ہفتہ، 2 جنوری، 2016

منیر نیازی کی غزلیں

منیر نیازی کی غزلوں سے مجھے ایک شکایت یہ ہے کہ ان میں کچا پن بہت ہے، بعض اوقات بہت اچھا شعر بنتے بنتے کسی ایک کمزور ی کی وجہ سے معاملہ بگڑ جاتا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شعر کہنے والے کا دھیان باریک تر معاملات پر کم اور شعر کہہ دینے پر زیادہ ہے، یہ برائی نہیں، ان کے مزاج کا حصہ ہے، یعنی کہ منیر کو پڑھ کر میں سمجھ پایا ہوں کہ شعر کہتے وقت کن باتوں کو بہت حد تک دھیان میں رکھنا چاہیے۔ ان کی یہ قریب ستر پچھتر غزلیں ہیں، جو یہاں پوسٹ کی جارہی ہیں،منیر نیازی بہرحال اردو کے ان شعرا میں ہیں،جن کو بیک وقت شہرت بھی حاصل ہوئی اور ان کا ادب میں بھی ایک سنجیدہ مقام ہے۔ ان دونوں حوالوں سے ہمیں بات کرنی چاہیے اور ان کی شاعری کو بڑی باریکی سے پڑھنا چاہیے۔مجھے لگتا ہے کہ غزل کہنا اپنے آپ میں ایک عجیب قسم کی کشمکش سے عبارت ہے، ایک طرف پرانی شعریات، روایات کا آسیب سر پر ایسا منڈراتا رہتا ہے کہ آدمی ان کے حصار سے نکل کر شعر کہہ نہیں پاتا اور جب کہتا ہے تو جدیدیت کے چکر میں شعر بھونڈا اور ہنسی مذاق کا موضوع بن جاتا ہے، ایسا نہیں ہے کہ ہر دفعہ شعر کا یہ ظریفانہ پہلو شاعر کی جرات کا ہی کمال ہو، بعض اوقات اس سے غلطی بھی ہوتی ہے، منیر نیازی کی جدت یہ ہے کہ انہوں نے بہت بیلینس طریقے سے شاعری کی ہے، وہ روایت اور جدیدیت کے درمیان سے ایک نئی راہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر جدیدیت کا اثر ان کے یہاں کم ہے اور لہجے پر ایک قسم کا روایتی اثر زیادہ محسوس کیا جاسکتا ہے، اس حصار سے باہر نہ نکل پانے کی وجہ سے ان کے یہاں لفظی و معنوی تجربے زیادہ نہیں ہیں لیکن کیفیت کے اشعار کی تعداد کم نہیں۔بہرحال آپ غزلیں پڑھیں، اور ان پر باتوں کا سلسلہ آگے بڑھائیں۔(تصنیف حیدر)

اپنا تو یہ کام ہے بھائی دل کا خون بہاتے رہنا
جاگ جاگ کر ان راتوں میں شعر کی آگ جلاتے رہنا
اپنے گھروں سے دور بنوں میں پھرتے ہوئے آوارہ لوگو
کبھی کبھی جب وقت ملے تو اپنے گھر بھی جاتے رہنا
رات کے دشت میں پھول کھلے ہیں بھولی بسری یادوں کے
غم کی تیز شراب سے ان کے تیکھے نقش مٹاتے رہنا
خوشبو کی دیوار کے پیچھے کیسے کیسے رنگ جمے ہیں
جب تک دن کا سورج آئے اس کا کھوج لگاتے رہنا
تم بھی منیر اب ان گلیوں سے اپنے آپ کو دور ہی رکھنا
اچھا ہے جھوٹے لوگوں سے اپنا آپ بچاتے رہنا
۰۰۰
اپنی ہی تیغ ادا سے آپ گھائل ہوگیا
چاند نے پانی میں دیکھا اور پاگل ہوگیا
وہ ہوا تھی شام ہی سے رستے خالی ہوگئے
وہ گھٹا برسی کہ سارا شہر جل تھل ہوگیا
میں اکیلا اور سفر کی شام رنگوں میں ڈھلی
پھر یہ منظر میری نظروں سے بھی اوجھل ہوگیا
اب کہاں ہوگا وہ اور ہوگا بھی تو ویسا کہاں
سوچ کر یہ بات جی کچھ اور بوجھل ہوگیا
حسن کی دہشت عجب تھی وصل کی شب میں منیر
ہاتھ جیسے انتہائے شوق سے شل ہوگیا
۰۰۰
اپنے گھر کو واپس جائو رہ رہ کر سمجھاتا ہے
جہاں بھی جائوں میرا سایہ پیچھے پیچھے آتا ہے
اس کو بھی تو جا کر دیکھو اس کا حال بھی مجھ سا ہے
چپ چپ رہ کر دکھ سہنے سے تو انساں مر جاتا ہے
مجھ سے محبت بھی ہے اس کو لیکن یہ دستور ہے اس کا
غیر سے ملتا ہے ہنس ہنس کر مجھ سے ہی شرماتا ہے
کتنے یار ہیں پھر بھی منیر اس آبادی میں اکیلا ہے
اپنے ہی غم کے نشے سے اپنا جی بہلاتا ہے
۰۰۰
اتنے خاموش بھی رہا نہ کرو
غم جدائی میں یوں کیا نہ کرو
خواب ہوتے ہیں دیکھنے کے لیے
ان میں جاکر مگر رہا نہ کرو
کچھ نہ ہوگا گلہ بھی کرنے سے
ظالموں سے گلہ کیا نہ کرو
ان سے نکلیں حکایتیں شاید
حرف لکھ کر مٹادیا نہ کرو
اپنے رتبے کا کچھ لحاظ منیر
یار سب کو بنالیا نہ کرو
۰۰۰
اس سمت مجھ کو یار نے جانے نہیں دیا
اک اور شہر یار میں آنے نہیں دیا
کچھ وقت چاہتے تھے کہ سوچیں ترے لیے
تو نے وہ وقت ہم کو زمانے نہیں دیا
منزل ہے اس مہک کی کہاں کس چمن میں ہے
اس کا پتہ سفر میں ہوا نے نہیں دیا
روکا انا نے کاوش بے سود سے مجھے
اس بت کو اپنا حال سنانے نہیں دیا
ہے جس کے بعد عہد زوال آشنا منیر
اتنا کمال ہم کو خدا نے نہیں دیا
۰۰۰
اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہیے
پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہیے
ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمین پر
اک حشر اس زمیں پہ اٹھا دینا چاہیے
حد سے گزر گئی ہے یہاں رسم قاہری
اس دہر کو اب اس کی سزا دینا چاہیے
اک تیز رعد جیسی صدا ہر مکان میں
لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرا دینا چاہیے
گم ہو چلے ہو تم تو بہت خود میں اے منیر
دنیا کو کچھ تو اپنا پتہ دینا چاہیے
۰۰۰
اس کا نقشہ ایک بے ترتیب افسانے کا تھا
یہ تماشا تھا یا کوئی خواب دیوانے کا تھا
سارے کرداروں میں بے رشتہ تعلق تھا کوئی
ان کی بے ہوشی میں غم سا ہوش آجانے کا تھا
عشق کیا ہم نے کیا آوارگی کے عہد میں
اک جتن بے چینیوں سے دل کو بہلانے کا تھا
خواہشیں ہیں گھر سے باہر دور جانے کی بہت
شوق لیکن دل میں واپس لوٹ کر آنے کا تھا
لے گیا دل کو جو اس محفل کی شب میں اے منیر
اس حسیں کا بزم میں انداز شرمانے کا تھا
۰۰۰
اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو
لائی ہے اب اڑا کے گئے موسموں کی باس
برکھا کی رت کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو
پھرتے ہیں مثل موج ہوا شہر شہر میں
ٓآوارگی کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو
شام الم ڈھلی تو چلی درد کی ہوا
راتوں کا پچھلا پہر ہے اور ہم ہیں دوستو
آنکھوں میں اڑ رہی ہے کئی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
۰۰۰
اگا سبزہ در و دیوار پر آہستہ آہستہ
ہوا خالی صدائوں سے نگر آہستہ آہستہ
گھرا بادل خموشی سے خزاں آثار باغوں پر
ہلے ٹھنڈی ہوائوں میں شجر آہستہ آہستہ
بہت ہی سست تھا منظر لہو کے رنگ لانے کا
نشاں آخر ہوا یہ سرخ تر آہستہ آہستہ
چمک زر کی اسے آخر مکان خاک میں لائی
بنایا ناگ نے جسموں میں گھر آہستہ آہستہ
مرے باہر فصیلیں تھیں غبار خاک و باراں کی
ملی مجھ کو ترے غم کی خبر آہستہ آہستہ
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
۰۰۰
امتحاں ہم نے دیے اس دار فانی میں بہت
رنج کھینچے ہم نے اپنی لامکانی میں بہت
وہ نہیں اس سا تو ہے خواب بہار جاوداں
اصل کی خوشبو اڑی ہے اس کے ثانی میں بہت
رات دن کے آنے جانے میں یہ سونا جاگنا
فکر والوں کو پتے ہیں اس نشانی میں بہت
کوئلیں کوکیں بہت دیوار گلشن کی طرف
چاند دمکا حوض کے شفاف پانی میں بہت
اس کو کیا یادیں تھیں کیا اور کس جگہ پر رہ گئیں
تیز ہے دریائے دل اپنی روانی میں بہت
آج اس محفل میں تجھ کو بولتے دیکھا منیر
تو کہ جو مشہور تھا یوں بے زبانی میں بہت
۰۰۰
ان سے نین ملا کے دیکھو
یہ دھوکا بھی کھاکے دیکھو
دوری میں کیا بھید چھپا ہے
اس کا کھوج لگا کے دیکھو
کسی اکیلی شام کی چپمیں
گیت پرانے گاکے دیکھو
آج کی رات بہت کالی ہے
سوچ کے دیپ جلا کے دیکھو
دل کا گھر سنسان پڑا ہے
دکھ کی دھوم مچا کے دیکھو
جاگ جاگ کر عمر کٹی ہے
نیند کے دوارے جاکے دیکھو
۰۰۰
اور ہیں کتنی منزلیں باقی
جان کتنی ہے جسم میں باقی
زندہ لوگوں کی بود و باش میں ہیں
مردہ لوگوں کی عادتیں باقی
اس سے ملنا وہ خواب ہستی میں
خواب معدوم حسرتیں باقی
بہہ گئے رنگ و نور کے چشمے
رہ گئیں ان کی رنگتیں باقی
جن کے ہونے سے ہم بھی ہیں اے دل
شہر میں ہیں وہ صورتیں باقی
وہ تو آکے منیر جا بھی چکا
اک مہک سی ہے باغ میں باقی
۰۰۰
اک تیز تیر تھا کہ لگا اور نکل گیا
ماری جو چیخ ریل نے جنگل دہل گیا
سویا ہوا تھا شہرکسی سانپ کی طرح
میں دیکھتا ہی رہ گیا اور چاند ڈھل گیا
خواہش کی گرمیاں تھیں عجب ان کے جسم میں
خوباں کی صحبتوں میں مرا خون جل گیا
تھی شام زہر رنگ میں ڈوبی ہوئی کھڑی
پھر اک ذرا سی دیر میں منظر بدل گیا
مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیر
اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا
۰۰۰
اک عالم ہجراں ہی اب ہم کو پسند آیا
یہ خانۂ ویراں ہی اب ہم کو پسند آیا
بے نام و نشاں رہنا غربت کے علاقے میں
یہ شہر بھی دل کش تھا تب ہم کو پسند آیا
تھا لال ہوا منظر سورج کے نکلنے سے
وہ وقت تھا وہ چہرہ جب ہم کو پسند آیا
ہے قطع تعلق سے دل خوش بھی بہت اپنا
اک حد ہی بنا لینا کب ہم کو پسند آیا
آنا وہ منیر اس کا بے خوف و خطر ہم تک
یہ طرفہ تماشا بھی شب ہم کو پسند آیا
۰۰۰
اک مسافت پائوں شل کرتی ہوئی سی خواب میں
اک سفر گہرا مسلسل زردی مہتاب میں
تیز ہے بوئے شگوفہ ہائے مرگ ناگہاں
گھر گئی خاک زمیں جیسے حصار آب میں
حاصل جہد مسلسل مستقل آزردگی
کام کرتا ہوں ہوا میں جستجو نایاب میں
تنگ کرتی ہے مکاں میں خواہش سیر بسیط
ہے اثر دائم فلک کا صحن کی محراب میں
اے منیر اب اس قدر خاموشیاں یہ کیا ہوا
یہ صفت آئی کہاں سے پارۂ سیماب میں
۰۰۰
ایک نگر کے نقش بھلا دوں ایک نگر ایجاد کروں
ایک طرف خاموشی کردوں ایک طرف آباد کروں
منزل شب جب طے کرنی ہے اپنے اکیلے دم سے ہی
کس کے لیے اس جگہ پہ رک کر دن اپنا برباد کروں
بہت قدیم کا نام ہے کوئی ابر و ہوا کے طوفاں میں
نام جو میں اب بھول چکا ہوں کیسے اس کو یاد کروں
جاکے سنوں آثار چمن میں سائیں سائیں شاخوں کی
خالی محل کے برجوں سے دیدار برق و باد کروں
شعر منیر لکھوں میں اٹھ کر صحن سحر کے رنگوں میں
یا پھر کام یہ نظم جہاں کا شام ڈھلے کے بعد کروں
۰۰۰
بس ایک ماہ جنوں خیز کی ضیا کے سوا
نگر میں کچھ نہیں باقی رہا ہوا کے سوا
ہے ایک اور بھی صورت کہیں مری ہی طرح
اک اور شہر بھی ہے قریۂ صدا کے سوا
اک اور سمت بھی ہے اس سے جاکے ملنے کی
نشان اور بھی ہے اک نشان پا کے سوا
زوال عصر ہے کوفے میں اور گداگر ہیں
کھلا نہیں کوئی در باب التجا کے سوا
مکان زر لب گویا حد سپہر و زمیں
دکھائی دیتا ہے سب کچھ یہاں خدا کے سوا
مری ہی خواہشیں باعث ہیں میرے غم کی منیر
عذاب مجھ پہ نہیں حرف مدعا کے سوا
۰۰۰
بیٹھ جاتا ہے وہ جب محفل میں آکے سامنے
میں ہی بس ہوتا ہوں اس کی اس ادا کے سامنے
تیز تھی اتنی کہ سارا شہر سونا کرگئی
دیر تک بیٹھا رہا میں اس ہوا کے سامنے
رات اک اجڑے مکاں پر جا کے جب آواز دی
گونج اٹھے باوم و در میری صدا کے سامنے
وہ رنگیلا ہاتھ میرے دل پہ اور اس کی مہک
شمع دل بجھ سی گئی رنگ حنا کے سامنے
میں تو اس کو دیکھتے ہی جیسے پتھر ہوگیا
بات تک منہ سے نہ نکلی بے وفا کے سامنے
یاد بھی ہیں اے منیر اس شام کی تنہائیاں
ایک میداں اک درخت اور تو خدا کے سامنے
۰۰۰
بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا
چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لب لعلیں کی
اک باغ سا ساتھ اپنے مہکائے ہوئے رہنا
اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے
پردے میں چلے جانا شرمائے ہوئے رہنا
اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے
اک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رہنا
عادت ہی بنالی ہے تم نے تو منیر اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا
۰۰۰
بے خیالی میں یونہی بس اک ارادہ کرلیا
اپنے دل کے شوق کو حد سے زیادہ کرلیا
جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھاسکتے نہیں
اس نے وعدہ کرلیا میں نے بھی وعدہ کرلیا
غیر سے نفرت جو پالی خرچ خود پر ہوگئی
جتنے ہم تھے ہم نے خود کو اس سے آدھا کرلیا
شام کے رنگوں میں رکھ کر صاف پانی کا گلاس
آب سادہ کو حریف رنگ بادہ کرلیا
ہجرتوں کا خوف تھا یا پرکشش کہنہ مقام
کیا تھا جس کو ہم نے خود دیوار جادہ کرلیا
ایک ایسا شخص بنتا جارہا ہوں میں منیر
جس نے خود پر بند حسن و جام و بادہ کرلیا
۰۰۰
بے گانگی کا ابر گراں بار کھل گیا
شب میں نے اس کو چھیڑا تو وہ یار کھل گیا
گلیوں میں شام ہوتے ہی نکلے حسین لوگ
ہر رہ گزر پہ طبلۂ عیار کھل گیا
ہم نے چھپایا لاکھ مگر چھپ نہیں سکا
انجام کار راز دل زار کھل گیا
تھاعشرت شبانہ کی سرمستیوں میں بند
بادہ سحر سے دیدۂ گلبار کھل گیا
آیا وہ بام پر تو کچھ ایسا لگا منیر
جیسے فلک پہ رنگ کا بازار کھل گیا
۰۰۰
پھول تھے بادل بھی تھا اور وہ حسیں صورت بھی تھی
دل میں لیکن اور ہی اک شکل کی حسرت بھی تھی
جو ہوا میں گھر بنائے کاش کوئی دیکھتا
دشت میں رہتے تھے پر تعمیر کی عادت بھی تھی
کہہ گیا میں سامنے اس کے جو دل کا مدعا
کچھ تو موسم بھی عجب تھا کچھ مری ہمت بھی تھی
اجنبی شہروں میں رہتے عمر ساری کٹ گئی
گو ذرا سے فاصلے پر گھر کی ہر راحت بھی تھی
کیا قیامت ہے منیر اب یاد بھی آتے نہیں
وہ پرانے آشنا جن سے ہمیں الفت بھی تھی
۰۰۰
پی لی تو کچھ پتہ نہ چلا وہ سرور تھا
وہ اس کا سایہ تھا کہ وہی رشک حور تھا
کل میں نے اس کو دیکھا تو دیکھا نہیں گیا
مجھ سے بچھڑ کے وہ بھی بہت غم سے چور تھا
رویا تھا کون کون مجھے کچھ خبر نہیں
میں اس گھڑی وطن سے کئی میل دور تھا
شام فراق آئی تو دل ڈوبنے لگا
ہم کو بھی اپنے آپ پہ کتنا غرور تھا
چہرہ تھا یا صدا تھی کسی بھولی یاد کی
آنکھیں تھیں اس کی یارو کہ دریائے نور تھا
نکلا جو چاند آئی مہک تیز سی منیر
میرے سوا بھی باغ میں کوئی ضرور تھا
۰۰۰
تجھ سے بچھڑ کر کیا ہوں میں اب باہر آکر دیکھ
ہمت ہے تو میری حالت آنکھ ملا کر دیکھ
شام ہے گہری تیز ہوا ہے سر پہ کھڑی ہے رات
رستہ گئے مسافر کا اب دیا جلا کر دیکھ
دروازے کے پاس آآکر واپس مڑ جاتی چاپ
کون ہے اس سنسان گلی میں پاس بلا کر دیکھ
شاید کوئی دیکھنے والا ہوجائے حیران
کمرے کی دیواروں پر کوئی نقش بنا کر دیکھ
تو بھی منیر اب بھرے جہاں میں مل کر رہنا سیکھ
باہر سے تو دیکھ لیا اب اندر جا کر دیکھ
۰۰۰
تھکن سے راہ میں چلنا محال بھی ہے مجھے
کمال پر بھی تھا میں ہی زوال بھی ہے مجھے
سڑک پہ چلتے ہوئے رک کے دیکھتا ہوں میں
یہیں کہیں ہے تو یہ احتمال بھی ہے مجھے
یہ میرے گرد تماشا ہے آنکھ کھلنے تک
میں خواب میں تو ہوں لیکن خیال بھی ہے مجھے
اسی کے لطف سے مرنے سے خوف آتا ہے
اسی کے ڈر سے یہ جینا محال بھی ہے مجھے
سواد شام سفر ہے جلا جلا سا منیر
خوشی کے ساتھ عجب سا ملال بھی ہے مجھے
۰۰۰
تھکے لوگوں کو مجبوری میں چلتے دیکھ لیتا ہوں
میں بس کی کھڑکیوں سے یہ تماشے دیکھ لیتا ہوں
کبھی دل میں اداسی ہو تو ان میں جا نکلتا ہوں
پرانے دوستوں کو چپ سے بیٹھے دیکھ لیتا ہوں
چھپاتے ہیں بہت وہ گرمی دل کو مگر میں بھی
کل رخ پر اڑی رنگت کے چھینٹے دیکھ لیتا ہوں
کھڑا ہوں یوں کسی خالی قلعے کے صحن ویراں میں
کہ جیسے میں زمینوں میں دفینے دیکھ لیتا ہوں
منیر اندازہء قعر فنا کرنا ہو جب مجھ کو
کسی اونچی جگہ سے جھک کے نیچے دیکھ لیتا ہوں
۰۰۰
تھی جس کی جستجو وہ حقیقت نہیں ملی
ان بستیوں میں ہم کو رفاقت نہیں ملی
اب تک ہیں اس گماں میں کہ ہم بھی ہیں دہر میں
اس وہم سے نجات کی صورت نہیں ملی
رہتا تھا اس کے ساتھ بہت دیر تک مگر
ان روز و شب میں مجھ کو یہ فرصت نہیں ملی
کہنا تھا جس کو اس سے کسی وقت میں مجھے
اس بات کے کلام کی مہلت نہیں ملی
کچھ دن کے بعد اس سے جدا ہوگئے منیر
اس بے وفا سے اپنی طبیعت نہیں ملی
۰۰۰
جب بھی گھر کی چھپ پر جائیں ناز دکھانے آجاتے ہیں
کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کو جلانے آجاتے ہیں
دن بھر جو سورج کے ڈر سے گلیوں میں چھپ رہتے ہیں
شام آتے ہی آنکھوں میں وہ رنگ پرانے آجاتے ہیں
جن لوگوں نے ان کی طلب میں صحرائوں کی دھول اڑائی
اب یہ حسیں ان کی قبروں پر پھول چڑھانے آجاتے ہیں
کون سا وہ جادو ہے جس سے غم کی اندھیری سرد گپھا میں
لاکھ نسائی سانس دلوں کے روگ مٹانے آجاتے ہیں
اس کے ریشمی رومالوں کو کس کس کی نظروں سے چھپائیں
کیسے ہیں وہ لوگ جنہیں یہ راز چھپانے آجاتے ہیں
ہم بھی منیر اب دنیا داری کرکے وقت گزاریں گے
ہوتے ہوتے جینے کے بھی لاکھ بہانے آجاتے ہیں
۰۰۰
جفائیں دور تک جاتی ہیں کم آباد شہروں میں
وفائیں دور تک جاتی ہیں کم آباد شہروں میں
بہاریں دیر تک رہتی ہیں کم آباد قریوں میں
خزائیں دور تک جاتی ہیں کم آباد شہروں میں
صدا ہنسنے کی ہو افسوس کی یا آہ بھرنے کی
صدائیں دور تک جاتی ہیں کم آباد شہروں میں
اندھیرا جب گھنا ہو تو چراغ راہ ویراں کی
شعاعیں دور تک جاتی ہیں کم آباد شہروں میں
منیر آباد شہروں کے مکینوں کی ہوا لے کر
ہوائیں دور تک جاتی ہیں کم آباد شہروں میں
۰۰۰
جو دیکھے تھے جادو ترے ہات کے
ہیں چرچے ابھی تک اسی بات کے
گھٹا دیکھ کر خوش ہوئیں لڑکیاں
چھتوں پر کھلے پھول برسات کے
مجھے درد دل کا وہاں لے گیا
جہاں در کھلے تھے طلسمات کے
ہو ا جب چلی پھڑپھڑا کر اڑے
پرندے پرانے محلات کے
نہ تو ہے کہیں اور نہ میں ہوں کہیں
یہ سب سلسلے ہیں خیالات کے
منیر آرہی ہے گھڑی وصل کی
زمانے گئے ہجر کی رات کے
۰۰۰
جو مجھے بھلادیں گے میں انہیں بھلادوں گا
سب غرور ان کا میں خاک میں ملادوں گا
دیکھتا ہوں سب شکلیں سن رہا ہوں سب باتیں
سب حساب ان کا میں ایک دن چکادوں گا
روشنی دکھادوں گا ان اندھیر نگروں میں
اک ہوا ضیائوں کی چارسو چلادوں گا
بے مثال قریوں کے بے کنار باغوں کے
اپنے خواب لوگوں کے خواب میں دکھادوں گا
میں منیر جائوں گا ایک دن اسے ملنے
۰۰۰
چمن میں رنگ بہار اترا تو میں نے دیکھا
نظر سے دل کا غبار اترا تو میں نے دیکھا
میں نیم شب آسماں کی وسعت کو دیکھتا تھا
زمیں پہ وہ حسن زار اترا تو میں نے دیکھا
گلی کے باہر تمام منظر بدل گئے تھے
جو سایہ کوئے یار اترا تو میں نے دیکھا
خمار مے میں وہ چہرہ کچھ اور لگ رہا تھا
دم سحر جب خمار اترا تو میں نے دیکھا
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
۰۰۰
خمار شب میں اسے میں سلام کر بیٹھا
جو کام کرنا تھا مجھ کو وہ کام کربیٹھا
قبائے زرد پہن کر وہ بزم میں آیا
گل حنا کو ہتھیلی میں تھام کر بیٹھا
چھپا گیا تھا محبت کا راز میں تو مگر
وہ بھول پن میں سخن دل کا عام کربیٹھا
جو سو کے اٹھا تو رستہ اجاڑ لگتا تھا
پہنچنا تھا مجھے منزل پہ شام کربیٹھا
تھکن سفر کی بدن شل سا کرگئی ہے منیر
برا کیا جو سفر میں قیام کربیٹھا
۰۰۰
خواب و خیال گل سے کدھر جائے آدمی
اک گلشن ہوا ہے جدھر جائے آدمی
دیکھے ہوئے سے لگتے ہیں رستے مکاں مکیں
جس شہر میں بھٹک کے جدھر جائے آدمی
دیکھے ہیں وہ نگر کہ ابھی تک ہوں خوف میں
وہ صورتیں ملی ہیں کہ ڈر جائے آدمی
یہ بحر ہست و بود ہے بے گوہر مراد
گہرائیوں میں اس کی اگر جائے آدمی
پردے میں رنگ و بو کے سفر درسفر منیر
ان منزلوں سے کیسے گزر جائے آدمی
۰۰۰
خیال جس کا تھا مجھے خیال میں ملا مجھے
سوال کا جواب بھی سوال میں ملا مجھے
گیا تو اس طرح گیا کہ مدتوں نہیں ملا
ملا جو پھر تو یوں کہ وہ ملال میں ملا مجھے
تمام علم زیست کا گزشتگاں سے ہی ہوا
عمل گزشتہ دور کا مثال میں ملا مجھے
ہر ایک سخت وقت کے بعد اور وقت ہے
نشاں کمال فکر کا زوال میں ملا مجھے
نہال سبز رنگ میں جمال جس کا ہے منیر
کسی قدیم خواب کے محال میں ملا مجھے
۰۰۰
خیال یکتا میں خواب اتنے
سوال تنہا جواب اتنے
کبھی نہ خوبی کا دھیان آیا
ہوئے جہاں میں خراب اتنے
حساب دینا پڑا ہمیں بھی
کہ ہم جو تھے بے حساب اتنے
بس اک نظر میں ہزار باتیں
پھر اس سے آگے حجاب اتنے
مہک اٹھے رنگ سرخ جیسے
کھلے چمن میں گلاب اتنے
منیر آئے کہاں سے دل میں
نئے نئے اضطراب اتنے
۰۰۰
دشت باراں کی ہوا سے پھر ہرا سا ہوگیا
میں فقط خوشبو سے اس کی تازہ دم سا ہوگیا
اس کے ہونے سے ہوا پیدا خیال جاں فزا
جیسے اک مردہ زمیں میں باغ پیدا ہوگیا
پھر ہوائے عشق سے آشفتگے خوباں میں ہے
ان دنوں میں حسن بھی آزار جیسا ہوگیا
ہے کہیں محصور شاید وہ حقیقت عہد کی
جس کا رستہ دیکھتے اتنا زمانہ ہوگیا
غم رہا ہے حال کہنا دل کا اس بت سے منیر
جس کے غم میں اپنے دل کا حال ایسا ہوگیا
۰۰۰
دل خوف میں ہے عالم فانی کو دیکھ کر
آتی ہے یاد موت کی پانی کو دیکھ کر
ہے باب شہر مردہ گزر گاہ باد شام
میں چپ ہوں اس جگہ کی گرانی کو دیکھ کر
ہل سی رہی ہے حد سفر شوق سے
دھندلا رہے ہیں حرف معانی کو دیکھ کر
آزردہ ہے مکان میں خاک زمین بھی
چیزوں میں شوق نقل مکانی کو دیکھ کر
۰۰۰
دل عجب مشکل میں ہے اب اصل رستے کی طرف
یاد پیچھے کھینچتی ہے آس آگے کی طرف
چھوڑ کر نکلے تھے جس کو دشت غربت کی طرف
دیکھنا شام و سحر اب گھر کے سائے کی طرف
ہے ابھی آغاز دن کا اس دیار قید میں
ہے ابھی سے دھیان سارا شب کے پہرے کی طرف
صبح کی روشن کرن گھر کے دریچے پر پڑی
ایک رخ چمکا ہوا میں اس کے شیشے کی طرف
دوریوں سے پرکشش ہیں منزلیں دونوں منیر
میں رواں ہوں خواب میں ناپید قریے کی طرف
۰۰۰
دل کا سفر بس ایک منزل پہ بس نہیں
اتنا خیال اس کا ہمیں اس برس نہیں
دیکھو گل بہار اثر دشت شام میں
دیوار و در کوئی بھی کہیں پیش و پس نہیں
آیا نہیں یقین بہت دیر تک ہمیں
اپنے ہی گھر کا در ہے یہ باب قفس نہیں
ایسا سفر ہے جس کی کوئی انتہا نہیں
ایسا مکاں ہے جس میں کوئی ہم نفس نہیں
آئے گی پھر بہار اسی شہر میں منیر
تقدیر اس نگر کی فقط خار و خس نہیں
۰۰۰
دن اگر چڑھتا ادھر سے میں ادھر سے جاگتا
حسن سارا مشرقوں کا ساتھ میرے جاگتا
میں اگر ملتا نہ اس سے اس ازل کی شام میں
خواب ان دیوار و در کا دل میں کیسے جاگتا
ہے مثال باد گلشن جاگنا اس شوخ کا
رنگ جیسے دور کا رنگوں کا پیچھے جاگتا
اب وہ گھر باقی نہیں پر کاش اس تعمیر سے
ایک شہر آرزو آنکھوں کے آگے جاگتا
چاند چڑھتا دیکھنا بے حد سمندر پر منیر
دیکھنا پھر بحر کو اس کی کشش سے جاگتا
۰۰۰
رات اتنی جاچکی ہے اور سونا ہے ابھی
اس نگر میں اک خوشی کا خواب بونا ہے ابھی
کیوں دیا دل اس بت کمسن کو ایسے وقت میں
دل سی شے جس کے لیے بس اک کھلونا ہے ابھی
ایسی یادوں میں گھرے ہیں جن سے کچھ حاصل نہیں
اور کتنا وقت ان یادوں میں کھونا ہے ابھی
جو ہوا ہونا ہی تھا سو ہوگیا ہے دوستو
داغ اس عہد ستم کا دل سے دھونا ہے ابھی
ہم نے کھلتے دیکھنا ہے پھر خیابان بہار
شہر کے اطراف کی مٹی میں سونا ہے ابھی
بیٹھ جائیں سایہ دامان احمد میں منیر
اور پھر سوچیں وہ باتیں جن کو ہونا ہے ابھی
۰۰۰
ردا اس چمن کی اڑا لے گئی
درختوں کے پتے ہوا لے گئی
جو حرف اپنے دل کے ٹھکانوں میں تھے
بہت دور ان کو صدا لے گئی
چلا میں صعوبت سے پر راہ پر
جہاں تک مجھے انتہا لے گئی
گئی جس گھڑی شام سحر وفا
مناظر سے اک رنگ سا لے گئی
نشاں اک پرانا کنارے پہ تھا
اسے موج دریا بہا لے گئی
منیر اتنا حسن اس زمانے میں تھا
کہاں اس کوکوئی بلا لے گئی
۰۰۰
رنج فراق یار میں رسوا نہیں ہوا
اتنا میں چپ ہوا کہ تماشا نہیں ہوا
ایسا سفر ہے جس میں کوئی ہم سفر نہیں
رستہ ہے اس طرح کا جو دیکھا نہیں ہوا
مشکل ہوا ہے رہنا ہمیں اس دیار میں
برسوں یہاں رہے ہیں پہ اپنا نہیں ہوا
وہ کام شاہ شہر سے یا شہر سے ہوا
جو کام بھی ہوا ہے وہ اچھا نہیں ہوا
ملنا تھا ایک بار اسے پھر کہیں منیر
ایسا میں چاہتا تھا پر ایسا نہیں ہوا
۰۰۰
روشنی در روشنی ہے اس طرف
زندگی در زندگی ہے اس طرف
جن عذابوں سے گزرتے ہیں یہاں
ان عذابوں کی نفی ہے اس طرف
اک رہائش خواہش دل کی طرح
اک نمائش خواب کی ہے اس طرف
جو بکھر کر رہ گیا ہے اس جگہ
حسن کی اک شکل بھی ہے اس طرف
جستجو جس کی یہاں پر کی منیر
اس سے ملنے کی خوشی ہے اس طرف
۰۰۰
زندہ رہیں تو کیا ہے جو مرجائیں ہم تو کیا
دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا
ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جائیں ہم تو کیا
اب کون منتظر ہے ہمارے لیے وہاں
شام آگئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا
دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر
دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا
۰۰۰
زور پیدا جسم و جاں کی ناتوانی سے ہوا
شور شہروں میں مسلسل بے زبانی سے ہوا
دیر تک کی زندگی کی خواہشیں اس بت کو ہیں
شوق اس کو انتہا کا عمر فانی سے ہوا
میں ہوا ناکام اپنی بے یقینی کے سبب
جو ہوا سب میرے دل کی بدگمانی سے ہوا
ہے نشاں میرا بھی شاید شش جہات دہر میں
یہ گماں مجھ کو خود اپنی بے نشانی سے ہوا
تھا منیر آغاز ہی سے راستہ اپنا غلط
اس کا اندازہ سفر کی رائگانی سے ہوا
۰۰۰
سائے گھٹتے جاتے ہیں
جنگل کٹتے جاتے ہیں
کوئی سخت وظیفہ ہے
جو ہم رٹتے جاتے ہیں
سورج کے آثار ہیں دیکھو
بادل چھٹتے جاتے ہیں
آس پاس کے سارے منظر
پیچھے ہٹتے جاتے ہیں
دیکھو منیر بہار میں گلشن
رنگ سے اٹتے جاتے ہیں
۰۰۰
سارے منظر ایک جیسے ساری باتیں ایک سی
سارے دن ہیں ایک سے اور ساری راتیں ایک سی
بے نتیجہ بے ثمر جنگ و جدل سود و زیاں
ساری جیتیں ایک جیسی ساری ماتیں ایک سی
سب ملاقاتوں کا مقصد کاروبار زرگری
سب کی دہشت ایک جیسی سب کی گھاتیں ایک سی
اب کسی میں اگلے وقتوں کی وفا باقی نہیں
سب قبیلے ایک ہیں اب ساری ذاتیں ایک سی
ایک ہی رخ کی اسیری خواب ہے شہروں کا اب
ان کے ماتم ایک سے ان کی براتیں ایک سی
ہوں اگر زیر زمیں تو فائدہ ہونے کا کیا
سنگ و گوہر ایک ہیں پھر ساری دھاتیں ایک سی
اے منیر آزاد ہو اس سحر یک رنگی سے تو
ہوگئے سب زہر یکساں سب نباتیں ایک سی
۰۰۰
ساعت ہجراں ہے اب کیسے جہانوں میں رہوں
کن علاقوں میں بسوں میں کن مکانوں میں رہوں
ایک دشت لامکاں پھیلا ہے میرے ہر طرف
دشت سے نکلوں تو جا کر کن ٹھکانوں میں رہوں
علم ہے جو پاس میرے کس جگہ افشا کروں
یا ابد تک اس خبر کے رازدانوں میں رہوں
وصل کی شام سیہ اس سے پرے آبادیاں
خواب دائم ہے یہی میں جن زمانوں میں رہوں
یہ سفر معلوم کا معلوم تک ہے اے منیر
میں کہاں تک ان حدوں کے قید خانوں میں رہوں
۰۰۰
سفر میں ہے جو ازل سے یہ وہ بلا ہی نہ ہو
کواڑ کھول کے دیکھو کہیں ہوا ہی نہ ہو
نگاہ آئنہ معلوم عکس نا معلوم
دکھائی دیتا ہے جو اصل میں چھپا ہی نہ ہو
زمیں کے گرد بھی پانی زمیں کے اندر بھی
یہ شہر جم کے کھڑا ہے جو تیرتا ہی نہ ہو
نہ جا کہ اس سے پرے دشت مرگ ہو شاید
پلٹنا چاہیں وہاں سے تو راستہ ہی نہ ہو
میں اس خیال سے جاتا نہیں وطن کی طرف
کہ مجھ کو دیکھ کے اس بت کا جی برا ہی نہ ہو
کئی ہے جس کے خیالوں میں عمر اپنی منیر
مزا تو جب ہے کہ اس شوخ کو پتا ہی نہ ہو
۰۰۰
سن بستیوں کا حال جو حد سے گزر گئیں
ان امتوں کا ذکر جو رستوں میں مرگئیں
کریاد ان دنوں کو کہ آباد تھیں یہاں
گلیاں جو خاک و خون کی دہشت سے بھر گئیں
صرصر کی زد میں آئے ہوئے بام و در کو دیکھ
کیسی ہوائیں کیسا نگر سرد کر گئیں
کیا باب تھے یہاں جو صدا سے نہیں کھلے
کیسی دعائیں تھیں جو یہاں بے اثر گئیں
تنہا اجاڑ برجوں میں پھرتا ہے تو منیر
وہ زرفشانیاں ترے رخ کی کدھر گئیں
۰۰۰
شب ماہتاب نے شہ نشیں پہ عجیب گل سا کھلا دیا
مجھے یوں لگا کسی ہاتھ نے مرے دل پہ تیر چلا دیا
کوئی ایسی بات ضرور تھی شب وعدہ وہ جو نہ آسکا
کوئی اپنا وہم تھا درمیاں یا گھٹا نے اس کو ڈرا دیا
یہی آن تھی مری زندگی لگی آگ دل میں تو اف نہ کی
جو جہاں میں کوئی نہ کرسکا وہ کمال کرکے دکھادیا
یہ جو لال رنگ پتنگ کا سر آسماں ہے اڑا ہوا
یہ چراغ دست حنا کا ہے جو ہوا میں اس نے جلادیا
مرے پاس ایسا طلسم ہے جو کئی زمانوں کا اسم ہے
اسے جب بھی سوچا بلا لیا اسے جو بھی چاہا بنادیا
۰۰۰
شب وصال میں دوری کا خواب کیوں آیا
کمال فتح میں یہ ڈر کا باب کیوں آیا
دلوں میں اب کے برس اتنے وہم کیوں جاگے
بلاد صبر میں اب اضطراب کیوں آیا
ہے آگ گل پہ عجب اس بہار گزراں میں
چمن میں اب کے گل بے حساب کیوں آیا
اگر وہی تھا تو رخ پہ وہ بے رخی کیا تھی
ذرا سے ہجر میں یہ انقلاب کیوں آیا
بس ایک ہوگا تماشا تمام سمتوں پر
مری صدا کے سفر میں سراب کیوں آیا
میں خوش نہیں ہوں بہت دور اس سے ہونے پر
جو میں نہیں تھا تو اس پر شباب کیوں آیا
اڑا ہے شعلہ برق ابر کی فصیلوں پر
یہ اس بلا کے مقابل سحاب کیوں آیا
یقین کس لیے اس پر سے اٹھ گیا ہے منیر
تمہارے سر پہ یہ شک کا عذاب کیوں آیا
۰۰۰
صحن کو چمکا گئی بیلوں کو گیلا کرگئی
رات بارش کی فلک کو اور نیلا کرگئی
دھوپ ہے اور زرد پھولوں کے شجر ہر راہ پر
اک ضیائے زہر سب سڑکوں کو پیلا کرگئی
کچھ تو اس کے اپنے دل کا درد بھی شامل ہی تھا
کچھ نشے کی لہر بھی اس کو سریلا کرگئی
بیٹھ کر میں لکھ گیا ہوں درد دل کا ماجرا
خون کی اک بوند کاغذکو رنگیلا کرگئی
۰۰۰
غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
تو نے مجھ کو کھودیا میں نے تجھے کھویا نہیں
نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں تھا
یوں لگا جیسے وہ شب کو دیر تک سویا نہیں
ہر طرف دیوار و در اوران میں آنکھوں کے ہجوم
کہہ سکے جو دل کی حالت وہ لب گویا نہیں
جرم آدم نے کیا اور نسل آدم کو سزا
کاٹتا ہوں زندگی بھر میں نے جو بویا نہیں
جانتا ہں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر
غم سے پتھر ہوگیا لیکن کبھی رویا نہیں
۰۰۰
غیروں سے مل کے ہی سہی بے باک تو ہوا
بارے وہ شوخ پہلے سے چالاک تو ہوا
جی خوش ہوا ہے گرتے مکانوں کو دیکھ کر
یہ شہر خوف خود سے جگر چاک تو ہوا
یہ تو ہوا کہ آدمی پہنچا ہے ماہ تک
کچھ بھی ہوا وہ واقف املاک تو ہوا
کچھ اور وہ ہوا نہ ہوا مجھ کو دیکھ کر
باد بہار حسن سے غم ناک تو ہوا
اس کشمکش میں ہم بھی تھکے تو ہیں اے منیر
شہر خدا ستم سے مگر پاک تو ہوا
۰۰۰
محفل آرا تھے مگر کم نما ہوتے گئے
دیکھتے ہی دیکھتے ہم کیا سے کیا ہوتے گئے
ناشناسی دہر کی تنہا ہمیں کرتی گئی
ہوتے ہوتے ہم زمانے سے جدا ہوتے گئے
منتظر جیسے تھے در شہر فراق آثار کے
اک ذرا دستک ہوی در دم میں وا ہوتے گئے
حرف پردہ پوش تھے اظہار دل کے باب میں
حرف جتنے شہر میں تھے حرف لا ہوتے گئے
وقت کس تیزی سے گزرا روز مرہ میں منیر
آج کل ہوتا گیا اور دن ہوا ہوتے گئے
۰۰۰
مکاں میں قید صدا کی دہشت
مکاں سے باہر خلا کی دہشت
ہوا ہے خوف خدا سے خالی
ہے اس نگر میں بلا کی دہشت
گھرا ہوا ہوں میں ہر طرف سے
ہے آئنے میں ہوا کی دہشت
زمیں پہ ہر سمت حد آخر
فلک پہ لاانتہا کی دہشت
شجر کے سائے میں موت دیکھو
ثمر میں اس کے فنا کی دہشت
۰۰۰
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
میں بہت کمزور تھا اس ملک میں ہجرت کے بعد
پر مجھے اس ملک میں کمزور تر اس نے کیا
راہ بر میرا بنا گمراہ کرنے کے لیے
مجھ کو سیدھے راستے سے در بدر اس نے کیا
شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا
پھر مجھے اس شہر میں نا معتبر اس نے کیا
شہر کو برباد کرکے رکھ دیا اس نے منیر
شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا
۰۰۰
نام بے حد تھے مگر ان کا نشاں کوئی نہ تھا
بستیاں ہی بستیاں تھیں پاسباں کوئی نہ تھا
خرم و شاداب چہرے ثابت و سیار دل
اک زمیں ایسی تھی جس کا آسماں کوئی نہ تھا
کیا بلا کی شام تھی صبحوں شبوں کے درمیاں
اور میں ان منزلوں پر تھا جہاں کوئی نہ تھا
کوکتی تھی بانسری چاروں دشائوں میں منیر
پر نگر میں اس صدا کا رازداں کوئی نہ تھا
۰۰۰
نشیب وہم فراز گریز پا کے لیے
حصار خاک ہے حد پر ہر انتہا کے لیے
وفور نشہ سے رنگت سیاہ سی ہے مری
جلا ہوں میں بھی عجب چشم سرمہ سا کے لیے
ہے ارد گرد گھنا بن ہرے درختوں کا
کھلا ہے در کسی دیوار میں ہوا کے لیے
زمیں ہے مسکن شر آسماں سراب آلود
ہے سارا عہد سزا میں کسی خطا ک لیے
اسیری پس آئینہ بقا اور تو
نکل کے آبھی وہاں سے کبھی خدا کے لیے
کھڑا ہوں زیر فلک گنبد صدا میں منیر
کہ جیسے ہاتھ اٹھا ہو کوئی دعا کے لیے
۰۰۰
نواح وسعت میداں میں حیرانی بہت ہے
دلوں میں اس خرابی سے پریشانی بہت ہے
کہاں سے ہے کہاں تک ہے خبر اس کی نہیں ملتی
یہ دنیا اپنے پھیلائو میں انجانی بہت ہے
بڑی مشکل سے یہ جانا کہ ہجر یار میں رہنا
بہت مشکل ہے پر آخر میں آسانی بہت ہے
بسر جتنی ہوئی بے کار و بے منزل زمانے میں
مجھے اس زندگانی پر پشیمانی بہت ہے
نکل آتے ہیں رستے خود بخود جب کچھ نہ ہوتا ہو
کہ مشکل میں ہمیں خوابوں کی ارزانی بہت ہے
بہت رونق ہے بازاروں میں گلیوں اور محلوں میں
پر اس رونق سے شہر دل میں ویرانی بہت ہے
۰۰۰
وقت سے کہیو ذرا کم کم چلے
کون یاد آیا ہے آنسو تھم چلے
دم بخود کیوں ہے خزاں کی سلطنت
کوئی جھونکا کوئی موج غم چلے
چار سو باجیں پلوں کی پائلیں
اس طرح رقاصہ عالم چلے
دیر کیا ہے آنے والے موسمو
دن گزرتے جارہے ہیں ہم چلے
کس کو فکر گنبد قصر حباب
آب جو پیہم چلے پیہم چلے
۰۰۰
وہ جو میرے پاس سے ہو کر کسی کے گھر گیا
ریشمی ملبوس کی خوشبو سے جادو کرگیا
اک جھلک دیکھی تھی اس روئے دل آرا کی کبھی
پھر نہ آنکھوں سے وہ ایسا دل ربا منظر گیا
شہر کی گلیوں میں گہری تیرگی گریاں رہی
رات بادل اس طرح آئے کہ میں تو ڈر گیا
تھی وطن میں منتظر جس کی کوئی چشم حسیں
وہ مسافر جانے کس صحرا میں جل کر مر گیا
صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر
ریل کی سیٹٰ بجی تو لہو سے بھر گیا
۰۰۰
ڈر کے کسی سے چھپ جاتا ہے جیسے سانپ خزانے میں
زر کے زور سے زندہ ہیں سب خاک کے اس ویرانے میں
جیسے رسم ادا کرتے ہوں شہروں کی آبادی میں
صبح کو گھر سے دور نکل کر شام کو واپس آنے میں
نیلے رنگ میں ڈوبی آنکھیں کھلی پڑی تھیں سبزے پر
عکس پڑا تھا آسمان کا شاید اس پیمانے میں
دبی ہوئی ہے زیر زمیں اک دہشت گنگ صداؤں کی
بجلی سی کہیں لرز رہی ے کسی چھپے تہہ خانے میں
دل کچھ اور بھی سرد ہوا ہے شام شہر کی رونق سے
کتنی ضیا بے سود گئی شیشے کے لفظ جلانے میں
میں تو منیر آئینے میں خود کو تک کر حیران ہوا
یہ چہرہ کچھ اور طرح تھا پہلے کسی زمانے میں
۰۰۰
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
خراب صدیوں کی بے خوابیاں تھیں آنکھوں میں
اب ان بے انت خلاؤں میں خواب کیا دیتے
ہوا کی طرح مسافر تھے دلبروں کے دل
انہیں بس ایک ہی گھر کا عذاب کیا دیتے
شراب دل کی طلب تھی شرع کے پہرے میں
ہم اتنی تنگی میں اس کو شراب کیا دیتے
منیر دشت شروع سے سراب آسا تھا
اس آئنے کو تمنا کی آب کیا دیتے
۰۰۰
کوئی حد نہیں ہے کمال کی
کوئی حد نہیں ہے جمال کی
وہی قرب و دور کی منزلیں
وہی شام خواب و خیال کی
نہ مجھے ہی اس کا پتہ کوئی
نہ اسے خبر مرے حال کی
یہ جواب میری صدا کا ہے
کہ صدا ہے اس کے سوال کی
یہ نماز عصر کا وقت ہے
یہ گھڑی ہے دن کے زوال کی
وہ قیامتیں جو گزرگئیں
تھیں امانتیں کئی سال کی
ہے منیر تیری نگاہ میں
کوئی بات گہرے ملال کی
۰۰۰
کوئی داغ ہے مرے نام پر
کوئی سایہ میرے کلام پر
یہ پہاڑ ہے مرے سامنے
کہ کتاب منظر عام پر
کسی انتظار نظر میں ہے
کوئی روشنی کسی بام پر
یہ نگر پرندوں کا غول ہے
جو گرا ہے دانہ و دام پر
غم خاص پر کبھی چپ رہے
کبھی رو دیے غم عام پر
ہے منیر حیرت مستقل
میں کھڑا ہوں ایسے مقام پر
۰۰۰
ہنسی چھپا بھی گیا اور نظر ملا بھی گیا
یہ اک جھلک کا تماشا جگر جلا بھی گیا
اٹھا تو جا بھی چکا تھا عجیب مہماں تھا
صدائیں دے کے مجھے نیند سے جگا بھی گیا
غضب ہوا جو اندھیرے میں جل اٹھی بجلی
بدن کسی کا طلسمات کچھ دکھا بھی گیا
نہ آیا کوئی لب ببام شام ڈھلنے لگی
وفور شوق سے آنکھوں میں خون آبھی گیا
ہوا تھی گہری گھٹا تھی حنا کی خوشبو تھی
یہ ایک رات کا قصہ لہو رلا بھی گیا
چلو منیر چلیں اب یہاں رہیں بھی تو کیا
وہ سنگ دل تو یہاں سے کہیں چلا بھی گیا
۰۰۰
ہیں رواں اس راہ پر جس کی کوئی منزل نہ ہو
جستجو کرتے ہیں اس کی جو ہمیں حاصل نہ ہو
دشت نجد یاس میں دیوانگی ہو ہر طرف
ہر طرف محمل کا شک ہو پر کہیں محمل نہ ہو
وہم یہ تجھ کو عجب ہے اے جمال کم نما
جیسے سب کچھ ہو مگر تو دید کے قابل نہ ہو
وہ کھڑا ہے ایک باب علم کی دہلیز پر
میں یہ کہتا ہوں اسے اس خوف میں داخل نہ ہو
چاہتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو
۰۰۰
ہے اس گل رنگ کا دیوار ہونا
کہ جیسے خواب سے بیدار ہونا
بتاتی ہے مہک دست حنا کی
کسی در کا پس دیوار ہونا
اسے رکھتا ہے صحراؤں میں حیراں
دل شاعر کا پراسرار ہونا
کمال شوق کا حاصل یہی ہے
ہمارا شہر سے بے زار ہونا
فراق آغاز ہے ان ساعتوں کا
ہے آخر جن کا وصل یار ہونا
یہی ہونا تھا آخر دشت غم کو
ہمارے ہاتھ سے گلزار ہونا
محبت کا سبب ہے بے نیازی
کشش اس کی ہے بس دشوارہونا
منیر اچھا نہیں لگتا یہ تیرا
کسی کے ہجر میں بیمار ہونا
۰۰۰
ہے شکل تیری گلاب جیسی
نظر ہے تیری شراب جیسی
ہوا سحر کی ہے ان دنوں میں
بدلتے موسم کے خواب جیسی
صدا ہے اک دوریوں میں اوجھل
مری صدا کے جواب جیسی
وہ دن تھا دوزخ کی آگ جیسا
وہ رات گہرے عذاب جیسی
یہ شہر لگتا ہے دشت جیسا
چمک ہے اس کی سراب جیسی
منیر تیری غزل عجب ہے
کسی سفر کی کتاب جیسی
۰۰۰
یہ آنکھ کیوں ہے یہ ہاتھ کیا ہے
یہ دن ہے کیا چیز رات کیا ہے
فراق خورشید و ماہ کیوں ہے
یہ ان کا اور میرا ساتھ کیا ہے
گماں ہے کیا اس صنم کدے پر
خیال مرگ و حیات کیا ہے
فغاں ہے کس کے لیے دلوں میں
خروش دریائے ذات کیا ہے
فلک ہے کیوں قید مستقل میں
زمیں پہ حرف نجات کیا ہے
ہے کون کس کے لیے پریشاں
پتہ تو دے اصل بات کیا ہے
ہے لمس کیوں رائگاں ہمیشہ
فنا میں خوف ثبات کیا ہے
منیر اس شہر غم زدہ پر
ترا یہ سحر نشاط کیا ہے
۰۰۰
یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں
تو آکے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں
مکاں ہے قبر جسے لوگ خود بناتے ہیں
میں اپنے گھر میں ہوں یا میں کسی مزار میں ہوں
در فصیل کھلا یا پہاڑ سر سے ہٹا
میں اب گری ہوئی گلیوں کے مرگ زار میں ہوں
بس اتنا ہوش ہے مجھ کو کہ اجنبی ہیں سب
رکا ہوا ہوں سفر میں کسی دیار میں ہوں
میں ہوں بھی اور نہیں بھی عجیب بات ہے یہ
یہ کیسا جبر ہے میں جس کے اختیار میں ہوں
منیر دیکھ شجر چاند اور دیواریں
ہوا خزاں کی ہے سر پر شب بہار میں ہوں
۰۰۰

1 تبصرہ:

اعجاز عبید کہا...

ماخذ بھی دے دیا کریں

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *