سعادت حسن منٹو کے دو مضامین'عصمت فروشی' اور 'لوگ اپنے آپ کو مدہوش کیوں کرتے ہیں' دو بہت متنازعہ قسم کے موضوعات پر لکھے گئے مضامین ہیں۔میں منٹو کی تحریروں کا عاشق ہوں، اسے پڑھتے وقت مجھے جو خوشی محسوس ہوتی ہے، وہ بیان سے باہر ہے۔لیکن اس کی اصل وجہ منٹو کی صاف گوئی ہے، وہ بغیر جھجھک کے اپنی بات کہتا ہے ۔حالانکہ ان دونوں مضامین میں سے موخرالذکر کا موقف ، اس کی اپنی زندگی کے انجام کی جانب بھی ہمارا دھیان لے جاتا ہے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ منٹو کی موت کن وجوہات کی بنا پر ہوئی، ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کتنی ایسی باتیں ہم کو کہنا سکھائی تھیں، جن کو صرف ایک سچا اور بے باک لکھنے والا ہی بیان کرسکتا ہے۔سچ ، سب سے پہلے اپنے بارے میں بیان کیا جانا بہت ضروری ہے۔یہ جاننا ضروری ہے کہ دوسروں کو کچھ بتانے یا ان کی کردارکشی کرنے سے پہلے ہم اپنی ذات کو کس قدر کھنگال سکے ہیں، منٹو نے تو اپنا خاکہ کھینچتے وقت ذات کی کھرچنوں کو بھی نہیں چھوڑا۔لیکن اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کو خود کی تعریف یا خود پر تنقید کروانے کے لیے کسی دوسرے کی ذات کا سہارا نہیں لینا پڑتا، اس کے لیے اپنی سطریں ہی کافی ہوتی ہیں۔عصمت فروشی پر لکھا گیا اس کا مضمون مکمل طور پر ہماری سوسائٹی اور اس کے دوہرے رنگ پر طمانچہ ہے۔وہ ان عورتوں سے ہمدردی کا تقاضہ نہیں کرتا، بلکہ انہیں ان کا حق دیے جانے کا مطالبہ کرتا ہے۔جس طرح وہ بتاتا ہے کہ خود کو مدہوش کرنے والے(جن میں وہ خود بھی شامل ہے) اپنی ضمیر کی آواز کو دبانے کے لیے کیوں ایسا کرتے ہیں اور کون سے عوامل انہیں ایسا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔شکریہ(تصنیف حیدر)
عصمت فروشی
عصمت فروشی کوئی خلاف عقل یا خلاف قانون چیز نہیں ہے۔ یہ ایک پیشہ ہے جس کو اختیار کرنے والی عورتیں چند سماجی ضروریات پوری کرتی ہیں جس شے کے گاہک موجود ہوں، اگر وہ مارکیٹ میں نظر آئے تو ہمیں تعجب نہ کرنا چاہیئے، اگر ہمیں ہر شہر میں ایسی عورتیں نظر آتی ہیں جو اس جسمانی تجارت سے اپنا پیٹ پالتی ہیں تو ہمیں ان کے ذریعہ معاش پر کوئی اعتراض نہ ہونا چاہیئے۔ اس لیئے کہ ہر شہر میں ان کے گاہک موجود ہیں۔
عصمت فروشی کو گناہ کبیرہ یقین کیا جاتا ہے ممکن ہے یہ بہت بڑا گناہ ہو، مگر ہم مذہبی نقطۂ نظر سے اس کو جانچنا نہیں چاہتے۔ گناہ اور ثواب، سزا اور جزا کی بھولبھلیوں میں پھنس کر آدمی کسی مسئلے پر ٹھنڈے دل سے غور نہیں کر سکتا۔ مذہب خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، اگر اس میں لپٹ کر کسی اور مسئلے کو دیکھا جائے تو ہمیں بہت ہی مغز دردی کرنی پڑے گی۔ اس لیئے مذہب کو عصمت فروشی سے الگ کر کے ہم نے ایک طرف رکھ دیا ہے۔
عصمت فروشی کیا ہے؟ ۔۔۔ عصمت کو بیچنا۔ یعنی اس گوہر کو بیچنا جس کو عورت کی زندگی کا سب سے قیمتی زیور یقین کیا جاتا ہے۔ اس زیور کی قدر اسلیئے بہت زیادہ بڑھ گئی ہے کہ تجربے نے ہمیں بتایا ہے کہ عورت جب ایک بار اس کو کھو دیتی ہے تو سماج کی نگاہوں میں اس کی کوئی عزت نہیں رہتی۔ یہ گوہر کئی طریقوں سے ضائع ہوتا ہے۔ جب عورت کی شادی ہو جائے تو یہ گوہر خاوند کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ بعض اوقات مرد اسے زبردستی حاصل کر لیتے ہیں اور بعض اوقات شادی کے بغیر عورتیں اسے اپنے دل پسند مردوں کے حوالے کر دیتی ہیں۔ بعض حالات سے مجبور ہو کر اسے بیچ دیتی ہیں اور بعض اس کی تجارت کرتی ہیں۔
ہم ان عورتوں کے متعلق کچھ کہنا چاہتے ہیں جو پیشے کے طور پر اپنی عصمت بیچتی ہیں حالانکہ یہ بالکل واضح چیز ہے کہ عصمت صرف ایک بار کھوئی یا بیچی جا سکتی ہے، بار بار اس کو بیچا یا کھویا نہیں جا سکتا، لیکن چونکہ اس پیشے کو عرفِ عام میں عصمت فروشی کہا جاتا ہے اسلیئے ہم اسے عصمت فروشی ہی کہیں گے۔
عصمت فروش عورت ایک زمانے سے دنیا کی سب سے ذلیل ہستی سمجھی جاتی رہی ہے مگر کیا ہم نے غور کیا ہے کہ ہم میں سے اکثر ایسی ذلیل و خوار ہستیوں کے در پر ٹھوکریں کھاتے ہیں؟ ۔۔۔ کیا ہمارے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہوتا کہ ہم بھی ذلیل ہیں۔
مقام تاسف ہے کہ مردوں نے اس پر کبھی غور نہیں کیا۔ مرد اپنے دامن پر ذلت کے ہر دھبے کو عصمت فروش عورت کے دل کی سیاہی سے تعبیر کرے گا۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ عورتوں میں خواہ وہ کسبی ہوں یا غیر کسبی ہوں، ننانوے فیصدی ایسی ہوں گی جن کے دل عصمت فروشی کی تاریک تجارت کے باوجود بدکار مردوں کے دل کی بہ نسبت کہیں زیادہ روشن ہوں گے۔ موجودہ نظام کے تحت جس کی باگ ڈور صرف مردوں کے ہاتھ میں ہے، عورت خواہ وہ عصمت فروش ہو یا باعصمت، ہمیشہ دبی رہی ہے۔ مرد کو اختیار ہوگا کہ وہ اس کے متعلق جو چاہے رائے قائم کرئے۔
ہم نے متعدد بار اپنے کانوں سے تعیش پسند امیروں کو اپنا مال و اسباب شہوت کے تنور میں ایندھن کے طور پر جلا کر یہ کہتے سنا ہے کہ فلاں طوائف یا فلاں ویشیا نے ان کو تباہ و برباد کر دیا ہے ۔۔۔ یہ معمّاابھی تک ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔
ویشیا یا طوائف اپنے تجارتی اصولوں کے ماتحت ہر مرد سے جو اس کے پاس گاہک کے طور پر آتا ہے، زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنے کی کوشش کرے گی، اگر وہ مناسب داموں پر یا حیرت انگیز قیمت پر اپنا مال بیچتی ہے تو یہ اس کا پیشہ ہے بنیا بھی تو سودا تولتے وقت ڈنڈی مار جاتا ہے۔ بعض دکانیں زیادہ قیمت پر اپنا مال بیچتی ہیں۔ بعض کم قیمت پر۔
تعجب تو اس بات کا ہے کہ جب صدیوں سے ہم یہ سن رہے ہیں کہ ویشیا کا ڈسا ہوا پانی نہیں مانگتا تو ہم کیوں اپنے آپ کو اس سے ڈسواتے ہیں اور پھر کیوں خود ہی رونا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ ویشیا ارادتاً یا کسی انتقامی جذبے کے زیراثر مردوں کے مال و زر پر ہاتھ نہیں ڈالتی۔ وہ سودا کرتی ہے اور کماتی ہے۔ مرد اپنی جسمانی خواہشات کی تکمیل کا معاوضہ ادا کرتے ہیں اور بس!
ممکن ہے ویشیا کسی مرد سے محبت کرتی ہو لیکن ہر وہ گاہک جو ایک خاص بندے کے زیراثر اس کی دکان میں جاتا ہے، دل میں یہ خواہش بھی پیدا کر لے کہ وہ اس سے سچی محبت کرے تو یہ کیونکر ممکن ہے؟ ۔۔۔ ہم اگر کسی دکان سے ایک روپے کا آٹا لینے جائیں تو ہماری یہ توقع قطعی طور پر مضحکہ خیز ہوگی کہ وہ ہمیں اپنے گھر میں مدعو کرے گا اور سر کے گنج کا کوئی لاجواب نسخہ بتائے گا۔
ویشیا اپنے اس گاہک کے روبروجو اس سے محبت کا طالب ہے، اپنے چہرے پر مصنوعی محبت کے جذبات پیدا کرے گی۔ یہ چیز گاہک کو خوش کر دے گی، مگر یہ عورت اپنے سینے کی گہرائیوں میں سے ہر مرد کیلئیجو شراب پی کر اس کے کوٹھے پر جھومنے لگتا ہے اور رومان کی ایک نئی دنیا بسانا چاہتا ہے، محبت کی پاک اور صاف آواز نہیں نکال سکتی۔
ویشیا کو صرف باہر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے رنگ روپ اس کی بھڑکیلی پوشاک اور اس کے مکان کی آرائش و زیبائش دیکھ کر یہی نتیجہ مرتب کیا جاتا ہے کہ وہ خوش حال ہے۔ یہ درست نہیں۔
جس عورت کے دروازے شہر کے ہر اس شخص کیلئے کھلے ہیں جو اپنی جیبوں میں چاندی کے چند سکے رکھتا ہو۔ خواہ وہ موچی ہو یا بھنگی، لنگڑا ہو یا لُولا۔ خوبصورت ہو یا کر یہہ المنظر، اس کی زندگی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ایک بدصورت مرد جس کے منہ سے پائیوریا لگے دانتوں کے تعفن کے بھبکے نکلتے ہیں، ایک نفاست پسند ویشیا کے ہاں آتا ہے، چونکہ اس کی گرہ میں اس ویشیا کے جسم کو ایک خاص وقت تک خریدنے کیلئیدام موجود ہیں۔ وہ نفرت کے باوجود اس گاہک کو نہیں موڑ سکتی۔ سینے پر پتھر رکھ کر اس کو اپنے اس گاہک کی بدصورتی اور اس کے منہ کا تعفن برداشت کرنا ہی پڑے گا۔ وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ اس کا ہر گاہک اپولو نہیں ہو سکتا۔
ٹائپسٹ عورتوں کو حیرت سے نہیں دیکھا جاتا۔ وہ عورتیں جودا یہ گیری کا کام کرتی ہیں، انہیں حیرت اور نفرت سے نہیں دیکھا جاتا۔ وہ عورتیں جو گندگی سر پر اٹھاتی ہیں، ان کی طرف حقارت سے نہیں دیکھا جاتا، لیکن تعجب ہے کہ ان عورتوں کو جو اوچھے یا بھونڈے طریقے سے اپنا جسم بیچتی ہیں حیرت، نفرت اور حقارت سے دیکھا جاتا ہے !
