پیر، 31 اگست، 2015

میلان کنڈیرا/خالد جاوید

پیش لفظ
شہرۂ آفاق چیک ناول نگار میلان کنڈیرا کو سب سے پہلے میں نے اُس زمانے میں دلچسپی کے ساتھ پڑھنا شروع کیا تھا جب میں بریلی کالج میں شعبۂ فلسفہ سے منسلک تھا۔ یہ 1995 کے آس پاس کی بات تھی جب میں نے یہ محسوس کیا کہ ہم عصر فلسفے کے طالب علموں کو ایسے ادبی شہ پارے ضرور پڑھنا چاہئیں جن میں فلسفے کے مجرد خیالات کے بجائے، اُن خیالات کے مختلف النوع تاثرات کا بیان ہو۔ سارتر وغیرہ سے یہ مقصد اچّھی طرح پورا نہ ہوتا تھا کیونکہ اُن کے ناولوں اور فلسفے کی کتابوں کے درمیان بہت کم فرق ہوتا تھا مثلاً سارتر کا ناول Nausea پڑھ لیجئے یا اُس کی تصنیف Being and Nothingness کا مطالعہ کرلیجئے، یہ صاف عیاں ہوجاتا ہے کہ سارتر اپنے فلسفۂ وجودیت کے مجرد خیالات کو فِکشن کے چوکھٹے میں پیش کرنے کی شعوری کوشش کررہا ہے۔ سارتر کے مقابلتاً کُچھ کم مگر یہی معاملہ کامیو کے ساتھ بھی تھا (یا کم از کم مُجھے ایسا محسوس ہوتا تھا)۔
اس لیے میں نے اپنے طالب علموں کو میلان کنڈیرا کے ناول اور کہانیاں پڑھنے کی ترغیب دینا شروع کردیا۔ ویسے بھی ادب کا مطالعہ فلسفے کے خشک پن کو دُور کردیتا ہے اور یہ بھی ہے کہ انسانی فکر کا ہر چشمہ فلسفے اور ادب کے دو کناروں کے درمیان ہی بہتا ہے۔
میلان کنڈیرا کے یہاں کسی قسم کا کوئی منظم فلسفہ نہیں پایا جاتا مگر اُس کے ناولوں کو "Novel of debate" کا عنوان دیا جاسکتا ہے جس کا سب سے نمایاں عنصر ایک سوچتی ہوئی آواز ہے۔
جیسے جیسے میں میلان کنڈیرا کو پڑھتا گیا، ویسے ویسے اُس کا شیدائی ہوتا گیا، آج وہ میرا محبوب ناول نگار ہے اور میری پسند کے عالمی ادیبوں کی اُسی صف میں شامل ہے جن میں پار لاگر کوئست، سیلا، مارکینر، کارلوس فیونتیس اور حوزے سارا ماگو کے نام شامل ہیں۔
میری گزشتہ کتاب گابرئیل گارسیا مارکیز کی طرح ہی یہ بھی میلان کنڈیرا کا کوئی تنقیدی یا علمی مطالعہ نہیں ہے۔ مگر اسے میلان کنڈیرا کا ایک مکمّل تعارف ضرور سمجھنا چاہئے۔ اُردو کے طالب علموں اور اسکالروں کو اس کتاب کے مطالعے سے کُچھ نہ کُچھ فائدہ ہونے کی اُمّید ضرور ہے۔ یہ دراصل اُنھیں کے لیے لکھی گئی ہے۔
میلان کنڈیرا کے فِکشن کو پڑھنا سہل پسند قاری کے لیے آسان نہیں ہے۔ اُس کا اسلوب مارکیز یا ساراماگو کی طرح قِصّہ گوئی پر مبنی نہیں ہے۔ ساراماگو کے زبانی بیانیہ کے برعکس کنڈیرا کا بیانیہ ایک مکمّل تحریری بیانیہ ہے جس میں ’’کہانی پن‘‘ کی کوئی ڈکٹیٹر شِپ قائم ہوتی نہیں نظر آتی۔ جگہ جگہ مصنّف کی مداخلت اور فلسفیانہ تھیم آپس میں گُتھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اِنسانی وجود کی کِسی پوشیدہ جہت کو دریافت کرنا میلان کنڈیرا کی ناول نگاری کا اوّلین مقصد ہے۔ اگرچہ اُس کے فِکشن کو سیاسی یا نیم سیاسی دستاویز کی طرح پڑھنے کا رواج بھی عام ہے مگر خود میلان کنڈیرا کو یہ گوارہ کبھی نہیں رہا۔
اس میں شک نہیں کہ وہ ایک مُشکل فِکشن نِگار ہے وہ سنجیدہ سے سنجیدہ قاری کو بھی تھکا مارتا ہے۔ مگر یہ تھکن بوجھل نہیں کرتی۔ یہ ایک روحانی تجربے سے گزرنے کی مانند ہے۔ ہم اپنے اندر ایک چمک محسوس کرتے ہیں۔ افسردہ سی چمک بہت کُچھ جان جانے کی روشنی جس میں ہم خود کو جگمگاتا ہُوا محسوس کرتے ہیں۔
اِسی روشنی کا نام ناول ہے۔ مگر نہ ایسے ناول روز روز لکھے جاتے ہیں اور نہ ایسے ناول نگار ہمیشہ پیدا ہوتے ہیں۔ کارلوس فیونتیس نے بالکل ٹھیک لکھا ہے:
’’میلان کنڈیرا جدید عہد میں گوگول اور کافکا کے عظیم ورثے کا اکلوتا وارث ہے۔‘‘
یہ حقیقت ہے کہ Stravinsky کی موسیقی کی طرح میلان کنڈیرا کے ناولوں میںیوروپین ناول کی پوری چار سو سالہ تاریخ سمائی ہوئی ہے، یہ ایک کرشمہ ہے اور میلان کنڈیرا کو ہمیشہ ایک عظیم ناول نِگار کی حیثیت سے یاد رکھنے کے قابل بھی۔

خالد جاوید
شعبۂ اُردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ
نئی دہلی۔۲۵



پہلا باب

سوانح اور افکار

(۱)

میلان کُنڈیرا کی پیدائش یکم اپریل 1929 میں چیکوسلوواکیہ کے ایک شہر برنو میں ہوئی۔ یہ ایک درمیانی طبقے کا خاندان تھا اور میلان کنڈیرا کے والد لڈوِک کنڈیرا ایک موسیقار تھے۔ پیانو بجانے میں اُنہیں خاص مہارت حاصل تھی وہ مشہور چیک موسیقار ’’لیوجینک‘‘ کے شاگرد رہے تھے۔ میلان کنڈیرا نے خود بھی اپنے والد سے پیانو بجانا سیکھا تھا۔ میلان کنڈیرا کو موسیقی سے حددرجہ لگاؤ رہا ہے یہاں تک کہ اُن کی تحریروں پر بھی موسیقی اور موسیقی کے اصول و ضوابط کا اثر نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ خاص طور پر اپنے ناولوں میں ابواب کی تکرار، پلاٹ میں تنوّع اور تبدیلی کا عمل اور تھیم یا موضوع کی وحدت وہ عوامل ہیں جن کو کنڈیرا نے باقاعدہ طور سے علم موسیقی کے ذریعے برتا ہے۔ اُس کے ناولوں میں جگہ جگہ موسیقی کے بارے میں بحثیں ملتی ہیں۔ خاص طور پر ناول The Joke میں تو ایک طویل باب ہی موسیقی کے انتہائی دقیق اور پیچیدہ مسائل پر مبنی ہے۔
میلان کنڈیرا کو بچپن سے ہی ادب سے شُغف رہا تھا۔ اُس نے اپنی پہلی نظم اُن دنوں لکھی تھی جب وہ ہائی اسکول کا طالب عِلم تھا۔ ابتدائی دنوں میں کنڈیرا نے نظمیں ہی لکھی ہیں۔ اُس زمانے کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مُشکل تھا کہ کچّی پکّی نظمیں لکھنے والے میلان کنڈیرا کے قالب میں ہمارے عہد کے اہم ترین ناول نگار کی رُوح پوشیدہ ہوگی۔
دُوسری جنگ عظیم کے بعد کُنڈیرا نے جاز موسیقار کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ اُس زمانے میں اُس کی تعلیم کا سلسلہ ملتوی ہوگیا تھا۔ کُنڈیرا کا تعلق نوجوانوں کی اُس نسل سے ہے جسے جنگ عظیم سے پہلے کے چیکوسلوواکیہ کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ چیکوسلوواکیہ کا ’’ری پبلک‘‘ ہونا اُن کے لیے ایک خواب کے مانند رہا ہے۔ لہٰذا یہ عین فطری تھا کہ دُوسری جنگِ عظیم اور چیکوسلوواکیہ پر جرمنی کے قبضے کے بعد نوجوانوں کی یہ نسل ایک خاصی آئیڈولوجی کی حامی ہوگئی تھی۔ میلان کنڈیرا نے بھی اپنی کم عمری میں ہی چیکوسلوواکیہ کی کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت حاصل کرلی تھی۔
میلان کنڈیرا نے بعد میں پراگ کی چارلس یونیورسٹی میں موسیقی کی تعلیم حاصل کی اُسی کے ساتھ ساتھ فلم، ادب اور جمالیات میں بھی ڈگریاں حاصل کیں۔
1952 میں کنڈیرا کا تقرّر پراگ اکادمی آف پرفارمنگ آرٹ میں بطور عالمی ادب کے پروفیسر ہوگیا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب اُس نے اپنی نظمیں اور مضامین شائع کرانا شروع کیے۔ اُس نے Listy اور Literarni Noviny جیسے ادبی جریدوں کی ادارت بھی سنبھالی۔
مگر اس سب سے پہلے کنڈیرا کی زندگی میں انتشار آمیز عناصر کی شمولیت ہوگئی تھی۔ وہ ایک بے چین زندگی گزار رہا تھا۔ 1948 میں وہ پراگ کی کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوگیا تھا مگر صرف دو سال بعد 1950 میں اسے پارٹی سے نکال دیا گیا۔ کنڈیرا پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ پارٹی کے اندر رہتے ہوئے بھی وہ شخصی اور انفرادی رجحانات سے آزاد نہیں رہ سکا تھا۔ حالاں کہ کنڈیرا نے 1956 میں پھر پارٹی جوائن کرلی تھی اور 1970 تک کسی نہ کسی طرح اپنی ممبرشپ کو برقرار رکھا۔
پچاس کی تقریباً پوری دہائی میں کنڈیرا نے بہت سے ترجمے کیے، مضامین لکھے اور اسٹیج کے لئے ڈرامے بھی تحریر کیے۔ 1953 میں کنڈیرا کی نظموں کی پہلی کتاب ’’Man: A wide garden‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ اس کے بعد 1961 میں The Last May اور 1965 میں ’Monologues‘ کے عنوان سے نظموں کے دو مجموعے اور شائع ہوئے۔ ان نظموں میں مارکسسٹ آئیڈولوجی کی چھاپ صاف نمایاں ہیں مگر اس کے باجوود کنڈیرا اس کٹر قسم کی مارکسی فِکر کے خلاف نظر آتا ہے جو اس زمانے میں ادب اور شاعری کا ناگزیر عنصر بن گئی تھی۔ کنڈیرا اس کٹرپن میں ایک انفرادی اور انسانی چہرے کا ہمیشہ حامی نظر آتا ہے۔ یعنی سب کچھ صرف پرولتاری تحریک، طبقاتی جدو جہد اور سوشلسٹ حقیقت نگاری ہی نہیں ہے۔ مگر 1955 میں اپنی طویل نظم ’The Last May‘ میں اس نے ’’جولیس فویک‘‘ کو خراج عقیدت پیش کیا جو دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں ایک طرح سے چیکووسلواکیہ کا کیمونسٹ ہیرو بن گیا تھا کیوں کہ وہ چیکوسلوواکیہ کے نازی جرمنی کے قبضے کے خلاف ایک جنگ کا قائد تھا۔ کچھ لوگوں کے مطابق یہ نظم کنڈیرا نے اپنی مرضی سے نہیں کہی تھی۔ اُسے باقاعدہ کیونسٹ پارٹی کے پروپیگنڈے کے طور پر لکھوایا گیا تھا اور کنڈیرا کو خود اس بات میں یقین نہ تھا جسے وہ زور شور کے ساتھ نظم کی ہیئت میں ڈھال رہا تھا۔
مگر Monologues کی بیشتر نظمیں محبت کی نظمیں ہیں۔ یہاں کسی قسم کا سیاسی پروپیگنڈا نہیں ہے۔ بجائے اس کے انسانی وجود کی مختلف جہات کی تفتیش کی گئی ہے۔
میلان کنڈیرا کی ز یادہ تر نظموں میں دبے چھپے دہ موضوعات یا خیالات پائے جاتے ہیں جو بعد میں اس نے اپنے ناولوں اور کہانیوں میں کھل کر اور تفصیل کے ساتھ پیش کیے ہیں۔ خصوصاً ''The Joke'' میں تو اس کی بہت سی نظموں کا خلاصہ موجود ہے۔
کنڈیرا اس زمانے میں صرف نظمیں ہی نہیں لکھ رہا تھا۔ وہ اسٹیج کے لیے ڈرامے بھی تیار کر رہا تھا۔ ’’The Owners of the Keys ‘‘ اس نے 1962 میں لکھا تھا جو اسی سال پراگ کے نیشنل تھیئٹر میں اسٹیج کیا گیا اور بے حد مقبول ہوا۔ اس ڈرامے میں بھی کنڈیرا نے کیمونزم کی آمریت کو ایک نرم انسانی جہت دینے کی کوشش کی تھی۔
سچ تو یہ ہے 1950 کے وسط سے ہی میلان کینڈیرا کیمونسٹ چکوسلوواکیہ کی ایک بے حد مشہور مقبول اور اہم ادبی شخصیت بن گیا تھا۔ اس کے مضامین کی شہرت دور دور پھیل چکی تھی۔ 1955 میں اس کا ایک بے حد اہم مضمون شائع ہوا جس کا عنوان Arguing alout our inheritance تھا۔ اس مضمون میں چیک کی ادبی وراثت اور یوروپ کی آواں گارد شاعری، دونوں کا دفاع کیا گیا تھا۔
یوروپ کی آواں گارد شاعری کی، ادعائیت پرست کیمونسٹ ادیبوں کے ذریعے بھرپور مذمت کی جاتی تھی مگر کنڈیرا کا موقف یہ تھا کہ یوروپ کے آواں گارد یا زوال پرست شاعروں کے ان رجحانات یا عناصر کو قبول نہ کرتے ہوئے جن سے ایک سچّے سوشلسٹ آرٹ کو نقصان پہونچ سکتا ہے۔ ان عناصر کو قبول کرنے میں ایک سوشلسٹ شاعر کو عار نہ ہونا چاہئے جن سے اس کے مقاصد کو تقویت ملتی ہو یا جو اس کے لیے سود مند ثابت ہوسکتے ہوں۔ یہی بات موسیقی اور مصوری پر بھی صادق آتی ہے۔ میلان کنڈیرا نے اپنے موقف کی حمایت میں لینن کا بھی حوالہ دیا جس نے کہا تھا کہ صرف کٹر مادہ پرستوں (Vulger materialits) نے ہی فلسفانہ عینیت (Philosohpical idealism) کو رد کیا تھا۔
1960 میں میلان کنڈیرا کا ایک دوسرا اور طویل مضمون"The artof the novel: Vladislav Vancura journey to the great epic"
کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس مضمون کو کنڈیرا کی تحریروں میں ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ مضمون میں کنڈیرا نے چیک ادیب اور کیمونسٹ پارٹی کے ممبر ’’وینکورا‘‘ کی تحریروں کا تجزیہ کیا تھا۔ یہ مضمون مکالمے کی شکل میں ہے۔ کنڈیرا نے فکشن کے بیانہ میں نئے تجربوں کے متعلق تفصیل کے ساتھ گفتگو کی ہے۔ وینکورا کے حوالے سے کنڈیرا نے ناول میں نغمیت ’’ Lyricism‘‘ غیر ضروری نفسیاتی تشریح اور بیانیاتی اسلوب کی مخالفت کی ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اچھے فکشن کو ڈرامائی تناؤ یا ٹکراؤ پر مبنی ہونا چاہئے۔
مگر آج میلان کنڈیرا اپنی اِس تحریر کو رد کرتا ہے۔ دراصل 1986 میں اس نے اپنی معرکۃ الآرا کتاب The art of novel لکھ کر اِس مضمون کے نکات کو ایک بڑے پیمانے پر پیش کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ 1986 کے میلان کنڈیرا میں زیادہ پختگی ہے اور اس کا ذہن اب ان تمام بندشوں یا تعصبات سے آزاد ہو چکا ہے، جو اس کے اس ابتدائی دنوں میں کسی نہ کسی طور موجود تھے۔ اِس کی وجہ اس کا کیمونسٹ پارٹی کا ممبر ہونا بھی سمجھی جانی چاہئے۔
مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ میلان کنڈیرا کے اس مضمون کو بے حد پزیرائی حاصل ہوئی۔ اِیسے چیکوسلوواکیہ کے دو اہم ادبی ایورڈ تفویض کیے گیے۔ مضمون کو چیکو سلوواکیہ کے مارکسی ادب کا بہترین کارنامہ مانا گیا تھا۔
اب میلان کنڈیرا نہ صرف اس مضمون کو بلکہ اپنی تمام ان تحریروں کو رد کرتا ہے۔ جو اس کی کہانیوں کے مجموعے Laughable loves سے پہلے کی ہیں۔ Laughable loves کی پہلی کہانی کو ہی میلان کنڈیرا اب اپنی پہلی تحریر مانتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بطور ایک ادیب اس کی زندگی کی شروعات اِس کہانی سے ہوتی ہے۔ اس سے پہلے کی اس کی نصف زندگی ایک گمنام چیک دانشور سے زیادہ اور کچھ نہیں تھی۔ Laughable loves کی کہانیاں 1958 سے 1968 کے درمیان لکھی گئی تھیں۔
1967 میں میلان کنڈیرا کا شاہ کار ناول The Joke شائع ہوا۔ 1950 میں جب کنڈیرا کو کیمونسٹ پارٹی سے نکالا گیا تھا تو اس کے ساتھ ہی ایک دوسرے چیک ادیب ژان تریفلکا کو بھی پارٹی مخالف سرگر میوں کے الزام میں باہر کردیاگیا تھا۔ اپنے ناول The Joke میں کنڈیرا نے اِس واقعے کو بیان کیا ہے۔(خود ’’تریفلکا‘‘ بھی اپنے ناول Hapiness Rained on them میں اِسے لکھ چکا تھا جو 1962میں شائع ہوا تھا)۔
اگر 1967 سے قبل کی میلان کنڈیرا کی تحریروں کا موازنہ اس کی بعد کی تحریروں سے کیا جائے تو دونوں میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ The Joke سے پہلے کی تحریروں کو دیکھ کر کوئی یہ اندازہ تو نکال سکتا ہے کہ ان کا مصنف ایک بے حد ذہین شخص ہے مگر شاید ہی اسے یہ گمان ہو کہ یہ مصنف آگے آنے والے وقت میں دنیا کے عظیم اور اہم ترین ناول نگاروں کی صف میں شامل ہونے والا ہے۔
The Joke کا شائع ہونا دراصل ایک تاریخ کا بننا تھا۔ یہ ناول پراگ کے موسم بہار ’’Prague spring‘‘ کا ایک اہم واقعہ بن گیا تھا۔
فرانس کے مشہور ادبی ناقد آراگواں نے The Joke کو بے حد سراہا اور یہاں تک کہ اسے موجودہ صدی کے عظیم ترین ناولوں میں شمار کیا۔
The Joke کے شائع ہونے کے بعد سا ری دنیا میں میلان کنڈیرا کی شہرت پھیل گئی، اس کی کہانیوں کے مجموعے Loughable Loves کو بھی جو تقریباً اسی زمانے میں شائع ہوا تھا، بے حد سراہا گیا۔
کنڈیرا نے اس دور میں کیمونسٹ پارٹی میں اپنی شمولیت برقرار رکھی مگر ہمیشہ کی طرح وہ پارٹی کی آمریت سے غیر مطمئن تھا۔ وہ پارٹی کی سرگرمیوں میں کچھ اصلاح یا ترمیم چاہتا تھا۔ اس مقصد کے لیے میلان کنڈیرا تنہا ہی کوشاں نہ تھا اس کے ساتھ بہت سے کمیونسٹ ادیب ایسے تھے جو ریفارمز چاہتے تھے مثلا ’’پاول کو ہوت‘‘ جو 1968 کے ’’Prague spring‘‘ میں میلان کنڈیرا کے ساتھ تھا مگر سدھار لانے کی ان سرگرمیوں کا یہ بہت مختصر سا وقفہ ہی رہا اور اگست 1968 میں چیکو سلوواکیہ پر سویت روس کے حملے اور قبضے کے بعد تو ایسے ادیبوں کی تمام کوششوں کو کچل کرہی رکھ د یا گیا۔
میلان کنڈیرا پھر بھی اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹنا چاہتا تھا۔ وہ چیکوسلوواکیہ کے کیمونزم میں ضروری ترمیمیں کیے جانے کا حامی تھا۔ اس نے اپنے دوست ادیب ویکلاو ہاویل (Vaclav Havel)سے کہا تھا کہ اس کا حوصلہ پست نہیں ہوا ہے اور یہ کہ ’’پراگ کے موسم خزاں کی اہمیت آخر میں پراگ کے موسم بہار سے بڑی ثابت ہوگی۔
’’Prague spring‘‘ اصل میں اس تحریک کا نام تھا جو چیک کے کمیونزم میں ریفارمز چاہتی تھی۔ جب یہ تحریک شروع ہوئی تھی تو اس میں ایک انقلابی جوش و خروش شامل تھا مگر سوویت روس کے حملے کے بعد یہ تحریک مٹ گئی اس کے بعد میلان کنڈیرا کا حوصلہ جو یوں شاید نہ بھی پست ہوتا مگر یونیوسٹی سے اس کو نکال دیے جانے کے بعد اور پھر 1970 میں پارٹی سے بھی باہر کردیے جانے کے بعد بری طرح پست ہوگیا۔
1972 میں اس کا دوسرا ناول Farewell Waltzشائع ہوا جسے زیادہ شہرت نہ مل سکی۔کچھ عرصے تک کنڈیرا پراگ کے موسم خزاں میں اپنے خواب دیکھتا رہا اور اس کی کتابوں کے لیے چیک کی تمام لائبریریوں کے دروازیں بند کرشیے گئے یہی نہیں کسی پبلشر کو بھی اس کی کتاب چھاپنے کی آزادی نہ تھی۔
یہ دن کنڈیرا کے لیے بے حد پریشانی اور صدمے کے دن تھے۔ Fare well waltz کے بعد اس کا تیسرا ناول مکمل ہوچکا تھا لیکن وہ اسے شائع کرانے سے معذور تھا۔ بہرحال یہ ناول جس کا عنوان ’’Life is else where ‘‘ تھا، پیرس سے 1973 میں شائع ہوگیا۔ اگرچہ اسے شائع کرانے میں میلان کنڈیرا کو بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پرا۔
اب وقت آ گیا تھا جب کنڈیرا کو اپنے خوابوں سے دست بردار ہونا تھا۔ آخر 1975 میں اس نے پراگ کو خیر آباد کہا اور فرانس آکر رہنے لگا۔ رینیس کی یونیورسٹی میں اسے مہمان پروفیسر کی حیثیت سے مقرر کرلیا گیا تھا۔
1979 میں اسے چیکوسلوواکیہ کی شہریت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا کیوں کہ اس چوتھے ناول The Book of laughter and Forgetting میں جو کچھ لکھا گیا تھا،اسے چیکو سلوواکیہ کی حکومت برداشت ہی نہیں کرسکتی تھی۔ یہ ناول 1978 میں شائع ہوا تھا اور اسے میلان کنڈیرا کی شہرہ آفاق تحریر کا درجہ حاصل ہے۔
1981 میں میلان کنڈیرا نے فرانسیسی شہریت اختیار کرلی اور تاحال وہ فرانس میں ہی مقیم ہے۔


(2)

میلان کنڈیرا نرا ناول نگار ہی نہیں ہے۔ ویسے تو بیشتر فکشن نگاروں نے ادبی موضوعات پر لکھا ہے مگر میلان کنڈیرا کی حیثیت فکشن کے ناقد کی حیثیت سے بھی مسلم ہے۔ اس اعتبار سے اس کی تین کتابیں بے حد اہم ہیں۔
(1986) The Art of the Novel
(1992) Testaments Betrayed
اور (2005) The Curtain
ان تینوں کتابوں میں اس نے یوروپین ناول کی تاریخ سے بحث کرتے ہوئے چیکوسلوواکیہ کی تہذیب کو کھنگالاہے اور ناول کے فن پر سیر حاصل روشن ڈالی ہے۔ ان کے علاوہ اس کے ڈھیر سارے مضامین اور مختلف شخصیات کو دیے گئے انٹرویوز ہیں جن میں کنڈیرا کے سیاسی سماجی اور اخلاقی نیزادبی سروکار کھل کر سامنے آئے ہیں۔ کنڈیرا کا اپنا ایک نجی فلسفہ ہے اور اس کا ہر نیا ناول اس نجی فلسفے سے یقینی طور پر دوچار ہوتا ہے۔ اس سے یہ غلط فہمی نہیں پیدا ہونا چاہئے کہ وہ فکشن میں فلسفے کی آمیزش کرنا چاہتا ہے یا ناول کو فلسفہ بنادینا چاہتا ہے۔ اس پر اکثر سہل پسندی کے ساتھ یہ الزام عائد بھی کیا جاتا رہا ہے مگر خود کنڈیرا اپنے مضامین اور انٹریوز میں اس امر کی تردید کرتا ہے لیکن ناول کے آثار قدیمہ کی جس انداز میں اس نے کھدائی کی ہے اور جن نتائج تک پہنچا ہے، ان میں اس کا ایک قطعی ذاتی نظریہ بہرحال ہر جگہ موجود ہے، مگر نظریے اور فلسفے میں ایک فرق ہوتا ہے۔ یہ فرق بغور مطالعہ کرنے پر صاف نظر آجاتا ہے۔میلان کنڈیرا نے فرانس پہنچ کر اپنا شہرۂ آفاق ناول لکھا جو 1984 میں ’’The unbearable Lightness of Being‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ زیادہ تر لوگوں کی رائے میں اور ادب کے ناقدوں کی نظر میں بھی یہ ناول کنڈیرا کا سب سے بڑا شاہ کار ہے۔ 1988 میں ناول پر امریکی ہدایت کار فلپ کاف مین نے فلم بھی بنائی ہے۔
1990 میں کنڈیرا نے اپنا چھٹا ناول Immortality کے نام سے لکھا، اس ناول کی اہمیت یہ بھی ہے کہ چیک زبان میں لکھا یہ اس کا آخری ناول ہے، اس کے بعد چند سیاسی اور نجی وجوہات کی بنا پر کنڈیرا نے فرانسیسی زبان میں ہی ناول لکھے ہیں۔
(1993) Slowness
(1998) Identity
اور
(200) Ignorance
فرانسیسی میں ہی لکھے گئے ہیں۔
بعض حضرات کا خیال ہے کہ فرانسیسی زبان میں لکھے گئے ناولوں میں میلان کنڈیرا کے قلم کاجادو پھیکا پڑ گیا ہے۔ موضوع اور تھیم کے اعتبار سے بھی یہ ناول اس کے چیک زبان میں لکھے ناولوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
اس اعتراض میں تھوڑی بہت صداقت ممکن ہوسکتی ہے ایسا ہی سموئیل بیکٹ کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے جس نے انگریزی کے ساتھ ساتھ فرانسیسی میں بھی لکھا تھا۔
The Book of Laughter and Forgetting لکھنے کے بعد سے کنڈیرا کا شمار دنیا کے بڑے ادیبوں میں ہونے لگا تھا۔اس کی کتابوں کے ترجمے یوروپ کی ہر بڑی زبان میں ہونے لگے۔ کنڈیرا ان ترجموں کو دیکھ کر بہت جزبز اور پریشان ہوا کیوں کہ وہ نہ صرف یہ کہ ناقص تھے بلکہ اصل متن سے کوسوں دور بھی تھے۔ کنڈیرا کا پریشان ہونا جائز تھا کیوں کہ وہ اس قسم کا ناول نگار نہیں ہے جن کے یہاں کہانی یا واقعے کی ہی اہمیت ہوتی ہے۔ کنڈیرا جس قسم کا بیانیہ لکھتا ہیے یا کہنا چاہئے کہ بیانیے میں توڑ پھوڑ کرتا ہے، لفظ کو جس سیاق و سباق میں استعمال کرتا ہے، ان سب کا ترجمہ کرنا بے حد عرق ریزی کا کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس کے سب ناولوں کے ترجمے انگریزی اور فرانسیسی زبان میں خود اس کی نگرانی میں کئے گئے ہیں۔
The art of The Novel میں میلان کنڈیرا نے لکھا ہے کہ ’’1968 اور 1969 تک میرے ناولThe Joke کا ترجمہ تقریباً تمام مغربی زبانوں میں ہوچکا تھا۔ مگر حیرت انگیز! فرانس میں ترجمہ نگار نے میرے اسلوب کی نقل کرتے ہوئے تقریباً تمام ناول ہی نئے سرے سے لکھ ڈالا تھا۔ انگلینڈ میں پبلشر نے نہ جانے کتنے فکری پیراگراف حذف کر دیے تھے وہ ابواب جو موسیقی سے متعلق تھے، نکال دیے گئے تھے اور ناول کے ابواب کو بھی ادھر ادھر کردیا گیا تھا ایک دوسرے ملک میں، میں اپنے اس مترجم سے ملا جو چیک زبان کا ایک لفظ بھی نہیں جانتا تھا۔
’’پھر آپ نے میرا ترجمہ کس طرح کیا؟
’’اپنے دل سے‘‘
اور مترجم نے اپنے پرس میں سے میری تصویر نکال کر مجھے دکھائی۔‘‘
آگے چل کر میلان کنڈیرا نے لکھا ہے کہ ایک ادیب اپنے ترجموں میں اپنے لفظوں کا اس طرح پیچھا کرتا نظر آتا ہے، یا رکھوالی کرتا محسوس ہوتا ہے جیسے کہ ایک چرواہا جنگلی بھیڑوں کے غلّے کا۔ وہ مضحکہ خیزہوجاتا ہے۔ دوسروں کے لئے قطعی مضحکہخیز۔
میلان کنڈیرا کو اپنے ناولوں کے قابلِ رحم حدتک مضحکہ خیز ترجموں کے باعث جو ا ذیت پہنچی تھی، وہ تب دور ہوئی جب اس کے دوست پیئر نورا (ادبی جریدے Ledabat کا اڈیٹر) نے اسے یہ مشورہ دیا کہ اگر میلان کنڈیرا اپنے ترجموں میں ہر لفظ کے بارے میں ا تنا چوکنا اور فکر مند ہے تو کیوں نہ وہ اپنے الفاظ کی ایک ڈکشنری لکھے۔ اپنی ذاتی ڈکشنری، اپنے ناولوں کی فرہنگ۔
میلان کنڈیرا کو یہ مشورہ بہت پسند آیا۔ اس نے فوراً اس تجویز پر عمل کیا۔ اور ایسے (63) ترسٹھ الفاظ تھے جن کے معنی اس نے اس خاص سیاق میں لکھے جہاں وہ ناول میں استعمال کیے گئے تھے اور ان الفاظ کے معنی خود مصنف کے لیے کیا تھے۔
63 الفاظ کی یہ ڈکشنری The art of the Novel کے چھٹے حصے میں شامل ہے اور میلان کنڈیرا کے فکشن کی تفہیم کے سلسلے میں بے حد کار آمد ہے کیوں کہ اس سے وہ فلسفیانہ اور سماجی سیاسی جہت روشن ہوجاتی ہے جس کے بغیر میلان کنڈیرا کو سمجھ پانا نہ صرف مشکل ہوگا بلکہ بعض غلط فہمیاں پیدا ہونے کا بھی باعث ہوسکتا ہے۔ میلان کنڈیرا کو اپنی تحریروں کے لیے بہت سے ایوارڈ ملے ہیں۔ جن کی فہرست بالترتیب اس طرح ہے۔
(1) C.S.S.R کا اسٹیٹ پرائز 1964
(2) C.S.S.R کا ادیبوں کا ’’گروہ پرائز‘‘ 1968
(3) LIfe is else where کے لیے 1973 میں فرانس کا Prix Medicis ایوارڈ
(4) 1978 میں اٹلی کا ’’Premio Letterario‘‘ ایوارڈ
(5) امریکن کامن ویلتھ ایواڈ 1981
(6) یوروپین لٹریچر ایوارڈ 1982
(7) یروشلم پرائز۔ 1985
(8) The art of The Novel کے لیے 1987 کا Crititians پرائز
(9) 1987 کا آسٹرین اسٹیٹ پرائز برائے ادب
(10) Immortalityکے لیے 1994 کا یروسلف پرائز
یہ فہرست مکمل نہیں ہے۔ میلان کنڈیرا کو اور بھی بہت سے ایوارڈ اور پرائز دیے گئے ہیں۔ جن میں انگریزی اخبار Independentکے ذریعے دئے گئے ایوارڈ اور مشی گن یونیورسٹی امریکہ، اور ویانا یونیورسٹی کے ایوارڈ بھی شامل ہیں۔
سن 2000 میں میلان کنڈیرا کو ’’انٹرنیشنل ہرڈر‘‘ پرائز ملا اور 2007میں اسے چیک اسٹیٹ لٹریچر پرائز بھی دیا گیا مگر اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ اسے ابھی تک ادب کا نوبل پرائز نہیں ملا حالاں کہ وہ ہر طرح سے اس پرائز کا حق دار ہے۔ ممکن ہے کہ اس کی کچھ سیاسی وجوہات رہی ہوں حالاں کہ ہر سال نوبل پرائز کے ملنے کے سلسلے میں جو قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں، ان میں میلان کنڈیرا کا نام آج بھی سرفہرست ہوتاہے۔
مگر کسی بھی پرائز سے سچے اور جینوین ادیب کے قد پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سب سے بڑی مثال ہمارے سامنے گراہم گرین کی ہے جسے کبھی نوبل پرائز نہیں ملا اور دوسری طرف ہم ایسے ادیبوں سے بھی واقف ہیں جنہیں نوبل پرائز ملنے کے باوجود ہمارے دل میں ان کے لئے محبت، توقیر اور احترام کا وہ جذبہ نہیں ہے جو مثال کے طور پر گراہم گرین یا میلان کنڈیرا کے لیے ہے۔

(3)

’’اولگا کار لِزل‘‘ نے لکھا ہے کہ ’’میلان کنڈیرا نے 1980 میں اپنے ملک چیکوسلوواکیہ کے لیے وہی سب کچھ کیا ہے جو گا برئیل گارسیا مارکیز نے 1960 میں لاطینی امریکہ کے لیے کیا۔ اور ’’الیکزینڈر سولینییٹن‘‘ نے 1970 میں سودیت روس کے لیے۔‘‘
اور یہ حقیقت ہے کہ میلان کنڈیرا نے مشر قی یوروپ کو تمام مغربی ادبی دنیا سے روشناس کرا دیا۔ اس نے جو بھی لکھا ان بصیرتوں کے ساتھ لکھا جو اپنی ماہیت میں عالم گیر ہیں۔ اس کا اصرار صرف ’’سچائی‘‘ پر ہے اور یہ سچائی بغیر داخلی آزادی کے حاصل نہیں کی جاسکتی۔
میلان کنڈیرا کا کہنا ہے کہ ’’سچ‘‘ کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں موت کا بھی سامنا کرنا چاہئے۔
یہاں میلان کنڈیرا آئر لینڈ کی مشہور کہانی کار کیتھرین مینسفیلڈ کا ہم نوا نظر آتا ہے جس نے کہا تھا کہ صرف ’’سچ ہی اکلوتی قابلِ حصول شے ہے‘‘ میلان کنڈیرا کے ناول نظریاتی درجہ بندی سے خالی نظر آتے ہیں۔ وہ خود کو سیاسی ادیب بھی نہیں مانتا ہے مگر سیاسی تبصرہ اس کی تحریروں میں جگہ جگہ پایا جاتا ہے۔ اگرچہ اُس کی اہمیت اور انفرادیت اس نکتے میں پنہاں ہے کہ سیاسی تبصرے میلان کنڈیرا کے یہاں ہمیشہ ایک وسیع تر فلسفیانہ تھیم میں بدل جاتے ہیں اور ان کو اسی روشنی میں دیکھنا اور پرکھنا چاہئے۔ کنڈیرا ’رابرٹ میوذل‘ کے ناولوں اور نطشے کے فلسفے سے متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ ’’بوکیشیو‘‘ رابیل، لارنس اسٹرن، ہنری فیلڈنگ، دیدرو، ہرمن بروچ، کا فکا، مارٹن ہائیڈیگر کا بھی قائل ہے اور سروینیٹس کا شاید سب سے زیادہ کیوں کہ بقول اس کے یہ سروینیٹس کی ہی روایت ہے جس سے وہ خود کو وابستہ محسوس کرتا ہے۔
اپنے ہم عصر ادیبوں میں کنڈیرا گابرئیل گارسیا مارکیز کا بہت معترف ہے۔ مارکیز کے ناول تنہائی کے سوسال کے بارے میں اس نے کہا تھا کہ مارکیز کے اس ناول کے ہوتے ہوئے ناول کی موت کے بارے میں اعلان کرنا محض بکواس ہے۔
بطور ناول نگار میلان کنڈیرا کا مقام ہمارے عہد کے عظیم ناول نگاروں کی اس صف میں نظر آتا ہے جس میں مارکیز، حوزے ساراماگو کارلوس فیونیتیس، امبر تو ایکو اور اتالو کیلوینو وغیرہ کے نام شامل کیے جاسکتے ہیں۔
میلان کنڈیرا نے ناول سے متعلق اپنے مضامین میں ان ناول نگاروں کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے جن کا وہ قائل رہا ہے مگر یہ ایک حیران کن امر ہے کہ وہ دستہ ئف سکی کا نہ صرف یہ کہ قائل نہیں ہے بلکہ شاید یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ اسے دستہ ئف سکیسے کچھ چڑ سی ہے۔ مختلف دلائل کی روشنی میں اس نے اس عظیم روسی ناول نگار کو جگہ جگہ رد کرنے کی کوشش کی ہے کیا اس کی وجہ چیکو سلوواکیہ پر روسی فوج کا قبضہ قرار دیا جاسکتاہے؟ مگر وہ ٹالسٹائی کی تعریف کرتا ہے۔ اس معمے کو حل کرنے کے لیے ’’جوزف براڈسکی‘‘نے ’’آخر میلان کنڈیرا دستہ ئف سکیسے ناراض کیوں ہے‘‘؟ کے عنوان سے 1985 میں ایک طویل مضمون ہی لکھ ڈالا ہے مگر اس مضمون میں ’’جوزف براڈسکی‘‘ کے میلان کنڈیرا کے تئیں چند تعصبات زیادہ نمایاں نظر آتے ہیں اور یہ نفسیاتی گتھی سلجھتی نہیں نظر آتی۔
میلان کنڈیرا کی پوری نفسیات روسی حملے سے متاثر معلوم ہوتی ہے۔ اُس کی کتابوں پر پابندی روسی حملے کے بعد ہی لگ گئی تھی مگر بقول میلان کنڈیرا، پابندی لگنے کے بعد اُس نے جو ناول لکھے، اُن میں خود کو پوری طرح آزاد محسوس کیا اگرچہ یہ وقت اُس کے لیے بہت تکلیف دہ بھی تھا۔ شروع شروع میں وہ یہ محسوس کرتا تھا کہ ایک ادیب کے لیے اپنے وطن کے سوا کہیں اور رہنا ممکن نہیں تھا۔ مگر بعد میں جب یونیورسٹی کی ملازمت بھی ختم ہوگئی اور تنخواہ بھی بند ہوگئی تو وہ اپنے وطن سے بد دل ہونے لگا۔ نہ تو وہ اپنی تحریریں شائع کرا سکتا تھا اور نہ ہی روزی کمانے کا اُس کے پاس کوئی ذریعہ بچا تھا، سوائے اس کے کہ اُس کی بیوی ویرا نے انگریزی پڑھانے کا کام شروع کردیا تھا۔ اُن دنوں میلان کنڈیرا کا پاسپورٹ بھی ضبط کرلیا گیا۔ مگر بعد میں یہ پاسپورٹ واپس کر دیا گیاتھا۔ اُس کے بعد جب وہ فرانس آگیا تو اس نقلِ مکانی یا جلاوطنی نے اُسے اس طرح پریشان یا غمناک نہیں کیا جیساکہ وہ توقع کرتا تھا۔ نوسٹیلجیا اُس کے لیے زیادہ نقصان دہ نہیں ثابت ہُوا۔ وہ فرانس میں آکر خوش ہی رہا۔
مگر کنڈیرا کو مغرب کے قیام کے دوران ایک بات ہمیشہ ناگوار محسوس ہوتی رہی ہے اور وہ یہ کہ اُس کی تحریروں کو ایک سادہ سیاسی رنگ میں دیکھا جارہا تھا یعنی لوگ اُسے سیاسی دستاویز کے طور پر پڑھ رہے تھے۔ میلان کنڈیرا کو مگر کوئی نہ تو استعمال کرسکتا تھا اور نہ ہی سرد جنگ کا حصّہ بنا سکتا تھا۔ اس سلسلے میں اُس کا اپنا خیال ہے کہ جدید معاشرہ صحافیانہ اندازِ فکر کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اِس معاشرے میں دُنیا کا تصوّر سادہ سا ہے۔ اُسے یہ شکایت رہی ہے کہ شروع شروع میں اُس کی تحریروں کی تفسیر صحافیوں نے کی، ادبی نقادوں نے نہیں کنڈیرا کو اس کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اس لیے اس نے اپنا دفاع کیا۔ مضامین میں اپنے ادبی موقف کا اظہار کیا۔ فرانسیسی اور انگریزی زبان میں کیے گئے اپنے ناولوں کے ترجموں کو اِزسرنو دیکھا، غور کیا اور بیشتر کو رد کیا۔ اب لوگ اس کے ذہن کو سمجھنے لگے ہیں۔
کنڈیرا تاریخ بنانے کے عمل کو بڑی طاقتوں سے وابستہ ایک تصور مانتا ہے۔ بڑی قومیں سمجھتی ہیں کے وہ تاریخ بنا رہی ہیں۔ اس لئے وہ اپنے ہارے میں اس حد تک سنجیدہ ہو جاتی ہیں کہ خود ا پنی ہی پرستش کرنے لگتی ہیں۔ بڑی قومیں چوں کہ اپنے آپ کو تاریخ کا معمار سمجھتی ہیں۔ اس لیے فطری طور پر وہ تاریخ کو ہمیشہ درست، معقول اور مثبت بھی تصور کرتی ہیں مگر ایک چھوٹی قوم تاریخ نہیں بناتی بلکہ اس کی حیثیت تو تاریخ کے لیے محض ایک شے کی ہے۔ وہ ہمیشہ اور فطری طور پر تاریخ کو نہ صرف بے انصافی پر مبنی شے سمجھتا ہے بلکہ ایک طرح سے احمقانہ بھی کنڈیرا مشرقی یوروپ کی جس مزاح کی یہ خصوصیت بیان کرتا ہے کہ وہ تاریخ کو Grotesque کی صورت میں ہی دیکھتی ہے۔
اس حوالے سے میک ایوان نے میلان کنڈیرا سے ایک انٹرویو کے دوران یہ دلچسپ سوال کیا تھا کہ
The Book of Laughter and Forgetting میں اس نے دو قسم کی ہنسی کو بیان کیا ہے۔ شیطان ہر چیز کی لایعنیت پرہنستا ہے اور فرشتے دنیا میں ہر شے کے منظم اور بامعنی ہونے پر ہنستے ہیں۔ فرشتوں کی ہنسی میں ایک جھوٹی گونج شامل ہوتی ہے۔ تو کیا چیکو سلوواکیہ کو شیطان کے ساتھیوں میں شمار کیا جاسکتا ہے اور روس کو فرشتوں کے؟
میلان کنڈیرا نے بے حد بے باکی سے یہ جواب دیا تھا:
’’بالکل درست‘‘
یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے ہم میلان کنڈیرا کا ایک چھوٹے ملک سے تعلق ہونے کے سبب دنیا کے بارے میں اس کا ایک خاص زاویۂ نظر تشکیل ہوتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔ تاریخ کے بارے میں اس کے خیالات کا خمیر بھی اسی مقام سے اٹھا ہے ۔ چھوٹی قوموں یا چھوٹے ملکوں کو کبھی یہ یقین ہی پوری طرح نہیں رہتا کہ سو یا دوسو سال کے بعد ان کا ملک باقی بھی رہے گا یا نہیں۔ یہی بات مگر بڑی قوموں یا بڑے ملکوں کے بارے میں نہیں کہی جاسکتی وجود کے مخدوش ہونے کا ا حساس تاریخ کے ان دو مختلف وژن سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ بقول میلان کنڈیرا انگریز اپنی قوم کے لافانی ہونے پر کبھی شبہ نہیں کرسکتا جب کہ چیک کا قومی ترانہ ہی اس سوال سے شروع ہوتا ہے کہ
’’میرا وطن کہاں ہے‘‘؟
کنڈیرا یوٹوپیا کے خلاف ہے، یہ ایک قسم کی افیم ہے کیوں کہ یوٹوپیا پر یقین رکھنے کا مطلب ایک طرح سے زمین پر جنت تعمیر کرنے جیسی خام خیالی کے سوا اور کچھ نہیں۔ کنڈیرا اسے ایک بند دائرے میں ہوتا ہوا رقص سمجھتا ہے۔ لیکن جو اس بند دائرے کے رقص سے باہر آجاتے ہیں وہ بھلے ہی پہلے جیسے سادہ لوح نہ رہے ہوں مگر ان کی زندگیاں پھر بھی بیکار اور رائیگاں ہی نظر آتی ہیں۔ کنڈیرا اس مسئلے کا کوئی حل نہیں پیش کرتا بقول اس کے، وہ کوئی مبلغ نہیں ہے۔
خود میلان کنڈیرا بھی اس یوٹوپیا (کمیونزم) سے باہر آیا ہے اور اسے اب اس جنت کی کوئی آرزو نہیں ہے کیوں کہ جنت کی آرزو انسان سے غیرانسان بن جانے کی آرزو ہے۔ اپنے ناول The Unbearable Lightness of Being میں کنڈیرا نے تیریزا کا کردار اسی پس منظر میں پیش کیا ہے جو جنت کی آرزومند ہے۔ میک ایوان سے ایک اہم گفتگو کے دوران کنڈیرا سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ جو شخص خالی الذہن ہوکر، ایک جنون کی کیفیت میں رقص کررہا ہے، کیا وہ انسان سے غیر انسان بن گیا ہے۔
اس سوال کے جواب میں میلان کنڈیرا نے بہت معنی خیز جواب دیا تھا اور وہ یہ تھا کہ جنونی لوگ اپنے انسان ہونے کی حیثیت سے محروم نہیں ہوتے۔ جنون انسانی ہے، فاشزم انسانی ہے، کمیونزم انسانی ہے، یہاں تک کہ قتل بھی انسانی ہے۔ سیاسی یوٹوپیا جو جنت تعمیر کرتی ہے اُس کی بنیاد انسان پر یقین ہے۔ ورنہ ایسی تمام جنتوں کا انجام قتل و غارت گری پر نہ ہوتا۔ میرے ناول کی کردار تیریزا کی جنت دوسرے قسم کی ہے۔ تیریزا کی یوٹوبیا کی بنیاد انسان میں یقین پر نہیں ہے۔
یہی وہ افسردہ کردینے والے، ساتھ ہی احتجاج اور غصّے سے بھرے ہوئے افکار ہیں جو کنڈیرا کو اپنے ہم عصر ناول نگاروں اور دیگر ادیبوں سے یکسر منفرد بنا دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر کنڈیرا کا ’’کچ‘‘ (kitsch) کا تصور۔ اس اصطلاح کو میلان کنڈیرا نے اتنی بار اور اتنے مختلف سیاق میں استعمال کیا ہے کہ میلان کنڈیرا کا نام آتے ہی جو پہلا لفظ ہمارے ذہن میں آتا ہے وہ ’’کچ‘‘ کا ہے۔ اپنے زیادہ تر ناولوں میں اُس نے Kitsch پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ ’’دی آرٹ آف دی ناول‘‘ میں ترسٹھ الفاظ کی جو ڈکشنری شامل ہے۔ ’’کچ‘‘ کو اُس میں بھی جگہ حاصل ہے۔
بقول کنڈیرا یہ لفظ پہلی بار انیسویں صدی میں میونخ میں استعمال کیا گیا تھا۔ ’’کچ‘‘ سے مُراد محض بدمذاقی نہیں ہے۔ انیسویں صدی میں جرمنی اور وسطی یوروپ دونوں رومانوی تھے۔ حقیقت پسند کم تھے۔ اِن لوگوں نے کثیر مقدار میں kitsch کی ہی تخلیق کی ہے۔ انیسویں صدی میں ہر چیز کی جی بھر کے نقل کی گئی۔ اس صدی کا اپنا کوئی اسلوب تھا ہی نہیں۔ خصوصاً فنِ تعمیر میں نشاۃ الشانیہ، بروک، گوتھک وغیرہ تمام اسالیب کا ایک ساتھ چربہ کیا گیا۔ ناول نگار ’’ہرمن بروخ‘‘ نے بھی Comments on Kitsch کے عنوان سے ایک عمدہ مضمون لکھا تھا جس میں اُس نے انیسویں صدی کو بجائے رومانیت کے Kitsch کی صدی قرار دی تھی۔ بقول ’بروخ‘ یہ ایک فنکارانہ موقع پرستی تھی جس کا مقصد لوگوں کو جذباتی طور پر متاثر کرنے کے سوا اور کچھ نہیں تھا یہ ایک قسم کا ’Ectecticism‘ تھا اور اس کا واحد مقصد لوگوں کو خوش کرنا تھا۔ بہتر ہوگا کہ اگر میلان کنڈیرا کے Kitsch کے تصور پر یہاں اور بھی تفصیل سے گفتگو کرلی جائے۔
اپنی کتاب The art of the Novel میں میلان کنڈیرا نے Kitsch کے تصور سے بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ The Unbearable Lightness of Being میں Kitsch کو کلیدی اصطلاح کے بطور استعمال کرتے وقت اُسے کچھ مشکل پیش آرہی تھی کیونکہ فرانس میں یہ اصطلاح تقریباً گمنام تھی۔ ہرمن بروخ کے مضمون کے فرانسیسی ترجمے میں Kitsch کو Junk art (خراب فن) لکھا گیا تھا۔ یہ بروخ کے مافی الضمیر کو پورا نہیں کرتا تھا۔ کیونکہ بروخ کے یہاں اس کے تقریباً دوسرے ہی معنی تھے۔ کچ کا ایک رویہ ہوتا ہے۔ ’’کچ‘‘ کسی انسان کی خصوصیت بھی ہوسکتی ہے اور اُس کی ضرورت بھی۔ اپنے ہی جذبے اور احساس سے متاثر ہوکر رقتِ طاری ہوجانا اور آئینے میں خوبصورت فریبوں کو دیکھ کر رومانی ہوجانا۔
لہٰذا پراگ میں Kitsch کو آرٹ کا بنیادی اور اولین دشمن ماناجاتا ہے۔ ایسا فرانس میں نہیں ہے وہاں اصل آرٹ کا الٹ تفریحی ادب ہے یا ہلکا پھلکا ادب۔ میلان کنڈیرا کا کہنا ہے کہ وہ اگاتھا کرسٹی کے جاسوسی ناولوں سے کوئی پریشانی محسوس نہیں کرتا ہے بجائے اس کے اسے پریشانی اور چڑ محسوس ہوتی ہے۔ تیکو وسکی سے، راک مینوف سے ہورووٹز سے اور ہالی وڈ کی بڑی فلموں مثلاً Kramervs Kramer اور Dr Zhivago سے اور ان فن پاروں سے بھی و ماڈرن ازم کے چولے میں Kitsch کا رجحان چھپائے رہتے ہیں۔ (جب نطشے نے وکٹرہیوگو کے ’’خوبصورت الفاظ‘‘ اور ملبوساتِ جشن سے اپنی بیزاری کا اظہار کیا تھا تو یہ اس کی Kitsch کے تئیں ایک نفرت ہی تھی)
میلان کنڈیرا نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’Kitsch ہی تمام سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں اور تحریکوں کا جمالیاتی آورش ہے۔ کنڈیرا کے خیال میں کچ کا کام موت پر پردہ ڈالنا ہے۔‘‘
کنڈیرا کے اس خیال کے حوالے سے میک ایوان نے اس سے پوچھا تھا کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاست کا کوئی تصور Kitsch کے بغیر نہیں ممکن ہوسکتا؟
کنڈیرا کا جواب تھا کہ یقیناً۔ کیوں کہ کامیاب سیاست دان کا کام ہی لوگوں کو خوش کرنا ہوتا ہے۔ جہاں تک روسیوں کا سوال ہے وہ ایک بڑی طاقت ہیں اور لوگوں کو خوش کرنے کے پابند نہیں ہیں مگر پارٹی اور اس کے نعرے، اس کا نظام کا نظام وغیرہ تو بہرحال خوش کرنے کے لیے ہی ہیں۔ یہ ایک بڑے پیمانے کا Kistch کہا جاسکتا ہے۔ ’کنڈیرا، اور تیگا وائی گاس‘‘ کی اس بات کو بھی قبول کرتا ہے کہ آنسو اور ہنسی دونوں ہی جمالیاتی اعتبار سے جھوٹے ہوتے ہیں۔
مگر بعض ادبی ناقدوں کا خیال ہے کہ خود کنڈیرا کے ناولوں میں بھیKitsch کے عناصر پائے جاتے ہیں یعنی میلان کنڈیرا Kitsch سے بچ نہیں سکا۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ Kitsch کو میوزک یا بصری فن کے دائرے میں تو اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے مگر اگر اسے ادب کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے یا اس کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو کسی نتیجے پر پہنچنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے کیوں ہمارے پاس ایسے کوئی ٹھوس ذرائع یا قابل اعتبار ذرائع نہیں جن کے ذریعے ہم ادب کے دائرے میں Kitsch کی کوئی واضح تعریف متعین کرسکیں۔
ادب کے چند نقادوں کے مطابق Kitsch اور Ironyمیں ہمیشہ ایک تعلق اور ’تبادلۂ عمل برقرار رہتا ہے Irony اپنا کمال ہی تب دکھاتی ہے، جب Kitsch کا ادبی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر میلان کنڈیرا کے ناول The Joke میں راوی (لُڈوِک) پوری طرح چھایا ہوا ہے اور اس کی آواز میں ہی ہم Irony کی گونج سن لیتے ہیں۔ مگر ناول کے اختتام تک پہنچتے وقت ہم یہ پاتے ہیں کہ راوی (لُڈوِک) کو ایک قسم کا چھٹکارہ یا پھر کہنا چاہئے کہ اپنی زندگی کی ستم ظریفیوں سے نجات یا آزادی مل گئی ہے۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر روتاہے۔ اس مقام پر Irony غائب ہوجاتی ہے۔ یہ صورت حال دستہ ئف سکی کے کرداروں کے مانند نظر آتی ہے جس سے کنڈیرا کو بیزاری رہی ہے۔ یہاں شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ لُڈوِک Kitsch کا ایک عُنصر بن گیا ہے۔
کنڈیرا کے دوسرے ناول The unbearable Lightness of Being میں بھی یہی ہوتا ہے۔ بس یہاں فرق یہ ہے کہ ہم Kitsch کو Irony کی طرح پڑھتے ہیں۔ یہ ایک ایسا اُلجھا ہُوا Kitsch ہے جسے سُلجھایا نہیں جاسکتا اور الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ یہاں کردار ایک دوسرے کے مقابل ہیں مثال کے طور پر ’’فرانز‘‘ میں Kitsch کا عنصر پوری طرح موجود ہے مگر ’’سبینا‘‘ میں نہیں۔ اسی طرح The book of laughter and Forgetting میں تمینہ کا کردار ہے جو اپنے مرے ہوئے شوہر سے ایک ناقابلِ یقین قسم کی محبت کرتی ہے۔ اِس کردار میں بھی ایک جذباتی اور وہی Lyrical قسم کا رویہ موجود ہے جیسے کنڈیرا پسند نہیں کرتا اور اس قسم کی چیزوں کو Kitsch کا نام دیتا ہے مگر خود ناول کے ’’تمینہ‘‘ والے حصّے میں Kitsch کا ایک عُنصر موجود ہے اور یہی ’’تمینہ‘‘ کی Ironey کو عمل میں لانے کا فریضہ بھی انجام دیتا ہے۔
اس سے یہ نتیجہ نکالنا غلط نہ ہوگا کہ Kitseh کو رد کرناKitseh میں گرفتار ہونے کے مترادف ہے۔ دراصل کنڈیرا کے ناولوں میں Kitseh نہیں بلکہ Irony اور Kitseh کا ایک پے چیدہ اور فنکارانہ رشتہ پایا جاتا ہے، کنڈیرا کے ناول اکثر اس صنف کی بندشوں سے ماوراء ہوجاتے ہیں۔ کنڈیرا کے یہاں ناول کی تشکیل کا عمل بہت انوکھا پیچیدہ اور رمز سے بھرا ہوا ہے۔ وہ Irony کے ذریعے اپنے ناول کے ایجنڈے کو عجیب و غریب انداز میں آگے بڑھانے میں ماہر ہے اور شاید اس فن میں یکتا ہے۔ کنڈیرا ناول کی سرحدوں کو بہت آگے تک لے جانا چاہتا ہے اس لیے سہل پسندی کے ساتھ اس پر کوئی الزام لگانا بے حد غلط عمل ہوگا۔ کنڈیرا کے ناولوں میں Kitsehکی سپاٹ موجودگی کا الزام بھی اسی سہل پسندی کا نتیجہ ہے۔ جنسی عمل کے حوالے سے بھی میلان کنڈیرا کے خیالات بے حد منفرد اور نئے ہیں۔ کنڈیرا کا کہنا ہے کہ جب میرے کردار جنسی عمل میں مشغول ہوتے ہیں تب کسی نہ کسی صورت حال کا جوہر منکشف ہو رہا ہوتا ہے۔ کردار اچانک اپنی زندگی اور اپنے تعلق کی کسی پوشیدہ جہت یا حقیقت سے واقف ہوجاتے ہیں۔
کنڈیرا پر اکثر لوگ پور نوگرافی کا الزام عاید کرتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پورنو گرافی کو ایسی بصیرت اور زبردست تخلیقیت کے ساتھ کسی فکشن نگار نے نہیں برتا ہے۔ کنڈیرا کا مقصد ناول نگاری برائے تفریح نہیں ہے۔ وہ ہمارے عہد کا سب سے زیادہ سنجیدہ ناول نگار ہے۔ بلیک کامیڈی تو اس کے ناولوں کو اور بھی زیادہ دبیز اور سنجیدہ بنا دیتی ہے لہٰذاکنڈیرا کے ناولوں میں پورنوگرافی کو محض پورنوگرافی نہیں سمجھنا چاہئے۔ یہ اس کے فن کے لوازمات میں سے شاید سب سے زیادہ اہم اور طاقت ور Device ہے۔
ناول نگار اگر انسانی وجود کی کسی پوشیدہ جہت کو دریافت نہیں کرسکتا تو اس کا لکھنا بے کار ہے۔ کنڈیرا کا کہنا ہے کہ جنسی قربت کے منظر سے ایک بہت تیز روشنی وجود میں آجاتی ہے اور کرداروں کا تمام نجی جوہر (Essence) خود بخود اپنا انکشاف کردیتا ہے اور اس طرح ان کی موجودی صورت حال اپنی تمام پوشیدہ جہتوں کے ساتھ سامنے آجاتی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ہے کنڈیرا کے یہاں پورنوگرافی کا استعمال ایک طرح سے سیاسی بھی ہے۔
سیاسی اور اجتماعی زندگی سے انفرادی زندگی کے تعلق کی نسبت سے میلان کنڈیرا نے ایک بہت پتے کی بات کہی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جو کُچھ بھی سیاست کی بالاتر دنیا میں ہوتا ہے وہی نجی زندگی میں بھی ہوتا ہے۔ سیاسی اور اجتماعی حماقتیں انفرادی حماقتوں سے الگ نہیں ہوتیں بلکہ تقریباً یکساں ہوتی ہیں۔ اسی طرح جنسی فتوحات اور سیاسی فتوحات بھی اپنی ماہیت میں مختلف نہیں ہیں۔ کنڈیرا اس سے متفق نہیں ہے کہ سیاسی اور نجی دنیاؤں کو الگ الگ سمجھا جائے۔ اِن دونوں کے اصول، قانون، ضابطے اور منطق یقیناًایک نہیں۔ وہ تو الگ الگ ہی ہیں مگر سیاست کے بڑے اسٹیج پر پیش ہونے والی ہر بھیانک بات، حیرت انگیز طور پر ہماری ذاتی زندگی کسی چھوٹی مگر دہشت ناک بات سے مشابہت رکھتی ہے۔ کنڈیرا کا ناول The Joke اس حقیقت کو تھیم بناکر لکھا گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کنڈیرا نے آمرانہ ریاستوں میں پائی جانے والی صورت حال کے حوالے سے کہا ہے کہ وہاں جو کچھ بھی ہورہا ہے۔ وہ ایک ادیب کے لیے سیاسی نہیں بلکہ انسانی ہنگامہ ہے (ایکAnthropological Scandal)۔اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نہیں سوچا جانا چاہئے کہ کوئی سیاسی حکومت کیا کرسکتی ہے بلکہ یہ کہ انسان کیا کچھ کرنے پر قادر ہے۔ مثال کے طور پر انسان کے لیے قتل کرنا ممکن تھا۔ لہذا سیاسی جنگیں شروع ہوئیں۔ انسانی اختیار کی حد پر ہی سیاسینظام قائم ہے مثلاً کوئی بھی شخص چار میٹر کے فاصلے تک نہیں تھوک سکتا خواہ اس کا مطالبہ اسٹالن ہی کیوں نہ کرے۔ سیاسی سوالوں کے عقب میں ہمیشہ بشریاتی سوال موجود رہتے ہیں۔
میلان کنڈیرا کے تمام خیالات اور افکار اس کے ناولوں میں کرداروں کی سرگرمیوں کے ذریعے آسانی سے سمجھے جاسکتے ہیں، مثال کے طور پر اگر Kitsehکو ہی پوری طرح سمجھنا ہوتو اس کے ناولThe unbearable lightness of Being کا بغور مطالعہ کرنا چاہئے۔ اس ناول کا موضوع ایک طرح سے Kitsch بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ جیساکہ عرض کیا جاچکا ہے کہ بقول میلان کنڈیرا ناول وہ سب کہہ سکتا ہے جو کسی اور طرح کہنا ممکن نہیں ہے مگر سوال یہ ہے کہ ناول ’’کیا؟‘‘ کہہ سکتا ہے۔ کنڈیرا کا کہنا ہے کہ ناول کا مقصد معاشرے کو بیان کرنا نہیں ہے کیوں کہ اس کے دوسرے اور بہتر طریقے موجود ہیں۔ ناول کا مقصد تاریخ بیان کرنا بھی نہیں ہے اور ناول نگار اسٹالن کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے بھی نہیں پیدا ہوا ہے کیوں کہ یہ کام تو سولینییٹن اپنے اعلانات میں کرسکتا ہے۔ مگر انسانی وجود کے تمام پہلوؤں کی ایک ایک پرت کو کھول کر رکھ دینا، ان کا تجزیہ کرنا، انہیں دکھانا اور بیان کرنا، یہ کام سوائے ناول کے کسی اور کے بس میں نہیں ہے، فلسفہ وجودیت بھی یہ کام کرنے پر قادر نہیں ہے۔
کنڈیرا کے ناول کے بارے میں یہ خیالات ہمیں فطری طور پر ڈی۔ ایچ لارنس کی یاد دلاتے ہیں (حالاں کہ خود کنڈیرا لارنس کا قائل نہیں ہے خاص طور پر وہ اس کے جنسی بیان کو تو بالکل ہی پیش پا افتادہ سمجھتا ہے)۔
ڈی۔ ایچ لارنس نے کہا تھا ’’ایک ناول نگار کے بطور میں خود کو کسی بھی ستی جتی سے، کسی بھی سائنس دان سے، کسی بھی فلسفی سے اور کسی بھی شاعر سے بالاتر سمجھتا ہوں۔ یہ سب لوگ زندہ انسان کے مختلف اجزا کے عظیم ماہر ہیں مگر ان اجزا کی سالم صورت کا کوئی ادراک نہیں رکھتے۔ ناول ہی اک روشن کتاب زندگی ہے۔‘‘
مگر کنڈیرا ناول کے بارے میں یہ بھی لکھتا ہے کہ ناول کے خمیر میں ہر نظام خیال سے ایک قسم کی تشکیک موجود رہتی ہے۔ ناول تو قدرتی طور پر پہلے ہی سے یہ قبول کرکے آگے بڑھتا ہے کہ انسانی زندگی کو کسی بھی قسم کے فریم میں یا نظام میں فٹ کرنا ممکن نہیں بھلے ہی اوپری سطح پر ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہو۔
میک ایون نے اپنی گفتگو میں اس امر کی جانب توجہ دلائی کہ اس کے فکشن میں مصنف ایک کورس (Chorus) کی مانند موجود رہتا ہے اور اپنے کرداروں کے رویے کا تجزیہ کرتا رہتا ہے۔ اس کے پس پردہ جو عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ ناول نگار ان پر تبصرہ بھی کرتا رہتا ہے۔
میلان کنڈیرا اس امر کا اعتراف کرتا ہے اس کا کہنا یہ ہے کہ ناول سے راوی صرف انیسویں صدی میں غائب ہوا ہے۔ اٹھارہویں صدی کے ناول میں یہ ہمیشہ موجود رہا ہے اور کیوں کہ ناول نگار کا کام کسی صورت حال کے جوہر کو کھنگالنا ہے، صرف صورت حال کو پیش کردینا ہی نہیں اس لیے بھی اس تکنیک کا استعمال ضروری ہے بقول کنڈیرا ’’میں ناول میں ایک سوچتی ہوئی آواز سننا چاہتا ہوں، لیکن فلسفی کی آواز نہیں۔‘‘
اس طرح کنڈیرا نے اپنے کرداروں کو ’’نفسیات‘‘ دینے سے ہمیشہ گریز کیا ہے۔ بقول ’’میک ایوان اس کی تحریر یں ’’نفسیاتی ناول‘‘ کی قطعی ضد معلوم ہوتی ہیں۔ اکثر تو میلان کنڈیرا رک رک کر ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ یہ کردار محض ایجاد کیے گئے ہیں مگر اس کے فن کی عظمت یہ ہے کہ Paradox کے ذریعے وہ اپنے کرداروں کو بے حد حقیقی بنا دیتا ہے اور یہ شاید راوی کی دخل اندازی کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ میلان کنڈیرا ہمیشہ ’’کافکا‘‘ کی تحسین کرتا ہے کیوں اگر بقول کنڈیرا ناول اس ’’جال‘‘ میں زندگی کی تفتیش کرتا ہے جس جال کو دنیا کہتے ہیں تو پھر یہ ’’جال‘‘ تو کافکا‘‘ کا ہی ہوسکتا ہے۔
کنڈیرا کا خیال ہے کہ کافکا سے پہلے تک آدمی جس شیطان سے نبرد آزما تھا وہ اس کے اندر تھا۔ کافکا کے یہاں پہلی بار یہ وبا باہر سے نازل ہوتی ہے۔ دنیا ایک ’’جال‘‘ کی طرح نظر آتی ہے۔ کافکا کے یہاں انسان کا تعین اندر سے نہیں بلکہ باہر سے ہوتا ہے۔ ’’کافکا‘‘ کے بارے میں میلان کنڈیرا نے اپنی تحروں میں تفصیل کے سا تھ بات کی ہے۔ ’’آرٹ آف ناول‘‘ میں تو ایک مکمل باب ہی ’’Behind the Curtain‘‘ کے نام سے کافکا کے بارے میں ہے۔ اصل میں، میلان کنڈیرا کے خیال کے مطابق ناول نگاروں کا کام ہی یہ ہے کہ وہ متواتر ان بنیادی تصورات کو للکارتے رہیں جن پر ہمارا وجود قائم ہے۔ کافکا نے یہی کیا تھا اس نے معاشرے کے ایک پوری طرح تسلیم شدہ تصور کو للکارا تھا۔
ایک ناول نگار کی حیثیت سے کنڈیرا دوسرے ناول نگاروں سے اس معنی میں بھی مختلف نظر آتا ہے کہ اسے اس بات سے زیادہ دلچسپی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنی اپنی تاریخ کو بار بار لکھتا رہتا ہے۔ ہم ہمیشہ واقعات کو اپنی پسند کے مطابق ہی مفہوم دیتے رہتے ہیں۔ ایسی اشیا کو مسترد کر تے رہتے ہیں جو تکلیف دہ ہیں۔ صرف حوصلہ افزا اور خوشگوار اشیا کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سیاسی دنیا اور نجی دنیا کی حماقتیں ہم آہنگ ہوجاتی ہیں۔

(۴)

زمانہ وہ تھا جسے پراگ کے موسم بہار Prasuespring) (کا نام دیا جاتاہے۔ میلان کنڈیرا کا پہلا ناول The Joke اور کہانیوں کا مجموعہ Laughable loves شائع ہوگئے تھے۔ ڈیڑھ لاکھ کی تعداد میں اس کی یہ تصانیف فروخت ہو چکی تھیں۔ کنڈیرا چیکو سلوواکیہ کے کمیونزم میں ریفارم کرنے کی کوششوں سے حوصلہ نہیں ہار رہا تھا مگر آہستہ آہستہ حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے، روسی افواج کے چیکوسلواواکیہ پر قبضے کے بعد میلان کنڈیرا کو اپنی ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔ اس کی تمام کتابوں کو علمی اداروں اور عوامی لائبریریوں سے ہٹادیا گیا۔
آخر ایک دن میلان کنڈیرا اور اس کی بیوی نے تھوڑی سی کتابیں اور کپڑوں کے کچھ جوڑ ے کارکے ٹرنک میں ڈالے اور فرانس چلے آئے۔ یہ کنڈیرا کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ ہی ثابت ہوئی کہ اس کا ضبط شدہ پاسپورٹ کچھ عرصے پہلے اسے واپس کردیا گیا تھا۔
کنڈیرا اور سولنیسٹن جدید فکشن کی دنیا میں ڈکٹیٹر شپ کے مظالم اور انسانی حقوق کی پامالی کے موضوعات پر لکھنے والے دو سب سے اہم ناول نگار تسلیم کیے جاتے ہیں۔ سولنیسٹن کو جلا وطنی کے زمانے میں سودیت روس میں بے حد احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا مگر یہی بات کنڈیرا کے لیے نہیں کہی جاسکتی۔ چیکوسلوواکیہ میں اسے اتنا احترام نہیں ملا جتنا باقی تمام دنیا میں اسے حاصل ہوا یہ حیرت انگیز ہے کہ بین الاقوامی شہرت کے مالک کنڈیرا کو اس کے اپنے ملک میں بہت زیادہ قدر اور عزت سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔ شاید اسی لیے کنڈیرا کا کہنا ہے کہ وہ خود کو ایک ’’چیک‘‘ نہیں محسوس کرتا ہے۔ وہ خود کو ’’یوروپین‘‘ محسوس کرتا ہے۔ مشہور امریکی ادیب فلپ راتھ نے 30 نومبر 1980 کو میلان کنڈیرا سے ایک انٹرویو لیا تھا۔ اس انٹرویو کی اہمیت اس بات سے ہے کہ دو بڑے ناول نگار دُنیا کے اہم مسائل پر تبادلۂ خیالات کرتے نظر آتے ہیں۔ میلان کنڈیرا کے خیالات اس انٹرویو میں بہت کھُل کر سامنے آتے ہیں۔ ذیل میں میلان کنڈیرا کے جن افکار پر گفتگو کی جارہی ہے وہ زیادہ تر اسی انٹرویو سے مستعار ہے۔ فلپ راتھ کا کہنا تھا کہ میلان کنڈیرا کے ناولوں کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے دُنیا جلد ہی تباہ ہونے والی ہے۔ میلان کنڈیرا کا جواب تھا کہ یہ احساس بہت قدیم ہے اور اگر کوئی احساس یا خیال اتنے زمانے سے انسان کے ذہن میں رہا ہے تو اس کی کوئی نہ کوئی حقیقت تو ضرور ہوگی۔
جیساکہ پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے کہ چیکوسلوواکیہ پر روسی فوج کے حملے اور قبضے نے میلان کنڈیرا کی شخصیت پر گہرے اثرات قائم کئے ہیں۔ میلان کنڈیرا بار بار یہ کہتا ہے کہ 1968 میں روسیوں کے حملے کے بعد ہر چیک شہری کے سامنے یہ اندیشہ موجود تھا کہ اُس کا ملک یا اُس کی قوم یوروپ کے نقشے سے اچانک اور غیر محسوس طریقے سے غائب نہ ہوجائے۔ آخر پچھلی نصف صدی میں 40 ملین یوکرینین لوگ اچانک دنیا سے غائب ہوگئے تھے اور دُنیا نے اس کا نوٹس تک نہ لیا۔ یہی صورت حال Lithuania کی بھی رہی ہے جو سترہویں صدی میں ایک بے حد طاقت ور یوروپی قوم تھی اور آج روسی انھیں کسی وحشی اور معدوم ہوتے ہوئے قبیلے کے بطور رکھے ہوئے ہیں اور یہ کام روسیوں نے اپنے Reservations یعنی اپنی شرائط پر کیا ہے۔ کنڈیرا کا خیال ہے کہ اُسے تو پورا یوروپ ہی اب بہت کمزور اور مٹ جانے والا محسوس ہوتا ہے۔ فلپ راتھ نے پوچھا تھا کہ فرانس میں ایک مہاجر کی حیثیت سے کنڈیرا کو کیا محسوس ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کنڈیرا نے ایک بہت پتے کی بات کہی ہے کہ پراگ میں پیش آنے والے واقعات کو مغربی یوروپ کی آنکھ کے ذریعے دیکھا گیا ہے مگر اس کے اُلٹ فرانس میں جو ہورہا ہے اُسے پراگ کے زاویۂ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ دو دنیاؤں کا ٹکراؤ ہے۔ ایک طرف میرا مُلک ہے۔ گزشتہ پچاس برسوں میں اس ملک نے جمہوریت، فاشزم، انقلاب، اسٹالن کی دہشت گردی سب کچھ دیکھ لی ہے۔ یہی نہیں اس ملک نے بعد میں اسٹالنزم کا بکھراؤ، جرمنی کا قبضہ اور پھر روسی افواج کا قبضہ اور بڑے پیمانے پر جلاوطنی کے تماشے بھی دیکھے۔ مغرب کو اپنے ہی گہوارے میں مرتے ہوئے دیکھا۔ اسی لیے یہ ملک تاریخ کے بوجھ سے دب کر رہ گیا ہے۔ یہ ڈوب رہا ہے اور دُنیا کی طرف سوائے تشکیک کی نظر سے دیکھنے کے کچھ اور نہیں کرسکتا۔
مگر دوسری طرف فرانس ہے۔ صدیوں سے وہ دُنیا کا مرکز رہا ہے مگر آج بڑے تاریخی واقعات کے لیے ترس رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس آج انتہا پسندانہ غیر عملی تصورات اور غنائیت کا مارا ہوا نظر آتا ہے۔ وہ کسی عظیم واقعے کی تمنا میں گرفتار ہے۔ اُسی کا انتظار کررہا ہے مگر وہ واقعہ ہوکر نہیں دیتا اور نہ شاید کبھی ہوگا۔
مگر کنڈیرا یہ بھی قبول کرتا ہے کہ وہ فرانسیسی کلچر کا بے حد گرویدہ ہے اور اُس کے ادیبوں کا احسان مند بھی۔ فرانس کے ادیبوں میں Rabelais اُسے سب زیادہ پسند ہے اور دیدرو (Diderot) بھی۔ کنڈیرا دیدرو کی تصنیف Jacques the Fatalist کا اتنا قائل ہے کہ اس ناول پر اُس نے اپنا ڈرامہ Jacques and his master لکھ ڈالا ہے۔ اس ناول کو ’’لارنس اِسٹرن کے ناول ٹراسٹم شینڈی، کے ساتھ رکھتے ہوئے کنڈیرا تاریخ کے عظیم ترین تجربے کا نام دیتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ خود فرانس کے ادب نے اِن عظیم تجربوں کو فراموش کردیا ہے۔ لارنس اِ سٹرن اور دیدرو دونوں نے ناول کو ایک بھرپور کھیل کی طرح برتا ہے۔ ناول کی فارم میں اِن دونوں نے مزاح کے عنصر کو دریافت کیا ہے۔
کنڈیرا کا بیان ہے کہ اسِٹالنی دہشت کے زمانے میں وہ پہلی بار مزاح کی اہمیت سے آگاہ ہوا۔ مسکراہٹ کے صرف ایک انداز سے وہ یہ سمجھ سکتا تھا کہ کون سا شخص اسٹالن کی آئیڈولوجی کا پیروکار ہے اور کون نہیں یعنی حسِ مزاح کسی آدمی کی شناخت کا ایک قابلِ اعتماد ذریعہ بن گئی تھی کنڈیرا کو اُس دنیا سے ہول آتا ہے جو بڑی تیزی کے ساتھ اپنی حسِ مزاح کو کھوتی جارہی ہے۔
ڈکٹیٹرشپ جہنم ہی نہیں ہے بلکہ جنت کا خواب بھی ہے ایک قسم کا یوٹوپیا، ایک خواب کہ ہر شخص مکمل ہم آہنگی کے ساتھ اس دنیا میں رہے گا۔ آندرے بریتون کی آرزو تھی کہ وہ شیشے کے گھر میں جاکر بس جائے۔ دراصل ڈکٹیٹرشپ انسان کے باطن میں پائے جانے والے Archetype سے تشکیل پاتی ہے اسی لیے نسانوں کی اتنی بڑی تعداد اس میں شامل ہوجاتی ہے۔
کنڈیرا نے فرانس کے بڑے شاعر Paul Elaurd پر سخت گرفت کی ہے اور اُسے ’’آمریت کا شاعر‘‘ قرار دیا ہے کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد Paul Eluard سُررئیلزم سے توبہ کرکے ایسی شاعری کرنے لگ گیا جس میں اخوت، انصاف، مستقبل اور امن کی باتیں ہوتی تھیں۔ وہ کامریڈ شپ کے بھی حق میں تھا۔ کلبیت کے خلاف تھا اور معصومیت کے حق میں تھا مگر 1950 میں جب آمر حکمرانوں نے اُس کے پراگ کے ہم زاد 'Zavis Kaland ra' (جو ایک سُریلسٹ شاعر تھا) کے خلاف پھانسی کی سزا کا حکم سنایا تو elaurd نے اپنے ہم مشرب کے جذبات کو آدرشوں کی خاطر قابلِ اعتنانہ سمجھ کر پھانسی کے اس حکم نامے پر اپنی پسندیدگی کے دستخط کیے۔ جلاد نے پھانسی دی اور ہمارا شاعر نغمے سُناتا رہا۔
میلان کنڈیرا عمیق غور و فکر اور باریک بینی کے ساتھ کیے گئے مشاہدے کے ساتھ اس چونکا دینے والے نتیجے تک پہنچا ہے کہ اسِٹالنی دہشت گردی کا مکمل دور دراصل ایک اجتماعی اور غنائیت سے بھرا ہوا ہذیان تھا۔ لوگ برابر کہتے رہتے ہیں کہ انقلاب بڑی خوبصورت چیز ہے۔ جو دہشت اس سے پیدا ہوتی ہے وہ ضرور برائی ہے۔ مگر یہ ایک رومانوی اور غنائی رویہ ہے۔ ہر حسن میں برائی پہلے سے موجود ہے۔ جنت کے خواب میں جہنم ابتدا سے موجود ہے۔ آمریت کا عہد جنت سے گزرتا ہوا ’’گولاگ‘‘ (Gulag) تک آپہنچتا ہے۔
مگر آمریت کے عہد کی اس شاعری کو رد کرنا آج بھی اتنا ہی مشکل ہے جتنا پہلے تھا۔ اگرچہ اب ساری دنیا (Gulag) کے تصور کو ردّ کرتی ہے مگر اُس شاعری سے لطف اندوز اور اثر پذیر ہوتی رہتی ہے جسے میں ’آمریت کی شاعری‘ کا نام دیتا ہوں۔ میلان کنڈیرا کی فکر کی یہ نہج جتنی بصیرت آمیز ہے اتنی ہی بے رحم بھی۔ فلپ راتھ کا خیال تھا کہ میلان کنڈیرا کی نثر سیاست کی تحلیلِ نفسی کے فرائض بھی انجام دیتی ہے اور یہ حقیقت ہے کیوں کہ کنڈیرا کے مطابق سیاسی واقعات بھی انھیں قوانین کے پابند ہیں جن کے انسان کے نجی واقعات یہی نہیں بلکہ انسان کی مابعد الطبیعیاتی زندگی میں وہی سب پایا جاتا ہے جو اُسی کی عوامی زندگی میں۔ انسان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ موت ہے کیوں کہ موت ’’ذات‘‘ کا انہدام کردیتی ہے مگر آخر یہ ’’ذات‘‘ ہے کیا؟ اصل میں موت سے ہم اس لیے خوف کھاتے ہیں کہ ہمارا ماضی ختم ہوجائے گا یعنی ہمیں مستقبل کے تلف ہوجانے کا ڈر نہیں ہے۔ ’’فراموشی‘‘ موت کی ایک شکل ہی ہے۔ یہی کام ایک بڑی طاقت بھی کرتی ہے۔ وہ اپنی طاقت کے بل پر ایک چھوٹے سے ملک کو اُس کے قومی شعور سے محروم کردینا چاہتی ہے۔ یعنی فراموشی سیاست کا بھی ایک مسئلہ ہے۔ معاصر چیک ادب کو ابھی تک شائع نہیں کیا جارہا ہے۔ دو سو چیک ادیب ایسے ہیں جن کی تحریروں کی اشاعت پر پابندی ہے۔ ’’کافکا‘‘ جیسا عظیم ادب بھی ان میں شامل ہے۔ 145 چیک مورخوں سے اُن کے عہدے چھین لیے گئے ہیں۔ تاریخ کو دوبارہ لکھا جارہا ہے۔ تاریخی یادگاروں کو بھی ختم کیا جارہا ہے۔ نتیجہ صاف ہے۔ ایک قوم جب اپنے ماضی کا ہی شعور کھو دے گی تو آہستہ آہستہ اپنی ذات کے عرفان سے بھی بیگانہ ہوجائے گی۔ فلسفۂ وجودیت والے کچھ بھی کہتے رہیں۔ سیاست ذاتی زندگی کی Metaphysics کے اوپر سے پردہ ہٹاتی ہے اور ذاتی زندگی سیاست کی۔
اس لئے آمریت کی دنیا، (خواہ وہ مارکس کے نظریے پر مبنی ہو یا اسلام کے) میں جواب ہی جواب ہیں۔ سوال کوئی نہیں جوابوں سے بھری آمریت کی ایسی دنیا میں ناول کے لیے بھلا کوئی گنجائش کیسے پیدا ہوسکتی ہے۔ ناول کی آواز کو انسانی ایقانات کی بلند آہنگ حماقت کے اوپر سننا شاید ممکن نہیں۔
1985 میں میلان کنڈیرا نے Olga Carlisle کو ایک انٹرویو دیا تھا۔ اس انٹریو میں بھی میلان کنڈیرا نے چند اہم مسائل اور واقعات کے حوالے سے بڑے اہم نکات کی جانب اشارہ کیا ہے۔ حالاں کہ جگہ جگہ اس کے یہاں ایک ہی بات کی تکرار بھی ملتی ہے۔ اس انٹرویو میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں میلان کنڈیرا پہلے بھی تفصیل کے ساتھ گفتگو کر چکا ہے۔
Olga Carlisle کا بیان ہے کہ کنڈیرا شروع شروع میں اُس سے بات چیت کرنے کو تیار نہیں تھا۔ میلان کنڈیرا اپنی ذاتی اور نجی زندگی کے بارے میں بات کرنا بالکل پسند نہیں کرتا ہے۔ فلپ راتھ سے میلان کنڈیرا نے ایک بار کہا تھا کہ ’’جب میں نیکر پہنے ہوئے ایک چھوٹا بچہ ہوا کرتا تھا، تب ہی سے میں کسی ایسے لیپ کا خواب دیکھا کرتا تھا جسے جسم پر لگاکر میں ناقابلِ دید بن جاؤں۔ پھر میں بالغ ہوا، لکھنے لگا اور کامیاب ہونا چاہا، اب میں کامیاب ہوں اور وہ لیپ (Ointment) حاصل کرنا چاہتا ہوں جو مجھے دنیا کی نظروں سے پوشیدہ رکھ سکے۔‘‘
وہ Olga Carlisle سے بادل نخواستہ گفتگو کرنے کے لیے تیار ہوا۔ وہ بھی شاید اس سے کہ وہ ’’اولگا‘‘ کے دادا کی حیثیت سے واقف ہوگیا تھا۔ ’’اولگا‘‘ کے دادا ’’لیوند ایندریف‘‘ روس کے مشہور ڈرامہ نگار تھے۔ کنڈیرا نے اپنے جوانی کے دنوں میں اُنھیں پڑھا تھا اور پسند بھی کیا تھا۔ پھر بھی اُسے ہمیشہ سے ہی ’’روس‘‘ سے بدگمانی رہی تھی۔ اس لیے کنڈیرا نے olga Carlisle کو پہلے ہی سے آگاہ کردیا تھا کہ وہ صرف ادب کے موضوع پر گفتگو کرسکتا ہے۔ اپنے بارے میں یا اپنی زندگی کے بارے میں کچھ کہنا اُس کے مزاج کے خلاف ہے۔
کنڈیرا نے بتایا کہ اب وہ فرانس کو ہی اپنا وطن مانتا ہے۔ ’’میں اب یہاں خود کو مہاجر محسوس نہیں کرتا۔‘‘ کنڈیرا نے ناول کے فن پر اپنی تینوں کتابیں The Art of the Novel، Testaments Betrrayed اور The Custain; An Essay in Seven parts. فرانسیسی زبان میں ہی لکھی ہیں۔ شروع شروع میں وہ یہ چاہتا تھا کہ ناول ’’چیک‘‘ زبان میں ہی لکھے کیوں کہ اُس کی زندگی کے تجربات، یادیں اور تخیل سب کچھ پراگ سے وابستہ تھا مگر اپنے ناول Immortality کے بعد اُس نے جو تین ناول لکھے ہیں وہ بھی فرانسیسی زبان میں ہی ہیں۔
روسی ادب کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کنڈیرا نے کہا کہ اُسے ٹالسٹائی بہت زیادہ پسند ہے۔ ٹالسٹائی دستہ ئف سکی سے کئی گنا زیادہ ماڈرن ہے۔ ٹالسٹائی وہ پہلا ادیب ہے جس نے انسانی سرشت میں Irrational کے عنصر کو گرفت میں لیا ہے۔
’اننا کرنیا‘ کے تعلق سے کنڈیرا کا کہنا ہے کہ اُس کی خودکشی اور خودکشی سے پہلے اُس کے ذہن میں گونجتی ہوئی آوازیں دراصل شعور کی رو اور داخلی خود کلامیوں کے سلسلے سے تعبیر کی جاسکتی ہیں اور اسی طرح یہ نتیجہ نکالنا غلط نہ ہوگا کہ ’داخلی خود کلامیوں‘ کو جوائس سے پہلے ٹالسٹائی نے بھرپور تخلیقیت کے ساتھ اپنے ناول میں استعمال کیا تھا۔ اپنے ناول The Book of Laughter and Forgetting میں میلان کنڈیرا نے اپنے والد کا گہری انسیت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ کنڈیرا کے والد ’’لُڈوِک کنڈیرا‘‘ جدید موسیقار تھے۔ وہ Stravinsky، Bartok، Schoenberg اور Janacek کے زبردست مداح تھے۔ کنڈیرا کے والد کنسرٹ ہال میں جب بھی اپنی مشکل موسیقی پیش کرتے تھے تو کنسرٹ ہال تقریباً خالی رہا کرتے تھے۔ میلان کنڈیرا کے لیے یہ بہت تکلیف دہ یادوں میں سے ایک ہے۔ اُسے اُس عوام سے نفرت ہوگئی جو Stravinsky کو سننے سے انکار کرتی تھی اور Tachaikovsky یا Mozart پر اپنا سر دُھنتی تھی۔ جدید آرٹ کے تئیں میلان کنڈیرا کا رُجحان اس لیے اور بھی زیادہ قوی تر ہوتا چلا گیا۔ مگر اُس نے موسیقار بننے سے انکار کردیا۔ کنڈیرا کو موسیقی سے بہت لگاؤ رہا ہے مگر شاید چند نفسیاتی وجوہات کی بنا پر وہ موسیقاروں کو پسند نہیں کرتا ہے۔ اپنے والد کی اعلیٰ اور ماڈرن موسیقی کو جس طرح نظرانداز کیا گیا۔ اُسے وہ کبھی نہیں بھول سکا۔
کنڈیرا کا بیان ہے کہ جب وہ اور اُس کی بیوی چیکوسلوواکیہ چھوڑکر جارہے تھے تو وہ اپنے ساتھ صِرف چند ہی کتابیں لے جاسکتے تھے۔ ان کتابوں میں سے ایک John updike کی کتاب ’’The Centaur‘‘ بھی تھی جس نے میلان کنڈیرا پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے کیوں کہ اس کتاب میں ایک شکست خوردہ اور ’’بے عزت‘‘ کیے گئے باپ کے تئیں ایک کرب انگیز محبت کا بیان تھا۔
Olga Carlisle نے کنڈیرا سے ایک اہم سوال پوچھا تھا کہ بچوں کے حوالے سے اس کے نالوں میں عجیب و غریب بیانات پائے جاتے ہیں۔ کیا بچوں سے اسے کسی قسم کی شکایت ہے جبکہ جانوروں کے تئیں (بچوں سے زیادہ) وہ زیادہ نرم نظر آتا ہے۔؟
کنڈیرا نے اس کا جو جواب دیا تھا وہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے غیر متوقع اور انوکھا ہے۔ بقول کنڈیرا ’’یہاں فرانس میں (اور دوسرے ممالک میں بھی) الیکشن سے پہلے ہر سیاسی پارٹی اپنے اپنے پوسٹر نکالتی ہے اور ہر پوسٹر میں ایک ہی نعرہ ہوتا ہے۔ ’’مستقبل ایک بہتر مستقبل کا نعرہ‘‘۔ اور ہر جگہ پوسٹروں میں مسکراتے ہوئے، دوڑتے ہوئے اور کھیلتے ہوئے بچوں کی تصویریں ہوتی ہیں۔
مگر افسوس ہم انسانوں کا مستقبل بچپن نہیں ہے بلکہ بڑھاپا ہے۔ معاشرے کی حقیقی انسانیت ضعیفی کے تئیں اس کے رویّے سے آشکار ہوتی ہے مگر یہ بڑھاپا، وہ یقینی مستقبل جس کا ہم میں سے ہر ایک کو سا منا کرنا پڑے گا، کسی بھی پروپیگنڈے کے پوسٹر میں (بائیں بازو یا دائیں بازو والے) نہیں دکھایا جاتا۔
یہاں یہ بھی قابل غور ہے کہ میلان کنڈیرا کو دائیں بازویا بائیں بازو کے جھگڑے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کنڈیرا دنیا کے لیے جو سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے، وہ آمری حکومت کا وجود ہے۔ خمینی، ماؤ، اسٹالن یہ سب کون ہیں؟ یہاں دائیں بازو اور بائیں بازو کا فرق کیا معنی ر کھتا ہے۔؟ آمریت نہ دائیں ہے نہ بائیں اور اس کی حکومت میں دونوں نظریات پھل پھول سکتے ہیں۔
میلان کنڈیرا کہتا ہے کہ وہ مذہبی آدمی کبھی نہیں رہا مگر اسٹالنی دہشت گردی کے دور میں چیکوسلواکیہ کے کیتھو لکوں پر جس بے رحمی کے ساتھ مقدمے دائر کیے گئے، ان کی بنا پر وہ ان سے ایک ہم آہنگی محسوس کرنے لگا۔ پراگ میں انھوں نے سوشلسٹوں اور پادریوں کو پھانسی پر چڑھایا اور اس طرح ان پھانسی چڑھنے والوں میں ایک بھائی چارہ پیدا ہوا۔
میلان کنڈیرا اس بات کو قبول نہیں کرتا ہے کہ ظلم اور جبرو استحصال آرٹ اور ادب میں ایک نئی زندگی پھونکتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ یہ محض ایک رومانی رویہ ہے، جبر و استحصال کسی بھی کلچر کو مکمل طور پر تباہ کردیتا ہے۔ کلچر کو ہمیشہ ایک عوامی زندگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور آزاد تبادلۂ خیالات کی۔ کلچر کو اشاعتی ادارے چاہئیں۔ بحث و مباحثے چاہئیں اور کھلا پن چاہئے۔ کچھ عرصے تک آمری دور حکومت میں کلچر زندہ رہ سکتا ہے مگر طویل عرصے تک نہیں۔ 1968 میں روس کے حملے کے بعد تقریباً تمام چیک ادب کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔ تہذیبی زندگی کی آزاد فضا کو منہدم کر دیا گیا تھا۔ مگر پھر بھی 1970 تک چیک ادب شاندار بنا رہا۔ Harbal, Grusa Skvorecky اِسی زمانے کے نثر نگار ہیں جنہیں بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا مگر اس کے بعد؟ آخر کب تک ادب Underground میں زندہ رہ سکتا ہے یوروپ کے سامنے ایسے حالات پہلے کبھی نہیں آئے۔ کنڈیرا اپنے ملک کے حوالے سے مطلق مایوسی کا اظہار کرتا ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ سیاسی جبر ناول کے لیے بھی بہت خطرناک۔ ہے۔ یہ سنسرشپ اور پولیس سے زیادہ خطرناک ہے۔ کیوں کہ سیاسی جبر اخلاقیات کا بیڑہ اٹھانے کی بھی اداکاری کرتا ہے۔ وہ خیرو شر کو دو الگ الگ خانوں میں بانٹ دیتا ہے۔ دونوں کی سرحدیں یہاں بالکل واضح ہوتی ہیں۔ اس لیے ناول نگار اپنا منصب بھول کر خیرو صداقت کی تبلیغ کرنے لگتا ہے۔ وہ لالچ میں پڑجاتا ہے جب کہ ناول نگار کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ ’’سچ‘‘ کی تبلیغ کرے اس کا کام ’’سچ‘‘ کو دریافت کرنا ہے۔
وسطی یوروپ کے حوالے سے تو یہ اور بھی زیادہ سچ ہے کیوں کہ چند اقدار ایسی ہیں جو کم از کم اس خطے میں تنقید کا نشانہ کبھی نہیں بنائی جاسکتیں۔ مثال کے طور پر نوجوانی کو عمر کا ایک پڑاؤ نہیں بلکہ اپنے آپ میں ایک قدر (Value) کا درجہ حاصل ہے۔ سیاست داں جب بھی اس لفظ (Youth) کو ادا کرتے ہیں تو ان کے چہرے پر ایک احمقانہ مسکراہٹ رقص کرنے لگتی ہے۔ مگر کنڈیرا کا کہنا ہے کہ جب وہ جوان تھا اور خوف و دہشت کے عہد میں رہتا تھا تب وہ نوجوان ہی تھے جو کہ دہشت گردی کا دفاع کرتے تھے اور اسے پھیلانے میں مدد کرتے تھے۔ اس کا سبب نوجوانوں کی ناتجربہ کاری ناپختہ ذ ہنی اور اخلاقیات کے ایک کچے پکے تصوّر کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ ساتھ ان نوجوانوں کی غنائی شاعری (Lyrical Poetry) تھی۔
میلان کنڈیرا نے اس موضوع پر اپنا ناول ’’Life is else where‘‘ کے نام سے تحریر کیا ہے۔ اسٹالینی دہشت گردی کے زمانے میں شاعری کا ایڈونچر شاعری کی مسکراہٹ۔ معصومیت کی خونی مسکراہٹ۔
بقول کنڈیرا شاعری بھی ہمارے معاشرے میں ایک ایسی قدر (Value) ہے جس پر آپ انگلی نہیں اٹھاسکتے۔
فرانس کے کیمونسٹ شاعر Paul Elaurd کی مثال سامنے ہے جس نے پراگ کے ادیب اور اپنے دوست Zavis Kalandra کی پھانسی کی سزا پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔
کنڈیرا کے ان خیالات کا علم ہونے کے بعد ہمیں اس پر حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ اسے ذاتی زندگی میں کسی کی بھی مداخلت پسند نہیں ہے۔ جو شخص کسی کی نجی زندگی میں تاک جھانک کرتا ہے۔ اس سے زیادہ بھیانک گناہ گار اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ میلان کنڈیرا کے ناولوں اور کہانیوں کے کرداروں میں اس کی اپنی سوانح کا کوئی سراغ یا کوئی عنصر سرے سے نا پید ہے، کنڈیرا کو فکشن میں سوانحی مواد شامل کرنے سے سخت نفرت ہے مگر شاید اس کا ازالہ وہ اس طرح کرتا رہتا ہے کہ اپنے ناولوں میں بحیثیت مصنف، اپنے تخلیق کردہ کرداروں کے اعمال اور حرکات وسکنات کا تجزیہ کرنے کے مقصد سے وہ وہاں ہمیشہ موجود ہے۔
بہرنوع، کنڈیرا کے خیال کے مطابق اس شخص کی زندگی جہنم ہے جو ہمہ وقت دوسروں کی نظروں کا مرکز بنا رہے اور ایک آمری حکومت میں یہی سب ہوتا ہے۔ ایسے ماحول میں کچھ بھی ممکن نہیں ہے۔ نہ محبت اور نہ دوستی اور ’’ناول‘‘؟
ناول مکمل طور پر تباہ ہوجاتا ہے۔ اس کے لکھنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہ جاتا۔
جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے کہ کنڈیرا کو انٹرویو دنیا پسند نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ انٹرویو لینے والے اکثر اس کی نجی زندگی کے بارے میں سوال پوچھنا چاہتے ہیں اور کنڈیرا اپنی نجی زندگی کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔
دوسری وجہ یہ بھی رہی ہے کہ اکثر صحافیوں نے اس کے الفاظ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے جس کی وجہ سے کنڈیرا کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس لئے کنڈیرا نے کسی کو انٹرویو دینے کے لئے، اپنے انٹرویو پر کاپی رائٹ کی شرط عائد کردی ہے۔
1989 میں ’’Lois oppenheim‘‘ کو اپنا انٹرویو دیتے وقت میلان کنڈیرا نے بعض جرنلسٹوں کی اس غیر مناسب حرکت کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
Lois oppenheim نے وسطی یوروپ کے تعلق سے کنڈیرا سے گفتگو کا آغاز کیا کیوں کہ وسطی امریکہ، کنڈیرا کی تحریروں میں ہمیشہ ایک اہم حوالہ بنتا رہا ہے۔ کنڈیرا کا کہنا تھا کہ کافکا، بروخ، میوزل اور Gombrowicz وسطی امریکہ کے چار عظیم ناول نگار ہیں۔ ’پروست‘ سے اب تک ناول کی تاریخ میں ان سے زیادہ اہمیت کسی کی نہیں ہے۔ ان ادیبوں کو سمجھے بغیر جدید ناول کی تاریخ کو سمجھا ہی نہیں جاسکتا۔ یہ ناول نگار جدید ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ کسی آواں گارد مکتبۂ فکر سے بھی تعلق نہیں رکھتے۔ یہ ناول نگار انیسویں صدی کے ناول کی ’روایت‘ سے پہلے کی روایت سے خود کو وابستہ محسوس کرتے ہیں۔ ناول کی اس روایت کو بھلا دیا گیا ہے۔ انیسویں صدی نے اپنے پہلے کے تمام جمالیاتی قوانین کو سرے سے نظر انداز کیا۔
Rabelias, Cerventes stern, Diderot وغیرہ نے ناول کو جس کھلواڑ (Playfullness ) کے ساتھ لکھا تھا۔ اس سے استفادہ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ ان ناول نگاروں کی تحریروں کو میلان کنڈیرا نے ’’Novelistic Meditation‘‘ کا نام دیا ہے مگر یہ وضاحت بھی ہے کہ اس اصطلاح کا کچھ لینا دنیا Philosophical Novel سے نہیں ہے جوکہ سارتر یا کامیو سے وابستہ ہے، کیونکہ بقول کنڈیرا اس قسم کے ناولوں میں ناول نِگار فلسفے کے حضور میں سر بہ سجود نظر آتا ہے یا تصوّرات (Ideas) کا ایک بے چارہ ساغلام۔
اس کے برعکس ’میوزل‘ اور ’بروخ‘ وغیرہ نے ناول میں ان تمام مابعد الطبیعیاتی مسائل کو شامل کرتے ہوئے جن کے ذریعے انسانی وجود کی کسی پوشیدہ جہت کو دریافت کیا جاسکے، ناول کو اُس کی اپنی شرطوں پر اس بلندی پر پہنچا دیا جہاں فلسفہ یا کوئی بھی نظام خیال رسائی نہیں پاسکتا۔
وسطی امریکہ کے ان ادیبوں کی امریکہ میں بہت کم بلکہ نہیں کے برابر شہرت ہے۔ اُس زمانے میں جب وسطی امریکہ کے یہ ناولسٹ اپنے شاہکار لکھ رہے تھے، امریکہ میں بھی ہیمنگوے، ولیم فاکنر اور Dos Possos جیسے اعلیٰ ناول نگار موجود تھے مگر ان کا فن اور اسلوب Musilجیسے ادیبوں سے قطعی مختلف تھا۔ اسی لیے کنڈیرا کا کہنا ہے کہ وسطی یوروپ کے ان ادیبوں سے ہمیں آج بھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے، اپنے ناول ’’The unbearable lightness of Being‘‘ کی مثال دیتے ہوئے میلان کنڈیرا نے بتایا کہ ایک بار The Newyorker نے اِس ناول کے تین ابتدائی حصّے شائع کیے مگر اُن میں سے وہ صفحات حذف کر دئے جن میں، نطشے کے Eternal Return کے نظریے کا ذکر تھا۔ یہ اُن کی غلط فہمی تھی کیوں کہ اس نظریے کا ذکر کرنے کا مطلب نطشے کے فلسفے سے کسی قسم کا سروکار ہونا ہرگز نہ تھا۔ یہ تو Paradoxes کی ایک زنجیر کے بطور ناول میں استعمال کیا گیا تھا۔ ناول کی روایت میں اس قسم کی چیزوں کا مقام ہمیشہ سے رہا ہے اور اس کا مطلب ناول کا فلسفہ بن جانا نہیں ہے۔
’’یوروپین ناول‘‘ کی اصطلاح کنڈیرا کے یہاں بار بار استعمال ہوتی ہے مگر ایک اہم نکتہ یہاں یہ بھی ہے کہ وہ ’’یوروپین ناول‘‘ کا مطلب اُس تاریخ سے سمجھتا ہے جو Cerventes سے فاکنر تک جاتی ہے۔ کنڈیرا اس بات کو بھی قبول کرتا ہے کہ ’’وسطی یوروپ‘‘ کے اِن ادیبوں نے اُس پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔ وہ پروست، جوائس یا ہیمینگوے وغیرہ سے اِتنا متاثر نہیں ہے۔
مگر اس کے ساتھ ہی وہ ’’وسطی یوروپ‘‘ کو Slavic world یا Slavic کلچر جیسی گمراہ کن اصطلاحات سے منسلک کرکے نہیں دیکھتا۔ اُس کی نظر میں Slavic زبانوں میں ایک وحدت ممکن ہے مگر کوئی ثقافتی وحدت نہیں۔ اسی طرح Slaviclitt کی اصطلاح بھی گمراہ کُن ہے۔ اس گفتگو کے دوران ایک دلچسپ امر یہ بھی سامنے آیا کہ کنڈیرا جتنے ناول نگاروں کا ذکر کرتا ہے وہ سب مرد ہیں۔ وہ کسی بھی خاتون ناول نگار کا ذکر نہیں کرتا۔
کنڈیرا کا جواب تھا (جو کم دلچسپ نہ تھا) کہ اُسے ناول کے اپنے سیکس (Gendre) میں دلچسپی ہے ناول نگار کے سیکس میں نہیں۔ بقول کنڈیرا ہر بڑا ناول Bisexual (دوہری جنس) ہوتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ ناول، عورت اور مرد دونوں کی کائینات اور دونوں کے وژن کا اظہار کرتا ہے۔ ناول کا مصنف مرد ہے یا عورت، یہ اُس کا نجی معاملہ ہے۔
میلان کنڈیرا اپنی غیرافسانوی تحریروں میںThe art of the Novel کو آج بھی سب سے زیادہ پسند کرتا ہے کیونکہ ناول کے بارے اس کتاب میں اُس کے قطعی ذاتی اور خالص خیالات پائے جاتے ہیں۔ میلان کنڈیرا کے انگریزی مترجم Aaron Asher نے اس کتاب کا نام بدل کر اس کے آخری باب کا نام ۔۔۔۔۔۔ Man thinks God Laughs رکھنے کی صلاح دی تھی مگر میلان کنڈیرا نے ذاتی اور جذباتی وجوہ کی بنا پر اس صلاح پر عمل نہیں کیا۔ اسی طرح کنڈیرا اپنی کہانیوں کے مجموعے Laughable Loves کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ ذاتی طور پر یہ کتاب اُس کی سب سے زیادہ پسندیدہ کتاب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کتاب میں شامل کہانیوں کے ذریعے اُس نے پہلی بار اپنے آپ کو ایک ادیب اور تخلیق کار کی حیثیت سے دیکھا اور اپنی تخلیق کی مسرت سے سرشار ہُوا۔ اس سے پہلے اُس نے موسیقار اور شاعر کی حیثیت سے بھی خود کو پہچاننے کی کوشش کی تھی مگر Laughable Loves لکھنے کے بعد اُس نے ’’اپنے آپ کو پالیا‘‘۔ اُسے اپنے نثر نگار اور فکشن نگار ہونے کا انکشاف ہوا۔ آج کنڈیرا خود کو سوائے ایک نثر نگار، ایک فکشن نگار یا ایک ناول نگار ہونے کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتا۔ ’’Laughable loves‘‘ سے پہلے کی اپنی تخلیقی زندگی سے اُس نے خود کو پوری طرح دست بردار کرلیا ہے۔


(5)

یہ سطریں جب لکھی جارہی ہیں تو کُنڈیرا کی عمر اسّی سال کی حدوں سے تجاوز کرچکی ہے۔ ادب کے مشہور ناقد Tomas-vrba کے خیال کے مطابق وہ ہمعصر چیک ادیبوں میں سب سے بڑا اور اہم نام ہے اور جس کی بین الاقوامی شہرت میں گزشتہ بیس سال سے کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ مگر آج کنڈیرا خود کو چیک ناول نگار نہیں بلکہ ایک یوروپین محسوس کرتا ہے۔ فرانس میں رہتے ہوئے اسے پینتیس سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے جیساکہ پہلے بھی لکھا جاچکا ہے کہ اِس تمام بین الاقوامی شہرت اور پذیرائی کے باوجود ’’چیک ری پبلک‘‘ میں کنڈیرا کو وہ مقبولیت حاصل نہیں ہے جو چیکوسلوواکیہ سے باہر ہے۔ Tomas-vrbaکے خیال میں اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ جلاوطنی کے زمانے میں میلان کنڈیرا نے اپنی تحریروں کو خفیہ طور پر کمیونسٹ چیک میں پہنچانے سے انکار کردیا تھا۔ Tomas-vrba کا کہنا ہے کہ مگر یہ اقدام اُس نے خالص فنکارانہ اصولوں کے تحت اٹھایا تھا کیونکہ ہمیشہ سے ہی میلان کنڈیرا اپنی تحریروں کو اشاعت میں جانے سے پہلے اپنی نگرانی میں اُن کا ایک ایک لفظ پڑھنے کا عادی رہا ہے۔ زبان کو جس تخلیقی جہت کے ساتھ وہ استعمال کرنے کا عادی رہا ہے۔ اُسے دیکھتے ہوئے کنڈیرا کا یہ اقدام فطری نظر آتا ہے۔
آہستہ آہستہ کنڈیرا نے بعض وجوہات کی بنا پر اپنے چیک مترجموں سے بالکل ہی رشتہ توڑ لیا ہے۔ فرانسیسی زبان میں لکھے گئے اُس کے ناول مثلاً Ignorance، Slowness اور Identity کے چیک ترجموں کو اُس نے رکوا دیا ہے۔ Tomasvrba کا یہ بھی کہنا ہے کہ چیک کی ریڈر شپ دُنیا کی وہ اکیلی ریڈرشپ ہے جسے جدید ترین ناول اور مضامین پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے۔ میلان کنڈیرا نے جب چیک میں لکھنا ہی بند کردیا اور صرف فرانسیسی ز بان میں ہی لکھنے لگا تو اس قسم کی صورت حال کو اور بڑھاوا ملا یعنی چیک میں میلان کنڈیرا کی مقبولیت میں لگاتار کمی واقع ہوتی گئی۔ میلان کنڈیرا نے ایک بار یہ اعلان بھی کیا تھا کہ اُس کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اُس کے ناولوں یا دیگر تحریروں کا چیک زبان میں ترجمہ کرے۔
غور کیا جائے تو میلان کنڈیرا کے اندر کے ناول نگار کے ساتھ یہ سب بڑا ڈرامائی سا محسوس ہوتا ہے۔ چیک زبان کا ادیب ایسے حالات سے گزرتا ہے کہ اُسے اپنی مادری زبان میں ہی لکھنا بند کرنا پڑتا ہے اور وہ ایک یوروپین زبان میں خوشی خوشی (یا مجبوری کے تحت، غصّے اور انتقام کے تحت؟) لکھنا شروع کردیتا ہے۔ جلاوطنی کے زمانے میں اُسے اپنے ملک سے کوئی رومانی اور لجلجے قسم کا لگاؤ نہیں پیدا ہوتا۔ وہ خود کو یوروپین محسوس کرنے لگتا ہے۔ کلائمکس یہ ہے کہ وہ اپنی مادری زبان ’’چیک‘‘ میں اپنے ناولوں اور مضامین کے ترجمے بھی رکوا دیتا ہے۔
یہ سب انسانی زندگی کے ساتھ پیش آنے والا ایک ڈرامہ نہیں ہے تو کیا ہے۔ کنڈیرا اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں کوئی سراغ دے یا نہیں مگر راقم الروف کے خیال میں ’’میلان کنڈیرا‘‘ کے نام سے صرف اسی صورت حال کے حوالے سے ایک ڈرامہ تو اسٹیج کیا ہی جاسکتا ہے۔ میلان کنڈیرا کے ساتھ ایک اور ستم ظریفی بھی ہوئی ہے جس کا یہاں ذکر کرنا نامناسب نہ ہوگا۔
13 اکتوبر 2008 کو Respekt نام کے چیک ہفتہ واراخبار نے czech institute of Totalitarian Regimes کے ذریعے جاری کی گئی ایک تفتیشی رپورٹ اہتمام کے ساتھ شائع کی جس میں میلان کنڈیرا پر پولس کی مخبری کا الزام لگایا گیا تھا۔ بات 1950 کی تھی۔ ایک چیک پائلٹ Miroslav Dvoracek چیکوسلوواکیہ سے فرار ہوگیا تھا اور کچھ عرصے بعد مغربی دنیا کا جاسوس بن کر واپس ’خفیہ طور پر‘ چیک آگیا تھا۔ Dvoracek اپنے ایک دوست کی گزشتہ محبوبہ Iva Militka (جو طالب علموں کی ایک ’’ڈورمیٹری‘‘ کی مالک تھی) کے ہوسٹل میں آکر ٹھہرا تھا۔ اس زمانے میں Iva Militka کا اپنے ہم جماعت Ivan Dlask سے معاشقہ چل رہا تھا۔ (بعد میں دونوں نے شادی بھی کرلی تھی)۔ Dlask کو Dvoracek کے بارے میں Militka نے بتایا تھا۔ Dlask کی میلان کنڈیرا سے دوستی تھی اور اُس نے یہ بات کنڈیرا کو بتا دی تھی۔ پولیس کی رپورٹ کے مطابق میلان کنڈیرا (اُس وقت ایک طالب علم) نے Dvoracek کے بارے میں تمام معلومات پولیس کو بہم پہنچائیں اور بالآخر Dvoracek کو گرفتار کرلیا گیا۔ کمیونسٹ آمری عدالت نے اُسے موت کی سزا سنائی مگر بعد میں اُسے بائیس سال کی عمرقید میں بدل دیا گیا تھا۔ جس میں سے چودہ سال اُسے کمیونسٹ لیبر کیمپ میں گزارنا پڑے۔
اخبار میں اس رپورٹ کے شائع ہوتے ہی ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔
14 اکتوبر 2008 کو میلان کنڈیرا نے ریڈیو پر انٹرویو دیتے ہوئے اس الزام کی تردید کی۔ اس نے کہا کہ وہ نہ تو Dvoracek کو جانتا تھا اور نہ اُس کے حافظے میں Militka نام کی کوئی لڑکی موجود ہے۔ کنڈیرا نے اس رپورٹ کی تحقیق کرنے والے، ’’Adam Hradilek‘‘ (جس نے اسے ہفتہ وار’Respekt‘ میں شائع کرایا تھا) کی مذمت کرتے ہوئے اُس کے اس اقدام کو ’’میلان کنڈیرا کی کردار کشی‘‘ بتایا۔ کیوں کہ یہ رپورٹ ٹھیک اُس وقت شائع ہوئی جب جرمنی میں مشہور ادبی میلے یعنی Frankfurt Fair کا پہلا دن تھا اور دُنیا کے تمام ادیب ہمیشہ کی طرح وہاں اکٹھا ہورہے تھے۔ واضح ہو کہ ساری دُنیا میں Frankfurt Fair سے بڑی کوئی Literary Event نہیں ہوتی ہے۔
بہرحال یہ تنازعہ چلتا رہا اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جاسکا بعد میں معلوم ہوا کہ اصل مخبر (Informer) Dlask تھا۔ چیک ادبی مورخ Zednek نے بھی اس بات کی تائید کی کہ Dlask نے ہی Dvoracek کے بارے میں پولیس کو خبر دی تھی۔ Zednek نے بھی اس بات کی تائید کی کہ Dlask نے ہی Dvoracek کے بارے میں پولیس کو خبر دی تھی۔ Zednek کو خود یہ بات Dlask نے ہی بتائی تھی اور اُس نے یہ قدم اپنی محبوبہ Militka کو بچانے کے لیے اٹھایا تھا ورنہ Dvoracek سے رابطہ رکھنے کے جرم میں اُسے کبھی بھی گرفتار کیا جاسکتا تھا۔
بہرحال پولیس ریکارڈ میں میلان کنڈیرا کا نام بطور ایک انفارمر موجود ہے۔
غور کرنے کی بات واقعی یہ ہے کہ چیک ہفتہ وارمیں یہ رپورٹ اُس وقت کیوں شائع ہوئی جب فرینک فرٹ ادبی میلے کا انعقاد ہونے جارہا تھا۔ کیا اس کا مقصد یہ تو نہیں تھا کہ میلان کنڈیرا کو ایک ادیب کی حیثیت سے منافق ثابت کیا جائے اور اُس کی امیج کو بگاڑکر رکھ دیا جائے کیوں کہ اپنے ناولوں اور مضامین میں وہ ہمیشہ آمریت کے خلاف لکھتا آیا ہے اور بطور ایک ناول نگار اُس کی سب سے بڑی پہچان اس موضوع پر تواتر سے لکھتے رہنے کے باعث ہی قائم ہوئی ہے۔ لہٰذا اگر یہ مشہور کیا جاسکے کہ کنڈیرا نے کبھی آمری حکومت میں پولیس مخبری کا کام بھی انجام دیا تھا تو تمام دُنیا میں اُس کے خلاف ایک منفی رائے عامّہ قائم کی جاسکتی ہے۔ یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ گزشتہ چھ سات سالوں سے اُسے نوبیل انعام کا سب سے بڑا حق دار تسلیم کیا جارہا تھا۔ دُنیا کے کونے کونے میں پھیلی اُسے پڑھنے والوں کی ایک بڑی جماعت اور اُس کے ناولوں کے مداحوں کی ایک فوج یہی توقع رکھتی تھی۔ آج کے جمہوریت پرست دور میں (چاہے وہ ایک جھوٹی جمہوریت ہی کیوں نہ ہو) کسی ادیب کے اس قسم کے تنازعے میں پھنس جانا انعام و اعزاز دینے والوں کی رائے کو متاثر تو کر ہی سکتی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ ادیبوں نے اسی پر کسی ردّعمل کا اظہار نہیں کیا۔ جرمنی کے اخبار Die Welt نے کنڈیرا کا ’’گنٹرگراس‘‘ سے موازنہ کیا جس کے بارے میں دو سال پہلے یہ بات کھل کر سامنے آئی تھی کہ اُس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران Waffen-ss میں کام کیا تھا۔ چیک ادیب IVAN KLIMA نے کنڈیرا کے تئیں اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔
3 نومبر 2008 کو گیارہ بین الاقوامی شہرت کے مالک ادیب کنڈیرا کی حمایت میں کھل کر سامنے آگئے اور اُنھوں نے پوری طرح کنڈیرا کا دفاع کیا۔ ان ادیبوں میں گابرئیل گارشیا مارکیز، کارلوس فیونیتس، فلپ راتھ، اورخان پامک، جے۔ایم کٹنرے، اور نادین گار دیمر کے نام بھی شامل تھے۔
دوسری طرف میلان کنڈیرا نے نیوز ایجنسی کو بیان دیتے ہوئے یہ تو کہا کہ وہ اس پورے واقعے کو اس روشنی میں دیکھتا ہے کہ یہ پوری طرح اس کی کردار کشی کی ایک کوشش تھی اور یہ بھی کہ اس صدمے کے باوجود اس کے حوصلے میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ وہ اسے برداشت کرسکتا ہے مگر اس بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا کہ وہ چیک ہفتہ وار Respeckt پر ہتک عزت کا کوئی مقدمہ دائر کرنے کا بھی کوئی ارادہ رکھتا ہے یا نہیں۔
اس نے یہ شکایت ضرور کی فرینک فرٹ بک۔ فیئر کے موقع پر اخبارات کے پاس میری آواز کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ انہیں ایسے موقع پر مجھے صرف ایک سنیٹی میٹر نہیں بلکہ ایک بڑی جگہ دینی چاہئے تھی تاکہ میں اپنی آواز وہاں رجسٹر کرسکوں، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا، یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ میرے اوپر لگائے گئے یہ الزامات بے حد سنگین ہیں۔ اور میں ان سے کتنا دل شکستہ ہوا ہوں، اخبارات نے مجھے اپنی پوری بات کہنے کے لیے موقع ہی نہیں دیا۔
آج اس واقعے کو گزرے دوسال ہوچکے ہیں۔ میلان کنڈیرا کی شہرت جوں کی توں قائم ہے۔ اس کے قاری اس کی ایک ایک سطر پر جان دیتے ہیں۔ اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اس کے ا سلوب کی تمام دنیا میں نقل کی جانے لگی ہے۔ یہاں تک کہ اس سے حسد رکھنے والوں یا ممکن ہے اس سے بے حد متاثر ہونے والے لوگوں نے اس کے اسٹائیل کی پیرو ڈی بھی لکھی ہے۔ ’’A Book of Nothing‘‘ کے نام سے Serge Winzki کی لکھی پیروڈی بہت مشہور ہوئی ہے۔

دوسرا باب

میلان کنڈیرا کی تصانیف کا عمومی جائزہ


(الف) میلان کنڈیرا کی غیر افسانوی تحریریں
(ب) میلان کنڈیرا کا فکشن
(i) کہانیاں
(ii) ناول


(الف) میلان کنڈیرا کی غیر افسانوی تحریریں

(1) The art of the Novel

ناول کے فن اور اس کی تاریخ سے بحث کرنے والی یہ مشہور کتاب سب سے پہلے 1986میں فرانسیسی زبان میں شائع ہوئی۔ کنڈیرا اپنی علمی نوعیت کی کتابوں میں سب سے زیادہ اس تصنیف کو پسند کرتا ہے۔ اسے اس کتاب سے ایک جذباتی اور ذاتی قسم کا لگاؤ ہے۔ شاید یہ اس لیے کہ 1960 میں اس نے اسی عنوان سے ایک مضمون بھی لکھا تھا جو چیک ناول نگار Vladislav vancura کے بارے میں تھا۔ اس مضمون کا ذکر گزشتہ اوراق میں تفصیل کے ساتھ کیا جاچکا ہے۔ دی آرٹ آف دی ناول کی انفرادیت اس بات میں ہے کہ وہ کسی پیشے ور نقاد کے انداز نظر کی عکاسی نہیں کرتی ہے یہ ایک ناول نگار کے ناول کے بارے میں ذاتی نظریات کی نمائندگی کرتی ہے۔ جس طرح ڈی،ایچ لارنس نے ناول کے بارے میں مضامین لکھے تھے، یہ اس سے ملتی جلتی چیز ہونے کے باوجود اس سے بہت مختلف ہے۔ کیوں کہ یہ ناول نگاری کی اس روایت پر اصرار کرتی ہے جو انیسویں صدی میں تقریباً بھلادی گئی۔ ناول کے فن پر میلان کنڈیرا کی اس تصنیف کو ایک شاہکار کا درجہ حاصل ہے۔ انگریزی میں ترجمہ ہونے کے بعد اس کی مقبولیت میں اور بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
آرٹ آف دی ناول کو پڑھنے کے بعد میلان کنڈیرا کے ناول اور کہانیاں قاری پر تفہیم کے نئے در کھول سکتے ہیں کیوں کہ جیسا کہ عرض کیا گیا کہ یہ کتاب ناول کی ایک متوازی تاریخ سے بحث کرتی ہے اور مصنف کا ذاتی مگر بصیرت آموز نظریہ پیش کرتی ہے۔
’’دی آرٹ آف دی ناول‘‘ کو سات ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔
پہلے باب کا عنوان ’’The Depreciated legacy of Cerventes‘‘ ہے جو ناول کے بارے میں مختلف نظریات اور بعض فلسفوں سے بحث کرتے ہوئے میلان کنڈیرا کے اس سوال پر ختم ہوتا ہے کہ اگر اس کا مستقبل میں یقین ختم ہو چکا ہے تو پھر وہ کیا شے ہے جس سے اس کی وابستگی قائم ہے؟ خدا سے ؟ ، ملک سے؟، عوام سے؟، فرد سے؟، میلان کنڈیرا کا جواب عجیب بھی ہے اور سنجیدہ بھی۔ میں کسی چیز سے وابستہ نہیں ہوں، سوائے Cerventes کی کم یاد رکھی جانے والی روایت کے۔‘‘
میلان کنڈیرا کے خیال میں جدید دور کا آغاز فلسفی ڈیکارٹس سے نہیں بلکہ سرونیٹس سے ہوتا ہے۔ کیوں کہ سرونیٹس نے ہی ہمیں سب سے پہلے یہ بتایا ہے کہ کوئی ایک مطلق سچ نہیں ہوتا اور دنیا ایک مبہم شے ہے۔ سروینٹس نے ہی ناول میں پہلی بار (اس وقت اس کی تحریر کو ناول کا نام دیا گیا یا نہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ) ’’سچ‘‘ کی تلاش اور تفتیش کا عمل ایجاد کیا ہے۔ جو لوگ ڈان کیہوٹے‘‘ کو کسی قسم کے Idealism سے وابستہ کرکے دیکھتے ہیں۔ وہ غلط فہمی کا شکار ہیں۔
میلان کنڈیرا کے خیال میں آج کا ناول بھی، ہر کلچر کی طرح ماس میڈیا کے ہاتھو ں میں آچکا ہے یہ سہل پسندی کا دور ہے جب کہ ناول کی روح میں ہی سہل پسندی شامل نہیں ہے۔ ناول میں چیزیں اتنی سادہ نہیں ہوتیں جتنی کہ لوگ انہیں تصور کرتے ہیں۔
کتاب کے دوسرے حصے کا نام ’’Dialogue on the art of the Novel‘‘ ہے اس حصے میں (یقیناًایک فرضی شخص) Christian Salmon کے ساتھ میلان کنڈیرا نے مکالموں اور گفتگو کے ذریعے ناول کے فن پر بصیرت آمیز گفتگو کی ہے۔میلان کنڈیرا ’’نفسیاتی ناول‘‘ کی اصطلاح کو گمراہ کن تصور کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کے ناولوں کو ‘‘نفسیاتی ناول‘‘ کے زمرے میں رکھنا غلط ہے۔ میلان کنڈیرا کے خیال میں ہر عہد میں ناول کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ ذات، کا رہا ہے، ذات، (Self) اتنی پُر اسرار شے ہے کہ اسے گرفت میں لینا نا ممکن ہے۔ یوروپ کی پہلی قصہ گونسل بھی نفسیاتی طریقہ کار سے واقف نہ تھی۔ مثال کے طورپر Boccaccio صرف عمل اور ایڈونچر وغیرہ کے بارے میں لکھتا جاتا ہے مگر اس عمل کے عقب میں انسانی ذات کا اسرار موجو د ہے یہی زیادہ بڑے پیمانے پر Dideroit کے یہاں ہوا ہے۔ ایسی صورت میں ایک قسم کا Paradox پیدا ہوجاتا ہے۔ انسان اپنے عمل کے ذریعے اپنی ذات پر سے پردہ اٹھانا چاہتا ہے مگر وہ ذات جو ایک Image بن کر ناول میں سامنے آتی ہے۔ اس کی اپنی ’’ذات‘‘ سے بالکل میل نہیں کھاتی۔ اس لیے بعد میں ناول نگار نے عمل اور خارجی دنیا سے ہٹ کر انسان کی داخلی زندگی کی تفتیش کرنا چاہی۔ رچرڈسن نے خطوط کی فارم میں ناول لکھ کر یہی کام کرنا چاہا تھا۔
جوائس اور پروست کے یہاں ناول میں ’’داخلی زندگی‘‘ کا بیان اپنی انتہا تک پہنچا۔ جوائس نے ایک لمحہ موجود کو اپنی عظیم خوردبین میں دیکھا۔ اس کی جانچ پڑتال کی۔ ہر لمحہ اپنے اندر ایک دنیا سمائے ہوا تھا۔ مگر یہاں بھی وہی Paradox پیدا ہوگیا۔ خوردبین کا لینس جتنا طاقت ور ہوتا چلا گیا۔ ’’ذات‘‘ اور اس کی انفرادیت کو گرفت میں لینا اتنا ہی ناممکن ہوتا گیا۔ کیوں کہ ’’ایک لمحہ‘‘ قابلِ افسوس طور پر حافظے کی دنیا میں نیا کوئی مقام نہیں بنا سکتا۔ وقت تو لگاتار Flux میں ہے۔ بہہ رہا ہے، ایک کے بعد ا یک لمحے آتے جاتے رہتے ہیں اور بھلا دیے جاتے ہیں۔
اکثر جو ائس، پروست اور کا فکا کے نام انسان کی داخلی زندگی کی تفتیش کے حوالے سے ساتھ ساتھ لیے جاتے ہیں مگر کنڈیرا کے مطابق کافکا کا نام جوائس اور پروست کے ساتھ لینا غلط ہے، کافکا قطعی دوسرے قسم کا ناول نگار ہے۔ پروست کے یہاں انسان کی داخلی زندگی ایک قسم کا معجزہ ہے۔ ایک کبھی نہ ختم ہونے والا اور ہرلمحے انسان کو حیرت زدہ کردینے والا معجزہ۔ مگر کافکا کے یہاں داخلی زندگی کو خارجی دنیا کے دباؤ کے تحت دیکھا گیا ہے اور عجیب و غریب سوالات پیدا کردے گئے ہیں۔
اس باب میں میلان کنڈیرا نے اپنے ناولوں اور کہانیوں کے حوالے سے بھی تفصیل کے ساتھ گفتگو کی ہے، اس کا کہنا ہے کہ ناول نگار کا کام مورخ ہونا نہیں ہے۔ ناول نگار کا کام ’’وجود‘ کا تجزیہ کرنا ہے ’’وجود‘‘ وہ نہیں ہے جو کہ تاریخ میں وقوع پذیر ہوچکا ہے بلکہ ’’وجود‘‘ تو انسانی ممکنات کی ایک دنیا ہے، کنڈیرا کا اصرار ہے کہ اس کے ناولوں کو تاریخ کے اس شعور کے ساتھ ہی پڑھنا چاہئے۔ وہ اپنے ناولوں کو ’’فلسفیانہ ناول‘‘ کہلوانا بھی پسند نہیں کرتا ہے کیوں کہ فلسفہ خیالات کے ارتقا کی ایک منظم دنیا کا نام ہے۔ ناول نگار کے یہاں فکر تو ہوسکتی ہے مگر کسی قسم کی منظم دنیا اور ’’مطلق سچ‘‘ پر اصرار ناول کی دنیا میں ممکن نہیں ہے۔
تیسرے حصے کا نام Notes inspired By "The Sleep walkers" ہے۔ اس حصے میں میلان کنڈیرا نے ایک کم شہرت یافتہ آسٹرین ناول نگار ہرمن بروخ کے ناول بعنوان ’’ The Sleep walkers‘‘ کے اپنے اوپر مرتب اثرات کے تعلق سے گفتگو کی ہے۔
میلان کنڈیرا ’’بروخ‘‘ کو اپنے عہد کا عظیم ناول نگار تسلیم کرتا ہے۔ ’’بروخ‘‘ کو اپنے زمانے میں وہ شہرت نہیں حاصل ہوسکی جس کا وہ حقدار تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جب اس نے ہٹلر کو اقتدا رسنبھالتے ہوئے دیکھا تو وہ سمجھ گیا کہ جرمنی کی ثقافتی زندگی کی موت ہوگئی ہے۔ پانچ سال بعد وہ آسٹریلیاچھوڑ کر امریکہ آگیا تھا اور اپنے آخری وقت تک وہیں مقیم رہا۔ ان حالات میں اسے اپنے قاری نہ مل سکے۔ یہ بہت بعد کی بات ہے جب جدید ادیبوں (Modernists) نے اسے گویا دریافت کیا اور بروخ کو جدید رجحان سے متاثر ناول نگار ثابت کیا۔ حالاں کہ، میلان کنڈیرا کے خیال میں ان ماڈرنسٹ ادیبوں اور بروخ کی جدیدیت میں کافی فرق تھا۔ سب سے بڑا فرق تو یہی تھا کہ ماڈرنسٹ ادیب ناول کو بطور ایک ادبی فارم ایک پیش پا افتادہ شے سمجھتے تھے اور اس فارم کو منہدم کرنے کے درپے تھے جب کہ ’بروخ‘ کے خیال میں ناول کے تمام امکانات کو ابھی تک پوری طرح بروئے کار لایا ہی نہیں گیا ہے۔
’’The Sleep Walkers‘‘ دراصل تین ناولوں کی ایک ٹرولوجی (Triology) ہے۔ تینوں ناول ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ نہ تو ان میں کرداروں کے باہمی عمل کا کوئی سلسلہ ہے اور نہ ان کی سوانح کا کوئی سلسلہ مگر اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو ناول کے تاروپود میں چھپا ہوا ایک سلسلہ ہے اور وہ ہے تھیم کا سلسلہ۔ ان تینوں ناولوں کا ایک ہی تھیم ہے، اور وہ تھیم یہ ہے کہ ’’اقدار کی شکست و ریخت کا سامنا کرتا ہوا ایک فرد‘‘ ایک ہی تھیم ہونے کے باعث ان تینوں ناولوں میں ایک عجیب و غریب وحدت پیدا ہوگئی ہے۔
کنڈیرا کا کہنا ہے کہ The Sleep walkers پڑھنے کے بعد مجھ پر ناول کے مستقبل کے امکانات واضح ہوگئے۔ کنڈیرا یہاں تک کہتا ہے کہ تامس مان کا ناول Doctor Fausts اور لاطینی امریکی ناول نگار کارلوس فیونیتیس کا ناول Terra Nostra کا مطالعہ اس نے بروخ کی روشنی میں ہی کیا۔
بروخ ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح ہماری تمام زندگی میں کنفیوژن پیدا ہوگیا ہے۔ حقیقت کی زیریں سطح پر صرف علامتوں کا مایا جال بکھرا ہوا ہے۔ انسان صرف علامتوں (Symbols) سے نبرد آزما ہے جب کہ اسے حقیقت سے دوچار ہونے کا گمان ہے۔ یہ غیر عقلی سسٹم انسان کی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ سیاسی زندگی کو بھی کنٹرول کرتا نظر�آتا ہے۔
بروخ نے نفسیاتی ناول کو رد کیا ہے (کنڈیرا نے بھی یہی کیا ہے) اور اپنے ناولوں کے لیے Poly Historical ناول کی اصطلاح کا استعمال کیا ہے۔ جس میں دنیا کا ہر علم، ہر فلسفہ ہر سائنس اور یہاں تک کہ ہر ادبی صنف بھی جذب ہوجاتی ہے اور ایک قسم کی وحدت کی تعمیر ہوجاتی ہے۔
بروخ کی اتنی تعریف کرنے کے باوجود میلان کنڈیرا کا خیال ہے کہ Poly Historical ناول ایک خاص تکنیک میں لکھا جاتا ہے اور بروخ پوری طرح اس تکنیک سے کام نہیں لے سکا ہے پھر بھی بروخ کو وہ ان ادیبوں میں سے ایک سمجھتا ہے جن سے وہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔
دی آرٹ آف ناول کے چوتھے حصّے کا عنوان "Dialogue on the art of Composition" ہے جو انہیں سوالات سے شروع ہوتا ہے جو تیسرے حصے میں اٹھائے گئے ہیں۔ اس حصے میں ایک بار پھر Christian Solmonاور میلان کنڈیرا کے درمیان ایک مکالماتی فضا قائم کی گئی ہے۔
کنڈیرا کا خیال ہے کہ Poly historical ناول کی تکنیک استعمال کرتے وقت چیزوں کو جذب کرنے کا ہنر بہت اہم ہوجاتا ہے۔ ناول کو ایک ایسی عمارت یا قلعہ نہیں ہونا چاہئے جس کا بڑا حصہ ہماری آنکھ سے اوجھل ہوجائے ورنہ اس کی تعمیر کی خوبصورتی اور ہنر ہم پر نہیں کھل سکتے۔ انسانی حافظے کی ایک حد ہوتی ہے۔ اگر ناول کو ختم کرتے وقت ہم اس کی ابتدا یا درمیانی متن کو بھول جائیں تو ناول کی تعمیر میں جو فنکارانہ باریکیاں اور ہنر بروئے کار لائے گئے ہیں وہ بیکار ثابت ہوجاتے ہیں۔ ناول میں وجود یا ذات کی تمام پیچیدگیوں کو گرفت میں لینے کے لیے اس تکنیک سے کام لینا مجبوری بن جاتا ہے جسے کنڈیرا نے ’’Technique of Ellipsic‘‘ کا نام دیا ہے۔
اس طرح ناول میں Polyphony (کئی آوازیں) سے بحث کرتے ہوئے میلان کنڈیرا نے دستہ ئف سکی کے ناول ’’The Possessed‘‘ اور بروخ کے ناول The Sleep walkers کا موازنہ کیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ بروخ کے تیسرے ناول میں کچھ خامیاں ہونے کے باوجود polyphony کے اعتبار سے وہ دستہ ئف سکی سے زیادہ کامیاب ہے۔
Polyphony کو کنڈیرا نے میوزک کے حوالے سے سمجھا ہے۔ میوزک میں جب ایک ساتھ، دو یا دو سے زیادہ آوازیں اُبھرتی ہیں اور جو ایک دوسرے سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہونے کے باوجود اپنی اپنی جگہ مکمل طور پر آزاد اور خودمختار ہوتی ہیں تب ایسی صورت حال کو Polyphony کہا جاتاہے۔
میلان کنڈیرا نے کتاب کے اس حصے میں اپنے ناولوں مثلاً The Book of Laughter and Fogetting، The unbearable lightness of Being اور life is elsewhere میں Polyphony کی تکنیک استعمال کیے جانے کے بارے میں بہت تفصیل کے ساتھ گفتگو کی ہے۔ یہاں تھیم اور پلاٹ کے بارے میں بھی اہم نکات کی جانب اشارہ ملتا ہے۔ ’’تھیم‘‘ کو کنڈیرا نے ’’وجودیاتی تفتیش‘‘ کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ آگے چل کر اُس کا کہنا ہے کہ یہ وجودیاتی تفتیش بالآخر چند الفاظ کا معائنہ اور جانچ پرکھ بن کر رہ جاتی ہے۔ ان چند الفاظ کو ’’تھیم لفظ‘‘ (Theme words) کہا جاتا ہے۔ یہاں ایک بار پھر میلان کنڈیرا اپنے ناولوں سے مثالیں پیش کرتے ہوئے ’تھیم‘ کی نوعیت اور ماہیت کو اُجاگر کرتا ہے۔
میلان کنڈیرا نے اپنے ناولوں کی تکنیک، اُن کی تشکیل و تعمیر میں کارِفرما کچھ موسیقی اور ریاضی کے اصولوں پر بھی روشنی ڈالی ہے جس سے بڑے دلچسپ نتائج سامنے آئے ہیں اور Polyphonic Novel کو ایک انوکھے انداز سے سمجھنے کا موقع بھی فراہم ہوا ہے۔ مثلاً ’’Farewell Waltz‘‘ کو چھوڑکر اُس کے سارے ناولوں کو سات حصوں میں بانٹا گیا ہے۔ (زیرنظر تصنیف بھی سات حصوں میں ہی منقسم ہے) اس کے علاوہ ایک حصے کی لمبائی اور اُس کے ابواب کی تعداد میں بھی ایک تناسب ہے۔ کنڈیرا کے مُطابق یہ سب اُس کے پہلے ناول The Joke میں اتفاقی طور پر واقع ہوا تھا مگر بعد میں ایک چیک ادبی نقاد کے جملے (the geometry of the Joke) نے میلان کنڈیرا پر یہ منکشف کیا کہ موسیقی اور ریاضی مل کر اس ناول کی تھیم کو کس طرح ایک وحدت بخشنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ خود میلان کنڈیرا کی میوزک میں تربیت نے اُس کی تحریروں پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ اس حوالے سے بھی اس حصّے میں وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے۔ بنیادی طور پر اس کتاب کا یہ حصّہ میلان کنڈیرا کی اپنی تحریروں اور اُن کی فنکارانہ باریکیوں سے متعلق ہے۔ کنڈیرا بار بار بطور ایک ناول نگار اپنے موقف کا اظہار کرتا ہے اور اپنے ناولوں کی تفہیم و تعبیر کے لئے پڑھنے والوں کو بہت سے سراغ فراہم کرتا ہے مثال کے طور پر یہ امر کہ کنڈیرا کے یہاں ناول کی دو تکنیکی عمل میں آئی ہیں۔ ایک تو Polyphonic ناول ہے جس میں کئی آوازیں مل کر ایک مشترکہ تھیم کے ذریعے ایک اکائی خلق کرتی ہیں اور دوسری تکنیک جو ’’Farce‘‘ سے مستعار ہے اور جس میں پلاٹ کا بھی دخل ہے اور جہاں متضاد و مختلف عناصر کی غیر موجودگی پائی جاتی ہے۔ اس دوسری تکنیک کو ہم اُس کے ناول Farewell Waltz اور چند کہانیوں میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔
کتاب کے پانچویں حصّے کا عنوان Somewhere Behind قائم کیا گیا ہے۔
اس حصّے کا انداز بیان یا اسلوب دوسرے سے یکسر جُدا اور منفرد ہے۔ بنیادی طور پر یہ کافکا سے متعلق ہے۔ کنڈیرا آمرانہ معاشرے کے جبر و استحصال کے بارے میں بھی تفصیل کے ساتھ گفتگو کرتا ہے۔
یہ مضمون جان اسکاچل کی ایک نظم سے شروع ہوتا ہے جو اس طرح ہے۔
’’نظم شاعر کی ایجاد نہیں
نظم کہیں اوٹ میں چُھپی ہوتی ہے
وہ وہاں بہت زمانوں سے موجود ہے
شاعر صرف اُسے کھوج لیتا ہے‘‘
(جان اسکاچل)
میلان کنڈیرا نے اس حصّے میں کافکا کے بارے میں تقریباً وہی باتیں دہرائیں ہیں جو اُس نے فلپ راتھ سے گفتگو کرتے وقت کی تھیں۔ مثلاً کافکا سے پہلے آدمی جس شیطان سے نبرد آزما تھا، وہ اُس کے اندر تھا مگر کافکا کے یہاں انسان کا تعیّن اندر کی دُنیا نہیں بلکہ خارجی دباؤ کرتے ہیں۔ کافکا کے یہاں ’دنیا‘ نے ایک جال (Trap) کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اس لیے شیطان باہر ہے، اندر نہیں۔ کافکا کا مسئلہ یہ تھا کہ اُس کے کرداروں کی تنہائی میں مداخلت کی جارہی تھی۔ کافکا کو ’تنہائی‘ کے کلیثے میں دیکھنا غلط ہے، یہ ایک رومانوی غلط فہمی ہے۔ کافکا کو اس طرح پڑھنا کہ وہ تنہائی کا شکار ہے اور ایک برادری کی آرزو میں پریشان ہے۔ یا وہ دنیا میں اپنا مقام تلاش کررہا ہے۔ یہ سب سرے سے غلط ہے۔ بلکہ اصل میں تو بات اس کے برعکس ہے۔ ’’Castle‘‘ کا سروئیر اپنی آس پاس کی دُنیا سے تنگ آچکا ہے۔ اُسے کسی برادری کی ضرورت نہیں بلکہ نوکری کی تلاش ہے مگر اُس پر نظر رکھی جارہی ہے۔ اُسے پریشان کیا جارہا ہے۔ اُس کی تنہائی میں لگاتار مداخلت کی جارہی ہے۔ کافکا نے تو برادری اور معاشرے کے تصور کو سر کے بل کھڑا کردیا ہے اور ان کے تسلیم شدہ اُصولوں اور ضوابط کو چیلنج کیا ہے۔ اس لیے کنڈیرا یہ نہیں چاہتا کہ کافکا کا نام جوائس اور پروست کے ساتھ لیا جائے۔ اُس کے خیال میں جوائس اور پروست ارتقا کے اس عمل کی تکمیل تھے جس کا آغاز ’’فلوبیر‘‘ سے ہوا تھا۔ کافکا، بروخ اور میوزل سے مختلف چیز کی شروعات ہوئی ہے۔ کم و بیش انھیں تمام باتوں کو میلان کنڈیرا نے کتاب میں Something Behind نام کے اس حصّے میں تخلیقی نثر کے اسلوب میں لکھا ہے۔ یہ حصّہ کتاب کے دوسرے حصّوں سے ان معنی میں مختلف ہے کہ اس میں شاعری، تخلیقی نثر، عملی مباحثے اور مختلف ادبی نظریات ایک ہوکر، سما گئے ہیں۔
یہ مضمون ایک انجینئر کی کہانی سے شروع ہوتا ہے جس پر نظر رکھی جارہی ہے، اس کا فون ٹیپ ہو رہا ہے۔ ہر جگہ اس کا پیچھا کیا جارہا ہے۔ انجینئر کی نیند اڑ جاتی ہے۔ اسے بھیانک خواب آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ آخر وہ اس دباؤ کو سہنے کی سکت کھوکر غیر قانونی طور پر ملک سے چلا جاتا ہے۔ وہ ناقابلِ فہم طور پر جلا وطن ہوجاتا ہے۔ کنڈیرا کا کہنا ہے کہ یہ افسانہ نہیں، بلکہ پراگ کا ایک سچا واقعہ ہے۔ اس واقعے یا کہانی سے کنڈیرا نے کافکا کے بارے میں اور آمریت کے جبر و استحصال کے بارے میں گویا تمہید باندھی ہے۔ کافکا کے ناول ’’The Castle‘‘ کے حوالے سے کنڈیرا نے، (اور جگہ جگہ Trial کا ذکر بھی کرتے ہوئے) آمرانہ ریاستوں اور کافکا کے ناولوں اور حقیقی زندگی میں قریبی مماثلت ثابت کی ہے کافکا کے مرکزی کرداروں کو تمثیل بھی مانا جاتا ہے۔ خاص طور پر دانشور طبقے کی تمثیل مگر میلان کنڈیرا کے مطابق یہ سہل پسندی پر مبنی خیال ہے۔ اصل میں کافکا نے بیورو کرلیسی کی دنیاں میں Fantasy کا عمل دخل دیکھ لیا تھا۔ اس کے ناولوں کا مواد دفتری دنیا ہے جو قطعی طور پر بے رنگ اور غیر شاعرانہ ہے مگر کافکا کے یہاں وہ عظیم ناول تخلیق کراتی ہے۔ کافکا نے میلینا کو بھیجے ایک خط میں یہ فقرہ لکھا تھا۔
’’دفتر کوئی احمق ادارہ نہیں ہے۔ یہ حماقت سے زیادہ Fantasy کے زمرے میں آتا ہے۔‘‘
کنڈیرا کا سوال ہے کہ اس فقرے کا مطلب کیا ہے؟ اور تب وہ کہتا ہے کہ پراگ کا انجینئر اس فقرے کو فوراً سمجھ جاتا جس کی فائل میں ایک غلطی نے اسے لندن پہنچا دیا تھا اس لئے پراگ میں وہ ایک پرچھائیں کی مانند بھٹک رہا ہے اور اپنے گم شدہ جسم کو ڈھونڈ رہا ہے اور جن دفتروں میں وہ بھٹک رہا ہے وہ کسی نامعلوم مِتھ کا ایک کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔
ایک آمرانہ ریاست بھی دراصل ایک ہمہ گیر بیورو کریسی ہی ہے۔ جان اسکاچل کی نظم کو کنڈیرا دوبارہ دہراتا ہے یہ بتانے کے لیے کہ شاعر کے لیے لکھنا اس دیوار کو گرانے کے مترادف ہے جس کے عقب میں ایک نظم اندھیرے میں موجود ہے۔ اس طرح اچانک جب نظم بے نقاب ہوتی ہے تو ہماری آنکھیں چندھیاجاتی ہیں۔ میلان کنڈیرا نے کافکا کا ناول ’’The Castle‘‘ پہلی بار پندرہ برس کی عمرمیں پڑھا تھا اور اس وقت ناقابلِ فہم ہوتے ہوئے بھی اس کی روشنی سے آنکھیں خیرہ ہوگئی تھیں۔ میلان کنڈیرا کا خیال ہے کہ کافکا کے ناولوں میں گہری سماجی، سیاسی اور پیش گویانہ معنویت پائی جاتی ہے مگر اس کی بنیاد ان کی ناوابستگی (Uncommittedness) پر مبنی ہے۔ کنڈیرا خود بھی کافکا کے ورثے پر مضبوطی سے قائم رہنے کی قسم کھاتا ہے۔ وہ دوبارہ ’’کافکا ئسک‘‘ کو دریافت کرلینا ناول کے لیے مفید قرار دیتا ہے۔ ناول کی بنیادی آزادی انسانی صورت حال کے بارے میں ہمیں جو کچھ بتاسکتی ہے، وہ کوئی سیاسی یا سماجی تصور کبھی نہیں بتاسکے گا۔
آرٹ آف دی ناول کے چھٹے حصے کا نام Sixty Three words ہے۔ اپنے ناولوں میں شامل مختلف الفاظ اور مفروضوں کے عبرت ناک تراجم دیکھ کر اپنے دوست Pierre Nora کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے میلان کنڈیرا نے ان الفاظ کی ڈِکشنری تیار کی جس سے مستقبل میں کسی قسم کی غلط فہمی پھیلے کا امکان باقی نہ رہے گذشتہ اوراق میں، اس ضمن میں تفصیل کے ساتھ گفتگو کی جاچکی ہے۔ کتاب کے اس چھٹے حصے میں ترسٹھ الفاظ کی یہ ڈکشنری شامل کی گئی ہے۔ اس ڈکشنری میں جو الفاظ شامل ہیں ان کی بالترتیب فہرست اس طرح ہے۔
Sixty Three Words
1 Aphorism
2 Beauty (and Knowledge)
3 Betrayal
4 Border
5 Central Europe
6 Central Europe (and Europe)
7 Collaborator
8 Comic
9 Czechoslovakia
10 Definition
11 Destiny
12 Elitism
13 Europe
14 Excitation
15 Flow
16 Forgetting
17 Graphomania
18 Hat
19 Ideas
20 Idyll
21 Imagination
22 Inexperience
23 Infantocracy
24 Interview
25 Irony
26 Kitsch
27 Laughter
28 Letters
29 Life
30 Lightness
31 Litany
32 Lyrical
33 Lyricism (and Revolution)
34 Macho (and Misogynist)
35 Meditation
36 Metaphor
37 Misogynist
38 Misomusist
39 Modern
40 Modern (Being Modern)
41 Mystification
42 Nonbeing
43 Novel
44 Novel (and Poetry)
45 Novel (European)
46 Novelist (and Writer)
47 Novelist (and his life)
48 Obscenity
49 Octavio
50 Old age
51 Opus
52 Pseudonym
53 Reflection
54 Repititions
55 Rewriting
56 Rhythem
57 Soviet
58 Temps Modernes
59 Testaments
60 Transparency
61 Uniform
62 Value
63 Work
میلان کنڈیرا کے ناولوں کی تفہیم بغیر ان الفاظ کے پس منظراور سیاق جانے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ واضح رہے کہ یہ الفاظ عام لغوی معنی میں استعمال نہیں کیے گئے ہیں۔
کتاب کے آخری یعنی ساتویں حصے میں میلان کنڈیرا کی وہ تقریر شامل ہے جو یروشلم ایوارڈ ملنے کے موقع پر اس نے کی تھی۔ اس کا عنوان Jerusalem Address: The Novel and Europe ہے۔ میلان کنڈیرا کو یہ ایورڈ 1985 میں ملا تھا۔ اس مضمون نما تقریر میں میلان کنڈیرا نے ناول نگار کو دوسرے ادیبوں سے مختلف مانتے ہوئے، ’فلابیر‘ کے اس خیال کی تائید کی ہے کہ ناول نگار کو اپنے ناول کے عقب میں نادیدہ ہونا چاہئے۔ اسے ایک عوامی شخصیت بننے سے بھی بچنا چاہئے۔ یہودیوں میں ایک پرانی کہاوت رہی ہے کہ ''Man Thinks, God Laughes کنڈیرا کا کہنا ہے کہ Rabelias نے ایک دن خدا کی یہ ہنسی سن لی اور اس طرح پہلا عظیم یوروپین ناول لکھنے کے خیال نے جنم لیا۔ مگر آخر انسان کے سوچنے کے عمل پر خدا ہنستا کیوں ہے؟۔ شاید اس لیے کہ آدمی سوچتا جاتا ہے اور سچ‘‘ اس کے ہاتھوں سے پھسلتا جاتا ہے۔ کیوں کہ آدمی وہی نہیں ہے جو وہ سوچتا ہے۔
Rabelias کے حوالے سے کنڈیرا نے ایک لفظ Agelaste کی یاد دلائی ہے جسے Rabelias نے ایجاد کیا تھا اور جس کے معنی اس شخص کے ہیں جو کبھی نہیں ہنستا جس میں حسِ مزاح عنقا ہوتی ہے۔ ایک ناول نگار اور Agelaste کے درمیان کبھی میل ملاپ نہیں قائم ہوسکتا۔ یہ لوگ خدا کا قہقہ سننے سے محروم ہیں۔ اس لیے ناول سے بھی محروم ہیں ناول کی بصیرت فلسفے سے مختلف ہے۔ ناول کی روح تھیوری میں نہیں بلکہ حسِ مزاح میں پنہاں ہوتی ہے۔
اس مضمون کے آخر میں میلان کنڈیرا نے Kitsch پر ایک بار پھر گفتگو کی ہے اور اس نتیجے تک پہنچا ہے کہ ہماری زندگی کو ماس میڈیا نے پوری طرح گرفت میں لے لیا ہے۔ اس لیے ہماری روزمرہّ کی جمالیات اور اخلاقی نظریے، پوری طرح Kitsch میں بدل چکے ہیں۔ ماضی کی عظیم یوروپین روایت اور یوروپ کا شاندار کلچر خطرے میں ہے اور کنڈیرا کے خیال میں یوروپ کے کلچر کا جوہر ناول کی تاریخ میں پنہاں ہے۔
The art of the Novel کو میلان کنڈیرا کی غیر افسانوی تصانیف میں ایک شاہکار کا درجہ حاصل ہے۔ اس کتاب کے سات حصے الگ الگ مواقع پر 1979 سے 1985کے درمیان لکھے گئے اور جگہ جگہ شائع کیے گئے تھے۔ میلان کنڈیرا کو ناول سے جیسا جنونی عشق ہے، اس کی کوئی دوسری مثال آسانی سے نہیں ملے گی۔ یہ غور کرنے کی بات ہے کہ ناول اور کہانیاں تخلیق کرنے سے فرصت پاکر جب بھی میلان کنڈیرا نے کوئی غیرافسانوی نثر لکھی یا مضامین تحریر کیے تو وہ صرف ناول کی تاریخ اور اس کے فن کے بارے میں ہی تھے۔ ناول سے ہٹ کر اس نے کسی موضوع پر نہیں لکھا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ میلان کنڈیرا کے ناولوں کی مانند اس کے مضامین کی نوعیت بھی Polyphonic نظرآتی ہے۔ اور شاید Poly Historical بھی۔
البتہ اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ایسے مضامین میں خیالات کی تکرار بہت ہے۔ میلان کنڈیرا ایک ہی بات کو بار بار اور کئی طرح سے کہنے کا عادی ہے۔ شاید سکّہ بند نقادوں کو یہ اکیڈمک ڈسپلن کی غیر پابندی نظر آئے گی۔موسیقی کی تاریخ کو تنقیدی اعتبار سے سمجھنے کے لیے بھی یہ مضمون بے حد کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔ Testaments Betrayed کے چوتھے حصّے کا نام "A Sentence" ہے یہاں پھر کافکا مطالعے کا مرکز بنتا ہے۔ میلان کنڈیرا بار بار کافکا کی طرف لوٹتا ہے۔ ساری بحثیں، سارے مسائل، سارے سوالات، کافکا کے تعلق سے ہی پیدا ہوتے ہیں اور یہ بھی ہے کہ اس عظیم ادیب (فرانز کافکا) کو جس نئے زاویۂ نظر کے ساتھ میلان کنڈیرا نے دیکھا ہے۔ اُس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ ادب کی تھیوری کے نقادوں کے یہاں بھی نہیں اور کافکا کے دوسرے شارحین کے یہاں بھی نہیں۔
میلان کنڈیرا نے ’کافکا‘ کے جملوں کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ زیادہ تر جملے جب فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیے گئے ہیں تو اُن سے کافکا کے فن کی بلاغت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ کنڈیرا نے کافکا کے ناول The Castle کے تیسرے باب میں سے ایک طویل جملے کی مثال دیتے ہوئے اُس کے ترجموں کے ناقص ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یہ جملہ ایک چھوٹا سا پیراگراف ہے جو نو سطروں پر مشتمل ہے۔ کافکا نے اس جملے میں K اور Frieda کے جسمانی ملاپ کا بیان کیا ہے۔ کنڈیرا کے مطابق یہ جملہ اپنے آپ میں ایک مکمل استعارہ ہے اور اس کا ترجمہ کرنا گویا ایک استعارے کا ترجمہ کرنا ہے۔ عام طور سے کافکا کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ استعارے کو ناپسند کرتا تھا مگر دراصل وہ اُسی استعارے سے گریز کرتا تھا جو (Lyrical) غنائی نوعیت کا ہوتا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو کافکا نے ایک نئے اور انوکھے استعارے کی ایجاد کی ہے جسے ’’وجودی استعارہ‘‘ یا ’’مظہریاتی استعارہ‘‘کا نام دیا جاسکتا ہے۔ یہ استعارہ، کافکا کے کرداروں کے عمل اور اُس صورت حال کی معنویت کو آشکار کرتا ہے، جس میں وہ پھنسے ہوتے ہیں۔ اکثر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کافکا کا ذخیرۂ الفاظ محدود ہے۔ میلان کنڈیرا نے کافکا کے ذخیرۂ الفاظ کی کمی کو اُسی کی ایک بڑی خوبی تسلیم کیا ہے۔ یہ کمی دراصل کافکا کا جمالیاتی مقصد (Aesthetic Intention) ہے اور یہ بھی ہے کہ ذخیرۂ الفاظ کا بڑا ہونا اپنے آپ میں کوئی ’’قدر‘‘ نہیں ہے۔ جمالیاتی مقصد (Aesthetic Intention) اوّلین شے ہے جو کسی ادبی فن پارے پر حکومت کرتا ہے۔ ذخیرۂ الفاظ اس جمالیاتی مقصد کو پورا کرنے کا کام انجام دیتا ہے۔ اس کا کم یا زیادہ ہونے کا کوئی معنی نہیں ہے۔
پانچویں حصّے کا نام فرانسیسی زبان میں ہی رکھا گیا ہے یعنی "Ala Recherche du Present Perdu" یہاں کنڈیرا نے ہیمینگوے کی ایک کہانی ’’Hills like white Elephants‘‘ کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ پانچ صفحات پر مشتمل اس کہانی کی سب سے بڑی حاصیت یہ ہے کہ اسے پڑھ کر کہانی کے بارے میں مختلف نظریات قائم کیے جاسکتے ہیں۔ کنڈیرا نے اس کہانی میں سے ایک ایسے پیراگراف کا انتخاب کیا ہے جو صرف مکالموں پر مشتمل ہے۔ کنڈیرا کا کہنا ہے کہ اس مکالمے سے قاری کے ذہن میں تخلّیاتی سطح پر بہت سی کہانیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ ہینمگوے کی سوانح شائع ہونے کے بعد اس کہانی کی عجیب و غریب تاویلات پیش کی جانے لگیں جو سب مصنف کے سوانحی کوائف سے متاثر تھیں۔ کنڈیرا کا کہنا ہے کہ یہی صورت کافکا کے ساتھ تھی۔ نقادوں نے اس کے فن پاروں اور اس کی سوانح کو آپس میں ملا دیا ہے جس سے کافکا کی ایک غلط تعبیر ہمارے سامنے آئی ہے۔ آگے چل کر کنڈیرا اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ Kitsch سے متاثر تشریح کس طرح فن پارے کو مسخ کرکے رکھ دیتی ہے۔ فرانس میں یہ کہانی جس عنوان سے شائع ہوئی تھی وہ ’’Paradis Perdu’’ تھا کنڈیرا کا کہنا ہے کہ یہ عنوان ہینمگوے کی کہانی سے دور کا بھی علاقہ نہیں رکھتا تھا مگر فن پارے میں اخلاقیات کی ٹھونسم ٹھانس نے یہ عبرت ناک صورت حال پیدا کردی۔ Paradis Perdu کے وہی معنی ہیں جو Paradise Lost کے ہیں۔ کنڈیرا نے اس رویے کو Kitsch قرار دیا ہے جو فن پارے پر ایک نقاب ڈال دیتا ہے اور ادیب نے جو کام کرنا چاہا تھا اُسے منہدم کرکے رکھ دیتا ہے۔
اس تصنیف کے چھٹے حصے کا نام ’’Works and Spiders‘‘ ہے۔ میلان کنڈیرا نے اس طویل مضمون میں ایک بار پھر یوروپین موسیقی اور یوروپین ناول کے بعض تاریخی پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ نطشے کے خیالات کے بارے میں بھی تفصیل کے ساتھ بحث ملتی ہے جو فلسفے کو ناول کے قریب لانا چاہتا تھا اور جس کا ایک بے حد معنی خیز جملہ تھا۔ ’’جس شکل میں خیالات ہمارے ذہن میں آتے ہیں، اُس شکل کو ہمیں آلودہ نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ کنڈیرا نے فلسفے کی ماہیت، ناول اور ماڈرن آرٹ کے حوالے سے بھی بعض نکات کی جانب اشارہ کیا ہے۔ ’’آندرے بریتون‘‘ نے اپنے ’’Manifesto of Surrealism‘‘ میں ناول کو ایک کمتر صنف قرار دیا ہے۔ کنڈیرا اُن وجوہات کی تلاش کرتا ہے جو اس بیان کا سبب بنی ہیں اور اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ناول میں حد سے زیادہ جزئیات نگاری، ہر چیز کا بور کردینے کی حد تک بیان اور کرداروں کی سادہ سی نفسیات نے ’’ماڈرن آرٹ‘‘ کو ناول سے برگشتہ خاطر کردیا تھا۔ مگر اُس کے باوجود کنڈیرا ناول میں وہ امکانات تلاش کرتا ہے جو ادب کی کسی دوسری صنف میں نہیں پائے جاتے۔ اس مضمون میں آگے چل کر میلان کنڈیرا نے ’’تامس مان‘‘ اور Musil کے ناولوں کا ایک موازنہ بھی پیش کیا ہے۔ یہ دونوں ہم عصر ادیب ہیں۔ مگر اپنے فنّی اور جمالیاتی رویوں کی رو سے وہ ناول کی تاریخ کے دو مختلف ادوار سے تعلق رکھتے ہیں۔ مان کے ناول پوری طرح Descriptive ناول کہے جاسکتے ہیں جب کہ Musil کے ناول Thinking Novel کے زمرے میں آتے ہیں نطشے نے اگر فلسفے کو ناول کے قریب کیا تھا تو Musil نے ناول کو فلسفے کے قریب کیا ہے۔
کتاب کے ساتویں حصّے کا نام ’’The unsolved child of the family‘‘ ہے۔ یہ حصّہ دراصل چیکوسلوواکیہ کے عظیم موسیقار leos Janacek کی زندگی اور اس کے فن سے بحث کرتا ہے۔ Janacek کا اپنے ملک میں بہت کم اعتراف کیا گیا اور اُسے اچھی طرح سمجھا ہی نہیں گیا۔ Janacek کو میلان کنڈیرا نے ایک Expressionist کہا ہے جو رومانوی جذباتیت، سے نفرت کرتا تھا۔ یہ بھی بڑی دلچسپ بات ہے کہ Janacek پر پہلا مونوگراف جرمن زبان میں اُسی Max Brod نے لکھا جس نے کافکا کو ’’ایک سینٹ‘‘ کہا تھا۔ دوسرا مونوگراف فرانسیسی میں لکھا گیا مگر خود چیک زبان میں اس پر کوئی مضمون نہیں تھا یہ تو انتالیس سال بعد ممکن ہوسکا جب Janacek پر چیک زبان میں مضامین شائع ہونا شروع ہوئے۔ کنڈیرا نے چھوٹی یوروپئین قوموں کے حوالے سے بھی اس گتھی کو سُلجھانا چاہا ہے جہاں ہر شخص کی آنکھ دوسرے پر لگی رہتی ہے۔ Janacek نے بہرحال اپنے ملک کو آخری وقت تک نہیں چھوڑا، اُس کی زندگی کے آخری دس سال اچھے گزرے۔ آخرکار اُس کے میوزک کو سراہا گیا۔ 1928 میں اپنی محبوبہ کے بچے کے ساتھ جنگل میں کھیلتے ہوئے اسے سردی نے پکڑ لیا۔ اُس وقت وہ بڑھاپے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اُسے نمونیا ہوگیا اور چند دنوں بعد ہی اُس کا انتقال ہوگیا۔ آندرے ژید نے کہا تھا ’’Families I hate you‘‘ Janacek کے حوالے سے کنڈیرا اس جملے کی اہمیت اور معنویت اُجاگر کرتا ہے۔ Janacek کی فیملی ایک چھوٹی یوروپین قوم تھی جس سے باہر وہ نہ جاسکا اور ایسی فیملی کے لئے یہ عظیم موسیقار ایک ناقابلِ فہم طفل ہی بنا رہا۔
اسی مضمون نما تصنیف کے آٹھویں حصّے کا نام ’’Paths in the Fog‘‘ ہے۔ یہاں سب سے پہلے کنڈیرا نے Irony کے تصور سے بحث کی ہے۔ اپنے ناول The Book of Laughter and Forgetting سے مثالیں پیش کرتے ہوئے اور کافکا کے ناول The Trial پر بصیرت آمیز طویل تبصرے اور تجزیے کے بعد، کنڈیرا اس خیال کا حامی نظر آتا ہے کہ کسی ناول میں کسی ایک امر پر اصرار نہیں ہوتا ہے۔ ایک ناول میں مختلف خیالات، مختلف واقعات اور مختلف صورت حالیں ہوتی ہیں۔ ناول کے متن کو آہستہ آہستہ، رُک رُک کر، ایک سے زیادہ بار پڑھنے کے کے بعد ہی ہم ان تمام تضاد آمیزرشتوں تک پہنچ سکتے ہیں جن کے بغیر ناول کے کوئی معنی نہیں ہوتے۔
ان معنوں میں Irony کے تصور کو آگے بڑھاتے ہوئے کنڈیرا نے ٹالسٹائی کے ناول ’’War and Peace‘‘ کا ایک وقیع تجزیہ پیش کیا ہے۔ ناول کے کرداروں کی وساطت سے اور ٹالسٹائی کے تاریخ سے متعلق افکار پر گفتگو کرتے ہوئے، کنڈیرا نے کہا ہے کہ انسان کہرے میں آگے بڑھتا ہے (جو مستقبل ہے) مگر جب وہ پیچھے مُڑ کر ماضی کی طرف دیکھتا ہے تو اپنے سے پہلے والے لوگوں کے راستے میں کوئی کہرا اُسے نظر نہیں آتا۔ اُس کا جو ’’حال‘‘ ہے وہ گزشتہ زمانے کے لوگوں کا مستقبل تھا۔ اب اُسے اُن اگلے وقتوں کے لوگوں کی تمام لغزشیں نظر آتی ہیں۔ جیساکہ ٹالسٹائی کا خیال تھا کہ تاریخ کو ’’عظیم فرد‘‘ نہیں تعمیر کرتے، عظیم فرد تو تاریخ کے غیر ارادی طور پر آلۂ کار بن جاتے ہیں۔ اُنھیں اپنے اعمال کا تجزیہ کرنے کا بھی وقت نہیں ملتا۔ وہ اپنی زندگیوں کو کہرے کے طرف لے جاتے ہیں۔ کنڈیرا کے خیال میں ہائیڈیگر، مایاکووسکی، اراگوں، ایذرا اپاؤنڈ اور گورکی وغیرہ کی یہی Irony تھی کہ دراصل وہ کہرے کے راستے پر آگے بڑھ رہے تھے اور گمان اُنھیں کسی اور بات کا تھا۔
"Testaments Betrayed" کے نویں اور آخری حصے کا نام "You are not in your house here'' My dear follow." ہے اس حصے میں کتاب کے نام یعنی Testaments Betrayed کی معنویت پوری طرح ہم پر آشکار ہوجاتی ہے۔ بنیادی طور پر اس حصے میں کافکا اور Max Brod کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ کافکا کے بارے میں بہت سی افواہیں، بقول میلان کنڈیرا، Brod نے ہی پیدا کی ہیں کافکا اپنی تمام تحریوں کو (ناول کہانیاں ڈائریاں، خطوط) ضائع کرو نیا چاہتا تھا یا نہیں؟ یہ ایک بحث طلب سوال ہے مگر شاید ان میں سے ایک چیز تو ایسی ضرور تھی جسے کافکا نے درحقیقت ضائع کردینا ہی چاہا ہوگا اور وہ تھے اس کے خطوط۔ ایک عام آدمی کی شرم نے اسے ایسا سوچنے پر مجبور کیا ہوگا۔ وہی شرم جس کا تجربہ ہر اس شخص کو ہوسکتا ہے جسے انسان سے شے میں بدل دیا جائے یعنی عوامی زندگی کی آنکھ اس پر گڑی رہے۔ مگر افسوس کہ ایک مردہ شخص کی وصیت اور اس کی خواہش کا احترام نہ کرتے ہوئے، اس کے دوست Max Brod نے یہ خطوط کافکا کے مرنے کے بعد شائع کرادیے، کنڈیرا کے مطابق، اس طرح Brod نے اپنے مردہ دوستوں کے تئیں بے وفائی کا ایک ماڈل پیش کیا ہے۔
مضمون کے اس حصے کا موضوع یہی ہے مگر جگہ جگہ اس کی مناسبت سے Janacek اور Stravinsky جیسے موسیقاروں کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور پولینڈ کے ناول نگار ’’Gombrowicz‘‘ کا بھی جس کے ناول ’’Ferdydurke‘‘ کو میلان کنڈیرا نے سارتر کے ناول ’’Nausea‘‘ کے مقابلے ایک ’’سچے وجودی ناول‘‘ کا نام دیا ہے مگر یہ ساری باتیں ضمنی ہیں جو کافکا اور Max Brod کے رشتے کے آس پاس گھومتی ہیں۔


(3)The curtain
(An Essay in seven Parts)

میلان کنڈیرا کی یہ تصنیف 2007 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب (مضمون) کو سات حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو میلان کنڈیرا کی فنّی تعمیر میں شامل ایک جانی پہچانی اختراع ہے۔
مضمون کے پہلے حصّے کا نام ’’The Conciousness of Continuity‘‘ ہے۔ کنڈیرا آرٹ کی تاریخ سے بحث کرتے ہوئے اپنی بات کا آغاز کرتا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ بغیر جمالیاتی اقدار کے آرٹ کی پوری تاریخ کو ایک سلسلے واربے معنویت کا انبار کہا جاسکتا ہے۔ آگے چل کر کنڈیرا نے ہنری فیلڈنگ کو ناول کی شعریات کا پہلا مبلغ قرار دیا ہے۔ اُس کے ناول ٹام جون کے اٹھارہ حصّوں میں سے ہر ایک کا پہلا باب ناول کی تھیوری سے متعلق ہے۔ حالانکہ اُس وقت تک ’’ناول‘‘ نام کا چلن زیادہ وجود میں نہیں آیا تھا اور انگریزی میں اس صنف کے لیے دو نام موجود تھے۔ ایک Romance اور دوسرا ناول۔ مگر فیلڈنگ نے Tom John کے لیے اس میں سے کسی لفظ کا استعمال نہیں کیا تھا۔ ان کی جگہ اُس نے ’’New Province of writing‘‘ کا نام ایجاد کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ Province سے اُس کا مطلب ’’انسانی فطرت‘‘ تھا جس کی کھوج بین فیلڈنگ کی اوّلین ترجیحات میں شامل تھی۔ ’کنڈیرا‘ کا خیال ہے کہ لارنس اسٹرن نے ’’ٹراسٹم شینڈی‘‘ کے حوالے سے ’’کہانی‘‘ کی تاناشاہی سے مکمل طور پر نجات حاصل کرلی تھی۔ کہانی کی تاناشاہی سوائے واقعات کی ایک منطقی ترتیب کے اور کچھ نہیں۔ اُس نے یہ پورا ناول ایک ’’کھیل‘‘ کی طرح لکھا ہے۔ ایک غیر سنجیدہ ناول۔ اسٹرن سے پہلے ’’فیلڈنگ‘‘ نے یہی کام قدرے کم درجے پر کیا تھا کہانی کی تاناشاہی سے کافی حد تک نجات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ اگر انسانی فطرت یا وجود کی جہتوں کو دریافت کرنا ناول کا مقصد ہے تو بظاہر غیر اہم چیزیں ہی ہمارے سب سے بڑے مسائل بن جاتی ہیں۔ ’’ٹراسٹم شینڈی‘‘ کی اہمیت اسی امر میں پنہاں ہے۔ آگے چل کر کنڈیرا نے ’’بیانیہ‘‘ کے بارے میں ایک بہت اہم نکتہ اُجاگر کیا ہے۔ ’’بیانیہ‘‘ جو کچھ بیان کرتا ہے وہ ہوچکا ہوتا ہے۔ اُس کا تعلق ماضی سے ہوتا ہے۔ ’’بیانیہ‘‘ اُس ماضی کو دوبارہ سے اکٹھا کرتا ہے اس لیے وہ صرف ایک خلاصہ یا تخلیص بن کر رہ جاتا ہے۔ مگر زندگی کا اصل چہرہ، زندگی کی اصل حکایت صرف زمانۂ حال میں یعنی لمۂ موجود میں ہی پائے جاتے ہیں تو آخر گزرے ہوئے واقعات کو یا وہ جو گم ہوچکا ہے، اُسے کس طرح زمانۂ حال میں پیش کیا جاسکتا ہے؟ بقول میلان کنڈیرا یہا ں ناول کے فن نے ایک حل ڈھونڈ نکالا ہے۔ وہ حل یہ ہے کہ ماضی کو مناظر (Scenes) کی طرح پیش کیا جائے سین وجودیاتی اعتبار سے ہمیشہ زمانۂ حال میں پیوست ہوتا ہے ہم سین کو دیکھتے ہیں اور سنتے ہیں۔ ’’بالزاک‘‘ نے یہی کام کیا ہے آگے کی سطروں میں کنڈیرا نے ٹالسٹائی کے ناول ’’اننا کریّنا‘‘ میں اننا کی خودکشی کی وجوہات سے بحث کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ ’’داخلی خود کلامی‘‘ کی ایجاد جوائس نے نہیں بلکہ ٹالسٹائی نے کی تھی، خود کشی سے پہلے اننا کے ذہن میں کیا برِیا تھا کیسے کیسے خیالات وہاں آرہے تھے اور کس طرح وہ اپنے باطن میں خود کلامیوں کے ایک بے ربط سلسلے میں گرفتار تھی۔ آخر میں کنڈیرا اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ آرٹ کی تاریخ دہراؤ یا تکرار ’’Repitition‘‘ کو گوارہ نہیں کرتی جبکہ اس کے برعکس ’’انسانی تاریخ‘‘ ’’دہراؤ‘‘ کی بد مذاقی کو ہی پسند کرتی ہے۔ آج اگر کوئی بالزاک‘‘ کی نقل میں ایک دوسری Human Comedy لکھے گا تو وہ صرف مذاق کا نشانہ بن سکتا ہے۔ آرٹ کی تاریخ اور انسانی تاریخ کا یہ بہت بڑا فرق ہے اور اس فرق کو اچھی طرح سمجھے بغیر ادبی مورخ کبھی اپنے فرض سے سبکدوش نہیں ہوسکے گا۔
دوسرے حصّے کا نام ’’Die Weltiterature‘‘ ہے۔
کنڈیرا کسی فن پارے کو دو مختلف سیاق کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یا تو اس کے اپنے ملک و قوم کے سیاق میں یا پھر ان حدوں کو پار کرتا ہوا جسے وسیع ترسیاق کا نام دیا جاسکتا ہے۔ موسیقی کو ہم زیادہ تر وسیع سیاق میں ہی دیکھتے ہیں۔ مگر ناول کیوں کہ ایک زبانی ساخت ہے، اس لیے ہر درس گاہ میں اسے اس زبان و قوم کے حوالے سے ہی پڑھایا جاتا ہے۔ جس سے ناول کا تعلق ہو۔ کنڈیرا کے خیال کے مطابق یوروپ ابھی تک اپنے ادب کو ایک تاریخی اکائی کی صو رت میں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جب کہ ناول کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ یوروپ کی مختلف قوموں کے ادیبوں نے ایک دوسرے سے بہت اثر لیا ہے۔ ایک قوم کے ادیب نے دوسری قوم کے ادیب کی روایت کو آگے بڑھایا ہے۔ کنڈیرا نے Rabelias اور Sterne، Cerventes اور Fielding وغیرہ کی مثالیں پیش کرتے ہوئے یوروپین ناول کے ارتقا پر روشنی ڈالی ہے۔ کنڈیرا نے گیٹے کی مثال بھی پیش کی ہے جس نے سب سے پہلے Weltiterature ’’یعنی عالمی ادب‘‘ کے عہد کے بات کی تھی اور ’’کسی ایک قوم کے ادب‘‘تک محدود رہنے کے تصور کو رد کرنا چاہا تھا۔ کنڈیرا نے یہاں ایک بار پھر چھوٹی قوموں مثلاً چیکوسلواکیہ یا پولینڈ، اور بڑی قوموں مثلاً فرانس ’جرمنی‘ انگلینڈ وغیرہ کا فرق اجاگر کیا ہے اور اس حوالے سے ان کے ادب کو سمجھنا چاہا ہے۔ کافکا، میوزل، بروخ وغیرہ وسطی یوروپ کے عظیم ادیبوں میں سے ہیں مگر وہ کبھی کسی تحریک کا نام نہ بن سکے کیوں کہ یہ سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں مگر ناول کو غنائی شاعری سے محفوظ رکھنے کا کام ان سب میں مشترکہ ہے۔
کنڈیرا نے مضمون میں Kitsch اور Vulgarity پر تفصیل سے گفتگو کرتے ہوئے، ماڈرن ازم کے اس پہلو پر روشنی ڈالی ہے جسے ’’Anti modrnism‘‘ کہا جاسکتا ہے لفظ ’’ماڈرن‘‘ کی معاشی، نفسیاتی اور سیاسی جہات اور ان سے پیدا شدہ کنفیوژن کو بڑی خوبی کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔
تیسرے حصے کا نام ’’Getting into the Soul of things‘‘ ہے۔ کنڈیرا سنیت بیو‘‘ کے اس اعتراض سے اپنی بات کی ابتدا کرتا ہے جو اس نے فلابیر کے ناول مادام بوواری پر کیا تھا۔ سنیت بید ’’کا کہنا تھا کہ‘‘ مادام بوواری ’’میں اچھائی یا خیر کا عنصر بہت کم ہے‘‘ ’’سنیت بیو‘‘ ناول میں اخلاقیات کو ٹھونسنا چاہتا تھا۔ (کنڈیرا کا کہنا ہے کہ آج ’’سوشلسٹ رئیلیزم‘‘ والے بھی یہی کر رہے ہیں)۔ مگر فلابیر نے اس اعتراض کا جو جواب دیا تھا، کنڈیرا کے خیال میں اس سے ناول کے اصل مقصد کو سمجھنے میں بے حد مدد مل سکتی ہے۔ فلابیر نے کہا تھا کہ نہ تو وہ تنقید لکھ رہا تھا اور نہ ہی طنز نہ ہی وہ اپنے فیصلوں کو ناول کے ذریعے اپنے قاری کو پہنچانے کا کوئی ارادہ رکھتا تھا، وہ تو بس یہ چاہتا تھا کہ اشیا کی روح تک کیسے پہنچا جائے کیونکہ ’’ناول‘‘ عام معنی میں ادبی صنف نہیں ہے، یعنی ایک گھنے گنجان درخت کی کسی ایک شاخ کی طرح ناول اپنے آپ میں خود مختار ہے۔ اس کی اپنی تاریخ ہے، اور دوسری اصناف سے الگ ارتقا ہے۔ اس لیے ’’ہر من بروخ‘‘ نے ناول کی اخلاقیات کو ’’علم‘‘ کا نام دیا تھا۔ علم کی کھوج، کے علاوہ ناول کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی۔
کنڈیرا نے سارتر کے فلسفۂ وجودیت اور اس کے ’’Theatre of Situations‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ناول کی تاریخ میں سارتر سے بہت پہلے یہ کام انجام دیا جاچکا ہے کیوں کہ ’’وجود‘‘ کی پوشیدہ جہات کی دریافت کا دوسرا نام ناول ہے۔ یہاں ایک بار پھر کنڈیرا نے کافکا کے حوالے سے وہ باتیں دہرائی ہیں جو وہ اس سے پہلے کرچکا ہے۔
نفسیاتی ناول اور فلسفیانہ ناول کو رد کرتے ہوئے کنڈیرا ’’Thinking Novel‘‘ کی اصطلاح کا استعمال کرتا ہے۔ بروخ کا ناول The Sleep walkers اور میوزل کا ناول ’’The man without qualities‘‘ اسی زمرے میں آتے ہیں۔ ناول میں ’’ایک سوچتی ہوئی آواز‘‘ ہمہ وقت موجود رہتی ہے اور ’’اس آواز‘‘ کے ذریعے ناول وہ سب کچھ کہنے پر قادر ہے جو کہیں اور کسی دوسری طرح نہیں کہا جاسکتا۔ اس طرح ناول میں ’’مزاح‘‘ کا عنصر ناگزیر ہے۔ ’’Gombrowicz‘‘ کے ناول Ferdy durke کے حوالے سے کنڈیرا کا خیال ہے کہ یہ کتاب پڑھنے والوں کو آج ایک ’’ماڈرنسٹ‘‘ کی کتاب نظر آسکتی ہے۔ جبکہ یہ اس زمانے میں لکھی گئی تھی جب ناول کی شناخت تک پوری طرح قائم نہ ہوئی تھی اور Fielding نے اسے لمبا چوڑا نام دیا تھا یعنی۔ ’’Prosai-comi-epic writing‘‘۔
آگے چل کر کنڈیرا نے گابرئیل گارسیا مارکیز سے چکو سلواکیہ میں ہوئی اپنی ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ (رائیٹرز یونین کی طرف سے وہاں مدعو کیے گئے لاطینی امریکی ادیبوں میں کارلوس فیونیتس‘‘ اور ’’حولیو کورتازار‘‘ بھی شامل تھے) مارکیز کے ناول One Hundred years of Solititude کو کنڈیرا نے ’’ایک عظیم شاعری‘‘ کہا ہے اور اس نکتے کی وضاحت کی ہے کہ شاعری اور غنائیت (Lyricism) دو الگ الگ چیزیں ہیں اور مارکیز کا کوئی رشتہ Lyricism سے نہیں ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ جہاں انیسویں صدی کے ناول میں ’’سین‘‘ کی بھرمار ہوتی تھی، وہاں مارکیز بالکل مخالف سمت میں چلتا ہے اس کے اس عظیم ناول میں ایک بھی ’’سین‘‘ نہیں ہے۔
کنڈیرا نے لاطینی امریکہ اور وسطی یوروپ کے درمیان بہت سی مماثلتیں دریافت کی ہیں۔ بیسویں صدی کے ناول کا ا رتقا ان دونوں خطوں میں ایک ہی نہج پر ہوا ہے۔
’’The Curtain‘‘ کے چوتھے حصے کا عنوان ’’What is a Novelist‘‘ ہے۔ اس حصے کا آغاز کنڈیرا نے شاعر اورر ناول نگار کے موازنے سے کیا ہے۔ ہیگل نے کہا تھا کہ غنائی شاعری کا مواد دراصل خود ’’شاعر‘‘ ہی ہوتا ہے۔ ’’غنائی شاعری‘‘ شاعر کا اپنا پورٹریٹ ہے۔ وہ ہمیشہ داخلیت کا شکار رہتا ہے۔ کنڈیرا کا خیال ہے کہ ناول کا جنم ’’غنائی دنیا‘‘ کے کھنڈر پر ہوتا ہے۔ یعنی ناول غنایت کے قطعاً برعکس ہے۔ کنڈیرا فلابیر کے ناولوں کے کرداروں کے حوالے سے اس بحث کو آگے بڑھاتا ہے۔ فلابیر کے کردار غنایت سے کوسوں دور ہیں مگر فلابیر ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ اپنے دوستوں کے مشورے پر عمل کرنے کے بعد ہی اُس نے ایسی تحریریں لکھیں جو اس Lyricism کے خلاف تھیں۔
کنڈیرا نے آگے چل کر کہا کہ جادو کا ایک پردہ جو Legends سے بُنا گیا تھا کائنات پر ڈال دیا گیا تھا۔ اُس پردے کو پھاڑکر پھینک دینے کے لیے ’’سروینٹیس‘‘ نے ’’ڈان کیہوٹے‘‘ کو بھیج دیا۔ ڈان کیہوٹے کے سفر کی منزل یہی تھی۔ ’’دُنیا‘‘ اُس کی ’’نثر کے مِزاح‘‘ کا مقابلہ نہ کرسکی۔ وہ پردہ پھٹ گیا۔ دنیا کی اصلیت بے نقاب ہوگئی۔ یہ ’’Comic‘‘ کی طاقت تھی جو بڑے بڑے اسراروں پر سے پردہ اُٹھا دیتی ہے اور ’’ناول‘‘ میں اس طاقت سے بڑی کوئی چیز نہیں ہوتی۔
کنڈیرا نے ’’فنکار‘‘ کی شہرت (Fame) کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی دوسرے شخص (مثلاً سرجن، کھلاڑی، سیاست دان) کے مقابلے ایک فنکار کی شہرت زیادہ خطرناک شے ہے کیوں کہ کہیں نہ کہیں یہ لافانی ہوجانے کے تصور سے وابستہ ہے۔ ڈرامہ نگار ’’lonesco‘‘ نے وکٹر ہیوگو کے خلاف ایک پمفلٹ میں مشہور آدمیوں کی سوانح کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا ہے کہ مشہور آدمی خود مشہور ہونا چاہتے تھے۔ Ionesco شہرت یافتگی سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے۔
مارسل پروست کے ناول ’’In search of Lost time‘‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے، کنڈیرا کہتا ہے کہ یہ ناول سوانحی نہیں ہے اس میں ایسا ایک بھی عنصر نہیں ہے جو افسانوی نہ ہو۔ پروست اپنے بارے میں بتاتے ہوئے بھی دراصل اپنے پڑھنے والوں کو اُن کی زندگی کی تصویریں دکھاتا ہے۔ یہ سوانح سے بالکل مخالف چیز ہے۔مضمون کے آخر میں کنڈیرا نے Cerventes کے بارے میں ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ جس زمانے میں اُس نے اپنے ناول کا دوسرا حصّہ نہیں لکھا تھا۔ ایک گمنام سا ادیب اُس کے پاس آیا جس نے پہلے ہی سے ایک فرضی نام سے ’’ڈان کیہوٹے‘‘ کا دوسرا حصّہ لکھ ڈالا تھا اور وہ اسے شائع کرانا چاہتا تھا۔ Cerventes نے اُس وقت جو کیا، آج کسی بھی ادیب سے اُس کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ Cerventes غیظ و غضب سے بپھر اُٹھا۔ اُس نے چربہ لکھنے والے ادیب پر غصے سے حملہ بھی کیا اور بہ آواز بلند یہ اعلان کیا۔
’’ڈان کیہوٹے صرف میرے لیے پیدا ہوا تھا اور میں اُس کے لیے۔ ڈان کیہوٹے عمل کرنا جانتا تھا اور میں لکھنا ’’وہ‘‘ اور ’’میں‘‘ ایک ہیں‘‘۔
اس واقعے کو مثال کی طرح پیش کرتے ہوئے میلان کنڈیرا اس خیال کی پُرزور تائید کرتا ہے کہ ناول نگار اپنی ’’تخلیق‘‘ کا اکیلا مالک ہے۔ جو ناول نگار ہے وہی اُس کی تخلیق ہے۔ یہ دونوں الگ الگ نہیں، بلکہ ایک ہیں، چاہے اس بات کو کوئی تسلیم کرے یا نہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
پانچویں حصّے کا نام ’’Aesthetics and Existence‘‘ ہے۔ کنڈیرا جمالیات کو اسی صورت میں قبول کرتا ہے جب اُس کی جڑیں وجود میں پیوست ہوں۔ وجود کی مختلف جہات کے تعلق سے ہی جمالیات کے کوئی معنی ہوسکتے ہیں۔ اپیک (Epic) آرٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کنڈیرا نے اس کی سب سے بڑی خصوصیت عمل (Action) کو قرار دیا ہے۔ اُس زمانے کے معاشرے میں عمل سے بڑی آزادی کوئی نہیں تھی۔ بعد کے عہد میں جب ناول وجود میں آیا تو اس پر بھی عمل کی اجارہ داری قائم تھی مگر ناول میں عمل ایک مسئلے کی شکل میں سامنے آیا اور اس نے بہت سے سوالات کو جنم دیا مثلاً ’’عمل‘‘ کیا ہے؟ کیا تا بعداری کو ’’عمل‘‘ کا نام دیا جاسکتا ہے؟ پھر یہ کہ آزادی کے کیا معنی ہیں اور ایک دفتر شاہی ماحول میں یا معاشرے میں آزادی اور عمل دونوں کی کیا معنویت اور اہمیت باقی رہ جاتی ہے۔ کافکا اور جوائس نے ان سوالات کو اپنی انتہا تک پہنچا دیا۔
کنڈیرا نے آگے چل کر Agelast (یعنی وہ لوگ جو ہنسنے کی صلاحیت سے محروم ہیں اور مزاح کے بارے میں ان باتوں کو دہرایا ہے جو اس کے گذشتہ مضامین میں تفصیل کے ساتھ آچکی ہیں اور جن کا ذکر اس کتاب میں پیچھے آچکا ہے۔
’’The Curtain‘‘ کے چھٹے حصے کا نام ’’The Torn-curtain‘‘ ہے۔ اس مقام پر میلان کنڈیرا نے ایک با رپھر کافکا کو موضوع بحث بناتے ہوئے لطیفے اور مزاح کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ کافکا کے ناول The Trial کے پہلے باب کو ایک مزیدار شے یا لطیفے کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے اور جب کافکا نے اسے اپنے دوستوں کو سنایا تھا تو وہ اس سے بہت محظوظ ہوئے تھے مگر کافکا پریوں کی داستان نہیں سنا رہا تھا، نہ ہی اس کا مقصد کسی Fantasy کو بیان کر نا تھا۔ کافکا تو اس مزاحیہ صورت حال کو (جس میں K گرفتار تھا) ایک وسیع تر مفہوم پہنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ ایک بہت ہی سنجیدہ اور دل ہلا دینے والی حقیقت کو بیان کرنے والا تھا۔ بقول کنڈیرا کافکا، لطیفے کی سیاہ گہرائیوں تک پہنچنا چاہتا تھا۔
’’بیوروکر ٹیک دنیا‘‘ کے وجودی معنی کافکا نے اپنے ناولوں اور کہانیوں کے ذریعے ہم پر منکشف کیے ہیں۔ اس باب میں بھی گذشتہ اوراق میں تفصیل کے ساتھ گفتگو کی جاچکی ہے۔مزاح اور لطیفے کو ایک ادبی طریقہ کار کی طرح استعمال کرتے ہوئے عظیم ناول نگاروں نے کائنات پر پڑے سارے جادوئی پردوں کو اکھاڑ پھینکا ہے اور کائنات اپنی ننگی حقیقت کے ساتھ ناول کے فن کے آگے کھڑی تھرتھراتی رہی ہے۔
کتاب کے ساتویں اور آخری حصے کا عنوان The Novel, Mermory, Forgetting ہے۔
میلان کنڈیرا کا اہم سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا شے ہے جو انسان کو اس کے ماضی سے جدا کردیتی ہے؟ ظاہر ہے کہ ایک تو فراموشی کی طاقت ہے جو ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے اور دوسری ایک طاقت اور بھی ہے، حافظے کی طاقت جو چیزوں کو بدلتی رہتی ہے اور ساتھ ساتھ خود بھی بدلتی رہتی ہے۔ جب کوئی ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کسی گفتگو کے دوران ہم نے کیا کہا تھا۔ اس وقت ہم اپنے آپ کو پہچان نہیں پاتے ہیں جو کچھ بھی ہم نے کہا تھا۔ اب اس کا کوئی تعلق اس بات سے نظر نہیں آتا جو ممکن ہے کہ کبھی ہمارے ذریعے کہا گیا ہو۔ یہ بڑی سادہ سی بات ہے مگر ہم اس کا نوٹس نہیں لیتے۔ جہاں تک فراموشی کا سوال ہے وہ ہمارے ہر عمل کو آہستہ آہستہ ایک پرچھائیں ایک غیر حقیقی شے اور دھندلے پن میں بدلتی جاتی ہے۔ تین منٹ پہلے میں کیا سوچ رہا تھا مجھے یاد نہیں۔ شاعری تو فراموشی کے حملے سے تھوڑی بہت بچ جاتی ہے۔ رٹ لینے پر بار بار لوگوں کے سامنے سنانے پر اور خاص طور پر غنائی شاعری (کنڈیرا جس کے بہت خلاف ہے) تو حافظے کا ایک قلعہ تعمیر کرلیتی ہے۔
مگر ناول۔ افسوس کہ فراموشی کے حملے سے بچنے کے لیے اس کے پاس کوئی قلعہ نہیں ہوتا۔ ایک گھنٹے میں ہم ناول کے بیس صفحات پڑھتے ہیں۔ ناول چار سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس طور پڑھنے میں ایک ہفتہ گزر جائے گا۔ کنڈیرا کا کہنا ہے کہ یہیں سے ہم بھولناشروع کرتے ہیں گذشتہ اوراق میں کیا تھا۔ ہمیں بس اس کی Summary یاد رہ جاتی ہے مگر ناول نگار پھر بھی اپنے ناول کو ایک سانیٹ کی طرح لکھتا ہے وہ اپنے ناول کی تعمیر جن جمالیاتی اور فنی اصولوں کی بنیاد پر کرتا ہے، وہ اختتام تک پہنچتے وقت قاری کے ذہن سے نکل جاتے ہیں۔ لیکن بقول کنڈیرا ناول نگار کو قاری کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے ناول کو حافظے کا ایسا مضبوط قلعہ بنانے کی کوشش کرنی چاہئے جسے فراموشی کے ذریعے کبھی منہدم نہ کیا جاسکے۔
مضمون کے آخر میں میلان کنڈیرا ایک بوجھل دل کے ساتھ اُس دن کے بارے میں سوچتا ہے جب شاید ناول ختم ہوجائے گا۔ اُس کے لیے یہ امر باعثِ اطمینان نہیں ہے کہ کسی ناول کو تھیٹر یا فلم میں ڈائجسٹ کرکے محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ ناول کے اپنے فن کو یا اُس کی کہانی کو توڑ مروڑکر فلم میں پیش کرکے بچایا جاسکتا ہے؟ شاید کبھی نہیں۔
کنڈیرا کہتا ہے کہ ایک دن آنے والا ہے جب سارا آرٹ ختم ہوجائے گا۔ وہ صرف اجتماعی زندگی کے ایک غلام کی حیثیت سے زندہ رہے گا۔
آرٹ کی تاریخ مٹ جانے والی ہے۔ مگر آرٹ کے معمے اور پہیلیاں ابدی ہیں۔
میلان کنڈیرا کی مذکورہ بالا تینوں کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد فوری طور پر یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ اُس کے یہاں تکرار بہت ہے۔ مگر جیساکہ عرض کیا جاچکا ہے کہ ناول کے بارے میں یہ اُس کے ذاتی خیالات ہیں اس لیے وہ بار بار ایک ہی بات پر اصرار کرتا نظر آتا ہے۔ اُس کے یہ خیالات باغیانہ نوعیت کے ہیں اور ناول کے فن، اُس کی تاریخ اور اہمیت پر اُس نے سکّہ بند نقادوں کی روش پر چلنے سے انحراف کیا ہے۔ راقم الحروف کا خیال ہے کہ دنیا کے کسی بھی زبان و ادب میں لکھے گئے ناول کو سمجھنے کے لیے میلان کنڈیرا کی اِن تصانیف کا غائر مطالعہ ناگزیر ہے۔
ایک ویری ایشن (Variation) کا تعارف:
میلان کنڈیرا کی اِن تصانیف کے جائزے کے بعد یہ نامناسب محسوس ہوتا ہے کہ اُس کے اِس مشہور مضمون بعنوان ایک Variation کا تعارف کا ذکر نہ کیا جائے۔ یہ مضمون اُس کے ڈرامے ’’Jacques and his master‘‘ کے پیش لفظ کے طور پر لکھا گیا تھا۔ یہ ڈرامہ چیک زبان میں 1971 میں شائع ہوا تھا۔ 1968 میں میلان کنڈیرا کی تمام تصانیف پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اُس کی معاشی حالت کمزور ہورہی تھی۔ اُس زمانے میں ایک ڈائریکٹر نے اُسے یہ مشورہ دیا کہ وہ دستہ ئف سکی کے ناول ’’ایڈیٹ‘‘ کو اسٹیج پر ڈرامے کے طور پر پیش کرے۔ مگر کنڈیرا کا کہنا ہے کہ ’’ایڈیٹ‘‘ کا دوبارہ مطالعہ کرنے کے بعد مجھے معلوم ہوگیا کہ فاقوں سے مرجانا آسان ہے مگر ’’ایڈیٹ‘‘ کی کراہیت انگیز فضا کو برداشت کرنا مشکل ہے۔ دستہ ئف سکی کے یہاں کنڈیرا کو جو چیز سب سے زیادہ ناگوار گزرتی ہے وہ یہ ہے کہ اُس کے یہاں ہر شے صرف ایک جذبے یا احساس میں بدل جاتی ہے اور بالآخر جذبے ہی قدر یا سچائی بن جاتے ہیں۔ اس مضمون میں کنڈیرا نے احساسات اور اقدار کا فرق بیان کیا ہے۔ کیوں کہ جب ایسا ہوتا ہے تو ایک قسم کی نارواداری کی بنیاد پڑ جاتی ہے۔ اس کو کارل یونگ نے The super Structure of Brutality کہاہے۔ سنت آگستین کا قول تھا کہ ’’خدا سے محبت کرو اور پھر تم آزاد ہو‘‘۔ یعنی سچائی کا معیار بجائے ظاہر کے، باطن کی طرف دھکیل دیا گیا۔ پھر بھی کنڈیرا یہ تسلیم کرتا ہے کہ نشاۃ ثانیہ کے بعد سے مغربی طرزِ احساس میں ہمیشہ جو توازن رہا ہے وہ اس کی تشکیک پسندی ہے اس لیے کنڈیرا چاہتا تھا کہ نشاۃ ثانیہ کے بعدکی مغربی فضا میں جی بھر کر سانس لے سکے۔ اُسے یہ فضا ’’دیدرو‘‘ کے ناول Jacques la Fatalise میں نظر آئی۔ یہ ناول ذہانت، مزاح اور Fantasy کا ایک شاہکار کہا جاسکتا ہے۔
اس لیے میلان کنڈیرا نے اس ناول کو ڈرامے کے قالب میں ڈھالنے کا ارادہ کرلیا۔ یہاں میلان کنڈیرا نے لارنس اسٹرن کے ناول ’’ٹراسٹم شینڈی‘‘ کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ کنڈیرا کا کہنا ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ناول اپنے سارے امکانات ختم کرچکا ہے۔ میں اُن کو یہ جواب دینا چاہوں گا کہ اپنی چار سو سالہ تاریخ میں ناول نے اپنے بہت سے امکانات کی تفتیش ہی نہیں کی۔ ’’ٹراسٹم شینڈی‘‘ بھی ایک ایسا ہی امکان تھا۔ اس ناول کو ’’کھیل اور تفریح‘‘ بھی سمجھا جاسکتا ہے اور یہاں وحدت عمل نام کی کوئی شے نہیں پائی جاتی۔ اسٹرن سے اگر کسی نے کچھ سیکھا تو وہ ’’دیدرو‘‘ تھا۔ ان دونوں نے ناول کے ارتقا میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا تھا مگر ان دونوں کی ناول نگاری کو تقریباً فراموش ہی کردیا گیا۔
دیدرو کے ناول میں ایک راوی نہیں بلکہ پانچ پانچ راوی ہیں۔ جو درمیان میں ایک دوسرے کی باتیں کاٹتے رہتے ہیں۔ قصّے چلتے رہتے ہیں جو مکالموں کی شکل میں ہیں اور ایک مکالمہ دوسرے مکالمے میں پیوست ہوجاتا ہے۔ اس طرح یہ پورا ناول ایک لمبی چوڑی گفتگو اور پُرشور بحثا بحثی میں بدل جاتا ہے۔ دیدرو کے یہاں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اُس کے کردار آتے کہاں سے ہیں؟ یا اُن کی عمریں کیا ہیں؟ ناول کبھی یہ باور نہیں کراتا کہ اُس کے کردار واقعتا زمان و مکان کے کسی مخصوص سانچے میں جی رہے ہیں۔ ناول کی تاریخ میں اس سے پہلے یہ کبھی نہیں ہوا۔ اسٹرن کے یہاں بھی نہیں۔
کنڈیرا اپنے ڈرامے کو ناول کا Adaptation نہیں کہتا۔ وہ اسے دیدرو پر اپنا Variation مانتا ہے ۔ کنڈیرا نے Variationکو موسیقی کے سیاق میں استعمال کیا ہے۔ اُس کے لغوی معنی میں نہیں۔ Adaptation کو وہ ایک کمتر شے سمجھتا ہے جو کہ اصل فن پارے کو اُس کے حسن سے محروم کردیتا ہے اور معنویت سے بھی خالی۔ کنڈیرا کے مطابق عظیم ناولوں کا اسٹیج کے لیے Adaptation ایک قسم کی Reader-Digest کے سوا کچھ نہیں۔
میلان کنڈیرا اس Variation کو دیدرو کے لیے اپنی خراج تحسین یا عقیدت کا نام بھی دیتا ہے۔ یہ دو ادیبوں کی ایک گوناگوں مُڈ بھیڑ ہے اور دو صدیوں کی بھی۔ کنڈیرا نے اپنے ڈرامے کا تعمیری خاکہ بھی پیش کیا ہے۔ ژاک اور اس کے استاد کے سفر کے واقعے کو مرکز بناکر تین عثقیہ کہانیاں بُنی گئی ہیں اور وحدت عمل کے اصول کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ ڈرامے میں Polophony کی تکنیک کا بھی بہت دخل ہے۔ یہ تینوں کہانیاں سلسلے وار نہیں پیش کی گئی ہیں مگر ایک دوسرے سے منسلک ہیں Variation کی یہ تکنیک دیدرو کو خراج عقیدت بھی پیش کرتی ہے۔ کنڈیرا نے کہا کہ اس Variation میں میری دلچسپی اس لیے بھی ہے کہ میں ژاک کے استاد کے ساتھ یہ نعرہ لگانا چاہتا ہوں کہ
’’مُردہ مُردہ باد وہ تمام لوگ جو لکھے ہوئے کو دوبارہ لکھنے کی جرأت کرتے ہیں۔۔۔ چلو ان کو خصّی کردو اور ان کے کان کاٹ کر پھینک دو۔‘‘
میلان کنڈیرا کا یہ ڈرامہ سب سے پہلے 1980 میں یوگو سلاویہ کے ایک شہر Zagreb میں اسٹیج کیا گیا اس کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں بھی۔ امریکہ میں ڈرامے کو انگریزی قالب میں 1985 میں پیش کیا گیا تھا جس کی ہدایت کار مشہور امریکی ادیبہ ’’سوزن سون تانگ‘‘ تھی۔
میلان کنڈیرا نے اور بھی بہت سے مضامین لکھے ہیں جن کا جائزہ اس مختصر سے مطالعے میں ممکن نہیں ہے۔
آئندہ صفات میں میلان کنڈیرا کے فکشن کا ایک عمومی جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔


(ب) میلان کنڈیرا کا فکشن
(i) کہانیاں
(ii) ناول

(i) کہانیاں
Laughable Loves:

میلان کنڈیرا کی سات کہانیوں کا یہ مجموعہ 1969 میں شائع ہوا تھا۔ کنڈیرا اپنی اس کتاب کو خود بہت پسند کرتا ہے کیوں کہ یہ جن دنوں لکھی گئی تھی۔ وہ بقول کنڈیرا اس کی زندگی کے بہترین دن تھے۔
یہ ساری کہانیاں شہوت اور محبت کے باہمی رشتے کے ارد گرد گھومتی ہیں۔ جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے کہ عورت اور مرد کی جنسی قربت کے وقت کنڈیرا کے مطابق، ایک ایسی روشنی پھوٹتی ہے جو ان کے گہرے وجودیاتی اسراروں پر سے پردہ اٹھا دیتی ہے۔ ان کہانیوں میں ہر عورت کا ایک یا دو مردوں سے جنسی تعلق ہے، اور یہیں سے ان کے وجود کے مسائل سامنے آتے ہیں۔ تقریباً ساری کہانیوں میں Don Juan کا تھیم مشترک نظر آتا ہے۔
مجموعے کی پہلی کہانی کا نام ’’The Hitchhiking Game‘‘ ہے۔ کہانی صرف اتنی ہے کہ ایک لڑکا اور لڑکی گرمیوں کی ایک چھٹی کے دن سیر کے لیے کارپر نکلتے ہیں۔ وہ آپس میں تفریح کے مقصد سے ایک کھیل کھیلنے کا ارادہ کرتے ہیں۔ وہ اس طرح بن جاتے ہیں جیسے ایک دوسرے کو نہیں جانتے۔ لڑکا عورتوں کا ایک شکاری بننے کی اداکاری کرتا ہے اور لڑکی اس Hitchhiker کارول نبھاتی ہے جو جنسی ملاپ کی توقع میں ہو۔ مگر جوں جوں یہ کھیل آگے بڑھتا جاتا ہے، ان کے اصل رشتے میں کھائیاں پڑتی جاتی ہیں، لڑکا اس کو حقیقی معنی میں ہی طوائف سمجھنے لگتا ہے اور لڑکی بھی آہستہ آہستہ اپنے آپ کو ایک آبرو باختہ کے روپ میں دیکھنے لگتی ہے۔ اس ڈرامے کا انجام ان کے اصل رشتے کے انہدام پر مبنی ہے۔ یعنی محض ایک کھیل، ان کے رشتے کے خاتمے کا سبب بن جاتا ہے۔ یہ کھیل اور تفریح کا بھیانک پن ہے جس کے ذریعے کنڈیرا نے انسانی وجود کی عمیق ترین گہرائیوں کو چھو لیا ہے۔ اس کہانی کو بجا طور پر مصنف کے ایک شاہکار کی حیثیت حاصل ہے۔
دوسری کہانی ’’Let the old dead make room for the Young Dead‘‘ ہے۔ ایک مرد اور عورت پندرہ سال بعد ’اتفاقاً کسی سڑک پر مل جاتے ہیں، عورت مرد سے عمر میں زیادہ ہے اور وہ قبرستان سے واپس آرہی ہے جہاں اس کے مرحوم شوہر کی قبر غائب ہوچکی ہے، مگر اس کے باطن میں اپنے شوہر کی یادوں کا مقبرہ صحیح و سلامت موجود ہے، مرد عورت کو اپنے گھر لاتا ہے۔ پندرہ سال پہلے وہ اس عورت کے عشق میں گرفتار تھا مگر ان کا جنسی ملاپ نہ ہو سکا تھا۔ اب ’پندرہ سال بعد اس کمرے میں‘ دونوں کے جسم ملتے ہیں مگر عورت خود کو روشنی میں اس کے سامنے بے لباس کرنے سے جھجک رہی ہے کیوں کہ اس کی گردن کی جھریاں ۔ پیٹ پر آپریشن کا نشان اور سب سے بڑھ کر زیر ناف بالوں کا سفید ہوجانا۔ سب کچھ سامنے آجائے گا۔ سرکے بالوں کی سفیدی بے عزتی کا سبب نہیں مگر زیرناف بالوں کا سفید ہوجانا، بھیانک ہے۔ مرد عورت کو زبردستی بے لباس کرنا چاہتا ہے اور عورت اسے منع کرتی ہے۔ مگر دوسری طرف مرد کو صرف اس بات سے دلچسپی ہے کہ وہ سب کچھ اسے نظر آجائے جو وہ کبھی نہیں دیکھ سکا تھا۔ آہستہ آہستہ عورت کے اندر اُس کی یادوں کا مقبرہ ٹوٹنے لگتا ہے اُسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اُس کا سارا ماضی اور ساری یادیں اُس سے باہر ہیں۔ وہ خود کو بے لباس کرنا شروع کردیتی ہے۔ یہیں کہانی کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اس کہانی کی ایک ایک سطر میں رمز ہے۔ میلان کنڈیرا نے اس چھوٹی سی کہانی میں اپنے فن کی تمام بلندیوں کو چھو لیا ہے۔ سنجیدگی، اُداسی، مزاح اور سب سے بڑھ کر فراموشی کی ایک چھوٹی سی بوطیقا کے طور اس کہانی کو ناقابل فراموش قرار دیا جاسکتا ہے۔ راقم الحروف کے خیال میں باقاعدہ وجودی فکشن لکھنے والوں میں بھی ایسی کوئی تحریر نہیں ملتی جس سے انسانی وجود کی اندھیری سُرنگوں کو اس طرح روشن کردیا گیا ہو کہ قاری کی آنکھیں چندھیا جائیں۔
مجموعے کی تیسری کہانی کا عنوان ’’No Body will Laugh‘‘ ہے۔ یہ ایک ایسی مزاحیہ کہانی ہے جس کی سنجیدگی کا احساس قاری کو کہانی کے اختتام سے پہلے نہیں ہوتا۔ ایک مصنف اخبار میں اپنی کتاب پر تبصرہ لکھوانے کے لیے کہانی کے راوی کے پیچھے پڑجاتا ہے۔ تبصرہ لکھنے کے لیے راوی تیار نہیں ہے کیوں کہ کتاب میں سب کچھ، اُس کی دانست میں بکواس ہے مگر وہ ایک منفی تبصرہ بھی نہیں لکھنا چاہتا کیوں کہ اُس کے خیال میں مصنف نے اُس کا بھلا کیا بگاڑا ہے۔ کہانی کا راوی طرح طرح کے جھوٹ بول کر کتاب کے مصنف کو ٹالتا رہتا ہے مگر مصنف بھی اُس کے پیچھے ملک الموت کی طرح پڑ گیا ہے۔ صورت حال مزاحیہ ہوتی جاتی ہے۔ راوی مصنف سے پیچھا چھڑانے کے لیے اپنی محبوبہ کا سہارا لیتا ہے۔ انجام کار اُس کی محبوبہ اُسے چھوڑ دیتی ہے اور راوی کو اپنی نوکری سے بھی ہاتھ دھونے پڑسکتے ہیں۔ کہانی اس مقام پر ختم ہوجاتی ہے۔ محض تفریح، ٹال مٹول اور جھوٹے بہانوں کا انجام ایک ٹریجڈی پر ہوتا ہے۔ کہانی کا عنوان معنی خیز ہے اور اُس فضا کی نمائندگی کرتا ہے جس میں سنجیدگی حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ مریضانہ اور غبی قسم کی سنجیدگی۔ مزاح کے پہلو اور اُسی میں پوشیدہ سنجیدگی کو ایک ساتھ قبول کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہے۔ دنیا ’’Age last‘‘ بنتی جارہی ہے۔
Laughable Loves کی چوتھی کہانی کا نام ’’The golden apple of eternal desire‘‘ ہے۔ کہانی کا راوی اور اُس کا دوست (جو ہر وقت عورتوں کو رجھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے) سڑکوں پر، کیفوں میں، اسپتالوں میں اور پارکوں میں کسی لڑکی کو رجھانے کی کوشش میں بھٹک رہے ہیں۔ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے مگر اُنھیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ راوی کا دوست اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا ہے دوسری طرف خود راوی اپنے دوست کو یہ کہہ کر دھوکہ دیتا رہتا ہے کہ اُس نے میڈیکل کی ایک طالبہ کو پھنسا رکھا ہے۔ دوست اُس میں بے حد یقین رکھتا ہے مگر راوی کو دوست کی گپ بازیوں میں کوئی یقین نہیں ہے۔ عورت کی خواہش یہاں ’’عورت‘‘ سے زیادہ قوی ہوجاتی ہے۔ یہ ایک ابدی خواہش ہے جس کے ذریعے انسان خود اپنے آپ کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ایک سنجیدہ اور فلسفیانہ سوال کو میلان کنڈیرا نے بہت ہی سہجتا کے ساتھ اس کہانی میں سمو دیا ہے جب کہ اوپری سطح پر یہ کہانی ایک کھیل یا تفریح کا التباس پیش کرتی ہے۔
مجموعے کی پانچویں کہانی کا عنوان ’’Symposium‘‘ ہے۔ یہ ایک عجیب و غریب کہانی ہے جو پانچ کرداروں پر مشتمل ہے۔ پانچوں افراد (تین مرد اور دو عورتیں) میڈیکل کالج سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر کے اسٹاف روم میں بیٹھ کر یہ افراد عورت، محبت، جنسیات اور شہوت پر ایک علمی گفتگو کررہے ہیں، جو کسی سمپوزیم سے مشابہہ ہے۔ ایک فرد کی بات کو دوسرا کاٹتا ہے یا آگے بڑھاتا ہے۔ ہر شخص بار بار اپنے بیان کو بدلتا ہے۔ اس درمیان ایک عورت شراب پینے کے بعد کپڑے اتارکر ناچنے لگتی ہے۔ ایک دوسرے کی بے عزتی کرنا ایک لامتناہی سلسلے میں بدل جاتا ہے۔ وہی عورت بے لباس ہوکر خودکشی کی کوشش کرتی ہے۔ سمپوزیم میں لوگ اُس کا سبب تلاش کرتے وقت بے حد سنجیدہ اور علمی گفتگو پر اُتر آتے ہیں۔ اس خودکشی کا ذمہ دار کون ہوسکتا ہے؟ اس پر مکالمہ شروع ہوجاتا ہے۔ پوری کہانی رشک و رقابت، سیکس اور شہوانیت کے موضوع کو طرح طرح سے بیان کرتی ہے جس سے کہ Polyphony بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ ایک سنجیدہ فضا میں جس قسم کا مزاح پیدا ہوتا ہے وہ صرف کنڈیرا سے مخصوص ہے۔ اسی گفتگو کے درمیان سارے افراد کی وجودی پرتیں کھلنے لگتی ہیں اور کہانی قاری پر کچھ اسرار منکشف کرنے کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔ یہاں اس نکتے کی جانب توجہ مبذول کرانا ضروری ہے کہ میلان کنڈیرا کی کسی کہانی یا ناول کی تلخیص بیان کرنا اگر ناممکن نہیں، تو بے حد مشکل ضرور ہے کیوں کہ اُس کے فکشن میں کہانی اور واقعے سے زیادہ وہ صورت حال اہم ہوتی ہے جس میں اُس کے کردار گھرے ہوتے ہیں اور پھر اس سے بھی زیادہ یہ کہ مصنف کا کرداروں کے بارے میں اپنا تجزیہ لگاتار جاری رہتا ہے اس لیے اُس کے فکشن پر روایتی انداز میں کوئی تبصرہ نہیں کیا جاسکتا۔
’’Dr Havel after ten Years‘‘ اس مجموعے کی چھٹی کہانی کا نام ہے۔ ڈاکٹر Havel کا کردار ’’سمپوزیم‘‘ میں بھی موجود ہے جہاں اُن پانچ افراد میں وہ مرکزی اہمیت کا حامل تھا۔ ڈاکٹر Havel ایک زبردست عورت باز ہے اور اخبار کا ایک ایڈیٹر اُس کی اس شہرت کے سبب اُس کا انٹرویو لینا چاہتا ہے۔ ڈاکٹر Havel ان دنوں ایک Spa میں اپنی تلی کی تکلیف کا علاج کررہا ہے۔ spa میں وہ ایک دو عورتوں کو لبھانے کی کوشش کرتا ہے مگر اسے ناکامی حاصل ہوتی ہے۔ اپنی اس بے عزتی کا بدلہ وہ کسی اور سے نہیں بلکہ اسی بے چارے نوجوان ایڈیٹر سے لیتا ہے اور وہ اس طرح کہ وہ ایک بھدی اور عمررسیدہ لیڈی ڈاکٹر کی پوشیدہ شہوانیت کے گن گا کر ایڈیٹر کو اس سے جنسی تعلق قائم کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ ایڈیٹر کو Dr Havel پر پورا اعتبار ہے۔ وہ لیڈی ڈاکٹر سے جنسی تعلق قائم کرتا ہے مگر قربت کے ان لمحات میں ڈاکٹر اس سے اپنے دو خوبصورت بیٹوں کے بارے میں ہی بات کرتی جاتی ہے۔ ایڈیٹر خود کو ٹھگا ہوا محسوس کرتا ہے۔ جب وہ ڈاکٹر Havel کو یہ سچ بتاتا ہے تو Havel اس واقعے پر ایک فلسفیانہ لکچر دے کر اسے پھر سے بے وقوف بنا دیتا ہے۔ اس کہانی کو ’’سمپوزیم‘‘ کے ساتھ ہی پڑھنا چاہئے تاکہ اس کی معنویت پوری طرح اجاگر ہوسکے۔
Laughable Loves کی آخری کہانی ’’Edward and God‘‘ ہے۔ کہانی اس طرح ہے کہ اسٹالنی زمانے کا ایک مدرّس ایک مذہبی لڑکی کا دل جیتنا چاہتا ہے۔ وہ یہ پوز کرتا ہے کہ وہ خود بھی مذہبی انسان ہے۔ اس بات کے مشہور ہونے سے وہ مشکل میں پڑ جاتا ہے۔ کیوں کہ اسکول میں اسے جس مارکسزم اور دہریت کو پڑھانے کے لئے رکھا گیا تھا، وہ اس کی تعلیم کو ناقص اور ادھورا سمجھتے ہیں اور دوبارہ اُسے تربیتی کیمپ روانہ کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ وہ کسی کو یہ نہیں سمجھا سکتا کہ یہ جھوٹ اس نے صرف ایک لڑکی کو حاصل کرنے کے لیے بولا تھا۔ تقریباً یہی تھیم کنڈیرا کے ناول The Joke کی ابتدا میں بھی موجود ہے۔
Laughable Loves کی ساری کہانیاں Paradoxes سے بھری ہوئی ہیں۔ ہر کہانی میں لطیفہ ’’سنجیدگی‘‘ بن جاتا ہے اور سنجیدگی ایک مذاق یا ہنسی ٹھٹے میں بدل جاتی ہے مگر ان کہانیوں کو پڑھنا ایک عام قاری کے لیے آسان نہیں۔ تفریح اور چٹکلے بازی کی یہ کہانیاں اپنی زیریں سطح پر اتنی پیچیدہ بھی ہیں جیسے ریاضی کی کوئی ساخت ہوتی ہے۔ فکشن کو کہانی یا واقعہ کے طور پر پڑھنے والے معصوم قاری کا سر بھی چکرا سکتا ہے۔ ان تمام کہانیوں کا تھیم ایک ہی ہے۔ Kitsch، نمائش اور فرسودگی کو بری طرح رد کرنے والی یہ سات کہانیاں مزاحیہ فضا میں تشکیل ہونے کے باوجود تشکیک اور افسردگی سے بھری ہوئی ہیں جو خود اپنے آپ میں ایک Paradoxial صورت حال ہے۔ (میلان کنڈیرا کی تحریر کردہ پہلی کہانی کا عنوان ’’I The mournful God‘‘ تھا جو 1958 میں لکھی گئی تھی اور Laughable Lovesکے 1968 تک کے اڈیشنوں میں شامل رہی ہے مگر بعد کے اڈیشنوں میں اسے شامل نہیں کیا گیا کیوں کہ کنڈیرا کے ’’سات حصے والے اصول‘‘ کو برقرار رکھنے کے لیے شاید یہ ’’زائد‘‘ تھی۔ راقم الحروف کو یہ کہانی ابھی تک انگریزی میں کہیں دستیاب نہیں ہوئی ہے۔ اگرچہ اس کے تھیم کے بارے میں جگہ جگہ ذکر ملتا ہے۔ فی الحال یہ کہانی اس مطالعے میں زیر بحث نہیں ہے)

(ii) ناول

(1) The Joke: میلان کنڈیرا کا یہ پہلا ناول ہے جو 1967 میں شائع ہوا تھا۔ میلان کنڈیرا کے ناولوں پر گفتگو کرتے وقت ہمیں اس کی ان تین کتابوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے جو اس نے ناول کی تاریخ اور فن پر لکھی ہیں (ان تینوں کتابوں پر گزشتہ باب میں تفصیل سے گفتگو ہوچکی ہے) اور یہ بھی کہ وہ یوروپین ناول نگاری کی اُس روایت کی پاسداری کرتا نظر آتا ہے جو انیسویں صدی سے پہلے کی ہے اور جس میں مزاح، کھیل کود اور تفریح کے علاوہ ناول نگار خود اپنے کرداروں کا تجزیہ کرتا چلتا تھا۔ میلان کنڈیرا، ہرمن بروخ کا ہمنوا ہوکر اس بات کا بھی اعلان کرتا ہے کہ ناول کا اصل کام انسانی وجود کی پوشیدہ جہات کو دریافت کرنا ہے۔
The Joke کمیونزم کی خوش فہمیوں اور پُراُمیدی کو رد کرتا ہے اسٹالنی دور کے چیکو سلواکیہ میں جب کمیونزم کا پروپیگنڈا زندگی کا ایک ایسا رویہ بن چکا تھا جو سرکاری طور سے تھوپی گئی غنایت کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ ’’سچائی‘‘ کہیں دور گُم ہوگئی تھی اور جذبات نے ہی اقدار کا چولا پہن لیا تھا۔ The Joke اس فضا کی نمائندگی کرنے والا ناول ہے مگر کنڈیرا اسے سیاسی ناول کا نام نہیں دنیا چاہتا اگرچہ بہت سے نقادوں نے The Joke کو اسٹالینی آمریت کے خلاف ایک احتجاج کا نام دیا ہے۔ کنڈیرا کا کہنا ہے کہ اسٹالینی آمریت اس ناول کے بہت سے Themes میں سے ایک ہوسکتی ہے مگر سہل پسندی کے ساتھ پورے ناول کو سیاسی ناول قرار دنیا حق بجانب نہ ہوگا۔ میلان کنڈیرا کے بقول ایک مخصوص تاریخی صورت حال میں گرفتار انسان کے مقدر اور اس کے وجود کی گہرائیوں میں چھپے اسرار کو دریافت کرنا اس ناول کا مقصد ہے۔ ناول کا ہیرو Ludvik جو ایک کمیونسٹ طالب علم ہے، اپنی محبوبہ کو متاثر کرنے کے لیے بغیر سوچے سمجھے ایک پوسٹ کارڈ لکھ کر بھیج دیتا ہے۔ محبوبہ جس کا نام مارکرٹیا ہے۔ اُس زمانے میں اُس سے دوٗر سیاسی ٹریننگ حاصل کرنے کے لیے گئی ہوئی ہے۔ مارکرٹیا پر یہ ثابت کرنے کے لیے کہ اُس کی جدائی ناقابلِ برداشت ہے؛ Ludvik پوسٹ کارڈ میں یہ لکھ کر بھیج دیتا ہے کہ ’’رجائیت عوام کے لیے افیم ہے! صحت مند ماحول سے بے وقوفی کی بُو آتی ہے۔ ٹراٹسکی زندہ باد!‘‘ دراصل یہ ایک قسم کا معصوم مذاق تھا کیوں کہ Ludvik کو بہت دنوں سے یہ احساس ہورہا تھا کہ مارکرٹیا ٹریننگ کیمپ میں بہت خوش ہے۔ مارکرٹیا کی خوشی Ludvik کو گراں گزر رہی تھی۔ اس چھوٹے سے پوسٹ کارڈ نے Ludvik کی زندگی کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ اسے پارٹی سے نکال دیا گیا۔ یونیورسٹی چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا۔ اُسے کانوں میں مزدوری کے کام پر لگنے کا حکم دیا گیا۔ اس کے بہت سالوں بعد Ludvik کو "Pavel Zemarek" نام کے اُس ساتھی طالب علم سے بدلہ لینے کا موقع ملا جو اُس کی تباہی کا ذمہ دار تھا۔ وہ پاویل کی بیوی Helena کو اپنی محبت کے جال میں پھنسا لیتا ہے تاکہ پاویل کی شادی شدہ زندگی تباہ ہوسکے۔ مگر Pavel اپنی بیوی سے خود ہی چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس مقصد میں گویا Ludvik اُس کا مددگار ہی ثابت ہوتا ہے۔ یہی وہ Paradoxes ہیں جن کے بے رحم دھاگوں سے کنڈیرا اپنے تمام ناولوں کی بُنت کرتا ہے۔ Ludvik جو اپنے آپ کو دانشورانہ اور تجزیاتی صلاحیتوں کا مالک سمجھتا ہے، اصل میں ایک جذباتی احمق ہی ثابت ہوتا ہے۔ اس کے تمام اعمال و افعال کنڈیرا کی زبان میں Lyrical ہیں۔ یہی حال Helena کا بھی ہے۔ ناول کا پورا اسٹرکچر موسیقی کے اُصولوں کے زیر تحت تیار کیا گیا ہے۔ ناول کے کئی ابواب موسیقی سے بھی متعلق ہیں۔ کہانی کو چار کرداروں کی زبان سے ادا کرایا گیا ہے۔ چاروں کردار کبھی کبھی ایک واقعے کو اپنے اپنے زاویۂ نظر سے بیان کرتے ہیں۔ اس لیے ناول میں نہ صرف کثیر الجہتی پیدا ہوتی ہے بلکہ Polyphony کی آمیزش بھی ہوجاتی ہے، The Joke کے خاص تھیم انتقام، فراموشی، شناخت، زبان کا بحران اور تاریخ یا خدا کی طرف سے انسان سے کیے گئے مذاق ہیں۔ کنڈیرا نے جگہ جگہ مزاحیہ صورت حال پیش کرتے ہوئے، انسان کے خارج اور باطن دونوں کی دھجیاں اُڑاکر رکھ دی ہیں، باقی جو بچا رہ جاتا ہے۔ وہ وجودِ انسانی کے پوشیدہ جوہر ہیں۔ مثال کے طور پر Helena غصّے اور انتقام میں خودکشی کرنا چاہتی ہے مگر غلطی سے زہر کی گولیوں کی جگہ وہ جُلاب کی گولیاں کھا جاتی ہے اور اُس کے بعد؟ بس پھر وہ کموڈ پر ہی بیٹھی ہوئی ہے۔ کیسی بھیانک مضحکہ خیزی ہے۔ ایک Irony ! یہی کسی لطیفے کی سیاہ، تاریک گہرائیاں ہوتی ہیں۔
’’The Joke‘‘ نے میلان کنڈیرا کو مغربی دُنیا میں مشہو ر کردیا۔ دُنیا بھر کی زبانوں میں اس ناول کا ترجمہ ہوا مگر اس ناول کے ترجموں کے ساتھ بھی مذاق ہی ہوا۔ وہ اتنے ناقص تھے کہ میلان کنڈیرا کو اپنے ناولوں میں استعمال شدہ الفاظ کی ایک ڈکشنری لکھنی پڑی۔ ناول کی مقبولیت اور شہرت کے سبب سے، میلان کنڈیرا کو پراگ میں اپنی پروفیسر شپ سے ہاتھ دھونا پڑے اور اُس کی تمام کتابوں پر پابندی لگا دی گئی۔ اسے ’’The Joke‘‘ کی زبردست کامیابی کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے۔
کنڈیرا نے اپنے مضمون Introduction to a Variation میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’ہر ناول جس پر حقیقی معنوں میں ’’ناول‘‘ لفظ کا اطلاق ہوسکتا ہے، دنیا کو سنجیدگی کے ساتھ ہی برتتا ہے مگر سنجیدہ ہونے کا مطلب کیا ہے اگر آدمی خود بھی اُسی بات پر یقین رکھتا ہے جس پر وہ دوسروں سے رکھوانا چاہتا ہے تو پھر وہ بالکل سنجیدہ ہے‘‘۔ میلان کنڈیرا کے اس ناول میں ہر چیز پر شک کیا گیا ہے اور ہر شے پر جرح کی گئی ہے اُس کے باوجود یہ ناول لطیفوں کی ایک کتاب کے بطور بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ کنڈیرا کے مخصوص ادبی اُسلوب کی ایک جھلک پیش کرنے کی خاطر، آخر میں The Joke کے چند صفحات کا ترجمہ حاضرِ خدمت ہے۔

The Joke
حصّہ اوّل

لُڈوِک
(باب دوم)
مجھے زبردست مصیبت میں ڈالنے والے واقعات (لوسی کے تئیں سخت رویے کے نتیجے بطور) بڑے ہلکے پن اور تفریحی ڈھنگ سے بھی لئے جاسکتے ہیں۔ اس مصیبت کی شروعات ہوئی میری بے وقوفانہ چٹکلے بازی سے اور مارکریٹا کی ان کو ناسمجھ پانے کی صلاحیت سے۔ مارکریٹا اس قسم کی لڑکی تھی جو ہر بات کو سنجیدگی سے لیتی۔ (اس نے خود کو اپنے عہد کی روح کے ساتھ ہم آہنگ کردیا تھا)۔ تقدیر سے اسے جو بڑا تحفہ ملا وہ تھا کان کا کچا ہونا۔ مگر اس کے سبب اسے احمق نہیں کہا جاسکتا۔ نہیں، وہ ذہین اور باصلاحیت لڑکی تھی۔ کافی جوان بھی (19 سالہ)۔ اس کا بھولاپن اسے ناقابل یقین نہیں بلکہ پرکشش زیادہ بناتا تھا۔ ساتھ ہی اس کی جسمانی کشش کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یونیورسٹی میں ہر کوئی اسے پسند کرتا تھا، ہم سبھی تھوڑی بہت چٹکیاں لیتے رہتے تھے۔ جس نے (ہم میں سے کم سے کم کچھ کو) اس کے لئے تھوڑا کینہ پرور بنا دیا تھا۔
اصل میں، مارکریٹا کے ساتھ بڑا برا مذاق ہوا اور وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اور بھی برا۔ فروری 1948ء کے بعد پہلا سال تھا۔ نئی زندگی شروع ہوئی تھی۔ نئی اور مختلف زندگی۔ اس کا حلیہ جیساکہ مجھے یاد ہے بہت زیادہ سنجیدہ تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس پُرفکر سنجیدگی نے چڑچڑے پن کی جگہ پر مسکراہٹ کا روپ لے لیا تھا۔ وہ سب سے زیادہ خوشی کے بھی سال تھے۔ جو بھی لطف اندوز نہیں ہوپاتا تھا اسے فوراً مزدور طبقے کے کامیابی کے تئیں شکی سمجھ لیا جاتا تھا، اسے ا نفرادی اعتبار سے باطنی مصائب کا راستہ کہا جاسکتا ہے۔ اس وقت مجھے کچھ باطنی کرب تھے۔ لیکن میں مزاحیہ سا بنا رہتا تھا۔ اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ میں اس زمانہ کی مسرت کے لائق ہوگیا تھا۔ میرے مذاق زیادہ سنجیدہ نہیں ہوتے تھے۔ جہاں تک فوری خوشی کا سوال ہے، میں نہ تو شرارت، نا ہی طنز برداشت کرپاتا تھا جیسا کہ میں نے کہا، جسے فخر کہا جاتا تھا۔ ’’فاتح طبقے کی تاریخی امید پرستی،‘‘ اور مجھے یاد ہے کہ ہم نے خود کو ایسے اسٹڈی گروپوں میں شامل کرلیا تھا جن میں ہم اکثر تنقید اور خود کا محاسبہ کرتے تھے اور آخر میں ہر فرد کے کام کا یقینی تجزیہ ہوتا تھا۔ ان دنوں ہر کمیونسٹ کی طرح میرے پاس بھی بہت سے اصول تھے (اسٹوڈنٹ یونین میں میں ایک اہم عہدے پر تھا)۔ چوں کہ میں کافی اچھا طالب علم مانا جاتا تھا، اس لیے میرا تجزیہ مثبت ہوتا تھا۔ ایسا مجھے گمان تھا۔ جب کبھی ریاست کے تئیں میری وفاداری، میری کڑی محنت، میرے مارکسیت کے علم کی تعریف کے بعد اگر یہ برائیاں بھی جوڑی جاتی تھیں کہ مجھ میں ’’انفرادیت کے کچھ جراثیم بھی دیکھے جاتے ہیں۔‘‘ تو مجھے اس میں کوئی حیرانی نہیں ہوتی تھی کیوں کہ یہ رواج تھا کہ اچھے سے اچھے کارکن میں بھی کچھ نہ کچھ برائیاں ضرور ڈھونڈی جاتی تھیں۔
ایک آدمی کو، انقلابی اصول میں دلچسپی کی کمی، دوسرے کو شخصیاتی معاملوں میں حوصلے کی کمی تیسرے کو، احتیاط اور ہوشیاری کی کمی، چوتھے کو عورتوں کے تئیں احترام کی کمی، کے لئے کو ساجاتا تھا۔ کبھی کبھی میں (اصلی فکر سے زیادہ کچھ رواداری میں) نفرادیت کے الزام کے خلاف اپنا بچاؤ کرتا تھا اور دوسروں سے اس بات کی تصدیق چاہتا تھا کہ میں انفرادیت پسند کہاں ہوں؟ ٹھوس ثبوتوں کی کمی میں وہ کہتے، تمہاری عادت ہی ایسی ہے۔‘‘ ’’کیسی ہے میری عادت؟‘‘ ’’تمہاری مسکراہٹ کچھ عجیب طرح کی ہے۔‘‘ ’’اور اگر ہے تو؟ اسی طرح سے میں اپنی خوشی ظاہر کرتا ہوں۔‘‘ ’’نہیں تم ایسے ہنستے ہو جیسے تم خود کو بہت بڑا سمجھ رہے ہو۔‘‘
جب کامریڈمیری مسکراہٹ اور برتاؤ، کو دانشورانہ‘‘ (اس وقت کا ایک طعنہ) ماننے لگے میں اصل میں ان کا یقین کرنے لگا کیوں کہ میں یہ تصور نہیں کرسکتا تھا۔ (میرے پاس امید کرنے کی ہمت نہیں تھی) کہ کوئی اور غلط ہوسکتا ہے۔ انقلابی روح خود میں غلط ہوسکتی ہے اور میں ایک آدمی صحیح ہوسکتا ہوں۔؟ میں نے اپنی مسکراہٹ کی نگرانی رکھنی شروع کی، اور جلد ہی میں جیسا آدمی تھا اور جیسا مجھے ہونا چاہئے، ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔ (زمانے کی روح کے مطابق) کے بیچ میں چھوٹی سی درار پڑگئی۔
کیوں کہ اصل میں، میں کیا تھا؟ پوری ایمانداری سے کہوں کہ میں بہت سے چہروں والا آدمی تھا۔
یہ چہرے بڑھتے رہے۔ گرمیوں سے ایک مہینہ پہلے میں مارکریٹا کے نزدیک آگیا (وہ اپنی پڑھائی کا پہلا سال پورا کررہی تھی اور میں دوسرا) کسی بیس 20 سالہ لڑکے کی طرح ایک مکھوٹا پہن کر اور اپنی قامت سے زیادہ بڑا دکھا کر میں اسے متاثر کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ (جذبات اور تجربے) میں لاتعلقی اور تنہائی کی ہوا میں آگیا مجھے یقین ہوگیا کہ میرے اوپر جسم کی ایک اور بھی تہہ ہے، جو نادیدہ ہے۔ میں نے سوچا (بالکل ٹھیک سے) کہ مذاق کے ذریعے میں اپنی لاتعلقی ثابت کردوں گا۔ ایسا کرنے میں میں ہمیشہ سے ہی مناسب تھا۔ لیکن مارکریٹا کے ساتھ ایسا کرنا زبردستی، بناوٹی اور اباؤ ہوجاتا تھا۔
اصل میں میں کون تھا؟ میں صرف دوہرا سکتا ہوں میں بہت سے چہروں والا آدمی تھا۔ کیا میرا آخری چہرہ اصلی تھا۔
نہیں وہ سبھی چہرے اصلی تھے۔ میں ڈھونگی نہیں تھا کہ ایک چہرہ اصلی ہو اور بہت سے جھوٹے۔ میرے کئی چہرے اس لئے تھے کیوں کہ میں جوان تھا اور نہیں جانتا تھا کہ اصل میں میں کیسا ہوں اور کیسا ہونا چاہتا ہوں۔ میں ان مختلف چہروں سے خوف زدہ تھا۔ ان میں سے کوئی بھی مجھ پر فٹ نہیں بیٹھتا تھا اور میں ان کے بیچ سے اناڑیوں کی طرح راستہ ڈھونڈ رہا تھا۔
محبت کی نفسیاتی اور عضویاتی میکانیات اتنی مشکل ہے کہ زندگی میں ایک صحیح وقت پر ایک نوجوان کو اپنی پوری طاقت سے محبت گرفت میں کرنے کے لئے مرکوز کر دینا چاہئے۔ ورنہ وہ محبت کے محور کو گُم کرسکتا ہے۔ اس لڑکی کو بھی جسے وہ محبت کرتا ہے۔ (اس تعلق میں وہ بہت کچھ جوان وائلین بجانے والے کی طرح ہوتا ہے جو موسیقی کے کسی ٹکڑے کے جذباتی عنصر پر تب تک توجہ مرکوز نہیں کر پاتا جب تک کہ اسے بجانے کی صحیح تکنیک خود نہیں آتی، مجھ پر واضح کردینا چاہئے کہ یہ میرے محبت کرنے کی وجہ سے اتنا نہیں جتنا میری خود اعتمادی کی کمی سے ہوا جو مجھ پر بھاری پڑگیا۔
اپنی پریشانی اور بے وقوف نظر آنے کے بوجھ کو کم کرنے کے لئے، میں مارکریٹا کے سامنے ہر چیز کو للکارنے لگا۔ ہر موقع پر، میں نے اس کے ساتھ اتفاق کرنا چھوڑدیا۔ یا اس کی رائے کا مذاق بنانے لگا۔ ایسا کرنا مشکل نہیں تھا کیوں کہ ذہین ہوتے ہوئے بھی اس لڑکی میں (اس میں خوبصورتی بھی تھی اور سبھی خوبصورت لڑکیوں کی طرح اس میں یہ غلط فہمی تھی کہ اکثر اسے حاصل کرنا ناممکن ہے۔) ایک سادگی تھی اور سب پر یقین کرنے کی عادت تھی۔ پر وہ چیزوں کے پیچھے کی حقیقت کو نہیں پکڑ پاتی تھی۔ وہ چیزوں کی اوپری سطح تک ہی رہ جاتی تھی۔ اسے علم نباتات کی اچھی سمجھ تھی لیکن وہ ساتھیوں کے ذریعہ کئے گئے مذاق کو سمجھنے میں اکثر ناکام رہتی تھی۔ وہ خود کو وقت کے ساتھ بہہ جانے دیتی تھی۔ اُسے گرمیوں کے دوران تربیتی سیشن میں دو ہفتے کے لئے بھیج دیا گیا۔
یہ ٹریننگ میرے حق میں اچھی نہ تھی کیوں کہ یہ وہ دو ہفتے تھے جنہیں میں نے مارکریٹا کے ساتھ پراگ میں تنہا گزارنے کا منصوبہ بنا یا تھا۔ میرے دماغ میں ایسے تعلقات کو زیادہ مضبوط بنیاد دینے کا منصوبہ تھا۔ (جس میں تب تک گھومنا، باتیں کرنا اور کچھ بوسے ہی شامل تھے) چوں کہ میرے پاس وہی کچھ ہفتہ تھے۔ (مجھے اگلے چار ہفتے زراعتی طلبہ برگیڈ میں گزارنے تھے اور آخری دو مراویہ میں اپنی ماں کے پاس گزارنے کا ارادہ تھا)، جب مارکریٹا میرے جذبوں میں شرکت تو تو دور، تھوڑی سی برہمی بھی دکھانے میں ناکام رہی اور یہ بھی بتایا کہ اسے اسی طرح کے سیشن کا بہت انتظار تھا تو مجھے تھوڑا دکھ اور


Testaments Betrayed(2)
(An Essay in Nine Parts)

میلان کنڈیرا کی یہ تصنیف پہلی بار 1995 میں شائع ہوئی۔ یہ ایک طویل مضمون کی شکل میں ہے جس کو نوحصوں میں تقسیم کیا گیا ہے (عام طور سے کنڈیرا کی تصانیف کو سات حصوں میں تقسیم کیا جاتا رہا ہے)۔
پہلے حصے کا عنوان The Day Panurge nolonger Makes People Laugh. اس حصے میں میلان کنڈیرا نے ناول میں مزاح (Comic) یا Humor کی اہمیت اور ایجاد پر گفتگو کی ہے۔ اس کے بقول ’’بغیر Comic‘‘ کے کوئی بڑا ناول تخلیق نہیں کیا جاسکتا۔ Rabalias کے ناول کے مزاحیہ کردار Panurge کو مزاح کی علامت بناتے ہوئے میلان کنڈیرا نے ناول کے فن پر بصیرت آمیز روشنی ڈالی ہے۔ Octaviopaz کا یہ قول نقل کرتے ہوئے کہ مزاح جدید حسّیت کی ایک بڑی ایجاد ہے، کنڈیرا نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مزاح اور ناول کی ایجاد ساتھ ساتھ ہوتی ہے۔ مزاح ہنسی، ٹھٹھا نہیں ہے۔ بھانڈپن اور طنز بھی نہیں ہے بلکہ یہ ’’کامک‘‘ کی ایک خاص ذات ہے جو ہر اس شے کو مبہم بنادیتی ہے۔ جسے چھولیتی ہے۔ یہ ایک معجزہ ہے۔
کنڈیرا نے اپنے ہم عصر ناول نگار سلمان رشدی کے ناول Stanic Verses کے بارے میں تفصیل سے بات کی ہے اور اسے اس زمانے کا بڑا کامک ناول قرار دیا ہے۔ کنڈیرا کے مطابق ا گر ’’کامک‘‘ کا شعور ادبی نقادوں کو ہوتا یا دوسرے لوگوں کو بھی تو اس ناول کو ’’اسلام پر کیے گئے حملے‘‘کی شکل میں نہ دیکھا جاتا۔ کنڈیرا یہ بھی کہتا ہے کہ انسانی تاریخ اور ناول کی تاریخ دو مختلف تاریخیں ہیں۔ کسی ناول کا جنم اس کی اپنی تاریخ میں ہوتا ہے۔ اس تاریخ میں خود کو محدود کرتے ہوئے ہی ہم اس کی قدر و قیمت متعین کرسکتے ہیں۔ یوروپین ناول کا تجزیہ کرتے ہوئے کنڈیرا نے ایک بار پھر ’’ہرمن بروخ‘‘ کے ناول The Sleep Walkers میں Polyphony سے بحث کی ہے اورناول کے کمپوزیشن پر تقریباً انہیں باتوں کو دہرایا ہے جو ’’دی آرٹ آف دی ناول‘‘ میں زیر بحث آچکی تھیں۔ کنڈیرا مایوسی کے ساتھ اُس یقینی دِن کے آنے کا انتظار کر رہا ہے جب Panurge (بے چارہ ؟) کسی کو نہیں ہنسا سکے گا۔
کتاب کے دوسرے حصے کا نام The Castrating Shadow of Saint Garta ہے۔ یہاں میلان کنڈیرا نے Max Brod کی کافکالوجی کا تجزیہ کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ کافکا لوجی گمراہ کن مفروضوں پر مبنی ہے اور اس کے ذریعے کافکا کی مکمل طور پر ایک غلط تعبیر پیش کی گئی ہے۔Brod نے 1926 میں ایک ناول لکھا تھا جو کنڈیرا کے مطابق بہت کمزور تھا۔ ’’The Enchanted Kingdom of love‘‘ نام کے اس معمولی سے ناول کو بالکل ہی بھلا دیا جاتا اگر اس میں ایک کردار ’Garta‘ نام کا نہ ہوتا۔ یہ کردار دراصل کافکا کی تصویر ہے Max Brod نے ’Garta‘ کو اپنے زمانے کا ’سینٹ‘ قرار دیا ہے۔
Max Brod کی کافکا لوجی کی بنیاد بھی یہیں پڑتی ہے جس کے مطابق کافکا کے یہاں شے ’’اور کردار تمثیل میں بدل جاتے ہیں اور مذہبی پیغامات، کو کافکا کے ناولوں میں ڈی کوڈ کرنے کا عمل بھی شروع ہوجاتا ہے۔کافکا لوجی میں کافکا کے ناولوں کو ادبی تاریخ کے وسیع تر تناظر میں سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ کافکا کی سوانح کی روشنی اس کی تفہیم کی جاتی ہے۔ دوسری بات یہ Max Brod کا رویہ رومانی ہے جب کہ کنڈیرا کے مطابق کافکا کے نالوں کی جڑیں اینٹی رومانٹک دنیا میں پیوست ہیں۔
کنڈیرا نے کافکا کے یہاں جنسی مناظر اور ان کی معنویت پر بھی نئے انداز سے روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
ناول کا کام حقیقی دنیا کو بھی گرفت میں لینا ہے مگر کافکا کا کمال یہ ہے کہ اس نے حقیقی دنیا میں Fantasy کو دیکھ لیا اور اس کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا۔ یہ کمال کس طرح ہوا۔ بقول کنڈیرا کافکا نے حقیقت کی دیوار میں ایک نقب لگا دی۔ اسی نقب یا شگاف میں سے گزرکر بہت سے فنکاروں نے کافکا کی تقلید کی چاہے وہ اٹلی کا عظیم فلمساز Fellini ہو، کارلوس فیوینیتس ہویا مارکیز ہو جس پر کافکا کی کہانی Meta morphosis پڑھ کر لرزہ طاری ہوگیا تھا۔ اس لیے کنڈیرا کا کہنا ہے کہ Saint Garta جائے جہنم میں۔ اس کی ختنہ کی ہوئی پرچھائیں نے ہر عہد کے ناول کے عظیم ترین شاعروں کو دیکھنے والی نظر پر پردہ ڈال رکھا ہے۔
کتاب کے تیسرے حصے کا عنوان "Improvisation in Homage to Stravinsky" ہے۔ اس حصے میں کنڈیرا نے یوروپ کے میوزک کی تاریخ اور یوروپین ناول کی تاریخ کے مختلف ادوار کا موازنہ کرتے ہوئے، میوزک اور ناول کی تاریخ میں چند مشترکہ عناصر کی دریافت کرنے کی کوشش کی ہے۔ بنیادی طور پر یہ حصہ مشہور موسیقار Stravinskyکے تئیں ایک خراج عقیدت کے طور پر لکھا گیا ہے۔ کنڈیرا نے ان تمام اعتراضات کا جواب دینے کی سعی بھی کی ہے جو Stravinsky پر کیے جاتے ہیں جن میں ’’تھیوڈور اڈورنو‘‘ جیسی شخصیت بھی شامل ہے، ’اوڈورنو‘ نے Stravinsky کے بارے میں اپنی کتاب ’’ The Philosophy of Modern Music ‘‘ میں لکھا ہے:
’’اس کا میوزک دنیا کے تئیں بے حس ہے‘‘۔
میلان کنڈیرا کا خیال ہے کہ Stravinsky کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ اس میں یوروپین میوزک کی ایک ہزار سالہ تاریخ سمائی ہوئی تھی۔ اس کے میوزک نے کچھ بھی فراموش نہیں کیا تھا۔ ایک بارپھر اپنے محبوب ناول نگار کافکا کے ناولوں کے تعلق سے، میلان کنڈیرا نے یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کی ہے کہ جس طرح کافکا ’جذباتیت‘ اور رومانیت، کے خلاف تھا، اس طرح Stravinsky بھی اپنے فنکارانہ رویوں میں اسی قسم کے ردّعمل کا اظہار کرتا تھا۔ اس لئے بظاہر قطعاً دو مختلف فنکاروں یعنی کافکا اور Stravinsky میں ایک ناقابل یقین مماثلت پیدا ہوجاتی ہے۔ یوروپین افسوس ہوا۔
تربیتی سیشن سے (جو وسطی بوہیمیا کے ایک محل میں ہو رہا تھا) اس نے مجھے ایک خط لکھا۔ جو مارکریٹا کا سو فیصد نمونہ تھا۔ اپنے آس پاس کی ہر ایک شے کے تئیں بلند حوصلے سے بھرا ہوا، اسے ہر چیز پسند تھی؛ صبح کی ورزش، تقریر، مباحثہ، یہاں تک کہ جوگانے وہ گاتے تھے وہ بھی ؛ اس نے وہاں کی صاف ستھری فضاؤں کی تعریف کی تھی؛ ساتھ ہی اس نے یہ بھی اضافہ کیا کہ مغرب میں اب انقلاب میں بہت دیر نہیں ہے۔
جہاں تک انقلاب کا سوال ہے، میں اس کی بات سے بالکل متفق تھا۔ میں بھی سمجھتا تھا کہ مغربی یوروپ میں انقلاب آنا ہے۔ صرف ایک بات میں قبول نہیں کرپاتا تھا کہ وہ اتنی خوش کیوں ہے، جب کہ میں اس کی کمی کو اتنا محسوس کررہا ہوں۔ اس لئے میں نے ایک پوسٹ کارڈ خریدا اور (اسے چوٹ پہچانے، جھٹکا دینے اور الجھن میں مبتلا کرنے کے لئے) لکھا۔ رجائیت عوام کے لئے افیم ہے!۔ صحت مند فصا سے بے وقوفی کی بو آتی ہے۔ ٹراٹسکی زندہ باد! لُڈوک۔
(بابِ سوم)
مارکریٹا نے میرے اشتعال انگیز پوسٹ کارڈ کا جواب بہت سرد اور اور مختصر سا دیا۔ بعد میں اس نے گرمیوں میں بھیجے گئے میرے باقی خطوں کا جواب ہی نہیں دیا۔ میں اپنی طالب علم بریگیڈ کے ساتھ اوپر پہاڑوں میں گھاس لگانے چلا گیا۔ مارکریٹا کی خاموشی سے مجھ میں گہری اداسی چھا گئی۔ میں اسے تقریباً ہر روز، التجا اور غمناک جذبوں سے بھرے خط لکھتا تھا۔ ایک خط میں نے لکھا۔ کیا ہم لوگ موسمِ گرما کے آخری دو ہفتہ ایک دوسرے کے ساتھ نہیں گزار سکتے؟ میں نے اس سے گزارش کی۔ میں اپنی بے چاری اکیلی ماں کے پاس گھر جانے کا ارادہ کو ترک کرسکتا تھا۔ میں مارکریٹا کے ساتھ رہنے کے لئے کہیں بھی جانے کو راضی تھا۔ یہ صرف اس لئے نہیں تھا کہ اس سے محبت کرتا تھا بلکہ اس لئے تھا کہ وہ میری زندگی کے افق پر موجود واحد لڑکی تھی اور مجھ جیسا لڑکا بغیر لڑکی کے نہیں رہ سکتا تھا۔ مگر مارکریٹا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہوگیا ہے۔ میں اگست میں پراگ لوٹ آیا اور اسے گھر پر ہی جالیا۔ ہم پہلے کی طرح ولا تابا کے کنارے اور امپریل میٹرو کے آس پاس گھومتے رہے (پیپل کے پیڑ اور کھیل کے میدانوں کا اداس ٹاپو)۔ مارکریٹا نے جتایا کہ ہم دونوں کے درمیان کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ کیا ہم اگلے دن مل سکتے ہیں تو اس نے مجھے فون کرکے وقت طے کرنے کے لئے کہا۔
اگلے دن میں نے اسے فون کیا۔ ایک غیر متعارف عورت کی آواز نے مجھے خبر دی کہ مارکریٹا پراگ سے چلی گئی ہے۔
میں اتنا ہی اداس ہوا جتنا کہ ایک بیس سالہ لڑکا لڑکی ناملنے پر ہوسکتا ہے۔ تھوڑا شرمیلا نوجوان۔ ایسا جس کی جسمانی محبت سے تھوڑی سی جان پہچان ہی ہوئی تھی۔ تھوڑے سے فوری تجربات اور میرا دِل جو مسلسل اسی میں ڈوبا رہتا تھا۔ دن ناقابلِ برداشت اور لمبے لمبے تھے۔ میں پڑھ نہیں پارہا تھا۔ کوئی بھی کام نہیں کر پارہا تھا۔ میں ایک دن میں تین الگ الگ فلمیں دیکھنے جاتا، ایک کے بعد دوسری صرف وقت گزارنے کے لئے، اپنے اندر سے اُٹھتی ہوئی ہوک کو دبانے کے لیے۔
مارکریٹا مجھے (اپنا دکھاوا کرنے کی کوششوں کا شکریہ!) ایسا آدمی سمجھتی تھی۔ جو عورتوں سے پوری طرح مالامال تھا۔ جو سڑک پر چلتی لڑکیوں سے بات کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا تھا۔ مگر لڑکیوں کی خوبصورت ٹانگوں کو دیکھ کر میرے دل میں کسک اٹھتی تھی۔
اس لئے ماہ ستمبر کی آمد سے میں بڑا خوش ہوا۔ کلاس شروع ہونے والے تھے اور (کلاسیں شروع ہونے سے کافی دن پہلے) طلبا کی لیگ میں میرا کام شروع ہونا تھا، جہاں میں خود کو دفتر کے مختلف کاموں میں مصروف رکھ سکتا تھا۔ میرے وہاں پہنچنے کے اگلے دن مجھے فون کے ذریعہ پارٹی کے ضلعی مرکز میں بلایا گیا۔
اس کے بعد مجھے ہر بات پوری روداد کے ساتھ یاد ہے۔
وہ ایک دھوپ سے نکھرا ہوا دن تھا اور جیسے ہی میں طلبا کی لیگ کی عمارت کے باہر آیا میں نے محسوس کیا جو دُکھ مجھے گرمیوں بھر ستاتا رہا تھا وہ اب کم ہونے والا ہے۔ میں چاہت کی امید لئے چل پڑا۔ میں نے گھنٹی بجائی اور میں پارٹی کے یونیورسٹی کمیٹی کے صدر کے ذریعہ فوراً بلا لیا گیا۔ وہ پتلے چہرے والا لمبا آدمی تھا، جس کے بال خوبصورت اور آنکھیں برفیلی نیلی تھیں۔ میں نے اس سے مروّجہ طریقے سے خوش باش کہا، ’’مزدور کی عزت ہو‘‘، لیکن بجائے جواب دینے کے وہ بولا ’’سیدھے پیچھے جاؤ۔ وہ تمہارا انتظار کررہے ہیں۔‘‘ سیکریٹریٹ کے آخری کمرے میں کمیٹی کے تین ممبران میرے انتظار میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے مجھے بیٹھنے کے لئے کہا۔ میں بیٹھ گیا اور میری سمجھ میں آگیا کہ یہ عام بات نہیں ہے۔ ان تینوں کا مریڈوں کو میں اچھی طرح جانتا تھا اور ہمیشہ ہنسی مذاق کیا کرتا تھا۔ ان کے چہروں پر سنجیدگی تھی۔
ان کا پہلا سوال تھا کہ کیا میں مارکریٹا کو جانتا ہوں؟ میں نے ہاں میں جواب دیا۔
انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میری اس کے ساتھ خط و کتابت ہوتی رہتی ہے؟ میں نے کہا ۔ ’’ہاں‘‘۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا مجھے یاد ہے کہ میں نے اسے کیا لکھا تھا۔ میں نے کہا ۔ ’’نہیں‘‘۔ لیکن فوراً ہی اشتعال انگیز عبارت والا میرا آخری پوسٹ کارڈ میری آنکھوں کے سامنے آگیا اور مجھے احساس ہوگیا کہ کیا معاملہ ہے۔ کیا تمہیں کچھ بھی یاد نہیں؟ انہوں نے پوچھا۔ ’’نہیں،‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’ٹھیک، تو مارکریٹا نے تمہیں کیا لکھا تھا‘‘؟ میں نے یہ احساس دلانے کے لیے کندھے اچکا دئیے کہ اس نے باہمی معاملات کے بارے میں لکھا تھا جن کے تذکرے میں عام طور سے نہیں کرسکتا۔ ’’کیا اس نے تربیتی نشست کے بارے میں کچھ لکھا تھا‘‘؟۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا۔ ’’ہاں‘‘ ۔ میں نے کہا۔ اس نے کیا کچھ لکھا تھا؟ اسے وہاں اچھا لگ رہا تھا۔ میں نے جواب دیا۔ اور؟ اسے وہاں کی سرگرمیاں، وہاں کی ساری فضا اچھی لگ رہی تھی۔ میں نے جواب دیا۔ کیا اس نے یہ بھی لکھا تھا کہ وہاں پر صحت مند ماحول ہے؟ ’’ہاں‘‘۔ میں نے کہا۔ میرے خیال سے اس نے ایسا ہی کچھ لکھا تھا۔ کیا اس نے لکھا تھا کہ وہ رجائیت کی قوت کی دریافت کررہی ہے؟ ’’ہاں‘‘ ۔ میں نے جواب دیا۔ اور تم، تمہاری رجائیت کے بارے میں کیا رائے ہے؟ انہوں نے مجھ سے پوچھا۔ رجائیت؟ میں نے کہا۔ مجھے ا س بارے میں کیا سوچنا ہے؟ کیا تم خود کو رجائی مانتے ہو؟ وہ کہتے رہے۔ ہاں، میں اپنے کو رجائی مانتا ہوں۔ میں نے ڈرتے ہوئے کہا۔ مجھے اچھا وقت گزارنا پسند ہے، خوب ہنسنا پسند ہے، تفتیش کے لہجے کو ہلکا بنانے کے مقصد سے میں نے کہا۔ ان میں سے ایک نے کہا، ایک انفرادیت پرست بھی خوب ہنسنا پسند کرسکتا ہے۔ وہ ان لوگوں پر ہنس سکتا ہے جو دکھ جھیلتے ہیں۔ ایک سنکی بھی خوب ہنسی ہنس سکتا ہے، وہ کہتا گیا۔ کیا تم سوچتے ہو کہ اشتراکیت بغیر رجائیت کے آسکتی ہے؟ ان میں سے دوسرے نے پوچھا۔ ’’نہیں‘‘ میں نے کہا۔ پھر تم ہمارے اشتراکیت کے لانے کے خلاف کیوں ہو؟ تیسرے نے کہا۔ تم کہنا کیا چاہتے ہو؟ میں نے مخالفت کی۔ تم سوچتے ہو کہ رجائیت لوگوں کے لئے افیم ہے۔ انہوں نے اپنے حملے کو تیز کرتے ہوئے کہا۔ لوگوں کے لیے افیم؟ میں نے کہا ٹالنے کی کوشش مت کرو۔ تم نے یہی لکھا تھا۔ مارکس نے لوگوں کے لئے مذہب کو افیم بتایا اور تم سوچتے ہو کہ ہماری رجائیت افیم ہے۔ تم نے مارکریٹا کو یہی لکھا تھا۔ ہمارے مزدور، ہمارے بہادر مزدوروں کو جب یہ معلوم ہوگا کہ منصوبوں کو مکمل کرنے والی ان کی رجائیت افیم ہے تو وہ کیا سوچیں گے، دوسرے نے لقمہ دیا۔ اور تیسرا، ٹھیک ہی ہے، ٹراٹسکی وادی کے لیے واقعی رجائیت افیم سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ تم ٹراٹسکی وادی ہو؟ خدا کے لئے تمہیں ایسا کیسے لگا؟ میں نے مخالفت کی۔ تم نے ایسا لکھا تھا، یا نہیں؟ ایسا ہوسکتا ہے کہ ایسا میں نے مذاق کے طور پر لکھ دیا، لیکن یہ دو مہینہ پہلے کی بات ہے، مجھے کچھ یاد نہیں پڑتا۔ ٹھیک ہے ہم تمہیں یاد دلاکر خوش ہوں گے۔ وہ بولے اور میرا پوسٹ کارڈ زور سے پڑھ کر مجھے سُنا دیا۔ امید رجائیت لوگوں کے لئے افیم ہے۔ صحت مند ماحول سے حماقت کی بو آتی ہے ٹراٹسکی زندہ باد! ہوں۔ لُڈوِک۔ پارٹی کے اس چھوٹے سے دفتر میں ان لفظوں کی آواز اتنی خوفناک تھی کہ میں نے محسوس کیا کہ ان لفظوں میں ایک تباہ کن طاقت ہے اور میں اس کا سامنا کرنے کے لئے خالی ہاتھ ہوں۔ ’’ساتھیو، یہ مذاق میں لکھا گیا تھا‘‘۔ میں نے یہ سوچتے ہوئے کہا کہ وہ مجھ پر یقین نہیں کریں گے۔ کیا تم اسے مذاق مانتے ہو؟ ان میں سے ایک کا مریڈ نے دوسرے سے پوچھا۔ ان دونوں نے نفی میں سر ہلایا ’’آپ کو مارکریٹا کو جاننا ہوگا‘‘ میں نے کہا۔ ’’ہم جانتے ہیں‘‘۔ انہوں نے جواب دیا۔‘‘ تب کیا تم نہیں جانتے کہ مارکریٹا ہر بات کو سنجیدگی سے لیتی ہے۔ ہم ہمیشہ سے اس سے تھوڑا مذاق کرتے ہیں، اسے چوٹ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’’بڑی دلچسپ بات ہے‘‘، ایک کا مریڈ نے جواب دیا۔ تمہارے دوسرے خطوں میں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ تم مارکریٹا کو سنجیدگی سے لینے میں ناکام رہے ہو۔ ’’تمہارا مطلب تم مارکریٹا کو لکھے میرے ہر خط کو پڑھ چکے ہو؟ کیا اسی وجہ سے تم مارکریٹا کا مذاق بناتے تھے؟ دوسرے نے کہا۔ ’’کیا وہ ہر بات کو سنجیدگی سے لیتی ہے؟ ‘‘ اب ہمیں بتاؤ وہ کن باتوں کو سنجیدگی سے لیتی ہے؟ جیسے پارٹی، رجائیت، نظم و ضبط ٹھیک؟ کیا یہ وہ باتیں ہیں جن پر تمہیں ہنسی آتی ہے؟ سمجھنے کی کوشش کرو، کا مریڈ، میں نے ایسے ہی لکھ ڈالا ہوگا، یہ بس کچھ جملے ہیں، ایک مذاق تھا، میں نے اس کے بارے میں دوبارہ سوچا بھی نہیں۔ اگر اس سے میرا کوئی غلط مطلب ہوتا تو میں اسے پارٹی کی تربیتی نشست میں نہیں بھیجتا۔ تم نے یہ کیسے لکھا، یہ بیکار بات ہے۔ تم نے اسے جلدی جلدی لکھا یا دھیرے دھیرے، اپنی گود میں رکھ کر لکھا یا میزیر رکھ کر لکھا، تم وہی لکھ سکتے تھے جو تمہارے دل میں تھا۔ یہی بات ہے اور کچھ نہیں۔ ’’لیکن تم نے ٹھیک سے سوچا ہوتا تو تم نے ایسا نہیں لکھا ہوتا۔ جیسا کہ ہے، تم نے وہی لکھا جو تم محسوس کرتے تھے۔ ایسا ہی ہے، ہم جانتے ہیں کہ تم کون ہو۔ ہمیں معلوم ہے کہ تمہارے دو چہرے ہیں۔ ایک پارٹی کے لئے، دوسرا اور لوگوں کے لئے۔ میرے دلائل ختم ہوگئے تھے اور میں پرانے دلائل ہی دوہراتا رہا کہ یہ سب مذاق صرف تھا، کہ یہ لفظ بے معنی تھے کہ ان کے پیچھے اور کچھ نہیں صرف میرا مذاق کا ارادہ تھا اور اسی طرح کے کئی دلائل۔ میں پوری طرح ناکام ہوگیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے کھلے پوسٹ کارڈ پر یہ جملے اس لئے لکھے تھے جس سے کہ وہاں سب لوگ اسے دیکھیں، کہ میرے لفظوں کی معروضی اہمیت تھی جسے حالات کی وجہ سے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ پھر انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں نے ٹراٹسکی کو کتنا پڑھا ہے؟ بالکل نہیں۔ میں نے کہا۔ انہوں نے پوچھا کہ مجھے وہ کتابیں کس نے دیں، کسی نے نہیں۔ میں نے جواب دیا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں کن ٹراٹسکی وادیوں سے ملا ہوں۔ کسی سے نہیں۔ میں نے جواب دیا۔ وہ مجھ سے بولے کہ وہ اسی وقت مجھے طلبا کی لیگ کے میرے عہدہ سے برطرف کررہے ہیں اور مجھے دفتر کی چابیاں دینے کے لئے کہا۔ میں نے اپنی جیب سے چابیاں نکال کر انہیں دے دیں۔ پھر انہوں نے کہا میرا کیس پارٹی کی سطح پر طے کیا جائے گا اور اُسے شعبۂ سائنسی علوم کی پارٹی دیکھے گی۔ وہ کھڑے ہوگئے اور میری طرف دیکھا۔ میں نے، ’’مزدور کی خیر‘‘، کہا اور وہاں سے چلا آیا۔
بعد میں مجھے یاد آیا کہ طلبا کی لیگ کے دفتر میں میری بہت سی چیزیں تھیں۔ میری میز کے دراز میں میرے موزے، کاغذوں کے ساتھ ساتھ موزے بھی تھے اور الماری میں فائلوں کے ساتھ ہی میرے ماں کے ہاتھ کا بنا آدھا کھایا ہوا رم کیک تھا۔ میں نے پارٹی کے دفتر میں ابھی ابھی چابیاں دے دی تھیں، لیکن نیچے سیڑھیوں کا دربان مجھے جانتا تھا۔ اس نے مجھے وہاں کی چابیاں دے دیں، جو دوسری چابیوں کے ساتھ لکڑی کے بورڈ پر ٹنگی تھیں۔ مجھے ایک ایک شے کی تفصیل یاد ہے۔ چابی لکڑی کے بورڈ پر مضبوط تار سے بندھی ہوئی تھی اور اس پر سفید رنگ سے میرے دفتر کا نمبر درج تھا۔ میں نے دروازے کا تالا کھولا اور اپنی میز پر بیٹھ گیا، دراز کھولی اور اپنی چیزیں باہر نکال لیں، میں بہت سست اور غائب دماغ ہوگیا تھا۔ نسبتاً سکون کے اس چھوٹے سے وقفے میں، میں سمجھنے کی کوشش کررہا تھا کہ میرے ساتھ کیا ہوا اور اس بارے میں مجھے کیا کرنا چاہئے۔
تبھی دروازہ کھلا اور پارٹی مرکز کے تینوں کا مریڈ اندر آگئے۔ اس وقت وہ سب کم گوئی اور ضبط سے کوسوں دور تھے۔ ان کی آوازیں اونچی اور جارحانہ تھیں۔ خصوصاً تینوں میں سے سب سے چھوٹے کی جو پارٹی کی لیگ کا افسر انچارج تھا۔ میں وہاں کیسے آیا؟ وہ مجھ پر غرایا۔ مجھے وہاں آنے کا کیا حق رہ گیا تھا؟ کیا میں پولیس کے ذریعہ گھسیٹ کر باہر نکالا جانا چاہتا ہوں؟ میں میز کے آس پاس کیا چھان بین کررہا ہوں؟ میں نے اسے بتایا کہ میں یہاں رم کیک اور الماری میں رکھے موزوں کے لئے آیا تھا۔ اس نے کہا کہ مجھے کوئی حق نہیں تھا چاہے وہاں کچھ بھی ہو، چاہے پوری الماری ہی موزوں سے کیوں نہ بھری ہو۔ پھر وہ میز کے پاس گیا اور ہر ایک کاغذ اور نوٹ بک پڑھنے لگا۔ چوں کہ اصل میں یہ میری ذاتی چیزیں تھیں۔ آخر: اس نے مجھے اپنی نگرانی میں انہیں ایک سوٹ کیس میں بھر کر لے جانے کی اجازت دے دی۔ میں نے انہیں اپنے نچوڑے ہوئے موزوں کے ساتھ اندر بھر لیا اور رم کیک کو چکنے کاغذ میں لپیٹ کر اندر ٹھونس لیا جو الماری میں رکھے رکھے مسل گیا تھا۔ اس نے میری ہر حرکت کا جائزہ لیا۔ میں اپنے تھیلے کے ساتھ کمرے کے باہر نکل آیا اور اس نے کہا کہ میں دوبارہ یہاں اپنا منہ نہ دکھاؤں۔
جیسے ہی پارٹی کے مرکز کے ان ساتھیوں اور ان کی پوچھ تاچھ کی ناقابلِ شکست منطق سے الگ ہوا، میں نے محسوس کیا کہ میں بے قصور تھا۔ میں نے پوسٹ کارڈ پر جو کچھ بھی لکھا تھا اس میں کچھ بھی خطرناک نہیں تھا۔ ایسے میں کسی ایسے آدمی سے بات کرنا سب سے اچھا ہوتا، جو مارکریٹا سے متعارف ہو، جس پر میں بھروسا کرسکوں، جو مجھے یہ بتا سکے کہ یہ پورا چکر ہی بے معنی ہے، میں نے ’’ایک کمیونسٹ ہم مکتب‘‘ کو ڈھونڈا اور جب میں نے اسے ساری رام کہانی سنائی تو وہ بولا کہ پارٹی کا ضلعی مرکز کٹر ہے اور حس مزاح سے عاری ہونے کے لیے مشہور ہے اور وہ مارکریٹا کو بھی جانتا ہے۔ اُسے اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ سب کیا معاملہ ہے۔
حصّہ سات
(باب سترہ)
لُڈوِک، یاروسلوا، ہیلینا
ویٹر پانچ چھ میزوں والے لوگوں اور دھوئیں سے بھرے چھوٹے سے کمرے میں لپک جھپک کے ساتھ چل رہا تھا۔ پھیلے ہوئے ہاتھ پر پلیٹوں کے ڈھیر سے بھاری لمبی ٹرے رکھے۔ اس میں گوشت کی کٹلیٹ اور آلو کی سلاد نظر رہی تھی (اتوار کا خاص پکوان)۔ بھدّے ڈھنگ سے لوگوں اور میزوں کے بیچ اپنا راستہ بناتا وہ کمرے اور راہداری سے باہر نکلا۔ میں اس کے پیچھے پیچھے گیا اور مجھے راہداری کے آخر میں ایک کھلا دروازہ ملا جو ریسٹورینٹ کے باغیچے تک جاتا تھا۔ وہاں بھی لوگ باگ کھا پی رہے تھے۔ پیچھے نیبو کے پیڑ کے نیچے ایک خالی میز تھی۔ میں وہاں بیٹھ گیا۔
گاؤں کی چھتوں کے اوپر اتنی دور سے آتی دل کو چھونے والی، سنو او، سنو او، کی آواز گونح رہی تھی۔ جب یہ باغیچے کے اندر پہنچی جو پڑوس کے گھروں کی دیواروں سے گھرا ہوا تھا تو وہ آدھی ہی حقیقی لگ رہی تھی۔ اس غیر حقیقی سی آواز نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا کہ میرے چاروں طرف ہر چیز حال نہیں، ماضی تھی۔ گزرے ہوئے پندرہ ۔ بیس سال، سنو او، سنو او، ماضی تھا۔ لوسی ماضی تھا۔ زیمناک ماضی تھا۔ ہلینا تو ایک پتھر تھی۔ جسے میں ماضی پر پھکنا چاہتا تھا۔ یہ تین دن کچھ نہیں تھے، سوائے پرچھائیوں کے سوانگ بھر کے۔ کیا یہی تین دن؟ مجھے لگتا ہے کہ میری پوری زندگی ہمیشہ پرچھائیوں کے سوانگ سے بھری رہی ہے اور حال کے لئے اس میں بہت تھوڑی جگہ بچی رہی ہے۔ میں ایک ایسے راستے کا تصور کرتا ہوں (جو کہ وقت ہے) جس پر ایک آدمی (جو کہ میں ہوں) جس رخ میں راستہ جاتا ہے اس کے الٹے رخ میں بھاگ رہا ہے۔ حالانکہ راستہ مجھ سے تیز چل رہا ہے اور اس طرح مجھے دھیرے دھیرے جس مقصد کی طرف میں جارہا ہوں، اس سے دور لے جارہا ہے۔ وہ مقصد (عجیب مقصد ہے جو میرے پیچھے قائم ہے) میرے سیاسی مقدموں کا ماضی ہے، جہاں ہاتھ کھڑے ہیں۔ تقریر کمروں کا ماضی ہے۔ خوف کا ماضی ہے۔ کالے نشان اور لوسی کا ماضی ۔ یہ ماضی مجھے کھینچا کرتا ہے۔ میں اس کا مطلب کھوجنے، سلجھانے، مٹانے کی کوشش کرتا ہوں۔ وہ اپنا سر آگے کئے مجھے ایک آدمی کو جس طرح رہنا چاہئے، اسے روکتا ہے۔
وہاں ایک زنجیر ہے جس سے میں خود کو ماضی کے ساتھ باندھنا چاہتا ہوں۔ وہ مجھے کھینچا کرتا ہے۔ وہ بندھن ہے: انتقام؟ لیکن انتقام، جب کہ میں نے ان تین دنوں میں دیکھا، وہ اتنا ہی بیکار ہے جتنا وقت کی رفتار کے مخالف دوڑ لگانا۔ ہاں، جب زیمانک آڈوٹوریم میں فیوچک کے ’’پھانسی تختے سے تبصرے’’ پڑھ رہا تھا تب اس کے پاس جانا چاہئے تھا اور اس کے منہ پر مکا مارنا چاہئے تھا۔ تب ہی، بالکل تب ہی، جب یہ روک دیا جاتا ہے۔ تب انتقام کچھ کینہ اور بعض میں، انفرادی عمل میں اور دیومالا میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ وہ لوگ بھی بہت دنوں پہلے بدل گئے ہیں آج ایک دوسرا جان دوسرے زیمانک کے سامنے کھڑا ہے۔ مکّا ابھی بھی جو مجھے اسے مارنا ہے، نہ تو وہ ہی مکا ہوگا اور نہ ہی اسے دوبارہ مارا جاسکے گا۔ یقیناًوہ اپنی معنویت کھو بیٹھا ہے۔
اپنی پلیٹ میں رکھے پین کیک میں سے ایک ٹکڑا کاٹتا ہوں اور پھر ’سنو او، سنو او‘ میرے کانوں تک پہنچتا ہے۔ گاؤں کی چھتوں سے ہوتا ہوا۔ ہلکے ہلکے مجھے تلخ یاد میں ڈبوتا ہوا۔ میں نے نقاب والے بادشاہ اور اس کی پلٹن تصور کیا۔
میں خالی پلیٹ لیے ریسٹورینٹ میں باغیچے کے ایک کونے میں بیٹھا تھا اور میں نے اپنا کٹلیٹ نہ جانے کب کھالیا تھا۔ ویٹر آیا، میری پلیٹ اٹھائی، میز پوش پر بکھرے ٹکڑے اٹھانے کو رکا اور فوراً ہی دوسری میز پر چلا گیا۔ اس دن کے بارے میں پچھتاوے میں تھا۔ اس لئے نہیں کہ یہ بیکار رہا بلکہ اس لئے کہ اس کی بیکاری بھی نہیں رہے گی۔ اس میز کے ساتھ اسے بھی بھلا دیا جائے گا۔ یہ مکھی جو میرے سر کے چاروں طرف منڈلا رہی ہے؛ اس کے ساتھ پھولے ہوئے لیموں پیڑ سے میز پوش پر گر پڑے پیلے پراگ، ہلکی اور اُداس خدمت جو اس سماج کی خاص عادت ہے جس میں میں رہتا ہوں۔ یہ سماج بھی بھلا دیا جائے گا۔ اس کی غلطیاں، لغزشیں اور ناانصافیاں جنہوں نے مجھے باندھ رکھا ہے، جنہیں میں بُھگت رہا ہوں، جن کے ذریعہ میں نگلا جاچکا ہوں۔ میں نے بیکار میں انہیں درست کرنے، سزا دینے یا ردّ کرنے کی کوشش کی کیوں کہ جو کچھ ہوا ہے، ہوچکا؛ اسے درست نہیں کیا جاسکتا۔
میں نے اپنے چاروں طرف غور سے دیکھا کیونکہ میں جانتا ہوں لیموں کا پیڑ بُھلا دیا جائے گا۔ اس میز کے لوگ اور ویٹر (آخری بار چاروں طرف دوڑنے کے بعد) یہ رسٹورینٹ بھی جو (سڑک پر سے بھدّا)، باغیچے کی طرف سے کافی خوبصورت بنا ہے، جالی دار انگوری شاخوں سے سجا ہے ۔ بُھلا دیا جائے گا۔ میں نے گلیارے کے کھلے دروازے کی طرف دیکھا جس سے ویٹر (تھکا، ہارا اور خاموش تھا) ابھی غائب ہوا تھا۔ وہیں سے (جیسے ہی اندھیرے نے اسے نگلا) اب چمڑے کی جیکٹ اور جینز میں ایک جوان ابھرا اس نے باغیچہ میں قدم رکھتے ہی چاروں طرف دیکھا۔ تبھی اُس کی نظر مجھ پر پڑی اور میری طرف بڑھا چلا آیا۔ اِس سے پہلے کہ میں اس سے ہلینا کے مددگار کی شکل میں پہچان پاتا، کچھ لمحے گزر گئے۔
جب محبت کرنے والی اور محبت سے محروم واپس آجانے کی دھمکی دیتی ہے تو مجھے ہمیشہ دکھ کا احساس ہوتا ہے۔ اس لئے: جب نوجوان نے مجھے لفافہ دیا (یہ میڈم زیمانک کے پاس سے آیا ہے) تو میری پہلی خواہش ہوئی کہ کسی طرح اسے پڑھنے سے روک دیا جائے۔ میں نے اسے بیٹھنے کے لئے کہا۔ وہ بیٹھ گیا۔ (ایک کہنی پر جُھکتے ہوئے اور دھوپ سے نہائے لیموں کے پیڑ کو اطمینان بخش ٹیڑھی نظر سے دیکھتے ہوئے) میں نے لفافے کو میز پر رکھ دیا اور پوچھا کیا کچھ پیوگے؟
اس نے اپنے کندھے اچکا دئیے۔ میں نے وودکا کے لئے پوچھا۔ لیکن اس نے منع کردیا، یہ کہتے ہوئے کہ وہ گاڑی چلائے گا۔ اس نے کہا کہ اگر میں لینا چاہوں تو اسے پریشانی نہیں ہوگی۔ میں نے بھی وودکا نہیں لی۔ چوں کہ لفافہ میرے سامنے میز پر پڑا ہوا تھا اور میں اسے کھولنا نہیں چاہتا رہا تھا اس لئے اس کے علاوہ کوئی بھی دوسرا کام بہتر تھا۔ ویٹر جیسے ہی میرے پاس سے گزرا میں نے اس سے اپنے لیے وودکا لانے کے لئے کہا۔
’’تمہیں شاید نہیں پتہ ہوگا کہ ہلینا کیا چاہتی ہے۔ کیا تمہیں معلوم ہے‘‘۔ میں نے پوچھا۔
’’میں کیسے جان سکتا ہوں؟ خط پڑھو‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’کیا کچھ ضروری بات ہے؟‘‘
’’کیا تم سوچتے ہو اس نے مجھے یاد کرا دیا ہے؟ کبھی مجھ پر حملہ ہوجاے اس لئے‘‘۔
میں نے لفافہ اٹھایا (جو ضلع کمیٹی کا سرکاری لفافہ تھا)۔ پھر میں نے اسے اپنے سامنے میز پر رکھ دیا اور یہ نہ جانتے ہوئے کہ کیا کہنا ہے میں نے کہا، ’’بہت خراب بات ہے کہ تم نہیں پی رہے ہو‘‘۔
’’آخر یہ تمہاری حفاظت کے لئے بھی ہے‘‘۔ اُس نے کہا۔
صاف تھا۔ نوجوان اپنی واپسی کا سفر اور ہلینا کے ساتھ اپنے اکیلے ہونے کے حُسن اتفاق کو واضح کرنا چاہتا تھا۔ وہ بدشکل نہیں تھا۔ اس کے (چھوٹے پیلے اور چکتے دار اور چھوٹی، اوپر اٹھی ناک والے) چہرے پر کوئی بھی پڑھ سکتا تھا کہ اس کے اندر کیا چل رہا ہے۔ وہ اپنی آنکھوں اور بھوؤں کو بھی اپنے قابو میں نہیں رکھ سکتا تھا۔ وہ اس بات پر اپنی فکر نہیں جتانا چاہتا تھا کہ میں اس کے ساتھ پراگ جارہا ہوں یا نہیں۔ لیکن اب جب کہ میں نے اسے یقین دلا دیا ہے کہ میں یہاں ٹھہر رہا ہوں، اس کی آنکھیں چمکنے لگی تھیں۔
ویٹر جب میزیر غلطی سے دو وودکا لے آیا تو نوجوان نے اپنا ہاتھ ہلایا اور کہا کہ واپس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ’’میں نہیں چاہوں گا کہ آپ اکیلے پئیں۔‘‘
اس نے کہا اور اپنا گلاس اوپر اُٹھایا۔ ’’آپ کی صحت کے لئے۔‘‘
’’اور تمہاری بھی‘‘ میں نے کہا اور گلاس ٹکراگئے۔
ہم نے بات کرنا شروع کردیا تھا اور مجھے پتہ چلا کہ نوجوان دو گھنٹے کے اندواپس جانا چاہتا ہے۔ چوں کہ ہیلینا ٹیپ کی گئی چیز کو سنناچاہتی تھی اور جہاں ضروری ہو اپنی کمینٹری جوڑنا چاہتی تھی جس سے کہ اسے دوسرے دن نشر کیا جاسکتے میں نے اس سے پوچھا کہ ہیلینا کے ساتھ کام کرتے ہوئے کیسا لگتا ہے؟ وہ شرم سے لال ہوگیا۔ اسنے جواب دیا کہ ہیلینا جانتی ہے کہ اسے کیا کرنا ہے لیکن وہ اپنے مددگار کے تئیں سخت ہے۔ چوں کہ وہ ہمیشہ دیر تک کام کرنا پسند کرتی ہے اور اس بات کو نظر انداز کرتی ہے کہ دوسرے لوگوں کو گھر جانے کی جلدی ہوسکتی ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ ’’کیا تمہیں گھرجانے کی جلدی رہتی ہے۔‘‘ اسنے کہا کہ وہ جلدی میں نہیں رہتا ہے۔ وہ یہاں خوش ہے۔ تبھی اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے ہیلینا کے بارے میں بات چیت شروع کردی۔ اس نے اچانک پوچھا۔ ’’آپ ہیلینا کو کیسے جانتے ہیں؟‘‘ میں نے اسے بتایا۔ وہ پھر بھی پوچھتا رہا۔ ’’وہ اصل میں بہت اچھی ہے۔ نہیں کیا؟‘‘
خاص طور پر جب گفتگو کا رخ ہیلینا کی طرف مڑگیا تب اس نے خوش نظر آنے کی کوشش کی۔ وہ ہر اس چیز کو کرنے کے لئے تیار تھا جو اسے ناکام عاشق کے تاج کو پہنے سے روک سکتی ہے۔ حالاں کہ میں نے اس کی خاموشی کو ایک دم سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اس نے میرے سامنے پڑے خط کے بوجھ کو کچھ ہلکا کردیا تھا۔ آخر کار میں نے اسے اٹھایا اور کھولا: ’’جسم اور روح... رہنے کی کوئی وجہ نہیں۔ الوداع...‘‘ میں نے ویٹر کو باغیچے کے دوسرے سرے پر دیکھا اور چلّایا: ’’بل لے آؤ‘‘۔ ویٹرنے سرہلایا، صرف اپنے کام کی مصروفیت کی وجہ وہ گلیارے میں سے غائب ہوگیا۔
’’آؤ ہمارے پاس کھونے کو وقت نہیں ہے۔‘‘ میں نے نوجوان سے کہا۔ میں کھڑا ہوگیا اور جلدی سے باغیچہ پار کیا۔ وہ میرے پیچھے آیا۔ ہم گلیاروں میں گئے اور اس کے باہری دروازے پر پہنچ گئے جس سے کہ ویٹر چاہے نہ چاہے، اسے ہمارے پیچھے ڈورنا پڑا۔
’’ایک کٹلیٹ، اور دو وودکا۔‘‘ میں نے لکھایا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ نوجوان نے دھیمی آواز میں پوچھا۔
میں نے ویٹر کو پیسے دئے اور نوجوان سے ہیلینا کے پاس جلدی لے چلنے کے لئے کہا۔ ہم تیزی کے ساتھ چلنے لگے۔ ’’کیا ہوگیا ہے؟‘‘! سنے پوچھا۔ ’’کتنی دور ہے؟‘‘ جواب میں اس سے جاننا چاہا۔
اس نے آگے تھوڑی سی دوری کا اشارہ کیا۔ میں نے دوڑ لگانا شروع کردیا۔ ضلع کمیٹی کی عمارت سفید رنگ کی یک منزلہ عمارت تھی جس میں سزک کی جانب ایک دروازہ اور دوکھڑکیاں تھیں۔ ہم اندر چلے گئے۔ ہم نے ایک بیکار سے دفتر میں خود کو کھڑے پایا۔ کھڑکی کے نیچے دو ڈیسک آس پاس رکھے تھے۔ ان میں سے ایک پرٹیپ ریکارڈ رکھلا پڑا تھا۔ دوسرے پر پیپر۔ پیڈ اور ایک عورت کاپرس تھا۔ (ہاں، یہ ہیلینا کا تھا۔) دونوں ڈیسکوں پر کرسیاں تھیں۔ کونے میں کپڑے ٹانگنے کا اسٹینڈ تھا۔
اس پر دو کوٹ ٹنگے تھے۔ ہیلینا کا نیلا رین کوٹ اور ایک آذمی کی گندی سی برساتی۔
’’یہی ہے‘‘۔ نوجوان نے کہا۔
’’کیا یہیں اس نے تمہیں خط دیا تھا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
لیکن اب دفتر ایک دم خالی تھا۔ میں نے آواز لگائی۔ ہیلینا! اور سن کر چونک گیا کہ میری آواز کتنی بے چینی اور شک و شبہ سے بھری لگتی تھی۔ کوئی جواب نہیں ملا۔ میں نے پھر پکارا۔
’’ہیلینا‘‘ اور نوجوان نے پوچھا۔
’’کیا تم سوچتے ہو کہ اس نے...؟‘‘
’’ایسا ہی لگتا ہے‘‘ میں نے کہا۔
’’کیا خط اسی کے بارے میں تھا؟‘‘
’’ہاں‘‘ میں نے کہا۔ ’’کیا انہوں نے تمہیں اور کمرے بھی دئے تھے؟‘‘
’’نہیں‘‘
’’اور ہوٹل؟‘‘
’’ہم اسے صبح چھوڑ آئے ہیں۔‘‘
’’تو وہ یہیں ہوگی‘‘ میں نے کہا اور اب میں نے نوجوان کی ٹوٹتی ہوئی آواز کو سنا۔ اس نے فکر مند ہوکر جیسے ہی آواز لگائی۔ ’’ہیلینا۔‘‘
میں نے برابر والے کمرے کا دروازہ کھولا۔ یہ دوسرا دفتر تھا۔ میز، کوڑے دان، تین کرسیاں، الماری اور (کپڑوں کا اسٹینڈ ٹھیک ایسا ہی تھا جیسا کہ پہلے کمرے میں تھا) ایک دھات کا تین پیروں پر کھڑا اور اوپر کی طرف اٹھی تین دھاتوں کی شاخیں چوں کہ اُس پر کوٹ نہیں ٹنگے تھے، یہ انسان سا لگتا تھا۔ یتیم کی طرح اس کے خالی پڑے ننگے پن اور اس سے اٹھے ہوئے تین بازؤں نے مجھے فکر مند کردیا۔ میز کے اوپر ایک کھڑکی تھی۔ باقی صرف دیواریں تھیں۔ کوئی اور دروازہ نہیں۔ صاف ہے کہ اس عمارت میں دودروازے اور دو دفتر تھے۔ ہم پھر پہلے کمرے میں گئے۔ میں نے ڈیسک سے پیڈ اُٹھایا اور زو ر دیکر پڑھنے لگا اس پر کچھ ناقابل فہم تبصرے تھے۔ (کچھ لفظوں کو پہچانتے ہوئے میں نے اسے پڑھنے کی کوشش کی) یہ بادشاہوں کی سواری کا بیان تھا۔ کوئی خبر، کوئی وداع لینے والے لفظ نہیں۔ میں نے اس کا پرس کھولا۔ ایک رومال، ایک چھوٹا پرس، لپ اِسٹک پاؤڈر، دو کھلی سگریٹیں ایک لائٹر، کوئی دوا کی شیشی نہیں، زہر کی شیشی نہیں۔ میں نے فکر مندی سے سوچنے کی کوشش کی کہ ہیلینا نے کیا کیا ہوگا۔‘‘ سب سے ممکن چیز مجھے زہر محسوس ہوا۔ مگر اس لحاظ سے کوئی چھوٹی شیشی ہونی چاہئے۔ میں کپڑوں کے اسٹینڈ کے پاس گیا اور رین کوٹ کی جیبوں کو کھولنے لگا۔ وہ خالی تھیں۔
’’اوپر اٹاری میں بھی‘‘۔ نوجوان نے کہا۔ ہر ایک طرح سے کمرے کی تلاشی لی۔ ہم دوڑ کر ہال میں پہنچے۔ وہاں دودروازے دیکھے۔ ایک پرشیشہ چڑھا تھا۔ اس میں پچھواڑے کا دھندلا سا حصہ دکھائی دیا۔ ہم نے پاس والے دوسرے دروازے کو کھولا جس کے پیچھے پتھر کا زینہ دکھائی پڑا۔ اندھیرے، دھول اور کالک کی پرتوں سے ڈھکا ہوا۔ ہم تیزی سے سیڑھیوں پر چڑھے۔ ہم اور اندھیرے میں کھوگئے۔ چھت پر باہر کو کھلنے والی کھڑکی تھی۔ (گندے شیشے والی) جس سے دھندلی روشنی آرہی تھی۔ ہمیں اپنے چاروں طرف ہر طرح کے کباڑ نظر آرہے تھے۔ (صندوق، باغیچے کے اوزار پھاوڑا، کلہاڑی، پانچا اور کاغذوں کا انبار اور ایک پرانی ٹوٹی کرسی) ہم ان پر کود پھاند کرتے رہے۔
میں پکارنا چاہتا تھا۔ ’ہیلینا‘۔ مگر ڈرکر رک گیا۔ میں جواب کے بعد بھی جو خاموشی بنی رہے گی، اس سے ڈر رہا تھا۔ نوجوان نے بھی آواز نہیں لگائی۔ ہم نے کباڑ کو اِدھر اُدھر پھینکا اور خاموشی سے اِدھر اُدھر ٹٹولتے رہے۔ میں محسوس کرسکتا تھا کہ ہم دونوں کتنے گھبرائے ہوئے تھے۔ خوف کا سب سے بڑا ماخذ ہماری خاموشی تھی۔ شاید یہ ہم قبول کر رہے تھے کہ ہمیں ہیلینا سے کوئی جواب جلدی سے نہیں ملے گا۔ اب ہم صرف اس کی لاش کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ کہیں لٹکی ہوئی یا ابتر حالت میں پڑی ہوئی۔
ہمیں کچھ نہیں ملا ہم۔ نیچے دفتر میں چلے گئے۔ میں نے ہر چیز کا دوبارہ معائنہ کیا، ڈیسک، کرسیاں اور کپڑوں کے اسٹینڈ۔ جس کی ایک اٹھے بازوؤں میں اس کا رین کوٹ ٹنگا تھا اور بھر دوسرے کمرے میں۔ ڈیسک، کرسیاں اور کپڑوں کا اسٹینڈ۔ مایوسی میں لٹکتے اس کے خالی بازو۔ نوجوان (بے وجہ) پکار اُٹھا۔ ’’ہیلینا‘‘، اور میں نے (بے وجہ) الماری کھولی جہاں دستاویز، چپکا نے والا ٹیپ اور پیمانے دکھائی دیے۔
’’کہیں اور بھی ہوسکتی ہے۔ بیت الخلا یا تہہ خانے میں‘‘، میں نے کہا اور ہم اندر ہال میں پھر آگئے۔ نوجوان نے آنگن کا دروازہ کھولا۔ آنگن چھوٹا تھا۔ ایک کونے میں خرگوش کا پنجرہ پڑا تھا۔ اس کے بعد ایک پرانا باغیچہ تھا۔ جہاں بغیر کٹی گھنی گھاس کے بیچ پھولوں کے پیڑ تھے۔ (اپنے دماغ کے دور کے کسی کونے میں میں نے نوٹس کیا، یہ ایک خوبصورت باغیچہ رہا ہوگا۔ نیلے �آسمان کا ٹکڑا ہری ڈالوں کے بیچ جھول رہا تھا۔ پیرؤں کے تنے ٹیڑھے، کھردرے اور کچھ پیلے چمکدار سورج مکھی ان کے بیچ لٹک رہے تھے) باغیچے کے آخر میں سیب کے پیڑ کے پر اسرار سائے میں میں نے ایک لکڑی کی جھونپڑی دیکھی۔ ایک �آؤٹ ہاؤس۔ میں تیزی سے اس کی طرف گیا۔
پوری گھوم جانے والی لکڑی کی سٹکنی پتلے سے لکڑی کے فریم پر بڑی سی کیل سے بندھی تھی (جس سے کہ دروازہ سیدھے سٹکنی گھماکر باہر سے بند کیا جاسکے) لیکن وہ سیدھا تھا۔ میں نے دروازے اور فریم کے بیچ کی جگہ میں اپنی انگلیاں ڈالیں اور ہلکا سا دباؤ ڈال کر اندازہ کیا کہ بیت الخلا اندر سے بند تھا۔ اس کا ایک ہی مطلب تھا۔ ہیلینا اندر ہے۔ میں نے آہستہ سے کہا۔ ’’ہیلینا، ہیلینا‘‘، کوئی جواب نہیں ملا۔ صرف سیب کا پیڑ ہوا میں ہل رہا تھا۔ اس کی ڈالیں جھونپڑی کی دیوار سے لگ کر سرسرارہی تھیں۔
میں جانتا تھا کہ بند جھونپڑی کی خاموشی کا مطلب سب سے برا ہے لیکن یہ بھی جانتا تھا کہ دروازے کو اکھاڑ پھیکنا ہی ایک صرف راستہ بچا ہے۔ اکیلا میں ہی تھا جسے یہ کرنا تھا۔ میں نے دوبارہ فریم اور دراوزے کے بیچ کی جگہ میں انگلیاں ڈالیں اور اپنی پوری طاقت سے کھینچا۔ (دروازہ ہُک کے ساتھ نہیں، صرف ڈوری سے بندھا تھا جیسا کہ گاؤں دیہات میں اکثر ہوتا ہے۔) اچانک وہ ٹیڑھا ہوا اور پورا کا پورا کھل گیا۔ آؤٹ ہاؤس کی بدبُو میں میری طرف منہ کئے لکڑی کی سیٹ پر ہیلینا بیٹھی تھی۔ وہ پیلی پڑگئی تھی لیکن زندہ تھی۔ اس نے خوف زدہ آنکھوں سے مجھے دیکھا اور اپنی اٹھی ہوئی اسکرٹ کو عادتاً نیچے کھیچ لیا۔ اس کی ساری کوششوں کے باوجود وہ اس کی جانگوں پر ہی رہ گئی اس نے دونوں ہاتھوں سے اسکرٹ کا کنارہ پکڑا اور اپنی ٹانگوں کو کس کر دبایا: ’’خدا کے لئے چلے جاؤ۔‘‘ وہ غصے میں چلائی۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ میں اس پر چیخا۔ ’’تم نے کیا لیا ہے‘‘؟
’’چلے جاؤ! مجھے اکیلے چھوڑدو۔‘‘
اس وقت نوجوان میری پیٹھ کے پیچھے سے آیا۔ تبھی ہیلینا چلائی۔ ’’چلے جاؤ زندرو! چلے جاؤ۔‘‘ اس نے خود کو لکڑی کی سیٹ سے اٹھایا اور دروازے تک چلی آئی۔ لیکن میں اس کے اور دروازے کے بیچ میں آگیا جس سے کہ وہ سیٹ کے گول کھلنے کی جگہ لڑکھڑاکر کھڑے رہنے کے لئے مجبور ہوگئی۔
ایک لمحے میں ہی اس نے خود کو دوبارہ سنبھال لیا اور طاقت کے ساتھ خود کو مجھ پر ڈال دیا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے میری جیکٹ کے گریبان کو پکڑ لیا اور باہر دھکا دیا۔ اب ہم دونوں ہی دروازے پر تھے۔ ’’تم جانور ہو، جانور، جانور،‘‘ وہ چلائی (اگر کوئی چاہے تو اس بھیانک کوشش کو، ایک مُردہ آواز، ایک مریل چیخ کے معنی میں لے سکتا ہے) اور مجھے ہلانے ڈُلانے کی کوشش کی۔ تبھی اچانک وہ بھاگ کھڑی ہوئی اور آنگن کی طرف گھاس پر دوڑنے لگی۔ وہ بھاگ جانا چاہتی تھی، مگر بھاگ نہیں پائی۔ وہ آؤٹ ہاؤس سے بدحواسی میں دوڑی، اپنے کپڑوں کو بھی نہیں سنبھال پائی اور اس کی پینٹی گھٹنے میں پھنس گئی۔ (وہی پینٹی جو میں نے کل دیکھی جو گیٹس بیلٹ کا کام بھی کررہی تھی) اس نے اسے آگے بڑھنے سے روک دیا۔ (اس کی اسکرٹ نیچے تھی، لیکن اس کے پیروں کے سلکی موزے نیچے آگئے تھے اور اس کی گیٹس کے ساتھ کا اوپری کنارہ اس کے گھٹنوں سے نیچے جھول رہا تھا اور دیکھا جاسکتا تھا) وہ کچھ قدم چلی یا کودی۔ (اپنے اونچے ہیلز والے سینڈلوں میں) لیکن دس فٹ چلنے سے پہلے ہی وہ گر گئی۔ (دھوپ بھری گھاس میں، ایک پیڑ کی ڈال کے نیچے، اونچے بھڑکیلے سورج مکھیوں کے پاس) میں نے اسے ہاتھ پکڑکر اٹھایا اور مدد کرنے کی کوشش کی۔ وہ مجھ سے چھٹک گئی اور جب میں اس کی طرف پھر جھکا، اس نے اتنے اندھادُھند گھونسے برسانے شروع کئے کہ جب تک میں اسے پکڑ پاتا، مجھے کئی گھونسے پڑچکے تھے۔ پوری طاقت سے لگاتار میں نے اپنی طرف کھینچا۔ اپنے ہاتھوں میں جکڑکر۔ ’’جانور! جانور! جانور! جانور!‘‘ وہ میری کمر پر مکے مارتے مارتے ہانپنے لگی اور جب میں نے کہا (جتنا ممکن تھا اتنا نرم ہوتے ہوئے): ’’خاموش ہوجاؤ ہیلینا،‘‘ اس نے میرے منہ پر تھوک دیا۔
بغیر اپنی پکڑ ڈھیلی کئے، میں نے کہا، میں تمہیں تب تک نہیں چھوڑوں گا جب تک تم نہیں بتاؤگی کہ تم نے کیا لیا ہے؟‘‘
’’چلے جاؤ، چلے جاؤ،‘‘ اس نے دہرایا لیکن تبھی وہ اچانک چپ ہوگئی۔ پھر کہا: ’’مجھے جانے دو‘‘۔ اس نے اتنی عجیب (کمزور اور تھکی آواز) آواز میں مجھ سے کہا کہ میں نے اپنی پکڑ ڈھیلی کردی اور اس کی طرف دیکھا۔ یا خدا! اس کا چہرہ کتنا خوفناک ہوگیا تھا۔ اس کے دانت بھیچ گئے تھے۔ اس کی آنکھیں دیکھ نہیں رہی تھیں جسم آگے کی طرف جھکا ہوا تھا۔ مریل سا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ وہ بغیر ایک لفظ بولے مُڑی، اور آؤٹ ہاؤس کی طرف چل پڑی۔ جس ڈھنگ سے وہ چلی، اسے میں کبھی نہیں بھول پاؤں گا۔ دھیمے، ڈگمگ، اس کے لڑکھڑاتے پیر۔ اسے بہت کم دوری طے کرنی تھی۔ لیکن اسے کئی بار رکنا پڑا۔ اس دوران اس کی آنتوں سے خوفناک جنگ کو میں دیکھ سکتا تھا۔ اس کے جسم کی اینٹھن کے ڈھنگ سے۔ آخر وہ آؤٹ ہاؤس پہنچ گئی۔ دروازے کو پکڑ لیا (جو کھلا رہ گیا تھا)، اسے کھینچ کر بند کرلیا۔
میں گھاس پر اسی جگہ کھڑا رہا جہاں اسے اٹھایا تھا۔ جب زور سے آؤٹ ہاؤس سے کراہنے کی آواز آئی، میں اور دور چلا گیا۔ تب میں نے محسوس کیا کہ نوجوان میرے ساتھ کھڑا ہے۔ ’’یہیں رہنا،‘‘ میں نے اس سے کہا، ’’میں کسی ڈاکٹر کو دیکھتا ہوں۔‘‘
دفتر میں گیا، ٹیلیفون ڈھونڈا۔ نزدیک کی میز پر رکھا تھا۔ ٹیلیفون ڈائریکٹری ڈھونڈنا تھوڑا مشکل تھا، وہ کہیں نہیں مل رہی تھی۔ میں نے میز کے بیچ کے دروازے کو کھولنے کی کوشش کی۔ مگر اس میں تالا لگا تھا۔ اسی طرح سبھی دوسری طرف کے دروازے بند تھے۔ دوسری میز کا بھی تالا بند تھا۔ میں دوسرے کمرے میں گیا۔ وہاں میز میں ایک ہی دراز تھی، وہ کھلی ہوئی تھی۔ حالانکہ اس میں کچھ فوٹو اور کاغذ کاٹنے کے چاقو کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ میں نہیں سمجھ پارہا تھا کہ کیا کروں (اب تک مجھے پتہ لگ گیا تھا کہ ہیلینا زندہ ہے اور وہ خطرے سے ماہر ہے)، مجھے تھکان نے گھیر لیا۔ میں وہاں کپڑوں کے اسٹینڈ کو گھورنے لگا۔ تبھی نہ جانتے ہوئے کہ کیا کروں، میں نے الماری کھولی۔ وہاں دستاویزوں کے ڈھیر پر نیلی ہری ٹیلیفون کی ڈائریکٹری پڑی تھی۔ میں اسے اُٹھاکر ٹیلیفون کے پاس آیا اور اسپتال کا نمبر تلاش کرنے لگا۔ میں نے نمبر ڈائل کیا اور گھنٹی کی آواز سن ہی رہا تھا کہ نوجوان دھڑدھڑاتا ہوا کمرے کے اندر گھسا۔
’’کسی کو فون مت کرو، اس کی ضرورت نہیں!‘‘ وہ چلایا۔ میں سمجھ نہیں پایا۔ اس نے میرے ہاتھ سے ریسور چھین لیا اور فون پر رکھ دیا۔
’’میں نے تم سے کہا کہ پریشان مت ہو۔‘‘
’’کیا بات ہے‘‘؟
’’یہ بالکل بھی زہر نہیں ہے‘‘۔ اس نے بتایا اور کپڑوں کے اسٹینڈ کی طرف چلا گیا۔ اس نے اپنا ہاتھ رین کوٹ کی جیب میں ڈالا اور ایک چھوٹی شیشی نکالی جسے اس نے کھول کر الٹا کردیا۔ وہ خالی تھی۔
’’کیا یہ وہی ہے جو اس نے لی ہے‘‘؟ میں نے پوچھا۔
اس نے سر ہلایا۔
’’تم کیسے جانتے ہو؟‘‘
’’اس نے مجھ سے کہا‘‘۔
’’کیا یہ تمہاری ہے؟‘‘
اس نے کہا ’’ہاں‘‘ میں نے سر ہلایا۔ میں نے اس سے شیشی لے لی۔ اس کے لیبل پر، الگینا، چھپا تھا۔
’’کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اس طرح بڑی مقدار میں درد مٹانے والی دوائیں لینا نقصان دہ ہے‘‘۔ میں اس پر چلایا۔
’’اس میں درد مٹانے والی دوائیں نہیں تھیں‘‘۔ وہ بولا۔
’’تو پھر کیا تھا؟‘‘
’’دستوں کی گولیاں‘‘۔ اس نے کہا۔
میں اس سے ناراض ہوا اور کہا کہ مجھے اُلّو بنانے کی کوشش مت کرو۔ مجھے بتاؤ کہ کیا ہوا؟ اب میں تمہاری اور ڈھٹائی برداشت نہیں کروں گا میں فوراً سیدھا جواب چاہتا تھا۔
مجھے چلاتے ہوئے دیکھ وہ بھی چلایا: ’’میں نے تمہیں بتایا کہ شیشی میں دستوں کی گولیاں تھیں۔ کیا ہر ایک کو جاننا ضروری ہے کہ میرا پیٹ خراب رہتا ہے؟ میں نے اب سمجھا کہ میں جسے مذاق سمجھا تھا، وہ سچ تھا۔
میں نے اسے دیکھا۔ اس کا لال چہرہ چپٹی ناک (چھوٹی لیکن کافی داغوں سے بھری ہوئی)۔ مجھے ساری چیزوں کا مطلب واضح ہونے لگا۔ الگینا کی شیشی۔ اس کا بیماری سے چھپانے کا بہانہ تھا۔ بالکل ویسے ہی جیسے چمڑے کی جیکٹ اور جینز اس کے بچکانے نین۔ نقش کو چھپانے کا بہانہ تھے۔ وہ خود شرمندہ تھا۔ وہ اپنے بچکانہ پن کو بڑی مشکل سے پچا پارہا تھا۔ اس لمحہ وہ مجھے اپنے شرمیلے پن کی وجہ سے پیارا لگنے لگا۔ اس نے ہیلینا کی زندگی کو بچا لیا تھا۔
اور مجھے صدیوں کی بے چینیوں سے بچالیا تھا۔ بھونچکا ہوکر میں اس کے کانوں کو دیکھ رہا تھا۔ ہاں، اس نے ہیلینا کی زندگی بچائی ہے۔ لیکن اپنی بے عزتی کی قیمت پر۔ میں جانتا تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ یہ شرم بے معنی ہے۔ اس کا کوئی مطلب نہیں۔ سراسر نا انصافی میں جانتا تھا کہ نہ دُرست کی جاسکنے والی کڑیوں میں ایک اور کڑی ہے۔ میں نے خود کو مجرم محسوس کیا اور اس کے پیچھے جانے کی امید (شاید دھندلی) محسوس کی، اسے اس بے عزتی سے ابھارنے کے لئے۔ اس کے سامنے خود کو بے عزت کرنے کے لئے اس بے وقوفانہ حادثے کا سارا قصور اور ساری ذمہ داری اپنے اوپر لے لی۔
’’تم کیا گھور رہے ہو؟‘‘ نوجوان چیخا، میں بغیر جواب دیے اس کے پاس سے اندر ہال کے لئے چل پڑا اور آنگن کی طرف جانے والے دروازے کی طرف مڑا۔ ’’کیا کرنے جارہے ہو تم؟‘‘ اس نے مجھے پیچھے سے میری جیکیٹ کے کندھے سے پکڑا اور اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کی۔ ایک لمحے کے لئے ہم دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا۔ پھر میں نے اس کی کلائی کو پکڑا اور اپنے کندھے سے اس کا ہاتھ ہٹا دیا۔ اس نے مجھے ڈھکیلا اور میرا راستہ روک کر کھڑا ہوگیا وہ لہرایا اور میرے سینے میں گھونسادے مارا۔
وہ ہلکا سا گھونسا تھا۔ لیکن وہ کودا اور میرے سامنے آکھڑا ہوا۔ ایک معمولی سے مکّے باز کی طرح۔ اس کا یہ انداز اندیشے اور جرأت کی ملی جلی شکل تھا۔
’’اسے وہاں تمہاری ضرورت نہیں ہے‘‘۔ وہ چلایا۔ میں جہاں تھا، وہاں کھڑا رہا۔ میں نے سوچا شاید وہ صحیح ہو۔ ایسا کچھ نہیں ہے جو میں درست کرسکوں۔ اور نوجوان مجھے وہاں کھڑا دیکھ کر دفاعی انداز میں چیختا رہا: ’’وہ تم سے نفرت کرتی ہے۔ تمہیں کچھ بھی ہوجائے، وہ تم پر دھیان نہیں دے گی۔ اس نے ایسا کہا ہے۔ تمہیں کچھ بھی ہوجائے، وہ دھیان نہیں دیگی۔‘‘
اعصابی تباؤ نہ صرف آنسوؤں بلکہ ہنسی کے خلاف بھی کسی کو غیر محفوظ تبا دیتا ہے۔ نوجوان کے آخری لفظوں کے حقیقی معنوں نے میرے منھ کے کونوں میں اینٹھن پیدا کردی۔ اس نے اسے پاگل کردیا۔ اس بار اس نے مجھے منہ پر مارا۔ پھر وہ پیچھے کھڑا ہوگیا اور اپنی مٹھیوں کو مکّے باز کی طرح اپنے چہرے کے سامنے لے آیا۔ اس طرح اس کے باہر نکلے گلابی کان پیچھے سے دکھائی دے رہے تھے۔
’’بہت ہوگیا‘‘ میں نے کہا، ’’اب میں گھر جارہا ہوں۔‘‘وہ میرے پیچھے سے چلایا: ’’تم باسٹرڈ،! تم باسٹرڈ۔ میں جانتا ہوں۔ تمہارا اس سے کچھ رشتہ ہے۔ میں تمہیں دیکھ لوں گا۔ تو سُوّر۔‘‘
میں باہر سڑک پر نکل آیا تھا۔ اب سڑکیں خالی تھیں۔ جیسا کہ تہوار کے بعد خالی ہوتی ہیں۔ دھیمی ہواچل رہی تھی اور سپاٹ میدان کے اوپر دھول اڑ رہی تھی۔ جو ایسے ہی خالی تھا جیسا کہ میرا اپنا خالی اور بھونچکا دماغ، جس میں کچھ دیر تک کچھ بھی خیال نہیں آیا۔
کافی دیر بعد میں نے پایا کہ ’الگینا‘ کی شیشنی ابھی میرے پاس ہے۔ میں نے اسے دیکھا۔ یہ بری طرح کھرچی جاچکی تھی۔ صاف تھا کہ یہ بہت دنوں سے دست آور دوا بہانہ بنی ہوئی تھی۔
کچھ دیر کے بعد مجھے اس شیشی نے دو دوسری شیشیوں کی یاد لائی۔ الیکسے کی نمک کی دو شیشیاں۔ انہوں نے مجھے محسوس کرایا کہ نوجوان نے اصل میں ہیلینا کی زندگی کو نہیں بچاپا ہے۔ اگر شیشی میں درد مٹانے والی دوائیاں ہی ہوتیں تو بھی انہوں نے اس کے پیٹ کو گڑبڑانے سے زیادہ کچھ نہ کیا ہوتا۔ کیونکہ نوجوان اور میں اس کے اتنے قریب تھے۔ ہیلینا کی مایوسی نے موت کی دہلیز پر ذرا فاصلے سے دستک دے کر زندگی سے اپنا حساب ٹھیک ٹھاک کرلیا ہے۔

(2) Life is Elsewhere:

میلان کنڈیرا کا یہ ناول 1973 میں شائع ہوا۔ کنڈیرا نے اس ناول کو 1968 سے 1970 کے درمیان ہی لکھا تھا۔ یعنی یہ اس زمانے کا ناول ہے جب کنڈیرا کے لیے اپنے ملک میں تکلیفوں اور دشواریوں کا دور شروع ہو چکا تھا۔ اس لیے پہلے یہ ناول فرانس میں 1973 میں شائع ہوا۔
Life is elsewhere ’’Rimbaud‘‘ کی مشہور لائن ہے Arthur Rimbaud فرانس میں انیسویں صدی کا بہت مشہور شاعر گزرا ہے۔ آندرے بریتون نے اپنے سر ریسلٹک مینی فیسٹو کا اس سطر پر اختتام کیا ہے۔ 1968 میں پیرس کے طالب علموں نے Life is Elsewhere کو اپنے نعرے کے طور پر استعمال کیا تھا۔ مگر میلان کنڈیرا نے اس ناول میں پس نوشت کے طور پر یہ بھی اطلاع دی ہے کہ شروع میں یہ اس کا عنوان نہیں تھا۔ اس ناول کا اصل عنوان ’’The Lyrical age‘‘ تھا مگر جب اُس نے یہ محسوس کیا کہ اس کے پبلشروں کو اس عنوان کی وجہ سے ناول شائع کرنے میں کچھ دقّت محسوس ہو رہی ہے تو اس نے عنوان بدل دیا۔ کنڈیرا کے مطابق یہ ناول غنائی عہد اور نوجوانی کے باہمی رشتے کی پرتیں کھولتا ہے غنائی رویہ انسانی وجود کی بنیادوں میں سے ایک ہے۔ غنائی شاعری کا چلن ایک زمانے سے رہا ہے کیوں کہ ’’غنائی رویّہ‘‘ آدمی کے ساتھ ہمیشہ سے چپکا رہا ہے مگر جب یہ غنائیت، آمریت ’ظلم‘ جبر و استحصال اور پروپیگنڈے کے اندر چھپی نام نہاد اور خیالی جنت کی ترجمانی کرنے کے نعرے کے طور پر استعمال کی جاتی ہے تو اس کے بہت خطرناک نتیجے نکلتے ہیں۔ اس ناول میں جن سوالات کو قائم کیا گیا ہے وہ یہ ہیں۔ غنائی رویہ کیا ہے، جوانی کیا ہے؟ ایک ماں اپنے جوان بیٹے کو غنائی دینا کی تشکیل کرنے میں کیا رول ادا کرتی ہے۔ جوانی اگر نا تجربہ کاری کا نام ہے تو پھر انقلاب اور مُطلقیت سے اس کا کیا رشتہ ہوسکتا ہے۔ اور یہ کہ غنائی رویہ خود کو محبت میں کس طرح بے نقاب کرتا ہے یا محبت کی غنائی صورتیں بھی ہیں اور اس طرح دوسرے بہت سے سوالات جن کا جواب ناول نہیں دے سکتا کیونکہ یہ تمام سوالات خود اپنے آپ میں جواب ہیں۔ کنڈیرا کا یہ بھی بیان ہے کہ ایک زمانے سے وہ ایک ایسا ناول لکھنے کا خواب دیکھ رہا تھا جو ’’شاعری کی تنقید‘‘ ہو مگر خود بھی شاعری ہو۔ (یہاں شاعری سے مطلب تخیل کی فراوانی اور شعری شدت سے ہے)۔ Life is Elsewhere میں میلان کنڈیرا نے خود اپنے کمیونسٹ ماضی کو ردّ کیا ہے اور اپنے آپ کو اُس سے آزاد کیا ہے نوجوانی کے جذبات اور عنائیت کس طرح کمیونزم کو خیالی جنت بناکر انسانوں کے لئے راہ نجات کے گیت گاتے ہیں اور اُن کی یہ ناپختہ ذ ہنی اور غنائی رویہ کس طرح ایک قسم کی نامردی کے ساتھ ہر شے کے انہدام کا باعث بنتے ہیں۔ یہی بنیادی طور پر اس ناول کا تھیم ہے۔ غنائی کردار حقیقت کا سامنا کرنے کی سکت نہیں رکھتے اس لیے وہ اپنی الگ حقیقت یعنی شاعری میں پناہ گاہ تلاش کرتے ہیں۔ غنائی نظمیں اپنے لفظوں کو حقیقی اشیا میں بدل دیتی ہیں جو خطرناک بات ہے۔ یہی نہیں اکثر غنائیت (Lyricism) انقلاب کے تصور سے بھی وابستہ ہوتی ہے اس لیے Rimbaud کی یہ سطر پیرس کے طالب علموں نے دیواروں پر لکھ دی تھی۔
کنڈیرا کا یہ ناول ایک نوجوان شاعر Jaromil کی زندگی کے تجزیے پر مبنی ہے۔ یہ شاعر، کنڈیرا کے عہد میں سانس لیتا ہے مگر اُس کے رویے اور خصلتیں چند مشہور یوروپیئن غنائی شاعروں سے مشابہت رکھتے ہیں مثلاً Shelley، Lermontov، Keats، Rimbaud، Mayakovsky اور Wolker وغیرہ۔ یوں دیکھا جائے تو اصل میں مصنف اس ناول میں یوروپین غنائی آواں گاردوں کو، اور اُن کے سیاسی وژن کو (جو صرف جذبات پر مبنی ہے) کو منہدم کرنا چاہتا ہے۔ کنڈیرا کے مطابق غنائی شاعر ہمیشہ عورتوں کے محکوم ہوا کرتے ہیں۔ ناول کا ہیرو Jaromil اپنی سنکی اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی ماں کا محکوم ہے جو اُسے غنائی دنیا میں دھکیلنے کے لیے پوری طرح ذمہ دار کہی جاسکتی ہے۔ Jaromil کی غنائی شاعری چیکوسلوواکیہ میں اسٹالینی حکومت کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ خود غرضی Jaromil کا بنیادی جذبہ ہے جس کے تحت وہ اپنی محبوبہ تک کو پولیس کے ہاتھوں سونپ دیتا ہے۔ Jaromil جان بوجھ کر، اپنی مرضی سے سخت سردی کی زد میں آکر ایک دن مرجاتا ہے۔ Jaromil کی اس چونکا دینے والی اور یکایک صدمہ پہنچانے والی موت دکھاکر، میلان کنڈیرا خود اپنی نوجوانی کی غلطیوں یا غلط فہمیوں کو دور کردیتا ہے۔ جیساکہ عرض کیا جاچکا ہے کہ ’’سات‘‘ کا عدد اُس کی تقریباً ہر تصنیف کی Musical Composition میں شامل ہے، Life is Elsewhere میں بھی یہی Composition پائی جاتی ہے جو Sonata کے اصولوں پر مبنی ہے۔
میلان کنڈیرا کے یہاں جنسی عمل اور پورنوگرافی کی ایک خاص اہمیت ہے اس ناول میں بھی جگہ جگہ جنسی عمل کے ایسے مناظر ہیں جن کے ذریعے انسانی وجود کے تاریک ترین پہلو روشن ہوتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً ’’Xavier‘‘ نام کے دوسرے حصّے میں Xavier جس لڑکی سے افلاطونی محبت کرتا ہے۔ اُس لڑکی کا پولیس میں ملازمت کرنے والا بے رحم شوہر اپنے بوٹ اتارے بغیر، اسی پلنگ پر لڑکی کے ساتھ غیر فطری طریقے سے مباشرت کرتا ہے، جس پلنگ کے نیچے Xavier چُھپا ہوا ہے۔ یہ صورت حال اس طرح ہے کہ لڑکی کا چہرہ پلنگ میں چھپا ہوا ہے جسے Xavier دھندلا دھندلا دیکھ رہا ہے۔ لڑکی خود کو بے عزت محسوس کررہی ہے۔ کیوں کہ ایک روحانی محبت کرنے والے عاشق کے اوپر پڑے پلنگ پر اُس کا بے رحم شوہر اُس کے جسم کو جانوروں کی طرح استعمال کررہا ہے۔
مگر شاید میلان کنڈیرا سے زیادہ بے رحم ناول نگار، ہمارے عہد میں دوسرا کوئی نہیں ہے جو اس قسم کے تضادات، Paradoxes اور عجیب و غریب حالات پیش کرتے ہوئے انسانی وجود کی ان تمام تاریک جہتو ں کو دریافت کرلیتا ہے جن کو اپنے سامنے دیکھ کر قاری کا دل دہل کر رہ جاتا ہے۔ یہ کام سارتر، کامیو، یا اونا مونو جیسے وجودی ادیب بھی نہیں کرسکے تھے۔
Life is elsewhere میں، کنڈیرا کے دوسرے ناولوں کے بمقابل مزاح یا تفریح کا عنصر بہت کم ہے۔ اس ناول میں کنڈیرا نے اپنی زبان کو بھی نستباًآسان بنانے کی کوشش کی ہے کیوں کہ وہ یہ جانتا تھا کہ اب وہ صرف اپنے مترجموں کے لیے لکھ رہا ہے اور اس کے اپنے ملک میں، اس کی کوئی تحریر شاید کبھی نہ شائع ہوسکے۔
Life is elsewhere کنڈیرا کے ناولوں میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ شاعری کا تجزیہ، شاعر کی شخصیت، سیاست اور اسٹالینی کیمونزم، کرداروں کی باہمی کشمکش، سب پر میلان کنڈیرا، ناول کے اندر ہی باقاعدہ تبصرہ کرتا رہتا ہے۔ ’’شاعری پر تنقید‘‘ کے موضوع پر یہ ایک اکیلا ناول ہے جو خود بھی ناول کی شعریات‘‘ کو اپنی معراج تک پہنچا دیتا ہے۔ ایک ایسی معراج جہاں پر بصیرت کے ساتھ ساتھ افسردگی کی ایک لے بھی صاف سنائی دیتی ہے افسردگی کی یہ لے، میلان کنڈیرا کے تقریباً ہر ناول کا وصف ہے چاہے اس میں ’’کامک‘‘ کا عنصر نمایاں ہو یا کھیل کود اور لطیفے بازی کا اس کے گزشتہ ناول The Joke میں بھی یہ افسردگی ایک ایک سطر پر موجود تھی۔ اسی لیے میلان کنڈیرا اس وقت ساری دنیا کا سب سے مشکل ناول نگار ہے۔ وہ اس لیے مشکل نہیں ہے کہ ’’حوزے سارا ماگو‘‘ کی طرح اس کے بیانیے میں کاما، فل اسٹاپ وغیرہ نہیں ہیں۔ بلکہ اس لیے کہ Paradoxes کی جس عجیب وغریب دنیا میں، وہ ہمیں لے جاتا ہے، اس تک پہنچنے کے راستے آسان نہیں ہیں۔ یہ ایک مشکل موسیقی کو کنسرٹ میں صبرو استقلال کے ساتھ بیٹھ کر سننے جیسا ہے۔

(3) Fare well waltz:

میلان کنڈیرا کا یہ ناول بھی پراگ میں 1972 تک لکھ کر مکمل کرلیا گیا تھا اور اس کا اصل عنوان ’’The Epilogue‘‘ تھا۔ ناول بہرحال 1979 میں ہی شائع ہوسکا (یہ ناول Fare well Party کے نام سے بھی شائع ہوتا رہا ہے) Fare well waltz اپنی فارم کے اعتبار سے ایک Farce ہے۔ جس کے کردار عجیب و غریب اور مضحکہ خیز قسم کے حالات میں گرفتار ہوتے ہیں۔ شیکسپئیر کا مشہور ڈرامہ ’’The Comedy of the errors‘‘ Farce کی ہی ایک قسم ہے، بنیادی طور پر Farce کی ہیئت فرانسیسی زبان میں ارتقا پذیر ہوئی ہے۔ میلان کنڈیرا کا کمال یہ ہے کہ اس نے اس کامِک فارم میں سنجیدہ اور Ironic عُنصر شامل کردیا ہے جس کے نتیجے میں قاری کو عجیب و غریب صدمے سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ یہ صدمہ اس غیر فطری، ناخوشگوار اور چونکا دینے والی صورت حال کی وجہ سے پیش آتا ہے جس کے لیے ادب میں Grotesque کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ناول میں پانچ مختلف جوڑوں کے آپسی رشتوں میں پیدا غلط فہمیوں کو بحث کا موضوع بنایا گیا ہے۔ مرکزی کردار Klima ہے اور جس کو اپنی خوبصورت بیوی سے بہت محبت ہے مگر اس محبت کا قوی احساس اسے ان لمحات میں ہی ہوتا ہے جب وہ کسی دوسری عورت کے ساتھ ہم بستری کر رہا ہو۔ اس کے بعد وہ فوراً اپنی بیوی کے پاس ہی لوٹ جانا چاہتا ہے۔ المیہ یہ ہوتا ہے کہ ایک Spa میں (وہ جگہ جہاں زمین سے مزل واٹر کے سوتے ابلتے رہتے ہیں اور لوگ اپنی بیماریوں کا علاج کروانے وہاں پہنچتے ہیں) کام کرنے والی نرس Ruzena سے جسمانی ملاپ کے نتیجے میں، وہ حاملہ ہوجاتی ہے Klima اُس سے ابارشن کرانے کے لیے کہتا ہے مگر وہ راضی نہیں ہوتی۔ سارا ناول اس تگ و دو میں ختم ہونے والا تھا، مگر بعد میں کچھ ایسے حالات پیدا ہوگئے۔ جس کے سبب Ruzena کی موت ہوگئی۔ اس کی موت کا ذمہ دار جیکب نام کا ایک شخص ہے جس نے Ruzena کے پرس میں نیند کی نیلی گولی کی جگہ زہر کی نیلی گولی ڈال دی تھی۔ مگر جیکب نے ایسا کیوں کیا؟ نرس Ruzena کی اس سے کیا دشمنی تھی۔ سوائے اس کے کہ وہ جیکب سے چھڑاکر، ایک پالتو کتے ’Bob‘ کو کتے پکڑنے والے ظالم بوڑھے آدمی کو سونپ دینا چاہتی تھی۔ اور جیکب جو زندگی بھر اپنی دانست میں انسانی حقوق، انصاف اور رحم و قربانی جیسے ایجنڈوں کا ترجمان رہا تھا، اسے Ruzena کی شکل ایک جلّاد کی مددگار نظر آتی تھی۔ مگر کسی کو یہ نہیں معلوم ہو سکتا کہ Ruzena کی موت کا ذمہ دار کون ہے کیوں کہ جیکب ہمیشہ کے لیے چیکو سلواکیہ چھوڑ کر جارہا ہے۔ خود جلا وطنی کی طرف ناول میں ایک کردار ڈاکٹر Skreta کا بھی ہے جو Spa میں آنے والی بانجھ عورتوں کا علاج اس طرح کر رہا ہے کہ ٹیسٹ ٹیوب میں خفیہ طور سے اپنا مادہ منویہ ڈال کر اسے عورتوں کی کوکھ میں داخل کر رہا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ عورتیں شاذ و ناذر ہی بانجھ ہوتی ہیں۔ خرابی ان کے مردوں میں ہوتی ہے مگر اس ایڈونچر کا نتیجہ یہ بھی ہورہا ہے کہ پورے شہر میں ڈاکٹر Skreta کی لمبی اور ستواں ناک والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور وہ سب رشتے میں ایک دوسرے کے بھائی بنتے جا رہے ہیں اور یہ شہر آہستہ آہستہ ایک حقیقی برادری میں بدلنے والا ہے۔
یہاں کنڈیرا نے ایک دلچسپ واقعے کا ذکر کیا ہے کہ Fare well waltz پڑھ کر میڈیسن کے ایک پروفیسر صاحب بہت متاثر ہوئے، ان کی دانست میں Dr Skreta کے حوالے سے کنڈیرا نے Artificial insemination پر بہت پرمغز خیالات کا اظہار کیا تھا اور وہ کنڈیرا کو اس سلسلے میں منعقد ہونے والی کانفرس میں مدعو کرنا چاہتے تھے، جب کنڈیرا نے ان کو بتایا کہ یہ ایک کامک ناول ہے تو انہوں پوچھا کیا ناول میں سنجیدگی نہیں ہوتی؟ میلان کنڈیرا کا کہنا ہے کہ وہ لاجواب ہوگیا کیوں کہ لوگ مزاح اور اس کی معنویت کو نہ تو سمجھتے ہیں اور نہ ہی کوئی دوسرا اُنھیں سمجھا سکتا ہے۔ ناول میں تمام کردار آپس میں لمبی لمبی گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ جو واقعات پیش آتے ہیں، انھیں یہ سب کردار غلط مگر اپنے اپنے طریقے سے بیان کرتے ہیں۔ اُن کی تشریحات غلط فہمیوں اور منافقتوں پر مبنی ہیں۔ مثال کے طور پر Ruzena کو یہ یقین نہیں کہ Klima ہی اُس کے پیٹ میں پلنے والے بچے کا باپ ہے کیوں کہ اِسی زمانے میں وہ ایک نوجوان کے ساتھ ہم بستری کرچکی ہے مگر اپنی مخصوص نسوانیت اور جذباتیت کے سبب وہ Klima کو ہی اس کا ذمّہ دار سمجھتی ہے۔ گزشتہ صفحات میں یہ عرض کیا جاچکا ہے کہ کنڈیرا کے کسی ناول یا کہانی کی Summary پیش کرناوقت کی بربادی اور حماقت سے کم نہیں کیوں کہ وہ قصّہ گوئی سے بہت حد تک اجتناب برتتا ہے۔ اُس کے ناولوں کا جوہر اُس کے Discourse میں چُھپا ہوتا ہے جو وہ اپنے جادوئی قلم کے ذریعے بیانیہ میں اتنی صفائی اور سادگی کے ساتھ سمودیتا ہے کہ بے اختیار منھ سے واہ نکل جاتی ہے۔ Farewell Party اسی قسم کے تجزیاتی بیانات سے بھرا ہوا ناول ہے۔ بقول کنڈیرا ناول کی اگر کوئی اخلاقیات ہے تو وہ صرف علم ہے۔ ناول نگار کا کام ’’سچ‘‘ کی تبلیغ کرنا نہیں ہے بلکہ اُسے کھوجنا ہے۔ مختلف مزاحیہ صورت حالوں کے ذریعے میلان کنڈیرا نے۔ اس ناول میں ’’سچ‘‘ کی بہت سی مختلف شکلوں کو کھوج نکالا ہے اور بغیر کسی قسم کی مطلقیت پر زور دیے، ایک عالمگیر اضافیت سے پردہ اٹھایا ہے تاکہ لوگ اس اضافیت کا نظارہ جی بھر کر کرسکیں۔ تکنیکی اعتبار سے اس ناول میں سات کے عدد کا دخل نہیں۔ یہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے اور یہ ابواب پانچ دنوں پر۔

(4) The Book of Laughter and Forgetting:

میلان کنڈیرا کا یہ مشہور ترین ناول فرانسیسی زبان میں ترجمہ ہوکر 1979 میں شائع ہوا جب کہ چیک زبان میں یہ 1981 میں ہی منظر عام پر آیا۔ اِس ناول نے راتوں رات میلان کنڈیرا کی شہرت میں چار چاند لگا دیے اور اُس کا شمار اپنے عہد کے بڑے ادیبوں مثلاً مارکیز، فیونیتیس اور حوزے ساراماگو وغیرہ کی صف میں ہونے لگا۔ مگر بہت سے مکتبی قسم کے ادبی نقادوں نے اِسے سرے سے ناول ہی تسلیم نہیں کیا مگر میلان کنڈیرا نے خود ناول میں ہی اس اس بات کی وضاحت کی ہے کہ یہ ایک ناول ہی ہے جو Variation کی فارم میں ہے۔ فلپ راتھ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اُس نے صاف صاف کہا کہ ناول کی فارم میں ایک لامحدود آزادی پوشیدہ ہے۔ کسی مخصوص اور فرسودہ فارم یا انسٹرکچر ہی کو ناول سمجھ لینا ایک نادانی ہے۔ موسیقی کی طرح ناول کی بیکراں آزادی ہر شے کی وحدتِ کُل کو طرح طرح سے منظم کرسکتی ہے۔ کسی کتاب کی وحدت محض پلاٹ کے ذریعے ہی نہیں بلکہ موضوع یا تھیم سے بھی ممکن ہے۔ زیربحث ناول میں دو موضوع پائے جاتے ہیں، خندہ اور فراموشی۔
میلان کنڈیرا نے ناول میں فرشتوں کی ہنسی اور شیطان کی ہنسی کا مابعدالطبیعیاتی موازنہ پیش کیا ہے۔ فرشتے اس بات پر ہنستے مسکراتے رہتے ہیں کہ خدا کی بنائی ہوئی دنیا اور اس کا نظام پوری طرح بامعنی ہے جب کہ شیطان اس لیے قہقہہ لگاتا ہے کہ خدا کی بنائی ہوئی کائنات بے معنی ہے۔ کتاب کے آخری حصّے بعنوان Border میں ایک تازہ کھدی ہوئی قبر میں ٹھیک میت پر ہی ایک شخص کا ہیٹ گر پڑتا ہے۔ اس لمحے میں کفن دفن کی ساری معنویت ختم ہوجاتی ہے اور لوگ ہنسنے لگتے ہیں میلان کنڈیرا فرشتوں کے انتہا پسند قہقہے کو ایک عذاب کی نشانی سمجھتا ہے کیونکہ آمریت صرف جہنم ہی نہیں ہے۔ وہ جنت کا خواب بھی ہے۔
ناول کے چھٹے حصّے (The Angles) میں تمینہ ایک ایسے جزیرے میں پہنچ جاتی ہے جہاں صرف بچّے ہی بچّے پائے جاتے ہیں اور آخرکار یہی بچے اُس کی دردناک موت کا سبب بھی بنتے ہیں۔ اِسے کسی قسم کی تمثیل سمجھ لینا غلط ہوگا کیونکہ خود میلان کنڈیرا کے مطابق تمثیل سے زیادہ اجنبی کوئی اور شے اُس کے لیے نہیں ہے اُس کا اشارہ دراصل بچپنے کے اس زمانے کی طرف ہے جب انسان اس کی غنائیت (Lyricism) کا دیوانہ ہوتا ہے مگر جب یہی غنائیت اچانک خوف اور دہشت میں بدل جائے تب؟ غنائیت اور جذباتیت ہمیشہ ہر بامعنی نظام اقدار کو کچل کر رکھ دیتی ہے۔ فلپ راتھ سے گفتگو کے دوران کنڈیرا نے اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ واقعات کو خواہ وہ حقیقی ہوں یا محض خیالی، اُنھیں اپنی ماہیت میں اہم ہونا چاہئے۔ قاری تو وہی اصلی ہے جو خاموشی کے ساتھ اور سادہ لوحی سے واقعات کی قوت اور شعریت کے ٹرانس میں آجائے۔
تمینہ جو اپنے حافظے کے ساتھ ہے اور فراموشی کے خلاف نبردآزما ہے۔ جب ایک بچکانہ معاشرے میں خود کو گھری محسوس کرتی ہے تو اُس کی موت کا واقع ہونا ایک فطری امر ہے کیونکہ آمریت قوم کو اُس کے حافظے سے محروم کرکے، اُس کی تقلیب بچوں کی ایک قوم میں کردیتی ہے۔ بقول کنڈیرا تمینہ کی موت فرشتوں کے قہقہوں کے دوران ہوتی ہے۔
ناول کے اِسی چھٹے حصّے میں کنڈیرا نے اپنے والد کی بیماری اور موت کا بھی بیان کیا ہے۔ بچوں کا یہ شیطانی پیکر اس مقام پر بھی موجود ہے۔ مگر اس ناول کی کسی بھی کہانی کو تمثیل سے کوئی علاقہ نہیں۔ یہ ایک قسم کی Poly Phony ضرور ہے جس میں کئی کہانیاں ایک دوسرے کی تشریح کا سبب بنتی ہیں۔ اور ایک دوسرے کو مکمل یا روشن بھی کرتی ہیں۔ کنڈیرا کے مطابق اس کی یہ کتاب آمریت کا اعمال نامہ ہے۔
جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے کہ کنڈیرا کے یہاں جنسی مباشرت کے مناظرلذت پسندی کے لیے نہیں ہوتے ہیں۔ بلکہ کرداروں کا ذاتی جوہر منکشف کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ تمینہ کے ساتھ ہیوگو جب مباشرت میں مگن ہے، تو تمینہ صرف ان چھٹیوں کے دنوں کو یاد کیے جارہی ہے جو اس نے اپنے شوہر کے ساتھ گزاری تھیں۔ تمینہ فراموشی کے خلاف لڑرہی ہے۔ اور یہ بھی واضح ہو کہ ’’ہیوگو‘‘ تمینہ سے عمر میں بہت چھوٹا ہے اور غنائیت کا اسیر ہے۔ اس طرح غنائیت کے حملے سے اپنے حافظے کو بچائے رکھنے کا استعارہ قائم ہوجاتا ہے۔ یہی نہیں، ناول کے آخری حصے ’’The Border‘‘ میں گروپ سیکس کے منظر پر ہی ناول کا اختتام ہوتا ہے۔ بقول کنڈیرا ایک خیالی حدِ فاضل (Border) ہے جس کے ماورا تمام اشیا لغویت اور مضحکہ خیزیت سے بھری نظر آتی ہیں۔ ہر انسان اس حد فاضل کے آس پاس ہوتا ہے اور اپنے آپ سے کچھ بنیادی سوالات کرنے کے بعد اس حدِفاضل کے باہر بھی جاسکتا ہے۔ یہ انسانی زندگی کے ہر شعبے میں ہے۔ جہاں تک جنس کا سوال ہے تو اس سے زیادہ عمیق شعبہ انسانی زندگی میں کوئی دوسرا نہیں ہے۔ گروپ سیکس کی اہمیت یوں ایک بھونڈے سوانگ سے زیادہ نہیں اور انسان کے دونوں جانب کھائیاں ہیں۔ ایک طرف تعصّب ہے۔ تشدّد ہے۔ جبرو استحصال ہے تو دوسری طرف سوائے تشکیک اور الجھاؤ کے کچھ نہیں۔
فلپ راتھ نے پوچھا تھا کہ کیا یہ مایوسی کی انتہا نہیں ہے؟ اس کتاب سے تو ایسا لگتا ہے جسے ساری دنیا جلد تباہ ہو جانے والی ہو تو کنڈیرا کا جواب تھا کہ ناول کسی چیز پر اصرار نہیں کرتا۔ ناول کا کام صرف جستجو، کھوج بین اور سوال اٹھانا ہے۔ کنڈیرا کا کہنا ہے کہ وہ تو کہانیاں گڑھنے والا ہے۔ وہ اتنا احمق نہیں کہ ہر چیز کا جواب اپنی جیب میں تیار رکھے۔ ناول کی خوبی اس بات میں پنہاں ہے کہ اس میں ہر چیز کی بات استفسار پایا جاتا ہے۔ ناول نگار اگر قاری کو کچھ بتانا چاہتا ہے تو صرف یہ کہ قاری دنیا کو ایک سوال کے طور پر سمجھے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ کنڈیرا کی یہ کتاب اپنے اسٹرکچر کے حوالے سے انوکھی ہے۔ پوری کتاب سات ابواب میں تقسیم کی گئی ہے۔ الگ الگ کہانیاں، یادیں، حکایتیں اور فلسفیانہ مضامین سے اس انوکھے ناول کی تشکیل ہوتی ہے۔ ایک باب میں Beethoven کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے۔ یہ کوشش بھی کی گئی ہے کہ تمام ابواب موسیقی کے اصولوں، Polyphony اور Variation کی نمائندگی بھی کرتے رہیں۔ ناول کے مختلف راوی ان Variations کے ذریعے ہی ایک دوسرے سے منسلک نظر آتے ہیں۔ ناول کا مرکزی تھیم ’’فراموشی کے خلاف جدو جہد‘‘ہے۔ یہ تھیم ہر باب میں موجود ہے اور اسے ذاتی اور اجتماعی دونوں نظریوں کے ذریعے کھنگالا گیا ہے۔ ناول کی ابتدا میں Mirek ان خطوط کو تلاش کررہا ہے جو اس نے اپنی نوجوانی کے زمانے میں اپنی محبوبہ کو لکھے تھے۔ تاکہ وہ ان خطوط کو تلف کرکے اپنے ماضی سے نجات حاصل کرسکے۔ دوسری طرف Tamina ہے جو فرانس میں ایک چیک مہاجر کی حیثیت سے رہ رہی ہے اور ان خطوط کی تلاش میں سرگرداں ہے جو اس نے اپنے مرحوم شوہر کو اس زمانے میں لکھے تھے، جب دونوں پراگ میں رہتے تھے، وہ فراموشی کے خلاف ایک جنگ لڑ رہی ہے۔ تمینہ کی موت جس ماحول میں ہوتی ہے، وہ ایک کمیونزم حکومت کی علامت ہے۔
میلان کنڈیرا نے ناول میں اپنی نوجوانی کے دنوں میں پراگ کی کیمونسٹ حکومت کا ذکر کرتے ہوئے۔ اس کی مکمل طور پر نفی کی ہے۔ اس کے خیال میں کمیونسٹ انقلاب ان لوگوں کے ہاتھوں سے نکل گیا جنہوں نے اس انقلاب کی تخلیق کی تھی۔ کتاب میں بہت سے تاریخی حقائق اور کنڈیرا کے اپنے ذاتی تجربات پائے جاتے ہیں مگر اسے کسی قسم کی دستاویز یا سوانح کہنا غلط ہوگا یہ سب کچھ ایک بڑے ناول نگار کی تخلیقی ایچ یعنی ’’Variations‘‘ کے ذریعے فکشن کے ایک ناور نمونے میں ڈھل گیا ہے۔
میلان کنڈیرا کی زبان ’’The Joke‘‘ میں جتنی مشکل تھی۔ اتنی اس ناول میں نہیں ہے مگر اسلوب کی پیچیدگی میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ وہ ناول کو اس طرح لکھتا ہے جیسے کوئی کھیل کھیل رہا ہو اور اس کے بیانات زبردست تخلیقی ابہام سے بھرے نظر آتے ہیں۔ Irony اور Paradoxes میلان کنڈیرا کے یہاں جیسے شطرنج کے مہرے ہیں جن کے ذریعے اپنے ہر ناول میں وہ ایک لمبی بازی کھلتا ہے۔
The Book of Laughter and Forgetting اُس نے فرانس میں آنے کے بعد لکھی۔ اسے وہ اپنی ’’پہلی مغربی کتاب‘‘ کا عنوان بھی دیتا ہے۔ اس کتاب کے لکھنے کے دوران وہ مشرق اور مغرب میں دونوں میں، بسر کی گئی اپنی زندگی کا تجزیہ بھی کرتا رہا۔ اسی تجزیے کے نتیجے کے بطور یہ ناول وجود میں آیا۔ ایک عجیب و غریب مگر اہم ترین ناول جس کا تھیم صرف وجودیاتی تفتیش ہے (اسے سیاسی ناول ہرگز نہ سمجھنا چاہئے) اور یہ وجودیاتی تفتیش آخر میں صرف چند الفاظ کے تجزیے اور تشریح پر مبنی ہے۔ پورے ناول میں لفظوں کی ایک قطار کا مختلف انداز سے تجزیہ کیا جاتا رہا ہے۔ لفظوں کی یہ قطار اس طرح ہے Forgetting - Laughter - Angles - Litlost - Border یہ پانچ الفاظ بقول میلان کنڈیرا ’’وجود کی جہات‘‘ میں بدل جاتے ہیں۔
سہل پسند قاری کے لیے کنڈیرا کا یہ ناول یقیناًایک تازیانہ ہے اور اُن لوگوں کے لیے بھی جو یوروپئین ناول کی پوری تاریخ سے واقف نہیں ہیں۔ میلان کنڈیرا کے کسی ناول سے لطف اندوز ہونے کے لیے اور اُسے سمجھنے کے لیے۔ اُس کے نان فکشن (Non Fiction) کا مطالعہ بھی بہت ضروری ہے۔ اس ناول کے پہلے باب ’’Lost letters‘‘ کے ابتدائی حصّے کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے۔ یہ ترجمہ آصف فرخی نے کیا ہے جو کراچی سے اجمل کمال کی ادارت میں شائع ہونے والے رسالے ’’آج‘‘ کی ’’دوسری کتاب‘‘ سے ماخوذ ہے۔ میلان کنڈیرا کے اسلوب اور زبان کی تخلیقی جہتوں کی ایک جھلک اس ترجمے میں بہت بہتر طریقے سے پیش ہوئی ہے۔

خندہ اور فراموشی کی کتاب

(1)
فروری 1948ء میں کمیونسٹ رہنما کلیمنٹ گوٹ والڈ، پراگ کے باروک طرز تعمیر کے ایک محل کی بالکنی پر نمودار ہوا تاکہ ان ہزاروں لاکھوں شہریوں سے خطاب کرے جو پرانے شہر کے چوک میں بھیڑ لگائے کھڑے تھے۔ یہ چیکوسلوواکیہ کی تاریخ کا فیصلہ کن لمحہ تھا۔ ان تقدیر ساز لمحوں میں سے ایک جو ہزاروں برس میں ایک آدھ بار ہی آتے ہیں۔
گوٹ والڈ کے دونوں جانب اس کے رفیق تھے اور کلیمنٹس اس کے پہلو میں کھڑا ہوا تھا۔ برفیلی ہوا چل رہی تھی، موسم خُنک تھا اور گوٹ والڈ برہنہ سر تھا۔ مستعد کلیمنٹس نے اپنی سموردار ٹوپی اتار دی اور گوٹ والڈ کے سر پر رکھ دی۔
پارٹی کے پروپیگنڈا والے شعبے نے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ایک تصویر شائع کی جس میں گوٹ والڈ، سر پر سموردار ٹوپی پہنے اور اپنے رفیقوں کو ساتھ لیے، ہجوم سے خطاب کررہا ہے۔ اس بالکنی پر کمیونسٹ چیکوسلوواکیہ کی تاریخ نے جنم لیا۔ ملک کا بچہ بچہ اس تصویر کو پوسٹروں، درسی کتابوں اور عجائب گھروں میں دیکھ چکا ہے۔
چار سال بعد کلیمنٹس پر غداری کا الزام عائد ہوا اور اسے پھانسی دے دی گئی۔ پروپیگنڈا کے شعبے نے فوراً اسے تاریخ سے یکسر صاف کردیا۔ اور ظاہر ہے کہ ان تمام تصویروں سے بھی۔ اس کے بعد سے گوٹ والڈ بالکنی پر اکیلا کھڑا ہے۔ جہاں کبھی کلیمنٹس تھا، وہاں محل کی خالی دیوار ہے کلیمنٹس کا اب کچھ باقی رہا ہے تو وہ ہے گوٹ والڈ کے سر پر اس کی ٹوپی۔

(2)
یہ 1971ء ہے اور میریک (Mirek) کہتا ہے کہ اقتدار کے خلاف ایک آدمی کی جدوجہد فراموشی کے خلاف یاد داشت کی جدوجہد ہے۔
اس کی یہ کوشش اس چیز کو حق بجانب ٹھہرانے کے لیے ہے جسے اس کے دوست بے احتیاطی کہتے ہیں: اپنے روز و شب کی تفصیل ڈائری میں لکھنا، تمام خط و کتابت محفوظ رکھنا، ان جلسوں کی گفتگو لکھ لینا جہاں حالات حاضرہ پر اور اس سوال پر بحث ہوتی ہے کہ اب اس کے بعد کیا کرنا چا ہئے۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں، اس سے آئین کی خلاف ورزی نہیں ہوتی ہے، وہ انہیں بتاتا ہے۔ چھپانے کی کوشش کرنا، احساس جرم کو جگہ دینا۔ یہ انجام کی ابتدا بن جاتے ہیں۔
ایک ہفتہ پہلے، ایک نئی عمارت کی چھت پر اپنے عملے کے ساتھ کام کرتے ہوئے اس نے نیچے جھانک کر دیکھا اور اچانک اسے چکر آنے لگے۔ اس کا توازن بگڑگیا اور اس نے ایک شہتیر کی طرف ہاتھ بڑھایا جو پوری طرح جکڑا ہوا نہیں تھا، مگر وہ شہتیر اکھڑ گیا اور بعد میں اسے شہتیر کے نیچے سے گھسیٹ کر نکالا گیا۔ پہلے پہل چوٹ خطرناک معلوم ہورہی تھی لیکن بعد میں جب اسے معلوم ہوا کہ یہ وہی روز مرہ کا عام ساٹوٹا ہوا بازو ہے، تو اس نے بہت اطمینان کے ساتھ اپنے آپ سے کہا کہ اب ہفتے ڈیڑھ کی چھٹی مل جائے گی جس میں وہ چند ایسے معاملات نبٹاسکتا ہے جن کو پورا کرنے کا ارادہ وہ بہت دنوں سے کر رہا تھا۔
آخر کار وہ اپنے محتاط دوستوں کی روش پر آہی گیا۔ یہ سچ ہے کہ آئین نے �آزادئ تقریر دے رکھی تھی، مگرقانون کے مطابق ہر وہ عمل قابلِ سزا تھا جسے ملک دشمن قرار دیا جاسکے۔ اب بھلا یہ کون بتاسکتا ہے کہ ملک کب یہ چیخنا شور مچانا شروع کردے کہ فلاں فلاں لفظ میرے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ان موردِ الزام ٹھہرانے والے کاغذات کو کسی محفوظ جگہ منتقل کردے تو بہتر ہے۔
لیکن سب سے پہلے وہ زوینا والا مسئلہ طے کرلینا چاہتا تھا۔ اس نے زوینا کو طویل مسافت سے ٹیلی فون کرنا چاہا، مگر بات نہ ہوسکی۔ چار دن اس سے بات کرنے کی کوشش میں ضائع ہوگئے۔ کل جاکر وہ اس سے بات کرنے میں کامیاب ہوا۔ زوینا نے وعدہ کیا کہ وہ آج کی دوپہر اس کا انتظار کرے گی۔
اس کے سترہ سالہ بیٹے نے احتجاج کیا کہ بازو پر پلاسٹر چڑھائے ہوئے وہ ہرگز گاڑی نہیں چلا سکتا۔ یہ واقعی مشکل کام تھا۔ اس کا زخمی بازو، پٹی میں بندھا ہوا، اس کے سینے پر بے کار جھول رہا تھا۔ جب بھی وہ گئیر بدلتا۔ چند سیکنڈ کے لیے اسے اسٹیرنگ وہیل چھوڑ دینا پڑتا۔

(3)
پچیس سال بیت گئے جب زوینا کے ساتھ اس کا معاملہ چلا تھا، اور اب اس کی نشانی کے طور پر محض چند یادیں رہ گئی تھیں۔
ایک دفعہ وہ آئی تو رومال سے اپنی آنکھیں رگڑتی ہوئی اور ناک پونچھتی ہوئی۔ اس نے پوچھا کہ کیا ہوگیا۔ ایک دن پہلے روس کا کوئی بڑا سیاست دان مرگیا زوینا نے اسے بتایا۔ کو زوانوف، آربوزوف یا مشتز نوف۔ اگر آنسوؤں کے قطروں کی تعداد سے حساب لگایا جائے تو وہ مشترنوف کی موت پر زیادہ دل گرفتہ تھی اور اپنے باپ کی موت پر کم۔
کیا یہ سب کچھ واقعی ہوا تھا؟ یا مشتر زنوف کے لیے زوینا کی نوحہ گری محض اس کی موجودہ نفرت کا شاخسانہ تھی؟ نہیں، یہ سب واقعی پیش آیا تھا، گوکہ یہ ظاہر ہے کہ اس لمحے کے فوری حالات جو اس واقعے کو قابلِ اعتبار اور حقیقی بنا رہے تھے۔ اب غائب ہوچکے تھے اور اس کی یاد غیر معقول اور مضحکہ خیزبن گئی تھی۔
اس کی ساری یادیں ایسی ہی تھیں۔ وہ دونوں ٹرام میں بیٹھ کر اس فلیٹ سے واپس آئے تھے جہاں پہلی بار انہوں نے مباشرت کی تھی (مریک کو اس امر سے خاصی تسکین ہوئی کہ وہ ان تمام مباشرتوں کو بالکل فراموش کرچکا تھا، ان میں سے کسی ایک مباشرت کا لمحہ بھر بھی یاد نہیں کرسکتا تھا۔) کنارے کی سیٹ پر بیٹھے ہوئے اور دھچکوں کے ساتھ اچھلتے ہوئے وہ بہت افسردہ، پریشان اور حیرت انگیز حد تک عمر رسیدہ نظر آرہی تھی۔ جب مریک نے پوچھا کہ تم اتنی چُپ چاپ کیوں ہو۔ تو اس نے جواب دیا کہ وہ اس جسمانی تعلق سے مطمئن نہیں ہوئی۔ وہ کہنے لگی کہ تم دانش وروں کی طرح مباشرت کرتے ہو۔
اس زمانے کے سیاسی محاورے میں ’دانش ور‘ کا لفظ گالی سے کم نہیں تھا۔ اس کا مطلب تھا وہ شخص جو زندگی کو سمجھنے میں ناکام رہا ہے اور عام لوگوں سے کٹا ہوا ہے۔ اس زمانے میں جن کمیونسٹوں کو ان کے ساتھی کمیونسٹوں نے تختۂ دار پر چڑھایا، وہ یہی گالی اپنے سر لے کر مرے۔ ان لوگوں کے برخلاف جن کے پاؤں مضبوطی کے ساتھ زمین پر جمے ہوئے تھے، یہ لوگ، قیاس کے مطابق ہواؤں میں اڑتے رہے تھے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ بات بالکل جائز تھی کہ ان کے پیروں کے نیچے سے زمین آخری اور قطعی بار کھینچ لی جائے اور انہیں زمین سے چند گز اوپر لٹکنے دیا جائے۔
لیکن زوینا کا کیا مطلب تھا جب اس نے یہ الزام لگایا کہ وہ دانش وروں کی طرح مباشرت کرتا ہے؟ کسی نہ کسی وجہ سے وہ اس سے مطمئن نہیں ہوئی تھی، اور جس طرح وہ کسی تجریدی یا تخئیلی رشتے کو (مشتزنوف نام کے ایک اجنبی سے اپنے تعلق کو) جذبات و احساس کی ٹھوس جسمانی شکل (یعنی آنسو) سے ظاہر کرسکتی تھی، اسی طرح وہ سب سے زیادہ جسمانی عمل کو ایک تجریدی معنی اور اپنے عدم اطمینان کو ایک سیاسی نام دے سکتی تھی۔

(4)
گاڑی کے پچھلے شیشے میں جھانکتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ ایک اور گاڑی شروع سے اس کا پیچھا کر رہی ہے۔ اسے کبھی بھی اس بات پر شک نہیں تھاکہ اس کا پیچھا کیا جاتا رہا ہے، مگر اب تک انہوں نے استادانہ احتیاط کے ساتھ کام کیا تھا، لیکن آج ایک انقلابی تبدیلی آگئی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ اسے ان کے بارے میں معلوم ہوجائے۔
پراگ سے کوئی پندرہ میل دور کھیتوں کے درمیان ایک اونچی باڑھ تھی، جس کے پیچھے گاڑیوں کی مرمت کی دکان تھی۔ وہاں اس کا ایک دوست ہوا کرتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ گاڑی اسٹارٹ ہونے میں جو گڑبڑ کرتی ہے۔ اس کا پُرزہ بدلوالے، اس نے دکان کے دروازے پر گاڑی روک دی۔ وہاں سرخ و سفید دھاریوں والا پھاٹک تھا۔ ایک بھاری بھرکم عورت وہاں کھڑی ہوئی تھی۔ مریک نے انتظار کیا کہ وہ پھاٹک کھول دے، مگر وہ بے حس و حرکت کھڑی اسے گھورتی رہی۔ اس نے گاڑی کا ہارن بجایا، لیکن ادھر سے کوئی جواب نہ ملا۔ اس نے کھڑکی سے جھانکا۔
’’ابھی تک سلاخوں کے پیچھے نہیں پہنچے؟‘‘ عورت نے اس سے پوچھا۔
’’نہیں، ابھی تک نہیں۔‘‘ مریک نے جواب دیا۔ ’’بھاٹک کھولنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ‘‘
وہ سپاٹ چہرہ لیے، چند ثاینوں تک اسے تکتی رہی، پھر جماہی لی اور پھاٹک کے قریب بنی ہوئی کوٹھری میں جاکر کرسی پر دھر کے بیٹھ گئی، اور اس کی جانب پیٹھ کرلی۔
چنانچہ وہ گاڑی سے اترا، پھاٹک کے گرد چکر کاٹتا ہوا اپنے مستری دوست کی تلاش میں اندر چلا گیا۔ مستری کو ساتھ لے کر وہ باہر نکلا۔ اس نے خود پھاٹک کھولا (عورت ابھی تک کوٹھری میں بے حس و حرکت بیٹھی ہوئی تھی)، اور مریک گاڑی چلاتا ہوا اندر لے گیا۔
’’یہ انعام ملتا ہے تمہیں ٹیلی وژن پر آکر ڈینگیں مارنے کا‘‘ مستری نے کہا، اس ملک کا ہر احمق تمہاری شکل پہچانتا ہے۔‘‘
’’یہ عورت کون ہے؟‘‘ مریک نے پوچھا۔
اسے پتا چلا کہ جب روسی فوجوں نے چیکو سلوواکیہ پر یلغار کی، جس کے نتائج ہر مقام پر واضح تھے، تو اس عورت کی زندگی بھی بدل کر رہ گئی۔ جب اس نے یہ دیکھا کہ جو لوگ اس سے اونچے عہدوں پر ہیں (اور ہر شخص اس سے زیادہ اونچے عہدے پر تھا) ان کے عہدے، اختیارات، مرتبہ، ملازمت اور یہاں تک کہ دو وقت کی روٹی بھی ذرا سے الزام سے چھن جاتی ہے، تو وہ جوش میں آگئی اور لوگوں کی مخبری کرنے لگی۔
’’تو اب تک یہ پھاٹک پر کیو ں کام کر رہی ہے؟ انہوں نے اب تک اس کو ترقی بھی نہیں دی؟‘‘ مستری مسکرانے لگا۔ ’’دے بھی نہیں سکتی۔ اسے پانچ تک گنتی نہیں آتی۔ وہ یہی کرسکتے ہیں کہ اسے مُخبری کا کام کرتے رہنے دیں۔ اس کا بس یہی انعام ہے۔‘‘ اس نے انجن کا ڈھکنا کھولا اور اس کے اندر جھانکنے لگا۔
مریک کو اچانک احساس ہوا کہ اس سے چند قدم کے فاصلے پر کوئی شخص کھڑا ہوا ہے۔ اس نے مڑکر دیکھا کہ ا یک آدمی سرمئی جیکٹ، سفید قمیص اور ٹائی، اور بھوری پتلون پہنے ہوئے کھڑا ہے اس کی موٹی گردن اور پھولے ہوئے چہرے کے اوپر مصنوعی طریقے سے سفید کیے ہوئے بالوں کا گچھّا پڑا ہوا تھا، وہ وہاں کھڑا ہوا مستری کو گاڑی کے کھلے ہوئے انجن میں منہ ڈالے ہوئے دیکھتا رہا۔
ذرا دیر بعد مستری نے بھی اسے دیکھ لیا۔ ’’کسی کی تلاش میں؟‘‘ اس نے سیدھے ہو کر اس آدمی سے پوچھا۔
’’نہیں۔ ’’فربہ گردن اور گچھے دار بالوں والے آدمی نے جواب دیا۔‘‘ میں کسی کی تلاش میں نہیں ہوں۔‘‘
مستری نے دوبارہ اپنا منہ انجن میں ڈال دیا اور بولا ’’پراگ کے بیچوں بیچ ونیسسلوس چوک میں ایک آدمی کھڑے کھڑے قے کر رہا تھا۔ اور ایک اور آدمی آیا، اس کی طرف دیکھا، سرہلایا اور بولا مجھے تمہارے جذبات کا پوری طرح احساس ہے۔‘‘

(5)
بنگلہ دیش کے خونیں واقعات نے بہت تیزی کے ساتھ چیکو سلوواکیہ پر روسی حملے کی یاد کو دبا دیا۔ آلیندے کے قتل نے بنگلہ دیش کی سسکیوں کا گلا دبا دیا، صحرائے سینائی کی جنگ نے لوگوں کے ذہن سے آلیذے کو فراموش کروادیا، کمیوڈیا کے قتل عام نے صحرائے سینائی کو لوگوں کے ذہن سے بھلادیا، اسی طرح اور آگے، یہاں تک کہ آخر کار ہر شخص ہر چیز کو فراموش ہوجانے دیتا ہے۔
اس زمانے میں جب تاریخ دھیرے دھیرے حرکت کرتی تھی، واقعات بھی کم تھے اور ان درمیانی مدت بھی زیادہ تھی اور وہ آسانی کے ساتھ ذہن نشین ہوجاتے تھے۔ یہ عام طور پر تسلیم کیا ہوا ایک پس منظر تھے جس کے سامنے ذاتی زندگیوں کے دل چسپ واقعے اور کارنامے پیش آتے تھے۔ اب تاریخ سُرعت کے ساتھ سفر کرتی ہے۔ کوئی بھی تاریخی واقعہ چاہے اسے جلد ہی بھلا دیا جانا ہو، اگلی ہی صبح جدّت کی شبنم سے دھلا ہوا اور چمکتا ہوا نظر آتا ہے۔ پس منظر کے بجائے وہ خود اب واقعہ ہے۔ ایسا واقعہ جو زندگی کی مسلّمہ پیش پا افتادگی کے سامنے کھیلا جاتا ہے۔
چوں کہ ہم یہ تصور نہیں کرسکتے کہ کوئی بھی تاریخی واقعہ، چاہے وہ کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو، معلومات عامّہ کا حصہ ہوگا لہٰذا مجھے ان واقعات کو جو چند سال پہلے پیش آئے تھے، اس طرح بیان کرنا پڑ رہا ہے جیسے وہ ہزاروں سال پرانے ہوں۔ 39 ء میں جرمن فوجیں بوہمییا میں داخل ہوگئیں اور چیک ریاست کا وجود ختم ہوگیا۔ 45 ء میں روسی فوجیں بوہیمیا میں داخل ہوگئیں اور ملک کو ایک بار پھر ایک آزاد جمہوریہ قرار دے دیا گیا۔ لوگوں نے روس کے لیے بڑی گرم جوشی کا مظاہرہ کیا کہ اس نے ان کے ملک سے جرمنوں کو نکال باہر کیا تھا۔ اور چونکہ وہ چیک کمیونسٹ پارٹی کو اس کا وفادار نمائندہ سمجھتے تھے، اس لیے اہنوں نے اپنی ہمدردیاں اس کی جانب منتقل کردیں۔ سویہ ہوا کہ فروری 48ء میں کمیونسٹوں نے اقتدار سنبھال لیا، خون خرابے اور تشدد سے نہیں، بلکہ نصف سے زیادہ آبادی کے پرجوش نعروں کے درمیان۔ اور مہربانی فرماکر یاد رکھیے کہ یہ نصف زیادہ متحرک، زیادہ ذہین تھا، بہتر نصف تھا۔
جی ہاں، جو جی چاہے کہیے۔ کمیونسٹ زیادہ ذہین تھے۔ ان کے پاس پرشکوہ منصوبہ تھا۔ ایک نئی دنیا کا نقشہ جس میں ہر شخص کو اس کا مقام مل جائے گا۔ کمیونسٹوں کے مخالفین کے پاس ایسا کوئی خواب نہیں تھا۔ ان کے پاس چند ایک اخلاقی اصول تھے، باسی اور بے جان، کہ جن سے موجود نظام کی پھٹی پرانی پتلون میں پیوند لگا سکیں، سو ظاہر ہے کہ شان و شکوہ کے پرجوش حامی محتاط مفاہمت پسندوں پر جیت گئے اور وقت ضائع کیے بغیر اپنے اس خواب کو حقیقت کا روپ دینے میں جُٹ گئے کہ سب لوگوں کے لیے انصاف کا خواب ناک گیت تخلیق کیا جائے۔
میں اپنی بات پھر دہرادوں۔ خواب ناک گیت، سب کے لیے۔ لوگوں نے ہمیشہ اس کی تمنّا کی ہے، ایسا باغ جہاں بلبلیں گاتی رہیں، اتفاق وہم آہنگی کا مسکن، جہاں دنیا اجنبی بن کر آدمی کو دہلاتی نہیں، نہ ایک آذمی دوسرے آدمیوں کے خلاف اٹھتا ہے، جہاں ہر شخص موسیقار باخ کے عالی شان کثیر الصوت نغمے کا سر ہے، اور جو اپنا سر اس راگ میں شا مل کرنے سے انکار کرتا ہے محض ایک سیاہ دھبّہ ہے، بے مصرف اور معنی سے عاری، جسے آسانی سے پکرا جاسکتا ہے اور کچلا جاسکتا ہے جیسے دو انگلیوں کے درمیان کیڑا۔
ابتدا ہی سے ایسے لوگ تھے جنہیں احساس تھا کہ وہ اس خواب ناک گیت کا مزاج نہیں رکھتے اور وہ اس ملک کو چھوڑ جانا چاہتے تھے۔ لیکن چوں کہ یہ خواب ناک گیت اپنی تعریف کے مطابق، تمام لوگوں کے لیے ایک نئی دنیا ہے، لہٰذا جو لوگ ملک چھوڑ کر جارہے تھے وہ اشارتاً اس کی مکمل باضابطگی سے مُنکر ہورہے تھے۔ اس لیے پرویس جانے کے بجائے وہ قید خانوں میں چلے گئے۔ جلد ہی ان کی تعداد میں سینکڑوں، ہزاروں لوگ اور شامل ہوگئے، جن میں کچھ کمیونسٹ بھی تھے، جیسے وزیر خارجہ کے ہاتھ تھامے رہے، ازدواجی بے وفائی پر شہریوں کی عدالت سے سخت سزائیں سنائی دی جاتی ہیں۔ ببلیں گیت گاتی رہی اور کلیمنٹس کا جسم آگے پیچھے ڈولتا رہا جیسے بنی نوع انسان کے لیے ایک نئے سویرے کی آمد کی اطلاع دینے والی گھنٹی۔
اور اچا نک ان نوجوان، ذہین، بنیاد پرستوں کو ایک عجیب سا احساس ہوا کہ انہوں نے دنیا میں ایک نئی چیز بھیج دی ہے۔ ایک عمل جس کے سر انجام دینے والے وہ ہیں اور جس نے اب اپنی ایک زندگی حاصل کرلی ہے، جو اپنے ابتدائی تصور سے تمام مشابہت گم کرچکا ہے اور اس خیال کے موعدین کو یکسر نظر انداز کرچکا ہے۔ لہٰذا ان نوجوان، ذہین بنیاد پرستوں نے اس عمل کو پکارنا شروع کیا، اسے واپس بلاانے لگے، اس کو ڈانٹا، اس کا پیچھا کیا۔ اگر میں ان باصلاحیت بنیاد پرستوں کی اس نسل کے بارے میں کبھی کوئی ناول لکھوں گا تو اس کا نام رکھوں گا ’’گم شدہ عمل کے تعاقب میں۔‘‘

(6)
تاریخی واقعات عموماً ایک دوسرے کی نقل کرتے ہیں، اور وہ بھی بھونڈے پن کے ساتھ، مگر چیکوسلوواکیہ میں، جہاں تک میں دیکھ سکا ہوں، تاریخ نے ایک ایسا تجربہ کیا جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس عام طریقہ کار کے برخلاف کہ لوگوں کا ایک گروہ (ایک طبقہ، ایک قوم) دوسرے گروہ کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے، تمام لوگ (ایک پوری نسل) اپنے ہی شباب کے خلاف بغاوت کربیٹھے۔
ان کا مقصد یہ تھا کہ اس عمل کو دوبارہ پکڑ لیں اور سدھالیں، جس کی تخلیق انہوں نے کی تھی، اور وہ بڑی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوگئے۔ 20ء کی پوری دہائی میں ان کا اثر و رسوخ بڑھتا رہا، یہاں تک کہ 18ء میں یہ تقریباً ہر چیز پر حاوی تھا۔ یہ وہ دور ہے جسے عرف عام میں، پراگ کا موسمِ بہار کہا جاتا ہے۔ خواب ناک گیت کی نگرانی کرنے والے لوگ ذاتی مکانوں میں چھپے ہوئے مائکروفون ہٹانے لگے، سرحدیں کھول دی گئیں اور مختلف سُرباخ کے عالی شان کثیرالصوت نغمے کا متعین نقشہ چھوڑ کر اپنے اپنے گیت گانے لگے۔ یہ جوش و جذبہ ناقابلِ یقین تھا! میلے کا سماں تھا!
روس جو سارے عالم کے لیے اس کثیر الصوت نغمے کا موسیقار ہے، اس خیال کو برداشت نہ کرسکا کہ سراپنی اپنی راگنیاں الاپنے لگیں۔ 21 اگست 68 رکو روس نے پانچ لاکھ پر مشتمل فوج بوہیمیا کے علاقے میں اتار دی، اس کے فوراً ہی بعد، تقریباً بارہ لاکھ لوگ اپنے ملک کو چھوڑ گئے اور جو باقی روگئے ان میں سے پچاس لاکھ کو اپنی نوکریاں چھوڑ کر مشقت کرنے کے لیے جانا پڑا، دیہاتوں میں دور دراز کارخانوں کی کنوےئر بلیٹ پر، یاٹرک کے اسیٹرینگ وہیل پر۔ دوسرے الفاظ میں ایسی جگہوں اور ایسی نوکریوں پر جہاں کوئی ان کی آواز نہ سن سکے۔
اور اس بات کا یقین کرنے کے لیے کہ کسی تلخ یاد کا سایہ بھی اس تجدید شدہ نغمۂ خواب ناک پر نہ پڑے ’’پراگ کے موسم بہار‘‘ اور روسی ٹینکوں کی آمد کو مٹا دینا ضروری تھا۔ لہٰذا چیکو سلواکیہ میں کوئی شخص بھی 21 اگست کی یاد نہیں مناتا، اور جو لوگ اپنے ہی شباب کے خلاف بغاوت کرنے اٹھ کھڑے ہوئے تھے، ان کے نام قوم کی یادداشت سے اس طرح مٹادیے گئے ہیں جیسے بچہ اسکول کے کام میں ہوجانے والی غلطی کو مٹادیتا ہے۔
مریک ان ناموں میں سے ایک تھا جنہیں مٹادیا گیا۔ وہ مریک جو اس وقت زوینا کے دروازے تک پہنچنے کے لیے سیڑھیاں چڑھ رہا ہے، اس وقت محض ایک سفید دھبّا ہے، بمشکل نظر آنے والے خلا کا ایک حصہ جو گول زینے پر چڑھتا ہوا آرہا ہے۔
(ترجمہ : آصف فرخی)

(5) The unbearable lightness of Being:

میلان کنڈیرا کا یہ شہرۂ آفاق ناول 1984 میں شائع ہوا۔ اس ناول کے شائع ہوتے ہی میلان کنڈیرا بین الاقوامی شہرت کا مالک ہوگیا۔ مغرب میں اس ناول کی دھوم مچ گئی۔ 1988 میں فلپ کا فمین نے اس پر فلم بھی بنائی (میلان کنڈیرا کے ناول The Joke اور ایک کہانی No body will Laugh پر بھی فلمیں بنائی گئی ہیں)۔
جہاں مغربی نقادوں نے اسے بہت سراہا، وہاں اس کے برعکس چیک ادیبوں اور ناقدوں میں سے زیادہ تر نے اسے ناپسند کیا۔ بلکہ اچھا خاصہ تنازعہ پیدا ہوگیا۔ چیک ادیبوں نے میلان کنڈیرا پر مبالغے آمیز جھوٹ بولنے کا الزام لگایا اور کہا کہ چیکوسلوواکیہ کے روسی قبضے کے زمانے میں اس قسم کے حالات ہرگز نہیں تھے جن کی تصویر کشی کنڈیرا نے اس کتاب میں کی ہے۔
یہ غلط فہمی دراصل ناول میں Polyphony کی تکنیک استعمال کیے جانے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ چیک ناقدوں اور ادیبوں نے صرف ناول نگار کی آواز کو ہی ناول کا اصلی پیغام سمجھا جب کہ میلان کنڈیرا ناول کے ذریعے کسی پیغام وغیرہ کی تبلیغ کے سخت خلاف ہے۔ ناول کی Polyphony میں ایک آواز اُس کی بھی ہے مشہور ادبی ناقد Alfred Thomas نے کہا ہے کہ کنڈیرا کے ناولوں میں اُس کی اپنی آواز صرف قاری کو واقعات کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ہوتی ہے اور اکثر ناول کے واقعات کنڈیرا کے تنگ نظر اور مبہم بیانات سے ماورا ہوجاتے ہیں۔ اس لیے قاری کو صرف مصنف کے اپنے بیانات کی ترغیب میں نہ آکر پورے ناول کا وسیع النظری کے ساتھ مطالعہ کرنا چاہئے۔ ’’The unbearable Lightness of Being‘‘ میں میلان کنڈیرا کے دوسرے ناولوں کے مقابل روایتی بیانیہ سے زیادہ کام لیا گیا ہے اور ’’کہانی‘‘ کے خطوط بھی نسبتاً زیادہ واضح ہیں۔ کہانی دو شادی شدہ جوڑوں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ ناول کا مرکزی کردار Tomas کو قرار دیا جاسکتا ہے جو ایک چیک نیو روسرجن ہے اور اپنی فوٹوگرافر بیوی Tereza سے بے پناہ محبت کرنے کے باوجود عورتوں کے معاملے میں بہت کمزور ہے۔ چیکوسلوواکیہ میں روس افواج کے قبضے کے بعد دونوں میاں بیوی اپنا ملک چھوڑکر سوئزرلینڈ آکر رہنے لگتے ہیں۔ مگر وہاں Tomas کی لغزشیں جب حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہیں تو Tereza اُسے چھوڑکر واپس پراگ آجاتی ہے۔ Tomas اُس کے پیچھے پیچھے آتا ہے اور سوئزرلینڈ کی اپنی اعلیٰ نوکری بھی چھوڑ دیتا ہے۔ پراگ آنے کے بعد اُسے کھڑکیوں کے شیشے صاف کرنے کے کام پر لگا دیا جاتا ہے۔ دونوں میاں بیوی پر ہر وقت خفیہ پولیس کی نظر رہتی ہے۔ آخر دونوں شہر سے دور ایک مضافاتی علاقے میں جاکر رہنے لگتے ہیں اور چند سال بعد ایک ایکسیڈینٹ میں اُن کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ تمام زندگی اُن کا رشتہ غلط فہمیوں سے ہی گھرا رہا تھا۔ اس کے متوازی ایک دوسرے شادی شدہ جوڑے کی کہانی بھی چلتی رہتی ہے۔ Sabina ایک چیک مہاجر پینٹر ہے اور اُس کا شوہر Franz ایک سوئیس لکچرار ہے۔ ان دونوں کا رشتہ بھی محض غلط فہمیوں کا ایک سلسلہ بن کر رہ گیا ہے۔ ایک کو دوسرا بالکل نہیں سمجھ پاتا۔ ایک ہی لفظ کے لیے دونوں کے پاس مختلف تشریحات ہیں۔ Franz، تھائی لینڈ، کمبوڈیا میں قتل عام کے خلاف ایک احتجاجی مارچ میں بے تکی موت کا شکار ہوجاتا ہے۔
میلان کنڈیرا نے اس کتاب میں نطشے کی Man's eternal Return کے مفروضے کا بھی تجزیہ کیا ہے مگر اُس کا خیال ہے کہ اگرچہ انسان میں شعور اور عقل دونوں پائے جاتے ہیں مگر اس کی زندگی صرف ایک بار ہی ملتی ہے۔ زندگی میں eternal Return کا تصور بے معنی ہے۔ صرف اجتماعی تاریخ کے حوالے سے نطشے کی بات درست ہوسکتی ہے۔ انسان اپنی گزشتہ غلطیوں کو درست نہیں کرسکتا۔ (یہاں مصنف خود اپنے کمیونسٹ زمانے کی غلطیوں کی جانب بھی اشارہ کرتا نظر آتا ہے) کہنے کا مطلب یہ کہ جب انسان کو اس مایوس کن امر کا انکشاف ہوجاتا ہے کہ یہ زندگی ناقابلِ تکرار ہے تو اسے ایک ایسی Lightness کا تجربہ ہوتا ہے جسے ایک مکمل خلا کا نام بھی دیا جاسکتا ہے اور جس میں کسی قسم کی ذمہ داری کا کوئی احساس باقی نہیں رہ جاتا۔ اسے برداشت کرنا ممکن نہیں۔ جیسے خواب میں ہم اکثر کوئی بہت ہلکی شے مثلاً پر، چائے کا کپ، یا ایک چمچہ اٹھانا چاہتے ہیں مگر اُٹھا نہیں پاتے اور ہمیں محسوس ہوتا ہے جیسے اس شے کے ہلکے پن کے اندر دب کر ہمارا دل ڈوب رہا ہے۔ اپنی کتاب ’’دی آرٹ آف دی ناول‘‘ میں بھی میلان کنڈیرا نے Lightness کے معنی بیان کیئے ہیں۔
Lightness کی یہ فلسفیانہ اصطلاح مصنف نے یونانی فلاسفر Parmenides سے مستعار لی ہے۔ جس کا اصل مطلب ایک قسم کا بے معنی خالی پن ہے۔ ہر قسم کی سنجیدگی سے خالی۔
اس ناول میں کنڈیرا نے بہت تفصیل کے ساتھ Kitsch کے بارے میں لکھا ہے۔ Kitsch ایک ایسا خوبصورت جھوٹ ہے جو زندگی کے تمام منفی پہلوؤں کو چھپا لیتا ہے اور جان بوجھ کر موت کے وجود کو نظرانداز کرتا ہے۔ ویسے Kitsch کے بارے میں میلان کنڈیرا نے اپنی زیادہ تر تحریروں میں بحث کی ہے اور گزشتہ صفحات میں اس پر کافی گفتگو ہوچکی ہے کنڈیرا کے مخصوص تھیم اس ناول میں بھی موجود ہیں مثلاً Tomas کا عورت باز ہونا، Tereza کی ماں کا ایک غنائی (Lyrical) کردار ہونا۔ غنائیت کی تباہ کاری بائیں بازو کے سیاسی نظریات میں دیکھی جاسکتی ہے، چاہے وہ 1950 کا مشرقی یوروپ ہو یا 1980 کا مغربی یوروپ۔ یہ کتنا مضحکہ خیز امر ہے کہ لوگ ایک ہی واقعے کی تشریح اپنے اپنے انداز سے کرتے ہیں۔ اسی لیے بقول مصنف ہر دو انسانوں کے درمیان سوائے غلط فہمیوں اور مغالطوں کے، دوسرے کوئی بھی رشتے ممکن نہیں ہیں۔
میلان کنڈیرا نے ناول میں اسٹالن کے بیٹے کی موت کی عجیب و غریب وجہ بھی بیان کی ہے۔ یہ واقعہ ناول کے چھٹے باب بعنوان Grand March کی ابتدا میں بیان کی گیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں جرمنوں کے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد اُسے ایک کیمپ میں انگریز آفیسروں کے ساتھ رکھا گیا تھا۔ سب قیدیوں کے لیے ایک ہی پاخانہ تھا۔ اسٹالن کا بیٹا فارغ ہونے کے بعد وہاں بے حد بدبودار فضلہ چھوڑ جاتا تھا۔ انگریز آفیسر اسے برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ حالاں کہ یہ فضلہ دنیا کے ایک مردِ آہن کے بیٹے کا تھا۔ انگریز آفیسر اُس سے پاخانہ صاف کرانا چاہتے تھے۔ اسی جھگڑے میں اسٹالن کا بیٹا جس کا نام یاکوف تھا۔ غصّے سے پاگل ہوگیا اور روسی زبان میں گالیاں بکتے ہوئے، جست بھر کر کیمپ کے احاطے کی برقی دیوار کی طرف دوڑا۔ بجلی کا زبردست شاک لگا اور اُس کا جسم بجلی کے تاروں سے چپک کر رہ گیا۔ وہ جسم جو انگریزوں کے پاخانے کو اب کبھی گندا نہ کرسکے گا۔ کنڈیرا نے آگے چل کر یہ بھی لکھا ہے کہ اعلیٰ ترین ڈرامہ اور اسفل ترین جب اس طرح ایک دوسرے کے قریب آجائیں تو بس سر ہی چکرا جاتا ہے۔ جب قطب شمالی، قطب جنوبی کے اس قدر قریب آجائے تو آدمی خود کو ایسے خلا میں پاتا ہے جہاں انسانی وجود کی تمام ابعاد دور جھٹک دی جاتی ہیں اور اس طرح انسان کا وجود ناقابلِ برداشت حد تک لطیف ہوجاتا ہے (یہاں لطیف سے مطلب Lightness ہے)۔ پوری کتاب میں اس قسم کے مابعد الطبیعیاتی بیانات بکھرے ہوئے ہیں جن کی تلخیص ناممکن ہے۔ مگر یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس قسم کے بیانات کے ذریعے کنڈیرا ناول میں فلسفہ نہیں داخل کرنا چاہتا ہے اور نہ کوئی فلسفیانہ ڈسکورس قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ تو صرف اور صرف تضادات اور Paradoxes کے سلسلے ہیں جن سے وہ اپنے ناول کی تعمیر کرتا ہے۔ نطشے کے مقولے The Eternal return of Man کے ذریعے بھی ایک Paradox یا قول محال ہی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کسی فلسفیانہ قسم کی خالص یا تجریدی بحث میں نہیں اُلجھا گیا ہے۔
ناول کے چھٹے حصّے میں Polyphony کے ذریعے Kitsch کا تھیم پوری طرح اجاگر ہوجاتا ہے۔ اسٹالن کے بیٹے کی کہانی، ایک مذہبی دھیان اور یوگا، ایشیا میں ایک سیاسی واقعہ، تھائی لینڈ میں فرانز کی موت اور بوہیمیا میں Tomas کا دفن کیا جانا، یہ سب ایک پہلے سے جاری سوال سے منسلک ہیں۔ اور وہ سوال ہے کہ Kitsch کیا ہے؟ ہمیشہ کی طرح میلان کنڈیرا نے چند الفاظ کی قطار چن کر، اُن کا تجزیہ کیا ہے۔ یہ الفاظ ہی ناول کے مختلف تھیم ہیں اور یہی الفاظ انسانی وجود کی ابعاد میں اپنی تبدیلئ ہیئت کرلیتے ہیں یہ الفاظ ہیں۔ Whieght، Lightness، Soul، Body، Shit، Kitsch، Vertigo، Strength، Weakness اور Grand March۔
The unbearable Lightness of Being میلان کنڈیرا کا ایک شاہکار ناول ہے۔ پراگ کے ادبی حلقوں میں اسے زیادہ پسند نہیں کیا گیا حالاں کہ میلان کنڈیرا اُس زمانے میں اپنے وطن سے پیار کرتا تھا۔ اُس نے ’’وسطی یوروپ‘‘ کی اصطلاح اسی معنوں میں استعمال کی ہے۔ وسطی یوروپ نے بقول کنڈیرا ایک اچھوتی تہذیب کو جنم دیا ہے۔ فرائڈ، آئین اسٹائین، کافکا اور میوزل جیسی شخصیات وسطی یوروپ کی ہی دین ہیں۔ میلان کنڈیرا ’’روس‘‘ کو یوروپ کی روح سے قطعاً الگ سمجھتا ہے۔ ’’وسطی یوروپ‘‘ کے بارے میں اُس کے خیالات اُس کے مضامین اور انٹرویوز میں جگہ جگہ بکھرے ہوئے ہیں جن کا تفصیلی مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ آج کنڈیرا کی دلچسپی اپنے ملک میں بہت کم ہوچکی ہے کیونکہ کمیونزم کے انہدام کے بعد بھی، چیکوسلوواکیہ، مغربی یوروپ کے بجائے اپنے کلچر اور وژن کے اعتبار سے روس سے ہی قریب نظر آتا ہے۔

(6) Immortality:

میلان کنڈیرا کا یہ بے حد اہم ناول 1990 میں شائع ہوا۔ وسطی یوروپ کی جھلکیاں اس ناول میں بھی موجود ہیں مگر بلاواسطہ طور پر مرکزی کردار فرانس کے ماحول اور فضا میں سانس لیتے نظر آتے ہیں۔ میلان کنڈیرا ناول لکھنے کے لیے ہمیشہ ایک Thesis بناتا ہے پھر اُسی پر بحث و مباحثہ شروع ہوتا ہے۔ اس مباحثے میں ناول نگار خود بھی موجود رہتا ہے۔ یوروپین ناول کی پوری تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ کلاسیکی دور میں اس قسم کے ناول کو ’’Novel as a debate‘‘ کہا جاتا تھا۔ Immortality کو شاید کنڈیرا کے تمام ناولوں میں سب سے زیادہ Novel as a Debate کا عنوان دیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ اس کتاب میں بھی جگہ جگہ Kitsch، Lightness اوبر Lyricism سے بحث کی گئی ہے مگر بنیادی تھیم ’’ابدیت‘‘ ہی رہتا ہے۔ ہمیشہ کی طرح اُس کی اس تصنیف میں بھی فکشن کا کثیر الاصواتی (Polyphonic) بیانیہ پایا جاتا ہے۔ جگہ جگہ اس کتاب پر ادبی یا فلسفیانہ مضامین کے مجموعے کا بھی التباس ہوتا ہے مگر دراصل یہ ایک ایسا ناول ہے جس میں وحدت کا تصور صرف تھیم سے پیدا کیا گیا ہے۔ یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔ گزشتہ صفحات میں کئی جگہ اس امر کا اعتراف کیا جاتا رہا ہے کہ کنڈیرا کے ناولوں کی تلخیص ممکن نہیں ہے یہ شاید اس لیے بھی ہے کہ وہ شعوری طور پر یہ کوشش کرتا ہے کہ اُس کا ناول ’’ہم عصر ناول‘‘ کی اُس کسوٹی پر پورا اترے جس کے مطابق، ناول کی کہانی چند جملوں میں نہ بیان کی جاسکے۔ اسی لیے وہ Variations (جو موسیقی کی اصطلاح کے طور پر استعمال کی گئی ہے) کے ذریعے اپنے ناول کے اسٹرکچر کو بہت پیچیدہ بنا دیتا ہے جس میں ناول کے کردار ایک ہی تھیم کا، مختلف زاویوں سے تجزیہ کرتے رہتے ہیں۔ ’’تھیم‘‘ کا انتخاب میلان کنڈیرا مشرقی یوروپ میں اپنے تکلیف دہ تجربوں اور مغرب میں خود کو ایڈجسٹ کرنے کی جدوجہد کی روشنی میں کرتا ہے۔
Immortality میں کوئی راوی ایسا نہیں ہے جو چیکوسلوواکیہ سے تعلق رکھتا ہو، سارے کردار فرانسیسی ہیں۔ ناول بنیادی طور پر اس تہذیب پر تنقید کرتا ہے جو بیسویں صدی کے خاتمے پر یوروپ میں اور خاص طو ر پر فرانس میں نظر آتی ہے۔
ناو ل میں، مرکزی کردار اگر کسی کا ہوسکتا ہے تو وہ Agnes کا ہے جو ایک فرانسیسی عورت ہے۔ یہ کردار مصنف کے بقول افسانوی ہے یعنی ناول کے متن میں ہی اِسے تخلیق کیا گیا ہے، مصنف کے ذہن میں یہ کردار سوئمنگ پول سے آتی ہوئی ایک عمر رسیدہ عورت کی ایک خاص ادا سے پیدا ہوا ہے۔ اِس عمر رسیدہ عورت نے تیراکی سکھانے والے ایک نوجوان ٹیچر کو جس غلط اندازِ نظر سے، اور فلرٹ کرنے و الی اداؤں کے ساتھ دیکھا تھا، Agnes اسی ادا کی پیداوار ہے، ناول کا یہ آغاز ہی چونکا دینے والا ہے اور کنڈیرا کے فن کی باریکیوں کی محض ایک معمولی سی مثال ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ انسان دنیا میں لاتعداد ہیں مگر ان کی ادائیں (Gestures) محدود ہیں اور کسی انداز کو کسی ایک انسان کی اجارہ داری نہیں سمجھا جاسکتا۔ اس عمر رسیدہ عورت کا یہ انداز دراصل تاریخ کا ایک حصّہ بن جانے کے لیے یا مشہور ہوجانے کے لیے تھا اور اس طرح گویا وہ عورت ’’ابدیت‘‘ Immortality حاصل کرنا چاہتی تھی۔ کنڈیرا اس تھیم کا مشہور جرمن شاعر گیٹے اور اس کی محبوبہ Bettina کے تعلقات کے حوالے سے بھی تجزیہ کرتا ہے۔ گیٹے کی بیوی کے ذریعے بے عزت ہونے پر بھی Bettina گیٹے سے تعلقات اس لیے نہیں توڑ سکی کیونکہ گیٹے کے ساتھ ساتھ وہ بھی مشہور ہونا چاہتی تھی۔ 1835 میں Bettina نے ان محبت ناموں کو شائع کرادیا جو اس کے اور گیٹے کے درمیان لکھے گئے تھے۔ یہ جاکر بیسویں صدی میں ہی کھل پایا کہ اس نے اصلی خطوط کو دوبارہ لکھا تھا اور اس میں اپنی امیج اس طرح پیش کی تھی جو Bettina کی خود اپنی نظروں میں تھی۔
ناول کے تیسرے حصّے کے ایک باب کا عنوان ’’Imagology‘‘ ہے، اور یہ بھی اس کا ایک خاص تھیم ہے۔ مصنف یہ اعلان کرتا ہے کہ آج کمیونزم اور نازی ازم جیسے نظریات ہمارے لیے بے ضرر ہوچکے ہیں۔ اصل خطرہ تو Imagology کا ہے۔ یہ Imagology میڈیا اور اشتہارات کے ذریعے اپنی انڈسٹری چلاتی ہے۔ ’’حقیقت‘‘ کو نہ صرف مسخ بلکہ ختم کردیا جاتا ہے اور ایسے جھوٹے معیار کا بازار گرم ہوجاتا ہے جس پر پورا اترنا لوگ اپنا سب سے بڑا فرض سمجھتے ہیں۔ Agnes کا کردار اس Imagology سے نبردآزما رہتا ہے مگر اُسے ناکامی حاصل ہوتی ہے۔ پروفیسر ’’Avenarius‘‘ بھی جدید تہذیب سے نفرت کرنے کے سبب پارک کی گئی کاروں کے ٹائر پنکچر کرتا پھرتا ہے۔
Agnes اور اُس کی چھوٹی بہن کے کردار میں بھی یہی فرق ہے جہاں Agnes کا رویہ جدید تہذیب کے تئیں تنقیدی ہے۔ وہیں اُس کی بہن Imagology کا شکار ہے۔ Agnes کے والد کا کردار بھی بے حد تہہ دارہے جو گمنامی کو شہرت پر ترجیح دیتا ہے۔ Agnes اور اُس کے والد کے درمیان کا رشتہ، انسانی وجود کی بہت سی جہتوں کو روشن کرتا ہے۔ میلان کنڈیرا نے Agnes کا کردار کچھ اس طرح خلق کیا ہے کہ شروع ہی سے اُس میں ایک قسم کی افسردگی اور اکیلے پن کو ہم بہت نمایاں طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ اکثر ایک شخص بار بار Agnes اور اُس کے شوہر Paul کے پاس آتا ہے اور Agnes جانتی ہے کہ وہ Paul کے لیے نہیں بلکہ اُس کے لیے وہاں آتا ہے۔ یہ شخص دراصل Agnes کی موت ہے۔ موت اُس آدمی کی شکل میں بار بار اُن کے گھر آتی ہے۔ Paul موت کو نہیں پہچان پاتا مگر Agnes پہچان جاتی ہے۔
ناول میں جب Agnes ایک کار کے ذریعے کچل کر مرجاتی ہے تو اُس کا شوہر Paul اُس کے مرنے کے پندرہ منٹ بعد ہی اسپتال پہنچ پاتا ہے۔ ہمیشہ کی طرح میلان کنڈیرا اپنی اس تصنیف میں بھی نوجوانی کی غنائیت اور رومانوی نانچتہ ذہنی کے بھیانک نتائج سے آگاہ کرتا ہے۔ کتاب کا ایک مکمل حصہ بعنوان ’’Homo sentimental‘‘ غنائی شاعروں اور ان کے رویّوں کے ٹھوس تجربے پر مبنی ہے۔ Immrortality میں ماحولیاتی تھیم بھی موجود ہے۔ آج کی مشینی اور غیر انسانی دنیا پر اس حوالے سے گہرا طنز موجود ہے۔ کنڈیرا کے ہیرو ایک بند کائنات کے بند نظام میں گرفتار نظر آتے ہیں۔ یہ نظام اپنے جیسے ہی نظام کو دوبارہ پیدا کرتا ہے اور ان میں حقیقت سے کوئی دور کا واسطہ بھی نہیں نظر آتا۔
پھر بھی میلان کنڈیرا کا یہ ناول اس کے دوسرے ناولوں سے کافی مختلف ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ اس میں مزاح کا عنصر قدرے کم ہے اور یہ کھیل کود اور تفریح والے بیانیہ سے زیادہ میل نہیں کھاتا۔ اس کا لہجہ افسردہ اور سنجیدہ ہے، مگر گیٹے اور ہیمنگوے کی ملاقات اور ان کا مکالمہ یا پھر دوسرے شاعروں کی گفتگو اور مباحثے وغیرہ میلان کنڈیرا کے ناول The book of laughter and forgetting کی یا د ضرور دلاتے ہیں۔ اپنے لہجے اور انداز بیان کے حوالے سے Immortality ایک ہم عصر ’’مغربی ناول‘‘ کے زیادہ قریب نظر آتا ہے۔
یہ قول کہ ہر کہانی کار (فکشن نگار) کے پاس کہنے کے لیے صرف ایک ہی بات ہوتی ہے اور وہ تمام عمر طرح طرح سے اس بات کو کہتا رہتا ہے، شاید سب سے زیادہ کنڈیرا پر ہی صادق آتا ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ ایک قصہ گو قسم کا ادیب نہیں ہے۔ اس کے یہاں ناول لکھنے کا مطلب صداقت کی تمام پرتوں کی تفتیش کرنا ہے۔ اس مقصد کے علاوہ، اسے ناول لکھنے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
Immortality کا مقام اس کے تحریر کردہ ناولوں میں اہمیت اور انفرادیت کا حامل ہے۔

(7) Slowness:

Slowness میلان کنڈیرا کا وہ پہلا ناول ہے جو اُس نے فرانسیسی زبان میں لکھا۔ یہ 1995 میں شائع ہوا تھا۔ اس ناول کی ضخامت کنڈیرا کے دوسرے ناولوں کے مقابلے کم ہے۔ یہ صرف 132 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں میلان کنڈیرا کا اپنا پرانا رنگ (یعنی کھیل کود کی طرح ناول لکھنا) دوبارہ اُبھر آیا ہے۔ ایک طرح سے یہ اُس کے گزشتہ ناول Immortality کی افسردہ سنجیدگی کے پس نوشت کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ Slowness کا اسٹرکچر ریاضی اور موسیقی کے ملے جلے اصولوں سے ترتیب دیا گیا ہے۔ مگر یہاں ’’سات‘‘ کے عدد کا دخل نہیں۔ یہی نہیں اس کتاب کو حصّوں میں تقسیم نہ کرکے صرف ابواب میں ہی بانٹا گیا ہے اور اِن ابواب کو عنوانات دینے سے بھی گریز کیا گیا ہے۔ پورا ناول اکّیاون ابواب پر مشتمل ہے۔ یوں دیکھیں تو اسے ایک طویل کہانی یا ناولا بھی سمجھا جاسکتا ہے۔
میلان کنڈیرا نے اس ناول میں یہ جدّت بھی کی ہے کہ خود اُس کا، اور اُس کی بیوی کے کردار بھی باقاعدہ متن میں شامل ہیں۔ Slowness فرانس کے خصوصی حوالے سے جدید ترین مغربی تہذیب کی تنقید اور اُس کا معروضی تجزیہ پیش کرتا ہے۔ جس طرح اپنے پچھلے ناول میں میلان کنڈیرا نے ابدیت کے تصور پر بحث کی تھی۔ اُسی طرح یہاں Slowness یعنی سُستی یا آہستہ روی کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے اور Slowness کو ایک قدر (Value) کا درجہ دیا گیا ہے۔
ناول کی شروعات اس طرح ہوتی ہے کہ مصنف اور اُس کی بیوی ایک Chateau (فرانس میں پائی جانے والی بڑی حویلی یا قلعہ) میں اپنی شام اور رات گزارنے کے لیے کار سے سفر پر نکلتے ہیں۔ ایک کار بہت تیزی کے ساتھ اُن کی کار سے آگے نکلنا چاہتی ہے۔ موٹر سائیکل والے بھی بہت تیزی کے ساتھ آس پاس سے گزرتے ہیں۔ کنڈیرا کی بیوی ویرا اُس سے کہتی ہے کہ ہر پندرہ منٹ میں فرانس کی سڑکوں پر ایک نہ ایک موت ضرور ہوتی ہے۔ اسی مقام سے مصنف کے ذہن میں Slowness کا تصور اُبھرتا ہے۔ کنڈیرا بیوی سے کُچھ نہ کہہ کر اِس خیال میں ڈوب جاتا ہے کہ ’’جو آدمی موٹر سائیکل پر سوار ہے وہ صرف لمحۂ موجود پر نظر رکھتا ہے۔ وہ وقت کے سلسلوں سے باہر نکل آیا ہے۔ وہ اپنے ماضی اور اپنے مستقبل دونوں سے کٹ کر الگ ہوچکا ہے۔ وہ ایک دیوانی لذت کے حصار میں قید ہے۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس میں اُسے نہ اپنے گھر والے یاد ہیں، نہ اپنی ذمہ داریاں اور نہ ہی اُسے کسی خوف کا احساس ہے کیونکہ خوف یا اندیشے کا ماخذ ہمیشہ صرف مستقبل ہوتا ہے اور وہ شخص جو مستقبل سے آزاد ہوچکا ہے، اُسے کوئی خوف نہیں ہوسکتا۔
بیسویں صدی کے آخر کی مغربی تہذیب کو ان مجرد تصورات اور علامتوں کے ذریعے سمجھانا اور اِس تہذیب کے زوال کا استعارہ ’’تیز رفتاری‘‘ (Speed) کو بنا دینا، میلان کنڈیرا کے زبردست خلّاقانہ ذہن کا ایک معجزہ نظر آتا ہے۔
(Speed) ’’تیز رفتاری‘‘ وہ دیوانی لذت ہے جو تکنیکی انقلاب نے انسان کے سر منڈھ دی ہے۔ موٹرسائیکل سوار کے برعکس ایک پیدل دوڑنے والا ہمیشہ اپنے جسم میں موجود رہتا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے پیروں کے چھالوں کے بارے میں فکرمند رہتا ہے اور اپنی پھولتی ہوئی سانسوں کے تئیں بھی۔ جب وہ دوڑ رہا ہوتا ہے تو اپنے وزن اور اپنی عمر کے بارے میں بھی زیادہ چوکنّا رہتا ہے۔ یہی انسان جب موٹرسائیکل پر بیٹھتا ہے تو اپنا سب کچھ (Speed) کو سونپ دیتا ہے۔ اُس کا اپنا جسم اس پورے عمل میں کہیں شرکت نہیں کرتا۔ Speed کو وہ اپنا جسم سونپ دیتا ہے جب کہ Speed اپنے آپ میں ایک غیر جسمانی اور غیر مادّی شے ہے۔ Speed صرف ایک پاگل مسرت یا دیوانی لذت کا نام ہے۔‘‘
کنڈیرا نے اس تھیم کا سیکس کے میدان میں بھی اطلاق کیا ہے۔ سیکس کے ماہرین اب صرف Orgasm کا ذکر بار بار کرتے ہیں۔ یعنی ایک ایسا لمحہ جس میں انسان اپنے ماضی اور مستقبل سے کٹ جاتا ہے اور لذت کی اس انتہا پر صرف اس لمحۂ موجود سے ہی چپکا رہنا چاہتا ہے۔ Slowness یعنی صبر اور آہستہ روی کو �آج کی دنیا میں سیکس کے میدان میں بھی نظر انداز کیا جارہا ہے۔
یہ دونوں تصورات ہمیں لذّت پرستی (Hedonism) کے نظریے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ’’ایپی کورس‘‘ (مشہور یونانی فلسفی) کے مطابق ’’تکالیف کا نہ ہو نا ہی سکھ یا لذّت ہے۔‘‘ پرانے زمانے میں جسمانی لذّت کا تصوّر ’’دھیمے پن اور آہستہ آہستہ‘‘(Slowness) سے وابستہ تھا۔ جو کام آہستہ آہستہ مزے لے لے کر رک رک کر کیا جاتا تھا، وہ لمبے عرصے تک حافظے میں زندہ رہتا تھا۔ مگر اب میلان کنڈیرا کے مطابق یہ ایک سطحیت کے یا خالی پن کے نشان کے طور پر ہی یاد رکھا جاسکتا ہے کیوں کہ ’’تیز رفتاری‘‘ نے صرف ایک سرسری پن اور خالی پن کو ہی پیدا کیا ہے۔
میلان کنڈیرا نے جدید ترین مغربی تہذیب کے بھدّے پن کو، اس کے تمام زوال آمیز رجحانات کے ساتھ جس اچھوتے پیراےۂ زبان میں پیش کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس ناول میں جتنے بھی راوی ہیں سب منافق ہیں۔ ان کے رویوں میں تضاد ہے اور ’’حقیقت‘‘ کا ان کے پاس کوئی تصوّر ہی نہیں ہے۔ ہم عصر مغربی تہذیب کے پاس نہ تو علمِ و دانش ہے اور نہ ہی سچائی کا کوئی عظیم روحانی تجربہ۔
میلان کنڈیرا نے Slownesمیں ایک ساتھ دو کہانیاں پیش کی ہیں جن کے تھیم ایک ہی ہیں یعنی محبت، سیکس اور عورتوں کو رجھانا، مگر مصنّف کے تخلیاتی ذہن نے نے یہاں ایک نیا کارنامہ انجام دیا ہے۔ اسی حویلی میں جہاں کنڈیرا اپنی بیوی کے ساتھ ٹہرا ہوا ہے، وہیں ناول کے کچھ اور کردار بھی موجود ہیں اور ان میں سے ایک عورت مرد کا جوڑا اس کہانی کو دہرا رہا ہے جو تقریباً دو سوسال پہلے اس قلعے یا حویلی میں کہی گئی تھی، ان دوسوسالوں کو میلان کنڈیرا نے ’’Vivant Denon‘‘ کے ناولٹ کے متن سے باہر نکال کر، اسی قلعے کی دیواروں کے اندر دوبارہ خلق کیا ہے، یہ ناول جس کا عنوان No Tomorrow تھا۔ سب سے پہلے 1777 میں شائع ہوا تھا۔ میلان کنڈیرا نے یہاں بھی Variation کی تکنیک کو بے حد مہارت کے ساتھ استعمال کیا ہے اور قاری پر ایسا گمان گزرتا ہے جیسے وہ کلاسیکل اور ماڈرن پاپ موسیقی کو ایک ساتھ سن رہا ہو۔ ایک جُگل بندی کی طرح یا ایک انوکھی Polyphony کی مانند اور اس جُگل بندی میں دونوں کا تضاد اچانک ہم پر منکشف ہوجاتا ہے۔
یہی تضاد دراصل جدید مغربی تہذیب اور دو سو سال پرانی مغربی تہذیب کے درمیان ہے۔ دوسال پرانے کرداروں کی منافقت اور فریب دہی آج کے مقابلے پھر بھی شائستگی اور قدرے حیاداری کے پہلو رکھتی تھی۔ آج لوگوں کا رویہ زیادہ بھونڈا، فحش، بے شرم اور بے رحمانہ ہے، ان رویوں کے آپسی ٹکراؤ میں ’’کامک‘‘ کا عنصر نہ صرف یہ کہ بڑی فنکاری کے ساتھ پیش کیا گیا ہے بلکہ انسان کے وجود کی گہرائیوں میں پوشیدہ تاریک گوشوں کو بھی روشن کرنے میں کامیاب ہے۔
میلان کنڈیرا نے اپنے اس خوبصورت ناول میں مختلف زاویوں سے اس تھیم کا تجزیہ کیا ہے مثلاً سیاست دانوں اور رقاصوں میں مشترکہ عناصر۔ بقول مصنف ہر رقاص میں ایک سیاست دان ہوتا ہے اور ہر سیاست دان میں ایک رقاص۔ یا پھر قحط میں بھوک سے مرتے ہوئے بچوں کے پوسٹر کی مثال ہے۔ ناول میں کنڈیرا کی بیوی ’’ویرا‘‘ ایک جگہ یہ سوال کرتی ہے کہ کیا قحط میں صرف بچے ہی مرتے ہیں۔ بوڑھے لوگوں نے قحط میں مرنا کیوں چھوڑ دیا؟ جذباتی بلیک میلنگ آج کے عہد میں سب سے بڑا کام سمجھی جاتی ہے۔ میڈیا، اشتہارات، سیاست دان اور Celeberities، سب اسی میں ڈٹے ہوئے ہیں۔
اس قلعے میں حشرات الارض پر ایک کانفرنس بھی چل رہی ہے جہاں ایک چیک سائینس دان کو بھی اپنا مقالہ پڑھنا ہے۔ اس سائنس دان کو آج سے بیس سال پہلے چیکوسلوواکیہ میں ایک مستری کی حیثیت سے کام کرنے پر مجبور کردیا گیا تھا۔ جب مقالہ پڑھنے کی باری آتی ہے تو اس موقع پر وہ اتنا جذباتی ہوجاتا ہے کہ اپنا مقالہ ہی پڑھنا بھول جاتا ہے اور اس طرح لوگوں کی ہنسی کا سبب بن جاتا ہے۔ فرانسیسی سائنس دان اُس کے چیک نام کا تلفظ نہیں ادا کرپاتے۔ وہ یہ بھی ٹھیک سے نہیں جانتے کہ اُس کا ملک کہاں ہے اور اس کا کیا نام ہے۔
پورے ناول میں غلط فہمیوں کا ایک جال بکھرا ہوا ہے۔ قلعے میں دو عورت مرد کے آپسی رشتے غلط فہمیوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ یہ میلان کنڈیرا کا پرانا موضوع ہے اور اس میدان میں دوسرا کوئی ادیب اُس کا مقابلہ نہیں کرسکتا کیوں کہ یہ سارا تماشہ اُس کے ناولوں میں کھیل کھیل اور تفریح بازی میں ہی پورا ہوجاتا ہے۔ ایک بھیانک تماشہ، مگر جس کو دکھانے کے لیے میلان کنڈیرا ’’مزاح‘‘ کا سہارا لیتا ہے۔ سروینٹیس کے ڈان کیہوٹے سے لارنس اسٹرن کے ٹراسٹم شینڈی اور دیدرو کے ژاک، دی فیٹیلسٹ تک اُس نے جو کچھ سیکھا تھا، وہ بقول خود اُس کے، معمولی نوعیت کا نہیں تھا۔ یہ انھیں عظیم ناول نگاروں کی کتابوں کی صحبت اور تربیت کا اثر ہے کہ کنڈیرا اپنے ہم عصروں میں سب سے جُدا اور منفرد ناول نگار نظر آتا ہے۔

(8) Identity:

یہ بھی میلان کنڈیرا کا ایک مختصر ناول ہے جو 1998 میں شائع ہوکر منظرعام پر آیا۔ مختصر ہونے کے باوجود اپنے مواد کی نوعیت سے Identity ایک بہت ہی گمبھیر اور رمز سے بھرا ناول ہے۔ اِسے انسانی وجود کی پوشیدہ جہات کو پیش کرنے والا ایک مہاکاویہ کہا جاسکتا ہے۔ میلان کنڈیرا کی زبان بھی اس ناول میں شاعری بن گئی ہے۔ ایسے ہی ناول پر ’’Great Poetry of Novel‘‘ کا عنوان چسپاں کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ بعض ادبی نقادوں کا خیال ہے کہ فرانسیسی زبان میں لکھے گئے اُس کے ناولوں کی زبان میں وہ بات نہیں ہے جو چیک میں لکھے گئے ناولوں میں تھی۔ ممکن ہے کہ یہ بات درست ہو مگر راقم الحروف اس بارے میں کوئی رائے دینے سے قاصر ہے کیوں کہ اُس کا مطالعہ میلان کنڈیرا کے ناولوں کے انگریزی ترجموں تک ہی محدود ہے Identity محبت کی کہانی ہے۔ میلان کنڈیرا نے پہلی بار ایک خالصتاً داستانِ محبت بیان کی ہے۔ Immortality کی طرح اس میں بھی ایک افسردہ سی لے موجود ہے۔ جیسے ایک اُداس مگر بامعنی موسیقی (کنڈیرا کے یہاں موسیقی میں بھی معنی ہوتے ہیں) لگاتار فضا میں جاری ہو۔
ناول کا مرکزی کردار Chantal نام کی ایک ادھیڑ عمر کی عورت کا ہے جو Jean-Marc نام کے اپنے ہی ہم عمر ایک مرد سے محبت کرتی ہے۔ Chantal اپنے شوہر کو طلاق دے چکی ہے۔ ناول کی ابتدا اس خیال سے ہوتی ہے کہ Chantal کو اچانک ایک دن یہ احساس ہوتا ہے کہ ’’مرد اب اُس کی طرف مُڑکر نہیں دیکھتے۔‘‘ Chantal کے وجود کی گہرائیوں میں کچھ ٹوٹنے لگتا ہے۔ وہ ایک قسم کے ڈپریشن کا شکار ہوجاتی ہے اور اسی کیفیت میں وہ جو کچھ بھی سوچتی ہے۔ میلان کنڈیرا انھیں خیالات کے ذریعے اپنی کہانی کا بے حد خوبصورت تانا بانا تیار کرتا ہے۔
دوسری طرف اس کا محبوب Jean Marc ہے جو اس سے بے حد محبت کرنے کے سبب ہر وقت اس کے پیچھے لگا رہتا ہے جس کی خبرChantal کو نہیں ہوپاتی Jean Marc اسے یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ وہ بھی تو ایک مرد ہے جس کا دھیان ہر وقت Chantal میں ہی لگا رہتا ہے۔ مگر Chantal کی اُداسی قائم رہتی ہے۔ آخر Marc اسے گمنام محبت نامے لکھنا شروع کردیتا ہے۔ یہ مذاق یا کھیل آخر ایک دن مہلک ثابت ہوتا ہے اور دونوں کے رشتے میں دراڑیں پڑنے لگتی ہیں اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب دونوں کا رشتہ ٹوٹنے ہی والا تھا مگر شاید پہلی بار کنڈیرا نے اس ناول میں سُررییلزم کا سنجیدگی سے استعمال کرتے ہوئے، ان کے تعلقات کو ٹوٹنے سے بچالیا کہانی میں خواب اور حقیقت کا ایک انوکھا امتزاج پیدا کرکے مصنف نے ابہام کا جو پہلو اختتام کے وقت پیدا کیا ہے وہ اس کی اعلیٰ ترین تخلیقی صلاحیوں کا آئینہ دار ہے۔ ناول ٹریجڈی میں تبدیل ہوتے ہوئے بچ گیا ہے۔ Marc روتی ہوئی Chantal سے کہتا ہے کہ جاگ جاؤ، یہ حقیقت نہیں ہے۔ اس مقام پر مصنف خود سے سوال کرتا ہے کہ خواب کون دیکھ رہا تھا؟ یہ کہانی کس نے تخلیق کی ہے؟ کس نے اس خواب یا کہانی کو تصوّر کیا ہے؟ Chantal نے یا Jean Marc نے؟ یا دونوں نے؟ یا دونوں نے ایک دوسرے کے لیے اسے تصور کیا تھا۔؟ مصنف کے اپنے آپ سے پوچھے گئے یہ سوال ناول کو ایک بڑی شاعری کا درجہ دیتے ہیں۔ مصنف خود سے پوچھتا ہے کہ ان دو محبت کرنے والوں کی زندگی میں یہ جھوٹی فنطاسی کب داخل ہوئی۔ وہ خط Marc نے لکھے تھے یا لکھنے کا تصوّر کیا تھا۔ اور وہ لمحہ کون سا تھا جب حقیقی غیر حقیقی میں بدل گیا تھا۔ آخر حدِ فاصل (Border) کہاں تھی۔ حدِ فاضل کہاں ہے؟
Identity ایک مشکل ناول ہے کیوں کہ یہ انسانی وجود کی بھول بھلّیوں میں جن راستوں سے ہو کر گزرتا ہے۔ وہ بھی اپنے آپ میں بھول بھلّیاں ہی ہیں۔ کنڈیرا نے انسانوں کی درد بھری زندگی کے معموں کو، معمّوں اور پہیلیوں کے ذریعے ہی حل کرنا چاہا ہے اور اس کوشش میں وہ اپنے فن کی بلندیوں کو چھو لیتا ہے، قاری کو کچھ نہیں معلوم، مصنف کو کچھ نہیں معلوم اور ناول کے کرداروں کو کچھ نہیں معلوم مگر اس ’’بیکراں نامعلوم‘‘ میں ہی ’’معلوم‘‘ کے بہت سے گوشے یہ ناول دریافت کرلیتا ہے اور یہ دریافت ہی بقول میلان کنڈیرا کسی بھی ناول کی اکیلی اخلاقیات ہوتی ہے۔
Identity ہمیں ایک وارننگ دینا ہے۔ اور یہ علم بھی کہ محبت ہی وہ تنہا شے ہے جو ہمیں خارجی دنیا سے بچا سکتی ہے ناول کو اصلی محبت کے تئیں ایک خراج عقیدت بھی سمجھا جاسکتا ہے۔
مگر صرف اتنا ہی نہیں، ناول میں وہ سارے مخصوص تھیم بھی موجود ہیں جنہیں Kuderaesque کہا جاسکتا ہے۔ مثلاً محبت کے علاوہ موت، ’انسانی شناخت کا گم ہوجانا‘ انسانی جسموں کی تعمیر میں مضمر خرابیاں، اور اشتہارات، ماس میڈیا، کامرس اور اونچی آواز میں عوامی جگہوں پر شور مچاتی موسیقی کے خلاف مصنف کا زبردست ردِّ عمل اور اکتاہٹ یا بوریت وغیرہ۔ اپنی (Identity) شناخت کا گم ہوجانا، اپنے وجود پر سے یقین اٹھ جانے کا سبب بن جاتا ہے۔ دو محبت کرنے والے لوگ اگر ایک دوسرے کی پہچان نہ کرسکیں تو ان کی زندگی میں جو بھیانک اور وجود کی کگاریں ہلا دینے والا ڈرامہ پیدا ہوتا ہے، کنڈیرا کا یہ ناول اسی ڈرامے کی ایک تقلیب ہے۔
شاید اسی لیے ناول کے آخری باب میںMarc اپنے محبوب Chantal سے کہتی ہے کہ وہ اسے ہمیشہ اپنی نظروں کے سامنے رکھے گئی، وہ اسے ہمیشہ دیکھتی رہے گی۔ اسے دیکھنا نہیں چھوڑے گی۔ Chantal یہ بھی کہتی ہے کہ اگر اس کی آنکھ جھپک جائے تو وہ ڈرجاتی ہے کہ کہیں اس لمحے میں، کوئی سانپ یا چوہا یا کوئی اور آدمی Marc کی جگہ نہ لے لے۔
اسی سے Marc ،Chantalکو چھونا بھی نہیں چاہتی وہ صرف اسے دیکھنا ہی چاہتی ہے اور ہر رات لیمپ کو صبح ہونے تک جلتا ہوا رکھنا چاہتی ہے۔
شناخت کی تبدیلی ہئیت سے اور اسے گم ہونے سے بچانے کے لیے انسان کی آنکھ کا یہی فریضہ ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ مارک کو ہمیشہ ہی سے کسی لڑکی کی آنکھ کو جھپکتے ہوئے دیکھنا برداشت نہ تھا۔ پتلی کے اوپر پپوٹے کی وہ حرکت اسے ہمیشہ کریہہ محسوس ہوتی تھی۔
اپنے محبوب کی شکل و صورت کو کسی اور کی شکل و صورت سمجھ لینے کی غلطی سب کچھ تباہ کرسکتی ہے۔ ہمیں اپنی آنکھ کو کبھی بھی جھپکنے نہ دینا چاہئے۔ کبھی نہیں۔
میلان کنڈیرا کے یہ تینوں ناول Immortatity, Slowness اور Identity کی مغرب کی ادبی دنیا میں بہت پذیرائی ہوئی۔ کچھ نقادوں نے ان ناولوں کو خالص یوروپئین ناول قرار دیا۔ دوسری بات یہ چیکوسلوواکیہ کے کمیونزم کے زمانے کی یادیں اب آہستہ آہستہ کنڈیرا کے تخلیقی ذہن میں دھندلی پڑتی نظر آرہی ہیں۔ اب اُس کے ناولوں میں روس کے ٹینکوں کا ذکر برائے نام ہی ملتا ہے۔ یہ ناول پوری طرح فرانسیسی فضا میں رچے بسے ہوئے ہیں اور میلان کنڈیرا فرانس کے حوالے سے مغربی یوروپ کی ہم عصر تہذیب کے زوال کا نوحہ لکھنے میں مصروف ہوگیا ہے۔ مگر یہ نوحہ بھی اسی وقت وجود میں آسکا ہے جب کنڈیرا نے فرانس میں رہتے ہوئے کئی سال مشرقی یوروپ اور مغربی یوروپ کے ٹھوس تجزیے اور موازنے میں لگا دیے اس کے بعد اس کے لہجے کے دوٹوک انداز اور بے باکی میں کبھی کوئی کمی نہ واقع ہوسکی۔

(9) Ignorance:

میلان کنڈیار کا یہ ناول سن 2000 میں شائع ہوا۔ اسے اس کا تازہ ترین ناول کہا جاسکتا ہے کیوں کہ اس کے بعد سے تاحال اس کا کوئی اور ناول، راقم الحروف کی معلومات کے مطابق منظرِ عام پر نہیں آیا ہے۔
Ignorance میلان کنڈیرا کے فن کی زبردست پختگی کی ایک نمایاں مثال ہے۔ اس ناول میں Nostalgia حافظہ، فراموشی اور لاعلمی کے تصورات کو تھیم بنایا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کنڈیرا کے ناولوں میں بار بار چند تصورات کے حوالے سے تکرار پائی جاتی ہے مگر جب ہم اس حقیقت پر غور کرتے ہیں کہ میلان کنڈیرا کے یہاں الفاظ اور تصوّرات کے تجزیے محض ان کے لغوی یا فلسفیانہ معنوں تک ہی محدود نہیں ہیں۔ بلکہ آخر میں یہ وجودیاتی جہتوں (Existential Catagories) میں تبدیل ہو جاتے ہیں تو پھر یہ تکرار بہت معنی خیز نظر آنے لگتی ہے اور قاری سے مصنف کے تمام ناولوں کو ایک سلسلے (Series) کے بطور پڑھنے کا مطالبہ کرتی ہے۔
زیر نظر ناول میں ’Nostalgia‘ کے تصوّر پر ایک فلسفیانہ بحث شامل ہے جسے ’’بنیادی تھیم‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے، بقول مصنف Nostalgia ’’یادوں‘‘ سے مختلف شے ہے۔ یہ ان اشیا زمانوں اور زمینوں کے لئے ایک تکلیف دہ اور افسردگی سے بھری ہوئی کیفیت کا نام ہے۔ جنہیں ہم چھوڑ آئے ہیں۔ Nostalgia اور Memory (حافظے) میں تضاد آمیز رشتہ ہے۔ جب لوگ اپنے مشترکہ ماضی کے بارے میں اکثر گفتگو کرتے رہتے ہیں اور یادوں کو مختلف واقعات کے حوالے سے تازہ کرتے رہتے ہیں تو یہ حافظے کو استحکام بخشنے کا سبب بنتا ہے جب کہ Nostalgia اس کے بالکل برعکس ہے۔ Nostalgia کی افسردہ کیفیت اُسی وقت انسان کو اپنی گرفت میں لیتی ہے جب وہ اپنے ماضی کے بارے میں کسی سے کچھ نہیں کہتا۔ وہ اپنی تنہائی کے حصار میں قید ہوتا ہے اور اس کا انجام یہ ہے کہ اُس کا حافظہ کمزور پڑتا جاتا ہے۔ یادیں دُھندلی ہوتی جاتی ہیں اور اپنے ماضی کے تئیں ایک درد بھرا احساس دھیرے دھیرے اُس کا ازلیٰ مقدّر بن جاتا ہے۔
ناول میں ہومر کی ’’اوڈیسی‘‘ کو ایک بامعنی حوالہ بناتے ہوئے ’’Nostalgia‘‘ کے تصور کا جو تجزیہ کیا گیا ہے وہ مابعدالطبیعیاتی یا نفسیاتی نوعیت کا حامل نہیں ہے بلکہ علمیاتی (Epistimological) نوعیت کا ہے جس میں فلسفہ، نفسیات اور عمرانیات یا بشریات، ایک ’’کُل‘‘ کی حیثیت میں سمٹ آتے ہیں۔
میلان کنڈیرا کے ناولوں کی کہانی بیان کرنا نہ صرف یہ کہ مشکل ہوتا ہے بلکہ بعض غلط فہمیوں کا سبب بھی بن سکتا ہے پھر بھی اتنا تو بتایا جاسکتا ہے کہ Ignorance کا مرکزی کردار Irena کا ہے جو ایک چیک مہاجر کی حیثیت سے فرانس میں سے اپنی عمر میں چھوٹے ایک مرد Gustav کے ساتھ رہتی ہے۔ Irena کا شوہر Martin عرصہ ہوئے فوت ہوچکا ہے اور وہ دو بیٹیوں کی ماں بھی ہے۔ شوہر کے مر جانے کے بعد Irena کی زندگی بڑی آزمائشوں میں گزری ہے۔ Irena چیک میں اپنے ماضی کے تعلق سے Nostalgia کا شکار ہے۔ بیس سال سے وہ فرانس میں رہتی ہے۔
آخر کار ایک دن ایسا آتا ہے جب وہ کچھ دنوں کے لئے پراگ جاتی ہے۔ فرانس میں ایرپورٹ پر اُس کی ملاقات جوزف سے ہوتی ہے اور وہ اسے فوراً پہچان لیتی ہے۔ بیس سال پہلے ایک ریستوران میں (پراگ میں) وہ دونوں ملے تھے اور انھوں نے ایک دوسرے کو کچھ ایسی نظروں سے دیکھا تھا کہ اُن میں ’’رشتۂ محبت‘‘ کی نیو پڑتے پڑتے رہ گئی تھی۔ یہ اپنے آپ میں ایک بہت تکلیف دہ احساس تھا۔ ایک لگاتار رستے ہوئے زخم کی مانند۔ وہ محبت جو پروان نہ چڑھ سکے۔ ہمیشہ کے لئے رستا ہوا زخم ہی بن جاتی ہے۔
جوزف ڈنمارک میں رہتا ہے اور فرانس ہوتے ہوئے پراگ جارہا ہے۔ پراگ میں اُس کا بھائی اور سوتیلی بیٹی رہتی ہے۔ اپنی بیوی کو وہ طلاق دے چکا ہے۔ مگر جوزف Irena کو شاید ٹھیک سے نہیں پہچان پاتا۔ وہ کچھ شش و پنج میں ہے۔ جہاں Irena کے دل میں جوزف کے لئے بیس سال پرانی محبت اپنی پوری توانائی کے ساتھ جاگ اٹھی ہے۔ وہیں جوزف کے دل میں Irena کے لئے ایسا کوئی جذبہ نہیں ہے۔
پراگ پہنچ کر ان دونوں کی ملاقاتیں ہوتی ہیں اور پھر ایک رات، وہ ساتھ ساتھ ہوٹل میں بسر کرتے ہیں۔ ایک دوسرے سے مباشرت کرنے کے بعد، اچانک Irena پر یہ منکشف ہوتا ہے کہ جس شخص نے ابھی ابھی اس کے جسم کو حاصل کیا ہے، وہ تو اسے پہچانتا بھی نہیں اور نہ ہی اس کا نام جانتا ہے، وہ خود کو ایک گمنام طوائف سمجھتی ہے اور غصّے کی کیفیت میں زور زور سے رونے کے بعد اسی عریاں حالت میں بے خبر سوجاتی ہے۔
جوزف صبح ہونے پر اس کو اس حالت میں سوتا ہوا چھوڑ کر ہوٹل سے چلا جاتا ہے۔ اسے واپس ڈنمارک جانا ہے۔
میلان کنڈیرا ہمیں اس حقیقت سے آگاہ کرتا ہے کہ بیس سال کے طویل عرصے کے بعد دو انسانوں میں، اپنے ماضی کا تصور یکساں نہیں ہوتا۔ ان کی یادیں ایک دوسرے کی یادوں سے ریاضی کے کسی ہند سے کی طرح شفاف طور پر مماثل نہیں ہوتیں۔ مگر اکثر ہمیں اس کا گمان رہتا ہے کہ جو ہمیں یاد ہے وہ دوسرے کو بھی یاد ہوگا۔ یہ ایک لا علمی ہے۔ (Ignorance) اور جب ہمیں اس لا علمی کا انکشاف ہوتا ہے تو ہمارے وجود میں ایک زلزلہ آجاتا ہے اور وہ ایک سوکھے افسردہ پتے کی طرح قابل رحم انداز میں بکھر کر رہ جاتا ہے۔
یہ پوری کتاب ایک افسردہ گیت کی مانند ہے۔ اس میں میلان کنڈیرا کی وہ کھلواڑ Playfulness نہیں نظر آتی جس کا لیبل اس پر چسپاں ہے مگر Variationsکے ذریعے ایک کھیل کی مانند اس نے مشترکہ تھیم کو ایک وحدت میں ڈھال دیا ہے۔ اپنے سابقہ ناول Identity کی طرح Ignorance میں بھی ’’کامک‘‘ کا عنصر اوپری سطح پر نہیں نظر آتا مگر سچویشن کے ذریعے جن حقیقتوں کا علم ہمیں ہوتا ہے۔ ان کے سرے مضحکہ خیزی سے بھی مل جاتے ہیں۔ مثلاً Irena کی ماں کا کردار جو نمائش پسندی کی انتہا تک پہنچا ہوا ہے۔ جب Irena کی ماں Gustav کے ساتھ ایک اوٹ پٹانگ سی ہم بستری کرتی ہے تو (Comic) کامک کا عنصر بڑی شدت کے ساتھ نمایاں ہوجاتا ہے اور بہت سی حقیقتوں پر سے پردہ اٹھ جاتا ہے۔
Ignorance میں یوروپ کی تاریخ میں رونما ہوئے اہم واقعات اور موسیقی کی تاریخ میں واقع چند عہدساز تبدیلیوں کا آپس میں موازنہ کیا گیا ہے۔ ایک ہی تھیم کے ذریعے ناول میں وحدت کا تاثر پیش کردینا۔ میلان کنڈیرا کا مخصوص کارنامہ رہا ہے۔
جدید مغربی تہذیب کا زوال، عوامی مقامات پر موسیقی کا شور نمائش پسندی اور گھٹیا قسم کی سیاست کا بازار وغیرہ وہ دوسرے تھیم ہیں جو اس ناول میں بھی پائے جاتے ہیں۔
مگر بنیادی طور پر ’Ignorance‘ میلان کنڈیرا کا سب سے زیادہ اداس کردینے والا ناول ہے موسیقی کے اصولوں پر (ہمیشہ کی طرح) تعمیر کیے جانے والے اس ناول میں جگہ جگہ ایسی تفصیلات بکھری پڑی ہیں جو قاری کو شدید طور پر ا فسردہ کردیتی ہیں مگر یہ افسردگی بھی بصیرت سے خالی نہیں کیوں کہ انسانی وجود کی گہرائیوں، اس میں پیوست لا محدود امکانات اور جہتوں کا علم ہمیشہ ایک بیکراں اداسی کا ہی سبب بنتا ہے۔
مثال کے طور پر اپنی نوجوانی کی عمر میں Irena نے اپنے محبوب کی خاطر خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ اپنے محبوب کو کچھ دینا چاہتی تھی۔ کوئی ایسی شے جو ابدی ہو اور وہ شے صرف Irena کی موت ہوسکتی تھی جس کو اس کا محبوب ابد تک یاد رکھے گا۔ مگر خودکشی کی یہ کوشش ناکام ثابت ہوتی ہے۔
Irena کی جان بچالی جاتی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اسے اپنے بائیں کان سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ پورے جسم میں زہر پھیلنے سے بچانے کے لئے ڈاکڑوں کو اس کا بایاں کان کاٹنا پڑجاتا ہے۔ آج Irena جب ایک ادھیڑ عمر کی عورت میں تبدیل ہوچکی ہے۔ تو بھی وہ اپنا مخصوص ہئیراسٹائیل بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ خوبصورت نظر آنا چاہتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ بالوں کا انداز بدلتے ہی اس کے کٹے ہوئے بائیں کان کا راز افشا ہوجائے گا۔ اس لیے مردوں کے ساتھ آزادانہ قسم کی جنسی سرگرمیوں میں وہ کبھی شامل نہیں رہی۔ اس نے اپنی خوبصورتی پر اپنی شہوانیت کو قربان کردیا۔
یا وہ منظر جب جوزف ہوٹل کے کمرے میں Irena کو عریاں سوتے ہوئے دیکھتا ہے۔ وہ ابھی ابھی روکر سوئی ہے۔ جوزف اس کی اندامِ نہانی کو غورسے دیکھتا ہے۔ یہ اندامِ نہانی اسے دنیا کی سب سے زیادہ اداس اور تنہا شے نظر آتی ہے۔ جوزف اس کے تکیے کے نیچے ایک رُقعہ چھوڑکر جانا چاہتا ہے مگر وہ نہیں چاہتا کہ اس میں Irena کے لیے وہ کوئی ایسا محبت بھرا لفظ استعمال کرے جو جھوٹا ہو۔ جوزف کو دنیا میں بہت سی عورتوں سے سابقہ پڑچکا تھا۔ مگر اسے اچانک یاد آتا ہے کہ اس کے کوئی بہن نہیں تھی۔ آخر کار وہ اس رقعے پر ’’مائی سِسٹر‘‘ لکھ کر وہاں چھوڑ جاتا ہے۔
یہ سب کیا ہے؟ یہی وہ شے ہے جسے ’’Kunderaesque‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ قاری کو نہ ہنسنے دیتا ہے نہ رونے اگر یہ مزاحیہ ہے تو قاری کا دل ہلاکر رکھ دیتا ہے اور اگر سنجیدہ ہے تو بھی یہی کام کرتا ہے۔ ناول کی ایک کردار Milanda ہمیشہ یہ سوچتی ہے کہ جسم رکھنے والی ہر شے کو کھایا جاسکتا ہے۔ اسے اپنے جسم کے کھالیے جانے اور کسی دوسرے جسم کی آنتوں سے گزر کر فضلے کی شکل میں بدل جانے کا اندیشہ ہے مگر وہ یہ بھی جانتی ہے کہ دراصل یہ دہشت جسم میں ہونے کی دہشت ہے جسم کا ہونا ہی اس دہشت کا ماخد ہے۔ Kunderaesque ایک بھیانک شے ہے۔ شاید ’’Kafkaesque‘‘ سے آگے کا ایک پڑاؤ۔
Ignorance کے بعد میلان کنڈیرا کا کوئی ناول ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔ مگر راقم الحروف کی طرح دنیا بھر میں پھیلے اس عظیم اور عجیب و غریب ناول نگار کے ہزاروں مداحوں کو اس کی نئی تحریر کا انتظار ہے۔ جو یقیناًانسانی وجود کی کسی نئی جہت کو دریافت کرے گی اور ہم سب ہمیشہ کی مانند انگشت بہ دندان رہ جائیں گے۔ ہر عظیم ناول نگار ہم سے اسی پوز کا مطالبہ کرتا ہے۔

خالد جاوید

کتابیات
(Bibliography)
English Books
1 Milan Kundera, Laughable Loves, Faber and Faber Ltd, London, 1997.
2 Milan Kundera, The Joke, faber and Faber Ltd 1992.
3 Milan Kundera, Life is Elsewhere, Faber and Faber Ltd, 1986.
4 Milan Kundera, Farewell waltz. Faber and Faber Ltd, 1993.
5 Milan Kundera, The Book of Laughter and Forgetting, Faber and Faber Ltd, 1996.
6 Milan Kundera, The Unbearable Lightness of Being, Faber and Faber Ltd, 1995.
7 Milan Kundera, Immortality, Faber and Faber Ltd, 1992.
8 Milan kundera, Slowness, Faber and Faber Ltd, 1996
9 Milan Kundera, Identity, Faber and Faber, Ltd, 202.
10 Milan Kundera, Ignorance, Faber and Faber, Ltd, 204.
11 Milan Kundera, The Art of the Novel, Faber and Faber Ltd, 2005.
12 Milan Kundera, Testaments Betrayed, Faber and Faber. Ltd, 1995.
13 Milan Kundera, The Curtain, Faber and Faber Ltd, 2005.
14 Milan Kundera, Jacques and his Master, Faber and Faber Ltd, 1993.
اردو جرنلز
’’آج‘ کراچی‘‘میلان کنڈیرا کی تحریروں کا انتخاب ، دوسری کتاب، نومبر 1986، کراچی۔
Electronic Resources
Wikipedia Encyclopedia.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *