جمعہ، 26 فروری، 2016

امبرٹو ایکو کی تخلیقی کائنات کا ایک تعارف/عاصم بخشی

اکیسویں صدی کے سترہویں برس کے ستم مسلسل جاری ہیں۔پرسوں صبح ہارپر لی کے مٹی ہونے کی خبر تو بس آئی گئی ہو گئی کہ ان کا ناول پڑھنے سے بہت پہلے گریگوری پیک ہمارے ذہن میں اپنی لازوال فلم کے ذریعے اس کہانی کو امر کر چکےتھے۔ اپنی کم نویسی کے باعث ہارپر لی نے ہمارے دل کا گوشہ تو ضرور اپنے نام کر لیا لیکن ان کا تخلیقی منطقہ اپنی تمام تر عظمت کے باوجود حد درجے محدود تھا۔ غم کی درست میزان تومشکل ہے، لیکن دن ڈھلے جب معلوم ہوا کہ امبرٹو ایکو بھی آخر حقیقت سے کچھ زائد ہو گئے ہیں تو دکھ اپنے انتظار حسین صاحب کے انتقال سے کچھ کم نہ تھا۔ وجہ شاید یہ ہے کہ قاری اور تخلیق کار کے درمیان بنیادی رشتہ کچھ ایسے دھاگوں سے بندھا ہوتا ہے جو خون یا مٹی کے رشتے کی طرح تقدیری نہیں ہوتے۔یہاں دکھ کی نوعیت ماورائے زمان و مکان ہوتی ہے اور تخلیق کار چاہے مشرق کا ہو یا مغرب کا ، لسانی حوالے سے اپنا ہو یا غیر ، ایک یاسیت کی سی کیفیت ہوتی ہے کہ بالآخر تخلیق کا سفر اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔ چوراسی سالہ امبرٹو ایکو کی سوانحی تفصیلات تو خیر باآسانی کہیں سےبھی تلاش کی جا سکتی ہیں اس لئے اس تحریر کا مقصد صرف زبانِ اردو کے قاری کو ان کی تخلیقی کائنات کی ایک تیزرفتار فضائی سیر سے زیادہ نہیں۔
ایکو بنیادی طور پر تو فلسفی ہی تھے اور علم العلامات ان کا تخصیصی شعبہ تھا لیکن نوعمری سے ہی تنہائی میں قصے کہانیاں لکھ رہے تھے جو آج تک منصۂ شہود پر نہیں آ سکے۔ اپنی بذلہ سنجی کے لئے مشہور تھے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ ہیں تو فلسفی لیکن ویک اینڈ پر ناول لکھتے ہیں۔ پھر ۱۹۸۰ میں اڑتالیس سال کی عمر میں جب انہوں نے اپنا پہلا سنجیدہ ناول ’’اسمِ گلاب ‘‘(The Name of the Rose)لکھا تو دنیائے ادب میں تہلکہ مچ گیا۔ ایکو کے بقول وہ طربیہ نگاری سے متعلق فلسفیانہ مباحث پر کوئی کتاب لکھنا چاہتے تھےلیکن اس کی بجائے یہ ناول لکھ دیا۔ اس معاملے میں ان کا کلاسیکی نظریہ یہی تھا کہ کئی ایسے پیچیدہ خیالات جن کو کسی لگی بندھی تھیوری میں قید کرنا ناممکن ہو کہانی کے ذریعے قاری تک پہنچائے جا سکتے ہیں۔یہ چودہویں صدی کی ایک اطالوی خانقاہ میں کچھ راہبوں پر توہینِ مذہب کے الزام کے گرد گھومتی ایک کہانی ہے۔ ہیرو ایک پادری ہے جسے اس الزام کی تحقیقات کے لئے اس خانقاہ میں بھیجا جاتا ہے۔ لیکن اس کے خانقاہ میں داخل ہوتے ہی یکے بعد دیگے قتل کے سات مختلف واقعات پیش آتے ہیں۔کہانی ایک ساتھ کئی مختلف سوالوں کے گرد گھومتی ہے ۔ خانقاہ میں کچھ راہبوں پر توہین مذہب کے الزام کی کیا حقیقت ہے؟ قتل کی ان بظاہر علیحدہ وارداتوں میں کیا قدرِ مشترک ہے؟ خانقاہ میں ایسا کونسا قیمتی راز دفن ہے جس کے گرد چودہویں صدی کی رہبانی سیاست اور اس کی کلیسائی سازشیں گھومتی ہیں؟ ایسے میں پادری ولیم اور اس کا شاگردِ خاص آڈسو ، ارسطو کی منطق، سینٹ ایکویناس کی الٰہیات اور راجر بیکن کی تجربی فکری آلات سے لیس خانقاہ کی اندھیری غلام گردشوں میں ثبوت جمع کرتے چلے جاتے ہیں۔ کہانی بالآخر ارسطو کی بوطیقا میں چھپے ایک راز پر ختم ہوتی ہے۔ناول کی ایک اہم ترین جہت قاری کے لئے ایک پہاڑ جیسا چیلنج پیش کرنا تھا جس کو پوری طرح سر کرنے کے لئے تو خیر ان گنت قرأتوں کی ضرورت ہے لیکن متن کی چند تہیں کھولنا بھی کچھ اتنا آسان نہیں تھا۔ایکو نے اس ضخیم ناول کو دراصل ایک پہاڑی سلسلے کی طرح ہی تخلیق کیا جس کے پہلے سو صفحات نہایت ادق تفصیلات سے اس طرح مزین کئے گئے تاکہ صرف سنجیدہ قارئین ہی ان سے آگے جا سکیں۔
اگر افسانوی تخلیقات کی حد تک ایکو کا بنیادی مقصد تلاش کرنا ہو تو وہ شاید مختلف زاویوں سے انسانی فکر کی احمقانہ جہت کی دریافت کا ایک مسلسل عمل ہے۔ ان کے ساتوں ناول کسی نہ کسی زاوئیے سے اسی ایک سوال کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں۔لیکن یہ بات ہرگز اس حد تک سادہ نہیں کیوں کہ ایکو کا مقصد ہرگز قاری کو تمسخر پر مائل کرنا نہیں بلکہ اسےاپنے کرداروں کے ساتھ ایک ایسے تعقلی اور جذباتی رشتے میں منسلک کرنا ہے کہ قاری کا شعور حقیقت اور حقیقت کی نقل کے بیچ امتیاز کے قابل ہی نہ رہے۔ ’اسمِ گلاب ‘ میں اس احمقانہ جہت کو قرونِ وسطیٰ کی مذہبی فکر میں کچھ اس طرح تلاش کیا گیا ہے کہ زمانۂ جدید میں موجود ایک قاری قرونِ وسطیٰ کے خانقاہی منظرنامے میں موجود کرداروں کی نفسیات کے تعقلی پیمانوں تک رسائی حاصل کرنے کے قابل ہو جائے۔ ایکو کا دوسرا مشہور ناول’ فوکو کا پنڈولم‘ (Foucault’s Pendulum) سازشی نظریات پیش کرنے والے ذہنوں کے ساتھ ایک لامتناہی مکالمہ محسوس ہوتا ہے۔ ناول کے تینوں کردارقدیم اور نادرفلسفیانہ اور مذہبی متون کے محققین ہیں جو مختلف زمانوں کے سازشی نظریات پر مبنی مخطوطات کے مطالعوں سے تنگ آ کر ازراہِ تفنن، ممکنہ طور پر ایک عظیم ترین سازشی نظریہ ایجاد کرتے ہیں جو آج تک کے مکمل زمانی ادوار پر محیط ایک خفیہ ’منصوبہ‘ ہے۔ جوں جوں کہانی آگے بڑھتی ہے مسائل پیچیدہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ شروع میں تو یہ تینوں کردار غیرشعوری طور پر خود ہی اس منصوبے کو حقیقت سمجھنے لگتے ہیں لیکن پھر ایسا ہوتا ہے کہ ان کا منصوبہ دنیا میں موجود دوسرے سازشی ذہنوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے جو اپنی نفسیات سے مجبور اس پر فوراً ایمان لے آتے ہیں۔ پورا ناول دقیق لیکن دلچسپ استدلالی مناظر سے اس طرح بھرا ہے کہ آپ ان کرداروں کو اپنے آس پاس گھومتا محسوس کرتے ہیں۔ ایک نمائندہ اقتباس پیشِ خدمت ہے:

’’میں تمہیں اس (مسئلے )کی اصل اہمیت سے آگاہ کرتا ہوں جو بادیٔ النظر میں محض ایک فضول ساماقوائی لطیفہ لگتا ہے۔ کاس کو معلوم تھا کہ اگر ایک برتن کو پانی سے بھر کر اوپر سے مکمل طورپر جکڑ دیا جائے تو نیچے سوراخ کرنے پر بھی پانی باہر نہیں آئے گا۔ لیکن اگر اوپر بھی سوراخ کردیا جائے تو فوراً پانی نیچے والے سوراخ سے بہہ نکلے گا۔‘‘
’’کیا یہ سامنے کی بات نہیں؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’ہوا اوپر سے داخل ہو گی اور پانی پر نیچے کی جانب دباؤ بڑھائے گی۔‘‘
’’وہی مخصوص سائنسی وضاحت جس میں یا علل اور آثار کو ایک دوسرے کی جگہ سمجھ لینے کی غلطی کی جاتی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ پانی دوسری صورت میں کیوں باہر آتا ہے بلکہ یہ کہ وہ پہلی صورت میں کیو ں باہر آنے سے انکار کر دیتا ہے۔‘‘
’’تو پھر وہ کیوں انکار کرتا ہے؟’’ گیرامونڈ نے تجسس سے پوچھا۔
’’کیوں کہ اگر وہ باہر نکل پڑے تو برتن میں خلا پیدا ہو جائے گا اور فطرت خلا سے نفرت کرتی ہے۔’خوفِ خلا‘ ایک روسیکروسی اصول تھا جسے جدید سائنس فراموش کر بیٹھی ہے۔ ‘‘
’’بہت خوب،‘‘ گیرامونڈ نے کہا۔ ’’ کاسوبون ، دھاتوں سے متعلق تمہاری شاندار مہماتی تخلیق میں ضرور ان باتوں کا ذکر ہونا چاہئے۔ اور دیکھو اب یہ نہ کہہ دینا کہ پانی دھات نہیں۔ اپنے تخیل کو استعمال کرنا سیکھو۔ ‘‘
’’معاف کرنا،‘‘ بیلبو ایگلی کی طرف دیکھتے ہوئے گویا ہوا ، ’’لیکن تمہارا استدلال’ تسبیب ماتقدم ‘کے منطقی مغالطے کی ایک مثال ہے یعنی وہ واقعہ جس کا ظہور بعد میں ہو رہا ہے کیسے اپنے سے قبل پیش آنے والے واقعے کی علت ہو سکتا ہے۔تمہیں سیدھے سادھے خطی انداز میں نہیں سوچنا چاہئے۔ ان چشموں میں موجود پانی ایسا نہیں کرتا۔ فطرت ایسا نہیں کرتی۔ فطرت وقت کو سرے سے جانتی ہی نہیں ۔ وقت تو مغرب کی ایجاد ہے۔‘‘

ایکو کی مکمل تخلیقی کائنات اسی قسم کے کرداروں سے بھری پڑی ہے۔ ان کے ایک اور ناول کے مرکزی کردار بادی لینو کو فطرت نے دو صلاحیتوں سے نواز اہے۔ وہ بہت سی زبانیں جانتا ہے اور بلا کا دروغ گو ہے۔ تیروہویں صدی کے شروع میں چوتھی صلیبی جنگ کے نتیجے میں جب قسطنطنیہ کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا رہی ہے، بادی لینو ایک اہم تاریخ دان کی جان بچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور ایک عجیب و غریب داستان کو تاریخ کا حصہ بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ایک اور کہانی کا مرکزی کردار اپنی یاداشت کچھ اس طرح کھو بیٹھتا ہے کہ خود سے متعلق تو کوئی تفصیلات یاد نہیں ہوتیں لیکن پڑھا ہوا ایک ایک لفظ یاد ہوتاہے، ہر کہانی کا مرکزی خیال اور تمام تر واقعات، ہر نظم کا ایک ایک مصرع اس کی یاداشت میں بالکل محفوظ ہوتا ہے۔ یہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے کہ وہ اپنی بچی کچھی یاداشت کی مدد سے کیسے اپنی نسل کا پورا زمانہ واپس حاصل کر لیتا ہے۔ ایک اور کردار طوفان کے بعد بحری جہاز پر اس طرح ہوش میں آتا ہے کہ تمام عملہ غائب ہوتا ہے اور ہر شے محفوظ ہوتی ہے۔ ایک اور عجیب و غریب کہانی میں یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا اس کہانی کا مرکزی کردار دنیا کے کونے کونے میں ہونے والی ہر سازش کا ذمہ دار ہے؟ راقم کی رائے میں ایکو کے کسی بھی ناول کا مرکزی خیال تلاش کرنا ایک پہیلی کا جواب بوجھنے سے کم نہیں، لیکن یہ ایک ایسی پہیلی ہے جس کے کئی ممکنہ جواب اس انتھک کوشش سے مشروط ہیں کہ بطور قاری آپ ان کے ضخیم ناولوں میں موجود معانی کی کتنی تہیں کھولنے کے قابل ہیں۔
ان کی تمام تر افسانوی تخلیق کا مجموعی مرکزِ فکر بھی یہی نظر آتا ہے کہ وہ تاریخی تناقضات کے اندر موجود دلچسپ تصورات کو اسی ایک سوال کے گرد گھومتا دیکھتے ہیں کہ آج مستند مانے جانے والے تاریخی حقائق بھی خود تاریخ ہی کے ان گنت واقعاتی عوامل کی پیچیدہ بھول بھلیوں کا شاخسانہ ہیں۔اس موضوع پر تقریباً پچاس ہزار نادر کتابوں اور ان گنت مخطوطات پر مشتمل ان کا عظیم کتب خانہ بلاشبہ عصرِ حاضر کے عظیم نوادرات میں سے ہے۔ کچھ اہم مبصرین کے نزدیک اسے عام فہم معنوں میں کتب خانے کی تعریف کی ایک ضد بھی قرار دیا جا سکتا ہے یعنی ایسی نادر کتابیں جنہیں نہ تو پڑھا جائے اور نہ ہی پڑھنے کی خواہش نہ ہو۔ خود ایکو کے بقول ان میں ایک بڑی تعداد ان کتب کی ہے جن میں موجود نظریات وقت نے غلط ثابت کئے۔ ایسی کتابیں جمع کرنے کے پیچھے ان کی اپنی تحقیق سے جڑے کئی سوالات موجود ہیں۔ وہ ان سوالات کو اپنے یک سطری تبصرے میں اس طرح سمجھاتے ہیں کہ اصل تاریخ ہارے ہوئے کرداروں کی ہے۔ کتاب بطور ایک تصور اور ان کے کتب خانے کے متعلق دلچسپ انکشافات سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کو کتابی شکل میں شائع شدہ ان سے کی گئی ایک گفتگو کو ضرور ملاحظہ کرنا چاہئے جس کا عنوان This is not the End of the Book ہے۔
ان کے غیرافسانوی کام پر تفصیلی نظر ڈالنے کے لئے بھی ایک پورا مضمون درکار ہے کیوں کہ یہ مکمل کام کئی دہائیوں پر پھیلا ہے جن میں ایکو کے نظریات کئی تبدیلیوں سے بھی گزرے ہیں جو ان کے مضامین کے بہت سے مجموعوں میں محفوظ ہیں۔ مجموعی طور پر ان کے لسانی نظریات پسِ جدیدیت کے فہم اور اس پر تنقید سے عبارت ہیں۔ اس ضمن میں ان کے کام کا ایک بڑا حصہ جمالیات سے متعلق ہے جہاں انہوں نے حُسن اور بدصورتی جیسے ناقابلِ فہم تصورات پر بہت دلچسپ پیرائے میں طبع آزمائی کی ہے۔ اپنی دونوں کتابوںمیں انہوں نے مغربی آرٹ کی تاریخ میں حسن اور بدصورتی کے بدلتے تصورات پر روشنی ڈالی ہے اور اس قسم کے دلچسپ سوالات اٹھائے ہیں کہ کیا بدصورتی بھی خوبصورتی کی طرح دیکھنے والے کی آنکھ میں ہی ہوتی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ جمالیاتی تاریخ نے بدہئیتی یا بدنمائی کے تصورات کو وہی اہمیت نہیں دی جو خوشنمائی یا خوبصورتی کو دی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ بدصورتی کو ہمیشہ خوبصورتی کی ضد ہی سمجھا گیا اور اس پر حتمیت سے تصور سازی کو دلچسپ ہی نہیں سمجھا گیا؟ جمالیاتی تاریخ ہی کی ذیل میں ان کا ایک عجیب و غریب کام’’ فہرست‘‘ کی شعریات سے متعلق ہے۔یہاں وہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ مغربی تہذیب میں فہرستوں کی بھرمار کے پیچھے کونسے دلچسپ عوامل کارفرما ہیں؟
بحیثیت مترجم اس دقیق جہانِ تخلیق میں کسی اجنبی تہذیب کے مسافر کی سیر کے امکانات کا نہایت مختصر سا جائزہ نہ لیا جائے تو تشنگی رہ جانے کا امکان ہے۔ ترجمے میں سے متعلق ان کے کچھ اہم دروس کو مضامین کی شکل میں Mouse or Rat? نامی ایک مجموعے کی شکل میں شائع کیا جا چکا ہے۔ ایکو کے اس قول کی اہمیت کہ ’ترجمہ فنِ ناکامی ہے‘ اس وقت واضح ہوتی ہے جب ان کے کسی بھی ناول کے کچھ حصوں کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ مثال کے طور ہر اگر اوپر دئیے گئے اقتباس کو بغور دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ ایک مترجم کو کس طرح پہلی کوشش میں حد درجے ناکامی کا سامنا کرتے ہوئے بہرحال اپنی تمام تر توجہ سمجھوتے پر مرکوز کرنی پڑتی ہے۔مثال کے طور پر مشرقی ثقافت میں ہنرمند طبقات مثلاً انجینئرنگ وغیرہ کے ساتھ کم سے کم درجے میں بھی کوئی ظرافت کی روایت نہیں ملتی۔ ایکو کے امریکی مترجم ولیم ویور یہاں hydraulic joke کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں جو ہماری ثقافت میں ماقوائی لطیفے کے طور پر ڈھل کر اگر بالکل بے معنی نہیں تو کم از کم بہت اجنبی محسوس ہوتی ہے۔ اس عبارت میں آگے چل کر ایکو اپنی اصل اطالوی تحریر میں ہی ایک لاطینی اصطلاح nequaquam vecui استعمال کرتے ہیں جسے ان کے امریکی مترجم نے ترجمے کے بغیر اسی طرح چھوڑ دینا مناسب سمجھا ۔ اس لاطینی عبارت کے کئی ترجمے ممکن ہیں اور اردو ترکیب ’’خوفِ خلا‘‘ ایک ناگزیر سمجھوتہ ہے تاکہ ایک نیم فلسفیانہ بلکہ اساطیری اصول کو کسی ترکیب میں قید کر کے خوشنما بنایا جا سکے۔ اسی طرح روسیکروسیت (Roscicrucianism) فری میسن قسم کی ایک نسبتاً کم مشہور روایت ہے جس سے متعلق فلسفیانہ یا نیم مذہبی عقائد پر مشتمل دو دستاویزات سترہویں صدی کے ابتدائی بیس سالوں میں منظرِ عام پر آئے۔ راقم کو کچھ تلاش کے بعد معلوم ہوا کہ ان دونوں دستاویزات کے قدیم مخطوطے ایکو کے کتب خانے میں موجود ہیں۔ ترجمے کے حوالے سے ذاتی رائے یہی ہے کہ اگر بورخیس کا ترجمہ زبانِ اردو میں ناگزیر سمجھوتے کے بعد بہرحال ممکن ہے اور ایک سے زیادہ بار کیا جا چکا ہے تو امبرٹو ایکو کے معاملے میں ان کے کسی بھی ناول کی ضخامت اور تقریباً ہر دوسرے یا تیسرے جملے میں متروک زبان اور زیادہ تر مفقود یا نادر حوالوں کے باعث کسی ادبی ادارے کی سرپرستی کے باوجود یہ کام کسی بھی مترجم کے لئے نہایت ہی مشکل ہے۔ بالفرض اگر بساط بھر عرق ریزی کے بعد اس ناممکن کو ممکن بھی کر دکھایا جائے تو زبانِ اردو میں شاید اس قسم کی نثر کے قارئین آٹے میں نمک کے برابر ہوں۔ لیکن بہرحال وہ جتنے بھی کم ہوں ،یوں معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اپنی زبان میں امبرٹو ایکو کے اجنبی اور سحر انگیز جہان کی سیر کا لطف اٹھانے کے لئے کافی انتظار کرنا پڑے گا۔
آخر میں پچھلی صدی کے اس عظیم ترین تخلیقی ذہن کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے ’فوکوکا پنڈولم‘ ہی میں موجود اپنے پسندیدہ مکالمے کا ترجمہ پیش کرنے کی جسارت کروں گا۔ یہ ایک طویل مکالمہ ہے لیکن گمان ہے کہ آپ ایکو کے اس عظیم نثری ٹکڑے میں موجود کرداروں اور ان کے استدلال کو اپنے آس پاس محسوس کر سکتےہیں۔

’’کیا تم کسی یونیورسٹی میں جاتے ہو یا پڑھائی وغیرہ کرتے ہو؟‘‘
’’ مانو یا نہ مانو لیکن ضروری نہیں کہ یہ دونوں قضایا باہم متناقض ہوں۔ میں ٹمپلر فرقے پر ایک تحقیقی مقالہ لکھنے کے آخری مراحل میں ہوں۔‘‘
’’کیا بکواس موضوع ہے،‘‘اس نے کہا۔ ’’میرا سمجھنا تھا کہ پاگل لوگ ہی اس موضوع میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘‘
’’نہیں، میں اصل چیز پڑھ رہا ہوں۔ ان پر چلنے والے مقدمے کی دستاویزات۔ خیر، تم ٹمپلر فرقے کے بارے میں کیا جانتےہو؟‘‘
’’میں ایک اشاعتی ادارے کے لئے کام کرتا ہوں۔ ہمیں پاگل اور عاقل، دونوں قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ کچھ عرصے بعد ایک مدیر کو خود بخود پاگلوں کی پہچان ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی بھی ٹمپلر فرقے کا موضوع چھیڑ دےتو وہ تقریباً ہمیشہ پاگل ہی ثابت ہو گا۔‘‘
’’کیا میں نہیں جانتا! ان کا نام ہی شیطانی ہے۔ لیکن تمام پاگل تو ٹمپلر کی بات نہیں کرتے۔ باقیوں کو تم کیسے پہچانتے ہو؟‘‘
’’میں ابھی وضاحت کرتا ہوں۔ میں نے تمہارا نام تو پوچھا ہی نہیں؟‘‘
’’کاسوبون۔‘‘
’’کاسوبون۔ وہ تو Middlemarch کا ایک کردار نہیں تھا؟‘‘
’’میں نہیں جانتا۔ نشاۃ ثانیہ کے دور میں اسی نام کا ایک ماہرِ لسانیات بھی گزرا ہے، لیکن میرا اس سے کوئی رشتہ نہیں۔ ‘‘
’’اگلا دور میری طرف سے ہو گا۔ دو اور جام دینا، پیلادے۔اچھاتو قصہ یوں ہے کہ اس دنیا میں چار قسم کے لوگ بستے ہیں: بدحواس، احمق، گھامڑ اور پاگل۔ ‘‘
’’اور اس میں سب شامل ہیں؟‘‘
’’ہاں بالکل۔ ہمارے سمیت۔ یا کم ازکم میرے سمیت۔ اگر تم بغور جائزہ لو تو ان اقسام میں ہر کوئی شامل ہو جاتا ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی وقت بدحواس، احمق، گھامڑ یا پاگل میں سے کچھ نہ کچھ ہوتا ہے۔ ایک عام ذی شعور انسان ان تمام اجزاء کا ایک مناسب مجموعہ ہوتا ہے، ان چار مثالی اقسام کا۔ ‘‘
’’Idealtypen۔‘‘
’’بہت خوب۔ تو تم جرمن جانتے ہو؟‘‘
’’بس اتنی کہ کتابیات نگاری کے لئے کام چل جائے۔‘‘
’’جب میں اسکول میں تھا تو کہا جاتا تھا کہ جسے جرمن آتی ہے وہ کبھی گریجویشن نہیں کر سکتا ۔ کیوں کہ ایک عمر لگ جاتی تھی جرمن آتے آتے۔ سنا ہے آج کل یہی معاملہ چینی زبان کے ساتھ ہے۔ ‘‘
’’میری جرمن اتنی اچھی نہیں لہٰذا گریجویشن کر ہی لوں گا۔ لیکن واپس تمہاری زمرہ بندی کی طرف آتے ہیں۔ غیرمعمولی ذہنوں کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ مثال کے طور پر آئن سٹائن؟‘‘
’’ ایک غیرمعمولی ذہن ان میں سے ایک جزو کو پوری چکا چوند سے اس طرح استعمال کرتا ہے کہ دوسرے اجزاء کو اسے لئے ایندھن کے طور پر استعمال کرتا ہے۔‘‘ وہ اپنے جام کا گھونٹ بھرتے ہوئے بولا۔ ’’کیا حال ہے جانم،‘‘ اس نے کہا۔ ’’تمہاری وہ خود کشی کی کوشش کہاں تک پہنچی ؟‘‘
’’ کہیں نہیں،‘‘ لڑکی نے سامنے سے گزرتے ہوئے جواب دیا۔’’میں اب اپنی مدد آپ کی خاطرایک جگہ کچھ لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے لگی ہوں۔‘‘
’’اچھا ہے، تمہارے لئے،‘‘بیلبو نے کہا۔ پھر واپس میری طرف مڑا۔ ’’یقینا بندہ کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر اجتماعی خود کشی بھی تو کر سکتا ہے۔ ‘‘
’’واپس پاگلوں کے موضوع پر آؤ۔‘‘
’’دیکھو میری بات کو بہت لغوی انداز میں نہ دیکھو۔ میں پوری کائنات کو کسی ضابطے میں باندھنے کی کوشش نہیں کر رہا۔ میں صرف اشاعتی ادارے کے تناظر میں ایک پاگل کی بات کر رہا ہوں۔یہ بس ایک وقتی سی تعریف ہے۔‘‘
’ٹھیک ہے۔ میری باری۔‘‘
’’ٹھیک ہے، پلادے، برف کم۔ ورنہ بہت جلدی خون میں مِل جاتی ہے۔ بدحواسوں کی بات کرتے ہیں۔بدحواس بات تک نہیں کر سکتے، وہ بس کچھ ہکلاتے ہیں یا بڑبڑاتے ہیں۔ تم نے دیکھا ہی ہو گا،جیسے وہ آدمی جو بدحواسی میں اپنے ماتھے پر آئس کریم مار لیتا ہے یا گھومتے دروازے میں غلط جانب سے داخل ہو جاتا ہے۔‘‘
’’یہ ممکن ہی نہیں۔‘‘
’’بدحواسوں کے لئے ممکن ہے۔ لیکن بدحواسوں سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں: یہ کبھی اشاعتی اداروں کے دفاتر کا رخ نہیں کرتے۔ تو ان کا ذکر چھوڑو۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘
’’احمق ہونا ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ یہ ایک قسم کا سماجی طرزِ عمل ہے۔احمق وہ ہے جو ہمیشہ اپنے جام سے باہر کی بات کرتا ہے۔ ‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’اس طرح۔‘‘ اس نے سامنے کاؤنٹر پر پڑے جام کی طرف اشارہ کیا۔ ’’وہ اپنے جام کے اندر موجود چیز کی بات کرنا چاہتا ہے لیکن کسی نہ کسی طرح اس میں ناکام ہوتا ہے۔ یہ وہ آدمی ہے جو ہمیشہ اپنی ہی دُم پر پیر رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ کسی ایسے بندے سے علیک سلیک کی خاطر اس کی بیوی کا حال پوچھ بیٹھے گا جس کی بیوی اسے ابھی ابھی چھوڑ کر گئی ہو۔ ‘‘
’’ہاں، میں کچھ ایسے لوگوں کو جانتا ہوں۔‘‘
’’احمقوں کی بڑی مانگ ہے، بالخصوص میل جول کے موقعوں پر۔ وہ ہر ایک کو شرمندہ کرتے ہیں لیکن گپ شپ کے لئے موضوع فراہم کر دیتے ہیں۔ اپنی مثبت شکل میں وہ سفارت کار بن جاتے ہیں۔ عین کسی سے غلطی سرزد ہونے کے موقع پر جام سے باہر کی بات کرنا موضوع تبدیل کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ لیکن احمقوں سے بھی ہمیں کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ کبھی تخلیقی نہیں ہوتے، ان کی تمام فن کاری مانگے کی ہوتی ہے، لہٰذا وہ کبھی ناشرین کو مسودے جمع نہیں کراتے۔ احمقوں کا یہ دعوی نہیں ہوتا کہ بلیاں بھونکتی ہیں لیکن وہ اس وقت بلیوں کا موضوع چھیڑ دیتے ہیں جب ہر کوئی کتوں کی بات کر رہا ہوتا ہے۔ وہ گفتگو کے تمام اصول توڑتے چلے جاتے ہیں اور جب آزادی کی انتہا پر ہوں تو پرشکوہ ہوتے ہیں۔ یہ ایک مرتی ہوئی نوع ہے، تمام بورژوا اخلاقیات کی تجسیم۔ انہیں تو مادام ورٹ ڈورین (Verdurin) کی بیٹھک میں ہونا چاہیئے یا پھر کہیں گہیرمونت (Guermantes) کے ساتھ۔ کیا تم طالبعلم اب بھی ایسی چیزیں پڑھتے ہو؟‘‘
’’میں تو پڑھتا ہوں۔‘‘
’’بس پھر یوں سمجھ لو کہ احمق کوئی ژواکیم مورات (Joachim Murat)ہے جو اپنے افسروں کی پریڈ کا معائنہ کر رہا ہے۔ وہ اپنے سامنے مارتینیک (Martinique)سے تعلق رکھنے والے ، سینے پر میڈل سجائے ایک افسر کو دیکھتا ہے۔ ’کیا تم سیاہ فام ہو؟‘ مورات پوچھتا ہے۔ ’’جی جناب!‘‘ وہ افسر جواب دیتا ہے۔ اور مورات کہتا ہے:’شاباش، شاباش، جاری رکھو!‘ یا اسی طرح کچھ۔ تم میری بات سمجھ رہے ہو نا؟معاف کرنا لیکن آج میں اپنی زندگی کے ایک تاریخی فیصلے کی خوشی منا رہا ہوں۔ میں نے پینا ترک کردیا ہے۔ اک اور دور؟ جواب نہ دینا، تم مجھے شرمندہ کر دو گے۔ پلادے!‘‘
’’اور گھامڑ؟‘‘
’’آہ، گھامڑ کبھی غلطی نہیں کرتے۔ ان کا استدلال خلط ملط ہوتا ہے۔ اس آدمی کی طرح جو کہتا ہے کہ تمام کتے پالتو ہوتے ہیں اور تمام کتے بھونکتے ہیں، اور چونکہ بلیاں بھی پالتو ہوتی ہیں لہٰذا وہ بھی بھونکتی ہیں۔ یا یوں کہ ایتھنز کے تمام باسی فانی ہیں اور پیرایوس کے تمام رہنے والے فانی ہیں لہٰذا پیرایوس کے رہنے والے تمام لوگ ایتھنز کے باسی ہیں۔ ‘‘
’’جو کہ وہ ہیں‘‘۔
’’ہاں، لیکن صرف حادثاتی طور پر۔ گھامڑ کبھی کبھار درست بات بھی کرتے ہیں لیکن ان کا استدلال غلط ہی ہوتا ہے۔ ‘‘
’’تمہارا یہ مطلب ہے کہ غلط بات کہنے میں کوئی مسئلہ نہیں جب تک استدلال درست ہو۔‘‘
’’ظاہر ہے۔ ورنہ ذی شعور حیوان ہونے کا مطلب ؟‘‘
’’تمام عظیم بن مانس حیات کی پست تر انواع سے ارتقأ کا نتیجہ ہیں ، انسان بھی حیات کی پست تر انواع سے ارتقاء کا نتیجہ ہے، لہٰذا انسان ایک عظیم بن مانس ہے۔ ‘‘
’’بہت خوب۔ اس طرح کے تمام دعووں کو دیکھ کر شک پڑتا ہے کہ کچھ غلط ہے لیکن کیا اور کیوں، یہ واضح کرنا محنت طلب ہے۔ گھامڑ عیار ہوتے ہیں۔ تم احمق کو فوراً شناخت کر لو گے (بدحواس کو تو خیر چھوڑو) لیکن گھامڑ کا استدلال تقریباً تمہارے جیسا ہی ہوتا ہے، دونوں کے بیچ لامتناہی حد تک کم فاصلہ ہے۔ گھامڑ منطقی مغالطوں کا ماہر ہوتا ہے۔ ایک مدیر کے لئے یہ بری خبر ہے۔ گھامڑ کی شناخت میں اس کی عمر لگ سکتی ہے۔ بہت سے گھامڑوں کی کتابیں شائع ہوتی چلی جا رہی ہیں کیوں کہ وہ پہلی نظر میں بہت معقول لگتے ہیں۔ مدیر گھامڑ چھانٹنےپر تو مامور نہیں۔ اگر سائنسی اکیڈمیاں یہ نہیں کر رہیں تو اسے کیا پڑی ہے؟‘‘
’’فلسفی بھی ایسے ہی ہیں۔ مثال کے طور پر سینٹ آنسلم کا وجودی استدلال سراسر گھامڑ پن ہے۔ خدا کا ہونا لازم ہے کیوں کہ میں اسے ایک ایسی ہستی کے طور پر تصور کر سکتا ہوں جو بشمول خاصیتِ وجود ہر اعتبار سے کامل ہو۔سینٹ نے فکر میں کسی شے کے ہونے اور حقیقت میں کسی شے کے ہونے کو خلط ملط کر دیا ہے۔ ‘‘
’’ یہ بات درست ہے لیکن گانیلن کا لکھا گیا ردّ بھی تو گھامڑ پن ہی ہے۔ میں سمندر میں ایک جزیرے کو تصور کر سکتا ہوں چاہے وہ اصل میں وجود نہ رکھتا ہو۔ وہ امکانی تصورات اور ناگزیر تصورات کو خلط ملط کر رہا ہے۔‘‘
’’گھامڑوں کے بیچ مقابلہ۔‘‘
’’بالکل۔ اور خدا اس مقابلے کے ایک ایک منٹ کا حظ اٹھاتا ہے۔ وہ آنسلم اور گانیلن کو گھامڑ ثابت کرنے کے لئے ناقابلِ تصور ہستی بننے کا انتخاب کرتا ہے۔ تخلیق کا کیا ہی ارفع مقصد ہے، یا یوں کہہ لو کہ خدا اسی لئے موجود ہے کہ کونیاتی گھامڑ پن کو آشکار کیا جا سکے۔‘‘
’’ہم گھامڑوں میں گھرے ہوئے ہیں۔‘‘
’’میرے اور تمہارے علاوہ ہر کوئی گھامڑ ہے۔ بلکہ اگر گستاخی نہ سمجھو تو یوں کہوں کہ تمہارے علاوہ۔ ‘‘
’’نہ جانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ نظریۂ گوڈل کا اس سارے مسئلے سے کوئی تعلق ہے۔‘‘
’’میں کیاجانوں، میں تو ایک بدحواس ہوں۔پلادے!‘‘
’’میری باری۔‘‘
’’کوئی مسئلہ نہیں، ہم آدھے آدھے کر لیں گے۔ کریٹ کے اپیمنیدس کا قول ہے کہ کریٹ کے تمام باسی جھوٹے ہیں۔ یہ یقیناً سچ ہو گا کیوں کہ وہ خود بھی کریٹ ہی کا رہنے والا ہے اور اپنے ہم وطنوں سے خوب واقف ہے۔‘‘
’’ یہ گھامڑ پن پر مبنی تفکر ہے۔‘‘
’’سینٹ پال۔ ٹائٹس کے نام خط۔ دوسری طرف اپیمنیدس کو جھوٹا ماننے والے تمام لوگوں پر لازم ہے کہ وہ یہ سمجھیں کہ کریٹ کے تمام لوگ جھوٹے نہیں ہیں، لیکن کریٹ کے باسی کریٹ کے باسیوں پر بھروسہ نہیں کرتے لہٰذا کریٹ کا کوئی بھی باسی اپیمنیدس کو جھوٹا نہیں کہتا۔ ‘‘
’’کیا یہ گھامڑ پن نہیں؟‘‘
’’تم فیصلہ کرو۔ میں تو بتا چکا ہوں کہ ان کی شناخت بہت مشکل ہے۔ گھامڑ تو نوبل انعام بھی جیت سکتےہیں۔‘‘
’’ذرا رکو۔ ان سب میں سے جو یہ نہیں مانتے کے خدا نے سات دنوں میں کائنات تخلیق کی، کچھ بنیاد پرست نہیں ہیں۔ لیکن ان سب میں سے جن کا یہ ماننا ہے کہ خدا نے سات دنوں میں یہ کائنات تخلیق کی، کچھ بنیاد پرست ہیں۔ لہٰذا جو یہ نہیں مانتے کہ خدا نے سات دنوں میں کائنات تخلیق کی، کچھ بنیاد پرست ہیں۔کیسا ہے؟‘‘
’’میرا خدایا، اگر میں سچ سچ کہوں تو میں نہیں جانتا۔ گھامڑ پن ہے یا نہیں؟‘‘
’’یقیناً ہے، چاہے یہ سچ بھی ہو۔ یہاں قیاسِ استخراج کے ایک بنیادی اصول کی خلاف ورزی ہو رہی ہے: عمومی نتائج دو مخصوص قضایا سے اخذ نہیں کئے جا سکتے۔‘‘
’’اور اگر تم گھامڑ ہوئے تو ؟‘‘
’’تو میں تو ایک شاندار معیت میں ہوں گا۔ ‘‘
’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ اور شاید ہم سے مختلف کسی منطقی نظام میں ہمارا گھامڑ پن دانشمندی کہلائے۔منطق کی تمام تاریخ گھامڑ پن کے کسی قابلِ قبول تصور کی تعریف کی کوششوں سے عبارت ہے۔ جو ایک بہت ہی وسیع منصوبہ ہے۔ ہر عظیم مفکر کسی اور کے نزدیک گھامڑ ہے۔‘‘
’’فکر گھامڑ پن کا ایک منظم اظہارہے۔‘‘
’’زبردست۔دو بج گئے ،پلادے کی جگہ بس کسی بھی وقت بند ہوا چاہتی ہے اور اب تک ہم پاگلوں پر نہیں پہنچے۔‘‘
’’بس میں اسی پر آ رہا تھا۔ پاگل کو باآسانی پہچانا جا سکتا ہے۔ وہ ایک ایسا گھامڑ ہے جو بس ٹامک ٹوئیاں مارتا رہتا ہے۔ گھامڑ اپنا نظریہ ثابت کرتا ہے، اس کے پاس بہرحال ایک منطق ہوتی ہے چاہے وہ کتنی ہی غلط کیوں نہ ہو۔ لیکن پاگل کا منطق سے کچھ لینا دینا نہیں، وہ چور راستوں سے مدد لیتا ہے۔ اس کے ہاں کوئی بھی چیز کسی بھی چیز کے اثبات میں لائی جا سکتی ہے۔ ایک پاگل سر تاپا پیش قیاسی مفروضات میں جکڑا ہوتا ہے اور اس کے سامنے آنے والی ہر حقیقت اس کے پاگل پن کو ثابت کرتی چلی جاتی ہے۔ آپ عقلِ عامہ کے ساتھ اس کے کھلواڑ اور اس کے القائی دعووں سے اسے پہچان سکتے ہیں، اور اس واقعے کی مدد سے بھی کہ جلد یا بدیر وہ ٹمپلر فرقے کا موضوع چھیڑ ہی دیتا ہے۔
’’ہمیشہ؟‘‘
’’ایسے پاگل بھی ہوتے ہیں جو ٹمپلروں کی بات نہیں چھیڑتے لیکن جو چھیڑتے ہیں وہی سب سے زیادہ عیار ہیں۔شروع میں وہ بالکل ٹھیک ٹھاک لگتے ہیں لیکن پھر اچانک۔۔۔‘‘ ٹمپلر فرقے کا ذکر چھڑا تو ابھی کل ہی کی بات ہے ایک شخص مجھے اسی موضوع پر ایک مسودہ دے گیا۔ ایک پاگل، لیکن چہرہ انسانوں جیسا۔ کتاب کی ابتداء تو کافی معقول ہے۔ تم دیکھنا پسند کرو گے؟‘‘
’’مجھے بہت خوشی ہو گی۔ شاید میں اس میں سے کچھ اپنے مقالے کے لئے بھی استعمال کر سکوں۔‘‘
’’مجھے اس پر شک ہی ہے۔ لیکن اگر آدھا گھنٹہ نکال سکو تو آ جانا۔ سینسیر رےناتو سے آتی ہوئی بس نمبر ۱۔ تمہارا آنا تم سے زیادہ میرے لئے مفید ہو گا۔ تم بتا سکو گے کہ کتاب کسی کام کی بھی ہے یا نہیں۔‘‘
’’ تم مجھ پر کیوں بھروسہ کر رہے ہو؟‘‘
’’کون کہتا ہے کہ میں تم پر بھروسہ کر رہا ہوں؟ لیکن اگر تم آئے تو بھروسہ کر لوں گا۔ میں تجسس پر بھروسہ کرتا ہوں۔ ‘‘
ایک طالبعلم غصے سے لال ہوتا ہوا اندر داخل ہوا۔ ’’کامریڈز! نہر کے اس طرف سے فاشسٹ آ رہے ہیں!‘‘
’’چلو ان کی خبر لیں،‘‘ تاتاری مونچھوں والے اسی آدمی نے کہا جس نے مجھے کروپسکایا (Krupskaya) والی بات پر دھمکی دی تھی۔ ’’آ جاؤ، کامریڈز!‘‘ اور وہ سب باہر نکل گئے۔
’’تم کیا کہتے ہو؟‘‘ میں نے ذرا شرمندگی محسوس کرتے ہوئے کہا۔ ’’ہم بھی ساتھ دیں؟‘‘
’’نہیں،‘‘ بیلبو بولا۔ ’’پلادے جگہ خالی کروانے کے لئے یہ حربے استعمال کرتا ہے۔ ویگن میں پہلی رات گزارنے کے لئے تو میں بہت زیادہ نشے میں ہوں۔ شاید ایک دم ترک کر دینے کے باعث یہ مسئلہ ہو رہا ہے۔ اب تک میں نے جو بھی کہا وہ جھوٹ تھا۔ شب بخیر، کاسوبون۔ ‘‘

مضمون نگار: عاصم بخشی

(یہی مضمون مشہور اردو ویب سائٹ ہم سب پر بھی دو قسطوں میں شائع کیا جاچکا ہے، جبکہ یہاں اس کو اس کی مکمل صورت میں ایک ساتھ اپلوڈ کیا جارہا ہے۔ا۔د)


کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *