جمعرات، 24 نومبر، 2016

تاریخ سے اصل اقبال کی دریافت/سعید ابراہیم

تاریخ بہت بے رحم ہوتی ہے یہ ان قوموں کو کبھی معاف نہیں کرتی جو اس سے تمسخر کی مرتکب ہوتی ہیں۔ جو قومیں تاریخ کو مسخ کرتی ہیں تاریخ انہیں مسخ کر دیتی ہے۔ مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک کا سفر اس بات کا بین ثبوت ہے۔ حکمران سمجھتے ہیں کہ وہ تاریخ چھپانے‘ جھٹلانے اور مسخ کرنے پر قادر ہیں مگر یہ ان کی بہت بڑی بھول ہے۔ تاریخ کو نہ چھپایا جا سکتا ہے نہ جھٹلایا جا سکتا ہے اور نہ ہی مسخ کیا جا سکتا ہے۔ جن قوموں یا حکمرانوں نے ایسا کرنے کی جرات کی وہ آج تاریخ کے صفحات میں خود عبرت کے نشان کی صورت محفوظ ہیں۔ تاریخ کو مسخ کرنے کا عمل دراصل ان قوموں کا شیوہ ہے جو تاریخ کے کسی موڑ پر اپنی کمزوریوں کی بنا پر احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ برصغیر کے مسلمان اسی وقت احساس کمتری کے مرض مبتلا ہو چکے تھے جب انگریز نے طاقت سازش اور خود یہاں کے مسلمان حکمرانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر انہیں تخت حکمرانی سے اتار پھینکا تھا۔ مغلیہ دربار سے وابستہ بیکار اور عیاش جاگیردار طبقہ منہ کے بل گرا تو سب سے پہلے اس ’’مظلوم‘‘ طبقے کا درد سرسید احمد خان کے دل میں اٹھا اور انہوں نے اس طبقے کی عزت رفتہ کی بحالی کے لئے دن رات ایک کر دیا۔ اور جنگ آزادی )جسے سر سید احمد خان غدر کا نام دیتے ہیں یعنی غداری کا عمل( میں انگریز افسران کی جان بچانے کی خدمات کے عوض انہوں نے انگریز حکمرانوں سے اس طبقے کے لئے ایک طرف عزت اور عہدہ طلب کیا اور دوسری طرف انہیں انگریز کے دربار میں مغلیہ دربار والی شان و شوکت دوبارہ حاصل کرنے کے گر بتائے۔ سر سید نے 1878ء میں وائسرائے لٹن کی لجسلیٹو کونسل کارکن نامزد ہونے کے بعد کونسل میں ’’قانون جائیداد موقوفہ خاندانی اہل اسلام‘‘ کے نام سے ایک بل پیش کرنے کے لئے تیار کیا‘ جس کا مقصد مسلمان رئیسوں یعنی مغل دربار کی اشرافیہ کی باقیات کو تباہی و بربادی سے بچانا مقصود تھا۔ لیکن بوجوہ پیش نہ کر پائے۔
مندرجہ بالا حقائق کی نشاندہی کا مقصد سر سید مرحوم کی ذات کو نشانہ تنقید بنانا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ سر سید کی ذات میں ایسی باتیں بھی شامل ہیں جن کا سامنا کرتے ہوئے ہمیں شرم محسوس ہوتی ہے اور ویسے بھی پاکستان میں رائج نظریہ حکمرانی کو یہ حقائق ’’وارہ‘‘ نہیں کھاتے۔ سو ایک خاص مقصد کے تحت انہیں عوام سے چھپا کر تاریخ کو مسخ کیا جاتا ہے۔ شبلی نعمانی جیسے جید تاریخ دان جن کا شمار سر سید کے ارکان خمسہ میں ہوتا ہے اس نظریئے کے حامی تھے کہ مسلمانوں کو جوش دلانے کے لئے اگر تاریخ میں جھوٹ کی آمیزش کر دی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
ہماری تاریخ میں ایک صاحب تھے مولوی محمد باقر نامی جو دہلی سے ’’اخبار الظفر‘‘ کے نام سے ایک پرچہ نکالتے تھے۔ انہوں نے 1857ء میں حقائق کے برخلاف فتح کی بشارتیں سنانے کے لئے جھوٹی خبریں اور قصے گھڑے حتیٰ کہ ایران سے مجاہدین کے لشکر کی آمد کی جھوٹی خبریں شائع کیں۔ اسی طرح کا ایک اور کردار ’’طلسم لکھنؤ‘‘ کے مدیر مولوی یعقوب انصاری کا ہے جن کے نزدیک جہاد میں مسلمانوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے جھوٹی اور من گھڑت خبریں شائع کرنا جائز تھا۔ اسی حوالے سے ایک اور دلچسپ کردار جو سامنے آتا ہے وہ جمیل الدین خان ہجر کا ہے۔ یہ صاحب دہلی سے شائع ہونے والے ’’صادق الاخبار‘‘ کے مدیر تھے۔ انہوں نے بھی تاریخ میں جھوٹ کی آمیزش کے نظریئے کو آگے بڑھاتے ہوئے بہادر شاہ ظفر کے حق میں غیرحقیقی دعوؤں پر مبنی خبریں شائع کیں۔ انگریزوں کی شکست اور بادشاہ کی فتح کی غلط خبریں شائع کیں اور یہاں تک لکھ دیا کہ پنجاب سے تمام گوروں کا صفایا کر دیا گیا ہے۔ مزید لکھا کہ روس کی چار لاکھ فوج مجاہدین کی مدد کے لئے پہنچ رہی ہے اور ایرانی بھی ہماری مدد کو آنے والے ہیں۔
اگر ذرا غور سے دیکھیں تو تاریخ کو چھپانے اور مسخ کرنے کا یہ عمل مغلیہ دربار کے زوال سے شروع ہو کر کارگل کے معرکے تک پھیلا ہوا ہے۔ ہم نے اپنے احساس کمتری کو احساس برتری کے لبادے میں چھپانے کے لئے نہ تو واقعات کو معاف کیا اور نہ ہی شخصیات کو۔ وہ چاہے سر سید ہوں‘ اقبال ہوں‘ قائداعظم ہوں یا لیاقت علی خان ہم نے سب کا ایک ایسا غیر حقیقی تصور بنانے کی کوشش کی جس کی تاریخ تائید کرنے سے صاف قاصر ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کے سیاسی لیڈر تھے مگر پیغمبر ہرگز نہیں تھے ۔مگر ہمارا المیہ دیکھئے کہ ہم نے اپنے اجتماعی احساس کمتری سے جان چھڑانے کے لئے ان لوگوں کو ہر طرح کی انسانی غلطی اور خامی سے مبرا بنانے کی ٹھان لی۔ یہ بات ایک جانب تو عام مسلمان کی نفسیاتی تسکین کا باعث تھی اور دوسری طرف ہمارے حکمران طبقے کو بھی کچھ ایسے بت درکار تھے جن کے نام پر وہ عوام کو بیوقوف بنا سکیں اور یوں پاکستان بننے کے بعد ان زعماء کا ایک غیرحقیقی تصور اجاگر کرنے اور عوام کے ذہنوں پر مرتسم کرنے کا عمل حکمرانوں کی زیرنگرانی زوروشور سے شروع ہو گیا جو آج تک بڑی ڈھٹائی سے جاری و ساری ہے۔ ہمارے خیال میں اب وقت آ گیا ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنے ماضی اور حال کے حقیقی خدوخال کا پوری ایمانداری سے جائزہ لیکر خود کو جھوٹی جذباتیت سے آزاد کروائیں۔ اور اب ویسے بھی تاریخ خود کو زیادہ دیر تک چھپانے کی مہلت نہیں دیگی۔ تاریخ کے ہر نازک موڑ پر نئے جھوٹ گھڑنا اور انہیں پراپیگنڈے کی حد تک پھیلانا ہماری ایک قومی روایت رہی ہے آج پھر ہم تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں اور یہی وہ موقع ہے جہاں ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ ہم کب تک جھوٹی تاریخ کی کچی بنیادوں پر پاؤں جمانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔
جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا کہ ہمارے سیاسی زعماء انسان تھے پیغمبر نہیں۔ سو ہمیں تاریخ میں جھانک کر دیکھنا ہے کہ ہمارے یہ زعماء کیا ویسے ہی تھے جیسا کہ ہمیں نصاب‘ اخبارات اور ٹی وی ریڈیو پر بتایا جاتا ہے یا ان کی ذات کے بارے میں کچھ حقائق ایسے بھی ہیں جو ہمارے حکمران محض اس لئے چھپاتے ہیں کہ عوام کو ہیرو پوجا کے مقدس جال میں الجھا کر جذباتیت کے گڑھے میں گرائے رکھیں تاکہ عوام کو حکمرانوں کے اصل چہرے اور مفادات کا پتہ نہ چل سکے۔
علامہ اقبال مسلم تاریخ کا ایک محترم نام ہیں مگر کیا اقبال حقیقی معنوں میں ویسے ہی تھے جیسے ہمیں میڈیا اور نصاب میں دکھائے، بتائے اور سنائے جاتے ہیں۔ آیئے آج تاریخ کے صفحات سے اصل اقبال کو دریافت کرنے کی ایک سعی کرتے ہیں۔ اس کے لئے سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ خود اقبال اپنے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ علامہ21 مارچ 1931ء کو لاہور میں منعقد آل انڈیا مسلم کانفرنس کے اجلاس میں اپنے خطبے میں کہتے ہیں
’’میں آپ کو ایک ایسے شخص کے انتخاب پر مبارکباد نہیں دے سکتا جس کی حقیقت ایک منصوبے باندھنے والے تخئیل پسند انسان سے زیادہ نہیں۔ کسی ایسے مطمئع نظر کا انکشاف کرنا جو دنیاوی حد بندیوں سے آزاد ہو ایک کام ہے اور یہ بتانا کہ کس طرح وہ مطمئع نظر زندگی بخش حقائق میں تبدیل ہو سکتا ہے بالکل دوسرا کام ہے۔ وہ آدمی کہ جس میں یہ جرأت ہو کہ وہ اوّل الذکر کام سے موخر الذکر کام کی طرف اپنے آپ کو منتقل کرے۔ اسے بار بار ان حد بندیوں کا جائزہ لینا ہوگا اور بسا اوقات ان کے سامنے جھکنا پڑے گا جنہیں وہ اب تک نظر انداز کرنے کا عادی رہا ہے۔ ایسے آدمی کو بدقسمتی سے مسلسل ذہنی کشمکش میں زندگی بسر کرنی پڑتی ہے اور اس پر باآسانی تناقص بالذات کا الزام عائد کیا جا سکتا ہے‘‘۔ اس اقتباس کو پڑھنے کے بعد سوال اٹھتا ہے کہ کیا اقبال تناقص بالذات کا شکار تھے تو اس کا جواب ہمیں ان کی شاعری اور حقیقی زندگی سے ڈھونڈنا ہوگا۔
جہاں تک اقبال کی شاعری کا تعلق ہے وہ جگہ جگہ نظریاتی تناقصات کا شکار نظر آتی ہے۔ مذہبی نظریات کے اعتبار سے آپ کی شاعری کے تین ادوار ہیں یعنی پہلے دور میں واحد الوجود کا پرچار ملتا ہے دوسرے دور میں آپ واحد الشہودی نظریات کا پرچار کرتے ہیں اور آخری دور میں پھر سے وحدت الوجودی بن جاتے ہیں۔ وہ اپنی تمام شاعری میں ایک سیلانی الطبع شخص کے طور پر نظر آتے ہیں۔ سیاسی نظریات کے حوالے سے بھی جگہ جگہ تضادات کا شکار نظر آتے ہیں۔ ان کے نزدیک مسولینی بھی قابل تعریف ہے اور مارکس اور لینن بھی۔ مارکس کے بارے میں تو یہاں تک کہہ گزرتے ہیں کہ
نیست پیغمبر و لیکن دربغل دار و کتاب
اسی طرح سے کبھی جمہوریت کی تعریف کرتے ہیں اور کبھی اسے برا بھلا کہتے ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں
سلطانئ جمہور کا آتاہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
اور دوسری جگہ فرماتے ہیں
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اقبال نے اپنی شاعری میں اتنے متضاد خیالات پیش کئے ہیں کہ ان کا ایک سکیچ بنانا ناممکن ہے۔ اقبال بیک وقت آمریت پسند بھی ہیں اور جمہوریت پسند بھی۔ وہ سوشلسٹ بھی ہیں اور مسلمان بھی۔ لہذا اقبال پاکستان میں بننے والی ہر حکومت کے لئے گیدڑ سنگھی کا کام دیتے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے۔ کیونکہ ان کی شاعری سے ہر طرح کے طرز حکومت کے لئے سند دستیاب ہو جاتی ہے۔
اقبال کا المیہ یہ ہے کہ ناصرف ان کی شاعری تضادات کا شکار ہے بلکہ ان کی حقیقی زندگی اور شاعری میں بھی بے حد بعد پایا جاتا ہے۔ اور یہ شعر اس بات کی وضاحت کے لئے کافی ہے کہ
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا
اقبال نے واقعی درست فرمایا وہ لفظوں کی گھن گھرج سے تو خوب واقف تھے مگر ان کی اپنی حقیقی زندگی اس گھن گھرج سے محروم تھی اپنی پوری شاعری میں خودی کا سبق دینے والے اقبال جب 17 اکتوبر 1925ء کو گورنر پنجاب کے معاون افسر جے پی تھامسن کو مہاراجہ ہری سنگھ کے دربار میں ملازمت کے لئے درخواستی خط لکھتے ہیں توہماری نصابی کتابوں اور میڈیا پر نظر آنے والا اقبال شرم سے منہ چھپانے لگتا ہے۔ اقبال لکھتے ہیں:
’’میں آپ کو یہ خط ایک ایسی ضرورت سے لکھ رہا ہوں جس کا فوری تعلق میری اپنی ذات سے ہے اور مجھے امید ہے کہ ایسے وقت میں میری مدد فرمائیں گے جب کہ مجھے اس کی سخت ضرورت ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں جو جگہ خالی ہوئی تھی اس کے متعلق حکومت کے فیصلے کی خبر تو آپ کو مل چکی ہوگی۔ میری یہ بدقسمتی ہے کہ لوگوں نے مجھے اس سلسلہ میں ملوث کیا۔ مسلم پریس نے یہاں جتنا احتجاج کیا ہے یا آئندہ کرے گا‘ اس سے مجھے بہت زیادہ نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ چیف جج کا خیال ہے کہ چند اشخاص جن میں میرا نام بھی شامل ہے اس احتجاج کی پشت پناہی کر رہے ہیں حالانکہ میرے خیال میں ان کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جس قسم کی سازشوں میں مجھے ملوث کیا جا رہا ہے میرا ان سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ بہرحال ان حالات میں میرے لئے یہاں پر ایک وکیل کی حیثیت سے کام کرنا بے حد مشکل ہو جائے گا‘ خاص کر جب کہ مجھے ماضی میں بھی کئی طریقوں سے نقصان پہنچ چکا ہے۔ اس کے علاوہ چند دیگر ناقابل اظہار اسباب کی بنا پر جن کا اس خط میں تذکرہ مناسب نہیں‘ میں اس ماحول سے قطعی بیزار ہو چکا ہوں اور دل چاہتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر کہیں دور چلا جاؤں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کے قلم کی ایک جنبش مجھے ان تمام مشکلات سے نجات دلا سکتی ہے۔ اس وجہ سے اور آپ کی فیاضی اور ہمدردی پر یقین رکھتے ہوئے میں آپ کی سرپرستی کا خواہاں ہوں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ مجھے کشمیر کی سٹیٹ کونسل میں کوئی منصب دلوا سکیں۔ شاید آپ کو علم ہو کہ کشمیر میرا آبائی وطن ہے اور کشمیر کے لئے میرے دل میں ایک خاص لگن موجود ہے۔ یہ ممکن ہے کہ (کشمیرکا) نیا مہاراجہ (ہری سنگھ) اپنی حکومت میں کچھ تبدیلیاں لانے کی سوچ رہا ہو۔ اگر ایسا ہے تو مجھے یقین ہے کہ اس معاملہ میں سلسلہ جنبانی کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ اگر آپ مجھے تھوڑا سا سہارا دے سکیں تو یہ میرے لئے روحانی اور دنیاوی طور پر ایک بہت بڑی نعمت ثابت ہوگی اور میں آپ کے اس لطف و کرم کا ہمیشہ ممنون رہوں گا۔۔۔ اگرچہ اس معاملہ میں مجھے آپ کی ذات پر مکمل اعتماد ہے لیکن میں یہ بات آپ تک پہنچانا ضروری سمجھتا ہوں کہ پالن پور کے نواب صاحب جو ہری سنگھ کے قریبی دوستوں میں سے ہیں میرے بھی دوست ہیں‘‘۔(پاکستان کی سیاسی تاریخ جلد۵، مسلم پنجاب کا سیاسی ارتقا، زاہد چوہدری، صفحہ 247,248)
اس خط کو پڑھنے کے بعد لگا یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ وہی اقبال ہیں جنہوں نے جاوید نامہ میں اپنے بیٹے کو یہ نصیحت فرمائی تھی کہ
ترا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ پیچ غریبی میں نام پیدا کر
اور مزید حیرت وہ قصیدے پڑھ کر ہوتی ہے جو انہوں نے انجمن حمائت اسلام کے سترہویں اجلاس میں لیفٹیننٹ گورنر پنجاب میکورتھ ینگ اور ڈائریکٹر ایجوکیشن ولیم بل جیسے انگریزوں کی شان میں ’’خیرمقدم‘‘ کے نام سے پڑھے۔ نمونے کے طور پر (اختصار کے لئے ) صرف ایک شعر حاضر ہے
دعا نکلتی ہے دل سے حضور شاد رہیں
رہیں جہان میں عظمت طراز تاج و سریر(1)
ایک شعر حضرت بل کی شان میں یوں فرمایا
بڑھے جہان میں قبال ان مشیروں کا
کہ ان کی ذات سراپا ہے عدل کی تصویر(2)
(1-2 باقیات اقبال، آئینہ ادب،لاہور، 1978)
پنجاب کے بدنام ترین انگریز گورنر سر مائیکل ایڈوائر کی شان میں لکھا جانے والا قصیدہ بھی پڑھنے کے لائق ہے۔ یہ وہی شخص تھا جس نے جنگ عظیم اول کے لئے زبردستی پنجاب سے جوان بھرتی کئے جس کے خلاف پنجاب کے کئی اضلاع میں کسانوں نے بلوے اور ہنگامے کئے۔ معلوم نہیں اقبال ’’پنجاب کا جواب‘‘ نامی یہ قصیدہ نما نظم لکھ کر کن مظلوموں یا کم از کم مسلمانوں کی نمائندگی کر رہے تھے۔
اے تاجدار خطہ جنت نشان ہند
روشن تجلیوں سے تری خاوران ہند
محکم ترے قلم سے نظام جہان ہند
تیغ جگر شکاف تری پاسبان ہند
ہنگامہ وغا میں میرا سر قبول ہو
اہل وفا کی نذر محقر قبول ہو
تلوار تیری دہر میں نقاد خیر و شر
بہروز‘ جنگ توز‘ جگر سوز‘ سیز در
رایت تری سپاہ کا سرمایہ ظفر
آزادہ‘ پرکشادہ‘ پری زادہ‘ یم سپر
سطوت سے تیری پختہ جہاں کا نظام ہے
ذرے کا آفتاب سے اونچا مقام ہے
وقت آ گیا کہ گرم ہو میدان کارزار
پنجاب ہے مخاطب پیغام شہریار
اہل وفا کے جوہر پنہاں ہوں آشکار
معمور ہو سپاہ سے پنہائے روزگار
تاجر کا زر ہو اور سپاہی کا زور ہو
غالب جہاں میں سطوت شاہی کا زور ہو
ہندوستاں کی تیغ ہے فتاح ہشت باب
خونخوار‘ لالہ بار‘ جگردار برق تاب
بے باک‘ تابناک‘ گہرپاک‘ بے حجاب
دلبند‘ ارجمند‘ سحرخند‘ سیم ناب
یہ تیغ دل نواز اگر بے نیام ہو
دشمن کا سر ہو اور نہ سودائے خام ہو
اخلاص بے غرض ہے‘ صداقت بھی بے غرض
خدمت بھی بے غرض ہے‘ اطاعت بھی بے غرض
عہد وفا و مہر و محبت بھی بے غرض
تخت شہنشہی سے عقیدت بھی بے غرض
لیکن خیال فطرت انساں ضرور ہے
ہندوستاں پہ لطف نمایاں ضرور ہے
جب تک چمن کے جلوہ گل پر اساس ہے
جب تک فروغ لالہ احمر لباس ہے
جب تک نسیم صبح عنا دل کو راس ہے
جب تک کلی کو قطرہ شبنم کی پیاس ہے
قائم رہے حکومت آئیں اسی طرح
دیتا رہے چکور سے شاہیں اسی طرح
(پاکستان کی سیاسی تاریخ جلد۵، مسلم پنجاب کا سیاسی ارتقا، زاہد چوہدری، صفحہ 244,242)
اقبال نے یہ نظم نواب ذوالفقار علی خان کی وساطت سے گورنر کی فرمائش پر تحریر کی تھی اور یہ وہی نواب ذوالفقار ہیں جن سے تعلق خاطر کی بنا پر اقبال کو سر کا خطاب ملا تھا۔
تاریخ بہت ظالم ہوتی ہے اسے لاکھ چھپایا جائے لیکن ایک نہ ایک دن وہ خود کو بے نقاب کرنے کا راستہ ڈھونڈ لیتی ہے اب ہم ایک ایسی بات کا تذکرہ کرنے جا رہے ہیں جو شاید بہت سے لوگوں کو (جن کاا قبال کے متعلق علم اور تصور صرف میڈیا اور نصاب کی حد تک محدود ہے) چونکا کر رکھ دے بلکہ شاید دکھ میں مبتلا کر دے مگر کیا کیا جائے تاریخ بہت ظالم ہوتی ہے اور حقائق بہت کڑوے اور تلخ۔۔۔ محض جھوٹ سننے کی خواہش سے سچ بدل نہیں جائے گا۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ حضرت علامہ اقبال تقریباً 1930ء تک احمدیت سے خاصے متاثر رہے بلکہ یہاں تک کہ آپ نے مرزا غلام احمد کی بیعت بھی کی۔ اور ان کے بڑے بیٹے آفتاب نے کئی سال تک قادیان میں تعلیم حاصل کی۔
’’خواجہ نذیر احمد اور مرزا بشیر الدین محمود کے بیان کے مطابق اقبال کے والد شیخ نور محمد نے فرقہ قادیانی کے بانی مرزا غلام احمد کی بیعت کی تھی۔۔۔ خواجہ نذیر احمد کا مزید بیان یہ ہے کہ خود علامہ اقبال نے بھی 1897ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے پاس کرنے کے بعد مرزا غلام احمد کی بیعت کی تھی اور وہ 1930ء تک مرزا کو مذہبی مجدد سمجھتے رہے تھے‘‘ (مسلم پنجاب کا سیاسی ارتقاء۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ جلد نمبر5۔ زاہد چودھری(
1901ء میں انہوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ایک تقریر میں یوں اظہار خیال کیا
’’پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں‘‘۔
لیکن 1930ء کے بعد علامہ کے خیالات میں تبدیلی واقع ہونا شروع ہو گئی تھی گویہ تبدیلی مذہبی سے زیادہ سیاسی تھی اور اس کے پس منظر میں ایک تو احرار کی طرف سے اٹھنے والا مخالفت کا طوفان تھا اور دوسری طرف سر ظفر اللہ خان (قادیانی) سے سیاسی مفاد کا ٹکراؤ۔۔ حالانکہ مرزا صاحب نے تو 1901ء میں ہی اپنے ظنی نبی ہونے کا دعویٰ کر دیا تھا۔ تو اقبال کو اپنے خیالات بدلنے میں تیس برس کا عرصہ کیوں لگا؟ اس کا ایک جواب خواجہ نذیر احمد دیتے ہیں ’’1931ء میں مرزابشیرالدین محمود سے اختلاف پیدا ہونے کے بعد جب ڈاکٹر اقبال نے احمدیوں کے خلاف کتاب لکھی تو میرے والد خواجہ کمال الدین نے اس سے پوچھا کہ ’’اویار تیری بیعت دا کی ہویا‘‘۔ اس پر علامہ کا جواب یہ تھا کہ ’’اوہ ویلا ہور سی ایہہ ویلا ہور اے‘‘
علامہ اقبال نے مرزا صاحب کے دعویٰ نبوت کے تقریباً 33 سال بعد ایک طویل مضمون میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ یہ جولائی 1934ء کا ذکر ہے جب وزیر ہند لارڈ زئلینڈ نے سر ظفر اللہ خان (پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ) کی کارکردگی سے متاثر ہو کر انہیں سر فضل حسین کی جگہ وائسرے کی ایگزیکٹو کونسل کی مستقل رکنیت کی پیشکش کی۔ چونکہ اقبال خود اس نشست کے امیدوار تھے لہذا معترضین کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ اس موقع پر قادیانیوں کی مخالفت مذہبی بنیاد پر نہیں بلکہ سیاسی مفاد کی وجہ سے تھی۔ اور اس مضمون کا مطلب یہی نکلتا تھا کہ ظفر اللہ خان مسلمانوں کا نمائندہ نہیں ہے۔ (حوالہ کے لئے ’’مسلم پنجاب کا سیاسی ارتقاء۔ ص 272-73)
میڈیا سے ایک بات کا تواتر سے (پراپیگنڈے کی حد تک) ذکر کیا جاتا ہے کہ علامہ تصور پاکستان کے خالق تھے۔ اس بات کا جواب ہمیں علامہ کے اس خط سے باآسانی مل جاتا ہے جو انہوں نے 4 مارچ 1934ء کو ای جے تھامپسن کے نام لکھا جس میں انہوں نے شدت سے چودھری رحمت علی کی ’’پاکستان سکیم‘‘ سے لاتعلقی بلکہ برات کا اظہار کیا۔ لکھتے ہیں
’’مائی ڈیر مسٹر تھامپسن۱
مجھے اپنی کتاب پر آپ کا ریویو ابھی ابھی موصول ہوا ہے۔ یہ بہت عمدہ ہے اور میں ان باتوں کے لئے آپ کا بہت ممنون ہوں جو آپ نے اس میں میرے متعلق بیان کی ہیں۔ لیکن آپ نے ایک غلطی کی ہے جس کی میں فوری نشاندہی کرنا ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ یہ ایک فاش غلطی ہے۔ آپ نے میرے بارے میں کہا ہے کہ میں اس سکیم کا حامی ہوں جسے ’’پاکستان‘‘ کہا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان میری سکیم نہیں ہے۔ میں نے اپنے خطبے میں جو تجویز پیش کی تھی وہ ایک مسلم صوبہ کے بارے میں تھی جو شمالی مغربی ہندوستان کے مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل تھا۔ میری سکیم کے مطابق یہ نیا صوبہ مجوزہ انڈین فیڈریشن کاحصہ ہوگا۔ پاکستان سکیم میں مسلم صوبوں پر مشتمل ایک علیحدہ فیڈریشن کا قیام تجویز کیا گیا ہے جو ایک علیحدہ ڈومینین کی حیثیت سے انگلستان کے ساتھ براہ راست تعلق رکھے گی۔ اس سکیم نے کیمبرج میں جنم لیا ہے۔ اس سکیم کے مصنفین کا خیال ہے کہ ہم جو گول میز کانفرنس کے مندوبین ہیں‘ ہم نے مسلم قوم کو ہندوؤں یا نام نہاد انڈین نیشنلزم کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھا دیا ہے۔
خیراندیش محمد اقبال
(پاکستان کی سیاسی تاریخ جلد۵، مسلم پنجاب کا سیاسی ارتقا، زاہد چوہدری، صفحہ 418,261 )
دلچسپ بات یہ ہے کہ علامہ پاکستان سکیم کی مخالفت 1934ء میں کر رہے ہیں اور وہ بھی انتہائی شدت سے جبکہ ان وہ مشہور و معروف خطبہ الہٰ باد جس سے تصور پاکستان اخذ کیا جاتا ہے وہ انہوں نے 1930ء میں یعنی 4 سال پہلے دیا تھا۔
ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہئے
اس خط سے تو صاف ظاہر ہے کہ علامہ ایک متحدہ ہندوستان کے دائرے میں رہتے ہوئے مسلمانان ہند کو زیادہ سے زیادہ خودمختاری دلوانے کے خواہش مند تھے۔ اور اس خودمختاری کے عوض متحدہ ہندوستان کے دفاع کی ذمہ داری بھی مسلمانوں کے کاندھوں میں ڈال دیتے ہیں۔ وہ انگریز اور ہندو کو بتاتے ہیں کہ اسی خودمختاری کے نتیجے میں انہیں پنجاب سرحد اور بلوچستان سے ہندوستان کی کل فوج کا 62 فیصد سے زیادہ حصہ مسلم فوج کی صورت میں دستیاب ہوگا جو تمام ہندوستان کو غیرممالک کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھ سکے گا۔ مزید یہ کہ وہ ہندوؤں اور انگریزوں کو یہ یقین دہانی بھی کرواتے ہیں کہ مسلمانوں کی ریاستوں میں شرح سودپر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔ کیونکہ ’’مسلم دور حکومت میں ہندوستانی مسلم ریاستوں نے شرح سود پر کوئی پابندیاں نہیں لگائیں‘‘ اقبال کا تصور پاکستان مزید ان جملوں سے واضح ہوتا ہے کہ ’’میرے نزدیک سب سے بہتر صورت یہ ہوتی کہ صرف برطانوی ہندوستان کے علاقوں پر مشتمل وفاق قائم کر کے ابتدا کی جاتی...... مسلمانوں کو اس وقت تک فائدہ نہیں ہو سکتا کہ جب تک انہیں ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں سے پانچ میں تمام اختیارات مالبقی کے ساتھ اکثریت کے حقوق حاصل نہ ہوں اور وفاقی مجلس قانون ساز میں انھیں 33 فیصد نشستیں نہ ملیں...... ہمارا مطالبہ یہ ہونا چاہئے کہ ان مسلم ریاستوں کے علاوہ جو فیڈریشن میں شریک ہوں‘ ہمیں آل انڈل فیڈرل اسمبلی میں 33 فیصد نشستیں حاصل ہوں۔
آپ خطبہ الہٰ باد پورے کا پورا پڑھ لیجئے مجال ہے جو آپ کو آزاد اور خودمختار پاکستان کے حوالے سے ایک جملہ بھی دستیاب ہو جائے۔ مگر ہمارا یہ گلہ علامہ سے نہیں ہے بلکہ ان لوگوں سے ہے جو تسلسل کے ساتھ علامہ کا ایک غیر حقیقی اور خلاف تاریخ امیج بنانے اور قوم کو منوانے پر مصر ہیں۔
علامہ کے بارے ایک اور بات کہی جاتی ہے کہ ان کے دل میں پوری مسلم امہ کا درد تھا۔ وہ پان اسلام ازم کے حامی تھے اسی لئے انہوں ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ جیسی شاعری سے انکار کر کے وطن کو بت قرار دے دیا تھا اور مسلمانوں کی اجتمائیت کے متعلق اس خواہش کا اظہار فرمایا
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کا شغر
لیکن جب ہم مسلمانوں کے اتحاد کی اس قدر شدید خواہش رکھنے والے شاعر کو سیاست کے محاذ پر یہ کہتے سنتے ہیں کہ متحدہ ہندوستان مسلمان بیرونی مسلمان حملہ آوروں سے بھی حفاظت کریں گے پان اسلام ازم کا تصور اور خواہش بغلیں جھانکنے لگتی ہے۔ اپنے خطبہ الہٰ باد میں کہتے ہیں
’’مجھے یقین ہے کہ وفاقی حکومت کے قیام کی صورت میں مسلم وفاقی ریاستیں ہندوستان کے دفاع کی خاطر غیرجانبدار بری اور بحری فوجوں کو قائم کرنے پر بخوشی رضامند ہو جائیں گی...... مجھے کامل یقین ہے کہ ہندوستان کے وفاق پر مبنی ایک غیرجانبدار ہندوستانی فوج کے قیام سے مسلمانوں کی حب الوطنی میں اضافہ ہوگا اور اس سے اس بدگمانی کا بھی ازالہ ہو جائے گا کہ بیرونی حملہ کی صورت میں مسلمان‘ حملہ آور مسلمانوں کے ساتھ مل جائیں گے‘‘
اس تمام خطبے سے ایک بات عیاں ہے کہ علامہ کے ذہن میں ایک کلی طور پر آزاد اور خودمختار پاکستان کا کوئی تصور نہیں تھا بلکہ ان کی خواش محض اتنی تھی کہ مسلمانوں کو ہندوستانی وفاق میں رہتے ہوئے اپنے ذاتی معاملات طے کرنے کی آزادی دیدی جائے اور آل انڈیا وفاقی اسمبلی میں 33 فیصد نشستیں الاٹ کر دی جائیں۔ جہاں تک فوج کا تعلق ہے وہ وفاق کی ہوگی اور مسلم ریاستیں ہندوستان کا اس حد تک دفاع کرنے پر رضا و رغبت تیار ہونگی کہ اگر حملہ آور مسلمان ہونگے تو ان سے لڑنے اور انہیں شکست دینے سے گریز نہیں کریں گی۔ اب آپ ہی بتایئے کہ اس خطبے میں سے اقبال کا ’’موجودہ تصور پاکستان‘‘ کس طرح سے دریافت کیا جائے یا ان کا پان اسلام ازم ڈھونڈا جائے۔ کہنے کو تو اور بھی بہت کچھ ہے کہ ایسی باتوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ مگر کیا کریں ہم جھوٹ کے اسقدر عادی ہو چکے ہیں کہ سچ ہماری سماعت میں خراشیں ڈال دیتا ہے اور ہم شدت درد سے چیخنے اور چلانے لگتے ہیں۔ اور ویسے بھی ایسا سچ لکھنے سے کئی لوگوں کے مفادات خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔
آخر میں یہی عرض کروں گا کہ یہ اقبال کا قصور نہیں کہ وہ ایسے کیوں تھے بلکہ یہ ہمارے مفادپرست طبقوں کا قصور ہے کہ انہوں نے اقبال کو وہ کیوں بنا دیا جو وہ نہیں تھے۔ ہمارے لئے بہتر یہی ہوگا کہ ہم اپنے مفاد کے لئے انسانوں اور لیڈروں کو پیغمبر بنانا چھوڑ دیں ورنہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ ہمارا انسانوں سے اعتماد اٹھ جائے گا۔
***

بدھ، 16 نومبر، 2016

سپین کی شاعری کا اسم اعظم گارسیالورکا/علی تنہا

گارسیالورکا، سپین کی شاعری کا ہی اسم اعظم نہیں بل کہ دنیا بھر میں اس کی تکریم غیر معمولی شاعرانہ استعداد کی وجہ سے کی جاتی ہے۔ گارسیالورکا محض ۳۸ برس کی عمر میں جنرل فرانکو کے ڈکٹیٹر شپ کے عہد میں مارا گیا۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے سپین کی خانہ جنگی کے زمانے میں حریت فکر کا پرچم سرنگوں نہ ہونے دیا اور جواں مرگ ہو کر ۱۹۳۶ء میں پوری دنیا کو آمریت سے نفرت کا سبق دیا۔
لورکا ایک متمول گھرانے میں سپین کے مضافات میں ۱۸۹۸ء کو پیدا ہوا تھا۔ اس کی شاعری نے سپین کی زبان اور محاورے کا منہاج ہی بدل کے رکھ دیا اور شاعری کے پرانے، فرسودہ اور گھسے پٹے انداز کو تبدیل ہی نہیں کیا بل کہ جڑ سے اکھاڑ کے رکھ دیا۔ یہی نہیں لورکا نے ڈراموں کی دنیا میں بھی انقلاب برپا کیا۔ اس کے ڈراموں میں انسان کی روح اور معاشرے کی اصل حقیقت، ایک تخلیقی قوت کی صورت میں سامنے آئی۔ وہ انسانی تقدیر، قدروں کی شکست، جنسیت اور موت، جیسے بے شمار موضوعات کو بالکل جداگانہ فراست کے ساتھ بیان پر قادر تھا۔ اس نے عیسوی دنیا کے بارے میں بھی زبردست تنقید کی ہے اور کیتھولک چرچ کی مختلف بہیمانہ صورتوں کو بے نقاب کیا ہے۔
لورکا کہتا تھا کہ پندرھویں صدی میں مسلمانوں کے شان دار ثقافتی اور تہذیبی ورثے کو چرچ نے جس صورت میں برباد کیا، وہ سپین کی روح پر ایک خطرناک وار تھا۔ جس سے سپین کی تہذیبی زندگی انحطاط پذیر ہوئی۔ جس کا دُکھ اس کی نظموں میں سریلسٹ تکنیک میں ظاہر ہوا۔ ہرچند لورکا، ترقی پسند نظریات کا مالک بے باک شخص تھا، وہ مذاہب سے برگشتہ تھا اور آرٹ کی بے پایاں تاثیر پر یقین رکھتا تھا۔ سپین میں مسلمانوں کے شان دار ماضی کے بعد، ایک تاریک دور کا آغاز ہوا اور باالخصوص آزادی نسواں کو سلب کر دیا گیا۔ لوگوں کو بربریت اور مذہبی تنگ نظری کا اسیر ہونا پڑا۔ اس کا انتہائی گہرا اثر پڑا اور سماج میں فکری انجماد تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔
فیڈرکوگارسیالورکا، کی نفسیات پر لڑکپن ہی میں، اس کے اثرات مرتسم ہونا شروع ہوئے، اگرچہ طبعاً و ہ آزاد منش اور باغی روح لے کر پیدا ہو ا تھا۔ مگر لورکا نے کہا ہے کہ اس نے اپنی ماں جو مدرس تھی، اس سے انتہائی اثر قبول کیا۔ اس کی ماں ایک ذہین خاتون تھی اور لورکا کے طبعی، ادبی رجحان سے واقف تھی۔
اس کا خاندان ۱۹۰۹ء میں سپین کے شہر گرینڈا منتقل ہوا، جہاں لورکا نے تعلیم حاصل کی۔ پھر میڈرڈ میں قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اس کی ملاقات نام ور مصور سلویڈرڈالی سے ہوئی۔ ڈالی اور لورکا کی رفاقت نے پینٹنگ اور ادب کے باب میں بے شمار مباحث کو جنم دیا۔ ڈالی نے لورکا کے حسن تکلم، شائستگی اور خوب روئی کا بار بار اظہار کیا۔ لیکن ان کی رفاقت ۱۹۲۹ء میں اس وقت اختتام پذیر ہوئی جب لورکا نے سپین کو الوداع کہا اور امریکا چلا گیا۔
اسی دوران، اس کی شخصیت میں فکری تلاطم جنم لے رہا تھا۔ اپنی زمین سے ہجرت، رفاقتوں سے محرومی، جنسی ناآسودگی، تنہائی، موت کا خوف، ان سب عوامل نے لورکا کو ہلا کر رکھ دیا، مگر اس کی تخلیقی اپج نے علامات کا ایک نیا جہان اپنی مشہور عالم شعری کتاب Gypsy Ballads کے ذریعے ہویدا کیا۔ اس شعری کتاب نے اسے بے کنار عالمی شہرت دی۔
یہ نظمیں انسانی رشتوں کو جس شاعرانہ اسالیب میں ڈھالتی ہیں، اس کے لیے لورکا نے شعر میں اتنا ارتکاز پیدا کیا کہ لفظوں نے عمومی مطالب سے بغاوت کی اور انسانی تجربے کا ایسا پینو راما پیش کیا، جس میں بیسویں صدی کی ایک نئی بوطیقا سامنے آئی۔گویا لورکا نے خارجی اشیا کو باطن کے آئینے میں ہمہ جہت کر دیا۔
لورکا نے امریکا آ کر کولمبیا میں اپنی دوسری عالمگیر شعری کتاب Poet in New York تخلیق کی۔ یہ نظمیں موضوع، اسلوب اور تکنیک کے نقطۂ نظر سے اس درجہ ترفع کی حامل ہیں ۔ یہ اپنے مواد کے نرالے پن اور لحن کے باغیانہ آفاق کی وجہ سے خود لورکا کے لیے حیرت کا باعث تھیں۔ کیوں کہ بعض اوقات فن کار اپنے آرٹ کی گمبھیرتا کی اولین آواز سے گھبرا بھی جاتا ہے۔ اس لیے کہ لفظ کے معینہ راستوں سے ہٹنے کی جرأت کوئی معمولی بات نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لورکا نے اپنی مختصر زندگی کے دوران میں کتاب شائع کرنے سے گریز کیا۔ ان نظموں کا سحر امیجری اور علامتوں کا پراسرار نظام، آج تک نئی شاعری کی عظمت کا شارح ہے۔
انجام کار لورکا دوبارہ سپین لوٹ آیا اور ۱۹۳۰ء میں ڈراما نگاری کی طرف ہمہ تن سرگرم ہو رہا۔ یہ دور، فی الواقع، لورکا کی خلاقانہ فراوانی کا ہے، پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ سپین کی حکومت نے، اس کی قدر منزلت کی اور وہ ڈرامے کی ترویج کے لیے La-Barraca کا ڈائریکٹر بنایا گیا۔ یہ گشتی ڈرامے پیش کرنے کا ادارہ ٹھہرا۔ اس دور میں اس نے اپنا شہرہ آفاق ڈراما Blood Wedding لکھا۔ جس کی شہرت سے پورا مغرب گونج اٹھا۔ یہ زبردست منظوم ڈراما تھا۔ اس کے بعد اس کا دوسرا قابل رشک ڈراما سامنے آیا۔ جس کا نام Yerma تھا۔ میڈرڈ میں، اس ڈرامے کی مقبولیت نے لورکا کو ذہنی آسودگی دی۔
۱۹۳۶ء میں اس کا ناقابل فراموش ڈراما The House of Bernadaialba منظر عام پر آیا۔ یہ ڈرامے سپین کی ادبی تاریخ میں امر ہیں اور دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں اس کے تراجم ہوئے اور عالم گیر شہرت پائی۔
کہا جاتا ہے کہ ۱۹۳۰ء سے اس کے قتل تک، لورکا، نے ڈرامے کی صنف اور سپینی زبان کو ایک نئی قوت ایجاد سے آباد کیا۔ مگر اس دوران میں وہ، شاعری پر پوری توجہ نہ دے سکا۔ کیوں کہ، اس کے ذہن پر ڈرامے کا بھوت سوار تھا۔ البتہ اس دور میں لورکا نے اپنی طویل نظم "Lament for the death of bull fighter" ضرور لکھی ۔ یہ عظیم الشان نظم اس کی موت کے بعد شائع ہوئی۔ اور تو اور لورکا کی کتابوں پر فرانکو کے ڈکٹیٹر شپ کے عہد میں چالیس برس تک پابندی رہی۔ مگر اس کے باوجود دنیا بھر میں لورکا کی کتب کے تراجم ہوئے۔ اور سپین میں زبردست قدغن کے باوجود لورکا، کی کتابیں مختلف ادارے چوری چھپے شائع کرتے رہے۔ اس کی شاعری کا لسانی شیوہ، لفظ کے عمومی دائرے سے نکل کر، اظہار کا لامحدود منطقہ وضع کرتا ہے۔ اس کے شاعرانہ اصوات میں جو طلسم ہے وہ ہمارے اندر وہی تجربہ اور امکانات پیدا کرتا ہے جس سے لورکا گزرا، مگر اس کی ہزار ہا پرتیں ہیں۔ لورکا کی کئی نظموں کے تراجم اردو میں بھی ہوئے۔ لورکا کی نظموں میں غنائیت کے اندر سے المیہ پھوٹتا ہے۔ اس کے مصروں کی بافت میں صوت و آہنگ کی فراوانی ہے اس لیے کہ اس نے ابتداً موسیقی سیکھی۔ فی الواقع لڑکپن میں وہ موسیقار بننا چاہتا تھا۔
۱۹۲۶ء میں جب لورکا نے اپنی مشہور تخلیق The shoe maker's prodigious wife مکمل کی تو اسے پہلی بار، ادبی حلقوں نے اس لیے بھی سراہا کہ وہ سپاٹ نظموں کی حدود توڑ کر ایک نیا شعری وژن لانے میں کام ران ہوا تھا جس کی مثال ہسپانوی زبان میں نہ تھی۔
گارسیا لورکا، نے اپنے ڈراموں اور نظموں میں کھلے حواس کے ساتھ، زندگی کی بدلتی صورت حال کا ادعا کیا ہے۔کیوں کہ اس نے مروجہ لغاتی معانی کی جبریت سے شاعری کو نکال کر خالص سونا بنایا۔ پھر اس کا کمال یہ ہے کہ اس نے اکہرے شعری امکانات کو کلیتاً رد کیا اور انسانی تجربے کو ایک ہمہ گیر صداقت میں بدل دیا۔
لورکا کی نظموں کا ایک مرکزی اشارہ جنسی ناآسودگی اورا مردپرستی بھی رہا۔ وہ ایک غیر معمولی شاعر تھا۔ اس لیے اس نے شجر ممنوعہ کو، سپین کی شعری تاریخ میں پہلی بار، سب پر واشگاف کیا۔ اس نے اپنے شعری قالب میں تجربے کے بے پناہ حجم کی وجہ سے انسانی رشتوں کی نئی توجیح کی ہے۔ اس کے لیے اس کی یہ نظمیں یادگار رہیں۔
1. The Gypsy and the wind.
2. Ditty of the first desire.
3. Sonnet of the sweet complain.
4. The faithless wife.
5. The bulterfly's, evil trick
لورکا کی موت کو اب ستر برس سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ مگر دنیا بھر کے اہل قلم اس جواں مرگ شاعر کے لیے اس لیے اب بھی آنسو بہاتے ہیں کہ جنرل فرانکو کی فاشسٹ حکومت نے بے شمار فن کاروں کے ساتھ، اسے اپنے آبائی شہر ترینڈا میں قتل کر کے اجتماعی قبر میں دفنا دیا۔ سپین کے عوام، آرٹسٹوں اور ترقی پسند حلقوں نے اب بھی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں لورکا کا مقام قتل بتایا جائے تاکہ اس عظیم شاعر کی یادگار بنا سکیں جس نے ہسپانوی ادب کو عالم گیر شہرت دی اور خود بے دردی سے قتل ہوا۔
***

بے خواب محبت کی رات/گارسیا لورکا

ترجمہ: محمد سلیم الرحمٰن


رات کا نزول، ہم دونوں اور پورا چاند
میں رو پڑا اور تجھے ہنسی آ گئی
تیری تحقیر خدا، اور میرے گلے شکوے
زنجیروں میں جکڑی فاختائیں اور لمحے

رات کا نزول، ہم دونوں۔ دکھ کا بلوریں شیشہ
ایک مہیب دوری کی وجہ سے تو نے آنسو بہائے
میرا دکھ تیرے ریت کے بنے نربل دل پر
اذیتوں کے خوشے کی طرح چھایا ہوا

صبح نے ہمیں سیج پر ایک دوسرے سے ملا دیا
کبھی نہ تھمنے والے لہو کی ٹھنڈی
بہتی ندی پر ہم منھ رکھے ہوئے

اور چلمن پڑی بالکونی میں سورج نے پاؤں دھرا
اور میرے کفنائے ہوئے دل پر
زندگی کے مرجان نے اپنی شاخیں پھیلائیں
***

منگل، 1 نومبر، 2016

درخت نشیں/اتالو کلوینو

اطالوی زبان کے منفرد ادیب اتالو کلوینو (Italo Calvino)1923 میں کیوبا میں پیدا ہوئے اور اٹلی کے شہر سان ریمو میں پرورش پائی۔ایک بلند پایہ فکشن نگار ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ادب سے متعلق موضوعات پر مضامین بھی لکھے اور تورینو کے ایک اشاعتی ادارے کے ادارتی عملے میں بھی شامل رہے۔کلوینو نے اطالوی لوک کہانیوں کا ایک ضخیم مجموعہ بھی مرتب کیا۔کلوینو کی وفات 1988 میں ہوئی۔کلوینو کی تحریروں میں پڑھنے والے کی وفات ایک بے حد فراواں تخیل اور اسلوب اور بیان پر بے پناہ گرفت سے ہوتی ہے۔ان کا ناول If on a Winter’s Night a Traveller اپنی ساخت اور اسالیب کے تنوع کے اعتبار سے عالمی فکشن میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔فکشن کے میدان میں ان کی متعدد دوسری تحریریں، ناول اور کہانیاں شائع ہوچکی ہیں۔ان کی ایک کہانی کا ترجمہ'آج'شمارہ 3 میں 'چاندکی دوری'کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔
کلوینو نے Our Ancestors کے نام سے تین ناولوں کا ایک سلسلہ لکھا جس کے ایک ناول The Cloven Viscount کا ترجمہ 'دولخت سورما'کے عنوان سے راشد مفتی نے خاص طور پر'آج' کے شمارہ 25 کے لیے کیا تھا۔اس بار انہوں نے اس سلسلے کے دوسرے ناول The Baron in the Treesکا ترجمہ کیا ہے جسے 'درخت نشیں'کے عنوان سے آئندہ صفحات میں پیش کیا جارہا ہے۔یہ ناول، جس میں ایک بظاہر ناقابل یقین کہانی کو کلوینو نے اپنے جادو نگار اسلوب سے انتہائی قابل یقین بنادیا ہے، پہلی بار اطالوی زبان میں 1957 میں شائع ہوا تھا اور دنیا کی بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔اس اسلوب کی سادگی دراصل کلوینو کے فکشن کی معنوی تہہ داری کا پردہ ہے۔خود کلوینو کو اس سے اتفاق تھا کہ ان کی کتابوں کو مختلف ادبی، فلسفیانہ، سیاسی، نفسیاتی اور دیگر نقطہ ہائے نظر سے پڑھا جائے لیکن ان کی خوشی کا اصل سبب یہ تھا کہ ان میں سے کوئی بھی کنجی تنہا تالے کو نہیں کھول سکے گی۔باپ اور گھر کے سخت قوانین سے باغی ہوکر بارہ سال کی عمر میں درختوں پر جابسنے اور ساری زندگی اپنے اختیار کردہ اسلوب میں گزارنے والے کوسیمو کا کردار عالمی ادب کے سب سے زیادہ دل موہ لینے والے کرداروں میں گنا جاتا ہے اور اس کے طرز عمل کی بے شمار توجیہیں کی جاتی رہی ہیں، اور ناول کے متن میں ان تمام کے لیے گنجائش موجود ہے۔لیکن کلوینو کے تخلیقی وفور سے چھلکتے ہوئے بیانیے کو کسی ایک نقطہء نظر میں قید کرنے کی کوشش آخر کار اس بیانیے کے اثرکو محدود کرنے کی کوشش ثابت ہوتی ہے۔ناول کے قصے اٹھارہویں صدی کے یورپ کے تاریخی پس منظر میں پیش آتے ہیں جن میں انقلاب فرانس کے واقعات بھی شامل ہیں۔۔۔۔اور ان میں درخت نشیں کوسیمو کی نپولین سے ملاقات کی روداد شاید سب سے زیادہ پرلطف قصوں میں سے ہے۔لیکن ناول کے اصل معنی کسی خاص دور یا خطے تک محدود نہیں۔
راشد مفتی اس سے پہلے گابرئیل گارسیا مارکیز، آئزک باشیوس سنگر، سال بیلو اور برنارڈ مالامڈ کی منتخب کہانیوں کو اردو میں منتقل کرچکے ہیں۔'آج'کے شمارہ 53 میں ان کا کیا ہوا فرانسیسی ادیب ژاں پال سارتر کی معروف کہانی کا ترجمہ 'دیوار'کے عنوان سے شائع ہوا۔(اجمل کمال)
***


۱۵؍جون ۱۷۶۷ء کا دن تھا کہ میرا بھائی کوسیموپیوواسکودی روندو آخری بار ہمارے درمیان بیٹھا۔ یہ بات مجھے اس طرح یاد ہے گویا آج ہی کی بات ہو۔ ہم اپنے اومبروسا والے مکان کے ڈائننگ روم میں تھے جس کی کھڑکیاں باغ میں لگے سدا بہار شاہ بلوط کی موٹی موٹی شاخوں سے گھری ہوئی تھیں۔ دوپہر کا وقت تھا۔ ہمارے خاندان میں ابھی تک کھانے کا پرانا روایتی وقت رائج تھا، حالانکہ بیشتر رؤسا فرانس کے سست الوجود درباریوں کی تقلید میں عین سہ پہر کے درمیان کھانا کھانے کا فیشن اپنا چکے تھے۔ سمندر سے آتی ہوئی خوشگوار ہوا، مجھے یاد ہے، پتوں میں سرسرا رہی تھی۔ کوسیمو نے کہا، ’’میں نے کہہ دیا، مجھے نہیں چاہیے، بالکل بھی نہیں!‘‘ اور اس نے اپنی گھونگھوں سے بھری پلیٹ ایک طرف سرکا دی۔ ایسی نافرمانی ہم نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔
میز کے سرے پر ہمارے والد، بیرن آرمینیو پیوواسکودی روندو، لوئی چہار دہم کے انداز میں کانوں تک لمبی وِگ لگائے بیٹھے تھے جو ان کی اور بہت سی چیزوں کی طرح رواج سے ہٹ کر تھی۔ میرے اور میرے بھائی کے درمیان ہمارے خاندانی مہتمم خیرات اور ہم دونوں لڑکوں کے اتالیق ایبے فوشیلی فلیئر تھے۔ ہمارے مقابل ہماری والدہ بیرونس کورادینا دی روندو ،، جوعرف عام میںجنرلیسا کہلاتی تھیں، اور ہماری بہن جو ایک طرح کی گھر پر رہنے والی راہبہ تھی، بیٹھی تھیں۔ میز کے دوسرے سرے پر ہمارے والد کے مقابل ترکی عباؤں میں ملبوس کوالیئے ا یووکاتواینیا سلویوکاریگا بیٹھے تھے جو ہماری زمینوں کے وکیل، منتظم اور آب رسانی کے نگراںتھے اور ہمارے والد کے ناجائز بھائی ہونے کے ناتے ہمارے فطری چچا بھی۔
چند ماہ قبل جب کوسیمو بارہ اور میں آٹھ سال کا ہوا، ہمیں والدین کے ساتھ کھانے کی میز پر بیٹھنے کی اجازت مل گئی تھی۔ مجھے اپنے بھائی کی ترقی سے فائدہ پہنچا تھا اور میں قبل از وقت آگے بڑھا دیا گیا تھا، کہ مجھے کھانا تنہا کھانا نہ پڑے۔ فائدہ غالباً موزوں لفظ نہیں ہے کیونکہ حقیقتاً یہ ہماری، میری اور کوسیمو کی، فارغ البال زندگی کا خاتمہ تھا۔ ہمیں اپنے چھوٹے کمرے میں اکیلے ایبے فوشیلی فلیئر کے ساتھ کھانا کھانے کی یاد ستانے لگی۔ ایبے ایک جھریوں بھرا خشک بوڑھا تھا۔ وہ ایک Jensenistکی حیثیت سے مشہور تھا اور حقیقت میں اپنے آبائی ملک دوفینے سے مذہبی عدالت میں دائرمقدمے سے بچنے کے لیے بھاگ آیا تھا۔ لیکن کردار کی سختی، جس کے لیے اس کی اکثر ستائش کی جاتی تھی، اور اس کا سخت ذہنی نظم، جو اس نے خود پر اور دوسروں پر عائد کر رکھا تھا، بے حسی اور آرام طلبی کی گہری دبی ہوئی خواہش کے آگے سپرانداز ہونے پر مائل تھا، گویا کہ خلا میں گھورنے والے لمبے لمبے مراقبوں نے اسے صرف شدید تکان اور بوریت ہی بخشی ہو، اور اب حال یہ تھا کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی پریشانی کو وہ تقدیر کا لکھا سمجھنے لگا تھا جس سے لڑنے سے کچھ حاصل نہ تھا۔ ایبے کے ساتھ ہمارا کھانا ڈھیر ساری دعاؤں کے بعد منظم رسومات کے ساتھ شروع ہوتا تھا۔ ہر کوئی بے آواز پیدا کیے چمچے اُٹھاتا اور جو بھی اپنی پلیٹ سے نظریں ہٹاتا یا شوربہ پیتے وقت ذرا بھی آواز نکالتا اس کی کمبختی آجاتی۔ لیکن پہلی قاب ختم ہوتے ہوتے ایبے بور ہو کر تھک جاتا اور خلا میں نظریں گاڑے شراب کی ہر چسکی کے ساتھ اپنے ہونٹ چاٹا کرتا گویاکہ صرف حد درجہ گریزپا اور سطحی احساسات ہی اس تک پہنچ پاتے ہوں۔ خاص قاب کے آتے آتے ہم اپنے ہاتھ استعمال کرنے لگتے اور کھانا ختم ہونے پر ایک دوسرے کو ناشپاتی کے بیج مارنے لگتے جبکہ ایبے اپنی پژمردہ آواز میں باربار فرانسیسی میں ’’بہت خوب! بہت عمدہ!‘‘ کی تکرار کرتا۔
اب خاندان والوں کے ساتھ کھانے کی میز پر بیٹھنے سے وہ ساری مانوس رنجشیں جو بچپن کا اچھاخاصابوجھ ہوتی ہیں، اُبھر آئی تھیں۔ اپنے ماں باپ کو ہمیشہ اپنے مقابل دیکھنا، مرغی کے لیے چھری کانٹے استعمال کرنا، اپنی کمر سیدھی اور کہنیاں نیچے رکھنا، یہ سب کیسا عذاب تھا— ہماری نفرت انگیز بہن باتیستا کی موجودگی کا ذکر تو چھوڑیے۔ اس طرح جھگڑوں، معاندانہ توتومیں میں، سزاؤں اورکٹیلے فقروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تاوقتیکہ وہ دن آ پہنچا جب کوسیمو نے گھونگھے کھانے سے انکار کیا اور اپنی تقدیر ہم سے الگ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
ان بڑھتی ہوئی خاندانی آزردگیوں کو خود میں نے بعد ہی میں محسوس کیا۔ اُس وقت میں آٹھ سال کا تھا، ہر بات ایک کھیل لگتی تھی، ہم لڑکوں اور بڑوں کی باہمی کشاکش ایسی ہی تھی جیسی سب خاندانوں میں ہوتی ہے، اور میں یہ محسوس نہ کر پایا کہ میرے بھائی کی سرکشی اپنی گہرائی میں کچھ اور بھی چھپائے ہوے ہے۔
یہ درست ہے کہ ہمارے سردار والد ایک بور آدمی تھے، حالانکہ وہ برے آدمی نہیں تھے: بور ان معنوں میں کہ ان کی زندگی پر باہم متضاد خیالات حاوی تھے جیساکہ عبوری ادوار میں اکثر ہوتا ہے۔ زمانے کی اتھل پتھل کچھ لوگوں کو اپنے آپ کو جھنجھوڑنے کی ضرورت محسوس کراتی ہے لیکن مخالف سمت میں، آگے بڑھنے کے بجاے پیچھے ہٹنے کے لیے۔ چنانچہ اپنے اطراف تیزی سے بدلتے حالات کے باوجود ہمارے والد ڈیوک آف اومبروسا کا کھویا ہوا لقب دوبارہ حاصل کرنے پر تلے بیٹھے تھے، اور شجرہ ہاے نسب، جانشینیوں، خاندانی رقابتوں اور دور و قریب کے رؤسا کے ساتھ رشتے ناتوں کے علاوہ کسی شے کے بارے میں نہیں سوچتے تھے۔ ہمارے گھر میں زندگی کسی دربار میں پوری تیاری کے ساتھ حاضر ہونے کی مستقل مشق تھی، چاہے وہ آسٹریا کے شہنشاہ کا دربار ہو یا بادشاہ لوئی کا،یاتورین کے کوہستانیوں کا۔ مثال کے طور پر جب کھانے کی میز پربطخ پیش کی جاتی تو ہمارے والد یہ دیکھنے کے لیے کہ ہم گوشت اور ہڈیاں شاہی اصولوں کے مطابق الگ کرتے ہیں یا نہیں، عقاب کی نظر رکھتے تھے۔ اور ایبے اس ڈر سے کہ مبادا آداب کی غلطی کر بیٹھے، بمشکل ہی لقمہ لینے کی جرأت کرتا، کہ اس غریب کو بھی ہمارے والد کی ڈانٹ ڈپٹ برداشت کرنی پڑتی تھی۔اور اب ہم نے کوالیئے کا ریگا کا ایک پُرفریب پہلو دیکھا۔ وہ بطخ کی سالم رانیںفراغت کے وقت انگور کی بیلوں میں چھپ کر آرام سے کھانے کے لیے اپنی ترکی عبا کی تہوں میں چھپا لیتا۔ ہم قسم کھا سکتے تھے کہ جب وہ کھانے کی میز پر آتا تو اس کی جیب میں چچوڑی ہوئی ہڈیاں ہوتیں جو بطخ کے گوشت کے ان بڑے بڑے ٹکڑوں کی جگہ لے لیتیں جنھیں وہ چھپا کر لے جاتا۔ مگر وہ اتنا سریع الحرکت تھا کہ اس عمل کے دوران ہم اسے پکڑنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوے۔ رہیں ہماری والدہ، جنرلیسا، تو ان کی طرف سے ہمیں فکر نہیں تھی۔ وہ اپنے لیے کھانا نکالنے میں اکھڑفوجی آداب استعمال کرتیں، ’’تھوڑا سا اور، بس! خوب!‘‘ اور ان پر کوئی حرف زنی نہیں کرتا تھا۔ وہ ہم سے دسترخوان کے آداب کی نہیں بلکہ کڑے نظم کی متقاضی تھیں اور ہمارے والد کی مدد اپنے پریڈگراؤنڈ جیسے احکام سے کرتی تھیں:’’ سیدھے بیٹھو اور اپنی ناک صاف کرو! ‘‘لیکن واحد ذات جو واقعی آرام سے تھی ہماری راہبۂ خانہ بہن باتیستا تھی۔ وہ سرجن کے نشتروں کی طرح چھوٹے چھوٹے تیز چاقوؤں سے، جو صرف اسی کے پاس تھے، انتہائی انہماک سے اپنی مرغی کو ریشہ ریشہ کرتی رہتی۔ ہمارے والد بیرن، جنھیں ہمارے سامنے اس کی مثال رکھنا چاہیے تھی، اس کی طرف دیکھنے کی جرأت نہیںکرتے تھے کہ کلف دار سرپوش کے نیچے سے اپنی گھورتی ہوئی آنکھوں اور چوہے جیسے پیلے چہرے میں مضبوطی سے جڑے باریک دانتوں کے ساتھ وہ انھیں بھی ڈرا دیتی تھی۔ اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ ہماری باہمی مخاصمتوں اور عدم مطابقتوں کے ساتھ ہماری حماقتیں اور منافقتیں کھانے کی میز پر ہی کیوں سامنے آئیں، اور کیوں وہیں کوسیمو کی بغاوت نے حتمی رخ اختیار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے یہ باتیں ذرا تفصیل سے بیان کی ہیں۔ بہرحال یہ آخری آراستہ میز ہے جو آپ میرے بھائی کی زندگی میں دیکھیں گے، یہ بات یقینی ہے۔
یہی وہ واحد جگہ بھی تھی جہاں ہم بڑوں سے ملتے تھے۔ دن کا باقی حصہ ہماری والدہ اپنے کمروں میں گزارتیں اور اپنی کلابتوں اور کشیدہ کاری اور گل کاری کے ٹانکوں میں مصروف رہتیں کہ حقیقت میں یہی وہ روایتی نسوانی مصروفیات تھیں جن کے ذریعے جنرلیسا اپنی جنگجویانہ خواہش کا اظہار کر سکتی تھیں۔ عام طور پر کلابتوں اور کشیدہ کاری جغرافیائی نقشوں کی شکل میں ہوتے جنھیں ہماری والدہ گدوں اور قالی بفتوں پر پھیلا دیتیں اورتخت نشینی کی جنگوں کی صف بندیاں دکھانے کے لیے ان میں پنیں اور چھوٹے چھوٹے جھنڈے لگا دیتیں؛ یا وہ توپیں کاڑھا کرتی تھیں جن کے دہانوں سے نکلتے گولوں کے خطِ حرکت کے ساتھ خطِ پرواز اور زاویوں کے نشانات بھی ہوتے، کہ وہ منجنیقوں کے سلسلے میں انتہائی باعلم تھیں، علاوہ ازیں اپنے والد کا سارا کتب خانہ، جس میں فوجی علوم پر مقالے، نقشہ نامے اور گولہ باری کے جدول شامل تھے، ان کے تصرف میں تھا۔ ہماری والدہ فان کرتیوتزخاندان سے تعلق رکھتی تھیں اوران کا شادی سے پہلے کا نام کونرادِن تھا وہ جنرل کونراد فان کرتیوتز کی بیٹی تھیں جس نے بیس سال پہلے ملکہ ماریا تیریسا کے ان دستوں کی کمان کی تھی جنھوں نے ہمارے علاقے پر قبضہ کیا تھا۔ رنڈوا ہونے کے باعث جنرل اپنی بیٹی کو ایک سے دوسرے کیمپ میں اپنے ساتھ لیے پھرتا تھا، مگر یہ کوئی خاص بات نہیں تھی، کہ وہ مکمل ساز و سامان کے ساتھ سفر کرتے، بہترین قلعوں میں قیام کرتے اور ان کے ساتھ ذاتی نوکر ہوتے تھے اور ہماری والدہ گدوں پر کلابتوں بنا کر اپنا وقت گزارتی تھیں۔ لوگ ان کے بارے میں جنرل کے ساتھ لڑائی میں حصہ لینے کی جو کہانیاں بیان کرتے تھے وہ داستانیں ہی تھیں۔ فوجی معاملات سے اپنے موروثی ذوق و شوق کے باوجود، جو غالباً شوہر کے سامنے اپنی ناک اونچی رکھنے کاایک طریقہ تھا، وہ ہمیشہ گلابی چہرے اور خمیدہ ناک والی ایک عام، غیراہم خاتون رہی تھیں۔
ہمارے والد علاقے کے ان چند رؤسا میں تھے جو لڑائی میں سلطنت کے حلیف تھے۔ انھوں نے جنرل فان کرتیوتز کا استقبال کھلی بانہوں سے کیا، اپنے ملازموں کو ان کے تصرف میں دیا اور کونرادِن سے شادی کرکے شاہی مقصد سے اپنی گہری وابستگی ظاہر کی تھی۔ یہ سب کچھ کرتے وقت ان کی نظر علاقے کی جاگیر پر تھی لیکن جب شاہی دستے حسبِ معمول آگے بڑھ گئے اور جینوآکے حکام نے ان سے ٹیکس کا مطالبہ کیا تو وہ کافی مایوس ہوے۔ لیکن انھیں ایک اچھی بیوی بہرحال مل گئی تھی۔اپنے باپ کے پرووانس کی مہم میں کام آنے کے بعد، جب ماریاتیریسا نے انھیں کمخواب کی گدی پر رکھا سونے کا ہار بھجوایا، وہ جنرلیسا کہلانے لگیں۔ وہ ایسی بیوی تھیں کہ ان کے ساتھ بیرن کی ہمیشہ نبھتی رہی، چاہے کیمپوں میں پیدا ہونے اور پروان چڑھنے کے باعث وہ فوجوں اور جنگوں کے علاوہ کچھ اور نہ سوچتی ہوں اور بیرن پرمحض ایک معمولی زمیندارہونے کے لیے تنقید کرتی ہوں۔
لیکن اندرسے وہ دونوں، اماں اپنی توپوں اور ابا اپنے شجرہ ہاے نسب کے ساتھ، ابھی تک تخت نشینی کی جنگوں کے عہد میں جی رہے تھے۔ اماں ہم لڑکوں کے کسی فوج میں، چاہے وہ جو بھی ہو، شامل ہونے کا خواب دیکھتیں، جبکہ دوسری طرف ابا کسی ڈیوک کی بیٹی یا سلطنت کی انتخاب کنندہ (Electress) سے ہماری شادی کرانے کا۔۔۔ ان سب باتوں کے باوصف وہ بہترین والدین تھے مگر اتنے غائب دماغ کہ بچپن میں کوسیمو اور میں عام طور سے اپنے حال پر چھوڑ دیے جاتے تھے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ بات صحیح تھی یا غلط؟ کوسیمو کی زندگی انتہائی غیرمعمولی تھی، میری انتہائی عام اور سادہ، لیکن اس کے باوجود ہمارا بچپن اکٹھے گزرا۔اپنے بڑوں کے خبط سے بیگانہ، ہم دونوں ناتراشیدہ راہوں کے جویا تھے۔
ہم درختوں پر چڑھنے کی کوشش کرتے (اب وہ معصوم کھیل پہلی پہلی روشناسی یا شگون کے طور پر مجھے یاد آتے ہیں، لیکن اُس وقت ایسا کون سوچ سکتا تھا؟)، چٹانوں پر سے چھلانگیں لگاتے ہوے پہاڑی چشموں کا پیچھا کرتے، سمندر کے ساحل پر نامعلوم غاروں کی سیر کرتے اور گھر میں زینے کی مرمریں منڈیر سے نیچے پھسلا کرتے۔ ایسی ہی ایک پھسلن کوسیمو اور ہمارے والدین کے درمیان پہلے سنگین افتراق کا باعث بنی، کیونکہ اس پر کوسیمو کو سزا ملی، جسے اس نے نامنصفانہ ٹھہرایا، اور تبھی سے خاندان کے خلاف (یا معاشرے کے خلاف؟ یا عمومی دنیا کے خلاف؟) اس کے دل میں رنجش بیٹھ گئی، جسے بعدازاں، اس کے پندرہ جون والے فیصلے میں ظاہر ہونا تھا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ مرمریں منڈیر پر سے پھسلنے کے بارے میں ہمیں پہلے ہی تنبیہ کردی گئی تھی، اس خوف سے نہیں کہ ہم بازو یا ٹانگ نہ توڑ بیٹھیں— میرے خیال میں ہم نے اسی لیے کچھ نہیں توڑا — بلکہ انھیں یہ خوف تھا، چونکہ ہم بڑے ہو رہے ہیں اور ہمارا وزن بڑھ رہا ہے، کہیں ہم اجداد کے ان مجسموں کو نہ گرادیں جو ہمارے والد نے زینے کے ہر موڑ کے بعد کھمبوں پر رکھے ہوے تھے۔ درحقیقت کوسیمو نے ایک بار ایک بشپ کو جو ہمارے رشتے کے پردادا کے پردادا تھے، ان کی کلاہ سمیت گرا دیا تھا۔ اسے سزا ملی لیکن اس کے بعد سے اس نے زینے کے موڑ تک پہنچنے سے پہلے ہی روک لگانا اور عین وقت پر مجسمے کو بچاتے ہوے کود جانا سیکھ لیا تھا۔ یہ چالاکی میں نے بھی سیکھ لی، کہ میں اس کی ہر حرکت کی نقل کرتا تھا، سواے اس کے کہ میں محتاط اور ڈرپوک ہونے کے باعث آدھے راستے ہی میں کود جاتا تھا، یا باقی حصہ مستقل روکیں لگاتے ہوے تھوڑا تھوڑا کرکے پھسلتاتھا۔ ایک دن وہ تیر کی طرح منڈیر سے نیچے آرہا تھا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایبے فوشیلی فلیئر، مرغی کی طرح خلا میں نظریں جمائے، اپنی اوراد و وظائف کی کتاب کھولے، زینہ بہ زینہ چکراتا ہوا اوپر آرہا ہے۔ کاش وہ حسبِ معمول نیم خوابیدہ ہوتا! لیکن نہیں، وہ انتہائی توجہ اور باخبری کی اس اچانک کیفیت میں تھا جو اس پر کبھی کبھار طاری ہوتی تھی۔ وہ کوسیمو کو دیکھ کر سوچنے لگا: کھمبے، مجسمہ، وہ اس سے ٹکرائے گا، الزام مجھ پر بھی آئے گا (ہماری ہر احمقانہ جسارت پر ہماری نگرانی نہ کرنے کے لیے اسے بھی ملامت کی جاتی تھی)، سو میرے بھائی کو پکڑنے کے لیے اس نے خود کو منڈیر پر دھکیل دیا۔ کوسیمو زوردار آواز کے ساتھ ایبے سے ٹکرایا اور اسے بھی منڈیر سے نیچے گھسیٹتا لے گیا، کہ وہ مردِ ضعیف محض ہڈیوں کا ڈھانچہ ہی تھا۔ کوسیمو نے دیکھا کہ اب روک لگانا اس کے بس میں نہیں ،اور دگنی طاقت سے ہمارے جداعلیٰ کاچیاگیرا پیوواسکو دی کروسیڈر کے مجسمے سے جا ٹکرایا۔ریزہ ریزہ کروسیڈر (کہ وہ پلاسٹر کا بنا تھا)، ایبے اور کوسیمو، سب کے سب ایک ڈھیر کی شکل میں سیڑھیوں کے سرے پر آگرے۔ اس کے بعد الزامات کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ، پٹائی اور اسے روٹی اور ٹھنڈی یخنی کی خوراک پر ہمارے کمرے میں بند کر دیا جانا۔ کوسیمونے، جو خود کو بے قصور گردانتا تھا، کیونکہ قصور اس کا نہیں ایبے کا تھا، مشتعل ہو کراپنے محسوسات کا اظہار اس فقرے سے کیا،’’ ابا، تمھارے سب اجداد پرلعنت ہو!‘‘ باغی کی حیثیت سے اس کے مشن کا یہ ایک اشارہ تھا۔
ہماری بہن بھی اپنے دل میں یہی کچھ محسوس کرتی تھی۔ وہ بھی ہمیشہ سے ایک باغی اور تنہا روح تھی۔ اگرچہ جس تنہائی میں وہ رہتی تھی وہ مارکیسینو دیلا میلا والے واقعے کے بعد ہمارے والد نے اس پر مسلط کی تھی۔ مارکیسینوکے ساتھ کیا گزری، ہم یہ بات کبھی واقعتا نہ جان پائے۔ وہ، جو ہمارے دشمن خاندان کابیٹا تھا، ہمارے گھر میں داخل کیسے ہوا؟ اور کس لیے؟ ہماری بہن کو ورغلانے کے لیے، نہیں، بلکہ اس کے ساتھ بالجبر کرنے کے لیے،جیساکہ میرے والد نے اس واقعے کے نتیجے میں دونوں خاندانوں کے درمیان شروع ہونے والے طویل جھگڑے کے دوران کہا۔ سچ پوچھیے تو ہم لڑکے، جھائیوں بھرے چہرے والے اس سادہ لوح کو لڑکیوں کو ورغلانے والاقیاس کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکے، کم سے کم اپنی بہن کے سلسلے میں تو بالکل نہیں جو یقینا اس سے زیادہ طاقتور تھی اور جسمانی طاقت کے مقابلوں میں اصطبل کے کارکنوں کو ہرانے میں مشہور تھی۔ اور پھر، کیا وجہ تھی کہ مدد کے لیے پکارنے والا وہ تھا، ہماری بہن نہیں؟ اور پھر نوکروں نے، جو ہمارے والد کی سربراہی میں جاے حادثہ پرپہنچے تھے، اس کی برجس کو دھجی دھجی دیکھا تھا گویا اسے کسی چیتے کے پنجوں نے کھکھیرا ہو؟ دیلا میلا خاندان نے یہ تسلیم کرنے تک سے انکار کر دیا کہ ان کے بیٹے نے باتیستا کی عزت پر ہاتھ ڈالا تھا اور وہ ان دونوں کی شادی پر بھی رضامند نہیں ہوے۔ یوں ہماری بہن انجامِ کار ایک راہبہ کے لباس میں گھر میں محبوس ہوگئی، اگرچہ اپنے مشکوک مشغلے کے پیش نظر اس نے tertiaryکی حیثیت سے منت بھی نہیں مانی۔
اس کے شیطانی منصوبوں نے اپنا اظہار اس کے پکائے ہوے کھانوں میں کیا۔ کھانے پکانے میں وہ واقعی طاق تھی کیونکہ وہ اس فن میں تخیل اور تندہی کی اہم صلاحیتوں کی حامل تھی۔لیکن جب وہ کھانا پکاتی تو کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ میز پر کون سی حیرت اپنا اظہار کرے گی۔ ایک بار اس نے چوہوں کی کلیجی سے نہایت اعلیٰ پائیاں بنائیں۔ یہ بات اس نے ہمیں نہیں بتائی تاوقتیکہ ہم نے انھیں کھا نہ لیا اور انھیں عمدہ قرار نہ دے دیا۔ اس کے ساتھ ٹڈوں کے کچھ خستہ اور کٹے ہوے پنجے تھے جو ایک کھلے ہوے سموسے پر پچی کاری کے انداز میں رکھے گئے تھے، خنزیروں کی دُمیں تھیں جو تنور میں اس طرح پکائی گئی تھیں گویا چھوٹے چھوٹے کیک ہوں۔ ایک بار اس نے پورا خارپشت کانٹوں سمیت پکا ڈالا، کون جانے کیوں، غالباً قاب کا ڈھکنا اُٹھائے جانے پر ہم سب کو دھچکا پہنچانے کے لیے، کیونکہ خود اس نے بھی، جو عموماً اپنی پکائی ہوئی چیز خواہ کتنی ہی عجیب ہو کھا لیتی تھی، اسے چکھنے سے انکار کر دیا، اگرچہ یہ بچہ خارپشت تھا، گلابی اور یقینا نرم۔ اصل میں ان ہولناک کھانوں میں سے اکثر ہمیں اپنے ساتھ تنفر انگیز چیزیں کھلا کر حظ اُٹھانے کے بجاے محض تاثر پیدا کرنے کے لیے سوچے جاتے تھے۔ باتیستا کے یہ کھانے جانوروں یا سبزیوں کے جڑاؤ کے انتہائی نازک کام تھے، مثلاً فر کے کالر پر خرگوش کے کانوں کے ساتھ سجائے ہوے گوبھی کے پھول، یا خنزیر کی سری جس کے منھ سے چپکا ہوا سرخ جھینگا گویا کہ اپنی زبان نکال رہا ہو، اور جھینگے کے پنجوں میں خنزیر کی زبان گویا کہ اس نے پنجوں سے کھینچ ڈالی ہو۔ اور آخرکار گھونگھے، میں نہیں کہہ سکتا کہ اس نے کتنے گھونگھوں کے سر قلم کر ڈالے تھے۔ ان نرم گھوڑے کے جیسے چھوٹے چھوٹے سروں کو، میرے خیال میں خلال کی مدد سے، اس نے چھلنی کے سوراخوںمیں اس طرح رکھا تھا کہ جب وہ میزپر آئے تو چھوٹی چھوٹی بطخوں کے جیسے لگ رہے تھے۔ ان نفیس غذاؤں کے منظر سے بھی زیادہ گھن دلانے والی بات انھیں تیار کرنے میں باتیستا کے پُرجوش ارادے کا خیال اور اس ننھی سی مخلوق کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہوے اس کے پتلے پتلے ہاتھوں کا تصور تھا۔
یہ ہماری بہن کے بھیانک تخیل کے خلاف ایک احتجاج تھا جس نے مجھے اور میرے بھائی کواس غریب مخلوق کے ساتھ ہمدردی، اور پکے ہوے گھونگھوں کے ذائقے کے لیے اپنی کراہت ظاہر کرنے پر اکسایا۔ یہ حقیقت میں ہر چیز اور ہر شخص کے خلاف بغاوت تھی، اوریہ حیرت کی بات نہیںکہ اسی نے کوسیمو کے فیصلے اور اس کے بعد والے واقعات کو جنم دیا۔
ہم نے ایک منصوبہ بنایا تھا۔ جب کوالیئے وزنی گھونگھوں کی بھری ہوئی ٹوکری گھر لایا تو انھیں ایک پیپے میں بھر کے اس خیال سے تہہ خانے میں رکھ دیا گیا کہ انھیں کھانے کو کچھ نہ ملے، یا صرف بھوسی کھائیں اور اس طرح آلائش سے پاک ہو جائیں۔ جب ہم نے ان پیپوں کے منھ سے تختے ہٹائے تو سامنے ایک ہیبت ناک منظر تھا۔ گھونگھے، بچی کھچی بھوسی، غیر شفاف منجمد گاد کی دھاریوں اور پچ رنگے فضلے کے درمیان، جو کھلی ہوا اور گھاس میں گزرے ہوے اچھے دنوں کی نشانیاں تھیں،پیپے کی پٹیوں پر ایسی ناتوانی کے ساتھ چڑھ رہے تھے جو ان کے کربِ مرگ کی علامت تھی۔ ان میں سے کچھ سروں کو آگے بڑھائے ہوے پورے کے پورے اپنے خولوں سے باہر آگئے تھے اور مونچھوں کو ہلا رہے تھے، اور کچھ سارے کے سارے لوٹ پوٹ ہوتے ہوے اینٹنا کا ایک مختلف جوڑا دکھا رہے تھے، کچھ نے دیہاتی گپ بازوں کی طرح اپنی منڈلی جمارکھی تھی، کچھ باقیوں سے کٹے ہوے اور خوابیدہ تھے، اور کچھ اپنے اوندھے خولوں کے ساتھ مردہ پڑے تھے۔ انھیں اس منحوس باورچن سے اور اپنے آپ کو اس کی فرمانبرداری سے بچانے کے لیے ہم نے پیپے کے پیندے میں سوراخ کر دیا اور وہاں سے کٹی ہوئی گھاس کے ٹکڑوں اور شہد کے ذریعے، پیپوں اور تہہ خانے میں پڑے مختلف اوزاروں کے عقب سے گزرتی ہوئی، ممکنہ حد تک پوشیدہ راہ بنائی جو گھونگھوں کو ایک غیرمزروعہ گھاس بھرے کھیت کے مقابل کھلنے والی ایک چھوٹی سی کھڑکی تک لے جانے والی تھی۔
اگلے دن ہم نتائج دیکھنے نیچے تہہ خانے میں گئے اور موم بتی کی روشنی میں دیواروں اور راستے کا معائنہ کیا۔’’ ایک یہ رہا!۔۔۔ ایک اور وہ رہا!۔۔۔ اور ذرا اِسے تو دیکھو ،کہاں پہنچا ہے!‘‘ گھونگھوں کی تقریباً مسلسل قطارتھی جو پیپے سے نکل کر ہماری راہ کو اپنائے ہوے، فرشی پتھروں اور دیواروں پر سے ہوتی ہوئی، چھوٹی کھڑکی کی طرف رواں تھی۔ ’’تیز!سست الوجود گھونگھو۔۔۔ جلدی کرو، نکلو!‘‘ یہ دیکھتے ہوے کہ وہ مکھیوں کی غلاظت اور پھپھوندی کی طرف کھنچ کر تہہ خانے کی کھردری دیواروں پر بار بار دائروں میں گھومتے ہوے بہت سست رفتار سے بڑھ رہے ہیں، ہم ان پر چلّائے بغیر نہ رہ سکے۔ لیکن تہہ خانہ تاریک اور کاٹھ کباڑ سے اٹا ہوا تھااور ہمیں امید تھی کہ کوئی انھیں دیکھ نہ پائے گا اور ان سب کو بچ نکلنے کی مہلت مل جائے گی۔
لیکن وہ بے چین مخلوق، ہماری بہن باتیستا، راتوں کو بغل میں بندوق اور ہاتھوں میں شمع دان لیے چوہوں کی تلاش میں حویلی کے اردگرد گھوما کرتی تھی۔ اُس رات وہ نیچے تہہ خانے میں گئی تو شمع کی روشنی نے چھت پر ایک بچھڑے ہوے گھونگھے اور اس کی چمکدار گاد کو عیاں کیا۔ ایک فائر کی آواز گونجی۔ ہم سب اپنے بستروں میں چونک گئے لیکن اپنی سکونت پذیر راہبہ کی شبینہ شکار بازیوں کا عادی ہونے کی وجہ سے ہم نے جلدی ہی تکیوں پردوبارہ سر دھر دیے۔ لیکن جبلت کے زیراثر کیے ہوے اپنے فائر سے گھونگھے کو نیست و نابود کرنے اور چھت سے پلستر کا ایک ٹکڑا گرا چکنے کے بعد اب باتیستا نے اپنی کرخت آواز میں چلّانا شروع کر دیا تھا، ’’دوڑو! وہ سب نکل بھاگے ہیں! دوڑو!‘‘ نیم ملبوس نوکر تیزی سے اس کے پاس پہنچے۔ ہمارے والد تیغ سے مسلح ہو کر آئے اور ایبے اپنی وگ کے بغیر۔ کوالیئے نے یہ بھی نہیں معلوم کیا کہ معاملہ کیا ہے، بلکہ افراتفری سے بچنے کے لیے جنگل میں بھاگ گیا اور بھوسے کے ایک ڈھیر میں گھس کرسو گیا۔
مشعلوں کی روشنی میں سب نے پورے تہہ خانے میں گھونگھوں کی تلاش شروع کردی، اپنی واقعی مرضی سے نہیں، بلکہ ڈھٹائی سے، یہ تسلیم نہ کرنے کے لیے کہ انھیں بے سبب پریشان کیا گیا ہے۔ انھوں نے پیپے میں سوراخ دیکھ لیا اور فوری طور پر محسوس کرلیا کہ یہ ہمارا کام ہے۔ ہمارے والد گاڑی بان کے چابک کے ساتھ آئے اور بستر ہی سے ہمیں گرفت میں لے لیا۔ پھر، بنفشئی نشانوں سے بھری کمر، کولھوں اور ٹانگوں کے ساتھ ہمیں اس چھوٹے غلیظ کمرے میں بند کر دیا گیا جو قید خانے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔
ہمیں روٹی، پانی، سلاد، گوشت کے پوست اور ٹھنڈی یخنی کی خوراک پر (جو خوش قسمتی سے ہمیں پسند تھی) تین دن وہاں رکھا گیا۔ پھر، جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہ ہو، اس پندرہ جون والے روز،دوپہر کے وقت، ہمیں اہلِ خانہ کے ساتھ اپنے پہلے کھانے کے لیے باہر لایا گیا۔ اور باورچی خانے کی مہتمم ہماری بہن باتیستا نے ہمارے لیے کیا تیار کیا تھا؟ گھونگھوں کا سوپ اور خاص قاب کے لیے گھونگھے! کوسیمو نے ایک لقمہ بھی چکنے سے انکار کر دیا۔ ’’کھاؤ ورنہ ہم اس چھوٹے کمرے میں تمھیں پھر بند کردیںگے!‘‘ میں نے ہتھیار ڈال دیے اور ان بدبخت گھونگھوں کو چبانے لگا۔ یہ میری بزدلی تھی جس کا اثر یہ ہوا کہ میرا بھائی خود کو ہمیشہ سے زیادہ تنہا محسوس کرنے لگا۔ اس طرح اس کا ہمیں چھوڑجانا کسی حد تک میرے خلاف بھی احتجاج تھا کہ میں اس کی شرمندگی کا باعث ہواتھا۔ لیکن میں صرف آٹھ سال کا تھا اور پھر میں، خاص کر ایک بچے کی حیثیت سے، اپنے عزم کی طاقت کا موازنہ اس فوق البشری استقلال سے کیسے کرسکتا ہوںجس کا مظاہرہ میرے بھائی نے اپنی ساری زندگی میںکیا؟
’’پھر؟‘‘ ہمارے والد نے کوسیمو سے کہا۔
’’نہیں، ہرگز نہیں!‘‘ کوسیمو نے اعلان کیا اور اپنی پلیٹ کو پرے سرکادیا۔
’’میز سے اٹھ جاؤ!‘‘
لیکن کوسیمو پہلے ہی ہم سب سے منھ موڑ چکا تھا اور کمرے سے باہر جارہا تھا۔
’’کہاں جارہے ہو؟‘‘
ہم نے شیشے کے دروازے میں اسے اپنا ہیٹ اور نیمچہ اٹھاتے ہوے دیکھا۔
’’مجھے معلوم ہے میں کہاں جارہا ہوں!‘‘ اوروہ باغ کے اندر دوڑ گیا۔
تھوڑی دیر میں ہم نے کھڑکیوں سے اسے شاہ بلوط پرچڑھتے دیکھا۔ وہ انتہائی رسمی کپڑوں اور ہیٹ میں ملبوس تھا کیونکہ اس کی بارہ سالہ عمر کے باوجود ہمارے والد کا اصرار تھا کہ وہ کھانے کی میز پر اسی وضع میں آئے۔پاؤڈر لگے بالوں کے ساتھ چوٹی کے گرد ربن، تین کونوں والا ہیٹ، ریشمی گلوبند اور چنٹ دار پٹی، نوکدار دامن والی سبز قمیص، گلابی پتلون، نیمچہ اور نصف ٹانگوں تک پہنچنے والے چمڑے کے لمبے سفید ساق پوش جو اس پرتکلف لباس میں واحد چھوٹ تھے اورہماری دیہاتی زندگی کے لیے موزوں ترین ۔ (میں فقط آٹھ سال کا ہونے کے باعث بڑے مواقع کے سوا، پاؤڈر لگے بالوں سے مستثنیٰ تھا اور نیمچے سے بھی، جو میں باندھنا پسند کرتا۔) اس طرح اس تیقن اور رفتار کے ساتھ جو ہمارے برسوں اکٹھے مشق کرنے کا نتیجہ تھی، وہ شاخوں پر اپنے بازوؤں اور ٹانگوں کو حرکت دیتا ہوا پرانے گانٹھ دار درخت پر چڑھ گیا۔
میں ذکر کر چکا ہوں کہ ہم لگاتار کئی گھنٹے درختوں پر گزارا کرتے تھے اور اکثر لڑکوں کی طرح بدمقاصد کے لیے نہیں، جو درختوں پر فقط پھولوں اور پرندوں کے گھونسلے اتارنے چڑھتے ہیں، بلکہ تنوں اور دو شاخوں کے مشکل حصوں کو سر کرکے لطف اٹھانے کے لیے۔ ہم جتنا اونچا پہنچ سکتے پہنچ جاتے، کوئی اچھی سی شاخ ڈھونڈ کر سستاتے، نیچے دنیا پر نظر ڈالتے، گزرنے والوں کو آوازیں دیتے، ان سے مذاق کرتے۔ لہٰذا مجھے یہ بات بالکل فطری لگی کہ اس نامنصفانہ حملے کے بعد کوسیمو کو جو پہلا خیال آیا وہ شاہ بلوط پر چڑھنے کا تھا، جو ہمارے لیے ایک مانوس درخت تھا جس نے اپنی شاخیں ڈائننگ روم کی کھڑکیوں کی اونچائی تک پھیلا رکھیں تھی، جن سے اپنا دُکھا ہوا انداز وہ سارے خاندن کو دکھا سکتا تھا۔
’’سنبھل کے! سنبھل کے! اب وہ گر پڑے گا! بے چارہ منّا!‘‘ ہماری والدہ جو ہمیں توپ کی زد میں دیکھ کر بھی پلک نہ جھپکتیں تاہم ہمارے کھیلوں پر کوفت میں رہتیں، فکرمندی سے بولیں۔
کوسیمو ایک بڑی شاخ کے دو شاخے پر چڑھ گیاجہاں وہ آرام سے ڈیرا ڈال سکتا تھا۔ وہ وہاں اس طرح بیٹھ گیاکہ اس کی ٹانگیں ہوا میں لٹک رہی تھیں، بازو سینے پر بندھے تھے، ہاتھ کہنیوں کے نیچے تھے، سر کاندھوں میں دبا ہوا تھا، اور تین کونوں والا ہیٹ ماتھے پر جھکا ہوا تھا۔
ہمارے والد کھڑکی میں جھکے۔ ’’جب تم اوپر رہنے سے تھک جاؤ گے تو اپنا ارادہ بدل لو گے!‘‘ انھوں نے چلّا کر کہا۔
’’میں اپنا ارادہ کبھی نہیں بدلوں گا،‘‘ میرے بھائی نے شاخ پر سے اعلان کیا۔
’’تم جیسے ہی نیچے آؤ گے دیکھ لوگے!‘‘
’’اب میں کبھی نیچے نہیں آؤں گا۔‘‘ اور وہ اپنے قول پر قائم رہا۔

۲
کوسیمو شاہ بلوط پر تھا۔ شاخیں پھیلی ہوئی تھیں، گویا زمین کے اوپر اونچے اونچے پل ہوں۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔ سورج چمک رہا تھا۔ بلکہ شاخوں میں اس طرح چمک رہا تھا کہ ہمیں کوسیمو کو دیکھنے کے لیے آنکھوں پر اپنے ہاتھوں سے سایہ کرنا پڑتا تھا۔ کوسیمو درخت پر سے دنیا کو دیکھ رہا تھا۔ اوپر سے دیکھے جانے پر ہر چیز مختلف لگتی تھی،اور یہ بات اپنے آپ میں لطف رکھتی تھی۔ گلی نے ایک نیا زاویہ اختیار کرلیا تھا، اور اسی طرح پھولوں کے تختوں اور کافی کے لیے باغ میں پڑی ہوئی لوہے کی میز نے بھی۔ پرے دوری پر درختوں کی پھننگیں چھدری ہو رہی تھیں اور کچن گارڈن چھوٹے چھوٹے چبوترانما کھیتوں میں، جنھیں پتھر کی دیواروں نے سہار رکھا تھا، مدغم ہو رہا تھا۔ درمیانی میدان زیتونوں کے سائے سے تاریک ہو رہا تھا۔ اس سے پرے اومبروسا کے گاؤں کی پتھر اور خستہ اینٹوں کی چھتیں ابھر رہی تھیں اور نیچے بندرگاہ پر جہازوں کے مستول۔ فاصلے پر سمندر تھا جہاں ایک کشتی کاہلی سے تیر رہی تھی، اور اس سے پرے ایک کھلا اُفق۔
اور اب کافی پینے کے بعد بیرن اور جنرلیسا باغ میں آئے۔ کوسیمو سے بے پروائی ظاہر کرتے ہوے وہ کھڑے ایک گلاب جھاڑی دیکھتے رہے۔ پہلے وہ بانہوں میں بانہیں ڈالے تھے، پھر جلد ہی باتیں اور اشارے کرنے کو الگ ہو گئے۔ لیکن میں کھیلنے کا بہانہ کرتے ہوے شاہ بلوط کے نیچے کھسک گیا گویا کہ میں اکیلے کھیل رہا ہوں، حالانکہ حقیقت میں میں کوشش کرکے کوسیمو کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا چاہتا تھا۔ وہ ابھی تک مجھ سے آزردہ تھا اور اوپر بیٹھا فاصلے میں دیکھتا رہا۔ میں ٹھہر کر ایک بنچ کے نیچے دبک گیا کہ بغیر دکھائی دیے اسے دیکھتا رہوں۔
میرا بھائی کسی پہرے دارکی طرح بیٹھا تھا۔ وہ ہر چیز کو دیکھ رہا تھا اور ہر چیز اسے دیکھ رہی تھی۔ ایک عورت ٹوکری لیے لیموں کے درختوں کی قطاروں کے درمیان سے گزر رہی تھی۔ راستے پر ایک خچر والا اپنے خچر کو دم سے پکڑے چلا آرہا تھا۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کو نہیں دیکھا۔ نعل لگے سُموں کی آواز پر عورت مڑی اور راستے کی طرف بڑھنے لگی، مگر وقت پر نہ پہنچ سکی۔ پھر وہ گیت گانے لگی لیکن خچر والا پہلے ہی موڑ کاٹ چکا تھا۔ اس کے کانوں میں آواز پڑی تو اس نے چابک زمین پر مارا اور خچر سے مخاطب ہو کرکہا، ’’آہ!‘‘ بس، اس کے سوا کچھ نہیں۔ کوسیمو نے یہ سب دیکھا۔
اب راستے سے، اپنی اَوراد وظائف کی کھلی کتاب تھامے، ایبے فوشیلی فلیئر گزر رہا تھا۔ کوسیمو نے شاخ پر سے کوئی چیز اٹھائی اور اسے ایبے کے سر پر پھینک دیا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیا چیز تھی، غالباً کوئی چھوٹی سی چمگادڑ، یا چھال کا کوئی ٹکڑا، بہرحال وہ ایبے کو لگی نہیں۔ پھر کوسیمو نے اپنے نیمچے سے تنے کے ایک سوراخ کو کریدنا شروع کر دیا۔ ایک مشتعل بھِڑ باہر نکل آئی۔ کوسیمو نے اپنے ہیٹ کے ایک جھکولے سے اسے بھگا دیا۔ وہ اپنی نظروں سے اس کا تعاقب کرتا رہا یہاںتک کہ وہ ایک کدو کی بیل پر جا بیٹھی۔ مکان سے ہمیشہ کی طرح تیز رفتار کوالیئے برآمد ہوا، جو تیزی سے سیڑھیاں اترتا ہوا باغ میں گیااور انگور کی بیلوں کی درمیان غائب ہو گیا۔ کوسیمو یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ کہاں گیا ہے ایک بلند تر شاخ پر چڑھ گیا۔ پتوں میںپروں کی پھڑپھڑاہٹ ہوئی اور ایک کستورا اُڑتا ہوا باہر نکلا۔ کوسیمو کو افسوس ہوا کہ اس کے جانے بغیر اس تمام وقت وہ وہاں موجود تھا۔ اس نے مزید کستورے دیکھنے کے لیے دھوپ میں نگاہ دوڑائی۔ نہیں، وہاں ایک بھی نہیں تھا۔
شاہ بلوط ایک بوقیذار کے درخت کے نزدیک تھا اور ان دونوں کی چوٹیاں ایک دوسرے کو تقریباً چھو رہی تھیں۔ بوقیذار کی ایک شاخ کوئی فٹ بھر کی دوری سے بلوط کی ایک شاخ کے اوپر سے گزر رہی تھی۔ میرے بھائی کے لیے اسے پکڑنا اور اس طرح بوقیذار کی بلندی پر پہنچنا آسان تھا۔ اونچے تنے اور زمین سے گرفت میں نہ آسکنے والی شاخوں کے باعث ہم بوقیذار کو سر نہیں کر سکے تھے۔ بوقیذار کی ایک شاخ کے ذریعے، جو اگلے درخت سے ہاتھ بھر دوری پر تھی، وہ ایک خرنوب کے پیڑپر پہنچ گیا اور پھر ایک شہتوت کے درخت پر۔ اس طرح میں نے کوسیمو کو باغ کے اوپر معلق ایک شاخ سے دوسری شاخ پر بڑھتے دیکھا۔
شہتوت کے بڑے درخت کی کچھ شاخیں ہماری زمین کی چار دیواری اور اس کے پار تک پہنچ رہی تھیں جس کے اُدھر اونداریوا خاندان کا باغ تھا۔ ہم پڑوسی تھے، اس کے باوجود اومبروسا کے اس مارکوئیس (Marquis) اور نواب خاندان کے کسی فرد کو نہیں جانتے تھے۔ انھیں کئی پشتوں سے کچھ جاگیردارانہ حقوق حاصل رہے تھے جن پر ہمارے والد کا دعویٰ تھا۔ یوں دونوں خاندانوں کو باہمی کدورت نے دور کر رکھا تھا، بالکل اسی طرح جیسے ہماری زمین کو ایک قلعہ نما اونچی دیوار نے ان کی زمین سے الگ کر رکھا تھا، جو یا تو ہمارے والد نے بنوائی تھی یا مارکوئیس نے، کون سے مارکوئیس نے ،یہ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ اس میں اس حاسدانہ توجہ کا اور اضافہ کرلیجیے جو اونداریوا خاندان اپنے باغ پر صرف کرتا تھا، جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ نادر ترین پودوں سے بھرا ہواہے۔ حقیقت میںموجودہ مارکوئیس کا دادا نباتات داں لینائیس کا شاگرد رہا تھا اور اس کے زمانے سے فرانس اور انگلستان کے درباروں میں موجود تمام خاندانی روابط نوآبادیوں کے بہترین نباتاتی نوادراس باغ کے لیے بھجوانے میں سرگرمی سے استعمال کیے جاتے رہے تھے۔ کشتیوں نے برسوں بیجوں کی بوریاں، قلموں کے بنڈل، گملوں میںلگی بوٹیاں اور پورے کے پورے درخت تک، جن کی جڑیں بوریوں کی دبیز تہہ سے محفوظ ہوتیں، اومبروسا کی بندرگاہ پر اتارے تھے، یہاں تک کہ باغ —کہا جاتا تھا—ہندوستان، امریکہ اور نیوہالینڈ کے جنگلوں کا ایک آمیزہ بن گیا تھا۔
امریکی نو آبادیوں سے درآمد شدہ نئے درخت کا، جس کا نام میگنولیا تھا اور جس کی سیاہ شاخوں پر سفید گودے دار پھول تھے، ہم جتنا حصہ دیکھ سکتے تھے وہ کچھ گہرے رنگ کے پتے تھے جو بڑھ کرباغ کی دیوار سے اوپر نکل آئے تھے۔ کوسیمو نے جو ہمارے شہتوت پر تھا، دیوار کے کونے تک پہنچ کے ایک یا دو قدم کے لیے توازن درست کیا اور پھر اسے ہاتھوں سے پکڑتے ہوے پرلی طرف میگنولیا کے پتوں اور پھولوں کے درمیان کود گیا۔ پھر وہ نظروں سے غائب ہوگیا، اور جو کچھ میں بتانے جارہا ہوں، اس نے مجھے بعد میں بتایا، یا میں نے کچھ منتشر اشاروں اور اندازوں سے مرتب کیا۔
کوسیمو میگنولیا پر تھا۔ حالانکہ اس کی شاخیں بہت پاس پاس تھیں لیکن میرے بھائی جیسے مشاق لڑکے کے لیے جو سب درختوں کا ماہر تھا، اس پر چڑھنا آسان تھا۔ شاخیںاس کا وزن سہار گئیںحالانکہ وہ پتلی اور نرم لکڑی کی تھیںاور اس کے جوتوں کی نوکوں نے ان کی سیاہ چھال پر سفید زخم ڈال دیے۔ کوسیمو پتوں کی تازہ خوشبو میں ملفوف، متغیر سبز رنگوں کے ورقوں کے درمیان جو ایک پل مدھم اور دوسرے پل چمکدار نظر آتے تھے، ہوا سے اِدھر اُدھر ہو رہا تھا۔
سارا باغ مہک رہاتھا، اور حالانکہ گھنے درختوں کی وجہ سے کوسیمو ابھی تک اسے واضح طور پر نہیں دیکھ سکتا تھا مگر خوشبو کے ذریعے اسے جان رہا تھا اور مختلف خوشبوؤں کا ماخذ شناخت کرنے کی کوشش کر رہا تھاجنھیں ہوا کے جھونکے ہمارے باغ میں اُڑا لاتے تھے، اور جن سے وہ پہلے ہی آشنا تھا؛ یہ خوشبوئیں ہمارے لیے اس جگہ کے اسرار کاایک لازمی جزو تھیں۔ پھر وہ شاخوں کودیکھنے لگا اور اسے نئے پتے نظر آئے، کچھ بڑے اور چمکدار گویا کہ چلتا پانی ان پر مسلسل بہتا رہا ہو،کچھ چھوٹے اور پردار، اور درختوں کے تنے جویا تو بالکل ہموار اور چکنے تھے یا چھلکوں سے پوری طرح ڈھکے ہوے۔
چاروں طرف گہری خاموشی تھی۔ چھوٹی رین چڑیوں کی ایک ڈار چہچہاتی ہوئی اڑی اور تب گاتی ہوئی ایک مدھم آواز سنائی دی: ’’اولا، لا۔۔۔ اولا بالان۔۔۔‘‘ کوسیمو نے نیچے دیکھا۔ قریب ہی ایک بڑے درخت کی شاخ سے جھولا لٹک رہا تھا اور اس پر اسی کی ہم عمر ایک ننھی لڑکی بیٹھی تھی۔
وہ گوری رنگت اور سنہرے بالوں والی تھی اور اس کے بال، اس کی عمر کے حساب سے ایک عجیب طرز میں، اونچے بنے ہوے تھے۔ اس کا ہلکا نیلا لباس بھی اس کے بدن پر بہت ڈھیلا تھا اور جھولے کے ساتھ اٹھتی ہوئی اس کا اسکرٹ ریشمی پیٹی کوٹ کے ساتھ ہوا میں چکرا رہا تھا۔ لڑکی کی آنکھیں نیم وا تھیں اور اس کی ناک ہوا میں اس طرح اٹھی ہوئی تھی گویا کہ وہ حکم چلانے کی عادی ہو۔ دانتوں سے چھوٹا چھوٹا کاٹ کر سیب کھاتے ہوے اس نے اپنا سر ایک ہاتھ کی طرف جھکا رکھا تھا جسے بیک وقت سیب کو سنبھالنا اور جھولے کی رسّی پر اسے متوازن رکھنا تھا۔ اور ہر بار جب جھولا زمین سے لگتا وہ اپنے چھوٹے چھوٹے جوتوں کی نوک سے زمین کو دھکیلتے ہوے خود کوچھوٹے جھکولے دیتی، سیب کا چھلکا تھوکتی اور ’’اولا، لا۔۔۔ اولابالان۔۔۔‘‘ گانے لگتی گویا کہ اسے جھولے کی پروا ہو اور نہ گیت کی اور نہ ہی سیب کی (اگرچہ شاید جھولے اور گیت سے ذرا سی زیادہ) بلکہ اس کے ذہن پر دوسری باتوں کا بوجھ ہو۔ کوسیمو میگنولیا کی اونچائی سے ایک زیریں شاخ پر اتر آیا اور اب اس کے پیر ایک دو شاخے کے دونوں طرف جمے ہوے تھے اور اس کی کہنیاں ایک سامنے والی شاخ پر اس طرح ٹکی ہوئی تھیں گویا کہ وہ کسی کھڑکی کی چوکھٹ ہو۔ جھولے کی پینگ لڑکی کو عین اس کی ناک کے نیچے لا رہی تھی۔
لڑکی کی نظر اُدھر نہیں تھی، لہٰذا اس نے نہیں دیکھا۔ پھر اچانک اس نے تین کونوں والے ہیٹ اور ساق پوشوں میں ملبوس کوسیمو کو درخت پر کھڑا دیکھا۔ ’’ارے!‘‘ اس کے منھ سے نکلا۔ سیب اس کے ہاتھ سے گرپڑا اور دور تک لڑھکتا ہوا میگنولیا سے جا لگا۔کوسیمو نے اپنا نیمچہ نکالا، وہ زیریں شاخ سے جھکا اور سیب کو نیمچے میں پروتے ہوے لڑکی کو پیش کیا، جو اس دوران جھولے کا ایک چکر پورا کرکے دوبارہ اوپر آگئی تھی۔ ’’لو، گندا نہیں ہوا ہے، صرف ایک طرف سے ذرا سا دب گیا ہے۔‘‘
خوبصورت ننھی لڑکی اب اس بات پر افسوس کرتی لگ رہی تھی کہ میگنولیا پر اس عجیب لڑکے کے اچانک ظہور نے اسے اتنا حیران کیوں کیا اور اس نے اپنا تحقیری انداز دوبارہ اختیار کرتے ہوے ناک چڑھا لی۔’’ کیا تم چور ہو؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’چور؟‘‘ کوسیمو برا مان کر چلّایا۔ پھرکچھ غور کرنے پر، اس خیال نے اسے خوش کر دیا۔ ’’ہاں، میں چور ہوں۔‘‘ اس نے اپنا تین کونوں والا ہیٹ نیچے سرکا کے ایک آنکھ کے اوپر کرتے ہوے کہا، ’’کوئی اعتراض؟‘‘
’’اور تم چرانے کیا آئے ہو؟‘‘
کوسیمو نے سیب کو دیکھا جسے اس نے نیمچے کی نوک میں پرویا تھا، اور اچانک اسے احساس ہوا کہ وہ بھوکا ہے، کیونکہ کھانے کی میز پر اس نے مشکل ہی سے کوئی چیز چکھی تھی۔ ’’یہ سیب،‘‘ اس نے کہا اور نیمچے کی ایک طرف سے جسے گھر والوں کے احکامات کے باوجود ہ وہ بہت تیز رکھتا تھا، سیب کو چھیلنا شروع کر دیا۔
’’تب تو تم پھل چور ہوے،‘‘ لڑکی نے کہا۔
میرے بھائی کو اومبروسا کے ان غریب شرارتی بچوں کی بھیڑ کا خیال آیا جو باغوں کو تاراج کرنے کے لیے باڑھوں اور دیواروں پر چڑھنے کی جدوجہد کیا کرتے تھے۔ یہ وہ لڑکے تھے جن سے گریز اور نفرت کرنااسے سکھایا گیا تھا اور اس نے پہلی بار سوچا کہ ان کی زندگی کیسی آزاد اور قابلِ رشک ہوگی۔ خیر، اب وہ ان جیسا بن سکتا تھا اور آئندہ سے انھیں کی طرح رہ سکتا تھا۔ ’’ہاں،‘‘ اس نے کہا۔ اس نے سیب کو قاشوں میں کاٹا اور اسے کھانے لگا۔
لڑکی کو ہنسی آگئی جو جھولے کے اوپر اور نیچے کے پورے ایک چکرکے دوران جاری رہی۔ ’’اوہ، تم جو چاہو کہتے رہو! وہ لڑکے جو پھل چراتے ہیں! میںان سب کو جانتی ہوں! وہ سب میرے دوست ہیں! اور وہ بنیان پہنے، ننگے پیر، الجھے بالوں کے ساتھ گھومتے ہیں! ساق پوشوں اور پاؤڈر کے ساتھ نہیں!‘‘
میرا بھائی اتنا ہی سرخ ہو گیا جتنا سیب کا چھلکا۔ نہ صرف پاؤڈر لگے بالوں کی وجہ سے، جنھیں وہ ذرا بھی پسند نہ کرتا تھا، نشانۂ تضحیک بننا بلکہ اپنے ساق پوشوں کی وجہ سے بھی، جنھیں وہ بہت پسند کرتا تھا، دیکھنے میں ایک پھل چور سے، ان لڑکوں سے جن سے وہ لمحہ بھر پہلے نفرت کرتا تھا ،کمتر سمجھا جانا اور سب سے بڑھ کر یہ جاننا کہ یہ لڑکی جو اونداریوا خاندان کے باغ سے اچھی طرح واقف لگتی ہے، سارے پھل چوروں کی دوست ہے، مگر اس کی نہیں— ان سب باتوں نے اسے غصے، حسد اور شرمندگی کا احساس دلایا۔
’’اولا۔ لا۔لا۔۔۔ ساق پوشوں اور پاؤڈر کے ساتھ!‘‘ جھولے پر لڑکی گنگنائی۔
لمحہ بھر کے لیے اس کے غرور کو چوٹ لگی۔ ’’میں ان لڑکوں جیسا چور نہیں ہوں جنھیں تم جانتی ہو!‘‘ اس نے چیخ کر کہا۔ ’’بلکہ میں چور ہوں ہی نہیں! میں نے خود کو چور اس لیے کہا تھا کہ تم ڈر نہ جاؤ۔ اگرتم واقعی جانتیں کہ میں کون ہوں تو خوف سے مر جاتیں! میں ڈاکو ہوں، ایک خوفناک ڈاکو!‘‘
ننھی لڑکی اس کے بالکل قریب ہوا میں پینگیں لیتی رہی گویا کہ اپنے جوتوں کی نوک سے اسے چھو لینا چاہتی ہو۔ ’’بکواس! تمھاری بندوق کہاں ہے؟ سب ڈاکوؤں کے پاس بندوقیں ہوتی ہیں! اور گوپھنیں بھی! میں نے انھیں دیکھا ہے! انھوں نے قلعے سے یہاں آتے ہوے پانچ بار ہماری بگھی کو روکا تھا!‘‘
’’لیکن سردار کو نہیں دیکھا ہوگا! میں سردار ہوں۔ ڈاکوؤں کا سردار بندوق لیے نہیں پھرتا! صرف تلوار ساتھ رکھتا ہے!‘‘ اور اس نے اپنا چھوٹا سانیمچہ سامنے کر دیا۔
ننھی لڑکی نے اپنے کندھے اچکائے۔ ’’ڈاکوؤں کا سردار،‘‘ وہ بولی، ’’جیان دائی بروگی نامی ایک شخص ہے جو کرسمس اور ایسٹر پر ہمیشہ میرے لیے تحفے لاتا ہے۔‘‘
’’آہ!‘‘ خاندانی کینے کی لہر سے مغلوب ہو کر کوسیمو دی روندو بے ساختہ بول اٹھا۔ ’’تب تو میرے والد ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ اونداریوا خاندان کا مار کوئیس علاقے کے سارے ڈاکوؤں اور اسمگلروں کا محافظ ہے۔‘‘
لڑکی جھولتی ہوئی نیمچے کی طرف آئی، مگر دوبارہ بلند ہونے کے بجاے اپنے پاؤں کے ایک تیز جھٹکے سے روک لگا کر جھولے سے اتر آئی۔ خالی جھولا اپنی رسیوں پر دوبارہ ہوا میں اٹھ گیا۔’’ فوراً نیچے اترو! ہماری زمین پر آنے کی تم نے جرأت کیسے کی! ’’لڑکے کی طرف ایک غضب ناک انگلی اٹھاتے ہوے وہ چلّائی۔
’’میں تمھاری زمین پر نہیں آیا، اور نہ آؤں گا،‘‘کوسیمو نے برابر کے طیش سے جواب دیا۔ ’’میں نے تمھاری زمین پر قدم نہیں رکھا اور ساری دنیا کی دولت کے عوض بھی نہیں رکھوں گا!‘‘
پھر لڑکی نے بہت سکون سے بید کی کرسی پر پڑا ہوا پنکھا اٹھایا اور حالانکہ بہت زیادہ گرمی نہیں تھی، اس نے پنکھا جھلتے ہوے آگے پیچھے ٹہلنا شروع کر دیا۔ ’’اب،‘‘ وہ ایک محکم آواز میں بولی، ’’میں نوکروں کو بلاؤں گی، تمھیں پکڑواؤں گی اور پٹواؤں گی! وہ تمھیں ہماری زمین پر بلا اجازت آنے کا سبق سکھائیں گے!‘‘ وہ اپنا لہجہ مستقل بدل رہی تھی اور یہ لڑکی ہر بار میرے بھائی کو الجھا رہی تھی۔
’’جہاں میں ہوں وہ زمین نہیں ہے اور تمھاری ملکیت نہیں ہے!‘‘ کوسیمو نے اعلان کیا اور اسے یہ کہنے کی تحریص ہوئی، ’’اور میں بھی اومبروسا کا ڈیوک ہوں، اور اس سارے علاقے کا مالک،‘‘ مگر اس نے اپنے آپ کو روک لیا کیونکہ اب، جبکہ وہ ان سے جھگڑا کرکے کھانے کی میز سے بھاگ آیا تھا، ان باتوں کو دہرانا نہیںچاہتا تھا جو اس کے والد ہمیشہ کیا کرتے تھے؛ وہ نہیں چاہتا تھا اور ان باتوں کو درست نہیں سمجھتا تھا؛ اور نوابی کے وہ سارے دعوے بھی اسے ہمیشہ خبط لگتے تھے۔ سو اب وہ، کوسیمو، ڈیوک ہونے کی شیخی کیوں بگھارے؟ مگروہ اپنی تردید کرنا نہیں چاہتا تھا، لہٰذا جو اس کے ذہن میں آیا کہتا چلا گیا۔ ’’یہ جگہ تمھاری نہیں ہے،‘‘اس نے دہرایا، ’’کیونکہ تمھاری ملکیت صرف زمین ہے۔ اگر میںاس پر پاؤں دھروں تو مداخلت ہو گی۔ لیکن یہاں اوپر میں جہاں چاہوں جاسکتا ہوں۔‘‘
اوہ، جیسے وہاں اوپر سب کچھ تمھارا ہے۔۔۔‘‘
’’ہاں! یہاں اوپر سب کچھ میرا ہے۔۔۔‘‘ اوراس نے مبہم طور سے شاخوں، دھوپ میں چمکتے پتوں اور آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ ’’شاخوں پر سب کچھ میرا ہے۔ انھیں بلاؤ کہ مجھے پکڑیں ، پھر دیکھنا!‘‘
اب اس تمام لاف زنی کے بعد وہ نیم متوقع تھا کہ لڑکی کسی نہ کسی انداز میں اس پر فقرے کسے گی، لیکن اس کے بجاے وہ اچانک دلچسپی لیتی معلوم ہوئی۔’’ آہ اچھا؟ اور یہ تمھاری ملکیت کہاںتک پہنچتی ہے؟‘‘
’’جہاںتک میں درختوں پر پہنچ سکتا ہوں۔ یہاں، وہاں، دیوار کے پار، زیتونوں کے جھنڈ میں، پہاڑی کے اوپر، پہاڑی کے پرلی طرف، جنگل میں بشپ کی زمینوں میں۔۔۔‘‘
’’فرانس تک؟‘‘
’’پولینڈ اور سیکسونی تک،‘‘ کوسیمو نے کہا، جسے جغرافیے کے بارے میں کچھ پتا نہ تھا مگر یہ نام اس نے ہماری والدہ سے تخت نشینی کی جنگوں کے قصوں کے دوران سن رکھے تھے۔’’لیکن میں تمھاری طرح خود غرض نہیں ہوں۔ میں تمھیں اپنی ملکیت میں آنے کی دعوت دیتا ہوں۔‘‘اب وہ ایک دوسرے کو تم سے مخاطب کررہے تھے، اور اس کی ابتدا لڑکی نے کی تھی۔
’’اوریہ جھولا کس کا ہے؟‘‘ وہ بیٹھ کر اپنا پنکھا کھولتی ہوئی بولی۔
’’جھولا تمھارا ہے،‘‘ کوسیمو نے کہا۔ ’’لیکن اس درخت سے بندھا ہونے کی وجہ سے اس کا انحصار مجھ پر ہے۔ سو جب تمھارے پیر زمین کو چھوتے ہیں تم اپنی ملکیت میں ہوتی ہو،اور جب تم ہوا میں ہو تو میری ملکیت میں۔‘‘
رسیاں مضبوطی سے پکڑتے ہوے اس نے اپنے آپ کو دھکیلا اور ہوا میں بلند ہو گئی۔ کوسیمو نے میگنولیا سے اس موٹی شاخ پر چھلانگ لگائی جس سے جھولا بندھا تھا۔ اس نے رسیاں بیچ میںپکڑلیں اور اسے خود جھکولے دینا شروع کر دیا۔ جھولا بلندسے بلند تر ہوتا گیا۔
’’ڈر لگ رہا ہے؟‘‘
’’نہیں۔ مجھے نہیں لگتا۔ تمھارا نام کیا ہے؟‘‘
’’میرا نام کوسیمو ہے۔۔۔ اور تمھارا؟‘‘
’’وِیولانتے، لیکن سب مجھے وِیولا کہتے ہیں۔‘‘
’’مجھے بھی گھر والے مینو کہتے ہیں کیونکہ کوسیمو بڑی عمر والوں کا نام ہوتا ہے۔‘‘
’’مجھے اچھا نہیں لگا۔‘‘
’’کوسیمو؟‘‘
’’نہیں، مینو۔‘‘
’’آہ۔۔۔ تم مجھے کوسیمو کہہ سکتی ہو۔‘‘
’’سوچوں گی بھی نہیں! سنو، ہمیں سب معاملات ٹھیک ٹھیک طے کرلینے چاہییں۔‘‘
’’تمھارا مطلب کیا ہے؟‘‘کوسیمو جو اس کی ہر بات سے زچ ہو رہا تھا، بے ساختہ چلا اٹھا۔
’’وہی جو میں کہہ رہی ہوں! میں اوپر تمھاری ملکیت میں آکر ایک باعزت مہمان بن سکتی ہوں، سمجھے؟ اپنی مرضی سے آجاسکتی ہوں۔اور تم جب تک درختوں میں اپنی ملکیت پر ہو، مقدس اور ناقابل رسائی ہو، لیکن جونہی تم نے میرے باغ کی زمین پرقدم رکھا تم میرے غلام بن جاؤ گے اور میں تمھیں زنجیروں میں جکڑ لوں گی۔‘‘
’’نہیں، میں تمھارے باغ میں، بلکہ اپنے باغ میں بھی کبھی نہیں اتروں گا۔ یہ سب میرے لیے دشمن کا علاقہ ہے۔ تم میرے ساتھ اوپر آجاؤ۔ اور تمھارے پھل چرانے والے دوست، اور، غالباً میرا بھائی بیاجیو بھی، اگرچہ وہ ذرا بزدل ہے، ہم سب درختوں پر ایک فوج بنالیں گے، اور زمین اور اس پر رہنے والے لوگوں کو درست کردیں گے۔‘‘
’’نہیں نہیں، بالکل نہیں۔ میں تمھیں سمجھاتی ہوں کہ بات کیا ہے۔ تمھیں درختوں کی بادشاہت حاصل ہے، ٹھیک ہے؟ لیکن تم اگر ایک بار بھی زمین پر پاؤں رکھو گے تو اپنی ساری بادشاہت گنوا بیٹھو گے اور حقیر ترین غلام بن جاؤ گے۔ سمجھ رہے ہو؟ اگر کوئی شاخ بھی تمھارے بوجھ سے ٹوٹی اور تم گر پڑے تو بس تمھارا خاتمہ ہے!‘‘
’’میں ساری زندگی کسی درخت سے نہیں گرا!‘‘
’’نہیں، بے شک، لیکن اگر تم گر ہی پڑے تو فوراً راکھ ہوجاؤ گے اور ہوا تمھیں اُڑا لے جائے گی۔‘‘
’’یہ سب پریوں کی کہانیاں ہیں۔ میں زمین پراس لیے نہیں آؤں گا کیونکہ میں آنا نہیں چاہتا۔‘‘
’’اوہ، کیسے بور ہو تم!‘‘
’’نہیں نہیں، آؤ کھیلتے ہیں۔ مثال کے طور پر، کیا میں تمھارے جھولے پر آسکتا ہوں؟‘‘
’’ہاں، اگرتم زمین کو چھوئے بغیر اس پر بیٹھ سکو۔‘‘
ویولا کے جھولے کے پاس، اسی شاخ پر ایک اور جھولا بندھا تھا مگر آپس میں ٹکرانے سے بچانے کے لیے اسے اوپر اٹھا کر رسیوں میں گرہ باندھ دی گئی تھی۔ کوسیمو ایک رسّی کو پکڑتے ہوے شاخ سے نیچے آیا— وہ اس مشق میں بہت اچھا تھا کیونکہ ہماری والدہ نے اسے بہت سارے جسمانی کرتب کروائے تھے— گرہ تک پہنچ کر اسے کھولا اور جھولے پر کھڑا ہو گیا۔ اپنے آپ کو حرکت دینے کے لیے اس نے گھٹنے موڑے اور اپنے بدن کے زور سے جھولے کو آگے پیچھے جھکولے دینے لگا، اور اس طرح اونچا اور اونچا ہوتا گیا۔ آدھے راستے میں ایک دوسرے کے برابرسے گزرتے ہوے دونوں جھولے اب یکساں بلندی پر مخالف سمتوں میں جارہے تھے۔
’’لیکن اگر تم بیٹھنے کی کوشش کرو اور پیروں کی مدد سے اپنے آپ کو دھکیلو تو زیادہ بلندی تک جاؤ گے،‘‘ ویولا نے کہا۔
کوسیمو نے اس کا منھ چڑایا۔
’’اچھا اب نیچے آکر ذرا مجھے جھلاؤ، چلو، جھلاؤ نا!‘‘ ویولا نے شیریں مسکراہٹ سے اسے دیکھتے ہوے کہا۔
’’نہیں، میں نے کہہ دیا میںکسی قیمت پر نیچے نہیں آؤں گا۔۔۔‘‘ کوسیمو اب پھر زچ ہونے لگا تھا۔
’’پلیز!‘‘
’’نہیں!‘‘
’’آہا! تم قریب قریب دام میں آہی گئے تھے! اگرتم زمین پر پاؤں رکھ دیتے تو سب کچھ گنوا بیٹھتے!‘‘ ویولا جھولے سے اتری اور کوسیمو کے جھولے کو چھوٹے چھوٹے ہلورے دینے لگی۔ ’’اوہ!‘‘ کوسیمو جس جھولے پر کھڑا تھا ویولا نے اچانک اس کی نشست پرجھپٹا مارا اور اسے الٹ دیا۔ خوش قسمتی سے رسیوں پر کوسیمو کی گرفت مضبوط تھی۔ ورنہ وہ کسی پکے ہوے پھل کی طرح زمین پر آرہتا۔
’’دغاباز!‘‘ وہ چیخا اور جھولے کی رسیوں کے سہارے دوبارہ اوپرچڑھنے کی کوشش کرنے لگا، مگر اوپر جانا نیچے آنے کی نسبت کہیں زیادہ مشکل تھا، خاص کر جبکہ سنہرے بالوں والی لڑکی رسیوں کو خباثت سے اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔
آخرکار وہ بڑی شاخ تک پہنچ گیا اور اس کے دونوں طرف ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گیا۔
’’آہ! آہ! تم مجھے نہیں پکڑ سکیں!‘‘
’’بچ گئے۔‘‘
’’میں تمھیں دوست سمجھا تھا!‘‘
’’ہاں واقعی!‘‘ اور وہ خود کو پنکھے سے دوبارہ ہوا دینے لگی۔
’’ویولانتے!‘‘اسی لمحے ایک تیز نسوانی آواز نے مداخلت کی۔ ’’کس سے باتیں کر رہی ہو؟‘‘
بہت چوڑا اسکرٹ پہنے ایک لانبی، دبلی خاتون مکان کو جانے والے سفید زینے پرنمودار ہوئی۔ وہ ایک دستہ دار چشمے میں سے دیکھ رہی تھی۔ کوسیمو چوکنا ہو کر پیچھے پتوں میں ہٹ آیا۔
’’ایک نوجوان سے خالہ جان،‘‘ نوعمر لڑکی نے کہا، ’’وہ ایک درخت کی چوٹی پرپیدا ہوا تھا۔ اس پر کسی جادو کا اثر ہے۔ وہ زمین پر پاؤں نہیں رکھ سکتا۔‘‘
کوسیمو نے، جس کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا، اپنے آپ سے پوچھا: کیا ننھی لڑکی اپنی خالہ کے سامنے اس کا مذاق اُڑانے کے لیے یہ باتیں کر رہی ہے یا اس کے سامنے خالہ کا مذاق اُڑانے کے لیے، یا محض کھیل جاری رکھنے کے لیے، یا اس لیے کہ اسے کوسیمو کی ذرہ بھر پروا ہے نہ خالہ کی، اور نہ ہی کھیل کی؟ اس نے دیکھا کہ دستہ دار چشمے کے ذریعے اسے غور سے دیکھا جارہا ہے جس کی مالکہ درخت کے قریب آگئی تھی اور اسے یوں گھور رہی تھی گویا کہ وہ کوئی عجیب توتا ہو۔
’’میرے خیال میںیہ نوجوان پیوواسکو خاندان کا کوئی فرد ہے۔ آؤ، ویولانتے۔‘‘
کوسیمو نے شرم سے اپنا سر جھٹکا۔ خالہ نیْ اپنے آپ سے بھی پوچھے بغیر کہ وہ وہاں اوپر کیوں موجود تھا، جس انداز سے اسے بآسانی پہچان لیا، اور جس انداز سے لڑکی کو آواز دی اور ویولا جس انداز سے اپنی خالہ کی آواز پر، پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر، فرمانبرداری سے چل پڑی، ان ساری باتوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اسے کسی اہمیت کے قابل نہیں سمجھتیں۔ ان کی نظر میں وہ مشکل ہی سے وجود رکھتا تھا اور اس طرح اس کی وہ غیرمعمولی سہ پہر ایک خود ترحمی کے بادل میںگم ہو تی معلوم ہونے لگی۔
تب اچانک لڑکی نے اپنی خالہ کو اشارہ کیا۔ خالہ نے اپنا سر جھکایا اور بچی نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔ خالہ نے اپنے دستہ دار چشمے سے کوسیمو کی طرف اشارہ کیا۔ ’’اچھا، نوجوان!‘‘ وہ بولی۔ ’’کیا تم ہمارے ساتھ چاکلیٹ کا ایک کپ پینا پسند کرو گے؟ پھر ہم بھی تم سے تعارف حاصل کر سکیں گے،‘‘ اور یہاں اس نے ویولا پر ایک ترچھی نظر ڈالی، ’’کیونکہ تم پہلے ہی اس خاندان کے دوست بن گئے ہو۔‘‘
کوسیمو درخت پر بیٹھا خالہ اور بھانجی کو دیدے پھاڑے گھورتا رہا۔ اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ علاقے کا سب سے پُرنخوت خاندان، اومبروسا کا اونداریواخاندان ، اسے مدعو کر رہا تھا! لمحہ بھر پہلے کی تذلیل فتح میں بدل گئی تھی۔ دشمنوں کی اس دعوت کے ذریعے وہ اپنے باپ پر، جو ہمیشہ اسے لعن طعن کرتا تھا، حاوی ہورہا تھا۔ ویولا نے اس کی سفارش کی تھی اور وہ باضابطہ طور پر اس کا دوست تسلیم کر لیا گیا تھا، اور وہ اس باغ میں، جو دوسرے تمام باغوں سے یکسر مختلف تھا، اس کے ساتھ کھیلے گا۔ کوسیمو نے یہ سب کچھ محسوس کیا، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس مخالف ہر چند کہ گڈمڈ جذبے کوبھی محسوس کیا جو شرم، غرور، تنہائی اور عزم سے عبارت تھا، اور جذبات کے اس تضاد کے درمیان، میرا بھائی اوپر والی شاخ کو پکڑ کر اس پر چڑھا اور گھنے پتوں والے حصے میںہوتا ہوا ایک اور درخت پر جاکے غائب ہو گیا۔

۳
وہ سہ پہر بے انت تھی۔ ہم بار بار باغ میں کسی چیز کے گرنے یا سرسرانے کی آواز سنتے تو اس امید میں باہر دوڑ پڑتے کہ یہ وہی ہے اور اس نے نیچے آنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ مگر نہیں، میں نے میگنولیا کی چوٹی پر ایک جنبش دیکھی، دیوار کی دوسری طرف سے کوسیمو نمودار ہوا اور پار کرکے اِدھر آ گیا۔
میں اس سے ملنے شہتوت کے پاس گیا۔ مجھے دیکھ کروہ برہم نظر آیا۔ وہ مجھ سے ابھی تک خفا تھا۔ وہ عین میرے اوپر شہتوت کی ایک شاخ پر بیٹھ گیا اور اپنے نیمچے سے چھال کے ٹکڑے تراشنے لگا گویا کہ مجھ سے بات نہ کرنا چاہتا ہو۔
’’شہتوت کا درخت آسان ہے،‘‘ میں نے محض کچھ کہنے کی خاطر بے ساختہ کہا، ’’ہم کبھی پہلے اس پر نہیں چڑھے۔۔۔‘‘
وہ نیمچے کے پھل سے شاخ کو چھیلتا رہا۔ پھر تلخی سے بولا، ’’توپھر، تم نے گھونگھوں کا مزہ اُڑا لیا؟‘‘
میں نے ایک ٹوکری آگے بڑھائی۔ ’’میں تمھارے لیے کچھ خشک انجیر لایا ہوں، مینو، اور میوے کا سموسہ بھی۔۔۔‘‘
’’انھوں نے بھیجا ہے؟‘‘ وہ اچانک بولا۔ وہ ابھی دور تھا مگر ٹوکری کو دیکھ کر للچا رہا تھا۔
’’نہیں، مجھے ایبے سے بچ کر آنا پڑا،‘‘ میں نے جلدی سے کہا۔‘‘ وہ چاہتے تھے میں تمام سہ پہر پڑھائی کرتا رہوں، سو میں تم سے ملنے نہیں آسکا۔ لیکن بڑے میاں کو نیند آگئی! اماں کو فکر ہے کہ تم گر نہ پڑو۔ وہ تمھیںتلاش کروانا چاہتی تھیں مگر چونکہ ابا نے کافی دیر سے تمھیں شاہ بلوط پر نہیں دیکھا ہے، ان کا کہنا تھا کہ تم نیچے آگئے ہو اور کہیں چھپے ہوے اپنے غلط کاموں پر کڑھ رہے ہو اور ہمیں تمھاری فکر نہیں کرنی چاہیے۔‘‘
’’میں بالکل بھی نیچے نہیں آیا!‘‘ میرے بھائی نے کہا۔
’’تم اونداریوا کے باغ میں گئے تھے؟‘‘
’’ہاں، لیکن ہمیشہ ایک درخت سے دوسرے درخت پر، زمین پر پاؤں رکھے بغیر!‘‘
’’کیوں؟‘‘ میں نے پوچھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے اسے اپنا یہ اصول ظاہر کرتے سنا، لیکن اس نے یہ بات اس طرح کہی تھی گویا کہ یہ ہمارے درمیان پہلے سے طے ہوچکی ہو، گویا کہ وہ مجھے یقین دلانا چاہتا ہو کہ اس نے یہ اصول نہیں توڑا ہے۔ سو میں نے اپنے سوالوں پر اصرار کرنے کی جرأت نہیں کی۔
مجھے جواب دینے کے بجاے وہ بولا، ’’جانتے ہو، اونداریوا کا باغ دیکھنے میں کئی دن لگ سکتے ہیں۔ اگر تم درخت ہی دیکھنے لگو! امریکی جنگلوں سے لائے ہوے درخت! ‘‘ پھر اسے یاد آیا کہ وہ مجھ سے خفا ہے لہٰذا اسے اپنی دریافتوں کے بارے میں مجھے نہیں بتانا چاہیے۔ اس نے اکھڑپن سے بات ختم کردی۔ ’’بہرحال میں تمھیں وہاں نہیں لے جاؤں گا۔ آج کے بعد سے تم باتیستا یا کوالیئے کے ساتھ گھوما کرنا۔‘‘
’’نہیں، مینو، مجھے ضرور لے جانا،‘‘ میں بے ساختہ بولا۔ ’’گھونگھوں کے سلسلے میں مجھے الزام مت دو۔ وہ گندے تھے مگر میں ان سب کی لعن طعن برداشت نہیں کر سکا۔‘‘
کوسیمو میوے کا سموسہ جلدی جلدی کھارہا تھا۔ ’’میں تمھیں آزماؤں گا،‘‘ وہ بولا۔ ’’تمھیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ تم میری طرف ہو، ان کی طرف نہیں۔‘‘
’’مجھے بتاؤ، تمھیں کیا چیز چاہیے۔‘‘
’’مجھے کچھ رسیاں لادو، لمبی اور مضبوط، کیونکہ یہاں اوپر کچھ جگہیں پار کرنے کے لیے مجھے اپنی کمر میں رسی باندھنی پڑے گی، اورہاں، ایک چپّو کا کنڈا، اور آنکڑے، اور کیلیں۔۔۔ بڑی والی۔‘‘
’’تم بنانا کیا چاہتے ہو؟ کرین؟‘‘
’’ہمیں بہت سی چیزیں اوپر لانے کی ضرورت ہوگی، ہم بعد میں دیکھیں گے، تختے، بانس۔۔۔‘‘
’’تم درخت پر رہنے کی جگہ بنانا چاہتے ہو! کہاں؟‘‘
’’اگر ضرورت پڑی۔ جگہ ہم بعد میں طے کرلیں گے۔ اس دوران تم میری چیزیں وہاں کھوکھلے بلوط میں رکھ سکتے ہو۔ پھر میں رسّی کے ذریعے ٹوکری کو نیچے کردوں گا اور جو کچھ مجھے چاہیے ہوگا تم اس میں رکھ دینا۔‘‘
’’لیکن کیوں؟ تم تو ایسے کہہ رہے ہو اجیسے بہت دنوںتک چھپے رہو گے۔۔۔ تم نہیں سمجھتے کہ وہ تمھیں معاف کردیں گے؟‘‘
وہ میری طرف مڑا۔ اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ ’’مجھے کیا پروا ہے وہ مجھے معاف کریں یا نہ کریں؟ اور میں چھپ نہیں رہا ہوں۔ میں کسی سے نہیں ڈرتا! تم اپنی کہو، میری مدد کرنے سے ڈرتے ہو؟‘‘
اگرچہ اب میں نے محسوس کرلیا تھا کہ میرا بھائی فی الحال نیچے آنے سے انکار کر رہا ہے، مگر میں نے یہ بات نہ سمجھنے کا بہانہ کیا تاکہ وہ اپنے ارادے کا اعلان کرنے پر مجبور ہو اور کہے، مثلاً، ہاں، میں سہ پہر کی چائے تک درختوں میں رہنا چاہتا ہوں، یا جھٹ پٹے تک، یا شام کے کھانے تک، یا اندھیرا ہونے تک، یعنی درحقیقت کوئی ایسی بات جواس کے احتجاج کی کسی حد، کسی تناسب کوظاہر کرے۔ لیکن اس نے ایسی کوئی بات نہیں کہی اور مجھے تشویش محسوس ہونے لگی۔
نیچے سے پکارنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ یہ ہمارے ابا تھے جو ’’کوسیمو! کوسیمو!‘‘ چلاّ رہے تھے، مگر پھر یہ محسوس کرکے کہ وہ جواب نہیں دے گا، ’’بیاجیو! بیاجیو!‘‘ پکارنے لگے۔ وہ مجھے بلا رہے تھے۔
’’میں جا کے دیکھتا ہوں انھیں کیا چاہیے۔ پھر میں تمھیں بتانے آؤں گا،‘‘ میں نے جلدی سے کہا۔ بھائی کو مطلع رکھنے کی یہ سرگرمی، مجھے تسلیم کرنا چاہیے، وہاں سے ہٹنے کی عجلت سے بھی مطابقت رکھتی تھی جس کا سبب اس کے ساتھ شہتوت پر بیٹھے ہوے پکڑے جانے اور اسے یقینی طور پر ملنے والی سزا میں حصے دار بننے کا خوف تھا۔ لیکن کوسیمو میرے چہرے پر بزدلی کا یہ سایہ نہ دیکھ سکا۔ اس نے مجھے جانے دیا لیکن یہ دکھانے کے لیے کہ ابا کو جو کہنا ہے وہ اسے ذرا اہمیت نہیں دیتا، اس نے اپنے کندھے اچکائے۔
جب میں لوٹا تو وہ ابھی وہیں تھا۔ اس نے ڈیرا ڈالنے کے لیے ایک تراشیدہ شاخ پر اچھی جگہ ڈھونڈ لی تھی، وہ اپنی ٹھوڑی گھٹنوں پر ٹکائے بیٹھا تھا اور بازو پنڈلیوں کے گرد مضبوطی سے باندھ رکھے تھے۔
’’مینو! مینو!‘‘ میں نے پھولی ہوئی سانس کے ساتھ درخت پر چڑھتے ہوے پکارا، ’’انھوں نے تمھیں معاف کر دیا ہے! وہ ہمارا انتظار کر رہے ہیں! چائے میز پر آگئی ہے، ابا اماں بیٹھ چکے ہیں اور پلیٹوں میں کیک کے ٹکڑے رکھ رہے ہیں۔ کریم اور چاکلیٹ والا کیک ہے جو، تمھیں پتا ہے، باتیستا کا بنایاہوانہیں ہے۔ اس نے ضرور غصّے سے لال ہو کر خود کو کمرے میں بند کر لیا ہوگا! انھوں نے میرا سر سہلاتے ہوے کہا:جاؤ، بے چارے مینو کو بتاؤ کہ ہم سب باتوں کی تلافی کردیں گے اور پھر کبھی اس کا ذکر نہیں کریں گے۔جلدی کرو، آؤ چلیں!‘‘
کوسیمو ایک پتّاچبا رہا تھا۔ اس نے جنبش نہیں کی۔
’’ارے،‘‘ وہ بولا۔ ’’ایک کمبل تو لانے کی کوشش کرو، لاؤ گے؟ کسی کے دیکھے بغیر مجھے دے جانا۔ یہاں اوپر رات کو یقینا ٹھنڈ ہوگی۔‘‘
’’تم درختوں میںرات گزارنے جارہے ہو!‘‘
اس نے جواب نہیں دیا۔ ٹھوڑی گھٹنوں پر دھرے، پتا چباتے ہوے ،وہ سامنے کی سمت دیکھتا رہا۔ میں نے اس کی نظر کا تعاقب کیا جو سیدھی اونداریوا کے باغ کی دیوار تک جارہی تھی، بالکل اس جگہ جہاں میگنولیا کا سفید پھول اور اس سے پرے ایک پتنگ اڑتی دکھائی دے رہی تھی۔

اس طرح ہماری شام ہوئی۔ نوکر آئے اور کھانا لگانے لگے۔ ڈائننگ روم میں شمع دان پہلے ہی روشن ہوچکے تھے۔ کوسیمو یہ سب کچھ درخت سے ضرور دیکھ سکتا ہوگا۔ بیرن آرمینیو کھڑکی کے باہر سایوں کی جانب مڑے اور پکار کر بولے، ’’اگر تم اوپر ہی رہنا چاہتے ہو تو بھوکے مرو گے!‘‘
اس شام ہم پہلی بار کوسیمو کے بغیر کھانا کھانے بیٹھے۔ وہ شاہ بلوط کی ایک اونچی شاخ پر ٹانگیں لٹکائے پہلو کے بل اس طرح بیٹھا تھا کہ ہم اس کی لٹکتی ہوئی ٹانگیں ہی دیکھ سکتے تھے، اوروہ بھی کھڑکی سے باہر جھک کر بغور دیکھنے کی صورت میں، کیونکہ کمرہ روشنی سے جگمگا رہا تھا اور باہر اندھیرا تھا۔
اور تو اور، کوالیئے نے بھی باہر جھک کر کچھ کہنا اپنا فرض سمجھا لیکن اس معاملے پر حسبِ معمول کسی رائے کا اظہار کرنے سے قاصر رہا۔ بس یہی کچھ کہہ پایا، ’’اوہ ۔۔۔ مضبوط لکڑی ہے۔ سو برس تو چلے گی۔۔۔‘‘ اور پھر چند الفاظ اس نے ترکی میں ادا کیے، غالباً شاہ بلوط کا کوئی مترادف۔ درحقیقت، وہ میرے بھائی کے بارے میں نہیں، درخت کے بارے میں باتیں کرتا معلوم ہوتا تھا۔
دوسری طرف ہماری بہن باتیستا، جو گھر والوں کو اپنی عجیب و غریب ترنگوں سے مخمصے میں رکھنے کی عادی تھی، کوسیمو کے لیے ایک طرح کا رشک دکھا رہی تھی، گویا اسے اپنی ہی بازی میں پیچھے چھوڑ دیا گیا ہو۔ وہ مستقل طور پر اپنے ناخن کاٹ رہی تھی (ناخن کاٹنے کے لیے وہ انگلی منھ تک نہیں لاتی تھی بلکہ اپنا سر جھکا کر کہنی بلند کیا کرتی تھی)۔
جنرلیسا کو کچھ سپاہی یاد آگئے جنھوں نے سلاوونیا، یا شاید پومیرانیا میں کسی پڑاؤ کے گرد درختوں پر چڑھ کرپہرہ دیتے ہوے، دشمن کوآتے دیکھ لیا تھا، اور یوں ممکنہ گھات کو ٹال دیا تھا۔ اسے یہ یاد بالکل اچانک طور پر مادرانہ انہماک سے نکال کر اس کے پسندیدہ فوجی ماحول میں لے گئی اور اب، گویا اپنے بیٹے کا رویہ سمجھنے میں آخرکار کامیاب ہو گئی ہو، وہ پرسکون بلکہ بڑی حد تک مفتخر دکھائی دینے لگی،مگر ایبے فوشیلی فلیئر کے سوا کسی نے اس پر کوئی توجہ نہ دی۔ وہ جنرلیسا کی جنگی کہانی اور اس سے اخذ شدہ نتیجے کو بڑی سنجیدہ رضامندی سے سن رہا تھا، کیونکہ اپنے آپ کو یہ سمجھانے کے لیے کہ جو کچھ ہو رہا ہے فطری ہے، وہ کسی بھی دلیل کو اچک لینے اور یوں اپنے ذہن کو ذمے داری اور فکرمندی سے آزاد کر لینے پر آمادہ تھا۔
اس رات بھی اپنے معمول کو بدلے بغیر ہم کھانے کے بعد جلدی سونے چلے گئے۔ اس وقت تک ہمارے والدین طے کرچکے تھے کہ وہ کوسیمو کو اس کی پروا کیے جانے کی تسکین فراہم نہیں کریں گے بلکہ اسے نیچے لانے کے لیے تکان، بے آرامی اور رات کی سرد ہوا کا انتظار کریں گے۔ ہر ایک سونے کو لیٹ گیا۔ باہر سے دیکھے جانے پر شمع دان کی روشنی کھڑکیوں میں سے چمکتی سنہری آنکھوں کی طرح لگ رہی ہوگی۔ اس مکان سے، جو اتنا مانوس اور عزیز تھا، سکھ اور محبت کی کیا کیا یادیں رات کی خنکی میں سے رس کر میرے بھائی تک پہنچی ہوں گی! میں کمرے کی کھڑکی سے باہر جھکا اور اس کے سائے کو شاہ بلوط کے ایک خلا پر جھکے دیکھا۔ وہ کمبل میں لپٹا تھا اور، میرا خیال ہے، گرنے سے بچنے کے لیے رسّی سے بندھا ہواتھا۔
دیر سے نکلنے والا چاند شاخوں کے اوپر چمک رہا تھا۔ چڑیاں، اُس کی طرح گٹھری بنی، اپنے گھونسلوں میں سو رہی تھیں۔ رات، کھلی فضا اور باغ کی خاموشی، دور کی آوازوں، پتوں کی سرسراہٹ اور درختوں میں ہوا کے گزر سے ٹوٹ ٹوٹ جاتی۔ کبھی کبھار بہت فاصلے سے پانی کی سرسراہٹ سنائی دیتی۔ یہ سمندر کی آواز تھی۔ میں نے اپنی کھڑکی سے ان منتشر انفاس کو سنا اور گھر کے مانوس پس منظر کے تحفظ کے بغیر، جہاں سے وہ صرف چند گز کے فاصلے پر تھا، ان کے سنے جانے کا تصور کیا۔ اُس کے چاروں طرف فقط رات تھی اور سہارے کے لیے واحد دوستانہ شے ایک درخت کی کھردری چھال، جو لاتعداد چھوٹی چھوٹی سرنگوں سے چھلنی اور کیڑے مکوڑوں سے بھری تھی۔
میں سونے کو لیٹ گیا لیکن میں نے شمع گل نہیں کی، کہ شاید اُس کے اپنے کمرے کی کھڑکی سے چھنتی یہ روشنی اس کی دمساز رہے۔ ہم ایک ہی کمرے میں رہتے تھے جس میں دو چھوٹی چارپائیاں تھیں۔ میں نے اس کے پلنگ کو دیکھا، جو اَن چھوا تھا، اور پھر کھڑکی سے باہر تاریکی پر نظر ڈالی جہاں وہ موجودتھا؛ اور ایک گرم و سپید بستر میں ننگے پیروں کے ساتھ بے لباس ہونے کے لطف کو غالباً پہلی بارمحسوس کرکے، چادروں کے درمیان کروٹ لی اورٹھیک اسی وقت اُس بے آرامی کو بھی محسوس کیا جس میں وہ اپنے کھردرے کمبل میں لپٹا،ساق پوشوں میں جکڑی ٹانگوں کے ساتھ، کروٹ بدلنے سے معذور، دکھتی ہوئی ہڈیاں لیے، وہاں اوپر رسیوں سے بندھا ہوا تھا۔ بستر، اجلی چادریں اور نرم گدا میسر ہونے پراپنی خوش قسمتی کا احساس ایک ایسی شے ہے جو اس رات سے مستقل طور پر میرے ساتھ رہاہے۔ اپنے ذہن میں، جو اتنی دیر سے اور اتنے مکمل طور سے اُس شخص پر مرکوز تھا جو ہم سب کے ذہنوں پر سوار تھا، یہی خیال لیے میں اونگھتے اونگھتے سو گیا۔

۴
میں نہیں جانتا کتابوں میں کہی گئی یہ کہانی کہاں تک درست ہے کہ اگلے وقتوں میں بندر، زمین کو ایک بار بھی چھوئے بغیر، ایک درخت سے دوسرے پر کودتے پھلانگتے روم سے اسپین پہنچ جایا کرتے تھے۔ میرے زمانے میں اتنے زیادہ درختوں سے بھری واحد جگہ اومبروسا کی خلیج کی پوری لمبائی، ایک سرے سے دوسرے سرے تک، اور اس کی وادی تھی، جو پہاڑ کی چوٹیوں تک چلی گئی تھی۔ اس بات کے لیے یہ علاقہ ہر جگہ مشہور تھا۔
اِن دنوں یہ علاقہ بہت بدل چکا ہے۔ لوگوں نے درخت فرانسیسیوں کی آمد کے بعد کاٹنے شروع کیے گویا کہ درخت نہ ہوے گھاس ہوئی جو ہر سال کاٹی جاتی ہے اور پھر اُگ آتی ہے۔درخت دوبارہ نہیں اُگے۔ پہلے پہل ہمارا خیال تھا کہ درخت کٹنے کا تعلق جنگ سے، نیپولین سے، اوراس عہد سے ہے؛ لیکن درخت تراشی اس کے بعد بھی جاری رہی۔ اب پہاڑی علاقے اتنے تہی ہو چکے ہیں کہ ہم جنھوں نے انھیں پہلے دیکھا ہے، انھیں دیکھ کر صدمہ محسوس کرتے ہیں۔
بہرحال اُن دنوں ہم جہاں کہیں جاتے، ہمارے اور آسمان کے درمیان ہمیشہ پتے اور شاخیں ہوتیں۔ زمین سے نزدیک اُگنے والے درخت صرف لیموں کے تھے لیکن ان کے درمیان بھی انجیر کے درختوں کی بل کھائی ہوئی شکلیں اُبھری ہوتی تھیں اور ان کے گھنے پتوں والے گنبد پہاڑیوں تک پھیلے میوہ زاروں پر محرابیں بنائے رہتے۔ ان میں چیری، نرم بہی، شفتالو، بادام یا ناشپاتی کے چھوٹے پیڑوں کے علاوہ آلوچے کے بڑے درخت تھے بلکہ سنجہ اور خرنوب کے درخت بھی تھے۔ کہیں کہیں ایک آدھ شہتوت کا پیڑ یا اخروٹ کا گانٹھ دار درخت بھی ہوتا۔ جہاں میوہ زار ختم ہوتے وہاں زیتونوں کے خاکستری نقرئی جھنڈ شروع ہو جاتے جو گچھوں کی شکل لیے ہوے بادل کی طرح نصف دامنِ کوہ تک پھیلے ہوے تھے۔ پس منظر میں گاؤں تھا جو بندرگاہ اور پہاڑی کے درمیان اس طرح دبکا ہوا تھا کہ اس کے نشیب میں بندرگاہ اور بلندی پر پہاڑی تھی اور وہاں بھی چھتیں درختوں کی چوٹیوں سے مزین تھیں، جو چیڑ اور بلوط کے، مغرور اور الگ تھلگ منظم ہجوم کی شکل میں، اس طرف کو مڑتے ہوے درخت تھے جہاں امرا نے اپنی حویلیاں بنا رکھی تھیں اور اپنے باغات کے گرد چار دیواریاں اٹھا رکھی تھیں۔
زیتونوں سے اوپر جنگل شروع ہوتے تھے۔ کسی زمانے میں اس سارے علاقے پر چیڑ کے پیڑوں کا غلبہ رہا ہوگا کیونکہ اکا دکا جھنڈ نشیب کے ساتھ ساتھ ساحلوں تک یہاں وہاں ابھی تک اُگے ہوے تھے۔ اس زمانے کے بلوط، ان بلوطوں کی نسبت جومجھے آج نظر آتے ہیں،توانا ہوتے تھے، کیونکہ وہی کٹائی کاپہلا، سب سے قیمتی شکار تھے۔ ذرا اور بلندی پر صنوبروں نے شاہ بلوطوں کے لیے جگہ خالی کردی تھی جو اوپر ہی اوپر جہاں تک نظر جاتی تھی، دامنِ کوہ تک چلے گئے تھے۔ یہ وہ عرقِ حیات کی دنیا تھی جس کے بیچ ہم، اومبروسا کے ساکن، تقریباً اس پر توجہ دیے بغیر رہتے تھے۔
ان ساری باتوں پر سوچ بچار کرنے والا پہلا شخص کوسیمو تھا۔ اس نے ادراک کیا کہ درخت اس قدر گھنے ہیں کہ وہ ایک شاخ سے دوسری شاخ پر جاتے ہوے زمین پر اترنے کی ضرورت سے بے نیاز رہ کر میلوں تک جاسکتا ہے۔ بعض اوقات عریاں میدان کا کوئی ٹکڑا اسے لمبے چکر کاٹنے پر مجبور کر دیتا لیکن وہ جلد ہی تمام ضروری راستے جان گیا اور اس پیچ و خم سے پُر راہ کو ہمیشہ ذہن میں رکھتے ہوے جواسے شاخوں پر اختیار کرنی ہوتی تھی، ہمارے اندازوں سے بالکل مختلف حساب سے فاصلوں کی پیمائش کرنے لگا، اور جہاں وہ سب سے نزدیکی شاخ پر چھلانگ کے ذریعے بھی نہیں پہنچ سکتا تھا، وہاںاپنی ہی خاص ترکیبیں استعمال کرنے لگا۔ لیکن یہ سب میں بعد میں بیان کروں گا۔ ابھی ہم صرف اس پہلے سویرے تک پہنچے ہیں جب اس نے آنکھ کھلنے پر اپنے آپ کو پرپھڑپھڑاتی میناؤں کے درمیان، ٹھنڈی اوس میں تربتر، اکڑے ہوے منجمد بدن کے ساتھ ایک شاہ بلوط پر پایا، اس حال میں کہ اس کی ہڈیاں دُکھ رہی تھیں اور ٹانگیں اور بازو ٹیسوں سے جھنجھنا رہے تھے، اور خوشی خوشی ایک نئی دنیا دریافت کرنے کی راہ پرچل پڑا ۔
وہ باغ کے آخری درخت تک پہنچا جو شیشم کا تھا۔ اس کے نیچے دھند جیسے بادلوں اور چٹانوں کے پیچھے پتھر کے ڈھیروں کی طرح چھپی جھونپڑیوں کی پتھریلی چھتوں سے اٹھتے دھویں بھرے آسمان تلے، دور تک وادی پھیلی ہوئی تھی۔ چیری اور انجیر کے درختوں نے پتوں کا ایک اور آسمان بنا رکھا تھا۔ اس کے نیچے آڑو اور ناشپاتی کے درختوں کی پھیلی شاخیں آگے کو نکلی ہوئی تھیں۔ ہر چیز واضح اور روشن تھی، حتیٰ کہ گھاس کی پتی پتی بھی، ماسواے مٹی اور اس پر رینگتے کدّو کے پتے یا نقطے دارکاہُو یا فصلوں کے روئیں کے۔ وادی ’’وی‘‘سے ملتی جلتی جس شکل میںسمندر کے ایک اونچے قیف پر پھیلی تھی،اس کے دونوں پہلوؤں پریہی صورت تھی۔
اس ارضی منظر میںایک طرح کی لہر مرتعش تھی جومرئی نہیں تھی، اور کبھی کبھار کے سوا قابل ِسماعت بھی نہیں تھی، لیکن جو کچھ سنائی دے سکتا تھا وہ ایک بے چینی کا احساس پیدا کرنے کے لیے کافی تھا۔ ایک اچانک تیز چیخ، اور پھر کسی گرتی ہوئی چیز کے ٹکرانے کی مدھم آواز اور غالباً کسی ٹوٹتی شاخ کی کڑکڑاہٹ بھی، اور ناراض آوازوں کی مزید چیخیں، جو اِس بار مختلف تھیں اور اس مقام پر مرتکز ہو رہی تھیں جہاں سے چیخ پہلے سنائی دی تھی۔ پھر کچھ بھی نہیں، فقط ایک معدومیت کااحساس، گویا کہ یہ سب کچھ جنگل کے کسی بالکل مختلف حصے میں پیش آرہا ہو؛ اور درحقیقت آوازیں اور صدائیں اب دوبارہ آنے لگی تھیں لیکن وادی کی ایک طرف یا دوسری طرف سے آتی معلوم ہورہی تھیں، ہمیشہ وہاںسے جہاں چیری کے درختوںکے دندانے دار چھوٹے چھوٹے پتے ہوا سے جنباں تھے، اور اس طرح کوسیمو نے، جس کے ذہن کا ایک حصہ اپنے طور پر بھٹک رہاتھا جبکہ ایک اور حصہ ان سب باتوں کو قبل از وقت جانتا اور سمجھتا محسوس ہوتا تھا، اپنے ذہن میں اس خیال کو کوندتے پایا: چیری کے پیڑ بولتے ہیں۔
اس نے قریب ترین چیری کے پیڑ، یا یوں کہیے پیڑوں کی قطار، کی طرف بڑھنا شروع کیا جو اونچے اور بہت سے سبز پتوں والے تھے اور سیاہ چیریوں سے بھرے ہوے تھے۔ لیکن میرے بھائی نے ابھی تک اپنی آنکھ کو شاخوں پر موجود اورغیرموجود کا فوری فرق دیکھ لینے کی تربیت نہیں دی تھی۔ وہ ٹھہر گیا، آوازیں اب بند ہو گئی تھیں۔ وہ زیریں ٹہنیوں پر تھا اور اوپر کی ساری چیریوں کا وزن خود پر محسوس کر رہا تھا۔ وہ اس کی وجہ نہیں بتا سکتا تھا مگر وہ اس پر مرتکز ہوتی معلوم ہورہی تھیں جیسے وہ درحقیقت ایک ایسے درخت پر ہو جہاں چیریوں کے بجاے آنکھیں ہی آنکھیں ہوں۔
کوسیمو نے اپنا چہرہ اٹھایا تو ایک زیادہ پکی ہوئی چیری ٹپ سے اس کے ماتھے پر گری۔ اس نے اوپرسورج کی سمت (جو اونچا ہوتا رہا تھا) دیکھنے کے لیے اپنی آنکھوں پر زور دیا تو دیکھا کہ جس درخت پر وہ ہے اور جو درخت آس پاس ہیں، سارے کے سارے بسیرا لیے ہوے نوعمر لڑکوں سے بھرے ہیں۔
جب انھوں نے محسوس کیا کہ انھیں دیکھ لیا گیا ہے تو اپنی خاموشی توڑی اور ایک دوسرے کو تیز، گو دبی ہوئی آواز میں کچھ بتانے لگے جو یوں سنائی پڑتا تھا: ’’ذرا دیکھو تو، اس نے کیا پہن رکھا ہے!‘‘ پھر ان میں سے ہر ایک اپنے سامنے سے پتّے ہٹاتے ہوے، جس شاخ پر تھا اس سے نچلی شاخ پر، تین کونوں والا ہیٹ لگائے ہوے لڑکے کی طرف اتر آیا۔ وہ ننگے سر تھے یا پھٹے ہوے تنکوں کے ہیٹ پہنے تھے۔ کچھ نے تو اپنے سر ٹاٹ میں لپیٹ رکھے تھے۔ انھوں نے پھٹی ہوئی قمیصیں اور جانگیے پہن رکھے تھے۔ جو ننگے پیر نہیں تھے انھوں نے پیروں پر چیتھڑوں کی گندی دھجیاں لپیٹ رکھی تھیں۔ اور ایک دو نے تو، آسانی سے چڑھنے کے لیے، کھڑاویں اتار کے گردن میں لٹکا رکھی تھیں۔ یہ پھل چوروں کا بڑا گروہ تھا جس سے، والدین کے احکام کی فرمانبرداری میں، کوسیمو اور میں جہاں تک ممکن تھا ہمیشہ دور رہے تھے۔ مگر اس صبح میرا بھائی ان کا منتظر معلوم ہوتا تھا حالانکہ اس کے ذہن میں اس ملاقات کے ماحصل کا کوئی زیادہ واضح تصور نہیں تھا۔
اپنی جانب ان کے نیچے اترنے کے دوران وہ ساکت کھڑا انتظار کرتا رہا۔ وہ اس پر اس طرح کے کرخت جملے اچھالتے ہوے کہ’’ یہ اپنے خیال میںکیا کرنے جارہا ہے، ہونہہ؟‘‘ اس پر چیری کی گٹھلی تھوکتے یا کیڑوں اور پرندوں کی کھائی ہوئی کوئی چیری گھما کے پھینکتے جیسے غلیل سے پتھر مار رہے ہوں۔
’’اوہ!‘‘اچانک وہ چلّائے۔ اس کے پیچھے لٹکتا نیمچہ انھوں نے دیکھ لیا تھا۔ ’’ذرا دیکھو تو، اس کے پاس کیا ہے؟‘‘ اور سب ٹھٹھا مار کے ہنس پڑے۔
پھر وہ رکے اور انھوں نے اپنی ہنسی کو گھونٹ دیا جیسے کوئی بہت ہی مزیدار بات واقع ہونے والی ہو۔ چھوٹے لڑکوں میں سے دو بہت خاموشی سے کوسیمو کے عین اوپر واقع شاخ پر آگئے تھے اور اس کے سر پر ایک کھلی بوری کا منھ اوندھا رہے تھے، جو ان غلیظ بوریوں میں سے ایک تھی جسے انھوں نے اپنا مالِ غنیمت رکھنے کے لیے استعمال کیا ہوگا اور جنھیں خالی ہونے پر وہ اپنے سر اور شانوں پر سر پوش کی طرح رکھتے تھے۔
ذرا سی دیر میں میرے بھائی نے یہ جانے بغیر کہ ایسا کیونکر ہوا، اپنے آپ کو بوری میں لپٹا ہوا ، اور پھر سموسے کی طرح بندھا ہوا پایا ہوتا،کہ وہ اس کی پٹائی کرسکیں۔کوسیمو نے خطرہ بھانپ لیا، یا ہو سکتا ہے اس نے کچھ بھی نہ بھانپا ہو۔ یہ جان کر کہ وہ اس کے نیمچے کا ٹھٹھول کر رہے ہیں اس نے اسے عزت کا معاملہ سمجھ کر بے نیام کرلیا۔ اس نے نیمچہ لہرایا تو اس کا پھل بوری میں چبھ گیا اوراس نے ایک جھٹکے کے ساتھ اسے دونوں چھوٹے چوروں کے ہاتھوں سے کھینچ کر دور اچھال دیا۔
یہ ایک اچھی چال تھی۔ دوسروں کے منھ سے اچانک ’’او!‘‘ کی آواز نکلی جو مایوسی کے ساتھ ساتھ حیرت کی بھی غمازتھی۔ وہ اپنی خاص بولی میں اُن دونوں کو گالیاں دینے لگے جنھوں نے بوری کو چھن جانے دیا تھا۔
مگر کوسیمو کو اس کامیابی کے لیے خود کو مبارک باد دینے کی مہلت نہیں ملی۔ کیونکہ اچانک ایک نئی ہلچل پیداہوگئی تھی جو اس بار نیچے زمین کی جانب سے تھی؛ کتوں کے بھونکنے کا شور، پتھروں کی بوچھاڑ اور ’’اس بار نہیں بچو گے، غلیظ چورو!‘‘ کے نعرے؛ دو شاخہ بلّموں کی نوکیں اوپر تک پہنچ رہی تھیں۔ درخت پر بیٹھے لڑکے ٹانگیں اور کہنیاں سمیٹ کے شاخوں سے لپٹ گئے۔ کوسیمو کے گرد مچائے جانے والے غل نے نگرانی کرتے ہوے باغبانوں کو ہوشیار کر دیا تھا۔
بڑی نفری کے ساتھ ہونے والے اس حملے کی پہلے سے تیاری کی گئی تھی۔ اس بات سے تنگ آکر کہ ان کے پھل پکتے ہی چرا لیے جاتے ہیں، بہت سے چھوٹے زمینداروں اور کرایہ دار کسانوں نے ایک گروہ بنایا تھا کیونکہ چھوٹے لڑکوں کی حکمتِ عملی کا، جو کسی میوہ زار میں اکٹھے گھس کر لوٹ مار کرنے کے بعد مخالف سمت میں بھاگ جانے پر مبنی تھی،جواب خود اسی حکمتِ عملی کے استعمال میں مضمر تھا، یعنی سب مل کر اس میوہ زار پر نظر رکھیں جہاں لڑکوں کا جلد یا بدیر آنا لازم تھا اور انھیں رنگے ہاتھوں پکڑلیں۔ اب کتے، جن کی تھوتھنیوں پر سے چھینکے ہٹا دیے گئے تھے، چیری کے درختوں سے لگے، غراتے ہوے، اپنے عریاں دانت کچکچا رہے تھے جب کہ بھوسا کریدنے والی ترنگلوں کے پھل ہوا میں لہرائے جارہے تھے۔ چھوٹے چوروں میں سے تین چار، سہ شاخہ بلّموں سے اپنی کمر چھدوانے اور اپنے چوتڑوں پر کتوں سے کٹوانے کے لیے، بالکل عین وقت پر زمین پر کود پڑے اور چیختے چلّاتے اور لڑکھڑاتے ہوے انگور کی بیلوں میں بھاگ گئے۔ اوروں نے نیچے آنے کی ہمت نہیں کی۔ وہ جہاں تھے وہیں رکے کانپتے رہے۔ کوسیمو بھی انھیں میں تھا۔ پھر باغبان درختوں کے ساتھ سیڑھیاں لگا کر اوپر چڑھنے لگے۔ ان کے آگے آگے دو شاخہ بلموں کی نوکیں تھیں۔
کوسیمو کو یہ سمجھنے میں چند ثانیے لگے کہ محض لڑکوں کی دہشت زدگی اس کے لیے دہشت زدہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے،بالکل اسی طرح جیسے اس کے لیے یہ سوچنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ لڑکے چالاک ہیں اور وہ خودنہیں ہے۔ یہ حقیقت کہ وہ احمقوں کی طرح وہاں بیٹھے رہ گئے تھے، اس بات کا کافی ثبوت تھا۔ وہ آس پاس کے درختوں پر کیوں نہیں نکل گئے؟ میرا بھائی وہاں ایک راستے سے ہو کرپہنچا تھا، لہٰذا اسی راستے سے بھاگ بھی سکتا تھا۔ اس نے اپنے سر پہ ہیٹ نیچے کھینچ لیا اور اس شاخ کو تلاش کیا جسے پل کی طرح استعمال کیا تھا، اور چیری کے آخری درخت سے ایک خرنوب پر پہنچ گیا۔ پھر خرنوب سے لٹکتا ہوا ایک آڑو کے درخت پر اتر گیا اور اسی طرح آگے بڑھتا رہا۔ اوروں نے جب اسے شاخوں پر کسی ماہر کی طرح بڑھتے دیکھتا تو محسوس کیا کہ انھیں اس کے بالکل پیچھے پیچھے جانا چاہیے ورنہ وہ اس کا راستہ کبھی نہ پاسکیں گے۔ سو وہ خاموشی سے چاروں ہاتھ پیروں پر اس کے معلق راستے پر بڑھنے لگے۔ اس دوران وہ ایک انجیر کے درخت پر چڑھ کر، ایک کھیت کے کنارے کنارے ہوتا ہو،ا ایک آڑو کے درخت پر اتر آیا تھا جس کی شاخیں اتنی نازک تھیں کہ لڑکوں کو ایک ایک کرکے گزرنا پڑا۔ وہ آڑو کے درخت پر محض ایک زیتون کے بل کھائے تنے کو پکڑنے کے لیے چڑھتے تھے۔ زیتون پر سے وہ ایک بلوط پر کود گئے جس کی ایک موٹی شاخ چشمے کے اوپر بڑھتی ہوئی تھی، اور اس طرح دوسرے کنارے کے درختوں پر پہنچ گئے۔
دو شاخہ بلم لیے ہوے آدمیوں نے، جن کا خیال تھا کہ انھوں نے پھل چوروں کو آخرکار پکڑ لیا ہے، انھیں پرندوں کی طرح ہوا میں زقندیں بھرکر فرار ہوتے دیکھا۔ انھوں نے بھونکتے کتوں کے درمیان دوڑتے ہوے ان کاپیچھا کیا، مگر انھیں باڑ کے گرد گھوم کر آنا پڑا، پھر دیوار پھاندنی پڑی، پھر چشمے کے اِدھر ایک مقام پر، جہاں پل نہیں تھا ،پایاب جگہ ڈھونڈنے میں وقت گنوانا پڑا، اور جب آخرکار وہ اس پار پہنچے تو انھوں نے لڑکوں کو دور فاصلے پر بھاگتے دیکھا۔
ان کے پاؤں زمین پرتھے اور وہ انسانوں کی طرح بھاگ رہے تھے۔ صرف میرا بھائی شاخوں پر رہ گیا تھا۔ ’’وہ ساق پوشوں والا جھانپو کہاں گیا؟‘‘ اسے اب تک آگے نہ دیکھ کر انھوں نے ایک دوسرے سے پوچھا۔ انھوں نے اوپر نظر دوڑائی۔ وہ زیتونوں میں اپنا راستہ بنا رہا تھا۔’’ ارے، تم نیچے آؤ۔ اب ہم نے ان سے چھٹکارا پا لیا ہے!‘‘لیکن نیچے آنے کے بجاے وہ شاخ در شاخ، ایک سے دوسرے زیتون پر پھلانگتا رہا یہاں تک گھنے نقرئی پتوں کے درمیان نظر سے اوجھل ہو گیا۔

ننھے آوارہ گردوں کی ٹولی، سروں پر بوریاں اور ہاتھوں میں بید لیے، اب وادی کے نشیب میں واقع چیری کے درختوں پر حملہ زن تھی۔ وہ ایک شاخ کے بعددوسری شاخ کو پھلوں سے خالی کرتے ہوے منظم طریقے سے کام کر رہے تھے کہ اچانک ان کی نظر ساق پوش لڑکے پر پڑی، جو سب سے اونچے درخت کے اوپری حصے پر آلتی پالتی مارے، چیری کے گچھے توڑ توڑ کر اپنی گود میں رکھے ہیٹ میں ڈال رہا تھا۔ ’’ارے، تم یہاں کیسے پہنچے؟‘‘ انھوں نے ہیکڑی سے پوچھا۔ مگر وہ خوش نہیں تھے کیونکہ ایسا لگتا تھا جیسے وہ اڑ کر وہاں آیا ہو۔
میرا بھائی اب اپنے ہیٹ سے ایک ایک کرکے چیریاں نکال کر اپنے منھ میں اس طرح رکھ رہا تھا جیسے وہ مٹھائی کی ڈلیاں ہوں۔ پھر وہ ہونٹوں سے گٹھلیاں احتیاط کے ساتھ تھوک دیتا مبادا وہ اس کی واسکٹ کو داغ دار کردیں۔
’’یہ کیک خور،‘‘ ایک لڑکا بولا، ’’ہم سے کیا چاہتا ہے؟ یہ ہمیں کس لیے پریشان کرنے آیا ہے؟ یہ اپنے باغ میں جا کر چیریاں کیوں نہیں کھاتا؟‘‘ لیکن وہ قدرے خجل تھے کہ درختوں پر چڑھنے میں وہ ان سب سے کہیں تیز تھا۔
’’آئس کریم کھانے والوں میں،‘‘ ایک اور بولا، ’’کبھی کبھی غلطی سے کوئی کائیاں اتفاقاً ظاہر ہو ہی جاتا ہے، مثال کے طور سنفوروزا کو ہی لو۔۔۔‘‘
اس پر اسرار نام پر کوسیمو کے کان کھڑے ہو گئے اور وہ،نہ معلوم کیوں، شرما گیا۔
’’سنفوروزا نے ہم سے غداری کی ،‘‘ ایک اور لڑکابولا۔
’’لیکن وہ تیز تھی، کیک خور ہو کر بھی تیز تھی۔ اور آج صبح اگر وہ اپنا بھونپو بجانے کو موجود ہوتی تو وہ ہمیں پکڑ نہ پاتے۔‘‘
’’بلاشبہ کیک کھانے والے بھی، اگر وہ ہماری طرف ہوں تو، ہمارے ساتھ آسکتے ہیں۔‘‘
(کوسیمو اب سمجھ گیا تھا کہ’ کیک کھانے والا‘ سے مراد کسی کوٹھی میں رہنے والا، اعلیٰ خاندان والا، یا کم از کم کوئی رتبے والا ہے۔)
’’سنو بھئی،‘‘ ایک نے اس سے کہا، ’’صاف بات یہ ہے کہ اگر تم ہمارے ساتھ آنا چاہتے ہو تو ہمارے ساتھ پھل چرانے ہوں گے اور اپنے سارے گر ہمیں سکھانے ہوں گے۔‘‘
’’اور ہمیں اپنے باپ کے میوہ زاروں میں لے چلو،‘‘ ایک اوربولا۔ ’’وہاں ایک دفعہ مجھ پر گولی چلی تھی!‘‘
اپنی سوچوں میں نیم منہمک کوسیمو ان کی باتیں سنتا رہا۔ پھر وہ بولا، ’’یہ توبتاؤ یہ سنفوروزا کون ہے؟‘‘
اس پر شاخوں میں بکھرے ہوے سارے پھٹیچر ٹھٹھا مار کر اس زور سے ہنسے کہ ایک تو چیری کے درخت سے تقریباً گر ہی پڑا اور ایک نے ٹانگوں کے سہارے شاخ کو پکڑ کراپنے آپ کو بمشکل سنبھالا، اور ایک اور اپنے ہاتھوں کے بل لٹک گیا۔ اس تمام وقت ان کے قہقہے آسمان کو چھو رہے تھے۔
انھوں نے ایسا غل مچایا کہ تعاقب کرنے والے دوبارہ ان کے سر پہ آ پہنچے۔ درحقیقت آدمی اور کتے پیڑ کے بالکل نیچے ہی رہے ہوں گے کیونکہ کتوں کے بھونکنے کی اونچی آواز آئی اور پھر دو شاخہ بلم دوبارہ اوپر آگئے۔ مگر اس بار، اپنے حالیہ دھچکے سے محتاط ہو کر، انھوں نے پہلے آس پاس کے درختوں کو گھیرا اور سیڑھیوں سے ان پر چڑھ گئے، اور وہاں سے کریدنیوں اور ترنگلوں کے ذریعے ٹولی کو گھیر لیا۔ زمین پر کتے، جن کے سارے آدمی درختوں پر بکھرے ہوے تھے، نہیں سمجھ پا رہے تھے کہ کدھر کو جائیں۔ وہ ہوا میں تھوتھنیاں اٹھائے بھونکتے پھر رہے تھے۔ اس طرح ننھے چوروں کو جلدی سے زمین پر کودنے کا موقع مل گیا اور وہ بوکھلائے ہوے کتوں کے درمیان سے مختلف سمتوں میں بھاگ نکلے۔ حالانکہ ایک آدھ کو پنڈلی پر کتوں نے کاٹ کھایا یا پتھر سے چوٹ لگی مگر زیادہ تر صحیح سلامت بچ نکلے۔
’’ٹھہرو!‘‘ ایک آواز ابھری، ’’یہ تو چھوٹے بیرن پیوواسکو ہیں! آپ اوپر کیا کر رہے ہیں جناب؟ آپ ان رذیلوں میں کہاں آگئے؟‘‘
کوسیمو نے جیادیلاواسکا کو پہچان لیا جو ہمارے والد کا ایک مزدور تھا۔ دو شاخے ہٹ گئے اور ٹولی میں بہت سوں نے اپنے ہیٹ اتار لیے۔ میرا بھائی بھی دو انگلیوں سے اپنا ہیٹ اٹھاتے ہوے جھکا۔
’’ارے تم، جو نیچے کھڑے ہو، کتوں کو باندھ لو!‘‘ انھوں نے چلاّ کر کہا۔ ’’چھوٹے بیرن کو نیچے آنے دو! آپ نیچے آسکتے ہیں جناب، لیکن ذرا احتیاط کیجیے گا، یہ درخت کافی اونچا ہے! ذرا ٹھہریے۔ ہم سیڑھی لگا دیتے ہیں۔ پھر میں آپ کو واپس گھر لے چلوں گا!‘‘
’’نہیں، شکریہ، شکریہ،‘‘ میرے بھائی نے کہا۔ ’’اپنے آپ کو پریشان مت کرو۔ مجھے راستہ معلوم ہے۔ میں اپنا راستہ جانتا ہوں!‘‘
وہ تنے کے پیچھے غائب ہو کر ایک اور شاخ پر نمودار ہوا۔ پھر تنے کے گرد تیزی سے گھومتے ہوے ایک اور بلند شاخ پر نمودار ہوا۔ وہ اس شاخ کے پیچھے غائب ہو گیا اور پھر اوپر گھنے پتوں کی وجہ سے ایک اور بلند شاخ پر صرف اس کے پیر ہی نظر آئے۔ پھر اس کے پیر اچھلے اور وہ غائب ہو گیا۔
’’کہاں چلا گیا؟‘‘ آدمی جنھیں معلوم نہ تھا کہ اسے اوپر ڈھونڈیں یا نیچے، ایک دوسرے سے پوچھنے لگے۔
’’وہ رہا!‘‘ وہ دور ایک اور درخت کی چوٹی پر نظر آیا اور پھر غائب ہو گیا۔
’’وہ رہا!‘‘ وہ دور ایک اور درخت کی چوٹی پر جھولتے ہوے، گویا کہ ہوا سے جنباں ہو، چھلانگ لگا رہا تھا۔
’’شاید گر پڑا ہے! نہیں! وہ رہا!‘‘ سبز موجزن رنگ کے اوپراگر کچھ دکھائی دے رہا تھا تو اس کا ہیٹ اور گندھے ہوے بالوں کی چوٹی۔ ’’تمھیں بھی کیسا مالک ملا ہے!‘‘ دوسروں نے جیادیلاواسکا سے پوچھا۔ ’’آدمی ہے یا وحشی جانور؟ یا بذاتِ خود شیطان ہے؟‘‘
جیادیلاواسکا ہانپ رہا تھا۔ اس نے اپنے سینے پر صلیب کا نشان بنا یا۔
پھر کوسیمو کا گیت سنائی دینے لگا جو ایک قسم کی مشقی تان تھی۔ ’’اوہ، سن- فو-ر و-زااا!‘‘

۵
سنفوروزا— ٹولی کی بک بک سے کوسیمو اس اہم شخصیت کے بارے میں بتدریج بہت کچھ جان گیا۔ یہ وہ نام تھا جو انھوں نے حویلی کی مکین ایک ننھی لڑکی کودیا تھا۔ وہ ایک پستہ قدسفیدٹٹو پر گھومتی تھی اور اس نے ان لڑکوں سے دوستی کرلی تھی۔ اس نے کافی وقت تک انھیں بچایا تھا، بلکہ ان پر حاوی ہونے کے باعث، ان کی کمان بھی کی تھی۔ وہ ٹٹوپر سوار، سڑکوں اور راستوں پر گھومتی پھرتی اور جہاں کسی بے حفاظت میوہ زار میں پکے ہوے پھل دیکھتی، انھیں بتا دیتی، اور پھر ٹٹوکی پشت سے کسی افسر کی طرح ان کے حملے پر نظر رکھتی۔ جس وقت لڑکے بادام اور ناشپاتی کے درختوں کو تاراج کر رہے ہوتے، وہ اپنی گردن میں ایک شکاری بھونپو ڈالے ڈھلوانوں پر اوپر نیچے ٹٹودوڑاتی رہتی جہاں سے وہ سارا دیہاتی منظر دیکھ سکتی اور جونہی کوئی مشتبہ نقل و حرکت دیکھتی ،جس سے ان کے پکڑے جانے کا اندیشہ ہوتا، بھونپو بجانے لگتی۔
بھونپو کی آواز سنتے ہی لڑکے درختوں سے کود پڑتے اور چھپ جاتے۔ سو جب تک چھوٹی لڑکی ان کے ساتھ تھی وہ ایک بار بھی نہیں پکڑے گئے تھے۔
بعد میں کیا ہوا، یہ سمجھنا مشکل ہے۔ سنفوروزا کی ’بے وفائی‘ دُہری لگتی تھی۔ ایک تو انھیں اپنے باغ میں پھل کھانے کی دعوت دینا اور پھر اپنے نوکروں سے پٹوانا؛ پھر ان میں سے ایک کو، جس کا نام بیل لورے تھا اور جس پر اس بات کے لیے اب تک فقرے کسے جاتے تھے، اپنا منظورِ نظر بنانا اور اس کے ساتھ ہی ایک اور لڑکے سے، جس کا نام اگاسو تھا، پینگیں بڑھانا، اور پھر ان دونوں کو ایک دوسرے سے بھڑا دینا۔ اور پھر یہ کھلا کہ نوکروں نے لڑکوں کو اس وقت نہیں پیٹا تھا جب وہ پھل چرا رہے تھے، بلکہ اس وقت جب سنفوروزا نے دونوں حریفوں کو رد کر دیا تھا اور وہ دونوں اس کے خلاف ایک ہوگئے تھے۔ یہ بات بھی سنی گئی تھی کہ اس نے کچھ کیک لانے کا وعدہ کیا تھا لیکن انجام کار اس نے جو کیک انھیں دیے وہ ارنڈی کے تیل کے بنے تھے اور اس طرح ہفتے بھر تک ان کے پیٹوں میں مروڑ اٹھتے رہے تھے۔ ایسے ہی ایک واقعے نے، یا اس جیسے کسی واقعے نے، یا ان تمام واقعات نے مل کر، سنفوروزا اور ٹولی کے درمیان دراڑ ڈال دی تھی، اور اب وہ اس کا ذکر ایک تاسف آمیز تلخی کے ساتھ کرتے تھے۔
کوسیمو نے سر ہلاتے ہوے اشتیاق سے یہ کہانیاں سنیں گویا کہ ہر تفصیل اس کی جانی ہوئی تصویر میں ٹھیک بیٹھتی ہو۔ آخرکار اس نے یہ پوچھنے کا فیصلہ کیا، ’’لیکن یہ سنفوروزا آتی کون سی حویلی سے ہے؟‘‘
’’کیا؟ تمھارا مطلب ہے تم اسے نہیں جانتے؟ تم دونوں پڑوسی ہو! اونداریوا کی حویلی والی سنفوروزا!‘‘
اس تصدیق کے بغیر بھی کوسیمو کو یقین تھا کہ لڑکوں کی دوست، جھولے والی لڑکی، وِیولا ہی ہے۔ میرے خیال میں اس کی وجہ یہ تھی کہ ویولا نے کہا تھا وہ آس پاس کے سارے پھل چوروں کو جانتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ کوسیمو نے پہلے ٹولی کو ڈھونڈنا شروع کیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود، اس واقعے کے بعد سے اس کے اندر کی خواہش، حالانکہ وہ ابھی تک مبہم تھی، شدید تر ہوتی گئی۔ کسی لمحے تو وہ خود کو اس خواہش سے مغلوب پاتا کہ اونداریوا کے میوہ زاروں پر ٹولی کے حملے کی قیادت کرے۔ کبھی سوچتا کہ ٹولی کے خلاف اپنی خدمات ویولا کو پیش کرے (غالباً ویولا کو تنگ کرنے کے لیے ٹولی کو اکسانے کے بعد، تاکہ اس کا بچاؤ کرنے کے قابل ہوسکے)۔ پھر سوچتا کہ بہادری کا ایسا کارنامہ انجام دے جو ویولا تک بالواسطہ پہنچ سکے۔ اپنے سر میں ان سارے خیالات کی ہلچل لیے وہ زیادہ سے زیادہ بٹی ہوئی توجہ کے ساتھ ٹولی کا ساتھ دیتا رہا۔ جب وہ درختوں سے چلے جاتے اور وہ تنہا رہ جاتا تو اس کے چہرے پر اداسی کا سایہ یوں چھا جاتا جیسے سورج پر بادل۔
پھر اچانک وہ بلی کی سی پھرتی سے اچھلتا اور شاخوں پر سے ہوتا ہوا میوہ زاروں اور باغوں کے پار نکل جاتا۔ اس دوران وہ بھنچے ہوے دانتوں کے ساتھ کوئی کشاکش والا مختصر گیت گنگناتا رہتا اور اس کی نظر یوں ساکت رہتی جیسے کچھ بھی نہ دیکھ رہی ہو اور وہ بالکل بلی کی طرح جبلت سے اپنا توازن قائم رکھتا۔
ہم اسے مختلف وقتوں میںاپنے باغ کی شاخوں پر سے مکمل انہماک کے عالم میں گزرتے دیکھا کرتے۔ ’’وہ رہا!‘‘ ہم اچانک چلاّتے کیونکہ ہم جو کچھ بھی کررہے ہوتے، وہ اب تک ہمارے ذہنوں پر سوار رہتا۔ وہ جب سے درختوں پر تھا ہم گھنٹے اور دن گنا کرتے تھے۔ ہمارے والد کہتے، ’’وہ پاگل ہے! اس کے اندر کوئی شیطان حلول کر گیاہے!‘‘ اور پھر ایبے فوشیلی فلیئر پر حملہ کرتے۔ ’’اس کا واحد علاج جھاڑپھونک ہے! تم کس بات کا انتظار کر رہے ہو؟ میں تم سے پوچھتا ہوں، میرے ایبے، تم ہاتھ باندھے وہاں کیا کر رہے ہو؟ اس کے اندر شیطان ہے، میرے اپنے بیٹے کے اندر۔ تم سمجھتے ہو؟ خدا کی پناہ!‘‘
لگتا تھا لفظ ’شیطان‘ نے ایبے کے ذہن میں سوچ کے ایک باضابطہ سلسلے کو بیدار کر دیا ہے۔ وہ یکایک اپنی سستی سے نکل آیا اور شیطان کی موجودگی کو مناسب طور پر سمجھے جانے کے بارے میں دینیات کا ایک انتہائی پیچیدہ خطبہ شروع کر دیا۔ لیکن یہ واضح نہیں تھا کہ وہ میرے والد کی تردید کر رہا ہے یا محض عمومی بات کر رہا ہے۔ دراصل اس نے شیطان اور میرے بھائی کے درمیان تعلق کے ممکن ہونے یاسرے سے خارج از امکان ہونے کے بارے میں حتمی طور سے کچھ کہا ہی نہیں۔
ہمارے والد بیرن بے صبر ہو گئے، ایبے کے خیالوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا، میں پہلے ہی اکتایا ہوا تھا۔ دوسری طرف ہماری والدہ کی مادرانہ تشویش کا عالم، عملی فیصلوں اور ٹھوس طریقوں اور ذریعوں کی تلاش میں مستحکم ہو گیا تھا جیساکہ کسی جنرل کی ذہنی مصروفیت کو ہونا چاہیے۔ انھوں نے ایک لمبی جنگی دوربین ڈھونڈ نکالی تھی اور اسے آنکھوں سے لگائے رہتیں اور یوں حویلی کی بالکنی میں گھنٹوں گزار دیتیں۔ پتوں کے درمیان لڑکے کو نظر میں رکھنے کے لیے وہ عدسوں کو وقفے وقفے سے آگے پیچھے کرتی رہتیں، اس وقت بھی جب ہم حلفیہ کہہ سکتے تھے کہ وہ دوربین کی پہنچ سے باہر ہے۔
’’کیا تم اسے اب بھی دیکھ سکتی ہو؟‘‘ باغ میں درختوں کے نیچے ٹہلتے ہوے ہمارے والد پوچھتے۔ سواے اس صورت کے کہ وہ بالکل ہی ان کے سر پر ہو، وہ خودکوسیمو کو کبھی نہ دیکھ پاتے۔ جنرلیسا اثبات میں اشارہ کرتیں اور یہ کہ ہم مخل نہ ہوں، گویا وہ کسی پہاڑی پر فوجی دستوں کی نقل و حرکت کاجائزہ لے رہی ہوں۔ ظاہر ہے کہ بعض اوقات وہ اسے بالکل ہی نہ دیکھ پاتیں۔ میں اس کی وجہ نہیں بتا سکتا تھا مگر ان کا ایک پختہ اندازہ تھا کہ وہ کہیں اور نہیں، ایک مقررہ جگہ پر ہی ظاہر ہوگا اور وہ اپنی دوربین کو وہیں مرکوز رکھتیں۔ انھوں نے یقینا بار بار اپنے آپ سے تسلیم کیا ہوگا کہ انھوں نے کوئی غلطی کر دی ہے، اور پھروہ دوربین سے نظر ہٹا کر اپنے گھٹنوں پر کھلا ہوا ایک نقشہ دیکھنے لگتیں۔ ان کا ایک ہاتھ فکرمند انداز میں اپنے منھ پر ہوتا اور دوسرا نقشے کے تصویری خطوط پر، یہاں تک کہ وہ اس مقام پر ٹھہر جاتیں جہاں ان کے بیٹے کو پہنچ جانا چاہیے تھا۔ پھروہ زاویے کھینچتیں اور اپنی دوربین کو اس پتوں کے سمندر میں کسی درخت کی چوٹی پر پھیر دیتیں۔ وہ عدسوں کو آہستہ آہستہ فوکس میں لاتیں اور پھر ان کے ہونٹوں پرکھیلتی نرم مسکراہٹ ہمیں بتا دیتی کہ انھوں نے کوسیمو کو دیکھ لیا ہے اور وہ واقعی وہاں ہے۔
اس کے بعد وہ اسٹول پر رکھی چند رنگین جھنڈیاں اٹھاتیں اور اشاروں کی طرح باری باری حتمی متناسب انداز میں لہراتیں۔ (یہ بات مجھے قدرے ناخوش کرتی کیونکہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ ہماری والدہ کے پاس یہ جھنڈیاں ہیں اور وہ ان کا استعمال جانتی ہیں، اور میں سوچتا تھا کہ اگر انھوں نے جب ہم دونوں بچے تھے ہمیں جھنڈیوں سے اشارات کا کھیل سکھا دیا ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا۔ مگر ہماری والدہ کبھی نہیں کھیلتی تھیں، اور اب بہت دیر ہو چکی تھی۔)
تاہم مجھے یہ ضرور کہنا ہے کہ اپنے تمام جنگی آلات کے باوجود، ہاتھ میں رومال دبائے، ہر وقت فکرمند ،وہ ایک ماں ہی رہیں۔ سوچا جاسکتا ہے کہ وہ جنرل کا کردار ادا کرنے میں سکون پاتی ہوں گی یا یہ کہ اپنے خدشات کو ایک سیدھی سادی ماں کے بجاے ایک جنرل کی طرح بھلانے سے ان کی پریشانی کم ہوتی ہوگی۔ وہ بہرحال ایک نازک خاتون تھیں جن کا واحد دفاع وہ فوجی انداز تھا جو انھیں اپنے فان کرتیوتز اجداد سے ورثے میں ملا تھا۔
وہ اپنی ایک جھنڈی ہلاتے ہوے دوربین میں سے دیکھ رہی تھیں کہ اچانک ان کا چہرہ کھل اٹھا اور وہ ہنس پڑیں۔ ہم سمجھ گئے کہ کوسیمو نے جواب دیا ہے۔ کس طرح؟ میں نہیں کہہ سکتا، غالباً اپنا ہیٹ لہرا کر یا کسی بڑی شاخ کے سرے کو ہلا کر۔ اس لمحے کے بعد سے ہماری والدہ یقینا بدل گئیں۔ ان کی فکرمندی ختم ہو گئی۔ اگر کوسیمو جیسے نیارے اور معمول کی شفقت سے دور بیٹے کی ماں ہونے کے ناتے ان کی تقدیر دوسروں سے مختلف تھی تو ہم میں سے ہر کسی سے پہلے کوسیمو کے اس انوکھے پن کو قبول کرنے والی بھی وہی تھیں، گویا کہ ان سلاموں نے جو اس وقت کے بعد سے وہ انھیں غیرمتوقع طور پراس خاموش تبادلے سے بار بار بھیجتا، ان کا غصہ ٹھنڈا کر دیا ہو، انھیں منا لیا ہو۔
عجیب بات یہ تھی کہ ہماری والدہ نے اپنے آپ کو کبھی اس دھوکے میں نہیں رکھا کہ کوسیمو، جو انھیں سلام و آداب بھیج چکا ہے، اپنا فرار ختم کرکے ہمارے درمیان لوٹنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ دوسری طرف ہمارے والد مستقل طور پر اسی امید میں جیتے تھے اور کوسیمو کے بارے میں معمولی سی خبر پر بھی بول اٹھتے، ’’آہ، ہاں؟ تم نے اسے دیکھا ہے؟ وہ واپس آرہا ہے؟‘‘ لیکن ہماری والدہ ہی، جوایک طرح سے کوسیمو سے سب سے زیادہ دور تھیں، وہ واحد فرد نظر آتی تھیں جنھوں نے کوسیمو کو جوں کا توں قبول کرلیا تھا، شاید اس لیے کہ انھوں نے اپنے آپ کو کوئی توضیح پیش کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
لیکن ہمیں اُس دن کی طرف لوٹنا چاہیے۔ اب باتیستا، جو شاذ ہی باہر جاتی تھی، ہماری والدہ کے اسکرٹ کے عقب سے جھانکتی ہوئی نمودار ہوئی۔ اس کے ہاتھ میں پلیٹ تھی جس میں کوئی عجیب سی خوراک رکھی تھی۔ اس نے چمچا اوپر اٹھا کر کوکتے ہوے انداز میں پکارا، ’’کوسیمو!۔۔۔ تم یہ لو گے؟‘‘ لیکن اسے ہمارے والد سے ایک تھپڑ پڑا اور وہ اندر چلی گئی۔ کون جانے اس نے کیا وحشت خیز ملغوبہ تیار کیا تھا! ہمارا بھائی غائب ہو چکا تھا۔
میں اس کے نقشِ قدم پر چلنے کا آرزومند تھا۔ سب سے بڑھ کر یوں کہ اب میں جانتا تھا کہ وہ ننھے بدمعاشوں کے گروہ کی مہم جوئیوں میں حصہ لے رہا ہے، اور مجھے یوں لگتا تھا کہ اس نے ایک نئی سلطنت کے دروازے کھول دیے ہیں جسے اب خوف و بداعتمادی سے نہیں بلکہ ایک مشترکہ ولولے کے ساتھ دیکھا جانا چاہیے۔ میں چبوترے اور ایک اونچے دریچے کے درمیان، جہاں سے میں درختوں کی چوٹیوں کو دیکھ سکتا تھا، آگے پیچھے دوڑتا رہتا، اور وہاں سے، آنکھوں سے زیادہ کانوں کی مددسے، میوہ زار میں ٹولی کی لوٹ مار پر نظر رکھے رہتا۔ میں چیری کے درختوں کی چوٹیوں کو کانپتے دیکھتا اور بار بار چیریاں چنتے اور توڑتے کسی ہاتھ یا کسی ملفوف سر پر میری نظر پڑتی۔ میں آوازوں کے درمیان کوسیمو کی آواز سنتا اور اپنے آپ سے پوچھتا، ’’لیکن تم وہاں پہنچے کیسے؟ لمحہ بھر پہلے تو تم باغ میں تھے۔ کیا تم گلہری سے بھی زیادہ تیز ہو؟‘‘
مجھے یاد ہے کہ جب انھوں نے بھونپو کی آواز سنی تو وہ بالائی تالاب کے اوپر سرخ آلوچے کے درختوں پر تھے۔ آواز میں نے بھی سنی مگر اس سے لاعلم ہونے کے باعث توجہ نہیں دی۔ لیکن وہ متوجہ ہوے۔ میرے بھائی نے مجھے بتایا کہ وہ وہیں کھڑے کے کھڑے رہ گئے اور بھونپو کو دوبارہ سن کر اپنے تحیّر میں بھول گئے کہ یہ خطرے کا اشارہ ہے۔ وہ محض ایک دوسرے سے پوچھا کیے: کیا انھوں نے ٹھیک سے سنا ہے؟ کیا اپنے پستہ قد ٹٹوپر سوار سنفوروزا انھیںخطرے سے آگاہ کرنے دوبارہ آگئی ہے؟ وہ اچانک میوہ زار سے بھاگ نکلے، بچ نکلنے کی عجلت میں نہیں بلکہ اسے ڈھونڈنے اور اس تک پہنچنے کے لیے۔
صرف کوسیمو باقی رہ گیا۔ اس کا چہرہ آگ کی طرح لال تھا۔ لیکن جونہی اس نے لڑکوں کو بھاگتے دیکھا اور سمجھا کہ وہ سنفوروزا کی طرف بھاگ رہے ہیں،وہ ہر حرکت پر گرنے کا خطرہ مول لیتے ہوے خود بھی شاخ در شاخ چھلانگیں لگانے لگا۔
ویولا پگڈنڈی کے ایک بل کھاتے نشیب پر تھی۔ وہ اپنے ٹٹو پر ساکن بیٹھی تھی، اس کا ایک ہاتھ لگام تھامے ہوے،ٹٹو کے پُٹھے پر تھا، جب کہ دوسرے ہاتھ سے وہ چابک لہرا رہی تھی۔ وہ نیچے لڑکوں کو دیکھتے ہوے چابک کا سرا اپنے منھ تک لائی اور اسے چبانے لگی۔ اس کا لباس نیلا تھا اور بھونپو سنہرا، جو اس کی گردن میں ایک باریک زنجیر سے آویزاں تھا۔ سارے لڑکے اکٹھے رک گئے تھے اور وہ بھی آلوچے یا انگلیاں یا اپنے ہاتھوں اور بازوؤں پر جما کھرنڈ یا بوریوں کے کونے چبا رہے تھے۔ وہ اپنے چباتے ہوے دہنوں سے آہستہ آہستہ سانسوں تلے کسی گیت کی طرح تال میں فقرے ادا کرنے لگے، ’’تم کیا کرنے آئی۔۔۔ سنفوروزا۔۔۔ واپس جاؤ۔۔۔ اب تم ہماری۔۔۔ دوست نہیں ہو۔۔۔ آہ، آہ، آہ،۔۔۔غدار۔‘‘ ایسا تھا جیسے وہ کسی حقیقی جذبے سے نہیں بلکہ اندرونی بے سکونی پر قابو پانے کو بول رہے ہوں، جیسے اپنی بات کی تردید چاہ رہے ہوں۔
اوپر، گتھی ہوئی شاخیںالگ ہوئیں اور وہاں، انجیر کے ایک اونچے درخت پر ہانپتے ہوے کوسیمو کا پتوں میں گھرا سر نمودار ہوا۔ نیچے کھڑی ہوئی ویولا نے، جس کے ہاتھ میں چابک تھا، اسے اور دوسروں کو اسی غلط انداز نظر سے دیکھا۔ کوسیمو، جس کی زبان ابھی تک اس کے بس میں نہ تھی، خود پر قابو نہ رکھ سکا۔ اس نے چلا کر کہا، ’’جانتی ہو، اُس وقت سے میں درختوں سے نیچے نہیں آیا ہوں!‘‘
اس طرح کے کاموں کوسکوت و اسرار کے پردے میں رکھنا چاہیے، کہ اگر ان کا اعلان کیا جائے یا ان کے بارے میں شیخی بگھاری جائے تو وہ بے مقصد بلکہ ہیچ نظر آنے لگتے ہیں۔ سو میرے بھائی کی زبان سے یہ الفاظ مشکل سے ادا ہوے ہوں گے کہ وہ سوچنے لگا، کاش اس نے یہ الفاظ ادا نہ کیے ہوتے۔ اب اس کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی تھی اور اس نے خود کو نیچے آنے اور اس سارے ٹنٹے کو ختم کر دینے کا تمنائی پایا۔ اس وقت تو اور بھی زیادہ جب ویولا آہستگی سے اپنے منھ سے چا بک نکال کر نرمی سے بولی، ’’تم ابھی تک نہیں اترے؟ مکّار کہیں کے!‘‘
پسّو پڑے لڑکے پہلے تو منھ ہی منھ میں ہنستے رہے، پھر کھلکھلا کر زور زورسے قہقہے لگانے لگے، یہاں تک کہ اس چیخ پکار سے ان کے پیٹوں میں بل پڑ گئے۔ کوسیمو پر طیش نے ایسا ہیجان کیا کہ انجیر کی بے لوچ لکڑی ٹوٹ گئی۔ اس کے پاؤں تلے ایک شاخ چٹخی اور وہ پتھر کی طرح گرا۔
وہ پھیلے ہوے بازوؤں کے ساتھ گرا اور اس نے اپنے آپ کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ سچ تو یہ ہے کہ دنیابھر کے درختوں پر گزرنے والی اس کی پوری زندگی میں یہی واحد لمحہ تھا جب اس میں کسی چیز کو پکڑنے کا عزم تھا نہ جبلت۔ لیکن اس کے کوٹ کا ایک کونا ایک نچلی شاخ میںالجھا اوروہ لٹک کے رہ گیا۔ اس نے اپنے آپ کو ہوا میں اس طرح لٹکا ہوا پایا کہ اس کا سر نیچے کی طرف تھا اور وہ زمین سے فٹ بھر کی دوری پرتھا۔
خون اس کے سر میں اسی طاقت سے دوڑا جو اسے شرم سے سرخ کیے دے رہی تھی۔ نظر اوپر اٹھانے اور ٹھٹھے مارتے لڑکوں کو دیکھنے پر، جن پر اب قلابازیاںلگانے کا ایک عمومی جنون سوار تھا، جس میں وہ ایک ایک کرکے یوں الٹے نظر آرہے تھے گویا تحت الثریٰ کے اوپر زمین کو پکڑ رہے ہوں، اور اپنے کلول کرتے ٹٹو کو آگے پیچھے سر پٹ دوڑاتی ہوئی سنہرے بالوں والی ننھی لڑکی کو دیکھ کراس کی سوچ، واحد سوچ، یہ تھی کہ یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے درختوں پر رہنے کی بات واقعتا زبان سے نکالی تھی اور یہ کہ یہی آخری موقع بھی ہوگا۔
ایک جھٹکے کے ساتھ اس نے اپنے آپ کو پیچھے شاخ پر کھینچا اور اس پر ٹانگیں لٹکا کے بیٹھ گیا۔ ویولا نے اب اپنے ٹٹوپر قابو پالیا تھا اور جو کچھ ہوتا رہا تھا اس سے بے خبر معلوم ہوتی تھی۔ کوسیمو اپنی ابتری کو فوراً بھول گیا۔ لڑکی بھونپو کو اپنے ہونٹوں تک لائی اور خطرے کی ایک تیز آواز نکالی۔ آوازسن کر لڑکے ہزیمت میں بھاگ نکلے، جیسا کہ کوسیمو نے بعد میں تبصرہ کیا۔ وہ ویولا کی موجودگی سے چودھویں کی رات میں خرگوشوں کی طرح انتہائی مضطرب نظر آتے تھے۔ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ اس نے خطرے کا اشارہ محض مذاق کے طور پر دیا ہے، مگر انھوں نے اپنے آپ کو اس طرح دوڑ جانے دیا گویا کہ جبلت سے مجبور ہوں۔ وہ بھونپو کی آواز کی نقلیں کرتے ہوے نشیب میں بھاگ رہے تھے۔ ان کے آگے آگے ویولا اپنی چھوٹی ٹانگوں والے ٹٹوپر سوارسرپٹ بھاگ رہی تھی۔
وہ اس طرح اندھادھند بھاگ رہے تھے کہ ویولا بار بار ان کی نظر سے اوجھل ہو جاتی۔ آخرکار اس نے راستہ بدل کے ان سے چھٹکارا پالیا۔ وہ کہاں جارہی تھی؟ وہ زیتونوں کے جھنڈ میں نیچے وادی تک جو بتدریج نشیب میں اتر رہی تھی، سرپٹ ٹٹودوڑاتی رہی۔ اس نے وہ درخت جس پراس لمحے کوسیمو بیٹھا تھا، تلاش کیا ،اس کے گرد چکر لگایا اور آگے بڑھ گئی۔ لمحے بھر بعد وہ ایک زیتون کے پاس تھی جس پر پتوں کے درمیان میرے بھائی کا سر نمودار تھا، اور اس طرح وہ دونوں اتنی ہی پرپیچ و خم سمتوں میں جتنی کہ خود زیتون کی شاخیں تھیں، نیچے وادی تک اکٹھے گئے۔
ننھے چوروں کی جب ان پر نظر پڑی اور انھوں نے دیکھا کہ وہ دونوںشاخ سے زین تک کس طرح باہم منسلک ہیں، تووہ سب ایک پُرعناد تضحیک سے سیٹیاں بجانے لگے اور یوں زور زور سے سیٹیاں بجاتے ہوے پورتا کاپیری کی جانب، جوشہر کا ایک دروازہ تھا، چلے گئے۔
لڑکی اور میرا بھائی زیتونوں کے درمیان ایک دوسرے کا تعاقب کرتے ہوے اکیلے رہ گئے۔ لیکن کوسیمو کویہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ بھیڑ کے غائب ہونے سے کھیل میں ویولا کی لطف اندوزی پھیکی پڑتی اور بوریت قدم جماتی محسوس ہونے لگی تھی۔ اسے شبہ ہوا کہ وہ یہ سب کچھ دوسروں کو جان بوجھ کر ناراض کرنے کے لیے کر رہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی اسے یہ امید نظر آئی کہ وہ یہ شغل جاری رکھے گی، خواہ خود اُس کو ناراض کرنے کے لیے سہی۔ اپنے آپ کو زیادہ بیش قیمت محسوس کرنے کے لیے وہ بلاشبہ دوسروں کے غصے کی ضرورت مند معلوم ہوتی تھی۔ (اُس وقت ان ساری باتوں کو لڑکے کوسیمو نے مشکل ہی سے محسوس کرنے کی حد سے آگے جاکے سمجھا ہوگا۔ میرا قیاس ہے کہ حقیقت میں وہ کھردری چھالوں پر کسی حقیقی ادراک کے بغیر بے وقوفوں کی طرح چڑھ رہا تھا۔)
اچانک ایک کھڑی چٹان کے گرد اُن پر بجری کی ایک تیز چھوٹی سی بوچھاڑ پڑی۔ لڑکی نے حفاظت کے لیے اپنا سر نیچے کرکے ٹٹوکی گردن کے پیچھے چھپالیا اور بچ نکلی۔ میرا بھائی، جو اوپر ایک شاخ کے موڑ پر پورے کا پورا دکھائی دے رہاتھا، کنکروں کی زد میں رہا۔ لیکن اوپر کنکر اتنے اوچھے پڑ رہے تھے کہ اسے ماتھے یا کانوں پر ایک آدھ کے سوا، زیادہ چوٹ نہیں لگی۔ ننھے بدمعاش سیٹیاں بجا بجا کے ہنستے رہے اور ’’سنفوروزا کتیا ہے!‘‘ چلاّتے ہوے بھاگ نکلے۔
پھل چور پورتا کاپیری پہنچ گئے جس کی دیواروں پر چڑھی کریل کی بیلیں سبز آبشاروں کی طرح دکھائی دیتی تھیں۔ آس پاس کی جھونپڑیوں سے ماؤں کی اونچی آوازیں آرہی تھیں۔ لیکن مائیں اپنے بچوں پر اس لیے چلاّ رہی تھیں کہ وہ کہیں اور سے پیٹ بھرنے کے بجاے کھانے کے لیے گھر آگئے تھے۔ پورتا کاپیری کے اردگرد جھونپڑوں اور چھپر والے مکانوں میں، شکستہ گاڑیوں اور خیموں میں اومبروسا کے غریب ترین لوگ ہجوم کیے ہوے تھے۔ یہ اتنے غریب تھے کہ انھیں شہر کے دروازوں سے باہر اور کھیتوں سے دور رکھا جاتا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو وہاں دور دراز علاقوںسے آئے تھے جہاں انھیں قحط اور غربت نے، جن کی شدت ہر ریاست میں بڑھتی جارہی تھی، دھکیل دیا تھا۔
جھٹ پٹے کا وقت تھا۔ ژولیدہ مو عورتیں، جن کی چھاتیوں سے بچے چمٹے ہوے تھے، دھواں دیتے چولھوں کو ہوا دے رہی تھیں۔ کھلے آسمان تلے لیٹے ہوے کچھ بھکاری اپنے پھوڑوں پر پٹیاں باندھ رہے تھے، اور کچھ کرختگی سے چلاّتے ہوے جوا کھیل رہے تھے۔ شرارتی لڑکوں کی ٹولی اب اس شوروغل اور چکنائی بھرے دھویں میں خود اپنی اُدھم بازی کا اضافہ کر رہی تھی۔ وہ اپنی ماؤں سے پٹے اور آپس میں گرد آلود زمین پر گھونسا بازی کرتے رہے۔ ان کے چیتھڑے پہلے ہی دوسرے تمام چیتھڑوں کا رنگ اختیار کر چکے تھے اور ان کی پرندوں جیسی بشاشت انسانیت کے اس گھنے غلیظ ڈھیر میں دم توڑ چکی تھی۔ لہٰذا ٹٹو دوڑاتی سنہرے بالوں والی لڑکی اور پاس کے درختوں پر کوسیمو کے نمودار ہونے پر وہ فقط خوفزدہ نظریں ہی اٹھا سکے۔ وہ خفیف ہو کر اپنے آپ کو خاک اور آگ کے دھویں میں گم کرنے کی کوشش کرنے لگے گویا کہ ان کے درمیان اچانک کوئی دیوار کھڑی ہو گئی ہو۔

ان دونوں کے لیے یہ سب کچھ فقط ایک لمحہ تھا، ایک نظر تھی۔ پھر ویولا نے جھونپڑیوں سے نکلتے دھویں کو، جو شام کے سایوں اور عورتوں اور بچوں کی چیخوں میں مدغم ہو رہا تھا، اپنے عقب میں چھوڑ دیا اور ساحلی صنوبروں میں ٹٹو دوڑانے لگی۔
پرے سمندر تھا۔ پتھروں کے باہم ٹکرانے کی مدھم کھڑکھڑاہٹ سنائی دے رہی تھی۔ اندھیرا ہوچکا تھا۔ کھڑکھڑاہٹ ہتھوڑے کی آواز میں ڈھل گئی۔ سنگریزوں سے چنگاریاں نکالتا ٹٹودوڑے جارہا تھا۔ صنوبر کے ایک درخت کی خم کھائی ہوئی نیچی شاخوں سے میرا بھائی گوری لڑکی کے واضح سائے کو ساحل سے گزرتے دیکھ رہا تھا۔ سیاہ سمندر سے ایک کمزور جھال والی لہر اٹھی جو بل کھاتے ہوے اونچی ہوئی، پھر بالکل سفید ہو کر ساحل کی طرف بڑھی اور ٹوٹ کر پوری رفتار سے دوڑتے ہوے ٹٹواور لڑکی کے سائے کوچھو گئی۔ صنوبر کے درخت پر کوسیمو کا چہرہ نمکین پھوار سے نم ہو گیا۔


۶
درختوں پر کوسیمو کے وہ ابتدائی ایام کسی ہدف یامقصد سے تہی تھے، کہ اس پر اپنی نئی سلطنت کوجاننے اور اس پرقابض ہونے کی خواہش کا مکمل غلبہ تھا۔ وہ اس کی انتہائی حدوں تک گھومنا پسند کرتا، اس میں موجود تمام امکانات کا جائزہ لیتا، اسے نبات بہ نبات اور شاخ بہ شاخ دریافت کرتا۔ گو میں کہہ رہا ہوں کہ وہ ایسا کرنا پسند کرتا لیکن حقیقت میں ہم اسے اپنے سروں پر مدام نمودار ہوتا دیکھتے۔ اس کی سرگرم تیز حرکات اس وحشی جانور کی سی تھیں جو ساکت بیٹھا ہوا بھی ہر لحظہ چھلانگ مارنے کو چوکس نظر آتا ہے۔
وہ ہمارے باغ میں کیوں لوٹتا تھا؟ ہماری والدہ کی دوربین کی حد میں، کسی شیشم یا گلِ خطمی کے درخت پر اسے بل کھاتے دیکھ کر آپ کہہ سکتے تھے کہ اسے اُکسانے والی ترنگ، اس کا غالب ولولہ ہمیں ڈرانا، فکرمند کرنا یا ناراض کرنا ہے۔ (’ہمیں‘ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میں ابھی تک اس کا ذہن پڑھنے کا اہل نہیں ہوا تھا۔ اسے جب کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو لگتا تھا، اسے میرے ساتھ اپنے تعلق پرکبھی شک نہیں ہوا؛ دوسرے موقعوں پر وہ میرے سر کے اوپر سے یوں گزر جاتا جیسے اس نے مجھے دیکھا ہی نہ ہو۔)
لیکن حقیقت میں وہ ہمارے پاس سے محض گزرتا تھا۔ اسے میگنولیا کے پاس والی دیوار اپنی طرف کھینچتی تھی۔ وہیں ہم نے اسے بار بار غائب ہوتے دیکھا، اُس وقت بھی جب گوری لڑکی جاگی ہوئی نہیں ہوسکتی تھی، یا جب آیاؤں اور خالاؤں کی بھیڑ نے اسے سونے پر مجبور کر دیا ہوتا۔ اونداریوا کے باغوں میں شاخیں غیرمعمولی جانوروں کی سونڈوں کی طرح پھیلی تھیں، اور زمین پر پودے، رینگنے والے جانوروں کی سبز کھالوں کی طرح، ستاروں جیسے منبت کاری والے پتوں میں نمو کرتے، اور بانس کے نازک پیلے درختوں میں کاغذ جیسی سرسراہٹ کے ساتھ لہریں پیدا کرتے۔ ان بدیسی نباتات کے غیرمعمولی سبز رنگوں اور ان کی مختلف روشنیوں اور ان کے مختلف سکوت سے انتہا تک لطف اندوز ہونے کی آرزو میں سب سے اونچے درخت پر بیٹھا کوسیمو اپنے سر کو اوندھا دیتا اور باغ ایک جنگل میں ڈھل جاتا، جو اس دنیا کا نہیں تھابلکہ اپنے آپ میں ایک نئی دنیا تھا۔
پھر وِیولا نمودار ہوتی۔ کوسیمو اسے اچانک جھولے میں پینگ بڑھاتے، یا ٹٹو کی زین پر بیٹھا دیکھتا، یا باغ کے سرے سے آتی بھونپو کی تیز آواز سنتا۔
اونداریوا کے مارکوئیس اور مارکوئیزا حقیقت میں اپنی بیٹی کی ہرزہ گردیوں سے کبھی پریشان نہیں ہوے تھے۔ جب وہ کہیں آس پاس پیدل گھوم رہی ہوتی تو اس کی سب خالائیں اس کے پیچھے پیچھے ہوتیں لیکن جونہی وہ ٹٹو پر سوار ہوتی تو ہوا کی طرح آزاد ہوجاتی۔ چونکہ خالائیں باہر سواری نہیں کرتی تھیں، اس لیے نہیں دیکھ سکتی تھیں کہ وہ کہاں جاتی ہے، اور ان شرارتی لڑکوں سے اس کی شناسائی اتنی ناقابلِ یقین تھی کہ وہ اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔ لیکن شاخوں پر چڑھتے چھوٹے بیرن نے انھیں فوراً متوجہ کرلیا تھا اور وہ اس کی منتظر رہتیں، مگر ایک برتر احساسِ تحقیر کے ساتھ۔
دوسری طرف، ہمارے والد کوسیمو کی نافرمانی پر اپنی تلخی کو اونداریوا خاندان کے لیے اپنی نفرت سے مربوط کرتے، گویا کہ انھیں قصوروار گرداننا چاہتے ہوں، گویا کہ وہی ان کے بیٹے کو اپنے باغ میں بلاتے ہوں، اس کی آؤبھگت کرتے ہوں اور اس باغیانہ کھیل میں اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوں۔ کوسیمو پر قابو پانے کے لیے انھوں نے اچانک ایک ہانکا کرنے کا فیصلہ کیا، مگر ہماری زمین پر نہیں بلکہ اس وقت جب وہ اونداریوا کے باغوں میں واقعی موجود ہو۔ گویا کہ وہ ہمارے پڑوسیوں پر اپنے جارحانہ عزائم جتا دینا چاہتے ہوں، انھوں نے اس ہانکے کی سربراہی خود نہ کرنے کا فیصلہ کیا (کہ اس کا مطلب اونداریوا خاندان کے سامنے خود ذاتی طور پر جانا اور اپنے بیٹے کی واپسی کا مطالبہ کرنا ہوتا، جو کیسا ہی ناقابلِ جواز سہی، شرفا کے درمیان ایک باوقار رابطہ ہوتا)۔ سو انھوں نے کوالیئے اینیا سلویوکاریگا کی کمان میں نوکروں کی ایک ٹکڑی بھیج دی۔
وہ سیڑھیوں اور رسیوں سے لیس اونداریوا وِلا کے صدر دروازے پر گئے۔ ترکی ٹوپی اور عبا میں ملبوس، اضطراب میں آگے پیچھے ہوتے ہوے کوالیئے نے معذرت چاہتے ہوے پوچھا، کیا وہ اندر جا سکتے ہیں۔ اونداریوا خاندان کے نوکر پہلے تو یہ سمجھے کہ ہمارے نوکر وہ شاخیں تراشنے آئے ہیں جو پھیل کر ان کے باغ میں چلی گئی تھیں۔ لیکن جب انھوں نے آگے پیچھے چلتے اور اوپر شاخوں میں کچھ دیکھتے ہوے کوالیئے کے بے ترتیب فقرے سنے: ’’ہم پکڑنا چاہتے ہیں۔۔۔ پکڑنا۔۔۔‘‘ تو پوچھا، ’’لیکن آپ کا کھویا کیا ہے، کوئی توتا؟‘‘
’’بیٹا، سب سے بڑا بیٹا، وارث،‘‘ کوالیئے نے عجلت سے جواب دیتے ہوے ایک شاہ بلوط کے سہارے سیڑھی لگائی اور خود درخت پر چڑھنے لگا۔ شاخوں کے درمیان کوسیمو بے فکری سے اپنی لٹکتی ہوئی ٹانگیں ہلا رہا تھا۔ ویولا بھی اتنی ہی بے فکری سے پگڈنڈیوں پر پہیہ گھما رہی تھی۔ نوکروں نے کوالیئے کو رسیاں پیش کیں جن سے میرے بھائی کو پکڑا جانا تھا۔لیکن کیسے؟ یہ ان میں سے کوئی ٹھیک سے نہیں جانتا تھا۔مگر کوالیئے نے ابھی آدھی سیڑھی بھی طے نہیں کی تھی کہ کوسیموایک دوسرے درخت کی چوٹی پر تھا۔ کوالیئے نے سیڑھی سرکوائی اور یہ چار یا پانچ بار ہوا۔ لیکن ہر بار کوالیئے کسی پھولوں کی کیاری میں گرا اور کوسیمو ایک دوچھلانگیں لگا کے اگلے درخت پر جا پہنچا۔ اچانک ویولا کے گرد خالائیں اور آیائیں جمع ہو گئیں اور اسے گھر کے اندر لے جاکر بند کر دیا کہ وہ اس ہلڑ کونہ دیکھے۔ کوسیمو نے ایک شاخ توڑ کر اسے دونوں ہاتھوں میں گھمایا اور پھر سڑاک سے ہوا میں مارا۔
’’لیکن صاحبان، آپ اس تلاش کااہتمام خود اپنے وسیع باغ میں کیوں نہیں کرتے؟‘‘ اونداریوا کے مارکوئیس نے حویلی سے آنے والی سیڑھیوں پرمتانت سے ظاہر ہوتے ہوے پوچھا۔ ڈریسنگ گاؤن اور بے حاشیہ ٹوپی میں وہ حیرت انگیز طور پر کوالیئے کی طرح لگ رہا تھا۔ ’’میں پیو واسکودی روندو کے سارے خاندان سے پوچھتا ہوں!‘‘ اور اس نے ایک وسیع دائرہ نمااشارہ کیا جس نے درخت پر بیٹھے چھوٹے بیرن، اس کے ناجائز چچا، ہمارے نوکروں، غرضیکہ دیوار کے پار ہماری ہر چیز کو اپنے اندرسمیٹ لیا۔
اس مرحلے پر اینیاسلویوکاریگا نے اپنا انداز بدلا۔ وہ جلدی جلدی چلتا ہوا مارکوئیس کے پاس گیا اور اضطراب میں حرکت کرتے ہوے، گویا کہ آس پاس کچھ نہ ہورہا ہو، اس سے قریبی حوض میں لگے فواروں کے بارے میں بات کرنے لگاکہ کس طرح اسے ایک زیادہ اونچے اور زیادہ کارگر فوارے کا خیال سوجھا ہے جس کے ذریعے، محض ایک لٹو بدلنے سے، سبزہ زاروں کو پانی بھی دیا جاسکے گا۔ ہمارے فطری چچا کی ناقابلِ پیش گوئی اور مغالطہ انگیز فطرت کا یہ ایک نیا ثبوت تھا۔ بیرن نے اسے ایک کڑی ہدایت کے ساتھ وہاں بھیجاتھا اور پڑوسیوں سے ثابت قدمی سے نمٹنے کا حکم دیا تھا مگر اس نے مارکوئیس سے اس طرح دوستانہ گفتگو شروع کر دی گویا اس کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہو۔ کوالیئے کی خوش گفتاری صرف اس وقت بروے کار آتی معلوم ہوتی تھی جب وہ خود اس کے حق میں جاتی ہو، اور وہ بھی اس وقت جب لوگ اس کے کردارکے ہٹیلے پن پر تکیہ کر رہے ہوں۔ غیرمعمولی بات یہ تھی کہ مارکوئیس اس کی باتیں سن رہا تھا۔ وہ اس سے سوالات کرنے لگا اور آخرکار اسے تمام فواروں اور نوک دار نلکیوں کا معائنہ کرانے لے گیا۔ دونوں ایک ہی طرح سے ملبوس تھے۔ دونوں لمبی عبائیں پہنے تھے۔ دونوں کے قد بھی اس قدر ایک جیسے تھے کہ ایک پر دوسرے کا گمان ہو سکتا تھا۔ ہمارے اور ان کے سارے نوکر دونوں کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ کچھ نے سیڑھیاں اٹھا رکھی تھیں، اور نہیں جانتے تھے اب ان کا کیا کریں۔
اس دوران کوسیمو، بے خلل، حویلی کی کھڑکیوں کے قریبی درختوں سے پردوں کے پار وہ کمرہ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا جہاں ویولا کو بند کیا گیا تھا۔ آخرکار اس نے وہ کمرہ ڈھونڈ لیا اور کھڑکی کے شیشے پر ایک ٹہنی کا ٹکڑا پھینکا۔
کھڑکی کھلی اور سنہرے بالوں والی چھوٹی لڑکی کا چہرہ نمودار ہوا۔
’’یہ سب تمھارا قصور ہے جو میں یہاں بند ہوں،‘‘ ویولا نے کہا اور کھڑکی دوبارہ بند کرتے ہوے پردے کھینچ دیے۔
کوسیمو نے اچانک خود کو بے آس محسوس کیا۔

جب میرے بھائی پر اس کی مخصوص وحشیانہ کیفیت طاری ہوتی تو وہ حقیقت میںبڑی پریشان کن ہوتی۔ ہم اسے دوڑتا دیکھتے (اگر لفظ ’’دوڑنا‘‘ زمینی سطح کے حوالے سے نہیں، بلکہ مختلف بلندیوں پر بے قاعدہ سہاروں کی ایک دنیا کے حوالے سے — جن کے درمیان محض ہوا ہو — کچھ مفہوم رکھتا ہے) اور ہر لحظہ یہ لگتا کہ اس کے قدم اکھڑ جائیں گے اور وہ گر جائے گا۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہوا —وہ جست لگاتا، کسی ایک نشیبی شاخ پر چھوٹے چھوٹے تیز قدموں سے چلتا اور آگے کی طرف جھک کر کسی اونچی شاخ پر جھول جاتا، اور اس قسم کے چار پانچ خطرناک لہریوں میں وہ نظروں سے اوجھل ہو جاتا۔
وہ جاتا کہاں تھا؟ اس بار وہ دوڑتا ہی جارہا تھا۔ گلِ خطمی کے درختوں سے زیتون کے درختوں تک اور زیتون کے درختوں سے ساحل تک، یہاں تک کہ وہ جنگل میں پہنچ گیا۔ وہاں اس نے ہانپتے ہوے توقف کیا۔ اس کے نیچے ایک چراگاہ پھیلی تھی۔ ہلکی ہلکی ہوا ہریالی کے لطیف رنگوں کی گھاس کے گھنے گچھوں پر کسی لہر کی طرح چل رہی تھی۔ اس کے اوپر ککروندوں کے گول روئیںدارسفید بیج اڑ رہے تھے۔ درمیان میں لمبوترے مخروطوں والا صنوبر کا ایک تنہا ناقابلِ رسائی درخت تھا۔ درختوں پر چلنے والی بھورے نقطے دار پروں والی تیز رفتار چھوٹی چڑیاں صنوبر کی آڑی ترچھی کھڑی ہوئی سوئیوں کے گھنے خوشوں پر بسیرا لیے تھیں۔ کچھ کی دُمیں اوپر اور چونچیں نیچے تھیں اور وہ جھک کرکیڑے اور بیج چگ رہی تھیں۔
فطرت کے ایک دشوارگذار عنصر میں داخل ہونے کی وہ خواہش جس نے میرے بھائی کو درختوں میں جانے پر اکسایا تھا، اس کے اندر اب تک ناآسودہ تھی اور اسے ایک زیادہ مانوس ربط پر اکسا رہی تھی، ایک ایسے رشتے کا آرزومند بنا رہی تھی جو اسے ہر پتے اور ہر ڈنٹھل اور ہر پر اور ہر پھڑپھڑاہٹ سے جوڑ دے۔ یہ وہ چاہ تھی جو شکاری کو جاندار چیزوں کی ہوتی ہے اور جس کا اظہار وہ صرف اپنی بندوق سے انھیں نشانہ بنا کر کرسکتا ہے۔ کوسیمو اسے اب تک پہچان نہ پایا تھا اورجنگل میں اور گہرااُتر کر اسے آسودہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
جنگل گھنا اور ناقابلِ عبور تھا۔ کوسیمو کو اپنے نیمچے سے شاخیں کاٹ کاٹ کر راستہ بنانا پڑا اور بتدریج وہ اپنی پریشانی بھول گیا۔ وہ ایک کے بعد ایک پیش آنے والی عملی مشکلات میں مکمل طور پر گھرا ہوا تھا اور مانوس جگہوں سے زیادہ دور چلے آنے کا خوف (جسے وہ اس کے ہونے کے باوجود تسلیم کرنا نہیں چاہتا تھا) اس کے علاوہ تھا۔ سو، گھنی روئیدگی میں اپنا راستہ بناتے ہوے وہ ایک ایسے مقام پر پہنچا جہاں اس نے بالکل سامنے پتوں کے درمیان دو زرد آنکھیں خود پر مرکوز دیکھیں۔ کوسیمو نے نیمچے سے ایک شاخ کو ذرا سا ہٹایا اور اسے آہستگی سے چھوڑ کراپنی جگہ واپس جانے دیا۔ پھر اس نے اطمینان کا سانس لیا اور اس خوف پر ہنس پڑا جو اس نے محسوس کیا تھا۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ وہ زرد آنکھیں کس کی ہیں۔ وہ ایک جنگلی بلّی تھی۔
لیکن بلی کا نظارہ، جو اس نے شاخ ہٹانے میں فقط جھلک بھر ہی دیکھا تھا، اس کے ذہن سے چپک کر رہ گیا، اور لمحہ بھر بعد اس نے دوبارہ خود کو خوف سے کانپتا ہوا پایا۔ کیونکہ وہ بلی جو ظاہری شباہت میں ہر طرح سے دوسری بلیوں جیسی تھی، خوفناک اور دہشت زدہ کرنے والی تھی۔ صرف اسے دیکھنا ہی کسی کی چیخ نکلنے کے لیے کافی تھا۔ یہ ٹھیک سے کہنا مشکل ہے کہ اس میں دہشت زدہ کرنے والی ایسی کون سی بات تھی۔ وہ ایک طرح کی دھاری دار بلی تھی اور کسی دوسری دھاری دار بلی سے بڑی تھی، مگر یہ بات بے معنی ہے؛ وہ اس لیے خوفناک تھی کہ اس کی مونچھوں کے سیدھے بال خارپشت کے کانٹوں کی طرح تھے، اور اس کا سانس، جسے آدمی سننے سے زیادہ دیکھ سکتا تھا، پنجوں جیسے تیز دانتوں کی دوہری قطار کے درمیان سے آرہا تھا۔ اس کے کان تیکھے، نوک دار مثلثی پرچم تھے، جو مغالطہ انگیز نرم بالوں سے ڈھکے تھے۔ اس کی پشم، جس کے بال کھڑے تھے، گردن کے گرد ایک زرد حلقے کی شکل میں پھولی ہوئی تھی اور اس کے پہلوؤں پر دھاریاں یوں کپکپا رہی تھیں گویا اسے چمکارا جارہا ہو۔ بلی کی گردن ایک ایسی غیرفطری حالت میں تھی جسے قائم رکھنا اس کے لیے ناممکن لگتا تھا۔ یہ سب، جس کی جھلک کوسیمو نے شاخ کو اپنی جگہ لوٹانے سے پہلے کے لمحے میں دیکھی، اُس کے علاوہ تھا جسے دیکھنے کا اسے وقت نہیں ملا، مگر جس کا وہ تصور کر سکتا تھا۔ یعنی نکیلے ناخنوں کی چیرنے پھاڑنے والی طاقت، جسے پنجوں کے گرد بالوں کے بڑے بڑے گچھوں نے چھپا رکھا تھا اور جو اس پر جست کرنے کے لیے تیار تھی۔ وہ ابھی تک پتوں کے درمیان گھومتی سیاہ پتلیوں والے زرد عینیے خود پر مرکوز دیکھ سکتا تھا۔ وہ ابھی تک سانسوں کی کھردری آواز سن سکتا تھا جو ہر لحظہ مزید بھاری اور کھردری ہوتی جارہی تھی۔ ان ساری باتوں نے اسے احساس دلایا کہ وہ جنگلوں کی انتہائی خوفناک وحشی بلی کے روبرو ہے۔
جنگل کی ساری چہچہاہٹ اور پھڑپھڑاہٹ خاموش تھی۔ اور تب اس وحشی بلی نے جست لگائی، مگر لڑکے پر نہیں بلکہ تقریباً ایک عمودی جست، جس نے کوسیمو کو دہلانے سے زیادہ بھونچکا کر دیا۔ دہلا تو وہ بعد میں جب اس نے اس حیوان کو اپنے سر کے عین اوپر ایک شاخ پر دیکھا۔ وہ گھات لگائے بیٹھی تھی۔ کوسیمو اس کا پیٹ، جس پر سفیدی مائل لمبی پشم تھی، اس کے مستعد پنجے، جن کے ناخن لکڑی میں گڑے تھے، اور اس کی محرابی کمر دیکھ سکتا تھا۔ کسی بھی لمحہ عین اس کے اوپر گرنے کو تیار، وہ سسکارتے ہوے’’ فوں فوں‘‘ کی آوازیں نکال رہی تھی۔ ایک تیز حرکت سے، جو محض جبلّی تھی، کوسیمو ایک نچلی شاخ پر اتر آیا۔ ’’فوں۔۔۔ فوں۔۔۔‘‘ وحشی بلی سسکاری اور ہر ’’فوں‘‘ کے ساتھ ایک یا دوسری طرف جست کرتی ہوئی کوسیمو کے اوپر ایک شاخ پر دوبارہ آگئی۔ میرے بھائی نے اپنی چال دہرائی اور اب وہ درخت کی سب سے نچلی شاخ پر تھا۔ شاخ سے نیچے زمین تک کچھ فاصلہ تھا لیکن اتنا زیادہ نہیں کہ وہ نیچے کودنے کو ترجیح دینے کے بجاے یہ دیکھنے کا انتظار کرتا کہ بلی، جس نے خرخرانے اورغرانے کے بین بین کی وہ اذیت ناک آواز نکالنا بند کردی تھی، اب کیا کرے گی۔
کوسیمو زمین پر کودنے ہی والا تھا، مگر اس کے اندر دو جبلتیں متصادم تھیں: ایک اپنے آپ کو بچانے کی فطری جبلت، اور دوسری درخت کو کسی بھی حالت میں نہ چھوڑنے کی ہٹیلی جبلت۔ سو، اس نے شاخ کو اپنی ٹانگوں اور گھٹنوں سے جکڑ لیا۔ لڑکے کو پس و پیش میں دیکھ کر بلی نے سوچا کہ حملہ کرنے کا لمحہ آ پہنچا۔ اس کے سارے جسم کے بال کھڑے ہو گئے اور وہ پنجوں سے ناخن نکال کر خرخراتی ہوئی اس کی جانب بڑھی۔ کوسیمو اپنی آنکھیں بند کرنے اور نیمچہ نکالنے سے بہتر کوئی اور بات نہ سوچ سکا۔ یہ ایک احمقانہ چال تھی جس سے بلی بآسانی بچ نکلی۔ پھر وہ اس پر آپڑی اور کوسیمو کے گال میں ایک پنجہ گڑو دیا، لیکن گرنے کے بجاے وہ شاخ پر، جس سے وہ گھٹنوں کے ذریعے چمٹا ہوا تھا باہر کی طرف جھول گیا۔ یہ بات بلی کے لیے، جس نے بے توازن ہو کر خود کو گرتا ہوا پایا، توقع سے بالکل الٹ تھی۔ اس نے پنجے شاخ میں گڑو کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی مگر ایسا کرنے کے لیے اسے ہوا میں بل کھانا پڑا۔ یہ صرف ایک لمحے کی بات تھی مگر کوسیمو کے لیے ایک لمحہ ہی بہت تھا۔ اس نے ایک اچانک فتح مندانہ وار میں اپنا نیمچہ گہرائی تک بلی کے پیٹ میں گھونپ دیا۔
اسے بچا لیا گیا۔ وہ خون میں نہایا ہوا تھا اور اس کا ایک گال آنکھ کے نیچے سے ٹھوڑی تک ایک تہری چیر سے بری طرح گھائل تھا۔ وحشی بلی اس کے نیمچے میں یوں پروئی ہوئی تھی جیسے سیخ پر لگی ہوئی ہو۔ وہ ہیجان کی حالت میں شاخ سے، نیمچے سے، بلی کے جسم سے چمٹا ہوا، درد اور فتح سے چلاّ رہا تھا۔ وہ اس بے جگری کے لمحے میں تھا جو آدمی پر پہلی فتح حاصل کرنے کے بعد آتا ہے، جب وہ فتح کا کرب محسوس کرتا ہے اور یہ بھی محسوس کرتا ہے کہ اب وہ اپنے اختیار کردہ راستے پر چلتے جانے کا پابند ہے اور ناکامی کو کسی صورت اپنا حیلہ نہیں بنا سکتا۔
سو میں نے اسے درختوں پر اس طرح آتا ہوا دیکھا۔ وہ نیچے واسکٹ تک خون میں ڈوبا ہوا تھا اور مڑے تڑے ہیٹ کے نیچے اس کی چوٹی بے ترتیب تھی اور اس نے مردہ وحشی بلی کو گردن سے اٹھا رکھا تھا جو اَب بالکل کسی دوسری بلی جیسی نظر آرہی تھی۔
میں جنرلیسا کی طرف بھاگا جو چبوترے پر تھیں۔ ’’والدہ محترمہ!‘‘ میں چلّایا۔ ’’وہ زخمی ہو گیا ہے!‘‘
’’کیا؟ زخمی؟ کیسے؟‘‘ وہ فوراًاپنی دوربین کا رخ درختوں کی طرف کرنے لگیں۔
’’زخمی ہو گیا ہے، تو بس زخمی لگتا ہے!‘‘ میں نے بے ساختہ کہا اور جنرلیسا میری وضاحت کو سمجھتی نظر آئیں کیونکہ کوسیمو کو اپنی دوربین سے دیکھتے ہوے، جو ہمیشہ سے زیادہ تیزی کے ساتھ چھلانگیں لگاتا آرہا تھا، وہ بولیں، ’’ درست ہے۔‘‘
وہ فوراً پھائے اور پٹیاں اور مرہم تیار کرنے بیٹھ گئیں گویا کسی پلٹن کی ایمبولینس کے لیے درکار ہوں، اور ایک لمحے کو بھی یہ سوچے بغیر کہ وہ علاج کے لیے گھر لوٹنے کا فیصلہ کر سکتا ہے، یہ سب چیزیں اس تک لے جانے کے لیے میرے حوالے کردیں۔ اور میں پٹیوں کا بنڈل لیے دوڑ کر باغ میں گیا اور اونداریوا خاندان کی دیوار کے پاس شہتوت کے آخری درخت کے نیچے اس کا انتظار کرنے لگا کیونکہ وہ پہلے ہی میگنولیا کے درخت میں غائب ہو گیا تھا۔
وہ مردہ جانور کو اپنے ہاتھوں میں لیے فاتحانہ طریقے سے اونداریوا کے باغ میں نمودار ہوا۔ مگر حویلی کے سامنے والے حصے میں اس نے کیا دیکھا؟ ایک بگھی سفر کے لیے تیار ہے اور نوکر سامان والے خانے میں تھیلے چڑھا رہے ہیں، اور سیاہ عباؤں والی سخت گیر آیاؤں اور خالاؤں کی بھیڑ کے درمیان، سفری لباس میں ویولا مارکوئیس اور مارکوئیزا سے گلے مل رہی ہے۔
’’ویولا!‘‘ بلی کو گردن سے پکڑ کر اٹھاتے ہوے اس نے چلاّ کر کہا، ’’تم کہاں جارہی ہو؟‘‘
بگھی کے گرد سارے لوگوں نے اپنی نظریں شاخوں کی طرف اٹھائیں اور اسے زخمی حالت میں، جنونی کیفیت کے ساتھ مردہ جانور ہاتھوں میں لیے دیکھ کر نفرت بھرے اشارے کرنے لگے۔ ’’پھر یہاں! اور اس حالت میں!‘‘ اور سب خالائیں گویا اچانک طیش سے مغلوب ہو کر لڑکی کو بگھی کی طرف دھکیلنے لگیں۔
ویولا مڑی۔ اس کی ناک چڑھی ہوئی تھی۔ اس کے انداز میں تحقیر اور اکتاہٹ تھی جو کوسیمو کے لیے بھی ہو سکتی تھی اور اس کے اپنے عزیزوں کے لیے بھی۔ اس نے تیزی سے درختوں پر ایک نظر ڈالی۔ (جو یقینا اس کے سوال کے جواب میں تھی) اور کہا، ’’مجھے اسکول بھیج رہے ہیں!‘‘ اور وہ بگھی میں بیٹھنے کے لیے گھوم گئی۔ اس نے کوسیمو یا اس کی فتح مندی کی علامت پر نظر ڈالنا اپنے شایان نہیں سمجھا۔
بگھی کا دروازہ پہلے ہی بند ہو چکا تھا اور کوچوان نے اپنی نشست سنبھال لی تھی۔ مگر کوسیمو، جو اس روانگی کو اب تک سمجھنے سے قاصر تھا، اس کی توجہ مبذول کرانے اور اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس نے اپنی خوں آشام فتح اس سے منسوب کی ہے۔ وہ صرف چلاّ کر ہی اپنی بات واضح کرسکا، ’’میں نے ایک جنگلی بلی ماری ہے!‘‘
چابک کاایک تڑاقا ہوا اور خالاؤں کے ہلتے رومالوں کے درمیان بگھی چل پڑی۔ دروازے سے ویولا کی آواز آئی، ’’کتنے چالاک ہو تم!‘‘ مگر یہ واضح نہیں تھا کہ اس میں گرم جوشی تھی یا تحقیر۔
یہ ان کا الوداعیہ تھا۔ کوسیمو کے اندر تناؤ، زخموں سے اٹھتا درد، اپنی فتح پر ستائش نہ ہونے کی ناامیدی، اس اچانک رخصت کی مایوسی، یہ سب کچھ طوفان کی طرح امنڈ آیا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور دہاڑیں اور چیخیں مارتے ہوے کونپلیں اکھیڑنے لگا۔
’’یہاں سے نکلو! یہاں سے نکلو! وحشی بدمعاش، باغ سے نکلو!‘‘ خالائیں چلاّئیں۔ اونداریوا خاندان کے سارے نوکر لمبے لمبے ڈنڈے لیے دوڑتے ہوے آئے اور پتھر مار مار کر اسے بھگانے لگے۔
کوسیمو نے، جو ابھی تک سسکیاں لیتے ہوے رو رہا تھا، مردہ بلی کو نیچے کھڑے ہوے لوگوں پر پٹخ دیا۔ نوکروں نے جانور کو گردن سے پکڑا اور ایک گوبر کے ڈھیر پر پھینک دیا۔
جب میں نے سنا کہ ہماری ننھی پڑوسن رخصت ہو گئی ہے تو میں ایک وقت تک امید کرتا رہا کہ ہو سکتا ہے کوسیمو نیچے آجائے۔ میں اس کی وجہ نہیں بتا سکتا لیکن اپنے بھائی کے درختوں پر رہنے کے فیصلے کو میں اُس سے، یا اُس سے بھی، مربوط کرتا تھا۔
لیکن کوسیمو نے نیچے آنے کا ذکر تک نہیں کیا۔ میں اسے پٹیاں اور پھائے دینے درخت پر گیا اور اس نے اپنے چہرے اور بازوؤں کی کھرونچوں کی خود دیکھ بھال کی۔ پھر اس نے مچھلی پکڑنے کی ڈنڈی اور کانٹا لانے کو کہا، اس نے اس کے ذریعے ایک زیتون کے درخت پرسے، جو اونداریوا خاندان کے کھاد کے ڈھیر کے اوپر تھا، مردہ بلی کو اوپر کھینچ لیا۔ اس نے بلی کی کھال اتاری، پشم کو جیسا بھی سُکھا سکتا تھا سکھایا اور اس سے ایک ٹوپی بنالی۔ یہ اس طرح کی ٹوپیوں میں سے پہلی ٹوپی تھی جو ہم اسے ساری زندگی پہنے ہوے دیکھنے والے تھے۔

۷
کوسیمو پر قابو پانے کی آخری کوشش ہماری بہن باتیستا نے کی۔ یقینا یہ اس کی اپنی پیش قدمی تھی، جواس کی عادت کے مطابق کسی سے مشورہ کیے بغیر خفیہ طریقے سے کی گئی تھی۔ وہ ایک رات گوند سے بھرا مٹکا اور رسّی کی سیڑھی لے کر باہرگئی اور ایک خرنوب کے درخت کو اوپر سے نیچے تک گوند سے لیپ دیا۔ یہ وہ درخت تھا جس پر کوسیمو ہر صبح بیٹھا کرتا تھا۔
صبح، پرپھڑپھڑاتی سنہری چڑیوں، گوند میں لتھڑی چمگادڑوں، شبینہ تتلیوں، ہوا کے اڑائے ہوے پتوں اور ایک گلہری کی دُم کے علاوہ کوسیمو کے کوٹ کا پھٹا ہوا پچھلا حصہ بھی خرنوب کے درخت سے چپکا ہوا تھا۔ کون جانے وہ درخت کی کسی شاخ پر بیٹھا ہو اور پھراپنے آپ کو چھڑانے میں کامیاب رہا ہو، یا پھر— زیادہ امکان یہی ہے، کیونکہ کچھ دن سے میں نے اسے کوٹ پہنے نہیں دیکھا تھا — اس نے ہمارا مذاق اڑانے کے لیے وہ چیتھڑا جان بوجھ کر وہاں چپکادیا ہو۔ بہرحال وہ درخت کریہہ طور سے گوند میں لتھڑا رہا اور پھر سوکھ گیا۔
ہم سب، یہاں تک کہ ہمارے والد بھی، اس بات کے قائل ہونے لگے کہ وہ کبھی نہیں لوٹے گا۔ جب سے میرا بھائی سارے اومبروسا میں درختوں پر پھدکتا پھر رہا تھا، بیرن نوابی وقار مشتبہ ہو جانے کے خوف سے عوامی جگہوں پر نہیں گئے تھے۔ وہ روز بروز دبلے اور زرد ہو رہے تھے۔ میں نہیں کہہ سکتا اس میں کتنادخل پدرانہ فکرمندی کا تھا اور کتنا نسلی سلسلے کی پریشانیوں کا۔ لیکن اب دونوں باتیں مل کر ایک ہو گئی تھیں کیونکہ کوسیمو ان کا سب سے بڑا بیٹا تھا، ان کے خطاب کا وارث تھا۔ اگر پرندوں کی طرح درختوں پر پھدکتے ہوے بیرن کا تصور کرنا مشکل ہے، تو یہ بات ایک ڈیوک کے لیے، خواہ وہ لڑکا ہی کیوں نہ ہو، اور بھی نامناسب لگتی ہے، اور وارث کا یہ عمل مبارز طلب خطاب دوبارہ پانے کے لیے یقینا مددگار نہیں تھا۔
بلاشبہ یہ بے کار ذہنی مشغولیتیں تھیں، کیونکہ اومبروسا کے لوگ ہمارے والد کے تفاخر پر محض ہنستے تھے اور آس پاس رہنے والے رئیس انھیں پاگل گردانتے تھے۔ اس وقت تک ان رئیسوں نے اپنے جاگیری قلعوں کے بجاے پرفضامقامات پر واقع حویلیوں میں سکونت اختیار کرلی تھی، اور اس امر نے انھیں غیرضروری مشکلات سے بچتے ہوے عام شہریوں کا رویہ اپنانے پر قائل کر دیا تھا۔ کسے پڑی تھی جو اومبروسا کی قدیم جاگیر کے بارے میں سوچتا۔ اومبروسا کے بارے میں عجیب بات یہ تھی کہ یہ کسی کا نہیں تھا اور پھر بھی سب کا تھا۔ اونداریوا خاندان کو ، جو وہاں کی تقریباً ساری زمینوں کے مالک تھے، البتہ چند حقوق حاصل تھے،لیکن وہاں کچھ عرصے تک جمہوریۂ جینوآ کی باجگزار ایک خود مختار پنچایت قائم رہی تھی۔ ہمیں اپنی موروثی زمینوں کی فکر نہیں تھی اور نہ ہی ان زمینوں کی جو ہم نے پنچایت سے اس وقت کوڑیوں کے مول لی تھیں جب وہ انتہائی مقروض تھی۔ آدمی اور کس چیز کی خواہش کر سکتا تھا؟ اس علاقے میں رئیسوں کا ایک چھوٹا سا حلقہ آباد تھا جن کی حویلیاں اور باغات نیچے سمندر تک چلے گئے تھے۔ وہ سب ایک دوسرے سے ملتے ملاتے اور شکارکرتے ہوے ایک خوشگوار زندگی بسر کرتے تھے۔ زندگی کی لاگت کم تھی۔ انھیں درباری رئیسوں پر کئی طرح سے سبقت حاصل تھی۔ انھیں خبردار رہنے کے لیے ایسی پریشانیاں، فرائض اور اخراجات لاحق نہیں تھے جو شاہی خاندان، دارالحکومت یا سیاست سے وابستہ رئیسوں کو ہوتے ہیں۔ لیکن اپنے آپ کو ایک معزول حکمراں محسوس کرنے کے باعث ہمارے والد اس زندگی سے ذرا لطف نہ اٹھاتے تھے۔ (غیرملکی ہونے کی وجہ سے، کہا جاسکتا ہے، ہماری والدہ کا ملنا جلنا کسی سے تھا ہی نہیں۔) اس کے اپنے فوائد تھے، کیونکہ کسی سے نہ ملنے سے ہم پیسہ بھی بچاتے تھے اور اپنے وسائل کی قلّت بھی چھپاتے تھے۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اومبروسا کے عام لوگوں سے ہمارے تعلقات اچھے تھے۔ آپ کو پتا ہی ہے عام لوگ کیسے ہوتے ہیں— قدرے اکھڑ، دھندے کی بات کے سوا کچھ اور نہ سوچنے والے۔ اس زمانے میں امیر طبقوں میں شکر والی سکنجبین پینے کاچلن بڑھنے کے ساتھ لیموں اچھے بکنے لگے تھے، اور انھوں نے ہر جگہ لیموں کے باغ لگا لیے تھے اور برسوں پہلے قزاقوں کے حملوں سے تباہ ہونے والی بندرگاہ دوبارہ بنا لی تھی۔ جمہوریۂ جینوآ، شاہِ ساردینیا کے تعلقوں، بادشاہتِ فرانس اور اسُقفی زمینوں کے درمیان واقع ہونے کی وجہ سے وہ سب کے ساتھ غیرقانونی کاروبار کرتے اور جینوآ کو دیے جانے والے خراج کے سوا، جوہر باران کا خون چوس لیتا تھا اور ہر سال جمہوریہ کے محصول جمع کرنے والوں کے خلاف ہنگاموں کا سبب بنتا تھا، وہ کسی کی پروا نہ کرتے تھے۔
جب بھی محصول کے بارے میں ہنگامے ہوتے تو بیرن دی روندو یہ تصور کرتے کہ ان سے نوابی مکٹ قبول کرنے کی درخواست کی جائے گی۔ وہ عوامی چوک میں نمودار ہوتے اور خود کو اومبروسا کے لوگوں کے سامنے ان کے محافظ کے طور پر پیش کرتے، لیکن ہر بار انھیں سڑے ہوے لیموؤں کی برسات میں تیزی سے فرار ہونا پڑتا۔ پھر وہ یہ کہتے کہ ان کے خلاف سازش کی گئی ہے، جو حسبِ معمول یسوعیوں (Jesuits)کا کام ہوتا۔ انھوں نے اپنے ذہن میں یہ بٹھا لیا تھا کہ ان کے اور یسوعیوں کے درمیان زندگی اور موت کی ایک کشمکش جاری ہے اور اُن کی انجمن صرف انھیں برباد کرنے کی تدبیریں سوچتی رہتی ہے۔ حقیقت میںان کے درمیان ایک میوہ زار کی ملکیت کے بارے میں کچھ اختلافِ رائے رہا تھا، جس پر ہمارے خاندان اور انجمن دونوں کا دعویٰ تھا۔ کچھ کشمکش کے بعد بیرن، بشپ سے اچھے تعلقات ہونے کے باعث، علاقائی پادری کو تعلقے سے ہٹوانے میں کامیاب رہے تھے۔ اس وقت سے ہمارے والد کو یقین تھا کہ انجمن ان کی زندگی اور ملکیت پر حملوں کے لیے آدمی بھیجتی ہے۔ اپنی حد تک انھوں نے بشپ کو آزاد کرانے کے لیے، جو ان کے خیال میں یسوعیوں کا قیدی بن کے رہ گیا تھا، وفاداروں کی ایک رضاکار فوج بھرتی کرنے کی کوشش کی اور ہر اس شخص کو پناہ اور تحفظ کی پیش کش کی جس نے خود کو یسوعیوں کا ستایا ہوا قرار دیا۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے ہمارے روحانی باپ کے طور پر اس نیم جینسنی (Jensenist) کا انتخاب کیا جو ہمیشہ اپنے خیالوں میں گم رہتا تھا۔

صرف ایک شخص ایسا تھا جس پر ہمارے والد بھروسا کرتے تھے اور وہ تھا کوالیئے۔ بیرن اپنے اس ناجائز بھائی کے لیے ایک نرم گوشہ رکھتے تھے جیسے وہ واحد بدنصیب اولاد ہو۔ میں نہیں کہہ سکتا ہمیں اس کا احساس تھا یا نہیں، مگر اس امر پر کہ ہم میں سے کسی لڑکے کی نسبت ہمارے والد اپنے اس پچاس سالہ بھائی کے زیادہ دلدادہ تھے، کوالیئے کی جانب ہمارے رویے میں حسد کا شائبہ ضرور رہا ہوگا۔ بہرحال، اسے شک و شبہ سے دیکھنے والے صرف ہم ہی نہیں تھے، گو جنرلیسا اور باتیستا اس کی عزت کرنے کا ناٹک کرتی تھیں لیکن حقیقت میں وہ اسے برداشت نہیں کر سکتی تھیں۔ اپنے مسکین ظاہر کے پیچھے وہ ہم سب کو بے وقعت گردانتا تھا— ہو سکتا ہے کہ وہ ہم سب سے، یہاں تک کہ بیرن سے بھی جن کا وہ اس قدر رہینِ منت تھا، نفرت کرتا ہو۔ کوالیئے اس قدر کم گو تھا کہ بعض اوقات اس پر یا تو گونگا اور بہرا ہونے کا گمان کیا جاسکتا تھا یا اسے ہماری زبان سمجھنے کا نااہل کہا جاسکتا تھا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ اس نے کبھی وکیل کی حیثیت سے کیسے کام چلایا ہوگا، یا یہ کہ ترکوں کے ساتھ گزارے ہوے وقت سے پہلے بھی وہ اتنا ہی غائب الدماغ تھا۔ شاید وہ کبھی صاحبِ عقل تھا کہ اس نے ترکوں سے آبیات (hydraulics) کے سارے حسابات سیکھے تھے اور یہی واحد کام تھا جس پر وہ اب توجہ دینے کا اہل تھا اور جس کی تعریف ہمارے والد مبالغہ انگیزی کی حد تک کرتے تھے۔ میں اس کے ماضی کی بابت کبھی زیادہ نہیں جان سکا۔ نہ یہ کہ اس کی ماں کون تھی، نہ ہی یہ کہ جوانی میں اُس کے تعلقات ہمارے دادا سے کیسے تھے (جو یقینا اس کے بہت دلدادہ رہے ہوں گے کیونکہ انھوں نے اسے وکیل بنوا دیا تھا اور کوالیئے کا خطاب دیا تھا)، نہ یہ کہ وہ ترکی کیسے پہنچ گیا تھا۔ یہ بات بھی یقینی نہیں تھی کہ اتنا وقت اس نے ترکی ہی میں گزارا تھایا تیونس اور الجزائر جیسی کسی بربر ریاست میں؛ بہرحال وہ کوئی مسلمان ملک تھا، اور یہ بھی کہا جاتا تھا کہ وہ خود بھی مسلمان ہو گیا ہے۔ اس کے بارے میں بہت سی باتیں مشہور تھیں۔ مثلاً یہ کہ کسی محلاتی سازش یا کسی عورت کے حسد، یا جوئے کے قرض کی بدولت قعرِ مذلت میں گرنے اور غلام بنا کر بیچے جانے سے قبل، وہ اہم عہدوں پر فائز رہا تھا، سلطان کا اعلیٰ حکومتی اہلکار، کابینہ کا مشیرِ آبیات یا ایسا ہی کوئی عہدے دار رہا تھا۔ یہ معلوم تھا کہ وہ ایک عثمانی کشتی میں، جسے وینس کے باشندوں نے پکڑا تھا، پابہ زنجیر غلاموں کے ساتھ چپّو چلاتا ہوا ملا تھا، اور انھوں نے اسے آزاد کر دیا تھا۔ وینس میں وہ کم و بیش بھکاریوں کی طرح رہا تھا تاوقتیکہ وہ کسی اور مصیبت میں پھنس گیا، میرے خیال سے کسی جھگڑے میں (حالانکہ خدا ہی جانتا ہے کہ اس جیسا ڈرپورک آدمی کس سے لڑ سکتا تھا) اور دوبارہ جیل پہنچ گیا۔ ہمارے والد نے اسے جمہوریۂ جینوآ کی مدد سے تاوان دے کر چھڑایا اور یوں سیاہ داڑھی کے ساتھ چھوٹے قد کا ایک گنجا آدمی، بے حد خوفزدہ، نیم گنگ (میں بچہ تھا مگر اُس شام کا منظر میرے ذہن پراپنا نقش چھوڑ گیا ہے) اپنے جسم سے بہت زیادہ بڑے کپڑوں میں ملبوس، ہم تک لوٹا۔ ہمارے والد نے اسے ہر کسی پر ایک بااختیار شخص کی حیثیت سے مسلط کر دیا، اسے ناظم کا نام دیا اور ایک مطالعہ خانہ تفویض کر دیا، جو بے ترتیب کاغذوں سے زیادہ سے زیادہ بھرا جاتا رہا۔ اس زمانے کے زیادہ تر رئیسوں اور متوسط لوگوں کی طرح کوالیئے بھی مطالعہ خانے میں ایک لمبی عبا اور ترکی ٹوپی سے مماثل ایک بے حاشیہ ٹوپی پہنے رہتا تھا۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ وہ اپنے مطالعہ خانے میں شاذ ہی ہوتا تھا اور اسی لباس میں باہر دیہات میں بھی گھومتا پھرتا دیکھا جاتا تھا۔ آخرکار وہ کھانے کی میز پر بھی انھیں ترکی عباؤں میں آنے لگا اور عجیب بات یہ تھی کہ ہمارے والد، جو عام طور پر بہت اصول پسند تھے، اسے برداشت کرتے نظر آتے۔
ناظم کی حیثیت سے اپنے فرائض کے باوجود کوالیئے اپنی ڈرپوکی اور بے ربطی کی وجہ سے ناظروں یا مزارعوں یا کسانوں سے بمشکل ہی بات کر پاتا اور احکامات دینے اورلوگوں کو حد میں رکھنے کی ساری عملی ذمے داریاں حقیقت میں ہمارے والد ہی کے حصے میں آتی تھیں۔ اینیا سلویوکاریگا حساب کتاب سنبھالتا تھا۔ میں نہیں کہہ سکتا تھا کہ ہمارے امور میں اتنی خرابی اس کے حساب کتاب سنبھالنے کے انداز کے باعث تھی، یا اس کے حساب کتاب میں اتنی گڑبڑ ہمارے معاملات کی وجہ سے تھی۔وہ آب پاشی کے منصوبوں کے تخمینے لگاتا اور ان کے نقشے بھی بناتا اور ایک بڑے تختۂ سیاہ کو خطوط و اعداد اور ترکی تحریر کے الفاظ سے بھر دیتا۔ اکثر ہمارے والد اور وہ گھنٹوں مطالعہ خانہ میں بند رہتے (یہ سب سے لمبے وقفے ہوتے جو کوالیئے وہاں گزارتا تھا)۔ تھوڑی ہی دیر بعد بیرن کی ناراض آواز اور جھگڑے کی اونچی آوازیں آنے لگتیں لیکن کوالیئے کی آواز بمشکل ہی کبھی سنی گئی ہو گی۔ پھر دروازہ کھلتا اور اپنی عبا کی تہوں میں لپٹا، سر پر ٹوپی جمائے، کوالیئے نمودار ہوتا، اپنے چھوٹے چھوٹے تیز قدموں سے شیشے والے دروازے کی طرف بڑھتا اور باہر باغ میں نکل جاتا۔ ’’اینیا سلویو! اینیاسلویو!‘‘ ہمارے ابا اس کے پیچھے دوڑتے ہوے پکارتے، مگر ان کا ناجائز بھائی پہلے ہی انگور کی بیلوں کے درمیان یا لیموؤں کے کنج میں پہنچ چکا ہوتا اور پھر پتوں کے درمیان ہٹیلے پن سے ہلتی ہوئی سرخ ترکی ٹوپی کے سوا کچھ نظر نہ آتا۔ ہمارے والد آوازیں دیتے ہوے پیچھے پیچھے جاتے۔ تھوڑی دیر بعد ہم ان دونوں کو واپس آتے دیکھتے— بیرن ہمیشہ باتیں کرتے اور اپنے بازو ہلاتے ہوے اور پستہ قد کوالیئے، اپنی عبا کی جیبوں میں مٹھیاں بھینچے لنگڑا لنگڑا کے ان کے ساتھ چلتا ہوا۔

۸
اُن دنوں، جزوی طور پر خود اپنی صلاحیتیں آزمانے اور محض یہ دیکھنے کے لیے کہ اوپر درختوں پر وہ کیا کچھ کر سکتا ہے، کوسیمو نشانہ بازی کے مقابلے یا مشق کے لیے زمین پر لوگوں کو اکثر چنوتی دیتا تھا۔ وہ شرارتی لڑکوں کو چھلا پھینکنے میں چنوتی دیتا۔ ایک دن وہ پورتا کاپیری کے نزدیک خانہ بدوشوں اور پامالوں کے جھونپڑوں کے درمیان تھے۔ کوسیمو گلِ خطمی کے ایک بے برگ و بار درخت سے ان کے ساتھ چھلوں کا کھیل کھیل رہا تھا کہ اس نے ایک گھڑسوار کو آتے دیکھا۔ وہ سیاہ چوغے میں لپٹا ہوا ایک طویل القامت اور قدرے خمیدہ شخص تھا۔ بھیڑ منتشر ہو گئی جبکہ عورتیں اپنے جھونپڑوں کی دہلیزوں پر کھڑی دیکھتی رہیں۔
بیرن آرمینیو نے ٹھیک درخت کے نیچے گھوڑا روکا۔ شام لال ہو رہی تھی۔ کوسیمو برہنہ شاخوں کے درمیان ایستادہ تھا۔ وہ ایک دوسرے کو گھورتے رہے۔ گھونگھوں والے کھانے کے بعد سے یہ پہلا موقع تھا کہ باپ بیٹے نے اپنے آپ کو اس طرح روبرو پایا۔ بہت سارے دن گزر چکے تھے۔ حالات بدل چکے تھے۔ دونوں جانتے تھے کہ اب یہ گھونگھوں کا معاملہ نہیں ہے، نہ ہی بیٹے کی فرمانبرداری یا باپ کی حاکمیت کا، اور یہ کہ بہت ساری منطقی و معقول باتیں جو کہی جاسکتی ہیں، اب بے محل ہوںگی۔ اس کے باوجود انھیں کچھ نہ کچھ کہنا توتھا۔
’’تم اپنے آپ کو تماشا بنا رہے ہو!‘‘ باپ نے تلخی سے آغاز کیا، ’’واقعی شریفوں کے شایاں!‘‘ (وہ اپنی انتہائی سنجیدہ سرزنشوں کی طرح اسے رسمی ’’آپ‘‘ سے مخاطب کررہے تھے لیکن اب اس لفظ کے استعمال میں ایک مفہوم فاصلے اور بیگانگی کا بھی تھا۔)
’’شریف، میرے محترم والد، شریف ہے، خواہ وہ زمین پر ہو یا درختوں کی پھننگوں پر،‘‘ کوسیمو نے جواب دیا اور فوراً اضافہ کیا، ’’اگر وہ شائستگی کا رویہ اختیار کرتا ہو۔‘‘
’’عمدہ قول!‘‘ بیرن نے سنجیدگی سے اعتراف کیا، ’’اور پھر بھی محض تھوڑی دیر پہلے تم ہمارے ایک مزارعے کے آلوبخارے چرا رہے تھے۔‘‘
یہ بات درست تھی۔ میرے بھائی کو دیکھ لیا گیا تھا۔ وہ کیا جواب دیتا؟ وہ مسکرایا مگر نخوت یا طنز سے نہیں بلکہ جھینپ کر، اور اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
باپ بھی حزن سے مسکرا دیا اور کسی نہ کسی وجہ سے اس کا چہرہ بھی سرخ ہو گیا۔
’’تم علاقے کے بدترین بدمعاش لڑکوں کے ساتھ مشترک مقصد اپنا رہے ہو!‘‘ پھر وہ بولے۔
’’نہیں، میرے محترم والد، میں اکیلا ہوں، اور ہر کوئی اپنے لیے کام کرتا ہے،‘‘ کوسیمو نے ثابت قدمی سے کہا۔
’’میں تم سے نیچے زمین پر آنے کا مطالبہ کرتا ہوں،‘‘ بیرن نے ایک پرسکون بلکہ کمزور آواز میں کہا، ’’اور اپنے رتبے کی ذمے داریاں سنبھالنے کو کہتا ہوں!‘‘
’’میں آپ کی فرمانبرداری کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا، میرے محترم والد،‘‘ کوسیمو نے کہا، ’’مجھے بہت افسوس ہے۔‘‘
وہ دونوں پریشان تھے، اوراُکتائے ہوے۔ ہر ایک جانتا تھا کہ دوسرا کیا کہے گا۔ ’’اور تمھاری پڑھائی کا کیا ہوگا؟ایک مسیحی کی حیثیت سے تمھاری عبادت کا کیا ہوگا؟‘‘ باپ نے کہا، ’’کیا تم ایک امریکی وحشی کی طرح بڑے ہونا چاہتے ہو؟‘‘
کوسیمو خاموش تھا۔ یہ وہ سوالات تھے جو اس نے ابھی تک اپنے آپ سے نہیں کیے تھے اور نہ اس کی ایسی خواہش تھی۔ پھر وہ بے ساختہ بولا، ’’محض اس لیے کہ میں چند گز اوپر ہوں، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اچھی تعلیم مجھ تک نہیں پہنچ سکتی؟‘‘
یہ بھی ایک عمدہ جواب تھا، حالانکہ اس جواب نے اس کے دائرۂ عمل کو ایک طرح سے گھٹا دیا تھا، اور یہ کمزوری کی علامت تھی۔
اس کے باپ نے اس بات کو محسوس کرلیا اور وہ مزید مصر ہو گیا۔ ’’بغاوت گزوں میں نہیں ناپی جاسکتی،‘‘ اس نے کہا، ’’انتہائی مختصر نظرآنے والا سفربھی بے حاصل ہو سکتا ہے۔‘‘
یہ وہ لمحہ تھا کہ میرا بھائی کوئی اور ارفع جواب لاتا، غالباً کوئی اور لاطینی قول بیان کرتا، مگر فوری طور پر اسے کچھ یاد ہی نہیں آیا، حالانکہ بیسیوں اقوال اسے زبانی یاد تھے۔ اس کے بجاے وہ اس تمام سنجیدگی سے اچانک اُکتا گیا اور اس نے چلاّ کر کہا، ’’لیکن درختوں پر سے میں زیادہ دور تک مُوت سکتا ہوں۔‘‘ گو یہ فقرہ زیادہ بامعنی نہیں تھا مگر اس نے حجت کو تمام کر دیا۔
پورتا کاپیری کے اطراف بدحالوں کی ایک اونچی آواز اٹھی جیسے انھوں نے یہ فقرہ سن لیا ہو۔ بیرن دی روندو کا گھوڑا بدک گیا۔ بیرن نے باگیں کھینچیں اور اپنے آپ کو چوغے میں اچھی طرح لپیٹ کر جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ پھر وہ گھومے، چوغے سے ایک ہاتھ باہر نکال کر آسمان کی طرف اشارہ کیا جواچانک سیاہ بادلوں سے ڈھک گیا تھا، اور بولے، ’’ہوشیار رہنا، بیٹا، کوئی ایسا بھی ہے جو ہم سب پر مُوت سکتا ہے!‘‘ اور ان الفاظ کے ساتھ اس نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگادی۔
دیہاتی علاقے میں دیر سے متوقع بارش موٹے موٹے بکھرے ہوے قطروں میں برسنے لگی۔ سروں پر بوریاں ڈالے شرارتی بچے جھونپڑوں کے درمیان بھاگتے دوڑتے ہوے مقامی بولی میں گانے لگے، ’’بارش آئی! بارش آئی! ہو گئی دور شکایت بھائی!‘‘ کوسیمو پانی سے بوجھل پتوں میں غائب ہو گیا جو ذرا سا چھو جانے پر اس کے سر پر پھواریں انڈیل رہے تھے۔
جونہی مجھے بارش ہونے کا احساس ہوا مجھے اُس کی فکر لاحق ہو گئی۔ میں نے تصور کیا کہ وہ پانی سے شرابور، بارش کی ترچھی بوچھاروں سے بچنے میں ناکام، کسی درخت کے سہارے دبکا ہوا ہے، اور میں جانتا تھا کہ طوفان اسے لوٹنے پر آمادہ نہیں کر سکتا۔ سو میں جلدی سے ماں کی طرف گیا۔ ’’بارش ہو رہی ہے! کوسیمو کیا کرے گا، والدہ محترمہ؟‘‘
جنرلیسا نے پردہ ہٹایا اور برستی بارش کو دیکھا۔ وہ پرسکون تھیں۔ ’’شدید بارش میں سب سے زیادہ تکلیف دہ چیز کیچڑ ہوتی ہے۔ وہاں اوپر وہ اس سے دور ہے۔‘‘
’’لیکن درختوں میں اسے مناسب پناہ مل سکے گی؟‘‘
’’وہ اپنے خیموں میں چلا جائے گا۔‘‘
’’کون سے خیمے، والدہ محترمہ؟‘‘
’’اتنی دور اندیشی تو اس میں رہی ہوگی کہ انھیں وقت پربنالے۔‘‘
’’لیکن آپ کے خیال میں یہ بہتر نہیں کہ میں اسے جا کر ڈھونڈوں اور ایک چھتری دے آؤں؟‘‘
لفظ چھتری نے جیسے انھیں اچانک مشاہدے کی جگہ سے کھینچ کر دوبارہ مادرانہ انہماک میں دھکیل دیا ہو، جنرلیسا نے کہنا شروع کیا، ’’ہاں، بالکل مناسب۔ اور شربتِ سیب کی ایک بوتل، خوب گرم، اونی موزے میں لپٹی ہوئی! اور کچھ موم جامہ، شاخوں پر پھیلانے اور نمی کی ترسیل روکنے کے لیے۔۔۔ لیکن وہ اس وقت کہاں ہوگا، بے چارہ بچہ۔۔۔! ہمیں امید کرنی چاہیے کہ تم اسے ڈھونڈ نکالو گے۔۔۔‘‘
گٹھریوں سے لدا پھندا، بغل میں کوسیمو کے لیے ایک بند چھتری لیے، میں ایک بڑی ساری سبز چھتری تلے باہر بارش میں نکل پڑا۔
میں نے مخصوص سیٹی بجائی مگر درختوں پر بارش کی بے انت ٹپ ٹپ کے سوا کوئی جواب نہ پایا۔ اندھیرا ہو رہا تھا۔ باغ کے احاطے سے باہر نکلتے ہی میں اپنے راستے سے ناآشنا تھا اور پھسلتے پتھروں، اسفنجی گھاس اور جوہڑوں میں اٹکل پچو قدم رکھ رہا تھا۔ میں اس دوران سیٹی بجاتے ہوے چھتری پیچھے کی طرف جھکا دیتا تھا کہ سیٹی کی آواز اوپر کی طرف جائے مگر ایسا کرنے میں بارش چابک کی طرح میرے چہرے پر پڑتی اور سیٹی کی آواز کو میرے لبوں سے بہا لے جاتی۔ میرا ارادہ عوامی زمینوں کی طرف جانے کا تھا مگر میں اندھیرے میں کھو گیا اور گٹھریاں اور چھتریاں مضبوطی سے تھامے وہیں کھڑا رہا۔ صرف شربتِ سیب کی اونی موزے میں لپٹی بوتل مجھے کچھ حرارت پہنچا رہی تھی۔
پھر درختوں کے درمیان، اوپر اندھیرے میں، مجھے ایک روشنی نظر آئی جو نہ تو چاند کی ہو سکتی تھی نہ ستاروں کی، اور اپنی سیٹی پر مجھے ایسا لگا کہ اس نے جواب میں سیٹی بجائی ہے۔
’’کوسیمو...و...و!‘‘
’’بیاجیو...و...و!‘‘ درختوں کی پھننگوں پر سے بارش میں آواز آئی۔
’’تم کہاں ہو؟‘‘
’’یہاں۔۔۔ میں تمھاری طرف آرہا ہوں۔ جلدی کرو۔ میں بھیگ رہاہوں!‘‘
ہم نے ایک دوسرے کو ڈھونڈ لیا۔ کمبل میں لپٹا ہوا وہ ایک بیدِ مجنوں کے زیریں دو شاخے تک نیچے آیا اور اس کی پیچیدہ گتھی ہوئی شاخوں کے ذریعے مجھے ایک اونچے تنے والے سفیدے کے درخت تک لے گیا جہاں سے وہ روشنی آرہی تھی۔ میں نے چھتری اور کچھ گٹھریاں اسے فوراً دے دیں۔ ہم کھلی چھتریوں کے ساتھ اوپر چڑھنے کی کوشش کرنے لگے، لیکن یہ ناممکن تھا اور ہم بھیگنے سے نہ بچ سکے۔ آخرکار میں اس جگہ پہنچ گیا جہاں وہ مجھے لے جارہا تھا، لیکن ایک مدھم روشنی کے سوا کچھ نہ دیکھ پایا جو ایک خیمے کے پردوں سے آتی معلوم ہو رہی تھی۔
کوسیمو نے ایک پردہ ہٹایا اور مجھے اندر لے گیا۔ لالٹین کی روشنی میں میں نے دیکھا کہ میں ایک طرح کے چھوٹے سے کمرے میں ہوں جو ہر طرف سے پردوں اور قالینوں سے بند اور ڈھکا ہوا ہے۔ درخت کا مرکزی حصہ کمرے کو قطع کر رہا تھا اور اس کا فرش بَلّیوں سے بنا تھا جنھیں موٹی موٹی شاخوں نے سہار رکھا تھا۔ اس لمحے تو یہ کمرہ مجھے محل لگا لیکن جلد ہی مجھے احساس ہونے لگا کہ یہ کس قدر غیرمستحکم ہے۔ اس کے اندر دو آدمیوں کی موجودگی سے توازن بگڑنے لگا اور کوسیمو کو فوراً درزیں بند کرنے میں جٹ جانا پڑا۔ میں جو چھتریاں لایا تھا اس نے انھیں بھی کھول کر چھت کے دو سوراخوں پر رکھا مگر اور کئی جگہوں سے بھی پانی آ رہا تھا۔ ہم دونوں تربتر ہو گئے اور ہمیں ایسی ٹھنڈ لگی جیسے ہم اتنی دیر باہر رہے ہوں۔ تاہم وہاں کمبلوں کی اتنی تعداد جمع کی گئی تھی کہ ہم نے صرف اپنے سروں کو باہر چھوڑتے ہوے خود کو مکمل طور پر ڈھانپ لیا۔ لالٹین سے ایک غیریقینی، بھڑکتی ہوئی روشنی آرہی تھی اور شاخیں اور پتے اس عجیب تعمیر کے بام و دیوار پر الجھے ہوے سائے ڈال رہے تھے۔ کوسیمو بڑے بڑے گھونٹ لے کر شربتِ سیب پی رہا تھا اور ہانپتے ہوے’’ فوہ فوہ‘‘ کر رہا تھا۔
’’بڑا اچھا گھر ہے،‘‘ میں بولا۔
’’اوہ، یہ صرف عارضی ہے،‘‘ کوسیمو نے جلدی سے جواب دیا۔ ’’مجھے اس کے بارے میں بہتر طریقے سے سوچنا ہوگا۔‘‘
’’تم نے یہ سارے کا سارا خود بنایا ہے؟‘‘
’’یقینا، اور کون بناتا؟ یہ خفیہ ہے۔‘‘
’’کیا میں یہاں آسکتا ہوں؟‘‘
’’نہیں، ورنہ تم کسی اور کو راستہ دکھا دو گے۔‘‘
’’ابا نے کہا ہے وہ تمھاری تلاش ختم کر رہے ہیں۔‘‘
’’اس کے باوجود اسے راز ہی رہنا چاہیے۔‘‘
’’ان لڑکوں کی وجہ سے جو چوری کرتے ہیں؟ مگر کیا وہ تمھارے دوست نہیں ہیں؟‘‘
’’بعض اوقات ہوتے ہیں اور بعض اوقات نہیں ہوتے۔‘‘
’’اور وہ ٹٹوسوار لڑکی؟‘‘
’’تمھیں اس سے کیا لینا ہے؟‘‘
’’میرا مطلب تھا وہ تمھاری دوست ہے، نہیں؟ اور تم اکٹھے کھیلتے ہو، کھیلتے ہونا؟‘‘
’’بعض اوقات کھیلتے ہیں اور بعض اوقات نہیں کھیلتے۔‘‘
’’بعض اوقات ہی کیوں؟‘‘
’’کیونکہ ہو سکتا ہے میں نہ چاہوں، ہو سکتا ہے وہ نہ چاہے۔‘‘
’’اور اسے، کیا تم اسے یہاں اوپر آنے دو گے؟‘‘
کوسیمو تیوری چڑھائے ایک شاخ پر چٹائی بچھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ’’ہاں اگر وہ آئی تو میں اسے اوپر آنے دوں گا،‘‘ اس نے سنجیدگی سے کہا۔
’’کیا وہ آنا نہیں چاہتی؟‘‘
کوسیمو پھٹ پڑا۔ ’’وہ چلی گئی ہے۔‘‘
’’یہ بتاؤ،‘‘ میں نے سرگوشی کی، ’’تمھاری منگنی ہو گئی ہے؟‘‘
’’نہیں،‘‘ میرے بھائی نے جواب دیا اور اپنے آپ کو ایک طویل خاموشی میں لپیٹ لیا۔

اگلے دن موسم خوشگوار تھا اور یہ طے ہوا کہ کوسیمو، ایبے فوشیلی فلیئر سے دوبارہ پڑھنا شروع کرے گا۔ لیکن کیسے؟ یہ نہیں بتایا گیا۔ بیرن نے سادگی بلکہ اکھڑپن کے ساتھ ایبے سے کہا، (’’۔۔۔ محض وہاں کھڑے ہو کر مکھیوں کو دیکھنے کے بجاے۔۔۔‘‘) کہ میرا بھائی جہاں کہیں بھی ہو اسے جا کر ڈھونڈے اور ورجل کا تھوڑا سا ترجمہ کرائے۔ پھر، اس خوف سے کہ انھوں نے ایبے کو بہت دشوار صورت حال میں ڈال دیا ہے، بیرن نے اس کا کام آسان کرنے کی کوشش کرتے ہوے، مجھ سے کہا، ’’جاؤ اپنے بھائی سے کہو کہ اپنے لاطینی سبق کے لیے آدھے گھنٹے بعد باغ میں آجائے۔‘‘ انھوں نے یہ بات فطری انداز کے ساتھ ایسے لہجے میں کہی جسے وہ آئندہ کے لیے بھی برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتے تھے؛ کوسیمو کے درختوں پر چلے جانے کے بعد بھی ہر چیز حسبِ سابق ہی رہنی چاہیے تھی۔
چنانچہ پڑھائی شروع ہوئی۔ میرا بھائی اپنی لٹکتی ہوئی ٹانگوں کے ساتھ بلوط کی ایک شاخ پر بیٹھا تھا اور ایبے نیچے گھاس میں ایک اسٹول پر۔ اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے وہ چھ چھ ارکان والے مصرعے لحن کے ساتھ سنگت میں پڑھ رہے تھے۔ میں وہیں آس پاس کھیلتا رہا اور پھر تھوڑی دیر کے لیے ذرا آگے نکل گیا۔ جب میں لوٹا تو ایبے درخت پر تھا۔ موزوں میں لپٹی اپنی لمبی پتلی ٹانگوں کے ساتھ وہ ایک شاخ پر بیٹھنے کی کوشش کر رہا تھا اور کوسیمو ایک کہنی کے ذریعے اس کی مدد کر رہا تھا۔ انھوں نے بوڑھے آدمی کے لیے ایک آرام دہ جگہ ڈھونڈ لی اور کتاب پر جھکتے ہوے ایک مشکل حصے کو اکٹھے پڑھنے لگے۔ میرا بھائی بہت مستعدی دکھاتا ہوا نظر آرہا تھا۔
پھر، میںنہیں کہہ سکتا کیا ہوا، شاگرد کیوں بھاگ گیا، غالباً اس لیے کہ ایبے کا ذہن بھٹک گیا تھا اور اس نے حسبِ معمول خلا میں دیکھنا شروع کر دیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اچانک صرف بوڑھے پادری کی سیاہ شبیہ شاخوں میں دبکی ہوئی رہ گئی۔ کتاب اس کے گھٹنوں پر تھی اور وہ پاس اڑتی ہوئی ایک سفید تتلی کودیکھ رہا تھا۔ اس کا منھ کھلا تھا اور نظریں تتلی کا تعاقب کررہی تھیں۔ جب تتلی نظر سے اوجھل ہوئی تو ایبے کو اچانک احساس ہوا کہ وہ درخت پر تنہا ہے اور وہ خوفزدہ ہو گیا۔ اس نے تنے کو جکڑ لیا اور چلاّنے لگا، ’’بچاؤ! بچاؤ!‘‘ یہاں تک کہ لوگ سیڑھی لے کر آپہنچے۔ وہ رفتہ رفتہ پرسکون ہوا اور نیچے اترا۔


۹
درحقیقت، کوسیمو، اپنے اس فرار کے باوجود جس نے ہمیں خاصی حد تک پریشان کر رکھا تھا، تقریباً اسی قربت سے ہمارے ساتھ رہتا تھا جس طرح پہلے رہا کرتا تھا۔ وہ ایسا تنہا شخص تھا جسے لوگوں سے گریز نہیں تھا۔ درحقیقت ایک طرح سے وہ انھیں ہر چیز سے زیادہ پسند کرتا ہوا لگتا تھا۔ ایسی جگہوں میں جہاں کسان کھدائی کرتے ہوتے یا کھاد بناتے ہوتے یا فصل کاٹ رہے ہوتے وہ کسی درخت پر بیٹھ جاتا اور خوش خلقی سے انھیں سلام کرتا۔ وہ حیران ہو کر اپنے سر اٹھاتے اور وہ فوراً ہی انھیں دکھانے کی کوشش کرتا کہ وہ کہاں ہے۔ کیونکہ اس نے انگوٹھا نتھنے پر رکھ کر انگلیاں پھیلانے اور راہگیروں کو چڑانے کے اس شغل سے نجات حاصل کرلی تھی جس میں ہم دونوں نے، جب ہم پہلے درختوں پر اکٹھے ہوا کرتے تھے، جی بھر کے مزے لیے تھے۔ پہلے پہل، اسے شاخوں پر اتنے فاصلے طے کرتے دیکھ کر کسان بڑے پریشان ہوے اور یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ آیا اسے ہیٹ اتار کر سلام کریں جس طرح دیگر شرفا کو کرتے ہیں، یا اس پر چلّائیں جس طرح شرارتی بچوں پر چلاتے ہیں۔ پھر انھیں اپنے کام یا موسم کے بارے میں اس کے ساتھ گپ شپ کرنے کی عادت پڑ گئی اور وہ اس کھیل کو جو وہ وہاں اوپر کھیل رہا تھا، ان بہت سے کھیلوں کی نسبت جو وہ شرفا کو کھیلتے دیکھ چکے تھے، بہتر یا بدتر سمجھنے سے قاصر معلوم ہونے لگے۔
وہ ایک وقت میں پورے آدھے آدھے گھنٹے تک بیٹھا درختوں سے انھیں کام کرتے دیکھتا اور بیجوں اور کھاد کے بارے میں سوالات کرتا؛ ایسا کرنے کا خیال اسے تب کبھی نہیں آیا تھا جب وہ زمین پر تھا، کہ اس وقت اسے شرم نے دیہاتیوں یا نوکروں سے مخاطب ہونے سے روک رکھا تھا۔ بعض اوقات وہ انھیں بتاتا کہ وہ جو نالی کھود رہے ہیں سیدھی جارہی ہے یا ٹیڑھی ہے، یا یہ کہ پڑوسی کے کھیت میں ٹماٹر پک چکے ہیں۔ بعض اوقات وہ چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے خود کو پیش کرتا، مثلاً درانتی چلانے والے کی بیوی سے سان لانے کے لیے کہنا، یا کسی کو میوہ زار میں پانی بند کرنے کی تنبیہ کرنا۔ اور اگر، کسانوں کے لیے ان پیغامات کے سلسلے میں گھومنے کے دوران، کسی اناج کے کھیت پر بیٹھے چڑیوں کے غول پر اس کی نظر پڑ جاتی تو وہ چلاّتا اور انھیں بھگانے کے لیے اپنی ٹوپی ہلاتا۔
جنگل کے گرد آنے جانے کے دوران انسانوں سے اس کی مڈبھیڑ ہرچند کہ شاذ ہی ہوتی مگر یاد رکھنے کے قابل ہوتی کیونکہ یہ ایسے لوگوں سے ہوتی جن سے ہم جیسے لوگ کبھی نہیں مل پاتے۔ ان دنوں قسم قسم کے سیلانی جنگلوں میں پڑاؤ ڈالا کرتے تھے۔ ان میں کوئلہ گر، قلعی گر، شیشہ تراش اور ایسے خاندان ہوتے جنھیں بھوک نے ان غیریقینی پیشوں سے روزی کمانے کے لیے اپنے گھروں سے جھونپڑیاں کھڑی کرلیتے۔ پہلے پہلے وہ اس سمور پوش لڑکے کو اپنے سروں پر سے گزرتادیکھ کر خوفزدہ ہوے، خاص طور پر عورتیں جنھوں نے اسے کوئی بھتنا سمجھا، پھر وہ ان کا دوست بن گیا اور انھیں کام کرتے دیکھنے میں گھنٹوں گزارنے لگا۔ شام کو جب وہ الاؤ کے گرد بیٹھتے تو وہ کسی نزدیکی شاخ پر بیٹھ کر ان کی کہانیاں سنتا۔
سب سے زیادہ کوئلہ گر کوٹے ہوے کوئلے سے بھری ایک کھلی جگہ پر آباد تھے۔ وہ برگامو کے رہنے والے تھے اور ان کی بولی سمجھنا ناممکن تھا۔ وہ چلّا کر ’’ہورا ہوتا‘‘کی آواز لگاتے۔ وہ سب سے طاقتور اور سب سے زیادہ الگ تھلگ، ایک منظم جماعت تھے اور خون، دوستی اور دشمنی کے رشتوں کے ساتھ سارے جنگل میں پھیلے ہوے تھے۔ بعض اوقات کوسیمو ان کے کسی ایک اور دوسرے گروہ کے درمیان پیغامبر کا کردار ادا کرتا، خبریں پہنچاتا اور ان کے لیے سندیسوں کے متعدد سفر کرتا۔
’’سرخ بلوط کے نیچے جو لوگ ہیں انھوں نے کہا ہے کہ تمھیں ’ہانفالاہاپا ہوتال ہوک!‘ کہوں۔‘‘
’’انھیں جواب دو،’ ہین ہو بت ہودی ہوت!‘‘‘
وہ ان حلقی آواز والے پر اسرار بولوں کو یاد رکھتا اور جس طرح صبح جگانے والی چڑیوں کی چہکار کی نقل اتارنے کی کوشش کرتاتھا، اسی طرح ان الفاظ کی نقل اتارنے کی کوشش کرتا ۔

اس وقت تک یہ خبر پھیل چکی تھی کہ بیرن دی روندو کا ایک بیٹا مہینوں سے درختوں پر ہے۔ اس پر بھی ہمارے والد اس بات کو اجنبیوں سے چھپانے کی کوشش کرتے تھے۔ مثال کے طور پرکاؤنٹ اور کاؤنٹس دیستومیک، فرانس جاتے ہوے جہاں خلیجِ تُولوز میں ان کی جائیداد تھی، ہمیں ملنے آئے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ اس ملاقات کے پیچھے کون سا ذاتی مفاد تھا۔ مختلف جائیدادوں پر دعوے، ان کے بیٹے کے لیے، جو پادری تھا، کسی تعلقے کی توثیق جس کے لیے انھیں بیرن دی روندو کی رضامندی درکار تھی۔ جیساکہ تصور کیا جاسکتا ہے، ہمارے والد نے اس اتحاد پر اپنے سلسلۂ شاہی کے ان دعووں کے لیے جو انھیں اومبروسا پر تھے، منصوبوں کا ایک قلعہ تعمیر کرنا شروع کر دیا۔
ختم نہ ہونے والے آداب و رسوم اور کورنشوں کے ساتھ ایک اذیت خیز، اکتا دینے والی دعوت ہوئی۔ مہمانوں کے ساتھ ایک پستہ قد، وِگ پوش، نوجوان بیٹا تھا۔ بیرن نے اپنے بیٹوں کا تعارف کرایا، یعنی صرف میرا، اورکہا، ’’میری بیٹی باتیستا، بے چاری لڑکی، ایسی گوشہ نشین زندگی گزارتی ہے، ایسی نیک ہے، میں نہیں کہہ سکتا آپ اس سے مل بھی پائیں گے۔‘‘ اور عین اسی لمحے وہ احمق آن ٹپکی۔ اس نے منھ پر رنگ برنگی پٹیوں اور جھالروں سے مزین راہباؤں کا نقاب ڈال رکھا تھا۔ اس کے چہرے پر پاؤڈر اور ہاتھوں میں دستانے تھے۔ اس بات پر زور دینا چاہیے کہ نوعمر مارکوئیس دیلامیلاوالے واقعے کے بعد سے ہماری بہن نے کسی نوجوان پر کبھی نظرنہیں ڈالی تھی۔ ہاں ملازم لڑکوں اور گاؤں کے لڑکوں کی بات اور ہے۔ نوجوان کاؤنٹ دیستومیک آداب کے لیے جھکا تو وہ ہسٹیریائی انداز میں ہنسنے لگی۔ بیرن جو اپنی بیٹی کو ایک ضائع شدہ قضیہ سمجھ کر پہلے ہی اپنے ہاتھ دھو چکا تھا، اب اپنے ذہن میں نئے امکانات کا جائزہ لینے لگا۔
لیکن بوڑھے کاؤنٹ کا انداز بے اعتنائی ظاہر کر رہا تھا۔ اس نے پوچھا، ’’کیا آپ کا ایک اور بیٹا نہیں تھا، موسیو آرمینیو؟‘‘
’’ہاں، بڑا بیٹا،‘‘ ہمارے والد نے کہا، ’’لیکن ، محض اتفاق کی بات ہے، وہ شکار پر گیا ہوا ہے۔‘‘
انھوں نے جھوٹ نہیں بولا تھا کیونکہ ان دنوں کوسیمو طوطیوں اور خرگوشوں کے پیچھے اپنی بندوق کے ساتھ ہر وقت جنگل ہی میں ہوتا تھا۔ یہ بندوق وہ تھی جو میں نے اسے لے جاکے دی تھی۔ یہ ہلکی بندوق تھی جو باتیستا نے چوہوں کے خلاف استعمال کی تھی اور اس خاص کھیل کو چھوڑنے کے بعد کچھ وقت سے ایک کیل پر لٹکا رکھی تھی۔
کاؤنٹ ہمارے علاقے میں پائے جانے والے شکار کے بارے میں پوچھنے لگا۔ بیرن نے اپنے جواب عمومی باتوں تک محدود رکھے کیونکہ اپنے اردگرد کی دنیا میں دلچسپی نہ لینے کے باعث وہ بندوق چلانا نہیں جانتا تھا۔ اب میں نے گفتگو میں مداخلت کی، حالانکہ مجھے ہدایت کی گئی تھی کہ جب بڑے بول رہے ہوں تو مجھے نہیں بولنا ہے۔
’’تم جیسا چھوٹا بچہ ان باتوں کے بارے میں کیا جان سکتا ہے؟‘‘ کاؤنٹ نے پوچھا۔
’’میرا بھائی جو شکار نیچے گراتا ہے میں اٹھا کر لاتا ہوں اور پھر اسے اوپر پہنچاتا ہوں۔۔۔‘‘ ابھی میں بول ہی رہا تھا کہ ہمارے والد نے مجھے ٹوک دیا۔
’’تمھیں کس نے بولنے کو کہا ہے؟ جاؤ، کھیلو۔‘‘
ہم باغ میں تھے۔ چونکہ گرمیوں کے دن تھے لہٰذا شام ہونے کے باوجود ابھی روشنی تھی۔ اور اب چیڑ اور بلوط کے درختوں پر کوسیمو خاموشی سے نمودار ہوا۔ اس کے سر پر بلی کے سمور والی ٹوپی تھی اور ٹانگوں پر ساق پوش۔ ایک کندھے پر بندوق لٹک رہی تھی اور دوسرے پر بھالا۔
’’ارے، ارے!‘‘ کاؤنٹ نے کھڑے ہوتے ہوے اور بہتر طور سے دیکھنے کے لیے اپنا سر گھماتے ہوے، حیران ہو کر اظہار کیا۔ ’’وہ کون ہے؟ وہ درختوں پر کون ہے؟‘‘
’’کیا، کیا؟ میں واقعی نہیں جانتا۔۔۔‘‘ ہمارے والد نے کہنا شروع کیا، اور اس سمت میں دیکھنے کے بجاے جہاں وہ اشارہ کر رہا تھا، کاؤنٹ کی آنکھوں میں دیکھنے لگے جیسے اپنے آپ کو یقین دلا رہے ہوں کہ وہ ٹھیک سے دیکھ سکتے ہیں۔
اس دوران کوسیمو ان کے عین اوپر ایک مقام پر آ گیا تھا اور ٹانگیں چوڑی کیے ایک دو شاخے پر کھڑا تھا۔
’’آہ! یہ میرا بیٹا ہے۔ ہاں، کوسیمو۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں محض بچہ ہے۔ ہمیں حیران کرنے کے لیے اوپر چڑھ گیا ہے۔۔۔‘‘
’’یہ آپ کا بڑا بیٹا ہے؟‘‘
’’ہاں، ہاں۔ دونوں لڑکوں میں بڑا یہ ہے، مگر صرف ذرا ہی بڑا۔ آپ جانتے ہیں دونوں ابھی بچے ہیں، کھیل رہے ہیں۔۔۔‘‘
’’شاخوں پر اس طرح گھومنے والا بچہ یقینا بڑا ذہین ہوگا اور وہ بھی اسلحے کے ساتھ۔۔۔‘‘
’’ایہہ، محض کھیل رہا ہے!‘‘ اور جھوٹ بولنے کی ایک زبردست کوشش کے ساتھ، جس نے انھیں تمام تر سرخ کر دیا، انھوں نے آواز دی، ’’تم وہاں اوپر کیا کر رہے ہو؟ ایہہ؟ ذرا نیچے آؤ گے؟ آؤ اور ہمارے محترم کاؤنٹ کو آداب کرو!‘‘
کوسیمو بلی کے سمور والی ٹوپی اتار کر خمیدہ ہوا۔ ’’میری تعظیمات، محترم کاؤنٹ۔‘‘
’’ہا ہا ہا!‘‘ کاؤنٹ ہنس پڑا۔‘‘ بہت خوب، بہت خوب! اسے وہاں اوپر ہی رہنے دیجیے، اسے اوپر ہی رہنے دیجیے، موسیو آرمینیو! یہ لڑکا درختوں پر چڑھنے میں بہت تیز ہے!‘‘ اور وہ ہنسنے لگا۔
اور وہ چھوٹا بندرنما کاؤنٹ متواتر دہرائے جارہا تھا، ’’ طبع زاد، بالکل طبع زاد!‘‘
کوسیمو وہیں دو شاخے پر بیٹھ گیا۔ ہمارے والد نے موضوع بدلا اور کاؤنٹ کی توجہ بٹانے کی امید میں بے تکان بولنے لگے۔ مگر کاؤنٹ تھوڑی تھوڑی دیر بعد نظریں اٹھاتا اور میرا بھائی ہمیشہ وہاں ہوتا، اِس درخت پر یا اُس درخت پر، اپنی بندوق صاف کرتے ہوے یا اپنے ساق پوشوں کو چکنا کرتے ہوے یا رات کی آمد آمد کے باعث، اپنی فلالین کی قمیص پہنتے ہوے۔
’’اوہ، لیکن دیکھو! وہ وہاں اوپر ہر کام کر سکتا ہے، یہ لڑکا سب کچھ کر سکتا ہے! کیسی مزے کی بات ہے! میں اس کے بارے میں اہلِ دربار کو بتاؤں گا، اسی دن جس دن پہلی بار میں اپنے پادری بیٹے کو بتاؤں گا! اورمیں اپنی خالہ شہزادی کو بھی بتاؤں گا!‘‘
اب میرے والد اپنے آپ پر بمشکل قابو رکھ پا رہے تھے ۔اور پھران کے ذہن پر ایک اور بوجھ بھی تھا۔ انھیں آس پاس اپنی بیٹی نظر نہیں آ رہی تھی اور نوجوان کاؤنٹ بھی غائب تھا۔
کوسیمو اپنے چھان بین کے دورے پر نکلا ہوا تھا اور اب ہانپتا ہوا واپس آرہا تھا۔ ’’باتیستا نے اسے ہچکیاں لگا دی ہیں! باتیستا نے اسے ہچکیاں لگادی ہیں!‘‘
کاؤنٹ فکر مند نظر آنے لگا۔ ’’اوہ، یہ تو افسوس ناک بات ہے! میرے بیٹے کو ہچکیوں سے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ ذرا اچھے لڑکے کی طرح جاؤ اور دیکھو کیا ہو رہا ہے۔ انھیں واپس لے آؤ۔ ان سے واپس آنے کو کہو۔‘‘
کوسیمو اچھلتا ہوا گیا اور پہلے سے زیادہ ہانپتا ہوا لوٹا۔ ’’وہ ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ وہ اس کی ہچکیاں ختم کرنے کے لیے اس کی قمیص میں زندہ چھپکلی ڈالنا چاہتی ہے! اوروہ اسے ایسا کرنے نہیں دینا چاہتا!‘‘ اور وہ ایک بار اور دیکھنے کے لیے چھلانگیں مارنے لگا۔
اس طرح وہ شام ہم نے گھر پر گزاری، جو حقیقت میں دوسری شاموں سے بہت زیادہ مختلف نہیں تھی، جب کوسیمو اوپر درختوں پر سے ہماری زندگیوں کے کناروں پر دبے پاؤں چل رہا تھا۔ مگر اس بار ہمارے ہاں مہمان آئے ہوے تھے۔ نتیجے کے طور پر میرے بھائی کے طرزِعمل کی خبر یورپ کے سارے درباروں میں پھیل گئی جس سے میرے والد کو بڑی ندامت ہوئی۔ لیکن یہ ندامت بالکل بے بنیاد تھی کیونکہ کاؤنٹ دیستومیک ہمارے خاندان کے بارے میں پسندیدہ تاثر لے کر گیا جس کے نتیجے میں ہماری بہن باتیستا نوجوان کاؤنٹ کی منگیتر بن گئی۔

۱۰
زیتون کے درخت اپنی پُرپیچ شکلوں کی وجہ سے کوسیمو کے لیے آرام دہ اور آسان رہگذار تھے؛ موٹی شاخوں کی کمی اور اپنی مخصوص ساخت کی وجہ سے نقل و حرکت میں پیدا ہونے والی یکسانیت کے باوجود وہ کھردری، دوستانہ چھال کے ان صابر درختوں سے گزر سکتا تھا، یا ان پردم لے سکتا تھا۔ تاہم انجیر کے درخت پر، اس احتیاط کے ساتھ کہ شاخیں اس کا وزن سہار سکیں، وہ ہمیشہ کے لیے گھوم سکتا تھا۔ کوسیمو پتوں کے شہ نشین تلے کھڑاہوکر، ڈنٹھلوں سے پھوٹتی کونپلوں کی خوشبو سونگھتے ہوے، شاخوں اور کونپلوں کے جال سے چھنتی ہوئی دھوپ کا نظارہ کرتا اور سبز پھلوں کی بتدریج نمو کودیکھتا۔ انجیر کا درخت اپنی چپچپی بناوٹ اور بھڑوں کی بھنبھناہٹ سے اسے اندر تک بھرتا، اپنے اندر جذب کرتا محسوس ہوتا تھا؛ تھوڑی دیر بعد کوسیمو کو یوں محسوس ہونے لگتا کہ وہ خود انجیربنا جارہا ہے، اور وہ بے چین ہو کر وہاں سے چل دیتا۔ پہاڑی دیودار یا شہتوت کے سخت درختوں پر وہ ٹھیک ٹھاک رہتاتھا، افسوس یہ ہے کہ وہ خال خال تھے۔یا اخروٹ کا درخت۔۔۔ بعض اوقات اپنے بھائی کو اخروٹ کے ایک پرانے درخت کے بے انت پھیلاؤ میں، جو کسی محل کی کئی منزلوں اور لاتعداد کمروں جیسا تھا، خود کو گم کرتے دیکھ کر میں اس خواہش کو خود پر غالب آتے پاتا کہ میں بھی اس کی نقل کروں اور وہاں اوپر جا کر رہوں؛ ایسی تھی وہ قوت اور ایسا تھا وہ تیقن جو اس درخت کو اپنے درخت ہونے میں تھا، سخت اور بھاری رہنے کا اس کا عزم اس کے پتوں تک سے عیاں تھا۔
کوسیمو گلِ خطمی (یا شاہ بلوط، جیساکہ میں نے غالباً اپنے والد کی پُرتصنع زبان کے زیراثر، اپنے باغ کے درختوں کا ذکرکرتے ہوے انھیں کہا ہے) کے لہر یا پتوں میں بھی کئی کئی مسرور گھنٹے گزارتا۔ وہ اس کی اترتی چھال کوپسند کرتا تھا اورجب کسی اور خیال میں محوہوتا تو اپنی انگلیوں سے ایک ٹکڑا توڑ لیتا، نقصان پہنچانے کے لیے نہیں بلکہ درخت کو اپنی نوزائیدگی کے طویل درِدزہ میں مدد دینے کے لیے۔ یا وہ سفیدے کے درخت سے اس کی سفید چھال اتار لیتا اور پرانی زرد پھپھوندی کی تہیں سامنے آجاتیں۔ اسے بوقیذار جیسے گانٹھ دار تنے بھی پسند تھے جن کی نرم کونپلیں اور چھوٹے نکیلے پتوں کے خوشے اور ڈنٹھل گھیروں میں سے پھوٹتے، لیکن نقل و حرکت کے لیے یہ درخت آسان نہیں تھا کہ اس کی نرم اور گتھی شاخیں اوپر کی طرف بڑھتیں اور ان پر پاؤں جمانے کی بہت کم جگہ ہوتی۔ جنگل میںوہ بتولا اور بلوط کے درختوں کو ترجیح دیتا تھا۔ صنوبر کے درختوں کی شاخیں بہت پاس پاس ہونے کے علاوہ آسانی سے ٹوٹ کر بکھرنے لگتی تھیں اور مخروطیوں سے بھری ہونے کی وجہ سے اس کے لیے کوئی جگہ یا سہارا نہ چھوڑتی تھیں، اور بلوط کا درخت، اپنے خاردار پتوں، چھلڑوں، چھال اور اپنی اونچی شاخوں کی وجہ سے، دور رہنے کے لیے مناسب درخت نظر آتا تھا۔
ان موافقتوں اور ناموافقتوں کو پہچاننے میں، یا شعوری طور پر پہچاننے میں، کوسیمو کو وقت لگا۔ لیکن اُن ابتدائی دنوں میں بھی وہ اس کا ایک جبلّی حصہ بننے لگی تھیں۔ اب بات یہ ہے کہ وہ ایک تمام تر مختلف دنیا تھی جوخلا میں تنگ خم دار پُلوں سے بنی تھی، گانٹھوں یا چھلکے یا تنوں کو کھردرا کرتے کھرونچوں سے عبارت تھی، اُن روشنیوں سے مملو تھی جو ہوا کی پہلی جنبش کے ساتھ کونپلوں پر کپکپاتے، یا آندھی میں پیڑ کے خم کھانے سے بادبانوں کی طرح ہلتے پتوں کی دبیز یا ہلکی نقابوںکے مطابق ان کی ہر یالی کے رنگوں کو تبدیل کرتی رہتی ہیں۔ اس دوران ہماری دنیا نیچے چپٹی پھیلی پڑی ہوتی اور ہمارے جسم بالکل غیرمتناسب نظر آتے اور ہم اس کے بارے میںقطعاً کچھ نہیں سمجھتے تھے جو وہاں اوپر وہ جانتا تھا؛ وہ جو درختوں کے خلیوں میں دوڑتے عرق، تنوں کے اندرگزرتے بر سوں کے نشان لگاتے دائروں، شمالی ہوا کے ہاتھوں پھپھوندی کے بڑھتے ہوے ٹکڑوں، اپنے گھونسلوں میں سوتے اور آہستگی سے ہلتے اور پھر اپنے پروں کے نیچے سب سے نرم حصے میں دوبارہ اپنے سر رکھتے پرندوں، اور لارووںکے جاگنے اور پیوپوںکے کھلنے کوسننے میں اپنی راتیں گزارتا تھا۔ وہ لمحہ بھی آتا ہے جب دیہاتی علاقے کی خاموشی کانوں میں اکٹھی ہوتی ہے اور اَن گنت آوازوں میں ٹوٹتی ہے، جیسے کوئی کائیں کائیں اور چیں چیں، گھاس میں کوئی تیز سرسراہٹ، پانی میں کوئی غڑاپا، زمین اور سنگریزوں پر کوئی ٹپ ٹپ، اور سب سے بڑھ کر جھینگر کی چلاّہٹ۔ آوازیں ایک دوسرے کا تعاقب کرتی ہیں مگر کان، آخرکار، ان میں سے زیادہ ترکو شناخت کرلیتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے اون کے گولے کو کھولتی ہوئی انگلیاں ہر ریشے کو پتلے اور کم قابلِ حس دھاگوں سے بُنا ہوا محسوس کرلیتی ہیں۔ پس منظر میں، آوازوں کے بہاؤ کو تبدیل کیے بغیر، مینڈک ٹراتے رہتے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے روشنی، ستاروں کی مسلسل ٹمٹماہٹ سے تبدیل نہیں ہوتی۔ لیکن ہوا کے ہر مد یا جزر کے ساتھ ہر آواز بدل جاتی ہے اور پھر سے نئی ہو جاتی ہے۔ اور کانوں کے اندرونی گوشوں میں کچھ رہ جاتا ہے تو ایک مبہم سرسراہٹ— سمندر کی آواز۔

جاڑے آئے۔ کوسیمو نے خرگوشوں، لومڑیوں، سفید نیولوں اور مارٹنوں کی سمور سے، جو اس نے شکار کیے تھے، اپنے لیے ایک جیکٹ بنالی۔ اس کے سر پر ابھی تک وہی جنگلی بلی کے سمور والی ٹوپی تھی۔ اس نے بکری کی کھالوں سے اپنے لیے کچھ برجسیں بھی بنائیں جن کے گھٹنوں پر فاضل چمڑا تھا۔ جہاں تک جوتوں کا تعلق ہے، اس نے آخرکار محسوس کیا کہ درختوں پرپہننے کے لیے بہترین جوتے سلیپر ہیں، اور اپنے لیے کسی جانور، غالباً بجّو، کی کھال سے ایک جوڑا بنالیا۔ اس طرح اس نے سردی سے اپنا بچاؤ کیا۔ یہ بتا دینا چاہیے کہ اُن دنوں ہمارے علاقے میں جاڑے معتدل ہوتے تھے، ان میں آج کل جیسی جما دینے والی ٹھنڈ نہیں ہوتی تھی جسے، کہا جاتا ہے، نیپولین نے روس میں اس کی قید سے رہا کیا تھا اور جو اس کے پیچھے پیچھے یہاںتک چلی آئی ہے؛ لیکن، پھر بھی، باہر کھلے میں جاڑوں کی راتیں گزارنا آسان نہیں رہا ہوگا۔
کوسیمو نے، انجام کار، رات کو سونے کے لیے سمور کے تھیلے کو بہترین پایا؛ خیمہ یا جھونپڑا نہیں بلکہ شاخ سے ٹنگا سونے کا تھیلا جس کے اندرونی حصے میں سمور کا استرلگا تھا۔ اس کے اندر جاتے ہی باہر کی دنیا غائب ہو جاتی اور وہ بچے کی طرح اس میںلپٹا ہوا سوتا۔ اگر رات میں کوئی غیرمعمولی آواز آتی تو تھیلے کے منھ سے سمور کی ٹوپی برآمد ہوتی، بندوق کی نال باہر آتی اور پھر اس کی گول آنکھیں۔ (کہا جاتا ہے کہ اندھیرے میں اس کی آنکھیں بھی بلی یا الّو کی آنکھوں کی طرح روشن ہوگئی تھیں مگر میں نے اس کا مشاہدہ کبھی خود نہیں کیا۔)
اس کے برعکس صبح کے وقت جب کوا کائیں کائیں کرتا تو تھیلے سے بھنچی ہوئی مٹھیوں کا ایک جوڑا باہر آتا؛مٹھیاں ہوا میں بلند ہوتیں اور ان کے پیچھے آہستہ آہستہ چوڑے ہوتے اور پھیلتے ہوے دو بازو، اور اس عمل کے دوران وہ اپنا جمائیاں لیتا ہوا منھ، اپنے شانے، جن میں سے ایک پر بندوق اور دوسرے پر بارود رکھنے کا برتن ہوتا، اور اپنی قدرے مڑی ہوئی ٹانگیں باہر نکالتا۔ (ہمیشہ ہاتھ پاؤں پر چلنے یا گھات میں بیٹھنے کی عادت کے باعث اس کی ٹانگیں اپنا سیدھاپن کھونے لگی تھیں۔)وہ ٹانگیں تھیلے سے باہر آتیں، وہ بھی پھیلتیں، اور اس طرح، کمر کے ایک جھٹکے اورجیکٹ کے نیچے کھجانے کے ساتھ، گلاب کی طرح بیدار و تازہ، کوسیمو اپنے دن کا آغاز کرنے کے لیے تیار ہوتا۔
وہ فوارے پر جاتا، کہ اس کا ایک اپنا معلق فوارہ تھا جو اس نے خود ایجاد کیا تھا، یا یہ کہیے کہ فطرت کی مدد سے بنایا تھا۔ جنگل میں ایک چشمہ تھا جو ایک خاص مقام پر ایک جھرنے میں عموداً گرتا تھا۔ قریب ہی ایک بہت اونچی شاخوں والا بلوط تھا۔ کوسیمو نے ایک کھوکھلے کیے ہوے درختِ حور کے دو گز لمبے ٹکڑے سے ایک طرح کاپائپ بنا لیا تھا، جوجھرنے سے بلوط کی شاخوں تک پانی لاتا، جہاں وہ پی سکتا تھایا نہا دھو سکتا تھا۔ یہ بات کہ وہ نہاتا دھوتا تھا یقینی ہے، کہ میں نے اسے کئی بار ایسا کرتے دیکھا ہے؛ زیادہ نہیں،ہر روز نہیں، لیکن نہاتا دھوتا وہ ضرور تھا؛ اس کے پاس صابن بھی تھا۔ صابن سے جب اس کا جی چاہتا وہ اپنے کپڑے بھی دھوتا۔ وہ اس مقصد کے لیے بلوط کے درخت پر ایک ٹب لے گیا تھا۔ پھر وہ شاخوں سے باندھی ہوئی رسیوں پر اپنے کپڑے سوکھنے کے لیے پھیلا دیتا۔
حقیقت میں وہ درختوں پر سب کچھ کرتا تھا۔ اس نے نیچے آئے بغیر اپنے شکار کیے ہوے پرندے سیخ پر بھوننے کا ایک طریقہ بھی دریافت کرلیا تھا۔ اس کا طریقِ کار یہ تھا۔ وہ چقماق سے صنوبر کا ایک مخروط جلاتا اور زمین پر ایسی جگہ پھینک دیتا جو آگ کے لیے پہلے سے طے شدہ تھی (یہ میں نے چند ہموار پتھروں سے بنائی تھی)۔ پھر وہ اس پر ڈنٹھل اور خشک شاخیں گراتا اور ایک کریدنی سے ،جو ایک لمبے ڈنڈے سے اس طرح باندھی گئی تھی کہ وہ شاخوں سے معلق سیخ تک پہنچ جاتی تھی، شعلے کواونچا نیچا کرتا رہتا تھا ۔ اس سارے عمل میں بہت احتیاط درکار تھی کیونکہ جنگل میں آگ لگنا بہت آسان ہے۔ آگ کی جگہ جان بوجھ کر بلوط کے نیچے ،جھرنے کے قریب رکھی گئی تھی جہاں سے خطرے کی صورت میں جس قدر پانی درکار ہو وہ لے سکتا تھا۔
اس طرح، کچھ تو وہی کچھ کھا کے جو وہ شکار کرتا تھا، اور کچھ پھلوں اور سبزیوں کے لیے کسانوں سے مبادلہ کرکے، وہ بڑے مزے میں گزار رہا تھا، اور اب ہمیں اس کے لیے گھر سے کھانا بھیجنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ ایک دن ہم نے سنا کہ وہ ہر صبح تازہ دودھ پی رہا ہے۔اس نے ایک بکری سے دوستی کرلی تھی، جو زمین سے فٹ دو فٹ بلند ایک زیتون کے دو شاخے پر چڑھ جایاکرتی تھی؛ مگر حقیقت میں بکری چڑھتی نہیں تھی، محض اپنے پچھلے کھر اوپر رکھ دیتی تھی؛ کوسیمو مٹکا لے کر نیچے دو شاخے پر آتا اور اسے دوہ لیتا۔ اسی طرح کا بندوبست اس نے ایک سرخ پادووان مرغی سے کر رکھا تھا، جو زیادہ انڈے دینے والی نسل ہے۔ اس نے ایک تنے کے سوراخ میں مرغی کے لیے خفیہ جگہ بنا دی تھی اور ایک دن چھوڑ کر اسے ایک انڈا مل جاتا تھا، جسے وہ پن سے دو سوراخ کرنے کے بعد پی لیتا تھا۔
ایک مسئلہ اور تھا: روزانہ حوائج ضروریہ کا۔ شروع شروع میں وہ جہاں کہیں ہوتا وہیں فارغ ہو لیتا؛ یہاں یا وہاں، کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، دنیا بہت بڑی تھی۔ پھر اس نے محسوس کیا کہ یہ بہت اچھی بات نہیں ہے۔ سو اس نے مرد انزونامی نالے کے کنارے بید کی قسم کا ایک درخت ڈھونڈ نکالا جو ایک انتہائی موزوں اور الگ تھلگ مقام پر پانی کے اوپر جھکا ہوا تھا، اور اس کے ایک دو شاخے پر وہ آرام سے بیٹھ سکتا تھا۔ مردانزونالا بانسوں کے درمیان پوشیدہ ایک تیز دھارا تھا اور اس کا بہاؤ بہت تیز تھا۔ آس پاس کے دیہات اس میں اپنا گندا پانی ڈالتے تھے۔ اس طرح نو عمر پیوواسکودی روندو، اپنے پڑوس کے اور خود اپنے آدابِ شائستگی کااحترام کرتے ہوے، ایک مہذب زندگی گزار رہا تھا۔

لیکن شکاری کی زندگی کا ایک لازمی جزو اس کے پاس نہیں تھا، یعنی کتا۔میں موجود تھا؛ فضا میں گولی کھا کر گرنے والے کسی ترغے، چہے یا بٹیر کی تلاش میں، یا ان لومڑیوں کی تلاش میں بھی، جب رات بھر شکار کی جستجو میں پھرنے کے بعد ان میں سے کوئی دم لینے کو رک جاتی اور اس کی لمبی دم جھاڑیوں سے باہر نکلی ہوتی، میں کانٹوں اور جھاڑیوں میں درّانہ گھس جاتا۔ لیکن جنگل میں اس کا ساتھ دینے کے لیے میں شاذ ہی گھر سے نکل پاتا۔ ایبے کے ساتھ اسباق، پڑھائی، عشاے ربانی میں خدمت گزاری، والدین کے ساتھ کھانے کی پابندی مجھے روکے رہتی۔ اور پھر گھریلو زندگی کے سیکڑوں فرائض جن کا میں پابند تھا، کیونکہ بہرحال وہ فقرہ جو ہمیشہ میرے اردگرد دُہرایا جاتا تھا — ’’خاندان میں ایک ہی باغی کافی ہے‘‘— کچھ نہ کچھ وزن رکھتا تھا اور مجھ پر ساری زندگی کے لیے اثر ڈال گیا۔
چنانچہ کوسیمو تقریباً ہمیشہ تنہا شکار کرتا اور شکار کی بازیابی کے لیے (ماسواے اس طرح کی شاذ صورتوں کے جب ایک گرتے ہوے زریں زاغ کے بازو ایک شاخ میں پھنس گئے تھے) وہ مچھلی پکڑنے کا سامان، ڈور والی بنسیاں اور کانٹے استعمال کرتا۔ لیکن وہ ہمیشہ اس میں کامیاب نہیں رہتا تھا، اور بعض اوقات کوئی چہاگھاٹی کی تہہ میں چیونٹیوں سے سیاہ پڑاملتا۔
اس وقت تک میں نے صرف شکار اٹھا کر لانے والے کتوں کی بات کی ہے۔ کیونکہ ان دنوں کوسیمو صرف اس طرح کا شکار کرتا تھا جس کا تقاضا شاخ پر گھات میں بیٹھے ہوے، صبحیں اور راتیں اس انتظار میں گزارنا ہے کہ کوئی ترغا کسی عیاں کونپل پر دم لے، یا کوئی خرگوش کسی میدان کے کھلے حصے میں ظاہر ہو۔ ورنہ وہ پرندوں کے گیت کے ساتھ ساتھ، یا جانوروں کے انتہائی ممکنہ نشانات کا اندازہ کرتے ہوے اٹکل پچو گھومتا تھا۔ اور جب کبھی وہ کسی خرگوش یا لومڑی کے عقب میںشکاری کتوں کی آواز سنتا تو اسے پتا ہوتا کہ اس شکار سے گریز کرنا ہے، کہ ایک تنہا اور وقتی شکاری ہونے کے ناتے یہ جانور اس کے لیے نہیں ہیں۔ چونکہ وہ اصولوں کا پابند تھا لہٰذا جب کسی ایسے جانور کو جس کے پیچھے اوروں کے شکاری کتے ہوں، یا جو اس کے نشانے کی زد میں ہو، اپنے مچان سے دیکھتا تو اس پر بندوق نہیںاٹھاتا تھا۔ وہ شکاری کا انتظار کرتا، جو راستے بھر ہانپتا ہوا کھڑے کانوں اور چندھیائی آنکھوں کے ساتھ پہنچتا، اور اسے بتاتا کہ جانور کس سمت میں گیا ہے۔
ایک دن اس نے ایک بھاگتی ہوئی لومڑی کو دیکھا۔ اس کی رفتار اتنی تیز تھی کہ سبز گھاس کے وسط میں محض ایک گزرتا ہوا سرخ نشان نظر آرہا تھا۔ اس کی مونچھیں کھڑی تھیں اور وہ خوف سے ہونک رہی تھی۔ اس نے میدان عبور کیا اور زیردرختی میں غائب ہو گئی۔ اس کے پیچھے شکاری کتے تھے۔
نتھنے زمین سے لگائے وہ پوری رفتار سے دوڑتے ہوے آئے۔ انھوں نے دوبار اپنے آپ کو نتھنوں میں لومڑی کی بو سے تہی پایا اور پھر نوے درجے کے زاویے پر مڑ گئے۔
وہ کچھ دور جاچکے تھے، جب ’’اوہی، اوہی!‘‘ کی ایک چیخ کے ساتھ کتے سے زیادہ مچھلی جیسی چھلانگوں سے گھاس کو قطع کرتا ہوا ایک طرح کا ڈولفن نما حیوان نمودار ہوا۔ اس کی ناک سراغ رساں کتے سے زیادہ تیز اور کان اس سے زیادہ گرے ہوے تھے اور وہ فضا کو سونگھتے ہوے جیسے تیر رہا تھا۔ اس کا پچھلا حصہ جسے پنکھ یا جھلی دار پنجے آگے کو دھکیل رہے تھے، بے پا اور بہت لمبا تھا، اور بالکل مچھلی جیسا تھا۔ وہ باہر کھلے میں آیاتو کوسیمو نے دیکھا کہ وہ بجوکتا ہے۔
وہ یقینا شکاری کتوں کے پیچھے پیچھے چلا آیا ہوگا اور چونکہ وہ چھوٹا تھا، تقریباً پلاّ، لہٰذا پیچھے رہ گیا ہوگا۔ کتے اب ’’ہوہاہف‘‘ کی غصیلی آواز نکال رہے تھے کیونکہ انھوں نے شکار کی بوگنوا دی تھی۔ ان کا دوڑتا غول اب ایک کھلے میدان میں چاروں طرف بکھر گیا تھا۔ وہ دوبارہ بو پانے اور شکار کی حقیقی تلاش شروع کرنے کے لیے انتہائی بے چین تھے مگر انھوں نے اپنی انگیخت گنوا دی تھی، اور ان میں سے ایک دو پہلے ہی کسی چٹان کے ساتھ اپنی ٹانگیں اٹھانے کا موقع نکال رہے تھے۔
زور زور سے ہانپتا ہوا بجوکتا بے جواز فتح پر اکڑتا، آخرکار آہستہ آہستہ دوڑتا ہوا شکاری کتوں تک پہنچ گیا۔ وہ ابھی تک فتح مند تھا۔ اس نے ایک عیارانہ صدا بلند کی، ’’اوہی یاہ! اوہی یاہ!‘‘
کتے فوراً غرّائے،اور انھوں نے ایک دفعہ تو لومڑی کی بو ڈھونڈنا ترک کردی۔ وہ منھ کھولے، کاٹنے کو تیار، بجوکتے کی طرف بڑھے۔ پھر اچانک ان کی دلچسپی ختم ہو گئی اور وہ پرے چلے گئے۔
کوسیمو بجوکتے کا تعاقب کرنے لگا جو اب اٹکل پچو چل رہا تھا۔ کتے نے، جو اپنی غیرمرکوز ناک کی وجہ سے شش و پنج میں تھا، درخت پر کوسیمو کو دیکھا اور اپنی دم ہلانے لگا۔ کوسیمو کو یقین ہو گیا کہ لومڑی کہیں قریب ہی چھپی ہوئی ہے۔ شکاری کتے دور فاصلے پر پھیلے ہوے تھے۔ مقابل کی ڈھلان سے تھوڑی تھوڑی دیر بعد ان کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، شکاری گھٹی ہوئی آوازوں سے انھیں اکسا رہے تھے اور وہ بے مقصد انداز میں رک رک کر بھونک رہے تھے۔ کوسیمو نے بجوکتے سے کہا: ’’جاؤ! جاؤ! اسے ڈھونڈو!‘‘
پلاّ بو سونگھنے میں جٹ گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ منھ اٹھا کر لڑکے کو دیکھ لیتا۔
’’جاؤ! جاؤ!‘‘ کوسیمو نے اسے اکسایا۔
کوسیمو کو اب کتا نظر نہیں آرہا تھا۔ اس نے جھاڑیوں کے درمیان زور سے ٹکرانے کی آواز سنی اور پھر اچانک کتے کی آواز۔ بجوکتا لومڑی کو باہر نکال لایا تھا!
کوسیمو نے لومڑی کو میدان میں دوڑتے دیکھا۔ مگر کیا وہ کسی اور کے کتے کے کھدیڑے ہوے جانور پر گولی چلا سکتا تھا؟ کوسیمو نے اسے گزر جانے دیا اور گولی نہیں چلائی۔ بجوکتے نے اپنی تھوتھنی لڑکے کی طرف کتوں کے اس انداز میں اٹھائی جب وہ سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں اور متذبذب ہوتے ہیں کہ انھیں سمجھنا چاہیے یا نہیں۔ اس نے اپنی ناک پھر سے نیچے کرلی اور لومڑی کے پیچھے دوڑ پڑا۔
لومڑی نے ایک چکر مکمل کیا۔ وہ واپس آرہی تھی۔ وہ گولی چلا سکتا تھا یا نہیں؟ اس نے گولی نہیں چلائی۔ کتے نے اسے افسوس سے دیکھا۔ اب وہ بھونک نہیں رہا تھا اور اس کی زبان اس کے کانوںسے زیادہ لٹک رہی تھی۔ وہ تھک چکا تھا مگر اب تک دوڑ رہا تھا۔ بجوکتے نے لومڑی کو باہر نکال کر شکاری کتوں اور شکاریوں دونوں کو حیران کر دیا تھا۔ راستے کے ساتھ ساتھ ایک بوڑھا آدمی بھاری توڑے دار بندوق لیے دوڑ رہا تھا۔ ’’اے!‘‘ کوسیمو نے اسے آواز دی۔ ’’کیا وہ بجوکتا تمھارا ہے؟‘‘
’’تم پراور تمھارے سارے خاندان پر لعنت ہو!‘‘ بوڑھا آدمی جویقینا قدرے سنکی رہا ہوگا، چلاّیا۔ ’’کیا ہم لوگ بجوکتے سے شکار کرنے والے نظر آتے ہیں؟‘‘
’’پھر تو یہ جو کچھ نکال کرلائے، میں اس پر گولی چلا سکتا ہوں،‘‘کوسیمو نے، جو واقعی صحیح کام کرنا چاہتا تھا، اصرار کیا۔
’’میری بلا سے تم اپنے محافظ فرشتے پرگولی چلاؤ!‘‘ آدمی نے تیزی سے جاتے ہوے جواب دیا۔
بجوکتا لومڑی کو ہانک کر پھر کوسیمو کے درخت تک لے آیا تھا۔ کوسیمو نے اس پرگولی چلائی اور اسے گرا لیا۔ بجوکتا اس کا کتا تھا؛ اس نے اس کا نام اوتیمو ماسیمو رکھا۔
اوتیمو ماسیمو کسی کا کتا نہیں تھا۔ وہ نوعمری کے جوش میں شکاری کتوں کے غول میں شامل ہو گیا تھا۔ لیکن وہ آیا کہاں سے تھا؟ یہ بات معلوم کرنے کے لیے کوسیمو اس کے پیچھے پیچھے چلا۔
بجوکتے نے، جس کا پیٹ زمین کو چھو رہاتھا، باڑیں اور خندقیں عبور کیں، پھر یہ دیکھنے کے لیے کہ اوپر درختوں پر لڑکا اس کے نشانات پر ساتھ ساتھ آرہا ہے، وہ مڑا۔ اس کا اختیار کردہ راستہ اتنا غیرمعمولی تھا کہ کوسیمو فوراً سمجھ ہی نہیں پایا کہ وہ کہاں پہنچ گئے ہیں۔اور جب وہ سمجھا تو اس کا دل دھڑک اٹھا۔ یہ اونداریوا خاندان کا باغ تھا۔
حویلی بند تھی۔ جھلملیاں گری ہوئی تھیں۔ صرف دو چھتی کی کھڑکی پر ایک جھلملی ہوا سے شور پیدا کر رہی تھی۔ باغ، ہمیشہ سے زیادہ، کسی دوسری دنیا کا جنگل لگ رہا تھا۔ جھاڑ جھنکاڑ سے بھری روشوں اور جھاڑیوں بھرے پھولوں کے تختوں کے ساتھ ساتھ اوتیمو ماسیمو تتلیوں کے پیچھے یوں خوش خوش گھوم رہاتھا جیسے گھر پہنچ گیا ہو۔
وہ ایک جھاڑی میں غائب ہو گیا اور ایک ربن لیے واپس آیا۔ کوسیمو کا دل ایک بار اور دھڑکا۔ ’’یہ کیا ہے، اوتیمو ماسیمو؟ کس کا ہے؟ مجھے بتاؤ۔‘‘
اوتیمو ماسیمو اپنی دم ہلانے لگا۔
’’اسے یہاں لاؤ، اوتیمو ماسیمو!‘‘
کوسیمو ایک زیریں شاخ پر اترا اور کتے کے منھ سے اڑی ہوئی رنگت کا ربن کا ٹکڑا لے لیا جو یقینا ویولا کے بالوںکا ربن رہا ہوگا، بالکل اسی طرح جیسے وہ کتا یقینا ویولا کا کتا تھا، جسے اپنی آخری روانگی میں خاندان والے بھول گئے تھے۔ درحقیقت، اب وہ کوسیمو کو پچھلی گرمیوں سے یاد لگ رہا تھا۔ اُس وقت وہ چھوٹاسا پلاّ ہی تھا اور سنہرے بالوں والی لڑکی کے بازوؤں میں ایک ٹوکری سے جھانک رہا تھا۔ غالباً وہ اسی لمحے لڑکی کے لیے تحفے کے طور پر لایا گیا تھا۔
’’ڈھونڈو، اوتیمو ماسیمو!‘‘ بجوکتا بانسوں کے درمیان گھس گیا اور اس کی کئی نشانیاں— کودنے والی رسّی، پرانی پتنگ کا ایک ٹکڑا، ایک پنکھا —نکال لایا۔
باغ میں سب سے اونچے درخت کے تنے کے آخری حصے پر میرے بھائی نے اپنے نیمچے کی نوک سے ’’ویولا اور کوسیمو ‘‘کے نام کھودے، اور پھر ذرا نیچے، اس یقین کے ساتھ کہ اگر اس نے کتے کا کوئی اور نام بھی رکھا تب بھی وہ اس سے خوش ہوگی، اس نے ’’اوتیمو ماسیمو، بجوکتا‘‘ کے الفاظ کندہ کیے۔
اس وقت کے بعدسے ہم جب کبھی لڑکے کو درختوں پر دیکھتے تو ہمیں یقین ہوتا کہ وہ بجوکتے کو ڈھونڈ رہا ہے۔ اوتیمو ماسیموپیٹ زمین سے لگائے آہستہ آہستہ دوڑتا آتا۔ کوسیمو نے اسے شکار کی تلاش، اسے روکنا اور واپس لانا، وہ سارے کام جو شکاری کتا کرتا ہے، سکھا دیے تھے، اور جنگل کی کوئی ایسی مخلوق نہ تھی جسے وہ اکٹھے شکار نہ کرتے ہوں۔ شکار اس تک لانے کے لیے، اوتیمو ماسیمو جہاںتک بھی دو پنجے اسے اجازت دیتے، تنے پر چڑھتا۔ کوسیمو نیچے جھکتا اور اس کے منھ سے خرگوش یا تیتر لے لیتا اور اس کا سر تھپتھپاتا۔ یہی ان کی ساری قربتیں تھیں، یہی ان کی خوشیاں تھیں۔ لیکن زمین اور شاخوں پر موجود ان دونوں کے درمیان مختصر غراہٹ اور زبان چٹخارنے اور انگلیاں چٹخانے کی صورت میں ایک متواتر مکالمہ، ایک مفاہمت جاری رہتی۔ اس ضروری دُسراہت نے، جو آدمی کی شکل میں کتے کے لیے ہوتی ہے اور کتے کی شکل میں آدمی کے لیے، دونوں میں سے کسی کو مایوس نہیں کیا اور اس کے باوجود کہ وہ دنیا میں سارے آدمیوں اور سارے کتوں سے مختلف تھے، وہ آدمی اور کتے کی حیثیت سے اپنے آپ کو خوش کہہ سکتے تھے۔


۱۱
ایک طویل مدت تک، جواس کی نوبلوغیت کے سارے عرصے پر محیط تھی، شکار کرنا ہی کوسیمو کی دنیا تھی۔ اور مچھلیاں پکڑنا ، کیونکہ وہ تالابوں اور نالوں میں ڈور ڈالے بام اور گھینتی مچھلیوں کا انتظار کیا کرتا تھا۔ بعض اوقات تو ایسا لگتا تھا کہ اس میں ہم سے مختلف جبلتیں اورحواس پیدا ہو گئے ہیں،گویا وہ کھالیں جنھیں اس نے لباس بنا لیا تھا، اس کی فطرت میں ایک مکمل تبدیلی سے مطابقت رکھتی ہوں۔ درختوں کی چھالوںسے لگاتار مس، کسی پَر، بال یا چھلکے کی جنبش کو بھانپنے اور اُس کی دنیا کے رنگوں کے خفیف سے فرق کو دیکھنے پر سدھی ہوئی آنکھیں، اور پھر کسی دوسری دنیا کے خون کی طرح پتوں کی رگوں میں گردش کرتے متعدد سبز رنگ، زندگی کی وہ تمام شکلیں جو انسان سے اتنی ہی دور ہیں جیسے کسی پودے کا تنا، کسی ترغے کی چونچ یا کسی مچھلی کا گلپھڑا، غیرآبادی کی وہ سرحدیں جس میں وہ اتنی شدت سے کھنچا چلا جا رہا تھا، یقینا ان ساری باتوں نے اس کے ذہن کو متشکل کیا ہوگا، ہر انسانی مشابہت گنوانے پر مجبور کیا ہوگا۔لیکن پودوں سے قربت اور جانوروں سے جدوجہد کے باعث خواہ اس نے کتنی بھی نئی خصوصیات حاصل کی ہوں، میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا ہے کہ اس کا مقام واضح طور پر ہمارے ساتھ تھا۔

لیکن اس نے بعض عادتوں کو، چاہے بغیر بھی، شاذ ہوتے پایا اور آخرکار انھیں بالکل تج دیا۔ مثلاً اومبروسا کے عشاے ربانی کی پرتکلف رسم میں شرکت۔ ابتدائی مہینوں میں اس نے ایسا کرنے کی کوشش کی۔ ہر اتوار، جب ہم اہلِ خانہ تقریباتی لباس میں گھر سے باہر آتے تو اسے شاخوں پرموجود پاتے۔ وہ بھی اپنے لباس کو تقریب کے شایاں بنانے کی کوشش کرتا، مثلاً سمور کی ٹوپی کے بجاے تکونا ہیٹ اور اپنا پرانا چوغہ پہنتا۔ ہم روانہ ہوتے اور وہ شاخوں پر ہمارے ساتھ ساتھ آتا۔ ہم گرجا کے دروازے پر اس طرح پہنچتے کہ اومبروسا کے سارے کے سارے لوگ ہمیں دیکھ رہے ہوتے (جلد ہی میرے والدبھی اس کے عادی ہو گئے اور ان کی خفت کم ہو گئی)۔ ہم سب بڑے وقار سے چل رہے ہوتے اور وہ ہوا میں چھلانگیں لگاتا ہوتا—یہ نظارہ ،خاص کر سردیوں میںجب درخت پتوں سے تہی ہوتے، بڑا عجیب ہوتا۔
ہم کلیسا میں داخل ہوتے اور اپنی خاندانی نشستوں پر بیٹھ جاتے، جبکہ وہ کلیسا کی بغلی راہداری کے پاس، ایک بڑی کھڑکی کے بالکل برابر، ایک گلِ خطمی کے درخت پر گھٹنوں کے بل جھکا رہتا۔ اپنی نشستوں سے ہم کھڑکیوں کے پار شاخوں کے سائے اور ان کے درمیان، سر جھکائے، سینے پر ہیٹ سنبھالے، کوسیمو کی پرچھائیں دیکھتے۔ میرے والد اور کلیسا کے ایک داروغہ کے مابین رضامندی سے، ہر اتوار کو وہ کھڑکی نیم وا رکھی جاتی تھی تاکہ میرا بھائی درخت پر سے عشاے ربانی میں شریک ہوسکے۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا اس کا وہاں آنا مفقود ہوتا گیا، اور جھونکے اندر آنے کی وجہ سے کھڑکی بند کر دی گئی۔

بہت سی باتیں جو پہلے اس کے لیے اہم ہوتیں، اب نہیں تھیں۔ بہار میں ہماری بہن کی منگنی ہو گئی۔ ایک سال پہلے تک کوئی یہ بات سوچ بھی نہیںسکتا تھا۔ کاؤنٹ اور کاؤنٹس دیستومیک، نوعمر کاؤنٹ کے ہمراہ آئے۔ خوب دھوم دھڑکا ہوا۔ ہمارے گھر کا ہر کمرہ روشن تھا۔ تمام مقامی اشرافیہ مدعو تھی اور رقص کابھی اہتمام تھا۔تو کیا ہمیں کوسیمو کا خیال آیا؟ ہم نے، ہم میں سے ہر ایک نے، یقینا اسے یادکیا۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ شاید وہ آرہاہو، میں تھوڑی تھوڑی دیر بعد کھڑکی سے باہر جھانکتا۔ ہمارے والد اداس تھے۔ اس خاندانی تقریب میں وہ یقینا اسی کے بارے میں سوچ رہے ہوںگے جس نے اپنے آپ کواس سے الگ رکھا تھا۔ جنرلیسا،جو اس تقریب پر اس طرح نظر رکھے ہوے تھیں جیسے وہ کسی پریڈ گراؤنڈ میں ہو،دراصل اپنے ناموجود بیٹے کے بارے میں اپنے جذبات کو محو کرنے کی کوشش میں تھیں۔ غالباً باتیستا بھی، جو اپنے پنجوںپر ناچتی پھر رہی تھی اور راہبانہ لباس ترک کرنے کے بعد پہچانی نہیں جارہی تھی؛ جس نے ایسی وِگ پہن رکھی تھی جو مارزیپان ۱؎ کی طرح لگتی تھی، اور مونگوں سے سجے ایسے لباس میں تھی جو اس کے لیے کسی مقامی درزی نے تیار کیا تھا، وہ بھی، میں قسم کھا سکتا ہوں، اُس کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
لیکن وہ وہاں موجود تھا —مجھے یہ بات بعد میں معلوم ہوئی— سایوں کے درمیان نادیدہ، ٹھنڈ میں، گلِ خطمی کے ایک درخت کی چوٹی سے، روشنی سے دمکتی کھڑکیوں، تقریب کے لیے گجروں سے آراستہ جانے پہچانے کمروں، وگیں لگائے ہوے رقاصوں کو دیکھتا ہوا۔ اس کے ذہن میں کیا خیالات آئے ہوں گے؟ کیا وہ ہماری زندگی پر تھوڑا سا متاسف تھا؟ کیا وہ سوچ رہا تھا کہ اس کو اور ہماری دنیا میں واپسی کو الگ کرنے والا قدم کتنا مختصر اور کتنا آسان تھا؟ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیا سوچ رہا تھا، اور وہاں اوپر بیٹھا کیا چاہ رہاتھا۔ مجھے تو صرف یہ معلوم ہے کہ وہ تقریب ختم ہونے تک، بلکہ اس کے بعد تک، رکا رہا، یہاںتک کہ ایک ایک کرکے سارے فانوس بجھا دیے گئے اور ایک بھی روشن کھڑکی باقی نہ رہی۔
اس طرح خاندان سے کوسیمو کے تعلقات، اب وہ بھلے ہوںیا برے، جاری رہے۔ درحقیقت یہ تعلقات خاندان کے ایک رکن— جسے وہ واقعی اب پہچانا تھا— یعنی کوالیئے اینیا سلویوکاریگا سے، اور زیادہ گہرے ہوگئے۔ کوسیمو نے اس کھوئے ہوے اور گریزپا آدمی کو (کسی کو پتا ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے)، خاندان بھر میں وہ واحد فرد پایا جس کے بے شمار مشاغل تھے، اور کوئی بھی بے سود نہ تھا۔
بعض اوقات وہ سہ پہر کے گرم ترین حصے میں باہر جاتا۔ سر پہ ترکی ٹوپی دھرے، زمین پر گھسٹتی ہوئی لمبی عبا میں لڑکھڑاتا ہوا، وہ اس طرح غائب ہو جاتا جیسے زمین یا باڑی کی کسی دراڑ نے یا دیواروں میں لگے پتھروں نے اسے نگل لیا ہو۔ کوسیمو بھی، جواپنا وقت ہمیشہ چوکسی کی حالت میں گزارتا تھا (شاید اب یہ وقت گزاری نہیں بلکہ اس کی فطری حالت تھی، گویا کہ اس کی نظروں کو، سب کچھ سمجھنے کے لیے، ایک وسیع تر افق کو اپنے دائرے میں سمیٹنا ہو)، اسے اچانک اوجھل پاتا۔ بعض اوقات وہ ایک شاخ سے دوسری شاخ پر ہوتا ہوا اس مقام کی طرف دوڑنا شروع کر دیتا جہاں بوڑھا آدمی غائب ہوا تھا، مگر یہ جاننے میں کبھی کامیاب نہیں ہوا کہ وہ کہاں گم ہو گیا ہے۔ لیکن اس علاقے میں جہاں وہ آخری بار دیکھا گیا ہو، ایک علامت ہمیشہ نظر آتی، اور وہ تھی اڑتی ہوئی شہد کی مکھیاں۔ انجام کار، کوسیمو کو یقین ہو گیا کہ کوالیئے کی موجودگی شہد کی مکھیوں سے مربوط ہے، اور یہ کہ اسے ڈھونڈنے کے لیے مکھیوں کا رخ اختیار کرنا ہوگا۔ لیکن کیسے؟ مکھیوں کی ایک منتشر بھنبھناہٹ ہر اس پودے کے گرد تھی جس میں پھول لگے تھے۔ لیکن اسے الگ تھلگ اور ضمنی راستوں میں توجہ نہیں بانٹنی چاہیے بلکہ وہ غیرمرئی ہوائی راستہ اختیار کرنا چاہیے جس پر مکھیوں کی آمدورفت ہر لحظہ گھنی ہو رہی ہے۔ آخرکار وہ ایک گھنے بادل تک پہنچ گیا جو ایک جھاڑی کے عقب سے دھویں کی طرح اُٹھ رہا تھا۔ جھاڑی کے عقب میں ایک میز پر الگ الگ یا قطاروں میں شہد کے چھتے دھرے تھے اور کوالیئے، جس کے چاروں طرف مکھیاں ہی مکھیاں تھیں، ان کے ساتھ مصروف تھا۔
شہد کی مکھیاں پالنا اصل میں ہمارے چچا کی ایک خفیہ سرگرمی تھی، مگر ایک حد تک ہی خفیہ، کہ وہ اکثر و بیشتر خود چھتے سے تازہ تازہ چمکتا شہد نکال کر کھانے کی میز پر لاتا تھا۔ لیکن اس کی یہ سرگرمی ہماری ملکیت کی حدود سے باہر ایسی جگہوں پر عمل پذیر ہوتی جنھیں وہ واضح طور پر ہم سے مخفی رکھناچاہتا تھا۔ اپنی اس محنتِ شاقہ کی منفعت کو خاندانی کھاتوں میں منتقل ہونے سے روکنے کے لیے، اس کی طرف سے یقینا یہ ایک احتیاط رہی ہوگی۔ یا پھر —کیونکہ یہ آدمی کنجوس یقینا نہیں تھا، اور شہد اور موم کی ایسی حقیر مقداروںسے زیادہ منافعے کی توقع بہرحال نہیں کر سکتا تھا — وہ کوئی ایسا کام کرنا چاہتا ہو گا جس میں اس کا بھائی بیرن اپنی ٹانگ نہ اڑائے، یا اس کا رہنما نہ بن بیٹھے۔ یا پھر یہ ہے کہ ان چند کاموں کو جنھیں وہ پسند کرتا تھا جیسے مکھیاں پالنا، ان بہت سے کاموں میں جنھیں وہ ناپسند کرتا تھا، جیسے انتظام سنبھالنا، گڈمڈ کرنا نہیں چاہتا ہو گا۔
بہرحال، حقیقت یہ تھی کہ ہمارے والد نے اسے گھر کے قریب مکھیاں پالنے کی اجازت کبھی نہیںدی، کہ وہ ڈنک مارے جانے کے ایک بعیدازعقل خوف میں مبتلا تھے۔ باغ میں جب کبھی اتفاق سے ان کا سامنا کسی شہد کی مکھی یا بھڑ سے ہوتا تو وہ مضحکہ خیز انداز میں ہاتھ اپنی وِگ میں چھپائے روشوں پربھاگنے لگتے جیسے اپنے کو کسی عقاب کے ٹھونگوں سے بچا رہے ہوں۔ ایک بار ایسا کرتے ہوے ان کی وِگ سرک گئی۔ مکھی، جو ان کی اچانک ہل جل سے بوکھلا گئی تھی، ان کے مقابل آئی اور ان کی گنجی چاند میں اپنا ڈنک اتار دیا۔ تین دن تک وہ اپنے سر پر سِر کے میں بھیگی ہوئی گریاں رکھتے رہے، کہ وہ تھے ہی ایسے، سنجیدہ معاملات میں انتہائی خوددار و مضبوط، لیکن ذرا سی خراش یا پھنسی سے بوکھلا جانے والے۔
اور یوں اینیاسلویوکاریگا نے اپنی شہد کی مکھیوں کے چھتے اومبروسا کی ساری وادی میں پھیلا دیے تھے۔ بہت سے زمینداروں نے اسے تھوڑے بہت شہد کی عوض اپنی زمین کے ایک ٹکڑے پر ایک آدھ چھتا رکھنے کی اجازت دے رکھی تھی اور وہ ہمیشہ ان کی دیکھ بھال میں مصروفیت سے ہلتے ہاتھوں کے ساتھ، جو نیش زنی سے بچنے کے لیے لمبے سیاہ انگشت دستانوں میں ملفوف ہوتے، ایک سے دوسرے چھتے تک چکر لگاتا رہتا۔ چہرے پر، اپنی ترکی ٹوپی کے نیچے، وہ ایک سیاہ نقاب ڈالے رہتا جو ہر سانس کے ساتھ اس سے چمٹتی یا پھولتی رہتی۔ چھتوں میں شہد کی تلاش کے دوران مکھیوں کو بھگانے کے لیے وہ دھواں چھوڑنے والا ایک آلہ ہلایا کرتا تھا۔ مکھیوں کی بھنبھناہٹ، نقابوں اور دھویں کے بادلوں کا یہ سارا منظر، کوسیمو کو بوڑھے آدمی کا ایسا جادو ٹونا لگتا جو وہ غائب ہونے، مٹ جانے، اڑ جانے اور پھر کہیں اور، کسی اور عہد یا کسی اور جگہ پھر سے وجود میں آنے کی کوشش میں کر رہا ہو۔ لیکن وہ کوئی خاص جادوگر نہ تھا، کہ وہ ہمیشہ بالکل ویسا کا ویسا نمودار ہوتا، بس کبھی کبھی اپنا نیش زدہ انگوٹھا چوستا ہوتا۔

بہار کے دن تھے ۔ ایک صبح کوسیمو نے ہوا کو ایسی آواز سے مرتعش دیکھا جو اس نے کبھی نہیں سنی تھی۔ ایک بھنبھناہٹ تھی جو بعض دفعہ بڑھ کر تقریباً گرج میں ڈھل جاتی اور اولوں کی طرح نظر آنے والی ایک چادر، جو گرنے کے بجاے آہستگی سے گھومتی، بل کھاتی ایک افقی سمت میں متحرک تھی، لیکن ایک طرح کے ٹھوس ستون کے تعاقب میں۔ یہ شہد کی مکھیوں کا بہت بڑا دَل تھا۔ چاروں طرف ہریالی اور پھول اور دھوپ تھی۔ کوسیمو نے، وہ نہیں کہہ سکتا تھا ایسا کیوں ہے، اپنے کو ایک شوریدہ سرومتشدد ولولے کی گرفت میں محسوس کیا۔ ’’مکھیاں بھاگ رہی ہیں! کوالیئے! مکھیاں بھاگ رہی ہیں!‘‘ وہ کاریگا کی تلاش میں درختوں پر دوڑتا ہوا، چلاّنے لگا۔
’’بھاگ نہیں رہی ہیں، جمع ہو رہی ہیں،‘‘ کوالیئے کی آواز نے کہا اور کوسیمو نے دیکھا کہ وہ اس کے نیچے سانپ چھتری کی طرح اُگ پڑا ہے اور اسے چپ رہنے کے اشارے کر رہا ہے۔ پھر بوڑھا آدمی اچانک بھاگ کھڑا ہوا اور غائب ہو گیا۔ وہ کہاں گیا تھا؟
یہ نئے چھتے بنانے کا موسم تھا۔ مکھیوں کی ایک ٹکڑی ملکہ مکھی کے پیچھے پیچھے پرانے چھتوں سے باہر آرہی تھی۔ کوسیمو نے چاروں طرف دیکھا۔ اب کوالیئے، ہاتھ میں دیگچی اور ڈوئی لیے، باورچی خانے کے دروازے سے دوبارہ ظاہر ہوا۔ اس نے ڈوئی کو دیگچی پر زورسے مار کر ایسی اونچی آواز پیدا کی جو کان کے پردوں میں گونج کر ایک طویل ارتعاش میں ختم ہوئی۔ یہ ارتعاش اتنا پریشان کن تھا کہ کوسیمو نے چاہا اپنے کان بند کرلے۔ کوالیئے ہر تیسرے قدم پر ان تانبے کی چیزوں کو بجاتا ہوا مکھیوں کے جھنڈ کا تعاقب کر رہا تھا۔ ہر آواز پر جھنڈ ایک دھچکے کی گرفت میں آتا ہوا لگتا، تیزی سے غوطہ لگاتا اور گھوم جاتا۔ اس کی بھنبھناہٹ مدھم ہو جاتی اور اس کی راہِ پرواز مزید یقینی۔ کوسیمو کو ٹھیک سے نظر نہیں آرہا تھا لیکن اسے یوں لگا کہ سارا جھنڈ جنگل میں ایک مقام پر مرتکز ہو رہا ہے اور اس سے پرے نہیں جارہا۔ کاریگا اپنے برتن بجائے جارہا تھا۔
’’کیا ہو رہا ہے، کوالیئے؟ آپ کیا کر رہے ہیں؟‘‘ میرے بھائی نے قریب آتے ہوے اس سے پوچھا۔
’’جلدی!‘‘ وہ سسکارا۔‘‘ اس درخت پر جاؤ جہاں جھنڈ رُکا ہے، لیکن خبردار، اس وقت تک اسے نہ چھیڑنا جب تک میں نہ پہنچ جاؤں!‘‘
شہد کی مکھیاں ایک انار کے درخت کی طرف جا رہی تھیں۔ کوسیمو درخت تک پہنچا تو پہلے پہل اسے کچھ نظر نہ آیا۔ پھر اسے اچانک احساس ہوا کہ ایک شاخ سے لٹکا ہوا جو بڑا سا مخروط نظر آرہا ہے، درحقیقت ایک دوسرے سے چمٹی ہوئی مکھیاںہیں، جن کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور مخروط بڑا ہوتا جارہا ہے۔
انار کے درخت کی چوٹی پر کوسیمو اپنا سانس روکے کھڑا تھا۔ اس کے نیچے مکھیوں کا دل تھا اور جوں جوں وہ بڑھ رہا تھا توں توں ہلکا ہوتا لگ رہا تھا، جیسے کسی دھاگے سے معلق ہو، یا اس سے بھی کم، کسی بوڑھی ملکہ مکھی کے پنجوں سے آویزاں ہو۔ یہ تمام تر باریک ریشہ تھا جہاں سرسراتے ہوے پَر شکموں کی زرداورسیاہ پٹیوں پر نیم شفاف خاکستری رنگ پھیلا رہے تھے۔
اپنے ایک ہاتھ میں چھتا لیے کوالیئے کودتا پھاندتا پہنچا۔ اس نے چھتا مکھیوں کے ہجوم کے نیچے الٹا کر کے پکڑا۔ ’’دیکھو،‘‘ اس نے کوسیمو سے سرگوشی کی، ’’شاخ کو ذرا سا ہلاؤ۔‘‘
کوسیمو نے انارکے درخت کو محض جنبش دی۔ ہزاروں شہد کی مکھیوں کا دل پتے کی طرح ٹوٹ کر چھتے میں جاگرا، جس پر کوالیئے نے ایک تختہ ڈھانپ دیا۔ ’’یہ ہوئی بات!‘‘
اس طرح کوسیمو اور کوالیئے کے درمیان ایک مفاہمت، ایک اشتراک پیدا ہو گیا جسے تقریباً دوستی کا نام دیا جاسکتا تھا، بشرطیکہ دوستی کی اصطلاح ایسے دو افراد کے لیے جو خاصے کم آمیز تھے، بہت زیادہ متجاوز نہ لگتی ہو۔
میرا بھائی اور اینیاسلویو، آخرکار آبیات کے موضوع پر بھی اکٹھے ہوگئے۔ یہ بات غالباً عجیب معلوم ہو سکتی ہے، کہ درختوں پر رہنے والا کنووں اور نہروں سے کوئی واسطہ رکھنے کو یقینا مشکل پائے گا، لیکن میں نے ایک طرح کے معلق فوارے کا ذکر کیا ہے جو کوسیمو نے سفیدے کے تنے کے ایک لمبے کھوکھلے ٹکڑے کے ذریعے آبشار سے بلوط تک پانی لانے کے لیے بنایا تھا۔ اب بات یہ ہے کہ کوالیئے، گو بظاہر وہ خاصی حد تک کھویا رہتا تھا، ساری وادی میں ہر اس چیز پر توجہ دیتا تھا جس کا تعلق چلتے پانی سے ہو۔ اس نے آبشار کے اوپر سے، ایک جنگلی زیتون کی باڑ کے پیچھے چھپ کر، کوسیمو کو بلوط کی شاخوں کے درمیان سے یہ لکڑی کا پائپ نکالتے دیکھا تھا (جہاں وہ اسے، ہر چیز چھپانے کی جنگلی جانوروں کی عادت پر چلتے ہوے، جواس نے فوراً اپنالی تھی، عدم استعمال کی صورت میں رکھتا تھا)، خاص طور پر یہ کہ اس نے کس طرح اسے ایک طرف سے درخت کے ایک دو شاخے پر، اور دوسری طرف سے کچھ پتھروں پر ٹکا کر پانی پیا تھا۔
اس منظر سے کوالیئے کے ذہن میں جیسے کسی شے کو پر لگ گئے۔ احساسِ مسرت کا ایک شاذ لمحہ اسے بہا لے گیا۔ وہ چھلانگ لگا کر جھاڑی سے باہر آیا اور تالیاں بجانے لگا۔ دو تین دفعہ یوں کودا جیسے رسّی پھاند رہا ہو۔ پانی میں چھینٹے اڑاتا، وہ جھرنے میں تقریباً کود پڑا۔ وہ تیزی کے ساتھ کھڑی چٹان سے نیچے اترا، اور جو خیال اس کے ذہن میں آیا تھا لڑکے پر واضح کرنے لگا۔ خیال گنجلک تھا اور اس کی وضاحت مزید گنجلک۔ عام طورپر کوالیئے مقامی بولی میں بات کرتا تھا، اور ایسا زبان کی ناواقفیت سے زیادہ انکسار کے باعث کرتا تھا، لیکن اس طرح کے اچانک پرجوش لمحوں میںوہ مقامی بولی سے بالکل غیرمحسوس طور پر ترکی زبان پر آجاتا اور پھر اس کا کوئی لفظ بھی سمجھ میں نہ آتا۔
قصہ مختصر، اس کا منصوبہ ایک معلّق آب راہ کا تھا جس میں پانی لے جانے والی نالی درختوں کی شاخوں پر ٹکائی جاتی اور یوں پانی وادی کے مقابل ایک بنجر نشیب تک پہنچ کر اسے سیراب کرتا۔ کوسیمو نے فوراً منصوبے کی تائید کی اور اسے بہتر بنانے کی ایک تجویز بھی پیش کی۔ اس کا خیال تھا کہ فصلوں پر بارش کی طرح پانی چھڑکنے کے لیے بعض مقامات پر درختوں کے چھدے ہوے تنے استعمال کیے جائیں۔ اس تجویز نے کوالیئے کو جیسے وجد کے عالم میں پہنچا دیا۔
وہ تیزی سے اپنے مطالعہ خانہ میں واپس گیا اور نقشوں سے صفحوں پر صفحے بھرنے لگا۔ کوسیمو کوبھی اس منصوبے پر کام کرنا اچھا لگا، کہ وہ ہراس کام سے خوش ہوتا تھا جو درختوں پرکیا جاسکتا ہو۔ وہ محسوس کرتا تھا کہ اس طرح اس کی حیثیت کو ایک نئی اہمیت اور سند ملی ہے، اور اینیا سلویوکاریگا کی صورت میں اسے جیسے ایک غیرمتوقع ساتھی مل گیا ہے۔ وہ مختلف چھوٹے درختوں پر ملاقاتیں طے کرتے اور کوالیئے، جس کی بغلوں میں نقشوں کے پلندے ہوتے، ایک تکونی سیڑھی کے ذریعے اوپر آتا اور وہ گھنٹوں اپنی آبراہ کی ہمیشہ سے زیادہ پیچیدہ پیش رفتوں پر بحث کرتے۔
لیکن عملی مرحلے میں یہ آبراہ کبھی نہیں پہنچ پائی۔ اینیاسلویواکتا گیا، کوسیمو سے اس کی بحثیں شاذ ہوتی گئیں اور ہفتے بھر بعد وہ اس کے بارے میں غالباً سب کچھ بھول گیا۔ کوسیمو کو اس کا افسوس نہیں تھا۔ اس نے جلد ہی محسوس کر لیا تھا کہ یہ کام اس کی زندگی کے لیے محض ایک تھکا دینے والی پیچیدگی کے سوا کچھ اور ثابت نہ ہوگا۔
یہ واضح ہے کہ ہمارا چچا آبیات کے میدان میں بہت کچھ حاصل کرسکتا تھا۔ اسے اس علم سے فطری مناسبت تھی۔ اس کا ذہن ایسی ساخت رکھتا تھا جو مطالعے کی اس شاخ کے لیے ضروری ہے، لیکن اپنے منصوبوں کو روبہ عمل لانا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔ وہ زیادہ سے زیادہ وقت ضائع کرتا، یہاں تک کہ ہر منصوبہ خاک میں مل جاتا، بالکل اس پانی کی طرح جو خراب راستے سے لائے جانے پر تھوڑی دیر گھمیریاں کھانے کے بعد مسام دار زمین میں جذب ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ اگر مکھیاں پالنے کے لیے وہ ،کسی اور سے سروکار رکھے بغیر،تقریباً خفیہ طور پر، اپنی مرضی سے اپنے کو وقف کر سکتا تھا اور آئے دن شہد کا بن مانگاتحفہ پیش کر سکتا تھا، تو دوسری طرف، یہ آب پاشی کا کام الف یا ب کے مفادات کا خیال رکھنے کا متقاضی تھا؛ بیرن یا جو کوئی بھی کام تفویض کرتا اس کی آرا اور احکامات پرعمل کرنے کا نام تھا۔ ڈرپوک اور ڈھلمل ہونے کی وجہ سے وہ دوسروں کی مرضی کے خلاف کبھی نہیں جاتاتھا بلکہ جلدہی کام سے کنارہ کرکے اسے چھوڑ دیتا تھا۔
نوک دار بلیوں اور پھاؤڑوں سے لیس آدمیوں کے درمیان، انھیں ہر وقت ایک کھیت کے وسط میںدیکھا جاسکتا تھا۔ پیمانہ اور نقشے کا لپٹا ہوا کاغذ لیے وہ ایک نہر کی کھدائی کا حکم دیتا اور اپنے معمول کے قدم کو حد درجہ بڑھاتے ہوے زمین کی پیمائش کرتا۔ وہ ایک جگہ آدمیوں سے کھدائی شروع کرواتا، پھر دوسری جگہ، پھر کام بند کروا دیتا، پھر دوبارہ پیمائش لینا شروع کر دیتا۔ رات ہو جاتی اور کام اگلے دن تک روک دیا جاتا۔ اگلے دن وہ شاذ ہی وہاں سے شروع کرتا جہاں اس نے کام چھوڑا ہوتا۔ اور پھر وہ ہفتے بھر کے لیے مفقود ہو جاتا۔ آبیات سے اس کا عشق تمناؤں، ترنگوں اور آرزوؤں پر مشتمل تھا۔ بس ایک یاد تھی جو اس کے دل میں سلطان کی اس دلکش و آبیار زمینوں، میوہ زاروں اور باغوں کی تھی، جہاں یقینا وہ خوش رہا ہو گا،جو حقیقت میں اس کی زندگی کا واحد پرمسرت وقت تھا۔ اور ان بربری یا ترکی کے باغوںسے وہ ہمارے اومبروسا کے دیہاتی علاقوں کا لگاتار تقابل کرتا رہتا اور یوں اسے درست کرنے کی ایک خواہش محسوس کرتا، اپنی یاد میں موجود زمینی منظر سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتا اور آبیات کا ماہر ہونے کی وجہ سے اس میں اپنی آرزوے تغیر کا ارتکاز کرتے ہوے لگاتار ایک مختلف حقیقت کا سامنا کرتا اور مایوس ہوتارہتا۔
وہ پانی کے ذریعے غیب دانی بھی کیا کرتاتھا، گو برسرِ عام نہیں، کیونکہ ہنوز وہ زمانہ تھا کہ اس حیرت ناک فن کو جادوگری سمجھا جاسکتا تھا۔ ایک بار کوسیمو نے اسے ایک کھیت میں تیزی سے چکر لگاتے اور ایک دنگلی لکڑی سنبھالے دیکھا۔ یقینا یہ بھی کوئی تجربہ ہی رہا ہوگا کیونکہ اس کا حاصل کچھ نہ نکلا۔
اینیا سلویوکاریگا کے کردار کو سمجھنا کوسیمو کے لیے مددگار ثابت ہوا، کہ اس فہم نے تنہائی کے بارے میں اسے وہ کچھ سمجھایا جو زندگی میں اس کے کام آنے والا تھا۔ میں تو کہوں گا کہ وہ کوالیئے کا عجیب عکس اس تنبیہ کے طور پر ہمیشہ ساتھ لیے پھرتا تھا کہ دوسروں سے اپنا مقدر جدا کرنے والے آدمی کے ساتھ کیا کچھ پیش آسکتا ہے، اور اس جیسا نہ بننے میں وہ کامیاب رہا۔

۱۲
بعض اوقات راتوں کو ’’مدد! ڈاکو! جلدی کرو!‘‘ کی اونچی آوازوں سے کوسیمو کو جگا دیا جاتا۔
وہ تیزی سے درختوں کے ذریعے آوازوں کی سمت میں روانہ ہوتا۔ آوازوں کا مرکزکسی کسان کی جھونپڑی نکلتی جس کے باہر نیم عریاں اہلِ خاندان اپنے بال نوچ رہے ہوتے۔
’’مدد، مدد، جیان دائی بروگی ابھی آیا تھااور ہماری فصل کی ساری کمائی لے گیا!‘‘
لوگ اکٹھے ہو جاتے۔
’’جیان دائی بروگی؟ کیا وہی تھا؟ تم نے اسے دیکھا تھا؟‘‘
’’ہاں، وہی تھا! وہی تھا! اس کے چہرے پر نقاب تھا اور ہاتھ میں ایک لمبا سا پستول۔ اس کے ساتھ دو نقاب پوش اور تھے اور وہ انھیں حکم دے رہا تھا! وہ جیان دائی بروگی ہی تھا!‘‘
’’اور وہ ہے کہاں؟ کہاں گیا؟‘‘
’’اوہ، جیان دائی بروگی کو پکڑو گے؟ اس وقت تک وہ کہیں بھی ہو سکتا ہے!‘‘
یا وہ آوازیں کسی راہ گیر کی ہو سکتی تھیں جسے اس کے گھوڑے، بٹوے، چوغے اور سامان سمیت ہر چیز سے محروم کرکے بیچ سڑک میں چھوڑ دیا گیا ہوتا۔ ’’مدد! چور! جیان دائی بروگی!‘‘
’’وہ کس طرف کوگیا تھا؟ مجھے بتاؤ!‘‘
’’وہ وہاں سے کودا تھا! کالا بھجنگ، داڑھی والا، بھری ہوئی بندوق لیے، میں خوش قسمت ہوں کہ جان بچ گئی!‘‘
’’جلدی! آؤاس کا پیچھا کریں! وہ کس طرف کو گیا تھا؟‘‘
’’اِس طرف! نہیں، شاید اُس طرف! وہ ہوا کی طرح بھاگ رہا تھا!‘‘
کوسیمو، جیان دائی بروگی سے ملنے کا تہیہ کیے ہوے تھا۔ اپنے بجوکتے کو اکساتے ہوے خرگوشوں اور پرندوں کے پیچھے پیچھے وہ جنگل کے طول و عرض کو کھنگالتا۔ ’’اُدھر جاؤ، اوتیمو ماسیمو!‘‘ اسے حسرت تھی کہ ذاتی طور پر ڈاکو کا کھوج لگائے، اسے کچھ کرنے یا کہنے کے لیے نہیں بلکہ محض کسی مشہور آدمی کو پاس دیکھنے کے لیے۔ لیکن رات رات بھر تلاش میں پھرنے کے باوجودوہ اس سے ملنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوا ۔ ’’اس کا مطلب ہے وہ آج رات باہر نہیں نکلا،‘‘کوسیمو اپنے سے کہتا، لیکن صبح کو، وادی کی ایک یا دوسری سمت میں، لوگوں کی ٹکڑیوں کو اپنی دہلیزوں، یا سڑک کے موڑ پر نئی ڈکیتی پر تبصرہ کرتے پاتا۔ کوسیمو عجلت سے قریب جاتا اور رکے ہوے سانس کے ساتھ ان کہانیوں کو سنتا۔
’’لیکن تم تو ہمیشہ جنگل میں درختوںپر ہوتے ہو،‘‘کوئی اس سے بولا۔’’تم نے یقینا جیان دائی بروگی کودیکھا ہوگا؟‘‘
کوسیمو نے بہت ندامت محسوس کی۔ ’’لیکن۔۔۔ میرے خیال میں نہیں۔۔۔‘‘
’’یہ اسے کیسے دیکھ سکتا تھا؟‘‘ ایک اور نے پوچھا۔ ’’جیان دائی بروگی کی پناہ گاہوں تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ وہ ایسی پگڈنڈیاں استعمال کرتا ہے جن کے بارے میں کوئی ذی روح نہیں جانتا۔‘‘
’’اس کے سر پراتنا بڑا انعام ہے کہ اسے پکڑوانے والا اپنی باقی زندگی آرام سے گزار سکتا ہے!‘‘
’’ہاں، واقعی! لیکن جنھیں اس کا ٹھکانا معلوم ہے، انصاف ان سے حساب لینے کو بھی اتنا ہی بے تاب ہے جتنا اس سے۔ سو اگروہ ایک لفظ بھی بولیں تو خود سیدھے سولی پر لٹکا دیے جائیں!‘‘
’’جیان دائی بروگی! جیان دائی بروگی! لیکن تمھارے خیال میں یہ سارے جرائم واقعی وہ خود کرتا ہے؟‘‘
’’اس میںکیا شک ہے! اس پر اتنے الزام ہیں کہ اگر وہ دس چوریوں سے بھی بچ نکلا تو بھی گیارہویں کے لیے لٹکا دیا جائے گا!‘‘
’’وہ ساحل کے ساتھ ساتھ سارے جنگلوں میں ڈکیتیاں کرتا پھرا ہے!‘‘
’’اس نے تو جوانی میں اپنے سردار کو بھی قتل کیا ہے!‘‘
’’اسے تو ڈاکوؤں نے خود نکال رکھا ہے!‘‘
’’جبھی تو اس نے ہمارے علاقے میں پناہ لے رکھی ہے!‘‘
کوسیمو کوئلہ گروں کے ہاں جاتا اور ہر نئی واردات پران سے بات کرتا۔ جنگل میں جن لوگوں نے پڑاؤ ڈال رکھا تھا، ان میں کوئلہ گروں، قلعی گروں اور شیشہ تراشوں کے علاوہ وہ لوگ بھی تھے جو کرسیوں میں بھوسا بھرا کرتے تھے، یا کاٹھ کباڑ کا دھندا کرتے تھے۔ یہ لوگ گھروں میں آیاجایا کرتے تھے اورہر صبح اس چوری کی منصوبہ بندی کرتے جو انھیں اس رات کرنی ہوتی۔ وہ چوری کا مال جنگل میں ایک خفیہ جگہ چھپاتے تھے، جو ان کے کارخانے کا بھی کام دیتی تھی۔
’’جانتے ہو رات جیان دائی بروگی نے ایک بگھی پر حملہ کیا ہے؟‘‘
’’آہ ہاں؟ اچھا، ہو سکتا ہے۔۔۔‘‘
’’اس نے سر پٹ دوڑتے گھوڑوں کو لگام کے دہانوں سے پکڑ کر روک دیا!‘‘
’’ہوں، یا تو وہ جیان دائی بروگی نہیں ہوگا، یا وہ گھوڑے ٹڈے ہوں گے۔۔۔‘‘
’’یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ تمھیں یقین نہیں ہے کہ وہ جیان دائی بروگی تھا؟‘‘
’’ہا ہا ہا!‘‘
جب کوسیمو نے انھیں جیان دائی بروگی کے بارے میںاس طرح باتیں کرتے سنا، تو نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ سر کے بل کھڑا ہے یا ایڑیوں کے۔ وہ جنگل میں پھرا اور آوارہ گردوں کے ایک اور پڑاؤ میں جا کر پوچھا:
’’یہ بتاؤ، کیا تمھارے خیال میں کل رات گاڑی والی واردات جیان دائی بروگی نے کی تھی؟‘‘
’’ہر واردات جیان دائی بروگی کی ہوتی ہے،بشرطیکہ کامیاب ہو۔ کیا تمھیں نہیں معلوم؟‘‘
’’بشرطیکہ کامیاب ہو؟‘‘
’’اس لیے کہ اگرکامیاب نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ وہ حقیقت میں جیان دائی بروگی کی ہے!‘‘
’’ہاہا! اناڑی!‘‘
کوسیمو کچھ بھی نہ سمجھ پایا۔ ’’تمھارا مطلب ہے جیان دائی بروگی اناڑی ہے؟‘‘
دوسروں نے جلدی سے اپنا لہجہ بدل لیا۔ ’’نہیں، نہیں، یقینا نہیں، وہ تو ایسا ڈاکو ہے جس سے ہر کوئی خوف کھاتا ہے!‘‘
’’تم نے اسے خود دیکھا ہے؟‘‘
’’ہم نے؟ کیا اسے کسی نے بھی دیکھا ہے؟‘‘
’’لیکن کیا تمھیں یقین ہے کہ اس کا وجود ہے؟‘‘
’’یہ بھی کہنے کی کوئی بات ہے! یقین ہے کہ اس کا وجود ہے؟ اگر اس کا وجود نہ بھی ہو۔۔۔‘‘
’’اگر اس کا وجود نہ ہو؟‘‘
’’۔۔۔تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہاہاہا!‘‘
’’لیکن، ہر کوئی کہتا ہے۔۔۔‘‘
’’یقینا، انھیں کیا کہنا چاہیے، یہی کہ ہر جگہ چوری اور ڈاکا زنی کرنے والا جیان دائی بروگی ہی ہے۔ وہی خوفناک ڈاکو! جس کو اس بات میں شک ہو اسے ہمارے سامنے لاؤ!‘‘
’’اور تم، لڑکے، تمھیں تو اس میں شک نہیں ہے، کیوں؟‘‘
کوسیمو کو احساس ہونے لگا کہ جیان دائی بروگی کاخوف نیچے وادی میں زیادہ ہے لیکن جنگل میںجتنا آگے جائیں اتنا ہی یہ رویہ تشکیکی بلکہ کھلا تضحیکی ہو جاتا ہے۔
سو یہ محسوس کرتے ہی کہ اصلی استاد جیان دائی بروگی کی ذرا بھی پروا نہیں کرتے، اس کی ڈاکو سے ملنے کی خواہش دم توڑ گئی۔ اور یہی وقت تھا جب کوسیمو کو اس کا سامنا کرنے کا اتفاق ہوا۔

اس سہ پہر کوسیمو اخروٹ کے درخت پر پڑھ رہاتھا۔ حال ہی میں اسے کتابیں پڑھنے کا دوبارہ شوق ہوا تھا۔ ہاتھ میںبندوق لیے سارا دن کسی دُج کا انتظار آخرکار بور کر دیتا ہے۔
ہاں، تو وہ لیساژ (Lesage) کی کتاب Gil Blas پڑھ رہاتھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں کتاب اور دوسرے میں بندوق تھی۔ اوتیمو ماسیمو، جو اپنے مالک کو پڑھتے ہوے دیکھنا پسند کرتا تھا، دائروں میں چکر لگاتے ہوئے اسے مخل کرنے کے بہانے ڈھونڈ رہا تھا۔ مثال کے طور پر، ایک تتلی پر یہ دیکھنے کے لیے بھونک کر کہ آیا یہ بات اسے تتلی پر بندوق اٹھانے کے لیے مجبور کرے گی یا نہیں۔
اور تب پہاڑ سے آنے والے راستے پر ایک داڑھی والا، بدحال، غیرمسلح شخص دوڑتا اور ہانپتا نمودار ہوا۔ اس کے پیچھے تلواریں لہراتے اور چلاتے ہوے دو سپاہی تھے۔
’’اسے روکو! اسے روکو! وہ جیان دائی بروگی ہے! آخرکار ہم نے اسے پکڑ لیا ۔‘‘
اب ڈاکو سپاہیوں سے تھوڑا سا آگے نکل آیا تھا لیکن وہ قدرے عجیب انداز سے چل رہا تھا جیسے غلط راستے پر پڑنے یاکسی دام میں آنے اور یوں سپاہیوں کو دوبارہ اپنے سر پر پانے سے ڈر رہا ہو۔ اخروٹ کے درخت پر جہاں کوسیمو تھا، کسی کے اوپرآنے کا زیادہ امکان نہیں تھا۔ لیکن اس کی شاخ پرایک رسّی تھی جسے وہ مشکل حصوں کے لیے ہمیشہ ساتھ رکھتا تھا۔ اس نے ایک سرا زمین پر پھینکتے ہوے دوسرا شاخ سے باندھ دیا۔ ڈاکو نے رسّی تقریباًاپنی ناک پر گرتے دیکھی۔ وہ لمحہ بھر کو لڑکھڑایا اور پھر، اپنے کو وہ ڈانواں ڈول ترنگی ظاہر کرتے ہوے جو ہمیشہ درست لمحے کو گرفت کرنے کے نااہل نظر آتے ہیں اور اس کے باوجود ہر بار درست لمحے کو پکڑ لیتے ہیں، جلدی سے اوپر آگیا۔
سپاہی موقع پر پہنچے۔ تب تک رسّی اوپر کھینچ لی گئی تھی اور جیان دائی بروگی اخروٹ کے درخت پر پتوں کے درمیان کوسیمو کے برابر بیٹھا تھا۔ راستے میں آگے ایک دوراہا تھا۔ دونوں سپاہی ایک ایک راستے پر چل پڑے، پھر دوبارہ ملے اوراپنے اگلے اقدام کے بارے میں شش و پنج میں پڑ گئے۔ اور تب ان کی مڈبھیڑ اوتیمو ماسیمو سے ہو ئی جو وہاں ہوا کو سونگھتا پھر رہا تھا۔
’’دیکھنا،‘‘ایک سپاہی دوسرے سے بولا، ’’کیا یہ کتا بیرن کے بیٹے کا نہیں ہے، وہی جو ہمیشہ درختوں پر ہوتا ہے؟ اگر وہ لڑکا یہیں کہیں ہے تو ہو سکتا ہے وہ ہمیں کچھ بتا سکے۔‘‘
’’میں یہاں اوپر ہوں!‘‘ کوسیمو نے آواز دی، مگر آواز اس نے اخروٹ کے درخت سے نہیں لگائی جہاں وہ پہلے تھا اور جہاں اس نے ڈاکو کو چھپایا تھا، بلکہ سفیدے کے ایک درخت سے، جو مقابل تھا اور جس پر وہ جلدی سے چلا گیا تھا۔ سپاہیوں نے آس پاس کے درختوں پر تلاش شروع کیے بغیر فوراً اسی سمت میں دیکھا۔
’’روز بخیر، حضور والا!‘‘ انھوں نے پوچھا۔ ’’آپ کو ڈاکو جیان دائی بروگی کو دیکھنے کا اتفاق تو نہیں ہوا؟‘‘
’’میں نہیںجانتا وہ کون ہے،‘‘ کوسیمو نے جواب دیا۔ ’’لیکن اگر تم ایک ٹھنگنے آدمی کو ڈھونڈ رہے ہو، تو وہ دوڑتا ہوا وہاں چشمے کے پاس والی سڑک پر گیا ہے۔۔۔‘‘
’’ٹھنگنا آدمی؟ وہ تو بہت لمبا چوڑا ہے۔ اس سے ہر ایک کو خوف آتا ہے۔۔۔‘‘
’’ہونہہ، یہاں اوپر سے تو ہر کوئی بالکل چھوٹا لگتا ہے۔۔۔‘‘
’’شکریہ، حضور والا!‘‘ اور وہ چشمے کی طرف چل پڑے۔
کوسیمو اخروٹ کے درخت پر واپس گیا اور دوبارہ کتاب پڑھنے لگا۔ جیان دائی بروگی ابھی تک شاخ سے چمٹا ہوا تھا۔ سرخ بالوں کے درمیان اس کا چہرہ زرد تھا اور داڑھی منتشر۔اس کے سارے کپڑوں پر خشک پتے، شاہ بلوط کے جوز اور صنوبر کی سوئیاں چپکی ہوئی تھیں۔ وہ کوسیمو کو اپنی سبز، گول اور متحیر آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ کتنا بدشکل تھا وہ!
’’کیا وہ چلے گئے؟‘‘اس نے پوچھنے کا فیصلہ کیا۔
’’ہاں، ہاں،‘‘ کوسیمو نے خوش خلقی سے کہا۔ ’’کیا تم ڈاکو جیان دائی بروگی ہو؟‘‘
’’تم مجھے کیسے جانتے ہو؟‘‘
’’اوہ، صرف تمھاری شہرت سے۔‘‘
’’کیا تم وہ ہوجو درختوں سے کبھی نیچے نہیں آتے؟‘‘
’’ہاں۔ تم یہ بات کیسے جانتے ہو؟‘‘
’’شہرتیں مجھ تک بھی پہنچتی رہتی ہیں۔‘‘
اتفاقاً ملنے والے دو معزز افراد کی طرح جو یہ جان کر خوش ہوتے ہیں کہ وہ آپس میں اجنبی نہیں ہیں، انھوں نے ایک دوسرے کو نرمی سے دیکھا۔
کوسیمو کو آگے کوئی اور بات نہ سوجھی، سو دوبارہ پڑھنے لگا۔
’’تم کیا پڑھ رہے ہو؟‘‘
’’لیساژ کی گل بلاس۔‘‘
’’اچھی ہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’کیا ابھی بہت باقی ہے؟‘‘
’’کیوں؟ کوئی بیس ایک صفحے۔‘‘
’’اس لیے کہ جب تم اسے ختم کرلو گے تو میں یہ درخواست کروں گاکہ آیا میں اسے ادھار لے سکتا ہوں۔‘‘ وہ قدرے گھبراہٹ سے مسکرایا۔ ’’تم جانتے ہو، میں اپنا وقت چھپ کر گزارتا ہوں اور میرے پاس کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ میں سوچتا ہوں، کاش میرے پاس کبھی کبھار کوئی کتاب ہو۔ ایک دفعہ میں نے ایک گاڑی کو روکا۔ اس میں بہت کم مال تھا، سواے ایک کتاب کے۔ میں نے وہ کتاب لے لی اور اپنی جیکٹ کے نیچے چھپا کر ساتھ لے آیا۔ وہ کتاب اپنے پاس رکھنے کے بدلے میں لوٹ کا باقی سارا مال دے سکتا تھا۔ شام کو لالٹین جلا کر میں اسے پڑھنے بیٹھا۔۔۔ وہ لاطینی میںتھی! میری سمجھ میں ایک لفظ بھی نہ آیا۔۔۔‘‘ اس نے اپنا سر ہلایا۔ ’’بات یہ ہے، میں لاطینی نہیں جانتا۔۔۔‘‘
’’ہاں، لاطینی زبان مشکل ہے‘‘ کوسیمو نے یہ محسوس کرتے ہوے کہ نہ چاہنے کے باوجود وہ ایک حفاظتی رویہ اختیار کر رہا ہے، جواب دیا۔
’’یہ کتاب فرانسیسی میں ہے۔۔۔‘‘
’’فرانسیسی، تسکینی، پراونیسی، ہسپانوی — میں یہ ساری زبانیں سمجھ سکتا ہوں،‘‘جیان دائی بروگی نے کہا، ’’اور کسی قدر قشتالی بھی: روزبخیر! شب بخیر! سمندر بہت متلاطم ہے!‘‘
کوسیمو نے آدھے گھنٹے میں کتاب ختم کرلی اور جیان دائی بروگی کو عاریتاً دے دی۔ اور یوں میرے بھائی اور ڈاکو کی دوستی کا آغاز ہوا۔ جیان دائی بروگی جونہی کوئی کتاب ختم کرتا، کوسیمو کو جلدی سے لوٹا دیتا۔ عاریتاً ایک اور لے لیتا، پھر جلدی سے اپنی خفیہ پناہ گاہ میں چھپنے کو چلا جاتا اور مطالعے میں ڈوب جاتا۔
پہلے میں گھر کے کتب خانے سے کوسیمو کو کتابیں پہنچایا کرتا تھا اور جب وہ انھیں پڑھ لیتا تو مجھے واپس کر دیتا تھا۔ اب وہ انھیںتادیررکھنے لگا تھا کیونکہ خود پڑھنے کے بعد وہ انھیں جیان دائی بروگی کودے دیتا تھا۔ اکثروبیشتر وہ اس شکل میں واپس آتیں کہ ان کی جلدیں نمی کے نشانات اور گھونگھوں کی آلائشوں سے داغ دار ہوتیں۔
کوسیمو اور جیان دائی بروگی طے شدہ دنوں میں ایک خاص درخت پر ملاقات کرتے، کتابوں کا تبادلہ کرتے اور اپنی اپنی راہ لیتے کیونکہ پولیس ہمیشہ جنگل کوکھنگالتی رہتی تھی۔ یہ سادہ سی کارروائی ان دونوں کے لیے بہت خطرناک تھی، میرے بھائی کے لیے بھی جو اس مجرم سے اپنی دوستی کی توجیہہ کرنے میں یقینا ناکام رہتا! لیکن جیان دائی بروگی پر پڑھنے کا ایسا جنون طاری تھا کہ وہ ناول کے بعد ناول ہضم کر جاتا۔ سارا سارا دن پڑھنے میں گزارنے کے باعث وہ کئی ضخیم کتابیں، جن پر میرا بھائی ایک ہفتہ صرف کرتا، محض ایک دن میں پڑھ لیتا، اور پھر اسے فوری طور پر ایک اور کتاب درکار ہوتی، اور اگر یہ ان کی ملاقات کادن نہ ہوتا، توپورے دیہاتی علاقے میں ساری جھونپڑیوں میں خاندانوں کو دہشت زدہ کرتااور اومبروسا کی ساری پولیس نفری کو حرکت میں لاتا ہوا، وہ کوسیمو کو ڈھونڈتا پھرتا۔
کوسیمو جس پر ہمیشہ ڈاکو کے مطالبوں کا دباؤ رہتا تھا، اب محسوس کرنے لگا کہ جو کتابیں وہ اسے دیتا ہے، کافی نہیں ہیں۔ سو اسے جا کر دوسرے ذخیرے ڈھونڈنے پڑے۔ وہ ایک یہودی کتب فروش کو جانتا تھا جس کا نام اوربیچی تھا۔ اور اس نے کوسیمو کو کئی کئی جلدوں والی کتابیں بھی دی تھیں۔ کوسیمو اس کے گھر جاتا اور ایک خرنوب کے درخت کی شاخوںسے اس کی کھڑکی پر دستک دیتا۔ وہ اسے اپنے شکار کردہ خرگوش، ترغے اور تیتر پہنچاتا اوران کے عوض کتابیں لے جاتا۔
لیکن جیان دائی بروگی کا خاص اپنا ذوق تھا؛ آپ اسے کوئی بھی کتاب نہیں تھما سکتے تھے، کہ وہ اگلے ہی دن اسے بدلنے کے لیے کوسیمو کو لوٹا دیتا تھا۔ میرا بھائی عمر کی اس منزل میں تھا جہاں لوگ زیادہ سنجیدہ تحریروں سے لطف اٹھانے لگتے ہیں لیکن وہ آہستہ روی پر مجبور تھا کیونکہ جیان دائی بروگی ’’تیلی ماخوس کے کارنامے‘‘ نامی کتاب واپس کر گیا تھا اور اسے متنبہ کیا تھا اگر اس نے آئندہ ایسی ٹھس کتاب دی تو وہ جس درخت پر بیٹھا ہے اسے چیر دے گا۔
اس مرحلے پر کوسیمو ایسی کتابیں جنھیں وہ اطمینان سے خود پڑھنا چاہتا تھا، ان کتابوں سے الگ کرنا پسند کرتا جنھیں وہ محض ڈاکو کو دینے کے لیے حاصل کرتا تھا۔ لیکن یہ ممکن نہ تھا، کہ اسے ان کتابوں کو بھی پڑھنا تھا، کیونکہ جیان دائی بروگی زیادہ سخت گیر اور بدگمان ہو گیا تھا اور کوئی کتاب لینے سے پہلے کوسیمو سے کہانی کے بارے میں جاننا چاہتا تھا اور کوسیمو کی غلط بیانی پر ہنگامہ کھڑا کر دیتا تھا۔ میرے بھائی نے اسے کچھ ہلکے ناول دینے کی کوشش کی لیکن وہ سخت برہمی سے یہ پوچھتا ہوا لوٹ آیا،’’ کیا تم نے مجھے عورت سمجھ رکھا ہے؟‘‘ کوسیمو یہ اندازہ لگانے میں کبھی کامیاب نہ ہو سکا کہ وہ کیا پڑھناپسند کرے گا۔
سچ تو یہ ہے کہ جیان دائی بروگی کے مستقل دباؤ کی وجہ سے کوسیمو کے لیے مطالعہ، محض آدھ گھنٹے کی تفریح کے بجاے، اس کی سب سے بڑی مصروفیت اور اس کے سارے دن کا مقصد بن گیا۔ کچھ تو کتابیں سنبھالنے، ان کا اندازہ لگانے اور انھیں حاصل کرنے اور نئی کتابوں کو جاننے کے باعث، اور کچھ جیان دائی بروگی کے لیے پڑھنے کے علاوہ خود بھی پڑھنے کی بڑھتی ہوئی ضرورت کی وجہ سے، کوسیمو کو مطالعے اور تمام تر انسانی علم کی تحصیل کا ایسا اشتیاق ہوا کہ جو کچھ وہ پڑھنا پسند کرتا اس کے لیے نور کے تڑکے سے جھٹ پٹے تک کا سارا وقت ناکافی تھا اور وہ لالٹین کی روشنی میں پڑھنا جاری رکھتا۔
آخرکار رچرڈسن کے ناول اس کے ہاتھ لگے۔ جیان دائی بروگی نے انھیں پسند کیا۔ ایک ختم کرنے کے بعد وہ فوراً دوسرا طلب کرتا۔ اوربیچی نے جلدوں کا ایک پورا ڈھیر کوسیمو کو دے دیا۔ اب ڈاکو کے پاس مہینے بھر تک پڑھنے کے لیے کافی مسالہ تھا۔ کوسیمو، دوبارہ یکسوئی میسر آنے پر،پلوٹارک کی لکھی ہوئی سوانح عمریوںمیں ڈوب گیا۔
اس دوران اپنی پناہ گاہ میں لیٹا جیان دائی بروگی، جس کے خشک پتوںسے بھرے کھردرے لال بال اس کی پرشکن پیشانی پر لٹکے ہوتے اور جس کی سبز آنکھیں پڑھنے کی کوشش میں لال ہوئی جاتیں، ہجّے کرنے کی ہیجانی حرکت میں اپنے جبڑے ہلاتا ہوا، صفحہ الٹنے کے لیے تھوک سے نم ایک انگلی اٹھائے، لگاتار پڑھے جاتا۔ رچرڈسن کو پڑھنے سے اس کے اندر مدت سے پنہاں ایک میلان جیسے باہر آگیا۔ یہ ایک آرزو تھی جوگھریلو زندگی کی آرام دہ عادتوں کی تھی، عزیروں اور ماضی میں جانے ہوے جذبات کی تھی، ایک احساس تھا جو نیکی کا تھا، برے اور غلط سے نفرت کا تھا۔ اب اسے اپنے آس پاس کچھ نہ بھاتا تھا، یا ہر چیزاسے تنّفرسے بھر دیتی تھی۔ اب صرف کتاب بدلنے کے لیے کوسیمو تک دوڑ لگانے کے سوا، خاص کر اگر وہ کتاب کئی جلدوں والا ناول ہو اور وہ کہانی کے وسط تک پہنچ گیا ہو، وہ اپنی آماج گاہ سے کبھی باہر نہیں آتا تھا۔ اور یوں آزردگی کے اس طوفان کو محسوس کیے بغیر جو اس کے گرد اکٹھا ہو رہا تھا، وہ تنہائی میں جی رہا تھا۔ جنگل کے باسیوں میں بھی، جو کبھی اس کے رازدار اور شریکِ جرم رہ چکے تھے، اس کے خلاف ناراضگی تھی، کہ اب وہ ایک غیرفعال ڈاکو سے، جس کے پیچھے ابھی تک ساری مقامی پولیس لگی ہوئی تھی، تنگ آچکے تھے۔
ماضی میں سارے ایسے مقامی جو پولیس کی نظروں میں تھے، اس کے گرد اکٹھے ہو گئے تھے۔ ان میں آوارہ گردوں اور قلعی گروں جیسے چھوٹے چوربھی تھے اور اس کے ڈاکو ساتھیوں جیسے اصل جرائم پیشہ بھی۔ یہ لوگ اپنی ہر چوری یا دھاوے کے لیے نہ صرف اس کے تسلط اور تجربے سے فائدہ اٹھاتے بلکہ اس کا نام بھی آڑ کے طور پر استعمال کرتے، کہ اس کا نام زبان در زبان چلتاجاتا اور یوں وہ خودنامعلوم رہتے تھے۔ ان کی کامیابی سے وہ بھی فائدہ حاصل کرتے جو ان کاموں میں حصہ نہیں لیتے تھے کیونکہ جنگل مالِ مسروقہ اور ہر طرح کی اشیاے ناجائز سے بھر جاتا جنھیں ٹھکانے لگانا یا دوبارہ بیچنا ہوتا تھا، اور وہ سب جو وہاں ناجائز دھندا کرتے تھے خوب مال بناتے۔ اور پھر جو کوئی بھی اپنے طور پر چوری کرتا اور جس کی جیان دائی بروگی کے فرشتوں تک کو خبر نہ ہوتی اس کے دہشت ناک نام کو، اپنے شکاروں کو ڈرانے اور ان سے مزید مال بٹورنے کے لیے استعمال کرتا۔ لوگ دہشت کے عالم میں رہتے اور یہ سوچتے کہ ہر سامنے آنے والے بدمعاش میں انھوں نے جیان دائی بروگی یا اس کے کسی آدمی کو دیکھا ہے، اور یوں اپنے بٹووں کی ڈوریاں ڈھیلی کر دیتے۔
یہ اچھا دور کافی عرصے رہا تھا۔ پھر جیان دائی بروگی پر بتدریج آشکار ہوا کہ وہ مفت کی آمدنی پر گذارا کرسکتا ہے اور دور سے دور تر ہو تا چلا گیا۔ اس نے سوچا کہ یہ سب کچھ ہمیشہ اسی طرح چلتا رہے گا مگر اس کے بجاے حالات بدل گئے، اور اب اس کا نام اس احترام سے تہی ہو چکاتھا جو کبھی اس سے منسوب تھا۔
اب وہ، جیان دائی بروگی، کس کام کا تھا؟ کچھ اس چندھی آنکھوں والے کی وجہ سے، جو کہیں خود کو لپیٹے پڑاناول پڑھتا رہتا، کبھی کوئی واردات نہ کرتا، نہ کوئی مال اٹھاتا، اور کچھ پولیس کے خوف سے جو ہمیشہ اس کی تلاش میں رہتی اور ذرا سے بھی شبے پر کسی کو بھی گرفتار کرلیتی، لوگ اب اپنا دھندا خاموشی سے نہیں کر سکتے تھے۔ اس پر مستزاد، اس انعام کی تحریص جو اس کے سر پر مقرر تھا... ظاہر ہے کہ بیچارے ڈاکو کے دن اب گنے چنے تھے۔
دو اور ڈاکوؤں نے، جو نوجوان اور اس کے سکھائے ہوے تھے اور ایسے عمدہ رہنما سے ہاتھ دھونے پرراضی نہ تھے، اسے دوبارہ پاؤں جمانے کا موقع دینے کا فیصلہ کیا۔ ان کے نام اگاسو اور بیل لورے تھے، اور وہ بچپن میں پھل چوروں کے گروہ میں شامل تھے۔ اب نو عمری میں وہ نوآموز ڈاکوبن گئے تھے۔
سو وہ جیان دائی بروگی سے ملنے اس کے غار میں گئے۔ وہ بھوسے پر لیٹا تھا۔ ’’ہاں، کون ہے؟‘‘ اپنی نظریں صفحے سے ہٹائے بغیر وہ بڑبڑایا۔
’’ہم ایک منصوبے پر بات کرنے آئے ہیں، جیان دائی بروگی۔‘‘
’’مم۔۔۔ کیسا منصوبہ؟‘‘ اور اس نے پڑھنا جاری رکھا۔
’’کیا تمھیں کوستانزو، افسر آب کاری کا گھر معلوم ہے؟‘‘
’’آں... ہاں۔۔۔ ہوں؟ کون؟ سا افسر آب کاری؟‘‘
بیل لورے اور اگاسو نے ایک دوسرے کو برافروختگی سے دیکھا۔ اگر ڈاکو نے یہ منحوس کتاب اپنی نظروں کے نیچے سے نہیں ہٹائی تو وہ ان کا کہا ایک لفظ نہیں سمجھے گا۔ ’’ذرا دیر کے لیے یہ کتاب بند کرو، جیان دائی بروگی، اور ہماری بات سنو۔‘‘
جیان دائی بروگی نے دونوں ہاتھوں سے کتاب تھام لی۔ وہ اپنے گھٹنوں پر اٹھا اور یوں ظاہر کیا جیسے کتاب کو نشان پر کھلی رکھتے ہوے اپنے سینے کے سہارے سنبھال رہا ہو۔ لیکن پڑھتے رہنے کی خواہش بہت قوی تھی۔ سو کتاب کو مضبوطی سے تھامے ہوے اسی قدر اوپر اٹھایا کہ اس کی ناک دوبارہ اندر جاسکے۔
بیل لورے کو ایک خیال سوجھا۔ اس نے ایک جالا دیکھا جس میں بڑی سی مکڑی تھی۔ بیل لورے نے مکڑی سمیت جالا اٹھایا اور اسے جیان دائی بروگی پر، اس کی کتاب اور اس کی ناک کے درمیان، پھینک دیا۔ غریب جیان دائی بروگی اتنا نرم خو ہو گیا تھا کہ وہ مکڑی سے بھی خائف تھا۔ اس نے مکڑی کی ٹانگوں کو گدگداتے اور جالے کو اپنی ناک سے چمٹتے محسوس کیا اور یہ سمجھے بغیر کہ یہ کیا ہے، ایک کراہت بھری آواز نکالی۔ اس نے کتاب گرا دی اور حواس باختہ آنکھوں اور رال ٹپکاتے منھ کے ساتھ اپنے چہرے کے سامنے پنکھے کی طرح ہاتھ ہلانے لگا۔
اگاسو نے نیچے جھپٹا مارا اور اس سے قبل کہ جیان دائی بروگی اس پر پاؤں رکھ سکتا، وہ کتاب ہتھیانے میں کامیاب رہا۔
’’یہ کتاب مجھے دے دو!‘‘ ایک ہاتھ سے مکڑی اور جالے سے چھٹکارا پانے اور دوسرے ہاتھ سے کتاب چھیننے کی کوشش کرتے ہوے جیان دائی بروگی نے کہا۔
’’نہیں، پہلے ہماری بات سنو!‘‘ اگاسو نے کتاب اپنی پشت کے پیچھے چھپاتے ہوے کہا۔
’’میں ابھی ’کلاریسا‘ پڑھ رہا تھا۔ یہ مجھے واپس دے دو! میں مشکل سے ذرا۔۔۔‘‘
’’ہماری بات سنو۔ آج رات ہمیں افسرِ آبکاری کے گھر لکڑی لے جانی ہے۔ لکڑی کے بجاے بوری میں تم ہو گے۔ جب اندھیرا ہو جائے گا، تم بوری سے باہر آجاؤ گے۔۔۔‘‘
’’لیکن میں ’کلاریسا‘ ختم کرنا چاہتا ہوں!‘‘ اس نے جالے کے بچے کھچے ٹکڑوں سے اپنے ہاتھ چھڑا لیے تھے اور دونوں نوجوانوں کے ساتھ کشاکش میں لگا ہوا تھا۔
’’ہماری بات سنو۔۔۔ جب اندھیرا ہوگا، تم پستولوں سے مسلح بوری سے باہر آؤ گے، افسر آبکاری کو قابو میں کرو گے کہ وہ ہفتے بھر کی ساری یافت، جو وہ اپنے پلنگ کے سرھانے تجوری میں رکھتا ہے، تمھارے حوالے کردے۔۔۔‘‘
’’ذرا مجھے یہ باب تو ختم کرنے دو۔۔۔‘‘
دونوں نوجوانوں نے اُن دنوں کے بارے میں سوچا جب جیان دائی بروگی ہر اس شخص کے پیٹ میں جواس کی تردید کرنے کی جرأت کرتا، پستول کی دو گولیاں اتار دیتا تھا۔ یہ خیال ان کے دلوں کو یادِ ایام کی ایک ٹیس دے گیا۔ ’’تم رقم کے تھیلے لو گے، سمجھ رہے ہو نا؟‘‘انھوں نے اداسی سے بات جاری رکھی۔ ’’وہ تھیلے ہمارے پاس لاؤ گے اور ہم تمھیں تمھاری کتاب لوٹادیں گے تاکہ تم جی بھر کے پڑھ سکو۔ ٹھیک ہے؟ تم چل رہے ہونا؟‘‘
’’نہیں، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ میں نہیں چل رہا!‘‘
’’آہ! نہیں چل رہے؟ کیا تم۔۔۔ سو، تم نہیں چل رہے؟۔۔۔ اچھا، ہم ابھی دیکھیں گے!‘‘ اگاسو نے کتاب کے آخر سے ایک صفحہ کھولا (’’نہیں!‘‘ جیان دائی بروگی چلاّیا)، اسے پھاڑا (’’نہیں، ٹھہرو!‘‘) اور مروڑ کر آگ میں جھونک دیا۔
’’آہ ! سؤر! تم ایسا نہیںکر سکتے! میں اس کا انجام نہیں جان پاؤں گا!‘‘ اور وہ کتاب چھیننے کے لیے اگاسو کے پیچھے دوڑا۔
پھر تم افسرِ آبکاری کے ہاں چل رہے ہو؟‘‘
’’نہیں... میں نہیں چل رہا!‘‘
اگاسو نے دو اور صفحے پھاڑ دیے۔
’’ٹھہرو! میں ابھی یہاں تک نہیں پہنچا ہوں! تم انھیں نہیں جلا سکتے!‘‘
تب تک اگاسو انھیں آگ میں جھونک چکا تھا۔
’’سؤر! کلاریسا! نہیں!‘‘
’’ہاں، توتم چل رہے ہو؟‘‘
’’میں۔۔۔‘‘
اگاسو نے تین اور صفحے پھاڑے اور انھیں شعلوں کے حوالے کر دیا۔
جیان دائی بروگی دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام کے نیچے گر پڑا۔ ’’میں چلوں گا،‘‘ اس نے کہا، ’’لیکن وعدہ کرو کہ تم کتاب کے ساتھ گھر کے باہر انتظارکرو گے۔‘‘
یوں ڈاکو کو ایک بوری میں ٹھونس کر اوپر سے شاخیں رکھ دی گئیں۔ بیل لورے نے بوری اپنے کاندھوں پر دھرلی۔ اگاسو کتاب لیے پیچھے پیچھے آرہا تھا۔ ہر بار جب بوری میںبند جیان دائی بروگی ایک جھٹکے یا آہ کے ذریعے اپنے سودے پر متاسف لگتا، تو اگاسو اسے ایک صفحہ پھٹنے کی آواز سناتا، اور جیان دائی بروگی فوراً چپ ہو جاتا۔
اس طریق سے وہ، کوئلہ گروں کا بھیس بدلے، اسے افسرِ آبکاری کے گھر تک لے گئے اور اسے وہاں چھوڑ دیا۔ پھروہ چلے گئے اور اس کی ڈاکا زنی کے انتظار میں تھوڑی دوری پر ایک زیتون کے درخت کے پیچھے چھپ گئے۔
لیکن جیان دائی بروگی بہت زیادہ عجلت میں تھا۔ وہ اندھیرا ہونے سے پہلے بوری سے باہر آ گیا جبکہ وہ جگہ ابھی لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔
’’اپنے ہاتھ اوپر اٹھاؤ!‘‘ وہ للکارا۔ لیکن وہ پہلے جیسا آدمی نہیں تھا۔ وہ اپنے آپ کو باہر سے دیکھتا ہوا لگ رہاتھا اور قدرے مضحکہ خیز محسوس کر رہا تھا۔ ’’میں نے کہا ہے، اپنے ہاتھ اوپر اٹھاؤ۔ دیوار کی طرف منھ کرو،تم سب۔۔۔‘‘
سچ تو یہ ہے کہ اسے اپنے آپ پر یقین نہیں آ رہاتھا۔ وہ محض اداکاری کر رہا تھا۔ ’’کیا سب لوگ یہی ہیں؟‘‘ اس نے نہیں دیکھا تھا کہ ایک بچہ نکل بھاگا ہے۔
اس طرح کے کام میں ایک منٹ بھی گنوانے کی گنجائش نہیں تھی، لیکن وہ اسے طول دیتا رہا۔ افسرِ آبکاری نے بے وقوف ہونے اور چابیاں نہ ڈھونڈھ سکنے کا بہانہ کیا۔ جیان دائی بروگی کو احساس ہوگیا کہ وہ لوگ اسے سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں، اور اس بات پر اپنے اندرون میں اس نے قدرے خوشی محسوس کی۔
آخرکار، بازوؤں میں سکوں کے تھیلے دبائے، وہ باہر آیا اور تقریباً آنکھیں موندے زیتون کے درخت کی طرف دوڑ پڑا جہاں ملنا طے ہوا تھا۔
’’یہ رہا سارا مال! اب ’کلاریسا‘ مجھے لوٹا دو!‘‘
چار ۔۔۔ سات۔۔۔ دس بازو اس کے گرد لپٹ گئے اور اسے شانے سے ٹخنے تک جکڑ لیا۔ اسے اٹھا کر سموسے کی طرح باندھ دیا گیا۔ ’’کلاریسا تمھیں سلاخوں کے پیچھے ملے گی!‘‘ اور وہ اسے جیل خانے لے گئے۔
جیل خانہ سمندر کے ساتھ ایک چھوٹے منارے میں تھا۔ قریب ہی صنوبر کے درختوں کا ایک جھنڈ اگ رہا تھا۔ کوسیمو ایک صنوبر کے درخت کی چوٹی سے جیان دائی بروگی کی کوٹھری کے بالکل قریب پہنچ سکتا تھا اور یوں جنگلے میں سے اس کا چہرہ دیکھ سکتا تھا۔
ڈاکو کو اپنی تفتیش یا مقدمے کی فکر نہیں تھی۔اس کے ساتھ جو بھی کچھ پیش آتا، اسے اگر تشویش تھی تو قید خانے کے ان خالی دنوں کے بارے میں جب وہ مطالعہ کرنے کا اہل نہ ہوگا۔ اور پھر وہ ناول بھی ادھورا رہ گیا تھا۔ کوسیمو نے ’’کلاریسا‘‘ کے ایک اور نسخے کا بندوبست کیا اور اسے صنوبر کے درخت پر لے گیا۔
’’تم کون سے حصے تک پہنچے تھے؟‘‘
’’وہ حصہ جہاں کلاریسا چکلے سے بھاگ رہی ہے!‘‘ کوسیمو نے چند صفحے پلٹے۔ ’’آہ، ہاں، یہ رہی کلاریسا۔ اچھا۔۔۔‘‘ اور جنگلے کی طرف منھ کرتے ہوے، جس پر وہ جیان دائی بروگی کے کسے ہوے ہاتھ دیکھ سکتا تھا، بلند آواز سے پڑھنا شروع کیا۔
استغاثہ نے مقدمے کی تیاری میں بہت وقت لیا۔ ڈاکو نے شکنجے پر اعتراف کرنے میں مزاحمت کی۔اس کے جرائم لاتعداد تھے اور ایک ایک جرم قبول کروانے میں کئی کئی دن لگے۔ وہ تفتیش سے قبل اور بعد روازانہ کوسیمو کو پڑھتے ہوے سنتا۔ ’’کلاریسا‘‘ ختم ہوئی تو کوسیمو نے دیکھا کہ جیان دائی بروگی قدرے اداس ہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اس طرح قید شخص کے لیے رچرڈسن کے ناول کسی حد تک ملال انگیزہو سکتے ہیں۔ سو اس نے فیلڈنگ کا ایک ناول شروع کرنے کا فیصلہ کیا جس کی کہانی اور بہاؤ اسے اپنی کھوئی ہوئی آزادی کا احساس لوٹا سکتے تھے۔ یہ بات مقدمے کے دوران کی ہے، اور جیان دائی بروگی جوناتھن وائلڈ کے کارناموں کے سوا کچھ اور سوچنے سے قاصر تھا۔
ناول ختم ہونے سے پہلے پھانسی کادن آپہنچا۔ جیان دائی بروگی نے زندوں کے درمیان اپنا آخری سفر ایک راہب کی معیت میں ایک چھکڑے پر طے کیا۔ اومبروسا میں پھانسی چوک کے درمیان ایک اونچے بلوط پر دی جاتی تھی۔ تمام آبادی اس کے گرد ایک دائرہ بنائے کھڑی تھی۔
جب اس کا سر پھندے میں تھا تو جیان دائی بروگی نے شاخوں کے درمیان ایک سیٹی سنی۔ اس نے اپنا چہرہ اٹھایا۔ وہ کوسیمو تھاجس کے ہاتھ میںایک بند کتاب تھی۔
’’مجھے بتاؤ اس کا انجام کیا ہے،‘‘ سزا یافتہ شخص نے کہا۔
’’مجھے یہ بتاتے ہوے افسوس ہے، جیان،‘‘ کوسیمو نے جواب دیا، ’’کہ جو ناتھن کا خاتمہ پھانسی پر ہوتا ہے۔‘‘
’’شکریہ... میری طرح! الوداع!‘‘ اور اس نے خود ٹھوکر مار کے سیڑھی کو گرا دیا اوراس کا گلا گھٹ گیا۔
جب اس کے جسم کا پھڑکنا ختم ہوا تو مجمع چھٹ گیا۔ کوسیمو شام گئے تک اس شاخ پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھا رہا جس سے سولی پر لٹکا آدمی جھول رہا تھا۔ ہر بار جب کوئی کوا لاش کی آنکھوں یا ناک پر ٹھونگا مارنے آتا، کوسیمو اپنی ٹوپی ہلا کر اسے بھگا دیتا۔

۱۳
ڈاکو کی صحبت میں گزرے ہوے اس وقت کی بدولت کوسیمو نے پڑھنے اور غور و خوض کرنے کی ایسی لگن پیدا کرلی تھی جو اس کی ساری بقیہ زندگی اس کے ساتھ رہی۔اب عام طور پر ہم اسے اس وضع میں دیکھتے کہ وہ ہاتھ میں کھلی کتاب لیے کسی آرام دہ شاخ پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھا ہوتا یا پھر کسی پیڑکے دوشاخے پر یوں جھکا ہوتا جیسے کسی اسکول کی بنچ پر ہو۔ ایک تختے پر کاغذ اور درخت کے ایک سوراخ میں قلم دان رکھے وہ ایک لمبے پَر کے قلم سے لکھنے میں مگن ہوتا۔
اب وہ تھا جو ایبے فوشیلی فلیئر کو ڈھونڈتا پھرتا کہ وہ اسے اسباق دے، ٹیسی ٹس (Tacitus) یا اووِڈ(Ovid) اور اجرامِ فلکی اور قوانینِ کیمیا کی وضاحت کرے۔ لیکن وہ بوڑھا راہب، تھوڑی بہت صرف و نحو اور تھوڑی بہت دینیات کو چھوڑ کر، شکوک و عدم آگہی کے ایک سمندر میں ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ اپنے شاگرد کے سوالوں پر وہ اپنے بازو کھولتا اور اپنی آنکھیں آسمان کی طرف اٹھا دیتا۔
’’اچھے ایبے۔۔۔، ایران میں آدمی کتنی بیویاں رکھ سکتا ہے؟ اچھے ایبے۔۔۔ ساوویارد وِکار کون ہے؟ اچھے ایبے۔۔۔ کیا آپ لینے یس کے نظام کی وضاحت کر سکتے ہیں؟‘‘
’’۔۔۔ اچھا۔۔۔ اب ۔۔۔ دیکھتے ہیں۔۔۔‘‘ ایبے آغاز کرتا ہے، پھر جھجکتا اور چپ ہو جاتا۔
لیکن کوسیمو، جو ہر طرح کی کتابیں چاٹ رہا تھا اور اپنا آدھا وقت پڑھنے اور آدھا کتب فروش کے بل ادا کرنے کے لیے، شکارکرنے میں لگاتا تھا، اسے سنانے کو ہمیشہ کوئی نئی کہانی لیے ہوتا۔ روسوکی، جو سوئٹزرلینڈ کے جنگلوں میں چہل قدمی کے دوران مطالعے کے لیے پودے تلاش کرتا، یا بنجمن فرینکلن کی، جو پتنگ کے ذریعے آسمانی بجلی کو گرفت میں لینے کی کوشش کرتا، بیرن دی لاہونتان کی، جو امریکہ کے انڈین لوگوں میں خوشی خوشی رہتا تھا۔
بوڑھا فوشیلی فلیئر یہ ساری باتیں حیرت زدہ توجہ کے ساتھ سنتا ہوا لگتا، آیا حقیقی دلچسپی کے باعث یا محض اس تسکین سے کہ اسے خود پڑھانا نہیں پڑ رہا، یہ میں نہیں کہہ سکتا۔ اورجب کوسیمو اس کی طرف مڑ کے پوچھتا: ’’کیا آپ جانتے ہیں کہ۔۔۔؟‘‘ تو وہ بیچ میں ہی ’’نہیں! مجھے بتاؤ!۔۔۔‘‘ کہہ کر اپنی معذوری ظاہر کر دیتا۔ یا جب کوسیمو اسے جواب دیتا تو وہ ’’واہ! یہ تو حیران کن بات ہے!۔۔۔‘‘ سے اپنا استعجاب ظاہر کیے بغیر نہ رہتا، اور بعض اوقات تو ’’اوہ میرے خدا!۔۔۔‘‘ سے، جس کا باعث یا تو خدا کی عظمت کے اس تازہ انکشاف کا پیدا کردہ کیف ہو سکتا تھا یا پھر دنیا میں اَن گنت صورتوں میں بدی کی ہر جا موجودگی پر افسوس۔
میں ابھی محض لڑکا ہی تھا اور کوسیمو کے دوست محض اَن پڑھ، لہٰذا جو معلومات وہ کتابوں سے حاصل کرتا رہتا تھا ان پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نے اپنا راستہ بوڑھے استاد سے پوچھے گئے سوالوں اور اسے دیے گئے جوابوں کے ایک سیل میں ڈھونڈا۔ ایبے بلاشبہ ایسے دوستانہ، صلح جو نقطۂ نظر کا حامل تھا جو اوروں کی خودپسندی کی اعلیٰ فہم سے پیدا ہوتا ہے، اور کوسیمو اس سے فائدہ اٹھاتا تھا۔ یوں ان دونوں کے درمیان شاگرد و استاد کا رشتہ پلٹ گیا۔ اب استاد کوسیمو تھا اور شاگرد فوشیلی فلیئر۔ میرا بھائی ایسا تسلط حاصل کر رہا تھا کہ وہ کانپتے ہوے بوڑھے شخص کو اپنے پیچھے پیچھے درختوں پر لے جانے میں بھی کامیاب رہا۔ ایک بار تو اس نے اونداریوا کے باغات میں اسے اپنی پتلی لٹکتی ٹانگوں کے ساتھ ایک شاہ بلوط پر پوری سہ پہر بٹھائے رکھا، اور وہ دونوں نادر پودوں اور فواروں کے پیالوں میں منعکس ہوتی شام کی لالی پر غور کرتے ہوے، بادشاہتوں اور جمہوریتوں، مختلف مذاہب میں حق و صداقت، چینی رسومات، لزبن کے زلزلے، لیڈن کی بوتل اورحسیت پسندی کے فلسفے پر بحث کرتے رہے۔
مجھ سے توقع کی جاتی تھی کہ میں ایبے سے عبرانی کے اسباق لیتا، مگر وہ میرے ہاتھ ہی نہیں آرہا تھا۔ سارا خاندان چوکنا ہو گیا۔ دیہاتی علاقہ چھاناگیا اور مچھلی پکڑنے کے تالاب تک کھنگالے گئے، مبادا وہ کسی غیر محتاط لمحے میں اُن میں گر کے ڈوب گیا ہو۔ لیکن اس شام وہ دردِ کمر کی شکایت لیے واپس آیا، جو اتنے غیر آرام دہ طور پر گھنٹوں شاخ پر بیٹھے رہنے کا نتیجہ تھا۔
تاہم یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ بوڑھے جینسنی کی مجہول قبولیت کی یہ عمومی حالت، روحانی سختی کے لیے اس کی قدیم طلب کی لمحاتی واپسیوں سے مبادلہ کرتی رہتی تھی۔ اور اگر کسی غیرمحتاط اور مان جانے والی کیفیت کے دوران وہ قانون کے آگے تمام انسانوں کی برابری، یا توہمات کے برے اثرات، یا قدیم لوگوں کی دیانت داری جیسے نئے اور آزادہ رو خیالات کو کسی مزاحمت کے بغیر قبول کرتا تو چوتھائی گھنٹے بعد ہی کٹرپن اور مطلقیت کی افراط کا شکار ہو کر اپنی پیوستگی اور اخلاقی سخت گیری کی ساری شدت کے ساتھ ان خیالات پراعتراضات کی بوچھاڑ کر دیتا جنھیں اس نے ابھی ابھی اتنی خوش دلی سے قبول کیا تھا۔ تب اس کے لبوں پر آزاد و مساوی شہریوں کی ذمے داریاںیا فطری مذہب کی خوبیاں، کٹر جامد اصول اور متشدد عقیدے کے ارکان بن جاتیں، جس کے پرے وہ بگاڑ کی ایک سیاہ تصویر ہی دیکھ سکتا تھا۔ تب اسے تمام نئے فلسفوں میں بدی کی مذمت بہت زیادہ خوش خلق اور سطحی معلوم ہوتی، کیونکہ تکمیل کے مشقت طلب طریقے میں سمجھوتوں اور ادھورے اقدام کی گنجائش نہیں ہوتی۔
کوسیمو اپنی بے ربطی اور کٹرپن کے فقدان پر تنقید کے خوف سے ایبے کے اس اچانک معکوس سمت میں پلٹ پڑنے پر ایک لفظ بھی کہنے کی جرأت نہ کرتا اور جو فراواں دنیا وہ تخلیق کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا، جیسے سنگِ مرمر کی قبر میں دفن ہو جاتی۔ خوش قسمتی سے ایبے اپنی اس دیر سے جاری ذہنی کاوش سے جلد ہی اکتا جاتا اور یوں تھک کر بیٹھ جاتا جیسے ہر تصور کی اس کے خالص جوہر تک تراش خراش نے اسے غیرمحسوس سایوں کا شکار بننے کو چھوڑ دیاہو۔ وہ پلکیں جھپکاتا، آہ بھرتا، آہ کو جماہی میں بدلتا اور اپنے نروان میں لوٹ جاتا۔
لیکن اپنی ان ذہنی عادتوں کے درمیان اب وہ اپنے سارے دن کو کوسیمو کے جاری رکھے ہوے مطالعوں کی پیروی میں گزار رہا تھا، اور وہ ان درختوں جن پر کوسیمو کا بسیرا تھا،اوراوربیچی کتب فروش کی دکان کے درمیان ایمسٹرڈیم یا پیرس سے کتابیں منگوانے یا نئی آئی ہوئی کتابیں لینے کے لیے چکر لگاتا رہتا۔ اور یوں اس نے اپنے زوال کا راستہ خود تیار کیا، کیونکہ کلیسائی عدالت تک افواہ پہنچ گئی کہ اومبروسا کا ایک پادری وہ ساری کتابیں پڑھتا ہے جو یورپ میں سب سے زیادہ ممنوع ہیں۔ ایک سہ پہر، اس کے حجرے کے معائنے کے احکامات کے ساتھ پولیس ہمارے گھر آگئی۔ اس کے اورادووظائف کے مجموعوں میں انھیں بیلی (Bayle)کی کتابیں ملیں جن کے ورق ابھی تک نہیں کٹے تھے، لیکن اسے ساتھ لے جانے کو ان کے لیے یہ بات ہی کافی تھی۔
اُس دھندلی سہ پہر میں، وہ ایک اداس چھوٹا سا منظر تھا۔ مجھے وہ مایوسی یاد ہے جس کے جلو میں میں نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے اسے دیکھا، اور یونانی افعال کی گردانیں یاد کرنی بند کردیں کیونکہ اب مزید پڑھائی ہی نہیں ہونی تھی۔ دو مسلح بدمعاشوں کے درمیان بوڑھا ایبے فوشیلی فلیئر اپنی نظریں درختوں کی طرف اٹھاتا ہوا گلی میں چل پڑا۔ ایک خاص مقام پر وہ لڑکھڑایا جیسے ایک بوقیذار کے درخت کی طرف دوڑنا اور اس پر چڑھنا چاہتا ہو، مگر اس میں دم نہیں تھا۔ کوسیمو اُس دن جنگل میں شکار کر رہا تھا، اور اسے اس واقعے کا کچھ پتا نہ تھا، سو وہ ایک دوسرے کو الوداع بھی نہ کہہ سکے۔
ہم اس کی مدد کے لیے کچھ نہ کر سکے۔ ہمارے والد اپنے کمرے میں بند ہو گئے اور یسوعیوں کے ہاتھوں زہر دیے جانے کے ڈر سے کھانے پینے سے انکار کر دیا۔ ایبے نے اپنے باقی ماندہ دن تیاگ کے لگاتار عمل میں زنداں اور خانقاہ کے درمیان آنے جانے میں گزارے، یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ حالانکہ اس کی ساری زندگی عقیدے کے لیے وقف تھی مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ اسے کس چیز پر اعتقاد ہے۔ اس کے باوجود آخری سانس تک مستقل مزاجی سے یقین لانے کی کوشش کرتا رہا۔
بہرحال ایبے کی گرفتاری سے کوسیمو کی رفتارِ تعلیم پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ اور اسی زمانے میں یورپ کے بڑے فلسفیوں اور سائنس دانوں سے اس کی مراسلت شروع ہوئی جنھیں وہ اس امید پرخط لکھتا تھا کہ اس کے سوالات و اعتراضات کا حل پیش کریں گے، یا شاید اس کا محرک ارفع ذہنوں سے مباحثے کا اشتیاق اور غیرملکی زبانوں کی مشق کرنا تھی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے تمام کاغذات، جنھیں وہ ایسے کھوکھلے درخت کے تنے میں رکھتا تھا جس کے بارے میں صرف اس کو علم تھا، کبھی نہیں ملے۔ انھیں اب تک یقینا پھپھوندی لگ چکی ہوگی یا انھیں گلہریوں نے کتر لیا ہوگا۔ ان میں یقینا صدی کے نامور ترین عالموں کے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوے خطوط رہے ہوں گے۔
اپنی کتابیں رکھنے کے لیے کوسیمو نے ایک طرح کا معلق کتاب دان بنایا تھا جو برسات اور کترنے والے دہنوں سے، جس حد تک اس کے بس میں تھا، محفوظ تھا۔ لیکن وہ اپنے مطالعے اور اس وقت کے ذوق کے مطابق کتابوں کی جگہ متواتر تبدیل کرتا رہتا کہ وہ کتابوں کو پرندوں کی طرح سمجھتا تھا اور انھیں مقید یا ساکت دیکھ کر اداس ہو جاتا تھا۔
ان کتاب دانوں میں سب سے مضبوط کتاب دان پر دیدرو (Diderot)اور دالمبر (D'Alembert) کے انسائیکلوپیڈیا کی جلدیں ترتیب سے رکھی تھیں جو لیگ ہارن کے ایک کتب فروش سے اسے موصول ہوئی تھیں۔ اور اگرچہ حال ہی میں کتابوں کو اوڑھنا بچھونا بنانے نے اسے اپنے ہی خیالوں میں غرق اور اپنے اردگرد کی دنیا میں کم سے کم دلچسپی لینے پر مجبور کر دیا تھا، مگر اب دوسری طرف انسائیکلوپیڈیا کے مطالعے اور شہد کی مکھی، آزاد، جنگل، باغ جیسے خوبصورت الفاظ نے اسے اپنے اطراف کی ہر چیزکو، گویا وہ اسے پہلی بار دیکھ رہا ہو، نئے سرے سے دریافت کرنے پر مجبور کر دیا۔ اب جو کتابیں وہ منگواتا تھا، ان میںچھوٹی عملی کتابیں بھی شامل ہونے لگیں، مثال کے طور پر ’’درختوں کی پرورش کے بارے میں‘‘ اور وہ اپنے کو اس لمحے کا مشتاق پاتا جب اپنے نئے علم کو تجربے میں لا سکے۔
انسانی محنت نے کوسیمو کو ہمیشہ گرویدہ رکھا تھا۔ لیکن اس وقت تک کسی پرندے کی طرح درختوں میں اس کی زندگی، اس کی مستقل نقل و حرکت اور اس کی شکار بازی، اس کی نادروبے محل خواہشات کی تکمیل کو کافی رہی تھیں۔ لیکن اب اس نے اپنے پر اپنے پڑوسی کے لیے کارآمد ہونے کی ضرورت کا غلبہ محسوس کیا، اور یہ بھی — اگر آپ اس کا تجزیہ کریں — ایسی بات تھی جو اس نے ڈاکو کی دوستی سے سیکھی تھی، یعنی اپنے آپ کو کارآمد بنانے اور دوسرے لوگوں کے لیے کوئی ضروری خدمت بجالانے کی مسرت۔
اس نے درختوں کو چھانٹنے کا فن سیکھا اور سردیوں میں، جب درخت ٹہنیوں کی ناہموار بھول بھلیوں میں اٹکے، اپنے آپ کو پھول پتیوں اور پھلوں سے ڈھانپنے کے لیے زیادہ منظم شکلوں میں ڈھلنے کی خواہش کرتے ہوے لگتے، وہ پھل اگانے والوں کو اپنی مدد پیش کرتا۔ وہ چھانٹنے میں ماہر تھا اور کم اجرت لیتا تھا، سو آس پاس کے ہر میوہ زار کا مالک یا مزارع اس کی مدد کا طالب ہوتا۔ اور ان ابتدائی صبحوں کی بلوریں فضا میں، اسے نیچی برہنہ شاخوں پر ٹانگیں چوڑی کیے ہوے ایستادہ دیکھا جاسکتا تھا۔ اس کی گردن کانوں تک رومال میں لپٹی ہوتی۔ وہ اپنی قینچی بلند کرتااور اس کے یقینی رابطے کے تحت ضمنی شاخیں اور کونپلیں کلپ کلپ کی آواز کے ساتھ اڑ کر دور جا گرتیں۔ یہی کچھ وہ باغوں میں سائے یا سجاوٹ کے لیے لگے درختوں کے ساتھ کرتا جنھیں وہ ایک چھوٹے آرے سے تراشتا۔ اور جنگل میں جہاں لکڑہارے کی کلھاڑی کے بجاے، جس کا واحد استعمال کسی پرانے تنے کو مکمل طور سے کاٹنا تھا، وہ اپنے تیز تبر سے صرف پھننگیں اور بالا شاخیں تراشتا۔
درحقیقت اس شجری عنصر سے وابستگی نے، تمام سچی وابستگیوں کی طرح، اسے اس حد تک بے رحم بننے پر مجبور کر دیا کہ وہ بڑھوتری میں مدد اور شکل و شباہت دینے کے خیال سے درختوں کو آزار پہنچانے، زخمی کرنے اور تراشنے لگا۔ بلاشبہ چھانٹتے اور تراش خراش کرتے وقت وہ نہ صرف مالک کے مفادات کا خیال رکھنے کی احتیاط کرتا بلکہ سفری کی حیثیت سے اپنے راستوں کو زیادہ قابلِ عمل بنانے کی ضرورت کو بھی نظر میں رکھتا۔ اس طرح وہ اس امر کو یقینی بناتا کہ جن شاخوں کو ایک سے دوسرے درخت پر جانے کے لیے پل کی طرح استعمال کیا جانا ہے ہمیشہ محفوظ رہیں اور دوسری شاخوں کی نشوونما روک کر مزید مضبوط بنائی جائیں، اور یوں اومبروسا کے یہ درخت جواس کے لیے پہلے ہی سے بانہیں کھولے تھے، اس نے بیک وقت اپنے پڑوسی، فطرت اور خود اپنا دوست رہتے ہوے اپنی نئی حاصل کردہ مہارت سے انھیں مددگار بنا لیا۔ اپنے اس دانش مندانہ اقدام کے فوائد کو وہ سب سے زیادہ بہت بعد میں سراہنے والا تھا جب ان درختوں کی بناوٹ نے اس کی توانائی کی کمی کی زیادہ سے زیادہ تلافی کی۔ پھر زیادہ لاپروا نسلوں، ناعاقبت اندیش لالچ، اور کسی سے بھی، بلکہ اپنے آپ سے بھی، محبت نہ کرنے والے لوگوں کی آمد کے ساتھ سب کچھ بدل جانے والا تھا اور کسی اورکوسیمو کو درختوں پر نہیں چلنا تھا۔

۱۴
اگر کوسیمو کے دوستوں کی تعداد بڑھی تو اسی طرح اس کے دشمنوں میں بھی اضافہ ہوا۔ درحقیقت جیان دائی بروگی میں پیدا ہونے والے ادب سے لگاؤ کے تغیر اور آگے چل کر اس کے زوال کے بعد سے، جنگل کے سارے لفنگے کوسیمو کے خلاف ہو گئے تھے۔ ایک رات میرا بھائی جنگل میں ایک دیودار سے لٹکے اپنے چرمی تھیلے میں سو رہا تھا کہ بجو کتے کے بھونکنے سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ اسے روشنی دکھائی دی جو نیچے سے آرہی تھی۔ درخت کے عین نچلے حصے میں آگ لگی ہوئی تھی اور اس وقت تک شعلے تنے کو چاٹنے لگے تھے۔
جنگل میں آگ! یہ کس کا کام ہو سکتا ہے؟ کوسیمو کو پورا یقین تھا کہ اس رات اس نے اپنے چقماق کو چھوا تک نہیں تھا۔ سو یقینا یہ انھیں بدمعاشوں کا کام تھا! وہ سوختنی لکڑیاں حاصل کرنے کے لیے جنگل کو جلانا اور بیک وقت کوسیمو پر الزام لگانا اور اسے زندہ جلانا چاہتے تھے۔
کوسیمو نے اس خطرے کے بارے میں، جو اس سے اس قدر قریب تھا، فوراً نہیں سوچا۔ اس کی واحد سوچ یہ تھی کہ راستوں اور پناہ گاہوں کی وسیع و عریض سلطنت، جو صرف اس کی ہے، تباہ ہو جائے گی، اور یہی اس کی واحد دہشت تھی۔ بار بار مڑتا اور خوف سے بھونکتا ہوا اوتیمو ماسیمو جلنے سے بچنے کے لیے ہی بھاگ رہا تھا۔ آگ زیردرختی میں پھیل رہی تھی۔
کوسیمو نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ دیودار کے درخت پر، جو اس وقت اس کا ٹھکانا تھا، بہت ساری محتلف چیزیں لے گیا تھا اور ان میں گرمیوں کی پیاس بجھانے کے لیے جَو کے پانی سے بھری ہوئی ایک بوتل بھی تھی۔ وہ درخت کی اونچائی پر چڑھ کر بوتل تک پہنچا۔ خوف زدہ گلہریاں اور چمگادڑیں دیودار کی شاخوں پر بھاگ رہی تھیں اور پرندے اپنے آشیانوں سے اڑ کر دور جارہے تھے۔ اس نے بوتل کو دبوچا اور دیودار کے جلتے ہوے تنے پر انڈیلنے کے لیے اسے کھولنے ہی والا تھا کہ اسے احساس ہوا آگ تو پہلے ہی سے زیر درختی کی گھاس، خشک پتوں اور جھاڑیوں تک پھیل چکی ہے اور جلد ہی اردگرد کے سارے درختوں کو جلا دے گی۔ اس نے ایک خطرہ مول لینے کا فیصلہ کیا: ’’دیودار کو جلنے دو! اگر میں آس پاس کی ساری زمین کو، جہاں ابھی تک شعلے نہیں پہنچے ہیں تر کرنے میں کامیاب ہو جاؤں تو آگ کا راستہ رک جائے گا!‘‘ اور اس نے بوتل کا منھ کھولتے ہوے ایک بل کھاتی مدوّر حرکت کے ساتھ اسے آگ کے دور ترین سروں تک نیچے انڈیل دیا اور یوں زیردرختی کی آگ نم گھاس اور پتوں کے ایک دائرے میں محدود ہو کر مزید نہ بڑھ سکی۔
کوسیمو دیودار کی چوٹی سے سفیدے کے ایک نزدیکی درخت پر کود گیا۔ اس کایہ اقدام عین بروقت تھا۔ دیودار کا تنا جس کی بنیاد کو آگ چاٹ گئی تھی، گلہریوں کی رائیگاں چیخوں کے درمیان، کسی بڑی ساری چتا کی طرح زوردار دھماکے کے ساتھ زمین پر آگرا۔
کیا آگ اسی جگہ تک محدود رہے گی؟ سیکڑوں چنگاریاں اور ننھے شعلے پہلے ہی چاروں طرف اڑ رہے تھے۔ بلاشبہ گیلے پتوں کی پھسلواں رکاوٹ اس کے پھیلنے کو نہیں روک سکے گی۔ ’’آگ! آگ!‘‘ کوسیمو نے اپنی پوری آواز سے چلاّنا شروع کر دیا۔ ’’آگ!‘‘
’’کون ہے، کون چلاّ رہا ہے؟‘‘ آوازوں نے جواب دیا۔ اس مقام سے قریب کوئلہ گروں کی ایک جگہ تھی، اور برگامو کے رہنے والے لوگ، جو اس کے دوست تھے، پاس کے ایک جھونپڑے میں سو رہے تھے۔
’’آگ! آگ!‘‘
جلد ہی سارا پہاڑی علاقہ اس آواز سے گونج رہا تھا۔ جنگل میں بکھرے ہوے کوئلہ گروں نے اپنی ناقابلِ فہم بولی میں چلاّ چلاّ کرایک دوسرے کو خبردار کیا۔ وہ ہر سمت سے دوڑتے ہوے آئے اور آگ پر قابو پا لیا گیا۔
آتش زنی کی اس پہلی کوشش اور اپنی زندگی پر حملے سے کوسیمو کو جنگل سے دور رہنے کی تنبیہ حاصل کرنی چاہیے تھی۔ لیکن اس کے بجاے اس نے آگ پر قابو پانے کے سارے معاملے کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ وہ ایک گرم و خشک سال کی گرمیاں تھیں۔ پرووانس کی جانب ساحلی جنگلوں میں ہفتے بھر سے بہت بڑی آگ لگی ہوئی تھی۔ رات میں اس کی چمک غروبِ آفتاب کے آخر کی طرح پہاڑی علاقے پر منعکس ہوتی۔ ہوا خشک تھی، اور درخت اور جھاڑیاں خشک سالی میں سوختہ لکڑی کی طرح تھیں۔ ہوا شعلوں کو ہماری جانب اکساتی ہوئی لگتی تھی، جہاں کبھی کبھار آگ اتفاقاً یا قصداً بھڑک اٹھتی اور شعلے کی ایک واحد پٹی میں باقی آگ سے مل کر سارے ساحل کے ساتھ ساتھ پھیل جاتی۔ اومبروسا خطرے سے حواس باختہ تھا جیسے وہ تنکوں کی چھت والا ایسا قلعہ ہو جس پر دشمن کے آتش زنوں نے حملہ کر دیا ہو۔ آسمان خود آگ سے بھرا تھا۔ ہر رات ٹوٹتے ستارے تمام افلاک پر اڑتے پھرتے اور ہم عین اپنے اوپر ان کے گرنے کا انتظار کرتے۔
عمومی مایوسی کے ان دنوں میں کوسیمو نے بہت سارے پیپے خریدے اور انھیں پانی سے بھر کر اہم جگہوں پر بلندترین درختوں کی چوٹیوں پر چڑھا دیا۔ ’’کوئی نہیں کہہ سکتا، مگر یہ طریقہ ایک بار کارآمد رہا ہے۔‘‘ اس پر اکتفا نہ کرتے ہوے اس نے جنگلوں کو قطع کرتے نیم خشک چشموں کے راستوں کا مطالعہ کیا تواسے معلوم ہوا کہ ان کے منبعوں سے پانی کی صرف پتلی سی دھار آرہی ہے۔ پھر وہ کوالیئے سے مشورہ کرنے گیا۔
’’ارے، ہاں!‘‘ اینیا سلویوکاریگا نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوے اعلان کیا۔ ’’تالاب! پشتے! ہمیں منصوبہ بندی کرنی چاہیے!‘‘ اپنے ذہن میں بے شمار خیالات کا ہجوم لیے وہ جوش و خروش سے اچھلتے ہوے چلاّنے لگا۔ اوپر بیٹھے ہوے کوسیمو نے اسے تخمینوں اور نقشوں کے کام پر لگا دیا اور اس دوران اس نے نجی جنگلوں کے مالکوں، سرکاری جنگلوں کے کرایہ داروں اور کوئلہ گروں سے رابطہ کیا۔ کوالیئے کی سربراہی اور اوپر بیٹھے ہوے کوسیمو کی نگرانی میں (حالانکہ وہ کوالیئے کی بات سمجھنے سے قاصر تھے اور وہ انھیں ہدایات دینے اور ساتھ ہی اپنے خیالات کو مجتمع رکھنے پر مجبور تھا)، ان سب نے مل کر اس انداز میں پانی کے ذخیرے اکٹھے کیے کہ آگ لگنے کی صورت میںوہ کسی بھی جگہ پمپ پہنچا سکتے تھے۔
لیکن یہ کافی نہیں تھا۔ آگ بجھانے کے لیے آدمیوں کی جماعتیں تشکیل دینی پڑیں؛ ایسے گروہ بنانے پڑے جو خطرے کی صورت میں فوراً منظم ہو سکیں اور ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ تک پانی کی بالٹیاں دینے کے لیے ایک زنجیر بن جائیں اور آگ کو پھیلنے سے پیشتر روک دیں۔ یوں ایک طرح کی ملیشیا وجود میں آگئی جو پہرے اور شبینہ معائنے کے لیے باریاں مقرر کرتی تھی۔ کوسیمو نے اومبروسا کے کسانوں اور دستکاروں میں سے آدمی بھرتی کیے، اور فوراً ہی، جیساکہ ہر جماعت میں ہوتا ہے، ان میں ایک اجتماعی جذبے نے جنم لیا، اور گروہوں کے درمیان احساسِ مسابقت پیدا ہو گیا۔ ہر ایک اپنے کو بڑے کاموں کا اہل محسوس کرنے لگا۔ خود کوسیمو نے ایک نئی توانائی اور اطمینان محسوس کیا۔ اس نے لوگوں کو اکٹھا کرنے اور ان کا سربراہ بننے کی اپنی صلاحیت دریافت کرلی تھی۔ یہ ایسا رجحان تھا جس کا، خوش قسمتی سے، اسے کبھی غلط استعمال نہیں کرنا پڑا اور جسے اس نے زندگی میں دوچار بار ہی، اور ہمیشہ انتہائی کامیابی کے ساتھ، استعمال کیا، اور وہ بھی اس وقت جب اہم نتائج پر عمل درآمد مقصود تھا۔
وہ یہ بات سمجھتا تھا کہ شرکت انسانوں کو طاقتور بناتی ہے، ہر ایک کی بہترین صلاحیتوں کوبروے کار لا کر ایسی مسرت عطا کرتی ہے جو اپنے آپ میں رہنے والوں کو شاذ ہی میسر آتی ہے، اوراس احساس سے روشناس کراتی ہے کہ دنیا میں کتنے ہی ایماندار، نفیس اور باصلاحیت لوگ ہیں جن کے لیے آپ سب کچھ کر سکتے ہیں (جبکہ محض اپنے لیے جینے میں اکثر بالکل اُلٹ پیش آتا ہے؛ آپ صرف لوگوں کا دوسرا رخ ہی دیکھتے ہیں، وہ رخ جو آپ کو ہمیشہ اپنی تلوار کے دستے پر ہاتھ رکھے رہنے پر مجبور کرتا ہے۔)
سو، گرمیوں کا وہ موسم آگ لگنے کا موسم تھا۔ ایک مشترکہ مسئلہ تھا جسے ہر کوئی تہہِ دل سے حل کرنا چاہتا تھا اور اسے اپنے دیگر مفاد سے بالاتر رکھے ہوے تھا؛ ہر ایک اپنے آپ کو اوروں سے ہم آہنگ اور باہمی احترام میں منسلک پانے کی مسرت سے سرشار تھا۔
بعدازاں کوسیمو کو یہ احساس ہوا کہ جب مشترکہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے تو جماعتیں اتنی کارآمد نہیں رہتیں جتنی کہ شروع میں ہوتی ہیں۔ اُس وقت تنہا ہونا بہتر ہوتا ہے، سربراہ ہونا نہیں۔ لیکن اس دوران وہ سربراہ ہونے کی حیثیت سے، ایک درخت پر سے نگرانی کرتے ہوے جنگل میں یکہ و تنہا راتیں گزار رہا تھا، جس طرح ہمیشہ گزارتا آیا تھا۔
اس نے ایک درخت کی چوٹی پر ایک گھنٹی لٹکائی جس کی آواز دور سے سنی جاسکتی تھی اور ابتدائی آگ کی پہلی چمک پر ہی ہوشیار کر دیتی تھی۔ اس نظام کی بدولت وہ تین چار بار آگ بھڑکتے ہی عین وقت پر اسے بجھانے اور جنگل کو بچانے میں کامیاب رہے۔ ہر آگ آتش زنی کی کوشش تھی اور مجرم وہی دو ڈاکو، اگاسو اور بیل لورے، تھے جو پنچایت کی حدود سے بے دخل تھے۔ اگست کے آخر میں بارش آگئی۔ آگ کا خطرہ ٹل چکا تھا۔
ان دنوں اومبروسا میں میرے بھائی کے لیے صرف کلماتِ خیر ہی سنائی دیتے تھے۔ یہ مہربان آوازیں ہمارے گھر بھی پہنچتیں۔ ’’کتنا اچھا ہے وہ!‘‘ ’’کچھ باتوں کے بارے میں تو وہ یقینا جانتا ہے!‘‘ لوگوں کا لہجہ ایسا ہوتا جیسے وہ کسی مختلف مذہب یا دیگر سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے کو معروضی انداز سے پرکھنا چاہتے ہوں اور اپنے کو اتنا فراخ دل دکھانا چاہتے ہوں کہ وہ ان خیالات کی بھی قدر کر سکتے ہیں جو ان کے اپنے خیالات سے بعید ہیں۔
اس خبر پر جنرلیسا کا ردِعمل درشت اور سرسری تھا۔ ’’کیا وہ مسلح ہیں؟‘‘ لوگ جب آگ بجھانے کے لیے کوسیمو کے بنائے ہوے نگراں دستوں کی بات کرتے تو وہ پوچھتیں۔‘‘ کیا وہ جنگی مشقیں کرتے ہیں؟‘‘ کیونکہ وہ ایسی مسلح ملیشیا تشکیل دینے کے بارے میں سوچ رہی تھیں جو بہ صورتِ جنگ فوجی کارروائیوں میں حصہ لے سکے۔
دوسری طرف ہمارے والد، سر ہلاتے ہوے، خاموشی کے ساتھ سنا کرتے، اور یہ سمجھنا مشکل تھا کہ اپنے بیٹے کے بارے میں یہ ساری خبریں ان کے لیے تکلیف دہ تھیں یا انھیں بور کرتی تھیں، یا کسی طور انھیں خوش کرتی تھیں، گویا کہ ان کی ایک خواہش اس سے دوبارہ امید لگانے کا ایک موقع ہو۔ صحیح توجیہہ یقینا آخری بات رہی ہوگی کیونکہ چند دن بعد وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر اسے ڈھونڈنے نکل پڑے۔
جہاں وہ دونوںملے، وہ ایک کھلی جگہ تھی جس کے گرد پودوں کی ایک قطار تھی۔ بیرن اپنے بیٹے پر نظر کیے بغیر، حالانکہ وہ اسے دیکھ چکے تھے، دو تین بار قطار کے ساتھ ساتھ گھوڑے کو آگے پیچھے چلاتے رہے۔ لڑکا آخری درخت سے جست در جست نیچے کی طرف آیا یہاں تک کہ وہ قریب سے قریب تر ہو گیا۔ باپ کے مقابل آکر اس نے اپنا تنکوں والا ہیٹ اتارا (جسے وہ گرمیوں میں جنگلی بلی کے سمور والی ٹوپی کی جگہ پہنتا تھا) اور کہا، ’’روز بخیر، میرے محترم والد۔‘‘
’’روز بخیر، بیٹے۔‘‘
’’آپ خیریت سے ہیں؟‘‘
’’ہاں،اپنی عمراور دُکھوں کو دیکھتے ہوے۔‘‘
’’آپ کو صحت مند دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی۔‘‘
’’میں بھی تم سے یہی کہنا چاہتا ہوں، کوسیمو۔ میں نے سنا ہے کہ تم مشترکہ بھلائی کے کاموں میں مصروف ہو۔‘‘
’’یہ جنگل جس میں میں رہتا ہوں مجھے عزیز ہے، محترم والد۔‘‘
’’کیا تم جانتے ہو کہ اس جنگل کا ایک حصہ ہماری ملکیت ہے، جو تمھاری بے چاری دادی مرحومہ لیڈی ایلزبتھ سے ورثے میں آیا ہے؟‘‘
’’جی، محترم والد، بیلریو کے علاقے میں تیس شاہ بلوط، بائیس دیودار، آٹھ صنوبر اور ایک میپل کا درخت ہے۔ میرے پاس سرویئر کے تمام نقشوں کی نقول ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جنگل کی ملکیت رکھنے والے خاندان کے ایک فرد کی حیثیت سے میں نے ان سب لوگوں کوجنگل کی حفاظت کرنے کے مشترکہ مفاد کے ساتھ اکٹھا کرنے کی کوشش کی۔‘‘
’’اوہ، ہاں،‘‘ بیرن نے یہ موافق جواب پا کر کہا۔ ’’لیکن...‘‘ انھوں نے اضافہ کیا، ’’مجھے بتایا گیا ہے کہ یہ نانبائیوں، مالیوں اور لوہاروں کی تنظیم ہے۔‘‘
’’وہ بھی ہیں، محترم والد۔ ایسے سارے ایماندارانہ پیشوں والے لوگ۔‘‘
’’کیا تمھیں احساس ہے کہ تم ڈیوک کے خطاب کے ساتھ عالی نسب منصب داروں کی سربراہی کر سکتے تھے؟‘‘
’’میں سمجھتا ہوں کہ جب مجھے دوسروں سے زیادہ خیالات سوجھتے ہیں تو میں اپنے خیالات ان دوسروں کودے دیتا ہوں، اگروہ قبول کرنا چاہیں۔ اور یہی میرے نزدیک سربراہی ہے۔‘‘
’’اور آج کل سربراہی کرنے کے لیے درختوں پر رہنے کی ضرورت پڑتی ہے؟‘‘ بیرن کی زبان پر یہ بات آتے آتے رہ گئی۔ مگر اس بات کو دوبارہ چھیڑنے سے کیا حاصل تھا! اپنے خیالوں میں محو، انھوں نے آہ بھری، پھر اپنی پیٹی جس پر ان کی تلوارلٹک رہی تھی، ڈھیلی کی۔ ’’تم اب اٹھارہ سال کے ہو۔۔۔ وقت آ گیا ہے کہ تم اپنے آپ کو بالغ سمجھو۔۔۔ اب میرے پاس جینے کے لیے زیادہ وقت نہیں ہے۔۔۔‘‘ اور انھوں نے اپنے دونوں ہاتھوں پر چپٹی دھری ہوئی تلوار آگے بڑھائی۔ ’’کیا تمھیں یاد ہے کہ تم بیرن دی روندو ہو؟‘‘
’’جی، محترم والد، مجھے اپنا نام یاد ہے۔‘‘
’’کیا تم اپنے نام اور اس خطاب کے شایاں ہونے کی خواہش رکھتے ہو؟‘‘
’’میں کوشش کروں گا کہ انسان کے نام اور اس کے ہر وصف کا جتنا بھی میرے بس میں ہے شایاں ہو سکوں۔‘‘
’’یہ تلوار سنبھالو — میری تلوار۔‘‘ بیرن نے خود کو رکابوں میں اٹھایا۔ کوسیمو شاخ سے نیچے کو جھکا اور بیرن نے پیٹی اس کی کمر کے گرد باندھ دی۔
’’شکریہ، محترم والد۔۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس سے صحیح کام لوں گا۔‘‘
’’الوداع، میرے بیٹے۔‘‘ بیرن نے اپنے گھوڑے کو موڑا، لگام کو ذرا سا کھینچا اور آہستہ آہستہ روانہ ہو گئے۔
کوسیمو یہ جاننے کی خواہش میں لمحہ بھر وہیں کھڑا رہا کہ آیا اسے باپ کو تلوار سے سلامی نہیں دینی چاہیے تھی؟ پھر اس نے غور کیا کہ باپ نے تلوار ذریعہ ٔ تحفظ کے طور پر دی تھی، آلۂ تقریب کے طور پر نہیں۔ سو اس نے تلوار کو نیام ہی میں رہنے دیا۔

۱۵
انھیں دنوں، جب کوسیمو نے کوالیئے سے زیادہ ملنا جلنا شروع کیا، تو اس کے رویے میں ایک عجیب بات محسوس کی، یا یہ کہیے کہ معمول سے ہٹی ہوئی بات دیکھی، اب وہ زیادہ عجیب ہو یا کم عجیب۔ ایسا تھا جیسے اس کا کھوئے رہنے کا انداز اب بھٹکتے ہوے ذہن سے نہیں بلکہ ایک مسلسل اور حاوی سوچ سے ابھرتا ہو۔ اب اس پر اکثر باتیں کرنے کے دورے پڑتے اور حالانکہ اس سے قبل، غیرملنسار ہونے کی وجہ سے، وہ کبھی شہر میں نہیں آتا تھا، لیکن اب لوگوں میں گھلا ملا، پیادہ رووں پر بوڑھے ملاحوں اور کشتی رانوں کے ساتھ بیٹھا، جہازوں کی آمدورفت اور قزاقوں کی بدعملیوں پر تبصرہ کرتا ہوا وہ ہر وقت بندرگاہ میں موجود رہتا۔
ہمارے ساحلوں سے پرے بربری قزاقوں کے جہاز ابھی تک گشت کرتے تھے اور ہمارے جہازوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے تھے۔ اب صرف معمولی قزاقی رہ گئی تھی، ویسی نہیں جب قزاقوں کے حملے کا مطلب تیونس یا الجزائر میں غلامی کی زندگی گزارنا، یا ناک کان سے ہاتھ دھونا ہوا کرتاتھا۔ اب اگر مسلمان اومبروسا کی کسی مستولی کشتی کو آلیتے تو صرف اس پر لدا ہوا سامان ہی لوٹتے، جو ولندیزی پنیر کے لٹھوں، روئی کی گانٹھوں اور ایسی ہی چیزوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ بعض اوقات ہمارے لوگ تیز ثابت ہوتے اور جہاز کے بادبان پر گراب کا گولہ داغتے ہوے بچ نکلتے۔ بربری ملاح جواب میں تھوکتے، فحش اشارے کرتے اور چلّا چلّا کر گالیاں بکتے۔
درحقیقت، یہ تقریباً دوستانہ قسم کی قزاقی تھی اور اس لیے جاری تھی کہ ان ملکوں کے پاشا ہمارے تاجروں اور جہازوں کے مالکوں سے کچھ مطالبے رکھتے تھے اور انھیں پورا کرنے کی تاکید کرتے تھے کیونکہ، ان کے بقول کسی نہ کسی کاروباری معاملے میں ان کے ساتھ درست معاملہ نہیں ہوا تھا، یا انھیں دھوکا دیا گیا تھا۔ اور یوں وہ ڈکیتی کے ذریعے بتدریج اپنا حساب برابر کرنے کی کوشش کرتے جبکہ اس کے ساتھ ہی تجارتی لین دین بھی، مستقل توتکار اور مول تول کرتے ہوے، جاری رکھتے۔ اس طرح تعلقات کو حتمی طور پرمنقطع کرناطرفین میں سے کسی کے حق میں نہیں تھا،اورجان و مال کے خطرات کے باوجود،لیکن کسی المیے کی شکل اختیار کیے بغیر، اس علاقے میں جہاز رانی جاری رہی۔
میں جو کہانی سنانے والا ہوں،اسے کوسیمو نے کئی مختلف صورتوں میں بیان کیا تھا؛ میں کہانی کی وہ صورت بیان کر رہا ہوں جو سب سے زیادہ مفصل اور سب سے زیادہ منطقی ہے۔ میرا بھائی جب اپنے کارنامے بیان کرتا تو یقینا بہت سی اختراعی باتیں بھی شامل کردیتا تھا، لیکن میں ہمیشہ یہی کوشش کرتا ہوں کہ اس نے جو کچھ بتایا تھا اس کی حقیقی روداد پیش کروں، کیونکہ واحد ذریعہ بہرحال وہی ہے۔

خیر، ایک رات کوسیمو نے، جسے آگ کی نگرانی کے دنوں سے کسی بھی وقت جاگ جانے کی عادت پڑ گئی تھی، وادی میں آتی ہوئی ایک روشنی دیکھی۔ اس نے شاخوں پر سے اپنی بلی جیسی چال کے ساتھ خاموشی سے اس کا تعاقب کیا اور اینیاسلویو کاریگا کو دیکھا جو ترکی ٹوپی اور عبا میں ملبوس، ہاتھ میں لالٹین لیے، دبے پائوں چلا جارہا تھا۔
کوالیئے، جو عام عام طور پر مرغیوں کے ساتھ ہی سرِ شام سوجاتا تھا، اتنی رات گئے کیا کر رہا تھا؟ کوسیمو کچھ فاصلے سے تعاقب کرتا رہا۔ یہ جانتے ہوے بھی کہ اس استغراق میں چلتے ہوے اس کا چچا قریب قریب بہرا ہے اور اپنی ناک سے آگے فقط چند انچ ہی دیکھ سکتا ہے، کوسیمو نے احتیاط برتی کہ شور نہ ہو۔
خچر پگڈنڈیوں اور کوتاہ راستوں پر چلتا ہوا کوالیئے سمندر کے کنارے پتھریلے ساحل کے ایک ٹکڑے پر پہنچا، اور اپنی لالٹین ہلانے لگا۔ چاند نہیں نکلا تھا اور سمندر پر قریبی لہروں کے متحرک جھاگ کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ کوسیمو ساحل سے ذرا دور ایک صنوبر پر تھا کیونکہ اس سطح پر نباتات مفقود تھیں اور شاخوں پر آگے بڑھنا اتنا آسان نہیں تھا۔ بہرحال وہ ویران ساحل پر کھڑے اونچی ترکی ٹوپی والے بوڑھے آدمی کو تاریک سمندر کی طرف لالٹین ہلاتے ہوے بالکل واضح طور پر دیکھ سکتا تھا۔ اور پھر اچانک اس تاریکی سے ایک اور لالٹین نے جواب دیا جو اتنی نزدیک تھی گویا اسی لمحے جلائی گئی ہو، اور گہرے رنگ کے چورس بادبان اور چپوئوں والی ایک چھوٹی کشتی، جو ہمارے علاقے کی کشتیوں سے مختلف تھی، بہت تیزی سے حرکت کرتی ہوئی ساحل کی طرف آتی دکھائی دی۔
لالٹین کی ٹمٹماتی روشنی میں کوسیمو نے پگڑیوں والے آدمی دیکھے؛ ان میں سے کچھ کشتی پر ہی رہے اور چپوئوں کی مدد سے اسے ساحل پر روکے رہے؛ کچھ نیچے اتر آئے۔ وہ چوڑی اور پھولی ہوئی سرخ پتلونیں پہنے تھے اور ان کی کمر سے چمکتی ہوئی شمشیریں بندھی تھیں۔ کوسیمو ہمہ تن گوش و چشم تھا۔ اس کا چچا اور بَربَر ایک ایسی زبان میں باتیں کر رہے تھے جو اس کے لیے قابلِ فہم نہیں تھی لیکن وہ محسوس کرتا تھا کہ وہ اسے تقریباً سمجھ سکتا ہے، اور یقینا یہی مشہور لنگوا فرانکا ہوگی۔ کبھی کبھی ہماری زبان کے دو ایک لفظ کوسیمو کے پلّے پڑتے جنھیں دوسرے ناقابلِ فہم الفاظ سے ملاتے ہوے اینیاسلویوتاکیداً ادا کرتا۔ اطالوی زبان کے الفاظ جہازوں کے نام تھے جو اومبروسا کے جہاز مالکان کے جانے پہچانے یک مستولی اور دو مستولی جہاز تھے اور ہماری اور دوسری قریبی بندرگاہوں کے درمیان آتے جاتے تھے۔
کوالیئے کیا کہہ رہا ہوگا، یہ سمجھنے کے لیے زیادہ عقل کی ضرورت نہیں تھی! وہ اومبروسا کے جہازوں کی آمدورفت کے اوقات، ان پر لدے سامانِ تجارت، ان کے راستوں اور ان پر موجود ہتھیاروں کے بارے میں قزاقوں کو اطلاع دے رہا تھا۔ اور اب وہ بوڑھا آدمی یقینا انھیں وہ سب کچھ بتا چکا ہوگا جو اس کے علم میں تھا، کیونکہ وہ مڑا اور تیزی سے واپس چل پڑا، اور قزاق اپنی کشتی میں سوار ہوکر تاریک سمندر میں غائب ہوگئے۔ جس رفتار سے وہ باتیں کر رہے تھے، اس نے محسوس کیا کہ وہ اب سے پیشتر بھی اکثر ایسا کرتے ہوںگے۔ کون جانے کہ ان بربروں کے حملے ہمارے چچا کی فراہم کردہ اطلاعات کے باعث کتنے عرصے سے جاری تھے!
کوسیمو میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہاں سے، اس ویران ساحل سے، خود کو ہٹا پاتا۔ سو وہ صنوبر پر بیٹھا رہا۔ درخت اپنے سارے جوڑوں میں کراہ رہا تھا اور کوسیمو کے دانت بج رہے تھے، سرد ہوا سے نہیں بلکہ اپنی افسوس ناک دریافت کی برودت سے۔
اس طرح وہ ڈرپوک اور پُراسرار مردِ ضعیف جسے اپنے بچپن سے ہم نے ہمیشہ دروغ گو سمجھا تھا اور جسے کوسیمو نے اپنے خیال میں بتدریج سراہنا اور سمجھنا سیکھ لیا تھا، اب ایک گھٹیا، غدار اور ناشکرگذار بدنصیب کی حیثیت سے سامنے آیا، جو خود اپنے ملک کو، جس نے اسے اس وقت سہارا دیا جب وہ اپنی خطاؤں بھری زندگی کے بعد محض ایک دریا بردکی جانے والی لکڑی کی مثال تھا، نقصان پہنچانے پر آمادہ تھا۔ کیا وہ ان ملکوں اور لوگوں کی یاد میں، جہاں اس نے اپنے آپ کو اپنی ساری زندگی میں ایک بار یقینا خوش پایا ہوگا، اس حد تک پہنچ گیا تھا؟ یا وہ اس کے گھرانے کے خلاف کوئی گہرا کینہ پال رہا تھا، جہاں اس کاکھایا ہوا ہر لقمہ یقینا ذلت کا لقمہ رہا ہوگا؟ کوسیمو دو خیالوں میں منقسم تھا۔ ایک جذبہ یہ تھا کہ تیزی سے واپس جاکر جاسوس ہونے کے ناتے اس کی مذمت کرے اور یوں ہمارے تاجروں کا سامانِ تجارت بچائے، اور دوسری سوچ اس کرب کے بارے میں تھی جو اس لگائو کی وجہ سے ہمارے والد کا مقسوم تھا جس نے اتنے ناقابلِ توجیہہ طور سے انھیں اپنے سوتیلے بھائی سے وابستہ کر رکھا تھا۔ کوسیمو ابھی سے اس منظر کا تصور کرسکتا تھا۔ لعن طعن کرتے ہوے اومبروسائیوں کی دو رویہ قطاروں کے درمیان، پولیس کے گھیرے میں ہتھکڑیاں پہنے کوالیئے کو چوک میں لے جایا جانا، اس کی گردن میں پھندا پڑنا، پھانسی چڑھایا جانا۔۔۔ جیان دائی بروگی کی لاش پر پہرہ دینے کی رات کے بعد کوسیمو نے قسم کھائی تھی کہ وہ کسی سزاے موت کو نہیں دیکھے گا؛ لیکن اب اسے اس بات کا فیصلہ کرنا تھا کہ آیا وہ اپنے ہی ایک عزیز کو سزاے موت سنائے۔
یہ خیال اسے ساری رات اور اگلے سارے دن اذیت دیتا رہا۔ اور وہ غیرمختتم طور پر ایک شاخ سے دوسری شاخ کی جانب پھسلتا، اپنے بازوئوں کی مدد سے اپنے کو بچاتا، چھال پر سرکتا ہوا، جیساکہ وہ کسی گہری سوچ میں مبتلا ہونے کی صورت میں ہمیشہ کرتا تھا، متحرک رہا۔ آخرکار اس نے اپنا فیصلہ کرلیا، جو ایک سمجھوتا تھا۔ وہ قزاقوں اور اپنے چچا کو خوفزدہ کرکے ان کا مجرمانہ کاروبار، قانون کی مداخلت کے بغیر، ختم کروا دے گا۔ وہ رات کو تین چار بھری ہوئی بندوقوں کے ساتھ (اس وقت تک اپنی مختلف شکاری ضروریات کے لیے اس نے پورا اسلحہ خانہ جمع کرلیا تھا) اسی صنوبر کے درخت پر بیٹھے گا۔ جب کوالیئے قزاقوں سے ملے گا تو وہ یکے بعد دیگرے بندوقیں چلا کر گولیاں ان کے سروں کے اوپر سے گزارے گا۔ گولیوں کی آواز سن کر قزاق اور چچا اپنی اپنی راہِ فرار اختیار کرلیںگے، اور کوالیئے، جو یقینا بہادر نہیں تھا، پہچان لیے جانے کے امکان اور ساحل پر اپنی ملاقاتوں کی نگرانی کیے جانے کے تیقن پر، بربر ملاحوں سے اپنے تعلقات یقینی طور پر توڑ لے گا۔
اس طرح، کوسیمو نے بھری ہوئی بندوقوں کے ساتھ صنوبر کے درخت پر دو راتوں تک انتظار کیا۔ لیکن کچھ نہیں ہوا۔ تیسری شب ترکی ٹوپی والا بوڑھا شخص اپنی لالٹین ہلاتا، ساحل کے سنگ ریزوں پر تیزتیز چلتا ہوا آیا، اور ایک کشتی پھر قریب آئی جس میں پگڑیوں والے ملاح سوار تھے۔
بندوق کی لبلبی پر کوسیمو کی انگلی تیار تھی مگر اس نے گولی نہیں چلائی، کہ اس بار ہر بات مختلف تھی۔ آپس میں مختصر بات چیت کے بعد وہ قزاق ساحل پر اترے۔ انھوں نے کشتی کی طرف اشارہ کیا اور دوسروں نے سامان، جو پیپوں، گانٹھوں، بوروں، بڑے بڑے مرتبانوں اور پنیر کے ڈبوں پر مشتمل تھا، اتارنا شروع کردیا۔ وہاں صرف ایک کشتی نہیں تھی بلکہ کئی تھیں، اور سب کی سب وزنی سامان سے بھری ہوئی۔ پگڑیوں والے قلیوں کی ایک قطار ساحل کے ساتھ ساتھ گھومتے ہوے راستے پر چلنے لگی۔ آگے آگے ہمارا چچا تھا جو اپنے متذبذب قدموں سے چٹانوں کے درمیان ایک غار کی جانب انھیں لے جارہا تھا۔ بربروں نے وہ تمام سامان جو یقینا ان کی تازہ ترین قزاقیوں کا ثمر تھا، وہاں رکھ دیا۔
وہ یہ سامان ساحل پر کیوں لا رہے تھے؟ بعد میں صورتِ حال پر غور کر کے اسے سمجھنا آسان تھا۔ چونکہ بربری جہاز کے لیے کسی جائز کاروبار کے سلسلے میں، جو ان کے اور ہمارے درمیان ان کی ساری قزاقیوں کے باوجود ہمیشہ جاری رہتا تھا، ہماری بندرگاہ پر لنگرانداز ہونا اور ہمارے محکمۂ محصولات کو تلاشی دینا لازم تھا، لہٰذا انھیں اپنا چرایا ہوا سامان کسی محفوظ جگہ پر چھپانا تھا، تاکہ واپس جاتے وقت اسے دوبارہ لے لیں۔ اس طرح جہاز کا عملہ یہ ثابت کرسکتا کہ گہرے سمندر میں تازہ ترین ڈکیتیوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے اور اومبروسا کے ساتھ اپنے معمول کے تجارتی تعلقات کو بھی مضبوط بناتا۔
یہ ساری باتیں بعد میں واضح ہوئیں۔ اُس وقت کوسیمو نے اپنے آپ سے سوالات کرنا ختم نہیں کیے۔ غار میں قزاقوں کا خزانہ چھپا تھا۔ قزاق دوبارہ کشتی میں سوار ہو رہے تھے اور خزانہ وہیں چھوڑے جا رہے تھے۔ جتنی جلد ممکن ہو، خزانہ یہاں سے منتقل ہونا چاہیے۔ میرے بھائی کے ذہن میں پہلے تو یہ خیال آیا کہ اومبروسا کے تاجروں کو جا کے جگائے جو غالباً اس مال کے جائز مالکان تھے۔ لیکن پھر اسے اپنے کوئلہ گر دوست یاد آئے جو اپنے خاندانوں کے ساتھ جنگل میں فاقہ کشی کر رہے تھے۔ اس نے لمحہ بھر دیر نہیں کی اور تیزی سے سیدھا اس جانب روانہ ہوگیا جہاں پٹی ہوئی زمین کے خاکستری ٹکڑوں کے گرد برگامو والے اپنے ٹوٹے پھوٹے جھونپڑوں میں خوابیدہ تھے۔
’’جلدی کرو! سب لوگ آجائو! میں نے قزاقوں کا خزانہ ڈھونڈ لیا ہے!‘‘
خیموں کے نیچے اور جھونپڑوں کی شاخوں سے پھونکیں مارنے، گھسٹنے اور لعن طعن کی آوازیں اور آخرکار حیرت کی ہانک پکار اور سوال آنے لگے۔ ’’سونا؟ چاندی؟‘‘
’’میں نے ٹھیک سے دیکھا نہیں ہے۔۔۔‘‘ کوسیمو نے کہا، ’’بُو سے تو میں کہوں گا کہ وہاں بہت ساری صاف کی ہوئی مچھلی اور بکری کا پنیر ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی جنگل کے سارے لوگ اٹھ کھڑے ہوے۔ جن کے پاس بندوقیں تھیں، انھوں نے بندوقیں اٹھا لیں، دوسروں نے کلھاڑیاں، سیخیں، پھائوڑے یا بلیاں سنبھال لیں، لیکن ان سب نے سامان رکھنے کے لیے کوئی نہ کوئی برتن ضرور ساتھ لیا، یہاں تک کہ کوئلہ ڈھونے کی ٹوٹی ہوئی تغاریاں اور کالی پڑی ہوئی بوریاں بھی نہ چھوڑیں۔ ایک طویل جلوس چل پڑا۔ ’’ہوراہوتا!‘‘ عورتیں تک، اپنے سروں پر خالی ٹوکریاں دھرے نکل پڑیں۔ لڑکوں نے، جو سب کے سب بوریوں کے سر پوش اوڑھے تھے، مشعلیں سنبھال رکھی تھیں۔ خشکی کے دیودار سے زیتون تک اور زیتون سے سمندر کے دیودار تک، کوسیمو آگے آگے تھا۔
وہ چٹان کے دوسری سمت جس کے پرے غار کا منھ تھا، پہنچاہی چاہتے تھے کہ ایک بل کھائے ہوے انجیر کی چوٹی پر ایک قزاق کا سفید سایہ نمودار ہوا جو اپنی شمشیر بلند کرتے ہوے اپنے ساتھیوں کو خبردار کرنے لگا۔ چند جستوں کے بعد کوسیمو اس کے اوپر واقع ایک شاخ پر تھا۔ اس نے اپنی تلوار قزاق کی پشت پر رکھ دی یہاں تک کہ وہ چٹان کے پار کود گیا۔
غار میں قزاق سرداروں کا اجلاس جاری تھا۔ (سامان اتارنے کی اس ساری ہماہمی میں کوسیمو نے غور نہیں کیا تھا کہ قزاق غار میں ٹھہر گئے تھے۔) سنتری کی پکار سن کر وہ باہر آئے تو اپنے آپ کو کوئلے سے سیاہ مردوں اور عورتوں کے ایک ہجوم میں گھرا ہوا پایا جو اپنے سروں پر بوریاں ڈالے ہوے تھے اور بَلّیوں سے مسلح تھے۔ اپنی شمشیریں عریاں کرتے ہوے بربروں نے گھیرا توڑنے کے لیے ہلّہ بول دیا، ’’ہورا ہوتا!‘‘ ’’انشاء اللہ!‘‘ لڑائی شروع ہوگئی۔
تعداد کے لحاظ سے کوئلہ گر برتر تھے، لیکن قزاق بہتر طور سے مسلح تھے۔ پھر بھی یہ بات سب جانتے ہیں کہ شمشیروں کا مقابلہ کرنے کے لیے بلیوں سے بہتر کوئی چیز نہیں۔ کلِنگ! کلِنگ! اور شمشیروں کے دمشقی پھل، جن کی دھاریں کند ہوچکی تھیں، پیچھے ہٹ گئے۔ دوسری طرف ان کی بندوقیں گرجتی اور دھواں چھوڑتی رہیں مگر بے سود۔ کچھ قزاقوں کے پاس، جو ظاہر ہے افسر تھے، مکمل طور پر منقش خوبصورت بندوقیں تھیں مگر غار میں نم ہوجانے کی وجہ سے شتابی سے چنگاری نہیں نکل رہی تھی۔ اب کچھ کوئلہ گروں نے قزاق افسروں سے بندوقیں لینے کے لیے ان کے سر پر بلیاں مار کے انھیں بے ہوش کرنے کی ٹھانی۔ لیکن پگڑیوں کی وجہ سے بربروں کے سروں پر ہر وار بے اثررہا، گویا ان کے سروں پر پگڑیاں نہیں، گدیاں بندھی ہوں۔ ان کے پیٹ میں لات مارنا بہتر تھا کیونکہ ان کے سینے اور کمر کی درمیان کی جگہ عریاں تھی۔
یہ دیکھتے ہوے کہ خاصی مقدار میں موجود ہتھیار صرف پتھر ہیں، کوئلہ گر انھیں مٹھیاں بھر بھر کے پھینکنے لگے۔ پھر مُوروں نے پتھر واپس پھینکنا شروع کر دیا۔ انجام کار اس سنگ باری سے لڑائی نے ایک زیادہ منظم رخ اختیار کرلیا۔ لیکن، چونکہ مچھلی کی بُو سے متاثر کوئلہ گر غار میں داخل ہونے کی کوشش میںتھے اور بربر ساحل پر منتظر اپنی ہر کاری کشتی کی طرف نکلنے کے لیے کوشاں تھے، لہٰذا لڑائی جاری رہنے کی کوئی بڑی وجہ نہیں تھی۔
پھر برگامووالوں نے غار میں داخل ہونے کے لیے ہلّہ بول دیا۔ مسلمان پتھروں کی برسات میں ابھی تک مزاحمت کر رہے تھے کہ سمندر کو جانے والا راستہ انھیں خالی نظر آیا۔ اس صورت میں مزاحمت کیوں جاری رکھی جائے؟ بہتر ہے کہ بادبان اٹھائیں اور روانہ ہوجائیں۔
کشتی پر پہنچنے کے بعد تین قزاقوں نے، جو سب امرا اور افسر تھے، بادبان کھول دیے۔ کوسیمو نے ساحل پر لگے ایک دیودار کے درخت سے چھلانگ لگاتے ہوے اپنے آپ کو مستول پر گرا دیا۔ اس نے چوٹی پر لگی افقی بلّی کو مضبوطی سے تھاما اور اس بلندی پر، گھٹنوں کے بل لٹکتے ہوے اپنی تلوار کو نیام سے نکالا۔ تینوں قزاقوں نے اپنی شمشیریں بلند کیں۔ میرے بھائی نے دائیں بائیں تلوار چلا کر تینوں کو دور رکھا۔ کشتی، جو اب تک لنگرانداز تھی، اب ایک سے دوسری سمت میں جھولنے لگی تھی۔ اسی لمحے چاند نکل آیا اور بیٹے کو دی ہوئی بیرن کی تلوار اور اسلامی شمشیروں پر دمکنے لگا۔ میرا بھائی مستول پر پھسلتا ہوا نیچے آیا اور سمندر میں گرتے ہوے ایک قزاق کے سینے میں اپنی تلوار گھونپ دی۔ دو دفاعی حربوں کے ذریعے دوسروں کے وار سے اپنے آپ کو بچاتے ہوے وہ چھپکلی کی سی تیزی کے ساتھ دوبارہ اوپر گیا۔ ایک بار اور پھسل کر نیچے آیا اور تلوار ایک دوسرے قزاق کے بدن سے پار کردی۔ وہ پھر اوپر گیا اور تیسرے سے ایک مختصر جھڑپ کے بعد اسے بھی نیچے آکر چھید دیا۔
تینوں مسلمان افسروں کے آدھے دھڑ سمندر میں تھے اور ان کی داڑھیاں سمندری پودوں سے بھری ہوئی تھیں۔ غار کے منھ پر دوسرے قزاق پتھروں اور بلّیوں کے واروں سے حواس باختہ تھے۔ کوسیمو مستول کی چوٹی سے چاروں طرف فاتحانہ دیکھ رہا تھا اور کوالیئے، جو اب تک غار میں چھپا ہوا تھا، ایسی بلی کی طرح اچھل کر باہر آیا جس کی دُم میں آگ لگی ہو۔ سر نیچا کیے وہ ساحل کی طرف دوڑ پڑا۔ اس نے کشتی کو دھکا دیا جو ساحل سے پرے تیر گئی۔ وہ اس میں کود پڑا اور چپو سنبھال کر اپنی پوری طاقت سے کھلے سمندر کی طرف کھیلنے لگا۔
’’کوالیئے! تم کیا کر رہے ہو؟ پاگل ہوگئے ہو؟ واپس ساحل پر چلو! ہم کہاں جا رہے ہیں؟‘‘
جواب ندارد۔ یہ واضح تھا کہ اینیاسلویوکاریگا اپنے آپ کو بچانے کے لیے قزاقوں کے جہاز تک پہنچنا چاہتا تھا۔ اس کا سنگین جرم اب ہمیشہ کے لیے ظاہر ہوچکا تھا۔ اگر وہ ساحل پر ٹھہرتا تو بلاشبہ پھانسی کے تختے پر پہنچتا، لہٰذا وہ مسلسل کشتی کھیتا رہا۔ حالانکہ کوسیمو کے ہاتھ میں اب تک ننگی تلوار تھی اور وہ بوڑھا شخص غیرمسلح اور کمزور تھا، مگر کوسیمو پھر بھی حیران تھا کہ اب کیا کرے۔ بنیادی طور پر وہ اپنے چچا کو قطعاً نقصان پہنچانا نہیں چاہتا تھا۔ اور ایک بات اور تھی: اس تک پہنچنے کے لیے اسے مستول سے بالکل نیچے آنا پڑتا اور کشتی پر یہ نزول، زمین پر اترنے کے مترادف تھا۔ یہ سوال کہ آیا وہ ایک جڑوں والے درخت سے کشتی کے مستول پر کود کر اپنے ان کہے اندرونی اصولوں سے پہلے ہی انحراف نہیں کرچکا ہے، اس وقت سوچنے کے لیے بہت پیچیدہ تھا۔ سو اس نے کچھ نہیں کیا۔ وہ مستول کی چوٹی پر دونوں طرف ٹانگیں پھیلا کے بیٹھ گیا اور لہروں کے دوش پر دور کی سمت حرکت کرنے لگا۔ اس دوران خفیف سی ہوا نے بادبان کو تان دیا تھا مگر بوڑھے آدمی نے چپو چلانا نہیں چھوڑا۔
اس نے ایک بھونک سنی اور خوشی سے چونک اٹھا۔ کتا، اوتیمو ماسیمو، جو لڑائی کے دوران اس کی نظر سے اوجھل ہوگیا تھا، کشتی کے پیندے میں بیٹھا اپنی دم یوں ہلا رہا تھا گویا کوئی غیرمعمولی بات نہ ہو رہی ہو۔ ارے ہاں، کوسیمو نے غور کیا، بہت زیادہ فکرمندی کی بات نہیں تھی۔ وہ ایک خاندانی اجتماع تھا، اس کے چچا اور اس کے کتے کا ہی سہی، اور وہ کشتی میں سیر کر رہا تھا جو شجری زندگی کے اتنے سارے برسوں کے بعد ایک خوشگوار تفریح تھی۔
چاند سمندر پر چمک رہا تھا۔ بوڑھے آدمی کی سکت اب جواب دے رہی تھی۔ وہ بہ مشکل چپو چلا رہا تھا اور سسکیاں لیتے ہوے بار بار ’’آہ، زائرہ۔۔۔ آہ، اللہ، اللہ، زائرہ۔۔۔ انشاء اللہ۔۔۔!‘‘ کہے جا رہا تھا۔ پھر وہ ترکی بولنے لگتا اور آنسوئوں کے درمیان بار بار اس عورت کا نام دُہرائے جاتا جو کوسیمو نے کبھی نہیں سنا تھا۔ ’’تم کیا کہہ رہے ہو، کوالیئے؟ تمھیں ہوا کیا ہے؟ ہم کہاں جا رہے ہیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’زائرہ۔۔۔ آہ، زائرہ۔۔۔ اللہ، اللہ۔۔۔‘‘ بوڑھے آدمی نے اعلان کیا۔
’’زائرہ کون ہے، کوالیئے؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ اس طرح زائرہ تک پہنچ جائو گے؟‘‘ اینیاسلویوکاریگا نے اثبات میں سر ہلایا، اور سسکیوں کے درمیان ترکی میں بولنے لگا۔ اس نے چاند کی طرف دیکھ کر پھر وہی نام لیا۔
کوسیمو اس زائرہ کے بارے میں مفروضات پر غور کرنے لگا۔ غالباً اس کم آمیز و پُراسرار شخص کا سب سے گہرا راز اپنے کو عیاں کرنے والا تھا۔ اگر قزاقوں کے جہاز کی طرف جاتا ہوا کوالیئے اس زائرہ سے ملنے کا امیدوار تھا تو وہ یقینا ان عثمانی ملکوں کی کوئی عورت ہوگی۔
شاید اس عورت کے ساتھ گزرے ہوے دنوں کی یاد اس کی ساری زندگی پر حاوی تھی۔ شاید یہ اس گم شدہ مسرت کا عکس تھا جس کا اظہار اس نے مکھیاں پال کر اور نہروں کے نقشے بنا کر کیا تھا۔ شاید وہ کوئی محبوبہ تھی، کوئی بیوی تھی، جسے وہ سمندر پار ملکوں کے باغات میں چھوڑ آیا تھا؛ یا وہ شاید اس کی بیٹی تھی، وہ بیٹی جسے اس نے بچپن کے بعد سے نہیں دیکھا تھا، جسے پانے کے لیے اس نے ہمارے علاقوں میں آنے والے کسی ترکی یا افریقی جہاز سے رابطہ کرنے کی برسوں کوشش کی تھی یہاں تک کہ اسے حتمی طور پر اس کی خبر مل گئی۔ شاید اسے بتایا گیا تھا کہ وہ ایک کنیز ہے اور تاوان کے طور پر انھوں نے تجویز کیا تھا کہ وہ اومبروسائی جہازوں کی مخبری کرے؛ یا شاید یہ وہ قیمت تھی جو ان میں شامل ہونے اور زائرہ کے دیس جانے کے لیے اسے چکانی تھی۔
اب جبکہ اس کی سازش بے نقاب ہوچکی تھی، وہ اومبروسا سے بھاگنے پر مجبور تھا۔ اب بربر اسے اپنے ساتھ لے جانے اور زائرہ تک پہنچانے سے انکار نہیں کرسکتے تھے۔ اس کی باتوں کے ہانپتے ٹکڑوں کے بدلتے لہجوں میں امید، التجا تھی اور یہ خوف بھی کہ شاید یہ موقع بھی سازگار ثابت نہ ہو، یا اسے کوئی ناگہانی اس سے جدا نہ کردے جس کے لیے وہ تڑپتا رہا ہے۔
چپو چلانے میں اس کی ساری طاقت صرف ہوچکی تھی کہ اس نے ایک اور بربری کشتی کو نزدیک آتے دیکھا۔ غالباً انھوں نے جہاز سے ساحل پر لڑائی کی آوازیں سن لی تھیں اور معلومات کرنے کے ملاح بھیج رہے تھے۔ کوسیمو بادبان کے پیچھے چھپنے کے لیے آدھے مستول تک نیچے اترا، مگر وہ بوڑھا شخص ملتجی بازو پھیلاتے ہوے لنگوا فرانکا میں انھیں آوازیں دینے لگا کہ اسے جہاز پر لے جائیں۔ اس کی درخواست قبول ہوئی۔ دو پگڑی پوش جاں نثاروں نے ،جونہی وہ قریب پہنچے، ہلکا پھلکا ہونے کی وجہ سے اسے کاندھوں سے پکڑ کر اپنی کشتی پر کھینچ لیا۔ جس کشتی پر کوسیمو تھا، ریلے سے دور ہوگئی، بادبان نے ہوا پکڑلی اور یوں میرا بھائی، جسے محسوس ہو رہا تھا کہ اس بار خاتمہ یقینی ہے، پکڑے جانے سے بچ نکلا۔
ہوا اسے قزاقوں کی کشتی سے دور لے جا رہی تھی کہ کوسیمو نے بلند ہوتی ہوئی آوازیں سنیں گویا کہ حجت جاری ہو۔ مُوروں کے کہے ہوے ایک لفظ نے، جو ’’مارانو‘‘ سا سنائی دیا، اور بوڑھے شخص کی دُہرائی ہوئی پکار ’’آہ، زائرہ‘‘ نے کشتی پر کوالیئے کے استقبال کے بارے میں کوئی شبہ باقی نہیں چھوڑا۔ بلاشبہ وہ اسے غار پر شب خون، اپنے مالِ غنیمت کے زیاں اور اپنے آدمیوں کی ہلاکت کا ذمے دار سمجھتے تھے اور اس پر غداری کا الزام لگا رہے تھے۔۔۔ ایک آخری چیخ، پانی میں گرنے کی ایک آواز، پھر خاموشی۔ اور کوسیمو تک اپنے باپ کی چلاتی ہوئی آواز، جو اینیاسلویا کو پکارتے ہوے دیہاتی علاقے میں اپنے ناجائز بھائی کا پیچھا کر رہا تھا، اتنے واضح طور پر آئی گویا کہ وہ اس نے سچ مچ سنی ہو۔ کوسیمو نے اپنا چہرہ بادبان میں چھپا لیا۔
یہ دیکھنے کے لیے کہ کشتی کہاں جا رہی ہے، وہ مستول کی افقی بلّی پر دوبارہ چڑھا۔ سمندر کے بیچوں بیچ کوئی چیز بہہ رہی تھی گویا کہ کوئی رَو اسے لے جارہی ہو۔ وہ لنگرنما تھا، مگر ایک طرح کادُم والا لنگرنما۔۔۔ چاند کی ایک کرن اس پر پڑی تو کوسیمو نے دیکھا کہ وہ کوئی شے نہیں بلکہ ایک سر ہے، جو پھندنے والی ترکی ٹوپی میں اٹکا ہوا ہے۔ اس نے کوالیئے کا الٹا ہوا چہرہ پہچان لیا۔ وہ اپنے معمول کے مستغرق انداز میں اوپر کی سمت دیکھ رہا تھا اور اس کا منھ کھلا ہوا تھا۔ لیکن داڑھی کے نیچے اس کا بقیہ جسم پانی میں ہونے کی وجہ سے نظر نہیں آرہا تھا۔ کوسیمو پکارا، ’’کوالیئے! تم کیا کر رہے ہو؟ تم کیا کر رہے ہو؟ کشتی میں کیوں نہیں آتے؟ کشتی کا نچلا حصہ پکڑو! میں سوار ہونے میں تمھاری مدد کروںگا، کوالیئے!‘‘
لیکن اس کے چچا نے کوئی جواب نہیں دیا۔وہ تو اسی دہشت زدہ انداز سے اوپر دیکھتے ہوے جیسے اسے کچھ نظر نہ آرہا ہو، پانی میں بہا جارہا تھا۔ کوسیمو نے کہا، ’’اے! اوتیموماسیمو! پانی میں کود جائو! کوالیئے کو گدی سے پکڑو! اسے بچائو! اسے بچائو!‘‘
مطیع کتا پانی میں کود پڑا۔ اس نے اپنے دانت بوڑھے شخص کی گدی میں گڑونے کی کوشش کی مگر ناکام رہا، سو اس نے بوڑھے کو داڑھی سے پکڑ لیا۔
’’گدی سے، میںکہتاہوں گدی سے، اوتیمو ماسیمو!‘‘ کوسیمو نے اصرار کیا۔ لیکن کتے نے داڑھی سے پکڑ کر سر کو اٹھایا اور اسے کشتی کے کنارے کی طرف دھکیلنے لگا اور تب یہ کھلا کہ گدی تھی ہی نہیں، نہ بدن تھا نہ کوئی اور شے۔ فقط ایک سر تھا۔ اینیاسلویوکاریگا کا سر جسے شمشیر کے ایک وار نے قطع کردیا تھا۔


۱۶
کوالیئے کے انجام کا پہلا بیان جو کوسیمو نے پیش کیا وہ بہت مختلف تھا۔ جب ہوا کشتی کو ساحل پر لائی تو وہ مستول کی اُفقی بَلّی سے چمٹا ہوا تھا اور اوتیموماسیمو کٹے ہوے سر کو گھسیٹ رہا تھا۔ اس نے لوگوں کو، جو اس کی آواز پر دوڑے دوڑے آئے، ایک بہت سادہ کہانی سنائی۔ دریں اثنا وہ ایک رسّی کی مدد سے تیزی کے ساتھ ایک درخت پر چلا گیا تھا۔ اس نے بتایا کہ کوالیئے کو قزاقوں نے اغوا اور بعد ازاں قتل کر دیا تھا۔ غالباً اس بیان کا محرک باپ کا خیال تھا جو اپنے سوتیلے بھائی کی موت کی خبر اور اس دردناک یادگار کے نظارے سے اتنا دل گرفتہ ہوتا کہ کوسیمو کوالیئے کے سنگین جرم سے اسے آگاہ نہیں کرسکتا تھا۔ درحقیقت، بعد ازاں، جب کوسیمو نے اس گہری اداسی کے بارے میں سنا جس میں بیرن ڈوبا ہوا تھا تو اس نے قزاقوں کے خلاف ایک خفیہ اور پُرفن سازش کی کہانی گھڑتے ہوے، جس کے لیے کوالیئے نے کچھ عرصے سے اپنے آپ کو وقف کر رکھا تھا اور جس کا انکشاف اس کی موت کا سبب بنا تھا، ہمارے فطری چچا کے لیے ایک تصوراتی ستائش پیدا کرنے کی کوشش کی۔ لیکن یہ بیان متضاد تھا اور اس میں بہت سے خلا تھے۔ اس وجہ سے بھی کہ کوسیمو مسروقہ اشیا کو غار میں اتارے جانے اور کوئلہ گروں کی مداخلت کا قصہ چھپانا چاہتا تھا، کیونکہ اگر ساری کہانی عام ہوجاتی تو اومبروسا کی تمام آبادی برگامووالوں سے اپنی اشیاے تجارت واپس لینے کے لیے جنگل کا رخ کرلیتی اور ان سے وہی برتائو کرتی جو ڈاکوئوں سے کیا جاتا ہے۔
کوئی ہفتے بھر بعد جب اسے یقین ہوگیا کہ کوئلہ گروں نے مال ٹھکانے لگا دیا ہے، اس نے غار پر حملے کی بات بتائی۔ اور جو کوئی بھی جنگل میں اپنا مال برآمد کرنے گیا خالی ہاتھ لوٹا۔ کوئلہ گروں نے ساری مچھلی قتلے قتلے کرکے برابر برابر حصوں میں بانٹ لی تھی، اور مختلف قسم کی قیمہ بھری آنتوں، پنیر کے کیکوں اور باقی چیزوں سے شان دار ضیافت اڑائی جو سارا دن جاری رہی۔
ہمارے والد بہت ضعیف ہوگئے تھے۔ اینیاسلویو کی موت کے صدمے نے ان کے رویے پر عجیب و غریب اثر ڈالے تھے۔ انھیں اپنے بھائی کے کاموں کو ضائع ہونے سے بچانے کا خبط ہوگیا تھا، لہٰذا وہ شہد کے چھتوں کی دیکھ بھال خود کرنے پر مصر تھے، حالانکہ اس سے پہلے انھوں نے کوئی چھتا قریب سے دیکھا بھی نہیں تھا، مگر انھوں نے اس کام کا آغاز بڑی دھوم دھام کے ساتھ کیا۔ مشورے کے لیے وہ کوسیمو سے رجوع کرتے جو چھتّوں کے بارے میں کچھ نہ کچھ جان گیا تھا۔ یہ نہیں کہ وہ اس سے براہِ راست سوالات کرتے تھے بلکہ محض گفتگو کو مگس بانی کی طرف موڑ دیتے۔ کوسیمو جو کچھ کہتا، وہ اسے سنتے اور پھر وہی کچھ ایک خود کفیل چڑچڑے لہجے میں احکامات کی شکل میں دہقانوں کے آگے دُہرا دیتے، گویا کہ سب کچھ بالکل واضح ہو۔ نیش زنی کے خوف سے وہ کوشش کرتے کہ خود چھتوں سے بہت زیادہ قریب نہ ہوں، لیکن وہ اس خوف پر قابو پانے کا تہیہ کیے ہوے تھے، اور اس کے باعث یقینا شدید اذیتوں سے گزرے ہوںگے۔ بے چارے اینیا سلویو کے آغاز کردہ ایک منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے انھوں نے کئی آبی گزرگاہیں کھودنے کے احکامات بھی دیے۔ اگر وہ کامیاب ہوجاتے تو یہ ایک بہترین کام ہوتا کیونکہ بے چارہ بھائی اپنا ایک بھی منصوبہ مکمل نہ کرپایا تھا۔
افسوس کہ عملی معاملات کے لیے بیرن کا یہ بعد از وقت شوق محض تھوڑا عرصہ ہی رہا۔ ایک دن جب وہ چھتّوں اور آبی گزرگاہوں کے درمیان بے چینی کے ساتھ مصروف تھے تو ان کی کسی جلد بازی کے باعث مکھیوں کے ایک جھنڈ نے ان پر حملہ کردیا۔ وہ دہشت زدہ ہوکر اپنے ہاتھ اِدھر اُدھر ہلانے لگے۔ انھوں نے ایک شہد کاچھتا الٹ دیا اور اپنے عقب میں مکھیوں کا ایک بادل لیے بھاگ کھڑے ہوے۔ وہ اندھا دھند بھاگ رہے تھے کہ ایک نالے میں، جسے پانی سے بھرنے کی کوشش کی جارہی تھی، گر پڑے۔ جب انھیں باہر نکالا گیا تو وہ پانی سے شرابور تھے۔
انھیں بستر پہ لٹا دیا گیا۔ کچھ تو اس بخار سے جو مکھیوں کے ڈنک کے باعث تھا، اور کچھ بھیگنے کی وجہ سے، وہ ہفتے بھر بستر پہ رہے۔ پھر وہ کم و بیش ٹھیک ہوگئے لیکن وہ اس قدر نحیف ہوگئے تھے کہ پھر کبھی بحال نہ ہوسکے۔
وہ جینے کی خواہش گنوا چکے تھے اور تمام دن بستر میں رہتے تھے۔ زندگی میں کچھ بھی تو ان کی امیدوں کے مطابق نہیں ہوا تھا۔ نوابی کا اب کوئی ذکر تک نہیں کرتا تھا۔ ان کا بڑا بیٹا اب بھی، جبکہ وہ جوان ہوچکا تھا، اپنی زندگی درختوں پر گزار رہا تھا۔ ان کا سوتیلا بھائی قتل کردیا گیا تھا۔ ان کی بیٹی بہت دور تھی اور ایسے خاندان میں بیاہی گئی تھی جو خود اُس سے زیادہ ناگوار تھا۔ میں ان کا رفیق بننے کے لیے بہت چھوٹا تھا۔ ان کی بیوی بہت ترنگی اور شیخی باز تھی۔ وہ اس وہم میں مبتلاہوگئے کہ یسوعیوں نے ان کے گھر پہ قبضہ کرلیا ہے اور انھیں اپنے کمرے سے نکلنے کی اجازت نہیں دے رہے۔ اور یوں جس تکلیف دہ اور اوٹ پٹانگ انداز سے وہ جیے تھے، اسی طرح اپنی موت سے جاملے۔
کوسیمو بھی ایک سے دوسرے درخت کے ذریعے جنازے کے ساتھ ساتھ آیا۔ لیکن وہ قبرستان میں داخل نہ ہوسکا کیونکہ صنوبروں کی شاخیں آپس میں اتنی گتھی ہوئی ہوتی ہیں کہ ان پر چڑھنا ممکن نہیں ہوتا۔ وہ قبرستان کی دیوار کے پرے سے تدفین کا منظر دیکھتا رہا اور جب ہم سب تابوت پر اپنے اپنے حصے کی مٹی ڈال رہے تھے تو اس نے بھی پتوں کی ایک چھوٹی سی شاخ نیچے گرا دی۔ میں نے سوچا کہ ہم سب میرے والد سے اتنے ہی دور رہے تھے جتنا کہ درختوں پر رہتے ہوے کوسیمو۔
سو، اب کوسیمو بیرن دی روندو تھا۔ اس کی زندگی میں کوئی تغیر نہیںآیا تھا۔ یہ سچ ہے کہ وہ خاندانی مفادات کا خیال رکھتا تھا لیکن ہمیشہ قدرے بے ضابطگی کے ساتھ۔ جب ناظر اور مزارع اسے ڈھونڈنا چاہتے تو نہیں جانتے تھے کہ اسے کہاں تلاش کریں، اور جب وہ اس بات کے بہت کم متمنی ہوتے کہ کوسیمو ان سے ملے، تو عین اس وقت وہ کسی شاخ پر آدھمکتا۔
کسی قدر معاملاتِ جائیداد کے سلسلے میں کوسیمو اب اکثر شہر میں نظر آتا تھا۔ وہ یا تو چوک میں اخروٹ کے بڑے درخت پر ہوتا یا گھاٹ کے ساتھ گلِ خطمی کے درختوں پر۔ لوگ اس کے ساتھ بڑی تکریم سے پیش آتے اور اسے ’’محترم سردار‘‘ کہتے۔ اس نے بڑی عمر کے لوگوں جیسے کئی رویے اپنا لیے تھے جیساکہ نوجوان بعض اوقات کرتے ہیں، اور اوپر بیٹھا درخت کی جڑ کے گرد مجتمع اومبروسائیوں کی ٹولیوں کو کہانیاں سناتا رہتا۔
وہ اکثر ہمارے چچا کا انجام بیان کرتا، جو کبھی دوبار یکساں نہیں ہوتا تھا۔ رفتہ رفتہ اس نے قزاقوں کے ساتھ کوالیئے کی ساز باز کا انکشاف کرنا شروع کردیا۔ لیکن نیچے بیٹھے لوگوں کی برہمی کے فوری طوفان کو روکنے کے لیے وہ ایک دم سے زائرہ کی کہانی شامل کردیتا، جیسے کاریگا نے مرنے سے پہلے اس بارے میں اسے رازدار بنایا ہو، اور انجام کار اس نے بوڑھے شخص کے افسوسناک انجام پر لوگوں میں ہمدردی پیدا کردی۔
مجھے یقین ہے کہ متواتر اندازوں کے ذریعے کوسیمو، مکمل اختراع کی مددسے، حقائق کی ایک ایسی تفصیل تک پہنچ گیا تھا جو تقریباً مکمل طور پر درست تھی۔ اس نے یہ داستان دو تین بار بیان کی، پھر یہ دیکھتے ہوے کہ سامعین اسے سننے سے کبھی نہیں اکتاتے اور ان میں نئے سننے والوں کا روزبروز اضافہ ہو رہا ہے جو تفصیلات جاننا چاہتے ہیں، وہ افراط و تفریظ اور مبالغہ آرائی کرتے ہوے اس میں نت نئے اضافے کرتا اور نئے کردار و واقعات متعارف کراتا رہا، اور یوں یہ کہانی بالکل مسخ ہوکر پہلے سے بھی کہیں زیادہ اختراعی بن کر رہ گئی۔
اب کوسیمو کو ایسے حامی مل گئے تھے جو اس کی ہر بات کو حیرت سے منھ پھاڑے سنتے۔ وہ درختوں پر اپنی زندگی، اپنی شکاریات، ڈاکو جیان دائی بروگی اور کتے اوتیمو ماسیمو کے بارے میں کہانیاں سنانے سے لطف اندوز ہونے لگا۔ وہ اس کی کہانیوں کا مواد بن گئے اور اس کی داستان گوئی کبھی ختم ہونے میں نہ آتی۔ (میں اس بات کا ذکر اس لیے کر رہا ہوں کہ اگر وہ سب جو میں لکھ رہا ہوں ناقابلِ یقین ہو، یا انسانی زندگی اور حقیقت کے ہم آہنگ نقطۂ نظرسے مطابقت نہ رکھتا ہو تو معذرت خواہی کرسکوں۔)
مثال کے طور پر کوئی مجہول شخص پوچھتا، ’’لیکن کیا یہ سچ ہے آپ نے ایک بار بھی درختوں سے قدم نہیں ہٹائے، محترم سردار؟‘‘
اور کوسیمو شروع ہوجاتا۔ ’’ہاں ایک بار، مگر غلطی سے۔ میں ایک ہرن کے سینگوں پر چڑھ گیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ میں پیپل کے درخت پر جارہا ہوں مگر وہ ایک ہرن تھا جو شاہی شکارگاہ سے نکل بھاگا تھا اور اس خاص جگہ پر بے حس و حرکت کھڑا تھا۔ ہرن نے اپنے سینگوں پر میرا وزن محسوس کیا تو جنگل کی طرف بھاگ لیا۔ تم لوگ میری حالت کا اندازہ کرسکتے ہو! سینگوں کی تیز نوکوں، کانٹوں اور چہرے سے ٹکراتی شاخوں کی وجہ سے میں اپنے سارے وجود میں چیزوں کو چبھتا محسوس کر رہا تھا۔ مجھ سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرتا ہوا، ہرن پیچھے ہٹا۔ میں مضبوطی سے سینگوں پر قائم رہا۔۔۔‘‘
یہاں پہنچ کر وہ ٹھہر جاتا اور منتظر رہتا، تاوقتیکہ دوسرے لوگ پوچھتے، ’’اور اس مصیبت سے آپ نکلے کیسے جناب؟‘‘
کوسیمو ہر بار ایک مختلف اختتام بیان کرتا۔ ’’ہرن دوڑتا ہی چلا جارہا تھا۔ آخر وہ گلّے تک پہنچا۔ بیشتر ہرن اس کے سینگوں پر آدمی کو سواردیکھ کر منتشر ہوگئے۔ تجسّس کے مارے کچھ ہرن قریب آئے۔ میں نے بندوق سیدھی کی جو ابھی تک میرے کندھے پر لٹک رہی تھی اور جس ہرن پر بھی میری نظر پڑی میں نے مار گرایا۔ میں نے ان میں سے پچاس ہرن گرائے۔۔۔‘‘
’’کیا ان علاقوں میں کبھی پچاس ہرن رہے ہیں؟‘‘ ان میں سے کوئی کوچہ گرد پوچھتا۔
’’وہ نسل اب معدوم ہوگئی ہے کیونکہ وہ پچاس کی پچاس تمام ہرنیاں تھیں، کیاسمجھے؟ ہر بار جب میرا ہرن کسی مادہ کے قریب ہونے کی کوشش کرتا تو میں گولی چلا دیتا اور نیچے آرہتی۔ ہرن کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ پھر۔۔۔ پھر اس نے اچانک اپنے آپ کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ تیزی سے ایک اونچی پہاڑی پر چڑھا اور اپنے آپ کو نیچے گرادیا۔ لیکن میں جوں توں ایک باہر کو نکلے ہوے صنوبر سے چمٹ گیا اور یوں اس وقت یہاں موجود ہوں!‘‘
یا وہ یہ بتاتا کہ سینگوں والے دو ہرنوں کے درمیان لڑائی چھڑ گئی اور وہ ہر ٹکر پر ایک ہرن کے سینگوں سے دوسرے کے سینگوں پر چھلانگیں لگاتا رہا یہاں تک کہ ایک خاص زوردار ٹکر نے اسے بلوط کے درخت پر اچھال دیا۔۔۔
درحقیقت وہ داستان گو کے اس خبط سے مغلوب تھا جو نہیں جانتا کہ کون سی کہانیاں زیادہ خوبصورت ہیں، وہ جو واقعی پیش آئیں اور جن کی تمثال انگیزی گزرے ہوے گھنٹوں، گھٹیا جذبات، بوریت، مسرت، عدم تحفظ، خودپسندی اور خودتنفری کے ایک مکمل بہائو کو یادداشت میں زندہ کردیتی ہے، یا وہ جو گڑھی جاتی ہیں اور جن میں وہ ایک مرکزی سانچا بناتا ہے، اور ہر چیز آسان لگتی ہے، لیکن جونہی اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ انھیں باتوں کو دوبارہ بیان کر رہا ہے جو گزاری ہوئی حقیقت میں پیش آچکی ہیں یا سمجھی جاچکی ہیں، تو وہ انھیں بدلنا شروع کردیتا ہے۔
کوسیمو ابھی تک عمر کے اس حصے میں تھا جب کہانیاں سنانے کی خواہش آدمی کو زیادہ جینے کا تمنائی بناتی ہے اور وہ سوچتا ہے کہ ابھی اس نے اتنی زندگی نہیں گزاری کہ کچھ بیان کرسکے۔ اور یوں کوسیمو شکار پر نکل جاتا۔ وہ ہفتوں غائب رہتا اور پھر نیولے، بچھو اور لومڑیاں دُموں سے لٹکائے، چوک کے درختوں پر لوٹ آتا اور اومبروسائیوں کو نئی کہانیاں سناتا جو اصلاً سچی ہوتیں مگر اس کے سنانے سے اختراعی بن جاتیں اور اختراعی سے دوبارہ سچی ہو جاتیں۔

لیکن اس کی اس ساری بے چینی کے پیچھے ایک اور گہری ناآسودگی تھی، اور سامعین کی موجودگی کی اس طلب میں ایک مختلف قسم کی کمی مضمرتھی۔ کوسیمو ابھی محبت سے ناآشنا تھا، اور محبت کے بغیر کسی بھی تجربے کی کیا حیثیت ہے؟ جب زندگی کی اصل لذت ہی سے آشنائی نہ ہو تو زندگی کو خطرے میں ڈالنا کون سی عقل مندی ہے؟
دہقان لڑکیاں اور ماہی فروش، اور بگھیوں میں سوار نوجوان خواتین اومبروسا کے چوک سے گزرا کرتی تھیں اور درختوں پر سے کوسیمو انھیں تیکھے انداز سے دیکھا کرتا تھا۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ جس چیز کا وہ متلاشی ہے، وہ ان سب میں موجود ہونے کے باوجود، ان میں سے کسی میں بھی مکمل طور پر کیوں موجود نہیں ہے۔رات کو جب گھروں میں بتیاں جل جاتیں اور کوسیمو الّوئوں کی زرد آنکھوں کے ساتھ شاخوں پر تنہا ہوتا تو وہ محبت کے خواب دیکھنے لگتا۔ جھاڑیوں کے عقب میں یا انگور کی بیلوں کے درمیان راز و نیاز میں محو جوڑوں کو دیکھ کر اس کا دل رشک و تحسین سے بھر آتا، اور جب وہ اندھیرے میں جاتے تو اس کی نظریں ان کا تعاقب کرتیں۔ لیکن اگر وہ اس کے مخصوص درخت کے نیچے ہی لیٹ جاتے تووہ پریشان ہوکر وہاں سے چلا جاتا۔
پھر وہ اپنے شرمیلے پن پر قابو پانے کے لیے رُک جاتا اور جانوروں کو مباشرت کرتے دیکھنے لگتا۔ بہار کے موسم میں درختوں کی دنیا کتخدائی کی دنیا ہوتی۔ گلہریاں تیکھی چیخوں اور تقریباً انسانوں جیسی حرکات کے ساتھ ملاپ کرتیں۔ چڑیاں پھڑپھڑاتے پروں کے ساتھ جفتی کرتیں۔ چھپکلیاں بھی، اپنی دموں میں مضبوطی سے گرہیں لگائے، یک تن ہوکر پھسلتیں اور خارپشت اپنی ہم آغوشیوں میں لذت پیدا کرنے کے لیے اپنے کانٹوں کو نرم کرتے ہوے لگتے۔ اوتیموماسیمو، اس حقیقت سے قطعاً اثر لیے بغیر کہ وہ اومبروسا میں واحد بجو کتا ہے، بڑی گلہ بان کتیوں یا جاسوس کتیوں کو رِجھانے کی کوشش کرتا رہتا اور اپنے وجود سے پیدا ہونے والی فطری ہمدردی پر بھروسا کرتے ہوے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ گرم جوشی کا اظہار کرتا۔ بعض اوقات وہ اپنے سارے بدن پر زخم لیے لوٹتا لیکن ایک کامیاب معاشقہ ساری شکستوں کی تلافی کے لیے بہت تھا۔
اوتیمو ماسیمو کی طرح کوسیمو بھی ایک نوع کی واحد مثال تھا۔ اپنے جاگتے کے خوابوں میں وہ خود کو انتہائی حسین لڑکیوں سے معاشقہ کرتے دیکھتا۔ لیکن درختوں پر رہتے ہوے وہ کیسے محبت کرسکتا تھا؟ اپنے خیالوں میں وہ یہ واضح کرنے کا اہتمام کرتا کہ یہ واقعہ کہاں پیش آئے گا،زمین پر یا اوپر اس عنصر میں جہاں وہ اب رہتا تھا؛ ہرمقام سے تہی ایک مقام، وہ تصور کرتا؛ وہ دنیا جہاں اوپر چڑھ کر پہنچا جاتا ہے، نیچے اتر کر نہیں۔ ہاں، یہی تھی وہ جگہ۔ غالباً کوئی درخت اتنا بلند ہوگا جس پر چڑھنے سے وہ ایک اور دنیا میں پہنچ جائے گا، چاند کو چھولے گا۔

دریں اثنا، چوک میں گپ شپ کرنے کی عادت بڑھنے کے ساتھ ساتھ، وہ اپنے آپ سے غیرمطمئن ہوتا چلا گیا۔ اور پھر، ایک منڈی کے دن، اولیواباسا کے قریبی شہر سے آنے والے ایک شخص نیپکار کر کہا، ’’ارے، توتمھارے پاس بھی اپنا ہسپانوی موجود ہے، میں سمجھا!‘‘ پوچھے جانے پر کہ اس کا کیا مطلب ہے، اس نے جواب دیا، ’’اولیواباسا میں ہسپانویوں کا ایک پورا قبیلہ درختوں پر رہتا ہے!‘‘ کوسیمو جب تک جنگل کے راستے اولیواباسا کے لیے روانہ نہ ہوگیا، اسے چین نہ پڑا۔

۱۷
اولیواباسا اندرونِ ملک واقع ایک شہر تھا۔ کوسیمو وہاں دو دن کا سفر، اور راستے کے کم جنگلاتی حصوں پر بہت سے خطرناک ٹکڑے طے کرنے کے بعد پہنچا۔ وہ جب بھی مکانوں کے پاس سے گزرا تو لوگوں کی، جنھوں نے اس سے پہلے اسے نہیں دیکھا تھا، حیرت سے چیخیں نکل گئیں، بلکہ دو ایک نے تو اس پر پتھر بھی پھینکے۔ سو، جس قدر بھی ممکن تھا اس نے غیرنمایاں طور پر گزرنے کی کوشش کی۔ لیکن جیسے ہی وہ اولیواباسا کے نزدیک پہنچا، اس نے محسوس کیا کہ کوئی لکڑہارا، ہالی یا زیتون چننے والا، جو کوئی اسے دیکھتا ہے، قطعاً کسی حیرت کا اظہار نہیں کرتا۔ درحقیقت ان لوگوں نے اپنے ہیٹ اتار کر اس کا خیرمقدم کیا جیسے وہ اسے جانتے ہوں۔ بلکہ انھوں نے کچھ لفظ بھی ادا کیے، جو یقینا مقامی بولی میں نہیں تھے اور ان کے منھ سے ادا ہوکر عجیب سے لگ رہے تھے، جیسے ’’سینیور! روز بخیر، سینیور!‘‘
سردیوں کی رُت تھی۔ کچھ پیڑ پتوں سے تہی تھے۔ اولیواباسا میں چنار اور ایلم کے درختوں کی ایک دوہری قطار شہر کو قطع کر رہی تھی۔ میرے بھائی نے قریب آنے پر دیکھا کہ عریاں شاخوں پر لوگ موجود ہیں۔ ہر درخت پر ایک دو، بلکہ تین افراد بھی موجود ہیں جو سنجیدہ وضع کے ساتھ بیٹھے یا کھڑے ہیں۔ چند جستوں میں وہ ان تک پہنچ گیا۔
وہاں شاندار پوشاکوں، کلغی دار تکونے ہیٹوں اور بڑے بڑے چوغوں میں ملبوس مرد تھے، اور عالی نسب نظر آنے والی خواتین بھی، جن کے سروں سے نقاب لٹک رہے تھے۔ وہ دو دو تین تین کی ٹکڑیوں میں شاخوں پر بیٹھی تھیں۔ کچھ کشیدہ کاری کر رہی تھیں اور گاہے بگاہے سینے کے ایک ترچھے جھٹکے کے ساتھ، یا شاخ کے ساتھ اپنے بازو پھیلاتے ہوے نیچے سڑک کو دیکھتی جاتی تھیں، گویا کسی کھڑکی کی دہلیز پر ہوں۔
مردوں نے خیرمقدمی کلمات ادا کیے جو غم آگیں ادراک سے پُر لگتے تھے، ’’روز بخیر، سینیور!‘‘ اور کوسیمو نے تعظیماً خم ہوکر اپنا ہیٹ اتارا۔
ایک بھاری بھرکم شخص، جو سب سے زیادہ بااختیار لگتا تھا، ایک چنار کے دو شاخے میں یوں پھنسا بیٹھا تھا کہ وہاں سے اپنے کو نکالنے میں ناکام نظر آتا تھا۔ اس کی کلیجی جیسی رنگت میں اس کی منڈی ہوئی ٹھوڑی اور بالائی لب، اس کی سن رسیدگی کے باوجود سیاہ سائے منعکس کر رہے تھے۔ وہ اپنے پڑوسی کی طرف مڑا، جو سیاہ لباس پہنے ،دبلا پتلا، زرد رنگ شخص تھا اور خود جس کے رخسار مونڈنے کے باوجود سیاہی مائل تھے اور یہ پوچھتا ہوا معلوم ہوا کہ درختوں پر سے ان کی طرف آتا ہوا یہ نامعلوم شخص کون ہے۔
کوسیمو نے سوچا کہ اپنے کو متعارف کروانے کا لمحہ آن پہنچا ہے۔
وہ فربہ شخص کے چنار پر پہنچا اور خم ہوتے ہوے بولا، ’’بیرن کوسیمو پیوواسکودی روندو، آپ کی خدمت میں۔‘‘
’’روندوس؟‘‘فربہ شخص نے بلند آواز میں کہا۔’’روندوس؟ آراگونیس؟ گالیسیانو؟‘‘
’’نہیں، جناب۔‘‘
’’کاتالان؟‘‘
’’نہیں جناب۔ میرا تعلق اِنھیں علاقوں سے ہے۔‘‘
’’دیسترادو تامبیان؟‘‘
دبلے پتلے شخص نے اب درمیان میں پڑنے کو اپنا فرض سمجھا اور بہت لفاظی کے ساتھ یہ کہتے ہوے ترجمانی کرنے لگا، ’’عالی مرتبت فریدریکو الونسو سانچیزاِی توباسکو دریافت کر رہے ہیںکہ آیا حضور بھی ملک بدر ہیں، کیونکہ ہم جناب کو شاخوں پر چڑھتے ہوے دیکھ رہے ہیں۔‘‘
’’نہیں جناب۔ یا میں کم از کم کسی اور کے حکم سے ملک بدر نہیں۔‘‘
فربہ شخص نے پھر سوال کیا۔
اور ترجمان یوں گویا ہوا، ’’عالی مرتبتفریدریکو الونسو سانچیز ازراہِ کرم دریافت کر رہے ہیں، آیا حضور لطف اندوزی کی خاطر یہ طریقِ سفر استعمال کرتے ہیں۔‘‘
کوسیمو نے لمحہ بھر سوچا، پھر بولا، ’’میں ایسا اس لیے کرتا ہوں کیونکہ میرے خیال میں یہ میرے لیے موزوں ہے، اس لیے نہیں کہ میں ایسا کرنے پر مجبور ہوں۔‘‘
’’فیلیز اُستید!‘‘ فریدریکو الونسو سانچیز نے آہ بھرتے ہوے کہا۔’’آئے دیمی، آئے دیمی!‘‘
اور سیاہ پوش شخص پہلے سے کہیں زیادہ لفاظی کے ساتھ وضاحت کرنے لگا، ’’عالی مرتبت یہ کہنا مناسب سمجھتے ہیں کہ حضور خوش نصیب ہیں جو ایسی آزادی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں جس کا موازنہ ہم اپنی پابندی سے کرنے پر مجبور ہیں،جسے ہم ، بہرحال، راضی بہ رضا ہوکر بھوگ رہے ہیں۔‘‘ اور یہ کہتے ہوے اس نے اپنے سینے پر صلیب کا نشان بنایا۔
اور اس طرح شہزادہ سانچیز کے بلیغ اعلانوں اور سیاہ پوش شخص کی مفصل وضاحت سے کوسیمو نے چنار کے درختوں پر آباد اس بستی کی سرگزشت اپنے ذہن میں مرتب کرلی۔ وہ ہسپانوی امرا تھے اور انھوں نے مختلف متنازعہ جاگیردارانہ مراعات کے سلسلے میں شاہ چارلس سوئم کے خلاف بغاوت کی تھی۔ نتیجے کے طور پر انھیں اپنے خاندانوں کے ساتھ ملک بدر کردیا گیا تھا۔ اولیواباسا پہنچنے پر انھیں اپنا سفر جاری رکھنے سے روک دیا گیا تھا۔ درحقیقت ہز کیتھولک میجسٹی کے ساتھ ایک قدیم معاہدے کے باعث وہ علاقے اسپین سے جلاوطن کردہ افراد کی نہ تو مہمان نوازی کرسکتے تھے اور نہ انھیں آگے جانے کا راستہ دے سکتے تھے۔ یہ امرا خاندانوں ایک نہایت دشوار صورتِ حال سے دوچارتھے۔ لیکن اولیواباسا کے مجسٹریٹ، جو غیرملکی دیوان ہاے وزارت سے جھگڑا مول لینا نہیں چاہتے تھے اوران مالدار غیرملکیوں سے بھی کد نہ رکھتے تھے، ان کے ساتھ ایک مفاہمت پر پہنچ گئے۔ معاہدے میں درج تھا کہ جلاوطن ان کے علاقے میں ’’زمین پر پائوں نہیں دھریںگے۔‘‘ اگر وہ اوپر درختوں پر رہیں تو ہر بات قاعدے کے مطابق ہوگی۔ لہٰذا جلاوطن بلدیہ کی مہیا کردہ سیڑھیوں کے ذریعے، جو بعد میں ہٹالی گئیں، ایلم اور چنار کے درختوں پر چڑھ گئے تھے۔ معتدل آب و ہوا، چارلس سوم کی طرف سے آنے والے متوقع فرمانِ معافی اور خدا کی رحمت پر بھروسا کرتے ہوے وہ کچھ مہینوں سے اوپر بسیرا کیے ہوے تھے۔ ان کے پاس ہسپانوی طلائی سکوں کی افراط تھی اور وہ خاصی خریداری کیا کرتے تھے اور یوں شہر کو کاروبار دے رہے تھے۔ قابوں کو اوپر کھینچنے کے لیے انھوں نے چرخیوں کا ایک نظام بنا رکھا تھا۔ دوسرے درختوں پر انھوں نے سائبان تان رکھے تھے جن کے نیچے وہ سوتے تھے۔ حقیقت میں وہ بڑے آرام سے رہنے لگے تھے، یا یہ کہ اولیواباسا کے لوگوں نے انھیں اچھی طرح بسایا تھا ،کہ یہ بات ان کے اپنے فائدے میں تھی۔ جہاں تک جلاوطنوں کا تعلق ہے ، وہ سارا دن انگلی بھی نہیں ہلاتے تھے۔
کوسیمو کے لیے درختوں پر رہنے والے دوسرے انسانوں سے ملنے کا یہ پہلا اتفاق تھا۔ سو وہ عملی سوالات پوچھنے لگا۔
’’اور برسات میں آپ لوگ کیا کرتے ہیں؟‘‘
’’ہم اپنا سارا وقت عبادت میں گزارتے ہیں، سینیور۔‘‘
ترجمان جس کا نام فادر سلپیسیو دی گوادالیتے تھا، سوسائٹی آف جیزس سے وابستہ ایک راہب تھا جو اسپین میں اپنے سلسلے کے ممنوع قرار دیے جانے کے باعث جلاوطن کردیا گیا تھا۔ اس نے وضاحت کی، ’’اپنے سائبانوں میں محفوظ ہوکر ہم خدا سے لَو لگاتے ہیں اور اس تھوڑے بہت کے لیے جو ہمارے لیے کافی ہے اس کا شکر بجا لاتے ہیں۔‘‘
’’آپ لوگ کبھی شکار بھی کرتے ہیں؟‘‘
’’گاہے بہ گاہے، سینیور، گوند کے ساتھ۔‘‘
’’بعض اوقات تفریح کے لیے ہم میں سے کوئی ایک کسی شاخ کو گوند سے لتھیڑ دیتا ہے۔‘‘
کوسیمو یہ معلوم کرنے سے تھک ہی نہیں رہا تھا کہ انھوں نے وہ مسائل جن سے خود اس کا سابقہ پڑ چکا تھا، کیونکر حل کیے ہیں۔
’’اور دھونے کے بارے میں آپ لوگ کیا کرتے ہیں؟‘‘
دون فریدریکو نے کندھے اچکاتے ہوے ہسپانوی میں کچھ کہا۔
’’ہم کپڑے گائوں کی دھوبن کو دیتے ہیں،‘‘ دون سلپیسیو نے ترجمہ کیا۔ ’’ہر پیر کو ہم میلے کپڑوں کی ٹوکری نیچے گرا دیتے ہیں۔‘‘
’’نہیں، میرا مطلب منھ دھونے اور نہانے سے تھا۔‘‘
دون فریدریکو نے بڑبڑاتے ہوے اپنے کندھے اچکائے جیسے اس مسئلے سے اس کا سابقہ کبھی نہ پڑا ہو۔
فادر سلپیسیو نے اس عمل کی وضاحت کو اپنا فرض سمجھا، ’’عالی مرتبت کی راے کے مطابق یہ ہر شخص کا نجی معاملہ ہے۔‘‘
’’میں معافی چاہتا ہوں، مگر آپ لوگ حوائجِ ضروریہ سے کہاں فارغ ہوتے ہیں؟‘‘
’’اولاس، سینیور۔‘‘
دون سلپیشیو اپنے پُرانکسار لہجے میں بولا، ’’درحقیقت، ہم کچھ مرتبان استعمال کرتے ہیں۔‘‘
دون فریدریکو سے رخصت لیتے ہوے کوسیمو فادر سلپیسیو کی رہنمائی میں بستی کے دوسرے اراکین سے ملنے ان کے اقامتی درختوں پر گیا۔ ان حالات میں بھی جو اب تک غیرآرام دہ تھے، یہ تمام حضرات و خواتین اپنے معمول کے اطوار اور دل جمعی کی وضع برقرار رکھے ہوے تھے۔ کچھ لوگوں نے ٹانگیں پھیلا کر بیٹھنے کے لیے شاخوں پر گھوڑوں کی زینیں باندھ رکھی تھیں۔ اس بات نے کوسیمو کو، جس نے ان تمام برسوں میں ایسے نظام کے بارے میں کبھی نہیں سوچا تھا، بہت متاثر کیا۔ (اس نے فوراً دیکھ لیا کہ رکابیں پائوں لٹکائے رکھنے کی بے آرامی کو جو تھوڑی دیر بعد پیروں کو سن کردیتی ہے، موقوف کردیتی ہیں۔) ان میں سے کچھ لوگ (جن میں ایک کا عہدہ امیر البحر کا تھا) بحری دوربینوں سے، جنھیں وہ بے کاری یا گپ شپ میں ایک درخت سے دوسرے درخت پر غالباً محض ایک دوسرے کو دیکھنے کے لیے استعمال کرتے تھے، نشانہ سادھ رہے تھے۔ خواتین، نوجوان، عمر رسیدہ، سب کی سب، اپنے کاڑھے ہوے گدوں پر بیٹھی سلائی کر رہی تھیں (صرف وہی کچھ کرتی نظر آرہی تھیں) یا بڑی بڑی بلیوںکو سہلا رہی تھیں۔ کچھ آزاد کبوتروں کے سوا، جو آکر کسی لڑکی کے ہاتھ پر بیٹھ جاتے اور اشتیاق سے سہلائے جاتے، ان درختوں پر بلیوں اور مقید پرندوں کی، جو غالباً گوند کا شکارہوے تھے، ایک بہت بڑی تعداد تھی۔
اس شجری کمرۂ نشست میں کوسیمو کا سنجیدہ مہمان نوازی سے استقبال کیا گیا۔ انھوں نے اسے کافی پیش کی۔ پھر فوراً ان محلات کی، جو وہ اشبیلیہ یا غرناطہ میں چھوڑ آئے تھے، اور اپنی جائیداد اور غلہ گھروں اور اصطبلوں کی باتیں چھیڑدیں، اور اپنی بحالی پر اسے وہاں آنے کی دعوت دی۔ بادشاہ کے بارے میں، جس نے انھیں دیس نکالا دیا تھا، وہ ایسے لہجے میں بات کر رہے تھے جو بیک وقت متعصبانہ نفرت اور پرخلوص تعظیم سے مملو تھا۔ اور بعض اوقات تووہ اس شخص کو جس سے ان کا ایک خاندانی تنازعہ تھا، اور شاہی لقب کو، جس کی حاکمیت سے خود ان کی حاکمیت وابستہ تھی، واضح طور پر الگ کرسکنے کے اہل تھے۔ بعض اوقات، اس کے برعکس، وہ ان دونوں نقطۂ ہاے نظر کو ایک واحد ہیجانی جملے میں اکٹھا کر دیتے اور کوسیمو، ہر بار جب گفتگو میں شہنشاہ کا ذکر آتا، سمجھ نہیں پاتا تھا کہ کس بات کو درست جانے۔
جلاوطنوں کے تمام اشاروں اور باتوں پر ماتم و ملال کا ایک ایسا پرتو تھا جو کچھ تو ان کی فطرت سے مطابقت رکھتا تھا اور کچھ شعوری عزم سے، جیساکہ بعض اوقات ناپختہ و مبہم یقین کے ساتھ کسی مقصد کے لیے جدوجہد کرنے والے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو اس کمی کو ایک متاثر کن برتاؤ کے ذریعے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
لڑکیوں میں، جوسب کی سب کوسیمو کو پہلی نظر میں قدرے جھبری اور زرد لگیں، شادمانی کا ایسا عنصر مرتعش تھا جس پر ہمیشہ بروقت قابو پالیا جاتا تھا۔ دو لڑکیاں ایک درخت سے دوسرے درخت کے درمیان شٹل کاک سے کھیل رہی تھیں۔ ان کی ٹک ٹک جاری تھی کہ اچانک ایک چیخ ابھری۔ شٹل کاک سڑک پر گر گئی تھی۔ اولیواباسا کے ایک بھکاری نے اسے اٹھایا اور دو پیسیتا کی اجرت کے عوض واپس پھینک دیا۔
آخری درخت پر جو ایلم کا تھا، ال کوندی نامی ایک بوڑھا شخص تھا۔ اس کا لباس پھٹا پرانا اور سر وِگ سے تہی تھا۔ فادر سلپیسیو نے نزدیک پہنچنے پر اپنی آواز دھیمی کرلی اور کوسیمو نے بھی خود کو اس کی تقلید کرتے پایا۔ ال کوندی بار بار ایک شاخ کو اپنے بازو سے ہٹا کر پہاڑی کے نشیب اور دور فاصلے میں مدغم ہوتے ہوے سبزوطلائی رنگ سے بھرے ایک میدان کو دیکھ رہا تھا۔
سلپیسیو نے سرگوشیوں میں کوسیمو کو شاہ چارلس کے قید خانوں میںاس کے بیٹے کی قید اور ایذارسانی کا قصہ سنایا۔ کوسیمو نے محسوس کیا کہ طبقۂ خواص کے وہ تمام لوگ ایک طرح سے جلاوطنی کی اداکاری کر رہے ہیں اور انھیں یہ بات بار بار یاد کرنی اور اپنے آپ کو بتانی پڑ رہی ہے کہ وہ وہاں کیوں ہیں؛ مگر یہ بوڑھا شخص وہ فردِ واحد تھا جو حقیقتاً دکھ اٹھا رہا تھا۔ شاخ کو حرکت دینے کا یہ عمل، گویا کہ اسے کسی اور زمین کے نمودار ہونے کا انتظار ہو، یہ ہلکورے لیتے ہوے فاصلے میں اپنی نظروں کا دور دور تک گاڑنا، گویا کہ افق کو کبھی نہ دیکھ پانے کی امید ہو مگر دور بہت دور، شاید کسی مقام کو دیکھ لینے کی آس ہو— جلاوطنی کی یہ پہلی حقیقی علامت تھی جو کوسیمو کو نظر آئی۔ اور وہ یہ بھی سمجھ گیا کہ طبقۂ خواص کے دیگر لوگوں کے لیے اپنے آپ کو یکجا رکھنے اور ایک مقصد عطا کرنے والی واحد شے کے طور پر ال کوندی کی موجودگی کس قدر اہم ہے۔ وہ جو غالباً ان سب سے غریب اور بلاشبہ وطن میں سب سے کم اہم تھا، انھیں یاد دلاتا تھا کہ انھیں دراصل کیا دکھ اٹھانا اور کیا کچھ کرنا چاہیے۔
ان ملاقاتوں سے واپس آتے ہوے کوسیمو نے ایک بید کے درخت پر ایک لڑکی کو دیکھا جسے اس نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ چند جستوں میں وہ اس کے پاس جا پہنچا۔
وہ ہلکے نیلے رنگ کی خوبصورت آنکھوں والی لڑکی تھی اور اس کی جلد سے مسحور کن خوشبو پھوٹ رہی تھی۔ وہ ایک بالٹی تھامے ہوے تھی۔
’’میں جب سب سے مل رہا تھا تو میں نے تمھیں نہیں دیکھا؟‘‘
’’میں کنویں سے پانی نکال رہی تھی۔‘‘ وہ مسکرائی۔ بالٹی سے، جو قدرے ترچھی تھی، پانی چھلک رہا تھا۔ اسے سیدھا رکھنے میں اس نے لڑکی کی مدد کی۔
’’سو تم درختوں سے نیچے اترتی ہو؟‘‘
’’نہیں۔ چیری کاایک پرانا خمیدہ درخت ہے جس کی شاخیں ایک آنگن کی دیوار پر جھکی ہوئی ہیں۔ وہاں سے ہم بالٹیاں نیچے اتارتے ہیں۔ آؤ۔‘‘
وہ ایک شاخ کے ساتھ ساتھ گئے اور دیوار پر چڑھ گئے۔ وہ رہنما کے طور چیری کے درخت پر پہلے گئی۔ نیچے کنواں تھا۔
’’دیکھا تم نے، بیرن؟‘‘
’’تمھیں کیسے معلوم ہوا کہ میں بیرن ہوں؟‘‘
’’میں سب کچھ جانتی ہوں۔‘‘ وہ مسکرائی۔
’’تمھارے آنے کے بارے میں میری بہنوں نے مجھے فوراً بتا دیا تھا۔‘‘
’’ان لڑکیوں نے جو شٹل کاک سے کھیل رہی تھیں؟‘‘
’’ہاں، آئرینا اور رائمندا۔‘‘
’’دون فریدریکو کی بیٹیاں؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’اور تمھارا کیا نام ہے؟‘‘
’’اُرسلا۔‘‘
’’درختوں پر سفر کرنے میں تم یہاں ہر ایک سے زیادہ ماہر ہو۔‘‘
’’میں بچپن ہی سے درختوں پر چڑھتی رہی ہوں۔ غرناطہ میں ہمارے ہاں بہت بڑے بڑے درخت تھے۔‘‘
’’وہ گلاب توڑ سکتی ہو؟‘‘ ایک درخت کی چوٹی پر ایک بے قاعدہ گلاب کھلا تھا۔
’’افسوس، نہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ میں تمھارے لیے توڑلاتا ہوں۔‘‘ وہ گیا اور گلاب کے ساتھ لوٹا۔
ارسلا مسکرائی اور اپنے ہاتھ آگے بڑھا دیے۔
’’میں اسے خود لگانا چاہتا ہوں۔ بتاؤ کہاں لگاؤں؟‘‘
’’میرے بالوں میں لگا دو، شکریہ،‘‘ اور اس نے کوسیمو کے ہاتھوں کی رہنمائی کی۔
’’اب مجھے بتاؤ،‘‘ کوسیمو نے پوچھا، ’’کیا تم اس اخروٹ کے درخت تک پہنچ سکتی ہو؟‘‘
’’یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘ وہ ہنس پڑی۔ ’’میں چڑیا نہیں ہوں۔‘‘
’’ٹھہرو۔‘‘ کوسیمو نے ایک رسّی کا سرا اس تک پھینکا۔ اگر تم اپنے آپ کو اس رسّی سے باندھ لو تو میں تمھیں اوپر اٹھا لوں گا۔‘‘
’’نہیں۔۔۔ مجھے ڈر لگتا ہے۔۔۔‘‘ لیکن وہ ہنس رہی تھی۔
’’یہ میرا طریقہ ہے۔ میں برسوں سے اس طرح سفر کر رہا ہوں، اور سب کچھ اپنے آپ ہی کرتا ہوں۔‘‘
’’ماما مِیا!‘‘
اس نے لڑکی کو اوپر پہنچایا۔ پھر وہ خود آیا۔ وہ اخروٹ کا ایک نو عمر درخت تھا جو ذرا بھی بڑا نہ تھا۔ وہ دونوں بہت قریب تھے۔ ارسلا ابھی تک ہانپ رہی تھی اور اپنی پرواز سے سرخ ہو رہی تھی۔
’’ڈر گئی ہو؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ مگر اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔
’’تم نے گلاب کو گرنے نہیںدیا۔‘‘ اس نے پھول کو ٹھیک کرنے کے لیے اسے چھوا۔
اس طرح درخت پر قریب ہونے کی وجہ سے ان کے بازو ہمہ وقت ایک دوسرے کے گرد تھے۔
’’اوہ!‘‘ وہ بولی اور پھر انھوں نے— کوسیمو نے پہل کی — ایک دوسرے کو چوما۔
اس طرح ان کی محبت کا آغاز ہوا۔ لڑکا شاداں و حیراں تھا۔ لڑکی خوش تھی مگرحیران ذرا بھی نہ تھی (لڑکیوں کے لیے کوئی بات بھی اتفاقی نہیں ہوتی)۔ اس محبت کا، جو اَب ناقابلِ توجیہہ طور سے آپہنچی تھی، کوسیمو کو مدت سے انتظار تھا۔ اور یہ اس قدر خوبصورت تھی کہ اس کی خوبصورتی کے بارے میں، اس نے پہلے کیا سوچا تھا اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اور اس کے لیے سب سے نئی بات اس کی حد درجہ سادگی تھی۔ اس لمحے کوسیمو نے سوچا کہ یہ سدا ایسی ہی رہے گی۔

۱۸
آڑو، بادام اور چیری کے درخت بہار پر تھے۔ کوسیمو اور ارسلا اپنے دن درختوں پر اکٹھے گزار رہے تھے۔ بہار نے ارسلا کے رشتے داروں کی ماتمی قربت کو بھی شادمانی کا رنگ بخش دیا تھا۔
میرے بھائی نے جلد ہی جلاوطنوں کی آبادی میں خود کو کارآمد بنا لیا۔ اس نے ایک سے دوسرے درخت پر جانے کے انھیں کئی طریقے سکھائے اور ہسپانوی نوابوں کو اپنا دائمی سکون ذرا دیرکے لیے چھوڑنے اور تھوڑی بہت حرکت کی مشق کرنے پر آمادہ کیا۔ اس نے درختوں کے درمیان رسیوں کے کئی پل بھی بنائے جن کی بدولت معمر جلاوطن ایک دوسرے کے پاس آنے جانے لگے۔ اور یوں تقریباً ایک سال کے دوران، جو اس نے ہسپانویوں کے ساتھ گزارا ،کوسیمو نے آبادی کو بہت سی اختراعات سے شناسا کیا۔ ان میں پانی ذخیرہ کرنے کی جگہیں، تنور اور سونے کے لیے سمور کے تھیلے شامل تھے، اور یہ سب اس کی اپنی ایجادیں تھیں۔ ہر چند کہ وہ اس کے پسندیدہ مصنفوں کی آرا سے کسی طور بھی متفق نہیں تھے، مگر نئی ایجادات کے لیے اس کا شوق اسے ان جلاوطن لوگوں کی مدد کرنے پراکساتاتھا۔ اس طرح، ان پاکباز لوگوں کی روزانہ اعتراف کرنے کی خواہش کو دیکھتے ہوے، اس نے ایک درخت کے تنے کو کھوکھلا کر کے ایک اعتراف گاہ بنائی جس میں داخل ہو کر دبلا پتلا دون سلپیسیو ایک چھوٹی سی پردے والی جالی میں سے ان کے گناہوں کو سن سکتا تھا۔
درحقیقت، تکنیکی جدت پسندی کے لیے اس کا خالص شوق اسے تسلیم شدہ ہیئتوںکو خراج پیش کرنے سے بچانے کے لیے ناکافی تھا۔ اسے تصورات درکار تھے۔ کوسیمو نے کتب فروش اوربیچی کو لکھا کہ اس دوران جو نئی کتابیں آئی ہوں اومبروسا سے اولیواباسا آنے والی ڈاک کے ذریعے بھیج دے۔ اس طرح وہ ارسلا کو Paul et Virginie اور La Nouvelle Heloise پڑھ کر سنا پایا۔
جلاوطن اکثر ایک بڑے بلوط پر اپنے اجلاس منعقد کرتے تھے۔ ان پارلیمانوں میں وہ اپنے فرمانروا کو لکھے جانے والے خطوط کے مسودے تیار کرتے تھے۔ شروع شروع میں ان خطوط کا لہجہ برہمی، احتجاج اور دھمکی، بلکہ آخری انتباہ کا ہوتا تھا، مگر رفتہ رفتہ ان میں سے کوئی نہ کوئی ایسی ترتیبِ الفاظ تجویز کردیتا جو زیادہ نرم و باادب ہوتی۔ انجام کار انھوں نے ایک ایسی درخواست کا مسودہ تیار کر لیا جس میں وہ اپنے آپ کو مودبانہ طور پر بادشاہ کے قدموں پر جھکا کر معافی کے خواستگار ہوے۔
تب ال کوندی کھڑا ہوا۔ سب لوگ خاموش تھے۔ ال کوندی نے اوپر دیکھتے ہوے ایک مدھم مرتعش آواز میں بولنا شروع کیا اور وہ سب کچھ کہہ دیا جو اس کے دل میں تھا۔ جب اس نے دوبارہ اپنی نشست سنبھالی تو دوسرے سنجیدہ اور گنگ تھے۔ کسی نے درخواست کے بارے میں مزید بات نہیں کی۔
اس وقت کوسیمو آبادی کا ایک فرد بن چکا تھا اور مباحث میں حصہ لینے لگا تھا۔ وہ ان بحثوں میں فلسفیوں کے خیالات اور فرمانرواؤں کی غلط کاریاں جوانی کے بے تصنع جوش کے ساتھ واضح کرتا، اور بتاتا کہ ریاستیں انصاف و معقولیت سے کیسے چلائی جاسکتی ہیں۔ مگر وہاں اس کی بات سننے والے گنتی کے چند لوگوں میں ال کوندی تھا، جو بوڑھا ہونے کے باوجود سمجھنے اور عمل کرنے کے نئے طریقوں کی تلاش میں رہتا تھا، یا اُرسلا تھی جس نے چند کتابیں پڑھ رکھی تھیں، یا دو ایک دوسری لڑکیاں جو دوسروں کی نسبت زیادہ باشعور تھیں۔ آبادی کے باقی تمام لوگوں کے سر گویا جوتوں کے چرمی تلوں کے مانند تھے جن میں صرف کیلیں ہی ٹھونکی جاسکتی تھیں۔
درحقیقت، اب ال کوندی کو ارضی منظر پر مسلسل غوروفکر میں اپنا وقت صرف کرنے کے بجاے کتابیں پڑھنے کی طلب ہونے لگی۔ روسو کو وہ قدرے اکھڑ خیال کرتا تھا مگر مونتیسکیو (Montesquieu) کو پسند کرتا تھا؛ یہ پہلا قدم تھا۔ طبقۂ خواص کے دیگر لوگ کچھ بھی نہیں پڑھتے تھے۔ تاہم ان میں سے دوایک فادر سلپیسیوسے رازدارانہ درخواست کرتے کہ وہ کوسیمو سے کہہ کر انھیں La Puelzella نامی کتاب دلوائے تاکہ وہ اس کے ناشائستہ حصے پڑھ سکیں۔ یوں، کوسیمو کے نئے خیالات پر ال کوندی کے غوروفکر کی وجہ سے، بلوط کے درخت پر ہونے والی نشستوں نے ایک نیا موڑ لیا، یہاں تک کہ اسپین جا کر انقلاب برپا کرنے کی بات بھی کی گئی۔
پہلے پہل فادر سلیپسیو نے خطرے کا احساس نہیں کیا۔ وہ خود زیادہ باریک بین آدمی نہیں تھا اور اپنے سربراہوں کے نظامِ مراتب سے الگ ہونے کے باعث اس بات سے بے خبر تھا کہ ان دنوں لوگوں کے ذہنوں کو کس طرح مسموم کیا جارہا تھا۔ لیکن جونہی وہ نئے سرے سے اپنے خیالات کو ترتیب دینے کے قابل ہوا (یا جونہی — دوسروں کا کہنا تھا — اسے بشپ کی مہر لگے کئی خط ملے) اس نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ شیطان ان کی آبادی میں در آیا ہے اور یہ کہ ان پر بجلیاں ٹوٹیں گی جو درختوں کو ان پر موجود ہر کسی سمیت جلا ڈالیں گی۔
ایک رات کو کراہنے کی آواز سے کوسیمو کی آنکھ کھل گئی۔ وہ لالٹین لے کر اس طرف بڑھا۔ اس نے دیکھا کہ ال کوندی اپنے بلوط پر تنے سے بندھا ہوا ہے اور یسوعی فادر سلپیسیو گانٹھیں کس رہا ہے۔
’’ٹھہریے، فادر! آپ کیا کر رہے ہیں؟‘‘
’’مقدس عدالتِ احتساب کا بازو، بیٹا! اب یہ اس بدنصیب بوڑھے پر ہے کہ اپنے کفر کا اعتراف کرلے اور شیطان پر لعنت بھیج دے۔ پھر تمھاری باری آئے گی۔‘‘
کوسیمو نے اپنی تلوار نکالی اور رسیاں کاٹ دیں۔ ’’خبردار، فادر! ایسے ہتھیار بھی ہیں جو معقولیت اور انصاف کی خدمت کرتے ہیں!‘‘
یسوعی پادری نے اپنے چوغے سے ایک برہنہ تلوار نکال لی۔ ’’روندو کے سردار، کچھ وقت سے تمھارے خاندان کو میرے فرقے کا حساب چکانا ہے!‘‘
’’میرا ضعیف باپ ٹھیک کہتا تھا،‘‘ تلواروں کی جھنکار میں کوسیمو نے اعلان کیا۔ ’’یسوعیوں کی انجمن معاف نہیں کرتی!‘‘
وہ درختوں پر ڈگمگاتے ہوے لڑ رہے تھے۔ دون سلپیسیو بہت عمدہ شمشیرزن تھا اور اکثر موقعوں پر میرا بھائی خود کو مشکل میں گھرامحسوس کررہا تھا۔ وہ مقابلے کے تیسرے دور میں تھے کہ ال کوندی نے اپنے کو سنبھالا اور لوگوں کو آوازیں دینے لگا۔ دوسرے جلاوطن جاگ گئے۔ وہ تیزی سے اس جگہ پہنچے اور بیچ بچاؤ کرانے لگے۔ سلپیسیو نے اپنی تلوار فوراً رکھ دی اور، گویا کچھ ہوا ہی نہ ہو، جلدی جلدی سب کو خاموش کرانے لگا۔
کسی اور آبادی میں ایسے سنگین واقعے کو دبا دینا ممکن نہ ہوتا، مگر اپنی سوچوں کو کم سے کم رکھنے کی خواہش کی بدولت، اس آبادی میں ممکن تھا۔ لہٰذا دون فریدریکو نے اپنی خدمات پیش کیں اور دون سلپیسیو اور ال کوندی میں ایک طرح کی مصالحت کروادی گئی اور ہر چیز ویسی ہی ہو گئی جیسے پہلے تھی۔
یقینا کوسیمو کو محتاط ہونا پڑا۔ جب وہ اُرسلا کے ساتھ درختوں پر جاتا تو اسے یسوعی کی طرف سے اپنی جاسوسی کا مستقل خطرہ رہتا۔ وہ جانتا تھا کہ دون فریدریکو ان کے مراسم سے فکرمند ہے، کیونکہ اب لڑکی کو اس کے ساتھ باہر جانے سے روک دیا گیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ رئیس خاندان ایک بہت سخت اخلاقی ضابطے کے پابند تھے مگراب وہ عالم جلاوطنی میں درختوں پر تھے اور ایسی باتوں کے بارے میں ؎ زیادہ فکرمند نہیں ہوتے تھے۔ کوسیمو انھیں ایک اچھا نوجوان نظر آتا تھا اور اس کے پاس ایک خطاب بھی تھا۔ پھر وہ دوسروں کے کام آنا بھی جانتا تھا۔ وہ ان کے ساتھ اپنی مرضی سے ٹھہرا ہوا تھا۔ اب اگر کوسیمو اور ارسلا کے درمیان کوئی لطیف جذبہ تھا اور وہ ان دونوں کو اکثر درختوں میں پھل پھول کے لیے جاتے دیکھتے تو اپنی آنکھیں بند کرلیتے تاکہ اعتراض کی کوئی بات ہی نظر نہ آئے۔
تاہم اب دون سلپیسیو کے دباؤ کی وجہ سے، دون فریدریکو کچھ نہ جاننے کا بہانہ نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے کوسیمو کو اپنے درخت پر طلب کیا۔ اس کے پہلو میں سلپیسیو کا طویل سیاہ سراپا تھا۔
’’بیرن، مجھے بتایا گیا ہے کہ تم میری بیٹی کے ساتھ اکثر گھومتے دیکھے جاتے ہو۔‘‘
’’عالی مرتبت، وہ مجھے آپ لوگوں کی زبان بولنا سکھا رہی ہے۔‘‘
’’تمھاری عمر کتنی ہے؟‘‘
’’تقریباً انیس سال۔‘‘
’’نوجوان، بہت چھوٹے ہو! میری بیٹی شادی کی عمر کو پہنچ گئی ہے۔ تم اس کے ساتھ کیوں گھومتے ہو؟‘‘
’’ارسلا سترہ سال کی ہے۔‘‘
’’کیا تم ابھی سے اپنی شادی کے بارے میں سوچ رہے ہو؟‘‘
’’کس کے بارے میں؟‘‘
نوجوان، میری بیٹی تمھیں ٹھیک سے ہسپانوی نہیں پڑھاتی۔ میرا مطلب تھا، کیا تم اپنے لیے دلہن منتخب کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہو؟ گھر بنانے کا ارادہ ہے؟‘‘
سلپیسیو اور کوسیمو دونوں نے اپنے ہاتھ آگے بڑھائے۔ گفتگو ایک ایسا موڑ لے رہی تھی جس کی خواہش یسوعی کوبالکل نہ تھی، اور میرے بھائی کو اس سے بھی کم۔
’’میرا گھر...‘‘ کوسیمو نے بلند ترین شاخوں اور بادلوں کی جانب ہاتھ ہلاتے ہوے کہا، ’’میرا گھر ہر کہیں ہے، ہر کہیں جہاں میں چڑھ سکتا ہوں، اوپر کی جانب۔۔۔‘‘
پرنس فریدریکو الونسو نے اپنا سر نفی میں ہلایا۔ ’’بیرن، اگر ہماری وطن واپسی پر تم غرناطہ آنے کی تکلیف کرو تو سیئرا کی شاداب ترین جاگیر دیکھو گے، یہاں سے کہیںبہتر۔‘‘
اب دون سلپیسیو خود پر قابو نہ رکھ سکا۔ ’’لیکن عالی مرتبت، یہ نوجوان والتیئر کاپیرو ہے۔۔۔ اسے آپ کی بیٹی کے ساتھ ہرگز نہیں گھومنا چاہیے۔۔۔‘‘
’’ارے،ابھی چھوٹا ہے۔ اس کی شادی ہو جانے دو، خیالات بدل جائیں گے۔ تم ضرور غرناطہ آنا۔‘‘
’’آپ کا بہت شکریہ۔۔۔ میں اس بارے میں سوچوں گا۔۔۔‘‘ اور کوسیمو اپنے ہاتھوں میں بلی کے سمور والی ٹوپی کو گھماتے ہوے، بہت سی کورنشوں کے بعد رخصت ہو گیا۔
جب وہ دوبارہ ارسلا سے ملا تو بہت گہری سوچ میں تھا۔ ’’جانتی ہو، ارسلا، تمھارے والد نے مجھ سے تمھارے بارے میں بات کی ہے۔۔۔ انھوں نے کئی موضوع چھیڑے۔۔۔‘‘
ارسلا چوکنّی ہو گئی۔’’تمھارا مطلب ہے وہ نہیں چاہتے کہ ہم ایک دوسرے سے ملا کریں؟ ‘‘
’’نہیں یہ بات نہیں۔۔۔ وہ چاہتے ہیں کہ جب تم لوگوں کی جلاوطنی ختم ہو تو میں تمھارے ساتھ غرناطہ چلا چلوں۔۔۔‘‘
’’خدایا، ہاں! کیا عمدہ بات ہے!‘‘
’’لیکن، جانتی ہو، حالانکہ میں تم سے محبت کرتا ہوں، میں ہمیشہ درختوں پر رہا ہوں اور میں درختوں پر ہی رہنا چاہتا ہوں۔۔۔‘‘
’’ارے، کوسیمو، ہمارے ہاں بھی خوبصورت درخت ہیں۔۔۔‘‘
’’ہاں، لیکن اس دوران مجھے سفر کے لیے نیچے زمین پر آنا پڑے گا اور ایک دفعہ نیچے آیا۔۔۔‘‘
’’ابھی فکر نہ کرو، کوسیمو، فی الوقت ہم بہرحال جلاوطن ہیں اور ہو سکتا ہے کہ باقی ماندہ زندگی بھی یونہی رہیں۔‘‘
اور میرے بھائی نے اس بارے میں سوچنا چھوڑ دیا۔
لیکن ارسلا کا اندازہ غلط تھا۔ بعدازاں جلد ہی دون فریدریکو کو ایک خط ملا جس پر شاہی مہر ثبت تھی۔ تقدس مآب کی رحم دلانہ نرمی سے ان پر عائدپابندی منسوخ کر دی گئی تھی۔ رئیس جلاوطن اپنے گھروں اور اپنی جاگیروں کو لوٹ سکتے تھے۔ درختوں میں ایک دم ہلچل مچ گئی۔ ’’ہم واپس جارہے ہیں! ہم واپس جارہے ہیں! مادرید! کاردیز! اشبیلیہ!‘‘
جلد ہی یہ خبر شہر میں پھیل گئی۔ اولیواباسا کے باشندے سیڑھیاں لے آئے۔ کچھ جلاوطن نعرہ ہاے تحسین کے درمیان نیچے آگئے، دوسرے اپنا سامان اکٹھا کرنے کو رک گئے۔
’’لیکن قصہ ابھی ختم نہیں ہوا،‘‘ ال کوندی بار بار کہے جارہا تھا ۔’’کورتیس کو اس کا پتا چلے گا، اور بادشاہ کو!‘‘ لیکن چونکہ جلاوطنی کے کسی ساتھی کو اس لمحے اس سے اتفاق کرنے کی کوئی خواہش نہیں تھی، اور خواتین پہلے ہی اپنے پرانے فیشن کے ملبوسات کو نئی پوشاکوں سے بدلنے کے بارے میں سوچ رہی تھیں، اس نے اپنی تقریر کا رخ اولیواباسا کی آبادی کی طرف موڑ دیا۔ ’’اب ہم اسپین جارہے ہیں، اور پھر تم لوگ دیکھنا! ہم وہاں اپنا حساب چکائیں گے۔ میں اور یہ نوجوان انصاف پائیں گے!‘‘ اور اس نے کوسیمو کی طرف اشارہ کیا۔ کوسیمو پریشان ہو کر اختلاف ظاہر کرنے کے اشارے کرنے لگا۔
دون فریدریکو بہت سے لوگوں کے سہارے زمین پر اتر آیا تھا۔ ’’نیچے آؤ نوجوان!‘‘ اس نے چلاّ کر کوسیمو سے کہا۔ ’’نیچے آؤ بہادر نوجوان! ہمارے ساتھ غرناطہ چلو!‘‘
کوسیمو ہلنے سے متذبذب، ایک شاخ پر دبکی لگائے بیٹھا تھا۔
پرنس نے بات جاری رکھی، ’’کیوں نہیں؟ میں تمھیں اپنے بیٹوں کی طرح رکھوں گا!‘‘
’’جلاوطنی ختم ہوچکی ہے،‘‘ ال کوندی نے کہا۔ ’’ہم نے اتنے طویل عرصے جو سوچ بچار کیا ہے، اب اسے روبہ عمل لاسکتے ہیں۔ اب درختوں پر ٹھہرے رہنے سے کیا فائدہ، بیرن؟ اب کوئی وجہ نہیں ہے۔‘‘
کوسیمو نے اپنے بازو پھیلادیے۔ ’’میں یہاں آپ لوگوں سے پہلے آیا تھا عالی مرتبت اور آپ کے بعد بھی یہیں ٹھہروں گا!‘‘
’’تم پسپائی اختیار کرنا چاہتے ہو!‘‘ ال کوندی چلاّیا۔
’’نہیں، میںمزاحمت کرنا چاہتا ہوں،‘‘ بیرن نے جواب دیا۔
ارسلا جو نیچے جانے والے اوّلیں لوگوں میں تھی اور اپنی بہنوں کے ساتھ ایک گاڑی میں سامان بھر رہی تھی، درخت کی جانب دوڑی۔ ’’پھر میں تمھارے ساتھ رہوں گی! میں تمھارے ساتھ رہوں گی!‘‘ وہ سیڑھی پر چڑھنے لگی۔
اوروں میں سے چار پانچ نے اسے روکا، بلکہ کھینچ کر الگ کیا، اور درختوں سے سیڑھیاں ہٹا دیں۔
’’الوداع، ارسلا، خوش رہو!‘‘ اسے زبردستی گاڑی تک لے جائے جاتے دیکھ کر، جو بعدازاں روانہ ہو گئی، کوسیمو نے کہا۔
ایک خوشی کی بھونک سنائی دی۔ بجوکتا، اوتیمو ماسیمو، جو اس تمام وقت جب اس کا مالک اولیواباسا میں تھا، ناخوشی سے غراتا رہا تھا، آخرکار دوبارہ خوش نظر آرہا تھا۔ وہ مذاق میں ان چھوٹی چھوٹی بلیوں کے پیچھے دوڑ رہا تھا جو پیچھے چھوڑ دی گئی تھیں اور درختوں پر رہ گئی تھیں۔ اور وہ اپنی گردن کے بال پھیلا کر اس پر سسیا رہی تھیں۔
جلاوطن رخصت ہوگئے، کچھ گھوڑوں پر، کچھ گاڑی میں۔ سڑک صاف ہو گئی۔ میرے بھائی کے سوا اولیواباسا کے درختوں پر کوئی باقی نہ رہا۔ یہاں وہاں شاخوں میں اٹکا کوئی پَر یا ربن یا ہوا میں پھڑپھڑاتا لیس کا ٹکڑا رہ گیا، یا ایک دستانہ، ایک جھالردار چھتری، ایک پنکھا، ایک مہمیزدار جوتا۔

۱۹
پورے چاندوں، ٹراتے مینڈکوں اور چہچہاتی چڑیوں سے بھری گرمیوں کی رُت تھی کہ بیرن ایک بار پھر اومبروسا میں نظر آیا۔ شاخ در شاخ زقند بھرتا ہوا، چیں برجبیں، متجسّس اور متذبذب، وہ بھی کسی پرندے کی طرح بے چین لگتا تھا۔
جلد ہی یہ افواہیں گشت کرنے لگیں کہ وادی کی پرلی طرف کوئی سچینا نامی لڑکی اس کی داشتہ ہے۔ وہ لڑکی ایک الگ تھلگ مکان میں اپنی بہری خالہ کے ساتھ رہتی تو یقیناتھی اور ایک زیتون کی شاخ بھی اس کی کھڑکی کے قریب سے گزرتی تھی۔ چوک میں نکمّے یہ بحث کیا کرتے تھے کہ وہ داشتہ ہے یا نہیں۔
’’میں نے ان دونوں کو دیکھا ہے۔ وہ کھڑکی کی دہلیز پر تھی اور کوسیمو شاخ پر۔ وہ چمگادڑ کی طرح اپنے بازو پھڑپھڑا رہا تھا اور وہ ہنسی سے دوہری ہوئی جارہی تھی۔‘‘
’’بعد میں وہ چھلانگ لگا کر اندر آجاتا ہے!‘‘
’’بکواس! اس نے زندگی بھر درختوں سے نہ اترنے کی قسم کھائی ہے۔‘‘
’’اس نے اصول بنایا ہے تو مستثنیات کی گنجائش بھی نکال سکتا ہے۔۔۔‘‘
’’ہوں، اگر ہم مستثنیات کی بات کر رہے ہیں۔۔۔‘‘
’’نہیں نہیں، لڑکی خود کھڑکی سے چھلانگ لگا کر زیتون پرجاتی ہے!‘‘
’’تو پھر وہ کس طرح۔۔۔؟ وہ لازماً بڑی بے آرامی میں ہوتے ہوں گے۔۔۔‘‘
’’میں تو کہتا ہوں انھوں نے کبھی ایک دوسرے کو چھوا بھی نہیں ہے۔ ہاں وہ اسے رجھاتا ہے، یا ہو سکتا ہے کہ وہ اسے اکسا رہی ہو۔ لیکن وہ کبھی نیچے نہیں آئے گا۔۔۔‘‘
ہاں، نہیں، کوسیمو، سچینا، دہلیز، چھلانگ، شاخ۔۔۔ یہ بحثیں بے اَنت لگتی تھیں۔ اب اگر منگیتریں یا بیویاں کسی درخت کی طرف نظر بھی اٹھاتیں تو ان سے منسوب شدہ نوجوان اور شوہر فوراً اپنا ردِعمل ظاہر کرتے۔ جہاں تک عورتوں کا تعلق ہے تو وہ آپس میں ملتے ہی چپڑچپڑ شروع کر دیتیں۔ وہ کیا باتیں کرتی تھیں؟ ظاہر ہے، اسی کے بارے میں۔
اب وہ سچینا ہو یا کوئی اور، میرے بھائی نے درختوں سے اترے بغیر آشنائیاں کی ہیں۔ ایک بار میں نے اسے کاندھے پر ایک گدا لٹکائے شاخوں پر دوڑتے دیکھا جو اس نے اتنی ہی آسانی سے لٹکا رکھا تھا جتنی آسانی سے وہ بندوقیں، رسیاں، کلھاڑیاں، پانی کی چھاگلیں یا بارود کی بوتلیں لٹکاتا تھا۔
ڈوروتھیانامی ایک طوائف نے مجھ سے اعتراف کیا کہ وہ خود اپنے ایما پر اس سے مل چکی ہے، پیسے کے لیے نہیں بلکہ محض ایک تاثر حاصل کرنے کے لیے۔
’’کیا تاثر حاصل کیا تم نے؟‘‘
’’ہوں! میں بالکل مطمئن ہوں۔۔۔‘‘
ایک اور نے جس کا نام زبیدے تھا، مجھے بتایا کہ اس نے ’’درختوں والے آدمی‘‘ کو، جیساکہ اسے کہا جاتا تھا، خواب میںدیکھا ہے۔ یہ خواب اس قدر مفصل اور اس قدر غیرمعمولی طور پردرست معلومات سے بھرپور تھا کہ میں سمجھتا ہوں اس نے لازماً اسے حقیقت میں جیا ہوگا۔
خیر، میں نہیں جانتا کہ یہ کہانیاں کس طرح پھیلیں، لیکن کوسیمو میں عورتوں کے لیے یقینا دلربائی رہی ہوگی۔ وہ جب سے ہسپانویوں کے ساتھ رہا تھا، اپنی وضع قطع کا زیادہ خیال رکھنے لگا تھا۔ اس نے ریچھ کی طرح سمور لپیٹے پھرنا چھوڑنا دیا تھا۔ وہ موزے اور گاؤدُم کوٹ پہننے لگا تھا اور اس کے سر پر انگریزی رواج کے مطابق ایک اونچا ہیٹ ہوتا تھا۔ وہ روزانہ داڑھی مونڈتا اور اپنی وِگ میں کنگھی کرتا۔ اب کوئی بھی اس کے لباس کو دیکھ کر تیقن سے کہہ سکتا تھا کہ وہ شکاری مہم پر جارہا ہے یا کسی محبوبہ سے ملنے۔
کہانی یوں ہے کہ ایک پختہ کار اور عالی مرتبہ خاتون، جس کا نام میں نہیں بتاؤں گا کہ اس کا تعلق اومبروسا ہی سے تھا (اس کے بیٹے اور پوتے اب تک یہاں رہتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ اس ذکر سے ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچے، لیکن اُن دنوں یہ کہانی زبان زد خاص و عام تھی)، وہ ہمیشہ ایک بوڑھے کوچوان کے ساتھ بگھی میں تنہا آیا جایا کرتی تھی۔ وہ بڑی سڑک کے ایک حصے پر جو جنگل سے گزرتا تھا، بگھی کو لے جاتی اور ایک خاص جگہ پہنچ کر کوچوان سے کہتی، ’’جیوویتا، جنگل کھمبیوں سے پٹا پڑا ہے۔ ذرا نیچے اترو اور اسے بھر لاؤ،‘‘ اور ان الفاظ کے ساتھ اسے ایک بڑی سی ٹوکری تھما دیتی۔ جوڑوں کے درد کا مارا غریب کوچوان اپنی نشست سے نیچے اترتا اور ٹوکری اپنے کاندھوں پر اٹھا کر سڑک پر چل پڑتا۔ وہ شبنم میں تر پودوں کے درمیان تلاش شروع کرتا اور چھتری نما یا گولا کھمبی ڈھونڈنے کے لیے ہر پتے کے نیچے جھکتا ہوا بتولوں میں دور سے دور تر نکل جاتا۔ دریں اثنا عالی مرتبہ خاتون بگھی سے اتر کرسڑک پر لٹکتی ہوئی موٹی موٹی شاخوں میں یوں غائب ہو جاتی گویا کہ آسمان پر چلی گئی ہو۔ اس سے زیادہ کچھ معلوم نہیں ماسواے یہ کہ گزرتے ہوے لوگ بگھی اکثر جنگل میں خالی کھڑی ہوئی دیکھا کرتے۔ پھر، جس پُراسرار انداز سے وہ عالی مرتبہ خاتون غائب ہوتی تھی، نڈھال دکھائی دیتی ہوئی وہ اسی انداز سے بگھی میں دوبارہ بیٹھ جاتی۔ تربترجیوویتا ٹوکری کی تہہ میں چند کھمبیاں لیے لوٹ آتا، اور وہ دوبارہ چل پڑتے۔
ان کہانیوں میں سے اکثراُن پانچ جینوائی خواتین کے گھر سنائی جاتی تھیں جو نوجوان امیروں کی دعوتیں کیا کرتی تھیں (جب میں کنوارا تھا تو خود بھی ان دعوتوں میں اکثر شریک ہوتا تھا) اور یوں ان خواتین پر اچانک بیرن سے ملاقات کرنے کا خبط سوار ہوگیا۔ حقیقت میں، بلوط کا ایک خاص درخت ابھی تک ’’پانچ چڑیوں والا بلوط‘‘ کہلاتا ہے، اور ہم بوڑھے جانتے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ کہانی کا راوی گی نامی، ایک کشمش کا بیوپاری ہے، جس کی بات کا اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ دھوپ بھرا ایک خوشگوار دن تھا اور یہ گیے نامی شخص جنگل میں شکار کھیل رہا تھا۔ وہ بلوط کے قریب پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ کوسیمو نے پانچوں خواتین کو اوپر شاخوں پر بٹھایا ہوا ہے، اور وہ سب بالکل عریاں، ایک اس شاخ پر تو دوسری اس شاخ پر، گرم سہ پہر کے مزے لے رہی ہیں۔ سورج سے بچنے کے لیے انھوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی چھتریاں کھول رکھی تھیں، اور بیرن ان کے جھرمٹ میں بیٹھا لاطینی اشعار پڑھ رہا تھا۔ شعر اووِڈ (Ovid) کے تھے یا لکریشیس (Lucratius) کے، گیے یہ نہیں سمجھ پایا۔
سو، اس کے بارے میں بہت سی کہانیاں مشہور تھیں۔ اب ان کہانیوں میں کتنی سچائی تھی، میں یہ نہیں جانتا۔ اس وقت وہ کسی حد تک کم آمیز اور ایسی باتوں کے بارے میں شرمیلا تھا، لیکن بڑھاپے میں وہ بہت، بلکہ بہت زیادہ، کہانیاں سنایا کرتا تھا، اگرچہ ان میں سے بیشتر اتنی غیرحقیقی ہوتی تھیں کہ وہ خود ان میں بھٹک کر رہ جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کوئی لڑکی حاملہ ہو جاتی اور کسی کو معلوم نہ ہوتا کہ اس کا ذمے دار کون ہے، تو لوگ آسانی سے کوسیمو پر الزام لگا دیتے اور یہ ان کی عادت بن گئی تھی۔ ایک بار ایک لڑکی نے بتایا کہ اس نے زیتون چنتے ہوے کس طرح اپنے آپ کو بندر جیسے دو لمبے بازوؤں کے ذریعے اوپر اٹھایا جاتا ہوا محسوس کیا۔۔۔ تھوڑے ہی عرصے بعد اس کے ہاں جڑواں بچے ہوے۔ اومبروسا بیرن کے حقیقی یا فرضی ناجائز بچوں سے بھر گیا۔ اب وہ سب جوان ہو چکے ہیں اور سچ ہے کہ چند کی صورت یقینا اس سے ملتی ہے، مگر یہ قوتِ ترغیب کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے، کہ حاملہ عورتیں جب کوسیمو کو اچانک ایک شاخ سے دوسری شاخ پر کودتے دیکھتیں تو ان کے جذبات میں تغیر آنا لازم تھا۔
جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں ان میںسے بہت سی کہانیوں پر، جو کئی پیدائشوں کی وضاحت میں سنائی جاتیں، یقین نہیں رکھتا۔ نہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس کے اتنی ہی عورتوں سے تعلقات تھے جتنی عورتوںسے لوگ اسے منسوب کرتے ہیں۔ لیکن جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ اسے جاننے والے اس کے بارے میں خاموش رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔
اور پھر، اگر اس کے پیچھے اتنی ہی عورتیں پڑی ہوئی تھیں، تو ان چاندنی راتوں کی کیسے وضاحت کی جاسکتی ہے جب وہ اومبروسا کے مکانوں کے باہری حلقے کو بلندی سے دیکھتے ہوے میوہ زاروں میں لگے انجیر، آلو بخارے اور بہی کے درختوں پر کسی بلی کی طرح گاؤں کے گرد ماتم کناں بھٹکتا پھرتا اور اس کی آہیں، جمائیاں یا کراہیں، قابو پانے اور عام آوازوں میں ادا کرنے کی ہزار کوششوں کے باوجود اس کے گلے سے عموماً چیخوں یا غراہٹوں کی صورت میں نکلتیں، اور اومبروسا کے لوگ، جو اس کی عادتوں سے واقف تھے، جب اپنی نیند میں یہ سب کچھ سنتے تو چونکتے تک نہ تھے۔ وہ فقط بستر میں کروٹ بدلتے اور کہتے، ’’بیرن کسی عورت کی تلاش میں ہے۔ خدا کرے اسے کوئی مل جائے اور ہم سو پائیں۔‘‘
بعض اوقات ان بوڑھوں میں سے جو بے خوابی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ذرا سے بھی شور پر کھڑکی تک جانے کے لیے بالکل تیار رہتے ہیں، کوئی باہر میوہ زار میں جھانکتا، اور انجیر کے پیڑوں کی شاخوں کے درمیان سے چاندنی میں زمین پر پڑتا ہوا کوسیمو کا سایہ دیکھتا۔ ’’حضور والا، آج رات آپ سو نہیں پا رہے؟‘‘
’’نہیں۔ میں جتنا بھی جھولتا اور پہلو بدلتا ہوں اتنا ہی زیادہ بیدار محسوس کرتا ہوں،‘‘ کوسیمو اس طرح کہتا گویا کہ اپنا چہرہ تکیوں میں دبائے اپنے پپوٹوں کو بند ہوتا محسوس کرنے کی آرزو میں، اپنے بستر سے بول رہا ہو، جب کہ حقیقت میں وہ کسی بازی گر کی طرح معلق لٹک رہا تھا۔ ’’معلوم نہیں آج رات کیا بات ہے... گرمی... اعصاب... غالباً موسم بدل رہا ہے۔ کیا تم ایسا محسوس نہیں کرتے؟‘‘
’’ہوں، میں محسوس کرتا ہوں، میں محسوس کرتا ہوں۔۔۔ لیکن میں بوڑھا ہوں، حضور والا۔ اس کے برعکس آپ کے لہو میں جوش ہے۔۔۔‘‘
’’ہاں، سو تو ہے۔۔۔‘‘
’’خیر، کوشش کیجیے کہ یہ ذرا دوری پر جوش مارے، حضور سردار، کیونکہ یہاں آپ کو سکون دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ فقط غریب لوگ ہیں جنھیں نور کے تڑکے اٹھنا ہے اور جو اَب سونا چاہتے ہیں۔۔۔‘‘
کوسیمو جواب نہ دیتا۔ صرف سرسراہٹ پیدا کرتا ہوا میوہ زار کے اندر چلا جاتا۔ وہ ہمیشہ سے شائستگی کی حدود میں رہنا جانتا تھا اور جہاں تک اومبروسا کے لوگوں کا تعلق ہے تو وہ بھی ہمیشہ سے اس کی ترنگوں کو برداشت کرنا جانتے تھے۔ کچھ اس لیے کہ وہ سردار تھا اور کچھ اس لیے کہ وہ دوسروں سے مختلف سردار تھا۔
بعض اوقات اس کی حیوانی آوازیں دوسری کھڑکیوں اور زیادہ مشتاق کانوں تک پہنچتیں۔ بلاشبہ کسی روشن ہوتی موم بتی، دبی دبی ہنسی اور سایوں میں نسوانی سرگوشیوں کی آواز کا مطلب اس کے ساتھ مذاق کرنا یا اس کی نقل اتارنا تھا۔ اس کے باوجود اس متروک انسان کے لیے جو کسی بھڑ مانس کی طرح شاخوں پر اچھلتا پھرتا تھا، یہ بات نہایت سنجیدہ بلکہ محبت کی پکار تھی۔
اور اب زیادہ بے حیا لڑکیوں میں سے کوئی جس کا بدن اپنے بستر کی حرارت سے ابھی تک گرم ہوتا، پستان نظر آرہے ہوتے، بال کھولے، اپنے گداز ہونٹوں کے درمیان ایک اجلی مسکراہٹ لیے، کھڑکی تک آتی جیسے کہ یہ دیکھنے آئی ہو کہ باہر کیا ہے۔ پھر ایک مکالمہ شروع ہو جاتا۔
’’کون ہے؟ کیا بلی ہے؟‘‘
وہ کہتا، ’’ایک آدمی، ایک انسان۔‘‘
’’میاؤں میاؤں کرتا آدمی؟‘‘
’’نہیں، آہیں بھرتا۔‘‘
’’کیوں؟ کیا بات ہے؟‘‘
’’کوئی بات ہے۔۔۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’یہاں آؤ تو میںتمھیں بتاؤں۔۔۔‘‘
لیکن مردوں نے کبھی اس کی توہین نہیں کی۔ اور نہ کبھی کسی سے اس کا جھگڑا ہوا۔ یہ علامتیں، مجھے لگتا ہے، ظاہر کرتی ہیں کہ وہ کبھی اس حد تک خطرناک نہیں تھا۔ صرف ایک دفعہ وہ پُراسرار طور پر زخمی ہوا تھا۔ یہ خبر ایک صبح پھیل گئی۔ اومبروسا کے ڈاکٹر کواس اخروٹ کے پیڑ پر چڑھنا پڑا جہاں وہ کراہ رہا تھا۔ اس کی ایک ٹانگ ان گرابی چھرّوں سے بھری ہوئی تھی جو گوریّوں کے شکار میں استعمال ہوتے ہیں اور انھیں ایک ایک کرکے چمٹی سے نکالا جانا تھا۔ یہ عمل تکلیف دہ تھا لیکن وہ جلد ہی بحال ہو گیا۔ یہ بات کبھی صحیح طور سے معلوم نہ ہو سکی کہ اسے چھرے کیسے لگے تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ ایک شاخ پر چڑھتے ہوے اسے غلطی سے چھرے لگ گئے تھے۔
اخروٹ کے پیڑ پر افاقہ یابی اور غیرمتحرک ہونے کے دوران وہ سنجیدہ مطالعے میں ڈوب گیا۔ ان دنوں اس نے درختوں میں ایک مثالی ریاست کے آئین کے لیے ایک منصوبہ تحریر کرنا شروع کیا جس میں انصاف پسند لوگوں سے آباد ایک خیالی شجری جمہوریہ کو بیان کیا گیا تھا۔ اس نے اسے قوانین اور حکومتوں پر ایک مقالے کی حیثیت سے شروع کیا تھا لیکن دورانِ تحریر، پیچیدہ کہانیاں اختراع کرنے کی ترنگ اس کی راہ میں حائل ہوگئی اور مقالہ مہمات، مبارزتوں اور شہوانی واقعات کا ایک ابتدائی خاکہ بن کے رہ گیا۔ آخرالذکر عنصر، ازدواجی حقوق پر ایک باب میں شامل تھا۔ اس کتاب کا اختتام یہ ہونا چاہیے تھا: مصنف درختوں کی چوٹیوں پر ایک کامل ریاست قائم کرنے اور ساری انسانیت کو وہاں سکونت اختیار کرنے اور ہنسی خوشی رہنے پر قائل کرنے کے بعد زمین کو بسانے نیچے آگیا، جو اب ویران تھی۔ یہ ہے وہ اختتام جو ہونا چاہیے تھا، لیکن کتاب نامکمل رہی۔ اس نے دیدرو کوایک تلخیص محض یہ لکھ کر بھیج دی: ’’کوسیمو دی روندو، انسائیکلو پیڈیا کا قاری‘‘۔ دیدرو نے ایک مختصر رقعے کے ذریعے اس کا شکریہ ادا کیا۔

۲۰
میں اُس دور کے بارے میں زیادہ نہیں بتا سکتا، کہ وہ میرے اوّلیں سفرِ یورپ کا زمانہ تھا۔ میں نوجوان تھا اور خاندانی میراث کو جس طرح چاہتا استعمال کر سکتا تھا کیونکہ میرے بھائی کو اس میں سے بہت کم درکار تھا۔ یہی بات میری والدہ کے لیے بھی درست تھی جو بے چاری حال ہی میں بہت تیزی سے بوڑھی ہو گئی تھیں۔ میرے بھائی نے اس شرط پر کہ میں اسے ایک ماہانہ رقم دوں، اس کے محصول ادا کروں اور اس کے معاملات کو درست رکھوں، ہماری ساری جائیداد کا مختار نامہ میرے حق میں لکھ دینے کو کہا تھا۔ مجھے صرف جائیداد کا انتظام سنبھالنا تھا اور اپنے لیے بیوی کا انتخاب کرنا تھا۔ میں پہلے ہی اپنے سامنے وہ منظم اور پرسکون زندگی دیکھ رہا تھا، جو صدی کے خاتمے پر بڑے بڑے انقلابات کے باوجود، میں حقیقت میں گزارنے میں کامیاب رہا ہوں۔
لیکن یہ زندگی شروع کرنے سے پہلے میں نے اپنے کو سفر کا ایک وقفہ دیا۔ میں پیرس بھی گیا اور عین اس وقت وہاں پہنچا جب والتیئر کو، جو اپنی ایک تمثیل پیش کرنے کے لیے برسوں بعد لوٹا تھا، ایک فاتحانہ استقبالیہ دیا جارہا تھا۔ لیکن یہ میری زندگی کی یادداشتیں نہیں ہیں، جو اس لائق نہیں ہیں کہ تحریر میں لائی جائیں۔ میں اس سفر کا ذکر صرف اس لیے کر رہا ہوں کہ میں جہاں کہیں بھی گیا اومبروسا کے درخت نشیں شخص کی شہرت وہاں موجود تھی۔ غیرملکوں میں بھی یہی حال تھا۔ ایک دفعہ میں نے ایک جنتری میں ایک تصویر دیکھی جس کے نیچے یہ الفاظ درج تھے، ’’اومبروسا (جمہوریۂ جنیوآ) کا وحشی آدمی جو صرف درختوں میں رہتا ہے۔‘‘
اسے ایک لمبی داڑھی اور لمبی دم کے ساتھ ایک ٹڈی کھاتے ہوے اس طرح پیش کیا گیا تھا کہ اس کا سارا بدن پتوں سے چھپا ہوا تھا۔اس کی تصویر عفریتوں والے باب میں دو جنسے اور جل پری کے درمیان تھی۔
اس قسم کے واہمے کا سامنا ہوتا تو میں عام طور پر یہ بات ظاہر نہ کرنے کی احتیاط کرتا کہ وہ شخص میرا بھائی ہے۔ لیکن جب پیرس میں والتیئر کے اعزاز میں دیے گئے استقبالیے میں مجھے مدعو کیا گیا تو میں نے اس کا واضح اعلان کیا۔ بوڑھا فلسفی اپنی آرام کرسی میں تھا اور خواتین کے ایک ہجوم نے جو جھینگر کی طرح شاداں اور خارپشت کی طرح کٹیلی تھیں، اسے گھیر رکھا تھا۔ جب اس نے سنا کہ میں اومبروسا سے آیا ہوں تو مجھے یوں مخاطب کیا، ’’کیا وہ جگہ تمھارے نزدیک ہے، میرے عزیز کوالیئے، جہاں وہ مشہور فلسفی ہے جو درختوں پر رہتا ہے؟‘‘
مجھے اتنا فخر محسوس ہوا کہ میں اپنے کو جواب دینے سے نہ روک سکا۔ ’’وہ میرا بھائی ہے، موسیو، بیرن دی روندو۔‘‘
والتیئر بہت حیران ہوا، جزوی طور پرغالباً یہ دیکھ کرکہ ایسے عجیب مظہر کا بھائی بظاہر اس قدر عام شخص ہے، اور وہ مجھ سے اس طرح کے سوال کرنے لگا، ’’لیکن کیا تمھارا بھائی آسمان سے نزدیک تر رہنے کے لیے درختوں پر رہتا ہے؟‘‘
’’میرا بھائی سمجھتا ہے،‘‘ میں نے جواب دیا، ’’کہ ہر وہ شخص جو زمین کو مناسب طور سے دیکھنا چاہتا ہے، اسے لازم ہے کہ اپنے کو زمین سے ضروری فاصلے پر رکھے۔‘‘ والتیئراس جواب کو سراہتا ہوا لگا۔
’’کبھی صرف فطرت ہی زندہ مظاہر پیدا کرتی تھی،‘‘ اس نے بات سمیٹی۔ ’’اب یہ کام عقل کرتی ہے،‘‘اور عمر رسیدہ دانا اپنے خدا پرست مداحوں کے شوروغل میں پھر سے ڈوب گیا۔

جلد ہی ایک تاکیدی خط کے ذریعے واپس بلائے جانے کی وجہ سے مجھے اپنا سفر منقطع کرکے اومبروسا لوٹنا پڑا۔ ہماری والدہ کے دمے نے اچانک شدت اختیار کرلی تھی اور وہ بے چاری بستر سے ہلنے سے بھی معذور ہو گئی تھیں۔
جب میں نے دہلیز عبور کرکے اپنے مکان کی جانب نظریں اٹھائیں تو مجھے یقین تھا کہ اسے وہیں دیکھوں گا۔ کوسیمو، ہماری والدہ کی خواب گاہ کی دہلیز سے ذرا ہی باہر ایک شہتوت کے پیڑ کی اونچی شاخ پر دبکا ہوا بیٹھا تھا۔ ’’کوسیمو!‘‘ میں نے دبی ہوئی آواز میں صدا دی۔ اس نے جواب میں اشارہ کیا جس کا مطلب یہ بھی تھا کہ ہماری والدہ قدرے بہتر ہیں مگر ابھی تک بستر پہ ہیں، اور یہ بھی کہ میں خاموشی سے اوپر آؤں۔
کمرہ سائے میں تھا۔ میری والدہ بہت سارے تکیوں کے سہارے اپنے کاندھوں کو ٹکائے بستر میں لیٹی تھیں۔ وہ اتنی بڑی لگ رہی تھیں کہ پہلے کبھی نہیں لگی تھیں۔ گھر کی چند عورتیں ان کے آس پاس تھیں۔ باتیستا ابھی نہیں پہنچی تھی کیونکہ اس کے شوہر کاؤنٹ دیستومیک کو، جسے اس کے ساتھ آنا تھا، انگور کی فصل کی وجہ سے رکنا پڑ گیا تھا۔ کھلی ہوئی کھڑکی، جس میں درخت کی شاخ پر بیٹھا کوسیمو چوکھٹے میں جڑا ہوا نظر آرہا تھا، کمرے کے سائے میں دمک رہی تھی۔
میں والدہ کا ہاتھ چومنے کے لیے جھکا۔ وہ فوراً مجھے پہچان گئیں اور اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھ دیا۔ ’’ارے، تم آگئے، بیاجیو۔۔۔‘‘ جب دمہ ان کے گلے پر بہت زیادہ اثرانداز نہیں ہوتا تھا تو وہ کمزور سی آواز میں بولتی تھیں، لیکن صاف طور پر اور بڑے احساس کے ساتھ۔ گو جس بات نے مجھے متاثر کیا وہ انھیں ہم دونوں کو، کوسیمو اور مجھے، مخاطب کرتے ہوے سننا تھا، گویا کہ وہ بھی ان کے سرھانے موجود ہو۔ کوسیمو انھیں درخت سے جواب دے رہا تھا۔
’’کیا مجھے دوا کھائے بہت دیر ہو گئی، کوسیمو؟‘‘
’’نہیں، صرف چند منٹ ہوے ہیں، اماں۔ دوسری خوراک لینے سے پہلے ذرا ٹھہر جائیے کیونکہ ابھی اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘‘
ایک موقعے پر انھوں نے کہا، ’’کوسیمو، مجھے سنترے کی ایک پھانک دینا،‘‘ اور میں حیرت زدہ رہ گیا۔ لیکن اس سے بھی زیادہ حیران میں تب ہوا جب میں نے کوسیمو کو کھڑکی کے راستے ایک طرح کا جہازی ہارپون کمرے کے اندر بڑھاتے اور اس کے ذریعے سنترے کی ایک پھانک اٹھا کر ہماری والدہ کے ہاتھ پر رکھتے دیکھا۔
میں نے محسوس کیا کہ ایسی تمام چھوٹی چھوٹی خدمات کے لیے وہ اس کا سہارا لینے کو ترجیح دیتی تھیں۔
’’کوسیمو، میری شالیں دینا۔‘‘
اور وہ اپنے ہارپون کی مدد سے آرام کرسی پر بکھری ہوئی چیزوں میں تلاش کرکے شالیں اٹھاتا اور ان کے حوالے کر دیتا۔ ’’یہ رہیں، اماں۔‘‘
’’شکریہ، کوسیمو، میرے بیٹے!‘‘ وہ ہمیشہ اس طرح بات کرتیں گویا کہ وہ فقط گز دو گز کی دوری پر ہو لیکن میں نے محسوس کیا کہ وہ ایسے کاموں کے لیے کبھی نہ کہتی تھیں جنھیں وہ درخت پر سے نہیں کر سکتا تھا۔ ایسی صورتوں میں وہ ہمیشہ مجھ سے کہتیں یا پھر عورتوں سے۔
ہماری والدہ رات کو نہ سو سکیں۔ کوسیمو، ایک چھوٹی سی لالٹین شاخ سے لٹکائے کہ وہ بھی اندھیرے میں اسے دیکھ سکیں، درخت سے ان کی خبر گیری کرتا رہا۔
صبح کا وقت ان کے مرض کے لیے بدترین تھا۔ واحد علاج کوشش کرکے ان کی توجہ بانٹنا تھا۔ سو کوسیمو بانسری پر چھوٹی چھوٹی دھنیں بجا رہا تھا، یاپرندوں کے گیت کی نقل کر رہا تھا، یا تتلیاں پکڑ کر انھیں کمرے کے اندر چھوڑ رہا تھا، یا تخم دان کے پھولوں سے لڑیاں بنا رہا تھا۔
وہ ایک دھوپ بھرا دن تھا۔ کوسیمو ایک نرسل سے صابن کے بلبلے بنا کر، انھیں کھڑکی کے ذریعے بیمار عورت کے بستر کی طرف پھونکوں سے اُڑانے لگا۔ ہماری والدہ نے ان قوس قزحی رنگوں کو اڑتے اور کمرے کو پُر کرتے دیکھا تو بولیں، ’’ارے، تم کون سے کھیل کھیل رہے ہو!‘‘ اس بات سے مجھے وہ دن یاد آگئے جب ہم چھوٹے بچے تھے اور وہ ہمیشہ ہمارے کھیلوں کو، بے کار اور بچگانہ کہہ کر ناپسند کرتی تھیں، لیکن اب، اور غالباً پہلی بار، وہ ہمارے کھیلوں سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔ صابن کے بلبلے ان کے چہرے تک جاپہنچتے تھے اور وہ ایک مسکراہٹ کے ساتھ انھیں پھونک مار کے پھوڑ دیتیں۔ ایک بلبلہ ان کے ہونٹوں تک بھی پہنچا اور وہ وہاں جم گیا۔ ہم ان پر جھکے۔ کوسیمو کے ہاتھ سے نرسل گر پڑا۔ وہ گزرچکی تھیں۔

نوحہ گری، جلد یا بدیر، خوش آئند واقعات کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ یہ زندگی کا قانون ہے۔ ہماری والدہ کی وفات کے ایک سال بعد مقامی اشرافیہ کی ایک لڑکی سے میری منگنی ہو گئی۔ میری منگیتر کو اومبروسا میں رہنے کے تصور سے مانوس کرنا بہت مشکل تھا۔ وہ میرے بھائی سے خائف تھی۔ یہ خیال ہی اسے دہشت زدہ کرنے کو کافی تھا کہ پتوں کے درمیان ایک متحرک آدمی، جو کسی پل بھی نمودار ہو سکتا ہے، کھڑکیوں میں سے ہر حرکت دیکھ رہا ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ اس نے کوسیمو کو کبھی نہیں دیکھا تھا اور اسے ایک طرح کا وحشی تصور کرتی تھی۔ اس کے ذہن سے یہ خوف نکالنے کے لیے میں نے کھلی فضا میں، درختوں کے نیچے، ایک ظہرانے کا انتظام کیا، جس میں کوسیمو بھی مدعو تھا۔ کوسیمو کی نشست عین ہمارے اوپر ایک گلِ خطمی کے درخت پر تھی جہاں ایک چھوٹی سی سینی میں اسے کھانا دیا گیا۔ میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ، سماجی تقریبات کا عادی نہ ہونے کے باوجود، اس نے بھی عمدہ طور طریقے کا مظاہرہ کیا۔ میری منگیتر کسی حد تک مطمئن ہو گئی اور اس نے محسوس کیا کہ درختوں پررہنے سے قطع نظر وہ دوسرے لوگوں جیسا ہی ایک انسان ہے۔ اس کے باوجود بے اعتمادی کا ایک ناقابلِ تسخیر احساس میری منگیتر پر طاری رہا۔
شادی کے بعد، جب ہم اومبروسا والی کوٹھی میں رہنے لگے، تو بھی وہ نہ صرف اپنے جیٹھ سے بات کرنے سے گریز کرتی بلکہ جہاں تک ممکن تھا اس کا سامنا کرنے سے بھی کتراتی، حالانکہ وہ بے چارہ گاہے بگاہے اس کے لیے پھولوں کے گچھے اور نادر سمور لایا کرتا تھا۔ جب بچے پیدا ہونے اور بڑے ہونے لگے تو اس کے دماغ میں یہ خبط سما گیا کہ تایا کی قربت ان کی تعلیم پر برا اثر مرتب کرے گی۔ وہ اس وقت تک خوش نہ ہوئی جب تک ہم نے روندو والی جاگیر میں اپنے پرانے قلعے کو، جو مدت سے غیرآباد تھا، رہنے کے قابل نہ بنا لیا، اور اومبروسا کی نسبت وہاں زیادہ مقیم نہ رہنے لگے تاکہ بچے برے اثرات سے دور رہیں۔

وقت گزرنے کا احساس کوسیمو کو بھی ہونے لگا۔ اس کی ایک علامت بجو کتے اوتیمو ماسیمو کی سن رسیدگی تھی، جوغول کی کتیوں میں شامل ہوکر لومڑیوں کے پیچھے جانے کی خواہش کھو چکا تھا، اور نہ ہی اب مقامی دوغلی کتیوں سے بے تکے معاشقوں کی کوشش کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ زمین پر لیٹا رہتا تھا، کہ سیدھا کھڑا ہونے کی صورت میں اس کا پیٹ زمین سے اس قدر قریب ہوتا تھا کہ سیدھا کھڑا ہونا اس کے لیے سودمند نہیں تھا۔ اور اس درخت کے دامن میں جس پر کوسیمو ہوتا، تھوتھنی سے دم تک پھیل کر لیٹا ہوا وہ اپنے مالک پر ایک تھکی ہوئی نظر ڈالتا اور بمشکل اپنی دم ہلاتا۔ کوسیمو غیرمطمئن ہوتا جارہا تھا۔ گزرتے وقت کا احساس اسے اپنی زندگی سے، جو انھیں پرانے درختوں پر متواتر اوپر نیچے بھٹکنے میں گزری تھی، ایک طرح کی بے اطمینانی میں مبتلا کرنے لگا۔ اب کوئی بھی چیز اسے مکمل طمانیت نہیں دیتی تھی— کیا شکار، کیا عارضی آشنائیاں، کیا کتابیں۔ اسے خود بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ ایسی ہی کسی کیفیت کے زیراثر وہ کمزور اور سب سے نازک ٹہنیوں پر تیزی سے چڑھ جاتا، گویا کہ ابھی اور اونچا اگنے والے درختوں کی تلاش میں ہو، تاکہ انھیں بھی تسخیر کرے۔
ایک دن اوتیمو ماسیمو بے چین تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ بہار کی ہوا چل پڑی ہو۔ کتے نے اپنی تھوتھنی اٹھا کر سونگھا اور پھر اپنے آپ کو نیچے گرا دیا۔ وہ دو تین بار اٹھا، اردگرد گھوما اور دوبارہ لیٹ گیا۔ اچانک اس نے دوڑنا شروع کردیا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد سانس لینے کے لیے رکتا ہوا، وہ آہستہ آہستہ دلکی چلتا رہا۔ کوسیمو شاخوں پر اس کا پیچھا کرتا رہا۔
اوتیمو ماسیمو جنگل کی طرف جارہا تھا۔ وہ اپنے ذہن میں ایک بالکل صحیح سمت لیے ہوے لگتا تھا، کیونکہ جب وہ پیشاب کرنے کے لیے کبھی کبھار رکتا، تو زبان نکالے اپنے مالک کو دیکھتا رہتا۔ پھر اپنے آپ کو کھجاتا اور ایک بار پھر تیقن کے ساتھ چل پڑتا۔ وہ جنگل کے ایسے حصوں میں جا رہا تھا جہاں کوسیمو کا گزر بہت کم تھا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ علاقہ اس کے لیے تقریباً نامعلوم تھا۔ اس کا رخ ڈیوک تولیمائیکو کی مخصوص شکارگاہوں کی سمت تھا۔ ڈیوک تولیمائیکو ایک برباد شدہ بوڑھا اوباش تھا۔ وہ مدت سے شکار پر نہیں نکلا تھا مگر کوئی چور شکاری اس کی شکارگاہ میں قدم نہیں رکھ سکتا تھا، کہ شکارگاہ کے محافظ بے شمار اور چوکس تھے۔ سو، کوسیمو جس کا سابقہ ان سے پڑ چکا تھا، دور رہنے کو ترجیح دیتا تھا۔ اب اوتیمو ماسیمو اور کوسیمو ڈیوک کی شکارگاہوں میں آگے ہی آگے بڑھتے جارہے تھے، لیکن نہ ایک نے نہ دوسرے نے نایاب شکار کا تعاقب کرنے کے بارے میں سوچا۔ کتا اپنے ہی کسی پوشیدہ تقاضے کے تحت چلتا جارہا تھا اور بیرن اس دریافت کے بے چین تجسس کی گرفت میں تھا کہ آخر کتا جا کہاں رہا ہے۔
یوں، بجو کتا ایک ایسے مقام پر پہنچا جہاں جنگل ختم ہوگیا اور آگے ایک کھلا میدان تھا۔ ستونوں پر بیٹھے پتھر کے دو شیر ایک نوابی نشان سنبھالے ہوے تھے۔ ان سے پرے کوئی سیرگاہ، باغ یا تولیمائیکو جاگیر کا کوئی زیادہ نجی حصہ ہونا چاہیے تھا لیکن وہاں دو پتھر کے شیروں کے سوا، جن کے پرے میدان تھا، اور کچھ نہ تھا۔ وہ چھوٹی سبز گھاس کا ایک وسیع و عریض میدان تھا جس کی حدود سیاہ بلوطوں کے پس منظر میں، دور فاصلے میں اوجھل ہو رہی تھیں۔ آسمان پر بادلوں کی جھلی سی چھائی تھی۔ کوئی پرندہ نہیں چہچہارہا تھا۔
کوسیمو کے لیے میدان ایک ایسا منظر تھا جو اسے بے آرام کر گیا۔ بیرن، جو ہمیشہ اومبروسا کی گھنی نباتات کے درمیان رہا تھا، اور کسی بھی جگہ اپنے راستوں کے ذریعے پہنچنے کا یقین رکھتا تھا، اپنے سامنے آسمان تلے ایک خالی اور ناقابلِ عبور، عریاں خلا دیکھ کر چکرا گیا۔
اوتیمو ماسیمو تیزی سے میدان میں داخل ہوا اور پورے زور کے ساتھ، گویا کہ وہ پھر سے جوان ہو گیا ہو، دوڑنے لگا۔ کوسیمو دیودار کے درخت سے، جہاں وہ بیٹھا تھا، کتے کو سیٹی اور آواز سے بلانے لگا۔ ’’اِدھر، یہاں آؤ، اوتیمو ماسیمو، واپس آؤ! کہاں جارہے ہو؟‘‘ لیکن کتے نے تعمیل نہیں کی، بلکہ مڑ کر دیکھا بھی نہیں۔ وہ میدان میں دوڑتا چلا گیا یہاں تک کہ سکتے کے نشان کی طرح ایک مبہم نقطے کے سوا، جو اس کی دم تھی کچھ اور دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اور پھر وہ نقطہ بھی معدوم ہو گیا۔
دیودار کے درخت پر کوسیمو ہاتھ مل رہا تھا۔ وہ کتے کے گریز اور اس کے غیاب کا عادی تھا لیکن اب اوتیمو ماسیمو اس میدان میں غائب ہو رہا تھا جہاں وہ اس کا پیچھا نہیں کر سکتا تھا، اور یہ فرار اس تشویش سے مربوط ہو گیا جو اس نے کچھ دیر قبل محسوس کی تھی۔ توقع کا ایک مبہم احساس اس پر چھا گیا اور وہ میدان میں کسی چیز کے ظاہر ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
وہ ان خیالوں پر سوچ بچار کر رہا تھا کہ اس نے اپنے بلوط کے درخت تلے قدموں کی چاپ سنی اور شکارگاہ کے ایک محافظ کو جیبوں میں ہاتھ ڈالے، سیٹی بجاتے گزرتے دیکھا۔ اس آدمی کا انداز اتنا لااُبالی اور آشفتہ تھا کہ وہ شکارگاہ کے خوفناک محافظوں میں سے نہیں ہو سکتا تھا، مگر اس کی وردی پر نوابی ملازمین کا نشان موجودتھا۔ سو کوسیمو نے اپنے آپ کو درخت کے تنے سے چپکا لیا۔ پھر کتے کا خیال اس کے خوف پر غالب آ گیا۔ اس نے محافظ کو آواز دی، ’’اے سارجنٹ، تم نے آس پاس کوئی کتا دیکھا ہے؟‘‘
شکارگاہ کے محافظ نے اوپر دیکھا۔ ’’ارے، یہ تم ہو! لڑھکتے کتے والا اڑن شکاری! نہیں، میں نے کتے کو نہیں دیکھا۔ آج صبح تم نے کیا شکار کیا ہے؟‘‘
کوسیمو پہچان گیا کہ وہ اس کے مستعد ترین حریفوں میں سے ایک ہے۔ اس نے کہا ’’ارے، کچھ نہیں۔ کتا میرے پاس سے بھاگ گیا ہے اور مجھے اس کے پیچھے یہاں تک آنا پڑا ہے۔۔۔ میری بندوق خالی ہے۔‘‘
محافظ ہنس پڑا، ’’ارے اسے بھر لو، بلکہ تمھارا جی چاہے تو گولی بھی چلاؤ۔ اب کوئی فرق نہیں پڑتا!‘‘
’’اب فرق کیوں نہیں پڑتا؟‘‘
’’اب جب کہ ڈیوک مر چکا ہے، یہاں مداخلت کی کون پروا کرتا ہے؟‘‘
’’ارے، وہ مر گیا، واقعی؟ مجھے یہ معلوم نہیں تھا۔‘‘
’’اسے مرے اور دفن ہوے تین ماہ ہو چکے ہیں۔ اور اس کی پہلی دو شادیوں کے وارثوں اور نئی بیوہ کے درمیان جھگڑا چل رہا ہے۔‘‘
’’اس کی تیسری بیوی بھی تھی، واقعی؟‘‘
’’اس نے اسّی سال کی عمر میں شادی کی تھی، موت سے ایک سال پہلے۔ لڑکی کی عمر لگ بھگ اکیس سال تھی۔ بالکل پاگل پن کی حرکت تھی یہ۔ اس بے چاری نے ایک دن بھی اس کے ساتھ نہیں گزارا۔ اس نے تو جائیداد بھی اب دیکھنا شروع کی ہے، جس کو وہ پسند نہیں کرتی۔‘‘
’’ہائیں، پسند نہیں کرتی؟‘‘
’’ارے، وہ کسی محل یا قلعے میں مسند نشیں ہوتی ہے اور اپنے پورے مقربین کے ساتھ آتی ہے کیونکہ چاہنے والوں کی ایک ٹولی ہمیشہ اس کے ساتھ رہتی ہے۔ تین دن بعد اسے ہر چیزبدنما اور افسوسناک دکھائی دینے لگتی ہے، اور وہ پھر سے چل پڑتی ہے۔ پھر دوسرے وارث آگے آجاتے ہیں بلکہ اس جائیداد میں در آتے ہیں اور اس پر اپنے حق کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اور وہ کہتی ہے،’اچھا اگر تمھیں پسند ہے تو لے لو۔‘ اب وہ یہاں شکار گاہ کے بنگلے میں آئی ہے۔ لیکن کب تک رہے گی؟ میرے خیال میں زیادہ دن نہیں۔‘‘
’’اور یہ بنگلہ کہاں ہے؟‘‘
’’میدان کے پار، بلوط کے درختوں سے اُدھر۔‘‘
’’پھر میرا کتا وہاں گیا ہے۔۔۔‘‘
’’وہ ضرور ہڈیوں کی تلاش میں گیا ہوگا۔۔۔ معاف کرنا، مجھے لگتا ہے جناب اسے ٹھیک سے کھانے کو نہیں دیتے!‘‘ اور وہ کھلکھلا کے ہنس پڑا۔
کوسیمو نے جواب نہیں دیا۔ وہ بجو کتے کی واپسی کا انتظار کرتے ہوے ناقابلِ عبور میدان کو دیکھتا رہا۔
وہ تمام دن نہیں لوٹا۔ اگلے دن کوسیمو، جیسے وہ کسی اندرونی ہیجان سے مجبور ہو، پھر سے دیودار کے درخت پر بیٹھا میدان میں نظریں دوڑا رہا تھا۔
شام کے قریب، کوسیمو کی تیز نظروں نے میدان میں ایک چھوٹا سا نقطہ دیکھا جو دم بہ دم واضح ہوتا جا رہا تھا۔ کتا واپس آرہا تھا۔ ’’اوتیمو ماسیمو! یہاں آؤ! تم کہاں تھے؟‘‘ کتا رک گیا اور اپنی دم ہلا کر اپنے مالک کو دیکھنے لگا۔ وہ اسے پیچھے آنے کو کہتا ہوا لگ رہا تھا، لیکن پھر اس خلا کو محسوس کرکے جسے کوسیمو عبور نہیں کر سکتا تھا، وہ پیچھے مڑ گیا۔ اس نے چند جھجکتے ہوے قدم اٹھائے اور دوبارہ کوسیمو کو دیکھا۔ ’’اوتیمو ماسیمو! یہاں آؤ! اوتیمو ماسیمو!‘‘ لیکن کتا دوبارہ دوڑنے لگا اور فاصلے میں گم ہو گیا۔
بعدازاں دو محافظ گزرے۔ ’’ابھی تک کتے کا انتظار ہو رہا ہے، جناب والا! لیکن میں نے اسے بنگلے میں اچھے ہاتھوں میں دیکھا ہے۔۔۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’ہاں، ماکوئیزا بلکہ بیوہ ڈچز کے پاس۔ ہم اسے مارکوئیزا کہتے ہیں کیونکہ شادی سے پہلے وہ مارکوئیزینا کہلاتی تھی۔ وہ اسے اس طرح رکھ رہی ہے جیسے وہ ہمیشہ سے اس کے ساتھ رہا ہو۔ وہ گود کا کتا ہے، اگر آپ مجھے ایسا کہنے کی اجازت دیں، جناب والا۔ اب اسے ایک ملائم جگہ مل گئی ہے، سو وہاں ٹکا ہوا ہے۔۔۔‘‘
دونوں محافظ کھیسیں نکالتے ہوے چلے گئے۔ اوتیمو ماسیمو پھر واپس نہیں آیا۔ کوسیمو ہر دن دیودار کے درخت پر گزار رہا تھا۔ وہ میدان کو یوں دیکھتا رہتا جیسے اس میں کسی ایسی چیز کو سمجھ سکتا ہو جو خود اس کے اندر مدت سے ہاتھ پاؤں مار رہی تھی، جو فاصلے کا، غیرمحسوسیت کا اور زندگی سے پرے تک طول پکڑ جانے والے انتظار کا تصور تھا۔


۲۱
ایک روز کوسیمو دیودار کے درخت سے نیچے دیکھ رہا تھا۔ سورج چمک رہا تھا۔ ایک کرن نے میدان کو قطع کیا اور سبزے سے زمردی ہو گئی۔ دور بلوطوں کے جھنڈ کی سیاہی میں، زیردرختی میں ہلچل ہوئی اور گھوڑا چھلانگ مار کے باہر آیا۔ اس کی زین پر سیاہ لباس میں ایک شہسوار تھا، جس نے چوغہ — نہیں، اسکرٹ پہن رکھا تھا۔ وہ شہسوار نہیں تھا بلکہ شہسوار خاتون تھی۔ وہ لگامیں ڈھیلی چھوڑے گھوڑے کو سرپٹ دوڑا رہی تھی، اور وہ گوری تھی!
کوسیمو کا دل زور سے دھڑکا اور اس نے اپنے کو یہ خواہش کرتے پایا کہ شہسوار خاتون اتنی قریب آجائے کہ وہ اس کا چہرہ دیکھ سکے، اور یہ کہ وہ چہرہ بہت حسین ہو۔ لیکن اس کے قریب آنے اور خوبصورت نکلنے کے انتظار کے علاوہ، وہ ایک تیسری بات کا منتظر تھا، جو امید کی پہلی دو شاخوں سے لپٹی ہوئی ایک تیسری شاخ تھی، جو یہ آرزو تھی کہ شاید یہ دائمی تابندہ حسن اُس ضرورت کو پورا کرے جو اسے کسی جانی پہچانی، مگر اب فراموش شدہ، یاد کو تازہ کرنے کے لیے محسوس ہو رہی تھی۔ وہ یاد، جو اب صرف ایک دھویں کی سی لکیر، ایک مدھم سا رنگ ہو کر رہ گئی تھی، اور یہ کہ اس کی بدولت باقی سب کچھ ایک بار پھر ظہور پذیر ہو، بلکہ کسی موجود و زندہ شے میں پھر سے دریافت ہو۔
اس آرزو میں کہ شہسوار خاتون شیروں والے دو بلند و بالا ستونوں کے پاس، اس کی سمت والے میدان کے سرے کے ذرا اور قریب آئے، وہ درخت پر بیٹھا رہا۔ لیکن یہ انتظار اذیت ناک ہوتا جارہا تھا کیونکہ اس نے محسوس کر لیا تھا کہ وہ میدان کو براہِ راست شیروں کی طرف قطع نہیں کر رہی، بلکہ وتری طور پر طے کر رہی ہے، اوریوں جلد ہی جنگل میں دوبارہ غائب ہونے والی ہے۔
وہ اس کی نظر سے اوجھل ہونے والی تھی کہ خاتون نے اپنے گھوڑے کو تیزی سے موڑا اور ایک دوسرے وتر سے میدان کو قطع کرنے لگی۔ یہ راستہ اسے یقینا تھوڑا سا نزدیک تو لاتا، لیکن اس کے باوجود اسے میدان کے پرلی طرف اوجھل ہونے پر مجبور کر دیتا۔
اور اس لمحے کوسیمو نے برہمی کے ساتھ دیکھا کہ دو بھورے گھوڑے جن پر مصاحب سوار تھے، جنگل سے نکل کر میدان میں آرہے ہیں۔ لیکن اس نے جلدی سے اپنی برہمی پر قابو پانے کی کوشش کی اور طے کیا کہ یہ مصاحب کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ کیونکہ صرف یہ دیکھنا ہی بہت تھا کہ وہ خاتون شہسوار کے پیچھے پیچھے آنے کے لیے کس طرح ٹیڑھے میڑھے چل رہے ہیں۔ اسے ان کو اپنے ذہن پر سوار نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن اس کے باوجود، اسے تسلیم کرنا پڑا کہ وہ اسے برہم کر رہے ہیں۔
اور پھر خاتون شہسوار نے، میدان سے اوجھل ہونے سے ذرا ہی قبل اپنے گھوڑے کو دوبارہ موڑا، مگر کوسیمو سے اور پرے، دوسری سمت میں۔۔۔ نہیں، اب گھوڑا اِس سمت میں گھومتا ہوا سر پٹ دوڑ رہا تھا، اور یہ چال دونوں تعاقب کنندگان کو دنگ کرنے کے لیے قصداً چلی ہوئی لگتی تھی، جو اب حقیقت میں سرپٹ دوڑتے ہوے دور نکلے جارہے تھے اور یہ محسوس نہ کر سکے تھے کہ وہ مخالف سمت میں دوڑی جا رہی ہے۔
اب سب کچھ اسی طرح ہو رہا تھا جس طرح وہ چاہتا تھا۔ خاتون شہسوار دھوپ میں سرپٹ گھوڑا دوڑا رہی تھی۔ وہ ہر لحظہ حسین سے حسین تر اور کوسیمو کی کھوئی ہوئی یادوں کے مماثل ہوتی جارہی تھی۔ چونکانے والی بات اس کامسلسل ترچھا راستہ تھا، جس کے باعث وہ اس کے عزائم کا اندازہ کرنے سے قاصر تھا۔ دونوں شہسوار بھی یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ اس کی منزل کیا ہے اور اس کی گھمیریوں کو سمجھنے کی کوشش میں، اچھا خاصا فاصلہ بے کار طے کر رہے تھے، لیکن ہمیشہ نیک نیتی اور مہارت کے ساتھ۔
اب گھوڑے پر سوار خاتون اس سے بھی کم وقت میں جتنی کوسیمو کو توقع تھی، اس سے نزدیک میدان کے کنارے تک آ پہنچی تھی۔ وہ شیروں والے دو ستونوں کے درمیان سے گزر کر، جو لگتا تھا اس کے اعزاز میں نصب کیے گئے ہیں، ایک وسیع الوداعی اشارے کے ساتھ میدان اور اس سے پرے کی ہرچیز کی جانب مڑی، اور گھوڑا دوڑاتی ہوئی دیودار کے نیچے سے گزر گئی۔ اب کوسیمو اس کا چہرہ اور جسم واضح طور پر دیکھ سکتا تھا۔ وہ زین پر بالکل سیدھی بیٹھی تھی۔ اس کا چہرہ بیک وقت ایک مغرور عورت اور ایک بچی کا چہرہ تھا۔ اس کی پیشانی ان آنکھوں کے اوپر ہونے میں، اور آنکھیں اس پیشانی کے نیچے ہونے میں خوش تھیں؛ ناک، منھ، ٹھوڑی، ہنسلی، غرضیکہ اس کی ہر چیز، اس کے ہر دوسرے حصے کے ساتھ ہونے میں خوش تھی۔ یہ سب کچھ، ہاں سب کچھ، کوسیمو کو اس چھوٹی سی لڑکی کی یاد دلا رہا تھا جسے اس نے درخت پر گزارے ہوے اپنے پہلے دن، جھولے پر دیکھا تھا، جس کا نام سنفوروزا، یا وِیولا ویولانتے اونداریوا تھا۔
اس دریافت سے، بلکہ اسے اپنے ذہن کے ایک غیرتسلیم کردہ گمان سے اس مقام تک لانے سے جہاں وہ اس کے بارے میں اپنے آپ سے اعتراف کرسکے، کوسیمو کو گویا ایک تپ سی چڑھ گئی۔ اس نے آواز دینے کی کوشش کی تاکہ وہ دیودار کی طرف نظریں اٹھائے اور اسے دیکھ لے، لیکن اس کے حلق سے محض ایک بھاری غرغراہٹ ہی نکل سکی اور خاتون نے مڑ کر نہیں دیکھا۔
اب سفید گھوڑا شاہ بلوطوں کے جھنڈ میں سر پٹ دوڑ رہا تھا۔ اس کے سموں کی ضربیں زمین پر جابجا بکھرے ہوئے مخروطیوں کو توڑ کر جوز کی چمکیلی گریوں کو آشکار کر رہی تھیں۔ خاتون نے اپنے گھوڑے کو پہلے ایک سمت میں ڈالا، پھر دوسری میں؛ شجر در شجر کودتا ہوا کوسیمو ایک لمحے اسے دور اور رسائی سے باہر خیال کرتا، دوسرے لمحے حیرت سے اسے تنوں کے پس منظر میں دوبارہ ظاہر ہوتے دیکھتا۔ اس کا اندازِ تحرک کوسیمو کے ذہن میں بھڑکتی یاد کو دم بہ دم ہوا دے رہا تھا۔ اس نے ویولا تک ایک آواز، اپنی موجودگی کی ایک علامت کے ذریعے پہنچنے کی کوشش کی، لیکن جو آواز اس کے ہونٹوں تک آئی وہ فقط چکور کی سیٹی تھی۔ ویولا نے اسے سنا بھی نہیں۔
اس کے پیچھے آنے والے دونوں مصاحب اس کے ارادوں کو اس کے اختیارکردہ راستے سے بھی کم سمجھتے ہوے لگتے تھے۔ وہ پے بہ پے غلط سمتیں اختیار کر رہے تھے۔ وہ کبھی زیر درختی میں الجھ رہے تھے اور کبھی دلدل میں پھنس رہے تھے، جبکہ وہ تیر کی طرح، محفوظ و ناقابلِ گرفت، آگے بڑھتی جارہی تھی۔ وہ مصاحبوں کو بار بار کوئی حکم دیتی یا ان کی حوصلہ افزائی کرتی، کبھی اپنا چابک بلند کرکے، کبھی کوئی توڑا ہوا جوز پھینک کر، گویا انھیں اُس طرف جانے کو کہہ رہی ہو۔مصاحب میدانوں اور نشیبوں میں سر پٹ گھوڑے دوڑتے ہوے فوراً اس طرف دوڑ پڑتے لیکن وہ ایک اور سمت میں مڑ جاتی، اور انھیں دیکھتی بھی نہ تھی۔
’’یہ وہی ہے، یہ وہی ہے!‘‘ لمحہ بہ لمحہ امید سے بے چین ہوتا ہوا کوسیمو سوچ رہا تھا۔ اس نے نام لے کر اسے پکارنا چاہا لیکن اس کے ہونٹوں سے جو کچھ نکلا وہ ایک لمبی اداس چیخ تھی، جیسے کسی مرغِ باراں کے حلق سے نکلی ہو۔
اب یہ اِدھر اُدھر بھٹکنا، یہ مصاحبوں کو فریب دینا اور یہ دل لگیاں، ان سب کا رخ، کڈھب اور متلون ہی سہی، ایک ہی جانب لگتا تھا۔ اس مقصد کو بھانپتے ہوے کوسیمو نے اس کے تعاقب کا ناممکن کام ترک کردیا۔ اس نے اپنے آپ سے کہا، ’’اگر یہ وہی ہے تو میں اُس جگہ جائوں گاجہاں اسے جانا ہے، اگر یہ وہی ہے تو۔حقیقت میں یہ کہیں اور جا ہی نہیں سکتی۔‘‘اور اپنے راستوں پر کودتا پھاندتا وہ اونداریوا خاندان کے متروک باغ کی طرف بڑھنے لگا۔
اس سائے میں، اس معطر فضا میں، اس چمن میں جہاں پتوں اور کونپلوں کا بھی کچھ اور رنگ تھا، کچھ اور جوہر تھا، وہ اپنے بچپن کی یادوں میں ایسا کھویا گیا کہ خاتون شہسوار کو کم و بیش بھول گیا، یا اگر بھولا نہیں تو کم سے کم اپنے کو یہ بتانے لگا کہ ہوسکتا ہے یہ خاتون وہ نہ ہو، اور یہ کہ اس کا انتظار اور اس کی امید اتنے حقیقی لگتے ہیں کہ جیسے وہ یہیں کہیںہو۔
پھر اس نے بجری پر گھوڑے کے سموں کی آواز سنی، جو باغ میں آرہا تھا اور اب سرپٹ نہیں دوڑ رہا تھا، گویا کہ سوار کی خواہش ہر ایک چیز کو ٹھیک سے دیکھنے اور پہچاننے کی ہو۔ بے وقوف مصاحبوں کا کوئی سراغ نہ تھا۔ انھوں نے یقینا اس کا سراغ کھو دیا ہوگا۔
کوسیمو نے اسے دیکھا۔ وہ فواروں، پھول دانوں اور شہ نشینوں کے گرد گھوم رہی تھی اور اس کی نظریں نباتات پر تھیں، جو اپنی لٹکتی ہوئی بیلوں کے ساتھ اب بہت بڑی ہوگئی تھیں۔ میگنولیا کے درختوں نے پھل پھول کر ایک جھنڈ سا بنا لیا تھا۔ لیکن اس نے کوسیمو کو نہیں دیکھا جو اسے کوئلوں کی سی کوک اور ایسی آوازوں سے بلانے کی کوشش کر رہا تھا جو باغ میں پرندوں کی قریبی چہچہاہٹ میں مدغم ہو رہی تھیں۔
وہ گھوڑے سے اتر چکی تھی اور اسے لگام پکڑ کر چلا رہی تھی۔ وہ کوٹھی تک پہنچی اور گھوڑے کو چھوڑ کر بارہ دری میں داخل ہوگئی۔ پھر اچانک وہ پکارپکارکر نوکروں کو بلانے لگی: ’’اورتنسیا! گائیتانو! تارکینیو! یہاں سفیدی کرنے کی ضرورت ہے، جھلملیوں کو رنگا جانا ہے، پردے ٹانگے جانے ہیں۔ اور بڑی میز مجھے یہاں چاہیے، بغلی وہاں، پیانو درمیان میں! ساری تصویریں نئے سرے سے لگنی ہیں۔‘‘
تب کوسیمو کو احساس ہوا کہ وہ گھر جو اس کی بے کل نظروں کو ہمیشہ کی طرح بند اور خالی لگا تھا، اب، حقیقت میں، کھلا تھا اور لوگوں سے پُر تھا۔ نوکر جھاڑ پونچھ کرنے، چمکانے اور سامان پھر سے جمانے میں مصروف تھے۔ بند کھڑکیاں کھل رہی تھیں، فرنیچر کھسکایا جارہا تھا، قالین جھاڑے جارہے تھے۔ سو یہ ویولا تھی جو واپس آرہی تھی، جو اومبروسا میں پھر سے آباد ہو رہی تھی، جو ایک بار پھر اس کوٹھی کا قبضہ لے رہی تھی جسے اس نے بچی کی حیثیت سے چھوڑا تھا! کوسیمو کے دل میں تھرتھراتی ہوئی مسرت تھرتھراتے ہوے خوف سے زیادہ مختلف نہ تھی، کیونکہ ویولاکی واپسی، اور عین اس کی نظروں تلے اس کی ناپیش بیں اور فخریہ موجودگی کا مطلب اسے ہمیشہ کے لیے کھو دینا بھی ہوسکتا تھا، اپنی یادوں میں بھی، اور معطر پتوں اور چتلی سبز روشنی والے اس پُراسرار مقام میں بھی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا تھا کہ وہ اس سے، اور لڑکی کی حیثیت سے اس کی اوّلیں یاد سے، دور بھاگنے پر مجبور ہوگا۔
اس باہم بدلتی ہوئی دل کی دھڑکن کے ساتھ کوسیمو اسے نوکروں کے درمیان چکر کھاتے، ان سے صوفوں، باجوں اور الماریوں کی جگہیں بدلواتے دیکھتا رہا۔ پھر وہ جلدی جلدی باغ میں گئی اور اپنے گھوڑے پر دوبارہ بیٹھ گئی۔ مزید احکامات کی منتظر ٹولیاں اس کے پیچھے پیچھے تھیں۔ پھر وہ مالیوں کی طرف متوجہ ہوئی اور انھیں چھوڑی ہوئی کیاریاں آراستہ کرنے، بارشوں کی بہائی ہوئی بجری روشوں پر دوبارہ بچھانے، بید کی کرسیاں رکھنے اور جھولا ڈالنے کے بارے میںہدایتیں دینے لگی۔
اس نے بازوئوں کی حرکت سے اس شاخ کی جانب اشارہ کیا جہاں کبھی جھولا ہوا کرتا تھا اور جہاںاب پھر سے ڈالا جانا تھا، اور بتایا کہ رسیاں کتنی لمبی ہوںگی اور جھولے کی پینگ کتنی۔ جس دوران وہ یہ سب کچھ کہہ رہی تھی، اس کے ہاتھ کا اشارہ اور نگاہ میگنولیا کے اس درخت پر گئی جس پر کبھی کوسیمو نمودار ہوا تھا۔ اور کوسیمو میگنولیا کے درخت پر موجود تھا، اور ویولا نے اسے دوبارہ دیکھا۔
وہ حیران ہوگئی—حد درجہ۔ اس امر میں کوئی شک نہ تھا، حالانکہ اس کی آنکھیں اس کی حیرانی میں سے ہنس رہی تھیں۔ لیکن اس نے فوراً ہی خود کو سنبھال لیا اور دھیان نہ دینے کا حیلہ کیا، اور ایک دانت عیاں کرتے ہوے جو بچپن میں ٹوٹ گیا تھا، اپنے چشم و دہن سے مسکرانے لگی۔
’’تم!‘‘ اور پھر جس قدر بھی اس کے بس میں تھا فطری لہجہ استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہوے، لیکن اپنے اشتیاق و مسرت کو چھپانے میں ناکام رہ کر، اس نے بات جاری رکھی۔ ’’افوہ، سو تم بالکل نیچے آئے بغیر درختوں پر ہی ٹکے ہوے ہو؟‘‘
کوسیمو اپنے گلے میں چڑیا کی چہک کو بہ مشکل اس جملے میں ڈھال پایا۔ ’’ہاں، ویولا، یہ میں ہوں، کیا میں تمھیں یاد ہوں؟‘‘
’’تم نے کبھی، واقعی ایک بار بھی زمین پر قدم نہیں رکھا؟‘‘
’’کبھی نہیں۔‘‘
پھر، گویا کہ پہلے ہی بہت زیادہ تسلیم کرچکی ہو، وہ کہنے لگی، ’’واہ، تم نے یہ معرکہ سر کر ہی لیا، دیکھا! پھر تو یہ اتنا مشکل نہیں رہا ہوگا۔‘‘
’’میں تمھاری واپسی کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔‘‘
’’بہت خوب!... ارے تم، یہ پردہ کہاں لیے جا رہے ہو؟ اسے یہاں رکھ دو۔ میں اس کا انتظام کرتی ہوں!‘‘ وہ پھر سے کوسیمو کو دیکھنے لگی۔ اس دن کوسیمو شکار کے لیے ملبوس تھا اور جنگلی بلی والی ٹوپی اور بندوق کے ساتھ، سر سے پائوں تک سمور میں لپٹا تھا۔ ’’تم کروزو جیسے لگتے ہو!‘‘
’’تم نے یہ کتاب پڑھی ہے؟‘‘ یہ دکھانے کے لیے اس کی معلومات بالکل تازہ ہیں، کوسیمو نے فوراً پوچھا۔
ویولا پہلے ہی دوسری سمت مڑ چکی تھی۔ ’’گائیتانو! امپیلیو! خشک پتے! باغ خشک پتوں سے بھرا ہوا ہے!‘‘ پھر اس سے بولی، ’’ایک گھنٹے بعد سبزہ زار کے سرے پر میرا انتظار کرو۔‘‘ اور گھوڑے پر سوار، وہ مزید احکامات دینے کے لیے جلدی سے آگے بڑھ گئی۔
کوسیمو نے اپنے آپ کو جنگل کے گھنے پن میں پھینک دیا۔ اس کی خواہش تھی کہ یہ ہزار گنا زیادہ گھنا ہوتا، شاخوں اور پتوں ، جھاڑوں اور بالچھڑوں کا ایک پَرا ہوتا کہ وہ اپنے آپ کو اس میں گم کرسکتا، چھپا سکتا اور مکمل طور پر محصور ہونے کے بعد یہ سمجھنے کا اہل ہوسکتا کہ آیا وہ خوش ہے یا خوف سے بدحواس۔
سبزہ زار کے کنارے بڑے درخت کی ایک شاخ کو اپنے گھٹنوں سے مضبوطی کے ساتھ جکڑے ہوے کوسیمو نے ایک پرانی گھڑی میں، جو اس کے نانا جنرل فان کرتیوتز کی تھی، وقت دیکھ کر اپنے آپ سے کہا، وہ نہیں آئے گی۔ لیکن گھوڑے پر سوار دونا ویولا تقریباً پابندیِ وقت کے ساتھ پہنچی اور اوپر نگاہ اٹھائے بغیر درخت کے نیچے رک گئی۔ اب وہ شہسواری کا ہیٹ یا جیکٹ نہیں بلکہ لیس کے کام والا ایک سفید بلائوز اور سیاہ اسکرٹ، جو قریب قریب راہبائوں جیسا تھا، پہنے ہوے تھی۔ رکابوں میں اپنے آپ کو اٹھاتے ہوے اس نے شاخ پر بیٹھے کوسیمو کی طرف ایک ہاتھ بڑھایا، اور یوں زین پر پیر رکھ کر شاخ تک پہنچ گئی۔ پھر، ابھی تک اس کی طرف دیکھے بغیر، اس نے تیزی سے شاخ پر آکر ایک آرام دہ دو شاخہ دیکھا اور بیٹھ گئی۔ کوسیمو اس کے قدموں میں دبک گیا اور محض یہ کہہ کر گفتگو شروع کرسکا، ’’سو تم لوٹ آئیں؟‘‘
ویولا نے اس پر ایک طنز بھری نظر ڈالی۔ اس کے بال اب بھی اتنے ہی خوبصورت تھے جتنے کہ اس وقت جب وہ بچی تھی۔ ’’تمھیں کیسے پتا چلا؟‘‘ وہ بولی۔
کوسیمو نے اس کا مذاق سمجھے بغیر کہا، ’’میں نے تمھیں ڈیوک کی شکارگاہ والے میدان میں دیکھا تھا۔‘‘
’’وہ شکارگاہ میری ہے۔ میری بلا سے وہ جھاڑ جھنکاڑ سے بھر جائے۔ تم اس کے بارے میں جانتے ہو؟ میرا مطلب ہے میرے بارے میں؟‘‘
’’نہیں۔۔۔ میں نے بس ابھی سنا کہ تم اب بیوہ ہو۔۔۔‘‘
’’ہاں، بے شک میں بیوہ ہوں۔‘‘ اس نے اپنے سیاہ اسکرٹ کو تھپتھپایا، اس کی شکنیں نکالیں اور تیزی سے بولنے لگی، ’’تم کچھ بھی نہیں جانتے۔ تم سارا دن درختوں پر رہ کر لوگوں کے معاملات میں اپنی ٹانگ اڑاتے ہو، اور پھر بھی تم کچھ نہیں جانتے۔ میں نے بوڑھے تولیمائیکو سے اس لیے شادی کی کہ میرے خاندان نے مجھے مجبور کیا، مجھ پر دبائو ڈالا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں مردوں سے عشق بازی کرتی ہوں، سو مجھے ایک عدد شوہر درکار ہے۔ میں سال بھر ڈچز تولیمائیکو رہی ہوں اور وہ میری زندگی کا سب سے زیادہ اکتا دینے والا سال تھا، حالانکہ اس بڈھے کے ساتھ میں کبھی ایک ہفتے سے زیادہ نہیں رہی۔ میں کبھی ان کے کسی قلعے یا کھنڈر یا چوہے کے بل میں قدم نہیں رکھوںگی۔ خدا کرے وہ سانپوں سے بھر جائیں! آج کے بعد سے میں یہیں رہوںگی جہاں میرا بچپن گزرا ہے۔ جب تک میرا جی چاہے گا میں یہیں رہوںگی۔ پھر میں چل دوںگی۔ آخر میں بیوہ ہوں، جو چاہوں کرسکتی ہوں۔ سچی بات یہ ہے کہ میں نے ہمیشہ وہی کیا ہے جو چاہا ہے۔ تولیمائیکو سے شادی بھی اس لیے کی کہ اس سے شادی کرنا مجھے راس تھا۔ یہ درست نہیں ہے کہ مجھے اس پر مجبور کیا گیا۔ وہ لوگ ہر قیمت پر میری شادی کردینا چاہتے تھے اور یوں، سب سے نحیف امیدوار جو مجھے مل سکتا تھا، میں نے چن لیا۔ اس طرح میں جلدی بیوہ ہو جائوں گی، میں نے سوچا، اور اب دیکھ لو،میں بیوہ ہوں۔‘‘
اس اطلاع اور فیصلہ کن بیانات کے برفشار سے نیم حواس باختہ کوسیمو وہاں بیٹھا تھا اور ویولا ہمیشہ سے زیادہ دور تھی؛ عشق بازی کرنے والی، بیوہ، ڈچز، وہ ایک ایسی دنیا کا حصہ تھی جودسترس سے باہر تھی، کوسیمو فقط یہ کہہ پایا، ’’اور اب تم کس کے ساتھ عشق بازی کرتی ہو؟‘‘
’’لو، تم تو حسد کرنے لگے! ہشیار رہنا، میں تمھیں کبھی حسد نہیں کرنے دوںگی،‘‘ ویولا نے کہا۔
کوسیمو نے اس تکرار سے انگیخت پایا ہوا حسد کا ایک شعلہ یقینا محسوس کیا، مگر فوراً ہی سوچا، کیا؟ حسد؟ اس نے یہ کیوں تسلیم کیا کہ میں اس کے سلسلے میں حسد بھی کرسکتا ہوں؟ یہ کیوں کہا، ’’میں تمھیں کبھی حسد نہیں کرنے دوںگی؟‘‘ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اس کے خیال میں ہم۔۔۔
پھر، تمتماتے ہوے چہرے کے ساتھ، اس نے ویولا کو بتانے، اس سے پوچھنے اور اس کا جواب سننے کی ایک شدید خواہش محسوس کی، مگر اس کی بجاے یہ ویولا ہی تھی جس نے روکھے لہجے میںپوچھا، ’’اب مجھے اپنے بارے میں بتائو، تم نے کیا کیا؟‘‘
’’اوہ، میں نے بہت سے کام کیے ہیں،‘‘ اس نے بات شروع کی، ’’میں نے شکار کیا ہے، جنگلی سؤر تک کا، لیکن زیادہ تر لومڑیوں، خرگوشوں، چکوروں اور ظاہر ہے، ترغوں اور کستوروں کا، اور ہاں، قزاقوں کا— ترک قزاقوں کا۔ ہم نے ایک بڑی جنگ لڑی۔ اس میں میرے چچا مارے گئے۔ اور میں نے بہت ساری کتابیں پڑھی ہیں، اپنے لیے اور اپنے ایک ڈاکو دوست کے لیے جسے پھانسی چڑھا دیا گیا۔ میرے پاس دیدرو کا پورا انسائیکلوپیڈیا ہے۔ میں نے اسے خط بھی لکھا اور اس نے مجھے جواب دیا، پیرس سے۔ اور بھی بہت سارے کام کیے ہیں، فصلیں اُگائی ہیں، ایک جنگل کو آگ سے بچایا ہے۔‘‘
’’اور تم ہمیشہ مجھے چاہو گے، مکمل طور پر، ہر شے سے زیادہ؟ اور میرے لیے سب کچھ کروگے؟‘‘
اس کے اس سوال پر کوسیمو نے، اپنے دل پر ایک گرفت کے ساتھ جواب دیا، ’’ہاں۔‘‘
’’تم ایسے شخص ہو جو صرف میری خاطر درختوں پر رہے ہو، مجھے پیار کرنا سیکھنے کے لیے۔۔۔؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔‘‘
’’مجھے چومو۔‘‘
کوسیمو نے تنے کے سہارے اسے بھینچا، اور اسے بوسہ دیا۔ اپنا چہرہ اٹھاتے ہوے اسے ویولا کے حسن کا احساس ہوا گویا اس حسن کو اس نے پہلے کبھی نہ دیکھا ہو۔ ’’کس قدر حسین ہو تم۔۔۔‘‘
’’تمھارے لیے۔۔۔‘‘ اس نے اپنے سفید بلائوز کے بٹن کھول دیے۔ اس کے پستان نوخیز اور سرپستان گلابی تھے۔ کوسیمو نے اپنے ہونٹوں سے انھیں صرف مس ہی کیا تھا کہ ویولا شاخوں پر سے پھسلتی ہوئی، گویا کہ محو پرواز ہو، اس سے دور ہوگئی۔ افتاں و خیزاں کوسیمو اس کے عقب میں تھا اور ویولا کی سیاہ اسکرٹ دائماً اس کے چہرے پر تھی۔
’’لیکن تم مجھے لے کہاں جا رہے ہو؟‘‘ ویولا نے پوچھا، جیسے وہ نہیں بلکہ کوسیمو اسے راستہ دکھا رہا ہو۔
’’اس طرف،‘‘ کوسیمو نے کہا اور اس کی رہنمائی کرنے لگا۔ شاخوں کی ہر گزرگاہ پر وہ اس کا ہاتھ یا اس کی کمر تھامتا اور اسے راستہ دکھاتا۔
’’اس طرف،‘‘ اور یوں وہ ایک چٹان سے باہر کو نکلے ہوے بعض مخصوص زیتون کے درختوں تک چلے گئے۔ ان درختوں کی چوٹیوں سے اُدھر سمندر تھا، جس کے ایک ٹکڑے کی وہ اب تک محض ایک جھلک ہی دیکھ پائے تھے اور وہ ٹکڑا بھی پتوں اور شاخوں سے نیم پوشیدہ تھا۔ لیکن اب اچانک انھوں نے پُرسکون اور شفاف آسمان کی طرح وسیع سمندر کو اپنے مقابل پایا۔ افق عریض و بلند تھا اور سمندر پھیلا ہوا، اور کسی بادباں کے بغیر، عریاں تھا، اور وہ لہروں کے ہلکوروں کو جو مشکل ہی سے قابلِ محسوس تھے، گن سکتے تھے۔ محض ایک ہلکی سی سرسراہٹ، جیسے کوئی آہ ہو، ساحل کے سنگ ریزوں پر دوڑ رہی تھی۔
نیم خیرہ نگاہیں لیے کوسیمو اور ویولا پتوں کے گہرے سبز سائے میں پلٹ گئے۔ ’’اس طرف۔‘‘
اخروٹ کے ایک درخت پر تنے کے دو شاخے میں کلھاڑے کے ایک پرانے گھائو سے بنی ہوئی ایک کھوہ تھی، اور یہ کوسیمو کی پناہ گاہوں میں سے ایک تھی۔ اس پر ریچھ کی کھال بچھی ہوئی تھی اور اس کے آس پاس ایک صراحی، ایک آدھ اوزار اور ایک پیالہ تھا۔
ویولا بے صبری سے ریچھ کی کھال پر دراز ہوگئی۔ ’’کیا تم دوسری عورتوں کو بھی یہاں لاتے ہو؟‘‘
اس نے تامل کیا۔ اور ویولا نے کہا، ’’اگر نہیں لائے تو تم کیا مرد ہوے!‘‘
’’ہاں۔۔۔ ایک دو۔۔۔‘‘
اس نے کوسیمو کے منھ پر زور سے تھپڑ مارا۔ ’’اس طرح میرا انتظار کیا ہے تم نے؟‘‘
کوسیمو نے اپنے سرخ رخسار پر اپنا ہاتھ پھرایا اور کہنے کے لیے کوئی لفظ نہ سوچ سکا۔ لیکن اب وہ دوبارہ اچھے موڈ میں نظر آ رہی تھی۔ ’’ کیسی تھیں وہ؟ مجھے بتائو، وہ کیسی تھیں؟‘‘
’’تم جیسی نہیں، ویولا، تم جیسی نہیں۔۔۔‘‘
’’تم کیسے جانتے ہو کہ میں کیسی ہوں، کیسے جانتے ہو؟‘‘
اب وہ نرم پڑگئی تھی۔ لیکن اس کی ان اچانک تبدیلیوں پر کوسیمو کی حیرانی غیرمختتم تھی۔ وہ اس کے نزدیک ہوگیا۔ ویولا تمام سونا اور شہد تھی۔
’’کہو۔۔۔‘‘
’’کہو۔۔۔‘‘
وہ ایک دوسرے سے آشنا تھے۔ وہ اسے جان گیا، اور یوں اپنے آپ کو، کیونکہ حقیقت میں اس نے اپنے آپ کو کبھی نہیں جانا تھا۔ اور وہ اسے جان گئی اور یوں اپنے آپ کو، کیونکہ اپنے آپ کو جانتی تو وہ ہمیشہ سے تھی لیکن اب سے پہلے اس کے ادراک کی اہل نہ تھی۔

۲۲
پہلی ’زیارت‘ جو انھوں نے کی، وہ اس درخت کی تھی جس کی چھال پر ایک گہرے کٹائو میں، جو اب اتنا کہنہ اور بدہیئت تھا کہ انسانی ہاتھوں کا کام نہیں لگتا تھا، بڑے حروف میں کوسیمو، ویولا، اور نیچے اوتیمو ماسیمو کے نام کندہ تھے۔
’’یہاں، اوپر؟ کس نے لکھا؟ کب؟‘‘
’’میں نے، تب۔‘‘
ویولا متاثر ہوئی۔
’’اس کا کیا مطلب ہے؟‘‘ اس نے اوتیموماسیمو کے الفاظ کی طرف اشارہ کیا۔
’’میرا کتا۔ تمھارا کتا ہے۔ بجو کتا ہے۔‘‘
’’ترکارت؟‘‘
’’میں نے اس کا نام اوتیموماسیمو رکھا ہے۔‘‘
’’ترکارت! میں اس کے لیے کتنا روئی ہوں، جب چلتے وقت مجھے یہ احساس ہوا کہ اسے گاڑی میں نہیں رکھا گیا ہے!۔۔۔ ارے، مجھے تمھارے دوبارہ نہ ملنے کی پروا نہیں تھی، لیکن کتے کو کھو کر میں قطعاً مایوس تھی۔‘‘
’’اگر یہ کتا نہ ہوتا تو میں تمھیں دوبارہ نہیں پاسکتا تھا! اس نے ہوا میں سونگھ لیا کہ تم کہیں نزدیک ہو، اور جب تک تمھیں ڈھونڈ نہ لیا، چین سے نہیں بیٹھا۔‘‘
’’میں نے جونہی اسے شکارگاہ کے بنگلے میں آتا دیکھا، فوراً پہچان لیا۔ بری طرح ہانپ رہا تھا بے چارہ۔۔۔ اور دوسروں نے کہا، ’یہ آیا کہاں سے ہے؟‘ میں نے نیچے جھک کر اس کا رنگ اور نشان دیکھے۔ ارے یہ تو ترکارت ہے! بجو کتا، جو بچپن میں، اومبروسا میں میرے پاس تھا!‘‘
کوسیمو ہنس پڑا۔ ویولا نے اچانک برا سا منھ بنایا۔ ’’اوتیمو ماسیمو! کیسا واہیات نام ہے! ایسے واہیات نام کہاں سے ملتے ہیں تمھیں؟‘‘ اور کوسیمو کے چہرے پر ملال چھا گیا۔
لیکن اوتیموماسیمو کے لیے اب کوئی پریشانی نہ تھی جو اس کی مسرت کو برباد کرتی۔ اس عمر رسیدہ کتّے کا دل جو دو مالکوں کے درمیان منقسم رہا تھا، مارکوئیزا وِیولاکو شکارگاہ کے کناروں کی طرف اس دیودار کے درخت کی جانب جہاں کوسیمو کی نشست تھی، روزانہ کوشش سے متوجہ کرانے کے بعد، بالآخر چین پا گیا تھا۔ وہ مارکوئیزا کو اسکرٹ سے پکڑ کر کھینچتا یا اس کی کوئی چیز اٹھا کر میدان کی طرف بھاگ نکلتا تاکہ وہ اس کے پیچھے آئے۔ مارکوئیزا اس پر چلا کر کہتی، ’’لیکن تم کیا چاہتے ہو؟ مجھے کہاں گھسیٹے لیے جارہے ہو؟ کیسے پاگل کردینے والے کتے سے پالا پڑا ہے!‘‘
لیکن بجو کتے کو دیکھ کر اس کے بچپن کی یادیں اور اومبروسا کی ہڑک پھر سے لوٹ آئی تھی، اور اس نے نوابی بنگلے سے رخصت ہونے اور عجیب و غریب نباتات والی پرانی کوٹھی میں واپسی کی تیاریاں فوراً شروع کردی تھیں۔
ویولا لوٹ آئی تھی۔ کوسیمو کے لیے اب اس کی زندگی کا بہترین دور شروع ہوا، اور اس کے لیے بھی، جو دیہی علاقے میں اپنا سفید گھوڑا سرپٹ دوڑاتی پھرتی، اور جب اس کی نظر شاخوں اور آسمان کے درمیان بیرن پر پڑتی، وہ گھوڑے سے اتر جاتی، اور ترچھے درختوں اور شاخوں پر چڑھ جاتی، جن کے سلسلے میں وہ تقریباً اتنی ہی ماہر ہوگئی تھی جتنا کوسیمو، جو خواہ کہیں بھی ہو وہ اس تک پہنچ سکتی تھی۔
’’اف، ویولا، میں نہیں جانتا! میں نہیں جانتا کہ اب کس اونچائی پر جائوں۔۔۔‘‘
’’میری اونچائی پر۔۔۔‘‘ ویولا چپکے سے کہتی، اور وہ اپنے کو تقریباً دیوانگی میں محسوس کرتا۔
محبت اس کے لیے ایک دلیرانہ ریاضت تھی، جس کا لطف، جرأت اور فراخ دلی کی آزمائشوں، اپنے آپ کو وقف کردینے اور اپنے وجود کی تمام تر صلاحیتوں کو بروے کار لانے میں خلط ملط تھا۔ ان کی دنیا درختوں کی دنیا تھی، پیچیدہ، گرہ دار اور غیراثرپذیر۔
’’وہاں!‘‘ وہ شاخوں میں ایک بلند دو شاخے کی طرف اشارہ کرتے ہوے اعلان کرتی اور اس تک پہنچنے کے لیے وہ اکٹھے چل پڑتے۔ یوں ان کے درمیان بازی گری کا ایک مقابلہ شروع ہوجاتا جو نئی ہم آغوشیوں پر منتج ہوتا۔ اپنے آپ کو شاخوں کے سہارے سنبھالے یا شاخوں پر تھامے ہوے وہ خلا میں مباشرت کرتے۔ وہ تقریباً ہوا میں اڑتی ہوئی اپنے آپ کو اس پر گرادیتی۔
گو محبت میں ویولا کی ثابت قدمی کوسیمو کے استقلال سے مطابقت رکھتی تھی، مگر بعض اوقات اس سے ٹکرا بھی جاتی۔ کوسیمو استفسارات، نفیس چونچلوں اور بے لگام کج رویوں سے احتراز کرتا تھا۔ محبت میں کوئی بات، جو فطری نہ ہوتی اسے خوش نہ کرتی تھی۔فضا ریپبلک کی خوبیوں سے مملوتھی؛ وہ زمانہ آنے کو تھا جسے بیک وقت اخلاق باختہ اور سخت گیر ہونا تھا۔ کوسیمو، جو ناشکیب عاشق تھا، راضی بہ رضا، تارک الدنیا اور مذہب پرست بھی تھا۔ گو محبت میں وہ ہمیشہ مسرت کی تلاش میں رہتا مگر محض عیاش کبھی نہ بنا۔ وہ اس مقام تک آگیا تھا جہاں بوسوں، اختلاط، زبان کے کھیل، غرضیکہ فطرت کی افادیت کو بدلنے یا دھندلانے والی ہر چیز سے اس کا اعتبار اٹھ گیا تھا۔ یہ ویولا تھی جس نے اسے اس کی بھرپور صورت میں آشکار کیا۔ اور ویولا کے ساتھ وہ ماہرینِ دینیات کی بتائی ہوئی پس از محبت اداسی سے کبھی آشنا نہ ہوا۔ بلکہ اس موضوع پر اس نے روسو کو ایک فلسفیانہ خط بھی لکھا جس نے، غالباً اس سے پراگندہ ہوکر، جواب نہیں دیا۔
لیکن ویولا ایک شائستہ، رازدار، من موجی عورت بھی تھی، جو ہمہ وقت اپنے جسم و روح کی خواہشوں سے مغلوب تھی۔ کوسیمو کی محبت نے اس کے جسمانی تقاضوں کی تکمیل تو کی لیکن اس کا تصور ناآسودہ ہی رہا۔ اس کمی نے مخاصمتوں اور مبہم آزردگیوں کو جنم دیا۔ لیکن ان کی زندگی اور گرد و پیش کی دنیا اتنی متنوع تھی کہ یہ صورتِ حال زیادہ دن نہیں رہی۔
جب وہ تھک جاتے تو پتوں کے دبیز ازدحام میں واقع اپنی پناہ گاہوں میں لوٹ جاتے، جو ان کے جسموں کو لپٹے ہوے پتوں کی طرح چھپا لینے والے جھولنے، یا ہلکی ہوا میں پھڑپھڑاتے پردوں والے آویزاں شامیانے، یا پروں کے بچھونے ہوتے تھے۔ ایسی اختراعوں میں دونا ویولا حد درجہ باصلاحیت تھی۔ وہ چاہے جہاں بھی ہوتی، اسے اپنے اطراف آسائش، تکلّفات اور مفصل آرام پیدا کرنے میں ملکہ حاصل تھا اور یہ سب کچھ جو ظاہری طور پر مفصل ہوتا، وہ معجزنما سہولت سے مکمل کرلیتی، کیونکہ جو کچھ وہ چاہتی اسے فوراً اور ہر قیمت پر پورا کیا جاتا۔
ان کی فضائی خلوت گاہوں پر لال چڑیاں چہچہانے کو بسیرا کرلیتیں، اور پردوں کے درمیان تتلیوں کے جوڑے ایک دوسرے کا تعاقب کرتے ہوے پرافشانی کرتے۔ گرمیوں کی سہ پہروں میں، جب ان چاہنے والوں کو پہلو بہ پہلو نیند آلیتی تو کوئی گلہری کترنے کو کوئی چیز ڈھونڈتی ہوئی آ نکلتی اور اپنی نازک دُم سے ان کے چہروں کو سہلاتی یا کسی کے انگوٹھے میں اپنے دانت گڑو دیتی۔ تب وہ پردوں کو زیادہ احتیاط سے بند کرلیتے، لیکن شجری چوہوں کے ایک خاندان نے شامیانے کی چھت کترنی شروع کردی اور ایک بار بہت سے چوہے ان کے سروں پر آگرے۔
یہ وہ زمانہ تھا جس میں ایک دوسرے کو اپنی زندگیوں کے بارے میں بتاتے ہوے، باہم سوالات کے ذریعے وہ ایک دوسرے کو دریافت کر رہے تھے۔
’’کیا تم نے اپنے کو تنہا محسوس کیا؟‘‘
’’میرے پاس تم نہیں تھیں۔‘‘
’’باقی دنیا کے سامنے تنہا؟‘‘
’’نہیں۔ کیوں؟ دوسرے لوگوں سے میرا رابطہ ہمیشہ رہا ہے۔ میں نے پھل توڑے ہیں، درختوں کی کاٹ چھانٹ کی ہے، ایبے کے ساتھ فلسفے کا مطالعہ کیا ہے، قزاقوں سے لڑا ہوں۔ کیا ہر کوئی یہی کچھ نہیں کرتا؟‘‘
’’اس طرح کے فقط ایک تم ہو۔ اسی لیے میں تم سے محبت کرتی ہوں۔‘‘
لیکن بیرن نے ابھی یہ محسوس نہیں کیا تھا کہ ویولا اس کی کون سی بات مانے گی اور کون سی نہیں۔ بعض اوقات محض کوئی ہیچ بات، کوئی لفظ یا اس کا کوئی لہجہ مارکوئیزا کے غضب کو دعوت دینے کے لیے کافی ہوتا۔
مثال کے طور پر وہ کہہ سکتا تھا، ’’جیان دائی بروگی کے ساتھ میں ناولیں پڑھا کرتا تھا، کوالیئے کے ساتھ میں آب پاشی کے منصوبے بناتا تھا۔۔۔‘‘
’’اور میرے ساتھ؟‘‘
’’تمھارے ساتھ میں مباشرت کرتا ہوں۔ پھل توڑنے یا درخت چھانٹنے کی طرح۔۔۔‘‘
وہ خاموش اور بے حس و حرکت ہوجاتی۔ کوسیمو کو ایک دم احساس ہوتا کہ اس نے مارکوئیزا کے غصے کو جگا دیا ہے، جس کی نظریں یک بارگی برف کی طرح یخ ہوجاتیں۔
’’کیا ہوا، ویولا، میں نے کیا کہہ دیا؟‘‘
وہ بہت دور تھی، گویا دیکھنے یا سننے سے قاصر ہو، کوسیمو سے کوسوں دور اور اس کا چہرہ مرمر کی طرح تھا۔
’’نہیں، ویولا، کیا ہوا؟ سنو تو سہی۔۔۔‘‘
ویولا، اس کا سہارا لیے بغیر، پھرتی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور درخت سے نیچے اترنے لگی۔
کوسیمو ابھی تک نہیں سمجھا تھا کہ اس کی کیا غلطی ہوسکتی ہے، اسے یہ سوچنے کا وقت ہی نہیں ملا تھا، غالباً اس کے بارے میں قطعاً سوچنا ہی نہیں چاہتا تھا، سمجھنا ہی نہیں چاہتا تھا، اپنی معصومیت کا اعلان کرنا ہی بہتر تھا۔ ’’نہیں، نہیں، تم سمجھیں نہیں! ویولا، سنو۔۔۔‘‘
وہ ایک نچلی شاخ تک اس کے پیچھے آیا۔ ’’ویولا، مت جائو! خدا کے لیے مت جائو! اس طرح نہیں، ویولا۔۔۔‘‘
اس بار وہ بولی لیکن؎ گھوڑے سے مخاطب ہوئی جس کے نزدیک پہنچ کر وہ لگام سنبھال چکی تھی۔ وہ سوار ہوئی اور روانہ ہوگئی۔
کوسیمو کے ہاتھ سے امید کا دامن چھوٹنے لگا۔ وہ ایک درخت سے دوسرے پر چھلانگ لگانے لگا، ’’نہیں، ویولا، خدا کے لیے رک جائو، ویولا!‘‘
وہ گھوڑا دوڑا کر دور جاچکی تھی۔ کوسیمو شاخوں پر اس کا تعاقب کر رہا تھا، ’’خدا کے لیے ویولا، مجھے تم سے محبت ہے!‘‘ لیکن ویولا اوجھل ہوچکی تھی۔ خطرناک طریقے سے چھلانگیں لگاتے ہوے وہ اپنے کو نامعلوم شاخوں پر پٹخ رہا تھا۔ ’’ویولا! ویولا!‘‘
جب اسے ویولا کو کھو دینے کا یقین ہوگیا اور وہ اپنی سسکیاں قابو میں نہ رکھ سکا تو اچانک گھوڑے کو دلکی چلاتی ہوئی وہ دوبارہ نمودار ہوئی۔ وہ اپنی نظریں نہیں اٹھا رہی تھی۔
’’دیکھو، خدا کے لیے دیکھو، ویولا۔ دیکھو میں کیا کر رہا ہوں!‘‘ اور وہ اپنا ننگا سر ایک تنے سے ٹکرانے لگا (جو واقعی بہت سخت تھا)۔
ویولا نے اس کی جانب دیکھا بھی نہیں۔ وہ دورجا چکی تھی۔
کوسیمو درختوں کے درمیان ٹیڑھا میڑھا ہوتا ہوا، اس کی واپسی کا انتظار کرتا رہا۔
’’ویولا! میں کچھ بھی کر گزروںگا!‘‘ اور اس نے ٹانگوں سے ایک شاخ کو پکڑتے ہوے اپنے آپ کو سر کے بل خلا میں پھینک دیا۔ اور اپنے سر اور چہرے پر گھونسے برسانے لگا۔ پھر وہ تخریب کے دورے سے مغلوب ہوکر شاخیں توڑنے لگا اور چند ہی ثانیوں میں ایک گھنے بوقیذار کی جگہ محض ننگی چھال رہ گئی گویا کہ ژالہ باری کا کوئی طوفان گزرا ہو۔
لیکن اپنے آپ کو ہلاک کرلینے کی دھمکی اس نے کبھی نہیں دی۔ درحقیقت اس نے کسی بات کی بھی دھمکی کبھی نہیں دی۔ جذباتی سودے بازی اس کی سرشت میں نہیں تھی۔ اس نے جو کرنا چاہا سو کیا اور کرتے ہوے اس کا اعلان کیا، اس سے قبل نہیں۔
پھر اچانک، اپنے غصے کی طرح ناپیش بیں، دوناویولا دوبارہ نمودار ہوئی۔ کوسیمو کی ساری حماقتوں میں سے، جو کبھی ویولا تک رسائی حاصل نہ کرتی نظر آتی تھیں، اچانک ایک حرکت نے اسے ترحم اور محبت سے بھر دیا۔ ’’نہیں، کوسیمو، میری جان، رک جائو!‘‘ اور وہ اپنی زین سے کود کر ایک تنے پر چڑھنے کو دوڑ پڑی۔ کوسیمو کے بازو اسے اوپر اٹھانے کو تیار تھے۔
محبت نے ایک تندی کے ساتھ، جو مخاصمت کے مساوی تھی، پھر سے کام سنبھال لیا۔ حقیقت میں یہ ایک ہی بات تھی، لیکن کوسیمو نے اسے سمجھا نہیں تھا۔
’’تم مجھے اذیت کیوں دیتی ہو؟‘‘
’’کیونکہ میں تم سے محبت کرتی ہوں۔‘‘
اب ناراض ہونے کی باری کوسیمو کی تھی۔ ’’نہیں، نہیں، تم مجھ سے محبت نہیں کرتیں! محبت کرنے والے مسرت چاہتے ہیں، کرب نہیں!‘‘
’’محبت کرنے والے صرف محبت چاہتے ہیں، چاہے وہ کرب کی قیمت پر ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
’’پھر تو تم مجھے جان بوجھ کر اذیت دے رہی ہو۔‘‘
’’ہاں یہ یقین کرنے کے لیے کہ تم مجھ سے محبت کرتے ہو۔‘‘
بیرن کا فلسفہ یہاں جواب دے گیا۔ ’’کرب روح کی ایک منفی حالت ہے۔‘‘
’’محبت سب کچھ ہے۔‘‘
کرب کی ہمیشہ مزاحمت کی جانی چاہیے۔‘‘
محبت کسی بات سے انکار نہیں کرتی۔‘‘
’’بعض باتیں میں کبھی نہیں مانوںگا۔‘‘
’’تم مانو گے، بات یہ ہے کہ تم مجھ سے محبت کرتے ہو اور اس لیے اذیت جھیلتے ہو۔‘‘
کوسیمو کی مایوسی کے ہیجانوں کی طرح اس کی ناقابلِ ضبط مسرت کے غل غڑاپے بھی پُرشور ہوتے تھے۔ بعض اوقات اس کی خوشی ایسے مقام پر پہنچ جاتی کہ اسے ویولا کو چھوڑ کر کودتے پھاندتے شور مچاتے دنیا کے آگے اس کی حیرتوں کا اعلان کرنے جانا پڑتا۔
’’میں دنیا کی سب سے حیرت انگیز عورت سے محبت کرتا ہوں۔‘‘
اومبروسا میں بنچوں پر بیٹھنے والے کاہل یا بڑے تجربہ کار بوڑھے اس کے اس طرح اچانک آدھمکنے کے عادی سے ہوگئے تھے۔ وہ دیودار کے درختوں میں سے لپکتا ہوا پُرجوش انداز سے اشعار پڑھتا ہوا آتا:
جمیکا کے جزیرے پر
سحر تک شام سے لے کر
مرے پہلو میں ہو دلبر
میں چاہوں اس سے کیا بڑھ کر
یا:
ہے وہ مرغزار ایسا جہاں گھاس ہے سنہری
مجھے لے چلو وہیں تم کہ یہاں تو مرچلا میں
اور پھر غائب ہوجاتا۔
کلاسیکی اور جدید زبانوں کا اس کا مطالعہ، کتنا ہی کم جاری کیوں نہ رہا ہو، اپنے جذبات کے اس پُرخروش اظہار میں خود کو ڈبونے کے لیے کافی تھا۔ وہ شدید جذبات سے جتنا زیادہ انگیخت ہوتا، اس کی زبان اتنی ہی مہمل ہوجاتی۔ یہاں کے لوگوں کو یاد ہے کہ ایک دفعہ پیٹرن سینٹ کے تہوار پر جب اومبروسا کے لوگ شجرِ فراوانی، علم چوب اور پھولوں کی لڑیوں کے گرد چوک میں جمع تھے، تو بیرن کس طرح ایک چنار کے درخت کی چوٹی پر نمودار ہوا، اور اپنی ایک اس جست کے ذریعے، جو صرف اس کی بازی گرانہ چستی ہی پیدا کرسکتی تھی، شجرِ فراوانی پر کود کر، اس کی چوٹی تک جاپہنچا اور چلّا کر کہا، ’’زندہ باد اے حسیں، زہرہ سرین۔‘‘ پھر وہ چوب پر سے پھسلتا ہوا تقریباً زمین تک آ کر ٹھہرا اور اپنا راستہ ٹٹولتا ہوا دوبارہ چوٹی تک جا پہنچا، آرائش میں سے ایک گول گلابی پنیرکا ٹکڑا جھپٹا، اور اپنی ایک اور مخصوص جست کے ذریعے چنار کے درخت پر لوٹ کر، اومبروسا کے لوگوں کو دنگ چھوڑ کر بھاگ گیا۔
ان پُرجوش کیفیات سے زیادہ کوئی شے مارکوئیزا کو خوش نہیں کرتی تھی، اور کوسیمو کو نوازنے کے لیے اسے محبت کے ایسے اعلانات پر اکساتیں جو خود ان کیفیات سے بھی شدید ہوتے۔ جب اومبروسائی اسے لگامیں ڈھیلی چھوڑے، سرپٹ گھوڑا دوڑاتے، اپنا چہرہ اس کی سفید ایال میں تقریباً چھپائے، دیکھتے تو جان لیتے کہ وہ بیرن سے ملنے کو دوڑی جارہی ہے۔ اس کے اندازِ شہسواری سے بھی محبت کی قوت کا اظہار ہوتا تھا، لیکن یہاں کوسیمو اس کا پیچھا کرنے سے قاصر تھا، اور اس کا شوقِ شہسواری، حالانکہ وہ اسے بہت سراہتا تھا، کوسیمو کے حسد اور کینے کی ایک پوشیدہ وجہ تھی، کیونکہ وہ دیکھ رہا تھا کہ ویولا اس کے مقابلے میں ایک وسیع تر دنیا کے تسلط میں ہے اور اس نے محسوس کرلیا تھا کہ وہ اسے صرف اپنے تک اور اپنی مملکت کی حدود تک محدود رکھنے میں کبھی کامیاب نہ ہوپائے گا۔ دوسری طرف مارکوئیزا، بیک وقت شیدائی اور شہسوار ہونے کی اپنی معذوری کا غالباً دکھ سہہ رہی تھی۔ وہ بار بار اس مبہم ضرورت سے مغلوب ہوتی کہ اس کی اور کوسیمو کی محبت ایسی محبت بن جائے جو گھوڑے کی پشت پر ہو۔ اسے ہر پل یہ احساس تھا، کہ اب درختوں پر دوڑنا اس کے لیے کافی نہیں ہے، اور یہ آرزو تھی کہ اپنے راکب کے پٹھے پر بیٹھ کر پوری رفتار سے دوڑتی چلی جائے۔
اور حقیقت میں اس کا گھوڑا دیہی علاقے کی تمام ڈھلانوں اور نشیبوں میں دوڑنے سے چکارے کی طرح پھرتیلا ہو رہا تھا، اور اب ویولا اسے بعض درختوں، مثال کے طور پر خمیدہ تنوں والے پرانے زیتونوں پر چڑھنے کو اکسانے لگی تھی۔ بعض اوقات گھوڑا شاخوں میں واقع پہلے دو شاخے تک پہنچ جاتا اور ویولا اسے زمین پر نہ باندھنے کی عادی سی ہوگئی تھی۔ وہ اسے اوپر زیتون میں باندھتی تھی۔ گھوڑے سے اتر کر وہ اسے پتے اور کونپلیں چبانے کے لیے چھوڑ دیتی۔
اور یوں جب زیتونوں کے جھنڈ سے گزرتے اور متجسس نظریں اٹھاتے کسی بڈھے گپی نے بیرن اور مارکوئیزا کو ایک دوسرے کی بانہوں میں دیکھا اور بستی کے لوگوں کویہ بھی بتایا کہ اوپر ایک شاخ پر سفید گھوڑا بھی تھا، تو اسے سودائی سمجھا گیا اور کسی نے بھی اس کا یقین نہ کیا اور اس بار، ایک بار پھر، چاہنے والوں کا راز محفوظ رہا۔

۲۳
یہ آخری کہانی ظاہر کرتی ہے کہ اومبروسا کے لوگ، جو قبل ازیں میرے بھائی کی حیاتِ عشق کے بارے میں افواہوں سے پُر تھے، اب اس تعشق کے مقابل، جو عین ان کے سروں پر شدت کے ساتھ جاری تھا، ایک باوقار سردمہری قائم رکھے ہوے تھے گویا کہ ان کا سامنا اپنے سے بالاتر کسی شے سے ہو رہا ہو۔ ایسا نہیں تھاکہ وہ مارکوئیزا کے طرزِ عمل پر نکتہ چینی نہ کرتے ہوں، لیکن زیادہ تر اس کا تعلق خارجی پہلوئوں سے تھا، جیسے کہ خطرناک رفتار سے گھوڑے کو دوڑانا (’’ایسی رفتار سے وہ کہاں جاسکتی ہے؟‘‘) اور درختوں کی پھننگوں پر متواتر فرنیچر چڑھانا۔ ان میں پہلے ہی ان سب باتوں کو اشرافیہ کا ایک انداز اور ان کا ایک عجوبہ سمجھنے کا رجحان تھا۔ (’’ان دنوں سب لوگ درختوں پر ہیں، عورتیں، مرد۔ ان کا اگلا اقدام کیا ہوگا؟‘‘) در حقیقت، وہ دور آنے کو تھا جسے زیادہ متحمل، مگر ساتھ ہی زیادہ منافقانہ بھی ہونا تھا۔
اب بیرن چوک میںگلِ خطمی کے درختوں پر کبھی کبھار ہی ظاہر ہوتا، اور جب وہ نظر آتا تو یہ اس بات کی علامت ہوتی کہ ویولا چلی گئی ہے۔ کیونکہ ویولا اپنی جائیداد کا انتظام دیکھنے کے لیے، جو سارے یورپ میں بکھری ہوئی تھی، بعض اوقات مہینوں دور رہتی، حالانکہ اس کے یہ سفر ان کے رشتے میں پڑنے والی دراڑوں سے مطابقت رکھتے تھے، جب وہ کوسیمو سے اس بات پر آرزدہ ہوتی کہ وہ محبت کے بارے میں اس کا نقطۂ نظر سمجھنے سے قاصر ہے۔ یہ نہیں کہ ویولا اسی ذہنی حالت میں روانہ ہوتی۔ وہ ہمیشہ اس کے روانہ ہونے سے پہلے صلح کرنے میں کامیاب رہتے حالانکہ اسے شبہ رہتا کہ ویولا نے یہ خاص سفرکرنے کا فیصلہ یوں کیا ہے کہ وہ اس سے اکتا گئی ہے، اور وہ اسے جانے سے روک نہیںسکا؛ شاید وہ اس سے علیحدہ ہونا شروع کر رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس سفر میں پیش آنے والا کوئی واقعہ یا غوروفکر کا کوئی لمحہ اس کے واپس نہ آنے کا فیصلہ کردے۔ سو میرا بھائی ایک عالمِ تشویش میں رہتا۔ وہ اس زندگی کی طرف لوٹنے کی کوشش کرتا جس کا وہ ویولا کے ملنے سے پہلے عادی رہا تھا؛ شکار کرنا اور مچھلیاں پکڑنا چاہتا، کھیتوں میں ہوتے کاموں کو سمجھنا چاہتا، اپنی پڑھائی کرنا چاہتا، چوک میں ہونے والی گپ شپ میں حصہ لینا چاہتا، گویا کہ اس نے کبھی کچھ اور نہ کیا ہو (اپنے آپ کو کسی دوسرے کے زیراثر کبھی تسلیم نہ کرنے کی نوجوانی کی ہٹیلی نخوت اس میں برقرار رہتی تھی)۔ اس کے ساتھ ہی وہ اس بات پراپنے آپ کو مبارک باد دیتا کہ محبت اسے کتنا کچھ دے رہی ہے، یہ مستعدی، یہ فخر؛ لیکن دوسری طرف وہ محسوس کرتا کہ بہت ساری باتیں اب اس کے لیے بے معنی ہو گئی ہیں، یہ کہ ویولا کے بغیر زندگی میں کوئی مزہ نہیں ہے، یہ کہ اس کے خیالات ہمیشہ ویولا کے تعاقب میں رہتے ہیں۔ ویولا کی موجودگی کے بگولے سے دور، وہ ذہن کی دانش مندانہ تنظیم میں جذبوں اور مسرتوں پر پھر سے قابو پانے کی جس قدر بھی کوشش کرتا، اتنی ہی شدت سے ویولا کی غیرموجودگی کا خلا یا اس کی واپسی کے لیے بے کلی محسوس کرتا۔ درحقیقت اس کی محبت بالکل ویسی ہی تھی جیسی ویولا چاہتی تھی، ویسی نہیںجیسی وہ ظاہر کرتا تھا۔ یہ ہمیشہ عورت ہی تھی جو فاصلے سے بھی فتح یاب ہوتی اور کوسیمو نہ چاہنے کے باوجود انجام کار اس سے لطف اندوز ہوتا۔
پھر اچانک مارکوئیزا لوٹ آتی۔ محبت کا موسم درختوں میں پھر سے آغاز ہوتا، لیکن ساتھ ہی بدگمانی کی رت بھی۔ ویولا کہاں گئی تھی؟ کیا کرتی رہی تھی؟ کوسیمو کو یہ جاننے کی حسرت تھی لیکن اس کے ساتھ ہی یہ خوف بھی کہ جانے وہ اس کے سوالوں کا کیا جواب دے۔ وہ کنایوں میں جواب دیتی اور ہر کنایہ اس کے شبہات کو مزید ابھارتا، اور وہ محسوس کرتا کہ ہرچند وہ اسے ستانے کے لیے جان بوجھ کر اس انداز میں جواب دے رہی ہے، تاہم یہ سب باتیں بالکل درست بھی ہو سکتی ہیں۔ ان بے یقینیوں میں، وہ ایک لمحے اپنی بدگمانی کو چھپاتا تو دوسرے لمحے بے قابو ہو کر پھٹ پڑتا۔ ویولا کبھی یکساں انداز میں جواب نہیں دیتی تھی، اس کے جواب ہمیشہ مختلف ہوتے تھے، ہمیشہ ناپیش بیں۔ ایک لمحے کوسیمو سوچتا کہ وہ ہمیشہ سے زیادہ اس سے وابستہ ہے، دوسرے لمحے اسے محسوس ہوتا کہ وہ اس کا احساس جگانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔

مارکیزا اپنی سیاحت کے دوران کیا کرتی تھی، ہم اومبروسا والے، بڑے شہروں اور ان کی گپ شپ سے دور ہونے کے سبب یہ جاننے سے قاصر تھے۔ لیکن اسی زمانے میں مجھے دوسری بار پیرس جانے کا اتفاق ہوا۔ میرایہ سفر لیموؤں کے کچھ ٹھیکوں کے سلسلے میں تھا، کہ اشرافیہ کے بہت سے لوگ تجارت کو اپنا رہے تھے، اور میں اولیں لوگوں میں شامل تھا۔
ایک شام، پیرس کی ایک درخشاں ترین آرائش گاہ میں دونا ویولا سے میری ملاقات ہوئی۔ اس کا سر پوش اتنا شاندار اور اس کی عبا اتنی بیش قیمت تھی کہ اگر میں نے اسے فوراً پہچان لیا تو اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ ایسی عورت تھی جسے کسی اور سے خلط ملط نہیں کیا جاسکتا تھا، حالانکہ میں پہلے تو اسے دیکھ کر چونک گیا تھا۔ اس نے بے اعتنائی سے میرا خیرمقدم کیا، لیکن جلد ہی مجھے ایک طرف لے جانے کا راستہ نکال لیا اور ایک سوال اور دوسرے کے درمیان کسی جواب کا انتظار کیے بغیر پوچھنے لگی، ’’تمھارے پاس اپنے بھائی کی کوئی خبر ہے؟ کیا تم جلدی اومبروسا واپس پہنچو گے؟ لو، اسے میری یادد دلانے کو یہ دے دینا۔‘‘ اور اس نے اپنے سینے سے ایک ریشمی رومال نکالتے ہوے میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ پھر اس نے تیزی سے اپنے آپ کو چاہنے والوں کے مجمعے میں گھِر جانے دیا، جو ہر جگہ اس کے جلو میں چلتا تھا۔
’’کیا تم مارکوئیزا کو جانتے ہو؟‘‘ مجھ سے پیرس کے ایک دوست نے چپکے سے پوچھا۔
’’بس معمولی سا،‘‘ میں نے جواب دیا، اور یہ بات درست بھی تھی؛ دونا ویولا جب اومبروسا میں قیام کرتی تو ویرانوں میں کوسیمو کی زندگی کے زیرِاثر، مقامی اشرافیہ کے کسی شخص سے ملنے کی زحمت نہیں کرتی تھی۔
’’ایسا حسن شاذ ہی ایسی بے قرار روح سے وابستہ ہوتا ہے، ’’میرے دوست نے کہا، ’’افواہ یہ ہے کہ وہ پیرس میں ایک چاہنے والے سے دوسرے تک اتنے تیز تواتر میں گزرتی ہے کہ کوئی اسے اپنا کہہ سکتا ہے نہ اپنے آپ کو مقدم سمجھ سکتا ہے۔ لیکن وہ بار بار ایک وقت میں مہینوں کو غائب ہوجاتی ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ وہ کفارہ ادا کرنے کے لیے کسی خانقاہ میں جاتی ہے۔‘‘
یہ جان کر کہ پیرس والے اومبروسا کے درختوں پر مارکوئیزا کی زندگی کو ادوارِ کفارہ سمجھتے ہیں، میں مشکل ہی سے اپنی ہنسی روک پایا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس افواہ نے مجھے پریشان کر دیا اور میں اپنے بھائی کے دورِ تاسف کی پیش بینی پر مجبور ہوگیا۔
ناخوشگوار اچنبھوں کی پیش بندی کے طور پر میں نے اسے خبردار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور جونہی میں اومبروسا لوٹا، اسے ڈھونڈنے نکل کھڑا ہوا۔ اس نے میرے سفر اور فرانس کی خبروں کے بارے میں تفصیل سے سوالات کیے، مگر میں سیاست و ادب کے بارے میں اسے کوئی ایسی بات نہیں بتا سکا جس سے وہ پہلے ہی آگاہ نہ ہو۔
بالآخر میں نے دونا ویولا کا رومال اپنی جیب سے نکالا۔ ’’پیرس کے ایک سالون میں میں تمھاری جاننے والی ایک خاتون سے ملا تھا۔ اس نے اپنے سلام کے ساتھ تمھارے لیے یہ دیا ہے۔‘‘
اس نے تیزی کے ساتھ رسّی سے بندھی ٹوکری نیچے گرائی، ریشمی رومال اٹھایا اور اسے اپنے چہرے پر یوں رکھا جیسے اس میں بسی خوشبو سونگھنا چاہتا ہو۔ ’’اخاہ، تم اس سے ملے تھے؟ کیسی تھی وہ؟ مجھے بتائو وہ کیسی تھی؟‘‘
’’بہت حسین اور بہت ذہین،‘‘ میں نے آہستہ سے جواب دیا، ’’لیکن لوگ کہتے ہیں کہ یہ خوشبو بہت سوں نے سونگھی ہے۔‘‘
اس نے رومال کو سینے سے یوں لگایا جیسے اس کے چھن جانے کا خوف ہو، پھر میری طرف مڑا۔ اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ ’’تمھارے پاس تلوار نہیں تھی کہ تم ان تمام دروغ گوئیوں کو کہنے والے کے حلق میں ٹھونس دیتے؟‘‘
مجھے اعتراف کرنا پڑا کہ یہ بات میرے ذہن میں بھی نہیں آئی تھی۔
وہ پل بھر خاموش رہا۔ پھر اس نے اپنے کندھے اُچکائے۔ ’’سب جھوٹ ہے۔ صرف میں ہی جانتا ہوں کہ وہ صرف میری ہے۔‘‘ اور وہ الوداع کا ایک لفظ بھی کہے بغیر شاخوں پر دوڑ گیا۔ اپنی دنیا سے باہر نکلنے پر مجبور کرنے والی کسی بھی بات کو یکسر نہ ماننے کا اس کا عمومی انداز میں پہچان گیا۔
اس واقعے کے بعد سے میں نے جب بھی اسے دیکھا تو اداس اور بے چین دیکھا، اِدھر اُدھر کودتے ہوے اور کچھ نہ کرتے ہوے دیکھا۔ اگر کستوروں کے مقابلے میں اسے کبھی کبھی سیٹی بجاتے سنا تو اس کی لَے کو کہیں زیادہ بے چین اور غمگین پایا۔

مارکوئیزا لوٹ آئی۔ ہمیشہ کی طرح کوسیمو کی بدگمانی نے اسے خوش کیا۔ اس نے بھی تھوڑی سی اسے ہوا دی، تھوڑی سی ہنسی اڑائی۔ یوں محبت کے خوبصورت دن پھر سے لوٹ آئے، اور میرا بھائی خوش ہوگیا۔
لیکن اب مارکوئیزا کوسیمو پر یہ الزام لگانے کا کوئی موقع نہ جانے دیتی کہ محبت کے بارے میں اس کا تصور بہت محدود ہے۔
’’کیا مطلب ہے تمھارا؟ میں جلتا ہوں؟‘‘
’’جلنے میں تم حق بجانب ہو۔ لیکن تم جلن کو عقل کے تابع کرنے کی کوشش کرتے ہو۔‘‘
’’یقینا، اس لیے کہ اس بارے میں کچھ زیادہ کرسکوں۔‘‘
’’تم استدلال بہت کرتے ہو۔ محبت کے بارے میں استدلال کیا ہی کیوں جائے؟‘‘
’’تم سے اور زیادہ محبت کرنے کے لیے۔ جو بات بھی استدلال کے ساتھ کی جائے اس کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔‘‘
’’تم رہتے درختوں پر ہو لیکن تمھاری ذہنیت کسی گٹھیا کے مارے وثیقہ نویس کی سی ہے۔‘‘
’’مشقت طلب کام لازمی طور پر ذہن کی سادہ ترین حالتوں میںکیے جانے چاہییں۔‘‘
وہ مقولے بیان کرتا رہا یہاں تک کہ ویولا بھاگ گئی۔ پھر وہ اپنے بال نوچتا ہوا، کچھ بھی کر گزرنے کی حالت میں، اس کے پیچھے دوڑ پڑا۔
انھیں دنوں ایک برطانوی پرچم بردار جہاز ہماری بندرگاہ میں لنگرانداز ہوا۔ امیر البحر نے اومبروسا کے ممتاز شہریوں اور بندرگاہ میں موجود دوسرے جہازوں کے افسروں کو ضیافت پر بلایا۔ مارکوئیزا بھی گئی اور اس شام سے کوسیمو حسد کا کرب ازسرِنو محسوس کرنے لگا۔ دو مختلف جہازوں کے دو افسر دوناویولا کے گرویدہ ہوگئے، اور اسے رجھانے اور توجہ حاصل کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے متواتر ساحل پر دیکھے جانے لگے۔ ایک، برطانوی پرچم بردار جہاز کا پرچمی افسر تھا، جب کہ دوسرے کا تعلق نیپولینی بیڑے سے تھا، مگر تھا وہ بھی پرچمی افسر۔ انھوں نے دو سرخی مائل بھورے گھوڑے کرائے پر لیے اور مارکوئیزا کی بالکونیوں کے نیچے باری باری موجود رہنے لگے اور جب وہ ملتے تو نیپولینی ایسی شعلہ بار نظروں سے انگریز کو دیکھتا کہ اسے جل کر راکھ ہوجانا چاہیے تھا، جبکہ انگریز کے نیم باز پپوٹوں میں سے اس کی نگاہ ایسی چمکتی جیسے تلوار کی نوک۔
اور دو ناویولا؟ وہ شوخ چشم کیا کرتی، سواے اس کے کہ دن بھر غسل کا لبادہ پہنے، گویا کہ نئی نئی بیوہ ہوئی ہو اور اس کا سوگ ابھی ابھی ختم ہوا ہو، کھڑکی کی دہلیز پر جھکی، گھر پر موجودرہتی۔ اسے درختوں پر اپنے ساتھ نہ پاکر، اس کے سفید گھوڑے کو اپنی طرف سر پٹ آتا نہ سن کر، کوسیمو پاگل ہو رہا تھا۔ انجام کار اس نے بھی، ویولا اور دونوں پرچمی افسروں پر نظر رکھنے کے لیے اسی کھڑکی کے آگے ڈیرا ڈال دیا۔
وہ اپنے حریفوں کو ان کے متعلقہ جہازوں پر فوراً واپس بھیجنے کے لیے کوئی خوفناک جال تیار کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا کہ اس نے محسوس کیا کہ ویولا ان دونوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی علامات ظاہر کر رہی ہے۔ وہ یہ توقع کرنے لگا کہ ویولا محض انھیں، اور اسے بھی، ستا رہی ہے۔ تاہم اس نے ویولا پر چوکسی کی نظر برقرار رکھی، اور اس کی طرف سے کسی ایک پر دوسرے کو ترجیح دیئے جانے کے آثار نظر آتے ہی بیچ میں کود پڑنے کا فیصلہ کرلیا۔
اس دوران، ایک صبح، انگریز آتا ہے۔ ویولا کھڑکی پر ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتے ہیں۔ مارکوئیزا ایک رقعہ گراتی ہے۔ افسر اسے ہوا میں ہی پکڑ لیتا ہے۔ وہ رقعہ پڑھ کر آداب بجالاتا ہے۔ وفورِ جذبات سے سرخ ہوجاتا ہے اور پھر گھوڑے کو ایڑ لگا کر یہ جا وہ جا۔ ملاقات! سو، خوش نصیب شخص انگریز تھا! کوسیمو نے قسم کھائی کہ وہ انگریز کو چین سے رات نہیں گزارنے دے گا۔
اسی لمحے نیپولینی بھی آجاتا ہے۔ ویولا اس کی جانب بھی ایک رقعہ پھینکتی ہے۔ افسر رقعہ پڑھتا ہے۔ اسے ہونٹوں سے لگا کر بوسہ دیتا ہے۔ سو کوسیمو نے سوچا کہ منتخب شخص وہ ہے۔ واقعی؟ تو پھر دوسرا؟ کوسیمو کو کس کے خلاف کام کرنا تھا؟ دوناویولا نے یقینا ان میں سے ایک ہی کے ساتھ ملاقات طے کی ہوگی، دوسرے کو یقینا بے وقوف بنایا ہوگا۔ یا وہ ان دونوں کے ساتھ کھلواڑ کرنا چاہتی ہے؟
جہاں تک جاے ملاقات کا تعلق ہے تو کوسیمو نے اپنے شبہات سیرگاہ کے آخر میں واقع ایک بنگلے پر مرکوز کیے۔ مارکوئیزا نے کچھ عرصے قبل ہی اسے درست اور آراستہ کیا تھا، اور کوسیمو، اس وقت کے خیال میں جب اس نے درختوں کی پھننگوں کو صوفوں اور پردوں سے بھر دیا تھا، بدگمانی سے کڑھ رہا تھا۔ اب وہ ایسی جگہوں پر توجہ صرف کر رہی تھی جہاں وہ داخل ہی نہیں ہوسکتا تھا۔ ’’میں بنگلے کی نگرانی کروںگا،‘‘ کوسیمو نے اپنے آپ سے کہا، ’’اگر اس نے ان دونوں افسروں میں سے ایک کے ساتھ ملاقات طے کی ہے تو یہ صرف وہیں ہوسکتی ہے۔‘‘ اور وہ موترا کے پتوں میں چھپ گیا۔
جھٹ پٹے سے ذرا پہلے ایک سرپٹ دوڑتے گھوڑے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ یہ نیپولینی ہے۔ اب میں اسے طیش میں لائوں گا! کوسیمو یہ سوچ کر اپنی غلیل اٹھاتا ہے اور مٹھی بھر گلہری کی مینگنیاں اس کی گردن پہ مارتا ہے۔ افسر اپنے آپ کو جھٹکا دیتا ہے اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگتا ہے۔ کوسیمو شاخ سے باہر نکلتا ہے اور جونہی کھلے میں آتا ہے، ایک باڑ کے پرے انگریز افسر کو اپنے گھوڑے سے اترتے اور اسے ایک چوبی ستون سے باندھتے دیکھتا ہے۔ ’’پھر تو یہ ہے۔ ہوسکتا ہے نیپولینی محض اتفاقاً اِدھر سے گزر رہا ہو۔‘‘ اور ڈھیر ساری مینگنیاں انگریز کی ناک پر پڑتی ہیں۔
’’کون ہے وہاں؟‘‘ انگریز آواز لگاتا ہے۔ وہ باڑ عبور کیا ہی چاہتا ہے کہ اپنے نیپولینی ہم کار کو اپنے روبرو پاتا ہے، جو گھوڑے سے اتر گیا ہے اور خود بھی پکار رہا ہے۔ ’’کون ہے وہاں؟‘‘
’’میں معافی چاہتا ہوں، جناب!‘‘ انگریز کہتا ہے، ’’آپ یہاں سے فوراً رخصت ہوجایئے!‘‘
’’مجھے یہاں ہونے کا پورا حق ہے،‘‘ نیپولینی کہتا ہے، ’’لہٰذا میں حضورِ والا سے کہتا ہوں کہ یہاں سے تشریف لے جائیں!‘‘
’’کوئی حق میرے حق سے زیادہ نہیں ہوسکتا،‘‘ انگریز جواب دیتا ہے، ’’مجھے افسوس ہے، لیکن میں آپ کو ٹھہرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔‘‘
’’یہ وقار کا سوال ہے،‘‘ دوسرا کہتا ہے، ’’میں اپنے گھرانے کے وقار پر بھروسا کرتا ہوں۔ سلواتور دی سان کاتالدو،دی سانتا ماریا کاپواوتیرے، جس کا تعلق دونوں سسلیوں کے بادشاہ کی بحریہ سے ہے!‘‘
’’سر اوسبرٹ کاسل فیلڈ کی تیسری پشت!‘‘ انگریز خود کو متعارف کراتا ہے، ’’میرے وقار کا تقاضا ہے کہ میں آپ سے میدان خالی کرنے کا مطالبہ کروں۔‘‘
’’آپ کو اس وفادار تلوار سے زیر کرنے سے پہلے نہیں!‘‘ اور وہ اپنی تلوار کو بے نیام کرتا ہے۔
’’جناب، آپ لڑنے کی خواہش رکھتے ہیں!‘‘ سر اوسبرٹ یہ کہتے ہوے چوکس ہوجاتا ہے۔
وہ لڑنے لگتے ہیں۔
’’یہ وہ جگہ ہے جہاں بہت دنوں سے میں تمھیں لانا چاہتا تھا، میرے ہم کار!‘‘ نیپولینی حملہ کرتا ہے۔
سر اوسبرٹ وار بچاتے ہوے کہتا ہے، ’’جناب، میں بھی کچھ وقت سے آپ کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوں۔ مجھے بھی اسی بات کا انتظار تھا!‘‘
مہارت میں ہم سر، دونوں افسروں نے اپنے کو حملوں اور دھوکے کے دائو پیچ میں جھونک دیا۔ وہ اپنے غیظ کے عروج پر تھے کہ ایک آواز نے پکار کر کہا، ’’خدا کے واسطے رک جائو!‘‘ بنگلے کی سیڑھیوں پر دوناویولا کھڑی تھی۔
’’مارکوئیزا، یہ شخص۔۔۔‘‘ دونوں افسروں نے اپنی تلواریں نیچی کرلیں اور ایک دوسرے کی طرف اشارہ کرتے ہوے ہم آواز ہوکر کہا۔
دونا ویولا بولی، ’’میرے عزیز دوستو! میں التجا کرتی ہوں، اپنی تلواریں نیام میں رکھ لو۔ یہ طریقہ ہے کسی خاتون کو متوجہ کرنے کا؟ میں نے اس بنگلے کا انتخاب اپنے باغ کی سب سے خاموش اور خفیہ جگہ کے طور پر کیا تھا، اور ابھی مشکل ہی سے میری آنکھ لگی تھی کہ ہتھیاروں کے ٹکرانے کی آواز آنے لگی!‘‘
’’لیکن، ملادی،‘‘ انگریز نے کہا، ’’کیا آپ نے مجھے نہیں بلایا تھا؟‘‘
’’آپ یہاں میری منتظر تھیں، سینورا۔۔۔‘‘ نیپولینی نے کہا۔
دوناویولا کے حلق سے ایسی ہنسی نکلی جو پروں کی پھڑپھڑاہٹ جیسی نازک تھی۔ ’’خدایا! ہاں۔ ہاں، میں نے آپ کو بلایا تھا۔۔۔ یا آپ کو۔ توبہ، میں بھی کتنی بدحواس ہوں۔ خیر، صاحبو، اب کیا انتظار ہے؟ ازراہِ کرم اندر تشریف لایئے۔۔۔‘‘
’’ملادی، میرا خیال تھا دعوت صرف میرے لیے ہے۔ میں مایوس ہوا ہوں۔ کیا میں سلام پیش کرتے ہوے رخصت ہونے کی اجازت لے سکتا ہوں؟‘‘
’’سینورا، میں بھی یہی کچھ کہنے کی خواہش رکھتے ہوے الوداع کہتا ہوں!‘‘
مارکوئیزا ہنس پڑی۔ ’’میرے اچھے دوستو۔۔۔ میرے اچھے دوستو۔۔۔ میں بھی کتنی پریشان دماغ ہوں۔۔۔ میرا خیال تھا میں نے سر اوسبرٹ کو الگ بلایا تھا۔۔۔ اور دون سلواتور کو الگ۔۔۔ نہیں۔ نہیں معاف کیجیے ایک ہی وقت بلایا تھا، مگر مختلف مقامات پر۔۔۔ ارے نہیں، یہ کیسے ہوسکتا ہے؟۔۔۔ خیر۔ بہرحال، یہ دیکھتے ہوے کہ آپ دونوں یہاں موجود ہیں، ہم بیٹھ کر مہذب گفتگو کیوں نہیں کرسکتے؟‘‘
دونوں لیفٹیننٹوں نے ایک دوسرے کو دیکھا، پھر اسے دیکھنے لگے۔ ’’مارکوئیزا ،کیا ہم یہ سمجھیں کہ آپ محض ہم دونوں کا مذاق اڑانے کے لیے ہماری توجہ قبول کرنے کا بہانہ کر رہی ہیں؟‘‘
’’ایسا کیوں، میرے اچھے دوستو؟ اس کے برعکس، بالکل اس کے برعکس۔۔۔ آپ کی توجہ مشکل ہی سے لاتعلق رہنے دے سکتی ہے۔۔۔ اتنے پیارے لوگ ہیں آپ دونوں۔۔۔ اور یہی میری پریشانی ہے۔۔۔ اگر میں سر اوسبرٹ کی خوش وضعی کا انتخاب کرتی ہوں تو آپ کو گنواتی ہوں، میرے جذباتی دون سلواتور۔۔۔ اور سان کاتالدو کے افسر کی گرمیِ جذبات کوچنتی ہوں تو جناب، آپ سے دستبردار ہونا پڑتا ہے... اُف آخر کیوں۔۔۔ آخر کیوں۔۔۔‘‘
’’آخر کیوں کیا؟‘‘ دونوں افسروں نے بیک آواز پوچھا۔
دوناویولا اپنی نظریں جھکاتے ہوے بولی، ’’آخر کیوں دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے؟‘‘
اوپر موترا کے درخت سے شاخیں ٹوٹنے کی آواز آئی۔ یہ کوسیمو تھا، جو اپنی خاموشی مزید برقرار نہیں رکھ سکتا تھا۔
لیکن دونوں پرچمی افسر اتنے الجھے ہوے تھے کہ یہ آواز نہیں سن سکے۔ دونوں ایک قدم پیچھے ہٹ گئے۔ ’’کبھی نہیں، مادام۔‘‘
مارکوئیزا نے اپنی سب سے درخشاں مسکراہٹ کے ساتھ اپنا دل فریب چہرہ اٹھایا۔ ’’تو پھر میں اپنے کو آپ میں سے اس کو سونپوں گی جو مجھے ہر بات میں خوش کرنے کے لیے، مجھے اپنے حریف کے ساتھ بانٹنے پر تیار ہونے کا اقرار کرے گا!‘‘
’’سینورا!‘‘
’’ملا دی!‘‘
دونوں افسر سردمہری سے ویولا کے آگے جھکے۔ پھر مڑ کر ایک دوسرے کے مقابل ہوے اور آپس میں ہاتھ ملایا۔
’’مجھے یقین تھا کہ آپ بھلے آدمی ہیں، سینور کاتالدو،‘‘ انگریز نے کہا۔
’’مجھے آپ کے وقار میں کبھی شک نہیں تھا،مسٹر اوسبرتو،‘‘ نیپولینی نے کہا۔
انھوں نے مارکوئیزا سے منھ موڑا اور اپنے گھوڑوں کی طرف بڑھے۔
’’میرے دوستو۔۔۔ ایسی ناگواری کیوں۔۔۔ بے وقوف لڑکو۔۔۔‘‘ ویولا کہہ رہی تھی مگر دونوں افسر اس وقت تک رکابوں میں پائوں رکھ چکے تھے۔
اپنے تیار کردہ انتقام کا پیشگی لطف اٹھاتے ہوے کوسیمو دیر سے اس لمحے کا منتظر تھا جب وہ دونوں ایک انتہائی دردناک حیرت سے دوچار ہوتے، تاہم اب، بے حیا مارکوئیزا کو الوداع کہنے میں ان کا مردانہ رویہ دیکھتے ہوے، کوسیمو نے اپنے آپ کو اچانک ان کے ساتھ ہم آہنگ محسوس کیا۔ مگر اب تو بہت دیر ہوچکی تھی! انتقام کے لیے رکھی گئی خوفناک چیزوںکوہٹانا اب ممکن نہیں تھا۔ اس نے لمحے بھرکو سوچا اور فراخ دلی سے انھیں متنبہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
’’رک جائو!‘‘ وہ درخت پر سے چلایا، ’’سوار مت ہو!‘‘
دونوں افسروں نے بھونچکا ہو کر سر اٹھائے۔ ’’تم وہاں اوپر کیا کر رہے ہو؟اس سے تمھارا کیا مطلب ہے؟ نیچے آئو!‘‘
ان کے عقب میںدوناویولا کی ہنسی، اس کی پرندے کے بازوئوں والی ہنسی، سنائی دی۔
دونوں حیران نظر آ رہے تھے۔ سو ایک تیسرا بھی تھا، جو لگتا تھا اس تمام واقعے میں موجود رہا ہے۔ صورتِ حال پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہوتی جارہی تھی۔
’’بہرحال،‘‘ انھوں نے ایک دوسرے سے کہا، ’’ہم دونوں کلی طور سے متفق ہیں!‘‘
’’اپنی عزت کی قسم!‘‘
’’ہم دونوں میں کوئی بھی ملادی کو کسی کے ساتھ بانٹنے پر اتفاق نہیں کرے گا!‘‘
’’کبھی نہیں!‘‘
’’لیکن اگر ہم دونوں میں سے کوئی یہ منظور کرنے کا فیصلہ۔۔۔‘‘
’’اس صورت میں بھی ہم متفق ہیں! ہم دونوں ایک ساتھ منظور کریںگے!‘‘
’’یہ معاہدہ ہے! اب، چلتے ہیں!‘‘
اس نئے مکالمے پر کوسیمو، کہ اس نے خود اپنا انتقام ٹالنے کی کوشش کی تھی، طیش میں آکر اپنا سر پیٹنے لگا۔ ’’تو پھر یونہی سہی!‘‘ وہ خود سے کہتے ہوے دوبارہ پتوں میں چھپ گیا۔ دونوں افسر اچھل کر اپنی زینوں پر بیٹھ گئے۔ اب یہ بلبلائیںگے، کوسیمو نے سوچا اور اپنے کان بند کرلیے۔ فضا دُہری چیخوں سے گونج اٹھی۔ دونوں پرچمی افسر اپنی زینوں کے آرائشی ساز و سامان میں چھپے ہوے خار پشتوں پر بیٹھ گئے تھے۔
’’دغا ہوگئی!‘‘ چیخوں اور اچھل کود اور پریشانی کے ایک دھماکے میں وہ زمین پر آ رہے، اور وہ یوں نظر آرہے تھے گویا مارکوئیزا کو الزام دینے والے ہوں۔
لیکن دوناویولا، جو ان دونوں سے زیادہ برہم تھی، چلا کر بولی، ’’کینہ پرور، عفریت صفت بندر!‘‘ وہ تیزی سے موترا کے تنے کی طرف بڑھی اور سرعت کے ساتھ دونوں افسروں کی نظر سے غائب ہوگئی، جن کا خیال تھا کہ اسے زمین نگل گئی ہے۔ اوپر شاخوں میں ویولا کوسیمو کے مقابل تھی۔ وہ ایک دوسرے کو شعلے برساتی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے تھے اور ان کا غیظ انھیں ایک طرح کی پاکیزگی دے رہا تھا جو بلند منصب فرشتوں جیسی تھی۔ لگتا تھا کہ وہ ایک دوسرے کے پرزے اڑانا چاہتے ہیں کہ عورت نے بے ساختہ کہا، ’’ہائے میری جان! اسی طرح، ہاں، اسی طرح میں تمھیں پسند کرتی ہوں۔ حاسد، کٹھور!۔۔۔‘‘ وہ پہلے ہی سے اپنا ایک بازو اس کی گردن میں ڈال چکی تھی۔ وہ ہم آغوش تھے اور اب کوسیمو کو کچھ یاد نہیں تھا۔
وہ اس کے بازوئوں میں تھی۔ پھر اس نے اپنا چہرہ کوسیمو کے چہرے سے ہٹایا، گویا اس کے ذہن میں کوئی خیال کوندا ہو، اور بولی، ’’لیکن وہ دونوں بھی، وہ مجھے کتنا چاہتے ہیں۔ تم نے دیکھا؟ وہ مجھے آپس میں بانٹنے پر بھی تیار ہیں۔۔۔‘‘
ایک لمحے کے لیے کوسیمو نے چاہا کہ اپنے آپ کو اس پر پٹخ ڈالے۔ پھر اس نے شاخوں پر اپنے آپ کو سنبھالا اور دانتوں سے پتے نوچتے ہوے اپنا سر تنے سے ٹکرانے لگا، ’’وہ کمینے ہیں۔۔۔‘‘
ویولا دور ہٹ گئی تھی اور اس کا چہرہ کسی مجسّمے کے چہرے کی طرح ساکن تھا۔ ’’تمھیں ان سے بہت کچھ سیکھنا ہے!‘‘ وہ مڑی اور تیزی کے ساتھ درخت سے اتر گئی۔
دونوں التفات طلب اپنے پچھلے اختلافات کو بالکل بھلا چکے تھے اور اب صبر و سکون کے ساتھ ایک دوسرے کے کانٹے نکالنے میں محو تھے۔ دوناویولا نے انھیں چونکا دیا۔ ’’جلدی! میری گاڑی میں بیٹھو!‘‘ وہ سب بنگلے کے عقب میں غائب ہوگئے۔ گاڑی آگے بڑھ گئی۔ کوسیمو اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپائے، موترا کے درخت پر رہ گیا۔
اب کوسیمو کے لیے، اوران دو سابق حریفو ں کے لیے بھی، ایک دورِ اذیت کا آغاز ہوا۔ اور ویولا کے لیے کیا اسے دورِ مسرت کہا جاسکتا تھا؟ مجھے یقین ہے کہ مارکوئیزا دوسروں کو اذیت اس لیے دیتی تھی کہ وہ خود کو اذیت دینا چاہتی تھی۔ وہ عالی نسب افسر، ہمہ وقت حقیر اور ناقابلِ علیحدگی، اس کی کھڑکیوں کے نیچے رہتے یا اس کی بیٹھک میں، یا پھر مقامی شراب خانے میں پینے پلانے کے طویل ادوار میں محو رہتے۔ وہ ان دونوں کی مدح سرائی کرتی اور محبت کے دائمی نئے ثبوتوں میں ایک دوسرے کی مسابقت پر اکساتی، اور وہ ہر بار ایسا کرنے پر اپنے آمادہ ہونے کا اظہار کرتے اور اب تو وہ اسے آپس میں آدھا آدھا تقسیم کرنے پر بھی تیار تھے۔ بلکہ یہی نہیں، وہ اسے کسی اور کے ساتھ بھی بانٹنے پر آمادہ تھے، اور رعایتوں کے پھسلواں ڈھلوانوں پر بس ایک بار لڑھکنے کی دیر تھی، اب رکنا ان کے بس میں نہیں تھا۔ ہر ایک ویولا کو متاثر کرنے اور یوں اس کے وعدوں کی تکمیل حاصل کرنے میں کامیاب ہونے کی خواہش سے مغلوب تھا، اور ساتھ ہی اتحاد کے ایک معاہدے میں اپنے حریف سے وابستہ بھی۔ اس کے حسد میں بھی مبتلا تھا اور اس کی جگہ لینے کا امیدوار بھی، اور، مجھے ڈر ہے کہ ہر ایک پر اس غیرواضح ذلت کے کھچائو کا بھی اثر تھا جس میں وہ دونوں اپنے کو ڈوبتا محسوس کر رہے تھے۔
بحری افسروں سے جھپٹی گئی ہر نئی رعایت پر، ویولا اپنے گھوڑے پر سوار ہوتی اور کوسیمو کو جاکر اس کے بارے میں بتاتی۔
’’کیا تم جانتے ہو کہ انگریز یہ کرنے پر آمادہ ہے۔۔۔ اور نیپولینی بھی۔۔۔‘‘ وہ جونہی کوسیمو کو کسی درخت پر اداسی سے بسیرا لیے دیکھتی تو چلا کر کہتی۔
کوسیمو جواب نہیں دیتا تھا۔
’’یہ مطلق محبت ہے،‘‘ وہ اصرار کرتی۔
’’مطلق غلاظت، جو تم سب ہو!‘‘ کوسیمو چلاّیا اور غائب ہوگیا۔
یہ ان کا ایک دوسرے سے محبت کرنے کا ظالمانہ انداز تھا۔ اور انھیں اس سے نجات کا کوئی راستہ نہ سوجھتا تھا۔
برطانوی پرچم بردار جہاز لنگر اٹھانے والا تھا۔ ’’آپ رک رہے ہیںنا؟‘‘ ویولا نے سر اوسبرٹ سے پوچھا۔ سراوسبرٹ جہاز پر حاضر نہیں ہوا اور اسے بھگوڑا قرار دے دیا گیا۔ اتحاد اور ہم سری کے جذبے میں دون سلواتور نے بھی یہی کیا۔
’’وہ جہاز چھوڑ کر بھاگ آئے ہیں!‘‘ ویولا نے فاتحانہ طور سے کوسیمو کو اطلاع دی، ’’میری خاطر! اور تم۔۔۔‘‘
’’اور میں؟‘‘ کوسیمو ایسے سفاک انداز سے چلاّیا کہ ویولا کو ایک لفظ بھی کہنے کی جرأت نہیں ہوئی۔
اپنے اپنے بادشاہ کی بحری فوجوں کے بھگوڑے، زرد رو اور بے چین سراوسبرٹ اور سلواتور دی سان کاتالدو، اب اپنے شب و روز شراب خانے میں جوا کھیلتے ہوے گزارتے اور ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کرتے، جبکہ ویولا کی اپنے آپ سے اور اپنے گرد و پیش کی ہر شے سے بے اطمینانی انتہا پر تھی۔
اس نے اپنا گھوڑا لیا اور جنگل کی سمت گئی۔ کوسیمو ایک بلوط پر تھا۔ وہ نیچے، ایک میدان میں رک گئی۔
’’میں اکتا گئی ہوں۔‘‘
’’اُن سے؟‘‘
’’تم سب سے۔‘‘
’’ہونہہ!‘‘
’’انھوں نے مجھے محبت کے بڑے بڑے ثبوت دیے ہیں۔۔۔‘‘
کوسیمو نے تھوکا۔
’’۔۔۔ لیکن یہ میرے لیے کافی نہیں ہے۔‘‘
کوسیمو نے اپنی آنکھیں اس کی آنکھوں میں ڈالنے کے لیے نیچی کیں۔
وہ بولی، ’’کیا تم نہیں سمجھتے کہ محبت کو مکمل سپردگی، مکمل ترکِ ذات ہونا چاہیے؟‘‘
ہمیشہ کی طرح حسین، وہ میدان میں کھڑی تھی اور سردمہری محض اس کے خدوخال کو چھو رہی تھی۔ اس کے رویے کی نخوت ایک لمس سے پگھل جاتی اور وہ پھر سے اس کے بازوئوں میں ہوتی۔۔۔ یہ دکھانے کے لیے کہ وہ سرِ تسلیم خم کرنے کو آمادہ ہے، کوسیمو کے لیے کچھ بھی کہنا ٹھیک ہوتا، ’’مجھے بتائو تم مجھ سے کیا چاہتی ہو، میں تیار ہوں...‘‘ اور مسرت کسی غبار کے بغیر مسرت، ایک بار پھر اس کے دل میں اتر آتی۔ لیکن اس نے کہا، ’’اگر کوئی اپنی پوری طاقت کے ساتھ اپنا آپ برقرار نہیں رکھ سکتا تو محبت ہو ہی نہیں سکتی۔‘‘
ویولا نے جھلاہٹ میں کندھے اُچکائے لیکن اس کا باعث تکان بھی تھی۔ اور اس کے باوجود وہ اسے سمجھ سکتی تھی، جیساکہ وہ اس وقت اسے واقعی سمجھ رہی تھی، اور یہ الفاظ اس کی نوکِ زبان پر تھے، ’’تم ویسے ہی ہو جیسا میں تمھیں چاہتی ہوں،‘‘ جنھیں ادا کر کے وہ پھر سے اس کے پاس آجاتی۔۔۔ لیکن اس نے اپنے ہونٹ کاٹے اور بولی، ’’پھر ٹھیک ہے،خود ہی اپنا آپ برقرار رکھو۔‘‘
’’لیکن، پھر اپنا آپ برقرار رکھنا کوئی معنی نہیں رکھتا،‘‘ کوسیمو یہ کہنا چاہتا تھا۔ مگر اس کے بجاے اس نے کہا، ’’اگر تم ان بدمعاشوں کو ترجیح دیتی ہو۔۔۔‘‘
’’میں تمھیں اپنے دوستوں سے نفرت کرنے کی اجازت نہیں دوںگی!‘‘ چلّانے کے باوجود وہ اب تک یہ سوچ رہی تھی، ’’میرے لیے اگرکوئی اہم ہے تو وہ تم ہو، اور میں جو کچھ بھی کر رہی ہوں صرف تمھارے لیے کر رہی ہوں!‘‘
’’سو، نفرت کے قابل صرف میں ہی ہوں۔‘‘
’’کیا انداز ہے تمھارے سوچنے کا!‘‘
’’یہ میرے وجود کا حصہ ہے۔‘‘
’’پھر خدا حافظ، میں آج رات روانہ ہو رہی ہوں۔ تم دوبارہ مجھے نہیں دیکھو گے۔‘‘

وہ تیزی سے گھر آئی، اپنا سامان باندھا اور افسروں سے بھی کوئی بات کیے بغیر رخصت ہو گئی۔ اس نے اپنا قول نبھایا اور وہ کبھی اومبروسا نہیں لوٹی۔ وہ فرانس گئی اور وہاں تاریخی واقعات کے ایک تواتر نے، جب اسے لوٹنے سے زیادہ کسی بات کی خواہش نہیں تھی، اس کا راستہ روک لیا۔ انقلاب کا آغاز ہوا، پھر جنگ شروع ہوگئی۔ پہلے تو مارکوئیزا نے واقعات کے نئے رخ میں دلچسپی لی —وہ لفایت (Lafayette) کے وفد میں شامل تھی— پھر وہ بلجیم میں جابسی اور وہاں سے انگلستان چلی گئی۔ لندن کی کہر میں، نیپولین کے خلاف جنگوں کے طویل سالوں کے دوران، وہ اومبروسا کے درختوں کے خواب دیکھا کرتی۔ پھر اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے وابستہ طبقہ ٔ امرا کے ایک انگریز سے شادی کرلی اور کلکتہ میں آباد ہوگئی۔ وہاں وہ اپنی انگنائی سے جنگلوں کو دیکھا کرتی جن کے درخت اس کے بچپن کے باغوں میں لگے درختوں سے بھی عجیب تر تھے۔ ہر لحظہ یہ لگتا کہ وہ کوسیمو کو پتوں میں سے ظاہر ہوتے دیکھ سکتی ہے، مگر وہ کسی بندر یا تیندوے کا سایہ ہوتا۔
سر اوسبرٹ کاسل فیلڈ اور سلواتور دی سان کاتالدو جینے مرنے میں ایک دوسرے سے وابستہ رہے اور انھوں نے مہم جوئی کو اپنا ذریعۂ معاش بنالیا۔ وہ وینس کے قمار خانوں، گوٹنگن کے شعبۂ دینیات اور پیٹرز برگ میں کیتھرین دوم کے دربار میں دیکھے گئے۔ اس کے بعد ان کا سراغ نہیں ملا۔
گریاں، شکستہ حال اور کھانا کھانے سے منکر، کوسیمو ایک زمانے تک جنگل کے اطراف بے مقصد بھٹکتا رہا۔ وہ نوزائیدہ بچوں کی طرح بلند آواز سے سسکیاں بھرتا۔ پرندے جو کبھی اس حتمی نشانہ باز کے نزدیک آنے پر اڑ جایا کرتے تھے، اب اس کے پاس آجاتے اور قریبی درختوں کی چوٹیوں پر، یا اس کے سر پر اڑتے رہتے۔ اور چڑیاں چوں چوں کرتیں، سہرے نغمہ سرا ہوتے، فاختائیں کوکتیں، ترغے سیٹیاں بجاتے، دج چہچہاتے اور اسی طرح پھدکیاں اور بلندی پر اپنے بھٹوں میں گلہریاں، شجری چوہے، میدانی چوہے اس کورس میں اپنی چیخوںکا اضافہ کرتے، اور یوں میرا بھائی اس ماتمی فضا میں نقل و حرکت کرتا۔
پھر اس پر ایک تخریبی تشدد طاری ہوگیا۔ وہ چوٹی سے آغاز کرتے ہوے ہر درخت کو پتّا پتّا کرکے تیزی سے نوچ ڈالتا، یہاں تک کہ وہ عریاں نظر آنے لگتا جیساکہ جاڑوں میں ہوتا ہے، چاہے عام طور پر اس کے پتے بالکل بھی نہ جھڑتے ہوں۔ پھر، چوٹیوں پر دوبارہ جاکر وہ تمام چھوٹی شاخیں اور کونپلیں توڑڈالتا، یہاں تک کہ اصل لکڑی کے سوا کچھ باقی نہ رہتا۔ وہ اور اوپر جاتا اور جیبی چاقو سے چھال اتارنے لگتا، اور متاثرہ درخت اپنے خوفناک زخموں کی سفیدی عیاں کرتے ہوے نظر آتے۔
کوسیمو کے اس تمام اضطراب میں ویولا کے خلاف کوئی آزردگی نہیں تھی، فقط اسے کھونے کی پشیمانی تھی، اسے اپنے سے وابستہ نہ رکھ پانے کی ندامت تھی، اس کواپنے ناروا اور احمقانہ غرور سے ٹھیس پہنچانے کی شرمندگی تھی۔ کیونکہ اب وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ ہمیشہ باوفا رہی تھی، اور اگر وہ دوسرے مردوں کے ساتھ گھومتی تھی تو اس کا مطلب محض یہ تھا کہ وہ کوسیمو کے سوا کسی کو اپنا محبوب ہونے کا اہل نہیں سمجھتی تھی، اور اس کے تمام وہم اور ناآسودگیاں ان کی محبت میں اضافے کی حد سے فزوں خواہش اور یہ تسلیم کرنے سے انکار کے سوا کچھ اور نہ تھیں کہ محبت کی کوئی حد ہوسکتی ہے، اور یہ کوسیمو، فقط کوسیمو تھا، جو اس بات کو ذرا بھی نہ سمجھ پایا تھا، اور اسے اس حد تک انگیخت کیا کہ آخر اسے کھو دیا۔
کچھ ہفتوں تک وہ جنگل میں رہا۔ ایسا تنہا وہ کبھی پہلے نہ تھا۔ اب اس کے ساتھ اوتیموماسیمو بھی نہیں تھا، کہ ویولا اسے اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ جب دوبارہ میرا بھائی اومبروسا میں ظاہر ہوا تو وہ بدل چکا تھا۔ اب میں بھی اپنے آپ کو دھوکا نہیں دے سکتا تھا۔ اس دفعہ کوسیمو واقعی پاگل ہوگیا تھا۔

۲۴
اس وقت سے لے کر جب وہ بارہ سال کی عمر میں درختوں پر چڑھا تھا اور نیچے آنے سے انکار کردیا تھا، اومبروسا میں یہ بات ہمیشہ کہی جاتی رہی تھی کہ کوسیمو پاگل ہے۔ لیکن بعد میں، جیسا کہ ہوتا ہے، اس کا پاگل پن سبھی نے قبول کرلیا تھا۔ میں صرف اس کے اوپر رہنے کے عزم کی بات نہیں کر رہا ہوں، بلکہ میرا اشارہ اس کے کردار کی کئی بوالعجبیوں کی طرف ہے۔ کوئی بھی اسے ایک اختراعی کے سوا کچھ اور نہیں سمجھتا تھا۔ پھر ویولا کے لیے اس کی محبت کے پورے طغیان میں، ناقابلِ فہم زبانوں میں وہ جوش بھری تقریریں تھیں، خاص طور پر پیٹرن سینٹ کے تہوار کے دوران والی، جنھیں کچھ لوگ، اس کے الفاظ کو ملحدانہ پکار کے معنی پہناتے ہوے، بے حرمتی سے تعبیر کرتے، یا پولستانی زبان میں سوسینیت (Socinianism)کا اعلان سمجھتے۔ اس وقت سے یہ افواہ کہ بیرن پاگل ہوگیا ہے، عام ہوگئی، اور تقلیدپرستوں نے اضافہ کیا، ’’جو ہمیشہ سے پاگل ہو، وہ کیسے پاگل ہوسکتا ہے؟‘‘
ان مختلف بیانوں کے درمیان کوسیمو واقعی پاگل ہوگیا تھا۔ اگر پہلے، وہ سر سے پائوں تک سمور میں ملبوس رہتا تھا تو اب امریکی پراچین کی طرح ہدہدیا کھٹ بڑھئی کے شوخ رنگوں والے پروں سے اپنے سر کو سجانے لگا تھا، اور اپنے سر کے پروں کے علاوہ وہ انھیں اپنے سارے کپڑوں پر بکھیر دیتا تھا۔ آخر آخر اس نے اپنے لیے ایسی جیکٹیں بنائیں جو ساری کی ساری پروں سے بھری تھیں۔ وہ مختلف پرندوں کی عادتوں کی نقل کرنے لگا اور ہدہد کی طرح درختوں کے تنوں سے کیڑے مکوڑے نکال کر لن ترانی کرتا کہ اس نے کیا دولت حاصل کی ہے۔
ان لوگوں کے سامنے جو اسے سننے اور دل لگی کرنے کے لیے درختوں کے نیچے جمع ہوتے، وہ پرندوں کے دفاع میں تقریریں بھی کرتا۔ وہ نشانہ باز سے پردار قبیلے کا وکیل بن گیا۔ وہ کبھی اپنے پھدکی ہونے کا اعلان کرتا، کبھی الّو ہونے کا، اور کبھی لال چڑیا ہونے کا۔ وہ انسانوں کے خلاف، جو نہیں جانتے تھے کہ پرندوں کو اپنا حقیقی دوست کیسے تسلیم کریں، طویل استغاثی تقریریں کرتا اور اس کی تقریریں سارے انسانی سماج کے خلاف، تمثیلوں کی شکل میں، الزامات کا طومارتھیں۔ پرندے بھی اس کے خیالات کی اس تبدیلی کو محسوس کرتے تھے اور، بھلے ہی نیچے لوگ سن رہے ہوں، وہ اس کے نزدیک آجاتے۔ یوں وہ اپنی تقریروں کو جیتی جاگتی مثالوں سے، جن کی طرف وہ آس پاس کی شاخوں پر اشارہ کرتا، مزین کرسکتا تھا۔
اس کے اس مخصوص کمال کی وجہ سے، اومبروسا کے شکاریوں میں، اسے دام کے طور پر استعمال کرنے کے بارے میں کافی بحث رہی۔ مگر کسی نے اس کے نزدیک بیٹھے ہوے پرندوں پر گولی چلانے کی کبھی ہمت نہیں کی۔ کیونکہ اب بھی، جب کہ وہ اپنے ہوش و حواس کم و بیش کھو چکا تھا، بیرن انھیں متاثر کرتا تھا۔ وہ اس کی ہنسی اڑاتے، اور اکثر اس کے درختوں تلے مذاق کرتے ہوے بازاری لڑکوں اور خوش فکروں کا ایک جلوس رہتا۔ اس کے باوجود اس کا احترام بھی کیا جاتا تھا اور اس کی بات ہمیشہ توجہ سے سنی جاتی تھی۔
اب اس کے درخت کاغذ کے ٹکڑوں اور دفتی کے پرزوں سے، جن پر شکستہ تحریر میں سینیکا (Seneca) اور شیفٹس بری (Shaftesbury) کے اقوال درج ہوتے، اور ایک خاص ترتیب میں ایک دوسرے سے بندھی مختلف چیزوں سے بھرے رہتے تھے، جیسے پروں کے گچھے، کلیسائی شمعیں، پتوں کے تاج، عورتوں کے شکم بند، پستول، ترازو۔ اومبروسائی یہ اندازہ لگانے کی کوشش میں گھنٹوں صرف کرتے کہ ان علامتوں کے معانی کیا ہیں۔ رئوسا، اسقفِ اعظم، نیکی، جنگ؟ میرے خیال میں ان میں چند کے تو سرے سے کچھ معانی تھے ہی نہیں۔ ان کا مقصد صرف اس کی یادداشت کو ٹہوکا دینا اور یہ احساس دلانا تھا کہ انتہائی غیرمعمولی خیالات بھی صحیح ہوسکتے ہیں۔
کوسیمو نے خود بھی کئی ادبی چیزیں، جیسے کستورے کا گیت، کھٹ بڑھئی کی ضرب، الّوئوں کا مکالمہ، لکھنے اور انھیں عوام میں تقسیم کرنے کا آغاز کیا۔ درحقیقت، فتورِ دماغ کے اسی زمانے میں اس نے فنِ طباعت سیکھا اور کچھ پمفلٹ یا گزٹ (جن میں ’’میگ پائی گزٹ‘‘ شامل تھا) چھاپنے شروع کیے جو سارے کے سارے بعد ازاںBiped's Monitor ( ’’دوپایوں کا نگراں‘‘ )کے عنوان سے چھاپے گئے۔ وہ ایک اخروٹ کے درخت پر طباعتی میز، فرمہ، چھاپا خانہ، حروف دان اور سیاہی کا مٹکا لے آیا تھا، اور اپنا وقت صفحے کمپوزکرنے اور کاپیاں نکالنے میں گزارتا تھا۔ بعض اوقات کاغذ اور ٹائپ کے درمیان مکڑیاں اور تتلیاں پھنس جاتیں، اور ان کے نشان صفحے پر چھپ جاتے۔ بعض اوقات، جبکہ سیاہی تازہ ہوتی، کوئی چھپکلی شیٹ پر کود پڑتی، اور ہر چیز کو اپنی دم سے لیس دیتی۔ بعض اوقات گلہریاں حروفِ تہجی میں سے کوئی یہ سوچ کر لے لیتیں کہ یہ کھانے کی کوئی چیز ہے، اور اسے اپنی کھوہ میں لے جاتیں، جیساکہ حروف Q کے ساتھ ہوا، جسے اس کی گول شکل اور ڈنٹھل کے باعث انھوں نے غلطی سے کوئی پھل سمجھا، اور یوں کوسیمو کو اپنے کچھ مضمون ـCueerسے شروع اور C.E.D سے ختم کرنے پڑے۔
یہ سب کچھ یقینا بہت عمدہ تھا لیکن میرا تاثر یہ ہے کہ اس زمانے میں میرا بھائی صرف پاگل ہی نہیں ہوا تھا بلکہ فاتر العقل بھی ہو رہا تھا۔ یہ بات زیادہ گمبھیر اور غم ناک تھی کیونکہ پاگل پن، نیکی یا بدی کے لیے، فطرت کی ایک طاقت ہے، جب کہ ضعفِ عقل، کسی متقابل شے کے بغیر، فطرت کی ایک کمزوری ہے۔
تاہم جاڑوں میں وہ اپنے کوغنودگی کی حالت میں لانے پر قادر لگتا تھا۔ وہ اپنے استردار سونے کے تھیلے میں، جس میں سے صرف اس کا سر باہر ہوتا، کسی ٹہنے سے لٹکا رہتا، گویا کسی بڑے سارے گھونسلے سے جھانک رہا ہو۔ اور یہ شاذ ہی ہوتا کہ وہ حوائجِ ضروریہ کے لیے مردانزو نا لے پر بید کے درخت تک پہنچنے کے لیے دن کے گرم ترین حصوں میں دو چار سے زیادہ چھلانگیں لگاتا ہو۔ بے ترتیبی سے (اندھیرے میں ایک چھوٹا سا تیل کا لیمپ جلاکر)پڑھتا ہوا، یا اپنے آپ سے بڑبڑاتا یا گنگناتا ہوا، وہ سونے کے تھیلے میں پڑا رہتا، لیکن زیادہ وقت وہ سونے میں گزارتا۔
کھانے کے لیے اس کے اپنے کئی پُراسرار انتظام تھے۔ لیکن جب کوئی نیک دل سیڑھی کے ذریعے اس تک اوپر لے آتا، تو وہ یخنی یا کچوریوں کا نذرانہ قبول کرلیتا۔ درحقیقت مقامی کسانوں میں ایک طرح کا توہم پیدا ہوگیا تھا کہ بیرن کو نذرانہ پیش کرنا خوش قسمتی کا ضامن ہے۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ یا تو لوگ اس سے خوف کھاتے تھے یا اس کے تئیں خیرسگالی کا جذبہ رکھتے تھے۔ میرے خیال میں بعد والی بات درست تھی۔ یہ بات کہ حاضر بیرن دی روندو عوامی خیرات پر گذارا کرے، مجھے نامناسب محسوس ہوئی اور سب سے بڑھ کر مجھے یہ خیال آیا کہ اگر ہمارے مرحوم والد کو پتا چلتا تو وہ کیا کہتے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، تو اس وقت تک میرے لیے اپنے آپ کو ملامت کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی، کیونکہ میرے بھائی نے گھریلو آسائشوں سے ہمیشہ نفرت کی تھی۔ اس نے میرے حق میں مختارنامہ لکھ دیا تھا جس کی رو سے اسے ایک معمولی سا وظیفہ دینے کے بعد (جو تقریباً سارا کا سارا وہ کتابوں پر خرچ کرتا تھا) اس کے تئیں میرا کوئی اور فرض باقی نہیں تھا۔ لیکن اب، اپنے لیے کھانا حاصل کرنے کی اہلیت سے اسے محروم دیکھ کر، میں نے وردی اور سفید وِگ پہنے اپنے ایک ملازم کو طشت میں رکھے چوتھائی ٹرکی اور بوردو کے ایک گلاس کے ساتھ، سیڑھی کے ذریعے اس تک بھیجنے کی کوشش کی۔ میرا خیال تھا کہ وہ اپنے پُراسرار اصولوں کی وجہ سے انکار کردے گا، لیکن اس کے بجاے اس نے فوراً اور بڑی رضامندی سے کھانا لے لیا۔ اور اس وقت سے، جب بھی مجھے خیال آتا، ہم اس کے لیے اپنے عمدہ کھانوں کا ایک حصہ اوپر شاخوں پر بھیجنے لگے۔
ہاں، یہ ایک المناک زوال تھا۔ پھر، خوش قسمتی سے بھیڑیوں نے حملہ کردیا اور اس واقعے نے کوسیمو کو اپنی بہترین صلاحیتیں پھر سے دکھانے کا موقع دیا۔ وہ ایک یخ بستہ سرما تھا۔ ہمارے جنگلوں تک میں برف پڑی تھی۔ قحط کے مارے بھیڑیوں کے غول کوہِ آلپس سے نکل کر ہمارے ساحلوں پر آگئے تھے۔ کچھ لکڑہاروں کی ان سے مڈبھیڑ ہوئی اور وہ دہشت زدہ ہوکر اس خبر کے ساتھ پلٹ آئے۔ اومبروسا کے لوگ، جو آگ کے خلاف حفاظت کرنے والوں کے زمانے سے خطرے کے لمحات میں ایک ہونا سیکھ چکے تھے، فاقہ زدہ درندوں کو نزدیک آنے سے روکنے کے لیے باری باری شہر کے گرد پہرہ دینے لگے۔ لیکن مکانوں سے پرے جانے کی جرأت، خاص طور پر رات میں، کوئی نہیں کرتا تھا۔
’’کیا بدنصیبی ہے کہ بیرن وہ نہیں ہے جو وہ ہوا کرتا تھا!‘‘ اومبروسا میں لوگ ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے۔
وہ شدید جاڑے کوسیمو کی صحت پر انداز ہوے بغیر نہیں گزرے۔ اپنی گٹھی میں کسی پیوپے کی طرح، وہ اپنی کھال میں دبکا ہوا لٹک رہا تھا۔ اس کی ناک بہہ رہی تھی اور وہ بدحواس اور پراگندہ لگ رہا تھا۔ بھیڑیوں کا دھڑکا بڑھ گیا تھا۔ نیچے گزرتے ہوے لوگوں نے آواز لگائی، ’’افسوس! بیرن، کبھی تم اپنے درختوں سے نگہبانی کیا کرتے تھے، مگر اب ہمیں تمھاری حفاظت کرنا پڑ رہی ہے۔‘‘
وہ اپنی ادھ کھلی آنکھوں کے ساتھ ساکت رہا، گویا کہ وہ سمجھا نہ ہو، یا کسی بات کی پروا نہ کرتا ہو۔ پھر، اچانک اس نے اپنا سر اٹھایا، اپنی ناک صاف کی اور بھرائی ہوئی آواز میں بولا، ’’بھیڑیں، بھیڑیوں کے لیے۔ دو چار کو درختوں پر رکھ دو، باندھ کر۔‘‘
نیچے، لوگ یہ سننے کہ وہ کیا لغو باتیں نکالے گا، اور فقرے کسنے کے لیے جمع ہو رہے تھے۔ اس کے بجاے وہ تیز تیز سانس لیتا اور کھانستا ہوا بستر سے اٹھا، اور کہنے لگا، ’’میں بتاتا ہوں کہاں۔‘‘ اور شاخوں کے درمیان آگے بڑھ گیا۔
اخروٹ یا بلوط کے کچھ درختوں پر، جو جنگل اور مرزوعہ زمین کے درمیان بڑی احتیاط سے چنی گئی جگہوں پر واقع تھے، کوسیمو نے ان سے بھیڑیں یا بَرے لانے کو کہا۔ ان ممیاتی ہوئی زندہ بھیڑوں کو اس نے خود شاخوں سے باندھا، لیکن اس طرح کہ وہ نیچے نہیں گر سکتی تھیں۔ ان میں ہر ایک درخت پر اس نے گراب کے چھروں بھری بندوق چھپا دی۔ پھر اس نے بھیڑ کا بہروپ بھرا۔ اس کا سر پوش، کوٹ، پتلون سب کچھ بھیڑ کی گھنگھریالی کھال سے بنا تھا۔ اور وہ کھلے درختوں پر رات کا انتظار کرنے لگا۔ ہر ایک کا خیال تھا کہ اس سے بڑی پاگل پن کی حرکت اس نے کبھی نہیں کی۔
تاہم، بھیڑیے اسی رات آگئے۔ بھیڑوں کی بو سونگھ کر، ان کا ممیانا سن کر اور پھر انھیں اوپر دیکھ کر تمام غول درختوں تلے رک گیا۔ عریاں کی ہوئی فاقہ زدہ کچلیوں کے ساتھ مسلسل چیخیں مارتے ہوے وہ اپنے پنجوں سے تنے کو کھکھیڑنے لگے۔ اور اب شاخوں پر چھلانگیں لگاتا ہوا کوسیمو آپہنچا۔ بھیڑ اور انسان کی اس مخلوط نسل کو پرندوں کی طرح پھدکتا دیکھ کر بھیڑیے مبہوت ہوگئے۔ یہاں تک کہ دو فائروں نے ان کا گلا چھید دیا۔ دو اس لیے کہ ایک بندوق تو کوسیمو کے پاس تھی، جسے وہ ہر بار بھرتا تھا اور دوسری بھری ہوئی، ہر درخت پر تیار تھی۔ سو، ہر بار جب وہ گولی چلاتا تو دو بھیڑیے یخ بستہ زمین پر ڈھیر ہوجاتے۔ اس طرح، اس نے ان کی ایک بڑی تعداد کو ختم کردیا۔ ہر گولی چلنے پر غول، پراگندہ ہزیمت میں اِدھر اُدھر بھاگتا، جبکہ دوسرے بندوق بردار لوگ اس طرف بھاگتے جدھر چیخیں سنائی دیتیں، اور باقی کام ان کی گولیاں کردیتیں۔
بعد ازاں، بھیڑیوں کے اس شکار کے بارے میں کوسیمو نے بہت سی کہانیاں مختلف صورتوں میں سنائیں، اور میں نہیں کہہ سکتا ان میں سے کون سی صحیح تھی۔ مثال کے طور پر: ’’لڑائی اطمینان بخش طریقے سے جاری تھی۔ میں آخری بھیڑ والے درخت کی طرف بڑھ رہا تھا کہ میں نے تین بھیڑیوں کو دیکھا جو اوپر شاخوں پر چڑھ گئے تھے، اور ٹھیک اسی وقت بھیڑ کو ہلاک کر رہے تھے۔ چونکہ میں بخار سے نیم کور و حواس باختہ ہو رہا تھا، لہٰذا اس سے پہلے کہ وہ مجھے دیکھتے، میں قریب قریب ان کی تھوتھنیوں تک پہنچ گیا۔ پھر، اس دوسری بھیڑ کو شاخوں کے ایک سرے سے دوسرے تک دو پیروں پر چلتا دیکھ کر، وہ اپنی کچلیاں عریاں کرتے ہوے، جو ابھی تک خون سے سرخ تھیں، اس پر ٹوٹ پڑے۔ میری بندوق خالی تھی کیونکہ اس تمام فائرنگ کے بعد میرے پاس بارود ختم ہوگیا تھا اور اس درخت پر موجود بندوق تک میں بھیڑیوں کی وجہ سے نہیں پہنچ سکتا تھا۔ میں ایک چھوٹی بلکہ کمزور شاخ پر تھا، لیکن میرے اوپر گز بھر کی دوری پر ایک مضبوط شاخ تھی۔ اصل تنے سے پسپائی اختیار کرتے ہوے میںاپنی شاخ پر پیچھے کی طرف چلنے لگا۔ ایک بھیڑیا آہستہ آہستہ میرا تعاقب کرنے لگا۔ لیکن میں اپنے ہاتھوں کے ذریعے اوپر والی شاخ سے لٹکا ہوا تھا، اور اس دوسری شاخ پر اپنے پیروں کو حرکت دے رہا تھا۔ درحقیقت میں اوپر ٹنگا ہوا تھا۔ بھیڑیا دھوکے میں آکر آگے بڑھا، اور اس کے وزن تلے شاخ خم کھا گئی۔ اس دوران میں نے ایک چھلانگ کے ذریعے خود کو اوپر والی شاخ پر کھینچ لیا۔ بھیڑیا، کتے جیسی ایک چھوٹی سی بھونک کے ساتھ نیچے گرا۔ زمین نے اس کی کمر توڑ دی اور وہ مر گیا۔‘‘
’’اور باقی دو بھیڑیوں کا کیا ہوا؟‘‘
’’۔۔۔ باقی دونوں بھیڑیے بے حس و حرکت، مجھے گھور رہے تھے۔ پھر اچانک میں نے بھیڑ کی کھال کا کوٹ اور سر پوش اتارا اور انھیں بھیڑیوں پر پھینک دیا۔ بھیڑ کے اس سفید بھوت کو اپنی طرف اڑتا دیکھ کر، ایک بھیڑیے نے اسے دانتوں میں پکڑنے کی کوشش کی، لیکن چونکہ وہ ایک بھاری وزن کی توقع کر رہا تھا اور وہ محض ایک خالی کھال تھی، وہ اپنا توازن کھو بیٹھا اور انجام کار زمین پر گرنے سے اپنے پنجے اور گردن توڑ بیٹھا۔‘‘
’’ایک اب بھی باقی ہے۔‘‘
’’۔۔۔ ایک اب بھی باقی ہے— لیکن چونکہ کوٹ اتار پھینکنے سے میرے کپڑے اچانک بہت ہلکے ہوگئے تھے، مجھ پر چھینکوں کا دورہ پڑ گیا اور ہر چیز تھرتھرا اٹھی۔ اس اچانک غیرمتوقع اخراج سے بھیڑیے کو ایسا دھچکا لگا کہ وہ درخت سے گر پڑا، اور اس نے بھی اپنی گردن توڑ لی۔۔۔‘‘
یوں، اپنی لڑائی والی رات کا قصہ میرے بھائی نے سنایا۔ جو بات یقینی ہے وہ یہ کہ نتیجے کے طور پر جو تپ اسے چڑھی، پہلے سے بیمار ہونے کے باعث قریب قریب جان لیوا ثابت ہوئی۔ وہ کچھ دنوں تک زندگی اور موت کے درمیان معلق رہا، اور اس دوران اس کی خبرگیری، جذبۂ تشکر کے تحت، اومبروسا کی پنچایت کے خرچ پر ہوتی رہی۔ اسے ایک جھولنے میں لٹایا گیا تھا اور سیڑھیوں پر اوپر نیچے آتے ڈاکٹر اسے گھیرے رہتے تھے۔ مشورے کے لیے بہترین میسر ڈاکٹر بلائے گئے۔ کچھ نے اینیما تجویز کیا، کچھ نے جونکیں، کچھ نے رائی کے پلستر، کچھ نے ٹکور۔ اب کوئی بیرن دی روندو کو پاگل نہیں کہتا تھا بلکہ سارے لوگ اس کا ذکر ایک عظیم دماغ اور صدی کے نمایاں ترین مظہر کی حیثیت سے کرتے۔
مگر یہ صورتِ حال اس کی بیماری کے دوران کی تھی۔ اس کی صحت یابی کے ساتھ ہی حالات بدل گئے۔ پہلے کی طرح، ایک بار پھر کچھ لوگ اسے دانا کہنے لگے اور کچھ پاگل۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ترنگیں اس پر دوبارہ حاوی نہیں ہوئیں۔ وہ ہفتہ وار اخبار چھاپتا رہا، اور اب اس کا نامBiped's Monitor (’’دوپایوں کا نگراں‘‘) نہیں بلکہ Reasonable Vertebrate’(’معقول ریڑھ کی ہڈی والا‘‘) تھا۔

۲۵
میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ آیا اس وقت اومبروسا میں فری میسن لاج پہلے سے قائم تھی۔ میں خود اس حلقے میں بہت بعد میں شامل ہوا، جب پہلی نیپولینی مہم کے بعد، مقامی بالائی اشرافیہ اور چھوٹے امرا کے ایک بڑے حصے نے اس میں شمولیت اختیار کی۔ لہٰذا میں نہیں بتا سکتا کہ لاج سے میرے بھائی کے اوّلیں روابط کب قائم ہوے۔ اس سلسلے میں میں ایک واقعہ بیان کروں گا جو کم و بیش اسی زمانے میں رونما ہوا جس کا ذکر کر رہا ہوں۔ اس واقعے کے سچ ہونے کی تائید بہت سے شاہد کریںگے۔
ایک روز دو ہسپانوی، جو گزرتے ہوے مسافر تھے، اومبروسا میں وارد ہوے۔ وہ بارتولومیو کاوانیا نامی کسی شخص کے ہاں گئے جو پیسٹریاں بناتا تھا اور ایک معروف فری میسن تھا۔ لگتا ہے انھوں نے اپنے کولاج آف مادرید کا رکن ظاہر کیا۔ اس طرح ایک شب وہ انھیں اومبروسائی اراکین کے اجلاس میں لے گیا، جو ان دنوں جنگل کے وسط میں ایک صاف کی ہوئی جگہ پر مشعلوں اور الائو کی روشنی میں منعقد ہوتا تھا۔ یہ سب سنی سنائی باتوں اور قیاس آرائیوں پر مبنی ہے۔ تاہم جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ اگلے دن جونہی ہسپانوی اپنی سرائے سے باہر آئے تو کوسیمو نے، جو اوپر درختوں میں پوشیدہ انتظار کر رہا تھا، ان کا تعاقب کیا۔
دونوں مسافر شہر کے دروازے سے باہر ایک شراب خانے کے صحن میں داخل ہوے۔ کوسیمو ایک جافری پر براجمان ہوگیا جس پر تخم دان کی بیل پھیلی ہوئی تھی۔ ایک میز پر ایک گاہک ان دونوں کا منتظر تھا۔ اس کا چہرہ، جس پر چوڑے چھجے والے سیاہ ہیٹ نے سایہ ڈال رکھا تھا، نظر نہیں آرہا تھا۔ ان تینوں کے سر، بلکہ ان تینوں کے ہیٹ، میز پوش کے سفید مربعے پر ہلتے رہے، اور کچھ باہم دگر بات چیت کے بعد نامعلوم شخص ایک کاغذ کے پرزے پر کچھ لکھنے لگا، جو دوسرے دونوں بول رہے تھے۔ جس ترتیب میں الفاظ ایک دوسرے کے نیچے لکھے جارہے تھے اس سے لگ رہا تھا کہ ناموں کی فہرست بن رہی ہے۔
’’صاحبو، آپ کو روز بخیر،‘‘ کوسیمو نے کہا۔ تینوں ہیٹ ان کے چہروں کو آشکار کرتے ہوے اوپر اٹھے۔ ان کی نظریں جافری پر بیٹھے آدمی پر جم کے رہ گئیں۔ لیکن ان میں سے ایک نے، جس کا ہیٹ چوڑے چھجے والا تھا، اپنا چہرہ فوراً نیچے کرلیا یہاں تک کہ اس کی ناک کا سرا میز سے مس ہونے لگا۔ مگر میرے بھائی کو اتنا وقت ضرور مل گیا کہ اس نے اس کے خط و خال کی ایک جھلک دیکھ لی، جو اسے نامانوس نہیں لگے۔
’’روز بخیر!‘‘ دونوں پکار اٹھے۔ ’’مگر کیا یہ کوئی مقامی رواج ہے کہ آسمان سے کبوتر کی طرح نازل ہوکر اجنبیوں سے اپنا تعارف کرایا جائے؟ غالباً آپ اتنی مہربانی ضرور کریں گے کہ نیچے آکر وضاحت کریں!‘‘
’’جو اوپر ہوتے ہیں واضح طور پر نظر آتے ہیں،‘‘ بیرن نے کہا، ’’گو دوسرے اپنے چہرے چھپانے کے لیے خاک میں رینگتے ہیں۔‘‘
’’کیا میں کہہ سکتا ہوں، سینور، کہ ہم سے کوئی اپنا چہرہ دکھانے کا پابند نہیں ہے، بالکل اسی طرح جیسے ہم سے کوئی اپنے چوتڑ نہیں دکھائے گا۔‘‘
’’کئی قسم کے لوگوں کے لیے چہرہ چھپانا یقینا عزت کا معاملہ ہوتا ہے۔‘‘
’’کون سی قسم، مثلاً؟‘‘
’’مثلاً جاسوس!‘‘
دونوں ساتھی چونک گئے۔ خمیدہ آدمی بے حرکت رہا لیکن اس کی آواز پہلی بار سنائی دی۔ ’’یا، ایک اور مثال، خفیہ تنظیموں کے رکن۔۔۔‘‘ وہ آہستگی سے بولا۔
اس تبصرے کی کئی وضاحتیں ہوسکتی تھیں۔ سو کوسیمو نے سوچا اور بلند آواز میں اس طرح بولا، ’’جناب، یہ تبصرہ کئی وضاحتوں کو دعوت دے رہا ہے۔ کیا آپ نے خفیہ تنظیموں کے رکن، یہ اشارہ دیتے ہوے کہا کہ میں خود ایک رکن ہوں، یا آپ کی مراد یہ تھی کہ آپ خود ہیں، یا یہ کہ ہم دونوں ہیں، یا یہ کہ ہم میں سے کوئی نہیں ہے، یا آپ نے ایسا اس لیے کہا کہ چاہے جو بھی معنی لیے جائیں، یہ تبصرہ میرے جواب کے لحاظ سے کارآمد ہے؟‘‘
’’کیا، کیا، کیا؟‘‘ چھجے دار ہیٹ والا آدمی بوکھلا کر پکارا۔ وہ بوکھلاہٹ میں اپنا سر نیچا رکھنا بھول گیا اور اسے اتنا بلند کرلیا کہ اس کی نظریں کوسیمو سے مل گئیں۔ کوسیمو اسے پہچان گیا۔ وہ دون سلپیسیو یسوعی تھا، جو اولیواباسا کے زمانے سے اس کا دشمن تھا!
’’اخّاہ! سو میری بات غلط نہیں تھی۔ نقاب اتار دو، مقدس فادر!‘‘ بیرن بے ساختہ بول اٹھا۔
’’تم! مجھے اس کا یقین تھا!‘‘ ہسپانوی نے چلا کر کہا اور اپنا ہیٹ اتار کر اپنی منڈی ہوئی چندیا ظاہر کرتے ہوے جھک گیا۔ ’’دون سلپیسیو دی گوادالیتے ، سوسائٹی آف جیسس کا عہدے دار۔‘‘
’’کوسیمو دی روندو، فری میسن!‘‘
دوسرے دونوں ہسپانویوں نے بھی خفیف سی خمیدگی کے ساتھ اپنا تعارف کرایا۔
’’دون کالستو!‘‘
’’دون فلگینسیو!‘‘
’’یسوعی؟‘‘
’’ہم بھی!‘‘
’’مگر کیا آپ کا سلسلہ حال ہی میں پوپ کے حکم سے منسوخ نہیں کردیا گیا؟‘‘
’’تمھاری طرح کے اوباشوں اور کافروں کو مہلت دینے کے لیے نہیں!‘‘ دون سلپیسیو نے اپنی تلوار بے نیام کرتے ہوے چلّا کر کہا۔
وہ ہسپانوی یسوعی تھے جو اپنے سلسلے کے منتشر ہونے کے بعد روپوش ہوگئے تھے اور توحید پرستی اور نئے خیالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام دیہی علاقے میں ایک مسلح رضاکار فوج بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔
کوسیمو نے اپنی تلوار کے دستے پر ہاتھ رکھ لیا۔ لوگوں کی ایک تعداد نے ان کے گرد حلقہ بنا لیا تھا۔ ’’اگر تمھیں دوبدو لڑنے کی خواہش ہے تو نیچے آنے کی مہربانی کرو،‘‘ ہسپانوی نے کہا۔
قریب ہی اخروٹ کے درختوں کا ایک جھنڈ تھا۔ فصل کا وقت تھا، اور کسانوں نے اخروٹ اکٹھے کرنے کے لیے، جو وہ درختوں کو ہلا کر گراتے تھے، ایک سے دوسرے درخت تک چادریں باندھ رکھی تھیں۔ کوسیمو تیزی سے ایک اخروٹ کے درخت پر پہنچا اور نیچے چادر میں کود گیا۔ اس جھولنا نما سہارے پر اپنے پیر پھسلنے سے بچاتے ہوے وہ جوں توں اپنے پورے قد کے ساتھ کھڑا رہا۔
’’تم بھی ایک دو قدم اوپر آئو، دون سلپیسیو، کیونکہ میں اپنے معمول سے زیادہ نیچے آیا ہوں!‘‘ اور اس نے بھی اپنی تلوار نکال لی۔
ہسپانوی بھی کود کر پھیلی ہوئی چادر پر آگیا۔ سیدھا کھڑا رہنا مشکل تھا کیونکہ چادر ان کے جسموں کے گرد بوری کی طرح تہہ ہوئی جارہی تھی، لیکن دونوں مقابلہ جو اتنے پُرجوش تھے کہ وہ تلواریں ٹکرانے میں کامیاب رہے۔
’’خدا کی عظیم تر شان کے لیے!‘‘
’’کائنات کے عظیم خالق کی شان کے لیے!‘‘
اور وہ ایک دوسرے پر پل پڑے۔
’’اس سے پہلے کہ میں اپنی تلوار کا پھل تمھارے حلقوم میں اتاروں،‘‘ کوسیمو نے کہا، ’’مجھے سینوریتا ارسلا کے بارے میں بتائو۔‘‘
’’وہ ایک خانقاہ میں مر گئی۔‘‘
کوسیمو اس خبر سے پریشان ہوگیا (جو، تاہم، میرے خیال میں موقعے پر ہی گڑھی گئی تھی) اور سابق یسوعی نے اس شیطانی چال سے فائدہ اٹھایا۔ اس نے اخروٹ کے درخت کی شاخوں سے بندھی ہوئی ایک گانٹھ پر، جو کوسیمو کی سمت چادر کو سہارے ہوئی تھی، تلوار لہرائی اور اسے بیچ سے بالکل قطع کردیا۔ اگر کوسیمو نے فوراً اپنے آپ کو دون سلپیسیو کے حصے والی چادر پر پھینک کر ایک رسّی نہ پکڑ لی ہوتی تو وہ گر گیا ہوتا۔ اس کی جست کے دوران اس کی تلوار ہسپانوی کی ڈھال کو چھیدتی ہوئی اس کے پیٹ میں اتر گئی۔ دون سلپیسیو دھڑام سے گرا اور چادر پر اس سمت پھسلتا ہوا، جہاں اس نے گانٹھ کاٹی تھی، زمین پر گر پڑا۔ کوسیمو واپس اخروٹ کے درخت پر چلا گیا۔ دوسرے دونوں سابق یسوعیوں نے اپنے ساتھی کو اٹھایا (وہ مرچکا تھا یا محض زخمی ہوا تھا، اس کا پتا کبھی نہیں چلا) اور تیزی سے روانہ ہوگئے۔ وہ پھر کبھی نظر نہیں آئے۔
خون آلود چادر کے گرد ایک ہجوم جمع ہوگیا۔ اور اس دن سے میرا بھائی فری میسن کی حیثیت سے مشہور ہوگیا۔
تنظیم کی رازداری کی وجہ سے میں اس سے زیادہ معلوم نہیں کرسکا۔ جب میں اس کا رکن بنا تو، جیسا میں کہہ چکا ہوں، میں نے کوسیمو کا ذکر ایک پرانے رکن کی حیثیت سے سنا جس کالاج سے تعلق یکسر واضح نہیں تھا۔ کچھ لوگ اسے غیرسرگرم بیان کرتے، کچھ ایسا بدعتی بتاتے جو کسی اور فرقے میں شامل ہوچکا تھا، کچھ اسے مرتد بھی کہتے، لیکن اس کی پرانی سرگرمیوں کا ذکر ہمیشہ بڑے احترام سے کیا جاتا تھا۔ وہ ایسا روایتی ’’ماسٹروڈپیکر میسن‘‘ بھی ہوسکتا تھا جس سے لاج کا قیام، جس کا نام ایسٹ آف اومبروسا تھا، منسوب تھا۔ اس لاج کی اوّلیں رسومات کی تفصیلات پر اس کے اثر کی چھاپ نظر آتی ہے۔ اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ مبتدیوں کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر ایک درخت پر چڑھایا جاتا، پھر ایک رسّی کے سرے پر نیچے گرا دیا جاتا۔
یہ بات یقینی ہے کہ ہم سے فری میسنوں کی ابتدائی ملاقاتیں رات کے وقت جنگل کے وسط میں ہوئی تھیں۔ اس طرح کوسیمو کی موجودگی کا کافی سے زیادہ جواز تھا، خواہ وہ آپ وہی شخص تھا جو بیرونِ ملک کے مراسلہ نگاروں سے تنظیم کے دساتیر کی جلدیں وصول کرتا تھا، یا خواہ وہ کوئی اور شخص تھا جو ممکنہ طور پر فرانس یا انگلستان میں رکن بنایا گیا تھا، جس نے اومبروسا میں بھی رسومات متعارف کرائیں۔ گو یہ ممکن ہے کہ یہاں تنظیم کا وجود کافی عرصے سے ہو، جس کا کوسیمو کو علم نہ ہو، اور یہ کہ ایک رات، جنگل میں درختوں پر گھومتے ہوے، اس نے وہ قطعہ دیکھ لیا ہو جہاں شمعوں کی روشنی میں عجیب پوشاکوں اور آلات والے لوگوں کا اجلاس جاری تھا۔ اور وہ سننے کے لیے اوپر ٹھہر گیا ہو اور پھر مخل ہوکر انھیں کسی غیرمتوقع بات سے بوکھلا دیا ہو، جیسے، ’’اگر تم دیوار اٹھائو تو یہ سوچ لینا کہ باہر کیا رہ گیا ہے!‘‘ (یہ فقرہ میں نے اسے اکثر دہراتے سنا تھا)، یا ایسی ہی کوئی اور بات، اور انھوں نے اس کی اعلیٰ بصیرت کو پہچان کر اسے خاص فرائض سونپتے ہوے اپنی لاج کا رکن بنا لیا ہو، اور اس نے بہت ساری رسومات اور علامتیں متعارف کرائی ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ کوسیمو کی وابستگی کے اس تمام عرصے میں، یہ بے در و دیوار میسنری (جیساکہ میں اسے اس میسنری سے ممیز کرنے کے لیے کہوں گا جسے بعد ازاں ایک بند عمارت میں منعقد ہونا تھا) کہیں زیادہ بھرپور رسومات کی حامل تھی، جن میں الّوئوں، دوربینوں، مخروطیوں، پانی سے چلنے والے پمپوں، چھوٹے کارتیزی آسیبوں، مکڑی کے جالوں، اور فیثا غورثی جداول کا بھی ایک کردار تھا۔ کھوپڑیوں کی ایک خصوصی نمائش بھی تھی، جس میں صرف انسانوں کی نہیں بلکہ گایوں، بھیڑیوں اور عقابوں کی کھوپڑیاں بھی تھیں۔ ایسی اور دوسری چیزیں، جیسے کرنیاں، مسطر اور پرکاریں، جو فری میسنوں کے عام طریق عبادت کا حصہ ہیں، ان دنوں عجیب و غریب تقابل میں شاخوں سے لٹکی نظر آتی تھیں اور بیرن کی دیوانگی سے بھی منسوب کی جاتی تھیں۔ صرف چند ہی لوگوں نے اشارتاً کہا کہ اب یہ معما زیادہ سنجیدہ معنی رکھتا ہے۔ تاہم کوئی شخص بھی ابتدائی اور بعد والی علامتوں میں کوئی واضح فرق نہیں کرسکا، اور نہ ہی اس امکان کو خارج کرسکا کہ یہ چیزیں ابتدا ہی سے کسی خفیہ تنظیم کی محض علامتیں تھیں۔
فری میسنوں میں شامل ہونے سے پہلے، کوسیمو مختلف حرفتوں اور پیشوں کی انجمنوں اور برادریوں میں طویل عرصے تک رہ چکا تھا، جیسے سینٹ کرسپنز جفت سازوں،پارسا پیپاسازوں، منصف مزاج بکترسازوں، یاباضمیرکلاہ سازوں کی انجمنیں۔ چونکہ ہر وہ چیز جو اسے جینے کے لیے درکار تھی، وہ خود بناتا تھا، وہ بہت سارے مختلف کام جانتا تھا اور بہت سی انجمنوں کا رکن ہونے پر فخر کرسکتا تھا، جبکہ یہ انجمنیں ایک امیرزادے کی شمولیت پر، جو غیرمعمولی صلاحیتوں اور مسلمہ عدم مفاد کا حامل تھا، اپنے طور پر خوش تھیں۔
اجتماعی زندگی کے لیے کوسیموکا یہ جذبہ، جس کا اظہار وہ ہمیشہ کیا کرتا تھا، سماج سے اس کی دائمی فراریت سے کیونکر میل کھاتا تھا، میں مناسب طور پر کبھی نہیں سمجھ پایا، اور میرے لیے یہ بات اس کے کردار کی یکتائیوں میں سب سے کم نہیں ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اپنی پتوں کی کھوہ میں چھپنے پر وہ جس قدر اٹل تھا، اسی قدر نوعِ انساں سے نئے رابطے پیدا کرنے کی ضرورت محسوس کرتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود کہ وہ بار بار ایک نیا بھائی چارہ منظم کرنے میں اپنے آپ کو روح و بدن سمیت جھونک دیتا، اس کے لیے مفصل قواعد و مقاصد تجویز کرتا، ہر کام کے لیے موزوں ترین افراد چنتا، اس کے ساتھی کبھی نہیں کہہ سکتے تھے کہ وہ اس پر کس حد تک بھروسا کرسکتے ہیں، اسے کہاں مل سکتے ہیں اور وہ اچانک اپنی فطرت کے پرند پہلو میں کب لوٹ جائے گا اور اپنے آپ کو بالکل ہاتھ نہ آنے دے گا۔ غالباً اگر کوئی کوشش کرتا تو ان متضاد ترنگوں کو ایک واحد ترنگ میں دیکھ سکتا تھا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ وہ اس زمانے کی ہر انسانی تنظیم کا اتنا ہی مخالف تھا، اوریوں، ان سے دور بھاگتا تھا اور نئی تنظیمیں بنانے کے تجربے کرتا تھا۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی صحیح، یا دوسری تنظیموں سے زیادہ مختلف نہیں لگتی تھی۔ اس کی مکمل وحشت کے مستقل ادوار اسی دکھ سے پھوٹتے تھے۔
اس کے ذہن میں ایک عالم گیر سماج کا تصور تھا، اور ہر بار وہ لوگوں کو یکجا کرنے میں اپنے آپ کو مصروف کردیتا۔ یہ یکجائی یا تو کسی حتمی مقصد کے لیے ہوتی، جیسے آگ سے حفاظت یا بھیڑیوں سے بچائو، یا پیشوں کی برادریوں کے لیے، جیسے بے عیب پہیہ سازوں یا روشن خیال چرم فروشوں کی انجمنیں۔ چونکہ وہ انھیں ہمیشہ جنگل میں رات کے وقت ایک درخت کے گرد اکٹھا کرتا، جہاں سے وہ ان سے مخاطب ہوتا تھا، لہٰذا ہمیشہ سازش، فرقے یا کفر کی فضا موجود رہتی۔ اس فضا میں اس کی تقریریں خصوصی کے بجاے آسانی سے عمومی انداز میں لی جاتیں، اور بڑی سہولت سے کسی جسمانی پیشے کے سادہ قواعد سے برابر، آزاد اور انصاف پسند لوگوںکی ایک عالمی جمہوریہ قائم کرنے کے منصوبے کی طرف مڑ جاتیں۔
لہٰذا میسنری میں کوسیمو نے اسی عمل کو دہرانے کے سوا شاید ہی کچھ کیا ہو، جو دوسری خفیہ یا نیم خفیہ تنظیموں میں، جن کا وہ رکن رہا تھا، کرچکا تھا۔ جب یورپ میں اپنے بھائیوں سے ملنے کے لیے لندن کی گرینڈ لاج کا فرستادہ لارڈ لیورپلک نامی شخص، میرے بھائی کے ماسٹر ہوتے ہوے، اومبروسا آیا تو اسے کوسیمو کے غیرروایتی پن سے اتنا دھچکا پہنچا کہ اس نے لندن کو لکھا کہ اومبروسا میسنری اسکاٹ لینڈ کی رسوم پر عامل ضرور کوئی نئی میسنری ہے، جسے ہینوور کے تخت کے خلاف بطورپروپیگنڈا استعمال کرنے کے لیے، اسٹوارٹ مالی مدد فراہم کر رہے ہیں تاکہ جیکوبن عہد کا احیاہوسکے۔
اس کے بعد دو ہسپانوی مسافروں والا واقعہ پیش آیا، جنھوں نے بارتولومیو کا وانیا سے اپنا تعارف میسنوں کے طور پر کرایا، جس کا ذکر میں کرچکا ہوں۔ لاج کے ایک اجلاس میں مدعو کیے جانے پر انھوں نے سب کچھ معمول کے مطابق پایا۔ درحقیقت انھوں نے کہا کہ یہ بالکل اورینٹ آف میڈرڈ کی طرح ہے۔ یہی وہ بات تھی جس نے کوسیمو کا شبہ ابھارا، جسے خوب معلوم تھا کہ کتنی رسومات اس کی اپنی ایجاد کردہ ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے جاسوسوں کا پیچھا کرکے انھیں بے نقاب کیا، اور اپنے پرانے دشمن دون سلپیسیو پر فتح پائی۔
بہرکیف، میری رائے یہ ہے کہ طریقِ عبادت میں یہ تبدیلیاں اس کی اپنی ذاتی ضرورت کا نتیجہ تھیں، کیونکہ معمار کی علامات کے سوا وہ ہر پیشے کی علامتیں اسی آسانی کے ساتھ اختیار کرسکتا تھا۔ درودیوار والے مکانوں کی نہ تو اسے کبھی ضرورت تھی اور نہ ہی اس نے انھیں تعمیر یا آباد کیا۔


۲۶
اومبروسا کی سرزمین، سرزمینِ رز بھی تھی۔ میں نے اس کا ذکر کبھی پہلے نہیں کیا، کیونکہ کوسیمو کے تعاقب میں مجھے ہمیشہ اونچے تنوں والی نباتات تک محدودرہنا پڑتا تھا۔ لیکن اومبروسا میں انگور کی بیلوں کی وسیع و عریض ڈھلانیں تھیں اور اگست کے مہینے میں گجرے کی لڑیوں جیسے پتوں تلے، گلابی انگور گاڑھے رس کے خوشوں میں، جو پہلے ہی شراب رنگ ہوتا، ابھر آتے تھے۔کچھ بیلیں منڈھوں پر تھیں۔ یہ ذکر میں اس لیے کر رہا ہوں کہ عمر گزرنے کے ساتھ کوسیمو اتنا چھوٹا اور ہلکا ہو گیا تھا، اور اس نے اپنا سارا وزن کسی ایک جگہ ڈالے بغیر اس عمدگی سے حرکت کرنا سیکھ لیاتھا کہ منڈھوں کی افقی پٹیاں اس کا وزن سہار لیتی تھیں۔ یوں وہ بیلوں تک جاسکتا تھا اور اپنے کو ان بلّیوں پر سہارتے ہوے جو ’اسکاراس‘کہلاتی ہیں، کام کر سکتا تھا، جیسے سردیوں میں، جب بیلیں خاردار تار کے گرد عیاں قدیم تحریروں کی طرح ہوتی ہیں،شاخوںکو یا گرمیوں میں گھنے پتوں کو چھانٹ سکتا تھا یا کیڑے مکوڑوں پر نظر رکھ سکتا تھا، اور پھر ستمبر میں فصل کی جمع آوری میں مدد کر سکتا تھا۔
انگور جمع کرنے کے لیے اومبروسا کی ساری آبادی تاکستانوں میں نکل آتی تھی، اور بیلوں کا ہرا رنگ ہر کہیں سایوں اور پھندنے دار ٹوپیوں کے شوخ چمک دار رنگوں سے پچ رنگا ہو جاتا۔ خچربان ٹوکریاں بھر بھر کے بڑے بڑے ٹوکروں میں ڈالتے اور انھیں ناندوں میں خالی کرتے۔ دوسری بھری ہوئی ٹوکریاں کئی محصول جمع کرنے والے لے جاتے، جو ناظروں کی ٹولیوں کے ساتھ مقامی اشرافیہ، حکومتِ جمہوریۂ جینوآ، پادریوں اور دیگر عشروں کے لیے وصولی کرنے آتے تھے۔ ہر سال کوئی نہ کوئی جھگڑا ہوتا تھا۔
یہ سوال کہ فصلوں کے کون سے حصے مختص کیے جائیں، انقلابِ فرانس کے وقت ’’کتبِ شکایات‘‘ میں احتجاجوں کی بنیادی وجہ کے طور پر درج تھا۔ اس طرح کی کتابیں،گو وہ یہاں قطعاً بے مصرف تھیں، محض آزمائش کے لیے اومبروسا میں بھی بھری گئیں۔ یہ تجویز بھی کوسیمو کی تھی۔ اس وقت وہ لاج کے جلسوں میں شرکت اور ان بوڑھے ٹھس میسنوں کے ساتھ بحث و مباحث کرنا چھوڑ چکا تھا۔ وہ چوک میں درختوں پر موجود رہتا، اور ساحلوں اور نواح کے دیہاتی علاقوں کے لوگ خبروں کی وضاحت کے لیے جوق در جوق نیچے جمع ہو جاتے، کیونکہ اس کے پاس ڈاک کے ذریعے اخبار آتے تھے، اس کے علاوہ کئی دوست اسے خط بھی لکھا کرتے تھے، جن میں ماہرِ فلکیات بیلی(Bailly)، جو بعدازاں پیرس کا میئر بنایا گیا، اور انجمن کے دیگر اراکین بھی شامل تھے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی نئی بات پیش آتی: نیکر(Necker)، اور ٹینس کورٹ، باستیل (Bastille)اور اپنے سفید گھوڑے پر لفایت(Lafayette)، اور اردلی کے بہروپ میں شاہ لوئی۔ کوسیمو ایک شاخ سے دوسری پر کودتے ہوے، ہر خبر کو اداکاری سے واضح کر کے دکھاتا۔ ایک شاخ پر وہ سرِ منبر میرابو (Mirabeau) ہوتا، تو دوسری پر جیکوبنز میں مرات(Marat) ، اور پھر ایک اور پرورسائی میں شاہ لوئی، جو پیرس سے فوجی چال چلتی ہوئی آنے والی خواتینِ خانہ کو سرخ فریجیائی ٹوپی پہن کر خوش کر رہا ہوتا۔
یہ واضح کرنے کے لیے کہ’’کتبِ شکایات‘‘ کیاہوتی ہیں، کوسیمو نے کہا، ’’آؤ، ہم بھی ایک ایسی کتاب بنائیں۔‘‘ اس نے ایک اسکول کی نوٹ بک لی اور اسے ڈوری کے ذریعے درخت پر لٹکا دیا۔ ہرکوئی وہاں آتا اور جو بھی اسے غلط لگتا، نوٹ بک میں لکھ دیتا۔ ہر طرح کی باتیں سامنے آنے لگیں: مچھیروں نے مچھلی کی قیمت کے بارے میں لکھا، انگور باغ والوں نے عشروں کے بارے میں اور چرواہوں نے چراگاہوں کی حدود کے بارے میں، اور جنگل باسیوں نے پنچایت کے جنگلوں کے بارے میں۔ اور پھر وہ لوگ تھے جن کے عزیز قیدخانوں میں تھے، اور وہ جنھیں کسی جرم کی وجہ سے کوڑوں کی سزا ملی تھی، اور وہ جنھوں نے عورتوں کے چکر میں امرا کے لیے کوڑے کھائے تھے۔ یہ سلسلہ بے انت تھا۔ کوسیمو نے سوچا کہ بھلے یہ ’’کتابِ شکایات‘‘ ہی ہو، اسے اس درجہ اداس کن تو نہیں ہونا چاہیے۔ اور اسے یہ خیال آیا کہ ہر کسی سے اپنی سب سے پسندیدہ بات لکھنے کو کہا جائے۔ اور ہر کوئی دوبارہ اپنے خیالات لکھنے لگا، بلکہ کچھ لوگوں نے تو خاصی اچھی طرح لکھا۔ ایک شخص نے مقامی کیکوں کے بارے میں لکھا اور ایک دوسرے نے مقامی سوپ کے بارے میں۔ کسی کو ایک گوری حسینہ چاہیے تھی، کسی کو دو سانولیاں۔ کوئی سارا دن سو کر گزارنا چاہتا تھا۔ کوئی سال بھر کھمبیاں تلاش کرتا رہنا چاہتا تھا۔ کچھ کو چار گھوڑوں والی گاڑی چاہیے تھی، کچھ کے لیے ایک بکری ہی کافی تھی۔ کچھ اپنی مردہ ماں کو دوبارہ دیکھنے کے خواہاں تھے، کچھ اولمپس میں دیوتاؤں سے ملنے کے۔ درحقیقت، دنیا کی ہر اچھی بات اسکول کی کاپی میں لکھی گئی، یا اس کی تصویر بنائی گئی، یا رنگوں میں مصوری بھی کی گئی کیونکہ بہت سارے لوگ لکھنا نہیں جانتے تھے۔ کوسیمو نے بھی ایک نام —ویولا کا نام — لکھا۔ وہ نام جسے برسوں سے وہ ہرکہیں لکھ رہا تھا۔
یہ ایک عمدہ بھری ہوئی اسکول کی کاپی تھی۔ کوسیمو نے اسے ’’کتابِ شکایات و مشمولات‘‘ کا نام دیا۔ لیکن جب یہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھر گئی تو وہ اسمبلی ہی نہ رہی جہاں اسے بھیجا جاتا۔ اس طرح یہ ڈوری کے ذریعے درخت پر لٹکی رہی اور جب برسات آئی تو اس پر دھبے پڑنے لگے اور اس کا رنگ اڑنے لگا۔ اس منظر سے اومبروسا ئیوں کا خون اپنی خستہ حالی پر کھول اٹھتا، اور ان کے اندر بغاوت کی خواہش سر اٹھانے لگتی۔

سچ تو یہ ہے کہ انقلابِ فرانس کے تمام اسباب ہمارے درمیان بھی موجود تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ ہم فرانس میں نہیں تھے۔ اور ہمارے ہاں انقلاب نہیں تھا۔ ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں ہمیشہ اسباب دیکھے جاتے ہیں، نتائج کبھی نہیں۔
باایں ہمہ ہم نے اومبروسا میں کافی سنسنی خیز زمانہ گزارا۔ ریپبلکن آرمی آسٹریاوالوں سے عین ہماری ناک تلے برسرِ پیکار تھی۔ ماسینا (Massena)کولاردینتے (Collardente)میں، لاآرپ (Laharpe) نرویا (Nervia)میں، اور موریت(Mouret) ساحلی سڑک پر محوِ جنگ تھے۔ نیپولین اس وقت توپ خانے کا محض ایک جنرل تھا اور ہوا کے دوش پر اومبروسا پہنچنے والی وہ گڑگڑاہٹیں جو ہم بدحواس ہو کر سنتے تھے، اسی شخص کی پیدا کردہ تھیں۔
ستمبر میں انگور جمع کرنے کی تیاری پھر ہونے لگی۔ اور اس بار لوگ کوئی خفیہ و خوفناک منصوبہ بناتے لگ رہے تھے۔
ہر دروازے پر جنگ کے مشورے کیے جارہے تھے:
’’انگور تیار ہیں!‘‘
’’تیار! ہاں، واقعی!‘‘
’’تیار سے تیار!انھیں توڑنے کی ضرورت ہے!‘‘
’’ہم انھیں توڑنے جائیں گے!‘‘
’’ہم سب تیار ہیں۔ تم لوگ کہاں ہو گے؟‘‘
’’پُل کے ادھر انگور باغ میں۔ اور تم؟ اور تم؟‘‘
’’کاؤنٹ پینا کے ہاں۔‘‘
’’میں چکی کے ساتھ والے انگور باغ میں۔‘‘
’’تم نے ناظروں کی تعداد دیکھی؟ جیسے کستورے انگوروں پر ٹھونگیں مارنے کو اتر آئے ہوں!‘‘
’’لیکن اس سال وہ ٹھونگیں نہیں مار سکیں گے!‘‘
’’اگر کستورے بہت زیادہ ہیں تو ہم شکاری بھی اتنے ہی ہیں!‘‘
’’کچھ لوگوں میں ساتھ دینے کی جرأت نہیں ہے! کچھ لوگ فرار ہو رہے ہیں۔‘‘
’’ایسا کیوں ہے کہ اتنے سارے لوگ اس سال انگور جمع کرنے سے خوش نہیں ہیں؟‘‘
’’وہ اس کام کو ملتوی کرنا چاہتے تھے۔ لیکن اب انگور پک چکے ہیں!‘‘
’’انگور پک چکے ہیں!‘‘
تاہم اگلے روز انگور جمع کرنے کا کام خاموشی سے شروع ہوا۔ انگور باغ، پتوں کی لڑیوں تلے لوگوں کی قطاروںسے کھچا کھچ بھرے ہوے تھے۔ لیکن فضا میں کسی گیت کی گونج نہ تھی۔ بس کبھی کبھار ایک آدھ آواز ابھرتی، یا ’’تم یہاں بھی؟ انگور تیار ہیں!‘‘ کی صدا آتی۔ یا لوگوں کی ٹولیاں ادھر سے ادھر ہوتیں۔ اداسی کا تاثر آسمان میں بھی نمایاں تھا جو مکمل طور سے بادلوں سے بھرا نہ تھا بلکہ بلکہ ابر آلود تھا۔ اگر کوئی آواز کوئی گیت چھیڑتی بھی تو دوسری آوازوںکے ساتھ نہ دینے کی وجہ سے وہ جلد ہی فضا میں تحلیل ہو جاتا۔ خچربان انگوروں سے بھری ٹوکریاں ناندوں تک لے جارہے تھے۔ دیگر سالوں میں اشرافیہ، پادری اور حکومت کے حصے پہلے ہی سے علیحدہ رکھ دیے جاتے تھے، مگر اس سال لوگ انھیں بھولے ہوے لگتے تھے۔
محصول جمع کرنے والے، جو عشر وصول کرنے آئے تھے، گھبرائے ہوے تھے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ اب کیا کریں۔ جتنا زیادہ وقت گزر رہا تھا، اتنا ہی کم پیش آرہا تھا۔ کچھ پیش آنے کے بارے میں وہ جتنا زیادہ محسوس کر رہے تھے، انھیں اتنا ہی زیادہ یہ احساس ہو رہا تھا کہ انھیں کچھ کرنا ہے، مگر کیا کرنا ہے، وہ اس بارے میں اتنا ہی کم سمجھ رہے تھے۔
کوسیمو اپنی بلی جیسی چال سے منڈھوں پر چل رہا تھا۔ وہ قینچی لیے ہوے تھا، اور یہاں وہاں سے یونہی ایک آدھ گچھا کاٹ کے نیچے جمع کرتے ہوے مرد وزن کو، ہر ایک سے دھیمی آواز میں کچھ کہتے ہوے پیش کر رہا تھا۔
ناظروں کا سربراہ اس تناؤ کو مزید برداشت نہ کر سکا۔ اس نے کہا، ’’ہوں، اچھا، تو پھر، عشروں کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘ ابھی اس نے یہ الفاظ مشکل ہی سے ادا کیے ہوں گے کہ وہ ان پر افسوس کرنے لگا۔ انگور باغ ایک گہری آواز سے، جو جزوی چیخ تھی اور جزوی سسکار، گونج اٹھے۔ یہ ایک انگور جمع کرنے والا تھا جو گھونگھے کا خول بجا کرساری وادی کوخبردار کر رہا تھا۔ ہر پہاڑی سے مشابہ آوازیں جواب دے رہی تھیں۔ انگور جمع کرنے والوں نے گھونگھوں کے خول بگل کی طرح بلند کر رکھے تھے، اور ایک منڈھے کی بلندی سے کوسیمو نے بھی۔
بیلوں کی قطاروں کے ساتھ ساتھ ایک گیت گونجنے لگا، جو پہلے پہل بے قاعدہ اور بے آہنگ تھا۔ یوں اسے سمجھنا مشکل تھا۔ پھر آوازیں ایک ہو کر ہم آہنگ ہوگئیں۔ انھوں نے دھن کو جذب کیا اور یوں گانے لگیں گویا کہ دوڑ رہی ہوں، اُڑ رہی ہوں اور مردوزن، جو بیلوں اور ہر بلّی پر بیلوں کے جھنڈ اور انگوروں کے درمیان نیم مستور، بے حس و حرکت کھڑے تھے، دوڑتے لگ رہے تھے۔ اور انگور اپنے کو ناندوں میں پھینک کر خود کچلتے ہوے اپنے کو شراب بناتے ہوے لگ رہے تھے۔ ہوا، بادل، دھوپ، سب کے سب غیر تخمیر شدہ رس میں ڈھل گئے تھے، اور اب گیت سمجھ میں آنے لگا تھا، پہلے پہل سُر اور پھر کچھ لفظ بھی، جو نو عمر مرد اپنے سرخ ننگے پیروں سے انگور کچلتے ہوے گا رہے تھے۔ لڑکیاں گھنی ہریالی میں اپنی خنجر نما تیز قینچیاں گھونپتے ہوے انگور کے خوشوں کے بل کھائے ڈنٹھلوں کو گھائل کرتے ہوے گا رہی تھیں۔ شکنجے میں دبائے جانے کے لیے تیار ڈھیروں پھل کے اوپر اڑتے ہوے کٹکیوں کے بادل گارہے تھے۔ ناظروں کاپیمانۂ صبر اب لبریز ہو گیا تھا۔ انھوں نے چلّا کہا، ’’بند کرو! خاموش! بہت ہو چکا! اب جو بھی گائے گا ہم گولی چلا دیں گے!‘‘ اور وہ فضا میں گولیاں چلانے لگے۔
جواب میں توپوں کی گڑگڑاہٹ سنائی دی، جو پہاڑیوں پر جنگ کے لیے صف بستہ دستوں کی طرف سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اومبروسا پھٹ پڑا تھا۔ انجیر کے ایک اونچے درخت کی چوٹی سے گھونگھے کا خول بجا کر کوسیمو نے حملے کا اعلان کیا۔ پہاڑی کے ڈھلوانوں پر ہر طرف لوگ متحرک تھے۔ اب انگور کی فصل اور ہجوم میں تفریق کرنا غیرممکن تھا۔ مرد، انگور، عورتیں، پتوں کی لڑیاں، بَلّیاں، بندوقیں، ٹوکریاں، گھوڑے، خاردارتار، مٹھیاں، خچروں کی دولتیاں، چوچیاں... سب کے سب گا رہے تھے۔
’’یہ رہے تمھارے عشر!‘‘ اس کا اختتام یوں ہوا کہ ناظر اور محصول جمع کرنے والے انگوروں سے بھری ناندوں میں سر کے بل ٹھونس دیے گئے۔ ان کی باہر نکلی ہوئی ٹانگیں اندھا دھند حرکت کر رہی تھیں۔ وہ سر سے پاؤں تک انگور کے رس میں لتھڑے، اپنی بندوقوں، بارود کی تھیلیوں اور مونچھوں پر چپکے ہوے بیج، چھلکے اور ڈنٹھل لیے، کچھ بھی وصولی کیے بغیر لوٹ گئے۔
پھر انگوروں کی جمع آوری ایک تقریبِ مسرت میں ڈھل گئی۔ ان سب کو اس بات کا یقین تھا کہ انھوں گے جاگیردارانہ استحقاق ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیے ہیں۔ دریں اثنا ہم رئیسوں اور چھوٹے نوابوں نے خود کو اپنے گھروں میں مورچہ بند کر لیا تھا۔ ہم پوری طرح مسلح تھے اور آخری دم تک مقابلہ کرنے پر آمادہ تھے۔ (درحقیقت، میں نے فقط اپنی چار دیواری کے اندر رہنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ سب سے بڑھ کر یوں کہ میں دوسرے رئیسوں کو یہ کہنے کا موقع نہیں دینا چاہتا تھا کہ میں اپنے دجال بھائی سے، جو سارے علاقے میں بدترین شورشی اور جیکوبن مشہور تھا، متفق ہوں۔) لیکن اس روز، جب ایک بار فوجی دستوں اور محصول جمع کرنے والوں کو اٹھا کر پھینک دیا گیا، کسی اور کو گزند نہیں پہنچا۔
ہر کوئی جشن منانے کی تیاری میں محو تھا۔ بلکہ انھوں نے محض فرانسیسی طرز کی تقلید میں ایک شجرِ آزادی بھی بنا ڈالا۔ بس انھیں یہ بات یقین سے نہیں معلوم تھی کہ فرانس کا شجرِ آزادی کیسا تھا۔ اور پھر ہمارے علاقوں میں اس قدر پیڑ تھے کہ نقلی پیڑ لگانا مشکل ہی سے سودمند تھا۔ سو انھوں نے ایک اصلی درخت کو، جو ایک بوقیذار تھا، پھولوں، انگور کے خوشوں، پتوں کی لڑیوں اور ’’عظیم قوم زندہ باد!‘‘ کے اعلان ناموں سے آراستہ کر دیا۔ عین اس کی چوٹی سے میرا بھائی، جس کی بلی کے سمور والی ٹوپی پر ایک سہ رنگا طرہ لگا تھا، روسو اور والتیئر پر لیکچر دے رہا تھا جس کا ایک لفظ بھی سنائی نہیں دے سکتا تھا، کیونکہ نیچے ساری آبادی رقص کرتے ہوے گا رہی تھی۔
یہ شادمانی مختصر تھی۔ فوجی دستے بڑی تعداد میں آگئے۔ جنیوائی، محصول وصول کرنے اور علاقائی غیرجانب داری کو یقینی بنانے کے لیے۔ اور آسٹریائی بھی، کیونکہ افواہ پھیل چکی تھی کہ اومبروسا کے جیکوبینی اس علاقے کا الحاق ’’عظیم عالمی قوم‘‘ یعنی جمہوریۂ فرانس سے کرنے والے ہیں۔ باغیوں نے مزاحمت کی کوشش کی۔ دو ایک ناکہ بندیاں بھی کیں، شہر کے دروازے بند کیے۔۔۔ مگر نہیں اس سے زیادہ درکار تھا! فوجی دستے ہر طرف سے علاقے میں در آئے۔ انھوں نے ہر دیہاتی گلی پر چوکیاں بنالیں اور کوسیمو کے سوا، جسے پکڑنے کے لیے خود ایک شیطان کی ضرورت تھی، اور اس کے ساتھ چند دوسروں کو چھوڑ کر، ان سب لوگوں کو جو شورشی مشہورتھے، قید کر لیا۔
انقلابیوں پر تیزرفتاری سے مقدمہ چلایا گیا، لیکن ملزم یہ دکھانے میں کامیاب رہے کہ اس قضیے سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا اور اصل لیڈر وہی لوگ تھے جو فرار ہو گئے ہیں۔ سو ہر ایک کو چھوڑ دیا گیا، خاص طور پر یوں بھی کہ اومبروسا میں تعینات ان تمام دستوں کی وجہ سے مزید کسی شورش کا خوف نہ تھا۔ آسٹریا والوں کا بھی ایک محافظ دستہ بطور ضمانت ٹھہر گیا اور ان کی کمان ہمارے بہنوئی، کاؤنٹ دیستومیک، باتیستا کے شوہر، کے ہاتھ میں تھی، جو فرانس سے ترکِ وطن کرکے پرووانس کے کاؤنٹ کے عملے میں شامل ہو کر آیا تھا۔
سو، میں نے اپنی بہن باتیستا کو پھر سے راستے میں حائل پایا۔ اس پر میرا ردِعمل کیا ہوسکتا تھا، یہ میں آپ کے تصور پر چھوڑتا ہوں۔ وہ شوہر، گھوڑوں اور اردلیوں کے ساتھ گھر میں بس گئی، اور ہر شام پیرس کی آخری گردن ماریاں بیان کرنے میں گزارنے لگی۔ اس کے پاس گلوٹین کا ایک نمونہ بھی تھا، جس میں سچ مچ کا پھل لگا تھا۔ اپنے دوستوں اور سسرالی عزیزوں کا انجام واضح کرنے کے لیے وہ چھپکلیوں، کنکھجوروں، کیڑوں اور چوہوں تک کے سر قلم کیا کرتی تھی۔ یوں ہم اپنی شامیں گزارتے تھے۔ مجھے کوسیمو پر رشک آتا تھا جو کسی جنگل میں چھپا اپنے شب و روز کھلے آسمان تلے جی رہا تھا۔

۲۷
جنگ کے دوران جنگل میں اپنی سرگرمیوں کے بارے میں کوسیمو کی سنائی ہوئی کہانیاں اتنی زیادہ اور اتنی ناقابلِ یقین ہیں کہ میں واقعی اس کے کسی ایک بیان کو سر بسر تسلیم نہیں کر سکتا۔ سو میں جھوٹ سچ کواسی پر چھوڑتے ہوے اس کی کچھ کہانیاں صرف اسی کے الفاظ میں بیان کرتا ہوں:

جنگل میں دونوں مخالف فوجوں کی نگراں ٹولیاں گشت لگایا کرتی تھیں۔ اوپر شاخوں پر سے میں ہر قدم زیر درختی میںٹوٹ پھوٹ کا شور سنتا اور یہ اندازہ لگانے کو ہمہ تن گوش ہو جاتا کہ آیا وہ آسٹریائی ہیں یا فرانسیسی۔
ایک چھوٹے قد کا آسٹریائی لیفٹیننٹ جس کے بال بہت بھورے تھے، سپاہیوں کے ایک گشتی دستے کی کمان کر رہا تھا۔ وہ چوٹیوں، پھندنوں، تسنگے، ہیٹوں اور ساق پوشوں سے آراستہ، سینوں پر ایک دوسرے کو قطع کرتی سفید پٹیاں لگائے، بندوقیں اور سنگینیں لیے، مکمل وردیوں میں تھے۔ لیفٹیننٹ انھیں ناہموار راستوں پر ہم آہنگ رکھنے کی کوشش کرتے ہوے دوہری قطار میں دوڑا رہا تھا۔ جنگل کی حقیقت سے بے خبر مگر احکامات بجا لانے میں پر یقین، پستہ قد لیفٹیننٹ نقشے پر کھنچی ہوئی لکیروں کے مطابق بڑھ رہا تھا اور اپنی ناک مسلسل درختوں کے تنوں سے ٹکرا رہا تھا۔ سپاہی موٹی کیلوں والے جوتوں کے ساتھ چکنے پتھروں پر پھسل رہے تھے یا جھاڑ بیریوں سے اپنی آنکھیں نکلوا رہے تھے مگر شاہی اسلحہ کی فوقیت سے ہر لحظہ باخبر تھے۔
وہ بڑے ٹھاٹ دارسپاہی تھے۔ ایک صاف کی ہوئی جگہ، میں صنوبر کے پیڑ پر چھپ کر ان کا انتظار کرنے لگا۔ میرے ہاتھ میں صنوبر کا ایک بھاری مخروط تھا جو میںنے قطار کے آخری آدمی کے سر پہ گرا دیا۔ سپاہی نے بے ساختہ اپنے ہاتھ بلند کیے۔ اس کے گھٹنے خم کھاگئے اور وہ زیر درختی کے پودوں کے درمیان زمین پر آرہا۔ کسی کی نظر نہیں پڑی اور پلٹن آگے بڑھ گئی۔
میں نے پھر انھیں جا لیا۔ اس بار میں نے ایک کارپورل کے سر پہ ایک لپیٹا ہوا خارپشت گرایا۔ کارپورل کا سر پچک گیا اور وہ غش کھاگیا۔ اس بار لیفٹیننٹ نے دیکھ لیا۔ اس نے اسٹریچر لانے کے لیے دو سپاہی بھیج دیے اور آگے بڑھتا گیا۔
گشتی دستہ بڑھتا گیا، اور گویا کہ قصداً، سارے جنگل میں سب سے گھنی صنوبری جھاڑیوں میں الجھ گیا۔ وہاں بھی ایک نئی گھات ان کی منتظر تھی۔ میں نے کچھ سنڈیاں ایک کاغذ پر جمع کر رکھی تھیں۔ یہ نیلے رنگ کی بال دار سنڈیاں تھیں جن کے مس سے جلد اس طرح سوج جاتی ہے کہ بچھوابُوٹی کو چھونے سے بھی نہ سوجتی ہوگی۔ میںنے لگ بھگ سو کے قریب سنڈیاں ان کے اوپر گرادیں۔ پلٹن گزر گئی اور گھنی جھاڑیوں میں غائب ہو گئی۔ جب وہ دوبارہ ظاہر ہوئی تو ہر سپاہی اپنے کو کھجا رہاتھا اور ہرایک کے ہاتھ اور گھٹنے چھوٹے چھوٹے سرخ چھالوں سے بھرے ہوے تھے۔ تاہم وہ بڑھتے گئے۔
شاندار فوجی، شاندار افسر، اس کے لیے سارا جنگل اس قدر عجیب تھا کہ وہ یہاں کوئی غیرمعمولی چیز شناخت نہیں کر سکتا تھا۔ ہمیشہ کی طرح مفتخر اور غیرمغلوب، وہ اپنی نقصان رسیدہ جمعیت کے ساتھ بڑھتا گیا۔ پھر میں نے جنگلی بلیوں کے ایک خاندان سے رجوع کیا۔ میں نے انھیں کچھ دیر ہوا میں گھمایا تاکہ ان میں ہیجان پیدا ہو جائے اور پھر انھیں دُموں کے ذریعے پھینکا۔ بلا کا شور مچا، خاص کر بلیوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ پھر خاموشی چھا گئی اور جنگ بندی ہو گئی۔ آسٹریائی اپنے زخمیوں کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔ پھر پٹیوں سے سفید گشتی دستہ اپنی مسافت پر دوبارہ چل نکلا۔
’’اب واحد راستہ یہ ہے کہ انھیں قیدی بنانے کی کوشش کی جائے!‘‘ میں نے ان سے آگے نکلنے کی جلدی کرتے ہوے اپنے آپ سے کہا، میں امید کررہاتھا کہ کوئی فرانسیسی گشتی دستہ ملے تو اسے دشمن کی نزدیکی سے خبردار کروں۔ مگر فرانسیسی کچھ وقت سے اس محاذ پر زندگی کی کوئی علامت نہیں دکھا رہے تھے۔
ایک پھسلنی جگہ پر سے گزرتے ہوے میں نے کوئی چیز حرکت کرتے دیکھی۔ میں نے رک کر اپنے کان لگائے تو ایک طرح کے بلبلے بھرتے ہوے چشمے کی آواز سنائی دی، جو ایک مسلسل قلقل میں ڈھلتی گئی اور پھر میں الفاظ شناخت کرنے لگا، ’’مگر پھر ۔۔۔ مقدس نام۔۔۔مجھے تنگ ۔۔۔ تم تو سر درد ۔۔۔ کیا۔۔۔‘‘ نیم تاریکی میں دائیں بائیں نظر ڈالتے ہوے میں نے دیکھا کہ نیچے بیشتر نرم ہریالی بال دار لمبی ٹوپیوں اور لہراتی ہوئی مونچھوں اور داڑھیوں پر مشتمل ہے۔ یہ فرانسیسی سواروں کاایک دستہ تھا۔ جاڑوں کی مہم کے دوران نمی جذب کرنے کے باعث، بہار آتے آتے ان کے ہیٹوں سے پھپھوندی اور کائی پھوٹنے لگی تھی۔
اس فوجی چوکی کا سربراہ لیفٹیننٹ اگریپا پاپیوں تھا۔ وہ شاعر تھا اور ری پبلکن آرمی میں رضاکار کی حیثیت سے شامل تھا اور اس کا تعلق روآں شہر سے تھا۔ لیفٹیننٹ پاپیوں فطرت کی عمومی نیکی کا قائل تھا۔ اس نے اپنے سپاہیوں کو صنوبر کی سوئیاں، بلوط کے مخروط، کونپلیں اور گھونگھے، جو اس کے آدمیوں پرجنگل سے گزرنے کے دوران چپک جاتے تھے، کچلنے سے منع کر رکھا تھا۔ یہ گشتی دستہ ارد گرد کے فطری مناظر سے پہلے ہی اتنا آہنگ تھا کہ اسے پہچاننے کے لیے میری تربیت یافتہ نظر درکار تھی۔
بسرام کرتے ہوے اپنے سپاہیوں کے درمیان شاعر لیفٹیننٹ، جس کے لمبے بال فوجی ٹوپی کے نیچے لٹوں کی صورت میں اس کے مریل چہرے کا احاطہ کیے ہوے تھے، خطیبانہ انداز میں جنگل سے مخاطب تھا، ’’اے بن! اے رات! یہاںمیں تیرے بس میں ہوں! کیا ان دلیر سپاہیوں کے ٹخنوں سے ہم کنار تیری سنبلِ سیاہ کا کوئی ٹرم ڈورا فرانس کی تقدیرکا حامل نہیں ہو سکتا؟ اے والمی! تو کتنی دوری پر ہے!‘‘
میں آگے بڑھا۔ ’’معاف کرنا، شہری۔‘‘
’’کون ہے؟ کون ہے وہاں؟‘‘
’’ان جنگلوں کاایک وطن دوست، شہری افسر۔‘‘
’’ہونہہ! یہاں؟ کہاں؟‘‘
’’عین تمھاری ناک کے اوپر، شہری افسر۔‘‘
’’سو تو میں دیکھ رہا ہوں۔ تم ہو کون؟ پرند آدمی؟ زن مرغ کی نسل؟ کیا تم کوئی اساطیری مخلوق ہو؟‘‘
’’میں شہری دی روندو ہوں۔ میں تمھیں یقین دلاتا ہوں، باپ اور ماں کی طرف سے میں انسانوں کی نسل سے ہوں، شہری افسر۔ درحقیقت میری ماں تخت نشینی کی جنگوں کے دوران ایک بہادر جنگجو تھی۔‘‘
’’میں سمجھتا ہوں۔ اے عہد، اے رفعت! مجھے تم پر یقین ہے، شہری۔ میںوہ خبر سننے کے لیے فکرمند ہوں جسے سنانے کے لیے تم آئے ہوے لگتے ہو۔‘‘
’’ایک آسٹریائی گشتی دستہ تمھاری صفوں کو چیر رہا ہے!‘‘
’’کیا کہہ رہے ہو؟ تو پھر جنگ ہے! یہی وقت ہے! چشمے نرم رو چشمے، آہ تو جلدی ہی خون سے داغ دار ہو جائے گا! اٹھو، اٹھو! ہتھیار اٹھاؤ!‘‘
شاعر لیفٹیننٹ کے حکم پرسوار ہتھیار اور سازوسامان جمع کرنے لگے، لیکن وہ کھجاتے، تھوکتے اور گالیاں بکتے ہوے اس بے فکرے اور سست انداز میں حرکت کر رہے تھے کہ میں ان کی فوجی اہلیت کے بارے میں شک میں پڑ گیا۔
’’شہری افسر، تم نے کوئی منصوبہ بنایا ہے؟‘‘
’’منصوبہ! دشمن پر چڑھائی کا!‘‘
’’ہاں، مگر کیسے؟‘‘
’’کیسے؟ صفیں قریب قریب رکھ کر!‘‘
’’تم مشورہ دینے کی اجازت دو تو میں سپاہیوں کو کھلی ترتیب میں روکے رکھوں گا اور دشمن کے گشتی دستے کو خود دام میں آنے دوں گا۔‘‘
لیفٹیننٹ پاپیوں ایک مرنجاں مرنج شخص تھا۔ اس نے میری تجویز پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ جنگل میں منتشر سوار بمشکل ہی ہریالی کے جھنڈ سے ممیّز کیے جاسکتے تھے۔ اس فرق کو محسوس کرنے کے لیے آسٹریائی لیفٹیننٹ یقینا سب سے کم اہل تھا۔ سامراجی گشتی دستہ بار بار ایک اکھڑ حکم سے دائیں یا بائیں مڑتا ہوا، نقشے پر بنے راستوں کے مطابق رواں تھا۔ اس طرح وہ فرانسیسی سپاہیوں کی موجودگی کو محسوس کیے بغیر ان کے بالکل قریب سے گزر گئے۔ سواروں نے محض پتوں کی سرسراہٹ اور پروں کی پھڑپھڑاہٹ جیسی قدرتی آوازیں پیدا کرتے ہوے اپنے کو ایک گھیرا ڈالنے والی چال میں مجتمع کرلیا۔ میں اوپر سے ان کے لیے سنتری کا فرض انجام دیتا رہا اور دشمن کی نقل و حرکت کی اطلاع دینے اور اپنے سپاہیوں کو مختصر راستے دکھانے کے لیے سیٹیاں بجاتا اور قاقموں کی چیخیں نکالتا رہا۔ آسٹریائی ناگہاں ایک دام میں پھنس گئے۔
اچانک انھوں نے ایک درخت سے آتی ہوئی اونچی آواز سنی۔ ’’وہیں رک جاؤ! آزادی، برابری اور بھائی چارے کے نام پر میں تم سب کو قیدی قرار دیتا ہوں!‘‘ اور شاخوں کے درمیان ایک لمبی نال والی شکاری بندوق لہراتا ہوا ایک انسانی بھوت نمودار ہوا۔
’’آہا! قوم پائندہ باد!‘‘ لیفٹیننٹ پاپیوں کی سرابرہی میں اردگرد کی تمام جھاڑیوں سے فرانسیسی سوار اگ آئے۔
آسٹریائیوں کی طرف سے دقیق گالیاں گونجنے لگیں مگر اس سے قبل کہ انھیں ردِعمل کا موقع ملتا، انھیں غیر مسلح کردیا گیا۔ زرد، مگر سربلند آسٹریائی لیفٹیننٹ نے اپنی تلوار اپنے دشمن ہم کار کے حوالے کردی۔

میں ریپبلکن آرمی کے لیے ایک کارآمد مددگار بن گیا، لیکن میں جنگل کے جانوروں کی مدد سے تنہا کام کرنے کو ترجیح دیتا تھا، اس وقت کی طرح جب میں نے ایک آسٹریائی دستے کے سروں پر بھڑوں کا چھتا گرا کرانھیں بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔
میری شہرت آسٹریائی چھاؤنی تک پھیل گئی اور اس درجہ مبالغہ آرائی کے ساتھ کہ جنگل مسلح جیکوبنوں سے بھرے ہوے کہے جانے لگے جو ہر درخت کی چوٹی پر چھپے ہوے تھے۔ وہ شاہی اور استبدادی دستے جہاں کہیں بھی جاتے حددرجہ خوف زدہ رہتے۔ چھلکوں سے جوز گرنے کی ہلکی سی آواز اور گلہری کی مدھم سی چیں پر بھی اپنے آپ کو جیکوبنوں میں گھرا ہوا محسوس کرتے اور اپنا راستہ بدل لیتے۔ اس طرح محض سرسراہٹیں اور آوازیں پیدا کرکے، میں پہاڑی اور آسٹریائی دستوں کو راستہ بدلنے پر مجبور کر دیتا اور کان سے پکڑ کر جہاں چاہتا لے جاتا تھا۔
ایک دن میں ان کے ایک دستے کو گھنی خاردار جھاڑیوں تک لے گیا اور ان سب کوراستے سے بھٹکا دیا۔ جھاڑیوں میں جنگلی خنزیروں کا ایک خاندان رہتا تھا۔ توپوں کی گھن گرج کے باعث پہاڑوں سے پسپائی پر مجبور خنزیر جنگلوں میں پناہ لینے کے لیے گلوں کی صورت میں نیچے اتر رہے تھے۔ راہ گم کردہ آسٹریائی اپنے سامنے ہاتھ بھر پرے دیکھنے سے بھی عاری بڑھتے چلے جارہے تھے کہ اچانک دہلا دینے والی چیخیں نکالتے ہوے بالوں بھرے خنزیر ہر طرف اچھل کر کھڑے ہو گئے۔ تھوتھنیاں آگے بڑھائے ہوے وہ ہر سپاہی کے گھٹنوں کے درمیان جا پڑے اور انھیں دھکیل کر سر کے بل نیچے گرا دیا۔ پھر اپنے نوک دار پنجوں سے انھیں کچلنے اور اپنے لمبے دانتوں سے ان کے پیٹ پھاڑنے لگے۔ ساری پلٹن میں افراتفری پھیل گئی۔ میں اور میرے ساتھی درختوں پر سے اپنی بندوقوں کے ذریعے ان کا تعاقب کرنے لگے۔ جو سپاہی چھاؤنی تک پہنچ سکے انھوں نے بتایا کہ یا تو زلزلے نے اچانک ان کے قدموں تلے زمین کو شق کر دیا تھا، یا زمین کی اندرونی تہوں سے جیکوبنوں کا ایک جتھا نمودار ہوا تھا، کیونکہ نصف آدمی اور نصف جانور یہ جیکوبن بھتنوں کے سوا کچھ اور نہ تھے، جو درختوں پر رہتے تھے یا پھر جھاڑیوں کے درمیان۔
جیساکہ میں کہہ چکا ہوں، میں اپنے منصوبوں پر تن تنہا عمل کرنے کو ترجیح دیتا تھا یا پھر اومبروسا کے چند ساتھیوں کے ساتھ، جنھوں نے انگوروں کی فصل کے بعد میرے ساتھ جنگل میں پناہ لی تھی، یہ کام کیا کرتا تھا۔ فرانسیسی فوج کے ساتھ جہاں تک ممکن تھا، میں کم سے کم تعلق رکھنے کی کوشش کرتا، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ فوجیں کیا ہوتی ہیں؛ وہ جب بھی بڑھتی ہیں کچھ نہ کچھ تباہی ضرور آتی ہے۔ لیکن لیفٹیننٹ پاپیوں کے سپاہیوں کو میں کسی حد تک پسند کرنے لگا تھا اور اس بات پر فکرمند تھا کہ ان کا کیا بنے گا، کیونکہ محاذ کی بے حرکتی شاعر کے زیر کمان دستے کے لیے تباہ کن ہونے کا خطرہ بن رہی تھی۔ سپاہیوں کی وردیوں پر کائی اگنے لگی تھی اور بعض اوقات تو جھاڑیاں بھی۔ اونچی ٹوپیوں کی چوٹی پر الووّں نے گھونسلے بنا لیے تھے۔ یا پھر ان پر وادی کے سوسن کھلنے لگے تھے۔ مٹی سے لتھڑ کر، ان کے اونچے بوٹ ٹھوس بوجھ بن گئے تھے۔ ساری پلٹن کوئی دم جڑ پکڑنے والی تھی۔ فطرت کی طرف لیفٹیننٹ اگریپا پاپیوں کا مغلوب رویہ بہادر آدمیوں کے اس دستے کو جانور اور نبات کے پگھلاؤ میں دفن کر رہاتھا۔
انھیں جگانے کی ضرورت تھی۔ لیکن کیسے؟ میرے ذہن میں ایک خیال آیا اور میں اسے تجویز کرنے لیفٹیننٹ پاپیوں کے پاس گیا۔ شاعر خطیبانہ انداز میں چاند سے مخاطب تھا:
’’اے توپ کی نال جیسے گول چاند! بارود سے ملے جھٹکے کے خاتمے پر آہستگی و خموشی سے آسمان پر گردش کرتے ہوے توپ کے گولے جیسے چاند! گرد اور چنگاریوں کا ایک اونچا بادل اٹھاتے ہوے، دشمن کی فوجوں اور تختوں کو غرقاب کرتے ہوے اور مجھ پر ہم وطنوں کے عدم اعتماد کی ٹھوس دیوار میں میرے لیے ناموری کا در کھولتے ہوے چاند! تم کب ہم پر پھٹو گے؟ اے روآں! اے چاند! اے مقدر! اے ریت! اے مینڈکو! اے دوشیزاؤ! اے زندگی!‘‘
میں بولا، ’’شہری۔۔۔‘‘
پاپیوں نے، جو میری مستقل مداخلت پر جھنجھلا رہا تھا، تیکھے پن سے کہا،’’ کیا ہے؟‘‘
’’شہری افسر، میں تو بس تمھارے آدمیوںکو جھنجھوڑنے کا ایک طریقہ تجویز کرنا چاہتا تھا۔ یہ کاہلی ان کے لیے خطرناک ہو رہی ہے۔‘‘
’’میں تو خدا سے چاہتا ہوں کہ ایسے طریقے ہوتے، شہری۔ سرگرمی وہ شے ہے جس کے لیے میں مر رہا ہوں، تم دیکھ ہی رہے ہو۔ مگر تمھارا یہ طریقہ ہے کیا؟‘‘
’’پسّو، شہری افسر۔‘‘
’’مجھے تمھارا وہم دور کرتے ہوے افسوس ہو رہا ہے، شہری۔ ری پبلکن آرمی میں پسّو نہیں ہیں۔ ناکہ بندی اور مہنگے مصارفِ زندگی کے نتیجے میں، وہ سب کے سب قحط سے مرچکے ہیں۔‘‘
’’میں تھوڑے بہت مہیا کر سکتا ہوں، شہری افسر۔‘‘
’’میں نہیں کہہ سکتا کہ تم کوئی بامعنی بات کر رہے ہویا مذاق کر رہے ہو۔ بہرحال میں اس معاملے سے اعلی کمان کو آگاہ کردوں گا۔ پھردیکھتے ہیں۔ شہری، میں جمہوری مقصد کے لیے تمھاری مدد کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اے رفعت! اے روآں! اے پسّوؤ! اے چاند! ‘‘اور وہ جوش میں چلّاتا ہوا رخصت ہو گیا۔
مجھے احساس ہو گیا کہ مجھے خود ہی پیش قدمی کرنی ہوگی۔ لہٰذا میںنے ڈھیر سارے پسّو جمع کیے۔ جونہی کوئی فرانسیسی سوار دکھائی دیتا، میں اپنی گوپھن سے اس کے کالر کا نشانہ لیتے ہوے ایک پسّو اس پرداغ دیتا اور کوشش کرتا کہ پسّو کالر کے اندر گرے۔ پھر میں ساری پلٹن پر مٹھیاں بھر بھر کے پسّو چھڑکنے لگا۔ یہ ایک خطرناک مہم تھی کیونکہ اگر میں ایسا کرتے ہوے پکڑا جاتا تو وطن دوست ہونے کی میری شہرت بھی مجھے بچا نہ پاتی۔ وہ مجھے گرفتار کر لیتے اور گھسیٹ کر فرانس لے جاتے جہاں پٹ (Pitt) کے ایلچی کے طور پر میرا سر قلم کر دیا جاتا۔ اس کے بجاے میری مداخلت خدا کا فضل ثابت ہوئی۔ جلد ہی پسّوؤں کی خارش نے سواروں میں اپنے کو کھجانے، ٹٹولنے اور پسوؤں سے نجات پانے کی ایک انسانی اور مہذب طلب کو بیدار کردیا۔ انھوں نے اپنے کائی والے کپڑے اور سانپ کی چھتریوں اور مکڑی کے جالوں بھرے تھیلے اور جھولے اتار پھینکے۔ غسل کیا، داڑھی بنائی اور بال سنوارے؛ سچ پوچھو تو اپنی انفرادی انسانیت کے ادراک کی بازیافت کی اورتہذیب سے دوبارہ آشنا ہونے کے ساتھ فطرت کے بدصورت پہلو سے آزادی کا احساس حاصل کیا، اور مدتوں سے بھولی ہوئی سرگرمی اور جنگجوئی ان کے متحرک ہونے کے لیے مہیج بن گئیں اور جب حملہ ہوا تو وہ اس نئی لگن سے پُر تھے۔ جمہوریہ کی افواج دشمن کی مزاحمت پر غالب آئیں اور محاذ کو سر کرتی ہوئی دیگو(Dego) اور میلیسیمو(Millesimo) کی تسخیر کے لیے بڑھتی گئیں۔۔۔

۲۸
ہماری بہن اور شاہ پسند تارکِ وطن دیستومیک ریپبلکن آرمی کے ہاتھوں پکڑے جانے سے بچنے کے لیے عین وقت پر اومبروسا سے فرار ہو گئے۔ اومبروسا کے لوگ انگوروں کی جمع آوری کے زمانے میں لوٹے ہوے لگتے تھے۔ انھوں نے شجرِ آزادی لگایا اور اس بار فرانسیسی مثال سے زیادہ مطابقت کا خیال رکھا، یعنی تھوڑا سا شجرِ افراط کی طرح۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کوسیمو، جس نے ایک فریجیائی ٹوپی پہن رکھی تھی، اس درخت کے اوپر گیا، مگر وہ جلد ہی اکتا کر رخصت ہو گیا۔
امرا کے محلات کے اردگرد کچھ دھماچوکڑی مچی۔ اور ’’امرا! امراکو پھانسی دو!‘‘ کی چند پکاریں اٹھیں۔ کچھ تو اپنے بھائی کا بھائی ہونے اور کچھ ہمارے چھوٹی حیثیت کے امیر ہونے کی وجہ سے انھوں نے مجھ سے تعرض نہیں کیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ بعد میں وہ مجھے وطن دوست جاننے لگے۔ (اس طرح کہ اگلے تغیر کے وقت میں خود مشکل میں آگیا۔)
انھوں نے فرانسیسی طرز پر ایک میونسپلٹی قائم کی اور میئر بٹھایا۔ میرے بھائی کو عارضی انتظامی کونسل میں نامزد کیا گیا، حالانکہ بہت سے لوگ، اس کی فاترالعقلی کو دیکھتے ہوے متفق نہیں تھے۔ پرانے طرزِ حکومت کے لوگوں نے یہ کہہ کر ہنسی اڑائی کہ کونسل کے سارے لوگ فقط پنجرہ بھر جنونی ہیں۔
انتظامی کونسل کی نشستیں جینوائی گورنر کے سابق محل میں ہوتی تھیں۔ کوسیمو ایک خرنوب کے پیڑ پر، جس کی بلندی کھڑکیوں جتنی تھی، نشست سنبھالتا اوروہاںسے مباحث میں حصہ لیتا۔ بعض اوقات وہ احتجاج کرنے کے لیے مداخلت کرتا اور اپنی رائے کااظہار کرتا۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ روایت پسندوں کی بہ نسبت انقلابی ضابطے کی پابندی پر زیادہ مصر ہوتے ہیں۔ انھوں نے کوسیمو کے طرزِعمل کو قابلِ اعتراض اور اس کے طریقِ حاضری کو یہ کہتے ہوے ناقابلِ عمل قرار دیا کہ اس سے اسمبلی کا سلیقہ خراب ہوتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ جب چند سری جمہوریۂ جینوآ کی جگہ لیگوریائی جمہوریہ قائم ہوئی تو نئی انتظامیہ کے لیے میرے بھائی کو منتخب نہیں کیا گیا۔
برسبیلِ تذکرہ، کوسیمو نے ان دنوں ’’آئینی منصوبہ برائے یک شہرِ جمہوری‘‘ نامی کتاب لکھی اور اسے شائع کیا۔ اس میں مردوں، عورتوں، بچوں، گھریلو اور جنگلی جانوروں، بشمول پرندوں، مچھلیوں اور کیڑوں، اور تمام نباتات، خواہ درخت ہوں، سبزیاں یا گھاس، سب کے حقوق کا ایک منشورشامل تھا۔ یہ ایک عمدہ کتاب تھی، جو کسی بھی حکومت کے لیے ایک کارآمد رہنما ثابت ہوسکتی تھی، لیکن کسی نے اس پر توجہ نہیںدی اور یہ کتاب ایک غیرنافذ قانون رہی۔

تاہم، کوسیمو اپنا زیادہ تر وقت ابھی تک جنگل میں گزارتا تھا، جہاں فرانسیسی فوج کے انجینئری شعبے کے سپاہی توپوں کی نقل و حمل کے لیے ایک سڑک بنا رہے تھے۔ اونچی ٹوپیوں کے نیچے چمڑے کے پیش بندوں میں مدغم ہوتی اپنی لہراتی ہوئی داڑھیوں کی وجہ سے انجینئری شعبے کے سپاہی تمام دوسرے دستوںسے الگ تھے۔ غالباً اس کا باعث یہ تھا کہ وہ اپنے عقب میں (دوسرے دستوں کی طرح) تباہی و بربادی کے منظر نہیں چھوڑتے تھے، اور انھیں ایسے کام سرانجام دینے کی طمانیت حاصل تھی جو باقی رہنے والے تھے، اور ان کی خواہش تھی کہ ان کاموں کو جس قدر بھی ممکن ہو، بہتر طور سے سرانجام دیں۔ پھر، ان کے پاس سنانے کو بے شمار کہانیاں تھیں۔ وہ قوموں سے ہو کر گزرے تھے، محاصرے اور جنگیں دیکھی تھیں۔ ان میں کچھ تو حالیہ بڑے واقعات، باستیل پر چڑھائی اور گردن ماریوں کے دوران پیرس میں موجود تھے۔ کوسیمو اپنی شامیں ان کی باتیں سنتے ہوے گزارتا تھا۔ اپنے پھاؤڑے اوربلیاں رکھ دینے کے بعد وہ چھوٹے چھوٹے پائپ جلا کر آگ کے گرد بیٹھ جاتے اور پرانی یادیں تازہ کرتے۔
دن میں کوسیمو راستے کی نشان زدگی میں سر ویئروں کی مدد کرتا۔ اس کام کے لیے اس سے زیادہ موزوں کوئی نہیں تھا۔ وہ ایسی تمام جگہیں جانتا تھا جہاں سے سڑک خفیف ترین اتار چڑھاؤ اور درختوں کے کم سے کم نقصان کے ساتھ گزر سکتی تھی۔ وہ فرانسیسی توپ خانے کی ضرورتوں سے زیادہ ان بے راہگذر خطوں کی آبادی کی ضرورتیں نظر میں رکھتا تھا۔ لوٹ مار کرتے ہوے بہیمانہ فوجی دستوں کے گزرنے کا کم از کم ایک فائدہ ضرور ہونا تھا، یعنی آبادی کی قیمت پر ایک سڑک۔
اُس وقت یہ کوئی غلط بات بھی نہیں تھی کیونکہ اس وقت تک قابض دستے، خاص کر جب سے انھوں نے ریپبلکن کی جگہ امپیریل کا نام اپنایا تھا، ہر ایک کے لیے دردِ سر بنے ہوے تھے۔ سب لوگ وطن دوستوں کے پاس شکایت لے کر جاتے۔ ’’ذرا دیکھو تو، تمھارے دوست کیا کر رہے ہیں!‘‘ اور وطن دوست بے چارگی سے اپنے ہاتھ بلند کرکے آسمان کی طرف دیکھتے اور جواب دیتے، ’’اوہ، اچھا! سپاہی! ہمیںامیدکرنی چاہیے کہ یہ سب گزر جائے گا!‘‘
نیپولینی دستے خوانچوں سے خنزیروں، گایوں بلکہ بکریوں کا بھی مطالبہ کرتے اور جہاں تک محاصل اور عشروں کا تعلق ہے تو وہ پہلے سے بدتر تھے۔ ستم بالاے ستم یہ کہ جبری بھرتی شروع ہو گئی۔ یہ زبردستی سپاہی بنایا جانا ہم میں سے کوئی نہیں سمجھ پایا، اور مطلوب نوجوان جنگلوں میں پناہ لینے لگے۔
کوسیمو جو بھی مدد کر سکتا تھا اس نے کی۔ جب مالک کسان اپنے مویشی پکڑے جانے کے ڈر سے ویرانوں میں بھیجتے تو کوسیمو جنگل میں ان کی نگرانی کرتا۔ وہ پسائی کے لیے جاتی ہوئی گندم کی خفیہ کھیپوں کی پہرے داری کرتا، تیل نکالنے کے لیے جانے والے زیتونوں کی نگہبانی کرتا تاکہ نیپولینی دستے اپنا حصہ نہ لے سکیں۔ وہ فوج میں طلب کیے گئے نوجوانوں کو جنگل میں ایسے غار دکھاتا جہاں وہ چھپ سکیں۔ درحقیقت اس نے دھونس اور دھاندلی کے خلاف لوگوں کا دفاع کیا، حالانکہ اس نے قابض دستوں پر کبھی حملے نہیں کیے۔ ان مسلح جتھوں کے باوجود بھی نہیں جو فرانسیسیوں کے لیے عذابِ جاں بن کر جنگل میں پھرنے لگے تھے۔ ضدی ہونے کے باعث کوسیمو حقیقت کو تسلیم کرنے سے مسلسل انکار کرتا رہا اور آگے فرانسیسیوں کا دوست رہ چکنے کی وجہ سے یہی سوچتا رہا کہ اسے انھیں کا وفادار رہنا چاہیے، ہر چند کہ اتنا کچھ بدل چکا تھا اور جو کچھ اس نے توقع کی تھی سب کچھ اس کے برعکس تھا۔ پھر، ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اب وہ پہلے جیسا نوجوان نہیں رہا تھا، اور کسی بھی فریق کی حمایت میں اب زیادہ سرگرمی نہیں دکھاتا تھا۔
نیپولین اپنی تاج پوشی کے لیے میلان گیا اور پھر اس نے اٹلی کے طول و عرض میں چند سفر کیے۔ وہ جس شہر سے بھی گزرا لوگوں نے اس کا زبردست استقبال کیا اور اسے مقامی قابلِ دید مقامات دکھانے لے گئے۔ اومبروسا کے پروگرام میں انھوں نے ’’درختوں پر رہنے والے وطن دوست‘‘ سے ایک ملاقات بھی رکھی، کیونکہ جیساکہ اکثر ہوتا ہے، ہم میں سے کوئی کوسیمو کی زیادہ پروا نہیں کرتا تھا، لیکن باہر کی دنیا میں، خاص کر غیرممالک میں، وہ بہت مشہور تھا۔
یہ کوئی اتفاقی ملاقات نہیں تھی۔ خوشگوار تاثر قائم کرنے کے لیے میونسپل کمیٹی براے تقریبات نے ہر بات پہلے سے طے کر رکھی تھی۔ انھوں نے ایک بڑا عمدہ درخت منتخب کیا۔ وہ چاہتے تو بلوط کا درخت تھے لیکن موزوں ترین جگہ پر صرف اخروٹ کا درخت تھا، لہٰذا انھوں نے اخروٹ کے درخت پر بلوط کی چند شاخیں لگا کر اسے بلوط کا درخت بنالیا اور فرانسیسی اور لمباردی ترنگوں کے فیتوں، مصنوعی پھولوں اور حاشیوں سے سجا دیا۔ اور ان سب کے درمیان انھوں نے میرے بھائی کو ایک زرق برق جشنی پوشاک پہنا کر بٹھایا، لیکن سر پراس کے وہی مخصوص بلی کے سمور والی ٹوپی تھی اور کاندھے پر ایک گلہری۔
شہنشاہ ہم رکابوں کی معیت میں وارد ہوا جن کے کاندھوں پر لگے امتیازی نشان دھوپ میں جھلملا رہے تھے۔ دوپہر ہوچکی تھی۔ نیپولین نے اوپر شاخوں کے درمیان کوسیمو کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں پر دھوپ پڑنے لگی۔ وہ کوسیمو کو مخاطب کرکے چند موزوں فقرے ادا کرنے لگا۔ اس نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ سے سایہ کیا۔"Parmi les forets..." وہ ذرا سا ایک طرف کو ہوا کہ دھوپ براہِ راست اس کی آنکھوں میں نہ آئے۔ پھروہ دوسری طرف کو جھکا کہ کوسیمو کی کورنش نے اس پر سورج کو دوبارہ عیاں کردیا تھا۔
بوناپارٹ کو اس قدر بے چین دیکھ کر کوسیمو نے نرمی سے پوچھا، ’’میرے شہنشاہ، کیا میں آپ کے لیے کچھ کرسکتا ہوں؟‘‘
’’ہاں، ہاں،‘‘ نیپولین نے کہا، ’’ذرا اس طرف کو رہو تاکہ دھوپ میری آنکھوں میں نہ آئے۔ ہاں، بس اب ٹھیک ہے۔ اب ہلو جلو نہیں۔۔۔‘‘ پھر وہ خاموش ہوگیا جیسے اسے کوئی خیال آگیا ہو۔ وہ وائسرائے یوجین کی طرف مڑا۔ ’’یہ سب مجھے کسی بات کی یاد دلا رہا ہے۔۔۔ ایسی بات جس سے میرا پہلے کبھی سابقہ پڑ چکا ہے۔‘‘
کوسیمو اس کی مدد کو آیا۔ ’’جہاں پناہ،وہ آپ نہیں، سکندرِ اعظم تھا۔‘‘
’’آہ، یقینا!‘‘ نیپولین بولا، ’’سکندر اور دیوجانس کی ملاقات!‘‘
’’آپ اپنے پلوٹارک کو کبھی نہیں بھولتے، شہنشاہ،‘‘ بیوہارنس نے کہا۔
’’فرق صرف یہ ہے ،‘‘ کوسیمو نے اضافہ کیا، ’’کہ اس وقت سکندر نے دیوجانس سے پوچھا تھا کہ وہ اس کے لیے کیا کرسکتا ہے، اور دیوجانس نے اسے سامنے سے ہٹنے کے لیے کہا تھا۔۔۔‘‘
نیپولین نے انگلیوں کو ایک فوری حرکت دی جیسے اسے وہ فقرہ مل گیا ہو جسے وہ تلاش کر رہا تھا۔ اپنے کو ایک نگاہ سے یقین دہانی کراتے ہوے کہ اس کے جلوس کے اعلیٰ افسر سن رہے ہیں، اس نے نہایت عمدہ اطالوی میں کہا، ’’اگر میں شہنشاہ نیپولین نہ ہوتا تو میں شہری کوسیمو دی روندو ہونا پسند کرتا!‘‘
وہ مڑا اور رخصت ہوگیا۔ اس کے ہم رکاب بھی مہمیزوں کی پُرشور جھنکار کے ساتھ پیچھے پیچھے چل پڑے۔
قصہ تمام شد۔ آپ توقع کرسکتے تھے کہ ہفتے بھر کے اندر میرے بھائی کو ’’کراس آف دی لیجین آف آنر‘‘ بھیج دیا جائے گا۔ میرے بھائی کو اعزاز کی ذرہ برابر پروا نہیں تھی مگر ہم اہلِ خاندان کو اس سے مسرت ہوتی۔

۲۹
زمین پر جوانی جلد گزر جاتی ہے۔درختوں پر بھی اسے اسی طرح قیاس کیجیے جہاں ہر چیز کے مقدر میں گرنا ہے، خواہ پتے ہوں یا پھل۔ کوسیمو بوڑھا ہورہا تھا۔ ٹھنڈ، ہوا اور بارش میں کمزورسائبانوں تلے، یا فقط کھلے آسمان کے نیچے ہمیشہ کسی گھر، آگ یا گرم کھانے کے بغیر گزاری ہوئی وہ ساری راتیں، وہ تمام سال۔۔۔ ٹیڑھی میڑھی ٹانگوں اور بندر جیسے لمبے بازوؤں کے ساتھ پیٹھ پر کُب لیے، سمور کے چوغے میں دھنسا ہوا جس پر سرپوش مستزاد تھا، وہ کسی بالوں بھرے راہب کی طرح ایک سکڑا ہوا بوڑھا ہوا جارہا تھا۔ جھریوں کے درمیان روشن گول آنکھوں کے ساتھ اس کا دھوپ سے پکا ہوا چہرہ بلوط کی طرح شکن دار تھا۔
بیری سینا میں نیپولین کی فوجوں کو شکست فاش ہوئی تھی، برطانوی بیڑا جینوآ میں اتر چکا تھا۔ ہمارے دن شکستوں کی خبروں کے انتظار میں گزرتے تھے۔ کوسیمو اومبروسا میں دکھائی نہیں دیتا تھا۔ وہ جنگل میں ایک صنوبر کے درخت پر ڈیرا جمائے تھا جس کی بلندی سے مشرق کی طرف جاتی ہوئی سپاہیوں کی بنائی ہوئی سڑک نظر آتی تھی جہاں سے توپیں مارینگو کی طرف گئی تھیں۔ اب اس ویران سطح پر صرف گڈریے اپنی بکریوں کے ساتھ یا لکڑی سے لدے ہوے خچر دیکھے جاسکتے تھے۔ وہ کس کا انتظار کر رہا تھا؟ نیپولین کو وہ دیکھ چکا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ انقلاب کا کیا انجام ہوا۔ اب بدترین صورت حال کے سوا توقع کرنے کے لیے کچھ اور نہیں تھا۔ اس کے باوجود وہاں نظریں جمائے تھا جیسے کسی بھی لمحے سڑک کا موڑ کاٹتی ہوئی،جو ابھی تک روسی برف کی قلموں میں ڈوبی تھی، شاہی فوج نمودار ہوگی، اور گھوڑے پر سوار زرد اور بے کل بوناپارٹ، جس کی بے مُنڈی ٹھوڑی اس کے سینے میں دھنسی ہوگی۔۔۔ وہ صنوبر کے درخت کے نیچے رکے گا (اس کے عقب میں اچانک روکے گئے قدموں کی بے ترتیبی، تھیلوں اور بندوقوں کے زمین پر دھرے جانے کی کھٹ کھٹ پٹ پٹ، سڑک کے کنارے تکان سے چور، جوتے اور پیروں سے لپٹے چیتھڑے اتارتے ہوے سپاہی...) وہ کہے گا، ’’شہری روندو، تم ٹھیک کہتے تھے۔ جو آئین تم نے لکھے ہیں وہ مجھے دے دو۔ تمھارا وہ مشورہ جسے نظامت سنتی ہے نہ قونصل خانہ، نہ سلطنت، اسے میں سنوں گا۔ آؤ دوبارہ ابتدا سے شروع کریں، ایک بار پھر شجرِ آزادی لگائیں، عالمی قوم کو بچائیں!‘‘ یقینا یہ کوسیمو کے خواب تھے، اس کی خواہشات تھیں۔
اس کے بجاے ایک روز سپاہیوں والی سڑک پر مشرق سے تین لنگڑاتی ہوئی شکلیں ظاہر ہوئیں۔ ایک لنگڑے نے بیساکھی کا سہارا لے رکھا تھا، دوسرے کا سر پٹیوں کی پگڑی میں لپٹا ہوا تھا، تیسرا سب سے صحت مند تھا کیونکہ اس کی ایک آنکھ پر محض ایک سیاہ چیپی لگی تھی۔ وہ گندے چیتھڑے جو ان کے بدن تھے، پھٹی پرانی مینڈھیاں جو ان کے سینوں سے لٹک رہی تھیں، بغیرطرّوں کے بے کنارہ ہیٹ جن میں سے ایک پر ابھی تک کلغی لگی ہوئی تھی، اونچے جوتے جو ٹانگوں پر اوپر تک چڑھے ہوے تھے، نیپولینی گارد کی وردیوں سے متعلق معلوم ہورہے تھے۔ لیکن ان کے پاس ہتھیار نہیں تھے، بلکہ ان میں ایک تو خالی نیام لہرا رہا تھا، دوسرے کے کندھے پر بندوق کی نالی تھی جس کے سرے پر کسی چھڑی کی طرح ایک گٹھڑی بندھی تھی۔ وہ نشیئوں کی تگڈم کی طرح گاتے ہوے آرہے تھے۔
’’او، اجنبیو!‘‘ میرے بھائی نے انھیں آواز دی۔ ’’تم کون ہو؟‘‘
’’کیا عجیب پرندہ ہے! تم وہاں اوپر کیا کر رہے ہو؟ صنوبر کی گری کھا رہے ہو؟‘‘
دوسرا بولا، ’’صنوبر کی گری کسے چاہیے؟ ہم قحط زدوں سے تم صنوبر کی گریاں کھانے کی توقع کرتے ہو؟‘‘
’’ہائے پیاس! یہ برف کھانے کی وجہ سے ہے!‘‘
’’ہم سواروں کی تیسری پلٹن ہیں!‘‘
’’ایک آدمی کے لیے!‘‘
’’جو بھی باقی رہ گیا ہے!‘‘
’’تین سو میں سے تین، برا نہیں ہے!‘‘
’’خیر، میں بچ گیا ہوں اور یہ میرے لیے کافی ہے!‘‘
’’اخاہ، ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ تم اپنی پوری کھال سمیت ابھی گھر نہیں پہنچے ہو!‘‘
’’لعنت ہوتم پر!‘‘
’ہم آسٹرلٹزکے فاتح ہیں!‘‘
’’اور وِلنا کے کام بگاڑو! آہا!‘‘
’’او بولتے پرندے، ہمیں بتاؤ یہاں سرائے کہاں ہے!‘‘
’’ہم نے آدھے یورپ کے شراب کے پیپے خالی کر دیے ہیں مگر پیاس نہیں بجھی!‘‘
’’اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم گولیوں سے چھدے ہوے ہیں اور شراب سیدھی باہر نکل جاتی ہے!‘‘
’’تم جانتے ہو تم کہاں چھدے ہوے ہو!‘‘
’’کوئی سرائے جو ہمیں ادھار دے سکے!‘‘
’’ہم واپس آ کر کسی اور وقت چکتا کردیں گے!‘‘
’’نیپولین چکتا کرے گا!‘‘
’’ہونہہ۔۔۔‘‘
’’زار چکتا کرے گا! وہ پیچھے پیچھے آرہا ہے۔ بل اسے دے دینا!‘‘
کوسیمو نے کہا، ’’یہاں شراب نہیں ہے لیکن آگے ایک چشمہ ہے جہاںتم اپنی پیاس بجھا سکتے ہو۔‘‘
’’خدا کرے کہ تم چشمے میں ڈوب جاؤ۔ الّو!‘‘
’’اگر میں اپنی بندوق دریاے وستولا میں نہ گنوا چکا ہوتا تو اب تک تمھیں نیچے گرا کر ترغے کی طرح سیخ پر بھون چکا ہوتا!‘‘
’’ذرا ٹھہرو۔ میں اپنے پاؤں چشمے میں ڈالنے جارہا ہوں، بڑی جلن ہو رہی ہے۔‘‘
’’میری بلا سے، تم اس میں اپنے چوتڑ بھی دھو سکتے ہو۔‘‘
لیکن وہ تینوں چشمے پر گئے۔ انھوں نے اپنے پاؤں پانی میں ڈالے اور اپنے منھ اور کپڑے دھوئے۔ صابن انھیں کوسیمو سے مل گیا تھا، جو ان لوگوں میں سے تھا جنھیں بڑھتی ہوئی عمر اور صاف ستھرا بناتی ہے، کیونکہ وہ ایسی خود کراہتی کی گرفت میں آجاتے ہیں جس کی طرف جوانی میں ان کی توجہ نہیں ہوتی۔ سو، کوسیمو ہمیشہ اپنے پاس صابن رکھتا تھا۔ خنک پانی نے ان تینوں میں الکحل کے بخارات کسی حد تک دور کر دیے۔ نشہ اترنے کے ساتھ ہی اپنی حالت کی پژمردگی کے احساس نے انھیں گھیر لیا اور وہ آہیں بھرنے لگے۔ لیکن ان کی دلگیری میں شفاف پانی موجبِ مسرت بن گیا اور وہ چھینٹے اڑاتے ہوے گانے لگے۔’’اے میرے وطن...اے میرے وطن...‘‘
کوسیمو سڑک کے کنارے اپنی نگرانی کی چوکی پر لوٹ گیا تھا۔ اس نے سرپٹ دوڑتے گھوڑوں کی آواز سنی اور ہلکے گھڑ سواروں کا ایک دستہ دھول اڑاتا نمودار ہوا۔ وہ ایسی وردیوں میں تھے جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ان کی بھاری سموری ٹوپیوں کے نیچے صاف جلد والے چہرے دیکھے جاسکتے تھے۔ وہ باریش اور کسی حد تک دبلے تھے اور ان کی سبز آنکھیں ادھ کھلی تھیں۔ کوسیمو نے انھیں دیکھ کر اپنی ٹوپی اتاری۔
وہ رک گئے۔ ’’کہو، وہاں پہنچنے کے لیے ہمیں کتنا راستہ اور طے کرنا ہوگا؟‘‘
سپاہیو، ’’کوسیمو نے کہا جس نے ہر زبان بشمول روسی تھوڑی بہت سیکھ لی تھی،’’کہاں پہنچنے کے لیے؟‘‘
’’جہاں کہیں بھی یہ سڑک جاتی ہے۔۔۔‘‘
’’ارے، یہ سڑک تو بہت ساری جگہوں پر جاتی ہے۔ تم لوگ کہاں جارہے ہو؟‘‘
’’پیرس۔‘‘
’’پیرس کے لیے اس سے بہتر راستے بھی ہیں۔‘‘
’’ ‘‘
’’ارے، بہت سی جگہوں کو، اولیواباسا، ساسو کورتو، تراپا۔۔۔‘‘
کہاں؟ اولیواباسا؟ نہیں، نہیں۔‘‘
’’ویسے اگرتم لوگ چاہو تو مارسائی بھی جاسکتے ہو۔۔۔‘‘
’’مارسائی۔۔۔ ہاں، ہاں، مارسائی۔۔۔ فرانس۔۔۔‘‘
’’مگر فرانس میں تم لوگ کرو گے کیا؟‘‘
’’نیپولین نے ہمارے زار کے ساتھ جنگ چھیڑی تھی، اور اب ہمارا زار نیپولین کا تعاقب کر رہا ہے۔‘‘
’’اور تم آئے کہاں سے ہو؟‘‘
’’چار کووا سے، کیف سے، روس سے۔‘‘
’’تم لوگوں نے کیا عمدہ جگہیں دیکھی ہوں گی! تمھیں کون سی جگہ زیادہ پسند ہے؟ یہاں یا روس میں۔‘‘
’’عمدہ جگہیں ہوں، خراب جگہیں ہوں، ہمارے لیے سب برابر ہیں۔ ویسے ہم روس کو پسند کرتے ہیں!‘‘
سرپٹ دوڑنے کی آواز آئی اور دھول کا بادل اڑاتا ایک گھوڑا رکا جس پر ایک افسر سوار تھا۔ افسر نے چلاّ کر قازقوں سے کہا، ’’ ‘‘
سپاہیوں نے کوسیمو سے کہا، ’’ ‘‘اور گھوڑوں کو ایڑ لگا دی۔
افسر صنوبر کے درخت کے پاس رکارہا۔ وہ لمبا اور دبلاپتلا، وجیہہ اور اداس صورت شخص تھا۔ اس نے اپنا ننگا سر آسمان کی طرف اٹھا رکھا تھا جہاں بادل دھاریوں کی شکل میں تیر رہے تھے۔
’’روزبخیر، موسیو،‘‘ اس نے کوسیمو سے کہا، ’’سو تم ہماری زبان جانتے ہو؟‘‘
میرے بھائی نے جواب دیا، ’’لیکن اس سے زیادہ نہیں جتنی فرانسیسی آپ جانتے ہیں۔ بات یکساں ہے۔‘‘
’’کیا تم اسی ملک کے باشندے ہو؟ کیا تم یہیں تھے جب نیپولین آس پاس تھا؟‘‘
’’ہاں، موسیو افسر۔‘‘
’’کیسا رہا؟‘‘
’’آپ جانتے ہیں، موسیو، فوجیں ہمیشہ لوٹ مار کرتی ہیں خواہ ان کے مقاصد کچھ بھی ہوں۔‘‘
’’ہاں، ہم بھی بہت لوٹ مار کرتے ہیں۔۔۔ لیکن ہم خیالات نہیں پھیلاتے۔۔۔‘‘
وہ اداس اور فکرمندتھا، حالانکہ فاتح تھا۔ وہ کوسیمو کو اچھا لگا اور اس نے روسی کو تسلی دینے کی کوشش کی۔ ’’آپ جیت گئے ہیں!‘‘
’’ہاں۔ ہم اچھا لڑے۔ بہت اچھا۔ لیکن شاید۔۔۔‘‘
یکایک چیخ پکار کے ساتھ، گولی چلنے اور ہتھیار ٹکرانے کی آوازیں بلند ہوئیں۔’’ ‘‘ افسر نے چلّا کر کہا۔ قازق واپس آرہے تھے۔ وہ کچھ نیم عریاں لاشیں زمین پر گھسیٹ رہے تھے اور اپنے ہاتھوں، بائیں ہاتھوں میں کوئی چیز پکڑ رکھی تھی۔ (ان کے دائیں ہاتھوں میں چوڑے پھل کی خمدار شمشیریں تھیں جو عریاںتھیں اور خون ٹپکا رہی تھیں) ان کے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی چیز ان تین شرابی سواروں کے سر تھے۔ ’’فرانسیسی! نیپولین! سب مر چکے ہیں!‘‘
نوجوان افسر نے چلاّ کر کوئی سخت حکم دیا اور وہ ان چیزوں کو وہاں سے لے گئے۔
’’دیکھ رہے ہو۔۔۔ جنگ۔۔۔ برسوں سے میں اپنی مقدور بھر صلاحیت کے ساتھ ایک ایسی چیزسے نمٹ رہا ہوں جو بذاتِ خود ہولناک ہے۔ جنگ۔۔۔ اور یہ سب ان آدرشوں کے لیے جنھیں میں شاید کبھی خود بھی سمجھ نہ پاؤں گا۔‘‘
’’میں بھی،‘‘ کوسیمو نے جواب دیا، ’’ایسے آدرشوں کے لیے برسوں جیا ہوں جنھیں کبھی خود بھی سمجھ نہ پاؤں گا۔ مگر میں ایک یکسر اچھا کام کرتا ہوں۔ میں درختوں پر رہتا ہوں۔‘‘
افسر کا مزاج یکایک دل گرفتگی سے تردد میں بدل گیا تھا۔ ’’اچھا،‘‘ اس نے کہا، ’’اب مجھے چلنا چاہیے۔‘‘ اس نے فوجی سلام کیا۔ ’’الوداع، موسیو۔۔۔ تمھارا نام کیا ہے؟‘‘
’’بیرن کوسیمو دی روندو،‘‘ کوسیمو نے اس کے رخصت ہوتے ہوے پیکر کے عقب میں چلاّ کر کہا، اور تمھارا؟‘‘
’’میں پرنس آندریئی ...‘‘اس کے نام کا باقی حصہ سرپٹ دوڑتا ہوا گھوڑا لے گیا۔

۳۰
میں نہیں کہہ سکتا کہ ہماری یہ انیسویں صدی، جو اس قدر خراب آغاز ہے اور مزید ابتر ہوئی جارہی ہے، انجام کار کیا دکھائے گی۔ یورپ پر عود شاہی کا سایہ منڈلا رہا ہے۔ تمام اختراع پسند، خواہ وہ جیکوبن ہوں یا بونا پارٹ والے، ہارچکے ہیں۔ ایک بار پھر مطلق العنانی اور یسوعیت کا دور دورہ ہے۔ جوانی کے آدرش، روشنیاں، ہماری اٹھارویں صدی کی امیدیں، سب خاک میں مل چکے ہیں۔
ایسے خیالات میںاس نوٹ بک کے حوالے کرتا ہوں۔ میں نہیں جانتا کہ ان کا اظہار اس کے سوا کیسے کروں۔میں ہمیشہ ایک متوازن شخص رہا ہوں، کسی بڑے مہیج یا خواہشات کے بغیر۔ ایک باپ، ایک پیدائشی رئیس، روشن خیال اور قانون کاپابند۔ سیاست کی زیادتیوں نے مجھے کبھی زیادہ صدمہ نہیں پہنچایا، اور مجھے امید ہے کبھی پہنچائیں گی بھی نہیں۔ مگر اس کے باوجود میں اندر سے کتنا اداس ہوں!
پہلے بات مختلف تھی۔ میرا بھائی وہاں تھا۔ میں اپنے سے کہتا تھا،’’یہ اس کا معاملہ ہے،‘‘ اور اپنی زندگی گزارا کرتا تھا۔ آسٹرو روسیوں کی آمد یا پیے موں (Piedmont) سے ہمارا الحاق میرے لیے تغیر کی علامت نہیں رہی ہے، نہ ہی نئے محصول یااس قسم کی کوئی چیز، بلکہ محض یہ حقیقت کہ جب میں کھڑکی کھولتا ہوں تو وہاںاوپر اسے متوازن ہوتا نہیں دیکھ پاتا۔ اب جبکہ وہ یہاں نہیں ہے، مجھے فلسفہ، سیاست، تاریخ، غرض یہ کہ بہت ساری چیزوں میں دلچسپی لینی چاہیے۔ میں خبروں کے لیے تجسّس کرتا ہوں، کتابیں پڑھتا ہوں، لیکن وہ مجھے چکرا دیتی ہیں۔ وہ جو کچھ کہنا چاہتا تھا، ان میں نہیں ہے، کیونکہ وہ کچھ اور بھی سمجھتا تھا اور وہ ’’کچھ اور‘‘ سب کو محیط تھا۔ وہ اسے لفظوں میں نہیں، صرف جی کر ہی کہہ سکتا تھا، جیسا کہ اس نے کیا۔ صرف اتنی صاف دلی سے ہی اپنے اصل روپ میں رہ کر، جیساکہ وہ اپنی موت تک تھا، وہ تمام لوگوں کو کچھ دے سکتا تھا۔
مجھے اس کا بیمار ہونا یاد ہے۔ ہمیں اس کا احساس یوں ہوا کہ وہ اپنا سونے کا تھیلا چوک کے وسط میں اخروٹ کے بڑے درخت پر لے آیا تھا۔ اس سے پہلے اس نے اپنی سونے کی جگہیں، وحشی جانور کی جبلّت کے ساتھ، ہمیشہ مخفی رکھی تھیں۔ اب اسے اس بات کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ دوسرے لوگ اسے ہمیشہ دیکھتے رہیں۔ مجھے سخت تشویش لاحق ہو گئی۔ میں نے ہمیشہ سوچا تھا کہ وہ تنہا مرنا پسند نہیں کرے گا۔ غالباً یہ ایک اولیں علامت تھی۔ ہم نے سیڑھی کے ذریعے ایک ڈاکٹر کو اوپر بھیجا۔ جب وہ نیچے آیا تو اس نے منھ بنا کر دونوں بازو اوپر اٹھا دیے۔
میں سیڑھی سے خود اوپر گیا۔ ’’کوسیمو،‘‘ میں نے ابتدا کی۔ ’’اب تم پینسٹھ سے تجاوز کر چکے ہو۔ کیا تم یہاں اوپر مزید رہ سکتے ہو؟ تم جو کہنا چاہتے تھے وہ کہہ چکے ہو۔ ہم سمجھ چکے ہیں۔ اس کے لیے بہت قوتِ ارادی کی ضرورت تھی، لیکن تم نے کر دکھایا ہے اور اب تم نیچے آسکتے ہو۔ جنھوں نے ساری زندگیاں سمندر میں گزاری ہوں، ایک وقت آتا ہے کہ وہ بھی زمین پر لوٹتے ہیں۔‘‘
بے سود! اس نے ایک ہاتھ سے متفق نہ ہونے کا اشارہ کیا۔ اب وہ مشکل ہی سے بول سکتا تھا۔ سر سے پاؤں تک کمبل میں لپٹا وہ بار بار اٹھتا اور کسی شاخ پر دھوپ کھانے بیٹھ جاتا۔ اس سے زیادہ وہ متحرک نہیں ہوتا تھا۔ ایک بوڑھی دہقان عورت، جو غالباً اس کی پرانی محبوبہ تھی، اوپر جا کر اس کاکام کاج کرتی اور اس کے لیے گرم کھانا لے آتی۔ ہم نے سیڑھی کو تنے کے سہارے لگا رہنے دیا کہ اس کی مدد کے لیے اوپر جانے کی مستقل ضرورت تھی، اور یوں بھی کچھ لوگوں کو ابھی تک امید تھی کہ اچانک اس کے جی میں آئے اور وہ نیچے آجائے۔ (ایسی امید کرنے والے دوسرے تھے؛ میں تواسے جانتا تھا۔) نیچے چوک میں اس کی رفاقت کے لیے ہمیشہ لوگوں کا حلقہ رہتا،جو آپس میں گپ شپ کرتے ہوے کبھی کبھار اسے مخاطب کر لیتے، گو وہ جانتے تھے کہ اب وہ بات کرنا نہیں چاہتا۔
اس کی حالت بدتر ہو گئی۔ ہم نے درخت پرایک پلنگ چڑھا دیا اور اسے توازن سے رکھنے میں کامیاب رہے۔ وہ بڑی آمادگی سے اس پر منتقل ہو گیا۔ اس بارے میں پہلے نہ سوچنے پر ہم نے ذہنی خلش محسوس کی۔ مگر سچ یہ ہے کہ اس نے آسائش کو کبھی رد نہیں کیا تھا۔ درختوں پر ہونے کے باوجود، جس قدربھی اس کے بس میں تھا اس نے بہترین طریقے سے رہنے کی کوشش کی تھی۔ سو ہم جلدی جلدی دوسری آسائشیں اوپر لے گئے، مثلاً ہوا کے جھونکوں سے بچائو کے لیے پردے، منڈپ اور انگیٹھی۔ اس کی حالت قدرے بہتر ہوئی اور ہم اس کے لیے ایک آرام کرسی لے آئے جسے ہم نے دو شاخوں کے درمیان باندھ دیا۔ کمبلوں میں لپٹا وہ دن بھر کرسی پر بیٹھا رہتا۔
لیکن ایک صبح وہ ہمیں بستر پر نظر آیا نہ کرسی پر۔ پریشان ہوکر ہم نے نظریں اٹھائیں۔ وہ درخت کی چوٹی پر چڑھ گیا تھا اور ایک بہت اونچی شاخ پر، محض ایک قمیض پہنے، ٹانگیں لٹکائے بیٹھا تھا۔
’’وہاں اوپر کیا کر رہے ہو؟‘‘
جواب ندارد۔ وہ قریب قریب بے لوچ تھا اور کسی معجزے کی بدولت اوپر ٹھہرا ہوا نظر آتا تھا۔ ہم نے اس طرح کی ایک بڑی چادر نکالی جو زیتون جمع کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور ہم میں سے کوئی بیس آدمی اسے درخت کے نیچے تان کر کھڑے ہوگئے کیونکہ ہمیں اس کے گرنے کا خطرہ تھا۔
اس دوران ڈاکٹر اوپر گیا۔ یہ ایک مشکل کام تھا۔ دو سیڑھیاں لمبائی میں باندھنی پڑیں۔ جب وہ نیچے آیا تو اس نے کہا، ’’پادری کو اوپر بھیج دو۔‘‘
ہم پہلے ہی دون پیریکل نامی شخص پر متفق ہوچکے تھے جو کوسیمو کا دوست، اور فرانسیسیوں کے دور میں آئینی کلیسا کا ایک پادری تھا۔ وہ پادریوں کے لیے فری میسن تنظیم کی رکنیت ممنوع قرار دیے جانے سے قبل اس کا رکن تھا اور بہت سے نشیب و فراز کے بعد، کچھ عرصے قبل ہی بشپ کی طرف سے اپنے عہدے پر بحال ہوا تھا۔ وہ اپنی منصبی خلعت اور عشاے ربانی کے برتن کے ساتھ اوپر گیا۔ کلیسا کا خادم اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ اس نے بہت مختصر وقت اوپر گزارا۔ وہ کسی بات پر بحث کرتے نظر آرہے تھے۔ پھر وہ نیچے آگیا۔ ’’کیا اس نے تبرک لے لیا ہے، دون پیریکل؟‘‘
’’نہیں، لیکن وہ کہتا ہے اس سے فرق نہیں پڑتا۔ اسے فرق نہیں پڑتا۔‘‘ میں دون پیریکل سے کچھ اور نہ اگلوا سکا۔
چادر تانے ہوے لوگ تھک چکے تھے۔ کوسیمو، بالکل غیرمتحرک، ابھی تک اوپر تھا۔ مغرب کی سمت سے ہوا چل پڑی تھی۔ درخت کی پھننگ کپکپا رہی تھی۔ ہم چوکس کھڑے تھے۔ اسی لمحے آسمان پر ایک غبارہ نمودار ہوا۔
ساحل کے ساتھ ساتھ کچھ انگریز ہوا نورد غباروں کی پروازوں کا تجربہ کر رہے تھے۔ حاشیوں، جھالروں اور پھندنوں سے سجا، وہ ایک بڑا سا شاندار غبارہ تھا جس کے ساتھ ایک بید کی ٹوکری لگی تھی۔ اس کے اندر سنہری شانہ نشانوں اور چھجے دار ٹوپیوں والے دو افسر، دوربین کے ذریعے نیچے پھیلے ارضی منظر پر نظر دوڑاتے ہوے، درخت پر بیٹھا آدمی، پھیلائی ہوئی چادر، ہجوم، غرضیکہ دنیا کے عجیب و غریب روپ دیکھ رہے تھے۔ کوسیمو نے بھی اپنا سر اونچا کرلیا تھا اور ٹکٹکی باندھے غبارے کو دیکھ رہا تھا۔
اور پھر اچانک غبارہ ہوا کے جھکڑ میں گھر گیا، اور ٹرائوٹ مچھلی کی طرح بل کھاتا، ہوا کے آگے آگے تیرتا ہوا سمندر کی طرف جانے لگا۔ ہوا نوردوں نے اس بات کا کوئی اثر نہیں لیا اور میرے خیال میں، غبارے کا دبائو کم کرنے میں لگ گئے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے کسی سہارے پر گرفت کے لیے لنگر کھول دیا۔ لمبی رسّی سے بندھا نقرئی لنگر آسمان میں تیرنے لگا اور غبارے کے راستے پر ترچھے پن سے چلتے ہوے، کم و بیش اخروٹ کے درخت کی بلندی پر، عین چوک کے اوپر سے اس طرح گزرنے لگا کہ ہم فکرمند ہوگئے کہ کہیں کوسیمو سے نہ ٹکرا جائے۔ لیکن اگلے ہی لمحے ہم اپنی آنکھوں سے جو کچھ دیکھنے والے تھے، اس کا ہمیں بہت کم اندازہ تھا۔
عین اس لمحے جب لنگر کی رسّی اس کے نزدیک سے گزری، قریب المرگ کوسیمو نے ویسی ہی زقند بھری جیسی کہ اپنی جوانی میں اکثر لگایا کرتا تھا۔ اس نے رسّی کو پکڑلیا اور سہارے کے لیے پیر لنگر پر ٹکاتے ہوے دوہرا ہوگیا۔ یوں ہم نے اسے دور جاتے اور بالآخر سمندر کی جانب غائب ہوتے دیکھا کہ موافق ہوا غبارے کا رستہ مشکل ہی سے روک رہی تھی۔
خلیج عبور کرنے کے بعد غبارہ، جوں توں، دوسری سمت میں اتر گیا۔ رسّی پر لنگر کے سوا کچھ نہ تھا۔ ہوا نورد، جو اس وقت راستے پر نظر رکھنے میں مصروف تھے، کچھ نہ دیکھ پائے تھے۔ یہی قیاس کیا گیا کہ قریب المرگ بوڑھا شخص اس وقت مفقود ہوگیا تھا جب غبارہ کھاڑی پر سے گزر رہا تھا۔
یوں کوسیمو، ہمیں یہ اطمینان دیے بغیر کہ ہم اس کی لاش کو ہی زمین پر لوٹتے دیکھ سکیں، غائب ہوگیا۔ خاندانی مقبرے پر اس کی یاد میں جو کتبہ ہے، اس پر یہ الفاظ کندہ ہیں، ’’کوسیمو پیو واسکودی روندو، جو درختوں پر جیا، جس نے ہمیشہ زمین سے پیار کیا اور بالآخر آسمان پر چلا گیا۔‘‘
لکھنے کے دوران میں بار بار رکتا ہوں اور کھڑکی تک جا کر باہر دیکھتا ہوں۔ آسمان خالی ہے اور اومبروسا کے ہم بوڑھوں کے لیے جو سبز گنبدوں تلے رہنے کے عادی ہیں، یہ منظر نظروں پر بار ہے۔ جب سے میرے بھائی نے انھیں چھوڑا ہے، یا جب سے انسانوں کو کلھاڑے کا شوق چرایا ہے، ایسا لگتا ہے کہ یہاں درختوں کا کوئی حق نہیں رہا۔ اور تو اور، ان کی انواع بھی بدل گئی ہیں۔ اب گلِ خطمی، دیودار اور بلوط نظر نہیں آتے۔ ان دنوں افریقہ، آسٹریلیا، امریکہ اورجزائرالہند نے اپنی جڑیں اور شاخیں یہاں تک پھیلا دی ہیں۔ جو تھوڑے بہت پرانے درخت ہیں بھی، وہ بلندیوں پر سمٹ گئے ہیں، جیسے پہاڑیوں پر زیتون اور پہاڑی جنگلوں میں چیڑ اور شاہ بلوط۔ نیچے سارا ساحل یوکلپٹس کا ایک سرخ جنگل ہے، یا پھر انڈیاربر کے پھولے ہوے درختوں سے بھرا ہے، جو وسیع و عریض الگ تھلگ قطعات میں ہیں۔ اور باقی سارے کے سارے کھردرے گچھوں والے غیرمتوازن کھجور کے درخت ہیں جن کی اصل جگہ صحرا ہے۔
اومبروساکا اب وجود نہیں ہے۔ خالی آسمان کودیکھتے ہوے میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں، آیا یہ کبھی واقعی موجود تھا۔ پتوں اور کونپلوں کا وہ باریک اور بے انت جال، اچانک دھبوں اور کرچوں میں جھلکتا آسمان، شاید محض اس لیے تھا کہ میرا بھائی اپنی پھدکی جیسی چال سے گزر سکے۔ شایدوہ جال لامتناہیت پر کڑھا ہواتھا، روشنائی کے اس تار کی طرح، جسے میں نے صفحہ در صفحہ پھیلنے دیا ہے، جو تنسیخوں، تصحیحوں، آڑی ترچھی لکیروں، دھبوں اور خلاؤں سے پُر ہے، جو کبھی بڑی بڑی رس بھریوں میں ڈھل جاتا ہے اور کبھی ستاروں کی طرح چمکتے بیجوں کے ڈھیروں میں جم جاتا ہے، پھر اچانک بل کھاتے ہوے، اپنا راستہ بدل کر پتوں اور بدلیوں کے چوکھٹوں میں گھری فقروں کی کلیوں کو گھیر لیتا ہے، پھر دوبارہ گندھ جاتا ہے اور یوں آگے ہی آگے بڑھتا جاتا ہے، حتیٰ کہ لفظوں، خیالوں اور خوابوں کے ایک بے مقصد ہجوم میں ڈھل جاتا ہے۔
***

بشکریہ: اجمل کمال


رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *