جمعرات، 1 دسمبر، 2016

صحافی اور قلم کار کی کوئی قومیت نہیں ہوتی: شامل شمس

کچھ روز پہلے میں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ ادب، صحافت، سماجیات ، فلسفہ اور نفسیات کےعلاوہ دیگر کئی شعبوں سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد کا انٹرویو کیا جائے، جن کی باتوں سے ہم کچھ سمجھ اور سیکھ بھی سکیں اور ان پر گفتگو کرکے اپنے ذہن کے دروازوں کو نئی سمتوں میں کھولنے کے لائق بن سکیں۔سیکھنے اور جاننے کا سب سے بہتر طریقہ گفتگو ہے۔ میں نے اس سے پہلے بھی دس سوالوں کی ایک ایسی سیریز خود اپنی تربیت کے لیے شروع کی تھی، جس میں بہت سے لکھنے والوں سے سوالات کرکے، مجھے خود اپنا محاسبہ کرنے کا بھی موقع ملا تھا۔شامل شمس جرمنی کے عالمی براڈکاسٹر، ڈی ڈبلیو بمعنی ڈوئچے ویلے سے وابستہ ہیں۔ادب اور شاعری سے ان کا ایک خاص تعلق رہا ہے۔اس لحاظ سے وہ ایک جانب اگر عالمی صحافت کے معیارات پر نظر رکھتے ہیں تو دوسری جانب برصغیر کی اردو صحافت اور اس میں جنم لینے اور پنپنے والے ادب کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔اس گفتگو کی نوعیت بالکل غیر رسمی ہے۔میں سوال کے معاملے میں کسی قسم کا تکلف روا رکھنا جائز نہیں سمجھتا، کیونکہ یہ میرے سیکھنے کی طلب سے تعلق رکھتا ہے۔اسی طرح جواب خواہ کتنا ہی صاف اور میری لاعلمی و کم عقلی کو نمایاں کرتا ہو، مجھے اس کے سامنے آنے سے بھی کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔کیونکہ میرے نزدیک بغلیں جھانکنے سے زیادہ بہتر عمل اپنے گریبان میں جھانکنا ہے۔یہ اس سلسلے کا پہلا انٹرویو ہے اور آپ دیکھیں گے کہ ابھی مزید ایسے انٹرویوز سامنے آسکیں گے، جن کی مدد سے ہم مختلف شعبوں کے بارے میں دلچسپ باتیں کرنے اور جاننے کا موقع حاصل کریں گے۔اس سلسلے میں میری کئی اہم لوگوں سے بات ہوچکی ہے اور امید ہے کہ ادبی دنیا کا یہ سلسلہ بھی ، اس کے گزشتہ سلسلوں کی طرح آپ کو مایوس نہیں کرے گا۔شکریہ

ا۔د: شامل صاحب! آداب! آپ ایک معروف صحافی ہیں۔ دنیا کے ایک بہت بڑے صحافتی ادارے سے آپ کا تعلق ہے۔ پہلا اور بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اردو میں لکھنے والے صحافیوں اور گلوبل لینگویج یعنی کہ انگریزی زبان میں لکھنے والے صحافیوں کےدرمیان آپ کوئی خاص فرق محسوس کرتے ہیں؟

ش۔ش: پاکستان میں موجود وہ صحافی جو اردو میں لکھ رہے ہیں، یا جو اردو نشریاتی اداروں سے منسلک ہیں، اور وہ جو پاکستان میں انگریزی صحافت کر رہے ہیں، ان میں خاصا فرق ہے۔ ایک فرق تو خود زبان کا ہے، یعنی وہ جن کے لیے لکھ یا بول رہے ہیں ان کے سماجی اور معاشی رویے بے حد مختلف ہیں۔ یہ طبقاتی معاملہ بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ پاکستان کی اردو صحافت کے پڑھنے، سننے اور دیکھنے والے انگریزی زبان بولنے والوں سے مختلف رویے رکھتے ہیں۔ اس کا پس منظر نو آبادیاتی دور میں تلاش کیا جانا چاہیے۔ اس صورت حال کے باعث حکمران طبقے کو اس بات سے غرض نہیں کہ انگریزی زبان میں کیا لکھا جا رہا ہے۔ اس کی پہنچ عوام میں دور تک نہیں ہے۔ لہٰذا وہ فوج پر تنقید بھی کھل کر کرتے ہیں، بلوچستان کے مسئلے پر بھی رائے دیتے ہیں، جو اگر اردو زبان میں کام کرنے والا صحافی اسی طرح سے کرے تو اس کے لیے مسائل پیدا ہونا لازمی سی بات ہے۔
دوسری بات ’اپروچ‘ کی ہے، چیزوں کو دیکھنے کی۔ زبان ہی کی وجہ سے اردو صحافی تمام امور کو ایک نسبتاً تنگ تناظر میں دیکھنے کا عادی ہے۔ ہر بات پاکستان کی سیاست کے گرد گھومتی ہے۔ مطالعے میں کمی کے باعث وہ چیزوں کو وسیع، عالمی تناظر میں دیکھ نہیں پاتے۔ دنیا میں کیا ہو رہا ہے اس سے اسے خاص دل چسپی نہیں۔ یہ باتیں اس کے ’کنٹیکسٹ‘ کو محدود کر دیتی ہیں۔ پہلے ایسا نہیں تھا۔ تقسیم ہند سے پہلے اور بعد کی اردو صحافت سے وابستہ افراد گلوب پر نظر رکھتے تھے، وہ تاریخ سے بھی واقف تھے، ان کا مطالعہ وسیع تھا۔ وہ صرف ترجمے یا ترجموں کے ترجمے نہیں پڑھتے تھے، انہیں کئی زبانیں آتی تھیں۔ تاہم اب یہ صورت حال نہیں رہی۔ اب تو زبان کے معاملے میں بھی اردو صحافیوں کی کم دل چسپی ہے۔ غلط سلط لکھا جا رہا اور اس کو جائز قرار دیا جا رہا ہے۔
سو فرق تو ہے۔ لیکن میں یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ پاکستان اور ہندوستان میں انگریزی صحافت سے وابستہ ہر شخص عالم فاضل ہے۔ یہاں بھی ایک طبقہ ایسا آ گیا ہے جو کہ شاید زبان تو درست لکھ سکتا ہے مگر اس کی علوم پر کوئی دسترس نہیں۔ بہت سے نوجوان انگریزی صحافیوں نے شاید تقسیم ہند پر کوئی کتاب بھی نہ پڑھی ہو۔ چومسکی کو پڑھا ہو گا، سمجھا کم ہوگا۔

ا۔د: برصغیر ہند کے تعلق سے یا اس میں موجود صحافت پر سیاست کس قدر اثر انداز ہوتی ہے، کیا یہاں کے اداروں اور صحافیوں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ خاص طور پر یورپی اور امریکی صحافت کے مقابلے میں یہاں کی صحافت کن اسباب کی بنیاد پر کمزور یا طاقتور ہے؟

ش۔ش: ایک وقت تھا جب صحافت کو ایک ’واچ ڈاگ‘ کی حیثیت حاصل تھی۔ مارکیٹ اکانومی کے زمانے میں صحافت اس طرح تو کہیں بھی ’آزاد‘ نہیں جن معنوں میں آپ بات کر رہے ہیں۔ امریکا اور جرمنی میں بھی منڈی سے تعلق رکھنے والے عوامل مکمل آزادی کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ ان جگہوں پر بہرحال اس حد تک تو آزادی ہے کہ آپ کسی سیاست دان، فوجی یا مذہب پر تنقید کر سکتے ہیں، اس خوف کے بغیر کے اس سے ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو گا۔ ہمارے ملکوں میں تو صحافیوں پر سیاسی دباؤ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اب وہ ’سیلف سنسرشپ‘ کی طرف رواں دواں ہیں۔ آپ مذہب پر بات نہیں کر سکتے، آپ فوج پر تنقید جائز نہیں کر سکتے۔
بر صغیر میں صحافت کی بنیاد تو بہت مضبوط تھی۔ پہلے اس کو تقسیم ہند سے نقصان پہنچا، پھر پاکستان اور بھارت میں انتہا پسندی کے فروغ سے۔ اصل مسئلہ تعلیم کی کمی کا ہے۔ دیکھیے صحافت کا تعلق لفظ سے ہے، پڑھنے سے ہے، لکھنے سے ہے۔ ایک تو تعلیم کا برا حال ہے، اس پر صحافیوں نے پڑھنا لکھنا بھی چھوڑ رکھا ہے۔ یہ صورت حال جرمنی اور برطانیہ میں تو نہیں ہو سکتی۔ یہاں کے صحافی تو بے حد پڑھتے لکھتے ہیں۔ رائے دینے کے لیے رائے کا ’انفارمڈ‘ ہونا ضروری ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے صحافیوں اور سڑک پر بیٹھے کسی نائی کی رائے میں کچھ ذیادہ فرق نہیں ہوتا۔ اور یہ بات میں ان کے لیے بھی کہہ ہا ہوں جو ٹی وی چینلز یا سوشل میڈیا پر دانش وری جھاڑ رہے ہوتے ہیں۔

ا۔د: ہر خبر کا ایک پس منظر ہوتا ہے، کیا خبر کی ترسیل میں کسی قسم کی بھول چوک سے لوگوں میں غلط فہمیاں نہیں پیدا ہوسکتی ہیں۔ یا میں یہ پوچھوں تو زیادہ مناسب ہے کہ خبر نالج کی ایک شاخ ہونے کے بجائے عام طور پر ہمارے معاشروں میں لوگوں کو بھڑکانے، بہکانے یا اکسانے کی ایک بہت ادنیٰ کوشش ہوتی ہے۔ کیا آپ کی رائے میں یہ اعتراض درست ہے؟

ش۔ش: بات یہ ہے کہ مین سٹریم میڈیا 'آزاد' نہیں ہے۔ جن مثالی معنوں میں ہم 'آزاد' دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہر میڈیا ہائوز کی ایک پالیسی تو ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر مغربی میڈیا آرگنائزیشنز جمہوریت اور انسانی حقوق کو اہمیت دیتی ہیں۔ عرب ممالک میں آپ کو اس پہ اصرار نہیں ملے گا۔ میں نے اسی لیے ایک ایسے میڈیا ہائوز کا انتخاب کیا جو میرے نظریات، یعنی جمہوریت دوستی اور پلورل ازم کی بالادستی سے میل کھاتا ہے۔ میں پاکستانی میڈیا میں کام کرسکتا ہوں مگر کروں گا نہیں۔ وہاں میرا نظریاتی تضاد پیدا ہوجائے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے بین الاقوامی اداروں میں بھی ایسا لوگ کام کررہے ہیں جو مغرب سے بیر رکھتے ہیں اور سعودی عرب کے حامی ہیں، لیکن وہ ریاض میں جا کر کام نہیں کرنا چاہتے۔ ان کو معلوم ہے کہ وہاں ان کی اپنی آزادی خطرے میں پڑ جائے گی۔

ا۔د: خبر، بڑے اداروں کے لیے پیسہ کمانے کا ذریعہ بن گئی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بی بی سی، سی این این اور ڈی ڈبلیو جیسے بڑے ادارے بھی اب ایسی نیوز شائع کرتے ہیں، جن سے انہیں سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ لائکس اور کمنٹس مل سکیں، خواہ وہ ان کی موافقت میں ہوں یا مخالفت میں۔ اس اٹینشن سیکر یا سینسیشن پیدا کرنے والی صحافت کو آپ کس قدر کارگر یا مضر مانتے ہیں؟

ش۔ش: جی ہاں، یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جیسا میں نے پہلے کہا، سماج میں کسی بھی پیشے کو آپ معیشت اور اقتصادی و پیداواری رشتوں سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھ سکتے۔ ریٹنگ کی دوڑ تو ہر جگہ ہے۔ اس وجہ سے صحافت کا معیار دنیا بھر میں تنزلی کی طرف گامزن ہے۔ ایک اور مسئلہ سوشل میڈیا بہ ذات خود ہے۔ اس کی وجہ سے اب ہر شخص صحافی بھی ہے، شاعر بھی ہے، فوٹوگرافر بھی ہے۔ اب نہ کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے نہ محنت کرنے کی۔ یہ عوامی جرنل ازم کے لیے ایک اچھا پلیٹ فارم ضرور ہے مگر اس کے مجموعی اثرات زبان و صحافت پر منفی پڑ رہے ہیں۔ لیکھ جس طرح اچھی کتاب کو ٹی وی یا فلم مار نہیں سکتے، سوشل میڈیا کی شعبدے بازی بھی سنجیدہ صحافت کو دبا نہیں سکتی۔

ا۔د: کیا یہ سچ ہے کہ لوگوں کی دلچسپی نیوز کی اسی منفی رپورٹنگ کی وجہ سے زیادہ ہے، جس کی بنا پر وہ شریف زادوں کے یہاں بدنام ہے۔ کیونکہ تیز اور تیکھی خبروں کے زمانے میں مثبت اور اچھی اچھی باتوں سے کس شخص کو دلچسپی ہوسکتی ہے؟

ش۔ش: ہمارے ملکوں میں تعلیم کی کمی ہے۔ لوگ سنجیدہ موضوعات سے دور بھاگتے ہیں۔ پھر کارپوریٹ میڈیا کی وجہ سے ریٹنگ کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ دیکھیے صحافت خلا میں نہیں کی جاتی، جس طرح ادب ویکیوم میں نہیں تخلیق ہوتا۔ پورے سماج کے شعور کی سطح بلند ہوگی تو اس کے اثرات صحافت پر بھی پڑیں گے۔ اس لیے سماج کی ترقی اور ترقی پسندی کی تحریکیں چلنا ضروری ہیں۔ اس کے بغیر یہ مسائل ختم نہیں ہوں گے۔

ا۔د: کیا آپ ہمیں پیڈ میڈیا کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ اس کا وجود ہے، لیکن اس کی شناخت کیونکر کی جائے اور لوگوں میں اس کے منفی اثرات کو کیسے نمایاں کیا جاسکتا ہے؟

ش۔ش: بالکل ہے۔ کارپوریشنز سے لے کر حکمراں طبقے صحافیوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان تو اس کی ایک عمدہ مثال ہے۔ ہونڈا موٹر سائیکلس پر بیٹھنے والے صحافیوں کے پاس آج محل نما بنگلے اور لکژری گاڑیاں ہیں۔ یہ ایسے ہی نہیں آگئیں۔ نائن الیون کے بعد تو خوب پیسہ بنایا گیا۔ ہر کوئی صحافی اور سکیورٹی ایکسپرٹ بن گیا ہے۔ زیادہ تر اس میں پیڈ ہی ہیں۔

ا۔د: آپ کے بعض مضامین کے تعلق سے یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ آپ خود یا اپنے ادارے کی پالیسی کے مطابق اپنے مضامین میں تنقید و تجزیہ کا ایسا رخ اختیار کرتے ہیں، جو آپ کے ملک یا خطے کے لوگوں کے لیے غصے اور شرمندگی کا باعث ہو، آپ اس قسم کے الزامات کو کس حد تک صحیح مانتے ہیں؟

ش۔ش: مغربی دنیا جمہوریت اور آزادی اظہار پر یقین رکھتی ہے۔ جب کبھی جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی رائے خطرے میں دکھتی ہے، اور جو ان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے، میرا قلم اس کے خلاف اٹھتا ہے۔ ایک اور بات: میں پاکستانی صحافی نہیں ہوں، صرف صحافی ہوں۔ نہ پاکستانی ادیب کوئی چیز ہے، نہ نہ جرمن صحافی۔ قلم اٹھانے والے کا جغرافیائی حدود سے کوئی تعلق نہیں۔ ہاں یہ بات ہے کہ میں ایک خاص خطے کے بارے میں زیادہ علم رکھتا ہوں۔ میں جب لندن اسکول آف اکنامکس میں پاکستانی طالبان اور ریاست کے بارے میں تھیسس لکھ رہا تھا تو میں نے اس موضوع پر پچاسوں کتابیں اہو سینکڑوں علمی مضامین پڑھے تھے۔ اب میں اس موضوع پر زیادہ لکھتا ہوں۔ لیکن مجھے اس بات سے دل چسپی نہیں کہ اس خطے کے لوگ شرمند ہو رہے ہیں یا ان کا سر فخر سے بلند ہو رہا ہے۔ میں افغانستان کے مسائل پر بھی لکھتا ہوں حالاں کہ میں افغان نہیں ہوں۔ میں شیکسپیئر کے کام پر اپنی رائے دیتا رہا ہوں حالاں کہ میں انگریز نہیں ہوں۔ سو میرا تعلق علم سے ہے۔ جب میں شمالی کوریا کی حکومت پر تنقید کرتا ہوں تو اس کی وجہ بھی وہاں وہ مسائل ہیں جن پر قلم اٹھانا میرا فرض ہے۔ پاکستان کوئی مقدس گائے نہیں ہے۔ تنقید بھی اس لیے کی جاتی ہے کہ اس کے ذریعے بہتری کا راستہ نکل سکے۔ میری کوئی قومیت نہیں ہے نہ میں اسے مانتا ہوں۔ نہ ہی میرا کوئی مذہب ہے۔ نہ پاکستان میں ہوتے ہوئے تھا نہ اب ہے۔ اگر کسی کو میرے لکھے سے تکلیف ہوتی ہے تو وہ بھی جواب میں کوئی بادلیل مضمون لکھ دے۔ مجھے تو خوشی ہی ہوگی۔

ا۔د: آپ کے صحافیانہ تجزیے زیادہ تر جن خطوں یا علاقوں سے متعلق ہوتے ہیں، وہ متنازعہ ہوتے ہیں۔ ایک متنازعہ علاقے کے تعلق سے رپورٹنگ، کالم نویسی یا مضمون بندی کے وقت صحافی کا رویہ کس قسم کا ہونا چاہیے؟

ش۔ش: ’انفارمڈ‘ رائے ہونی چاہیے، اگر آپ رائے دے رہے ہیں۔ رپورٹننگ کر رہے ہیں تو آپ کو تصویر کے تمام رخ پیش کرنے چاہییں۔ ہمارے ہاں کے رپورٹرز رائے دینے لگتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ اینکر یا رپورٹر کا کام رائے دینا نہیں خبر پہنچانا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والے صحافیوں کی ایک ذمے داری یہ بھی ہے کہ وہ ان متنازعہ علاقوں کے متنازعہ موضوعات کو قلم کی گرفت میں لائیں اور لوگوں کے سامنے لائیں جو کہ مقامی صحافی کے لیے ممکن نہ ہو۔ کشمیر پر کھل کے بات کرنا شاید بھارت میں بہت سے صحافیوں کے لیے آسان کام نہ ہو، اسی طرح بلوچستان کے مسئلے پر کھل کے رائے دینا یا وہاں کی ان آوازوں کو پلیٹ فارم دینا جن کو مقامی میڈیا خوف اور پابندیوں کے باعث نہ دے سکتا ہو، وہ ہم دیتے ہیں۔ یہ ہماری ذمے داری ہے۔ آسام میں اگر ریاستی جبر ہے تو اسے ہم یہاں سے زیادہ ’آبجیکٹیو‘ طریقے سے پیش کر سکتے ہیں۔ اس پر ان مقامی طبقات کو تکلیف ہوتی ہے جو یہ آوازیں دنیا تک پہنچتے نہیں دیکھ سکتے۔ میں جب یہ کام کرتا ہوں تو پاکستان میں بعض حلقے اس پر اعتراض کرتے ہیں۔ وہ کرتے رہیں۔ ہم اپنا کام کرتے رہیں گے۔

ا۔د: آپ کہتے ہیں کہ رپورٹر کا کام صرف خبریں پہنچانا ہوتا ہے۔ کسی معاملے پر اپنی رائے پیش کرنا نہیں۔ لیکن ایسی رپورٹنگ کیسے ممکن ہے، جس میں صرف خبر پیش کی جائے۔ کیونکہ کیمرہ اپنے آپ میں ایک قسم کی جانبداری کا متحمل ہوسکتا ہے۔ اس پر آپ کیا کہیں گے۔

ش۔ش: ایسا ممکن ہے۔ خبر میں رائے شامل نہیں کرنی چاہیے۔ واقعی جیسے پیش آیا ہے اسے ویسے بتادینا چاہیے۔ تمام فریقین کا موقف پیش کردینا چاہیے۔ پاکستانی میڈیا میں رپورٹنگ میں رائے شامل ہوچکی ہے۔ ایسے الفاظ سے اجتناب کرنا چاہیے جس سے رپورٹر کی کسی ایک فریق سے ہمدردی یا ناراضی کا احساس ہو۔ آپ کو مثال دیتا ہوں، ہم 'پاکستان کے زیر انتظام کشمیر' لکھتے ہیں، انگریزی میں 'پاکستان-ایڈمنسٹریٹڈ کشمیر'۔ ہم 'جاں بحق' نہیں 'ہلاک' لکھتے ہیں۔ 'جاں بحق' کی اصطلاح مذہبی جرگوں سے جڑی ہے۔ اسی طرح دوسرے معاملات ہیں۔ میں جب اپنی رائے دیتا ہوں تو کھل کے لکھتا ہوں، سائیڈ لیتا ہوں۔ رپورٹنگ کرتے وقت سب سے اہم بات 'آبجکٹویٹی' ہوتی ہے۔ اسے کامپرومائز نہیں کرنا چاہیے۔

ا۔د: کیا صحافت ایک کنفیوزڈ شعبہ ہے، جسے ہم سماجی علوم کی ایک شاخ سے تعبیر کرسکتے ہوں جو چیزوں کے بارے میں ایک سٹیک رائے قائم کرکے ان کے استثنائی پہلوئوں کو فراموش کردیتا ہے۔

ش۔ش: صحافت اب ایک سپیشلائزڈ شعبہ بن چکا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ صحافت پڑھ کر اور اسے سیکھ کر کم لوگ آتے ہیں۔ پہلے کم از کم لوگ زبان پہ عبور حاصل کرکے آتے تھے۔ اب وہ بھی نہیں ہے۔ میں نے لندن سکول آف اکنومکس سے میڈیا سٹڈیز کی باقاعدہ تعلیم اس لیے لی تھی کہ میں اس سپیشلائزڈ فیلڈ کو سمجھنا اور سیکھنا چاہتا تھا۔ ہمارے ملکوں میں اب حال یہ ہے کہ جن کا املا درست نہیں، جنہیں اور کوئی نوکری نہیں مل سکی، وہ صحافت میں آگئے ہیں۔ کنفیوزڈ صحافت کا شعبہ نہیں وہ صحافی ہیں جنہیں اس شعبے کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ وہ کنفیوژن پھیلا رہے ہیں۔ اس سپیشلائزڈ فیلڈ کے لیے آپ کو متعدد ڈسپلنس پڑھنا پڑتے ہیں، جو 'کروس کٹنگ' ہیں۔

ا۔د: صحافی کی کیا کوئی آزادانہ حیثیت ہوتی ہے؟

ش۔ش: صحافی ہو یا شاعر یا ادیب، ان سے زیادہ آزاد کسی کو نہیں ہونا چاہیے۔ افسوس یہ ہے کہ اب قلم آزاد نہیں رہا۔ اس کے فیکٹرز میں نے اوپر بیان کردیے ہیں۔ صحافیوں کو اپنا آزادانہ تشخص قائم کرنے کے لیے جد و جہد کرنا ہوگی۔

ا۔د: برصغیر میں ایک کامیاب، غیر جانبدار اور ستھری صحافت کے تعلق سے آپ کا بنیادی خیال کیا ہے، یہ کن عوامل سے ممکن بنائی جاسکتی ہے۔

ش۔ش: جن چیزوں کا میں نے اوپر ذکر کیا اگر ان کا خیال رکھا جائے تو بر صغیر میں ایک اچھی صحافت کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

1 تبصرہ:

Partner Asia کہا...

Hello!

I am an affiliate program manager for InstaForex Group – the Best Broker in Asia.

We would like to offer you the affiliate program cooperation with InstaForex. If you are interested to get involve in high commission based program, please contact me and I will provide the details.

If you have any queries, do not hesitate to contact me.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *