ادبی دنیا پر دوسری اہم تحریروں کے ساتھ ہم نے لغت کو بھی اہمیت دی ہے۔ یہ بات بڑی اہم ہے کہ ہم نے بہت تیزی کے ساتھ پرانے الفاظ کو ترک کرنا شروع کیا، اور نئے دور میں محاوروں اور کہاوتوں کی کھپت ہماری روزمرہ کی زبان میں کم سے کم ہونے لگی، اب تو شاید وہ دس فی صد ہی رہ گئی ہوگی۔ اس کے باوجود ہم ادب تخلیق کررہے ہیں، صحافت کے فرائض انجام دے رہے ہیں، یعنی کیا اس دور کے زبان داں کو اس محاوراتی زبان کی قوت کا ادراک نہیں ہے، جو کسی مختصر جملے میں ایک بھرپور تہذیبی ، سماجی و ثقافتی تاریخ کی نمائندگی کا سلیقہ بھی جانتی ہو۔ بہرحال زبان کا سب سے زیادہ علم اردو کے صحافیوں کے لیے ضروری ہے کہ اتھلی اور بے جان زبان پڑھ پڑھ کر اب اردو اخبارات کے مطالعے کا شوق ہی نہیں ، ضرورت بھی ختم ہورہی ہے۔یہ بالکل سچ ہے کہ ہم جدید دور میں قدم رکھ چکے ہیں، مگر اچھی زبان کے جاننے اور اسے برتنے کی اہمیت کو سمجھنے سے آخر ہمیں کون سی بات روکتی ہے، بس یہی کہ ہم پڑھنے لکھنے کی طرف طبیعت کو مائل نہیں کرپاتے اور صرف زبان کے نام پر بڑے اداروں اور ادب کے نام پر سڑک چھاپ مشاعروں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔بہرحال رئوف پاریکھ کا یہ مضمون دلچسپ ہے اور اس کی خصوصیت اس میں موجود زبان کے نادر الفاظ کی جدید اسناد ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ موقع پر استعمال کیے جانے والے الفاظ و محاورات کیسے زندگی کےراستے میں تازہ دم ہو کر پھر بھاگتے دوڑتے نظر آنے لگتے ہیں۔شکریہ
***
زبان اور لغت (یعنی بامعنی اور تشریح طلب لفظ) کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ قلیل الاستعمال، نادر الظہور، غریب اللّغت، غریب الاستعمال اور قلیل الورود الفاظ و تراکیب کو سمجھنا، ان کے محلِ استعمال کو جاننا اور انھیں محفوظ کرنا زبان و لغت کی حفاظت کا ایک طریقہ ہے۔
اس ضمن میں اس عاجز نے ’اخبارِ اردو‘ (اسلام آباد) کے شمارہ مئی ۲۰۱۰ء میں کچھ عرض کیا تھا اور چند ایسے الفاظ و تراکیب (اور ان کی اسناد) پیش کی تھیں جو نادر ہیں اور لغات میں یا تو ان کا اندراج نہیں ہے یا اگر اندراج ہے بھی تو بغیر سند کے ہے۔ اسناد کی اہمیت یہ ہے کہ کسی لفظ کے معنی اس کے استعمال ہی سے طے ہوتے ہیں اور بعض قواعد نویس تو کہتے ہیں کہ کسی لفظ کے کوئی معنی نہیں جب تک وہ کسی جملے میں نہ آئے۔ لہٰذا یہاں بھی الفاظ و تراکیب کے ساتھ اسناد پیشِ خدمت ہیں۔
رفعِ شر کے خیال سے عرض ہے کہ مقصد کسی لغت یا لغت نویس پر نکتہ چینی یا ’حرف گیری‘ نہیں ہے۔ لیکن اکثر لغات میں کوئی نہ کوئی کمی رہ گئی ہے اور یہاں نیت یہ ہے کہ اگر کسی کمی یا خامی کا احساس ہو تو اسے دور کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ ہماری خوب صورت زبان کی ثروت میں اضافہ ہو۔ لغت نویس کا کام اس لحاظ سے بہت عجیب ہے کہ ذرا سی بھی کوتاہی ہوجائے تو اس کی باقی تمام محنت سے صرفِ نظر کرکے اس ایک غلطی کو اچھالا جاتا ہے اور بے چارہ دیدہ ریزی کے باوجود نکّو بنتا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ لغت نویس کی بڑی کامیابی یہی ہے کہ لومۃ لائم سے بچ جائے۔ اس کی محنت کا نہ کوئی صلہ دے سکتا ہے اور نہ صحیح معنوں میں داد۔ ویسے بھی لغت کا کام کبھی ختم نہیں ہوتا اور ہر لغت کے نئے اڈیشن میں کچھ نہ کچھ تبدیلی کرنی پڑتی ہے۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ دس سال کے بعد تو لغت ویسے ہی ازکارِرفتہ ہوجاتی ہے، لفظ معنی بدل لیتے ہیں، نئے الفاظ، محاورات اور اصطلاحات آجاتی ہیں۔ اور بقولِ شاعر:
کارِ دنیا کسے تمام نکرد
ہرچہ گیرید مختصر گیرید
لہٰذا زیرِ نظر کوشش بھی کوششِ ناتمام ہی ہے لیکن کوششِ بے ہودہ بہ از خفتگی۔ لغت نویسی ایک قومی فریضہ ہے اور سب کو اس میں کچھ نہ کچھ حصہ ڈالنا چاہیے، فرضِ کفایہ ہی کے طور پر سہی۔
اس سمع خراشی کے بعد عرض ہے کہ یہاں بعض لغات کے مختصر نام یا مخفف لکھے گئے ہیں جن کی تفصیل باعتبارِ حروفِ تہجی یہ ہے:
امیر : امیراللغات: مولّفہ امیر مینائی
آصفیہ : فرہنگ آصفیہ: مرتّبہ سیّد احمد دہلوی
بورڈ : اردو لغت (تاریخی اصول پر): مرتّبہ اردو لغت بورڈ (۲۲ جلدیں)
علمی : علمی اردو لغت: مرتّبہ وارث سرہندی
نور : نوراللغات: مرتّبہ نورالحسن نیّر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ قلیل الاستعمال الفاظ و محاورات مع اسناد پیش کیے جاتے ہیں:
* از دیدہ دور از دل دور
فارسی کی کہاوت ہے، بمعنی آنکھ سے دور تو دل سے بھی دور۔ یعنی جو نظر کے سامنے نہ ہو اس کا خیال بھی دل میں نہیں رہتا۔ یوں بھی کہتے ہیں کہ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔ گویا جو نظر سے دور ہوتا ہے اسے انسان بھول جاتا ہے۔ اسے ہم انگریزی کی کہاوت Out of sight, out of mind کے اردو مترداف کے طور پر بھی لے سکتے ہیں۔ لیکن یہ کہاوت اکثر لغات میں نہیں ملتی گو فارسی کی کہاوتیں کثیر تعداد میں اردو میں رائج اور مختلف لغات میں شامل ہیں۔ بورڈ نے بھی ’از‘ کے تحتی مرکبات خاصی تعداد میں دیے ہیں لیکن اس کہاوت کا اندراج نہیں کیا۔ نور اور آصفیہ نے ’از‘ کے تحتی مرکبات ویسے ہی کم کردیے ہیں اور اس کا اندراج بھی نہیں کیا۔ البتہ علمی نے درج کیا ہے۔
اس ضرب المثل کی سند حاضر ہے: ’’خط نہ لکھنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ از دیدہ دور از دل دور۔‘‘ (مشفق خواجہ، مکتوباتِ مشفق خواجہ بنام نظیر صدیقی، ص۱۷)
* اقبالی
’اخبارِ اردو‘ میں شامل اسی موضوع پر اپنے مضمون میں عرض کیا تھا کہ غالبؔ کے ایک بڑے مخالف یاسؔ یگانہ چنگیزی نے ایک لفظ غالبؔ کے حامیوں کے لیے بنایا تھا ’غلبچی‘ (غین اور لام مفتوح) اور اسے تحقیراً استعمال کرتے تھے۔ اسی طرح اقبالؔ کے لیے تمام تر احتراماتِ فراواں کے باوجود لکھنا پڑا کہ اقبالؔ کے مخالفین نے اقبالؔ کے چاہنے والوں کے لیے ’اقبالچی‘ کا لفظ اظہارِ حقارت کے لیے گھڑا تھا۔ اس تحریر کو پڑھ کر ایک صاحب بہت ناراض بھی ہوئے تھے اور اسے اقبالؔ کی شان میں گستاخی قرار دیا تھا۔ کاش وہ یہ سمجھتے کہ لغت نویس کا کام الفاظ کو درج یا ریکارڈ کرنا ہوتا ہے، کسی لفظ کے صحیح یا اچھے بُرے کا فیصلہ کرنا نہیں ہوتا (نیز یہ کہ راقم خود بھی ’اقبالچی‘ ہے)۔ اور اس ریکارڈ کی بنیاد معروف و مستند اہلِ قلم کی تحریروں ہی سے لی جاتی ہے۔ انگریزی میں بھی لغت نویسی کا یہی طریقہ ہے۔
اقبالچی ہی کی طرح کا ایک لفظ ’اقبالی‘ ہے جو اقبال دشمنوں نے اقبالیات کے ماہرین کے لیے تراشا ہے۔ ہمارے تمام تر تحفظات کے باوجود اس کا اندراج بھی لغت میں ہونا چاہیے۔ لغت میں نہ کوئی لفظ اچھا ہوتا ہے نہ بُرا اور نہ ہی کوئی لفظ فحش ہوتا ہے۔ ہمیں تو لفظ کا استعمال اور اس کے معنی ریکارڈ کرنے ہیں۔ اگر لفظ میں جان ہوئی اور قبولیتِ عامہ اسے حاصل ہوگئی تو فبہا، ورنہ ہزاروں الفاظ کی طرح یہ بھی متروک ہوجائے گا۔ لفظ ’اقبالی‘ حقارتاً احمد ندیم قاسمی نے فتح محمد ملک کے نام اپنے ایک خط میں ملک صاحب ہی کی کتاب کا ذکر کرتے ہوئے استعمال کیا تھا۔ سند حاضر ہے:
’’... کتاب مکمل ہے ... پیشہ ور ’اقبالیوں‘ میں تو یہ شاید زیادہ مقبول نہ ہو مگر جن لوگوں کو اقبالؔ کے بارے میں حق باتیں سننے کا اشتیاق رہتا ہے، وہ یقیناًسرشار ہوں گے۔‘‘ (ملک، فتح محمد، ندیم شناسی، ص۳۲۴)
* بر پشمِ قلندر
یہ ترکیب بازاری اس لحاظ سے ہے کہ پشم کے دیگر معنی سے قطع نظر یہاں اس سے مراد ہے: موے زہار۔ اور اس ترکیب کے معنی ہیں میری بلا سے، پروا نہیں۔ آصفیہ، نور اور علمی نے نہیں دیا۔ بورڈ نے بھی درج نہیں کیا لیکن بورڈ نے جوشؔ ملیح آبادی کی سندسے ’بر پاپوشِ قلندر‘ دیا ہے جو انھی معنوں میں ہے یعنی پروا نہیں۔
بر پشمِ قلندر کی ایک تازہ سند کچھ عرصے قبل نظر سے گزری، پیش ہے: ’’خوشونت سنگھ نے اگر کتابوں کی رسید نہیں بھیجی تو بر پشمِ قلندر۔‘‘ (مشفق خواجہ، مکتوباتِ مشفق خواجہ بنام نظیر صدیقی، ص۲۰۷)
* بُہارنا (ب مضموم)
اس کے معنی ہیں: جھاڑو لگانا، گرد جھاڑنا، گرد و غبار کو جھاڑو یا کسی اور چیز سے جھاڑنا۔ امیر کی تیسری جلد میں معنی لکھے ہیں: ’’ستھرائی دینا، صاف کرنا‘‘ اور جرأتؔ اور انیسؔ کا ایک ایک شعر سند میں دیا ہے۔ آصفیہ نے کوئی سند نہیں دی۔ نور نے مثال میں ایک جملہ دیا ہے۔ بورڈ نے بھی درج تو کیا ہے لیکن اسناد صرف دو دی ہیں ایک ۱۷۸۶ء کی اور دوسری ۱۸۷۶ء کی، حالاں کہ یہ بعد کے ادوار میں بھی رائج رہا اور اسناد بھی ملتی ہیں، بلکہ شان الحق حقی صاحب کی بھی سند موجود ہے جو طویل عرصے تک بورڈ میں اہم منصب پر فائز رہے۔
سند پیش ہے: ’’جنھیں میں نے ... الماریوں کو جھاڑنے اور کونوں کھدروں کو بُہارنے کے بعد جمع کیا ہے۔‘‘ (حقی، شان الحق، نکتۂ راز، ص۳۶۴)
* بے رُخی
یہ عدم توجہی یا بے مروّتی کے معنی میں مستعمل ہے اور اس کی قواعدی حیثیت اسم کی ہے۔ لیکن یہ صفت کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اور اس وقت اس سے مراد ہوتی ہے: (گفتگو) جس کا کوئی رخ نہ ہو، جس کا کوئی خاص موضوع نہ ہو۔
عام طور پر لغات میں ان معنی میں نہیں ملتا۔ اس کی سند حاضر ہے: ’’اصلی چسکا اس گفتگو میں تھا جو بے شک بے رخی ہوتی مگر بے رسمی نہ ہوتی۔‘‘ (جعفری، ضمیر، دیباچہ) گفتنی ناگفتنی (مصنّفہ مختار زمن)، رائل بک کمپنی، کراچی، ۱۹۹۹ء، ص۱۱)
* ٹُنگار (ٹ مضموم)
یعنی ٹوٗنگنے یا ٹُنگارنے کا عمل۔ ٹوٗنگنا یا ٹُنگارنا یعنی تھوڑا تھوڑا کھانا، چونچ مارنا، ذرا ذرا سا یا دانہ دانہ کھانا، خاص طور پر نُقل (نون مضموم) کے طور پر۔ آصفیہ میں ٹونگنا، ٹنگارنا درج نہیں، نہ ہی ٹنگار ہے۔ نور نے ٹونگنا نہیں دیا البتہ ٹنگار اور ٹنگارنا کا اندراج کیا ہے۔ سند نہیں دی۔ بورڈ نے درج کیا ہے اور دو اسناد ۱۸۹۹ء اور ۱۹۱۵ء کی دی ہیں۔ لیکن بعد کے دور میں بھی مستعمل رہا۔
بعد کے دور کی ایک سند حاضر ہے: ’’خریدار صاحب نے کھجوروں کی ٹنگار شروع کردی۔‘‘ (اودھ پنچ، لکھنؤ، ۵۔ ۱۲؍جولائی ۱۹۳۵ء، ص۶)
* چوبِ بیت الحرام سوختنی نہ فروختنی
آصفیہ، نور، علمی، بورڈ میں اندراج نہیں ہے۔ مراد ہے: ایسا شخص جس کا احترام تو بہت ہو مگر وہ کسی کام کا نہ ہو۔
سند پیش ہے: ’’ایسا لگتا ہے کہ سب اچھے انسان اُٹھ جائیں گے اور میرے جیسے چوبِ بیت الحرام سوختنی نہ فروختنی قسم کے لوگ باقی رہ جائیں گے۔‘‘ (مشفق خواجہ، مکتوباتِ مشفق خواجہ بنام نظیر صدیقی، ص۲۱۸) (لیکن یہ خواجہ صاحب کا انکسار تھا، ان کے اُٹھ جانے سے ہم سب کا بڑا نقصان ہوگیا۔)
* خط کتابت
اس کو عام طور پر ’’خط و کتابت‘‘ لکھا جاتا ہے جو درست نہیں ہے کیوں کہ خط کتابت کے معنی ہیں خط لکھنا لہٰذا اس میں واو غیر ضروری ہے۔ خط کتابت کی ایک سند یہ ہے:
راہ و رسمِ خط کتابت ہی سہی
گل نہیں تو گل کی نکہت ہی سہی
(اسماعیل میرٹھی، حیات و کلّیاتِ اسماعیل، ص۳۲۰)*
* ذکرالعیش نصف العیش
عربی کا مقولہ ہے، اردو میں بھی مستعمل ہے۔ لفظاً: عیش کا ذکر آدھا عیش ہے۔ مراداً: عیش کا ذکر بھی لطف رکھتا ہے۔ آصفیہ میں اندراج نہیں ہے۔ نور نے درج کیا ہے مگر سند نہیں دی۔ بورڈ نے درج کیا ہے اور خطوطِ غالب کے علاوہ ۱۹۵۸ء کی ایک سند دی ہے۔
درمیانی عرصے کی سند ہونی چاہیے تھی، جو حاضر ہے:
بس کہ ذکر العیش نصف العیش ہے
یادِ ایّامِ فراغت ہی سہی
(اسماعیل میرٹھی، حیات و کلّیاتِ اسماعیل، ص۳۲۰)
* سوت کی ڈاہ
سوت یعنی سوکن اور ڈاہ یعنی حسد، جلن، کینہ، بغض۔ سوت کی ڈاہ یعنی وہ جلن اور حسد جو سوکنوں کے درمیان ہوتا ہے۔ اسے سوتیا ڈاہ بھی کہتے ہیں۔ ڈاہ غالباً ’’چاہ‘‘ کا متضاد کہلا سکتا ہے۔ سوت کی ڈاہ کی ایک سند یہ ہے (اسے صرف ڈاہ کی سند کے طور پر بھی برتا جاسکتا ہے:
’’جب اسے یہ معلوم ہوا کہ میاں نوکری پر رنگ رلیوں میں مشغول ہیں تو اس میں سوت کی ڈاہ یا جلن نہ پیدا ہوئی۔‘‘ (حسینی، علی عباس، ناول کی تاریخ اور تنقید، ص۱۶۲)
* غاؤں غاؤں
اس سے مراد ہے شیر خوار بچّوں کی آواز۔ نیز بے معنی آواز یا بے معنی باتوں کو بھی غاؤں غاؤں کہتے ہیں۔ بورڈ نے درج کیا ہے لیکن ’’قدیم ترین‘‘ سند شفیق الرحمن کی کتاب ’’پرواز‘‘ (۱۹۴۸ء) سے دی ہے جب کہ اس سے پہلے کی سند موجود ہے۔ نیز ’’غاؤں غاؤں کرنا‘‘ کا اندراج بھی ہونا چاہیے تھا۔
سند حاضر ہے۔ یہ منشی سجاد حسین کے ناول ’’حاجی بغلول‘‘ سے لی گئی ہے اور غالبؔ کے شعر کی یہ تحریف غالباً خود سجاد حسین ہی کی کاوشِ فکر ہے:
ہوئے بچ کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ در گڑھیّا
وہیں رہتے مثلِ مینڈک، وہیں غاؤں غاؤں کرتے
(ص۵۷)
* مئذنہ
اس کے لفظی معنی ہیں اذان دینے کی جگہ یا وہ اونچی جگہ جہاں سے مؤذن اذان دے۔ اور مراد ہے مینار (چوں کہ عام طور پر پہلے مینار ہی سے اذان دی جاتی تھی، اب آلۂ مکبّرالصوت نے یہ مشکل آسان کردی ہے گو بعض صورتوں میں اس کے غلط استعمال سے اہلِ محلہ کے لیے مشکل پیدا ہوجاتی ہے)۔
بورڈ نے صرف ایک سند دی ہے۔ نسبتاً جدید دور کی سند ہے:
’’اذان اور مِئذنہ (مینار) سے راشد کا یہ شدید قلبی لگاؤ اس امر کا غماز ہے کہ خدا کی احدیت اور کبریائی کا انھیں کتنا جیتا جاگتا احساس ہے۔‘‘ (فراقی، تحسین، حسن کوزہ گر، ص۴۳) لیکن اس کے بعد حواشی میں فراقی صاحب نے اس لفظ مئذنہ کے استعمال پر ان الفاظ میں معذرت کی ہے: ’’اس بہت غریب لفظ کے استعمال پر معافی کا خواستگار ہوں‘‘ (ص۵۰)۔ تعجب ہے کہ اس میں معذرت کی کیا بات ہے۔ لفظ اگر برمحل ہو اور صحیح معنی اس طرح دے کہ اس کو اپنی جگہ سے ہلانا مشکل ہو تو اس طرح ہوتا ہے جیسے انگوٹھی میں نگینہ۔ پھر چاہے کتنا ہی قلیل الاستعمال کیوں نہ ہو غریب نہیں رہتا۔ غریب تو وہ ہے جو اجنبی اور اوپرا معلوم ہو، یہاں اذان کی مناسبت سے مئذنہ بالکل درست ہے۔ جب ابوالکلام آزاد نے ’’مدیرِ مسؤل‘‘ کے الفاظ پہلی بار استعمال کیے ہوں گے تو نامانوس لگے ہوں گے لیکن اب ’’مدیر‘‘ کے بغیر اردو کا کوئی پرچہ نہیں نکل سکتا، گو جدید عربی میں مدیر کے معنی اڈیٹر نہیں بلکہ منیجر ہیں۔
* نازن
جی ہاں صرف مرد ہی ’’نامرد‘‘ نہیں ہوتا، عورت کے ساتھ بھی ’’نا‘‘ لگایا جاسکتا ہے۔ اسے ’’نازن‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ بورڈ نے اقبالؔ کی سند دی ہے۔ بعد کے ادوار میں بھی رائج رہا۔
بعد کے دور کی ایک سند سلیم احمد کے شعر سے:
مرد نامرد ہیں اس دور کے زن ہے نازن
اور دنیا کی ہر اک شے ہے اسی کا سمبل
(سلیم احمد، بحوالہ فروغ احمد، پورے آدمی کی نئی نظم، مشمولہ ’رسالہ‘ حیدرآباد سندھ، شمارہ۱، ستمبر ۱۹۸۵ء)
فہرستِ اسنادِ محوّلہ
۱۔ اسماعیل میرٹھی، حیات و کلّیاتِ اسماعیل، مرتّبہ اسلم سیفی، دہلی، طبع دوم، ۱۹۳۹ء۔
۲۔ جعفری، ضمیر (دیباچہ) گفتنی ناگفتنی (مصنّفہ مختار زمن)، رائل بک کمپنی، کراچی، ۱۹۹۹ء۔
۳۔ حسینی، علی عباس، ناول کی تنقید اور تاریخ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، علی گڑھ، ۱۹۸۷ء۔
۴۔ حقی، شان الحق، نکتۂ راز، عصری کتب، کراچی، ۱۹۷۲ء۔
۵۔ سجاد حسین، منشی محمد، حاجی بغلول، مطبع شامِ اودھ، لکھنؤ، ۱۹۱۳ء۔
۶۔ سلیم احمد، بحوالہ فروغ احمد، پورے آدمی کی نئی نظم، مشمولہ ’رسالہ‘ حیدرآباد سندھ، شمارہ۱، ستمبر ۱۹۸۵ء۔
۷۔ فراقی، تحسین، حسن کوزہ گر، پنجاب یونی ورسٹی اورینٹل کالج، لاہور، ۲۰۱۰ء۔
۸۔ مشفق خواجہ، مکتوباتِ مشفق خواجہ بنام نظیر صدیقی، مرتّبہ عبدالرحمن طارق، ادارۂ مطبوعاتِ سلیمانی، لاہور، ۲۰۱۰ء۔
۹۔ ملک، فتح محمد، ندیم شناسی، سنگِ میل، لاہور، ۲۰۱۱ء۔
(’مباحث‘ کتابی سلسلہ نمبر۲، لاہور کے شکریے کے ساتھ)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں