایک بات سے اتفاق کیا ہے تو وہیں اس کی دوسری بات سے اپنے سخت اختلاف کو بھی نمایاں کرنے میں نہیں چوکے ہیں۔ہم اس مضمون کو پڑھ کر سمجھ سکتے ہیں کہ جو ادارے آج صرف سیاسی و معاشی قسم کے مفاد حاصل کرنے والے نام نہاد محبان اردو کا اڈہ بن چکے ہیں، ان کی شروعات کس نیت سے ہوئی اور انہوں نے ابتد امیں ہی کیسے گل کھلائے۔ یونیورسٹیوں میں اردو کی تعلیم کس طرح متاثر ہوئی اور دیوناگری رسم الخط کا خیال کس طرح اردو کے بہت اچھے لکھنے والوں کے نزدیک بھی ناپسندیدہ تجویز کی صورت میں قائم ہوسکا۔یہ تمام سوال اور ان کے جوابات رالف رسل کی تحقیق، تجزیے اور تنقیدی ہنر کا اعادہ کراتے ہیں۔مجھے ان کی یہ بات بہت اچھی معلوم ہوئی کہ انہوں نے اردو کو ایک جانب مسلمانوں کی مخصوص زبان ہونے کے لیبل سے چھٹکارا دلانے پر زور دیا تو دوسری جانب اردو کے لیے اہل اردو کو حکومت یا حکومتی اداروں کے بجائے خود پر بھروسہ کرنے کا مخلصانہ اور صحیح مشورہ دیا۔واقعی جو لوگ خود کوئی کام کرنے کا جذبہ نہ رکھتے ہوں ان کا مٹ جانا کوئی بہت تعجب کی بات نہیں ہے۔میں اس مضمون کی فراہمی کے لیے اطہر فاروقی صاحب کا بے حد شکرگزار ہوں۔(تصنیف حیدر)
مولانا ابوالکلام آزاد ریسرچ اینڈ ایجوکیشنل فاؤنڈیشن سکندرآباد ضلع بلند شہر (اترپردیش ) کے اردو زبان و تعلیم کے موضوع پر منعقد ہونے والے ایک سمینار میں مدعو کرتے ہوئے مجھے جب منتظمین کی طرف سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ میں زبان، ادب اور تعلیم کے مسائل کے کسی زاویے پر اپنا مقالہ تحریر کروں۔میں نے اس دعوت نامے کو اس ذہنی تاثّر کے ساتھ قبول کیا کہ میں غیر اُردو داں حضرات کے لیے اُردو کے موضوع پر اپنا مقالہ تحریر کروں گا۔ کچھ روز کے بعد مجھے یہ اطلاع دی گئی کہ سمینار کے عنوان سے لفظ ’ادب‘ خارج کردیا گیا ہے۔کیوں کہ سمینار کے منتظمین اپنی توجہ صرف اُردو زبان و تعلیم کے مسائل پر مرکوز کرنا چاہتے ہیں لیکن مجھے یہ آزادی ضرور دی گئی کہ اگر میری خواہش اور دل چسپی غیر اُردو داں حضرات کے لیے اردو ادب کے موضوع پر مقالہ لکھنے میں ہے تو وہ منتظمین کے لیے قابلِ قبول ہوگا۔ لیکن میں نے منتظمین کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے مقالے کے بیش تر حصّے کوآزادی کے بعد ہندستان میں اردو کے سیاسی و سماجی مسائل اور اُردو تعلیم کے ناگفتہ بہ حالات کی تفصیل جیسے اہم موضوع تک محدود و مرکوز رکھا ہے اور اُردو کی عمومی صورتِ حال پر بھی اپنے تجربے کے مطابق روشنی ڈالی ہے البتہ مقالے کے صرف آخری حصّے میں اردو ادب کے بارے میں چند عمومی معروضات پیش کیے ہیں۔
راقم الحروف کی اپنے بارے میں یہ دیانت دارانہ راے ہے اور اس میں روایتی انکساری کو کوئی دخل نہیں کہ وہ 1947 کے بعد اردو کے مکمل منظر نامے کا بھر پور جائزہ لینے کا اہل نہیں ہے۔ لندن یونی ورسٹی کے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریکن اسٹڈیز میں اُردو لیکچرر کی حیثیت سے تقرری کے بعد مجھے تین مختلف مواقع پر ایک ایک سال کی مکمل تعلیمی رخصت پر ہندستان میں رہنے اور اُردو کے حالات کا قریب سے جائزہ لینے کا اتفاق ہوا۔ ہندستان کے سفر کے لیے میں نے آخری تعلیمی رخصت 1965 میں لی تھی جسے اب ایک مدّت گزر چکی ہے۔ تاہم اپنے سفر کے دوران مجھے ہندستان کی اُردو دنیا میں رونما ہونے والے واقعات اور تبدیلیوں کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔
1949 تا 1965
میری پہلی تعلیمی رخصت 1949 سے 1950 تک کے عرصے پر محیط ہے اور میں نے اس برس کا بیش تر حصّہ علی گڑھ میں گزارا۔یہ وہ دور تھا جب ڈاکٹر ذاکر حسین علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شیخ الجامعہ تھے اس دور میں اردو جن حالات سے دوچار تھی آپ لوگ اُن سے ضرور واقف ہوں گے۔ صوبائی حکومتیں خصوصاًاترپردیش اور کسی حد تک بہار کے علاقے میں، جنھیں آپ اردو کا قبلہ کہہ سکتے ہیں اردو کو برباد کرنے کی ہر ممکن کوششیں کر رہی تھیں اور تب سے آج تک یہ صورتِ حال مسلسل برقرار رہی ہے۔ البتہ ماضی قریب میں اس صورتِ حال میں کچھ تبدیلیاں ضرور رونما ہوئی ہیں۔ آزادی کے بعد کے ابتدائی برسوں میں اردو داں حلقے کے وہ لوگ جو اردو زبان کی ممکنہ حد تک حفاظت کرنا چاہتے تھے، اس کی ترقی کے خواہاں تھے اور ساتھ ہی اردو مخالف پالیسیوں کی مخالفت پرکمربستہ رہنا چاہتے تھے۔ وہ لوگ اپنی تمام تر نیک نیتی کے باوجود اپنی خواہشات کی تکمیل یعنی اردو کی ترقی اور حکومت کی اردو مخالفت پالیسیوں کے عدمِ نفاذ کے لیے خود کچھ کرنے کے بجاے حکومت کے ذریعے ہی اپنے مقاصد کا حصول چاہتے تھے جو باہم متضاد اور ناممکن باتیں تھیں۔ مثال کے طور پر ہر شخص جانتا ہے کہ نہرو جو خود اردو داں تھے اور مرکزی حکومت کے سربراہ کے طور پر اردو کی ترویج و ترقی کے لیے کچھ کرنے کی خواہش بھی رکھتے تھے مگر اس وقت مرکزی حکومت اس حیثیت میں نہیں تھی کہ اترپردیش کی حکومت کو اس کی اردو کُش پالیسیوں سے روک سکتی یا اُردو کی ترویج کے لیے کچھ اقدام کرنے پر رضا مند کرسکتی۔ صوبائی حکومتوں کے روبرو بے بس ہونے کے باوجود مرکزی حکومت زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتی تھی کہ اُردو کے مویّدین کے ذریعے چلائی جانے والی انجمنوں کو مالی امداد اور حمایت فراہم کرے مگر اس کے لیے اُردو تحریک کے قائدین کا مخلص ہونا ضروری تھا۔
1965کے بعد
1965کے بعد اُردو کے سلسلے میں جو کچھ وقوع پذیر ہوا اس کے متعلق میری معلومات کا بہت کچھ انحصار خصوصاًاس مواد پر ہے جو مجھے مولانا آزاد ریسرچ اینڈ ایجوکیشنل فاؤنڈیشن کے اربابِ بست و کشاد کی طرف سے فراہم کرایا گیا۔ اس مواد کا بیش تر حصّہ ہندو پاکستان میں شائع ہونے والی انگریزی تحریروں پر مشتمل ہے جو 1988 اور اس کے بعد کے دور میں شائع ہوئیں۔ ماضی قریب میں اطہر فاروقی کے تحقیقی مقالے کی ایک عکسی نقل، جو انھوں نے پی. ایچ. ڈی کی ڈگری کے لیے ’’ آزادی کے بعد ہندستان میں اردو کا سیاسی و سماجی مطالعہ‘‘ کے عنوان سے جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی ، نئی دہلی میں داخل کیا تھا مجھے 1996 میں استفادے کے لیے موصول ہوگئی تھی۔ میں اپنے دوست سوم آنند کے ایک معلومات افزا مضمون جو براڈ فورڈ سے شائع ہونے والے اردو ہفت روزہ ’راوی‘ میں شائع ہوا تھا ،سے بھی استفادہ کیا ہے۔مولانا آزاد فاؤنڈیشن کے ذریعے فراہم کیے گئے مواد میں کچھ مضامین میں نے نسبتاً اہم پائے، اس لیے، آئندہ سطور میں میں ان مضامین ہی سے جامع حوالہ جات پیش کردوں گا۔ ان میں سے کچھ حوالے (راقم الحروف کے ذریعے) انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیے گئے ہیں اور بعض حوالہ جات براہِ راست اردو مضامین سے نقل کیے گئے ہیں۔
اُردو کے لیے انفرادی اور اجتماعی کوششیں:
ظاہر ہے کہ 1947 کے بعد ہندستان میں اُردو کے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے میں سرکاری اور نیم سرکاری انجمنوں کی حکمتِ عملی کے بارے میں ضرور گفتگو کروں گا۔ لیکن اس سے قبل میں اُردو بولنے والے لوگوں اور ان کے تشکیل کردہ رضارکار اداروں کے طریقۂ کار پر گفتگو کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ آزادی کے بعد ہندستان میں اُردو جن خطرات سے دوچار تھی ان میں اُردو کے رضاکار اداروں اور انجمنوں کا کیا رول رہا اس کا تجزیہ کرنا از بس ضروری ہے۔
اُردو کی ترویج کے لیے جو موثر اقدام اردو داں حضرات کی طرف سے کیے جاسکتے ہیں ان میں پہلا طریقہ جس پر وہ عمل پیرا ہوسکتے ہیں، یہ ہے کہ اپنے بچوں کو اردو پڑھنا اور لکھنا سکھانے کی ضمانت لیں۔ اگر اسکولوں کی طرف سے اردو کی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں ہے تو یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ انتظام کریں لیکن مشاہدہ یہ ہے کہ بیش تر اردو والے ایسا نہیں کرتے۔ میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ اردو بولنے والے ان لوگوں تک نے بھی جن کی اپنی زندگیاں عموماً اردو کے لیے وقف تھیں اور ان کے بچّے اردو میں دل چسپی بھی لیتے تھے، اپنے بچّوں کو اردو پڑھنا اور لکھنا نہیں سکھایا، ان کے لیے اردو صرف گھر کے اندر بولی جانے والی زبان تھی یا ہے۔ ایسے بہت سے لوگ بھی اردو شاعری کا ذوق رکھتے ہیں اور مشاعروں میں جانا پسند کرتے ہیں جو اردو سے بالکل واقف نہیں ہوتے۔ یادش بخیر، ایک مرتبہ میں اپنے ایک دوست (مرحوم) حبیب الرحمن خاں سے ملاقات کی غرض سے گیا۔ وہ ماسکو میں رہتے تھے جہاں سے ان کی ایک نوجوان خاتون رشتے دار آئی ہوئی تھیں۔میں نے دیکھا کہ وہ اپنی پسندکے اشعار دیوناگری رسم الخط میں درج کر رہی تھیں۔ ایک اور موقعے پر میں عصمت چغتائی سے ملا۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کی بیٹی کو اردو نہیں آتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ والدین یہ انتظام کیوں نہیں کرتے کہ ان کے بچّے اردو پڑھنا سیکھیں؟ میری اپنی راے یہ ہے کہ چاہے کتنی بھی مشکلات در پیش کیوں نہ ہوں، یہ محبّانِ اردو کی اوّلین ذمے داری ہے کہ وہ اپنے بچّوں کے لیے اردو کی تعلیم کے حصول کا انتظام خود کریں۔ وہ ایسا کرسکتے تھے اور ان کو ایسا کرنا چاہیے تھا لیکن اگر میرا اندازہ غلط نہیں ہے تو انھوں نے ایسا نہیں کیا ہے۔
اردو والوں کو یہ بات واضح طور پر معلوم ہونی چاہیے کہ اردو کے تحفّظ کے لائحۂ عمل کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اردو میں مہارت رکھنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو۔ اردو میں مہارت رکھنے سے میری مراد یہ نہیں کہ وہ اردو بولنے پر غیر معمولی عبور رکھتے ہوں بلکہ ضروری یہ ہے کہ وہ اس اردو سے واقف ہوں جو تحریری شکل میں موجود ہے اور جس کے مطالعے سے اردو ادب کا ذوق بیدار ہوسکتا ہے۔ میری مراد واضح طور پر یہ ہے کہ اردو جاننے کا مطلب اردو رسمِ خط سے واقفیت ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ آئندہ سطور میں جن حالات کا ذکر کروں گا ان کے لیے ہندستان میں اس وقت کس حد تک فضا سازگار ہے۔ میں سب سے پہلے اس نکتے پر زور دینا چاہتا ہوں کہ اگر کسی شخص کو اردو میں مہارت رکھنے والے لوگوں کی تعداد کے اضافے میں دل چسپی ہے تو بغیر کسی بیرونی مدد کے انفرادی حیثیت سے اس مقصد کے حصول کے لیے عملاً کچھ نہ کچھ ضرورکرسکتا ہے۔ اس کے لیے اسے جس جذبے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ہے ا س کام کو کرنے کی خواہش کا جذبہ، رضاکارانہ طور پر کچھ وقت صرف کرنے کا جذبہ اور اپنے طور پر کچھ وسائل مہیا کرنے کا جذبہ۔ اس سیاق و سباق میں برطانیہ جیسے ممالک میں آکر آباد ہونے والی بہت سی لسانی و تہذیبی اقوام کے طرزِ عمل سے سبق حاصل کیا جاسکتا ہے۔مثال کے طور پر برطانیہ میں سکونت اختیار کرنے والے گجراتی ، پنجابی، ایرانی، اردو داں، پولش زبان بولنے والے اور دوسرے لوگ بھی تقریباً ایسے ہی حالات سے دوچار ہیں جن سے ہندستان میں اردو داں حضرات کے بچّے گزر رہے ہیں۔ برطانیہ میں وہ لوگ اپنے بچّوں کو اپنی موروثی زبان کی اس سے بہتر تعلیم دینا چاہتے ہیں جو برطانیہ میں اسکولوں اور تعلیمی نظام میں رائج ہے۔اس کے لیے وہ حالات کے مطابق کام کرتے ہیں یعنی وہ خود ہی جزوقتی کلاسوں کا انتظام کرتے ہیں، کمرے کرایے پر لیتے ہیں یا گھروں میں ہی نسبتاً بڑے کمروں میں انتظام کرکے اپنے بچّوں کو اپنی موروثی زبان کی کچھ نہ کچھ تعلیم دیتے ہیں۔ میرے خیال میں اس کی بہ ظاہر کوئی وجہ نہیں کہ ہندستان میں اردوداں حضرات بھی اپنے بچّوں کو رضارکارانہ طور پر تعلیم دینے کے لیے جزوقتی تعلیم پر عمل پیرا نہ ہوں۔
بڑے اداروں کا رول:
معاصر ہندستان میں اردو زبان کے مسائل سے متعلق متعدد معاملات ایسے ہیں جن میں فردِ واحد یا چھوٹے چھوٹے رضارکار اداروں کے لیے کوئی پیش رفت ممکن نہیں اور یہی امر مجھے صوبائی یا کل ہند سطح پر اردو کے فروغ کے لیے قائم کیے گئے اداروں کے بارے میں لکھنے اور ان کی کارکردگی کا مکمل تجزیہ کرنے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔
میں یہ محسوں کرتا ہوں کہ اردو کے ان بڑے اداروں کی کارکردگی کے منصفانہ محاسبے کے لیے ہمارے پاس ان اداروں سے متعلق تمام تفصیلات کا موجود ہونا ضروری ہے۔ اسی سبب اور اسی نوعیت کی معلومات مہیا کرنے کی غرض سے میں نے 4 جون 1996 کو انجمن ترقی اردو (ہند) اور ترقی اردو بیورو کو خطوط تحریر کیے۔ ترقی اردو بیورو کو لکھے گئے خط میں مندرجہ ذیل اقتباس بھی شامل ہے:
’’ کیاآپ مجھے گجرال کمیشن رپورٹ اور اس کے بعد قائم ہونے والی سردار جعفری کمیٹی کی نقول روانہ کرسکتے ہیں؟‘‘
(ان رپورٹوں کے بارے میں تفصیلی طور پر میں آگے لکھوں گا۔)
’’کیا آپ ترقی اردو بیورو سے متعلق مجھے ایسا مواد روانہ فرما سکتے ہیں جن سے مندرجہ ذیل سوالات کا جواب مل سکے؟
(۱) کیا میرا یہ خیال درست ہے کہ ترقی اردو بیورو مکمل طور پر سرکاری امداد پر منحصر ادارہ ہے؟
(۲) اس ادارے کا آئین اور باضابطہ اغراض و مقاصد کیا ہیں؟
(۳) ادارے کے اربابِ اختیار کون لوگ ہیں اور ان کا انتخاب کس طرح عمل میں آتا ہے؟
(۴) کیا ادارے کی کاروائیوں کی روداد پابندی سے شائع ہوتی ہے اگر ہاں توکتنے دن میں اور اگر نہیں تو کیا اس روداد کی غیر رسمی تفصیلات موجود ہیں؟
میں بے حد ممنون ہوں گا اگر آپ اس خط کا جواب جلد از جلد دینے اور متعلقہ تمام مواد ہوائی ڈاک سے روانہ فرمانے کی زحمت گوارا کریں۔ میں یقیناً اس مد میں ہونے والے آپ کے تمام مصارف (مع ڈاک خرچ وغیرہ) ادا کروں گا۔‘‘
جب مجھے ان خطوط کا دونوں اداروں میں سے کسی بھی ادارے کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا تو میں نے جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے سابق رئیسِ جامعہ جناب سید مظفر حسین برنی سے رابطہ قائم کیا۔انھوں نے از راہِ مہربانی نہ صرف فوراً جواب دینے کی زحمت کی بلکہ مجھے گجرال کمیشن اور سردار جعفری کمیٹی کی رپورٹوں کی کاپیاں بھی روانہ فرمائیں اور مطلع کیا کہ انھوں نے انجمن ترقی اردو (ہند) کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر خلیق انجم اور ترقی اردو بیورو کی ڈائریکٹر فہمیدہ بیگم سے رابطہ قائم کیا تھا اور ان دونوں عہدیداران نے مجھے خط لکھنے کا وعدہ کیا ہے(خلیق انجم صاحب نے جلد ہی خط لکھنے کا وعدہ آج تک پورا نہیں کیا)لیکن اسی دوران مظفّر حسین برنی صاحب نے دونوں اداروں یعنی انجمن ترقی اردو (ہند) اور ترقی اردو بیورو کے بارے میں کچھ اور معلومات فراہم کیں۔ انجمن کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
’’یہ (انجمن ترقی اردو، ہند) مکمل طور پر سرکاری امداد یافتہ ادارہ نہیں ہے۔ البتہ دہلی انتظامیہ کی طرف سے اس کو ڈیڑھ لاکھ روپے سالانہ گرانٹ ضرور ملتی ہے۔ انجمن کی کئی منزلہ عمارت اردو گھر کے کرایے سے ہونے والی آمدنی انجمن کے اخراجات کے لیے وافر ہے۔ اس کی مجلسِ عاملہ میں چالیس رُکن ہیں جن کا انتخاب ہر پانچ سال کے بعد عمل میں آتا ہے۔ میرے لیے یہ بات یقین سے کہنا مشکل ہے کہ انجمن کے اراکین پابندی سے حکومت کو اس کی کارکردگی کی رپورٹ پیش کرتے ہیں۔‘‘
ترقی اردو بیورو کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
’’یہ مکمل طور پر سرکاری امداد یافتہ ادارہ ہے۔ یہاں بھی حکومت کو دی جانے والی رپورٹ میں پابندی قائم نہیں رہ پاتی۔ مگر فی الحال بیورو اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہے۔‘‘
چند دنوں بعد برنی صاحب نے مجھے ان دونوں اداروں کی شائع شدہ رپورٹیں بھی روانہ فرمائیں۔ ایک رپورٹ انجمن کے ہفت روزہ ترجمان ’ہماری زبان‘ کے خصوصی شمارے (یکم اکتوبر 1977 ) میں شائع ہوئی تھی اور دوسری بیورو کے ذریعے جاری کردہ پمفلٹ کے دو شماروں (خبرنامہ جنوری تا جولائی1983 اور جون1998) کی شکل میں تھی۔
اس مقالے کے ضابطۂ تحریر میں آنے تک (دسمبر1998)مجھے ان دونوں اداروں میں سے کسی کی بھی طرف سے اب تک کوئی خط موصول نہیں ہوا ہے۔ اس تمام مواد کے جو اُن دونوں اداروں سے متعلق اب تک مجھے موصول ہوا ہے، تفصیلی مطالعے کے پیشِ نظر مجھے یہ کہنے میں کوئی تکلّف نہیں کہ گزشتہ دو دہائیوں میں بالخصوص انجمن ترقی اردو (ہند) کا رویّہ اردو کی بقا اور ترویج کے لیے ہر سطح پر مایوس کُن ہی رہا ہے۔ انجمن سے میرا رابطہ 1949-50کے درمیان اور 1964-65 اور اس کے بعد کے برسوں میں بھی اور اس وقت بھی انجمن کے حالات کو حوصلہ افزا نہیں کہا جاسکتا۔ اس مرتبہ بھی اس مضمون کو تحریر کرنے کے سلسلے میں انجمن کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر خلیق انجم کے تعاون کا جو تجربہ مجھے ہوا اُسے کسی بھی طرح خوش گوار تجربہ نہیں کہا جاسکتا۔
کچھ دنوں پہلے ’’انڈین ریویو آف بکس‘‘ (جلد ۵ شمارہ ۱، 15ستمبر تا 15نومبر 1995 ) میں میرا ایک مضمون شائع ہوا تھا۔ میرا خیال ہے کہ میرا یہ مضمون آپ میں سے بیش تر حضرات کی نظر سے نہیں گزرا ہوگا ،اس لیے، میں اس میں سے ایک طویل اقتباس پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا:
’’ان تمام برسوں میں تصویر کاسب سے زیادہ پریشان کُن پہلو(کسی سخت لفظ کا استعمال میں دانستہ طور پر نہیں کر رہا ہوں) ان لوگوں کی بے عملی اور عدمِ تحریک ہے جو خود کو اردو بولنے والوں کی جماعت کا رہنما تصور کرتے ہیں۔ یہ بات 1949 ہی میں جب میں اُن میں سے کئی حضرات سے پہلی مرتبہ ملا تھا مجھ پر روشن ہوگئی تھی۔۔۔ میں موضوع سے نہیں ہٹوں گا(اور صرف یہ کہنے پر اکتفا کروں گا، جو مجھے ضرور کہنا بھی چاہیے کہ ان لوگوں کو اردو سے کوئی محبت نہیں تھی) اردو کی ترقی اور فلاح کے لیے قائم کیے گئے اداروں کو مرکزی حکومت کی جانب سے ابتدا میں کافی وسائل فراہم کیے گئے تھے لیکن ان اداروں کا طرزِ عمل کسی طرح بھی متاثر کن نہیں تھا۔ 1949-50میں میرا ان لوگوں سے کئی مرتبہ تبادلۂ خیال ہوا جو سرکاری امداد سے چلنے والے اردو اداروں مثلاً انجمن ترقی اردو کی مجلسِ منتظمہ میں فروکش تھے۔ اس وقت بھی میں نے اُن سے عرض کی تھی کہ وہ ان اداروں کے ذریعے اردو کی بقا اور ترویج کے لیے مبسوط لائحۂ عمل مرتب کریں اور اس کے اطلاق کے لیے سنجیدگی سے کوشش کریں۔ میں نے اُن کی توجہ اِس اہم بات کی طرف مبذول کرائی تھی کہ اردو میں اہم اور عظیم ترین کلاسیکی متون کی اشاعتیں موجود نہیں ہیں۔ آکس فورڈ کلاسیکی متون(Oxford Classical Texts) کی مثال پیش کرتے ہوئے میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس سیریز کے تحت لاطینی اور یونانی زبانوں کے عظیم و قدیم مصنفّین کی تصنیفات کو شائع کیا گیا ہے۔ ان متون کو مرتب کرنے کا مقصد ممکن حد تک صحت کے ساتھ ان متون کو شائع کرنا تھا۔میں نے انجمن کے اربابِ اختیار سے یہ بھی عرض کیا تھا کہ اگر وہ کچھ اور نہیں صرف قدیم متون کی صحت کے ساتھ اشاعت کی طرف بھی توجہ دیں تویہ اپنے آپ میں بڑا وقیع کام ہوگا۔ مگر بیس برس بعد بھی اس سلسلے میں انجمن کا واحد کارنامہ ’دیوانِ غالب‘ (اردو) مرتبہ امتیاز علی خاں عرشی تک محدود تھا۔ انجمن نے مبیّنہ طور پر ایسے کچھ اور منصوبے شروع تو کیے مگر وہ نہ تو آگے بڑھ سکے اور نہ ہی ان میں سے کوئی اولوالعزم منصوبہ اپنے اختتام کو پہنچ سکا۔ ان منصوبوں کے سلسلے میں جو کام ہونا چاہیے تھا اور بغیر کسی دشواری کے مکمل کرکے شائع کیا جاسکتا تھا مگر اسے شروع ہی نہیں کیا گیا۔
مجھے پروفیسر آلِ احمد سرور کے ساتھ 1965 میں ہونے والی گفتگو آج بھی بہ خوبی یاد ہے جس میں میں نے بہ اصرار اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ غالبؔ کی تمام تحریروں کے مستند متون تیار کرنے کا کام فوراً شروع کردیا جائے تاکہ غالب صدی (1969) تک ان کو شائع کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں جو کچھ شائع ہوا وہ غالبؔ کے خطوط کی ایک جلد تھی، جو 1930 میں شائع شدہ خطوطِ غالب کی ذلّت آمیز اشاعتِ مکرّر سے زیادہ کچھ نہ تھی۔
اسی صحبت میں پروفیسر سرور نے مجھے بتایا تھا کہ انھوں نے میکش اکبر آبادی سے فرہنگِ نظیر اکبر آبادی تیار کرنے کو کہا تھا اور یہ کام مکمل ہو کر اُن تک پہنچ چکا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ پھر اسے فوراً کیوں نہ شائع کردیا جائے کیوں کہ اس کا استعمال ایک ایسے مکمل اردو۔اردو لغت کے طور پر کیا جاسکتا ہے جس کی اشاعت کا منصوبہ آپ کافی دن سے بنارہے ہیں۔ پروفیسر سرور نے میری اس تجویز کو مسترد کردیا اور 30برس کے بعد بھی ہم اردو والوں کے پاس نہ تو کوئی مکمل اردو۔اردو لغت موجود ہے اور نہ ہی کوئی فرہنگ ۔ کچھ عرصے بعد مجھے معلوم ہوا کہ میکش اکبر آبادی کی مرتب کردہ فرہنگ ہی ضائع ہوگئی۔ اس قسم کی بے توجہی کی متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ مگر میرا خیال ہے کہ وہ سب عبرت انگیز مثالیں بھی صرف نمونے ہی کا کام کریں گی۔‘‘
اطہر فاروقی کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں (اخبارِ نو ،۲ تا ۸ دسمبر 1988 ) رشید حسن خاں اسی نوعیت کے کچھ اور واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’بورڈ (بیورو) نے بہت پہلے منصوبہ بنایا تھا کہ اردو کا مکمل لغت چار پانچ جلدوں میں مرتب کرایا جائے گا۔ اس کے لیے ہندستان کے نہایت مشہور لوگوں کا انتخاب کیا گیا اور ایک ایک جلد بانٹ دی گئی۔ برسوں تک ان لوگوں کو باقاعدہ معاوضہ ادا کیا جاتا رہا۔ ان کو ایک ایک معاون بھی دیا گیا۔ برسوں کے بعد معلوم ہوا کہ لغت مکمل نہیں ہوا سب سے جب حساب طلبی کا وقت آیا تو ان سب مخدومین اور محترمین نے ، جو مشہور بلکہ اشتہاری ادیب تھے،کام ویسا کا ویسا واپس کردیا۔ اس کے بعد و ہ کام ڈاکٹر مسعود حسین خاں کے سپرد کیا گیا کہ آپ اردو لغت کی تدوین فرمائیں۔ میں نے ان سے ایک بار کام کی کیفیت پوچھی تو کہنے لگے ارے کیا کہتے ہو، بوریوں میں بھری ہوئی کچھ چیزیں آئی تھیں جن کو صحیح طور پر رکھنا مشکل تھا اور نہایت درجہ ناقص طور پر اس کا کام کیا گیا تھا۔ غضب یہ ہے کہ سال ڈیڑھ سال کے بعد وہ کام بھی ختم ہوگیا۔ اب وہ کام بھی نہیں ہورہا ہے... ایک مختصر لغت ابھی ضرور چھپا ہے میں نے اس کو اسی طرح پڑھا جیسے میں اور کتابیں پڑھتا ہوں۔ مجھے تو ا س کا ایک صفحہ ایسا نہیں ملا جس پر ایک یا دو تین مختلف قسم کی غلطیاں نہ ہوں۔‘‘
رشید حسن خاں کی اس گفتگوسے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو۔انگریزی (یاانگریزی۔اردو) لغت کے منصوبے کا بھی وہی حشر ہوا جو فرہنگِ نظیر اکبر آبادی کا ہوا تھا۔ کافی عرصے پہلے مجھے بتایا گیا تھا کہ کلیم الدین احمد بھی ایک لغت ترتیب دے رہے ہیں جو مکمل ہونے والی تھی مگر اس کے بعد ہنوز میں نے اس لغت کے بارے میں کچھ نہیں سُنا۔
اپنے مذکورہ انٹرویو میں رشید حسن خاں نے ایک اور اسکینڈل کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں جس کے بارے میں مجھے معمولی نوعیت کی جانکاری تھی۔ وہ کہتے ہیں:
’’یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ چار ضخیم جلدوں میں اردو ادب کی تاریخ مرتّب کی جائے۔ اس کے لیے علی گڑھ یونی ورسٹی کو مناسب رقم دی گئی۔ یونی ورسٹی نے شروع میں بہت اچھا منصوبہ بنایا۔ کاغذ پر جو تفصیلات سامنے آئیں وہ اتنی اچھی تھیں کہ ہم سب کو یقین ہوگیا کہ اب یہ جو تاریخ ادبِ اردو لکھی جائے گی وہ واقعی اعلا درجے کی ہوگی۔ اردو کے نو(9) بہت مشہور اور ذی وقعت اہلِ علم کو اس میں شامل کیا گیا پہلی جلد کے مقالات لکھنے کے لیے جو 1200سے1700تک کے زمانے پر مشتمل تھی۔ اس کی پہلی جلد جب چھپ کر آئی اور میں نے اس کو پڑھا تواندازہ نہیں کرسکتے ہیں کہ میری حیرت کا کیا عالم تھا۔ اس کے کسی حوالے کو اعتماد کے ساتھ نقل کیا ہی نہیں جاسکتا۔جتنے اقتباسات دیے گئے ان میں سے بیش تر کی عبارت قابلِ اعتماد نہیں۔ میں نے اسی زمانے میں اس پر ایک مفصّل تبصرہ لکھا تھا۔ جس زمانے میں یہ تبصرہ شائع ہوا، اس تبصرے نے بہت شہرت پائی۔ یہ تبصرہ پہلی بار رسالہ ’تحریک‘ میں چھپا تھا اور اس رسالے سے کئی جگہ نقل کیا گیا۔ بہت چرچے رہے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ وہ پہلی جلد باضابطہ بازار سے اُٹھالی گئی اور یونی ورسٹی میں لے جاکر اس کا ڈھیرلگا دیا گیااور یہ کہا گیا کہ اب اس کو تصحیح کے بعد بازار میں بھیجا جائے گا۔ آج تک نہ تو اس کی پہلی جلد کی تصحیح ہوئی اور نہ باقی جلدیں شائع ہوسکیں۔‘‘
ِ جس زمانے کا یہ قصّہ ہے اس کے آس پاس ہی 1969 میں ترقی اردو بیورو کا قیام عمل میں آیا۔ میرا تاثّریہ تھا کہ اردو لغت کا منصوبہ بھی انجمن نے شروع کیا تھا مگر رشید حسن خاں کے انٹرویو سے تفصیلات معلوم ہوئیں کہ اصل میں یہ منصوبہ ترقی اردو بیورو کا تھا (جسے اس زمانے میں ترقی ارد و بورڈ کہا جاتا تھا اور جو اَب قومی اردو کونسل بن چکی ہے)بیورو کے کارہاے نمایاں سے میری واقفیت کچھ زیادہ نہیں ہے مگر پروفیسر عتیق احمد صدیقی نے اپنے ایک مضمون ’’اسٹیٹس آف اردو ان انڈیا‘‘ (دی نیشن لاہور ، 4 اکتوبر 1994) کے ذریعے اس کی کاکردگی سے متعلق تفصیلات فراہم کی ہیں:
’’ترقی اردو بیورو جس کا قیام مرکزی حکومتِ ہند کے ذریعے عمل میں آیا تھا اب تک تقریباً 700 بے مقصد کتابیں شائع کر چکی ہے جن میں اکثریت تراجم کی ہے۔ اسی طرح ساہتیہ اکادمی اور نیشنل بک ٹرسٹ بھی (یہ دونوں ہی سرکاری ادارے ہیں) کثیر تعداد میں بے مصرف اردو کتب شائع کرچکے ہیں۔‘‘
اسی مضمون میں آگے چل کر وہ مختلف صوبوں میں قائم شدہ اردو اکادمیوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’بہت سے صوبوں میں مثلاً یوپی، بہار، مغربی بنگال، ہریانہ، مہاراشٹر، آندھرا پردیش اور اُڑیسہ وغیرہ کی صوبائی حکومتوں نے اُردو اکادمیاں قائم کی ہیں ۔ یہ اکادمیاں بھی اردو کی نام نہاد خدمت میں مثلاً کتابوں کی اشاعت ، مصنّفین کو کتب کی اشاعت کے لیے مالی مدد فراہم کرنا، مصنّفین اور طلبہ کو وظائف وغیرہ دینے میں مصروف ہیں۔‘‘
ممکن ہے کہ صدیقی صاحب کی اس راے کے بارے میں یہ نتیجہ اخذ کر لیا جائے کہ انھوں نے ایک سخت نتیجہ اخذ کر لیا ہے اور شائع ہونے والی تمام کتب بے مقصد اور مصنّفین کو ان سرکاری اداروں کی طرف سے دی جانے والی امداد مکمل طور پر بے مصرف نہیں ہوسکتی۔ بہر حال میرا اپنا خیال یہ ہے کہ پروفیسر صدیقی کی راے میں کافی وزن ہے اور اس زمانے میں اپنے ذاتی تجربے کے ذریعے میں نے ان اداروں کے حالات کے بارے میں جو راے قائم کی تھی وہ آج کے حالات پر بھی منطبق ہوتی ہے۔
’ دی نیشن‘ لاہور ہی کے 8جولائی 1994 کے شمارے میں شمس الرحمن فاروقی کاایک انٹرویو شائع ہوا ہے۔ یونی ورسٹیوں کے شعبہ ہاے اردو کے بارے میں وہ کہتے ہیں:
’’ ... یونی ورسٹیوں کے اردو شعبوں کے اساتذہ نے اپنی نوکری بچانے کے لیے جو مفاد پرستانہ لائحۂ عمل مرتّب کیا اُس نے اردو کی بنیادوں کو اُکھاڑ پھینکا۔اردو کو بچانے میں انھیں کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ اردو اساتذہ نے اپنے نئے ترتیب شدہ لائحۂ عمل کے مطابق یونی ورسٹی کے اربابِ اقتدار کو اس بات پر راضی کر لیا کہ جن طالب علموں نے کسی بھی سطح پر اردو کا مطالعہ نہیں کیا ہے یا جو اچھے طالب علم نہیں ہیں، اگر وہ ایک مضمون کے طور پر بی. اے میں اردو کو اختیار کرنا چاہیں یا اردو میں ایم. اے کرنا چاہیں تو انھیں داخلے کی اجازت دی جائے۔ صرف اپنی نوکری کے تحفّظ کے لیے ذاتی مفادات کے تابع بالخصوص یونی ورسٹیوں کے اردو اساتذہ کا یہ قدم اردو کے لیے بے حد ضرر رساں ثابت ہوا۔ ان کے اس اقدام کے نتیجے میں یونی ورسٹیوں کے اردو طالبِ علموں میں اکثریت جاہلوں کی ہوگئی ہے۔ بی. اے میں اردو کو بہ حیثیت مضمون اختیار کرنے والے یا اردو میں ایم. اے کرنے والے طلبہ میں اکثریت ان کی تھی جن کی علمی صلاحیت بہت کم تھی اور دوسرے طریقوں کے ذریعے انھیں یونی ورسٹی میں کبھی داخلہ نہیں مل سکتا تھا۔ یہ اس صدی کے چھٹے دہے کی بات ہے جب یونیورسٹیوں کے اردو شعبوں میں ان ہی جاہل طالبِ علموں کی بھرتی بہ طور اُستاد شروع ہوئی۔ پھر ان اساتذہ کے جاہل شاگردوں کی کھیپیں تیار ہونا شروع ہوئیں اور جاہل درجاہل کا یہ سلسلہ اب خدا جانے کب رُکے۔‘‘
اِن آرا کا تجزیہ کرنے کے بعد مختصراً اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ اردو کے قائدین نہ صرف یہ کہ اردو کے لیے ایسا کچھ بھی کرنے میں ناکام رہے جو وہ اپنی پیش قدمی سے کرسکتے تھے بلکہ وہ اپنے وہ وعدے بھی وفا کرنے میں ناکام رہے جن کے لیے وہ اپنی اُجرت بھی وصول کرتے رہے ہیں۔ اس پر طرّہ یہ کہ انھوں نے ایسے اقدام بھی کیے جو بہ قول شمس الرحمن فاروقی ’’اردو کے لیے بے حد ضرر رساں ثابت ہوئے‘‘انہی کارنامو ں کے سبب اردو کے ان پرچم بردار قائدین کے لیے رشید حسن خاں کے یہ سخت الفاظ دُرست معلوم ہوتے ہیں کہ ’’ یہ لوگ بوالہوسی ‘‘ اور بے ضمیری کے جال میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ ان کے یہاں ایمان داری کا تصوّر تو تقریباً مر چکا ہے... اس حد تک دنیا دار ، اس حد تک جاہ طلب اور گھٹیا گروپ بازی میں گرفتار لوگ ہیں...۔‘‘
یہاں ضمناً میں یہ بات بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ افسوس ناک امر ہے کہ رشید حسن خاں نے ان سارے معروف لوگوں کے نام ظاہر نہیں کیے جن کے لیے انھوں نے ان سخت الفاظ کا (لیکن پوری طرح دُرست) استعمال کیا ہے۔ یہ لوگ گمنامی کی ڈھال کے مستحق ہرگز نہیں ہیں اور کسی بھی صورت میں قرائنی تفصیلات کے ذریعے ان شخصیات کی شناخت قطعاً مشکل نہیں ہے لیکن میرا خیال یہ ہے کہ ان لوگوں کو پوری طرح بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔
اب ہمیں کسی قدر تفصیل میں جاکر ان اقدامات کا جائزہ لینا ہوگا جو مرکزی حکومت تقریباً گذشتہ دو دہوں سے کرتی رہی ہے۔
1970 اور اس کے بعد
سوم آنند کے مضمون سے مجھے ہندستان میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے رشتوں اور ان کی اردو پالیسیوں کے مابین اختلافات سے متعلق یہ معلوم ہوا کہ یہ پالیسیاں ان گذشتہ پالیسیوں سے مختلف نہیں تھیں جن کا مشاہدہ میں ایک عرصہ پہلے کر چکا تھا۔ ہندستان کی مرکزی حکومت اندرا گاندھی کے دور سے ہی اپنی کسی نہ کسی پالیسی کے تحت اردو کی بقا و ترقی کے لیے کچھ نہ کچھ اقدام کرتی رہی ہے۔ ان اقدام کے بارے میں تفصیل میں جانے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ میرے خیال میں آپ تمام حضرات کے علم میں یہ بات ضرور ہوگی کہ مرکزی حکومت نے ایسی تمام پالیسیاں جن سے یہ تاثّر عام ہے کہ حکومت اردو کی بقا و فروغ کی خواہاں ہے ، اس لیے، نہیں روا رکھی تھیں کہ حکومت کو اردو سے واقعتا کسی قسم کی کوئی دل چسپی تھی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اُن پالیسیوں کے نفاذ کا مقصد سیاسی مفادات کا حصول تھا۔ سوم آنند ہی کے مضمون سے مجھے یہ بھی علم ہوا کہ اندرا گاندھی نے اپنے دورِ اقتدار میں 1972 میں اندرکمار گجرال کی صدارت میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس کا کام اردو کی ترویج کے امکانات کا جائزہ لینا تھا۔ ڈھائی سو صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ 1975 میں 187 سفارشات کے ساتھ پیش کی گئی۔
سوم آنند کے مطابق یہ رپورٹ ’’سرد خانے میں چلی گئی‘‘ جس کا سب سے بڑا سبب جگ جیون رام کی شدید اردو مخالفت تھا اور مادام اندرا گاندھی اس دور کے سیاسی حالات میں جگ جیون رام کی مخالفت لینا نہیں چاہتی تھیں۔
بہر حال،مناسب وقت آنے پر گجرال کمیٹی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی گئی اور پھر مختلف ، کافی فصل سے ، دو کمیٹیاں اس امر کا جائزہ لینے کے لیے قائم کی گئیں کہ گجرال کمیٹی کی کون سی سفارشات کا نفاذ عملاً ممکن ہے۔پہلی سب کمیٹی 1979 میں آلِ احمد سرور کی صدارت میں بنی جس کا کام گجرال کمیٹی کی سفارشات کا جائزہ لینا تھا ( اس کمیٹی نے اپنا کام 1983 میں مکمل کر لیا) دوسری کمیٹی علی سردار جعفری کی صدارت میں فروری1990 میں تشکیل دی گئی جس نے غیر معمولی مستعدی کا ثبوت دیتے ہوئے ستمبر1990 میں حکومت کو اپنی رپورٹ پیش کردی۔ جعفری کمیٹی نے یہ تصدیق کی کہ گجرال کمیٹی کی پچانوے فی صد سفارشات کو عملی جامہ پہنایا ہی نہیں گیاہے۔ 1989 میں حکومتِ بہار اور اس کے بعد حکومتِ اترپردیش نے کاغذ پر ہی صحیح اردو کو اپنے اپنے صوبوں کی دفتری کام کاج کی زبان کے طور پر قبول کر لیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ گجرال کمیٹی کی سفارشات میں یہ سفارش شامل ہی نہیں کی گئی تھی۔
یہاں میں اس امر پر حیرت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ مولانا آزاد فاؤنڈیشن کی طرف سے مجھے ابتداً جو شائع شدہ مواد فراہم کیا گیا تھا اس میں گجرال کمیٹی، سرور کمیٹی یاجعفری کمیٹی کا کوئی حوالہ سرے سے موجود ہی نہیں تھا(البتہ اطہر فاروقی کے پی. ایچ. ڈی کے مقالے میں گجرال کمیٹی کا تعارف اور اس کی سفارشات کی ایک طویل تلخیص شامل ہے۔ مگر چوں کہ اطہر فاروقی کا مقالہ مجھے دیر سے موصول ہوا، اس لیے، ابتداً میں اس بات پر حیرت کرتا رہا کہ گجرال کمیٹی سے متعلق مواد کس لیے روانہ نہیں کیا گیا)۔
خود مختار اداروں اور انجمنوں کارول:
مجھے بہ خوبی اندازہ ہے کہ قومی اردو کونسل جیسے اداروں کی بے عملی کے سبب پیدا شدہ بے اطمینانی اور مایوسی عام طور پر لوگوں کو ایسے اداروں سے پوری طرح مایوس کردیتی ہے اور نتیجتاًایسی انجمنیں وجود میں آنے لگتی ہیں جو کسی بھی طرح کی سرکاری امداد یا تعاون قبول کرنے سے انکار کر کے خود کو حکومت کے احسان اور پالیسی دونوں سے اپنے آپ کو آزاد کر لیتی ہیں۔ہندستان میں اردو کے موجودہ حالات میں یہ بے اطمینانی مبارک ہے کیوں کہ حقیقتاً ایسی خود مختار انجمنوں کی آج بے حد ضرورت ہے۔ مجھے یہ جان کر خوش گوار تعجب ہوا کہ مولانا آزاد ریسرچ اینڈ ایجوکیشنل فاؤنڈیشن ایک ایسا ہی خود مختار ادارہ ہے جو حکومت کی امداد تو دور حکومت سے کسی طرح کا تعلق رکھنے والے اہلِ قلم تک سے کسی طرح کا کوئی رابطہ رکھنا پسند نہیں کرتا۔ ابتداً مجھے مولانا آزاد فاؤنڈیشن کے اس رویّے کے بارے میں کوئی خبر نہ تھی۔ سب سے تعجب خیز بات یہ ہے کہ فاؤنڈیشن کی طرف سے دعوت نامہ ملنے کے کئی مہینے کے بعد میں اس رویّے سے واقف ہوسکا۔ فاؤنڈیشن کے بارے میں استفسار پر اس کے نائب صدر امان اللہ خالد نے اپنے 14 مئی 1996 کے خط کے ذریعے مجھے پہلی بار یہ اطلاع بہم پہنچائی۔ یہاں میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ اس خط کے حوالے سے کچھ ضروری باتوں کا اندراج اس مقالے میں کروں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ مولانا آزاد فاؤنڈیشن کا رجسٹریشن 1989 میں کرایا گیا۔ فاؤنڈیشن کے مربّی سکندر آباد کے وہ تمام حضرات ہیں جو تقسیم کے بعد اردو پر پڑنے والے پیمبری وقت میں ستائش و صلے کی ہر تمنّا سے بے نیاز ہوکر بہت خاموشی کے ساتھ بادِ مخالف کے تیز جھونکوں میں اردو کی شمع روشن کیے رہے ... (سکندر آباد اترپردیش کے ضلع بلند شہر کا ایک قصبہ ہے جس کی کل آبادی کا تقریباً 45 فی صد حصّہ مسلمانوں پر مشتمل ہے‘‘ ... مولانا آزاد فاؤنڈیشن کی مجلسِ عاملہ میں ایسے سات حضرات شامل ہیں ... ہماری روزِ اوّل سے یہی کوشش اور پالیسی ہے کہ حکومتِ ہند سے کسی طرح کی کوئی مدد قبول نہ کی جائے تاکہ براہِ راست یا بالواسطہ حکومت کی پالیسیاں ہمارے کام پر اثر انداز نہ ہوسکیں۔ اس طرح کے نظریات کے ساتھ کسی ادارے کو ہندستان میں چلانا آج بھی بہت مشکل ہے اور ایسی تمام مشکلیں ہم برداشت کر رہے ہیں۔‘‘
12 اگست 1996 کے ایک اور خط کے ذریعے وہ اس سلسلے میں مزید اطلاعات بہم پہنچاتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ فاؤنڈیشن کے اراکین نے ابتدا ہی سے یہ طے کیا تھاکہ فاؤنڈیشن کاکوئی رکن حکومتِ ہند کی ملازمت قبول نہیں کرے گا۔ وہ کسی سرکاری یا غیر سرکاری کمیٹی کا رُکن نہیں بنے گا اور حکومتِ ہند سے خود کو براہِ راست یا بالواسطہ وابستہ نہیں کرے گا۔وہ حکومتِ ہند سے کسی طرح کی کوئی مالی امداد ، وظیفہ اور انعام بھی قبول نہیں کرے گا۔ وہ اس بات کی بھی حتّی الامکان کوشش کرے گا کہ ایسے سمینار یا مشاعرے میں حصّہ نہ لے جس کا کسی بھی طرح حکومتِ ہندسے کوئی تعلق ہو۔ وہ حکومت سے جزوی طور پر امداد یافتہ اردو رسائل میں اپنی تخلیقات کی اشاعت سے ممکن حد تک گریز کرے گا۔ خوشی کا مقام ہے کہ آج تک فاؤنڈیشن کے تمام اراکین اِس غیر تحریری ضابطے پر عمل پیرا ہیں۔‘‘
اوّل الذکر خط کے ذریعے مجھے یہ اطلاع ملی تھی:
’’فاؤنڈیشن کے مقاصد کے تحت سکندر آباد میں گذشتہ دس سال سے دو اردو میڈیم جونیر ہائی اسکول چل رہے ہیں۔ فاؤنڈیشن کے ان دو اسکولوں کے علاوہ اترپردیش میں صرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے دو جونیر ہائی اسکول اور ہیں۔‘‘
ایک تیسرے خط کے ذریعے مجھے مندرجۂ ذیل معلومات بھی فراہم کرائی گئیں:
’’ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے دونوں اردو میڈیم اسکولوں میں انگریزی ذریعۂ تعلیم بھی موجود ہے اور بیشتر والدین اپنے بچّوں کو انگریزی ذریعۂ تعلیم ہی میں بھیجتے ہیں۔ اردو ذریعۂ تعلیم نچلے طبقے کے وہ بچّے اختیار کرتے ہیں جن کے لیے کسی بھی طرح انگریزی ذریعۂ تعلیم کا بوجھ برداشت کرنا ممکن نہیں ہوتا، ہر چند کہ مسلم یونی ورسٹی کے دونوں اسکولوں میں انگریزی ذریعۂ تعلیم کا معیار بہت پست ہے۔ مختصر یہ کہ مسلم یونی ورسٹی کے ان دو اسکولوں میں بھی اردو ذریعۂ تعلیم کی سانسیں اُکھڑ رہی ہیں اور آئندہ چند سال میں یہ نام نہاد اردو ذریعۂ تعلیم بھی ختم ہو جائے گا۔‘‘
14مئی 1996 کے خط میں آگے لکھا تھا:
’’ فاؤنڈیشن اب تک دو اہم موضوعات پر سمینار منعقد کر چکی ہے ... ایک اردو ذریعۂ تعلیم کے مسائل اور دوسرا ہندستانی مسلمان اور پریس کے موضوعات پر۔ اس میں پیش کیے گئے مقالات دنیا بھر کے مقتدراخبارات و رسائل میں شائع ہوئے۔
مولانا آزاد فاؤنڈیشن کے تمام فنڈ مقامی باشندوں سے بہ قدرِ ضرورت چندے کی شکل میں حاصل کیے جاسکتے ہیں۔‘‘
میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ سرکاری انعام یافتہ انجمنوں کے خلاف ہندستان کے اردو والوں کی بے اطمینانی اور بے یقینی قطعاً جائزہے اور اردو کے حقوق کے لیے صرف اپنے زورِ بازو کے بل پر جدّ و جہد اور خود مختار اداروں کا قیام ایک خوش آئند قدم ہے لیکن اس سے یہ مراد بھی نہیں لینا چاہیے کہ اردو والے سرکاری امداد یافتہ اداروں کے معاملات میں کوئی دل چسپی ہی نہ لیں۔اردو کی ترویج کے لیے قائم کی گئی انجمنیں، ادارے، اکادمیاں اور بیورو وغیرہ اگر اطمینان بخش کام نہیں کر رہے ہیں تو ان پر منظّم طریقے سے کھلے عام تنقید کی جانی چاہیے اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان سرکاری اداروں کے منظور شدہ پروگراموں کو عملی جامہ پہنائے جانے کے لیے وسیع پیمانے پر اور مسلسل جدّو جہد کرنا چاہیے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مولانا آزاد فاؤنڈیشن جیسی انجمنوں کو اردو کی ترویج و ترقی کے لیے مربوط پروگراموں کے تحت منظّم طور پر سرگرمِ عمل ہونا چاہیے اور اپنی پالیسیوں اور پروگراموں کی اشاعت کرنا چاہیے۔
مولانا آزاد فاؤنڈیشن کی طرف سے سمینار کے دعوت نامے کے ساتھ جو شائع شدہ مواد مجھے موصول ہوا تھا اس میں لاہور سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامے ’دی نیشن‘ کے 25 دسمبر 1992کے شمارے میں احمد رشید شروانی کا ایک مضمون ’’ہندی مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی ‘‘ بھی شامل تھا۔ میں اس مضمون کے ان آخری دو پیراگرافوں سے حوالہ پیش کروں گا جن کا تعلق مندرجہ بالا بحث اور مولانا آزاد فاؤنڈیشن جیسے خود مختار اداروں کے رول سے ہے۔ شروانی صاحب لکھتے ہیں:
’’ آخر میں، میں صرف یہ کہوں گا کہ بنیادی طور پر یہ حکومتِ ہند کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا انتظام کرے کہ مسلمان بچّے بہتر تعلیم حاصل کرسکیں۔ کیا مسلمان ’بھارت ماتا‘ کے بچّے نہیں ہیں؟ بھارت ماتا کے یہ کروڑوں بچّے اگر تعلیم کے میدان میں پس ماندہ ہیں تو یہ صرف حکومت کی خطا ہے۔
لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم مسلمان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور صرف اس کا انتظار کرتے رہیں کہ حکومت کب اپنا فرض ادا کرتی ہے۔ چوں کہ ہمارے بچّوں کا مستقبل ان کی تعلیم پر منحصر ہے ، اس لیے، ہمیں حکومت کے رویّے اور کارکردگی سے بے نیاز ہوکر اپنے بچّوں کی تعلیم کے لیے ممکنہ حد تک مسلسل سعی کرتے رہنا چاہیے۔‘‘
مجھے ان دونوں باتوں میں سے کسی سے بھی اختلاف نہیں ہے لیکن ان اقتباسات کو پڑھنے کے بعد جو شے میری توجہ فوراً اپنی طرف مبذول کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ بنیادی طور پر مسلم بچّوں کی تعلیمی سطح کو بہتر بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے تب بھی یہ واضح نہیں ہوتا کہ مصنّف کا اس سیاق و سباق میں منشا کیا ہے اور مسلم بچّوں کی تعلیمی سطح بلند کرنے کے لیے وہ حکومت سے کن اقدام کی توقّع کرتا ہے۔ شروانی صاحب نے پورے مضمون میں ایسی کوئی بھی ٹھوس تجویز پیش نہیں کی ہے جس سے یہ اندازہ کیا جاسکے کہ حکومت کو اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے کیا اقدام کرنے چاہئیں اور کون سی حکمتِ عملی بروے کار لانا چاہیے۔ کوئی بھی قاری مسلم تعلیمی پس ماندگی پر اس اہم اور طویل مضمون کے بارے میں یہی خیال کرے گا کہ فاضل مصنّف کے ذہن میں مسلم بچّوں کا تعلیمی معیار بلند کرنے کے لیے دو سطح پر واضح تجاویز ہوں گی... ایک یہ کہ حکومت کی حکمتِ عملی کیا ہو اور دوسری یہ کہ اس حکمتِ عملی کے نفاذ کے لیے اردو بولنے والا طبقہ حکومت پر کس طرح دباؤ ڈالے۔ شروانی صاحب آخری اقتباس میں لکھتے ہیں کہ ’’ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مسلمان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور صرف اس کا انتظار کرتے رہیں کہ حکومت کب اپنا فرض ادا کرتی ہے۔‘‘ یہ بات بالکل درست ہے لیکن اس بیان سے بھی ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ اب تک اردو کے رہنماؤں نے کیا کچھ کیا ہے یا اپنے بچوں کو تعلیم دینے کی غرض سے ان کو کیا رویّہ اختیار کرناچاہیے۔ مصنّف کا خیال ہے کہ ’’ہمیں اپنے بچّوں کی بہتر تعلیم کے لیے ممکنہ حد تک مسلسل سعی کرتے رہنا چاہیے۔‘‘ یہ بات بھی صحیح ہے لیکن یہ کیسے پتا چلے کہ اب تک آپ کیا کرتے رہے ہیں اور کیا کیا کچھ کرنا
آپ کے دائرۂ اختیار میں ہے؟ یا یہ کہ اردو کے قائدین کے ذریعے آپ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ ان سارے امور پر مصنّف خاموش ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ نکات ہیں جن پر زیادہ واضح اور مدلّل فکر کی ضرورت ہے۔
اردو کے قائدین کی خامیاں اور کمزوریاں:
اردو کے قائدین کے رویّے پر میں یہ کہنے کے لیے مجبور ہوں کہ میرے ذاتی مشاہدے کی حد تک اردو کے قائدین اردوکے لیے خود کچھ کرنے کے بجاے ہمیشہ صرف دوسرے لوگوں کو ہی کچھ کرنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں۔ ان کے اس رویّے کے لیے ان کا وہ تاریخی پس منظر ذمے دار ہے جس میں وہ سیکڑوں سال تک ہندستان میں برسرِ اقتدار اشراف کے طور پر گزر اوقات کرتے رہے ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی جو خود بھی اترپردیش کے اشرافیہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، اطہر فاروقی کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں (دی نیشن لاہور، 8 جنوری 1994) ایک غیر معمولی بات (جسے خوش آئند بھی کہا جاسکتا ہے) کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ:
’’اترپردیش کے مسلمان احساسِ برتری کا شکار رہے ہیں جسے میں حقیقتاً ایک احمقانہ بات تصوّر کرتا ہوں۔‘‘
مجھ جیسے بیرونی آدمی کے لیے شمس الرحمن فاروقی صاحب کا یہ بیان چونکا دینے والی بات ہے۔ اترپردیش کے مسلمانوں کی یہ صفت اس رویّے میں بھی ظاہر ہے جس کی طرف میں نے اپنی ایک تحریر میں اشارہ بھی کیا ہے ( بلکہ طنزکے ساتھ اشارہ کیا ہے)کہ:
’’یوپی کا شریف زادہ خود ایسا کوئی کام نہیں کرتا جس کو وہ دوسرے لوگوں سے حکم صادر فرما کر یا پھر خوشامد اور چاپلوسی سے کراسکتا ہے۔‘‘
قارئین حضرات مجھے اس صاف گوئی کے لیے معاف فرمائیں کہ میں ایک ایسی تجویز پر اظہارِ راے کر رہا ہوں جس کی حمایت اطہر فاروقی اور سوم آنند دونوں نے کی ہے (حالاں کہ سوم آنند یوپی کاشریف زادہ نہیں ہے جب کہ اطہر فاروقی کا تعلق اشرافیہ طبقے سے ہے)۔ اس تجویز کے مطابق ہندستان میں اردو تعلیم کو مذہبی تعلیم کے بنیادی اداروں مثلاً دینی مدرسوں وغیرہ جو ابتداً صرف اسلامی تعلیم کے لیے قائم کیے گئے تھے، کا لازمی حصّہ بنا دیا جانا چاہیے۔ میرے خیال میں اس تجویز میں کوئی دم نہیں ہے۔ اس کے کئی وجوہ ہیں۔ اوّل تو یہ کہ جو کام آپ کوخود کرنا چاہیے اس کے لیے آپ کوئی دوسرا سہارا کیوں تلاش کر رہے ہیں۔ آپ کو خود ہی اردو تعلیم کا نظم کرنا ہوگا۔ دوم یہ کہ کہیں بھی ایسے شواہد موجود نہیں ہیں جب دینی تعلیمی اداروں نے اردو تعلیم دینے میں یا اردو زبان و ادب کو کسی بھی سطح پر اپنے نصابِ تعلیم میں شامل کرنے میں دل چسپی رکھی ہو۔ دینی مدارس آزادی سے قبل سے لے کر آج تک مسلسل اپنا کام انجام دیتے رہے ہیں لیکن جہاں تک مجھے علم ہے، ان میں سے کسی نے بھی اپنے طلبہ کو تعارفی سطح تک کا اردو ادب پڑھانے میں کبھی کسی قسم کی دل چسپی کا اظہار نہیں کیاہے۔ وہ صرف اور صرف مذہبی سوالات سے جڑے ہوئے ہیں۔ مجھے اس پر اعتراض نہیں۔ اگر دینی مدارس صرف مذہب کے لیے فکر مند اور کوشاں ہیں تو یہ ان کا حق ہے۔ اگر آپ ان کو اردو پڑھانے کے لیے یا اردو کی صرف اتنی ہی تعلیم دینے کے لیے بھی رضامند کرسکیں جس سے ان کا طالبِ علم اردو ادب کا نہ صرف مطالعہ کرسکے بلکہ اسے دادِ تحسین بھی دے سکے ، تو آپ اس کے لیے کوشش کریں بلکہ ہر ممکن کوشش کریں۔اور جہاں کہیں آپ ان مدارس کو ایسا کرنے کے لیے راضی کرلیں تو اس کام کی تکمیل کے لیے ان کو ہر طرح سے مدد بھی دیں۔ لیکن میرا قیاس یہی ہے کہ مدارس کسی بھی بڑے پیمانے پر اس کام کے لیے تیار نہیں ہوں گے اور میں ایک مرتبہ پھر عرض کروں گا کہ اردو کے قائدین تو اپنے حصّے کا بوجھ دوسرے کے شانے پر ڈالنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ یہ کام انھیں خود کرنا چاہیے تھا لیکن افسوس ، صد افسوس کہ وہ ایسا نہیں کررہے ہیں۔ وہ کبھی دینی مدارس سے توقّعات وابستہ کرتے ہیں تو کبھی کسی اور طرح آسمانوں سے مدد کی امید رکھتے ہیں۔
میرا مشاہدہ یہ ہے کہ اشرف علی تھانوی کے زمانے سے (تقریباً سو برس پہلے سے جب انھوں نے ’’بہشتی زیور‘‘ لکھی) اب تک ان مدرسوں یا ان کے مدرّسین کے رویّوں میں کچھ خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ’’بہشتی زیور‘‘ کے دسویں باب میں ایک فہرست ان کتابوں پر مشتمل ہے جن کا مطالعہ اشرف علی تھانوی صاحب نے خواتین کے لیے ممنوع قرار دیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ یہاں سیاق و سباق مسلم خواتین کا ہے پھر بھی دو باتیں قابلِ غور ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہم خواتین کو وہ سب کچھ پڑھنے کے قابلِ بنانا چاہتے ہیں جو کچھ مرد پڑھ سکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ تھانوی صاحب نے خواتین کے لیے جن کتابوں کے مطالعے پر پابندی عاید کی ہے ان کا تعلق اس ادب سے ہے جس کا مطالعہ مردکرتا ہے۔ بہشتی زیور میں دی گئی اس فہرست میں تھانوی صاحب ’’دیوان اور غزلوں‘‘ کی کتب پر بھی پابندی عاید کرتے ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر وہ در حقیقت پوری اردو شاعری اور اردو شاعری کا یقیناً سب سے زیادہ اہم حصّہ جس میں اندر سبھا، بدرِ منیرکا قصّہ یعنی مثنوی میر حسن ، داستانِ امیر حمزہ، گلِ بکاؤلی اور اسی قسم کا دوسرا ادب بھی شامل ہے، خواتین کے لیے ممنوع قرار دیتے ہیں۔ اسی لیے مذہبی تعلیم کے لیے خو د کو وقف کرنے والے ان مدرّسین سے طلبہ کو اردو ادب کے بہترین سرمایے کی تعلیم دینے کی امید رکھنا تو میرے خیال میں آج بھی خیالی پلاؤ ہی ہے۔
کس حکمتِ عملی کی ضرورت ہے:
اب میں اس نکتے کی طرف رجوع کرتا ہوں کہ اردو کے قائدین کیا کریں۔ مجھے اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ وہ بات اُٹھائیں کہ حکومتِ ہند یا صوبائی حکومتوں وغیرہ کو فلاں فلاں کام کرنے چاہئیں، وہ ایسا کرنے کے لیے حکومتوں پر دباؤ بھی ڈالیں۔ مجھے اس میں بھی کوئی قباحت نظر نہیں آتی کہ وہ یہ کہیں کہ مدرّسین کو اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے کہ وہ دینی مدارس میں طلبہ کو اردو پڑھائیں... مجھے ان سب میں سے کسی بھی بات پر بھی کوئی اعتراض نہیں لیکن اس سب سے قطع نظر میں جس بات پر زور دینا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اردوکے قائدین اپنی بیش تر توجّہ اس پر صرف کریں کہ انھیں خود کیا کرنا چاہیے ، یہ دیکھے بغیر کہ دوسرے لوگ کچھ کر رہے ہیں یا نہیں کر رہے ہیں اور اسی لیے میں نے احمد رشید شروانی کے الفاظ کا حوالہ دیا ہے۔ میرے خیال میں وہ کہنا یہی چاہتے ہوں گے جو میں نے عرض کیا ہے مگر وہ کسی تفصیل میں نہیں گئے جب کہ انہیں ایسا کرنا چاہیے تھا۔
اب میں چند اہم نکات کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہوں گا جن کی طرف ، میرے خیال میں اردو کے سارے حامیوں اور قائدین کی توجہ بہت پہلے مرکوز ہوجانا چاہیے تھی اور کم از کم اب تو انھیں اس سلسلے میں مستعد ہوجانا چاہیے۔
سوم آنند کے مضمون (اشاعت 1992 )کا ایک حصّہ ہندستان میں اردو کے امکانات پر غور کرنے والے لوگوں کے لیے ایک بے حد اہم پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔ سوم آنند کہتے ہیں کہ حالاں کہ حکومت کی طرف سے اردو کو کافی مالی مراعات دی جاتی رہی ہیں لیکن اردو بولنے والے طبقے کے حالات کچھ ایسے ناگفتہ بہ ہیں کہ وہ ان مالی مراعات کا صحیح استعمال کبھی نہیں کرسکا۔ سوم آنند نے اپنے مضمون کے ایک اقتباس میں اس بات کو بڑے مناسب طریقے سے پیش کیا ہے۔ میں اسی اقتباس کو کچھ کاٹ چھانٹ کر پیش کر رہا ہوں۔ سوم آنند کا کہنا ہے کہ حکومتِ ہند اردو اخبارات کی مدد کے لیے کافی کوشاں رہتی ہے مگر اردو اخبارات اپنے حالات کے سبب ان مراعات سے کچھ بھی فائدہ اُٹھانے کی حالت میں نہیں ہیں... یہاں یونائٹڈ نیوز انڈیا (یواین آئی) نام کی ایک بڑی خبر رساں ایجنسی ہے۔ اس ادارے نے حکومتِ ہند کے کہنے سے اردو اخبارات کے لیے اردو ٹیلی پرنٹرسروس شروع کرنے کا فیصلہ کیا جس کے لیے حکومتِ ہند نے یو این آئی کو کئی لاکھ روپے کی گرانٹ بھی دی ۔ لیکن اردو پریس ان فراہم شدہ مواقع سے فائدہ اُٹھانے کے حالات میں نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس اسکیم کو کامیاب بنانے کے لیے یو این آئی نے چالیس اردو اخباروں کو اپنی خدمات پیش کیں لیکن اردو اخبارات آج تک اس سہولت کا فائدہ نہیں اُٹھا پائے ہیں۔
اس قسم کی دشواریاں کم نہیں ہیں۔ مثلاً ایسی سہولیات کے صحیح استعمال کے لیے اچھے مترجمین کی ضرورت ہوتی ہے جو اردو میں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو داں طبقے کی نئی نسل ایسے دور میں پیدا ہوئی ہے جب اردو کی تعلیم دینے کا رواج ہی نہیں رہا ہے۔ ایسے میں آپ اس نئے نوجوان طبقے سے یہ امید کیوں کرتے ہیں کہ وہ اچھی اردو جانتا ہوگا؟ اس پر طرّہ یہ کہ شمالی ہند کے نام نہاد ہندی علاقے میں انگریزی تعلیم کا معیار بھی بے حد خراب ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اردو اخباروں میں کام کرنے والے مترجمین نہ تو اچھی انگریزی جانتے ہیں اور نہ اچھی اردو ہی۔
دریں اثنا حکومتِ اترپردیش اردو کے تعلق سے اپنی قدیم اردو کُش پالیسی پر قائم ہے۔ اس سلسلے میں سوم آنند لکھتے ہیں:
’’اسی سبب سے مرکزی حکومت کسی نہ کسی حد تک مجبور ہے۔ اردو کو کس طرح جان بوجھ کر اترپردیش میں ختم کیا گیا میں اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ تقریباً بیس برس پہلے مرکزی حکومت نے اترپردیش حکومت کو اپنے یہاں پرائمری اسکولوں کے لیے سات ہزار اردو اساتذہ کی تقرری کا مشورہ دیا... اور یہ بھی کہا کہ ان اساتذہ کی تقرری اور تنخواہ کے اخراجات مرکزی حکومت برداشت کرے گی۔ اسی کے مطابق صوبے کے شعبۂ تعلیم نے ان اساتذہ کی تقرری تو کردی لیکن ان اساتذہ کے اسکولوں میں اردو پڑھانے کے لیے کوئی وقت متعین نہیں کیا گیا اور ان سے کہہ دیا گیا کہ جو بچّہ بھی اردو پڑھنا چاہے وہ اسکول کے وقت کے لیے مقرر کیے گئے وقت سے الگ وقت دے کر اردو پڑھے ، اور اردو کے لیے مقرر کیے گئے ان اساتذہ کو دوسرے مضامین پڑھانے کا حکم دے دیا گیا۔‘‘
سوم آنند کے مضمون سے یہ طویل اقتباس نقل کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیوں کہ میرا خیال یہ ہے کہ آپ میں سے بیش تر حضرات کی نظر سے یہ مضمون نہیں گزرا ہوگا۔
راقم الحروف کے نام اپنے 2اگست 1996 کے خط میں امان اللہ خالد نے اردو اساتذہ کی تقرری سے متعلق جو حقائق پیش کیے ہیں وہ سوم آنند کے ذریعے پیش کیے گئے حقائق سے مختلف ہیں۔ خالد صاحب کا کہنا ہے کہ ’’اصل واقعہ یہ ہے کہ اندرا گاندھی کی ذاتی کوشش سے اترپردیش میں کچھ اساتذہ بھرتی ضرور کیے گئے تھے مگر ان کی تنخواہ صوبائی حکومت کا محکمۂ تعلیم دیتا ہے اور مرکز کو ان سے کچھ لینا دینا نہیں۔‘‘
سوم آنند کا بیان ہے کہ یوپی میں انگریزی اور اردو جاننے والے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اس بیان کی روشنی میں مجھے حیرت اس بات پر تھی کہ ان سا ت ہزار اردو اساتذہ کو اگر واقعی اردو تدریس کا موقع دیا جاتا تو ان میں واقعتاً کتنے لوگ اردو پڑھانے کے قابل نکلتے۔ مجھے اپنے اس تجسّس کا جواب اطہر فاروقی کے مضمون ''URDU EDUCATION IN FOUR REPRESENTATIVE STATES'' جو’’ اکنامک اینڈ پالیٹکل ویکلی‘‘ کے یکم اپریل 1994 کے شمارے میں شائع ہوا ہے، مل گیا۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اترپردیش میں کچھ مقامات پر پرائمری سطح کے اردو ذریعۂ تعلیم کے بلدیاتی اسکول چلائے جاتے ہیں جن کے لیے اساتذہ کی تقرری بھی کی گئی تھی۔ مگر اردو ذریعۂ تعلیم کے ان نام نہاد بلدیاتی اسکولوں میں بھی اردو کی حیثیت بس ایک اختیاری مضمون کی ہوتی ہے۔ اردو اساتذہ کہلانے والے حضرات میں سے بیش تر لوگ اردو ذریعۂ تعلیم کے مفہوم سے بھی واقف نہیں ہیں۔
یوں اترپردیش میں اردو تعلیم کا مطلب ہے صرف ایک مضمون کے طور پر اردو کی تعلیم۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ یوپی میں بیش تر نام نہاد اردو اساتذہ پرائمری درجات کی اردو کتابیں بھی نہیں پڑھ سکتے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ یوپی کے یہ اردو اساتذہ درس و تدریس کے بجاے اپنے ذاتی کاروبار مثلاً کھیتی باڑی اور مویشی پروری وغیرہ کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں اور مہینے میں ایک آدھ بار اسکول کا بھی چکّر لگا آتے ہیں ... اس وقت (جب ان اساتذہ کا تقرر کیا گیا) حالات یہ تھے کہ جو بھی ہائی اسکول پاس مسلمان مل گیا اسی کو اردو استاد کے طور پر بھرتی کر لیا گیا۔ بعد میں انہی لوگوں کو براے نام درسی تربیت دے کر ان کو بلدیاتی اسکولوں میں متعین کر دیا گیا۔ ان اساتذہ کو یہ سہولت بھی مہیّا کرائی گئی کہ وہ اردو کا کوئی اور ینٹل امتحان پاس کرلیں۔ یہ بڑی ستم ظریفی ہے کہ ا س وقت اتنی بڑی مسلم آبادی میں اردو کے ساتھ ہائی سکول پاس مسلم نوجوان کا ملنا ناممکن الحصول کام تھا۔ اس اسکیم کے تحت بھرتی کیے گئے اساتذہ میں آج بھی بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اردو زبان کے حروفِ تہجّی کی بھی شناخت نہیں کرسکتے۔‘‘
اردو کی اس صورتِ حال سے مجھے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اردو داں لوگوں کے درمیان ایسے طبقات اور بھی ہیں (ان عظیم شخصیتوں کے علاوہ جن کو رشید حسن خاں نے لتاڑا ہے) جن کی صلاحیتیں مشکوک ہیں اور ان کو بھی ہدفِ تنقید بنایا جاسکتا ہے۔ اردو میں ایسا ہی ایک طبقہ کاتب حضرات کاہے۔ جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی میں اردو کے سابق استادڈاکٹر اشفاق محمد خاں کا خیال ہے کہ کاتب حضرات کے کارنامے اردو مصنفّین کو بے حد مایوس اور عملی سطح پر پریشان کردیتے ہیں۔ اپنی کتاب ’’مذہب اور سیکولرزم ‘‘ (1994) کے پیش لفظ میں صفحہ 9 پر وہ لکھتے ہیں:
’’اس مرتبہ کاتب حضرات نے مجھے بے حد ستایا۔ ستائے جانے کی ایک طویل داستان ہے جسے بیان کرنے کا یہ محل نہیں ہے۔ البتہ اتنا ضرور کہوں گا کہ آج تک کتابت کی تربیت کے جتنے مراکز قائم ہوچکے ہیں اور ہر سال ان میں سے جتنی تعداد میں کاتب حضرات تربیت پاکر کتابت کے بازار میں داخل ہوتے ہیں اسی قدر مصنّف ، مولف، مرتب حضرات ہمارے لائق کاتبین کی کرامات سے بے حد بیزار اور ستم رسیدہ نظر آتے ہیں۔‘‘
(کاتبوں کے خلاف حد درجہ بڑھی ہوئی اپنی ناراضگی میں ڈاکٹر اشفاق محمد خاں ایسا بیان تک جاری کردیتے ہیں جسے کسی صورت میں تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’جب جہلا کسی فنِ شریف کو صرف اور صرف اپنی روزی کا ذریعہ بنا لیتے ہیں تو پھر وہ نہ ہی فن رہتا ہے اور نہ اس کی شرافت۔‘‘ میرے خیال میں کتابت کو پیشے کے طور پر اختیار کرنے میں کوئی خرابی نہیں ہے اور ایسے متعدد کاتب حضرات گزرے ہیں جنھوں نے اپنے فن میں کمال حاصل کیا تھا)۔
جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ اردو کی ترویج کے لیے ہمیں ہر سطح پر اردو پر دسترس رکھنے والے لوگوں کی تعداد بڑھانے کی بے حد ضرورت ہے۔ اوپر بیان کیے گئے حقائق واضح طور پر میرے اس بیان کی صداقت کے ضامن ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بچوں اور بالغوں دونوں کے لیے اردو کلاسیں بے حد ضروری ہیں ورنہ اردو اساتذہ سے لے کر کاتبوں تک ہر سطح پر ہمارا سابقہ نااہل لوگوں سے پڑے گا۔ اب میں کچھ دوسری باتوں کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
دیوناگری میں اردو:
اردو کی تمام انجمنوں کو خواہ وہ سرکاری امداد یافتہ ہوں خواہ رضاکار ، اس حقیقت کے نتائج پر غور کرنا ہوگا کہ بہت سے اردو بولنے والے لوگ اردو تو جانتے ہیں لیکن وہ اردو رسمِ خط سے واقف نہیں ہوتے۔ وہ لوگ اردو ادب پڑھنے کے بھی خواہش مند ہوتے ہیں لیکن وہ اردو ادب کا مطالعہ اسی وقت کرسکتے ہیں جب وہ دیو ناگری خط میں موجود ہو۔ میری راے میں اردو کے موجودہ تناظر میں سرکاری امداد یافتہ اداروں اور انجمنوں کی یہ پوری پوری ذمے داری ہے کہ وہ اردو کے اہم اور مقبولِ عام مصنّفین کی کتابیں دیوناگری رسمِ خط میں شائع کریں۔ دوسرے لوگوں کی طرف سے پیش رفت کا انتظار ان اداروں کو نہیں کرنا چاہیے۔ اگر یہ ادارے اردو کی ترویج کے واقعی خواہاں ہیں تو پھر انھیں ان محبّانِ اردو کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے جو اردو ادب کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں ، اردو ادب کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں لیکن اردو رسمِ خط سے واقف نہیں ہیں۔
دیوناگری رسمِ خط میں اردو ادب کی اشاعت سے اردو ادب کا حلقۂ قارئین صرف مذکورہ بالا طبقے تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ وہ ہندی داں قارئین بھی اس کی طرف متوجہ ہوں گے جو اردو جانتے تو نہیں ہیں لیکن اردو ادب کے اوصاف سے واقف ہونا چاہتے ہیں۔ میرے خیال میں ہندی داں حضرات کا حلقہ دوسرا بڑا حلقہ ہے جو (اردو داں حضرات کے علاوہ) اردو ادب کا ممکن قاری ہوسکتا ہے۔
ہم سب اس امر سے بہ خوبی واقف ہیں کہ ہندی داں طبقے میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اردو کے سخت اور کھلے مخالف ہیں لیکن یہ خیال غلط ہوگا کہ باقی ہندی داں حضرات کا رویّہ بھی انھیں لوگوں کے رویّے جیسا ہوگا جو اردو کے سخت مخالف ہیں۔ ہندی داں طبقے میں کافی بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو اردو کو اپنی پہلی زبان تو نہیں بنانا چاہتے مگر وہ یہ جاننے میں دل چسپی ضرور رکھتے ہیں کہ معاصر اردو ادب میں کیا کچھ پیش کیا جارہا ہے یا اردو کے کلاسیکی سرمایے میں کیا کیا کچھ موجود ہے۔ یہ بات ہندی اشاعت گھروں سے دیوناگری رسمِ خط میں شائع ہونے والی اردوادب کی کتب کی تعدادِ فروخت سے بہ خوبی ثابت ہوجاتی ہے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہندی کے ناشرین اردو کے بہت سے معروف و مقبول شعرا کا انتخاب دیوناگری میں شائع کر رہے ہیں۔ عصمت چغتائی نے خود مجھے تبایا تھا کہ اپنی عمر کے آخری دور میں ان کی کہانیوں کی اردو میں اشاعت سے قبل ہی دیوناگری میں شائع کرنے کے لیے ناشر مل جاتا تھا۔ امریکا کی وسکونسن یونی ورسٹی کے پروفیسر محمد عمر میمن نے 6 جون1996 کو لکھے گئے اپنے ایک خط میں مجھے اطلاع دی کہ منٹو کے تقریباً سارے افسانے اب دیوناگری میں بھی دستیاب ہیں۔ میرے تجربے کے مطابق اردو کے قائدین ان حالات سے یا تو بے خبر ہیں یا اگر باخبر ہیں بھی تو ان کا رویّہ اس سلسلے میں بے اعتنائی کا رویّہ ہے ... جو یقیناًغلط ہے۔
چھٹے دہے کی ابتدا میں اسکول آف اورینٹل اینڈ افریکن اسٹڈیز کے ایک ہندی داں رفیق کار نے جو اردو سے بھی واقف تھے، میری توجہ کئی جلدوں پر مشتمل ’’شعرو سخن‘‘ نام کی ایک کتاب کی طرف مبذول کرائی۔ یہ دیوناگری رسمِ خط میں اردو شاعری کا ایک جامع انتخاب تھا جس میں ہر صفحے پر حاشیے میں مرتّب نے اپنی دانست میں مشکل اردو الفاظ کے ہندی معنی یا متبادل الفاظ بھی درج کیے تھے۔ اگر میری یادداشت دھوکا نہیں دے رہی ہے توکافی عرصہ پہلے ، غالباً 1958 میں، الہ آباد سے شائع ہونے والا اردو ساہتیہ نام کا ایک مجلّہ دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ اس مجلّے میں معاصر اردو ادب کو دیوناگری رسمِ خط میں شائع کیا گیا تھا اور مشکل الفاظ کی تشریح بھی کی گئی تھی۔حال ہی میں میرے ایک سابق رفیقِ کار ڈیوڈ میتھیوز نے جو اَب بھی اسکول آف اورینٹل اینڈ افریکن اسٹڈیز میں اردو کا درس دیتے ہیں ، اردو شاعری کا ایک انتخاب (آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس ، نئی دہلی 1995) انگریزی ترجمے کے ساتھ شائع کیا ہے۔ یہ ایک ذولسانی کتاب ہے جس میں اُلٹے ہاتھ پر اردو متن اور اس کا انگریزی ترجمہ سیدھے ہاتھ پر دیا گیا ہے۔ ناشر کے مشورے پر ڈیوڈنے اردو متن کو دیوناگری رسمِ خط میں شاملِ کتاب کیا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت بھی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دیوناگری رسمِ خط میں اردو شاعری پڑھنے والے قارئین کا حلقہ اردو رسمِ خط جاننے والے قارئین سے کہیں زیاد وسیع ہے۔
تقریباً سات سال قبل راہی معصوم رضا کا ایک خیال آفریں انٹرویو ’اخبارِنو‘ کے9-15 فروری1990 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ یہ انٹرویو اطہر فاروقی نے لیا تھا جس میں راہی معصوم رضا نے کہا تھا کہ اگر اردو کے کلاسیکی سرمایے کو دیوناگری میں شائع نہیں کیا گیا تو آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے یہ سرمایہ بے معنی ہوجائے گا۔ میں اس پیش گوئی کو بے حد معقول تصوّر کرتا ہوں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے راہی صاحب کا خیال یہ ہے کہ اردو والوں کو اپنا خط ترک کرکے اس کی جگہ دیوناگری رسمِ خط اختیار کر لینا چاہیے۔
اپنے اسی انٹرویو میں راہی معصوم رضا یہ بھی یاد دہانی کراتے ہیں کہ 1945-50میں جب پروفیسر آلِ احمد سرور انجمن ترقی اردو کے جنرل سکریٹری تھے (یہاں راہی معصوم رضا کی یاد داشت خطا کر رہی ہے کیوں کہ سرور صاحب 1956 میں انجمن کے جنرل سکریٹری منتخب ہوئے تھے( تو انجمن نے ایک سرکلر جاری کیا تھا جس میں ایک سوال نامے کے ذریعے یہ مسئلہ اُٹھایا گیا تھا کہ اردو والے اپنا رسمِ خط ترک کرکے دیوناگری رسمِ خط اختیار کرنے کے لیے تیار ہوں گے یا نہیں۔ اس سرکلر میں پوچھا گیا تھا کہ کیا اردو کا رسمِ خط تبدیل کر دیا جائے یا اردو اپنے روایتی رسمِ خط میں لکھی جاتی رہے یا اسے رومن میں لکھنا شروع کردینا چاہیے یا پھر اس کو دیو ناگری رسمِ خط میں لکھا جائے؟راہی آگے کہتے ہیں کہ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ آلِ احمد سرور کی اس تحریک کا کیا انجام ہوا (میرا سوال یہ ہے کہ آپ اس بحث میں کیوں نہیں پڑنا چاہتے؟) امان اللہ خالد مجھے لکھتے ہیں کہ ’’ان کے (آلِ احمد سرور ) ایما پر انجمن اردو کے فارسی رسمِ خط کو دیوناگری میں تبدیل کرنے کی تحریک چلانا چاہتی تھی‘‘ لیکن راہی نے اپنے اس انٹرویو میں اس مسئلے پر روشنی نہیں ڈالی ہے۔
میرا اپنا خیال یہ ہے کہ دیوناگری رسمِ خط اختیار کرنے کے معاملے میں کوئی جبر قطعاً نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی ان لوگوں کی مخالفت بھی نہیں کی جانی چاہیے جو دیوناگری رسمِ خط استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ دیوناگری اور اردو رسمِ خط میں شائع ہونے والی کتب کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی ہونا چاہیے۔ اردو کے قائدین کے لیے یہ شرم کی بات ہے کہ وہ اس نوعیت کے اقدام نہیں کر رہے ہیں۔ ان کو ایسے لوگوں کا احسان مند ہونا چاہیے جن کو وہ اپنا دشمن تصوّر کرتے ہیں۔ لیکن وہی لوگ اردو ادب کو دیوناگری میں شائع کرنے کا کام کررہے ہیں۔
میں جس وقت اپنے اس مضمون کا ایک بڑا حصّہ (جو اَب تک پیش کیا جاچکا ہے) لکھ چکا تب مجھے’’گجرال کمیٹی رپورٹ کی سفارشات کے اختتامیے کا خلاصہ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کے پیرا گراف نمبر 191 کا ایک حصّہ یوں ہے:
’’اردو کتب کو دیوناگری رسمِ خط میں شائع کرنے کے حق میں بڑا مضبوط جواز موجود ہے ... دیوناگری میں شائع ہونے والے اردو شاعروں کے دواوین اور اردو شاعری کے انتخابات ہزاروں کی تعداد میں فروخت ہوئے ہیں۔ ہماری راے میں اس تجربے کو توسیع دے کر فکشن اور طنز و مزاح کو بھی اس میں شامل کر لیا جانا چاہیے۔‘‘
(میں عرض کر چکا ہوں کہ اس’’تجربے‘‘ کو ’’توسیع‘‘ دے دی گئی ہے۔)گجرال کمیٹی کی سفارشات کا جائزہ لینے کے لیے قائم ہونے والی آلِ احمد سرور کمیٹی نے اس سفارش کی حمایت کرتے ہوئے اس میں یہ بات بھی شامل کی کہ ’’حکومتِ ہند کو اس مقصد کے حصول کے لیے اس مد میں کچھ رقم بھی مختص کردینا چاہیے‘‘ (سفارش نمبر84) سردار جعفری کمیٹی نے بھی ان سفارشات کی حمایت کی۔ یہ سفارشات مستحسن بھی ہیں۔ ضرورت یہ معلوم کرنے کی ہے کہ کیا حکومت یا پھر اردو کی ترویج کے لیے قائم کیے گئے اداروں نے ان سفارشات کا کوئی نوٹس لیا ہے۔ ان تینوں کمیٹیوں میں سے تیسری کمیٹی کے چےئرمین علی سردار جعفری نے کافی عرصہ پہلے غالبؔ اور میرؔ کے دواوین دیوناگری رسمِ خط میں شائع کرکے ایک قابلِ تعریف اقدام کیا تھا لیکن نہیں معلوم کہ اس اقدام کے بعد اردو کیمپ سے کیا کسی اور نے بھی اسی طرح کا کوئی کام شروع کیا ہے یا نہیں۔ گو مجھے اس کا علم نہیں لیکن میرا قیاس یہ ہے کہ دیوناگری میں ایسی کتب ضرور شائع ہوئی ہوں گی۔
کچھ عرصہ پہلے 1990 میں اسٹرلنگ پبلشرز ، دہلی نے کے.سی. کانڈا کی ایک کتاب شائع کی تھی جس کا عنوان تھا:
''Masterpieces of Urdu Ghazal from the Seventeenth to the Twentieth Century"
اس کتاب کااڈیٹر ا س امر سے واقف تھا کہ ہر شخص اردو رسمِ خط نہیں پڑھ سکتا ہے۔ ا س لیے اس کتاب کی ترتیب میں اس نے ڈیوڈمیتھیوز سے مختلف طریقِ کار اختیار کیا۔ اس کتاب میں شاعری کا متن اردو رسمِ خط میں بائیں طرف اور دائیں طرف کے صفحے پر اس کا انگریزی ترجمہ اور پھر اردو متن کو رومن رسمِ خط میں درج کیا گیا ہے۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انھوں نے اسی طرح کے دو مجموعے اور ترتیب دیے ہیں:
Masterpieces of Urdu Rubaiyat اور Masterpieces fo Urdu Nazm ان تمام مثالوں سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ اردو شاعری ان لوگوں کو بھی اپیل کرتی ہے جو اردو رسمِ خط تو نہیں جانتے لیکن اگر انھیں اردو شاعری کسی ایسے رسمِ خط میں ملے جسے وہ پڑھ سکتے ہیں تو پھر وہ اس کے مطالعے میں دل چسپی لیتے ہیں۔
اردو ادب کو ممکنہ حد تک دیوناگری میں مہیّا کرانے کا لازمی نتیجہ جس کی بے حد ضرورت بھی ہے، یہ ہوگا کہ فسطائی ہندی قوّتوں کی ان کوششوں کو جو جدید ہندی میں سے نام نہاد غیر ہندی عناصر کو ختم کرنا چاہتے ہیں، کاری ضرب پہنچے گی۔
انگریزی ہفت روزہ’’مین اسٹریم ‘‘ کے سالنامے (1992) میں شائع شدہ اپنے ایک مضمون Future Prospects of Urdu in India میں اطہر فاروقی نے اسی طرح کی ایک غیر حقیقت پسندانہ راے ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ اگر مستقبل میں کبھی اردو دیوناگری رسمِ خط میں لکھی جانے لگی تو درحقیقت اردو اور ہندی کے درمیان امتیاز ختم ہوجائے گا۔‘‘یہ بات بالکل غلط ہے۔ حالات جس نہج پر پہنچ گئے ہیں وہاں اس خدشے کی کوئی گنجائش نہیں کہ اگر اردو دیوناگری رسمِ خط میں لکھی جائے گی تو دونوں زبانوں کے درمیان موجود حدِ فاصل معدوم ہوجائے گی۔دیوناگری رسمِ خط میں لکھی جاکر بھی اردو ہر حال میں اردو ہی رہے گی اور ہندی ہندی ہی رہے گی کیوں کہ ادبی سطح پر دونوں زبانوں نے اپنے آپ کو پہلی جنگِ عظیم سے قبل یعنی تقریباً اسّی سال پہلے ہی دو الگ اور مختلف بالذات زبانوں کے طور پر مستحکم کر لیا تھا۔ اسی زمانے میں اردو کو چھوڑ کر ہندی کی طرف پریم چند کی مراجعت اس کا واضح ثبوت ہے۔ اگر اردو کو دیوناگری میں لکھا بھی گیا تو اس سے ہندی زبان کو ان اردو الفاظ کو اپنے ذخیرۂ لغت میں شامل کرنے میں مدد ملے گی جن کو ختم کرنے کی کوششیں ہندی فسطائی قوّتیں کرتی رہی ہیں مگر ان کی تمام کوششوں کے باوجود وہی ذخیرۂ الفاظ دونوں زبانوں کا مشترکہ اثاثہ ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک اور معقول جواز ہے جو اردوقائدین کی عملی طور پر اردو ادب کو دیوناگری میں بھی شائع کرنے کی وکالت کی دلیل کو استحکام بخشتا ہے۔
اردو اور انگریزی:
اردو ادب کی دوسری زبانوں میں اشاعت کی (تجویز)مجھے اردو ادب کے شائقین کے ایک اور حلقے کے بارے میں غور کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ یہ حلقہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جن کی اردو ادب تک رسائی صرف انگریزی زبان کے ذریعے ہی ہوسکتی ہے۔ آپ میں سے کافی حضرات واقف ہوں گے کہ اردو ادب سے متعلق میرا کام اسی میدان میں ہے اور پروفیسر خورشید الاسلام کے ساتھ مل کر میں نے دو کتابیں تالیف کی ہیں۔ پہلی کتاب 'Three Mughal Poets' ہے جس میں میرؔ ، سوداؔ ، اور میر حسنؔ کو شامل کیا ہے۔جب کہ دوسری کتاب'Ghlib: Life and Letters' میں غالبؔ کی نمائندہ تحریروں کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ کتاب غالبؔ کے صرف اردو اور فارسی خطوط ہی نہیں بلکہ حالیؔ کی ’’یادگارِ غالبؔ ‘‘ کے متعدد اقتباسات پر بھی مشتمل ہے۔ یہ کتابیں کافی عرصہ پہلے 1968 میں شائع ہوئی تھیں۔ جب خورشید الاسلام صاحب اور میں ان کتب پر کام کر رہے تھے تو ہمارا خیال تھا کہ ان کتابوں کا بیش تر قاری انگریزی بولنے والی دنیا یعنی برطانیہ ، شمالی امریکہ اور آسٹریلیا وغیرہ میں ہوگا۔ لیکن گذشتہ برسوں میں یہ ثابت ہوا کہ برِ صغیر میں بھی ان کتابوں کے قارئین کی تعداد انگریزی بولنے والی دنیا کے قارئین کے مقابلے کہیں زیادہ ہے کیوں کہ برِّ صغیر کے ان لوگوں کے لیے اردو ادب تک رسائی صرف انگریزی زبان کے ذریعے ہی ممکن ہے کیوں کہ یہ لوگ اردو کے ساتھ ساتھ دیوناگری رسمِ خط یا اردو ہندی زبانوں سے بھی ناواقف ہیں۔ اس کا ثبوت اس بات سے بھی فراہم ہوتا ہے کہ ایک دوسال قبل آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس، نئی دلّی نے ان کتابوں کی مکرّر اشاعت کی تھی اور نئے اڈیشن ہندستان میں ہی کافی بڑی تعداد میں فروخت ہوئے۔ میرے اس خیال کی تائید مزید اس بات سے بھی ہوتی ہے جو مجھے ڈیوڈ میتھیوز نے ہندستان کے ایک اشاعتی ادارے روپا اینڈ کمپنی کے تعلق سے بتائی کہ وہ لوگ اردو ادب کے انگریزی تراجم شائع کرنے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ روپا اینڈ کمپنی نے میر انیس کا مشہور مرثیہ ’’جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے‘‘ ، جسے ڈیوڈ میتھیوز نے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے، 1994 میں شائع کیا تھا۔ انگریزی میں اس کتاب کو 'The Battle of Karbala' عنوان دیا گیا ہے۔
حالاں کہ اردو ادب کے دیگر زبانوں میں تراجم اور اشاعت سے متعلق گفتگو کرنا اصل موضوع یعنی ’’آزادی کے بعد اردو زبان اور تعلیم کے مسائل‘‘ سے بہ ظاہر ایک انحراف محسوس ہوتا ہے لیکن واقعتا ایسا نہیں ہے۔ انگریزی میں مترجمہ اردو ادب کے وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے قارئین کے وجود کو محسوس کرنا تنہا پبلشر تک محدود نہیں ہے بلکہ آج کے معاشرتی نظام کے کچھ مطالبات بھی ایسے ہیں جنھوں نے اس قسم کے تراجم کی راہ ہموار کی ہے۔ مثلاً مغرب میں تحریکِ نسائیت اور نسلی تعصب کے خلاف تحریکوں کے زور پکڑنے کے بعد بیش تر معروف اشاعتی ادارے خوف زدہ ہیں کہ کہیں اپنے کسی اقدام سے وہ بھی تحریکِ نسائیت اور نسلی تعصّب کے خلاف تحریک کی مخالف اقدار کے حامیوں کی صف میں شامل نہ ہوجائیں۔ ان کے اس خوف کا ایک دل چسپ نتیجہ یہ ہوا کہ اگر آپ ایک ایشیائی خاتون ہیں ، اچھی انگریزی جانتی ہیں اور اردو سے انگریزی میں ترجمہ کرسکتی ہیں تو پھر یہ آپ کے لیے سنہری موقع ہے کیوں کہ برطانیہ اور امریکہ میں ناشر فوراً آپ کے تراجم شائع کرنے کے لیے تیار ہوجائے گا،خصوصاً تب جب آپ کے تراجم خواتین کی تحریروں پر مشتمل ہوں۔ شاید آپ کو معلوم ہوگا کہ گذشتہ دنوں میں اس طرح کے تراجم (مثلاً عصمت چغتائی کے انگریزی تراجم) بہ کثرت شائع ہوئے ہیں۔ حالاں کہ یہ تمام گفتگو موضوع سے براہِ راست متعلق نہیں ہے لیکن اتنی تفصیل میں جانے کا سبب صرف یہ ہے کہ میں اس نکتے کو پیش کرنا چاہتا تھا حالاں کہ یہ سب محض اتفاقی اسباب ہیں جن کا اردو ادب کی اہمیت سے براہِ راست کچھ لینا دینا نہیں لیکن اس قسم کے اتفاقات اردو ادب کے قارئین کے حلقے کو وسیع ضرور کرتے ہیں اور ہمیں ایسے مواقع کا فائدہ اُٹھانے سے چوکنا نہیں چاہیے۔
انگریزی کے ذریعے اردو ادب پڑھنے والے قارئین کا ایک اور حلقہ ان اردو بولنے والے لوگوں کی دوسری اور تیسری نسل پر مشتمل ہے جو انگریزی بولنے والے علاقوں میں آکر بس گئے تھے۔ آپ میں سے بیش تر حضرات کو یہ علم ہوگا کہ برطانیہ اور شمالی امریکا میں یہ لوگ کافی بڑی تعداد میں اور یوروپ کے کچھ ممالک میں نسبتاً کچھ کم تعداد میں موجود ہیں۔ اس سیاق و سباق میں یہ بات بھی اہم ہے کہ آج انگریزی کے ذریعے اردو ادب پڑھنے والوں کی تعداد تیس چالیس سال قبل کے اس دور کے مقابلے کہیں زیادہ ہے جب خورشید الاسلام اور راقم الحروف نے مل کر ا س میدان میں کام کرنا شروع کیا تھا۔ آپ کو شاید علم ہوگا کہ 1986 میں ہندستان میں The Penguin Book of Modern Urdu Poetry محمود جمال نے جس کا انتخاب اور ترجمہ کیا تھا، شائع ہوئی تھی۔1989 میں پینگوئن ہی نے غالبؔ پر پون کے. ورما کی کتاب 'Ghalib: The Man, The Times' شائع کی تھی۔ فیضؔ کے بھی بہت سے تراجم ، جن میں سے ایک آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس نے بھی ماضی قریب میں شائع کیا ہے، اب تک شائع ہوچکے ہیں۔ بہر حال اس ساری بحث سے میرا عندیہ یہ ہے کہ وہ ادارے جو اردو کی ترویج و ترقی کے لیے کسی بھی طرح کی تشویش میں مبتلا ہیں ان کو صرف اردو رسمِ خط جاننے والے قارئین ہی پر توجہ نہیں دینا چاہیے۔ (جن پر کہ اب تک وہ دیتے رہے ہیں) بلکہ ان سارے قارئین کے بارے میں بھی غور کرنا چاہیے جن کا ذکر میں مندرجہ بالا سطور میں کرچکا ہوں۔ اگر آپ اس حقیقت کو تسلیم کرلیتے ہیں تو پھر دیگر تفصیلات کا لائحۂ عمل آپ ہی کو مرتّب کرنا ہوگا۔ لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اردو کے سرکاری و نیم سرکاری ادارے مثلاً انجمن ترقی اردو اور ترقی اردو بیورو وغیرہ جو کچھ کر رہے ہیں اس میں تھوڑی سی، مگر جامع تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ایسے رضاکار اداروں، اشاعت گھروں اور دیگر اداروں کوجو اردو کی ترویج کے لیے کام کر رہے ہیں، ضرورت پڑنے پر ہر قسم کی امداد جس میں یقیناً مالی امداد بھی شامل ہے فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے توقع ہے جو حضرات بھی اس نوعیت کے کسی ادارے سے کسی بھی حیثیت سے وابستہ ہیں اور ان اداروں پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کرسکتے ہیں، میری تجویز پر سنجیدگی سے غور فرمائیں گے اور اس سلسلے میں ایسی تفصیلات کا خاکہ مرتّب کریں گے جن کے نفاذ سے مثبت نتائج برآمد ہوسکیں۔
کچھ تنقید:
جس مواد کی بنیاد پر میں نے یہ مقالہ تحریر کیا ہے اس مواد کا بجاے خود تنقیدی جائزہ لینا بھی معروضیت کے نقطۂ نظر سے ضروری ہے۔مجھے امید ہے کہ میری اس جسارت سے آپ کبیدہ خاطر نہیں ہوں گے۔ میں یہ تنقید اس لیے بھی کر رہا ہوں کیوں کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان اغلاط کی (ان کو میں کم از کم اغلاط ہی تصوّر کرتا ہوں خواہ وہ رویّے کی ہوں یا نقطۂ نظر کی یا پھر لائحۂ عمل کی) تصحیح کر لینے سے اردو کے حقوق کے لیے جد و جہد کو بہر حال تقویت حاصل ہوگی اور ان لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا جو اردو کے فروغ کے مقاصد اور اس کی ترویج کی تحریک میں شمولیت اختیار کرنے کے خواہاں ہیں۔
میں اپنی اختلافی راے کا اظہار وحید الدین خاں کے اس اقتباس سے کرنا چاہتا ہوں جو ان کے مضمون Muslims and the Press کا جزو ہے۔ یہ مضمون لاہور کے انگریزی روز نامے دی نیشن میں 9جولائی 1993 میں شائع ہوا تھا۔ اس میں وحید الدین خاں لکھتے ہیں:
’’مجھے اصل شکایت نیشنل پریس سے نہیں بلکہ خود مسلمانوں کے اخباروں سے ہے۔ آج کے زمانے میں مسلمانوں کے تمام اخبارات احتجاج و شکایت اور قوم کے زخموں کی تجارت کر رہے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ زمانے کی مسلم صحافت عملاً صرف احتجاجی صحافت ہے جو کسی بھی طرح سے تعمیری صحافت نہیں ہے۔ مسلم صحافت کا اصل مسئلہ یہی ہے ۔ میں یہ کہنے کی اجازت چاہوں گا کہ جب مسلمانوں کا دانش ور طبقہ خود بھی کسی مثبت فکر سے بے بہرہ ہے تو پھر وہ عام مسلمانوں میں تعمیری شعور یا مثبت فکر پیدا کرنے کا کام کیوں کر کرسکتا ہے؟ مسلمانوں کے اخبار آج کیا کر رہے ہیں؟ وہ مسلمانوں کویہ یقین دلانے میں مصروف ہیں کہ تم ایک مظلوم اور محروم اقلیت ہو اور تمہارے لیے اس ملک میں جینے اور ترقی کرنے کے تمام راستے بند ہوچکے ہیں۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں مسائل اور مواقع دونوں ہی موجود ہیں۔ اس لیے صحیح اور درست شعور یہ ہے کہ آپ مسائل کے درمیان موجود پوشیدہ مواقع کو تلاش کریں اور لوگوں کو اس بات کی طرف متوجہ کریں کہ وہ مسائل کو نظر انداز کر کے مواقع کا فائدہ اُٹھائیں۔ صحیح فارمولا یہی ہے کہ ’’مسائل کو دباؤ اور موقع سے فائدہ اُٹھاؤ۔‘‘
مولانا آزاد فاؤنڈیشن کی وساطت سے مجھے جو مواد حاصل ہوا اس کی عام روش اسی تصویر کی عکّاسی کرتی ہے جو مندرجۂ بالا سطور میں مصنّف نے پیش کی ہے اور میں اس بارے میں وحیدا لدین خاں کے خیالات کی مکمل تائید کرتا ہوں ۔ میں یہ بھی عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھ سے جس طرح کا مضمون لکھنے کی فرمائش کی گئی تھی اس کے لیے اس سے کہیں زیادہ معلومات فراہم کرانے کی ضرورت تھی جو واقعتاً مجھے فراہم نہ ہوسکیں۔ حالاں کہ بعد میں مجھے ایسی بہت سی معلومات جن کی ابتداً ضرورت تھی، اطہرفاروقی کے اس مضمون سے فراہم ہوئیں جو آسٹریلین جرنل ’’ساؤتھ ایشیا‘‘ نے دسمبر 1995 کے شمارے میں شائع کیا تھا۔( اطہر فاروقی کا یہ مضمون بھی دراصل 30 مئی 1993 میں منعقد ہونے والے سمینار بہ عنوان ’’ہندستانی مسلمان اور پریس ‘‘ میں پڑھا گیا تھا)۔ مثال کے طور پر انگریزی روزنامے ہندستان ٹائمز، نئی دلّی، 10جنوری 1990کے اپنے شمارے میں خبر شائع کرتا ہے کہ اردو کا ایک روز نامہ دیوناگری رسمِ خط میں بھوپال سے اپنی اشاعت کا آغاز کر رہا ہے مگر اس خبر کے بعد مجھے اس سے متعلق کہیں سے کوئی تفصیلات دستیاب نہ ہوسکیں۔ یہ اخبار کب شروع ہوا، ہوا بھی یا نہیں، اس کے ناشر یا مدیر کون لوگ ہیں یا تھے اگر اشاعت شروع ہوئی تو اس کا سرکولیشن کیا ہے،اگر اخبار شروع ہوکربند ہوچکا ہے تو کب اور کیوں ،جیسے بہت سے سوال میرے ذہن میں ہیں جن کا کوئی جواب میرے پاس نہیں ہے۔ اس صورتِ حال میں اردو صحافت پر کوئی تبصرہ کرنا ممکن نہیں۔
مجھے انگریزی اور اردو پریس سے متعلق جو بھی تراشے فراہم کرائے گئے ان سب ہی میں اردو کے ساتھ روا رکھی گئی ناانصافیوں ہی کے بیان کی کثرت ہے۔ اردو اخبارات میں اردو سے متعلق شائع ہونے والی تحریروں کے جو تراشے ہیں اور ان میں جو کچھ حقائق پیش کیے گئے ہیں وہ پوری طرح درست ہیں۔ یہ قبول کرنے میں مجھے کوئی تکلّف نہیں ۔ اسی لیے میرے اس مضمون کا بیش تر حصّہ ان ہی حالات کا احاطہ کرتا ہے آزادی کے بعد اردو جن سے دوچار رہی۔ مگر پھر بھی یہ حالات کی مکمل اور صحیح تصویر نہیں ہے۔
اردو کے مسائل کی جو تصویر ان تحریروں میں پیش کی گئی ہے ان میں تاریخ کے حوالے سے حقائق کو مسخ کرکے پیش کیا گیا ہے۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ اردو کے حامیوں نے اپنی تحریروں میں بے ایمانی سے کام لیا ہے۔
آزادی کے بعد اردو زبان او رتعلیم کے مسائل سے متعلق میں نے اب تک جتنا کچھ مطالعہ کیا ہے اس میں اطہر فاروقی کا پی. ایچ ڈی کا مقالہ شاید سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ اردو کے مسائل کو پیش کرتا ہے مگر اردو کے حق میں مسائل کی شکل مسخ کرکے پیش کرنے کا سب سے زیادہ کام بھی انھوں نے ہی کیا ہے اور سیاق و سباق میں، میں انھیں سب سے زیادہ خطاوار تصوّر کرتا ہوں۔ ہندی اور ہندو شاونسٹوں پر ان کے اعتراضات جائز تو ہیں مگر ہندستان کے سیاسی اور تہذیبی منظر نامے ہندی اور ہندو شاونسٹوں کو اہمیت دینے کے معاملے میں وہ حد سے تجاوز کر گئے ہیں۔ اطہر فاروقی صاحب (دیگر مصنّفین بھی) دوسری طرف مسلمانوں کے اردو داں طبقے کے اس رویّے کے بارے میں ایک دم خاموش ہیں جو ہندی اور ہندو شاونزم ہی کی طرح خطرناک اور کہیں زیادہ طویل عرصے پر محیط ہے۔ اطہر فاروقی نے اپنی تحریروں کے ذریعے یہ تاثّر عام کرنے کی کوشش کی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جتنے بھی الزامات لگائے جاتے ہیں وہ یک سر غلط ہیں۔مثال کے طور پر وہ بار بار یہ تاثّر دیتے ہیں کہ تقسیم کے بعد ہندستان میں رہ جانے والے مسلمان کو پاکستان کے مطالبے سے کسی قسم کی کوئی ہم دردی نہیں تھی، اس لیے، ان کے خلاف ہندوؤں کا تعصّب غلط او رناجائز ہے۔میرے تجربے کے مطابق یہ تصویر کا صرف ایک رُخ ہے۔ تقسیم کے بعد ہندستان میں سکونت اختیار کرنے والے مسلمانوں میں سے بہت سے لوگ پاکستان نہیں گئے تو اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ وہ پاکستان جانا نہیں چاہتے تھے بلکہ دراصل یہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی سبب سے ہندستان میں رُکنے پر مجبور ہوگئے تھے ۔ ان حقائق کی پردہ پوشی نہیں کی جانی چاہیے تھی کیوں کہ یہ حقائق کسی بھی طرح اس دلیل کو کم زور یا کالعدم نہیں کرتے کہ مسلمان ہندستان میں مساوی حقوق کے یقیناً اتنے ہی حق دار ہیں جتنے ہندستان کے دیگر شہری۔
بیش تر مصنّفین جو اردو کے مسائل پر لکھتے ہیں وہ اردو والوں کے فسطائی رویّے کو پوری طرح نظر انداز کرنے کا کام بھی کرتے ہیں ۔ مثلاً دی نیشن لاہور میں 8 جولائی1994 میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں شمس الرحمن فاروقی مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کی شکست ، بنگلہ دیش کے قیام اور اس کے نتیجے میں بہاریوں کے ہندستان میں تیزی سے داخل ہوکر آباد ہونے کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب ان لوگوں نے ہندستان میں رہنے کا قطعی فیصلہ کر لیا ہے۔ وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ بہاریوں میں ایسے حبِّ وطن کے جذبے کے دوبارہ عود کر آنے کا سبب کیا ہے۔ حالات کی یہ بے حد غلط تصویر کشی ہے۔ بنگلہ دیش سے اردو داں بہاری اس لیے بھاگے کیوں کہ بنگلہ دیش کے اکثریتی فرقے کی آبادی یعنی بنگالی مسلمان ان سے اس لیے نفرت کرتے تھے کیوں کہ انھوں نے مغربی پاکستان کے جابر اور ظالم لوگوں کی حمایت کی تھی۔ بنگالی مسلمانوں کی یہ نفرت جائز تھی۔بنگالی مسلمانو ں پر پاکستانی فوج کے خوف ناک مظالم کے دور میں ہمہ وقت بہاری مسلمانوں نے مغربی پاکستان کی حمایت کی تھی۔اطہر فاروقی بھی ان تمام مظالم کے بارے میں تو مکمل طور پر خاموش ہیں مگر صرف ہندستان کی ’’جارحیت‘‘ کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اگر مسلمان مغربی پاکستان (اب صرف پاکستان) نہیں گئے تو اس کا سبب ان کی ہندستان سے والہانہ محبت نہیں بلکہ کچھ او ر ہے۔ پاکستان کو اب شمالی ہند کے ان مسلمانوں کی قطعی ضرورت نہیں تھی۔یہاں ان کا مقدّر مشرقی افریقی ہندستانیوں جیسا ہی تھا کہ وہ افریقہ کی اکثریتی آبادی پر مظالم کرنے والے برطانوی جابروں کے حلیف بنے اور انھوں نے افریقی دشمنی کے خوب خوب انعام حاصل کیے لیکن جب آزادی کا موقع آیا تو ان کی افادیت ختم ہوگئی۔ اس لیے ان کے برطانوی آقاؤں نے انھیں ان کی تقدیر کے حوالے کردیا۔ اس مثال میں ’بہاری‘ مشرقی افریقی ہندستانی کی علامت ہے اور ’’مغربی پاکستانی‘‘انگریزوں کی اور ’’بنگالی‘‘ افریقیوں کی تمثیل ہے۔ جن مصنّفین نے بھی اردو کے مسائل پر لکھا ہے انھو ں نے اترپردیش حکومت کو ہندی کو صوبے کی واحد سرکاری اور دفتری استعمال کی زبان بنانے کے لیے بالکل صحیح ہدفِ تنقید بنایا ہے مگر اسی منطق کی رو سے انھیں جموں اور کشمیر کی حکومت کو بھی اردو کو صوبے کی واحد سرکاری زبان بنانے کے لیے اسی شدو مد سے تنقید کا ہدف بنانا چاہیے تھا۔
’’مین اسٹریم‘‘ کے 1988 کے سال نامے میں سید شہاب الدین اپنے مضمون "Status of Urdu in India" میں ا س طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اردو صوبے (جموں و کشمیر ) کی سرکاری زبان اور ذریعۂ تعلیم ہے جب کہ اسے کل آبادی کے ایک بہت چھوٹے حصّے نے اپنی گھریلو زبان کے طور پر 1971 یا 1981 میں قبول کیا ہے جب کہ وہاں کی بیش تر آبادی کشمیری، ڈوگری یا ہندی کو اپنی زبان سمجھتی ہے۔‘‘
لیکن میں نے کبھی کسی مسلمان کو اس سوال پر کوئی مناسب موقف اختیار کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔
اردو کے متعلق اپنی تحریروں میں اطہر فاروقی نے اس دلیل کو کثرت سے (کبھی واضح طور پر اور کبھی بالواسطہ) دُہرایا ہے کہ وہ اردو داں حضرات جو کانگریس کی حمایت کرتے ہیں یا سرکاری امداد یافتہ انجمنوں سے کسی بھی حیثیت سے وابستہ ہیں، انھوں نے خود کو اردو دشمنوں کے ہاتھوں ’’فروخت کردیا ہے۔‘‘ بلاشبہ ان میں سے کچھ لوگوں نے ایسا کیا ہے لیکن یہ ایک بہت ہی سطحی تصویر کشی ہے۔ اطہر فاروقی نے ان مسلمانوں کو خصوصاً ہدفِ تنقید بنایا ہے جو حصولِ آزادی کی لڑائی کے زمانے ہی سے کانگریس سے وابستہ تھے اور آزادی کے بعد ہی اردو کے محاذ پر سرگرمِ عمل ہوئے۔ ان لوگوں کے خلاف ان کا لہجہ ناجائز اور غلط ہے۔ حیات اللہ انصاری کے بارے میں اسی قسم کا لہجہ اختیار کرتے ہوئے وہ لاہور کے روزنامے دی نیشن کے 15 جولائی 1994 کے شمارے میں یہ بیان دیتے ہیں کہ’’انھو ں نے اردوکا نعرہ تو لگایا لیکن واقعتاً انھیں مسلمانوں اور اردو کی فلاح سے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔‘‘ اسی جملے میں آگے وہ لکھتے ہیں کہ:
’’ذاکر حسین صاحب نے بیس لاکھ دستخطوں کی جو تحریک شروع کی تھی اسے انتہائی غیر حقیقی اور حالات سے فرار اختیار کرنے والی تحریک تصوّر کرتا ہوں۔ اسی لیے قدرتی طور پر اس تحریک کا کوئی نتیجہ بھی نہیں نکلا۔‘‘
’’انتہائی حقیقی اور فرار اختیار کرنے والی تحریک ‘‘ کا استعمال کیوں؟ اس سے ان کی مراد کیا ہے؟ ’’قدرتی طور پر‘‘ کس لیے؟ یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ دستخطوں کی اس تحریک کے وہ نتائج برآمد نہیں ہوئے جو مقصود تھے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اس کی کوئی افادیت نہیں تھی۔
اب میں وحیدالدین خاں کے مضمون کے اس اقتباس ،جس کا میں حوالہ دے چکا ہوں ،کے نتائج کی طرف لوٹتا ہوں۔ ان کا مشورہ ہے ’’مسائل کو دباؤ اور موقع کا فائدہ اُٹھاؤ‘‘ یعنی وہ حقائق پیدا کرو جن سے اردو کے مفاد کو مدد ملے۔ ایسے تین حقائق بے حد اہمیت کے حامل ہیں۔ اوّل یہ کہ ہندی شاونسٹوں کی تمام کوششوں کے باوجود بھی روز مرہ کی ترسیل کی زبان (لنگوافرینکا) اب بھی وہی ہے جو آزادی سے پہلے تھی، جو اتنی ہی ہندی ہے جتنی کہ وہ اردو ہے۔ ا س امر کا ثبوت ماضی قریب میں 1989 میں شائع ہونے والی ایک کتاب "Teach Yourself Hindi" ہے۔ اس کتاب کے آخر میں پیش کیے گئے الفاظ کی فرہنگ میں ایک صفحے پر 73 الفاظ میں سے 54 الفاظ اسی نوعیت کے ہیں اور زیادہ سے زیادہ 18 الفاظ ایسے ہیں جن کوشاید اردو بولنے والے لوگ نہ سمجھ سکیں۔ دوم ، مقبول ترین نام نہاد ہندی(؟) فلموں کو اسی طرح مکمل طور پر اردو فلمیں کہاجاسکتا ہے جس طرح انھیں ہندی کی ترویج کے سبب ہندی فلمیں کہا جانے لگا ہے۔ گجرال کمیٹی رپورٹ کے اختتامیے کی تلخیص کے پیراگراف نمبر 140 میں ٹھیک ہی کہا گیا ہے کہ’’ فلموں کا بڑا کنٹری بیوشن یہ ہے کہ انھوں نے ہندی اور اردو کے درمیان کسی دیوار کو کھڑے ہونے نہیں دیا ہے۔ ‘‘صرف یہ دونوں حقائق ہی اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ عام بول چال کی اردو ایک ایسی زبان ہے جسے کروڑوں ہند ستانی بہ مع غیر مسلم حضرات بھی سمجھ سکتے ہیں۔ سوم یہ کہ اردو ادب خصوصاً اردو شاعری میں دل چسپی رکھنے والے ایسے لوگ بھی بہت بڑی تعداد میں ابھی تک موجود ہیں جو اردو رسمِ خط سے واقف نہیں ہیں مگر ادبی زبان کو کچھ نہ کچھ سمجھتے ہیں۔ اسی لیے مجھے اطہر فاروقی کے اس بیان سے کہ اردو اب لازمی طور پر صرف مسلمانوں کی زبان ہے، اختلاف ہے۔ ان کے اس بیان میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اردو ہمیشہ سے ہی (لازمی طور پر) مسلمانوں کی زبان تھی۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ آزادی سے قبل وہ غیر مسلم اردو داں حضرات کے کہیں زیادہ بڑے طبقے کی زبان تھی۔ اس نکتے پر میرا اطہر فاروقی سے بنیادی طورپرکوئی اختلاف نہیں ہے لیکن میں نے جن مثبت حقائق کا ذکر کیا ہے ان کی روشنی میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے جو مسلسل یہ جتایا جائے کہ درحقیقت اردو داں طبقہ اور مسلمان فرقہ ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ اس طرح کا دباؤ دراصل اس اہم بات کو دھندلا دیتا ہے کہ مسلمانوں کے حقوق اور اردو کی ترویج کی حفاظت کے لیے صرف اکیلے مسلمان ہی ذمّے دار نہیں۔ مسلمانوں کے حقوق اور اردو کی ترویج کی باتیں ان تمام لوگوں کے لیے غور و فکر کا موضوع ہیں جو آزاد ہندستان کے اعلان شدہ نصب العین کو برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں۔ مسلمانوں کو بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ ایسے لوگوں تک رسائی حاصل کریں اور ان کے ساتھ مل کر ا س مشترکہ نصب العین کے حصول کے لیے کام کریں۔
(سہ ماہی ’ادیب‘، جامعہ اردو علی گڑھ ، ۱۹۹۹)
1 تبصرہ:
ماشاءاللہ بہت عمدہ اور معلوماتی مضمون ہے۔ مکمل طور پر جراحی کا کام کیا ہے۔ایسی ہی غیر جانبدارانہ تخلیقات کی ضرورت ہے جو ہر شعبے کو اس کے اصل چہرے کے ساتھ لوگوں پر عیاں کرے۔۔۔۔۔
جزاک اللہ خیرا
ایک تبصرہ شائع کریں