حضرات یہ جسم فروشی ضروری ہے۔ آپ شہر میں خوبصورت اور نفیس گاڑیاں دیکھتے ہیں ۔۔۔ یہ خوبصورت اور نفیس گاڑیاں کوڑا کرکٹ اٹھانے کے کام نہیں آ سکتیں۔ گندگی اور غلاظت اٹھا کر باہر پھینکنے کیلئے اور گاڑیاں موجود ہیں جنہیں آپ کم دیکھتے ہیں اور اگر دیکھتے ہیں تو فوراً اپنی ناک پر رومال رکھ لیتے ہیں ۔۔۔ ان گاڑیوں کا وجود ضروری ہے اور ان عورتوں کا وجود بھی ضروری ہے جو آپ کی غلاظت اٹھاتی ہیں، اگر یہ عورتیں نہ ہوتیں تو ہمارے سب گلی کوچے مردوں کی غلیظ حرکات سے بھرے ہوتے۔
یہ عورتیں اجڑے ہوئے باغ ہیں، گھورے ہیں جن پر گندے پانی کی موریاں بہہ رہی ہوں، یہ ان گندی موریوں ہی پر زندہ رہتی ہیں ۔۔۔ ہر انسان کیسے ایک جیسے شاندار طریقے پر زندگی بسر کر سکتا ہے؟
ذرا خیال فرمایئے، شہر کے ایک کونے میں ایک ویشیا کا مکان ہے، رات کی سیاہی میں ایک مرد جو اپنے سینے میں اس سے بھی زیادہ سیاہ دل رکھتا ہے، اپنے جسم کی آگ ٹھنڈی کرنے کیلئے بے دھڑک اس کے مکان میں چلا جاتا ہے ۔ ویشیا اس مرد کے دل کی سیاہی سے واقف ہے۔ اس سے نفرت بھی کرتی ہے۔ اچھی طرح جانتی ہے کہ اس کا وجود دامنِ انسانیت پر ایک بدنما دھبہ ہے۔ اس کو معلو م ہے کہ وہ ازمنۂ بربریت کا ایک خوفناک نمونہ ہے، مگر وہ اپنے گھر کے دروازے اس پر بند نہیں کرسکتی۔ جو دروازے معاشی کشمکش نے ایک دفعہ کھول دیئے ہوں ، بہت مشکل سے بند کیئے جاسکتے ہیں۔
یہ ویشیا جو عورت پہلے ہے ، ویشیا بعد میں ، اس مرد کو چند سکوں کے عوض اپنا جسم حوالے کردیتی ہے لیکن اس کی روح اس وقت جسم میں نہیں ہوتی ۔ ایک ویشیا کے الفاظ سنیئے۔ ’’لوگ مجھے باہر کھیتوں میں لے جاتے ہیں۔۔۔ میں لیٹی رہتی ہوں بالکل بے حس و بے حرکت ، لیکن میری آنکھیں کھلی رہتی ہیں ۔ میں دور ۔۔۔ بہت دور ان درختوں کو دیکھتی رہتی ہوں ، جن کی چھاؤں میں کئی بکریاں آپس میں لڑ جھگڑ رہی ہوتی ہیں ۔ کتنا پیارا منظر ہوتا ہے ۔ میں بکریاں گننا شروع کردیتی ہوں یا پیڑوں کی ٹہنیوں پر کوؤں کو شمار کرنے لگتی ہوں ۔ انیس ،بیس ۔۔۔اکیس بائیس۔۔۔ اور مجھے معلوم بھی نہیں ہوتا کہ میرا ساتھی اپنے کام سے فارغ ہوکر ایک طرف ہانپ رہا ہے۔‘‘
مشاہدہ بتاتا ہے کہ ویشیا ئیں عام طور پر خدا ترس ہوتی ہیں ۔ ہر ہندو ویشیا کے مکان پر کسی نہ کسی کمرے میں آپ کو کرشن بھگوان یا گنیش مہاراج کی مورتی یا تصویر ضرور نظر آئیگی ۔ وہ اس مورتی کی اسی قدر صدق دل سے پوجا کرتی ہے جتنی ایک باعصمت یا گھریلو عورت کرسکتی ہے۔ اسی طرح وہ ویشیا جو مسلمان ہے ، ماہِ رمضان میں روزے ضرور رکھے گی، محرم میں اپنا کاروبار بندرکھے گی، سیاہ کپڑے پہنے گی، غریبوں کی مدد کرے گی اور خاص خا ص موقعوں پر خدا کے حضور میں عجز و نیاز کا نذرانہ بھی ضرور پیش کرے گی۔ بادی النظر میں عصمت باختہ عورتوں کو مذہب سے یہ لگاؤ ایک ڈھونگ معلوم ہوتا ہے مگر حقیقت میں یہ ان کی روح کا وہ حصہ پیش کرتا ہے جو سماج کے زنگ سے یہ عورتیں بچا بچا کے رکھتی ہیں۔
دوسرے مذہب کی ویشیا ئیں بھی آپ کو روحانی طور پر اپنے مذہب کے ساتھ بڑی مضبوطی کے ساتھ جکڑی نظر آئیں گی ۔ کرسچین ویشیا گرجے میں نماز کیلئے ضرور جائیگی۔ کنواری مریم کی تصویر کے پاس دیا ضرور جلائے گی۔ دراصل اس تجارت میں ویشیا اپنے جسم کو لگاتی ہے نہ کہ روح کو ۔ بھنگ یا چرس بیچنے والا ضروری نہیں کہ ان منشیات کا عادی ہو، ٹھیک اسی طرح ہر مولوی یا پنڈت پاکپاز نہیں ہوسکتا ۔
جسم داغا جاسکتا ہے مگر روح نہیں داغی جاسکتی۔
ویشیا ا پنی تاریک تجارت کے باوجود روشن روح کی مالک ہوسکتی ہے ۔ وہ اپنے جسم کی قیمت بڑی بے دردی سے وصول کرتی ہے۔ مگر وہ غریبوں کی وسیع پیمانے پر مدد بھی کرسکتی ہے۔ بڑے بڑے امیر اس کے دل میں اپنی محبت پیدا نہ کرسکے ہوں۔ مگر وہ سڑکوں پر سونے والے ایک آوارہ گرد کی پھٹی ہوئی جیب میں اپنا دل ڈال سکتی ہے۔
ویشیا دولت کی بھوکی ہوتی ہے ، لیکن کیا دولت کی بھوکی محبت کی بھوک نہیں ہوسکتی؟
یہ ایسا سوال ہے جس کے جواب میں ہمیں تفصیل سے کام لینا پڑے گا۔
خاندانی ویشیا اور نوکسبی ویشیا میں بہت فرق ہے اور پھر وہ عورتیں یا لڑکیاں جو اپنے غریب ماں باپ یا اپنے یتیم بچوں کی پرورش کیلئے مجبوراً اپنا جسم چھپ چھپ کر فروخت کرتی ہیں، ان کی حیثیت متذکرہ صدر اقسام سے بالکل جداگانہ ہے۔
خاندانی ویشیا سے ہماری مراد وہ کسبی عورت ہے جو ویشیا کے بطن سے پیدا ہوتی ہے اور اسی کے گھر میں پالی پوسی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ عورت جس کو خاص اصولوں کے تحت ویشیا بننے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ایسی عورتیں جو اس ماحول میں پرورش پاتی ہیں، عشق و محبت کو عام طور پر ایسا سکہ تصور کرتی ہیں جو ان کے بازار میں نہیں چل سکتا۔ یہ نظریہ درست ہے ا سلیئے کہ اگر وہ ہر اس مرد کو جوان کے پاس چند لمحات گزارنے کیلئے آئے، اپنا دل حوالے کر دیں تو ظاہر ہے کہ وہ اپنے کاروبار میں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔
عام طور پر یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ اس سکول کی ویشیاؤں کے سینے میں عشق و محبت کا عنصر کم ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ دوسری عورتوں کے مقابلے میں مردوں سے عشق کرنے میں بڑی احتیاط اور بڑے بخل سے کام لیتی ہیں۔ مردوں سے روزانہ میل جول ان کے دل میں ایک ناقابل بیان تلخی پیدا کر دیتا ہے۔ وہ مردوں کو حیوانوں سے بدتر سمجھنے لگتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ اس ضمن میں ایک حد تک ’’منکر‘‘ ہو جاتی ہیں، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کا سینہ محبت کے لطیف جذبات سے خالی ہوتا ہے۔
جس طرح بھنگن کی لڑکی کو گندگی کا پہلا ٹوکرا اٹھاتے وقت گھن نہیں آئے گی اسی طرح اپنے پیشے کا پہلا قدم اٹھاتے وقت ایسی ویشیاؤں کو بھی حجاب محسوس نہیں ہوگا۔ آہستہ آہستہ حیا اور جھجک سے متعلقہ قریب قریب تمام جذبات ان میں گھس گھسا کر ہٹ جاتے ہیں ۔۔۔ چکلے کے اندر جہاں شہوت پرست مردوں کیلئے ان عورتوں کے مکان کھلے رہتے ہیں، لطیف جذبات کیسے داخل ہو سکتے ہیں۔
جس طرح باعصمت عورتیں ویشیاؤں کی طرف حیرت اور تعجب سے دیکھتی ہیں، ٹھیک اسی طرح وہ بھی ان کی طرف اسی نظر سے دیکھتی ہیں۔ اوّل الذکر کے پیش نظر یہ استفہام ہوتا ہے۔ ’’کیا عورت اس قدر ذلیل ہو سکتی ہے؟‘‘ موخر الذکر یہ سوچتی ہیں۔ ’’یہ پاک باز عورتیں کیسی ہیں ۔۔۔ کیا ہیں؟‘‘
ویشیا جس کی ماں ویشیا تھی جس کی دادی ویشیا تھی جس کی پردادی ویشیا تھی، جس نے ویشیا کا دودھ پیا، جو عصمت فروشی کے گہوارے میں پلی، وہیں بڑی ہوئی، جس کی تجارت کا آغاز بھی وہیں شروع ہوا، عصمت اور باعصمت عورتوں کے متعلق کیا سمجھ سکتی ہے۔
ان سو لڑکیوں میں سے جو ویشیاؤں کے گھر میں پیدا ہوتی ہیں۔ شاید ایک دو کے دل میں اپنے گردوپیش کے ماحول سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور وہ اپنے جسم کو صرف ایک مرد کے حوالے کرنے کا تہیہ کرتی ہیں، لیکن باقی سب اسی راستے پر چلتی ہیں جو ان کی ماؤں نے ان کیلئے منتخب کیا ہوتا ہے۔
جس طرح ایک دکاندار کا بیٹا اپنی نئی دکان کھولنے کا شوق رکھتا ہے اور اس شوق کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتا ہے، ٹھیک اسی طرح ویشیاؤں کی جوان لڑکیاں اپنا پیشہ شروع کرنے کا بڑا چاؤ رکھتی ہیں، چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ ایسی لڑکیاں نت نئے طریقوں سے اپنے جسم اور حسن کی نمائش کرتی ہیں۔ جب وہ اپنی تجارت کا آغاز کرتی ہیں تو باقاعدہ رسوم ادا کی جاتی ہیں۔ ایک خاص اہتمام کے ماتحت یہ سب کچھ کیا جاتا ہے جیساکہ دوسرے تجارتی کاموں کی بنیاد رکھتے وقت خاص رسوم کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔
ان حالات کے تحت جیسا کہ ظاہر ہے، متذکرہ صدر قسم کی ویشیاؤں کے دل میں عشق پیدا ہونا مشکل ہے، یہاں عشق سے ہماری مراد وہی عشق ہے، جو ہمارے یہاں عرصہ دراز سے رائج ہے۔ ہیر رانجھا اور سسّی پنوں والا عشق۔
ایسی ویشیائیں عشق کرتی ہیں، مگر ان کا عشق بالکل جدا قسم کا ہوتا ہے۔ یہ لیلیٰ مجنوں اور ہیر رانجھے والا عشق نہیں کر سکتیں۔ ا سلیئے کہ یہ ان کی تجارت پر بہت برا اثر ڈالتا ہے، اگر کوئی ویشیا اپنے اوقات تجارت میں سے چند لمحات ایسے مرد کو دے جس سے اسے روپے پیسے کا لالچ نہ ہو تو ہم اسے عشق و محبت کہیں گے۔ اصولاً ویشیا کو صرف مرد کی دولت سے محبت ہوتی ہے، اگر وہ کسی مرد سے اس کی دولت کی خاطر نہیں بلکہ صرف اس کی خاطر ملے تو یہ اصول ٹوٹ جائے گا اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی ظاہر ہو جائے گا کہ اس ویشیا کی جیب نہیں بلکہ اس کا دل کارفرما ہے۔ جب دل کارفرما ہو تو عشق و محبت کے جذبے کا پیدا ہونا لازمی ہے۔
چونکہ عام طور پر عورت سے عشق و محبت کرنے کا واحد مقصد جسمانی لذت ہوتا ہے ا سلیئے ہم یہاں بھی جسمانی لذتوں ہی کو عشق کے اس جذبے کا محرک سمجھیں گے گو اس کے علاوہ اور بہت سی چیزیں اس کی تخلیق و تولید کی مہیج ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ویشیا جو اپنے کوٹھے پر ہر مرد پر حکم چلانے کی عادی ہوتی ہے۔ غیر مختتم ناز برادریوں سے سخت تنگ آ جاتی ہے۔ اس کو آقا بننا پسند ہے، مگر کبھی کبھی وہ غلام بننا بھی چاہتی ہے۔ ہر فرمائش پوری ہو جانے میں اس کو بہت فائدہ ہے مگر انکار میں اور ہی لذت ہے۔ وہ ہر طرف سے دولت سمیٹتی ہے۔ یہ کام اس کا معمول بن جاتا ہے۔ ا سلیئے کبھی کبھی اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ بھی کسی کیلئے خرچ کرے، اگر سب اس کی خوشامد کرتے ہیں تو وہ بھی کسی کی خوشامد کرے، اگر وہ ضد کرتی ہے تو کوئی اس سے بھی ضد کرے۔ وہ سب کو دھتکارتی ہے تو کوئی اسے بھی دھتکارے ستائے مارے پیٹے۔ یہ تمام چیزیں مل کر اس کے دل میں ایک خاص مرد کو اپنا رفیق بنانے پر مجبور کر تی ہیں، چنانچہ وہ انتخاب کرتی ہے۔
انتخاب کا یہ وقت بہت نازک ہوتا ہے۔ بہت ممکن ہے وہ کسی رئیس زادے پر اپنے دل کے خاص دروازے کھول دے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے کوٹھے پر چلمیں بھرنے والے چرس نوش میراثی کے غلیظ قدموں میں اپنا وہ سر رکھ دے جس کے بالوں کو چومنے کیلئے بڑے بڑے راجاؤں اور مہاراجوں نے کئی کئی ہزار طلائی اشرفیاں پانی کی طرح بہا دی تھیں اور پھر اس وقت بھی کوئی تعجب نہ ہونا چاہیئے جب وہ غلیظ آدمی اس سر کو ٹھوکر مار کر پرے ہٹا دے۔ اس قسم کے واقعات دیکھنے اور سننے میں آ چکے ہیں۔
ہمارے یہاں ایک مشہور طوائف اس وقت تک موجود ہے۔ جس کے عشق میں ایک نواب مدتوں لٹو بنا رہا مگر وہ ایک نہایت ہی معمولی آدمی کے عشق میں گرفتار تھی۔ طوائف نواب کے عشق کا مضحکہ اڑاتی تھی اور ادھر اس کے اپنے عشق کا مضحکہ اڑایا جاتا تھا۔ نواب طوائف کے عشق میں رسوا ہوا اور طوائف اس آدمی کے عشق میں بدنام ہوئی۔
عام عورتوں کے مقابلے میں ان ویشیاؤں کے عشق کی شدت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ا سلیئے کہ یہ مردوں کے ساتھ ملنے جلنے سے نت نئے عاشقانہ جذبات سے متعارف ہوتی رہتی ہیں۔ جب یہ خود اس میں گرفتار ہوتی ہیں تو ان کو جلن زیادہ محسوس ہوتی ہے۔
ایسے بازاروں میں جہاں یہ عورتیں رہتی ہیں، آپ کو متذکرہ صدر قسم کی کئی کہانیاں سننے میں آ سکتی ہیں۔ خاص کر ان تعیش پسند امیروں کو جن کی تھیلیوں کے منہ ان جسم فروش عورتوں کے کوٹھوں پر کھلتے ہیں۔ ایسی کہانیاں ازبر ہیں۔ جن کو وہ اکثر مزے لے لے کر دوسروں کو سنانے کے عادی ہیں۔ سارنگئے، میراثی طبلچی اور وہ لوگ جن کی آمدورفت ایسے کوٹھوں پر عام رہتی ہے، آپ کو بہت دلچسپ قصے سنائیں گے۔
انہی لوگوں سے سنے سنائے قصوں میں ہم ایک ایسی ویشیا کی کہانی مثال کے طور پر پیش کر سکتے ہیں جو کہ ہزاروں اور لاکھوں میں کھیلتی تھی، مگر اس کا دل ایک چیتھڑے لٹکائے مزدور کے کھردرے پیروں تلے ہر روز روندا جاتا تھا۔ وہ ہر شب اپنے دولت مند پرستاروں سے سیم وزر کے انبار جمع کرتی تھی مگر ایک مزدور کے میلے کچیلے سینے میں دھڑکتے ہوئے دل تک اس کا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا تھا۔ کہتے ہیں کہ یہ نازک بدن اس مزدور کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئیکئی بار سڑک کے پتھروں پر سوئی۔
اس قسم کا تضاد و تخائف جو عشق و محبت کا اصلی رنگ ہے، قحبہ خانوں میں دیکھا جائے تو بہت شوخ پُراسرار حد تک رومانی نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ صرف عقبی منظر ہے جو پیش منظر کے ہر نقش کو ابھارتا ہے چونکہ عام طور پر ویشیا کے بارے میں یہی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سونا کھودنے والی کدال ہے اور محبت کے جذبات سے قطعی طور پر عاری ہے، ا سلیئے جب کبھی کسی ویشیا کے عشق کی ایسی داستان سننے میں آتی ہے تو بڑی عجیب و غریب اور پُر اسرار معلوم ہوتی ہے۔ ہم ایسی داستانوں کو اسی وجہ سے عام عورتوں اور مردوں کے معاشقوں کی بہ نسبت زیادہ دلچسپی سے سنتے ہیں۔ جیسے کسی مافوق العادت حادثے کی تفصیل سن رہے ہیں۔ حالانکہ دل اور اس کی دھڑکنوں سے عصمت فروشی یا عصمت مآبی کا کوئی تعلق نہیں ۔۔۔ ایک باعصمت عورت کے سینے میں محبت سے عاری دل ہو سکتا ہے اور اس کے برعکس چکلے کی ایک ادنیٰ ترین ویشیا محبت سے بھرپور دل کی مالک ہو سکتی ہے۔
ہر عورت ویشیا نہیں ہوتی لیکن ہر ویشیا عورت ہوتی ہے۔ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے۔
ویشیاؤں کے عشق میں ایک خاص بات قابل ذکر ہے۔ ان کا عشق ان کے روز مرّہ کے معمول پر بہت کم اثر ڈالتا ہے۔ ایسی بہت کم طوائفیں ملیں گی جنہوں نے اس جذبے کی خاطر اپنا کاروبار قطعی طور پر بند کر دیا ہو (کسی شریف لڑکی کے عشق میں گرفتار ہو کر شہر کا شریف دکاندار بھی اپنی دکان بند نہیں کرے گا) عام طور پر یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ اپنے عشق کے ساتھ ساتھ اپنا کاروبار بھی جاری رکھتی ہیں۔ دراصل مال و دولت حاصل کرنے کی ایک تاجرانہ طلب ان میں پیدا ہو جاتی ہے۔ نت نئے گاہک بنانا اور ہر روز اپنا مال بیچنا ایک عادت سی بن جاتی ہے اور یہی عادت بعد میں طبیعت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس طور پر کہ پھر اس کی زندگی کے دوسرے شعبوں سے کوئی سروکار نہیں رہتا۔ جس طرح گھر کے نوکر جھٹ پٹ اپنے آقاؤں کے بستر لگا کر اپنے آرام کا خیال کرتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح یہ عورتیں بھی اپنے گاہکوں کو نمٹا کر اپنی خوشی اور راحت کی طرف پلٹ آتی ہیں۔
دل ایسی شے نہیں جو بانٹی جا سکے اور مرد کے مقابلے میں عورت کم ہر جائی ہوتی ہے۔ چونکہ ویشیا عورت ہے ا سلیئے وہ اپنا دل تمام گاہکوں میں تقسیم نہیں کر سکتی۔ عورت کے متعلق مشہور ہے کہ وہ اپنی زندگی میں صرف ایک مرد سے محبت کرتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بہت حد تک ٹھیک ہے۔ ویشیا صرف اسی مرد پر اپنے دل کے تمام دروازے کھولے گی۔ جس سے اسے محبت ہو۔ ہر آنے جانے والے مرد کیلئے وہ ایسا نہیں کر سکتی۔
ویشیاؤں کے بارے میں عام طور پر یہ شکایت سننے میں آتی ہے کہ وہ بڑی بے رحم اور جلاّد صفت ہوتی ہیں ممکن ہے سو میں سے پانچ چھ اس نوعیت کی ہوں مگر سب کی سب ایسی نہیں ہوتیں بلکہ یوں کہیئیکہ نہیں ہو سکتیں۔ ویشیا اور باعصمت عورت کا مقابلہ ہر گز ہر گز نہیں کرنا چاہیئے۔ ان دونوں کا مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ویشیا خود کماتی ہے اور باعصمت عورت کے پاس کما کر لانے والے کئی موجود ہوتے ہیں۔
ہمارے کانوں میں ایک ویشیا کے یہ لفظ ابھی تک گونج رہے ہیں، جو اس کے دل کی تمام گہرائیاں پیش کرتے ہیں۔ آپ بھی سنیئے!
’’ویشیا ایک بے کس اور بے یارومددگار عورت ہے۔ اس کے پاس ہر روز سینکڑوں مرد آتے ہیں، ایک ہی خواہش لے کر ۔۔۔ وہ اپنے چاہنے والوں کے ہجوم میں بھی اکیلی رہتی ہے ۔۔۔ بالکل تن تنہا ۔۔۔ وہ رات کے اندھیرے میں چلنے والی ریل گاڑی ہے جو مسافروں کو اپنے اپنے ٹھکانے پر پہنچا کر ایک آہنی چھت کے نیچے خالی کھڑی رہتی ہے۔ بالکل خالی دھوئیں اور گردوغبار سے اٹی ہوئی ۔۔۔ لوگ ہمیں برا کہتے ہیں۔ معلوم نہیں کیوں؟ ۔۔۔ وہی مرد جو رات کی تاریکی میں ہم سے راحت مول لے کر جاتے ہیں، دن کے اجالے میں ہمیں نفرت و حقارت سے دیکھتے ہیں ۔۔۔ ہم کھلے بندوں اپنا جسم بیچتی ہیں اور اس کو راز بنا کر نہیں رکھتیں۔ وہ ہمارے پاس یہ جنس خریدنے کیلئے آتے ہیں اور اس سودے کو راز بنا کر رکھتے ہیں ۔۔۔ سمجھ میں نہیں آتا کیوں؟‘‘
ذرا اس ویشیا کا تصور کیجئے جس کا اس دنیا میں کوئی بھی نہ ہو۔ نہ بھائی نہ بہن نہ ماں نہ باپ اور نہ کوئی دوست۔ اپنے گاہکوں سے فراغت پا کر جب وہ کمرے میں اکیلی بالکل اکیلی رہ جاتی ہوگی تو اس کے دل و دماغ کی کیا کیفیت ہوگی ؟ ۔۔۔ یہ تاریکی اس اندھیرے میں اور کتنی تاریک ہو جاتی ہوگی۔
اگر سارا دن ٹوکری ڈھونے کے بعد مزدور کو اپنی تھکان دور کرنے کا کوئی ذریعہ نظر نہ آئے، اپنی دل بستگی کیلئے بیوی کی باتیں اسے نصیب نہ ہوں، نہ اس کی ماں ہو جو اس کے تھکے ہوئے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کی تمام تکلیفیں دور کر دے تو بتایئے اس مزدور کی کیا حالت ہوگی؟
اس مزدور اور اس ویشیا دونوں کی حالت ایک جیسی ہے۔ویشیا ایک رنگین شے نظر آتی ہے ۔۔۔ کیوں ؟
اس سوال کے جواب کیلئے ہمیں اپنا دل ٹٹولنا پڑے گا یہ کمزوری ہم مردوں کی نگاہوں کی ہے اور اس کمزوری کے اسباب تلاش کرنے کیلئے ہمیں اپنے آپ ہی سے بات چیت کرنا پڑے گی۔ اس بارے میں غوروفکر کے بعد ہم جو معلوم کر سکے ہیں یہ ہے۔
ویشیا کا نام لیتے وقت ہمارے دماغ میں ایک ایسی عورت کا تصور پیدا ہوتا ہے، جو مرد کی شہوانی خواہشات اس کی مرضی اور ضرورت کے مطابق پوری کر سکتی ہے، گو عورت اور ویشیا پن دو بالکل جدا چیزیں ہیں مگر جب ہم کسی ویشیا کے بارے میں کچھ سوچتے ہیں تو اس وقت عورت مع اپنے پیشے کے سامنے آ جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان پر اس کے ماحول اور اس کے پیشے کا بہت اثر ہوتا ہے، مگر کوئی وقت ایسا بھی ہوتا ہے جب وہ ان تمام چیزوں سے الگ ہٹ کر صرف انسان ہوتا ہے۔ اسی طرح کوئی ایسا وقت بھی ضرور آتا ہوگا جب ویشیا اپنے پیشے کا لباس اتار کر صرف عورت رہ جاتی ہو گی مگر افسوس ہے کہ ہم ہر وقت عورت اور ویشیا کو ایک ہی جگہ دیکھنے کے عادی ہیں۔
جب ویشیا کو ہم اس عینک سے دیکھیں تو ہمیں اس کے ساتھ ہی وہ چیز بھی نظر آتی ہے جسے ہم مرد عیش و عشرت سے تعبیر کرتے ہیں اور عیش و عشرت کا مطلب عام طور پر جسمانی لذت ہوتا ہے۔
جسمانی لذت کیا ہے؟
ایک وقتی حظ جو ہمیں اپنی بیوی یا کسی اور عورت کی مدد سے حاصل ہوتا ہے۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ شادی شدہ مرد اپنی بیویاں چھوڑ کر اس وقتی لذت کیلئے بازاری عورتوں کے پاس کیوں جاتے ہیں؟ جب ان لوگوں کی جسمانی خواہشات گھر میں پوری ہو سکتی ہیں تو وہ اس کیلئے باہر کیوں مارے مارے پھرتے ہیں؟
اس سوال کا جواب مشکل نہیں۔ آپ کو ایسے کئی آدمی نظر آئیں گے جو گھر کے مرغن اور لذیذ کھانے چھوڑ کر ہوٹلوں میں جاتے ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کو ہوٹلوں کے کھانے کی چاٹ پڑ جاتی ہے۔ ہوٹل کی چیزوں میں غذائیت کم ہوتی ہے مگر ان میں ایک اور شے ہوتی ہے جو ان لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ اسے ہم ’’ہوٹلیت‘‘ کہہ سکتے ہیں، ایک ایسی برائی جو وصف بن جاتی ہے بلکہ یوں کہیئے کہ ایک کشش بن جاتی ہے۔ اس میں ہوٹل کے مالکوں کے فن کا دخل بھی ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ جو ماحول ہوٹل میں میسر آ سکتا ہے، انہیں اپنے گھر میں نصیب نہیں ہو سکتا۔ انسان طبعاً تنوع پسند ہے، ا سلیئے جب وہ اپنے روزمرہ کے پروگرام میں تبدیلی چاہے تو تعجب نہ ہونا چاہیئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہوٹلوں میں ان لوگوں کو اچھا کھانا نہیں مل سکتا اور اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ یہاں گھر کی بہ نسبت زیادہ خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے مگر یہی چیز تو یہ لوگ چاہتے ہیں۔ یہی فرق تو انہیں گھر سے کھینچ کر ہوٹلوں میں لاتا ہے۔ یہ نادانی ہے مگر لطف یہ ہے کہ انہیں اسی نادانی ہی میں تو مزا آتا ہے۔
ان شادی شدہ مردوں کا بھی یہی حال ہے جو اپنی بیویاں چھوڑ کر بازاری عورتوں کی آغوش میں لذت تلاش کرنے آتے ہیں۔ اب آپ پوچھیں گے کہ آیا ان لوگوں کو اس تلاش میں کامیابی ہوتی ہے؟ ۔۔۔ ہم کہیں گے یقیناً ۔۔۔ جن عورتوں کے پاس یہ لوگ جاتے ہیں اس فن کی ماہر ہوتی ہیں۔ وہ یہی چیز تو بیچتی ہیں۔ ان کا پیشہ ہی یہ ہے کہ گھریلو عورتوں سے بالکل مختلف رنگ کی لذت پیش کریں، اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان کا کاروبار کیسے چل سکتا ہے؟
جیساکہ ہم اس مقالے کے آغاز میں کہہ چکے ہیں۔ عصمت فروشی خلاف عقل چیز نہیں۔
***
لوگ اپنے آپ کو مدہوش کیوں کرتے ہیں؟
اس حقیقت کی کیا توضیح ہو سکتی ہے کہ لوگ ایسی اشیاء استعمال میں لاتے ہیں جو انہیں بے خود و مدہوش بنا دیں۔ مثال کے طور پر شراب، بیئر، چرس، گانجا، افیم، تمباکو اور دوسری چیزیں جو زیادہ عام نہیں مثلاً ایتھر، مارفیا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔۔ ان منشیات کا استعمال کیوں شروع ہوا؟ ۔۔۔۔۔۔ ان کا استعمال اتنی جلدی کیوں عام ہو گیا ہے۔ مہذب اور غیر مہذب لوگوں میں ان کی کھپت کیوں روز بروز بڑھ رہی ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ یہ کیا بات ہے کہ جہاں شراب یا بیئر نہیں ملتی، وہاں افیم گانجا اور چرس وغیرہ کا استعمال عام ہے اور تمباکو دنیا کے ہر کونے میں پیا جاتا ہے۔
لوگ اپنے آپ کو مدہوش کیوں کرتے ہیں ؟
آپ کسی سے یہ سوال پوچھئے کہ اس نے کیوں پینا شروع کی اور یہ کہ اب وہ کیوں پیتا ہے تو وہ غالباً یہ جواب دے گا۔ ’’شراب بڑی خوش گوار چیز ہے ۔۔۔۔۔۔ اور پھر سبھی تو پیتے ہیں۔‘‘ شاید وہ یہ بھی کہے۔ ’’میں پیتا ہوں ا سلیئے کہ مجھے اس سے فرحت حاصل ہوتی ہے! ‘‘ اور وہ لوگ جنہوں نے آج تک اس بات پر غور کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی کہ شراب بری چیز ہے یا اچھی۔ اپنے جواب میں یہ کہیں گے کہ وہ صحت قائم رکھنے کیلئے شراب پیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ ایک ایسا بیان ہے جو آج سے بہت عرصہ پہلے بے بنیاد ثابت ہو چکا ہے۔
کسی تمباکو پینے والے سے پوچھئے کہ حضرت آپ نے کس ضرورت کے ماتحت تمباکو پینا شروع کیا اور اب آپ تمباکو کیوں پیتے ہیں۔ تو اس کا جواب بھی کچھ اس قسم کا ہوگا۔ ’’وقت کاٹنے کیلئے ہر شخص تمباکو پیتا ہے !‘‘
وقت کاٹنے کیلئے، فرحت حاصل کرنے کیلئے ۔۔۔۔۔۔ وقت کاٹنے کیلئے فرحت حاصل کرنے کیلئے اگر کوئی اپنی انگلیاں چٹخائے، سیٹی بجائے، کچھ گنگنائے یا اسی قسم کی کوئی اور چیز کرئے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ اسلیئے کہ ایسا کرنے سے نیچر کی دولت ضائع نہیں ہوتی اور نہ کوئی ایسی چیز ہی خرچ ہوتی ہے، جس کے بنانے پر بے شمار سرمایہ اور محنت صرف ہوئی ہو۔ اس کے علاوہ اس سے نہ اپنے آپ کو اور نہ دوسروں کو کوئی دکھ ہی پہنچتا ہے، لیکن تمباکو، چرس ،شراب اور افیم بنانے پر لاکھوں آدمیوں کی محنت خرچ ہوتی ہے اور کروڑوں ایکڑ زمین بھنگ، پوست، انگور اور تمباکوکی کاشت کیلئے وقف کر دی جاتی ہے۔ علاوہ بریں یہ مسلمہ نقصان دہ چیزیں نہایت ہی خطرناک برائیاں پیدا کرنے کا موجب ہوتی ہیں اور لوگوں کو متعدی امراض اور جنگوں سے کہیں زیادہ تباہ و برباد کرتی ہیں۔ یہ تمام حقائق روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ اس لیئے ظاہر ہے کہ ان کا استعمال ’’وقت کاٹنے کیلئے، فرحت حاصل کرنے کیلئے ‘‘ ہر گز ہر گز نہیں ہو سکتا اور نہ یہ بہانہ ہی چل سکتا ہے کہ’’ہر شخص پیتا ہے۔‘‘
ان کے استعمال کی کوئی اور ہی وجہ ہے۔
ہم ہر روز ایسے آدمیوں سے ملتے ہیں جو اپنے بال بچوں سے محبت کرتے ہیں اور جو ان کیلئے ہر قسم کی قربانی کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں، لیکن وہ اس کے باوصف شراب بھنگ افیون یا چرس پر اتنا روپیہ خرچ کرتے ہیں جو ان کے غربت زدہ اہل و عیال کی حالت بہتر بنا سکتا ہے یا کم از کم ان کو افلاس سے نجات دلا سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے اہل و عیال کی ضروریات اور ان کی مشکلات پر مدہوش کرنے والی چیزوں کو ترجیح دیتا ہے تو کوئی اور ہی معقول وجہ کارفرما ہوتی ہے۔ یہاں ’’وقت کاٹنے، فرحت حاصل کرنے کیلئے اور ہر شخص پیتا ہے۔‘‘ کی دلیل عائد نہیں ہو سکتی۔ کوئی ٹھوس وجہ اس فعل کے ساتھ وابستہ ہے۔
یہ ٹھوس وجہ ۔۔۔۔۔۔ جیساکہ میں نے اس موضوع پر کتابیں پڑھ کر دوسرے لوگوں کا مشاہدہ کر کے اور خاص طور پر اپنی اس حالت کا اندازہ کرنے کے بعد جب میں شراب اور تمباکو کو پیا کرتا تھا۔ سوچا ہے، مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کی جا سکتی ہے۔
اگر کوئی شخص اپنی زندگی پر نظر کرے تو اکثر اوقات وہ اپنے اندر دو ہستیاں موجود پائے گا۔ ایک اندھی اور جسمانی ہے۔ دوسری بصارت کی مالک ہے، یعنی روحانی، اول الذکر اندھا حیوانی وجود کھاتا ہے، پیتا ہے، آرام کرتا ہے، سوتا ہے، بڑھتا ہے، حرکت کرتا ہے، بالکل کوک بھری مشین کے مانند اور روحانی وجود جو کہ دیکھتا ہے یعنی بصارت کا مالک ہے، حیوانی وجود سے بندھا ہوا ہے، یہ اپنے آپ کچھ نہیں کرتا۔ صرف اپنے ساتھی کی حرکات جانچتا رہتا ہے۔ جب یہ حیوانی وجودکے کسی عمل کو پسند کرتا ہے تو اس کے اندر گھل مل جاتا ہے اور جب یہ حیوانی وجود کے کسی عمل کو ناپسند کرتا ہے تو اس سے الگ ہوجاتا ہے ۔
اس مشاہدہ و ملاحظہ کرنے والے وجود کی تشبیہہ کمپاس کی سوئی سے دی جا سکتی ہے ۔جس کا ایک سرا شمال کی طرف اور دوسرا سرا جنوب کی طرف رہتا ہے۔ ہم کو اصل سمت اور اس سوئی کا فرق صرف اسی صورت میں معلوم ہوتا ہے، اگر ہم غلط سمت جا رہے ہوں۔ ٹھیک اسی طرح روحانی وجود (جس کے اظہار کو ہم عام طور پر ضمیر کہتے ہیں) کا ایک سرا برائی کی طرف رہتا ہے اور دوسرا سرا اچھائی کی طرف، اس روحانی وجود کی موجودگی سے باخبر ہونے کیلئے ہمیں کوئی ایسا فعل کرنا پڑے گا، جو ضمیر کے خلاف ہو کیونکہ حیوانی وجود کا رخ اس مقام سے ہٹ جائے گا جس کی طرف ضمیر اشارہ کرتا رہتا ہے۔
جس طرح وہ جہاز ران جو اس بات سے آگاہ ہو کہ وہ غلط رستے پر جا رہا ہے، اب تک کمپاس کے مطابق اپنا رخ ٹھیک نہ کر لے یا اپنی غلطی کے احساس کو قطعی طور پر مٹا دے، چپو نہیں چلا سکتا اور نہ بادبانوں ہی سے کام لے سکتا ہے، ٹھیک اسی طرح وہ انسان جو اپنے حیوانی وجود کی حرکات اور ضمیر کی آواز کی دوئی سے آگاہ ہو، صرف اس صورت میں اپنا کام جاری رکھ سکتا ہے، اگر وہ اسے ضمیر کے مطالبات کے ساتھ ہم آہنگ و منضبط کر دے، یا پھر ان اشارات سے بالکل غافل ہو جائے جو ضمیر اس کے حیوانی وجود کی غلط روی پر اس تک پہنچاتا ہے۔
انسانی زندگی ان دو سرگرمیوں یا عامل قوتوں پر مشتمل ہے۔
۱۔ اپنے افعال کو ضمیر کے ساتھ ہم آہنگ کرنا۔
۲۔ ضمیر کی آواز پر اپنے کان بند کر لینا تاکہ حسب معمول زندگی بسر کی جا سکے۔
بعض حضرات پہلی بات پر عمل کرتے ہیں اور بعض دوسری پر۔ اول الذکر بات صرف اخلاقی روشنی سے حاصل ہوتی ہے اور آخرالذکر بات کیلئے یعنی ضمیر کی آواز پر اپنے کان بند کرلینے کیلئے دو ذریعے ہیں۔ ایک خارجی اور ایک اندرونی۔ خارجی ذریعہ یہ ہے کہ خود کو ایسے مشاغل میں مصروف رکھا جائے جو ہماری توجہ ضمیر کے اشارات سے ہٹائے رکھیں اور اندرونی ذریعہ یہ ہے کہ خود ضمیر ہی کی روشنی کو آہستہ آہستہ گل کر دیا جائے اور اس میں اندھیرا پیدا کر دیا جائے۔
اپنے سامنے کی چیزوں کو نہ دیکھنے کیلئے انسان کے پاس دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ نگاہیں ہٹا کر کسی دوسری چیز کو دیکھنا شروع کر دیاجائے، جو زیادہ جاذب نظر ہوں اور دوسرا یہ کہ اپنی آنکھوں کی بصارت کو مسدود کر دیا جائے، اسی طرح انسان ضمیر کی آواز پر اپنے کان دو طریقوں سے بند کر سکتا ہے۔ پہلا طریقہ خارجی ہے یعنی یہ کہ وہ اپنی توجہ مختلف مشاغل، تفکرات، کھیلوں وغیرہ کی طرف مبذول کر دے اور دوسرا طریقہ اندرونی ہے یعنی یہ کہ وہ توجہ پیدا کرنے والے عضو ہی کو معطل کر دے۔
ان لوگوں کیلئے جن کی قوت احساس کند ہوتی ہے اور جن کے اخلاقی احساسات محدود ہوتے ہیں، بیرونی تفریحات اکثر اوقات اس بات کیلئے کافی ہوتی ہیں کہ وہ ضمیر کے اشارات نہ سمجھیں، لیکن ان لوگوں کیلئے جو اخلاقی طور پر کافی حساس ہوتے ہیں، ایسی تفریحات بالکل ناکافی ہوتی ہیں۔
بیرونی ذرائع پورے طور پر شعور اور ضمیر کی آواز کو نہیں دبا سکتے اور نہ وہ شعور کے مطالبات ہی سے ہمیں قطعی طورپر غافل کر سکتے ہیں۔ اس لیئے ظاہر ہے کہ یہ احساس یہ شعور ہماری زندگی میں روڑے اٹکانا شروع کر دیتا ہے۔ اب وہ لوگ جو اپنے دن حسب سابق گزارنا چاہتے ہیں، اندرونی قابل اعتماد طریقے کو استعمال کرتے ہیں۔ یعنی یہ کہ ضمیر ہی کو تاریک بنا دیا جائے، چنانچہ اس کام کیلئے وہ دماغ کو مدہوش بنانے والی چیزوں سے زہر آلود کرتے ہیں۔
(۲)
شراب، افیم، چرس، بھنگ اور تمباکو کا عالمگیر استعمال اس لیئے نہیں ہوتا کہ یہ چیزیں فرحت یا دل بستگی کا سامان مہیا کرتی ہیں، بلکہ ان کا استعمال صرف اس لیئے کیا جاتا ہے کہ ضمیر کے مطالبات سے خود کو چھپا لیا جائے۔
میں ایک روز بازار میں جا رہا تھا۔ میرے پاس سے دو گاڑی بان گزر رہے تھے۔ ان میں سے ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا۔ ’’بے شک جب ہم ہوش میں ہوں تو ایسا کرتے ہوئے ہمیں شرم محسوس ہوتی ہے۔‘‘ جب آدمی ہوش میں ہو تو اسے کوئی خاص کام کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے اور جب وہ شراب میں مخمور ہو تو اسے وہی کام ٹھیک معلوم ہوتا ہے۔ ان الفاظ میں وہ وجہ پوشیدہ ہے جو انسانوں کو مدہوش بنانے والی اشیاء کی طرف راغب کرتی ہے، لوگ ان اشیاء کو یا تو ا سلیئے استعمال کرتے ہیں کہ شرم کے ان احساسات کو دبا دیں جو کسی غلط کام کرنے پر پیدا ہوتے ہیں یا پہلے ہی سے خود پر ایسی حالت طاری کر لیں جس میں وہ ضمیر کے خلاف کام کر سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ اپنے حیوانی وجود کی اطاعت کر سکتے ہیں۔
ہوش کی حالت میں مرد ویشیا کے مکان پر جانے سے ڈرتا ہے۔ چوری کرنے سے خوف کھاتا ہے اور کسی کو قتل کرنے کی جرأت نہیں کرتا، لیکن یہ تمام کام کرتے ہوئے شرابی کو کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اسلیئے یہ ثابت ہوا کہ اگر کوئی آدمی اپنے ضمیر کے خلاف کام کرنا چاہے تو اسے خود کو مدہوش کرنا پڑتا ہے۔
مجھے اس باورچی کا بیان یاد آ جاتا ہے جس نے میری ایک بوڑھی رشتہ دار کو قتل کر دیا تھا۔ اس نے عدالت میں کہا تھا کہ جب اس نے اپنی داشتہ (ایک نوکرانی) کو باہر بھیج دیا اور کام کرنے کا وقت قریب آ گیا تو اس نے چاقو لے کر کمرۂ خواب میں جانا چاہا، لیکن اس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ ہوش کی حالت میں وہ یہ کام نہیں کر سکے گا، چنانچہ وہ لوٹا اور ’’وودکا‘‘ کے دو گلاس پینے کے بعد اس نے خود کو قتل کیلئیبالکل تیار پایا، چنانچہ اس نے کمرے میں جا کر بڑھیا کو ہلاک کر دیا۔ یہاں اسی گاڑیبان کی بات یاد آ جاتی ہے کہ ’’جب ہم ہوش میں ہوں تو ایسا کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے۔‘‘
دس میں سے نو جرم اسی طریقے پر کیئے جاتے ہیں، یعنی اس بات پر عمل کیا جاتا ہے۔ ’’ہمت حاصل کرنے کیلئے شراب پیو۔‘‘
وہ عورتیں جو اپنی عصمت کھوتی ہیں، ان میں سے پچاس فیصدی ایسی ہوتی ہیں جو شراب کے نشے میں اپنی زندگی کا بہترین زیور اتار کر پھینک دیتی ہیں۔ ویشیاؤں کے ہاں اکثر وہی لوگ جاتے ہیں جو شرابی ہوں، چونکہ لوگ شراب کے اس اثر سے واقف ہیں کہ یہ ضمیر کی آواز بالکل دبا دیتی ہے، ا سلیئے وہ اسے جان بوجھ کر اسی کام کیلئیپیتے ہیں۔
لوگ صرف اپنے ضمیر ہی کی آواز دبانے کیلئے شراب نہیں پیتے بلکہ دوسروں کو بھی اپنے ضمیر سے غافل کرنے کیلئے شراب پلاتے ہیں۔ جنگ میں دو بدو لڑائی کے وقت فوجیوں کو عام طور پر شراب پلائی جاتی ہے۔ سبستوپول پر جب فرانسیسی فوجیوں نے حملہ کیا تھا تو وہ سب کے سب مخمور تھے۔
جب کسی جگہ پر قبضہ کیا جاتا ہے اور فوجی وہاں کے بے یارومددگار بچوں اور بوڑھوں کو مارنے سے انکار کر دیتے ہیں تو عام طور پر ان کوشراب سے مدہوش کرنے کے احکام جاری کیئے جاتے ہیں، مخموری کی حالت میں وہ اس کام کیلئے تیار ہو جاتے ہیں جو ان سے چاہا جاتا ہے۔
ایسے لوگوں کی کئی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے کوئی غلط کام کرنے کے بعد شراب نوشی شروع کی۔ چونکہ وہ اپنی ندامت دور کرنا چاہتے تھے ا سلیئے انہوں نے خود کو مدہوش بنانا شروع کر دیا اور پھر سب لوگ جانتے ہیں کہ وہ لوگ جو بری زندگی بسر کرتے ہیں، منشیات کی طرف جلد راغب ہوتے ہیں۔ چور اچکے رہزن اور ویشیائیں بغیر شراب کے زندہ نہیں رہ سکتیں۔
ہر شخص یہ جانتا ہے اور تسلیم کرتا ہے کہ مدہوش بنانے والی چیزوں کا استعمال باعث ہے ضمیر کی ٹیسیں اور یہ کہ زندگی کے غیر اخلاقی رستوں پر چلتے وقت مدہوش بنانے والی اشیاء کا استعمال صرف اس لیئے کیا جاتا ہے کہ ضمیر کو کند بنا دیا جائے اور یہ بھی ہر شخص پر واضح ہے کہ مدہوش بنانے والی چیزوں کا استعمال ضمیر کو کند بنا دیتا ہے اور یہ کہ مخموری کی حالت میں آدمی وہ فعل بھی کر گزرتا ہے، جو ہوش کی حالت میں وہ کبھی نہیں کر سکتا۔ بلکہ یوں کہئے کہ جس کا اسے کبھی قیاس بھی نہیں ہوگا۔ ہر شخص ان باتوں کو تسلیم کرتا ہے، مانتا ہے لیکن جب مدہوش بنانے والی اشیاء چوری چکاری، قتل و غارت یا تشدد پر منتج نہیں ہوتیں۔ جب ان کو کسی بھیانک جرم کے بعد استعمال نہیں کیا جاتا۔ جب ان کو ایسے لوگ استعمال میں لاتے ہیں جو مجرم نہیں ہوتے اور جب ایسی چیزیں تھوڑی تھوڑی مقدار میں استعمال کی جاتی ہیں تو عام طور پر کسی وجہ سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مدہوش بنانے والی اشیاء ضمیر کو کند نہیں بناتیں۔ چنانچہ اسی خیال کہ ماتحت یہ کہا جاتا ہے کہ تھوڑی مقدار میں شراب ،بیئر، افیون وغیرہ صرف فرحت حاصل کرنے کیلئے استعمال کی جاتی ہیں اور یوں ان کا ضمیر پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
کہا جاتا ہے کہ جب معمولی مدہوشی کے بعد کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا جاتا، نہ چوری کی جاتی ہے اور نہ قتل کیا جاتا ہے، تو وہ بیہودہ اور فضول حرکات جو عام طور پر دیکھنے میں آتی ہیں، ان کا مدہوشی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ وہ خود بخود وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ جب یہ لوگ جرائم سے متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرتے، تو انہیں اپنے ضمیر کی آواز دبانے کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں ہو سکتی اور یہ کہ وہ زندگی جو منشیات کے عادی بسر کرتے ہیں، بڑی اچھی زندگی ہوتی ہے اور اگر وہ اس عادت کو چھوڑ دیں تو بھی ان کی زندگی ویسی ہی اچھی رہ سکتی ہے یہ بھی فرض کر لیا گیا ہے کہ مدہوش بنانے والی چیزوں کا متواتر و مسلسل استعمال ان کے ضمیر کو قطعی طور پر تاریک نہیں بناتا۔
گوہر شخص تجربے کی بنا پر جانتا ہے کہ شراب اور تمباکو سے انسان کے دل و دماغ کی ہئیت تبدیل ہو جاتی ہے، ان چیزوں کے استعمال سے ان افعال پر شرم محسوس نہیں ہوتی، جن پر ہوش کی حالت میں ہونی چاہیئے۔ ضمیر کی ہر چٹکی پر انسان کسی مدہوش بنانے والی چیز کی طرف رجوع کرتا ہے۔ نشے کی حالت میں اپنی زندگی اور اپنے حالات کا اندازہ نہیں کر سکتا، منشیات کا باقاعدہ اور مسلسل استعمال وہی نفسیاتی خلل پیدا کرتا ہے جو ان کا غیر معتدل اور بے قاعدہ استعمال پیدا کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود ان لوگوں کو جو تمباکو اور شراب اعتدال سے پیتے ہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ منشیات اپنے ضمیر کو کند بنانے کیلئے استعمال نہیں کرتے بلکہ صرف ذائقے اور فرحت کیلئے استعمال میں لاتے ہیں۔
لیکن ان لوگوں کو غیر جانب دارانہ طریقے پر بڑی متانت اور سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے پر غور کرنا چاہیئے۔۔۔۔۔۔ ایسے نہیں سوچنا چاہیئے گویا سر کی بلا ٹال دی گئی ہے بلکہ اس کو سمجھنا چاہیئے ۔ اولاً یہ کہ جب منشیات زیادہ مقدار میں باقاعدہ استعمال کی جائیں تو ضمیر کو کند بنا دیتی ہیں تو ان کا تھوڑی مقدار میں باقاعدہ استعمال بھی ایسے ہی نتائج پیدا کرتا ہوگا، ثانیاً یہ کہ تمام منشیات، ضمیر کو کند بنانے کی خاصیت رکھتی ہیں، دونوں حالتوں میں ان کی یہ خاصیت برقرار رہتی ہے، خواہ ان کے اثر کے تحت ایسے الفاظ زبان پر آئیں، یا ایسے احساسات دل میں پیدا ہوں جو ہوش کی حالت میں پیدا نہیں ہونے چاہیئے تھے اورثالثاً یہ کہ اگر چوروں، ڈاکوؤں اور ویشیاؤں کو اپنے ضمیر کند کرنے کیلئے منشیات کی حاجت ہوتی ہے تو ان لوگوں کو بھی جو اپنے ضمیر کے خلاف کوئی کام یا پیشہ اختیار کرتے ہیں (خواہ یہ کام اور پیشے آپ کے نزدیک بڑے باوقار اور موزوں ترین ہوں) ان چیزوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
مختصر الفاظ میں ہم اس حقیقت سے ہر گز ہر گز انکار نہیں کر سکتے کہ منشیات کا استعمال خواہ وہ تھوڑی مقدار میں اور باقاعدہ ہو۔ یا زیادہ مقدار میں اور بے قاعدہ۔ اونچے طبقے میں ہو یا نچلے طبقے میں۔ صرف ایک ہی ضرورت کے ماتحت عمل میں آتا ہے اور وہ ضرورت ضمیر کی آواز کو دبانے کی ہے تاکہ راستے میں کوئی حائل نہ ہو۔
(۳)
صرف ان چند الفاظ میں منشیات و مسکرات اور تمباکو (جو عام پیا جاتا ہے اور جو سب سے زیادہ مضرت رساں ہے) کے عالمگیر استعمال کا راز پوشیدہ ہے۔
یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ تمباکو تازگی بخشتا ہے، خیالات کو صاف کرتا ہے اور لوگوں کی توجہ اپنی طرف ایسے ہی مبذول کرتا ہے جیسے دوسری چیزیں اور یہ کہ شراب کے مانند اس کا ضمیر پر کچھ اثر نہیں پڑتا، لیکن اگر بڑے غور سے ان حالتوں کا مشاہدہ و مطالعہ کیا جائے جن میں تمباکو پینے کی خواہش پیدا ہوتی ہے تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ ضمیر پر تمباکو کا وہی اثر ہوتا ہے جو شراب کا ہوتا ہے، اگر تمباکو واقعی تازگی بخشنے یا خیالات صاف کرنے والا ہوتا تو اس کی شدید طلب ہر گز ہر گز پیدا نہ ہوتی۔ ایسی طلب جو خاص خاص مواقع پر نمودار ہو اور لوگ یہ ہر گز ہر گز نہ کہتے کہ ہم بھوکے رہ سکتے ہیں، لیکن تمباکو ضرور پئیں گے۔
اس باورچی نے جس نے اپنی مالکہ کو قتل کر دیا تھا، کہا تھا کہ جب کمرۂ خواب میں داخل ہو کر اس نے بڑھیا کے گلے پر چھری پھیر دی اور خون کے فوارے چھوٹنے لگے تو اس کی ہمت، اس کی طاقت جواب دے گئی، ’’میں اپنا کام پوری طرح ختم نہ کر سکا۔ اس نے عدالت میں بیان دیا، چنانچہ کمرے سے باہر نکل کر میں نے سگریٹ سلگایا۔‘‘
سگریٹ پی کر اور خود کو مدہوش کرنے کے بعد وہ اس قابل ہوا کہ واپس جا کر بڑھیا کے سر کو تن سے جدا کر دے، ظاہر ہے کہ اس وقت اس کے دل میں سگریٹ پینے کی خواہش اس لیئے پیدا نہ ہو ئی کہ وہ اپنے خیالات کو صاف کرنا چاہتا تھا یا فرحت حاصل کرنا چاہتا تھا، بلکہ اس وقت اس کو اپنی وہ چیز کند بنانا تھی، جو اس برے کام کی تکمیل سے روک رہی تھی۔
ہر تمباکو نوش تھوڑے سے غورو فکر کے بعد معلوم کر سکتا ہے کہ ایسے خاص لمحات آتے ہیں جب وہ خود کو تمباکو سے مدہوش بنانا چاہتا ہے ، ان دونوں کو پیش نظر رکھ کر جب میں تمباکو کو پیا کرتا تھا آپ کو ایک واقعہ بتاتا ہوں۔ جب مجھے اس کی طلب محسوس ہوا کرتی تھی۔ عام طور پر میں ایسے لمحات میں تمباکو پیا کرتا تھا جب کسی بات کی یاد کو فراموش کر دینا چاہتا تھا۔ جب میں کسی چیز کو بھول جانا چاہتا تھا یا سرے ہی سے غور و فکر کرنا نہیں چاہتا تھا۔
میں بے کار بیٹھا ہوتا تھا۔ مجھے معلوم ہوتا تھا کہ مجھے کام کرنا ہے، لیکن چونکہ میں ایسے ہی بے کار بیٹھا رہنا چاہتا تھا اس لیئے میں تمباکو پینا شروع کر دیتا تھا۔ میں نے کسی کے ساتھ وعدہ کیا ہوتا تھا کہ میں اس کے یہاں پانچ بجے ضرور آؤں گا لیکن جب یہ وعدہ پورا نہ ہوتا تو اس کے احساس کو بھلانے کیلئے میں تمباکو پینا شروع کر دیتا تھا۔ طبیعت میں چڑچڑے پن کے باعث میں اگر کسی کو ناخوشگوار کلمات کہہ دیتا تو اس غلطی کے احساس کو دور کرنے کیلئے پائپ سلگا لیا کرتا تھا۔ تاش کھیلنے کے دوران میں اگر میں توقع سے زیادہ رقم ہار جاتا تو تمباکو پینا شروع دیتا تھا۔ مجھ سے اگر کوئی بری حرکت سرزد ہو جاتی تھی اور اس کا اعتراف کرنے کو جی نہیں چاہتا تھا تو پائپ پینے لگ جاتا تھا اور دوسروں کو قصور وار ٹھہرانا شروع کر دیتا تھا۔ کوئی مضمون لکھتے وقت اگر مجھے پوری طرح تسکین حاصل نہیں ہوتی تھی اور ہونا یہ چاہیئے تھا کہ میں لکھنا ترک کر دوں، لیکن میں زبردستی اس مضمون کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ اس لیئے میں تمباکو نوشی شروع کر دیتا تھا۔ کسی سے گفتگو کرتے وقت اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کی بات کو نہیں سمجھ رہے، لیکن چونکہ میں اپنی رائے کا اظہار جاری رکھنا چاہتا تھا۔ اس لیئے میں تمباکو پینا شروع کر دیتا تھا۔
تمباکو اور دوسری مدہوش بنانے والی چیزوں میں یہ امتیازی فرق ہے کہ اس کے ذریعے ہم بڑی آسانی کے ساتھ خود کو مدہوش بنا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کا بظاہر بالکل بے ضرر اور نقل پذیر ہونا ہے۔ افیم بھنگ اور شراب وغیرہ استعمال کرنے کیلئے ابتدائی تیاریاں کرنا پڑتی ہیں اور دیگر لوازمات کی بھی ضرورت ہوتی ہے مگر تمباکو ہر وقت جیب میں رکھا جا سکتا ہے اور اس کے پینے کیلئے اور لوازمات کی ضرورت نہیں ہوتی۔ شراب اور گانجا پینے والوں کو دیکھ کر عام طور پر لوگ ہیبت زدہ ہوجاتے ہیں، لیکن تمباکو پینے والے اس قسم کی کیفیت پیدا نہیں کرتے۔ لوگ ان سے دور ہٹنے کی کوشش نہیں کرتے۔ شراب افیون اور گانجا وغیرہ تمام حسیات پر اثرانداز ہوتے ہیں اور یہ اثر دیر تک قائم رہتا ہے مگر تمباکو سے ایسا نہیں ہوتا۔ آپ کوئی ایسا کام کرنا چاہتے ہیں جو آپ کو نہیں کرنا چاہیئے تو آپ سگریٹ پی کر خود کو بقدر ضرورت مدہوش بنا لیتے ہیں، اس کے بعد آپ پھر ہوش میں آ جاتے ہیں اور اچھی طرح سوچنے لگتے ہیں۔ یا فرض کر لیا جائے کہ آپ نے کوئی ایسا کام کیا ہے، جو آپ کو نہیں کرنا چاہیئے تھا تو آپ سگریٹ پیتے ہیں اور اس غلطی کے احساس کو مٹا کر کوئی اور کام کرنے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ تمباکو نہ کسی طلب کو پورا کرنے کیلئے اور نہ وقت کاٹنے کیلئے پیا جاتا ہے، بلکہ صرف اپنا ضمیر کند بنانے کیلئیپیا جاتا ہے اور کیا ان تمام امور سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انسان کی زندگی اور اس کے دل میں تمباکو پینے کی خواہش کے درمیان ایک گہرا رشتہ ہے۔
لڑکے کب تمباکو پینا شروع کرتے ہیں؟ ۔۔۔ عام طور پر اس وقت جب وہ اپنے بچپن کی معصومیت کھو دیتے ہیں۔ یہ کیا بات ہے جب انسان اپنی زندگی کے اخلاقی راستوں پر گامزن ہوتا ہے تو وہ تمباکو کی عادت ترک کر دیتا ہے اور جب ان راستوں سے ہٹ جاتا ہے تو پھر تمباکو پینا شروع کر دیتا ہے؟ ۔۔۔ کیا وجہ ہے کہ سب قمار باز تمباکو کے عادی ہوتے ہیں ؟ ۔۔۔ وہ عورتیں جو ہموار زندگی بسر کرتی ہیں، کیوں بہت کم تمباکو پیتی ہیں؟ ۔۔۔ ویشیائیں اور دیوانے سب کے سب تمباکو کے عادی کیوں ہوتے ہیں؟ ۔۔۔ عادت عادت ہے، لیکن تمباکو نوشی یقیناًضمیر کو کند بنانے والی خواہش سے متعلق ہے اور اس سے یہ خواہش پوری ہوتی ہے۔
عام طورپر کہا جاتا ہے (میں خود بھی یہی کہا کرتا تھا) کہ تمباکو پینے سے دماغی کام اچھی طرح ہوتا ہے، اگر ہم دماغی کام کی مقدار کو پیش نظر رکھیں تو یہ بیان بلاشک و شبہ صداقت پر مبنی ہے۔ وہ شخص جو تمباکو پیتا ہے اور جو انجام کار اپنے خیالات کو جانچنے اور پرکھنے کی قوت کھو دیتا ہے، عام طور پر یہ خیال کرتا ہے کہ اس کے دماغ میں بے شمار خیالات آ رہے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس کے دماغ میں واقعی بے شمار خیالات آ رہے ہیں۔ دراصل بات یہ ہوتی ہے کہ اسے اپنے خیالات پر قابو نہیں رہتا اور وہ غلط نتیجہ مرتب کر لیتا ہے۔
جب آدمی کام کرنے لگے تو اسے اپنے اندر دوو جودوں کا احساس ہوتا ہے۔ ایک وہ وجود جو کام کرتا ہے اور دوسرا وہ جو جانچتا رہتا ہے۔ یہ جانچ جس قدر کڑی ہوگی، اسی قدر کام سست رفتاری سے، مگر اچھا اور پختہ ہوگا اور اگر یہ جانچ پڑتال کمزور ہوگی تو کام جلدی مگر خام ہوگا۔ جب کام کرنے والے پر مدہوشی طار ی ہوتی ہے تو کام کی مقدار بڑھ جاتی ہے، مگر اس میں اچھائی پیدا نہیں ہوتی۔
لوگ عام طور پر کہتے ہیں ’’اگر میں تمباکو نہ پیوں تو لکھ ہی نہیں سکتا۔ شروع کرتا ہوں مگر لکھ ہی نہیں سکتا‘‘ ۔۔۔۔۔۔ میں بھی یہی کہا کرتا تھا، لیکن سوچنا یہ ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ ۔۔۔ میرا خیال یہ ہے کہ اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ آپ لکھنا ہی نہیں چاہتے ہیں یاپھر یہ ہونا چاہیئے کہ آپ کے شعور میں لکھنے کی خواہش ابھی تک خام ہے، اس کی صرف دھندلی سی صورت آپ کی نظروں کے سامنے آ رہی ہے۔ جس کی خبر آپ کے اندر والا نقاد بشرطیکہ وہ مدہوش نہ ہو، آپ کو پہنچا دیتا ہے ، اگر آپ تمباکو نہ پئیں تو آپ یقیناً یا تو لکھنے کا خیال ہی چھوڑ دیں گے یا پھر اس دھندلے خیال کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کریں گے تاکہ وہ پختگی اختیار کرئے اور آپ کی نظروں کے سامنے صحیح شکل میں آ جائے، لیکن اگر آپ نے تمباکو پی لیا اور آپ کے اندر والا نقاد مدہوش ہو جائے گا اور وہ روک جو آپ کے راستے میں تھی ہٹ جائے گی۔ تمباکو پینے سے پہلے جو خیال آپ کو بالکل مبہم اور فضول نظر آتا تھا، تمباکو پینے کے بعد اہمیت اختیار کر لیتا ہے، وہ رکاوٹیں جو آپ کے راستے میں حائل تھیں، دور ہو جاتی ہیں۔ آپ لکھنا شروع کر دیتے ہیں اور زیادہ تیزی کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔ !
(۴)
لیکن کیا معمولی اور حقیر سانشہ جو شراب اور تمباکو کے معتدل استعمال سے پیدا ہوتا ہے، اہم نتائج کا باعث ہوتا ہے؟ ۔۔۔ اگر کوئی شخص گانجا اور شراب پی کر گر پڑے اور اپنے حواس کھودے تو یقیناً اہم نتائج پیدا ہو سکتے ہیں، لیکن اگر تمباکو اور گانجا وغیرہ
تھوڑی سی مقدار میں استعمال کیا جائے جو معمولی نشہ پیدا کرے تو اس سے خطرناک نتائج برآمد نہیں ہو سکتے ۔۔۔ یہ بیان عام طور پر سننے میں آتا ہے اور فرض کر لیا گیا ہے کہ معمولی سی مدہوشی برا اثر پیدا نہیں کرتی، یہ تو ایسا ہی ہے، اگر یہ خیال کر لیا جائے کہ پتھر پر گھڑی کو پٹک دینے سے اس کو نقصان پہنچے گا، لیکن معمولی سا گردوغبار اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
یہ خیال رکھنا چا ہیئے کہ انسان کی زندگی کو وہ کام حرکت یا اکساہٹ نہیں بخشتا جو ہاتھوں پیروں یا پیٹھ سے کیا جائے بلکہ وہ کام حرکت بخشتا ہے جو ضمیر کرے۔ ہاتھوں اور پیروں سے اگر کوئی کام شروع کیا جائے تو شعوری احساس میں ردوبدل کا ہونا ضروری ہے اور یہی ردوبدل بعد کی حرکات کو واضح اور ممیز کرتا ہے، حالانکہ یہ بالکل معمولی اور ناقابل ادراک ہوتا ہے۔
برولوف (روس کا ایک مشہور و معروف مصور۔ ۱۸۵۲ ۔ ۱۷۹۹) نے ایک روز اپنے شاگرد کی کھینچی ہوئی تصویر کی اصلاح کی۔ اصلاح شدہ تصویر کو دیکھ کر شاگرد ایکاایکی بول اٹھا۔ ’’آپ نے برش سے صرف چھوٹے چھوٹے نشان بنائے لیکن اس میں جان پیدا کر دی۔‘‘ برولوف نے جواب دیا۔ ’’آرٹ وہیں سے شروع ہوتا ہے جہاں سے یہ چھوٹے چھوٹے نشان شروع ہوتے ہیں۔‘‘
برولوف کا کہنا بالکل درست ہے۔ صرف آرٹ ہی کے بارے میں نہیں بلکہ تمام زندگی پر اس کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ ہم بلاخوف تردید کہہ سکتے ہیں کہ صحیح زندگی کا آغاز وہیں سے ہوتا ہے، جہاں سے ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کا ہوتا ہے۔ جہاں ہمارے قیاس کے مطابق ناقابل ادراک تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اصل زندگی وہاں بسر نہیں کی جاتی جہاں بڑے بڑے خارجی انقلاب آتے ہیں۔ جہاں لوگ چلتے پھرتے ہیں، لڑتے ہیں اور ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں ۔۔۔ بلکہ وہاں بسر کی جاتی ہے جہاں بالکل ننھی ننھی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔
ننھی ننھی تبدیلیاں ۔۔۔ لیکن ان ہی سے نہایت ہولناک اور نہایت اہم نتائج وابستہ ہوتے ہیں۔ کسی کام کا ارادہ کرنے سے لے کر اس کے کر گزرنے تک بہت سی مادی تبدیلیاں پیدا ہو سکتی ہیں، ۔۔۔ گھر کے گھر تباہ و برباد ہو سکتے ہیں، دھن دولت کا ستیاناس ہو سکتا ہے اور انسانوں کی غارت گری عمل میں آ سکتی ہے، لیکن اس سے زیادہ اہم چیز وہ ہے جو انسان کے شعور میں چھپی ہوئی ہے۔ امکان یعنی ہو سکنے کی تحدید شعور ہی کرتا ہے۔
شعور کے اندر چھوٹی سے چھوٹی تبدیلی بھی ناقابل قیاس نتائج پیدا کرنے کا موجب ہو سکتی ہے۔ آپ کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں۔ اس کا انسان کی اختیاری قوت یا عقیدہ جبر یعنی جبریت سے کوئی تعلق ہے۔ اس پر بحت کرنا بالکل فضول ہے۔ اس سوال کا فیصلہ کیئے بغیر کہ آیا انسان اپنی خواہش کے مطابق کام کر سکتا ہے یا نہیں (یہ سوال میرے نزدیک درست نہیں ہے) میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب انسانی سرگرمیاں اور شعور کی خفیف ترین تبدیلیاں لازم و ملزوم ہیں تو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے (ہم اختیاری قوت کی موجودگی کو تسلیم کریں یا نہ کریں) کہ ہم خاص طور پر ان حالات کا جائزہ لیں جن کے تحت یہ خفیف ترین تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔ کوئی چیز تولتے وقت ہمیں ترازو کے پلڑوں کا خاص طور پر دھیان رکھنا پڑتا ہے۔
ہمیں حتی الامکان اس بات کی کوشش کرنا چا ہیئے کہ اپنے آپ کو اور دوسروں کو ایسے حالات سے دور رکھیں جو خیال کی اس نزاکت اور صفائی پر اثرانداز ہوتے ہوں۔ جن کے بغیر شعور اپنا کام صحیح طور پر نہیں کر سکتا۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں منشیات کا استعمال ہر گز ہر گز نہیں کرنا چاہیئے۔ اسلیئے کہ وہ ضمیر و شعور کے کام میں رخنہ اندازی کرتا ہے۔
چونکہ انسان بیک وقت روحانی اور حیوانی مخلوق ہے، اس لیئے ہو سکتا ہے کہ وہ کبھی ان اشیاء سے متاثر ہو جائے جو اس کی روحانی فطرت پر اثرانداز ہوتی ہیں اور کبھی ان اشیاء سے متاثر ہو جائے جو اس کی حیوانی فطرت پر اتر انداز ہوتی ہیں جیسا کہ کلاک سوئیوں کے ذریعے سے بھی متحرک ہو سکتا ہے اور بڑے پہیئے کے ذریعے سے بھی حرکت میں آ سکتا ہے۔ جس طرح بہتر صورت یہ ہے کہ کلا ک کو اس کی اندرونی مشینری کے ذریعے سے منضبط کیا جائے۔ ٹھیک اسی طرح انسان خود کو ضمیر باشعورکے ذریعے سے باضابطہ بنا سکتا ہے۔
(۵)
لوگ وقتی طور پر اداسی دور کرنے کیلئے یا فرحت حاصل کرنیکیلئے شراب نہیں پیتے اور نہ وہ ا سلیئے پیتے ہیں کہ یہ خوش گوار شے ہے بلکہ اپنے اندر اپنے ضمیر کی آواز غرق کرنے کیلئے پیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس سے بہت ہولناک نتائج برآمد ہوتے ہوں گے۔ ذرا اسی عمارت کے نقشے کا تصور کیجئے جس کی دیواریں اور کونے ضروری آلات کی مدد کے بغیر تیار کیئے گئے ہوں گے۔ کیا ایسی عمارت پائیدار ہو سکتی ہے؟
لیکن لوگ پھر بھی اپنے آپ کو مدہوش کرتے ہیں۔ جب زندگی ضمیر کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوتی تو ضمیر کو توڑ مروڑ کر اس کے ساتھ منضبط کر دیا جاتا ہے۔
ضمیر کو مدہوش بنانے کی صحیح اہمیت معلوم کرنے کیلئے آپ اپنی زندگی کے ہر دور کے روحانی لمحات کو پیش نظر ر کھیئے۔ آپ کو یاد آ جائے گا کہ ہر دور میں آپ کے سامنے کوئی نہ کوئی اخلاقی سوال تھا، جس کو آپ حل کرنا چاہتے تھے اور جس کے حل ہونے سے آپ کی زندگی کی بہتری وابستہ تھی۔ اس سوال کو حل کرنے کیلئے توجہ کے اجتماع و ارتکاز کی ضرورت تھی، ہر محنت و مشقت سے متعلقہ کام کرنے میں اور خاص طور پر اس کے شروع کرتے وقت ا یسے لمحات آتے ہیں، جب یہ مشکل اور تکلیف دہ معلوم ہوا کرتا ہے اور جب انسانی کمزوری یہ خواہش پیدا کرتی ہے کہ اس کو چھوڑ دیا جائے۔ جسمانی کام تکلیف دہ معلوم ہوتا ہے اور دماغی کام اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ محسوس ہوتا ہے۔ جیساکہ ژونگ کہتا ہے کہ لوگ عام طور پر اس وقت سوچنا بند کر دینا چاہتے ہیں۔ جب کوئی خیال مشکل محسوس ہوتا ہے، لیکن میں کہوں گا کہ یہیں جہاں سے یہ مشکل شروع ہوتی ہے، سوچنا یعنی غوروفکر بارآور ہونا شروع ہوتا ہے۔
جب آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے پیش نظر سوالات کے تصفیے پر محنت صرف ہوگی جو عام طور پر تکلیف دہ ہوتی ہے تو اس کے دل میں اس الجھن سے نجات حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے، اگر اس کے پاس خود کو مدہوش بنانے والے ذرائع نہ ہوتے تو وہ اپنے ضمیر سے ان سوالات کو کبھی خارج نہ کر سکتا۔ جو اس کے درپیش تھے، لیکن چونکہ اس کو ایسے ذرائع معلوم نہیں جن سے ان خیالات کو بھگایا جا سکتا ہے۔ اس لیئے وہ بوقت ضرورت انہیں استعمال کرتا ہے۔
جونہی حل طلب سوالات اس کو دق کرنا شروع کرتے ہیں، دکھ دینے لگتے ہیں۔ وہ جھٹ سے ان ذرائع کی طرف رجوع کرتا ہے اور ان تکلیف دہ سوالوں کی پیداکردہ پریشانی سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ضمیر ان سوالوں کا حل طلب کرنا بند کر دیتا ہے اور یہ غیر حل شدہ سوال آئندہ روحانی لمحات تک غیر حل شدہ رہتے ہیں اور جب یہ لمحات آتے ہیں تو پھر وہ انہی ذرائع کو استعمال کرتا ہے اور انجام کا ر وہ اپنی زندگی اسی طرح گزار دیتا ہے اور اخلاقی سوالات جو اس کے درپیش تھے، ویسے کے ویسے حل طلب رہتے ہیں۔ حالانکہ ان سوالات کے حل ہونے ہی میں زندگی کی ساری حرکت پوشیدہ ہے۔
ایسے لوگوں کی مثال بالکل اس انسان کے مانند ہے، جو گدلے پانی کے پاس کھڑا ہو اور اس کے اندر داخل ہو کر موتی نکالنے سے گھبراتا ہو، چنانچہ بار بار جب کہ پانی پرسکون اور شفاف ہونے لگے تو وہ اسے ہلا کر پھر گدلا بنا دے۔
اگر آپ اس زمانے کو پیش نظر رکھیں جب آپ تمباکو اور شراب پیا کرتے تھے یا دوسرے پینے والوں کے متعلق اپنے تجربے پر نظر کریں تو آپ کو منشیات کے عادی لوگوں اور منشیات سے پرہیز کرنے والوں کے درمیان ایک مستقل منقسم لکیر نظر آئے گی لوگ جس قدر زیادہ منشیات کو استعمال کریں گے، اسی قدر وہ اخلاقی طور پر غیر حساس ہوتے چلے جائیں گے۔
(۶)
جیساکہ عام طور پر کہا جاتا ہے افیم اور گانجا کے نتائج بڑے ہولناک ہوتے ہیں جیساکہ ہم جانتے ہیں پکے شرابیوں کیلئے شراب نہایت مہلک نتائج کا موجب ہوتی ہے اور اس سے زیادہ شراب، بیئر، تمباکو وغیرہ کا معتدل استعمال جو بالکل بے ضرر سمجھا جاتا ہے، ہماری سوسائٹی کیلئے ہولناک نتائج کا باعث ہوتا ہے۔
نتائج فطری طور پر ہولناک اور خطرناک ہونے چاہئیں، اس حقیقت کے پیش نظر کہ سوسائٹی کی معاشرتی، فکری، سائنٹیفک ادبی اور فنی سرگرمیاں زیادہ تر ان لوگوں سے متعلق ہیں جو غیر معتدل ہوتے ہیں یعنی جو شراب پیتے ہیں۔
عام طور پر فرض کر لیا جاتا ہے کہ وہ لوگ جو کھانا کھانے کے بعد شراب پیتے ہیں دوسرے روز کام کے اوقات میں بالکل ٹھیک اور معتدل حالت میں ہوتے ہیں۔ لیکن یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ وہ لوگ جو شراب بیئر یا کسی اور نشیلی چیز کے ایک دو گلاس پیتے ہیں، دوسرے دن ان پر غنودگی کی حالت طاری ہوتی ہے اور وہ خود کو اداس اداس محسوس کرتے ہیں جس کا بالآخر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مشتعل ہو جاتے ہیں۔ ان کی دماغی پژمردگی اور ناتوانی کو تمباکو نوشی اور بھی زیادہ بڑھا دیتی ہے۔ تمباکو اور شراب کو اعتدال کے ساتھ استعمال کرنے والے اگر اپنے دماغ کو اصلی حالت میں لانا چاہیں تو کم از کم ایک ہفتہ درکار ہوگا مگر ایسا شازو نادر کیا جاتا ہے۔
چنانچہ ثابت ہوا کہ ہمارے درمیان جو کچھ بھی ہوتا ہے (خواہ اس کی ذمہ داری ان لوگوں کے سر پر ہو، جو حکومت کرتے ہیں یا دوسروں کو سبق دیتے ہیں۔ خواہ اس کی ذمہ داری ان لوگوں سے متعلق ہو، جو محکوم ہیں اور دوسروں سے سبق لیتے ہیں) سنجیدہ و متین حالت میں نہیں ہوتا۔
اگر میں یہ کہوں کہ ہماری زندگیوں کے انتشار اور ان کے ضعف کا باعث مدہوشی کی وہ مستقل حالت ہے، جس میں کہ اکثر لوگ رہتے ہیں تو آپ اسے مذاق نہ سمجھیئے گا، اگر لوگ مدہوشی کی حالت میں نہ ہوں تو ہمارے ارد گرد جو کچھ ہو رہا ہے کیا کسی کے وہم و گمان میں آ سکتا ہے۔ ایفل ٹاور بنانے سے لے کر فوجی ملازمت اختیار کرنے تک۔
کسی ضرورت کے بغیر ایک کمپنی بنائی جاتی ہے، سرمایہ اکٹھا کیا جاتا ہے، لوگ محنت و مشقت کرتے ہیں، حساب لگاتے ہیں، سکیمیں تیار کرتے ہیں۔ لاکھوں ٹن لوہا ایک منار بنانے پر صرف کر دیا جاتا ہے۔ اس مینار کی تعمیر دوسرے لوگوں کے دلوں میں اس سے بڑے میناربنانے کی خواہش پیدا کرتی ہے، ذرا غور فرمایئے کیا صحیح دماغی حالت میں ایسی فضول باتیں سوجھ سکتی ہیں؟
ایک اور مثال لیجئے۔ یورپی اقوام کئی برسوں سے ایسے عمدہ طریقے ایجاد کرنے پر غور و فکر کر رہی ہیں جن سے انسانوں کو ہلاک کیا جا سکے اور لاکھوں نوجوانوں کو بالغ ہونے کے ساتھ ہی قتل و غارت کے طریقے سکھائے جاتے ہیں، ہر شخص جانتا ہے کہ اب بربری لوگوں کے حملوں کا کوئی خطرہ نہیں رہا، لیکن یہ جنگی تیاریاں متمدن و مہذب اقوام عمل میں لاتی ہیں، جو عیسائی مذہب رکھتی ہیں اور پھر وہ ایک دوسرے سے نبرد آزما ہونے کی کوششیں کرتی ہیں ۔۔۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ یہ تکلیف دہ، ضرر رساں، سکون شکن، تباہ کن اور اخلاق و ادراک کے خلاف ہے، لیکن اس کے باوجود سب باہمی قتل و غارت کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔
بعض سیاسی تدبیریں سوچتے ہیں کہ کیسے، کس کس کے ساتھ مل کر اور کس کو تباہ و برباد کرنا چا ہیئے، بعض ان لوگوں کی تنظیم کرتے ہیں جن کو قتل و غارت گری کے سبق دیئے جا رہے ہوتے ہیں، بعض اپنے ضمیر اپنے ادراک اور اپنی مرضی کے خلاف قتل و غارت کی ان تیاریوں کے سامنے اپنا سر جھکا دیتے ہیں۔ کیا متین و سنجیدہ لوگ ایسا کر سکتے ہیں ؟ ۔۔۔ صرف شرابی ہی ایسے کام کر سکتے ہیں جو سنجیدگی و متانت کی صحیح حالت تک کبھی نہیں پہنچتے۔
میرا خیال ہے کہ آج سے پہلے لوگ کبھی ایسی زندگی بسر نہیں کرتے تھے۔ جس میں ضمیر اور افعال کے درمیان اس قدر فاصلہ ہو کہ انسانیت ایک جگہ گڑ گئی ہے۔ رک گئی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی خارجی سبب نے اسے فطری حالت اختیار کرنے سے روک رکھا ہے جو اسے من حیث العلت اختیار کرنا چاہیئے تھا اور یہ سبب ۔۔۔۔۔۔ اگرچہ یہ اکیلا ہی نہ ہو یقیناً جسمانی طور پر خود کو مدہوش کرتا ہے اور یہ سب سے بڑا سبب ہے جس کے ذریعے سے لوگ اپنے آپ کو دن بدن کمزور اور ضعیف بنا رہے ہیں۔
انسانیت کی تاریخ میں وہ دن قابل یادگار ہوگا جب اس خطرناک برائی سے نجات حاصل کی جائے گی اور وہ دن دور نہیں اس لیئے کہ اس برائی کے نتائج سے لوگ اچھی طرح آگاہ ہو چکے ہیں۔ مدہوش بنانے والی اشیاء کے متعلق لوگوں کا نظریہ بہت حد تک تبدیل ہو چکا ہے اور ان اشیاء کے خطرناک نقصانات سے لوگ اچھی طرح واقف ہو گئے ہیں۔ اب وہ دن بہت نزدیک ہے، جب یہ بیداری لوگوں کو ان مدہوش بنانے والی چیزوں سے ہمیشہکیلئے نجات دلا دے گی اور ان کی آنکھیں کھول دے گی تاکہ وہ اپنے ضمیر کے مطالبات دیکھ سکیں اور ان پر غور کر سکیں۔
***
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں