51
خس و خاشاک دیا چرخ نے بستر کے عوض
مزبلے کی یہ زمیں ملک میں ہہے گھر کے عوض
او پری رو تیری مقعد کا وہ دیوانہ ہوں
خشت پاخانہ لگے قبر میں پتھر کے عوض
کون سے غیرت مہتاب کا پاخانہ ہے
پھٹکیاں گو کی نظر آتی ہیں اختر کے عوض
گوہا چھی چھی سے نہ مطلب نہ الجھنے سے غرض
خیز کے ان سے چلن چلتے ہیں ہم شر کے عوض
شیخ صاحب کو نہیں پاس حلال اور حرام
سدے پاخانے میں کھا جاتے ہیں کولر کے عوض
پائخانے کاجو فضلہ ہے اٹھانا منظور
شیخ صاحب کو بلا لیجئے اب خر کے عوض
گرمئ نزع میں چرکیںؔ جو مجھے حاصل ہو
موت اس گل کا پیوں شربت شکر کے عوض
***
52
چھوڑ او پردہ نشیں مردم بازار سے ربط
گو میں نہلائے گا اک روز یہ اغیار سے ربط
غنچۂ مقعد رشک گل تر جب دیکھے
نہ رہے بلبل ناشاد کو گلزار سے ربط
گانڑ پھاڑے گی یہ اغلام کی صحبت اک دن
دل کو رہتا ہے بہت مقعد دلدار سے ربط
گو سے بدتر ہے مجھے ذائقہ قند و نبات
جب سے رہتا ہے ترے لعل شکر بار سے ربط
میکدے سے نہ غرض مجھ کو نہ میخانے سے
مجھ کو چرکیں ہے شب و روز دریار سے ربط
***
53
اتنا بھی چھوڑ دیں گے جو ہم بے_حیا لحاظ
پھر پادتا پھرے گا یہ سب آپ کا لحاظ
ہگنے میں ان کے پاس گئے ہم تو یہ کہا
باقی رہا نہ تجھ میں کچھ او بے_حیا لحاظ
سدے پھنسے ہیں قبض کی شدت ہے گانڑ پھاڑ
اے شیخ جی عمل کے ہے لینے میں کیا لحاظ
جھگڑا پڑے گا گانڑ کلیجے کیا جو حسن
کھودیں گے ایک روز یہ ناز و ادا لحاظ
کچھ گانڑ کی خبر نہ بدن کا رہا ہے ہوش
کپڑے اتارے پھرتے ہو کیا یہ کیا لحاظ
پاخانہ وہ جگہ ہے کہ ہیں ایک حال پر
اس میں ہو بے_لحاظ کوئی یا کہ با لحاظ
چرکیںؔ سے منہ چھپاؤ گے بیت الخلا میں کیا
بے_پردہ ہوگئے تو کہاں پھر رہا لحاظ
***
54
ساغر چرتی ہے ساقی جب یہاں آتی ہے شمع
تیرے رخ کے سامنے پروانہ بن جاتی ہے شمع
اس پری نے واہ نام حسن کیا روشن کیا
مقعد دیوانۂ عریاں میں جلواتی ہے شمع
گوز ہے غیر نجس کا یا کہ آندھی روگ ہے
محفل رشک چمن میں گل جو جاتی ہے شمع
آئی کس مہتر پسر کے ساعد سیمیں کی یاد
بزم گھورا لینڈ کی صورت نظر آتی ہے شمع
دیکھ کر وہ ساق سیمیں گانڑ میں گھس جائے گی
کیا صباحت کی حقیقت ہے جو اتراتی ہے شمع
گانڑ دھونے نہر پر جاتا ہے جب وہ شعلہ رو
موج ہر اک اس کے جلوے سے نظر آتی ہے شمع
اس قدر وحشت فزا اپنا سیہ خانہ ہوا
جان کے خطرے سے اے چرکینؔ گھبراتی ہے شمع
***
55
عمر چرکیںؔ کا ہوا گل او بت پر فن چراغ
کھڈیوں میں مہتروں کی گھی کے ہیں روشن چراغ
کیا کریں چوں و چرا کوئے دیار حسن میں
اے پری رو ہے ترے پیشاب سے رشن چراغ
شب کو ہگنے کے لئے آیا جو وہ رشک قمر
پائخانے کا نظر آیا ہر اک روزن چراغ
جب اندھیرے میں وہ آئے پھٹ گئی دہشت سے گانڑ
مفلسی کے ہاتھ سے رہتا ہے بے_روغن چراغ
وہ نجس ہوں پھول کے بدلے گل آدم چڑھے
چاہئے گوبر کا اے چرکیںؔ سر مدفن چراغ
***
56
جب سے گئے ہیں کوچۂ دلدار کی طرف
چرکیں نہ جا پھرے کبھی گلزار کی طرف
مہتر پسر کے گوہر دنداں جو ہاتھ آئیں
دیکھوں کبھی نہ موتیوں کے ہار کی طرف
میلا ہے گوگا پیر کا چھڑیوں کی سیر ہے
چلئے نواز گنج کے بازار کی طرف
جوش جنوں میں ہم کو یہ پاس ادب رہا
موتے نہ او پری تری دیوار کی طرف
غیروں سے اور یار سے گہرا ہے آب دست
اس حال میں وہ کیا ہو گنہگار کی طرف
دہشت سے پھٹ کے حوض ہو ترک فلک کی گانڑ
دیکھے جو تیرے خنجر خونخوار کی طرف
چرکیںؔ کو مزبلے سے وہ ہمراہ لے چلے
جائے صبا جو محفل دلدار کی طرف
***
57
مژدۂ وصل آئے جائے فراق
ہینگ ہگتے ہیں مبتلائے فراق
ہگ چکے خون عاشق ناشاد
اب کوئی اور رنگ لائے فراق
پوتڑے ابتدا میں بچھتے ہیں
دیکھئے کیا ہو انتہائے فراق
تیرے بیت الخلا میں رہنے دے
پا بگل وائے جو رضائے فراق
وصل سے گانڑ وہ چراتے ہیں
کیوں نہ بڑھ جائے اب جفائے فراق
غیر سے گانڑ بخیا ہے
ان کو ہم سے نہ کیوں خوش آئے فراق
اس نے سیکھے اگھوریوں کے چلن
کیوں نہ چرکیںؔ کو آ کے کھائے فراق
***
58
دیکھتا ہوں خال سے رخسار جاناں کا تپاک
بڑھ گیا ہندو سے اے چرکیںؔ مسلماں کا تپاک
گوہا چھی چھی ہوگی اک دن گو ہے گہرا آبدست
مدعی کو گو میں نہلائے گا جاناں کا تپاک
فاتحہ گو گل جلا کے دیں گے گوگا پیر کا
کم ہو غیروں سے اگر اس آفت جاں کا تپاک
دشت وحشت خیز سے کوسوں کے پلے ہوگئے
اب کہاں باقی رہا وہ جیب و داماں کا تپاک
آ کے پاخانے میں کیسے بے_حیا بنتے ہیں لوگ
پائجامے سے رہے کیا جسم عریاں کا تپاک
گھیرے ہی رہتے ہیں اغیار نجس اس ترک کو
لینڈیوں سے بڑھ گیا شیر نیستاں کا تپاک
موتنے میں تم جلی پھسکی جو کوئی چھوڑ دو
برق سوزاں سے نہ چھوٹے ابر باراں کا تپاک
***
59
جم جائے جب کہ پاد میں اس دل ربا کا رنگ
اڑ جائے صاف بلبل رنگیں نوا کا رنگ
سمجھوں عروس باغ کے ہی حیض کا لہو
جس دم دکھائے ہاتھ میں وہ گل حنا کا رنگ
جب سے بڑھا ہے شیخ کا مہتر پسر سے ربط
بدلا ہے گوہا چھی چھی سے ان کی قبا کا رنگ
پاخانہ اس کے فیض سے رشگ چمن بنا
گندہ بہار میں بھی نہ بدلا ہوا کا رنگ
اس زعفراں لباس کے ہگنے میں یاد ہے
سدوں میں کیا عجب ہوا گر کہربا کا رنگ
ہر دست میں خلال کی صورت نظر پڑے
جم جائے گنجئے میں جو اس بے_وفا کا رنگ
اس گل بدن کے عشق میں چرکیںؔ بھروں وہ آہ
اڑ جائے مثل گوز چمن کی ہوا کا رنگ
***
60
نیم بسمل نہ اسے چھوڑ کے گھر جا قاتل
رقص چرکیںؔ کا ذرا دیکھ تماشا قاتل
موت کی دھار سے بدتر میں سمجھتا ہوں اسے
کس کو دھمکاتا ہے چمکاکے دودھارا قاتل
سہمگیں ہوگئی ایسی مری صورت دم نزع
ہگ دے دہشت سے جو دیکھے مرا لاشا قاتل
نین متنا کہیں مشہور نہ ہوجائے تو
میرے لاشے پہ نہ رو بیٹھ کے اتنا قاتل
قتل کی غیر نجس کے ہے اگر دل میں امنگ
زہر قاتل میں بجھا اپنا تو تیغا قاتل
سست پر دست چلے آتے ہیں لے جلد خبر
تیرے بیمار کا اب حال ہے پتلا قاتل
نزع کے وقت تو یہ گانڑ چرانا ہے عبث
ایک دم اور ٹھہر اتنا نہ گھبرا قاتل
دست بردار ہو ان باتوں سے آ جانے دے
قتل چرکیںؔ کو نہ کر گو نہ اچھلوا قاتل
***
61
ہگے یہ دیتے ہیں ہر آن کے عتاب سے ہم
کہ چوں بھی کر نہیں سکتے کبھی جناب سے ہم
عمل ہو اپنا جو اخباریوں کے مذہب پر
تو دھوکے گانڑ کریں خشک آفتاب سے ہم
بتنگ آئے ہیں دنیا کی گو ہا چھی چھی سے
ہو قبض روح نجس چھوٹیں اس عذاب سے ہم
فلک ہو طشت ستارے ہوں پھٹکیاں گو کی
جو گو کے چھوت کو نسبت دیں ماہتاب سے ہم
ہو اس کی کھڈی میں صرف اپنے کالبد کی خاک
یہ چاہتے ہیں زمانے کے انقلاب سے ہم
ہر اک کے سامنے تم گانڑ کھولے پھرتے ہو
تمہیں حیا نہیں مرتے ہیں اس حجاب سے ہم
لگے کا دل کبھی چرکیں تو صف جاناں میں
کہیں گے شعر کئی اور آب و تاب سے ہم
***
62
ہے دل کو الفت زلف بتاں معلوم
مروڑے اٹھتے ہیں کیوں ہر زماں نہیں معلوم
کیا ہے گو بھرے سفرے کا وصف کس نے بیاں
غلیظ کیوں ہے ہماری زباں نہیں معلوم
بنا ہے چرخ بریں طشت کہکشاں کھڈی
ہگے گا کون سا شوکت نشاں نہیں معلوم
ہر ایک آؤ کی پھٹکی ہے ریزۂ الماس
تمہاری گانڑ ہے ہیرے کی کاں نہیں معلوم
پئیں گے شیخ جی عمامہ بیچ کر مئے ناب
اسی میں خیر ہے مغ کی دکاں نہیں معلوم
ہوئی ہے زلف کے سودے میں اس قدر پیچش
امید زیست مجھے مہرباں نہیں معلوم
اچک کے گانڑ میں کردے جو شیخ کی انگلی
یہ شوخیاں تجھے اے جان جاں نہیں معلوم
ہمارے پاس بناتا ہے گھر جو اے منعم
ہمارے ہگنے کی کیا داستاں نہیں معلوم
ہمیشہ رہتے ہو بیت الخلا میں تم چرکیںؔ
جہاں میں کس کو تمہارا مکاں نہیں معلوم
***
63
تمہارے ہجر نے صالح کیا جناب ہمیں
عمل کے دست سے بدتر ہے اب شراب ہمیں
نہ پایا اس سے کبھی اپنی گفتگو کا جواب
دہان یار نظر آیا لا جواب ہمیں
دماغ کو یہ خوش آئی ہے اس کے موت کی بو
کبھی نہ سونگھیں اگر دے کوئی گلاب ہمیں
سڑی کی طرح گو تھا پتے پھریں کب تک
جمال اپنا دکھا او پری شتاب ہمیں
کبھی پلید کبھی گہیل اور کبھی بھڑمل
ہر ایک آن نئے ملتے ہیں خطاب ہمیں
ہوئے ہیں محو کچھ ایسے نہیں ہے گانڑ کا ہوش
دکھا کے آپ نے مقعد کیا خراب ہمیں
مروڑے پیٹ میں اٹھیں نہ کس طرح چرکیںؔ
کسی کی زلف کا یاد آیا پیچ و تاب ہمیں
***
64
کپڑے چرکینؔ جب بدلتے ہیں
عطر کے بدلے موت ملتے ہیں
کون کرتا ہے گانڑ میں انگلی
آپ جو ہر گھڑی اچھلتے ہیں
نہیں کہتے ہیں غیر ہم کو برا
اپنے منہ سے یہ گو اگلتے ہیں
کس شجر کے ثمر ہیں سیب ذقن
نہ تو سڑتے ہیں یہ نہ گلتے ہیں
جب وہ کرتے ہیں غیر سے گرمی
اس گھڑی اپنے خصئے جلتے ہیں
چلتی ہے قیس و کوہکن کی گانڑ
جب ہمارے وہ ساتھ چلتے ہیں
بزم جاناں میں پادتا ہے جو غیر
ہر طرف سے اشارے چلتے ہیں
تیرے بیمار کے تلے غم خوار
پوتڑے دم بدم بدلتے ہیں
طبع چرکیںؔ بھی طرفہ سانچہ ہے
گو کے مضمون جس میں ڈھلتے ہیں
***
65
سگ دنیا جو ہیں کب جود و سخا رکھتے ہیں
گو بھی بلی کی طرح سے یہ چھپا رکھتے ہیں
کوچۂ زلف میں جو بیٹھ کے پیشاب کریں
ایسے ہم لوگ کہاں بخت رسا رکھتے ہیں
غیر گو کھاتے ہیں جو کرتے ہیں غیبت میری
منہ وہ سنڈ اس سے وہ چند سڑا رکھتے ہیں
ہم پدا دیں گے تجھے چو و چرا چھوڑ دے غیر
سن پدوڑے تجھے یہ بات سنا رکھتے ہیں
نیچے کے سر سے نوا سنج ہیں مرغان چمن
پاد پاد اس گل خنداں کو رجھا رکھتے ہیں
گوہا چھی چھی کے سوا کچھ نہیں حاصل اس سے
گو وہ کھاتے ہیں جو امید وفا رکھتے ہیں
شیخ جی کھاتے ہیں افیون کی گولی پیچھے
پہلے صابون کے شافوں کو بنا رکھتے ہیں
دے کے دل ان کو پڑا گانڑ کلیجے جھگڑا
یہ بت ہند عجب ناز ادا رکھتے ہیں
اور بھی خوبئ تدبیر سے ہوتا ہے قبض
کوں میں دست آنے کی جب غیر دوا رکھتے ہیں
گوز کی بو سے معطر رہے چرکیںؔ کا دماغ
تجھ سے امید یہ اے باد صبا رکھتے ہیں
***
66
دم گریہ بدر رو یار کی جب یاد کرتے ہیں
مرے اشکوں کے ریلے نالوں کی امداد کرتے ہیں
سمجھتا ہے اسے گوز شتربے درد محل میں
پس جمازہ گر مثل جرس فریاد کرتے ہیں
رقیبوں سے تو قار ورہ ملا ہے اس قدر ان کا
مصاحب جان کر بیت الخلا میں یاد کرتے ہیں
نجس ہے بیٹ مرغان حرم کی یا کہ پاکیزہ
سنیں اے شیخ صاحب آپ کیا ارشاد کرتے ہیں
اٹھائے گو مرا کیوں کر نہ مجنوں دشت وحشت میں
سعادت منڈلڑ کے خدمت استاد کرتے ہیں
طلب بیجا نے ان کو کردیا مجبوریوں ہم کو
چلے جاتے ہیں ہگتے پادتے جب یاد کرتے ہیں
بدل ڈورو کے چرکیںؔ بیٹھ کر چوتڑ بجاتا ہے
چھڑی جس وقت گوگا پیر کے استاد کرتے ہیں
***
67
بھری جو ساقی نے چرکیںؔ شراب شیشے میں
دکھائی کیفیت آفتاب شیشے میں
نہیں ہے لینڈی کا اس بت کی میرے دل میں خیال
پری اتاری ہے یہ لاجواب شیشے میں
طبیب دیکھ کے اس رشک گل کا قار ورہ
سمجھتے ہیں کہ بھرا ہے گلاب شیشے میں
ملایا ساقی نے شاید ہے اس میں پادا لون
ہوئی ہے موت سے بدتر شراب شیشے میں
جو چشم مست کو اس بت کی دیکھے اے چرکیںؔ
تو دل ہو دختر رز کا کباب شیشے میں
***
68
یار کا بیت الخلا ہے ہفت باب آسماں
طشت ہے مہ آفتاب آفتاب آسماں
جس زمیں پر دھار مارے طفل اشک اپنا کبھی
موت کے ریلے میں بہ جائے سحاب آسماں
جلوہ فرما ہو اگر وہ ماہ تو پرویں ہو کھاد
ہو زمیں گھورے کی بھی گردوں جواب آسماں
طفل گردوں کو چھٹے ہیں دست دیکھ اس ماہ کو
پوتڑا گو کا ہے یہ نیلی نقاب آسماں
شیخ جی اس پر جو موتیں رند پی کر آفتاب
ریش حضرت ہو شعاع آفتاب آسماں
گو کا کیڑا نسر طائر ہے ہمیں اے ماہ رو
چھوت گو کا ہے بعینہ ماہتاب آسماں
وصف اے چرکیںؔ لکھا کس ماہ کے پاخانے کا
سات بیتیں ہیں جواب ہف باب آسماں
***
69
باغ میں جاوے تو شیخ اب رند ہیں اس تاک میں
گانڑ پھاڑیں گے گر آیا دار بست تاک میں
پیشتر گو کھاتا ہے کوا سیانا ہے مثل
غیر اغلامی پڑا سڑتا ہے اب گو زاک میں
گانڑ کے بدلے عبث دیتا ہے جی اے پاسباں
سد رہ میرا نہ ہو کوئے بت سفاک میں
خوب سا پتلا ہگے گا شیخ رندو چہل ہے
دو ملا حب السلاطیں حبۂ تریاک میں
یار بن ہر گل گل آدم ہے اور گھورا چمن
گو کی بو آتی ہے اے بلبل ہماری ناک میں
ہے متوڑا طفل اشک غیر دامن میں نہ لے
موت بھر جائے گا پاکیزہ تری پوشاک میں
خوب سا گو تاکہ اچھلے شہر میں ہولی کے دن
چہل یہ آئی خیال کافر بے_باک میں
غیر کی جو گانڑ میں لکڑی گئی بھس میں گئی
گو کی ہانڈی پھینکی قصر عاشق غم ناک میں
پادا پونی سا ہے چرکیںؔ ناز سے بولا وہ شوخ
دب گیا ہوگا وہ گھورے کے خس و خاشاک میں
***
70
کام تیرا غیر کونی بزم جاناں میں نہیں
لوطئ نامرد کی جا باغ رضواں میں نہیں
موت کے کہتا ہے ہم سے اپنے کوچے میں وہ گل
اس روش کی آپ جو کوئی گلستاں میں نہیں
غرہ کرنا گو ہی کھانا ہے برابر جان تو
ہے سگ ناپاک گر اخلاق انساں میں نہیں
تیرے دیوانے کے ڈر سے قیس کی پھٹتی ہے گانڑ
بھول کر بھی پاؤں رکھتا وہ بیاباں میں نہیں
یار بن گھورا نظر آتا ہے سب صحن چمن
میرے آگے جھانٹیں ہیں سنبل گلستاں میں نہیں
اس رخ روشن کے آگے صاف گوبر کا ہے چھوت
نام کو بھی نور باقی مہر تاباں میں نہیں
کوچے میں اس برق وش کے تجھ کو لے جائے بہا
اتنی بھی توفیق چرکیںؔ آب باراں میں نہیں
***
71
چرکیںؔ غرض نہیں گل و گلزار سے ہمیں
مطلب ہے پائخانۂ دلدار سے ہمیں
بھر مل کبھی پلید کبھی اور لر کبھی
لاکھوں خطاب ملتے ہیں سرکار سے ہمیں
کرتا ہوں عرض حال تو کہتا ہے گو نہ کھا
ہوتا ہے درد سر تری گفتار سے ہمیں
گو دے سمیت جل کے ہو چونا ہر استخوان
امید ہے یہ آہ شرر بار سے ہمیں
جل جل کے گو ہو خاک تو کھانا حلال ہے
فتویٰ ملا ہے شیخ سے ابرار سے ہمیں
محفل میں اس کی گوز جو بھڑ سے نکل گیا
کس درجہ انفعال ہوا یار سے ہمیں
چرکیںؔ بندھیں گے گو کے جو مضمون اس قدر
آنے لگے گی قے ترے اشعار سے ہمیں
***
72
بوسہ عزیز ان کا جو یہ خوب رو کریں
سیب ذقن دھرے دھرے سڑجائیں بو کریں
دیوانے اس کے چاک گریباں کو سی چکے
پھٹ جائے گانڑ بھی تو نہ ہرگز رفو کریں
اک پشم خایہ اس کو سمجھتے ہیں یہ صنم
کیا وصف ان کے بالوں کا ہم مو بمو کریں
لائی ہے رنگ گردش ایام سے بہار
لبریز خون حیض سے ساقی سبو کریں
ہگ ہگ دے پاد پاد دے وہ مارے بوجھ کے
میرا جو طوق قیس کے زیب گلو کریں
جو لوگ شیفتہ ہیں ترے سر وقد کے یار
پیشاب بھی نہ جا کے لب آب جو کریں
سائل کو شہد لب کے وہ کہتا ہے گو نہ کھا
کس منہ سے بوسہ لینے کی ہم آرزو کریں
عاشق جو ہے تو ناصحو کے منہ کو گانڑ جان
گوز شتر سمجھ جو یہ کچھ گفتگو کریں
پانی جو آپ دست کا اس بت کے ہاتھ آئے
چرکیںؔ سڑی ہوں شیخ جی اس سے وضو کریں
***
73
موت کی تھالی سے کچھ کم ساقیا ساغر نہیں
خون سور کا ہے تجھ بن بادہ احمر نہیں
کھانا پینا موتنا ہگنا نہ کیوں کر بند ہو
زیست کا جس سے مزہ تھا پاس وہ دلبر نہیں
غیر کو لے تو نہ ہمراہ رکاب اے شہسوار
لید اٹھوانے کے قابل بھی یہ گیدی خر نہیں
گو میں جو ڈالے گا ڈھیلا چھینٹے کھائے گا ضرور
شیخ صاحب بحثنا رندوں سے کچھ بہتر نہیں
جس سے پوجا کے لئے دیتا ہے وہ چوکا صنم
ہم سمجھتے ہیں اسے چندن ہے وہ گوبر نہیں
گومتی میں غیر کو نہلانہ ساتھ اے بحر حسن
کم نجس ہے وہ سگ ناپاک جب تک تر نہیں
کیا خطا چرکیںؔ کی ثابت کی جو کہتے ہو برا
ہر گھڑی کی گوہا چھی چھی جان من بہتر نہیں
***
74
گلستان دہر میں تجھ سا کوئی گل رو نہیں
تو وہ غنچہ لب ہے جس کے پاد میں بدبو نہیں
میں وہ مجنون زخود رفتہ ہو نظروں میں مری
خال رخسار پری ہے پشکل آہو نہیں
بزم جاناں میں نکل جاتا ہے رک سکتا نہیں
کیا کروں ناچار ہوں کچھ گوز پر قابو نہیں
خانقہ میں پادتا پھرتا ہے بدہضمی سے شیخ
اور کہتا ہے بہت کھانے کی مجھ کو خو نہیں
جانتا ہے آپ کو گھورے سے بھی ناچیز تر
سچ تو ہے چرکینؔ سا کوئی بھی گو در گو نہیں
***
75
پڑا رہ تو بھی اے چرکینؔ جاکر پائخانے میں
وہ بت آئے گا ہگنے کو مقرر پائخانے میں
چلی آتی ہے بو عنبر کی ہر اک گو کی لینڈی سے
کھلی کس گل کی ہے زلف معنبر پائخانے میں
نصیب دشمناں انسان کو ہوتی ہے بیماری
نہ جایا کیجئے صاحب کھلے سر پائخانے میں
ترے پیشاب کی ہے دھار یا کہ ابر نیساں ہے
نظر آتی ہیں بوندیں مثل گوہر پائخانے میں
ہوا ہے پائخانہ فیض خون حیض سے گلشن
بنی ہیں لینڈیاں رشک گل تر پائخانے میں
حیا کو کرکے رخصت کھول دیتے ہیں وہ پاجامہ
عنایات و کرم ہوتے ہیں ہم پر پائخانے میں
کریں نظارہ اس کے حسن کا ہر لحظہ اے چرکیںؔ
اگر رہنے دے چرخ سفلہ پرور پائخانے میں
***
76
ہگ دے اگرچہ وہ بت بے_پیر ہاتھ میں
لے گو کا بوسہ عاشق دلگیر ہاتھ میں
اس دھج سے شیخ پھرتے ہیں گلیوں میں شہر کی
بوتل بغل میں مے کی ہے خنزیر ہاتھ میں
ازبسکہ اس کی زلف کا ہگنے میں بھی ہے دھیان
پاخانہ میں ہے پاؤں کی زنجیر ہاتھ میں
کیا حال مجھ ہگوڑے کا ہمدم ہو پوچھتے
گہیل پری کی رہتی ہے تصویر ہاتھ میں
رستم کا خوف سے وہیں پیشاب ہو خطا
عریاں جو دیکھے یار کی شمشیر ہاتھ میں
خوف صنم سے جو یہ زمیندار ہگتے ہیں
دیتے ہیں پیشگی زر جاگیر ہاتھ میں
رکھتا ہوں گو کی طرح سے اس واسطے چھپا
دیکھے نہ غیر تا تری تصویر ہاتھ میں
چرکینؔ شوق زیب ہے پاخانے میں اسے
ہگتے میں لی ہے زلف گرہ گیر ہاتھ میں
***
77
رندو نہ لاؤ شیخ کی شیخی خیال میں
خصلت ہے گو کے کھانے کی اس سگ خصال میں
پادے اگر وہ غنچہ دہن تو ملہار ہو
کیا لائے بلبلوں کا ترانہ خیال میں
بیت الخلا میں یار نے کی دعوت رقیب
یہ جانو کچھ ضرور ہی کالا ہے دال میں
بلبل تو جانتی ہی نہی پیر کی بھی گانڑ
بو سیب کی ہے یار کے پھولوں سے گال میں
داڑھی کو اپنی شیخ تو پیشاب سے منڈا
آزاد رند پھنستے ہیں کب ایسے جال میں
ان دھوئی دھائی آنکھوں کے آگے غلیظ ہے
چیپڑ بھرا تمام ہے چشم غزال میں
کھلواؤ تارقیب پدوڑا نہال ہو
کوئل کے پادے آم پڑے ہوں جو پال میں
چرکیںؔ نے جب سے سونگھی ہے وہ زلف مشک بیز
عنبر کو تب سے باندھا ہے گو کی مثال میں
***
78
کالک لگے نہ ریش سفید جناب میں
اے شیخ جی ملائیے نورا خصاب میں
ہے محتسب حرام کا تکال حلال خور
دو موت کو ملا کے شراب و کباب میں
افسانہ میرے دیدۂ گریاں کا سنتے ہیں
ڈر ڈر کے موت دیتے ہیں اغیار خواب میں
رندو خراب فرش کرے گا ہگوڑا شیخ
اچھلے گا گو بلاؤ نہ بزم شراب میں
بولا گیا ہے قبض کے مارے رقیب اگر
حقنہ کریں ملا کے دھتورا گلاب میں
پیشاب کرکے ٹھیکرے میں دیکھے اپنا منہ
اس رخ سا ہے فروغ کہاں آفتاب میں
چرکیںؔ عدم کی راہ لے کب تک لڑے گا یاں
عالم ہے مزبلے کا جہان خراب میں
***
79
کیا دور ہے کہ اسفل اعلی کو مارتے ہیں
شیروں کی طرح لینڈی کتے ڈکارتے ہیں
عمامہ چل کے سر سے زاہد کے مارتے ہیں
اس گو کے ٹوکرے کو سر سے اتارتے ہیں
پشموں سے بھی زیادہ بے_قدر ہوں گے اک دن
گو کھاتے ہیں جو اپنی زلفیں سنوارتے ہیں
شدت یہ قبض کی ہے بے_تاب ہو کے ہردم
کھڈی پہ شیخ صاحب سردے دے مارتے ہیں
اس گل کی سوکھی لینڈی جب دیکھتی ہیں بلبل
گل برگ تر کو اس پر صدقے اتارتے ہیں
طرفہ یہ ماجرا ہے بیت الخلا کے اندر
لے لے کے نام میرا ہردم پکارتے ہیں
پریاں ہیں کیا بلائیں افسون پڑھ کے چرکیںؔ
شیشے میں دیو کو بھی انساں اتارتے ہیں
***
80
بولا کہ ملیدا مجھے کھلوائے گا کون
مرگیا آج گانڑ کو مروائے گا کون
اٹھ گیا گانڑ مرانے کا مزہ دنیا سے
گانڈو اس طرح کا پھر ہاتھ میر آئے گا کون
ساتھ ہر دھکے کے اب کون کرے گا نخرے
جلد ہونا نہ کہیں یہ مجھے فرمائے گا کون
ہینجڑے جتنے ہیں وہ ہوویں گے اب کس کے مرید
پیر اب گانڈوؤں کا شہر میں کہلائے گا کون
ہوویں گے آن کے اب کس کے زنانے شاگرد
ہائے اب لینڈی لڑانا انہیں سکھلائے گا کون
کون اب چوسے گا آلت مرا منہ میں لے کر
کھول پاجامے کو آگے مرے پڑجائے گا کون
کانی کوڑی بھی نہیں گھر میں بڑی فکر ہے یہ
لاش اس بھڑوے کی یاں آنکے اٹھواے گا کون
خارجی جتنے ہیں ان کونیوں پہ لعنت ہے
کر نہ خطرہ ارے چرکیںؔ تجھے کھا جائے گا کون
***
81
قبلہ رو میخانہ ہے میں موتنے جاؤں کہاں
گر نہ موتوں شیخ کے منہ میں تو پھر موتوں کہاں
آگے ان آنکھوں کی گردش کے پھرے گی پادتی
ہمسری آئی ہے کرنے گردش گردوں کہاں
لیاسے بھی گانڑ میں اپنے گھسیڑ اے سوز عشق
خانۂ دل جل گیا ہے نقد دل رکھوں گا کہاں
باولی قمری ہے سوجھے موت کی کیا دھار سے
سرو گندا سا کہاں اس کا قد موزوں کہاں
لب لگا کر غیر میں انگلی کروں چوتڑکو پھیر
قبض میں شافے کی خاطر ڈھونڈے گا صابوں کہاں
مار گیسوئے صنم کی ہے بجا ہم سے سکیڑ
گانڑ میں گو بھی نہیں ہے دولت قاروں کہاں
نیاریا بن کر نہیں آیا چرکیںؔ تنگ ہوں
زر کمانے رفع حاجت کے لیے جاؤں کہاں
***
82
آجاتی ہے طاقت ترے بیمار کے تن میں
گو گھول کے تیرا جو چواتے ہیں دہن میں
ہگتا ہے گل اندام مرا جاکے چمن میں
گھورے پہ نہ کھڈی میں گڑھیا میں نہ بن میں
کہتا ہے وہ گل گانڑ میں گل میخ چلادوں
بلبل کوئی ہگ دے مرے آگے جو چمن میں
جھوٹے تو کیا کرتے ہو عشاق سے وعدے
بو گو کی نہ آنے لگے غنچے سے دہن میں
اسہال کی شدت سے موا تیرا جو بیمار
غسال کو خطرہ ہے کہ ہگ دے نہ کفن میں
اے زہرہ جبیں جھانٹوں میں تیری جو چمک ہے
یہ روشنی دیکھی نہیں سورج کی کرن میں
ہر بیت جو پر ہے مری مضمون سے گو کے
مہتر مجھے کہتا ہے ہر اک ملک سخن میں
لازم ہے کہ چرکینؔ اگر مائیو بیٹھے
بٹنے کے عوض گو کو ملیں اس کے بدن میں
***
83
دیکھتا مہتر پسر کی ہوں میں صورت خواب میں
گو اچھلنے کی رہا کرتی ہے صحبت خواب میں
کس کے سفرے کا رہا کرتا ہے بیداری میں دھیان
تیز رہتا ہے مرا ہر شب کو آلت خواب میں
گانڑ ملنے میں چراتے ہو اگر ظاہر میں تم
منہ تو دکھلا ایک دن اوبے مروت خواب میں
کونسی گوہیل پری کے عشق میں دیوانہ ہوں
رات بھر مہتر دکھاتے ہیں نجاست حواب میں
سامنے ردوں کے چوں کرتا نہیں ظاہر میں شیخ
بن کے شیطاں اپنی دکھلاتا ہے صورت خواب میں
ہینگ ہگتا ہوں شب فرقت میں میں آٹھوں پہر
ایک شب تو آ صنم بہر عیادت خواب میں
سر پہ میں چرکیںؔ اسے رکھوں گل تر کی طرح
خشک لینڈی بی کرے گر وہ عنایت خواب میں
***
84
دست آتے ہیں اگر مجھ کو تو اس کا غم نہیں
یعنی بدہضمی مری جلاب سے کچھ کم نہیں
ہجر میں صحن چمن گھورے سے مجھ کو کم نہیں
پھٹکیاں ہیں گل نہیں پیشاب ہے شبنم نہیں
بسکہ ضعف باہ سیرہتا ہے آستمنا مجھے
کون سا دن ہے جو پاجامہ ہمارا نم نہیں
وقت تنہائی صدا آتی ہے اس کی کان میں
گوز سا دنیا میں کوئی دوسرا ہمدم نہیں
بلبلو تم نے سنا ہوگا چغل بندہ وہ ہے
عشق دنیا میں مجھے غیر از گل آدم نہیں
راہ مقعد ہوگئی ہے بند مارے قبض کے
کوئی سدوں کے سوا اس زخم کا مرہم نہیں
اصل کی جانب ہر اک شے کرتی ہے آخر رجوع
گر پڑا سنڈاس میں چرکیںؔ تو اس کا غم نہیں
***
85
پائخانے میں رہا کرتے ہیں
گو کے مضمون بندھا کرتے ہیں
اے پری جو ترے دیوانے ہیں
تنکے گھورے پہ چنا کرتے ہیں
کوں سے آتا ہے بواسیر کا خون
لعل و یاقوت ہگا کرتے ہیں
سامنے جاتے ہی ہم قاتل کے
خوف سے پاد دیا کرتے ہیں
قبض سے شیخ کی پھٹی ہ گانڑ
حقنے پر حقنے ہوا کرتے ہیں
چاہئے رکھ لیں وہ ہگنے کی بھی جا
جو کہ پاجامہ سیا کرتے ہیں
ملتے ہیں پاؤں تلے چرکیںؔ کو
مہرباں آپ یہ کیا کرتے ہیں
***
86
ہے وہ گلرو یا سمیں تو گلشن ایجاد میں
نکہت گل سے سوا خوشبو ہے جس کے پاد میں
شاخ گل پر باغ میں لاسا لگاتا ہے عبث
بیٹ بلبل کی نہ بھر جائے کف صیاد میں
جلوہ فرما کون سا گلرو ہوا گھورے پہ آج
خرمن گل کا نظر آتا ہے عالم کھاد میں
جب سے کھجلی اس کے نکلی غیر بھی بولا گیا
گانڑ کھجلاتا ہے جب ہوتی ہے خارش داد میں
شیخ کعبہ میں پھرا گر چڑھ کے خچر پر تو کیا
کھاد اٹھانی اس گدھے کی ساری تھی بنیاد میں
غیر کے تو زر کمانے پر جا اے جان جاں
نیاریا ہے خاکروبوں کی ہے وہ اولاد میں
دم میں بھردیتے ہیں وہ زخم دہان غار کو
مرہم زنگار کا چرکیںؔ اثر ہے کھاد میں
***
87
جو اختروں پہ ترے بن نگاہ کرتے ہیں
تو گو کی پھٹکیوں کا اشتباہ کرتے ہیں
منہ اپنا ٹھیکرے میں موت کے زرا دیکھیں
برابری تری کیا مہر و ماہ کرتے ہیں
جو غیر پادتے ہیں گوش دل سے سنتے ہیں آپ
خیال ادھر نہیں ہم آہ آہ کرتے ہیں
چمن میں اس کو املتاس کا سمجھتے ہیں دست
جو ہجر میں سوئے سو سن نگاہ کرتے ہیں
نہ بادہ خواری سے کر منع گو نہ کھا اے شیخ
تجھے ہے فکر عبث ہم گناہ کرتے ہیں
جو دھار موت کی اک مارتے ہیں ہم اے ابر
ابھی یہ کشتئ گردوں تباہ کرتے ہیں
نہیں پدوڑا کوئی تجھ سا دوسرا چرکیںؔ
پدوڑوں کا تجھے ہم بادشاہ کرتے ہیں
***
88
جاری رہتی ہے منی طاقت امساک نہیں
کون سے روز میانی مری ناپاک نہیں
سدے افیونیوں کے گھول کے چپکے پی لو
شیخ صاحب تمہیں گر نشۂ تریاک نہیں
موت کے حوض میں کس طرح نہ ڈوبے چرکیںؔ
میر مچھلی کی طرح سے تو وہ پیراک نہیں
***
89
حیض کے خون میں چرکینؔ ڈبایا مجھ کو
مری قسمت نے عجب رنگ دکھایا مجھ کو
گل آدم مری قسمت نے بنایا مجھ کو
ہاتھ کیا پاؤں کسی نے نہ لگایا مجھ کو
یاد دریا میں جو ہگنا ترا آیا مجھ کو
موج نے لینڈیوں کی طرح بہایا مجھ کو
گانڑ کے بوسہ کا جاناں سے ہوا تھا سائل
یہ دل آزردہ ہوا منھ نہ لگایا مجھ کو
عشق سفرے کا نہیں یار کے دل کو میرے
حوض میں گو کے نصیبوں نے گرایا مجھ کو
گو میں لتھڑے ہوئے کتے کی ہو تم شکل اے شیخ
آپ کا خرقۂ پشمینہ نہ بھایا مجھ کو
اٹھ گئے رشک سے یہ گانڑ پھٹی غیروں کی
مہربانی سے جو اس مہ نے بٹھایا مجھ کو
مہترانی کا اٹھانے میں ہوا ہے دم بند
ایک بھی دست جو کھل کر کبھی آیا مجھ کو
کوچۂ یار میں چرکینؔ پڑا کہتا ہے
گو سمجھ کر بھی کسی نے نہ اٹھایا مجھ کو
***
90
کوئی اتنا بھی نہ جائے طعن خاص و عام ہو
بزم میں پادے کوئی چرکیںؔ ہمارا نام ہو
میکدے میں ہو گزر مجھ سے اگھوری کا اگر
موت سے شیشہ ہو پر لبریز گو سے جام ہو
اک بت پستہ دہن کی چشم کا بیمار ہوں
میرے حقنے میں طبیبوں روغن بادام ہو
ہجر میں ساقی کرے مجھ کو جو تکلیف شراب
بول صفر اوی سے بدتر بادۂ گلفام ہو
پائخانے میں جو گزرے زفل شب گوں کا خیال
صبح کو ہگنے جو بیٹھوں ہگتے ہگتے شام ہو
چشم کی گرش دکھائے تجھ کو وہ دریائے حسن
حوض تیری گانڑ بھی اے گردش ایام ہو
ضبط آہ نیم شب سے بے_قراری کیا عجب
جب کہ ہو بند آدمی کا گوز بے_آرام ہو
چار دن چرکیںؔ کی ہو جس کے مکاں میں بود و باش
گو سے آلودہ در و دیوار سقف و بام ہو
***
91
حیران ہگ کے شیخ جی تم اس قدر نہ ہو
ڈھیلے سے گانڑ پونچھ لو پانی اگر نہ ہو
گو کھانا خالی دینا ہے قاتل کے دار کا
سینہ ہی کر سپر جو میسر سپر نہ ہو
رسوا کیا ہے نالے نے جس طرح غیر کو
بدنام پاد کر بھی کوئی اس قدر نہ ہو
حقنہ علاج آپ کا ٹھہرا ہے شیخ جی
یہ درد سر کرو تو کبھی درد سر نہ ہو
چرکیںؔ یہ اپنا قول ہے اسرارؔ کی طرح
ٹرٹر کرے وہ گانڑ کی جس کو خبر نہ ہو
***
92
قاتل اے شوخ نہ چرکیںؔ سے مردار کا ہو
گو سے آلودہ نہ پھلڑا تری تلوار کا ہو
ٹوکری گو کی ترازو کے لیے منگواؤں
تل بٹھانا مجھے منظور جو دلدار کا ہو
وقت پیشاب جو دھیان آئے ترے دانوں کا
موت کی بوند میں عالم در شہوار کا ہو
پادتے پادتے مرجائے وہ ہگ ہگ مارے
زخمی رستم بھی اگر یار کی تلوار کا ہو
آکے گھورے پہ کھڑا ہو جو مرا رشک بہار
گل آدم میں بھی نقشہ گل گلزار کا ہو
رنگ لائے جو بواسیر کا خوں سفرے پر
شیخ کی گانڑ نمونہ در گلزار کا ہو
اس کو اے ترک بجھا لا کے گدھے کا پیشاب
نہ بچے وہ کہ جو زخمی تری تلوار کا ہو
ہجر میں بستر غم پر ہے یہ اپنا احوال
جس طرح گھورے پہ عالم کسی مردار کا ہو
موجیں لینڈی کی طرح اس کو بہا لے جائیں
عزم چرکیںؔ کو جو اس پار سے اس پار کا ہو
***
93
کانچ کا رنگ جو اے گل نظر آیا مجھ کو
دیکھ کر جلنے لگی بلبل شیدا مجھ کو
بل بے_نامرادی مرا ہوگیا پیشاب خطا
کل بنڈیلے نے جوں ہی گھورے پہ گھورا مجھ کو
چنچنے گانڑ میں شاید کہ لگے ہیں ان کی
شیخ جی چھیڑتے ہیں آج جو بیجا مجھ کو
اس کے در ہی پہ ہگا میں نہ اٹھا پر نہ اٹھا
پائخانے کا ہوا رات جو خطرا مجھ کو
راہ مقعد سے مری خون بواسیر بہا
حیض کے خوں کا نظر آیا جو دھبا مجھ کو
گوز کی سن کے صدا گل کا ہے پیشاب خطا
ہگ دیا بس وہیں بلبل نے جو دیکھا مجھ کو
ایسی باتوں پہ کیا کرتا ہوں پیشاب اے شیخ
عشق چرکیںؔ کا نہ چھوٹے گا نہ بگوا مجھ کو
***
94
یوں نہ کرنا تھا فلک بے_سرو ساماں مجھ کو
گانڑ کھولے ہوئے پھروایا جو عریاں مجھ کو
دیکھ لوں گا چہ مبرز ہی کو پاخانے میں
یاد جب آئے گا وہ چاہ زنخداں مجھ کو
اے پری زاد صنم وہ ترا دیوانہ ہوں
ڈر سے ہگ ہگ دے اگر دیکھے پری خواں مجھ کو
گوز کی طرح در کوں سے نکل جاؤں گا
روک سکتا ہے کوئی آپ کا درباں مجھ کو
اے گل اندام ترے دست حنا بستہ کا
دیوے دھوکا نہ کہیں پنجۂ مرجاں مجھ کو
پادا پونی یہ کیا عشق کی بیماری نے
موت کی دھار ہوئی خنجر براں مجھ کو
بدتر از پشم سمجھتا ہوں میں اس کو چرکیںؔ
پیچ میں لائے گی کاکل پیچاں مجھ کو
***
95
اس کے پاخانے کا ملتا جو ٹھکانا مجھ کو
کرتا پامال نہ اس طرح زمانہ مجھ کو
خرچ کرتا اسے سنڈاسیوں کی دعوت میں
حوض پاخانے کا ملتا جو خزانہ مجھ کو
روندے دستوں کے پیادوں کی پڑی پھرتی ہیں
شب کو اس کوچے میں دشوار ہے جانا مجھ کو
آنولے ڈال کے بالوں میں شب وصل صنم
موت کے حوض میں لازم ہے نہانا مجھ کو
عشق ہے دل کو مرے اس بت سنگین دل کا
ہو نہ جائے مرض سنگ مثانہ مجھ کو
مال نعمت سے زیادہ اسے سمجھا میں نے
لید کا بھی جو میسر ہوا دانا مجھ کو
میں وہ مردود خلائق ہوں جہاں میں چرکیںؔ
نہ کیا تیر قضا نے بھی نشانہ مجھ کو
***
96
بے_خطر لازم ہے جانا اس بت مغرور کو
دست آیا آخری ہے عاشق رنجور کو
جب سے اس شیریں دہن کے گو پہ بیٹھیں مکھیاں
شہد ہگنے کا مزہ تب سے پڑا زنبور کو
یوں اچھلتے شیخ جی ہیں چنچنے لگتے ہیں جب
جس طرح لڑکے اچھالیں کاھ کے لنگور کو
پھسکیوں نے شور محشر کا کیا ہے گوز بند
گوز نے میرے اڑایا ہے صدائے صور کو
چشم بیمار صنم میں نکلی ہے گو ہانجنی
ٹوکا ہگتے دیکھ کر کیا عاشق رنجور کو
گو نہیں ہے گانڑ میں کووں کے کیا ہوں میزباں
دست آنے کو نہ دیں جلاب مجھ رنجور کو
کھڈی بنواتا ہے چرکیںؔ اینٹ گارے کے بدل
ٹوکرا گو کا اٹھانا ہوگا اب مزدور کو
***
97
گرسنے چرکینؔ تیرے پاد کی آواز کو
منہ چھپائے لے کے مطرب پردہ ہائے ساز کو
کاٹی انگلی پر نہیں وہ موتتا کافر ذرا
زخم دل دکھلاؤں کیا میں اس بت طناز کو
پیٹ کا ہلکا ہے اے جاں کہہ نہ دے ہر ایک سے
غیر کونی سے نہ کہنا دل کے ہرگز راز کو
طائر بزدل وہ ہوں میں صید قاہ عشق میں
بیٹ سے اکثر بھرا ہے چنگل شہباز کو
رشک سے کبک دری نے ہگ دیا گلشن کے بیچ
دیکھ کر اے گل تری رفتار کے انداز کو
موتنے تک کا مرے احوال جاناں سے کہا
گو میں نہلاؤں کہیں پاؤں اگر غماز کو
سر سوا گندھار کے اس میں نہ بولے پھر کبھی
بزم میں گر بیٹھ کر چرکیںؔ بجاؤں ساز کو
***
98
دیکھ کر بیت الخلا میں اس بت طناز کو
نالۂ ناقوس سمجھا گوز کی آواز کو
فائدہ دنیا میں گو کھانے سے کیا اے قوم لوط
کیا ملیں گے خلد میں غلمان لونڈے باز کو
سب سے کہہ دے گا یہ تیرے پادنے تک کا بھیحال
جا نہ دے بیت الخلا میں اے صنم غماز کو
پادتا ہے تال سر سے وہ بت مطرب پسر
تھاپ طبلے کی سمجھئے گوز کی آواز کو
غیر ہے گندہ بغل کیوں ہم بغل ہوتا ہے تو
گو میں کیوں ملتا ہے اے گل چنپئی پشواز کو
رہ تو سفلی کی نجاست میں زیادہ گو نہ کھا
شیخ تو کیا عالم علوی کے سمجھے راز کو
کب تلک لتھڑا رہے گا اپنی طینت پاکھ رکھ
دل سے چرکیںؔ دور کر دنیا کی حرص و آز کو
***
99
کیوں کیا ناخوش سنا کر نالۂ جاں کاہ کو
پاد کر چرکیںؔ رجھایا تھا بت دلخواہ کو
پاٹ دیتے چاہ بابل ہگ کے اے زہرہ جبیں
گر فرشتے دیکھتے تیرے ذقن کی چاہ کو
گانڑ میں کیا نسر طائر کے پر سرخاب ہے
خط مرا لے جا کے دے آیا نہ جو اس ماہ کو
کیجئے پیشاب اگر تو دھار جاتی ہے وہاں
دور سمجھے غیر ہے کوئے بت گمراہ کو
گانڑ میں بتی چراغ مے کی رکھ لو شیخ جی
تیرہ شب میں تانہ بھولو میکدے کی راہ کو
گھر میں اے چرکینؔ کب تک گوز مارا کیجئے
دیکھئے اب جا کے گوگا پیر کی درگاہ کو
***
100
خوں حیض کا سمجھتے ہیں تجھ بن شراب کو
سور کا گوشت جانتے ہیں ہم کباب کو
رندوں کے ساتھ پیجئے مے شیخ جی نہ آپ
جھگڑا پڑے گا گانڑ کلیجے جناب کو
گوبر کو پی کے قاضئ بے_دین ہو برہمن
گر دیکھ پائے اس بت مست شراب کو
گویہ توے پہ گانڑ بھی رگڑے نہ کر یقیں
دیتا ہے نان خشک یہ روز آفتاب کو
چرکیںؔ نہ مانگ مطبخ چرخ دنی سے تو
ٹکڑا تو کیا نہ پائے گا خالی جواب کو
***
خس و خاشاک دیا چرخ نے بستر کے عوض
مزبلے کی یہ زمیں ملک میں ہہے گھر کے عوض
او پری رو تیری مقعد کا وہ دیوانہ ہوں
خشت پاخانہ لگے قبر میں پتھر کے عوض
کون سے غیرت مہتاب کا پاخانہ ہے
پھٹکیاں گو کی نظر آتی ہیں اختر کے عوض
گوہا چھی چھی سے نہ مطلب نہ الجھنے سے غرض
خیز کے ان سے چلن چلتے ہیں ہم شر کے عوض
شیخ صاحب کو نہیں پاس حلال اور حرام
سدے پاخانے میں کھا جاتے ہیں کولر کے عوض
پائخانے کاجو فضلہ ہے اٹھانا منظور
شیخ صاحب کو بلا لیجئے اب خر کے عوض
گرمئ نزع میں چرکیںؔ جو مجھے حاصل ہو
موت اس گل کا پیوں شربت شکر کے عوض
***
52
چھوڑ او پردہ نشیں مردم بازار سے ربط
گو میں نہلائے گا اک روز یہ اغیار سے ربط
غنچۂ مقعد رشک گل تر جب دیکھے
نہ رہے بلبل ناشاد کو گلزار سے ربط
گانڑ پھاڑے گی یہ اغلام کی صحبت اک دن
دل کو رہتا ہے بہت مقعد دلدار سے ربط
گو سے بدتر ہے مجھے ذائقہ قند و نبات
جب سے رہتا ہے ترے لعل شکر بار سے ربط
میکدے سے نہ غرض مجھ کو نہ میخانے سے
مجھ کو چرکیں ہے شب و روز دریار سے ربط
***
53
اتنا بھی چھوڑ دیں گے جو ہم بے_حیا لحاظ
پھر پادتا پھرے گا یہ سب آپ کا لحاظ
ہگنے میں ان کے پاس گئے ہم تو یہ کہا
باقی رہا نہ تجھ میں کچھ او بے_حیا لحاظ
سدے پھنسے ہیں قبض کی شدت ہے گانڑ پھاڑ
اے شیخ جی عمل کے ہے لینے میں کیا لحاظ
جھگڑا پڑے گا گانڑ کلیجے کیا جو حسن
کھودیں گے ایک روز یہ ناز و ادا لحاظ
کچھ گانڑ کی خبر نہ بدن کا رہا ہے ہوش
کپڑے اتارے پھرتے ہو کیا یہ کیا لحاظ
پاخانہ وہ جگہ ہے کہ ہیں ایک حال پر
اس میں ہو بے_لحاظ کوئی یا کہ با لحاظ
چرکیںؔ سے منہ چھپاؤ گے بیت الخلا میں کیا
بے_پردہ ہوگئے تو کہاں پھر رہا لحاظ
***
54
ساغر چرتی ہے ساقی جب یہاں آتی ہے شمع
تیرے رخ کے سامنے پروانہ بن جاتی ہے شمع
اس پری نے واہ نام حسن کیا روشن کیا
مقعد دیوانۂ عریاں میں جلواتی ہے شمع
گوز ہے غیر نجس کا یا کہ آندھی روگ ہے
محفل رشک چمن میں گل جو جاتی ہے شمع
آئی کس مہتر پسر کے ساعد سیمیں کی یاد
بزم گھورا لینڈ کی صورت نظر آتی ہے شمع
دیکھ کر وہ ساق سیمیں گانڑ میں گھس جائے گی
کیا صباحت کی حقیقت ہے جو اتراتی ہے شمع
گانڑ دھونے نہر پر جاتا ہے جب وہ شعلہ رو
موج ہر اک اس کے جلوے سے نظر آتی ہے شمع
اس قدر وحشت فزا اپنا سیہ خانہ ہوا
جان کے خطرے سے اے چرکینؔ گھبراتی ہے شمع
***
55
عمر چرکیںؔ کا ہوا گل او بت پر فن چراغ
کھڈیوں میں مہتروں کی گھی کے ہیں روشن چراغ
کیا کریں چوں و چرا کوئے دیار حسن میں
اے پری رو ہے ترے پیشاب سے رشن چراغ
شب کو ہگنے کے لئے آیا جو وہ رشک قمر
پائخانے کا نظر آیا ہر اک روزن چراغ
جب اندھیرے میں وہ آئے پھٹ گئی دہشت سے گانڑ
مفلسی کے ہاتھ سے رہتا ہے بے_روغن چراغ
وہ نجس ہوں پھول کے بدلے گل آدم چڑھے
چاہئے گوبر کا اے چرکیںؔ سر مدفن چراغ
***
56
جب سے گئے ہیں کوچۂ دلدار کی طرف
چرکیں نہ جا پھرے کبھی گلزار کی طرف
مہتر پسر کے گوہر دنداں جو ہاتھ آئیں
دیکھوں کبھی نہ موتیوں کے ہار کی طرف
میلا ہے گوگا پیر کا چھڑیوں کی سیر ہے
چلئے نواز گنج کے بازار کی طرف
جوش جنوں میں ہم کو یہ پاس ادب رہا
موتے نہ او پری تری دیوار کی طرف
غیروں سے اور یار سے گہرا ہے آب دست
اس حال میں وہ کیا ہو گنہگار کی طرف
دہشت سے پھٹ کے حوض ہو ترک فلک کی گانڑ
دیکھے جو تیرے خنجر خونخوار کی طرف
چرکیںؔ کو مزبلے سے وہ ہمراہ لے چلے
جائے صبا جو محفل دلدار کی طرف
***
57
مژدۂ وصل آئے جائے فراق
ہینگ ہگتے ہیں مبتلائے فراق
ہگ چکے خون عاشق ناشاد
اب کوئی اور رنگ لائے فراق
پوتڑے ابتدا میں بچھتے ہیں
دیکھئے کیا ہو انتہائے فراق
تیرے بیت الخلا میں رہنے دے
پا بگل وائے جو رضائے فراق
وصل سے گانڑ وہ چراتے ہیں
کیوں نہ بڑھ جائے اب جفائے فراق
غیر سے گانڑ بخیا ہے
ان کو ہم سے نہ کیوں خوش آئے فراق
اس نے سیکھے اگھوریوں کے چلن
کیوں نہ چرکیںؔ کو آ کے کھائے فراق
***
58
دیکھتا ہوں خال سے رخسار جاناں کا تپاک
بڑھ گیا ہندو سے اے چرکیںؔ مسلماں کا تپاک
گوہا چھی چھی ہوگی اک دن گو ہے گہرا آبدست
مدعی کو گو میں نہلائے گا جاناں کا تپاک
فاتحہ گو گل جلا کے دیں گے گوگا پیر کا
کم ہو غیروں سے اگر اس آفت جاں کا تپاک
دشت وحشت خیز سے کوسوں کے پلے ہوگئے
اب کہاں باقی رہا وہ جیب و داماں کا تپاک
آ کے پاخانے میں کیسے بے_حیا بنتے ہیں لوگ
پائجامے سے رہے کیا جسم عریاں کا تپاک
گھیرے ہی رہتے ہیں اغیار نجس اس ترک کو
لینڈیوں سے بڑھ گیا شیر نیستاں کا تپاک
موتنے میں تم جلی پھسکی جو کوئی چھوڑ دو
برق سوزاں سے نہ چھوٹے ابر باراں کا تپاک
***
59
جم جائے جب کہ پاد میں اس دل ربا کا رنگ
اڑ جائے صاف بلبل رنگیں نوا کا رنگ
سمجھوں عروس باغ کے ہی حیض کا لہو
جس دم دکھائے ہاتھ میں وہ گل حنا کا رنگ
جب سے بڑھا ہے شیخ کا مہتر پسر سے ربط
بدلا ہے گوہا چھی چھی سے ان کی قبا کا رنگ
پاخانہ اس کے فیض سے رشگ چمن بنا
گندہ بہار میں بھی نہ بدلا ہوا کا رنگ
اس زعفراں لباس کے ہگنے میں یاد ہے
سدوں میں کیا عجب ہوا گر کہربا کا رنگ
ہر دست میں خلال کی صورت نظر پڑے
جم جائے گنجئے میں جو اس بے_وفا کا رنگ
اس گل بدن کے عشق میں چرکیںؔ بھروں وہ آہ
اڑ جائے مثل گوز چمن کی ہوا کا رنگ
***
60
نیم بسمل نہ اسے چھوڑ کے گھر جا قاتل
رقص چرکیںؔ کا ذرا دیکھ تماشا قاتل
موت کی دھار سے بدتر میں سمجھتا ہوں اسے
کس کو دھمکاتا ہے چمکاکے دودھارا قاتل
سہمگیں ہوگئی ایسی مری صورت دم نزع
ہگ دے دہشت سے جو دیکھے مرا لاشا قاتل
نین متنا کہیں مشہور نہ ہوجائے تو
میرے لاشے پہ نہ رو بیٹھ کے اتنا قاتل
قتل کی غیر نجس کے ہے اگر دل میں امنگ
زہر قاتل میں بجھا اپنا تو تیغا قاتل
سست پر دست چلے آتے ہیں لے جلد خبر
تیرے بیمار کا اب حال ہے پتلا قاتل
نزع کے وقت تو یہ گانڑ چرانا ہے عبث
ایک دم اور ٹھہر اتنا نہ گھبرا قاتل
دست بردار ہو ان باتوں سے آ جانے دے
قتل چرکیںؔ کو نہ کر گو نہ اچھلوا قاتل
***
61
ہگے یہ دیتے ہیں ہر آن کے عتاب سے ہم
کہ چوں بھی کر نہیں سکتے کبھی جناب سے ہم
عمل ہو اپنا جو اخباریوں کے مذہب پر
تو دھوکے گانڑ کریں خشک آفتاب سے ہم
بتنگ آئے ہیں دنیا کی گو ہا چھی چھی سے
ہو قبض روح نجس چھوٹیں اس عذاب سے ہم
فلک ہو طشت ستارے ہوں پھٹکیاں گو کی
جو گو کے چھوت کو نسبت دیں ماہتاب سے ہم
ہو اس کی کھڈی میں صرف اپنے کالبد کی خاک
یہ چاہتے ہیں زمانے کے انقلاب سے ہم
ہر اک کے سامنے تم گانڑ کھولے پھرتے ہو
تمہیں حیا نہیں مرتے ہیں اس حجاب سے ہم
لگے کا دل کبھی چرکیں تو صف جاناں میں
کہیں گے شعر کئی اور آب و تاب سے ہم
***
62
ہے دل کو الفت زلف بتاں معلوم
مروڑے اٹھتے ہیں کیوں ہر زماں نہیں معلوم
کیا ہے گو بھرے سفرے کا وصف کس نے بیاں
غلیظ کیوں ہے ہماری زباں نہیں معلوم
بنا ہے چرخ بریں طشت کہکشاں کھڈی
ہگے گا کون سا شوکت نشاں نہیں معلوم
ہر ایک آؤ کی پھٹکی ہے ریزۂ الماس
تمہاری گانڑ ہے ہیرے کی کاں نہیں معلوم
پئیں گے شیخ جی عمامہ بیچ کر مئے ناب
اسی میں خیر ہے مغ کی دکاں نہیں معلوم
ہوئی ہے زلف کے سودے میں اس قدر پیچش
امید زیست مجھے مہرباں نہیں معلوم
اچک کے گانڑ میں کردے جو شیخ کی انگلی
یہ شوخیاں تجھے اے جان جاں نہیں معلوم
ہمارے پاس بناتا ہے گھر جو اے منعم
ہمارے ہگنے کی کیا داستاں نہیں معلوم
ہمیشہ رہتے ہو بیت الخلا میں تم چرکیںؔ
جہاں میں کس کو تمہارا مکاں نہیں معلوم
***
63
تمہارے ہجر نے صالح کیا جناب ہمیں
عمل کے دست سے بدتر ہے اب شراب ہمیں
نہ پایا اس سے کبھی اپنی گفتگو کا جواب
دہان یار نظر آیا لا جواب ہمیں
دماغ کو یہ خوش آئی ہے اس کے موت کی بو
کبھی نہ سونگھیں اگر دے کوئی گلاب ہمیں
سڑی کی طرح گو تھا پتے پھریں کب تک
جمال اپنا دکھا او پری شتاب ہمیں
کبھی پلید کبھی گہیل اور کبھی بھڑمل
ہر ایک آن نئے ملتے ہیں خطاب ہمیں
ہوئے ہیں محو کچھ ایسے نہیں ہے گانڑ کا ہوش
دکھا کے آپ نے مقعد کیا خراب ہمیں
مروڑے پیٹ میں اٹھیں نہ کس طرح چرکیںؔ
کسی کی زلف کا یاد آیا پیچ و تاب ہمیں
***
64
کپڑے چرکینؔ جب بدلتے ہیں
عطر کے بدلے موت ملتے ہیں
کون کرتا ہے گانڑ میں انگلی
آپ جو ہر گھڑی اچھلتے ہیں
نہیں کہتے ہیں غیر ہم کو برا
اپنے منہ سے یہ گو اگلتے ہیں
کس شجر کے ثمر ہیں سیب ذقن
نہ تو سڑتے ہیں یہ نہ گلتے ہیں
جب وہ کرتے ہیں غیر سے گرمی
اس گھڑی اپنے خصئے جلتے ہیں
چلتی ہے قیس و کوہکن کی گانڑ
جب ہمارے وہ ساتھ چلتے ہیں
بزم جاناں میں پادتا ہے جو غیر
ہر طرف سے اشارے چلتے ہیں
تیرے بیمار کے تلے غم خوار
پوتڑے دم بدم بدلتے ہیں
طبع چرکیںؔ بھی طرفہ سانچہ ہے
گو کے مضمون جس میں ڈھلتے ہیں
***
65
سگ دنیا جو ہیں کب جود و سخا رکھتے ہیں
گو بھی بلی کی طرح سے یہ چھپا رکھتے ہیں
کوچۂ زلف میں جو بیٹھ کے پیشاب کریں
ایسے ہم لوگ کہاں بخت رسا رکھتے ہیں
غیر گو کھاتے ہیں جو کرتے ہیں غیبت میری
منہ وہ سنڈ اس سے وہ چند سڑا رکھتے ہیں
ہم پدا دیں گے تجھے چو و چرا چھوڑ دے غیر
سن پدوڑے تجھے یہ بات سنا رکھتے ہیں
نیچے کے سر سے نوا سنج ہیں مرغان چمن
پاد پاد اس گل خنداں کو رجھا رکھتے ہیں
گوہا چھی چھی کے سوا کچھ نہیں حاصل اس سے
گو وہ کھاتے ہیں جو امید وفا رکھتے ہیں
شیخ جی کھاتے ہیں افیون کی گولی پیچھے
پہلے صابون کے شافوں کو بنا رکھتے ہیں
دے کے دل ان کو پڑا گانڑ کلیجے جھگڑا
یہ بت ہند عجب ناز ادا رکھتے ہیں
اور بھی خوبئ تدبیر سے ہوتا ہے قبض
کوں میں دست آنے کی جب غیر دوا رکھتے ہیں
گوز کی بو سے معطر رہے چرکیںؔ کا دماغ
تجھ سے امید یہ اے باد صبا رکھتے ہیں
***
66
دم گریہ بدر رو یار کی جب یاد کرتے ہیں
مرے اشکوں کے ریلے نالوں کی امداد کرتے ہیں
سمجھتا ہے اسے گوز شتربے درد محل میں
پس جمازہ گر مثل جرس فریاد کرتے ہیں
رقیبوں سے تو قار ورہ ملا ہے اس قدر ان کا
مصاحب جان کر بیت الخلا میں یاد کرتے ہیں
نجس ہے بیٹ مرغان حرم کی یا کہ پاکیزہ
سنیں اے شیخ صاحب آپ کیا ارشاد کرتے ہیں
اٹھائے گو مرا کیوں کر نہ مجنوں دشت وحشت میں
سعادت منڈلڑ کے خدمت استاد کرتے ہیں
طلب بیجا نے ان کو کردیا مجبوریوں ہم کو
چلے جاتے ہیں ہگتے پادتے جب یاد کرتے ہیں
بدل ڈورو کے چرکیںؔ بیٹھ کر چوتڑ بجاتا ہے
چھڑی جس وقت گوگا پیر کے استاد کرتے ہیں
***
67
بھری جو ساقی نے چرکیںؔ شراب شیشے میں
دکھائی کیفیت آفتاب شیشے میں
نہیں ہے لینڈی کا اس بت کی میرے دل میں خیال
پری اتاری ہے یہ لاجواب شیشے میں
طبیب دیکھ کے اس رشک گل کا قار ورہ
سمجھتے ہیں کہ بھرا ہے گلاب شیشے میں
ملایا ساقی نے شاید ہے اس میں پادا لون
ہوئی ہے موت سے بدتر شراب شیشے میں
جو چشم مست کو اس بت کی دیکھے اے چرکیںؔ
تو دل ہو دختر رز کا کباب شیشے میں
***
68
یار کا بیت الخلا ہے ہفت باب آسماں
طشت ہے مہ آفتاب آفتاب آسماں
جس زمیں پر دھار مارے طفل اشک اپنا کبھی
موت کے ریلے میں بہ جائے سحاب آسماں
جلوہ فرما ہو اگر وہ ماہ تو پرویں ہو کھاد
ہو زمیں گھورے کی بھی گردوں جواب آسماں
طفل گردوں کو چھٹے ہیں دست دیکھ اس ماہ کو
پوتڑا گو کا ہے یہ نیلی نقاب آسماں
شیخ جی اس پر جو موتیں رند پی کر آفتاب
ریش حضرت ہو شعاع آفتاب آسماں
گو کا کیڑا نسر طائر ہے ہمیں اے ماہ رو
چھوت گو کا ہے بعینہ ماہتاب آسماں
وصف اے چرکیںؔ لکھا کس ماہ کے پاخانے کا
سات بیتیں ہیں جواب ہف باب آسماں
***
69
باغ میں جاوے تو شیخ اب رند ہیں اس تاک میں
گانڑ پھاڑیں گے گر آیا دار بست تاک میں
پیشتر گو کھاتا ہے کوا سیانا ہے مثل
غیر اغلامی پڑا سڑتا ہے اب گو زاک میں
گانڑ کے بدلے عبث دیتا ہے جی اے پاسباں
سد رہ میرا نہ ہو کوئے بت سفاک میں
خوب سا پتلا ہگے گا شیخ رندو چہل ہے
دو ملا حب السلاطیں حبۂ تریاک میں
یار بن ہر گل گل آدم ہے اور گھورا چمن
گو کی بو آتی ہے اے بلبل ہماری ناک میں
ہے متوڑا طفل اشک غیر دامن میں نہ لے
موت بھر جائے گا پاکیزہ تری پوشاک میں
خوب سا گو تاکہ اچھلے شہر میں ہولی کے دن
چہل یہ آئی خیال کافر بے_باک میں
غیر کی جو گانڑ میں لکڑی گئی بھس میں گئی
گو کی ہانڈی پھینکی قصر عاشق غم ناک میں
پادا پونی سا ہے چرکیںؔ ناز سے بولا وہ شوخ
دب گیا ہوگا وہ گھورے کے خس و خاشاک میں
***
70
کام تیرا غیر کونی بزم جاناں میں نہیں
لوطئ نامرد کی جا باغ رضواں میں نہیں
موت کے کہتا ہے ہم سے اپنے کوچے میں وہ گل
اس روش کی آپ جو کوئی گلستاں میں نہیں
غرہ کرنا گو ہی کھانا ہے برابر جان تو
ہے سگ ناپاک گر اخلاق انساں میں نہیں
تیرے دیوانے کے ڈر سے قیس کی پھٹتی ہے گانڑ
بھول کر بھی پاؤں رکھتا وہ بیاباں میں نہیں
یار بن گھورا نظر آتا ہے سب صحن چمن
میرے آگے جھانٹیں ہیں سنبل گلستاں میں نہیں
اس رخ روشن کے آگے صاف گوبر کا ہے چھوت
نام کو بھی نور باقی مہر تاباں میں نہیں
کوچے میں اس برق وش کے تجھ کو لے جائے بہا
اتنی بھی توفیق چرکیںؔ آب باراں میں نہیں
***
71
چرکیںؔ غرض نہیں گل و گلزار سے ہمیں
مطلب ہے پائخانۂ دلدار سے ہمیں
بھر مل کبھی پلید کبھی اور لر کبھی
لاکھوں خطاب ملتے ہیں سرکار سے ہمیں
کرتا ہوں عرض حال تو کہتا ہے گو نہ کھا
ہوتا ہے درد سر تری گفتار سے ہمیں
گو دے سمیت جل کے ہو چونا ہر استخوان
امید ہے یہ آہ شرر بار سے ہمیں
جل جل کے گو ہو خاک تو کھانا حلال ہے
فتویٰ ملا ہے شیخ سے ابرار سے ہمیں
محفل میں اس کی گوز جو بھڑ سے نکل گیا
کس درجہ انفعال ہوا یار سے ہمیں
چرکیںؔ بندھیں گے گو کے جو مضمون اس قدر
آنے لگے گی قے ترے اشعار سے ہمیں
***
72
بوسہ عزیز ان کا جو یہ خوب رو کریں
سیب ذقن دھرے دھرے سڑجائیں بو کریں
دیوانے اس کے چاک گریباں کو سی چکے
پھٹ جائے گانڑ بھی تو نہ ہرگز رفو کریں
اک پشم خایہ اس کو سمجھتے ہیں یہ صنم
کیا وصف ان کے بالوں کا ہم مو بمو کریں
لائی ہے رنگ گردش ایام سے بہار
لبریز خون حیض سے ساقی سبو کریں
ہگ ہگ دے پاد پاد دے وہ مارے بوجھ کے
میرا جو طوق قیس کے زیب گلو کریں
جو لوگ شیفتہ ہیں ترے سر وقد کے یار
پیشاب بھی نہ جا کے لب آب جو کریں
سائل کو شہد لب کے وہ کہتا ہے گو نہ کھا
کس منہ سے بوسہ لینے کی ہم آرزو کریں
عاشق جو ہے تو ناصحو کے منہ کو گانڑ جان
گوز شتر سمجھ جو یہ کچھ گفتگو کریں
پانی جو آپ دست کا اس بت کے ہاتھ آئے
چرکیںؔ سڑی ہوں شیخ جی اس سے وضو کریں
***
73
موت کی تھالی سے کچھ کم ساقیا ساغر نہیں
خون سور کا ہے تجھ بن بادہ احمر نہیں
کھانا پینا موتنا ہگنا نہ کیوں کر بند ہو
زیست کا جس سے مزہ تھا پاس وہ دلبر نہیں
غیر کو لے تو نہ ہمراہ رکاب اے شہسوار
لید اٹھوانے کے قابل بھی یہ گیدی خر نہیں
گو میں جو ڈالے گا ڈھیلا چھینٹے کھائے گا ضرور
شیخ صاحب بحثنا رندوں سے کچھ بہتر نہیں
جس سے پوجا کے لئے دیتا ہے وہ چوکا صنم
ہم سمجھتے ہیں اسے چندن ہے وہ گوبر نہیں
گومتی میں غیر کو نہلانہ ساتھ اے بحر حسن
کم نجس ہے وہ سگ ناپاک جب تک تر نہیں
کیا خطا چرکیںؔ کی ثابت کی جو کہتے ہو برا
ہر گھڑی کی گوہا چھی چھی جان من بہتر نہیں
***
74
گلستان دہر میں تجھ سا کوئی گل رو نہیں
تو وہ غنچہ لب ہے جس کے پاد میں بدبو نہیں
میں وہ مجنون زخود رفتہ ہو نظروں میں مری
خال رخسار پری ہے پشکل آہو نہیں
بزم جاناں میں نکل جاتا ہے رک سکتا نہیں
کیا کروں ناچار ہوں کچھ گوز پر قابو نہیں
خانقہ میں پادتا پھرتا ہے بدہضمی سے شیخ
اور کہتا ہے بہت کھانے کی مجھ کو خو نہیں
جانتا ہے آپ کو گھورے سے بھی ناچیز تر
سچ تو ہے چرکینؔ سا کوئی بھی گو در گو نہیں
***
75
پڑا رہ تو بھی اے چرکینؔ جاکر پائخانے میں
وہ بت آئے گا ہگنے کو مقرر پائخانے میں
چلی آتی ہے بو عنبر کی ہر اک گو کی لینڈی سے
کھلی کس گل کی ہے زلف معنبر پائخانے میں
نصیب دشمناں انسان کو ہوتی ہے بیماری
نہ جایا کیجئے صاحب کھلے سر پائخانے میں
ترے پیشاب کی ہے دھار یا کہ ابر نیساں ہے
نظر آتی ہیں بوندیں مثل گوہر پائخانے میں
ہوا ہے پائخانہ فیض خون حیض سے گلشن
بنی ہیں لینڈیاں رشک گل تر پائخانے میں
حیا کو کرکے رخصت کھول دیتے ہیں وہ پاجامہ
عنایات و کرم ہوتے ہیں ہم پر پائخانے میں
کریں نظارہ اس کے حسن کا ہر لحظہ اے چرکیںؔ
اگر رہنے دے چرخ سفلہ پرور پائخانے میں
***
76
ہگ دے اگرچہ وہ بت بے_پیر ہاتھ میں
لے گو کا بوسہ عاشق دلگیر ہاتھ میں
اس دھج سے شیخ پھرتے ہیں گلیوں میں شہر کی
بوتل بغل میں مے کی ہے خنزیر ہاتھ میں
ازبسکہ اس کی زلف کا ہگنے میں بھی ہے دھیان
پاخانہ میں ہے پاؤں کی زنجیر ہاتھ میں
کیا حال مجھ ہگوڑے کا ہمدم ہو پوچھتے
گہیل پری کی رہتی ہے تصویر ہاتھ میں
رستم کا خوف سے وہیں پیشاب ہو خطا
عریاں جو دیکھے یار کی شمشیر ہاتھ میں
خوف صنم سے جو یہ زمیندار ہگتے ہیں
دیتے ہیں پیشگی زر جاگیر ہاتھ میں
رکھتا ہوں گو کی طرح سے اس واسطے چھپا
دیکھے نہ غیر تا تری تصویر ہاتھ میں
چرکینؔ شوق زیب ہے پاخانے میں اسے
ہگتے میں لی ہے زلف گرہ گیر ہاتھ میں
***
77
رندو نہ لاؤ شیخ کی شیخی خیال میں
خصلت ہے گو کے کھانے کی اس سگ خصال میں
پادے اگر وہ غنچہ دہن تو ملہار ہو
کیا لائے بلبلوں کا ترانہ خیال میں
بیت الخلا میں یار نے کی دعوت رقیب
یہ جانو کچھ ضرور ہی کالا ہے دال میں
بلبل تو جانتی ہی نہی پیر کی بھی گانڑ
بو سیب کی ہے یار کے پھولوں سے گال میں
داڑھی کو اپنی شیخ تو پیشاب سے منڈا
آزاد رند پھنستے ہیں کب ایسے جال میں
ان دھوئی دھائی آنکھوں کے آگے غلیظ ہے
چیپڑ بھرا تمام ہے چشم غزال میں
کھلواؤ تارقیب پدوڑا نہال ہو
کوئل کے پادے آم پڑے ہوں جو پال میں
چرکیںؔ نے جب سے سونگھی ہے وہ زلف مشک بیز
عنبر کو تب سے باندھا ہے گو کی مثال میں
***
78
کالک لگے نہ ریش سفید جناب میں
اے شیخ جی ملائیے نورا خصاب میں
ہے محتسب حرام کا تکال حلال خور
دو موت کو ملا کے شراب و کباب میں
افسانہ میرے دیدۂ گریاں کا سنتے ہیں
ڈر ڈر کے موت دیتے ہیں اغیار خواب میں
رندو خراب فرش کرے گا ہگوڑا شیخ
اچھلے گا گو بلاؤ نہ بزم شراب میں
بولا گیا ہے قبض کے مارے رقیب اگر
حقنہ کریں ملا کے دھتورا گلاب میں
پیشاب کرکے ٹھیکرے میں دیکھے اپنا منہ
اس رخ سا ہے فروغ کہاں آفتاب میں
چرکیںؔ عدم کی راہ لے کب تک لڑے گا یاں
عالم ہے مزبلے کا جہان خراب میں
***
79
کیا دور ہے کہ اسفل اعلی کو مارتے ہیں
شیروں کی طرح لینڈی کتے ڈکارتے ہیں
عمامہ چل کے سر سے زاہد کے مارتے ہیں
اس گو کے ٹوکرے کو سر سے اتارتے ہیں
پشموں سے بھی زیادہ بے_قدر ہوں گے اک دن
گو کھاتے ہیں جو اپنی زلفیں سنوارتے ہیں
شدت یہ قبض کی ہے بے_تاب ہو کے ہردم
کھڈی پہ شیخ صاحب سردے دے مارتے ہیں
اس گل کی سوکھی لینڈی جب دیکھتی ہیں بلبل
گل برگ تر کو اس پر صدقے اتارتے ہیں
طرفہ یہ ماجرا ہے بیت الخلا کے اندر
لے لے کے نام میرا ہردم پکارتے ہیں
پریاں ہیں کیا بلائیں افسون پڑھ کے چرکیںؔ
شیشے میں دیو کو بھی انساں اتارتے ہیں
***
80
بولا کہ ملیدا مجھے کھلوائے گا کون
مرگیا آج گانڑ کو مروائے گا کون
اٹھ گیا گانڑ مرانے کا مزہ دنیا سے
گانڈو اس طرح کا پھر ہاتھ میر آئے گا کون
ساتھ ہر دھکے کے اب کون کرے گا نخرے
جلد ہونا نہ کہیں یہ مجھے فرمائے گا کون
ہینجڑے جتنے ہیں وہ ہوویں گے اب کس کے مرید
پیر اب گانڈوؤں کا شہر میں کہلائے گا کون
ہوویں گے آن کے اب کس کے زنانے شاگرد
ہائے اب لینڈی لڑانا انہیں سکھلائے گا کون
کون اب چوسے گا آلت مرا منہ میں لے کر
کھول پاجامے کو آگے مرے پڑجائے گا کون
کانی کوڑی بھی نہیں گھر میں بڑی فکر ہے یہ
لاش اس بھڑوے کی یاں آنکے اٹھواے گا کون
خارجی جتنے ہیں ان کونیوں پہ لعنت ہے
کر نہ خطرہ ارے چرکیںؔ تجھے کھا جائے گا کون
***
81
قبلہ رو میخانہ ہے میں موتنے جاؤں کہاں
گر نہ موتوں شیخ کے منہ میں تو پھر موتوں کہاں
آگے ان آنکھوں کی گردش کے پھرے گی پادتی
ہمسری آئی ہے کرنے گردش گردوں کہاں
لیاسے بھی گانڑ میں اپنے گھسیڑ اے سوز عشق
خانۂ دل جل گیا ہے نقد دل رکھوں گا کہاں
باولی قمری ہے سوجھے موت کی کیا دھار سے
سرو گندا سا کہاں اس کا قد موزوں کہاں
لب لگا کر غیر میں انگلی کروں چوتڑکو پھیر
قبض میں شافے کی خاطر ڈھونڈے گا صابوں کہاں
مار گیسوئے صنم کی ہے بجا ہم سے سکیڑ
گانڑ میں گو بھی نہیں ہے دولت قاروں کہاں
نیاریا بن کر نہیں آیا چرکیںؔ تنگ ہوں
زر کمانے رفع حاجت کے لیے جاؤں کہاں
***
82
آجاتی ہے طاقت ترے بیمار کے تن میں
گو گھول کے تیرا جو چواتے ہیں دہن میں
ہگتا ہے گل اندام مرا جاکے چمن میں
گھورے پہ نہ کھڈی میں گڑھیا میں نہ بن میں
کہتا ہے وہ گل گانڑ میں گل میخ چلادوں
بلبل کوئی ہگ دے مرے آگے جو چمن میں
جھوٹے تو کیا کرتے ہو عشاق سے وعدے
بو گو کی نہ آنے لگے غنچے سے دہن میں
اسہال کی شدت سے موا تیرا جو بیمار
غسال کو خطرہ ہے کہ ہگ دے نہ کفن میں
اے زہرہ جبیں جھانٹوں میں تیری جو چمک ہے
یہ روشنی دیکھی نہیں سورج کی کرن میں
ہر بیت جو پر ہے مری مضمون سے گو کے
مہتر مجھے کہتا ہے ہر اک ملک سخن میں
لازم ہے کہ چرکینؔ اگر مائیو بیٹھے
بٹنے کے عوض گو کو ملیں اس کے بدن میں
***
83
دیکھتا مہتر پسر کی ہوں میں صورت خواب میں
گو اچھلنے کی رہا کرتی ہے صحبت خواب میں
کس کے سفرے کا رہا کرتا ہے بیداری میں دھیان
تیز رہتا ہے مرا ہر شب کو آلت خواب میں
گانڑ ملنے میں چراتے ہو اگر ظاہر میں تم
منہ تو دکھلا ایک دن اوبے مروت خواب میں
کونسی گوہیل پری کے عشق میں دیوانہ ہوں
رات بھر مہتر دکھاتے ہیں نجاست حواب میں
سامنے ردوں کے چوں کرتا نہیں ظاہر میں شیخ
بن کے شیطاں اپنی دکھلاتا ہے صورت خواب میں
ہینگ ہگتا ہوں شب فرقت میں میں آٹھوں پہر
ایک شب تو آ صنم بہر عیادت خواب میں
سر پہ میں چرکیںؔ اسے رکھوں گل تر کی طرح
خشک لینڈی بی کرے گر وہ عنایت خواب میں
***
84
دست آتے ہیں اگر مجھ کو تو اس کا غم نہیں
یعنی بدہضمی مری جلاب سے کچھ کم نہیں
ہجر میں صحن چمن گھورے سے مجھ کو کم نہیں
پھٹکیاں ہیں گل نہیں پیشاب ہے شبنم نہیں
بسکہ ضعف باہ سیرہتا ہے آستمنا مجھے
کون سا دن ہے جو پاجامہ ہمارا نم نہیں
وقت تنہائی صدا آتی ہے اس کی کان میں
گوز سا دنیا میں کوئی دوسرا ہمدم نہیں
بلبلو تم نے سنا ہوگا چغل بندہ وہ ہے
عشق دنیا میں مجھے غیر از گل آدم نہیں
راہ مقعد ہوگئی ہے بند مارے قبض کے
کوئی سدوں کے سوا اس زخم کا مرہم نہیں
اصل کی جانب ہر اک شے کرتی ہے آخر رجوع
گر پڑا سنڈاس میں چرکیںؔ تو اس کا غم نہیں
***
85
پائخانے میں رہا کرتے ہیں
گو کے مضمون بندھا کرتے ہیں
اے پری جو ترے دیوانے ہیں
تنکے گھورے پہ چنا کرتے ہیں
کوں سے آتا ہے بواسیر کا خون
لعل و یاقوت ہگا کرتے ہیں
سامنے جاتے ہی ہم قاتل کے
خوف سے پاد دیا کرتے ہیں
قبض سے شیخ کی پھٹی ہ گانڑ
حقنے پر حقنے ہوا کرتے ہیں
چاہئے رکھ لیں وہ ہگنے کی بھی جا
جو کہ پاجامہ سیا کرتے ہیں
ملتے ہیں پاؤں تلے چرکیںؔ کو
مہرباں آپ یہ کیا کرتے ہیں
***
86
ہے وہ گلرو یا سمیں تو گلشن ایجاد میں
نکہت گل سے سوا خوشبو ہے جس کے پاد میں
شاخ گل پر باغ میں لاسا لگاتا ہے عبث
بیٹ بلبل کی نہ بھر جائے کف صیاد میں
جلوہ فرما کون سا گلرو ہوا گھورے پہ آج
خرمن گل کا نظر آتا ہے عالم کھاد میں
جب سے کھجلی اس کے نکلی غیر بھی بولا گیا
گانڑ کھجلاتا ہے جب ہوتی ہے خارش داد میں
شیخ کعبہ میں پھرا گر چڑھ کے خچر پر تو کیا
کھاد اٹھانی اس گدھے کی ساری تھی بنیاد میں
غیر کے تو زر کمانے پر جا اے جان جاں
نیاریا ہے خاکروبوں کی ہے وہ اولاد میں
دم میں بھردیتے ہیں وہ زخم دہان غار کو
مرہم زنگار کا چرکیںؔ اثر ہے کھاد میں
***
87
جو اختروں پہ ترے بن نگاہ کرتے ہیں
تو گو کی پھٹکیوں کا اشتباہ کرتے ہیں
منہ اپنا ٹھیکرے میں موت کے زرا دیکھیں
برابری تری کیا مہر و ماہ کرتے ہیں
جو غیر پادتے ہیں گوش دل سے سنتے ہیں آپ
خیال ادھر نہیں ہم آہ آہ کرتے ہیں
چمن میں اس کو املتاس کا سمجھتے ہیں دست
جو ہجر میں سوئے سو سن نگاہ کرتے ہیں
نہ بادہ خواری سے کر منع گو نہ کھا اے شیخ
تجھے ہے فکر عبث ہم گناہ کرتے ہیں
جو دھار موت کی اک مارتے ہیں ہم اے ابر
ابھی یہ کشتئ گردوں تباہ کرتے ہیں
نہیں پدوڑا کوئی تجھ سا دوسرا چرکیںؔ
پدوڑوں کا تجھے ہم بادشاہ کرتے ہیں
***
88
جاری رہتی ہے منی طاقت امساک نہیں
کون سے روز میانی مری ناپاک نہیں
سدے افیونیوں کے گھول کے چپکے پی لو
شیخ صاحب تمہیں گر نشۂ تریاک نہیں
موت کے حوض میں کس طرح نہ ڈوبے چرکیںؔ
میر مچھلی کی طرح سے تو وہ پیراک نہیں
***
89
حیض کے خون میں چرکینؔ ڈبایا مجھ کو
مری قسمت نے عجب رنگ دکھایا مجھ کو
گل آدم مری قسمت نے بنایا مجھ کو
ہاتھ کیا پاؤں کسی نے نہ لگایا مجھ کو
یاد دریا میں جو ہگنا ترا آیا مجھ کو
موج نے لینڈیوں کی طرح بہایا مجھ کو
گانڑ کے بوسہ کا جاناں سے ہوا تھا سائل
یہ دل آزردہ ہوا منھ نہ لگایا مجھ کو
عشق سفرے کا نہیں یار کے دل کو میرے
حوض میں گو کے نصیبوں نے گرایا مجھ کو
گو میں لتھڑے ہوئے کتے کی ہو تم شکل اے شیخ
آپ کا خرقۂ پشمینہ نہ بھایا مجھ کو
اٹھ گئے رشک سے یہ گانڑ پھٹی غیروں کی
مہربانی سے جو اس مہ نے بٹھایا مجھ کو
مہترانی کا اٹھانے میں ہوا ہے دم بند
ایک بھی دست جو کھل کر کبھی آیا مجھ کو
کوچۂ یار میں چرکینؔ پڑا کہتا ہے
گو سمجھ کر بھی کسی نے نہ اٹھایا مجھ کو
***
90
کوئی اتنا بھی نہ جائے طعن خاص و عام ہو
بزم میں پادے کوئی چرکیںؔ ہمارا نام ہو
میکدے میں ہو گزر مجھ سے اگھوری کا اگر
موت سے شیشہ ہو پر لبریز گو سے جام ہو
اک بت پستہ دہن کی چشم کا بیمار ہوں
میرے حقنے میں طبیبوں روغن بادام ہو
ہجر میں ساقی کرے مجھ کو جو تکلیف شراب
بول صفر اوی سے بدتر بادۂ گلفام ہو
پائخانے میں جو گزرے زفل شب گوں کا خیال
صبح کو ہگنے جو بیٹھوں ہگتے ہگتے شام ہو
چشم کی گرش دکھائے تجھ کو وہ دریائے حسن
حوض تیری گانڑ بھی اے گردش ایام ہو
ضبط آہ نیم شب سے بے_قراری کیا عجب
جب کہ ہو بند آدمی کا گوز بے_آرام ہو
چار دن چرکیںؔ کی ہو جس کے مکاں میں بود و باش
گو سے آلودہ در و دیوار سقف و بام ہو
***
91
حیران ہگ کے شیخ جی تم اس قدر نہ ہو
ڈھیلے سے گانڑ پونچھ لو پانی اگر نہ ہو
گو کھانا خالی دینا ہے قاتل کے دار کا
سینہ ہی کر سپر جو میسر سپر نہ ہو
رسوا کیا ہے نالے نے جس طرح غیر کو
بدنام پاد کر بھی کوئی اس قدر نہ ہو
حقنہ علاج آپ کا ٹھہرا ہے شیخ جی
یہ درد سر کرو تو کبھی درد سر نہ ہو
چرکیںؔ یہ اپنا قول ہے اسرارؔ کی طرح
ٹرٹر کرے وہ گانڑ کی جس کو خبر نہ ہو
***
92
قاتل اے شوخ نہ چرکیںؔ سے مردار کا ہو
گو سے آلودہ نہ پھلڑا تری تلوار کا ہو
ٹوکری گو کی ترازو کے لیے منگواؤں
تل بٹھانا مجھے منظور جو دلدار کا ہو
وقت پیشاب جو دھیان آئے ترے دانوں کا
موت کی بوند میں عالم در شہوار کا ہو
پادتے پادتے مرجائے وہ ہگ ہگ مارے
زخمی رستم بھی اگر یار کی تلوار کا ہو
آکے گھورے پہ کھڑا ہو جو مرا رشک بہار
گل آدم میں بھی نقشہ گل گلزار کا ہو
رنگ لائے جو بواسیر کا خوں سفرے پر
شیخ کی گانڑ نمونہ در گلزار کا ہو
اس کو اے ترک بجھا لا کے گدھے کا پیشاب
نہ بچے وہ کہ جو زخمی تری تلوار کا ہو
ہجر میں بستر غم پر ہے یہ اپنا احوال
جس طرح گھورے پہ عالم کسی مردار کا ہو
موجیں لینڈی کی طرح اس کو بہا لے جائیں
عزم چرکیںؔ کو جو اس پار سے اس پار کا ہو
***
93
کانچ کا رنگ جو اے گل نظر آیا مجھ کو
دیکھ کر جلنے لگی بلبل شیدا مجھ کو
بل بے_نامرادی مرا ہوگیا پیشاب خطا
کل بنڈیلے نے جوں ہی گھورے پہ گھورا مجھ کو
چنچنے گانڑ میں شاید کہ لگے ہیں ان کی
شیخ جی چھیڑتے ہیں آج جو بیجا مجھ کو
اس کے در ہی پہ ہگا میں نہ اٹھا پر نہ اٹھا
پائخانے کا ہوا رات جو خطرا مجھ کو
راہ مقعد سے مری خون بواسیر بہا
حیض کے خوں کا نظر آیا جو دھبا مجھ کو
گوز کی سن کے صدا گل کا ہے پیشاب خطا
ہگ دیا بس وہیں بلبل نے جو دیکھا مجھ کو
ایسی باتوں پہ کیا کرتا ہوں پیشاب اے شیخ
عشق چرکیںؔ کا نہ چھوٹے گا نہ بگوا مجھ کو
***
94
یوں نہ کرنا تھا فلک بے_سرو ساماں مجھ کو
گانڑ کھولے ہوئے پھروایا جو عریاں مجھ کو
دیکھ لوں گا چہ مبرز ہی کو پاخانے میں
یاد جب آئے گا وہ چاہ زنخداں مجھ کو
اے پری زاد صنم وہ ترا دیوانہ ہوں
ڈر سے ہگ ہگ دے اگر دیکھے پری خواں مجھ کو
گوز کی طرح در کوں سے نکل جاؤں گا
روک سکتا ہے کوئی آپ کا درباں مجھ کو
اے گل اندام ترے دست حنا بستہ کا
دیوے دھوکا نہ کہیں پنجۂ مرجاں مجھ کو
پادا پونی یہ کیا عشق کی بیماری نے
موت کی دھار ہوئی خنجر براں مجھ کو
بدتر از پشم سمجھتا ہوں میں اس کو چرکیںؔ
پیچ میں لائے گی کاکل پیچاں مجھ کو
***
95
اس کے پاخانے کا ملتا جو ٹھکانا مجھ کو
کرتا پامال نہ اس طرح زمانہ مجھ کو
خرچ کرتا اسے سنڈاسیوں کی دعوت میں
حوض پاخانے کا ملتا جو خزانہ مجھ کو
روندے دستوں کے پیادوں کی پڑی پھرتی ہیں
شب کو اس کوچے میں دشوار ہے جانا مجھ کو
آنولے ڈال کے بالوں میں شب وصل صنم
موت کے حوض میں لازم ہے نہانا مجھ کو
عشق ہے دل کو مرے اس بت سنگین دل کا
ہو نہ جائے مرض سنگ مثانہ مجھ کو
مال نعمت سے زیادہ اسے سمجھا میں نے
لید کا بھی جو میسر ہوا دانا مجھ کو
میں وہ مردود خلائق ہوں جہاں میں چرکیںؔ
نہ کیا تیر قضا نے بھی نشانہ مجھ کو
***
96
بے_خطر لازم ہے جانا اس بت مغرور کو
دست آیا آخری ہے عاشق رنجور کو
جب سے اس شیریں دہن کے گو پہ بیٹھیں مکھیاں
شہد ہگنے کا مزہ تب سے پڑا زنبور کو
یوں اچھلتے شیخ جی ہیں چنچنے لگتے ہیں جب
جس طرح لڑکے اچھالیں کاھ کے لنگور کو
پھسکیوں نے شور محشر کا کیا ہے گوز بند
گوز نے میرے اڑایا ہے صدائے صور کو
چشم بیمار صنم میں نکلی ہے گو ہانجنی
ٹوکا ہگتے دیکھ کر کیا عاشق رنجور کو
گو نہیں ہے گانڑ میں کووں کے کیا ہوں میزباں
دست آنے کو نہ دیں جلاب مجھ رنجور کو
کھڈی بنواتا ہے چرکیںؔ اینٹ گارے کے بدل
ٹوکرا گو کا اٹھانا ہوگا اب مزدور کو
***
97
گرسنے چرکینؔ تیرے پاد کی آواز کو
منہ چھپائے لے کے مطرب پردہ ہائے ساز کو
کاٹی انگلی پر نہیں وہ موتتا کافر ذرا
زخم دل دکھلاؤں کیا میں اس بت طناز کو
پیٹ کا ہلکا ہے اے جاں کہہ نہ دے ہر ایک سے
غیر کونی سے نہ کہنا دل کے ہرگز راز کو
طائر بزدل وہ ہوں میں صید قاہ عشق میں
بیٹ سے اکثر بھرا ہے چنگل شہباز کو
رشک سے کبک دری نے ہگ دیا گلشن کے بیچ
دیکھ کر اے گل تری رفتار کے انداز کو
موتنے تک کا مرے احوال جاناں سے کہا
گو میں نہلاؤں کہیں پاؤں اگر غماز کو
سر سوا گندھار کے اس میں نہ بولے پھر کبھی
بزم میں گر بیٹھ کر چرکیںؔ بجاؤں ساز کو
***
98
دیکھ کر بیت الخلا میں اس بت طناز کو
نالۂ ناقوس سمجھا گوز کی آواز کو
فائدہ دنیا میں گو کھانے سے کیا اے قوم لوط
کیا ملیں گے خلد میں غلمان لونڈے باز کو
سب سے کہہ دے گا یہ تیرے پادنے تک کا بھیحال
جا نہ دے بیت الخلا میں اے صنم غماز کو
پادتا ہے تال سر سے وہ بت مطرب پسر
تھاپ طبلے کی سمجھئے گوز کی آواز کو
غیر ہے گندہ بغل کیوں ہم بغل ہوتا ہے تو
گو میں کیوں ملتا ہے اے گل چنپئی پشواز کو
رہ تو سفلی کی نجاست میں زیادہ گو نہ کھا
شیخ تو کیا عالم علوی کے سمجھے راز کو
کب تلک لتھڑا رہے گا اپنی طینت پاکھ رکھ
دل سے چرکیںؔ دور کر دنیا کی حرص و آز کو
***
99
کیوں کیا ناخوش سنا کر نالۂ جاں کاہ کو
پاد کر چرکیںؔ رجھایا تھا بت دلخواہ کو
پاٹ دیتے چاہ بابل ہگ کے اے زہرہ جبیں
گر فرشتے دیکھتے تیرے ذقن کی چاہ کو
گانڑ میں کیا نسر طائر کے پر سرخاب ہے
خط مرا لے جا کے دے آیا نہ جو اس ماہ کو
کیجئے پیشاب اگر تو دھار جاتی ہے وہاں
دور سمجھے غیر ہے کوئے بت گمراہ کو
گانڑ میں بتی چراغ مے کی رکھ لو شیخ جی
تیرہ شب میں تانہ بھولو میکدے کی راہ کو
گھر میں اے چرکینؔ کب تک گوز مارا کیجئے
دیکھئے اب جا کے گوگا پیر کی درگاہ کو
***
100
خوں حیض کا سمجھتے ہیں تجھ بن شراب کو
سور کا گوشت جانتے ہیں ہم کباب کو
رندوں کے ساتھ پیجئے مے شیخ جی نہ آپ
جھگڑا پڑے گا گانڑ کلیجے جناب کو
گوبر کو پی کے قاضئ بے_دین ہو برہمن
گر دیکھ پائے اس بت مست شراب کو
گویہ توے پہ گانڑ بھی رگڑے نہ کر یقیں
دیتا ہے نان خشک یہ روز آفتاب کو
چرکیںؔ نہ مانگ مطبخ چرخ دنی سے تو
ٹکڑا تو کیا نہ پائے گا خالی جواب کو
***
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں