آئرش ناول نگار جیمس جوئس ڈبلن کے مضافات میں پیدا ہوا۔اس کا باپ مرنجا مرنج، خوش باش قسم کا انسان تھا اور پانی شاہ خرچی کی وجہ سے سارے ڈبلن میں مشہورتھا۔اس کے سولہ سترہ بچے تھے۔اس کی والدہ بہت اچھاپیانو بجاتی تھیں۔
چھ سال کی عمر میں وہ Jesuit schoolبھیج دیا گیا جہاں اس نے تین سال گزارے۔یہ تین سال اس کی زندگی میں ناقابل فراموش اہمیت رکھتے ہیں۔نوسال کی عمر میں اس نے اپنے باپ کے پمفلٹ کے خلاف ایک پمفلٹ لکھا۔1891میں مالی مشکلات کی وجہ سے اسے اسکول سے اٹھالیا گیا اور دو سال بعد ایک پرائیوٹ ادارہ میں داخل کردیا گیا۔جہاں وہ مضمون نویسی کی وجہ سے بہت مشہور ہوا۔اور جب اسے کوئی انعام ملتا تو وہ اپنے سارے خاندان کو عمدہ ہوٹلوں میں لے جاتا تھا۔اس کے گھروالے بھی اس طرح اس کی مضمون نویسی کے قائل ہوگئے تھے۔وہ پڑھنے کا بہت شوقین تھا۔اسی زمانہ میں اس نے لاطینی سے ترجمے کیے اور چار زبانیں سیکھیں۔1898 سے 1902 تک وہ یونیورسٹی کالج میں پڑھتا رہا اور فلسفلہ و ادب کے مطالعے سے اپنے ذہن کی تربیت کرتا رہا۔1901 میں جب قومی تھیٹر کا نعرہ آئر لینڈ میں بلند ہوا تو اس نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ فنکار حدود زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتا ہے۔گریجویٹ ہونے کے بعد وہ پیرس چلا گیا۔جب وہ پیرس پہنچا تو اس کے پاس ایک یا دو پونڈ تھے، کچھ نظمیں اور ڈبلن کے میئر کی ایک سفارشی چٹھی تھی۔لیکن یہاں جلد ہی افلاس و مصائب نے اسے گھیر لیا۔1903 میں وہ اپنی والدہ کی علالتت کی خبر سن کر ڈبلن چلا آیا اور چار ماہ تک ان کی تیمارداری کرتا رہا۔1904میں وہ گھر سے چلا آیا اور سستے ہوٹلوں میں رہتا رہا۔یولیسس کا بڑا حسہ انہی تجربات پر مبنی ہے۔اسی دوران میں وہ ایک ہنس مکھ، بڑے بڑے بالوں والی ایک لڑکی نوراجوزف سے ملا جسے ادب سے تو کوئی دلچسپی نہ تھی لیکن جو بہت دلکش اور خوبصورت تھی۔جلد ہی جوئس نے اس سے شادی کرلی اور یہ دونوں روزگار کے وعدہ پر زیورخ چلے آئے۔1931 میں شادی کا مذہبی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے پھر شادی کرنی پڑی۔
جوئس کی داستان حیات کا اہم حصہ اس کشمکش پر مشتمل ہے جو اسے ناشروں سے معاملہ کرنے اور کتاب شائع کرانے کے سلسلے میں پیش آئی۔CHAMBER MUSIC کو چار ناشروں نے شائع کرنے سے انکار کردیا اور ایک نے تو مسودہ ہی واپس کرنے سے انکار کردیا۔اور جب 1907میں وہ شائع ہوا تو جوئس کو رائلٹی کا ایک پیسہ نہیں ملا۔DUBLINER1905 سے لے کر 1914 تک شائع نہ ہوسکا۔اور جب وہ اسے خود شائع کرنے ڈبلن گیا تو ناشر نے سارے ٹائپ توڑ دیے اور اسے بہت پریشان کیا۔
1914 تک وہ زیورخ کے اسکول میں پڑھتا رہا۔اس کے تین بچے تھے۔ وہ اب تک غیر معروف اور مفلوک الحال تھا اور بہت تنگدستی کی زندگی بسر کررہا تھا۔1914 میں ایذرا پائونڈ نے امیجسٹ انتھولوجی کے سلسلے میں اسے ایک خط لکھا اور ایک نظم شائع کرنے کی اجازت طلب کی۔جوئش نے نہ صرف اجازت دے دی بلکہ PORTRAITکا مسودہ بھی بھیج دیا، جو'ایگواسٹ'میں قسط وار شائع ہوتا رہا۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران میں وہ زیورخ ہی میں تھا۔اس کی آنکھیں خراب ہوچکی تھیں اور افلاس نے اسے بری طرح گھیر لیا تھا۔اسی حالت میں اس نے 'یولیسس' مکمل کرنا شروع کیا۔1920 میں پائونڈ نے اسے پیرس چلے جانے کے لیے کہا جہاں 1921 میں اس نے یولیسس مکمل کرلی۔1919 میں LITTLE REVIEWجہاں یولیس قسط وار چھپ رہا تھا فحش نگاری کے الزام میں ضبط کرلیا گیا۔ایڈیٹروں کے انگوٹھوں کے نشانات لیے گئے، مقدمہ چلایا گیا اور سو ڈالر جرمانہ ہوا۔یہ دیکھ کر ناشر نے کتاب شائع کرنے سے انکار کردیا تاوقتیکہ جوئس اسے قانون کے مطابق نہ بنادے۔انگلستان میں اس کے شائع ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔پیرس میں یہ شائع ہوا اور جب بھی پروف پڑھنے کے لیے کاپیاں جوئس کو بھیجی جاتیں وہ اس میں نئے سرے سے ترمیم و تنسیخ کردیتا۔اس طرح جوئس نے چھ دفعہ اس میں تبدیلیاں کیں اور آخر کار جب ناشروں نے دھمکی دی کہ وہ اب اسے شائع نہیں کریں گے تو اس نے پروف پڑھ کر واپس کردیے۔یہ کتاب اس وقت شائع ہوئی جب جوئس چالیس سال کا ہوا۔پہلا ایڈیشن اس کا ہاتھوں ہاتھ بک گیا۔کسی نے اسے بیسیوں صدی کی عظیم کتاب کہا اور کسی نے اسے مہمل ترین کتاب کا نام دیا۔اس کے دوسرے ایڈیشن کی پانچ سو کاپیاں امریکہ میں ڈاک خانہ نے ضبط کرلیں اور انہیں فحش کہہ کر جلادیا۔انگلستان میں بھی ساری کاپیاں ضبط کرلی گئیں۔یولیسس میں ڈبلن کے ایک دن 16 جون 1904 کی داستان ہے۔اب تک اس کی بہت سی شرحیں لکھی جاچکی ہیں۔
FINNEGAN WAKEسترہ سال کی محنت کے بعد مکمل ہوئی۔ اس میں لاشعور اور رات کی داستان بیان کی گئی ہے اور اس میں متعدد زبانوں کی مدد سے نئے نئے مرکبات بنائے گئے ہیں۔ جوئس کا سارا کمال اس کا اسلوب ہے۔
آخری عمر اس نے پیرس میں گزاری۔اس کی آںکھوں کا دس بار آپریشن کیا گیا۔ وہ تقریباً اندھا ہوچکا تھا۔ایک طرف FINNEGAN WAKEپر خراب تبصرے ہورہے تھے۔دوسری طرف اس کی تنگ دستی اور بیوی کی علالت۔ان سب پریشانیوں نے اس پر ایسا خراب اثر ڈالا کہ وہ السر کا مریض ہوگیا اور اسی کے آپریشن میں وہ مرگیا۔
جوئس کو بارہ زبانیں آتی تھیں، وہ سفید شراب کا رسیا تھا مگر صرف رات کو پیتا تھا۔رقص ار گانے کا شوقین تھا۔انگلیوں میں انگوٹھیاں۔ ہاتھوں میں بید۔ آنکھ پر موٹے موٹے شیشے ۔بادلوں کی گڑگڑاہٹ، متلاطم پانی اور کتوں سے حد درجہ خوف کھاتا تھا۔۔۔۔اس کی تحریریں یورپ کے اخلاقی اور ذہنی بحران کی گرتی دیواروں کی مظہر ہیں۔زندگی بھر وہ تکلیفیں اٹھاتا رہا اور آج اسے سب متفقہ طور پر عظیم فنکار تسلیم کرتے ہیں مگر جوئس اب ان سب چیزوں سے بے نیاز ہوچکا ہے۔'بورڈنگ ہائوس' اس کی نمائندہ کہانی ہے۔(ادارہ، نیا دور، کراچی)
٭٭٭
مسز مونی دراصل ایک قصاب کی بیٹی تھیں۔ وہ ایک ایسی ثابت قدم، اٹل ارادوں والی خاتون تھیں جنہیں رازداری خواب آتی ہے۔ انہوں نے اپنے باپ کے نائب سے شادی کی تھی جو کبھی ملازمین کی نگرانی پر مامور تھا۔شادی کے بعد انہوں نے اسپرنگ گارڈنز کے قریب گوشت کی ایک دوکان کھول لی تھی۔ لیکن خسر کے انتقال کے فورا بعد مونی برے راستے پر پڑگیا۔ اسے بہت سی بری لتیں پڑگئیں۔اور وہ اپنی تباہی کی انتہا کو پہنچ کر بری طرح سے قرضدار ہوگیا۔ اسے راہ راست پر لانے کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں کیونکہ وہ اپنے وعدوں پر کبھی نہ ٹک سکا۔کبھی وہ توبہ کرتا بھی تو دیکھتے ہی دیکھتے چند ہی دنوں میں توبہ کو توڑتاڑکر پھر اسی راستے پر پڑجاتا۔اس کی یہی حالت کچھ دنوں تک رہی اور پھر اس نے گاہکوں کی موجودگی میں بھی اپنی بیوی کے ساتھ لڑنا جھگڑنا شروع کردیا اور اس کے ساتھ بد سلوکی سے پیش آنے لگا۔ان باتوں کے علاوہ اس نے خراب گوشت کی خرید و فروخت بھی شروع کردی۔ اس کی کاروباری ساکھ بھی بگڑ گئی۔چنانچہ اس طرح اس نے اپنے اعمال سے اپنا کاروبار خود ہی تباہ کرلیا۔ایک رات اس نے شراب کے نشے میں دھت بیوی پر اس بڑے چھرے سے حملہ کیا جو گوشت کاٹنے کے کام آتا تھا۔ بے چاری بیوی کو اس رات اپنے ایک پڑوسی کے یہاں پناہ لینی پڑی۔
اس سانحہ کے بعد مسز مونی نے اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کرلی۔وہ پادری کے پاس گئیں اور انہوں نے اپنے میاں سے طلاق حاصل کرلی۔ بچے ان ہی کی نگرانی میں آئے۔میاں نے مصالحت کی کوشش کی لیکن بیوی نے نہ تو اسے روپے دیے اور نہ رہنے کو جگہ اور تو اور وہ اس کے کھانے پینے کی ذمہ داری تک قبول کرنے پر راضی نہ ہوئی۔مجبورامایوس ہوکر مونی نے ضلع کے افسر اعلیٰ کے یہاں ملازمت کرلی۔وہ ایک چھوٹے سے قد کا شرابی تھا جو پھٹے حالوں رہتا۔کثرت شراب نوشی کی وجہ سے اس کی صحت خراب تھی۔کمر جھک گئی تھی اور چہرہ سفید پڑگیا تھا۔مونچھیں اور بھویں تک قبل از وقت سفید ہوگئیں تھیں۔آنکھیں چھوٹی چھوٹی سی تھیں جن میں ہمیشہ گلابی ڈورے پڑے رہتے صبح سے شام تک وہ قرق امین کے دفتر میں بیٹھا کسی نہ کسی مزدوری کا منتظر رہتا۔
کاروبار سے جو کچھ بچا کھچا مل سکا مسز مونی نے اس میں اپنا حصہ لے لیا۔اور پھر اس سرمایہ سے ہارڈوک اسٹریٹ میں ایک اقامت خانہ کھولا۔ان کے ہوسٹل میں عموما اس شہر میں آنے جانے والے لوگ ٹھہراکرتے۔اکثر لیورپل اور آئل آف مین سے آنے والے سیاح یہاں آتے۔ان کے علاوہ کبھی کبھار مقامی میوزک ہالز کے موسیقار بھی آجایا کرتے۔کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے یہاں مستقل سکونت اختیار کررکھی تھی۔ان کی اکثریت شہر میں کام کرنے والے کلرکوں کی تھی۔مسز مونی بڑے ہاتھ پیر کی چوڑی چکلی رعب دار خاتون تھیں۔ وہ بڑی مہارت، ذہانت اور ثابت قدمی سے یہ ہوسٹل چلانے لگیں۔وہ اس سے بہت اچھی طرح واقف تھیں کہ چیزیں کب ادھار دینی چاہییں، کس کے ساتھ سختی برتنی چاہیے۔اور یہ بھی کہ کب کون سی بات نظرانداز کردینی چاہیے۔مستقل طور پر ہوسٹل میں رہنے والے نوجوان انہیں میڈم کے نام سے پکارا کرتے۔
یہ نوجوان مسز مونی کو قیام و طعام کے پندرہ شلنگ ہفتہ وار ادا کیا کرتے۔اگر رات کے کھانے کے ساتھ انہیں شراب کی ضرورت محسوس ہوتی تو وہ اس کی قیمت علیحدہ ادا کرتے۔چونکہ بڑی حد تک وہ سب ہم پیشہ تھے، ان کا ذوق بھی ایک سا تھا اور پسند و ناپسند بھی ایک ہی تھی، اس لیے ان میں آپس میں بڑا بھائی چارہ تھا۔وہ جب بھی ملتے بڑی بے تکلفی سے مقامی سیاست کے ساتھ ساتھ اپنے افسروں کے منظور نظر نوجوانوں اور نوارد وغیروں کے حالات اور ان کے مستقبل کے بارے میں تبادلہ خیالات کرتے۔میڈم کالز کاجیک مونی، فلیٹ اسٹریٹ کے ایک کمیشن ایجنٹ کے یہاں کلرک تھا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ بڑا سخت جان ہے۔ عادتیں اس کی بھی کچھ اچھی نہیں تھیں۔اسے سپاہیوں کی سی فحاشی بہت پسند تھی۔ وہ عموما رات گئے گھر لوٹتا۔ جب بھی وہ اپنے ساتھ رہنے والے دوستوں سے ملتا، اس کے پاس سنانے کے لیے ہمیشہ خاصی داستانوں کا ذخیرہ ہوتا۔ریس میں جیتنے والے کسی نہ کسی گھوڑے یا کسی بڑے موسیقار کے بارے میں وہ عموما کچھ نہ کچھ ضرور گوہر افشانی کرتا۔ غالبا تھیٹر والوں سے بھی اس نے تعلقات بڑھا رکھے تھے۔ وہ مزاحیہ گانے خوب لطف لے کر گایا کرتا۔عموما اتوار کی رات کو مسز مونی کے ڈرائنگ روم میں ہم مشرب اور ہم خیال لوگوں کی محفل جمتی۔ان صحبتوں میں ، میوزک ہالز کے موسیقار اکثر دلبستگی کا سامان پیدا کرتے۔شیریڈن ساز پر سنگت کرتے۔وہ گانے والوں کی سنگت کرنے کے علاہو والٹز اور پولکاس وغیرہ کی قسم کے ناچوں کی دھنیں بھی بجاتے۔میڈم کی جوان لڑکی پولی بھی عموما ان جلسوں میں شرکت کرتی۔وہ اکثر عام پسند اور مقبول عام گیتوں سے حاضرین کا جی بہلاتی۔
پولی انیس سالہ دبلی پتلی لڑکی تھی۔اس کے نرم مخملی بال تھے اور چھوٹا سا حسین دہانہ تھا اور اس کی آنکھیں بھوری سبزی مائل تھیں۔وہ جب بھی کسی سے بات کرتی عموما اپنی نگاہیں اوپر کی طرف رکھتی۔اپنی اس عجیب سی عادت کی وجہ سے وہ ایک چھوٹی سی تنک مزاج گمراہ میڈونا لگتی۔مسز مونی نے بیٹی کو ایک دفتر میں ٹائپسٹ کی ملازمت دلوادی تھی۔لیکن اس کے بعد یہ ہوا کہ ضلع کے افسر اعلیٰ کے دفتر کا ایک بدنام شخص ہر دوسرے تیسرے دن وہاں پہنچنے لگا اور اس کی بیٹی سے ایک آدھ بات کرنے کی اجازت مانگنے لگا۔اس کی وجہ سے پولی کو خاصی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا۔چنانچہ ان ہنگاموں سے اکتا کر میڈم نے اپنی بیٹی کو نوکری سے استعفیٰ دلوادیا اور وہ گھر کے کام کاج میں اپنی ماں کا ہاتھ بٹانے لگی۔ پولی خاصی زندہ دل اور تیز طرار واقع ہوئی تھی۔ گھر کا انتظام اس کے سپرد کرنے کا غالبا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اس طرح کسی معقول نوجوان سےاس کی ملاقات ہوجاتی اور وہ اسے اپنے لیے پسند کرسکتی۔یہ گھریلو انتظام وہاں رہنے والے نوجوانوں کو بھی خاصا بھایا۔ایک نوجوان عورت کو اپنے قریب محسوس کرکے اور یہ جان کر کہ ایک لڑکی ان ہی کے درمیان رہ رہی ہے، انہیں خاصا ذہنی سکون ملتا۔ظاہر ہے پولی اس کا خوب فائدہ اٹھاتی اور ناز و انداز دکھا کر خود ہی خوب محظوظ ہوتی۔لیکن مسز مونی کو انسانی کردار کی بہت اچھی پرکھ تھی۔انہیں اس کا خوب اندازہ تھا کہ ان تمام نوجوانوں کو صرف خوش وقتی سے دلچسپی تھی، وہ صرف اچھا وقت گزاررہے تھے۔ ان میں سے ایسا کوئی بھی نہ تھا جسے صحیح معنوں میں پولی سے دلچسپی ہو۔دن یونہی گزرتے رہے۔حالات یونہی بدستور رہے۔ایک وقت ایسا بھی آیا جب انہوں نے مایوس ہو کر پولی کو دوبارہ کسی دفتر میں ٹائپسٹ کی ملازمت دلوانے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کردیا۔لیکن اسی زمانے میں یکایک انہیں اس کا احساس ہوا کہ پولی اور ایک دوسرے نوجوان کے درمیان کچھ سلسلہ چل نکلا ہے جو حوصلہ افزا نظر آتا ہے۔انہوں نے خاموشی سے دونوں کی نگرانی شروع کردی اور زبان سے کچھ نہ کہا۔
پولی کو اس کا احساس تھا کہ اس کی نگرانی ہورہی ہے۔ماں کی اس خاموشی کاراز کچھ کچھ تو اس کی سمجھ میں آہی رہا تھا۔لیکن پھر بھی وہ پورے طور پر یہ نہ جان سکی کہ اس کی ماں نے سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی اس قدر ثابت قدمی سے خاموشی کیوں اختیار کررکھی ہے۔ ماں بیٹی کے تعلقات یوں تو ٹھیک تھے ۔لیکن وہ کبھی بے تکلفی کے درجے تک نہ تھے۔ان کے درمیان کبھی مکمل طور پر یک جہتی پیدا نہیں ہوئی تھی۔دونوں نے کبھی کھلے بندوں ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش ن ہیں کی تھی۔دیکھتے ہی دیکھتے اس عاشقی نے یہ صورت اختیار کرلی کہ گھر کے دیگر تمام افراد میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں۔اس کے باوجود مسز مونی نے کسی قسم کی مداخلت نہیں کی۔اس پر پولی کی روش میں ایک عجیب تبدیلی پیدا ہوگئی۔وہ ہر وقت کچھ گھبرائی گھبرائی سی رہتی اور وہ نوجوان بھی اب ہر وقت پریشان پریشان سا نظر آتا۔یوں لگتا جیسے اندر ہی اندر اسے کوئی پریشانی کھائے جارہی ہو۔اور پھر آخر کار وہ دن بھی آپہونچا جب مسز مونی نے اندرغالباً یہ فیصلہ کرنے کے بعد کہ اب صحیح وقت آن پہونچا ہے، اس چوری چھپے، پھلتے پھولتے عشق کے خلاف اپنا پہلا قدم اٹھایا۔ انہوں نے خاصے غور و فکر کے بعد، پورے فیصلہ کن انداز میں بڑی ذہانت اور بڑی چابکدستی سے اس مسئلے کے اخلاقی پہلو سے ابتدا کی۔
ابتدائی گرمیوں کے دن تھے۔موسم میں تپش کے آثار تو ضرور تھے لیکن تازہ فرحت بخش ہوا کے جھونکے برابر چلتے رہتے۔ایک اتوار کی صبح کو مسز مونی نے حالات پر قابو پانے کی پہلی کوشش کی۔اقامت خانے کی تمام کھڑکیاں کھلی ہوئی تھیں۔جن کے جھالر دار نفیس پردے ہوا میں سرسرارہے تھے۔ہوا کی وجہ سے ان پردوں نے غباروں کی شکل اختیار کرلی تھی۔اور اب وہ کھڑکی کے اوپر نیچے کھسکنے والے آئینہ دار پٹ سے پرے، باہرگلی کی طرف اڑے جارہے تھے۔قریب ہی سینٹ جارج کا گرجا تھا جس کی گونجتی ہوئی گھنٹیوں کی آواز فضا میں تھرارہی تھی۔عبادت کرنے والے تیزی سے گرجا سے ملحق لان پر گزرتے ہوئے اندر جارہے تھے۔ان کے تقدس کا احساس ان کی سنجیدگی اور خاموشی کے علاوہ ، مقدس انجیل کے ان نسخوں سے ہوسکتا تھا جو ان کے ہاتھوں میں تھے۔ہر ایک نے ہلکے دستانے پہن رکھے تھے اور انجیل کو سینے سے لگا رکھا تھا۔
اقامت خانے میں صبح کا ناشتہ ختم ہوچکا تھا اور کھانے کے کمرے میں میز پر اب بھی جھوٹی پلیٹیں پڑی تھیں۔ جن پر ڈبل روٹی کے بچے کھچے ٹکڑوں کے علاوہ انڈوں کی زردی کے خشک نشان بھی پھیلے ہوئے تھے۔ایک طرف آرام کرسی پر مسز مونی، کھوئی کھوئی سی بیٹھی ملازمہ میری کا جائزہ لے رہی تھیں۔جو ناشتہ کی چیزیں اٹھانے کے کام میں لگی ہوئی تھی۔وہ روز کی طرح اپنی مالکن کے حکم کے مطابق روٹی کے ٹکڑے بڑی تندہی سے چن چن کر ایک علیحدہ صاف رکاب ی میں جمع کررہی تھی۔ ہر منگل کو بلاناغہ ڈبل روٹی کی پڈنگ پکتی۔ اس میں روٹی کے بچے کھچے یہی ٹکڑے ڈالے جاتے۔جب میز کی پوری طرح صفائی ہوگئی اور میری نے روٹی کے تمام ٹکڑے اکٹھا کرلیے اور چینی اور مکھن کو بڑی حفاظت کے ساتھ گنجینے میں مقفل کردیا گیا تو بیٹھے بیٹھے مسز مونی نے گزشتہ رات کے واقعات پر غور کرنا شروع کیا۔۔۔۔کل رات وہ پولی سے بات چیت کرچکی تھیں۔ان کا شک ٹھیک نکلا تھا۔انہوں نے بڑی صاف گوئی سے سوالات کیے تھے۔اور پولی نے بھی بڑی صاف گوئی سے جواب دیے تھے۔یہ مسئلہ اتنا بے ڈھب اور ناموزوں تھا کہ دونوں نے بڑی حد تک الجھن سی محسوس کی تھی۔ماں کو بڑی الجھن یہ تھی کہ اب تک اس نے ایسے نازک مسئلہ کو نظرانداز کرنے کی جو کوشش کی تھی اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج وہ اپنی بیٹی سے بڑے بے ڈھب سوالات کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔پولی کی الجھن اور جھنجھلاہٹ کی وجہ یہ تھی کہ کھلے بندوں اس قسم کی باتوں سے اسے ہمیشہ کوفت ہوتی تھی۔ اور اب تو یہ باتیں ماں سے ہورہی تھیں ۔اسے یہ دکھ تھا کہ اس کی ماں غالباً یہ سوچ رہی تھی کہ اس نے اپنی ظاہرہ معصومیت سے اپنی ماں کی فراخدلی اور رواداری سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تھی۔چونکہ بیشتر گفتگو اشاروں اور کنایوں میں ہورہی تھی۔اس لیے بھی پولی کا ذہن خاصا پراگندہ تھا۔
غیر ارادی طور پر مسز مونی نے اس چھوٹی سی نفیس دیواری گھڑی کی طرف دیکھا جو مینٹل پیس پر رکھی ہوئی تھی۔ چونکہ سینٹ جارج کے گرجا کی گھنٹیاں اب بجنا بند ہوگئی تھیں انہیں احساس ہوا کہ گیارہ بج چکے تھے۔۔۔گھڑی میں گیارہ بج کر سترہ منٹ ہوئے تھے۔ابھی دوپہر کی گاڑی میں خاصا وقت تھا۔انہوں نے سوچا میں اس اثنا میں بڑی آسانی سے مسٹر ڈوران سے بات چیٹ کرسکتی ہوں اور مارلبورواسٹریٹ سے بارہ بجے والی گاڑی پکڑ سکتی ہوں۔
اب انہیں یقین ہوچلا تھا کہ وہ اس کام میں ضرور کامیاب ہو کر رہیں گی۔آخر تمام اخلاقی قدریں بھی تو ان کی موافقت میں تھیں۔وہ بے چاری تو ایک مظلوم ماں تھیں۔ ایسی عورت جس کے ساتھ بڑی زیادتتی ہوئی تھی۔انہوں نے اس کمبخت نوجوان کو یہ سوچ کر کہ وہ نیک سیرت اور شریف ہے، اپنے زیر سایہ رہنے کی اجازت دی تھی اور اب اس احسان فراموش نے ان کی میزبانی کا ناجائز فائدہ اٹھایا تھا۔ وہ یوں بھی ناسمجھ بچہ نہ تھا۔چونتیس یا پینتیس کے قریب عمر تھی اس کی۔اب وہ یہ بہانہ بھی تو نہیں کرسکتا تھا کہ وہ جوانی کے نشہ اور ناتجربہ کاری کا شکار ہوگیا۔وہ تو لاعلمی کا سہارا بھی نہیں لے سکتا تھا کیونکہ اس نے دنیا دیکھی تھی۔ اور دنیا کے اونچ نیچ سے خوب واقف تھا۔یہ تو صاف ظاہر تھا کہ اس نے پولی کی جوانی اور ناتجربہ کاری سے فائدہ اٹھایا تھا۔اب سوال یہ تھا کہ وہ کس حد تک، کس قسم کا ہرجانہ دینے کے لیے تیار ہوسکتا تھا؟ اب تو تلافی بے حد ضروری تھی۔خیالات کا دھارا یوں ہی بہہ نکلا۔
اس قسم کے واقعات میں ہرجانہ ضروری ہوتا ہے۔مسز مونی نے سوچا مرد کا کیا۔اس کے لیے تو ایسی باتیں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔وہ تو تھوڑٰ دیر کے عیش کے بعد اپنی راہ لگ سکتا ہے۔جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔مصٰبت تو بے چاری عورت کی ہے جسے تمام نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔دنیا میں ایسی مائیں بھی ہوں گی جو ایسے واقعات کے بعد، تھوڑی بہت نقدی وصول کرکے صبر کرلیتی ہیں۔خود مسز مونی کو ایسے کئی واقعات معلوم تھے لیکن اب وہ ہرگز یہ نہیں کریں گی۔انہوں نے بڑے اعتماد سے فیصلہ کیا۔ان کے لیے تاوان کا صرف ایک ہی ذریعہ تھا۔جس سے ان کی بیٹی کی بے حرمتی کا ازالہ ہوسکتا۔وہ تھا فوری شادی!
انہوں نے ایک بار پھر اس مسئلہ کے بارے میں تمام پہلوئوں سے غور کیا اور پھر میری کو مسٹر ڈوران کے پاس بھیج کر نیچے ہی اپنے پاس بلوالیا۔اب انہیں یقین ہوگیا تھا کہ اس معاملہ میں فتح ان ہی کی ہوگی۔
ڈوران خاصا سنجیدہ اور کم سخن نوجوان تھا۔دوسروں کی طرح وہ نہ اوباش مزاج تھا اور نہ چرب زبان۔اگر اس کے بجائے مسٹر شیریڈین یا مسٹر میڈ۔۔۔یا۔۔۔بانٹم لیونز ہوتے تو انہیں خاصٰ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔مسز مونی نے سوچا۔لیکن ڈوران کی طبیعت ہی ایسی تھی کہ انہیں یقین تھا کہ وہ کسی قسم کی بدنامی برداشت نہ کرسکے گھا۔یہ بات ہی کچھ ایسی تھی کہ رہنے والوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوچکی تھیں۔غالباً ہر ایک کو کچھ نہ کچھ معلوم تھا۔اور جن کو زیادہ تفصیلات معلوم نہ تھیں انہوں نے اپنی طرف سے نمک مرچ لگا کر چوری چھپے افواہیں پھیلانی شروع کردی تھیں۔ڈوران پچھلے تیرہ سال سے ایک عیسائی کمپنی میں ملازم تھا جو شراب کا بیوپار کرتی تھی۔وہاں کے حالات کچھ ایسے تھے کہ اس بدنامی کی وجہ سے اسے ملازمت سے سبکدوش ہونا پڑتا۔اب بھی کچھ نہیں گیا تھا۔اگر وہ راہ راست پر آکر ان کی مرضی کے مطابق چلنے کا وعدہ کرلے تو سب کچھ ٹھیک ہوسکتا ہے، مسز مونی نے سوچا۔انہیں اس کا بھی احساس تھا کہ لڑکا خاصا کفایت شعار ہے۔اس کے پلے تھوڑی بہت پونجی ضرور ہوگی۔
اب تقریباً ساڑھے گیارہ بج گئے تھے۔انتظار سے اکتا کر وہ اٹھ کھڑی ہوئیں اور انہوں نے سامنے کے آئینے میں اپنا عکس دیکھا۔اپنے دمکتے ہوئے چہرہ کا فیصلہ کن رنگ دیکھ کر انہیں خاصٰ تسلی ہوئی اور انہوں نے سوچا 'ایسی عورتیں بھی تو دنیا میں ہیں جو کسی طرح بھی اپنی بیٹیوں کی شادیاں نہیں کرسکتیں۔انہوں نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا کہ وہ ان میں نہیں تھیں۔'
اب کچھ ادھر کا حال سنیے۔ڈوران کا آج صبح ہی سے حال پتلا تھا۔اتوار کی یہ صبح اس کے لیے خاصی پریشان کن تھی۔صبح سے داڑھی مونڈنے کی اس نے دو بار کوشش کی تھی لیکن اس کے ہاتھ میں خلاف معمول کچھ اتنی کپکپاہٹ تھی کہ مجبوراً اسے یہ پروگرام ملتوی کرنا پڑا تھا۔تین دن کی سرخی مائل داڑھی کچھ اس بے ڈھنگے پن سے بڑھی تھی کہ اب اس کے جبڑوں کو اپنے دامن میں لے چکی تھی۔ہر دوسرے تیسرے منٹ اس کی آنکھوں پر غبار سا چھا جاتا اور عینک کے شیشوں پر اس دھند کی وجہ سے اسے بالکل نظر نہ آتا۔وہ چپکے سے عینک اتارتا، جیب سے رومال نکالتا اور پہلے اپنی نمناک آنکھیں اور پھر اپنی عینک صاف کرتا۔رات کو جو کچھ اس پر گزرا تھا اور جس طرح گرجا میں اسے اپنے جرم کا اقبال کرنا پڑا تھا۔ وہ سب کچھ خاصا شرمناک اور تکلیف دہ تھا۔پادری نے بڑی چابکدستی سے اس کے منہ سے اس شرمناک حمایت کے بارے میں تمام تفصیلات اگلوالی تھیں اور آخر میں ڈوران نے خود کو اس قدر ذلیل محسوس کیا تھا کہ جب اسے گناہوں کی تلافی کی واحد راہ سجھائی گئی تو اس نے اظہار تشکر کے ساتھ اسے قبول کرلیا تھا۔جو کچھ ہونا تھا وہ ہوچکا تھا۔اب وہ کرہی کیا سکتا تھا۔بھاگ کھڑے ہونے سے تو یہی بہتر تھا کہ وہ چپ چاپ شادی کرلے۔ڈھٹائی سے کام لینا اس کے بس کی بات ن ہیں تھی۔اسے یقین تھا کہ افواہیں ضرور پھیلیں گی اور اس طرح اس کے دفتر کے افسران کو ضرور سب کچھ پتہ چل جائے گا۔یہ کمبخت ڈبلن ایسی باتوں کے لیے کتنا چھوٹا شہر ہے، اس نے سوچا۔ہر ایک کو ایک دوسرے کے بارے میں کچھ معلوم ہوجاتا ہے اور پھر ایسی باتیں تو آگ کی طرح پھیلتی ہیں۔چھپائے نہیں چھپتیں۔تصورات کے دھارے میں بہتے بہتے اسے جونہی اپنے بوڑھے افسر اعلیٰ کا خیال آیا تو اس کا دل دھک سے ہوگیا۔بوڑھا لیونارڈ اپنی کھوسٹ آواز میں پکارتا۔۔۔ذرا مسٹر ڈوران کو تو ادھر بھیجیے! ۔۔۔اس تصور ہی سے وہ کانپ گیا۔
اف! وہ۔۔میں کیسی مصیبت میں پھنس گیا۔ڈوران نے جھنجھلا کر سوچا۔۔اتنی لمبی ملازمت اور اس کی تمام کارگزاری یونہی بے کار ضائع ہوگئی۔اس کی ساری ایمان داری اور محنت کا خاتمہ کیا کچھ اسی طرح ہونا تھا؟ جوانی میں اس نے خاصی خود سری دکھائی تھی۔اسے تو کبھی خدا کے وجود ہی سے انکار تھا اور ہمیشہ اپنی آزاد خیالی پر ناز تھا۔لیکن اب تو وہ باتیں پرانی ہوگئی تھیں۔یوں تو وہ اب بھی رینالڈز کا ترقی پسند اخبار خریدا کرتا تھا۔لیکن اس کے باوجود اس نے اپنے مذہبی فرائض کو کبھی نہیں بھلایا تھا۔وہ سال میں کم از کم نو دس مہینے انتہائی معقول اور نیک زندگی گزارا کرتا۔اب تو اس نے کفایت شعاری بھی شروع کررکھی تھی۔اتنے پیسے جمع کرلیے تھے کہ اب وہ اکثر بقیہ زندگی چین سے گزارنے کے خواب دیکھنے لگتا تھا۔اب بھی وہ بقیہ زندگی سکون کے ساتھ گزار سکتا تھا۔لیکن مشکل یہ آن پڑی تتھی کہ خاندان کے دوسرے افراد اس کی بیوی کو بری نظر سے دیکھتے اور اسے آسانی سے قبول نہ کرتے۔سب سے بڑی رکاوٹ تو اس کے بدنام باپ کی شخصیت تھی جسے سب ہی جانتے تھے۔اس کی ماں کے اس اقامت خانے کے بارے میں بھی اب چہ میگوئیاں ہونے لگی تھی۔یکایک ڈوران کو یوں لگا جیسے اس کے تمام دوستت اس کے اس انتخاب کا مذاق اڑارہے ہیں۔بد قسمتی سے یہ لڑکی بھی اکثر خاصی عامیانہ باتیں کرنے لگی۔دوران گفتگو میں اکثر غلط زبان بول جاتی۔لیکن اس سے کیا ہوتا ہے؟ اگر مجھے واقعی اس سے محبت ہے تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔اس نے سوچا۔
جوں جوں خیالات بھٹکنے لگے اور وہ تصورات کے تانے بانے میں الجھتے گئے ان کی سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ اس لڑکی نے اس کے ساتھ جو کچھ کیا تھا اس کے جواب میں اس سے محبت کرے یا نفرت؟ یہ بالکل صحیح تھا کہ قصور اس کا اپنا بھی تھا۔ اس نے بھی تو اس گناہ میں شرکت کی تھی۔لیکن اب اس کا کیا علاج کہ اس کی جبلت نے ہمیشہ اسے آزاد رہنے کی تلقین کی تھی اور شادی سے بچے رہنے کو اکسایا تھا۔اس کا ذہن کہتا۔۔برخوردار۔۔۔۔شادی کے جنجال میں ہرگز نہ پھنسنا ورنہ زندگی کا سارا لطف جاتا رہے گا۔
وہ کچھ ایسے ہی اوٹ پٹانگ خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ پولی نے آہستہ سے دروازہ کھٹکھٹایا۔وہ اب تک بے بس سابنا صرف قمیص اور پتلون میں پلنگ کے ایک سرے پر بیٹھا تھا۔اس نے پولی کو اندر بلالیا۔اندر آتے ہی اس نے سسکیاں بھرتے ہوئے اسے بتایا کہ کل رات اس نے اپنی ماں سے سب کچھ کہہ دیا تھا اس نے اپنی ماں سے سب کچھ کہہ دیا تھا۔اور اب اس کی ماں اس سے اس سلسلے میں گفتگو کرنے والی ہے۔پولی نے روتے ہوئے اس کی گردن میں باہیں ڈال دیں۔اور لپٹ کر گھٹی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔'اوہ۔۔۔بوب----تم ہی بتائو۔۔میں آخر کیا کرتی، اب بتائو۔۔۔میں کیا کروں؟ اف خدایا۔۔۔جی چاہتا ہے اپنا گلا گھونٹ لوں۔'
ڈورران نے آہستہ سے اسے دلاسا دیا۔اس کے آنسو پونچھے اور اسے یقین دلایا کہ خد ا نے چاہا تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔پولی اس کے سینے سے لگی ہوئی سسکیاں بھررہی تھی اور اس کے سینے کا اتار چڑھائو صاف ظاہر کررہا تھا کہ وہ بے حد مضطرب ہے۔
اب ڈوران نے پچھلی باتوں پر غور کیا تو یکایک اسے اھساس ہوا کہ اس سلسلے میں سارا قصور اس کا نہیں تھا۔اسے تمام باتیں یاد آگئیں۔جوانی تو دیوانی مشہور ہے اور پھر اس کمبخت لڑکی نے بھی تو اپنے ناز و ادا سے اسے خاصا ورغلا یا تھا۔کپڑے ہمیشہ ایسے پہنتی کہ ایمان متزلزل ہوجاتا۔خواہ مخواہ اسے بازوئوں میں لینے کو جی چاہتا۔اسے وہ رات بھی یاد آگئی جو مکمل تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی تھی۔وہ عموماً ررات گئے گھر لوٹتا۔اس رات بھی وہ ایک انتہائی پرسکون ماحول میں کپڑے بدل رہا تھا کہ یکایک پولی نے ڈرتے ڈرتے دروازہ کھٹکھٹایا۔اس کی موم بتی ہوا کے جھونکے سے گل ہوگئی تھی اور وہ ڈوران کے کمرے کی موم بتی سے اپنی موم بتی جلانا چاہتی تھی۔غالباً اس نے شام کو غسل کیا تھا۔ اس نے ڈھیلے ڈھالے گلے کا جیکٹ پہن رکھا تھا۔ پیروں میں نفیس چپلیں تھیں اور اس نے اپنے جسم پر کسی ایسی خوشبو کا استعمال کیا تھا جس نے سارے کمرے کو معطر کردیا تھا۔وہ جھک کر موم بتی جلانے لگی تو اس کے حسین صحت مند جسم کا خم ڈوران کے ذہن میں شیطانی خیالات ابھارنے لگا۔ظاہر ہے ایسے رومانی ماحول میں کس کافر کا جی قابو میں رہتا۔
اس کے بعد جب بھی رات گئے وہ لوٹتا۔پولی ہی اس کا کھانا گرم کرتی۔رات کی پراسرار خاموشی میں جب سارا گھر نیند کی آغوش میں ہوتا، اسے اپنے اس قدر قریب پاکر ڈوران کو مطلق ہوش نہ رہتا کہ وہ آخر کھا کیا رہا ہے۔پولی اس کا خیال بھی تو کتنا رکھتی تھی۔جب بھی رات سرد ہوتی یا بارش اور آندھی کا زور ہوتا اس کے لیے کھانے کے ساتھ شراب کا ایک چھوٹا سا پیالہ ضرور ہوتا۔پولی اکثر چپکے سے یہ انتظام کرتی۔آج ڈوران کو یہ باتیں یاد آنے لگیں تو اس نے سوچا۔۔۔بری لڑکی نہیں ہے۔شاید اس کے ساتھ بقیہ زندگی گزار کر اسے بے حد چین نصیب ہو۔
کھانے کے بعد دونوں چپ چاپ دبے پائوں ایک دوسرے کے قریب ہوکر ، ہاتھوں میں اپنی اپنی موم بتیاں لیے، سیڑھیاں چڑھتے اور تیسری منزل پر بادل ناخواستہ ، انتہائی بے دلی سے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہتے۔عموماً وہ اپنے بازوئوں مین لے کر اسے چومتا موم بتی کی دھیمی سی کپکپاتی روشنی یں میں وہ اسے بے حد پیاری لگتی۔اس کی آنکھیں کتنی حسین تھیں اس کے ہاتھوں کی تپش اور اس کا والہانہ انداز اسے سب کچھ اب بھی یاد تھا۔
لیکن یہ والہانہ انداز تو دیر پا نہیں ہوتا۔حسین لمحے عموماً جلد گزر جاتے ہیں۔ اف خدایا۔۔۔اب میں کیا کروں؟ اس کی جبلت ایک بار پھر اس کی مدد کو اٹھ کھڑی ہوئی۔اس نے اب بھی بچے رہنے کی تلقین کی۔لیکن آخر گناہ کا کفارہ کس طرح ادا ہوتا؟اس کے ذہن نے رائے دی کہ اس قسم کے گناہ کا خمیازہ تو اسے ضرور بھگتنا پڑے گا۔
پولی اس کے قریب پلنگ پر نہ جانے کب تک بیٹھی رہی۔دونوں اپنے اپنے خیالوں میں کھوئے ہوئے تھے کہ یکایک میری دروازہ پر آئی اور اس نے ڈوران صاحب کو اطلاع دی کہ بیگم صاحبہ ڈرائنگ روم میں ان کی منتظر ہیں۔ڈوران نے بڑی بے بسی کے سے انداز میں اٹھ کر اپنا ویسٹ کوٹ اور کوٹ پہنا۔کپڑے پہننے کے بعد اس نے ایک بار پھر پولی کو دلاسا دیا اس کی ہمت بندھائی اور یقین دلایا کہ ڈرنے کی اب کوئی بات نہیں۔خدا نے چاہا تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔وہ مسز مونی سے ملنے کے لیے کمرہ سے باہر آیا تو اس وقت بھی پولی اس کے پلنگ پر بیٹھی سسکیاں لے رہی تھی اور گھٹی ہوئی آواز میں آہستہ آہستہ کہے جارہی تھی۔۔۔خدایا۔۔اب میرا کیا ہوگا؟آخر کیا ہوگا؟
سیڑھیاں اترتے ہوئے ایک بار پھر ڈوران کی عینک کے شیشوں پر اتنی نمی چھاگئی کہ اسے کچھ نہ دکھائی دیا۔اس نے رک کر عینک اتاری اور رومال سے اسے صاف کیا۔راستے بھر اس کا جی چاہا ۔۔۔کسی نہ کسی طرح چھت پھٹ جائے اور وہ کسی آزاد بے فکرے پرندے کی طرح چپ چاپ اڑ کر کسی ایسے دور دیس کو نکل جائے جہاں پہنچ کر وہ اس مصیبت سے چھٹکارہ حاصل کرسکے۔جہاں اس کے ذہن سے یہ تکلیف دہ باتیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غائب ہوجائیں ۔ان فراری خیالوں کے باجود اس کے اندر کوئی ایسی قوت تھی جو اسے مجبوراً نیچے دھکیل رہی تھی ۔راستے بھر میڈم اور اس کے اپنے دفتر کے بڑے افسروں کے سنگدل چہرے اسے گھورتے رہے اور وہ بے چین ہوگیا۔سب سے نچلی منزل کی سیڑھیوں پر جیک مونی سے مڈٖبھیڑ ہوگئی جو مودی خانے سے شراب کی دو بوتلیں اٹھائے اوپر جارہا تھا۔دونوں نے ایک دوسرے کو بڑی سرد مہری سے سلام کیا۔پل بھر کے لیے ڈوران نے جیک کی کرخت سفاک شکل اور اس کے مضبوط صحت مند بازوئوں کو دیکھا تو کانپ گیا۔نیچے پہنچ کر بھی اسے یوں محسوس ہوا جیسے یہ مضبوط بازو اس کی تکا بوٹی کرڈالیں گے۔سیڑھیوں سے اتر کر بے اختیار مڑ کر اس نے اوپر دیکھا۔جیک اب بھی اپنے کمرہ کے قریب کھڑا اسے گھورے جارہا تھا۔
نہ جانے کیوں جیک مونی کو دیکھ کر ڈوران کو وہ رات یاد آگئی جب میوزک ہال کے ایک موسیقار نے ، جو لند کا رہنے والا تھا ۔ پولی کی جوانی کے بارے میں ذرا بے تکلفی سے اظہار خیال کیا تھا۔اس کا جو نتیجہ ہو ا تھا وہ آج ڈوران کی آنکھوں کے سامنے پھر گگیا۔سارا پروگرام صرف جیک کے تشدد کی وجہ سے درہم برہم ہوگیا تھا۔اسے روکنے اور خاموش کرنے کی تقریباً سب نے کوشش کی تھی لیکن وہ بھلا کاہے کو قابو میں آتا۔اس بے چارے موسیقار کا برا حال تھا۔اس نے اسے بار بار یقین دلانے کی کوشش کی تھی کہ اس کا مطلب خدانخواستہ پولی کی توہین نہیں تھا۔وہ اپنا زرد زرد سا چہرہ لیے مسکرانے کی کوشش کیے جارہا تھا۔اور بڑی معذرت کے سے انداز میں صفائی پیش کیے جارہا تھا۔لیکن جیک نے تو چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھالیا تھا اور صاف صاف کہہ دیا تھا کہ اگر آئندہ کسی نے بھی اس کی معصوم بہن کی شان میں گستاخی یا کسی قسم کی بد تمیزی سے گفتگو کرنے کی کوشش کی تو وہ منہ توڑ کر رکھ دے گا آخر کیا سمجھ رکھا تھا لوگوں نے اس کی انتہائی شریف بہن کو؟
پولی نہ جانے کب تک پلنگ پر بیٹھی چپکے چپکے روتی رہی۔آخر اس نے اٹھ کر اپنے آنسو خشک کیے اور آئینے کے قریب گئی۔اس نے تولیہ کا کنارہ پانی میں بھگویا اور پھر ٹھنڈے تولیے سے آنکھوں کو تروتازہ کرنے کی کوشش کی۔اس نے خود آئینے میں ہر پہلو سے دیکھا اور پھر کانوں سے ذرا اوپر بالوں کا پن دوبارہ لگا کر بال درست کیے۔پھر وہ دوبارہ پلنگ تک گئی اور پائنتی بیٹھ گئی۔وہ چپ چاپ کھوئے کھوئے سے انداز میں خاصی دیر تک ٹکٹکی باندھے تکیوں کو دیکھتی رہی۔انہیں دیکھ کر اس کے ذہن میں بے شمار دلکش خیالات ابھرآئے۔حسین رومانی یادوں کا ایک سیلاب امنڈ آیا۔لوہے کے پلنگ کے سرد سرے پر اپنی گردن ٹکا کر وہ چپ چاپ لیٹ گئی۔اس نے آنکھیں بند کرلیں اور وہ بے شمار ھسین تصورات میں کھو گئی۔اب اس کے چہرے پر کہیں بھی کسی قسم کے اضطراب کے آثار نہیں تھے۔
وہ بڑے صبر سے ، ہشاش بشاش بغیر کسی قسم کی گھبراہٹ کے، چپ چاپ انتظار کرنے لگی۔اب پریشان کن یادوں کی جگہ اس کے ذہن پر آہستہ آہستہ حسین توقعات اور مستقبل کے بارے میں خوشگوار امیدیں چھاگئیں۔اس کی یہ حسین امیدیں اور خوشگوار توقعات اس پر کچھ اس حد تک چھا گئے کہ اب اسے نہ یہ صاف ستھرے تکیے ہی نظر آئے اور نہ اسے یاد رہا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے تک اس نے ٹکٹکی باندھے انہیں دیکھ کر کیا کچھ سوچا تھا۔اسے تو یہ بھی یاد نہ رہا کہ اب اسے کس چیز کا انتظار تھا۔
خاصٰ دیر کے بعد اسے کہیں دور سے اپنی ماں کی آواز آئی تو وہ چونک گئی۔ماں اسے نیچے بلارہی تھی۔وہ تیزی سے اٹھی اور بھاگ کر زینے کا رخ کیا۔
'پولی؟۔۔۔۔پولی؟'
'ہاں۔۔۔۔ماں!'
'نیچے آئو بیٹی۔۔مسٹر ڈوران تم سے کچھ باتیں کرنا چاہتے ہیں۔'
یکایک اب اسے یاد آگیا کہ آخر اسے کس بات کا انتظار تھا!!!
٭٭٭
مترجم: انور عنایت اللہ
بشکریہ نیادور(طویل کہانی نمبر)، کراچی، شمارہ انیس بیس
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں