(پہلاحصہ:لطافت اورکثافت)
(۱)
ابدی بازگشت کا تصور خاصہ پُراسرا رہے، اورنیچے (Nietzsche) نے فلسفیوں کو اس کے ذریعے اکثرالجھا دیا ہے: یہ سوچنا کہ ہر شے ٹھیک جس طرح ہم نے اس کا تجربہ کیا تھا اسی طرح دوبارہ واقع ہوتی ہے، اور یہی بازگردی خود بھی لامتناہی طریقے پراپنے کودہراتی ہے! یہ باولی اسطور کس بات پر دلالت کرتی ہے؟
اسے منفی طور پر بیان کریں تو ابدی بازگشت کی اسطور کے مطابق ایک زندگی جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اوجھل ہوچکی ہے، جو لوٹ کر نہیں آتی، ایک سائے کی طرح ہے، بے وزن، پہلے سے مردہ، اور اگر یہ ہول ناک، خوب صورت، یا رفعت آشنا تھی، تو اس کی ہول ناکی، رفعت، خوب صورتی بے معنی ہے۔ اس پر چودھویں صدی کے دو افریقی قبائل کے درمیان ہونے والی جنگ سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں، ایک ایسی جنگ جس نے تقدیرِ عالم میں کوئی فرق نہیں پیدا کیا، اگر چہ لکھوکھا سیاہ فام شدید کرب کے عالم میں اس کی بھینٹ چڑھے۔
اگر چودھویں صدی کے افریقا کے دو قبائل کے درمیان جنگ ابدی بازگشت کے اصول پراپنے کو بار بار دہرائے تو کیا اس سے خود اس کی تقدیر بدل جائے گی؟
بالکل بدل جائے گی: یہ ایک ٹھوس تودا بن جائے گی، ایک ابھارکی صورت دائماًآگے کو نکلا ہوا ، اپنی پوچی میں لا علاج۔
اگر انقلابِ فرانس ابدیت تک بار بار ہوتا رہے، تو فرانسیسی تاریخ داں روبس (Robespierre)
پر کم تر فخر کریں گے۔ لیکن چوں کہ ان کا تعلق ایک ایسی چیز سے ہے جو پھر واقع نہیں ہوگی، انقلاب کا خونیں عرصہ محض لفظوں، نظریات، اور بحث مباحثوں میں بدل کر رہ گیا ہے، بال و پر سے لطیف تر بن گیا ہے، جس سے کسی کو بھی خوف نہیں آتا۔ تاریخ میں صرف ایک بار ہی واقع ہونے والے روبس پئیر اور اس روبس پئیر کے درمیان جو ابدتک فرانسیسیوں کے سر قلم کرنے کے لیے لوٹ کر آتا رہتا ہے ایک لامتناہی فرق ہے۔
چلو اس پر اتفاق کریں کہ ابدی بازگشت سے مراد ایک ایسا تناظر ہے جس میں چیزیں جس طرح ہم انھیں جانتے ہیں اس سے مختلف نظر آتی ہیں: اس تناظر میں وہ ان اسباب و علل کے بغیر نمودار ہوتی ہیں جو ان کی آنی جانی نوعیت کی شدّت کو کم کردیتے ہیں۔ شدّت کو کم کرنے والے اسباب و علل ہمیں فیصلہ صادر کرنے سے باز رکھتے ہیں۔ آخر ہم کیسے کسی ایسی چیز کو موردِ الزام ٹھہرا سکتے ہیں جوزودگزر ہو، ابھی راہ ہی میں ہو؟ زائلی کے جھٹ پٹے میں، ہر شے ناستلجیا کی فضا سے اجاگر ہونے لگتی ہے، حتیٰ کہ گیوتین(سر قلم کرنے کی مشین) بھی۔
بہت زیادہ پہلے کی بات نہیں، میں نے ایک بے حد ناقابلِ یقین احساس کو ناگہانی اپنے میں سر اٹھاتے ہوئے پایا۔ ہٹلر کے بارے میں ایک کتاب کی ورق گردانی کرتے وقت مَیں اس کی بعض تصویروں سے متاثر ہوا: انھوں نے مجھے میرا بچپن یاد دلادیا۔ میری نشوو نما جنگ کے زمانے میں ہوئی تھی؛ میرے بہت سے رشتے دار ہٹلر کے کونسن ٹریشن کیمپوں میں فنا ہوگئے تھے؛ لیکن میری زندگی کے ایک گم گشتہ دور کی یادوں سے ان کا کیا مقابلہ ہوسکتا تھا، ایک ایسے دور سے جو لوٹ کر نہیں آنے والا تھا؟
ہٹلر سے یہ مصالحت ایک ایسی دنیا کی عمیق اخلاقی کج روی کا انکشاف کرتی ہے جس کا دارومدار بازگشت کے عدم وجود پر ہے، کیوں کہ اس دنیا میں ہر بات کو پہلے سے ہی معاف کردیا جاتا ہے اور، اسی لیے، ہر چیزکو کلبیت زدگی کے باعث کرگزرنے کی اجازت ہوتی ہے۔
(۲)
اگر ہماری زندگی کا ہر پَل خود کو لامتناہی طور پر دہرائے تو ہم جیزز کرائسٹ کی طرح ابدتک صلیب پر چڑھے رہیں۔ یہ بڑا ہول ناک خیال ہے۔ ابدی بازگشت کی دنیا میں، ہماری ہر حرکت پرناقابلِ برداشت ذمے داری کا بوجھ پڑا ہوتا ہے۔ اسی لیے نیچے(Nietzsche) ابدی بازگشت کے تصور کو سخت ترین بوجھ کہتا تھا (das schwerste Gewicht) ۔
اگر ابدی بازگشت ایک سخت ترین بوجھ ہے، تو ہماری زندگیاں اس کے مقابل اپنی تمام شان دارلطافت کے ساتھ کھڑی ہوسکتی ہیں۔
لیکن کیا گراں باری واقعتاً نفرت انگیز اور لطافت پُر شکوہ ہے؟
سخت ترین بوجھ ہمیں کچل کر رکھ دیتا ہے، ہم اس کے نیچے دب جاتے ہیں ، یہ ہمیں زمین پر بے نقل و حرکت کردیتا ہے۔ لیکن ہر دور کی عشقیہ شاعری میں عورت مرد کے جسم کے بوجھ سے دب جانے کی آرزو کرتی ہے۔ چناں چہ سخت ترین بوجھ بہ یک وقت زندگی کی شدید ترین آسودگی کا پیکر بھی ہوتا ہے۔ بوجھ جتنا زیادہ سخت ہوتا ہے، ہماری زندگی اتنی ہی زیادہ زمین سے قریب آجاتی ہے، اتنی ہی زیادہ حقیقی اور سچی بن جاتی ہے۔
اس کے برعکس، بوجھ سے مطلق آزادی آدمی کو ہوا سے لطیف تر بنا دیتی ہے، تاکہ بلندیوں میں پرواز کرسکے، زندگی سے اور اپنی حیاتِ دنیوی سے رخصت ہو، اور صرف نصف حقیقی رہ جائے، اس کی حرکات اتنی ہی آزاد جتنی کہ وہ بے معنی ہیں۔
تو پھر ہم کیا اختیار کریں؟ وزن یا لطافت؟
چھٹی صدی ماقبلِ مسیح میں پارمینیڈیز (Parmenides)نے یہی سوال اٹھایا تھا: اس نے دنیا کو متخالف اشیاکی جوڑیوں میں منقسم کیا: نور؍ظلمت،نفاست؍درشتی، گرمی؍سردی، وجود؍عدم۔ نصف ضدّوں کو مثبت قرار دیا (نور، نفاست، گرمی، وجود) اور بقیوں کو منفی۔مثبت اور منفی اقطاب میں یہ تقسیم ہمیں بچکانہ حد تک سیدھی سادی نظر آسکتی ہے اِلّا یہ کہ ایک دشواری ہے: ان میں سے کون سی مثبت ہے ، کثافت یا لطافت؟
پارمینیڈیز کا جواب تھا: لطافت مثبت ہے، کثافت منفی۔
کیا وہ درستی پر تھا یا نہیں تھا؟ سوال یہ ہے۔ اگر کوئی بات یقین کے درجے کو پہنچ سکتی ہے تو وہ یہ ہے: لطافت؍کثافت کا تضاد سب سے زیادہ پُراسرار، سب سے زیادہ مبہم ہے۔
(۳)
میں توماش کے بارے میں برسوں سے غور کررہا ہوں۔ لیکن صرف انھیں تفکرات کی روشنی میں مَیں اسے صاف صاف دیکھا سکا۔ میں نے اسے کھڑکی میں کھڑے صحن کے پار مقابل دیواروں کو گھورتے ہوئے پایا، اس سے لاعلم کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔
تیریزا سے اس کی پہلی ملاقاتیں ہفتے پہلے ایک چھوٹے سے چیک شہر میں ہوئی تھی۔ انھوں نے بہ مشکل ایک گھنٹا ہی ساتھ گزارا تھا۔ وہ اس کے ساتھ اسٹیشن تک آئی تھی اور اس وقت تک اس کے ساتھ انتظار کرتی رہی تھی جب تک کہ وہ ریل گاڑی میں سوار نہ ہوگیا۔ دس دن بعد وہ اس سے ملنے آئی۔ انھوں نے اس کی آمد والے دن ہی جفتی کی۔ اُسی رات اسے بخار چڑھ گیا اور وہ پورا ہفتہ فلو میں مبتلا فلیٹ ہی میں پڑی رہی۔
وہ اس تقریباً اجنبی کے لیے ایک ناقابلِ بیان محبت محسوس کرنے لگا تھا؛ وہ اسے ایک بچّی نظر آتی تھی، ایک بچی جسے کسی نے نرسل کی ٹوکری میں رخنے بھرنے کے لیے قیر ڈال کر دھارے کے رخ پر بہا دیا ہو تاکہ توماش اسے اٹھا کر اپنے بستر کے کنارے پر لے آئے۔
وہ اس کے ساتھ ہفتہ بھر رہی، تا آں کہ دوبارہ صحت یاب ہوگئی، پھر اپنے شہر لوٹ گئی، جو پراگ سے کوئی سوا سو میل کی مسافت پرواقع تھا۔ پھر وہ وقت آیا جس کا میں نے ابھی ابھی ذکر کیا ہے اور جسے مَیں توماش کی زندگی کی کلید کے طور پر دیکھتا ہوں: کھڑکی میں ایستادہ، صحن کے اوپر سے نظر الانگتا ہوااپنے مقابل دیواروں کو گھورتے ہوئے سوچ میں غرق۔
کیا وہ اسے ہمیشہ کے لیے پراگ بلالے؟ اسے ذمے داری کا خوف تھا۔ اگر اس نے آنے کی دعوت دی تو وہ آکر رہے گی اور اپنی زندگی اس کی نذر کردے گی۔
یا وہ اس کی طرف پیش قدمی کرنے سے احتراز کرے؟ اس صورت میں وہ ایک مضافاتی شہر کے ہوٹل ریستوراں میں ایک ویٹرس ہی رہے گی اور وہ اسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھ سکے گا۔
وہ کیا چاہتا ہے۔۔۔ وہ آئے یا نہ آئے؟
اس نے صحن کے اوپر سے مقابل دیواروں کو دیکھا، کسی جواب کی تلاش میں۔
وہ رہ رہ کر اسے اپنے بستر پر لیٹے ہوئے یاد کرتا رہا؛ وہ اسے اپنی سابقہ زندگی میں کسی فرد کو یاد نہیں دلاتی تھی۔ وہ نہ داشتہ تھی نہ بیوی۔ وہ تو ایک بچی تھی جسے اس نے قیر لگی نرسلوں کی ٹوکری سے اٹھایا تھا جو اس کے بستر کے کنارے کی طرف بہا دی گئی تھی۔ وہ سو گئی۔ توماش اس کے برابر دو زانو ہوگیا۔ اس کی تپ میں پھنکتی ہوئی سانسوں میں تیزی آگئی اور اس نے ایک کم زور سی کراہ لی۔ توماش نے اپنا چہرہ اس کے چہرے سے بھڑا کر نیند ہی میں چند تسکین آمیز کلمات سرگوشی میں ادا کیے۔ کچھ دیر کے بعد اسے اس کا تنفس اپنے معمول پر آتا ہوا محسوس ہوا اور اس کا چہرہ لاشعوری طور پر توماش کے چہرے کی طرف اٹھنے لگا۔ اسے اس کے تپ کی لطیف مہک سنگھائی دی اور وہ اس میں سانسیں لینے لگا، جیسے اس کے جسم کی قربت سے خود کو بے تحاشاسیراب کرنے کا کوشاں ہو۔ اور یہ خیال کہ وہ ایک زمانے سے اس کے ساتھ رہی ہو اور اب پڑی مر رہی ہویک بارگی اس کے تخیل میں تیر گیا۔ اسے اچانک صاف صاف یہ احساس ہوا کہ وہ اس کی موت سے جاں بر نہ ہوسکے گا۔ وہ اسی کے برابر لیٹ جائے گا اور اسی کے ساتھ مرنا چاہے گا۔ اس نے تکیے پر اس کے چہرے کے برابر ہی اپنا چہرہ رکھ کردبایااور بڑی دیر تک وہیں رہنے دیا۔
فی الوقت وہ کھڑکی میں کھڑا اُس لمحے کو یاد کررہا تھا۔ اگر محبت اس سے اپنا اعلان نہیں کررہی تھی تو یہ کیا تھا؟
لیکن کیا یہ محبت ہی تھی؟ اس کے پہلو میں مرنے کا احساس بلاشبہ مبالغہ آمیزتھا: اس نے اپنی پوری زندگی میں آج سے پہلے اسے ایک بارہی دیکھا تھا! کیا یہ کسی ایسے آدمی کا بس ہسٹریا ہی نہیں تھا جو اپنی گہرائیوں میں محبت سے متعلق اپنی بے توفیقی سے آگاہ اسے طاری کرنے کی خودفریبانہ ضرورت محسوس کررہا ہو؟اس کا لاشعور اس درجہ بزدل تھا کہ اپنی واجبی سی کومیڈی کے لیے جو بہترین ساتھی منتخب کرسکتا تھا وہ ایک بے چاری مضافاتی ویٹرس تھی جس کا اس کی زندگی میں شامل ہونے کا سرے سے کوئی امکان ہی نہیں تھا!
صحن کے اوپر سے میلی سی دیواروں کو دیکھتے ہوے اسے محسوس ہوا کہ وہ بالکل نہیں جانتا کہ یہ ہسٹریا تھا یا محبت۔
اور اسے اس بات سے کلفت ہورہی تھی کہ ایسی صورتِ حال میں جس میں ایک حقیقی آدمی کو فوراً معلوم ہوتا ہے کہ اسے کیا کرنا چاہیے، وہ خود پس و پیش کا شکار ہوگیا ہے اور ان بے حد حسین لمحات کو جن کا اس نے اپنی زندگی میں تجربہ کیا ہو (اس کا بستر پر دوزانو ہو کر بیٹھنا اور یہ سوچنا کہ وہ اس کی موت سے جاں بر نہ ہوسکے گا) اپنی معنویت سے محروم کیے دے رہا تھا۔
وہ اس وقت تک خود پرجھنجلایا رہاجب تک یہ احساس نہ ہوگیا کہ کیا کرنا چاہیے اس کی یہ لاعلمی درحقیقت بڑی فطری بات ہے۔
ہم کبھی یہ نہیں جان سکتے کہ کیا خواہش کریں کیوں کہ صرف ایک زندگی گزارتے ہوئے نہ تو ہم اس کا سابقہ زندگیوں سے مقابلہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی اپنی آنے والی زندگیوں میں اسے درجۂ کمال کو پہنچا سکتے ہیں۔
کیا تیریزا کے ساتھ ہونا بہتر تھا یا اکیلے رہنا؟
کون سا فیصلہ بہتر ہے ، اس کی آزمائش کا کوئی طریقہ نہیں، کیوں کہ مقابلے کی کوئی بنیاد نہیں۔ ہم جو پیش آتا ہے ، متنبہ کیے بغیر،اسے جھیلتے ہیں، کسی اداکار کی طرح جو اسٹیج پر بغیر رہرسل کیے پہنچ جائے۔ اگر زندگی کا پہلا رہرسل خود زندگی ہی ہو توبھلا ایسی زندگی کس قابل ہے؟اسی لیے زندگی ہمیشہ ایک خاکے کی طرح ہوتی ہے۔ نہیں، ’’خاکہ‘‘ مناسب لفظ نہیں، کیوں کہ خاکہ کسی چیز کا ہوتا ہے، کسی تصویر کی بیرونی خطوط اندازی، جب کہ وہ خاکہ جو ہماری زندگی ہے، کسی چیز کا خاکہ نہیں، وہ بیرونی خطوط جن میں کوئی تصویر نہیں۔Einmal ist keinmal توماش خود سے کہتا ہے۔جو ایک ہی بار ہوتا ہے،جرمن قول کے مطابق، بہتر ہے کہ کبھی ہوا ہی نہ ہوتا۔ اگر زندہ رہنے کے لیے ہم سب کے پاس ایک ہی زندگی ہے، تویہ بہتر ہوتا کہ ہم کبھی زندہ ہی نہ ہوتے۔
(۴)
لیکن پھر ایک دن اسپتال میں ، آپریشنوں کے درمیانی وقفے میں، ایک نرس نے اسے فون سننے کے لیے بلایا۔ اسے ریسیور سے تیریزا کی آواز آتی سنائی دی۔ وہ اسے ریلوے اسٹیشن سے فون کررہی تھی۔ وہ خوشی سے بے قابو ہوگیا۔ بدقسمتی سے اُس شام وہ مصروف تھا اور اگلے دن سے پہلے اسے اپنے ہاں نہ بلا سکا۔ فون واپس رکھتے ہی وہ خود کو لعنت ملامت کرنے لگا کہ کیوں نہیں اسے سیدھے وہاں جانے کے لیے کہا۔بہ ہر صورت، اس کے پاس اپنی مصروفیت منسوخ کرنے کے لیے کافی وقت تھا ! اس نے تصور کرنے کی کوشش کی کہ ان کی ملاقات سے پہلے کے چھتیس گھنٹوں تک تیریزا پراگ میں کیا کچھ کرے گی، اور یہ خیال آیا کہ چھلانگ لگا کر کار میں جا بیٹھے اور سڑکوں پر اس کی تلاش میں نکل کھڑا ہو۔
وہ اگلی شام آئی، شانے سے ایک ہینڈ بیگ لٹکائے، پہلے سے بھی زیادہ خوش وضع۔ اس کی بغل میں ایک ضخیم سی کتاب دبی ہوئی تھی۔ یہ ’’اینا کرے نینا‘‘ تھی۔ وہ اچھے موڈ میں تھی، حتیٰ کہ تھوڑا سا غل غپاڑہ بھی مچا رہی تھی، اور اسے یہ محسوس کرانے کی کوشش کی کہ وہ بس اتفاقیہ ہی اس کی طرف آنکلی ہے، کچھ ایسا ہی ہوا: وہ پراگ کسی کام کے سلسلے میں آئی تھی، شاید (اس مقام پر وہ کچھ گول مول سی ہوگئی) کسی کام وام کی تلاش میں۔
بعد میں، جب وہ بستر میں ایک دوسرے کے پہلو میں برہنہ پڑے ہوئے تھے اور شہوت کا زور ٹوٹ چکا تھا، اس نے پوچھا کہ وہ کہاں ٹھہری ہوئی ہے۔ اس وقت تک رات ہوچکی تھی، اور اس نے تیریزاکو کار میں وہاں پہنچانے کی پیشکش کی۔ اس نے سراسیمہ ہوکر جواب دیا کہ اسے ہنوز ہوٹل تلاش کرنا ہے اور یہ کہ وہ اپنا سوٹ کیس اسٹیشن پر چھوڑ آئی ہے۔
صرف دو دن پہلے اسے یہ دھڑکا لگا ہوا تھا کہ اگراس نے تیریزا کو پراگ آنے کی دعوت دی تو وہ اپنی جان اس کی نذر کردے گی۔ جب اس نے بتایا کہ اس کا سوٹ کیس اسٹیشن پر ہے، تو اسے فوری یہ احساس ہوا کہ اس میں اس کی جان رکھی ہوئی ہے اور وہ اسے اسٹیشن پر صرف اتنی دیر کے لیے رکھ آئی ہے جب تک اسے یہ اس کی نذر کرنے کا موقع نہیں مل جاتا۔
دونوں اس کی کار میں آبیٹھے جو گھر کے سامنے کھڑی ہوئی تھی اور اسٹیشن پہنچے۔ اس نے سوٹ کیس چھڑایا (یہ کافی بڑا اور بے تحاشا وزنی تھا) اور اسے اور تیریزا کو لے کر واپس گھر پہنچا۔
اس نے یہ اچانک فیصلہ کیسے کرلیا تھا جب کہ پورے ایک پندھرواڑے تک وہ اس قدر ڈانواڈول رہا تھا کہ اسے ایک پوسٹ کارڈ بھیج کر یہ بھی نہ پوچھ سکا کہ کس حال میں ہے ۔
خود اسے تعجب تھا۔ اس نے اپنے اصولوں کے خلاف عمل کیا تھا۔ دس سال پہلے، جب اس نے اپنی بیوی کو طلاق دی تھی، تو اس نے اس موقعے کی خوشی اسی طرح منائی تھی جس طرح اورلوگ شادی کی خوشی مناتے ہیں۔ اس نے سمجھ لیا تھا کہ وہ کسی بھی عورت کے ساتھ رہنے کے لیے پیدا نہیں ہوا ہے اور صرف ایک غیر شادی شدہ کی جون ہی میں اپنا آپا پوری طرح برقرار رکھ سکتا ہے۔ اس نے اپنی زندگی کو اس طرح مرتب کرنے کی کوشش کی کہ کوئی عورت بھی اس کے گھر میں اپنے سوٹ کیس سمیت داخل نہ ہوسکے۔ اس کے فلیٹ میں صرف ایک بستر ہونے کی وجہ بھی یہی تھی۔ اگرچہ یہ کافی کشادہ تھا، توماش اپنی داشتاؤں سے یہی کہتا کہ وہ کسی کے پہلو میں سو ئے تو نیند نہیں آتی، اور آدھی رات گزرنے پرانھیں کار میں بٹھا کران کے گھر چھوڑ آتاتھا۔توجس بات نے تیریزا کی پہلی آمد پر اس کے ساتھ بستر میں رات گزارنے سے اسے باز رکھا تو وہ فلو نہیں تھی۔ پہلی رات وہ اپنی کشادہ سی آرام کرسی پر سویا تھا، اور ہفتے کے بقیہ دنوں ہر رات اسپتال چلا گیا تھا جہاں اس نے اپنے دفتر میں ایک کھاٹ ڈال رکھی تھی۔
لیکن اِس بار اسے تیریزا کے پہلو میں نیند آگئی۔ اگلی صبح جب اس کی نیند ٹوٹی تو اسے اپنے برابر تیریزا نظر آئی، ہنوز محوِ خواب، اور اس کا ہاتھ تھامے ہوئے (مضبوطی کے ساتھ: وہ اسے اس کی گرفت سے آزاد نہ کرسکا)، اور وہ لاتحاشا وزنی سوٹ کیس بستر کے برابر ہی پڑا تھا۔
اس کی گرفت سے اپنا ہاتھ چھڑانے سے وہ اس خوف کی وجہ سے بازرہا کہ کہیں وہ اٹھ نہ جائے، اور بڑی احتیاط سے اپنے پہلو کے بل ہوگیا تاکہ اسے نظر بھر کردیکھ سکے۔
ایک بار پھر اسے یہی خیال گزرا کہ تیریزا ایک بچی ہے جسے قیر لگی نرسلوں کی ٹوکری میں رکھ کر دھارے کے بہاؤ پر ڈال دیا گیا ہے۔ وہ ایسی ٹوکری کو جس میں ایک بچی پڑی ہے بھلا کیسے طوفانی دریا میں دھارے کے رخ بہنے دے سکتا ہے!اگر فرعون کی بیٹی نے موجوں کے منھ سے اس ٹوکری کو نہ نکال لیا ہوتا جو ننّھے موسیٰ کو لیے جارہی تھی، تو آج’’ تورات‘‘کا وجود نہ ہوتا، نہ کوئی تہذیب، جسے ہم تہذیب سمجھتے ہیں، ہوتی !کتنی بہت سی قدیم اساطیراس بچے کو بچانے سے شروع ہوتی ہیں جسے تقدیر کے رحم و کرم پر اکیلا چھوڑ دیا گیا ہو! اگر پولی بس نے (Polybus)نوخیز اوڈیپس کو اپنی پناہ میں نہ لیا ہوتا تو سوفوکلیز اپنا حسین ترین المیہ نہ لکھتا!
اُس وقت توماش کو یہ احساس نہیں ہوا کہ استعارے خطر ناک ہوتے ہیں۔ استعاروں کے ساتھ چھیڑ خانی نہیں کرنی چاہیے۔ ایک واحد استعارہ محبت کو جنم دے سکتا ہے۔
(۵)
وہ اپنی بیوی کے ساتھ دو سال کی مختصر مدت ہی رہا تھا، اور ان کے ایک بیٹا ہوا۔ طلاق کی کارروائی میں جج نے شیرخوار کو ماں کی تحویل میں دے دیا تھا اور توماش کو یہ حکم کہ اپنی تنخواہ کا ایک تہائی اس کی دیکھ بھال کے واسطے دیا کرے۔ اس نے توماش کو ہر دوسرے ہفتے بچے سے جاکر ملنے کا حق بھی دیا۔
لیکن ہر مرتبہ جب وہ اس سے ملنے والا ہوتا، ماں بچے کو اپنے ہی پاس رکھنے کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ تراش لیتی۔ جلد ہی اسے یہ احساس ہوگیا کہ اُن کے لیے قیمتی تحائف لانے سے معاملہ شاید نسبتاً آسان ہوجائے، کہ بچے کی محبت کے لیے اس سے ماں کو رشوت دینے کی توقع کی جارہی تھی۔ اسے ایک ایسا مستقبل نظر آیا جس میں وہ بچے میں اپنے خیالات کا نقش بٹھانے کی کوششیں کررہا ہے، وہ خیالات جو ہر طرح سے ماں کے خیالات کے الٹ تھے۔ اس خیال ہی سے وہ نڈھال ہوگیا۔ جب ایک اتوار کو بچے کی ماں نے ایک بار پھر ایک مقررہ ملاقات منسوخ کردی تو توماش نے کھڑے کھڑے فیصلہ کر ڈالا کہ وہ اب کبھی بچے سے ملنے نہیں جائے گا۔
کسی اور کے مقابلے میں اسے اس بچے کے لیے زیادہ جذبہ محسوس کرنے کی کیا ضرورت ہے جس سے اس کا واحد بندھن ایک ناعاقبت اندیش رات سے بیش نہیں؟ وہ دیکھ بھال کی رقم پابندی سے ادا کرتا رہے گا؛ وہ بس یہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی محض پدرانہ جذبات کی خاطر اسے بچے کے لیے لڑنے پر مجبور کردے!
یہ کہنا بے ضرورت ہے کہ اسے کوئی ہم درد ی کرنے والا نہیں ملا۔ خود اس کے والدین نے کھلم کھلا اسے لعن طعن کی؛ اگر توماش اپنے بچے میں دل چسپی لینے کا انکاری ہے تو وہ، توماش کے والدین، خود اپنے لڑکے میں مزید دل چسپی نہیں لیں گے۔ انھوں نے اپنی بہو سے اچھے تعلقات قائم رکھنے کا خوب مظاہرہ کیا اور اپنے موقف اور احساسِ عدل کا خوب خوب نقّارہ پیٹا۔
چناں چہ فعلاً چشم زدن ہی میں اس نے بہ یک وقت بیوی، بچے، اورماں باپ سے پیچھا چھڑالیا۔ جو واحد چیز انھوں نے وراثتاً اسے ودیعت کی وہ عورتوں کا خوف تھی۔ توماش ان کی خواہش کرتاتو تھا لیکن ان سے ڈرتا بھی تھا۔ خوف اور خواہش میں مصالحت کی احتیاج کے باعث اس نے وہ حکمت عملی ڈھونڈ نکالی جسے اس نے’’شہوانی تعلق‘‘ کا نام دیا۔ وہ اپنی آشنا عورتوں سے کہتا: صرف وہی تعلق فریقین کو خوش کرسکتا ہے جس میں جذباتیت کا کہیں گزر نہ ہو اور جس میں کوئی فریق دوسرے کی زندگی اور آزادی پر کوئی حق نہیں جتاتا ہو۔
یہ خاطر جمع کرنے کے لیے کہ شہوانی تعلق کبھی محبت کی جراحت میں تبدیل نہ ہوجائے، وہ اپنی ہر دیرینہ داشتہ سے صرف وقفوں وقفوں بعدہی ملتا ۔ وہ اس طریقۂ کار کو بے عیب سمجھتا اور اپنے دوستوں میں اس کی ترویج کرتا: ’’اہم بات تین کے اصول کا التزام ہے۔ یا آدمی عورت سے جلد جلد تین بار ملے اور پھر کبھی نہیں، یا سالوں تعلق قائم رکھے لیکن یہ پکا کرلے کہ ملاقاتوں کے درمیان کم از کم تین ہفتوں کا وقفہ ہو۔‘‘
تین کے اصول نے توماش کو اس کا اہل بنادیا کہ بعض عورتوں سے اپنے معاشقے صحیح سلامت رکھے اوربہت سی دوسری عورتوں کے ساتھ قلیل مدّتی معاشقے بھی جاری رکھے۔ اسے ہمیشہ صحیح نہیں سمجھا جاتا تھا۔جو عورت اسے سب سے بہتر طور پر سمجھتی تھی وہ بس سبینا ہی تھی۔ وہ ایک پینٹر تھی۔ ’’میں تمھیں جس وجہ سے پسند کرتی ہوں،‘‘ وہ اس سے کہتی، ’’وہ یہ ہے کہ تم کِچ (kitsch)کا بالکل اُلٹ ہو۔ کِچ کی راج دھانی میں تم ایک عفریت ثابت ہوگے۔‘‘
اور جب اسے تیریزا کے لیے پراگ میں ملازمت دلوانے کی ضرورت آ پڑی تو یہ سبینا ہی تھی جس کااس نے رخ کیا۔ شہوانی دوستی کے غیر نوشتہ اصولوں پر عمل کرتے ہوئے سبینا نے حتّی المقدور سب کچھ کرنے کا وعدہ کیا اور سچ مچ جلد ہی ایک مصورہفتہ وار رسالے کے ڈارک روم میں تیریزا کے لیے ایک اسامی ڈھونڈ نکالی۔یہ ٹھیک ہے کہ اس کی نئی ملازمت میں کسی خاص اہلیت کی ضرورت نہیں تھی، اس نے کم از کم اس کی حیثیت ایک ویٹرس سے پریس کے ایک رکن میں بڑھا دی۔ جب سبینا نے بہ نفسِ نفیس تیریزا کا تعارف ہفتہ وار رسالے کے ہر کارگزارسے کرایا تو توماش کو پتا چل گیا کہ داشتاؤں میں سبینا سے بہتر اس کی کوئی اور دوست نہیں رہی ہے۔
(۶)
شہوانی دوستی کے غیر نوشتہ معاہدے کی رو سے توماش پر یہ شرط عائد ہوتی تھی کہ وہ ہرنوع کی محبت کو اپنی زندگی سے بے دخل کردے۔ جس لمحے وہ اس شق کی خلاف ورزی کرے گا، اس کی دوسری داشتاؤں کی حیثیت کم ہوجائے گی ا ور وہ بغاوت پر کمربستہ ہوجائیں گی۔
نتیجے کے طور پر اس نے تیریزا اور اس کے وزنی سوٹ کیس کے لیے ایک کمرا کرائے پر لے لیا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کی خیر خبر رکھے، اس کی حفاظت کرے، اس کی موجودگی سے لطف اندوز ہو، لیکن اس نے اپنی زندگی کی روش کو تبدیل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں محسوس کی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ لوگوں کو بھنک ہوجائے کہ تیریزا اس کی رہائش گاہ پر ہی سوتی ہے: رات ساتھ گزارنا محبت کی شہادتِ جرم ہے۔
وہ دوسری عورتوں کے ساتھ کبھی رات نہیں گزارتا تھا۔ اگر ان کی قیام گاہ پر ہوتا تو یہ کام آسان تھا: وہ جب چاہے وہاں سے جا سکتا تھا۔ لیکن اگر وہ اس کے یہاں آئی ہوئی ہوتیں توصورتِ حال نازک ہوجاتی اور اسے بتانا پڑتا کہ نصف شب گزرنے پر وہ انھیں کار میں گھر چھوڑ آئے گا کیوں کہ وہ بے خوابی کا شکار ہے اور کسی دوسرے کے قریب لیٹے تو نیندکا آنا ناممکن ہے۔ اگرچہ یہ بات صداقت سے دور نہیں تھی، ان سے پوری صداقت بیان کرنے کی جرأت اسے کبھی نہیں ہوئی: جفتی کے بعد تنہا ہونے کی ایک بے قابو خواہش اس پر حاوی ہوجاتی؛ بیچ رات میں کسی اجنبی جسم کے برابر جگنا اسے ناگوار گزرتا تھا، اور صبح کسی دخل انداز کے ساتھ اٹھنے سے اسے کراہت محسوس ہوتی تھی؛ اسے اس کی بالکل خواہش نہیں تھی کہ کوئی اسے برش سے دانت مانجھتے ہوئے سنے، نہ بے تکلف ناشتے کا خیال ہی اس کے لیے باعثِ ترغیب تھا۔
یہی وجہ تھی کہ بیدار ہونے پر یہ دیکھ کر کہ تیریزا بڑی مضبوطی سے اس کا ہاتھ دبا رہی ہے اسے اتنا شدید تعجب ہوا۔ وہاں لیٹے ہوئے اور اسے دیکھتے ہوئے اسے ٹھیک سے سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا ماجرا ہوا ہے۔ لیکن جب اس نے پچھلی چند ساعتوں کی یادآوری کی تو اسے ان سے ایک ان جانی مسرت کی لو پھوٹتی ہوئی محسوس ہوئی جس کا اس سے پہلے اسے کبھی تجربہ نہیں ہوا تھا۔
اس کے بعد سے دونوں ہی ساتھ ساتھ سونے کے منتظر رہنے لگے۔ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ ان کی جفتی کی غرض و غایت اتنی حصولِ لذّت نہیں تھی جتنی وہ نیند جو اس کے بعد آتی تھی۔تیریزا خاص طور پر اس سے متاثر ہوتی۔ جب کبھی اسے اپنے کرائے کے کمرے میں رات گزارنی پڑتی (جو بہت جلد توماش کے لیے عدم موجودگی کا عذر بن گیا تھا) تو اسے نیند ہی نہ آتی؛ لیکن چاہے وہ کتنی ہی پریشان اور پراگندہ خاطر کیوں نہ رہی ہو توماش کی بانہوں میں آسانی سے سوجاتی۔ وہ اسے سرگوشیوں میں پریوں کی کہانیاں سناتا جو اس نے وہیں اس کے بارے میں گڑھی ہوتیں، یہ بے معنی باتیں، لفظ جو وہ بڑی یک رنگی سے دہراتا، لفظ جو تسکین آور یا مزاحیہ ہوتے، جو اسے تھپک تھپک کر رات کے اولیں خوابوں میں لے جانے والے مبہم نظاروں میں بدل جاتے۔ تیریزا کی نیند پر اس کی پوری عمل داری تھی: وہ ٹھیک جس لمحے چاہتا وہ اونگھ جاتی۔
جب وہ سو رہے ہوتے تو وہ توماش کو اسی طرح تھامے رہتی جیسے پہلی رات، اس کی کلائی، انگلی، یا ٹخنے کو مضبوطی سے گرفت میں لیے ہوئے۔ اگر وہ اس کو بیدار کیے بغیر جنبش کرنا چاہتا، تو اسے کوئی حکمتِ عملی استعمال کرنی پڑتی۔ اس کی گرفت سے اپنی انگلی (کلائی، ٹخنا) آزاد کرانے کے بعد، ایک ایسا عمل جو کبھی اسے جزوی طور پر بیدار کیے بغیر نہ رہتا کیوں کہ وہ اپنی نیند میں بھی اس کی نگہ بانی کررہی ہوتی، وہ کوئی چیز (ایک گول مول تہ کیا ہوا شب خوابی کے لباس کا بالائی حصہ، سلیپر، کتاب) اس کی گرفت میں دے کراسے تسکین دیتا، جسے وہ پھر اتنی مضبوطی سے پکڑ لیتی جیسے یہ توماش کے بدن ہی کا کوئی حصہ ہو۔
ایک بارجب توماش نے اسے بس تھپک تھپک کر سلایا ہی تھا لیکن وہ ابھی خواب کی ڈیوڑھی سے آگے نہ بڑھی تھی اور ردِ عمل ظاہر کرنے پر قادر تھی، وہ اس سے بولا، ’’خدا حافظ، میں اب جا رہا ہوں۔‘‘ ’’کہاں؟‘‘ وہ نیند میں بڑبڑائی۔ ’’دور،‘‘ اس نے درشتی سے جواب دیا۔ ’’تو پھر میں بھی تمھارے ساتھ چل رہی ہوں،‘‘ وہ بولی، بستر میں ایک دم چوکس ہوتے ہوئے۔ ’’نہیں، تم نہیں چل سکتیں۔ میں ہمیشہ کے لیے جارہا ہوں،‘‘ وہ بولا، کمرے سے باہر ہال میں جاتے ہوئے۔ وہ اٹھ بیٹھی اور اس کے پیچھے پیچھے باہر نکل آئی، آنکھیں چندھیاتے ہوئے۔ اپنے کوتاہ نائٹ ڈریس کے نیچے وہ برہنہ تھی۔ اس کا چہرہ خالی خالی تھا، بے تاثر، لیکن وہ بڑی پھرتی سے حرکت کررہی تھی۔ وہ چلتے ہوے فلیٹ کے ہال سے عمارت کے ہال میں آیا (جسے سارے کرائے دارمشترکہ استعمال کرتے تھے) ، اور دروازہ اس کے منھ پر بند کردیا۔ اس نے اسے دھڑ سے کھول دیا اور اس کا تعاقب جاری رکھا، اپنی نیند میں قائل کہ وہ واقعی اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جارہا ہے اور تیریزا کو کسی نہ کسی طرح اسے روکنا چاہیے۔ وہ زینے سے اتر کر پہلی لینڈنگ پر آیا اور وہاں اس کا انتظار کرنے لگا۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے سیڑھیاں اتر کر آئی، اس کا ہاتھ پکڑ لیا، اور واپس بستر پر لے آئی۔ توماش اس نتیجے پر پہنچا: ایک عورت کے ساتھ جفتی کرنا اور ایک عورت کے ساتھ سونا دو مختلف شدید جذبے ہیں، محض مختلف ہی نہیں بل کہ ایک دوسرے کی ضدبھی۔محبت اپنا اظہارجفتی کی خواہش میں نہیں کرتی (ایک ایسی خواہش جو عورتوں کی ایک لا محدود تعداد کو محیط ہوتی ہے) بل کہ ساتھ سونے کی خواہش میں (وہ خواہش جو صرف ایک عورت تک محدود ہوتی ہے)۔
(۷)
دورانِ شب وہ نیند میں کراہنے لگی۔ توماش نے اسے جگایا، لیکن اس کے چہرے کو دیکھتے ہی وہ نفرت بھری آواز میں بولی، ’’مجھ سے دور ہو! مجھ سے دور ہو!‘‘اس کے بعد اس نے توماش سے اپنا خواب بیان کیا: وہ دونوں اور سبینا ایک بڑے سے کمرے میں تھے۔ کمرے کے وسط میں ایک پلنگ رکھا تھا۔ یہ تھئیٹر کے چبوترے کی طرح تھا۔ توماش نے اسے کونے میں کھڑے ہوجانے کا حکم دیا تاکہ وہ سبینا کے ساتھ جفتی کرے۔اس منظر سے تیریزا کو ناقابلِ برداشت تکلیف پہنچی۔ اس امید میں کہ جسم کی تکلیف سے شاید دل کی تکلیف میں افاقہ ہوجائے، اس نے اپنی انگلیوں کے ناخنوں کے نیچے سوئیاں چبھوئیں۔ ‘‘اتنی شدید تکلیف ہوئی،‘‘ اس نے کہا، اپنے ہاتھوں کو سختی سے مٹھیوں کی شکل میں بھینچتے ہوئے جیسے وہ سچ مچ زخمی ہوں۔
توماش نے اسے اپنے سے لگالیا، اور وہ (بڑی دیر تک شدت سے تڑپتی ہوئی) اس کی بانہوں میں سوگئی۔
اگلے دن خواب کی بابت سوچتے ہوئے اسے کچھ یادسا آیا۔ اس نے ڈیسک کی ایک دراز کھولی اور ان خطوط کا پیکٹ نکالا جو سبینا نے اسے لکھے تھے۔ اسے یہ عبارت ڈھونڈ نکالنے میں زیادہ دیر نہیں لگی: ’’میں تمھارے ساتھ اپنے اسٹودیو میں جفتی کرنا چاہتی ہوں۔ یہ ایک اسٹیج کی طرح ہوگا جس کے گردخلقت جمع ہوگی۔ تماش بینوں کو قریب آنے کی اجازت نہیں ہوگی، لیکن وہ ہم پر سے اپنی نظریں نہیں ہٹا سکیں گے۔‘‘
بد ترین یہ کہ خط پر تاریخ پڑی تھی۔ یہ ابھی حال ہی میں لکھا گیا تھا، تیریزا کے توماش کے یہاں آجانے کے بہت بعد میں۔
’’تو تم میرے خط ٹٹولتی رہی ہو!‘‘
اس نے تردید نہیں کی۔ ’’تو پھر مجھے نکال دو!‘‘
لیکن اس نے اسے نکال نہیں دیا۔ وہ اسے تصور میں سبینا کے اسٹوڈیو کی دیوار سے بھڑے بیٹھے ناخنوں کے نیچے سوئیاں چبھوتے ہوئے دیکھ سکتا تھا۔ اس نے اس کی انگلیاں اپنے ہاتھوں میں لے کرتھپ تھپائیں، پھر اپنے لبوں سے لگا کر چومیں، یوں جیسے خون کے قطرے ابھی تک ان پر ہوں۔
اس کے بعد سے گویا ہر چیز اس کے خلاف سازش میں لگی ہوئی تھی۔ مشکل سے کوئی ایسا دن رہا ہوگا جب تیریزا کو اس کی خفیہ زندگی کی کسی نہ کسی بات کا علم نہ ہوجاتا ہو۔
اول اول تو اس نے سب باتوں کی تردید کر ڈالی۔ پھر، جب شہادت بالکل صریح ہوگئی، تو اس نے یہ تاویل پیش کی کہ ا س کا کثیر الازواج شعارِ زندگی کسی بھی طرح اس کی اس سے محبت کے خلاف نہیں جاتا۔ اس کے بیان میں آشفتگی تھی: پہلے اپنی بے وفائیوں سے مکرنا ، اور پھرانھیں جائز قرار دینے کی کوشش۔
ایک دفعہ فون پر کسی عورت سے ڈیٹ مقرر کرنے کے بعد وہ اسے خدا حافظ کَہ رہا تھا کہ برابر والے کمرے سے ایک عجیب سی آواز آئی جیسے دانت کٹکٹا رہے ہوں۔
وہ اس کے جانے بغیر اتفاقیہ گھر لوٹ آئی تھی۔ وہ دوا کی بوتل سے کچھ اپنے حلق میں انڈیل رہی تھی اور اس کا ہاتھ اس شدّت سے کانپ رہا تھا کہ بوتل اس کے دانتوں سے ٹکرا کر بجنے لگی۔
وہ اس کی طرف یوں جھپٹا جیسے اسے ڈوبنے سے بچانے کی کوشش کررہا ہو۔ بوتل فرش پر آرہی، اور قالین پر ولیرین (valerian)کے قطروں کے داغ ڈال دیے۔ اس نے خوب ہاتھا پائی کی، اور توماش کو کوئی پندرہ منٹ تک اسے جکڑے رکھنا پڑا تاآں کہ اس کا سکون بہ حال ہوا۔
اسے معلوم تھا کہ وہ جس حالت میں ہے اس کا دفاع نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ اس کی بنیاد سراسر غیر مساوات پر تھی۔
سبینا کی مراسلت کا علم ہونے سے پہلے ایک شام وہ چند دوستوں کے ساتھ تیریزا کی نئی ملازمت کی خوشی منانے ایک بارگئے ہوئے تھے۔ ہفتہ واری اخبار میں اس کی ڈارک روم ٹیکنیشین سے اسٹاف فوٹوگرافر میں ترقی ہوگئی تھی۔ چوں کہ توماش کو رقص وقص سے بہت زیادہ دل چسپی نہیں تھی،اس کے ایک عمر میں ذرا چھوٹے ہم کار نے یہ ذمے داری سنبھال لی۔ ڈانس فلور پر وہ دونوں بڑا شان دار جوڑا لگ رہے تھے اورتوماش کو تیریزا پہلے سے کہیں زیادہ حسین نظر آئی۔ جس نپی تلی سرعت اور پاسِ خاطر سے تیریزا اپنے ساتھی کی حرکات کی پیش بینی کررہی تھی توماش اسے حیرت سے دیکھتا رہا۔رقص اسے اس بات کا اعلانیہ معلوم ہوا کہ اس کی عقیدت مندی، توماش کی ہر للک کو پورا کرنے کی اس کی پُرجوش خواہش کاتوماش کی ذات سے کوئی ناگزیرتعلق نہیں تھا، بل کہ وہ توکسی بھی مرد کے بلاوے کا جواب دینے کے لیے تیار ہوتی جس سے توماش کی بہ جائے اس کی ملاقات ہوئی ہوتی۔ تیریزا اور اپنے اس نوجوان ہم کار کو عاشقوں کے روپ میں تصوّر کرنے میں اسے کوئی دقّت پیش نہ آئی۔ اوراس آسانی سے یہ افسانہ گھڑ لینے پر اسے تکلیف محسوس ہوئی۔ اسے لگا کہ تیریزا کے جسم کا کسی بھی مرد جسم سے بھڑے ہوئے ہونے کا خیال بالکل کیا جاسکتا تھا، اور اس خیال سے اس کی طبیعت مکدّر ہوگئی۔ اس دن، گھر پر، بڑی رات گزر جانے کے بعد ہی کہیں جاکر، اس نے تیریزا سے اپنی رقابت کا اعتراف کیا۔
اس لایعنی رقابت نے جس کی اساس تخمین و ظن پر قائم تھی یہ ثابت کردیا کہ وہ تیریزا کی (جنسی)وفاداری کوان دونوں کے تعلق کا ایک غیر مشروط بنیادی اصول گردانتا ہے ۔ تو اس صورت میں وہ کیسے خود اپنی سچ مچ کی داشتاؤں سے اس کی رقابت پر بے اطمینانی کا اظہار کرسکتا ہے۔
(۸)
دن کے وقت اس نے توماش کے بیان پر یقین کرنے کی (اگرچہ جزوی کام یابی کے ساتھ) کوشش کی، اور پہلے جتنی ہی ہشاش بشاش نظر آنے کی بھی۔ لیکن رقابت جس پردن میں کسی طرح قابو پالیا گیا تھا اس کے خوابوں میں اور بھی زیادہ تندی کے ساتھ پھٹ پڑی، جن میں کے ہر خواب کی انتہا ایک دکھ بھری چیخ پر ہوئی جسے وہ اسے جگا کر ہی فرو کرسکا۔
اس کے خواب ٹیلی وژن کے سیریلز کے موضوعات اور معمولی سی تبدیلی کے ساتھ پیش کی جانے والی قسطوں کی طرح بار بار لوٹ آتے۔ مثال کے طور پر، وہ بار بار یہ خواب دیکھتی کہ بلّیاں اس کے چہرے پر کود پھاندرہی ہیں اور اس کی جلد میں پنجے گاڑ رہی ہیں۔ اس کی تعبیر کے لیے ہمیں بہت دور جانے کی ضرورت نہیں: چیک سلینگ میں ’’کیٹ‘‘ کا مطلب ایک حسین عورت ہوتا ہے۔ تیریزا خود کو عورتوں، سب عورتوں سے ہراساں دیکھتی۔ تمام عورتیں توماش کی امکانی داشتائیں تھیں، اور اسے ان سب سے خوف آتا تھا۔
خوابوں کے ایک اور سلسلے میں وہ دیکھتی کہ اسے اپنی موت سے ہم کنار کیا جارہا ہے۔ ایک بار، جب اس نے رات کے سنّاٹے میں دہشت ناک چیخ ماری اور توماش نے اسے جگا یا ، تو اس نے اپنا خواب بیان کردیا: ’’میں ایک بڑے سے اندرونی سوئمنگ پول میں تھی۔ اس میں ہم بیس عورتیں تھیں۔ ہم برہنہ تھیں اور ہمیں پول کے گرد مارچ کرنی پڑ رہی تھی۔ چھت سے ایک ٹوکری لٹکی ہوئی تھی اور اس میں ایک آدمی کھڑا تھا۔ مرد کے سر پر ایک چوڑی کناری والا ہیٹ منڈھا تھا جس سے اس کا چہرہ چھپ گیا تھا، لیکن مجھے دکھائی دے رہا تھا کہ یہ تم ہو۔ تم ہمیں حکم دیتے رہے۔ ہم پر چلّاتے رہے۔ مارچ کرتے ہوے ہمیں گانا بھی پڑ رہاتھا، گانا اوربیٹھکیں لگانا۔اگر کوئی بھی قاعدے سے نہیں بیٹھک لگاتا تو تم اس پر پستول داغ دوگے اور وہ مرجائے گی اور تالاب میں جاگرے گی۔ جس پر سبھوں کو ہنسی آگئی اور وہ اور زور زور سے گانے لگیں۔ تمھاری آنکھیں ہم پر گڑی ہوئی تھیں، اور جس لمحے ہم سے کوئی بھول چوک ہوجاتی تو تم گولی ماردیتے۔ تالاب لاشوں سے بھرا تھا جوسطحِ آب کے بس ذرا ہی نیچے تیر رہی تھیں۔ مجھے معلوم تھا کہ ایک بار اوربیٹھک لگانے کی طاقت مجھ میں نہیں رہی ہے اور تم مجھے گولی مارنے والے ہو!‘‘
ایک تیسرے سلسلے میں وہ مر چکی ہوتی۔
وہ ایک فرنیچر کی وین جتنی بڑی جنازہ گاڑی میں پڑی ہے اور اس کے چاروں طرف مردہ عورتیں ہیں۔ اتنی زیادہ کہ پچھلا دروازہ بند نہیں ہورہا اور متعدد ٹانگیں باہر کو نکلی جھول رہی ہیں۔
’’لیکن میں مردہ نہیں ہوں!‘‘ تیریزا چلائی۔ ’’محسوس کرنے کی قدرت مجھ میں اب بھی باقی ہے۔‘‘
’’اور ہم بھی،‘‘ لاشیں ہنس پڑیں۔
ان کی ہنسی ان زندہ عورتوں کی ہنسی کی مانندہی تھی جو بڑی بشاشت کے ساتھ اس سے کہتیں کہ یہ بالکل معمول کے مطابق تھا کہ ایک دن اس کے دانت خراب ہوجائیں گے، رحم میں عیب آجائے گا، جھریاں نکل آئیں گی، کیوں کہ ان سب کے دانت خراب تھے، رحم میں نقص پڑ گیا تھا، جھریاں نکل آئی تھیں۔ وہی ہنسی ہنستے ہوئے انھوں نے اسے بتایا کہ وہ مرچکی ہے اور یہ عین حسبِ معمول ہے!
اچانک اسے پیشاب خارج کرنے کی حاجت محسوس ہوئی۔ ’’دیکھا نا تم نے،‘‘ اس نے چلا کر کہا، ’’مجھے پیشاب آرہا ہے۔ یہ اس کا حتمی ثبوت ہے کہ میں مری نہیں ہوں!‘‘
لیکن وہ دوبارہ صرف ہنس پڑیں۔ ’’پیشاب لگنا ٹھیک معمول کے مطابق ہے!‘‘ وہ بولیں۔ ’’اس قسم کی چیز تم بہت دنوں تک محسوس کرتی رہوگی۔ اُس آدمی کی طرح جو بازو کٹ جانے کے بعد بھی اسے اپنی جگہ پر ہی محسوس کرتا ہے۔چاہے ہمارے اندر پیشاب کا ایک قطرہ بھی موجودنہ ہو، پیشاب کرنے کی حاجت قائم رہے گی۔‘‘
تیریزا بستر میں توماش کے جسم سے بھڑ گئی۔ ’’اور مجھ سے ان کا اندازِ گفتگو! پرانے دوستوں جیسا، لوگ جو مجھے ہمیشہ سے جانتے ہوں۔ ان کے ساتھ ابد تک رہنے کے خیال ہی سے میں بدحواس ہوگئی۔‘‘
(۹)
وہ تمام زبانیں جو لاطینی سے نکلی ہیں "compassion" (’’ترحّم‘‘،’’ ہم دردی‘‘)کا لفظ ، بہ معنیٰ "with"کے سابقے کے ساتھ اساسی معنیٰ "suffering" (لاطینیِ متاخر، passio com-) کے لفظ کو جوڑ کر بناتی ہیں ۔ دیگر زبانوں میں۔۔۔مثلاً چیک، پولش، جرمن، اور سوئیڈش۔۔۔اس لفظ کا ترجمہ ایک اسم کے ذریعے ہوتا ہے جو ایسے ہی ایک اور سابقے"feeling" (’’احساس‘‘)کے لفظ کے ساتھ ملا کر بنایا جاتا ہے (چیک: sou-cit؛ پولش، wsp243l-czucie؛ جرمن، Mit-gef252hl؛ سوئیڈش، med-k228nsla )۔
اُن زبانوں میں جن کی اصل لاطینی ہے، "compassion"(ہم دردی)کا مطلب ہے: ہم سرد مہری کے ساتھ دوسروں کو تکلیف پہنچتے ہوے نہیں دیکھ سکتے ہیں؛ یا، ہم ان لوگوں کے لیے ہم دردی محسوس کرتے ہیں جو تکلیف اٹھا رہے ہوں۔ اس سے تقریباًملتے جلتے معنیٰ کا ایک اور لفظ ہے، "pity" (فرانسیسی، piti233؛ اتالوی، piet224، وغیرہ )، جس میں تکلیف اٹھانے والے کے حق میں ایک نوع کی کرم فرمائی کا مفہوم پایا جاتا ہے۔"To take pity on a woman" (’’ایک عورت پر ترس کھانا‘‘) کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم اس عورت کے مقابلے میں بہتر ہیں، کہ ہم خود کو اس کی سطح پرفروتن کررہے ہیں، اپنے کو گرا رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ"compassion" کا لفظ عام طور پرشک و شبہ کو ہوا دیتا ہے؛ یہ ایک ایسے جذبے پر دلالت کرتا ہے جو کمتر ، دوسرے درجے کا شمار کیا جاتا ہے جس کا محبت سے بہت کم سروکار ہے۔ کسی سے بہ وجہِ ہمدردی محبت کرنا، درحقیقت محبت نہ کرنے کے برابر ہے۔
ان زبانوں میں جو "compassion" ’’تکلیف‘‘ کے مادّے سے نہیں بل کہ ’’احساس‘‘ کے مادّے سے اخذ کرتی ہیں، لفظ کم و بیش انھی معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے ، لیکن قطعیت کے ساتھ یہ کہنا کہ یہ ایک برے یا کم تر جذبے پر دلالت کرتا ہے مشکل ہے۔ اس کے اشتقاق کی خفیہ قوّت اس لفظ کو ایک اور روشنی سے معمور کردیتی ہے اور اسے وسیع تر معنیٰ عطا کرتی ہے: کم پیشن(ہم احساسی) رکھنے کا مطلب صرف یہی نہیں ہوتا کہ آدمی دوسرے کی بد قسمتی کو برداشت کرے بل کہ اس کے ہم راہ کوئی جذبہ ۔۔۔شادمانی، تشویش،خوشی، درد۔۔۔بھی محسوس کرے۔ چناں چہ اس نوع کا کم پیشن (soucit, wsp243lczucie, Mitgef252hl,medk228nsla کے مفہوم میں) عاطفانہ تخیل کی بیش سے بیش قدرت پر دلالت کرتا ہے، ادراک سے ماورا خیال رسانی (telepathy) ، تو گویا یہ جذبات کے نظامِ مراتب میں افضل ترین ہے۔
توماش پر اپنے ناخنوں کے نیچے سوئیاں گھسیڑنے والے خواب کا انکشاف کر کے تیریزا نے نادانستہ یہ انکشاف بھی کردیا تھاکہ وہ اس کی ڈیسک کھکھولتی رہی ہے۔ اگر وہ کوئی اور عورت رہی ہوتی تو توماش اس سے کبھی دوبارہ بات تک نہ کرتا۔ تیریزا نے جو اس حقیقت سے آگاہ تھی کہا،’’ تو پھرمجھے نکال دو!‘‘ لیکن اسے باہر نکال دینے کی بہ جائے توماش نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور اس کی انگلیوں کی پوریں چوم لیں، کیوں کہ ٹھیک اس لمحے خود اسے تیریزا کے ناخنوں کا درد محسوس ہورہا تھا، اتنے یقینی طور پر جیسے اس کی انگلیوں کی رگیں سیدھی اس کے دماغ سے متّصل ہوں۔کوئی بھی جو شیطان کے عطیے کم پیشن کو( فیلنگ، ہم احساسی) سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہا ہے تیریزا کو اس کے کیے پر سرد مہری کے ساتھ لعن طعن کرے گا، کیوں کہ خلوت(پرائے ویسی)ایک مقدس چیز ہے اور درازیں جن میں نجی مراسلت رکھی ہو انھیں ٹٹولنا نہیں چاہیے۔ لیکن چوں کہ کم پیشن توماش کی قسمت (یا لعنت )تھا، اسے محسوس ہوا کہ وہ خود ڈیسک کی کھلی ہوئی دراز کے سامنے گھٹنے ٹیکے بیٹھا ہے، سبینا کے خط سے نظریں ہٹانے سے یکسر عاجز۔ وہ تیریزا کو سمجھتا تھا، اور نہ صرف یہ کہ وہ ا س پر برہم ہونے کی صلاحیت سے عاری تھا، بل کہ وہ تو اس سے اوربھی زیادہ محبت کرتا تھا۔
(۱۰)
اس کی حرکات میں اتاولاپن اور ناپائے داری آگئی۔توماش کی بے وفائی سے پردہ اٹھے دو سال ہورہے تھے، اور صورتِ حال بد تر ہوگئی تھی۔ کوئی چارۂ کار نہیں تھا۔
کیا وہ واقعی اپنے شہوانی تعلقات سے تائب ہونے کے قابل نہیں تھا؟ بالکل نہیں تھا۔ اگر ایسا کرتا تو اس کے بخیے ادھڑ جاتے۔ اس میں ہمّت نہیں تھی کہ دوسری عورتوں کی چاٹ پر قابو پاسکے۔ پھر یہ کہ اسے اس کی کوئی خاص ضرورت بھی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔یہ بات کہ اس کی معرکہ آرائیوں سے تیریزا کو کوئی گزند نہیں پہنچتی تھی یہ خود اس سے زیادہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ تو پھر ان سے کیوں دست بردار ہوا جائے؟ یہ اتنا ہی بے معنی تھا جتنا یہ کہ وہ سوکر (فٹ بال)کے مقابلے دیکھنا چھوڑدے۔
لیکن کیا یہ اب بھی بھوگ ولاس ہی کا معاملہ ہے؟ کسی عورت سے ملاقات کے لیے نکلتے ہوئے اسے خاصی ناگواری محسوس ہونے لگتی اوروہ اپنے سے عہد کرتا کہ اب دوبارہ اس سے نہیں ملے گا۔ تیریزا کا پیکر ہمہ وقت اس کی نظروں کے آگے تیرتا رہتا، اور اسے محو کرنے کا واحدذریعہ یہ تھا کہ وہ فوراً پی کر مدہوش ہوجائے ۔ تیریزا سے ملنے کے بعد سے وہ کبھی الکحل پیے بغیر دوسری عورتوں کے ساتھ جفتی نہیں کرسکا تھا!لیکن اس کی سانسوں میں بسی الکحل کی بو تیریزا کی نظر میں اس کی بے وفائی کا قطعی ثبوت ہوتی۔
وہ ایک دام میں آپھنسا تھا: ان سے ملاقات کے لیے جاتے ہوئے بھی وہ ان سے بے رغبتی محسوس کرتا تھا ، لیکن اگر ایک دن بھی ان کے بغیر گزرتا تو وہ واپس فون کی طرف بھاگتا، ان سے رابطہ قائم کرنے کو بے تاب۔
لیکن سبینا کے ساتھ وہ اب بھی کافی آسودگی محسوس کرتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ وہ محتاط ہے اور ان کی ملاقات کا بھانڈا نہیں پھوڑے گی۔ اس کا اسٹوڈیو اس کے ماضی کی کسی یادگار کی طرح اس کی پذیرائی کرتا، اس کا غیر شادی شدہ فرحت آسا ماضی۔
شاید اسے خود اس کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ کتنا بدل گیا ہے: اسے اب گھر دیر سے لوٹنے سے خوف آتا تھا، کیوں کہ تیریزا اس کے انتظار میں سوئی نہیں ہوگی۔ پھر ایک دن سبینا نے جفتی کے دوران اسے اپنی گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے اور جفتی کو اس کے انجام تک پہنچانے میں جلد بازی کرتے ہوئے بھانپ لیا۔
بعد میں، ہنوز برہنہ اور اسٹوڈیو پار کرتے ہوئے وہ ایک ایزل کے سامنے آکر رک گئی جس پر ایک نیم مکمل پینٹنگ چڑھی ہوئی تھی اور اسے کن انکھیوں سے جلدی جلدی اپنے کپڑے پہنتے ہوئے دیکھا۔
جب اس نے کپڑے پوری طرح پہن لیے اور صرف ایک پیر ہی ننگا رہ گیاتو اس نے کمرے میں نظر دوڑائی، اور پھر چاروں ہاتھ پاؤں پرمیز کے نیچے تلاش جاری رکھی۔
’’تم میری ساری پینٹنگز کے موضوع میں بدلتے ہوئے نظر آرہے ہو،‘‘ وہ بولی۔ ’’دو دنیاؤں کا سنجوگ۔ ایک ڈبل ایکسپوزر۔عیاش توماش کے خاکے سے ناقابلِ یقین طور پر جھانکتا ہوا ایک رومان پسند عاشق کا چہرہ۔یا، برعکس، ترستین (Tristan)میں، ہمیشہ تیریزا کے خیال میں گم، مجھے ایک عیاش کی حسین، اور دغا کھائی ہوئی دنیا دکھائی دیتی ہے۔‘‘
توماش نے اپنے کو سیدھا کیا اور، بٹی ہوئی توجہ کے ساتھ سبینا کی بات سنی۔
’’کیا ڈھونڈ رہے ہو؟‘‘
’’موزہ۔‘‘
اس نے توماش کے ساتھ مل کر پورا کمرا کھنگال مارا، اور توماش پھر سے ہاتھ اور پیروں کے بَل ہوکر میز کے نیچے کھوجنے لگا۔
’’تمھارا موزہ تو کہیں دکھائی نہیں دے رہا،‘‘ سبینا بولی۔ ’’تم اس کے بغیر ہی یہاں آئے ہوگے۔‘‘
’’یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘اس نے اپنی گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے چلا کر کہا ۔ ’’میں صرف ایک موزہ پہنے یہاں نہیں آیا تھا، یا آیا تھا؟‘‘
’’یہ ناممکن نہیں۔ اِن دنوں تم کافی غائب دماغ رہنے لگے ہو۔ جب دیکھو کہیں جانے کی جلدی پڑی ہے، گھڑی پر نظر ہے۔ اگر تم ایک موزہ پہننا بھول گئے ہو تو مجھے اس پر ذرا تعجب نہیں ہوگا۔‘‘
وہ بس اپنے ننگے پیر پر جوتا پہننے ہی والا تھا۔ ’’باہر سردی ہے،‘‘ سبینا بولی۔ ’’میں تمھیں اپنا ایک اسٹاکنگ دے دیتی ہوں۔‘‘
اس نے اسے ایک لمبا، سفید، فیشن ایبل، بڑے خانوں کی جالی والا اسٹاکنگ پکڑا دیا۔
توماش کو خوب پتا تھا کہ وہ اس سے جفتی کے دوران گھڑی دیکھنے کا بدلہ لے رہی ہے ۔ اسی نے اس کا موزہ کہیں چھپا دیا تھا۔ باہر واقعی سردی تھی، اور اس کے سوا چارہ نہیں تھا کہ اس کی پیشکش قبول کرلے۔وہ اس حالت میں گھر پہنچا کہ ایک پیر پر موزہ چڑھا تھا اور دوسرے پر بڑے خانوں کا جالی دار اسٹاکنگ جسے اس نے تہ کرکے ٹخنوں تک گرا لیا تھا۔
وہ ایک مخمصے میں گرفتار ہوگیا تھا:اپنی داشتہ کی نظروں میں اس پر تیریزا کی محبت کا کلنگ لگا تھا ؛ تیریزا کی نظروں میں، اپنی داشتہ سے معرکہ آرائیوں کا بٹّا۔
(۱۱)
تیریزا کی اذیتوں کی شدت کو کم کرنے کے لیے اس نے اس سے شادی کرلی (اب بالآخر وہ کرائے کا کمرا چھوڑ سکتے تھے، جس میں کافی مدت سے اس کا قیام نہیں رہا تھا) اور ایک کتے کاپِلّا اسے لا دیا۔
یہ ایک ہم کار کے سینٹ برنارڈ کے پیٹ سے تھا۔نطفہ ٹھہرانے والا ایک ہمسائے کا جرمن شیپرڈ تھا۔ ان ننھے دوغلوں کا کوئی طلب گار نہیں تھا اور اس کے ہم کار کو انھیں ماردینے میں تامل تھا۔
پِلّوں کا معائنہ کرتے ہوے توماش کو پتا تھا کہ جنھیں مسترد کردے گا انھیں مرنا پڑے گا۔ اس کی کیفیت جمہوریہ کے صدر کی سی تھی جو چار قیدیوں کے سامنے کھڑا تھا جنھیں سزائے موت سنا ئی جاچکی تھی اور اسے اختیار دیا گیا تھا کہ ان میں سے صرف ایک ہی کو معاف کر سکتا ہے۔ بالآخر اس نے اپنا انتخاب کر ہی لیا: ایک کتیا جس کا جسم جرمن شیپرڈ کی یاددلاتا تھا اور جس کا سر اپنی سینٹ برنارڈ ماں کا سا تھا۔ وہ اسے تیریزا کے واسطے گھر لایا، جس نے اسے اٹھا لیا اور اپنے سینے سے لگا کر بھینچا۔ پِلّے نے فوراً اس کے بلاؤز پر دھار ماردی۔
اب وہ اسے کوئی نام دینے کی جستجو میں لگ گئے۔ توماش چاہتا ہے کہ نام ایسا ہو کہ جس سے صریح طور پر ظاہر ہوجائے کہ یہ تیریزا کا ہے، اور معاًاسے اُس کتاب کا خیال آیا جواس وقت تیریزا کی بغل میں دبی ہوئی تھی جب وہ اطلاع دیے بغیر پراگ وارد ہوئی تھی۔ اس نے تجویز کیا کہ وہ پِلّے کوٹولسٹوئے کہا کریں۔
’’یہ ٹولسٹوئے نہیں ہوسکتا،‘‘ تیریزا نے کہا۔ ’’یہ مادہ ہے۔ اینا کرے نینا کیسا رہے گا؟‘‘
’’یہ اینا کرے نینا نہیں ہوسکتی،‘‘ توماش بولا۔ ’’کسی بھی عورت کا چہرہ اتنا مضحکہ خیز نہیں ہوسکتا۔ یہ کیرے نِن سے کہیں زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔بالکل، اینا کا شوہر۔ میں نے ہمیشہ اس کا تصور بالکل اسی طرح کیا ہے۔‘‘
’’لیکن کیرے نِن کہنے سے اس کی جنسیت متاثر نہیں ہوگی؟‘‘
’’یہ بالکل ممکن ہے،‘‘ توماش بولا، ’’کہ اگر ایک کتیا کو مستقل نر نام لے کر مخاطب کیا جائے تواس میں لیسبین میلانات پیدا ہوجائیں۔ ‘‘
تعجب کی بات ہے کہ توماش کے الفاظ سچ ثابت ہوگئے۔ اگرچہ کتیاں اپنی مالکاؤں کے مقابلے میں اپنے مالکوں سے زیادہ پیارکرتی ہیں، کیرے نِن استثنا ثابت ہوا اور اس نے یہ فیصلہ کیا کہ اسے تیریزا سے محبت ہے۔ اس پر توماش اس کا ممنون تھا۔ وہ پِلّے کا سر تھپتھپا کر کہتا، ’’بہت خوب، کیرے نِن!یہی تو ہے جس کے لیے مجھے تمھاری ضرورت تھی۔یہ مجھ اکیلے سے بھلا کہاں سنبھلنے والی ہے، تمھیں میری مدد کرنی ہوگی۔‘‘
لیکن کیرے نِن کی مدد کے باوجود توماش تیریزا کو خوش رکھنے میں ناکام رہا۔ اسے اپنے ناکام رہنے کا احساس چند سال بعد ہوا، اس کے ملک پر روسی ٹینکوں کا قبضہ ہونے کے تقریباً دسویں دن۔ یہ اگست ۱۹۲۸ء تھا، اور توماش کو زیورچ کے ایک اسپتال سے یومیہ ٹیلی فون آرہے تھے۔ اس اسپتال کا افسرِ اعلیٰ، ایک ڈاکٹر جس نے ایک بین الاقوامی کانفرنس کے دوران توماش سے دوستی لگالی تھی، اس کے بارے میں متفکر تھا اور مسلسل اسے ملازمت پیش کر رہا تھا۔
(۱۲)
اگر توماش نے سوئس ڈاکٹر کی پیش کش بلا تامل ردکردی تو یہ تیریزا کی خاطر تھا۔ اس نے فرض کرلیا تھا کہ وہ جانا نہیں چاہے گی۔ اس نے قبضے کا پہلا ہفتہ ایک قسم کی سحر زدگی کے عالم میں گزارا تھا جو تقریباً مسرت سے مشابہ تھی۔ اپنا کیمراا ٹھائے سڑکوں پر مٹر گشت کرنے کے بعد وہ فلم کے رول غیر ملکی صحافیوں کے حوالے کردیتی جو ان کے لیے باقاعدہ ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے۔ ایک بار جب وہ حد سے گزرگئی اورایک آفیسر کا کلوز اَپ لے ڈالا جولوگوں کے ایک گروہ پر اپنی پستول تانے ہوئے تھا، تو اسے گرفتار کرلیا گیااور پوری رات روسی ملٹری ہیڈ کوارٹرز میں رکھا گیا۔ وہاں انھوں نے اسے گولی مارنے کی دھمکی دی، لیکن جیسے ہی انھوں نے اسے چھوڑا، وہ واپس اپنے کیمرے سمیت سڑکوں پر پہنچ گئی۔
توماش کو اسی وجہ سے تعجب ہوا جب قبضے کے دسویں دن وہ بولی، ’’تم سوئٹزر لینڈ کیوں نہیں جانا چاہتے؟‘‘
’’کیوں جاؤں؟‘‘
’’یہاں تمھاری جان ضیق میں کردیں گے۔‘‘
’’کسی کی بھی کرسکتے ہیں،‘‘ تو ماش نے ہاتھ لہرا کر جواب دیا۔ ’’اور تم؟ کیا تم باہر رہ سکتی ہو؟‘‘
’’کیوں نہیں؟‘‘
’’تم نے اس ملک کی خاطر اپنی جان خطرے میں ڈالی ہوئی ہے۔ اتنی بے فکری سے اسے کیسے چھوڑ سکتی ہو؟‘‘
’’ دوب چیک کے لوٹ آنے سے حالات بدل گئے ہیں،‘‘ تیریزا بولی۔
اور یہ تھا بھی ٹھیک: خام خیالی کی زائیدہ وہ عام خوشی کی لہر ایک ہفتے سے زیادہ قائم نہ رہ سکی۔ روسی فوج ملک کے نمائندوں کو مجرموں کی طرح گھسیٹ لے گئی ، کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ کہاں تھے۔ ہر متنفس ان کی زندگی کے بارے میں خوف زدہ تھا، اور روسیوں سے نفرت لوگوں پر شراب کے نشے کی طرح سوار ہوگئی تھی۔ایک نفرت کے نشے میں دھت رنگ رلی ۔ چیک شہروں کو ہاتھ سے رنگے پوسٹروں سے سجایا گیا جن پر طنزیہ فقرے، پھڑکتے ہوئے قول، نظمیں، اور بریزنیف اور ا س کے سپاہیوں کے کارٹون بنے تھے جن کا ایکو ایک آدمی سرکس کے مسخروں کی طرح مذاق اڑا رہا تھا۔ لیکن کوئی رنگ رلی ابد تک نہیں منائی جاسکتی۔ اس اثنا میں روسیوں نے چیک نمائندوں سے ماسکو میں ایک اقرار نامے پر جبراً دست خط کروالیے تھے۔ جب دوب چیک انھیں لے کر پراگ واپس پہنچاتو ریڈیو سے ایک تقریر نشر کی۔ اپنی چھہ روزہ حراست سے اس کی حالت اس قدر ابتر ہوگئی تھی کہ اس سے بہ مشکل بولا جارہا تھا؛ وہ مسلسل ہکلا اور ہانپ رہا تھا، جملوں کے درمیان لمبے لمبے وقفے پڑ گئے تھے، تیس سیکنڈ جتنے لمبے۔
مصالحت سے ملک بد ترین صورتِ حال کا شکار ہونے سے بچ گیا: قتلِ عام اور سائبریا دیس نکالا جس سے ہر فرد و بشر خائف تھا۔ لیکن ایک بات صاف تھی: ملک کو فاتح کے سامنے سر جھکانا پڑے گا۔ دوب چیک کی طرح ہی ہمیشہ ہکلاتا، تتلاتا ، اور ہانپتا رہے گا۔ رنگ رلی ختم شد۔ یومیہ ذلّت و خفّت شروع ہوچکی تھی۔
تیریزا نے یہ سب توماش کو سمجھایا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ سب صحیح ہے۔ لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ ان تمام باتوں کے نیچے ایک اور ، زیادہ بنیادی حقیقت بھی پوشیدہ ہے، وہ وجہ جس کے سبب وہ پراگ چھوڑنا چاہتی تھی:حقیقت میں وہ پہلے کبھی خوش نہیں رہی تھی۔
جن دنوں وہ سڑکوں پر روسی سپاہیوں کی تصویریں کھینچتی پھرتی تھی اور خطرے سے آنکھیں چار کرتی تھی وہ اس کی زندگی کے بہترین دن تھے۔ وہ واحد وقت جب اس کے خوابوں کی ٹیلی وژن سیریز معطل ہوگئی تھی اور اس نے چند مسرت آگیں راتوں کا لطف اٹھایا تھا۔ روسی اپنے ٹینکوں میں اس کے لیے توازن کی سوغات لائے تھے، اور اب جب کہ وہ دورۂ نشاط لپٹ چکا تھا، اسے اپنی راتوں سے پھر خوف آنے لگا تھا اور ان سے فرار ہونا چاہتی تھی۔ اسے اب معلوم ہوگیا تھا کہ بعض صورتوں میں وہ خود کو قوی اور آسودہ محسوس کرسکتی ہے، اور وہ دنیا میں نکل جانے اور ان صورتوں کا کہیں اور تجربہ کرنے کی آرزومند تھی۔
’’تمھیں یہ بات پریشان نہیں کرتی کہ سبینا بھی سوئٹزرلینڈپہنچ گئی ہے؟‘‘ توماش نے پوچھا۔
’’جنیوا، زیورچ نہیں،‘‘ تیریزا نے جواب دیا۔’’ پراگ کے مقابلے میں وہ وہاں کم مصیبت کا باعث ہوگی۔‘‘
وہ شخص جو اپنے گھر کو چھوڑنے کی تمنا کرتا ہے ایک ناخوش آدمی ہوتا ہے۔ چناں چہ توماش نے تیریزا کی ملک چھوڑنے کی خواہش کو اسی طرح قبول کرلیا جس طرح کوئی مجرم اپنا فیصلہ قبول کرتا ہے، اور ایک دن اس نے تیریزا اور کیرے نِن کے ساتھ خود کو سؤٹزرلینڈ کے سب سے بڑے شہر میں پایا۔
(۱۳)
وہ دونوں کے خالی فلیٹ کے لیے ایک پلنگ خرید لایا (اس سے زیادہ فرنیچر خریدنے کے لیے ابھی ان کے پاس پیسے نہیں تھے) اور اپنے کام میں اس چالیس سالہ آدمی کے جنون کے ساتھ جٹ گیا جو ایک نئی زندگی کی ابتدا کررہا ہو۔
اس نے جنیوا کئی ٹیلی فون کیے۔ اتفاق کی بات ہے کہ روسی حملے کے ہفتہ بھر بعد وہاں سبینا کی تصویروں کی نمائش لگائی گئی تھی اور اس کے ننھے سے ملک سے ہم دردی کی لہر میں آکر جنیوا کے آرٹ کے سرپرستوں نے اس کی ساری پینٹنگز خرید ڈالی تھیں۔
’’روسیوں کا سو شکر، میں ایک مال دار عورت ہوں،‘‘ وہ بولی، ٹیلی فون کے آلے میں منھ ڈال کر ہنستے ہوئے۔ اس نے توماش کو آکر اس کا نیا اسٹوڈیو دیکھنے کی دعوت دی، اور یقین دلایا کہ یہ پراگ والے اسٹوڈیو سے جس سے وہ واقف تھابہت زیادہ مختلف نہیں۔
وہ بڑی خوشی سے اس سے ملنے جاتا لیکن تیریزا سے اپنی غیر حاضری کی وجہ بیان کرنے کاکوئی بہانہ نہ مل سکا۔ چناں چہ سبینا خود ہی زیورچ آپہنچی۔ وہ ایک ہوٹل میں ٹھہری۔ کام کے بعد توماش اس سے ملنے گیا۔ اس نے پہلے ریسپشن ڈیسک سے فون کیا، پھر زینے سے اوپر گیا۔ جب سبینا نے دروازہ کھولاتو وہ اس کے سامنے اپنی حسین لمبی ٹانگوں پر کھڑی ہوئی تھی اور صرف پینٹیز اور انگیا پہنے ہوئے تھی۔ اور ایک کالے رنگ کا بولر ہیٹ۔ وہ وہیں کھڑی اسے گھورتی رہی، کچھ کہے یا ہلے جلے بغیر۔ توماش نے بھی یہی کیا۔ اچانک اسے اندازہ ہوا کہ وہ اس بات سے کس قدر متاثر ہوا ہے۔ اس نے بولر ہیٹ سبینا کے سر سے جدا کیااور بستر کے سرھانے پڑی میز پر رکھ دیا۔پھر انھوں نے کچھ کہے سنے بغیر جفتی کی۔
ہوٹل سے اپنے فلیٹ جاتے ہوئے (جس میں اب میز، کرسیاں، صوفہ، اور قالین آگئے تھے) اس نے مسرت کے ساتھ سوچا کہ وہ اپنا طرزِ حیات اپنے ساتھ لیتا آیا ہے، بالکل جس طرح ایک گھونگا اپنا گھر اپنے ساتھ ساتھ لیے پھرتا ہے۔ تیریزا اور سبینا اس کی زندگی کے دو قطبوں کی نمائندگی کرتی تھیں، جدا جدا اور ناقابلِ مصالحت، اس کے باوجود مساوی طور پر دل کش۔
لیکن یہ کہ وہ اپنی زندگی کو سہارا دینے والا نظام ہر جگہ اپنے ساتھ لیے لیے پھرتا ہے ، تو اس کا مطلب تھا کہ تیریزا کو اپنے خواب اب بھی نظر آتے رہے۔
انھیں زیورچ میں رہتے ہوئے چھہ سات ماہ گزرے تھے کہ ایک رات دیر سے گھر لوٹنے پر اسے میز پر ایک رقعہ ملا جس میں اسے مطلع کیا گیا تھا کہ وہ پراگ چلی گئی ہے۔ اس لیے چلی گئی ہے کہ غیر ملک میں رہنے کا پِتّا اس میں نہیں ۔ وہ جانتی تھی کہ اسے توماش کو سہارا دینا چاہیے ، لیکن یہ نہیں جانتی تھی کہ کیسے۔ وہ سادہ لوحی میں یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ باہر جاکر اپنے کو بدل سکے گی۔ اس کا خیال تھا کہ حملے کے دوران جو کچھ اس نے جھیلا تھا اس کے بعد وہ کم سواد نہیں رہے گی، بالغ ہوجائے گی، عقل مند اور قوی، لیکن اس نے اپنی بساط کا اندازہ کرنے میں کچھ زیادہ ہی خوش فہمی سے کام لیا تھا۔ وہ اسے اور گراں بار کیے دے رہی تھی لیکن اب اور نہیں کرے گی۔ اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے اس نے ضروری نتائج نکال لیے تھے۔ اور کیرے نِن کو ساتھ لے جانے پر وہ معافی کی خواست گار ہے۔
اس نے کچھ خواب آور گولیاں حلق سے اتاریں لیکن تا دمِ سحرآنکھ نہ لگی۔خوش قسمتی سے یہ سنیچر کا دن تھا اور وہ گھر رہ سکتا تھا۔ اس نے صورتِ حال کا ایک سو پچاسویں بار جائزہ لیا : اس کے ملک اور بقیہ دنیا کے درمیان سرحد یں اب کھلی ہوئی نہیں تھیں۔ کوئی ٹیلی گرام یا ٹیلی فون اسے واپس نہیں لاسکتا تھا۔ اقتدار و اختیار کے مالک اسے ملک سے باہر نہیں جانے دیں گے۔ اس کی روانگی سٹ پٹادینے کی حد تک قطعی تھی۔
(۱۴)
یہ احساس کہ وہ بالکل مجبور ہے کسی ہتھوڑے کی ضرب سے کم نہ تھا، اس کے باوجود یہ بڑے حیرت انگیز طور پر اطمینان بخش بھی تھا۔ کوئی اسے فیصلہ کرنے پر مجبور نہیں کررہا تھا۔ اسے سامنے والے گھروں کی دیواروں کو تکتے ہوے یہ غور کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ اس کے ساتھ رہے یا نہ رہے۔ یہ فیصلہ تو تیریزا نے خود ہی کردیا تھا۔
وہ کھانا کھانے ریستوراں گیا ۔ وہ عجیب سی پستی محسوس کررہا تھا، لیکن دورانِ طعام اس کی اولین درماندگی چھٹنے لگی، اس کا زور ٹوٹنے لگا اور جلد ہی جو باقی بچ رہا وہ بس اداسی تھی۔ پیچھے مڑ کر ان سالوں پر نظر ڈالتے ہوے جو اس نے تیریزا کے ساتھ گزارے تھے اسے یوں لگا جیسے ان کی کہانی کا اس سے بہتر کوئی اورانجام نہیں ہوسکتا تھا۔ اگر کسی نے یہ کہانی گڑھی ہوتی، تو اسے اسی طرح اس کا خاتمہ کرنا پڑتا۔
ایک دن تیریزا بن بلائے اس کے پاس آئی تھی۔ ایک دن بالکل اسی طرح وہ چلی گئی تھی۔ وہ ایک وزنی سوٹ کیس اٹھائے آئی تھی۔ وہ ایک وزنی سوٹ کیس اٹھائے رخصت ہوگئی تھی۔
اس نے بِل ادا کیا، ریستوراں سے نکلا، اور سڑکوں پر مٹر گشت کرنے لگا، اس کی اداسی دم بہ دم حسین تر ہوتی جارہی تھی۔ اس نے زندگی کے سات سال تیریزا کے ساتھ گزارے تھے، اور اب اسے احساس ہوا کے یہ سال پیچھے مڑ کر دیکھنے پر اس سے زیادہ دل کش تھے جب وہ انھیں گزار رہا تھا۔
تیریزا سے اس کی محبت ایک خوب صورت چیز تھی، لیکن وہ تھکا دینے والی بھی تھی: اسے مسلسل اس سے باتیں چھپانی پڑتی تھیں، دکھاوا کرنا پڑتا تھا، اصلیت پر پردہ ڈالنا پڑتا تھا، تلافی کرنی پڑتی تھی، اس کا حوصلہ بڑھانا پڑتا تھا، اسے سکون دلانا پڑتا تھا، اپنے جذبات کا ثبوت مہیّا کرنا پڑتا تھا، اس کی رقابت ، اذیّت اور خوابوں کی حمایت کرنی پڑتی تھی، اپنے کو مجرم محسوس کرنا پڑتا تھا، بہانے تراشنے اور معافیاں مانگنی پڑتی تھیں۔وہ جو تھکا دینے والا تھا اب غائب ہوچکا تھااورباقی رہ جانے والا صرف حسن تھا۔
سنیچر نے اسے زیورچ میں پہلی بار مڑ گشت کرتے ہوئے پایا، اپنی آزادی کی نشہ آور مہک میں سانس لیتے ہوئے۔ ہر نکّڑ کے پیچھے نئی مہم جوئیاں چھپی بیٹھی تھیں۔ مستقبل بارِ دگر ایک اسرار تھا۔ وہ ایک بار پھر غیر شادی شدہ زندگی کی طرف لوٹ رہا تھا، وہ زندگی جس کے لیے وہ کبھی سمجھتا تھا کہ اسے پیدا کیا گیا ہے، وہ زندگی جو اسے وہی رہنے دے گی جو وہ حقیقت میں تھا۔
سات سال تک وہ اس سے بندھا رہا تھا، اس کا ہر ہر قدم اس کی باز پرس کا تابع تھا۔ یوں جیسے اس نے اس کے پیروں میں آہنی گولے باندھ دیے ہوں۔یک بارگی اس کے قدم سبک ہوگئے تھے۔ وہ بلندیوں میں اڑا جارہا تھا۔ وہ پارمینیڈیز کی طلسماتی سرزمینوں میں داخل ہوگیا تھا: وہ وجود کی شیریں لطافت سے لطف اندوز ہورہا تھا۔
(کیا اس کا دل چاہا کہ جنیوا میں سبینا کو فون کرے؟ ان عورتوں میں سے اِس یا اُس سے رابطہ قائم کرے جن سے ان چند ماہ کی مدت میں زیورچ میں اس کی ملاقات ہوئی تھی؟ نہیں، ذرا بھی نہیں۔شاید اسے احساس تھا کہ کوئی بھی عورت تیریزا کی یاد کو ناقابلِ برداشت بنا دے گی۔)
(۱۵)
یہ عجیب دل گیر دل کشی اتوارکی شام تک قائم رہی۔ پیر کے دن، سب کچھ بدل گیا۔تیریزا اس کے خیالات میں در آئی: اس نے اسے وہاں بیٹھے اپنا الوداعی خط لکھتے ہوے تصور کیا؛ اسے اس کے ہاتھ کپکپاتے ہوئے محسوس ہوئے؛ اسے ایک ہاتھ سے اپنا بھاری سوٹ کیس گھسیٹتے اور دوسرے میں کیرے نِن کی زنجیر تھامے ہوئے دیکھا؛ اس نے اسے پراگ میں اپنے فلیٹ کا تالا کھولتے ہوئے دیکھا، اور دروازے کھولنے پر جس مطلق واماندگی نے اس کا استقبال کیا ہوگا اس کی اذیّت محسوس کی۔
افسردگی کے ان دو خوب صورت دنوں کے دوران اس کے کم پیشن (ٹیلی پیتھی کی نحوست) نے چھٹی لے رکھی تھی ۔ وہ کسی جہازی کی اتوار کی گہری نیند سورہا تھا جسے دن بھر کی کڑی مشقت کے بعدپیر کے کام کے لیے اپنی ساری قوت مجتمع کرنے کی ضرورت ہو۔
ان مریضوں کی بہ جائے جن کا معائنہ کررہا تھا، توماش کو تیریزا نظر آتی رہی۔ اس نے اپنی یاددہانی کی کوشش کی: اس کی بابت مت سوچو! اس کی بابت مت سوچو! اس نے اپنے سے کہا، میں کم پیشن سے بے زار ہوگیا ہوں۔ یہ اچھا ہوا کہ وہ چلی گئی ہے اور اب میں اسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھوں گا، اگرچہ یہ تیریزا نہیں جس سے مجھے گلو خلاصی چاہیے ۔۔۔بل کہ وہ بیماری، کم پیشن، جس کی بابت مجھے یہ گمان تھا کہ میں اس کے چھوت سے محفوظ ہوں تاآں کہ یہ اس نے مجھے لگا دیا۔
ہفتے اور اتوار کو اسے وجود کی شیریں لطافت مستقبل کی گہرائیوں سے اپنی طرف اٹھتی ہوئی محسوس ہوئی۔ پیر کے دن اس پر ایسے بوجھ کی مار پڑی کہ جس سے وہ پہلے کبھی واقف نہیں رہا تھا۔ اس کے مقابلے میں روسی ٹینکوں کا ٹنوں فولاد ہیچ تھا۔کیوں کہ دنیا میں کم پیشن سے زیادہ بھاری کوئی اور چیز نہیں۔ خود اپنا درد کبھی اتنا بوجھل نہیں معلوم ہوتا جتنا وہ درد جو آدمی دوسرے کے ساتھ، دوسرے کے لیے محسوس کرتا ہے، ایک درد جسے تخیل نے شدید بنا دیا ہوتا ہے اور سینکڑوں بازگشتوں نے طویل تر۔
وہ مسلسل اپنی تنبیہ کرتا رہا کہ کم پیشن کے آگے سپر انداز نہ ہو، اور کم پیشن سر جھکائے اوربہ ظاہر مجرم ضمیری کے ساتھ سنتا رہا۔کم پیشن کو معلوم تھا کہ وہ بہت زیادہ گستاخی دکھا رہا ہے، اس کے باوجود وہ اپنی جگہ پر ڈٹا رہا، اور تیریزا کے چلے جانے کے پانچویں دن توماش نے اپنے اسپتال کے افسرِ اعلیٰ(وہ شخص جس نے پراگ میں اسے روزانہ فون کیے تھے)کو مطلع کیا کہ اسے فوراً لوٹنا ہے۔ اسے ندامت تھی۔ اسے پتا تھا کہ افسرِ اعلیٰ کو یہ حرکت بڑی غیر ذمے دارانہ اور ناقابلِ معافی معلوم ہوگی۔ اس کے جی میں آئی کہ وہ اپنا دل کھول کر رکھ دے اور اسے تیریزا کی کہانی سنادے اور وہ خط جو وہ اس کے لیے میز پر چھوڑ گئی تھی۔ لیکن آخر میں اس نے یہ نہیں کیا۔ سوئس ڈاکٹر کے نقطۂ نظر سے تیریزا کی حرکت صرف ہسٹریائی اور قابلِ نفرین ہی ہوتی۔ اور توماش کسی کو اس کے بارے میں برا سوچنے کی اجازت نہیں دے سکتا تھا۔
اسپتال کے افسِراعلیٰ نے فی الواقع اس بات کا بہت برا مانا۔
توماش نے اپنے شانے اچکائے اور کہا، "Es muss sein. Es muss sein" (’’یہ ضرور ہونا ہے۔ یہ ضرور ہونا ہے‘‘)۔
یہ ایک تلمیح تھی۔ بیتھون کے آخری کوارٹیٹ کے آخری مؤمینٹ کی بنیاد مندرجہ ذیل دو موتیف (خاص خیالوں)پر ہے:
لفظوں کے معنیٰ کو بالکل واضح کرنے کے لیے، بیتھون نے مؤمینٹ کی شروعات
اس فقرے سے کی، "Der schwergefasste Entschluss" ، جس کا عام طور پر یہ ترجمہ کیا جاتا ہے: ’’ایک مشکل حل۔‘‘
بیتھون کی طرف یہ اشارہ دراصل تیریزا کے طرف توماش کی واپسی کا پہلا قدم تھا، کیوں کہ اسی نے اسے بیتھون کے کوارٹیٹس اور سوناٹاز کے رکارڈ خریدنے کی تحریک دلائی تھی۔
یہ تلمیح اس کے قیاس سے اور بھی زیادہ بامحل تھی کیوں کہ سوئس ڈاکٹر موسیقی کا بڑا دل دادہ تھا۔ اس نے بڑے سکون سے مسکراتے ہوے پوچھا، بیتھون ہی کے موتیف کی نغمگی میں، "Muss es sein?" (’’کیایہ ضرور ہونا ہے؟‘‘)
"Ya, es muss sein!" (’’ہاں، یہ ضرور ہونا ہے!‘‘)توماش نے دوبارہ کہا۔
(۱۶)
پارمینیڈیز کے برخلاف، بیتھون بہ ظاہر ثقل کو ایک مثبت چیزگردانتا تھا۔ چوں کہ جرمن لفظ schwerکا مطلب ’’مشکل‘‘ اور ’’وزنی‘‘دونوں ہی ہے، بیتھون کے ’’مشکل حل‘‘ کو’’وزنی‘‘ اور ’’بوجھل حل‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔ وزنی حل صداے تقدیر سے ہم آہنگ ہے ("Es muss sein!") ؛ احتیاج، وزن، اور قدروقیمت تین تصورات ہیں جو ایک دوسرے سے لاینفک طور پر جڑے ہوے ہیں: صرف احتیاج ہی وزنی ہوتی ہے، اور صرف وہی جو وزنی ہے قدروقیمت کا حامل ہوتا ہے۔
یہ ایک ایسا ایقان ہے جو بیتھون کی موسیقی کا زائیدہ ہے، اور اگرچہ ہم اس امکان (یا احتمال) کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ اپنی اصلیت کے لیے یہ بیتھون سے زیادہ اس کے شارحین کا رہینِ منت ہے ، ہم سب کم و بیش اس ایقان میں شریک ہیں: ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ آدمی کی عظمت اس حقیقت سے پھوٹتی ہے کہ وہ اپنی تقدیر کا بوجھ اسی طرح برداشتکرتا ہے جس طرح ایٹلس آسمانوں کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھا۔ بیتھون کا ہیرو مابعد الطبیعیاتی بوجھوں کو اٹھانے والا ہوتاہے۔
توماش سوئس سرحد کے قریب پہنچا ۔ میرے خیال میں ایک رنجیدہ خاطر ، دماغ کو صدمہ پہنچا ہوا بیتھون، بہ نفسِ نفیس، جو مقامی آگ بجھانے والے عملے کے براس بینڈ کی وطن کو الوداع کہنے والے سنگیت میں قیادت کررہا تھا، ایک "Es Muss Sein" مارچ۔
پھر توماش نے چیک سرحد پار کی اور روسی ٹینکوں کی قطاروں نے اس کی پذیرائی کی۔ اسے اپنی کار روک دینی پڑی اور آدھا گھنٹا انتظار کرنا پڑا تا آں کہ وہ گزر گئے۔کالی وردی میں ملبوس اسلحہ بند فوجوں کا ایک دہشت ناک سپاہی دوراہے پر کھڑا ٹریفک کی ہدایت کررہا تھا ،یوں جیسے ملک کی ہر سڑک اس کی اور تنہا اسی کی ملکیت ہو۔
"Es muss sein!" توماش نے اپنے سے دہرایا، لیکن پھر شک میں پڑ گیا۔ کیا واقعی یہی ہونا ضروری تھا؟
ہاں زیورچ میںیہ سوچتے ہوئے رہنا کہ تیریزا پراگ میں اکیلی پڑی ہے اس کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔
لیکن وہ کب تک کم پیشن کی اذیّت برداشت کر سکتا تھا؟ اپنی پوری زندگی؟ ایک سال؟ یا ایک ماہ؟ یا صرف ایک ہفتہ؟
یہ وہ کیسے جان سکتا تھا؟ اس کا اندازہ اس نے کیسے کیا ہوتا؟
اسکول کا کوئی بچہ بھی فزکس کی تجربہ گاہ میں مختلف سائنسی مفروضوں کی آزمائش کے لیے تجربے کرسکتا تھا۔ لیکن انسان، کیوں کہ زندہ رہنے کے لیے اسے صرف ایک زندگی ہی ملی ہے، یہ جاننے کے لیے کہ آیا اپنے پیشن (کم پیشن) کا اتّباع کرے یا نہ کرے ،تجربے نہیں کرسکتا۔
تو ذہن میں ان خیالات کو لیے اس نے اپنے فلیٹ کا دروازہ کھولا۔ کیرے نِن نے اس پر جست بھر کر اور اس کے چہرے کو چاٹتے ہوے اس کی گھر واپسی قدرے آسان کردی۔ تیریزا کی بانہوں میں خود کو ڈال دینے کی خواہش (جسے وہ زیورچ میں اپنی کار میں سوار ہوتے وقت بھی محسوس کرسکتا تھا)بالکل زائل ہوچکی تھی۔ اس نے اپنے تخیل میں خود کو ایک برفانی میدان کے بیچ اس کے مقابل کھڑا ہوا تصور کیا تھا، دونوں کے دونوں سردی سے کپکپاتے ہوئے۔
(۱۷)
قبضے کی ابتداہی سے روس کے ملٹری ہوائی جہاز پوری رات پراگ کے اوپر پرواز کرتے رہے تھے۔ توماش کو، جسے اب اور شوروشغب کی عادت نہیں رہی تھی ، سونا دوبھر ہوگیا۔
نیند میں ڈوبی تیریزا کے پہلو میں بے چینی سے کروٹیں بدلتے ہوئے، اسے وہ بات یاد آگئی جو اس نے مدتوں پہلے ایک بے اہمیت گفت گو کے دوران کہی تھی۔ وہ اس کے دوست ’’ز‘‘ کے بارے میں باتیں کررہے تھے کہ تیریزانے اعلان کیا، ’’اگر میری ملاقات تم سے نہ ہوئی ہوتی تو مجھے یقیناً اس سے محبت ہوجاتی۔‘‘
اُس وقت بھی اس کے الفاظ نے توماش پر افسردگی کی ایک عجیب کیفیت طاری کردی تھی، اور اِس وقت بھی اسے محسوس ہوا کہ یہ بس اتفاق ہی تھا کہ تیریزا اس سے محبت کرتی تھی اور اس کے دوست ’’ز‘‘ سے نہیں۔ اس کی توماش سے جنسی طور پر تکمیل یافتہ محبت کو چھوڑ کر، عالمِ امکان میں، دوسرے بے شمار مردوں کی وہ محبتیں تھیں جو جنسی تکمیل سے ناآشنا رہی تھیں۔
ہم اس خیال کو فی الفور رد کردیتے ہیں کہ ہماری زندگی کی محبت کوئی لطیف اور بے وزن چیز ہوتی ہے؛ ہم یہ فرض کرلیتے ہیں کہ ہماری محبت ایسی ہے جیسا اسے ہونا چاہیے، کہ یہ نہ ہو تو ہماری زندگی پہلی جیسی نہیں رہے گی؛ ہم محسوس کرتے ہیں کہ بیتھون بہ ذاتِ خود ہماری عظیم محبت کے واسطے "Es muss sein!" بجا رہا ہے۔
توماش نے اپنے دوست ’’ز‘‘ سے متعلق اکثر تیریزا کے فقرے کی بابت سوچا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کی زندگی کی داستانِ عشق "Es muss sein!" (’’ایسا ہی ہونا چاہیے‘‘)کی مثال نہیں پیش کرتی تھی، بل کہ"Es k246nnte anders sein" (’’ اس کے الٹ بھی ہوسکتا ہے‘‘)کی۔
سات سال پہلے ایک پیچیدہ نیوراتی واردات بس اتفاقاً تیریزا کے شہر کے اسپتال میں دریافت ہوئی۔ طبّی مشورے کے لیے پراگ میں توماش کے اسپتال کے چیف سرجن کو بلابھیجا گیا، لیکن توماش کے اسپتال کا چیف سرجن اتفاقاً عرق النسا میں مبتلا تھا، اور چوں کہ وہ ہلنے جلنے سے معذور تھا اس نے اپنی بہ جائے توماش کو مضافاتی اسپتال بھیج دیا۔ اُس شہر میں کئی ہوٹل تھے، لیکن توماش کو اتفاقاً اس ہوٹل میں کمرا دیا گیاجس میں تیریزا ملازم تھی۔ گاڑی کی روانگی سے پہلے اس کے پاس اتفاقاً کافی خالی وقت تھا کہ ہوٹل کے ریستوراں ہو آئے۔ اتفاقاً تیریزا ڈیوٹی پر تھی اور اتفاقاً توماش کی میز ہی پر سرو کررہی تھی۔ توماش کو تیریزا کے پاس لانے میں چھ اتفاقی وارداتیں لگی تھیں، جیسے اس کی طرف جانے میں خود اسے کوئی رغبت نہ ہو۔
وہ اُسی کی خاطر پراگ لوٹ آیا تھا۔ اتنا اہم فیصلہ اتنی ناگہانی محبت پر ٹِکا ہوا تھا، ایسی محبت جو سرے سے وجود ہی میں نہ آتی اگر سات سال پہلے چیف سرجن کو عرق النسا لاحق نہ ہوا ہوتا۔ اور وہ عورت، وہ مطلق ناگہانیت کی تجسیم، اب پھر اس کے پہلو میں محوِ خواب تھی، گہری گہری سانسیں لے رہی تھی۔
کافی رات گزر چکی تھی۔ اس کے پیٹ میں گڑبڑاہٹ ہونے لگی، جیسا کہ جسمانی فشار کے دوران اس کے ساتھ عموماً ہوتا تھا۔
ایک دو بار اس کا تنفس ہلکے ہلکے خراٹوں میں بدل گیا۔ توماش نے کوئی کم پیشن محسوس نہیں کیا۔ کچھ محسوس کیا تو بس یہ پیٹ کا دباؤ ہی تھا اور واپس لوٹ آنے کی مایوسی۔
ترجمہ: محمد عمر میمن
بشکریہ سمبل، شمارہ چار
(جاری ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں