پیر، 4 جنوری، 2016

یہ کوٹھے والیاں/امرت لال ناگر

ہندی کے نامور ادیب امرت لال ناگر (17؍اگست 1916 ـ 23؍ فروری 1990) کی کتاب ’یہ کوٹھے والیاں‘ (اشاعت اوّل:غالباً 1955 ـ 1954) طوائفوں کی زندگی سے متعلق مضامین، کہانیوں اور انٹرویو پر مشتمل ہے۔اس کتاب کے جدید ایڈیشن (2011) ناشر : لوک بھارتی پرکاشن، الٰہ آباد، سے یہاں ’پیش لفظ‘ کے ساتھ دو کہانیوں (’بچپن، محفلیں اور ویشیا کا بیٹا‘ اور ’بدرِ منیر: ویشیا جیون کا انت‘) کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے۔
کتاب میں موجود مضامین ’یہ کوٹھے والیاں‘:،بچپن، محفلیں اور ویشیا کا بیٹا،سینے میں جیسے کوئی دل کو مَلا کرے ہے،لوٗلوٗ کی ماں: ویشیا جیون کا آدِ،بنارس کی گائیکائیں،بدرِمنیر : ویشیا جیون کا انت،جسْٖری : ودیادھری کا گاؤں،ابی سے لوٗلوٗ کا کیا ہوگا...؟،بڑی موتی بائی،پریمی یا کاماچاری،کاشی کی پراچین ویشیائیں،سیتا ساوتری کے دیش کا دوسرا پہلو،بائی جی نہیں کسبیاں،سُوا پڑھاوت گُنِکا تَر گئی،سُدھار وِچار،دسمبر کی قیامت اور جنوری کی محفل،کری سنگار سیجنہہ چلی ...،ڈیرے دار طوائفوں سے بھینٹ،سَو کیا، پرکِیا اور گُنیکا،کٹّنی متم،کام وِکاروں کا ساماجِک علاج،گرامیہ پرمپرائیں : پتُرین پُروا(عبدالمغنی)


پیش لفظ

1950 میں، صدر جمہوریہ دیش رتن راجیندر پرساد جی نے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ طوائفوں سے ملاقات کرکے کوئی شخص ان کے دکھ سکھ کا حال لکھے۔ وہ خود ہی ان کے بارے میں لکھنا چاہتے تھے، لیکن عدیم الفرصتی کی وجہ سے یہ کام انجام نہ دے سکے۔ میرے دوست پنڈت روٗدر ناراین شُکل اُن دنوں صحافی تھے؛ انھیں خیال آیا کہ یہ کام کسی ہندی ادیب کو ہی کرنا چاہیے اور اپنی اس دلیل سے متاثر ہوکر انھوں نے ’’پریس ٹرسٹ آف انڈیا‘‘ کے نامہ نگار کو یہ خبر دے دی کہ ناگر دیش رتن راجیندر بابو کی خواہش کی تکمیل کے لیے یہ کام کرے گا۔ اپنی اس نئی ذمہ داری کی خبر مجھے بھی عوام کے ساتھ ساتھ روزنامہ اخباروں سے ہی حاصل ہوئی۔
جب کسی کے بال بچے بڑے ہوجاتے ہیں تب وہ عام طور پر بزرگوں کے طبقے میں آجاتا ہے۔ اپنے متعلق بھی میرا یہی خیال تھا اور اسی لیے یہ خبر پڑھ کر مجھے عجیب سا محسوس ہوا۔ میرے دوست روٗدر ناراین نے یہ خبر مذاق میں نہیں بلکہ پوری سنجیدگی کے ساتھ شائع کرائی تھی۔ ہر روز شام کو ہماری نشست ہوتی تھی۔ محترم بھائی بھگوتی چرن جی ورما اس کے صدر ہیں۔ چونکہ بھگوتی بابو پیشے سے وکیل رہ چکے ہیں، اسی لیے ہم میں سے کوئی بھی دوست، جسے اپنی کسی سنجیدہ یا غیرسنجیدہ تجویز کو دوستوں کے گروپ سے پاس کرانا ہوتا ہے، بھگوتی بابو کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور بھگوتی بابو جس مقدمے کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں اسے جیتے بغیر چھوڑتے نہیں 151 اگر دلیل سے نہیں جیتیں گے تو اپنی بزرگی کی ڈکٹیٹری سے تو جیت جائیں گے۔ اسی لیے ہم لوگ انھیں اپنا نیتا کہا کرتے ہیں۔ روٗدر ناراین نے نیتا کو اپنے ساتھ کرلیا۔ شام کی نشست میں میرے تذبذب کا نفسیاتی تجزیہ کیا جانے لگا۔ گیان چند جین، روٗدر ناراین شُکل اور بھگوتی بابو نے یہ طے کردیا کہ مجھے یہ کام کرنا ہے اور پوری سنجیدگی کے ساتھ کرنا ہے۔ اس کتاب میں بیان کیے گئے کچھ واقعات میں پہلے کبھی اس مجلس میں سنا چکا تھا اور یہی بات میری اس موضوع کی اہلیت کا ثبوت مانی گئی۔
اس خبر کے شائع ہونے پر ہندی کے متعدد اخباروں نے تبصرے بھی شائع کیے، طنز و مزاح کے کالموں میں بھی اس خبر کا استقبال ہوا، قارئین کے کچھ خط بھی ادھر ادھر سے آئے۔ اس کام کے لیے میری تیاری اور تذبذب دونوں ہی ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ خیر، کام مکمل ہوا، اس کا مجھے اطمینان ہے۔ اس کی اچھائی برائی کی تحقیق و تنقید اہلِ علم اور قارئین حضرات ہی کرسکیں گے۔ میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ اس موضوع پر علاقائی فیلڈ ورک کی شکل میں ہندی میں یہ شاید پہلی کتاب ہے۔ اس کی اپنی حدیں بھی ہیں۔
طوائفوں کے متعلق ان کی مذمت کے علاوہ اور کچھ لکھنا عام طور پر بدگوئی کا موضوع مانا جاتا رہا ہے۔ اسکاٹ نے اپنی مشہور کتاب ’اے ہسٹری آف پراسٹی ٹیوشن فرام اینٹی کوِٹی ٹو د پریزینٹ ڈے‘ کی تمہید میں اس موضوع پر لکھنے والوں کے تذبذب کی تفصیل بھی دی ہے۔ 1951 میں فرانسیسی عالم لیکراکس نے دو حصّوں میں طوائف کی زندگی کی تاریخ پیش تو کی، لیکن اس کے مصنّف کی حیثیت سے اپنی اصل رائے دینے میں جھجک گئے۔ امریکی عالم سینگر کو بھی اس موضوع پر اپنی تاریخی کتاب کی تمہید میں بڑا تکلّف برتنا پڑا۔ 1857 میں ایکٹن نامی ایک انگریز عالم کو بھی اپنی کتاب کی تمہید لکھتے ہوئے بڑی جھینپ بھری صفائی دینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ڈائسن کارٹر نے اپنی کتاب ’سِن اینڈ سائنز‘ کی تمہید میں یہ ظاہر کیا ہے کہ بہت سے لوگوں نے انھیں وہ کتاب لکھنے سے منع کیا تھا۔
طوائفوں کے لیے کشش اور طوائف بازی کے لیے تذبذب کا جذبہ دونوں ساتھ ہی ساتھ انسانی تمدن کی تاریخ میں چلتے رہے ہیں۔ میرا اپنا خیال تو یہ ہے کہ اس سماجی تذبذب نے طوائفوں کے لیے انسانی کشش میں اضافہ کیا ہے۔ بہرحال، اب تو دنیا بھر میں تقریباً ہر جگہ حکومتیں طوائفوں کے پیشے کے خلاف کوششیں کررہی ہیں۔
سب سے بڑا مسئلہ چکلہ خانوں کا ہے۔ اگر ان چکلہ خانوں کے خلاف ہوشیاری سے تفتیش کرکے پھر ان پر جگہ جگہ مقدمے چلائیں جائیں تو عوامی شعور پر اثر پڑے گا۔ عورتوں کی خرید و فروخت کا دھندا کرنے والے مرد عورتوں کو عمر قید کی سزائیں دینی چاہییں۔ ہمارے سرکاری سماج کلیان کیندروں کا خاص کام ایک طرح سے صرف دودھ کے ڈبے تقسیم کرنا ہی رہ گیا ہے۔ جمہوری حکومت میں ایسی بہت سی گنجائش ہوتی ہے، جس سے کہ عوام اور عوامی سرکار مل کر پورے جوش سے کئی ملک گیر تحریکیں چلا کر کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ اصول پروری کی لکیر تو برابر پیٹی جارہی ہے، مگر بہت بے اثر ہے، ورنہ میری تجویز یہ ہے کہ یہ اخلاقی تحریک چلا کر عوام اور عوامی حکومتیں ایک دوسرے کے قریب تر آسکتی ہیں۔ ہمارے سرکاری سماج کلیان محکمے اگر 1930ء کی کانگریس تنظیم کی طرح شہروں اور دیہاتوں کے ہر علاقے کو اپنی تنظیم میں شریک کرلیں، اپنے علاقے کے ہر گھر سے سماج کلیان کیندروں کا رابطہ ہو تو بڑی کامیابی مل سکتی ہے۔(چوک، لکھنؤ امرت لال ناگر)
٭٭٭


بچپن، محفلیں اور طوائف زادہ


جھوٹ کا رنگین مزاجی اور طوائف بازی کی لت سے گہرا رشتہ ہے، اس لیے اس موضوع پر لکھتے وقت اس کی یاد آجانا فطری ہے۔ آئینہ میرے سامنے نہیں، کمرے میں اکیلا ہوں، نظر کاغذ پر اور لفظوں سے فقرے بناتی ہوئی قلم کی روانی پر ہے، پھر بھی، یا شاید اسی لیے، میں اپنے ادھیڑ چہرے پر بار بار تیز دوروں میں شرم کی لالی کو آتے جاتے دیکھ رہا ہوں، اُس لالی پر حاوی ہونے والی جھوٹ کی کلونس بھی یاد آرہی ہے، ہم سفیدپوشوں کی تہذیب کا وہی تو ایک سہارا ہے۔
لیکن اُس بات کے لیے جھوٹ کیا بولوں جسے میرے منہ پر طمانچے مار کر ایک سے زیادہ لوگ سچ ثابت کرسکتے ہیں اور اب جھوٹ کی ضرورت بھی کیا رہی؛ جو بیت گیا سو ریت بھی گیا۔
میں خود نوشت لکھنے نہیں بیٹھا۔ میری زندگی سے طوائفوں کا تعلق اتنا نہیں رہا کہ خود نوشت میں طوائفوں کی زندگی کا مکمل تجربہ بیان کرسکوں۔ جس لکھنؤ میں میرا شعور بیدار ہوا وہ نوابی زمانے کے عیش و عشرت سے آزاد نہیں ہوا تھا۔ آس پاس کے ماحول میں طوائفوں کا ذکر عام تھا۔ شروع میں جس کوٹھی میں ہم رہتے تھے اس کے نیچے بنی ہوئی دکانوں میں بسی ہوئی ترکاری والی کبیڑنیں آپس کی زبانی لڑائی میں جنسی اعضا سے متعلق الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے ایک دوسری کے ناجائز تعلقات کی حقیقت کا انکشاف کیا کرتی تھیں۔ ان کی لڑائیوں میں چونکہ اکثر ایسی ہی گالیاں اور واقعات شامل ہوتے تھے اس لیے وہ الفاظ اور وہ واقعات برسوں تک میرے ذہن میں سوال بنے رہے۔ گھر کا ماحول سخت تھا اور گھر کے بچوں پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی۔ میں اپنے بچپن میں کبھی گلی یا سڑک پر لڑکوں کے ساتھ کھیل نہیں سکا؛ پتنگ، تاش کچھ بھی نہ جان سکا۔ کچھ بڑے ہونے پر گھنٹے سوا گھنٹے کے لیے کمپنی باغ میں کھیلنے کی اجازت ضرور مل گئی تھی، لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ حکم بھی تھا کہ ’’چراغ گھر پر جلیں‘‘۔ اتنی پابندی ہونے کے باوجود کچھ باتوں کا علم تھوڑا بہت ہونے لگا۔
میرے ساتھ ایک ہندو گھرانے کے دو لڑکے پڑھتے تھے۔ اُن میں سے ایک لڑکا اسکول کے مولوی صاحب کے گھڑے سے بھی اکثر پانی پیتا تھا۔ اسکول میں تو نہیں، مگر باہر میں نے اسے دو تین بار فیض ٹوپی لگائے پورے مسلمانی لباس میں بھی دیکھا تھا۔ بڑا عجیب سا لگتا تھا۔ اس کے بارے میں لڑکوں سے کچھ عجیب سی بات بھی سن رکھی تھی۔ ایک دن میں نے اس لڑکے کے بھائی سے سوال کیا کہ تمھارا بھائی ہندو ہوکر بھی یہ حرکتیں کیوں کرتا ہے اور کیا وہ بات سچ ہے جو کہ لڑکے اکثر تمھارے بھائی کے متعلق کہتے ہیں۔ میرے اس ہم جماعت کا شمار اچھے لڑکوں میں ہوتا تھا۔ اس نے بڑے تامّل سے میری سنی ہوئی بات کی تائید کردی۔ مسلمانی لباس پہننے اور مولوی صاحب کے گھڑے سے پانی پینے والا اس کا بھائی طوائف زادہ تھا۔ اس کے والد دولت مند تھے؛ وہ اپنی مسلمان طوائف کے بیٹے کو ہندوانے ڈھنگ سے رکھنا چاہتے تھے اور اسی لیے اپنے گھر میں رکھتے تھے۔ لیکن کبھی کبھی وہ اپنی ماں کے گھر بھی جایا کرتا تھا اور جب وہاں جاتا تھا تو مسلمانی لباس پہنتا تھا۔ اس کا ایک مسلمانی نام بھی تھا۔ بچوں کی باتوں سے آہستہ آہستہ بڑوں کے اسرار عجیب طریقے سے میرے سامنے ظاہر ہونے لگے۔ میرے ہم جماعت کے والد یوں تو اپنی کاروباری مصروفیات کی وجہ سے اکثر باہر ہی رہتے تھے، ان کی محبوب طوائف وہاں بھی ان کے پاس رہ آتی تھی اور یہا ں رہتے تھے تب بھی وہ زیادہ تر اپنی طوائف کے گھر پر ہی رہتے تھے۔ طوائف زادے کا لاڈ پیار بھی زیادہ ہوتا تھا۔ وہ طوائف اپنے وقت میں لکھنؤ کی نامی مغنیّہ تھی۔ اپنے گھر میں رہتے ہوئے بھی میرے ہم جماعت کی ما ں اپنے بچے سے زیادہ اپنے شوہر کی محبوبہ کے بچے کا دھیان رکھنے کے لیے مجبور تھی۔ طوائف زادے کی ذرا سی شکایت پر میرے ان دونوں ہم جماعتوں کے والد اپنی بیوی کو اس بری طرح ڈانٹتے تھے کہ گھر کی نوکرانی کو بھی کوئی اس طرح نہیں ڈانٹے گا۔ کبھی کبھی وہ طوائف ان کی کوٹھی میں بھی آٹھ دس دن کے لیے رہ جایا کرتی تھی۔ اگرچہ وہ مردانہ حصّے میں ہی رہتی تھی، لیکن اس کی حکومت ان دنوں گھر کے اندر تک ہوتی تھی۔ بیوی اپنی سوتن طوائف کی خدمتگار بن کر رہ جاتی تھی۔ اور اس کے اپنے دونوں بچے بھی خود اپنے ہی گھر میں اجنبی بن جاتے تھے۔ مجھے آج بھی اپنے ہم جماعت کی ایک بات یاد ہے۔ میں نے پوچھا: ’’تمھارے والد تمھاری والدہ کے ساتھ ایسا برتاؤ کیوں کرتے ہیں؟‘‘ میرے دوست نے جواب دیا: ’’بھائی، وہ طوائف ہیں، میری مدر سے ان کا مقابلہ ہی کیا؟ سب لوگ اپنی طوائفوں کی عزت کرتے ہیں۔ گھر کی عورتوں کو کون پوچھتا ہے؟‘‘
میرے دل میں اس بات کے ساتھ آج تک وہ پرانی محفلیں اور ان میں ناچتی گاتی، آداب بجاتی، مسکراتی، کبھی کسی بات سے محفل کو زعفران زار بناتی ہوئی طوائفیں جھانک جاتی ہیں۔ اچھی طرح یاد ہے، اس وقت بھی ہم جماعت کی وہ بات سن کر میرے سامنے ان چھوٹی بڑی محفلوں کی تصویریں آگئی تھیں جو اس زمانے میں چوک کے بڑے بڑے رئیسوں، ساہوکاروں کی حویلیوں میں شادی و دیگر تقریبات کے موقعوں پر نظر سے گزری تھیں۔ ہندوستان کی نامی طوائفیں آتی تھیں۔ ان کے حسن اور فن کاری کی دھوم مچتی تھی۔
بزرگوں کے حکم کے مطابق چراغ بھلے ہی گھر پر جلتے رہے ہوں، مگر عمر بڑھنے کے ساتھ ہی ساتھ میری آزادی بھی ڈگریوں میں بڑھنے لگی۔ اسرار عملی طور پر نہیں تو بھی باتوں میں بہت کچھ سمجھ میں آنے لگے تھے۔ نئی عمر کے رومان ہم عمر لڑکیوں کے لیے جاگنے لگے تھے۔ محفلوں میں سجی سنوری، ناز نخرے دکھاتی، ناچتی گاتی طوائف کشش کامرکز بننے لگی۔ میرے دوستوں میں بھی ایسی ہی تبدیلیاں ہونے لگی تھیں۔ ہم لوگ محلّے کے بڑوں میں ہونے والی طوائفوں سے متعلق باتوں کا ذکر کرتے اور اکثر ہم میں سے سبھی کے دل میں یہ بات گھر کر گئی کہ طوائفیں محبت کرنا جانتی ہیں اور گھریلو عورتیں اس فن سے قطعی ناواقف ہوتی ہیں۔ محبت کی اہمیت ہے، اس لیے طوائف کی اہمیت ہے، یہ بات عجیب طرح سے دل میں گھر کر گئی۔
انہی دنوں وشمبھر ناتھ شرما کوشک کے لافانی ناول ’ماں‘ اور رتن ناتھ سرشار کا لکھا ہوا اور منشی پریم چند کا ترجمہ کیا ہوا لافانی ناول ’آزاد کتھا‘ میں طوائفوں کی مکّاری اور بناوٹی محبت کی کہانیاں بھی پڑھنے کو ملیں۔ طوائفوں کی چالبازیوں پر تو اکثر باتیں سننے کا موقع ملتا تھا۔ میرے دو ایک ہم جماعت طوائف باز ہوچکے تھے۔ وہ شیخی بگھار کر اپنے تجربوں کے بیان سے بہت سے ساتھیوں کی پیاس بھڑکایا کرتے تھے۔ تب ہی پڑوس میں ایک واقعے نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ اس کے بعد دو تین سال تک طوائفوں کے تصوّر تک سے دور رہا۔ ہمارے پڑوس میں ایک کھتری رہتے تھے۔ وہ صرّافے میں دلالی کا کام کرتے تھے اور کھاتے پیتے خوش حال تھے۔ گھر میں ان کے بوڑھے والد تھے اور بیوی تھی۔ دلال صاحب اور ان کی بیوی دونوں ہی خوبصورت اور بھلے تھے۔ دلال صاحب کو کسی طوائف سے محبت ہوگئی۔ وہ اکثر اسی کے گھر پر رہنے لگے۔ والد اور بیوی کے لیے معاشی مصیبتوں کے دن آگئے۔ والد صاحب خود بھی دلالی کرتے تھے، لیکن بیٹے کے لائق ہوجانے کے بعد انھوں نے ریٹائرمنٹ لے لیا تھا۔ اب بیٹے کے نالائق ہوجانے پر انھوں نے پھر کام کرنے کا حوصلہ کیا۔ سال ڈیڑھ سال بعد ہی طوائف کے جال میں کوئی نیا پنچھی پھنس گیا۔ وہ امیر تھا۔ طوائف نے دلال صاحب کو دھتکارنا شروع کیا، لیکن وہ اس کی محبت میں ایسے دیوانے ہوگئے تھے کہ اسے چھوڑنا نہ چاہیں۔ شاید ان کے دل میں یہ بھی ہو کہ اتنے دن تک گھر سے علیحدہ رہنے کے بعد اب کس منہ سے وہاں جائیں۔ بہرحال، ایک دن طوائف نے غصّے میں آکر ان کے اوپر تیزاب کی پوری بوتل الٹ دی۔ وہ دو تین دن میں تڑپ تڑپ کر مر گئے۔ طوائف گرفتار ہوگئی۔
خوش قسمتی سے میرے لڑکپن اور نوجوانی کے زمانے کے دن قومی تحریک اور سماجی بیداری کے دن تھے۔ یہ بڑی لہر مجھے اپنے ساتھ بلند تصورات، خیالات اور خواہشات کی ندی میں بہا لے گئی۔ پھر بھی اتنا تو کہنا ہی پڑے گا کہ بڑوں کی دنیا کی ہلچل کا اثر بچوں کے ذہن پر ضرور پڑتا ہے۔ جو باتیں ذہن نشین ہوجاتی ہیں وہ کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی شکل میں پھلتی پھولتی بھی ہیں۔
٭٭٭
بدرِمنیر : طوائف کی زندگی کا انجام


’چاند‘ اور چندرلوک پرکاشن کی سماجی تحریکوں میں طوائفوں کے تئیں ہمدردی پیدا کرنے والی، انھیں دوزخی زندگی میں ڈالنے والے اوباشوں، غنڈوں اور زناکاروں کے تئیں نفرت پیدا کرنے والی سماجی کہانیاں، اُگرجی کی البیلی کتابیں، زمانے کے ساتھ ساتھ میں نے بھی پڑھی تھیں۔ ایک زمانے میں بنارس میں پریم چند جی سے ملاقات کرنے گیا تو ان سے کُپرن [Kuprin]کے روسی ناول ’یاما‘ کی تعریف سن کر اسے بھی پڑھ چکا تھا۔ ’ٹو بیگ آئی ایم اشیمڈ‘ [To Beg I Am Ashamed] نامی انگریزی میں، طوائف بننے والی ایک تعلیم یافتہ ہندوستانی دوشیزہ کی کہانی بھی پڑھ چکا تھا۔ کسی فلم اسٹار طوائف نے اپنی دردناک کہانی سنا کر نیتاجی سبھاش چندر بوس کو آبدیدہ کردیا تھا اور اس کی اخباری ہل چل سے ہم بھی آبدیدہ ہوئے تھے۔ چیچک ہونے پر کوٹھے والوں کی ٹھکرائی ہوئی، ایک بھٹکی ہوئی، خوفناک سوزاک میں مبتلا، شناسا طوائف کے آخری دنوں کا چشم دید گواہ بھی رہ چکا تھا؛ تب بھی میرے ذہن میں بھیانک زلزلہ آیا تھا۔ ایک طوائف کے انجام سے اب طوائف کا ازلی روپ دیکھتے وقت تلخ و شیریں تجربات سے پُر زندگی کے تین برس اور گزر چکے تھے۔ بدرِمنیر کا انجام دیکھ کر جذبے اپنی پوری طاقت سے ابھرے تو تھے لیکن اس وقت وہ گونگے ہی رہ گئے تھے۔ آج لوٗلوٗ کی ما ں کے متعلق وہ جذبے سوالوں کے تیر بن کر دل کے کونے کونے کو چھلنی کررہے تھے 151 مجرم کون ہے؟ وہ طوائفوں کے دلال، وہ ناکارہ شوہر، پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے مجبور ہوکر طوائف بننے والی شریف گھریلو عورت 151 کون مجرم ہے؟ خوفناک مرض سے مرنے والی طوائف بدرِمنیر بھی ا صل میں طوائفوں کے خاندان میں پیدا نہیں ہوئی تھی۔ رفیق نامی ایک غنڈہ دلال تھا۔ وہ اسے لکھیم پور کے قرب وجوار کے کسی گاؤں سے اس کے باپ کو سوا سو روپے دے کر، باقاعدہ نکاح کرکے، لکھنؤ لایا؛ انوری نامی کسی طوائف کے یہاں رکھا۔ اس کے یہاں تین لڑکیاں اور رہتی تھیں۔ ایک بہت ضدی تھی، اسے بہت مارا پیٹا جاتا تھا۔ رفیق اور انوری دونوں ہی بہت ظالم تھے، جوتوں، لاتوں، گھونسوں سے لڑکیوں کو پیٹنے کے علاوہ ان کے ظلم کی حد نہ تھی؛ وہ تپتے ہوئے چمٹے یا سلاخ سے ضدی لڑکی کی کمر، پسلیوں کے آس پاس، رانوں اور پستانوں کے نچلے حصّوں کو داغتے بھی تھے۔ بدرِمنیر یہ سب دیکھ کر اتنی سہم گئی کہ جیسا کہا جاتا ویسا ہی کرتی تھی۔ اس نے اپنی فرمانبرداری اور خدمت سے رفیق اور انوری دونوں کو خوش کر رکھا تھا، اس لیے سال ڈیڑھ سال تک اس سے پیشہ نہ کرایا گیا۔ ہر لڑکی کو کام کے لائق ناچ اور گانے کی تعلیم دی جاتی تھی۔ بدرِمنیر کا گلا قدرتی طور پر سریلا تھا۔ اس نے سیکھنے میں بھی پوری دلچسپی لی۔ لکھنے پڑھنے کا شوق بھی شروع کیا، کام میں ہوشیاری دکھائی۔ رفیق کو خیال آیا کہ اسے اچھی تعلیم دے کر بڑی محفلوں میں نام کمانے کے قابل بنایا جائے۔ انوری اتنے دن انتظار کرنے کے حق میں نہیں تھی۔ دونوں میں ساجھے کی کھیتی تھی، کہا سنی ہوگئی۔ انوری نے کہہ دیا کہ اگر تمھیں من مانی کرنی ہے تو اس کا کہیں اور انتظام کرو۔ رفیق نے اسے چوک میں کوٹھا دلادیا،ملمعے کے گہنوں سے سجادیا اور موسیقی کی اچھی تعلیم کا بندوبست بھی کردیا۔ تگڑمی تھا ہی، بدرِمنیر کا نام چاروں طرف پھیلا دیا۔ شام کو موسیقی کی ایک دو محفلوں میں پانچ چھے روپے تک کما لیتی تھی۔ یہ سنہ 1935-36 کی بات ہے۔ انہی دنوں دوستوں کے ساتھ گانا سننے کے لیے میں بھی اس کے یہاں گیا، دو تین بار دوستوں کے ساتھ اور چار چھے بار اکیلا۔ تب تک مجھے اس کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا، ہاں اتنا جانتا تھا کہ اس کے یہاں صرف موسیقی کے شائقین کا ہی استقبال ہوتا ہے، عیاش طبع لوگوں کا نہیں۔ وہ اپنے ہی طبقے میں کسی کی بیوی ہے، خاندانی ہے، اس بات سے میرے دل میں بدرِمنیر کے لیے عزت ہوگئی تھی۔
اس کے بعد میری زندگی بدل گئی۔ ہفتہ واری مزاحیہ رسالے ’چکلّس‘ کی اشاعت شروع کی۔ اس کی وجہ سے شام کو بھی ادبی دوستوں کی نشست میرے یہاں ہونے لگی، پرانے دوست چھوٹنے لگے۔ ایک بار یونہی اُس کا خیال آیا تو بازار میں ایک دوست سے معلوم ہوا کہ بدرِمنیر کو بھیانک چیچک نکلی تھی، بہت بدصورت ہوگئی ہے۔ اس کے آدمی نے اسے نکال دیا ہے، کہیں اور کوٹھا لے کر رہنے لگی ہے۔ خیر، میں بھول گیا۔
سنہ 37 کی سردیوں کی بات ہے۔ شام کے وقت ایک میلا کچیلا، آوارہ قسم کا مسلمان لڑکا میرے یہاں آیا، کہا کہ بدرِمنیر بہت بیمار ہے، آپ کو بلایا ہے۔ میں نے پوچھا کہ وہ کہاں رہتی ہے؟ اس نے اکبری دروازے کے باہر جو جگہ بتائی، وہاں اس وقت جانے کی ہمت نہ ہوئی، لیکن دل میں رحم کا جذبہ بھی تھا۔ میں نے کہا کہ نو بجے آؤں گا، تم مجھے کہاں ملو گے؟ اس نے جگہ بتادی۔
اس وقت میرے پاس روپے نہیں تھے، ایک دوست سے پچاس روپے ادھار لے کر ٹھیک وقت پر پہنچ گیا۔ جس گلی، جس گھر میں وہ لڑکا مجھے لے گیا اس میں کبھی خواب میں بھی طوائف کے بسنے کا تصور نہیں کرسکتا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ طوائفوں کی زندگی کے دوزخ کو اس رات پہلی بار دیکھا۔ طوائف لفظ کے ساتھ اس وقت تک میرے ذہن میں موسیقی اور رقص کی ماہر، محفل باز، باتونی، خوبصورت لبھانے والی کا ہی تصور تھا۔ مردوں کی حیوانیت کا شکار ہونے والی، اتنی نچلی سطح کی؛ حسن، گُن، فن سے عاری؛ گوشت پوست کی شکستہ مشینوں کے متعلق پڑھ سُن کر بھی میں نے انھیں دیکھا یا جانا نہیں تھا۔
سردی کی رات تھی، سڑکوں گلیوں میں سناٹا ہونے لگا تھا۔ وہ لڑکا مجھے دو تنگ گلیوں میں گھما کر ایک پرانے مکان میں لے گیا۔ باہر چار دروازے تھے، تین باہری کمروں کے تھے، ایک گھر کا داخلی دروازہ تھا۔ درمیان میں لکھوری اینٹوں کا صحن، دو طرف دالان، ان میں دو کمرے، ایک کوٹھری تھی۔ دو دیواروں کے سہارے چھپّر بانسوں پر کھڑا تھا، ان میں دو طرف ٹاٹ کے پردے لٹکا کر ایک کمرہ سا بنا لیا گیا تھا۔ دونوں دالانوں کے دو دروں میں بھی ٹاٹ کے پھٹے جھینے پردے اور ان کے اندر ڈِھبریوں کی روشنی دکھائی دے رہی تھی۔ قریب اور دور سے، نشے کے گھوڑے پر سوار بہکی بہکی، شیخی سے بھری، جھگڑتی ہوئی اور گالیوں سے بھری آوازیں ٹاٹ کے پردوں سے آرہی تھیں۔ ایک دالان کے کھلے حصّے میں ایک عورت چولہے کے پاس بیٹھی کھانا پکا رہی تھی۔
لڑکے کی ’’آجائیے، چلے جائیے‘‘ کی آوازوں نے اس چھوٹے سے گھر میں رہنے والوں کو چونکا دیا۔ آج سوچتا ہوں کہ شاید اتنی مہذب زبان میں وہاں کسی کا استقبال نہ ہوتا ہوگا، اسی لیے مرد عورتیں چونکے ہوں گے۔ میں ٹاٹ اور چھپّر کے بنے کمرے میں گیا۔ سرہانے اور پہلو کی طرف دو دیواروں سے لگی ہوئی چارپائی پر بدرِمنیر پڑی تھی، پائینتی کی طرف دیوار میں بنے ایک طاق میں ڈِھبری جل رہی تھی۔ ایک پرانا سا مونڈھا لڑکے نے چارپائی کے پاس رکھ دیا اور مجھ سے بیٹھنے کو کہا۔ میں نئی عمر، نئے ماحول اور رحم دلانہ جذبے کے اثر میں کھڑا ہی رہا۔ روشنی کم ہونے کی وجہ سے اسے ٹھیک طرح دیکھ نہیں پارہا تھا۔
بدرِمنیر نے آہستہ سے کہا: ’’آپ کو بڑی تکلیف دی۔ یہ جگہ آپ کے لائق نہ تھی۔‘‘
میں نے روشنی کے لیے لڑکے سے ڈِھبری مانگی اور وہ لے آیا۔ میں اسے پہچان نہیں سکا کہ یہی بدرِمنیر ہے۔ میرے سامنے پھٹے لحاف میں لپٹی عورت کا صرف ہڈیوں بھرا چہرہ اور ایک ہاتھ تھا؛ چہرہ بڑے بڑے لال دانوں سے بھرا ہوا تھا، آنکھیں اور کھلے دانتوں کی قطار خوفناک لگ رہی تھی۔ روشنی میں میرا حیرت زدہ چہرہ دیکھ کر وہ ہنسی تھی۔ میری طرف دیکھ کر بھی نہ دیکھتی ہوئی اس کی پھٹی سی آنکھیں مجھ سے نہ دیکھی گئیں۔ میں نے لڑکے کی طرف ڈِھبری بڑھادی۔ اسے طاق میں رکھ کر لڑکا بولا : ’’محبوبن، اب ہم جاتے ہیں۔‘‘
’’اچھا‘‘ بدرِمنیر کی دھیمی آواز نکلی۔ میں چارپائی سے ذرا دور ہٹ کر مونڈھے پر سنبھل کر، دیوار کی ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ ’’محبوبن‘‘ نام ذہن میں اٹکا، تب لڑکا پھر بولا: ’’تم نے کہا تھا، پیسے دلائیں گے۔‘‘
’’ہاں، یہ لو۔‘‘ میں نے جیب سے شایداٹھنّی یا روپیہ نکال کر دے دیا۔ لڑکا چلا گیا۔
اس کی کہانی میں نے اسی دن سنی تھی۔ چیچک نکلنے کے بعد رفیق کے دل سے وہ بالکل اتر گئی۔ ایک دن اس کوٹھے میں ایک نئی لڑکی بسانے کے لیے لے آیا اور بدرِمنیر کو مار پیٹ کر کوٹھے کی سیڑھیوں پر دھکیل دیا۔ بے سہارا ہوکر وہ انوری کے پاس گئی۔ اس نے اپنے پاس رکھنے سے تو انکار کردیا لیکن ہمدردی سے پیش آئی۔ اس نے اس چکلہ خانے کی بڑی بوڑھی کو بلا کر آمنا سامنا کرادیا۔ یہاں کمرہ نہیں تھا، چھپّر ڈلوانے، چارپائی وغیرہ خریدنے کے لیے پرونوٹ لکھ کر پچیس روپے دیے۔ وہ بیاج پر لیے گئے پچیس روپے پچھلے آٹھ مہینے میں بھی ادا نہ ہوسکے۔ جسمانی کاروبار کے لیے ایک مرد سے چونّی اٹھنّی سے زیادہ نہیں ملتا تھا۔ اس گھر میں سب ایسی ہی نکالی ہوئی بدنصیب طوائفیں تھیں۔ یہ طوائفوں کے سماج کا سب سے نچلا طبقہ تھا۔
لڑکے کے باہر جانے کے تھوڑی دیر بعد دو تین عورتیں لالٹین لیے بدرِمنیر کی عیادت کے بہانے مجھے دیکھنے آئی تھیں۔ اس ماحول میں میرے جیسے معزز سفید پوش کا آنا رات میں سورج نکلنے کی طرح ہی ناممکن سی، ان دیکھی، ان سنی بات تھی۔ میں خود ایک عجیب تذبذب کی کیفیت سے دوچار تھا۔ تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹے تک وہاں رہا۔ بدرِمنیر بات کرنے کے جوش میں تھی۔ بولتے بولتے ہانپ جاتی تھی، رک جاتی تھی۔
اس چکلہ خانے کو چلانے والی اور اس کا یار پیسے کے معاملے میں بہت سخت تھے۔ انوری کے پچیس روپے کبھی ادا نہ ہوتے۔ گاہکوں سے پیسے وصول کرنے کا اختیار چکلہ چلانے والی اور اس کے یار کا ہی تھا۔ اس لیے ادھار بھی چڑھا رہا اور روز کے خرچ کے نام پر بدرِمنیر کی روز کی کمائی میں بھی اس کا حصہ نہ رہا۔ اس چکلہ خانے میں بدرِمنیر (اس چکلہ خانے میں اس کا نام محبوبن) کی کمائی سب سے زیادہ تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ اڈّہ ان طوائفوں کا تھا جن کی کہیں پوچھ نہیں ہوسکتی تھی؛ حسن، جوانی، صحت سب برباد ہوجانے کے بعد وہ یہاں آتی تھیں، ان کے درمیان بدرِمنیر اپنی بھری جوانی لے کر آئی تھی۔ چکلہ چلانے والی اسے گاہکوں سے فرصت نہ لینے دیتی تھی۔ آٹھ دس مہینے میں وہ تیسری بار بیمار پڑی تھی۔ پہلی بار میعادی بخار چڑھتا رہا۔ اس میں بہت تکلیفیں اٹھائیں۔ جب بخار کی وجہ سے کام نہ کر پاتی تو ’’بیٹھے بیٹھے کھا رہی ہے حرام زادی، یہاں تیرا باپ بیٹھا ہے‘‘ جیسی تلخ باتیں سنتی اور بخار اترتے ہیں ادھار کی رقم بھرنے کے لیے پھر گاہکوں کی خدمت میں جُٹ جاتی۔ دو مہینے پہلے کسی سے سوزاک مرض ملا۔ بہت ہلکا اثر تھا، پھر بھی پندرہ بیس دن کسی کام کی نہ رہی۔ ادھار اور بڑھ گیا۔ اِدھر ایک ہفتہ پہلے ایک ہی دن میں دو آدمیوں سے یہ مرض ملا اور دیکھتے ہی دیکھتے مرض اتنی تیزی سے بڑھا کہ چار دن میں پورا بدن دانوں سے بھرگیا۔ کمر سے لے کر ناف کے اوپر تک پکی ہوئی پھنسیوں اور ان کے زخموں کے چھتّے کے چھتّے دکھائی دے رہے تھے۔ بدرِمنیر اپنے مرض سے جو تکلیفیں برداشت کررہی تھی وہ تو تھیں ہی، اُدھار کے طعنوں، گالیوں اور نکال دینے کی دھمکیوں سے اسے زیادہ اذیت ہورہی تھی۔ بدرِمنیر کو اپنی اذیت میں جانے کیسے میرا نام یا دآیا۔ میں نے اس سے قربت کا رشتہ کبھی قائم نہیں کیا تھا؛ اس کے شریفانہ برتاؤ اور فن موسیقی کی وجہ سے اس کو عزت ضرور دی تھی۔ شاید کبھی باتوں باتوں میں اسے اپنا پتہ ٹھکانا بھی بتایا ہی ہوگا، اسی لیے وہ لڑکے کو میرے پاس بھیج سکی۔ بہرحال، وہ ساری باتیں تو اسرار ہی ہیں۔ اس وقت بدرِمنیر کی جیسی حالت تھی، اس کی وجہ سے میں نے خاص طور پر کچھ نہیں پوچھا تھا۔ وہ جو کچھ کہتی رہی، میں سنتا رہا۔ وہ تقریباً ستّر روپے کی قرضدار تھی۔ وہ قرض سے نجات چاہتی تھی۔ صحتیابی کی اسے آرزو نہ تھی، کیونکہ موت کا احساس اسے ہوچکا تھا۔ میں نے پچاس روپے اسے دینے کے لیے نکالے۔ اس نے کہا: ’’یہ روپے میرے پاس رکھنا بے کار ہے۔ آپ کے آنے سے وہ یہ سمجھ گئے ہوں گے کہ مجھے آپ سے مدد ملے گی۔ وہ چھین کر لے جائیں گے اور مجھے آپ کو بار بار تکلیف دینے کے لیے مجبور کریں گے۔ آپ اُن ہی کو دے دیں۔‘‘
جب چلنے لگا تو بدرِمنیر نے ایک فقرہ کہا جو اب تک چبھ رہا ہے:’’میں کہتی تھی، خدا نہیں ہے 151 خدا ہے 151 خدا ہے۔‘‘
جب باہر آیا تو بیٹھک والے کمرے کی ایک ادھیڑ عورت نے کہا:’’جارہے ہیں بابوجی؟‘‘
وہ اور اس کا دڑھیل یار باہر آگئے۔ عورت نے اور اس کے یار نے کچھ باتیں کیں، بدرِمنیر کے لیے ہمدردی کے نقلی بول بولے۔ میں نے ان پر دھیان نہ دے کر کہا کہ کل انوری سے پرونوٹ لے کر کوئی آجائے، میں ادائیگی کردوں گا؛ بیس روپے عورت کے ہاتھ میں رکھے کہ اس کی دوا دارو کراؤ۔
دوسرے دن دوپہر کو وہ داڑھی والا خود میرے یہاں آیا۔ میں نے بدرِمنیر کا قرض چکادیا۔ دوا دارو اور انجکشن کے لیے اس نے پچیس روپے اور مانگے۔ انسانیت کے ناتے دے تو دیے لیکن میری جیب پر بھاری پڑے۔ خیر، پھر کوئی نہ آیا۔ دو دن گزر گئے۔ میرا دل کسی کام میں نہ لگتا تھا؛ جو دیکھ آیا تھا وہ نظر سے، دل سے دور نہ ہوتا تھا۔ بدرِمنیر کا حال جاننے کی خواہش ہوتی تھی، لیکن دوبارہ وہاں جانے کی ہمت نہ ہوئی۔ آخر تیسرے دن میں اپنے آپ کو روک نہ پایا؛ جیسے تیسے دن گزرا۔ رات کے سناٹے میں پہنچا؛ اندر سے گالی گلوچ، مار پیٹ اور کوسنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ دروازے پر پہنچ کر پھر اندر جانے کا جوش ٹھنڈا ہوگیا۔ لیکن اب یہا ں تک آکر واپس جانے کو دل بھی نہیں مانتا تھا، میں اندر چلا ہی گیا۔ چکلہ چلانے والی کا دڑھیل یار اس گھر میں رہنے والی، دالان میں گری روتی ہوئی ایک عورت کو لاتیں مار رہا تھا، اور باقی سب طرف سناٹا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی داڑھی والا صحن میں آیا 151 ’’کون؟ آئیے بابو صاحب۔ محبوبن تو مر گئی، ابھی کوئی گھنٹہ سوا گھنٹہ ہوا۔‘‘
چکلہ چلانے والی کمرے سے باہر نکل آئی۔ جس دالان میں عورت مار کھا رہی تھی اسی میں بنے ٹاٹ کے کمرے سے ایک عورت اور مرد بھی نکل کر باہر آکھڑے ہوئے۔ چکلہ چلانے والی بڑے بڑے علاج کروانے کی باتیں بتا رہی تھی۔ دوسری عورت اور اس کا عاشق بھی مرحومہ کی تعریف کرنے لگے۔ میں نے ایک بار لا ش دیکھنے کے لیے کہا۔ اپنے ٹاٹ چھپّر کے رنگ محل میں زمین پر بدرِمنیر کی لاش کفن سے ڈھکی رکھی تھی۔ چارپائی وہاں سے ہٹائی جاچکی تھی۔ کفن ہٹا کر دڑھیل نے چہرہ دکھایا۔ میرے منہ سے بے ساختہ چیخ نکل گئی۔ چار دن پہلے دیکھا ہوا چہرہ اب پہچانا نہیں جاتا تھا۔ دایاں آدھا گال، نیچے کا آدھا ہونٹ، اوپر کا پورا ہونٹ نتھنوں تک تین دن میں گل سڑ کر غائب ہوچکے تھے۔ اندر کے بھوت جیسے دانت اور خوفناک چہرہ دیکھ کر مجھے چکر آنے لگے، پاؤں لڑکھڑانے لگے۔ اس کے بعد چاہنے پر بھی مہینوں تک وہ چہرہ نہ بھول سکا۔ آج بھی یادوں میں تصویر ابھر کر دل کو بے چین کررہی ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں اس سے زیادہ خوفناک منظر کوئی نہیں دیکھا۔
٭٭٭

( اسلم محمود صاحب کا بطور خاص ممنون ہوں جنھوں نے اس کتاب کی طرف توجہ دلائی151 مترجم)

ترجمہ اور ترتیب: عبدالمغنی
مشمولہ اردو ادب:جنوری تامارچ2015
بشکریہ اطہر فاروقی

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *