پیر، 13 اپریل، 2015

آپ دوردرشن اردو بند کردیجیے!





ہندوستان میں اردو والوں کی کوئی آواز نہیں ہے۔ان میں اتحاد نہیں، یہ ایک بکھری ہوئی، بے وقوف اور ناعاقبت اندیش قسم کی آبادی ہے، جو ملک کے مختلف حصوں میں آباد ہے۔کسی سے اردو کے بارے میں بات کیجیے تو وہ شعر سنانے یا آداب کرنے لگتا ہے۔کوئی سوچتا نہیں کہ ’ارشاد فرمائیے‘ اور ’آداب عرض ہےکی تہذیبی سرحدوں سے زیادہ بھی کسی زبان کی کوئی شناخت ہوتی ہے۔اردو محض ایک ادبی و علمی وراثت یا تہذیبی یادگار بن کر رہ گئی ہے، جس کی جگہ میوزیم میں ہے، نہ کہ عوامی زندگی میں۔یہ صورت حال بہت ہی عجیب و غریب ہے کہ اب اردو کے شاعر ہندوستان میں ہندی کے اخبارات پڑھتے ہیں، ہندی نیوز چینل دیکھتے ہیں اور انٹرٹینمنٹ اور انفوٹینمنٹ کے دوسرے تمام ذرائع میں ہندی یا انگریزی ہی کا سہارا لیتے ہیں۔میں اس خوش فہمی میں بالکل مبتلا نہیں ہوں کہ کسی سرکاری گرانٹ کی مدد سے کوئی زبان ترقی بھی کرسکتی ہے، مگر میں اس غلط فہمی کا بھی شکار نہیں ہوں کہ ہندوستان میں اردو بہت اچھے حالات میں ہے یا اس کا مستقبل تابناک ہے۔مستقبل اردو کا نہیں بلکہ اردو زبان و تہذیب کی مٹتی ہوئی قدروں کی دہائیاں دینے والے چند مٹھی بھر لوگوں کا روشن ہے، جن کو معلوم ہے کہ اردوکے نام پر استحصال کرنے یا اس کے ذریعے دوسروں کو بے وقوف بنانے کے طور طریقے دراصل کیا ہونے چاہیے۔
تقریباً سات آٹھ مہینے ہی گزرے ہونگے کہ ہندوستان میں زی گروپ کا ’زندگیچینل لانچ ہوا ہے۔اس پر سارے پاکستانی ڈرامے دکھائے جاتے ہیں۔اس چینل نے اس مفروضے کو بالکل رد کردیا ہے کہ اردو کی بناوٹی، تہذیبی، علمی اور قوی الجثہ ، دیوقامت امیج لوگوں کی روز مرہ زندگی میں تفریح کے سامان بہم نہیں کراسکتی۔اس چینل کی بڑھتی ہوئی ٹی آر پی کا بڑا گہرا اثر ہے کہ اب اس چینل پر بھی ’ہندوستان کے پہلے پریمیم ہندی چینل‘ کا ٹیگ لگادیا گیا ہے۔مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ ریپر پر کیا لکھا ہوا ہے، میں تو یہ جانتا ہوں کہ زبان کوئی مسئلہ نہیں،لوگوں کو اچھے سیٹ، اچھی کہانیاں، اچھے کردار، اچھے مکالمے اور ایسے دوسرے اہم لوازمات سے مطلب ہوا کرتا ہے، گھر میں کام کرنے والی خواتین چینل کو دیکھتے وقت اس سے متعصب ہوکر دنگائیوں کی طرح اس کی مذہبی شناخت نہیں پوچھا کرتی ہیں، وہ بس ٹی وی دیکھتی ہیں اور ایڈیٹ بوکس کے اس مخصوص گوشے میں اگر انہیں وہ سب کچھ مل جاتا ہے جو انہیں تفریح کا ضروری سامان مہیا کرتا ہے تو پھر انہیں دوسرے معاملات سے کوئی خاص مطلب نہیں رہ جاتا۔
2006
میں اردو کا سرکاری چینل ،’ڈی ڈی اردو‘ کے نام سے لانچ ہوا تھا۔اس چینل کے ذریعے جیسا کہ ڈی ڈی اردو کی انٹرنیٹ ویب سائٹ کے ہوم پیج پر لکھا ہے، اردو کی تہذیبی، وراثتی، معلوماتی اور علمی اہمیت کو اجاگر کرناحکومت ہند کا مقصد تھا۔اس کے لیے چینل پر اردو کی بدلتی ہوئی اور جدید صورت حال سے لوگوں کو واقف کرانے اور ان کے سامنے ہندوستان کی دوسری زبانوں کی طرح اردو کے عام زندگی میں نبھائے جانے والے کردار پر روشنی ڈالنا تھا۔اردو زبان و ادب ، صحافت، آزادی کی تاریخ میں اردو کے رول اور ایسے بہت سے موضوعات پر سوفٹ وےئر تیار کرانا اس چینل کی ذمہ داری تھی۔اس بات سے قطع نظر کہ اردو کے اس مسکین چینل کا ذاتی اسٹاف تیس لوگوں سے بھی کم افراد پر مشتمل ہے، ایک اہم بات یہ ہے کہ دس سال کے عرصے میں ایکیوزیشن کے دواور کمیشننگ کا ایک دور چلایا گیا ہے، ایکیوزیشن کیٹگری دراصل ، ایک ایسے منصوبہ بند پروگرامز پر مشتمل ہوتی ہے، جن کو گورنمنٹ ایک ٹینڈر نکلوا کر ، صرف پروپوزل کی بنیاد پر ایک کمیٹی کے ذریعے منظور یا نا منظور کرواتی ہے۔اس کے ذریعے بنائے جانے والے پروگرامز مختلف قسم کے پروڈکشن ہاؤز ز کے تحت تیار کیے جاتے ہیں اور دوردرشن میں جمع ہونے کے بعد تین سال کی مدت تک ان سوفٹ وےئرز یا پروگرامز پر حکومت کا تسلط ہوتا ہے۔اب دوردرشن چاہے تو اسے دن میں دس بار دکھائے یا پھرتین برسوں میں ایک دفعہ بھی براڈکاسٹ نہ کرے۔اس کیٹگری کے تحت ہر ایپی سوڈ کا بجٹ حکومت کی طرف سے طے ہے، یعنی کہ پچاس ہزار روپے۔طریقہ کار یہ ہے کہ بنیادی خیال، ٹریٹمنٹ، اسٹوری بورڈ اور چار مکمل ایپی سوڈز کی اسکرپٹ بطور پروپوزل جمع کردی جاتی ہے۔ان کو پڑھ کر ایک کمیٹی یہ طے کرتی ہے کہ انہیں چینل کے لیے بنایا جانا چاہیے یا نہیں۔پروگرام منظور ہونے کی صورت میں ایک بار پروڈیوسر کو کمیٹی کے سامنے حاضر ہونا پڑتا ہے اور اس کی پروفائل اور شو ریل(جس میں اس کے بنائے ہوئے مختلف پروگرامز کی جھلکیاں موجود ہوتی ہیں)دیکھنے کے بعد کمیٹی یہ طے کرتی ہے کہ اسے کتنے ایپی سوڈ بنانے کے لیے دیے جائیں۔اس طرح کے پروگرامز میں ڈاکیومنٹری، ڈاکیو ڈراما، فکشن، نان فکشن سبھی کچھ موجود ہوا کرتا ہے۔کمیشننگ کا معاملہ اس سے مختلف ہے، اس کا بجٹ بھی زیادہ ہوتا ہے اور اس میں پروڈیوسر کے بنائے ہوئے پروگرام کو چینل ہمیشہ کے لیے خرید لیا کرتا ہے، اس لیے اس کی کوالٹی پر تھوڑا سا زیادہ دھیان دیا جاتا ہے اور ایکیوزیشن کے پروگرامز کی بہ نسبت یہاں زیادہ خرچ اور زیادہ محنت والا معاملہ ہوا کرتا ہے۔
یہ گاتھا دراصل میں نے آپ کو اس لیے سنائی تاکہ آپ شکایتوں کو سننے سے پہلے اس پورے معاملے کو ٹھیک سے سمجھ لیں۔حکومت کے اس نظام میں اول تو سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ کسی بھی چوبیس گھنٹے نشر ہونے والے چینل کو محض پچاس ہزار فی ایپی سوڈ کے بے ہودہ حساب کے ساتھ نہیں چلایا جاسکتا ہے، یہ اسکیم دراصل ان چینلز کے لیے ہوا کرتی ہے، جو بہت ہی کم بجٹ میں اسٹیبلش کیے جاتے ہیں اور جن پر کسی دوسرے چینلز کے پرانے پروگرامز کو شروعات میں دکھایا جاتا ہے، اس کے ذریعے آسانی یہ ہوتی ہے کہ بنے بنائے پروگرام مل جایا کرتے ہیں اور ان میں پیسے بھی بہت زیادہ خرچ نہیں ہوا کرتے۔جتنی مدت میں لوگ ان پرانے پروگرامز کو دیکھنے کے شوق میں چینل سے رجوع کرتے ہیں ، اس دوران چینل اپنے مزید پروگرامز تیار کرنے کے قابل ہوجاتا ہے اور مارکیٹ میں چند روز بعد اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل ہوجاتا ہے۔کسی بھی زبان کے نام پر بنائے جانے والے چینل میں اس طرح کی پیش کش دراصل ایک قسم کا بھدا مذاق ہے۔ہوتا یہ ہے کہ جب کمیٹی (جس میں کچھ فلاپ قسم کے اداکار، خراب ٹیکنیشنیز اور الھڑ سرکاری عہدہ دارموجود ہوتے ہیں)کسی پروڈیوسر کو تیرہ یا چھبیس ایپی سوڈز بنانے کی منظوری دے دیتی ہے تو اس کے ہاتھ میں کٹ کٹا کر تقریباً پانچ یا دس لاکھ روپے آیا کرتے ہیں۔اب ان پانچ لاکھ یا دس لاکھ میں تیرہ ایپی سوڈ بنانا، رائٹرز، اینکرز، کیمرہ مین، ایڈیٹرز، سیٹ اور دوسرے اخراجات کو برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے، چنانچہ اونٹ کے منہ میں زیرہ دینے کی پروڈیوسر صاحب ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ایسے میں اگر وہ فکشن بنارہے ہیں تب تو وہ کوئی سنجیدہ سیریل بھی ہو تو خراب لائٹنگ، الھڑ ایڈینگ اور سڑک چھاپ رائٹرز اور بے ہودہ اداکاروں کی مدد سے وہ بہت ہی آسانی سے مزاحیہ سیریل میں تبدیل ہوجایا کرتا ہے۔ایسے اداکار، جو مکالمے اس طرح ادا کرتے ہوں جیسے ان کے سامنے ٹیلی پرومپٹرلگادیا ہو اور الفاظ کو نہ پڑھ پانے کی بھرپور صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ اسے ٹوٹی پھوٹی کوشش کے ساتھ پڑھ کر ناظرین کو سنارہے ہوں۔’ق‘ کی جگہ ’ک‘ اور ’ک‘ کی جگہ ’ق‘ کی بیماری تو عام ہے، ذ، ج، س، ش اور غ، گ کی ادلا بدلی ایک تھوڑی بہت اردو جاننے والے کو بھی ہنسنے پر مجبور کردیتی ہے۔پھر کروما لگایا جاتا ہے تو اتنا بھیانک جیسے کہ اینکر یا نیوز ریڈر کی تصویر کاٹ کر اسے بڑے بے ڈھب طریقے سے تاج محل یا قطب مینار کے سامنے بٹھا دیا گیا ہو اور جس کے آس پاس موجود باریک رنگ کا ایک پرنور ہالہ یہ بتانے کے لیے کافی ہو کہ صاحب یہ سب پڑھتے وقت کسی اور جگہ تھے اور دکھتے وقت کسی اور جگہ ہیں۔میں نے خود دوردرشن اور آل انڈیا ریڈیو کے باہر جدید صنعتی دور میں بھی ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو ضخیم سے ضخیم ناول کو لے کر پانچ سو روپے فی ایپی سوڈ کے حساب سے صبح سے شام تک تیرہ ایپی سوڈز میں تبدیل کرکے پروڈیوسر کے ہاتھ میں اسکرپٹس تھمانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔کیا ایک ایسے دور میں جہاں ہر وقت انسان کے انگوٹھے کی ذرا سی حرکت پر بہترین سے بہترین انٹرٹینمنٹ چینل سرجھکائے کھڑے رہتے ہوں، اس طرح کا چینل بنانا یہ واضح نہیں کرتا کہ اردو کے نام پر ایک گھٹیا اور تیسرے درجے کے چینل کو لانچ کرکے اس کی بچی کچھی خوبصورتی کی بھی ایسی تیسی کردی جائے اور افسوس اس بات کا ہے کہ اردو والے کبھی اس قسم کے سنجیدہ مسئلے پر بھی حکومت سے کوئی سوال طلب نہیں کرتے، جبکہ انہی کے ٹیکس کے بل پر اس طرح کے تہذیبی چونچلے سیدھے حکومت ہند کی جیب سے پھدک کر ہمارے سامنے رقص کرنے لگتے ہیں۔
اس نعرے نے کہ ہندوستان میں اردو صرف ایک خطے کی زبان نہیں ہے، صرف ایک مذہب یا ایک طبقہ سے اسے جوڑنا نا انصافی ہے، آخر ہندوستان کی اس بدلتی ہوئی دنیا میں اردو کو کیا دیا ہے؟ ایک ایسی زبان ، جس کو صرف اس کی ’آپ جناب‘ کی نسوانیت کے سہارے زندہ رہنے پر مجبور کیا جارہا ہو، اس سے کہیں بہتر ہے کہ اسے بے دریغ قتل کردیا جائے۔میں دوردرشن اردو نہیں دیکھتا۔آپ بھی نہیں دیکھتے ہونگے، ہم اس طرح کے چینل کو کیوں دیکھیں جس میں ثقافت اور وراثت کے نام پر کچھ بے ڈول اور بدہنگم قسم کے پروگرام تیار کیے جاتے ہوں۔تاکہ اس کو دیکھ کر لوگ سمجھیں کہ اردو والے اس طرح کے ہوتے ہیں۔معاف کیجیے گا مگر میں اسے اردو پر کسی قسم کا احسان تصور نہیں کرتا بلکہ اسے اردو کے حق میں ایک مضر اور بے ہودہ حرکت سے تعبیر کرتا ہوں۔دس سال کے عرصے میں اگر کوئی چینل ایک ایسا پروگرام نہ تیار کرواپایا ہو ، جس کو دیکھتے ہوئے ریموٹ کنٹرول سے انگلی خود بخود ہٹ جائے تو ایسے چینل کا کوئی فائدہ نہیں۔خواہ وہ پروگرام کسی نوعیت کا کیوں نہ ہو، اس کا موضوع کچھ بھی ہو، تاریخ کے نام پر مغلیہ سلطنت کی عمارتوں کی نقاشی کا بکھان، ادب کے نام پر ایک اچھے ادیب کی کہانی کے ساتھ کی گئی بدسلوکی اور انٹرٹینمنٹ کے نام پر چار مصرعے موزوں کرلینے والے افراد کی خراب شاعری۔کیا یہ ہے اردو؟کیا یہ اردو کی شناخت ہے؟کیا اس طرح نمائندگی کی جاتی ہے کسی تہذیب کی؟
آپ جسے اردو کی تہذیب سمجھ رہے ہیں وہ غدر کے ہنگامے میں کہیں مرکھپ گئی تھی۔ہندوستان کی اردو تو جدید علوم اور نئی تبدیلیوں اور انقلابات سے لپٹنے کو بے تاب تھی۔اور سب چھوڑیے، اگر ہادی رسوا کا شریف زادہ ہی پڑھ لیا جائے تو اس کا مرکزی کردار آپ کو یہ بات بتانے کے لیے کافی ہوگا کہ تقسیم سے بہت پہلے ہندوستان کا اردوداں طبقہ سائنسی علوم کی اہمیت کو سمجھ چکا تھا۔ہماری نمائندگی الف سے لٹھ لوگوں کے ذریعے مت کیجیے۔آپ اردو کو اس کا حق نہیں دے سکتے تو اسے شرمندہ مت کیجیے۔آپ کی بے شرمی کا عالم تو یہ ہے کہ آپ آج تک سڑکوں پر اردو کے لکھے ہوئے غلط ناموں کو سدھار نہیں سکے۔اگر اردو جاننے والے لوگ مٹھی بھر رہ گئے ہیں ، ختم ہورہے ہیں، مٹ رہے ہیں، تو ٹھیک ہے اس کا اقرار کر لیجیے کہ ہندوستان میں اردو داں طبقہ ایک مشقت بھری زندگی گزار رہا ہے جس نے اپنے زوال کو مکمل طور پر قبول کرلیا ہے۔
ابھی درمیان میں میں نے کہیں یہ بات سنی تھی کہ ممکن ہے کہ آئندہ کچھ برسوں میں اس چینل کو بند کردیا جائے۔یہ بالکل صحیح ہے کہ جس چینل نے دس سال کے عرصے میں ٹی آرپی کے نام پر ایک ایڈ فلم کو اپنے بل بوتے پر حاصل نہ کیا ہو، اسے شرم ہی سے مرجانا چاہیے، کمیشننگ کے پروگرامزکا اعلان 2009میں ہوا تھا اور چھ سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد ابھی تک پانچ سو بارہ منظور ہونے والے پروگراموں میں سے سو بھی شاید ہی تیار ہوئے ہوں ، اور مان لیجیے کہ اگلے دس سالوں میں یہ تمام پانچ سو بارہ پروگرامز بن بھی جاتے ہیں تو کیا ہوگا۔اردو کا فروغ ہوجائے گا، لوگ اس چینل کو دیکھ کر اردو کی تہذیبی شناخت سے متاثر ہونگے، بلکہ وہ یہ سمجھتے ہونگے کہ اس طرح کا خراب چینل ظاہر ہے، اردو جیسی زبان میں ہی بنایا جانا ممکن ہے۔یہ دلوں کو نزدیک لانے والی زبان کا منتر بہت پھونکا جاچکا ہے، کوئی چینل آج اگر اسٹیبلش کیا جاتا ہے تو وہ اپنے ساتھ ایک خاص قسم کا مارکیٹ پیدا کرتا ہے، آج کے دور میں صرف مسابقت ہی نہیں ہے بلکہ مسابقت کے لیے پیدا کیے جانے والے نئے میدانوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ایسے میں کروڑوں روپیہ صرف ایک ایسی زبان کی بھونڈی ترقی پر کیوں خرچ کیا جارہا ہے؟اس سے تو بہتر ہے کہ آپ یہ پیسہ ان کرسچین بچوں پر خرچ کیجیے جو وشو ہندو پریشد یا بجرنگ دل کے حملوں میں اپنے ماں باپ کو کھو چکے ہیں، جن کے تحفظ پر ایک بڑا سا سوالیہ نشان قائم ہوچکا ہے۔اور فیض صاحب کی زبان میں اردو سے محض اتنا کہہ دیجیے ، یقین رکھیے وہ برا نہیں مانے گی۔
جسم نکلے ہوئے امراض کی تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کہیے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیا کہیے

مضمون نگار:تصنیف حیدر
موبائل:0091-9540391666

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *