اگر میں یہ کہوں کہ میں نے سعادت حسن منٹو اور کرشن چندر پر ان سے بہتر مضامین ابھی تک نہیں پڑھے تو شاید غلط نہ ہوگا، آپ اسے میری کم علمی پر بھی محمول کرسکتے ہیں، لیکن محمد خالد اختر نے بڑے سے بڑے نقاد کے برعکس جس سادگی اور سچائی کے ساتھ ان فنکاروں کی زندگی اور فن کا تجزیہ کیا ہے، اس سے ہمیں علم ہوسکتا ہے کہ مجموعی طور پر کسی ادیب کے لکھے ہوئے ادب کو ہم کس طرح پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں۔ محمد خالد اختر اردو میں مجھے اس وقت سب سے زیادہ عزیز ہیں۔ ان کی کہانیاں، مضامین، ناول اور پیروڈیز یہ سب میں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھے ہیں۔ وہ اپنے فن کے اعتبار سے ایک ایسا آفاقی حرف ہیں، جس نے مجھے مکمل طور پر اپنے سائے میں لے لیا ہے، اور جب تک میں اردو میں اس سے بہتر حرف نہیں دیکھ لیتا، ان کو حرف آخر ہی مانتا رہوں گا۔ آپ میری بات سے اتفاق و اختلاف کرسکتے ہیں، مگر بہت سوں پر انہیں پڑھ کر شاید ویسا ہی اثر ہو، جیسا مجھ پر ہوا ہے۔میں اجمل کمال کا اس معاملے میں خاص طور پر شکر گزار ہوں کہ ان کی وجہ سے مجھے اور ادبی دنیا کے قارئین کو یہ تحریریں پڑھنے کے لیے بہ آسانی حاصل ہوسکی ہیں۔شکریہ!
سعادت حسن منٹو
آزاد مشرب، مضطرب منٹو— ایک اور واحد منٹو— کی موت سے اردو ادب کی دنیا پر ایک ایسی گھٹاٹوپ افسردگی کا بادل چھا گیا ہے جس کی مثال ہماری پوری یادوں میں مشکل سے ملے گی۔ ادب پیدا کرنے والے پہلے بھی گزرتے رہے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کسی کی موت سے بھی ہم نے اپنے کو اس درجہ غریب اور کم مایہ نہیں محسوس کیا جس قدر اس بوہیمین مصنف کی موت سے۔ نثر کا عظیم زرکار ہم میں سے اٹھ گیا ہے اور اس کے بغیر فن اور انسانیت کی محفل سونی اور ویران ہوگئی ہے۔ ویسے تو یہ نقصان ساری انسانیت اور ساری ادبی دنیا کا نقصان ہے مگر ہم میں سے کتنوں کے لیے، جو اُسے محض اس کے افسانوں کے ذریعے جانتے تھے، یہ ایک نہایت شدید ذاتی نقصان ہے— اتنا ذاتی جتنا ایک بے حد پیارے اور عزیز دوست کا گزر جانا۔ بوہیمیا کے پُرتصویر کوچوں میں روشنیاں ماند پڑ گئی ہیں اور دنیا کو کھونے والے اور اس کے رواجوں کی جکڑ بندیوں سے آزاد بوہیمیا کے باسی اپنے استاد، اپنے بادشاہ سے محروم ہوگئے ہیں۔ تاہم یہ اقرار کرنا پڑے گا کہ یہ سوگ صرف بوہیمیا والوں کا سوگ نہیں— انسان سے محبت کرنے والے، جھوٹ اور ریاکاری سے نفرت کرنے والے، اردو نثر کے عاشق، سب آج اس بچھڑنے والے مصنف کے لیے روتے ہیں۔ اس کے حرف گیر، اس کی ادبی عظمت کے منکر، اس کی ذات پر اوچھے وار کرنے والے اس کی زندگی میں بڑے مصروف رہے۔ انھوں نے اس کے فن کو بڑھئی کی کاریگری سے تشبیہ دے کر اس کا مذاق اڑایا۔ وہ بے چارے اس سے آگاہ نہ تھے کہ اس طرح دراصل وہ اس کے فن کی عظمت کا اعتراف کر رہے تھے۔ اگر اس کا فن واقعی کاریگری تھا، اگر واقعی یہ اتنی ہی آسان تھا تو وہ خود کوششِ بسیار کے باوجود اس جیسی ایک بھی کہانی کیوں نہ لکھ سکے۔ انھوں نے اسے فحش نگار کہا اور ایک بہادر مگر درماندۂ روزگار مصنف کی عجیب وارفتہ مزاج زندگی کو دنیاوی عزت داری کی عینک سے دیکھ کر ناک بھوں چڑھائی ۔ وہ خود چاہے نیکی کے پتلے ہوں مگر انھیں اس انسان کی عظمت کا کیا اندازہ ہوسکتا تھا۔ یہ لوگ اس کی زندگی میں مصروف رہے۔ چپکے سے، سرگوشیوں میں انھوں نے ’’گلیورز ٹریولز‘‘ کے بالشتیوں کی طرح دیو کے پائوں سے زمین کھود کر اسے گرانے کی کوشش کی، کہ زندگی میں وہ اس سے ڈرتے تھے۔ اب وہ بھی اس کی موت کے سانحے سے سن ہوگئے ہیں۔ شاید انھوں نے اس مرے ہوے ’آوارہ مزاج‘ کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو اب معاف کردیا ہے اور اس کے ساتھ ہی اپنے گریبانوں میں جھانک کر اس برائی، اس کمینگی کی ایک جھلک دیکھ لی ہے جو اُن کے دلوں میں چھپی بیٹھی ہے۔ ان میں شاید اب ایسا کوئی نہیں جسے اس کی موت سے تھوڑا بہت صدمہ نہ پہنچا ہوگا۔ انھیں بھی غالباً احساس ہوا ہے کہ یہ موت کوئی معمولی موت نہ تھی اور یہ کہ اس کی موت سے ہمارے ادب میں ایک ایسا خلا پیدا ہوچکا ہے جو آسانی سے پُر نہیں ہوسکے گا۔
ہمارے پاس یقینا اب بھی الفاظ کی رنگین مصوری کرنے والے، رومانیت اور شعریت کے دیے جلانے والے مصنف موجود ہیں لیکن مختصر افسانہ نگاری کا استاد ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا ہے۔ وہ اب پھر نہیں آئے گا۔ اردو ادب— بلکہ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ دنیا کا ادب— اس کے جانے سے صحیح معنوں میں مفلس ہوگیا ہے۔ وہ موپاساں اور چیخوف کی صف میں تھا۔ وہ ان کا ہمسر تھا۔ شاید بہ لحاظِ فن ان سے بھی قدر آور تھا۔ وہ اپنی مختصر زندگی میں ہمارے ادبی منظر پر ایک دیو کی طرح چھایا ہوا تھا۔ سچے موتیوں کی سی پاک نثر میں وہ اپنے افسانوں سے ہمارے سوئے ہوے ضمیروں کو کچوکے دیتا تھا، ہماری خود طمانیت اور مصلحت کوشی میں احساس کی سوئیاں چبھوتا تھا اور بار بار ہمیں ایک ایسا مکمل صاف شفاف آئینہ دکھاتا تھا جس میں ہم اپنے اصل روپ کا عکس دیکھنے سے نہ بچ سکتے تھے۔ وہ ہمیں سوچنے اور ایک بہتر انسان بننے پر مجبور کرتا تھا—اور جب میں ایک ’بہتر انسان‘ کہتا ہوں تو میری مراد آپ کے سلجھے ہوے کفایت شعار، مصلحت اندیش انسان سے نہیں ہے جو عموماً اپنی خود غرضی کو اپنی سوجھ بوجھ کا نام دیتا ہے اور جس کے سامنے اپنی اور اپنی اولاد کی بہتری اور ترقی کے سوا اور کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ ہمارے ادب میں متشرع نیکی اور مصلحت اندیشی کی تعلیم اور ہدایت ایک سے زیادہ مصنفوں نے دینے کی کوشش کی ہے۔ اس آشرم کا بڑا پروہت ہمارے ہاں ڈپٹی نذیر احمد ہے جس کے ناول ہمیں یہ تعلیم دیتے ہیں کہ ہم نذیر احمد جیسے بن جائیں— دنیاوی لحاظ سے عزت دار، صوم و صلوٰۃ کے پابند، کفایت شعار اور گانٹھ کے پورے۔ منٹوکے ’بہتر انسان‘ میں ان اوصاف میں سے کوئی بھی چیز نہیں، مگر انسانیت کی اصل روح اس میں موجود ہے۔ وہ ایک ایسا انسان ہے جس کا غالباً منھ دیکھنا بھی آج کے ڈپٹی نذیر احمد گوارا نہ کریںگے اور اپنے بچوں کو اس کے پاس بٹھانا گناہ سمجھیںگے۔ منٹو کا ’بہتر انسان‘ اشراف میں سے نہیں۔ آپ اسے نہ مسجد میں پائیںگے، اور نہ ہی غالباً کلب ہائوس میں۔ آپ اسے زندگی کی سڑک پر رواں دواں پائیںگے، اپنے ہم جنسوں سے محبت کرتا ہوا، اپنی زندگی کے خزانے کو ایک کنجوس کی طرح سینے سے لگائے رکھنے کی بجاے ایک سخی کی طرح لٹاتا ہوا۔ سعادت حسن منٹو کسی ’ازم‘ کا مبلغ نہ تھا۔ اس نے اپنے بے مثل فن کو کسی پرانے زمانے کے ضابطۂ اخلاق کے تابع کرکے اسے بے جان اور جھوٹا نہیں بنایا تھا اور اگر اس کا کوئی ’ازم‘ تھا، کوئی ضابطہ اور کوئی مسلکِ حیات تھا، جسے وہ شدت سے اپنائے ہوے تھا، تو یہ مسلک تھا انسانیت سے محبت کا مسلک، اور اس سے بڑا مسلک اور ہو بھی کیا سکتا ہے؟ ایسے آدمی کی موت کتنا بڑا نقصان ہے، خاص طور پر اس لیے کہ وہ ایک بڑا فن کار بھی تھا۔ ہمارا نقصان اس لیے بھی ناقابلِ تلافی ہے کہ منٹو ابھی اپنے فن کی معراج تک نہیں پہنچا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ بڑے اور عظیم تر شاہکاروں کو ابھی اس کے قلم سے نکلنا تھا۔ اس کا ذہن شیکسپیئر کے ذہن کی طرح زرخیز تھا۔ لاتعداد کرداروں کی جنینیں اس میں زندگی سے روشناس ہونے کے لیے تڑپ رہی تھیں اور یہ مکمل اور حساس فن کار ہمیشہ اور ہر لمحہ اپنے فن میں تکمیل کے لیے کوشاں تھا۔
جو کچھ اس نے ہمارے ادب کو دیا ہے، وہ عظیم اور اَن مٹ ہے، ان لازوال چیزوں میں سے جو ایک بار عالمِوجود میں آجانے کے بعد زندہ رہتی ہیں۔ اس کے لیے شاہکار لکھنا ایک ایسا ہی معمول تھا جیسا اس کے کئی ہم عصر افسانہ نگاروں کے لیے بے جان اور پھسپھسے افسانے قلمبند کرنا۔ اس کی چیزیں زندہ رہیںگی، لیکن جسے اب ہم جیتے جی یاد کرتے رہیںگے، جس کا اب ہم سدا سوگ منائیں گے، وہ انسان سعادت ہے۔ کیسا خوبصورت انسان تھا وہ! وہ ساری انسانیت سے بھائیوں کی طرح محبت کرتا تھا۔ وہ دوسروں کے لیے جان دے سکتا تھا۔ خود وہ ایک لحظے کے لیے بھی الجھنوں اور دکھوں سے آزاد نہ ہوسکا۔ ہم سب جانتے ہیں اُسے کس چیز نے مارا... مگر نہیں، اس کی قاتل شراب نہ تھی۔ ’’کوئی تنگی سی تنگی ہے، کوئی ترشی سی ترشی ہے!‘‘ اس نے ایک دفعہ چچا سام کے نام ایک خط میں شکایت کی اور وہ تنگی اورترشی اس کی زندگی میں ایک زندہ ہولناک حقیقت تھی۔ ہم سب جانتے ہیں، اسے بچایا جاسکتا تھا۔ لیکن جب وہ مر رہا تھا، خودکشی کر رہا تھا تو ہم اس کے افسانے پڑھنے اور ان پر تنقیدیں کرنے میں لگے ہوے تھے۔ اس کو بچانے کے لیے ہم نے ایک انگلی تک نہ ہلائی۔ ڈپٹی نذیر احمد ہمارے رگ و ریشے سے ابھی گیا نہ تھا۔ ہمارے دل منٹو کے دل کی طرح بڑے اور فراخ نہ تھے کہ ساری دنیا کو محبت کے بازوئوں میں سمیٹ لیتے۔ وہ شخص سب انسانوں سے پیار کرتا تھا، اس سے کسی کو اس دو اور دو چار کی دنیا میں پیار نہ تھا اور ہماری آنکھوں کے سامنے وہ ’’تنگی اور ترشی‘‘ کی نذر ہوگیا— تنگی اور ترشی جو اس کے بھائیوں اورہم جنسوںکی کمینگی اور چھوٹے پن کے سوا اور کچھ نہ تھی۔ ہم میں سے کتنے ہی اب جب منٹو کے بارے میں سوچتے ہیں، اپنے کو مجرم محسوس کرتے ہیں۔ منٹو کو خود منٹو نے ایک تدریجی خودکشی کے عمل سے مارا۔ تاہم ہم اس کی موت کی ذمہ داری سے خود کو مطمئن ضمیر کے ساتھ بری نہیں کرسکتے۔
’’انسان سعادت‘‘ جیسا میں اُسے جانتا تھا
میں ۱۹۵۱ء کے گرما میں چند دنوں کے لیے لاہور میں اپنے ایک ناشر دوست کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ ان دنوں منٹو لاہور میں نیا نیا آیا تھا اور میرا ناشر دوست اس کی چند ایک کتابیں چھاپ رہا تھا۔ منٹو نے اس کے ادارے سے شائع ہونے والے ایک نئے ادبی مجلے کی ترتیب کے لیے بھی رضامندی ظاہر کی تھی۔ (یہ مجلہ بڑی آب و تاب سے نکلا مگر دو شماروں کے بعد ہی تجارتی وجوہ کی بنا پر ایک خاموش موت مر گیا۔) میرا ناشر دوست منٹو سے بڑا متاثر تھا۔ ’’بڑا پیارا آدمی‘‘، ’’ایشیا کا سب سے عظیم انسان‘‘— یہ ان توصیفی القاب میں سے چند تھے جن سے وہ ایک پجاری کی مذہبی وارفتگی سے اپنے ادبی بت کے سنگھاسن پر چڑھا وے چڑھاتا تھا۔ ایسے القاب کا مجھ پر کوئی اثر نہ ہوا، میں اس عمر سے قدرے آگے گزر آیا تھا جب ہر مصنف کا نام اپنے گرد شان اور عظمت کا ہالہ لیے ہوتا ہے۔ میں برتری کے انداز میں اپنے شرمیلے اور جھینپو دوست کی قصیدہ گوئی پر مسکراتا اور اس کے ساتھ چل کر منٹو سے ملنے کے وعدوں کو کل پرٹالتا جاتا۔
پھر ایک صبح مجھے بتایا گیا کہ ’’ایشیا کا سب سے بڑا انسان‘‘ مجھ سے ملنا چاہتا ہے— وہ مجھے میرے ایک افسانے کے سلسلے میں دیکھنا چاہتا تھا۔ میں نے ہردوار میں اپنے سفر پر ایک لمبا افسانہ لکھا تھا۔ ہر ایک پچّیس سالہ نوجوان لکھنے والے کی طرح مجھے یقین تھا کہ میں نے ایک شاہکار لکھا ہے۔ مگر ان مدیروں کی رائے جنھیں میں نے اسے چھاپنے کے لیے بھیجا، میری رائے سے مختلف تھی۔ نتیجہ یہ تھا کہ افسانہ بڑے عرصے تک اشاعت پذیر نہ ہوسکا تھا۔ پھر میں نے اسے اپنے ناشر دوست کو بھجوایا۔ اس نے اسے منٹو کو پڑھنے کے لیے دیا۔ منٹو نے اسے پسند کیا مگر وحشیانہ کاٹ چھانٹ اور قطع برید سے اُسے آدھا کر ڈالا۔ کئی ایسے پیروں کے پیروں پر لکیر پھیر دی جو میرے نزدیک بڑے خوبصورت اور سحر انگیز تھے لیکن جو افسانے کی وحدتِ تاثر میں یقینا کسی طرح مددگار نہ تھے۔ یہ افسانہ ’’اردو ادب‘‘ (جو میرے ناشر دوست کے مجلے کا نام تھا)میں چھپنے کے لیے چن لیا گیا۔ لیکن جب میرے دوست نے مجھے لکھا کہ اس کی تھوڑی سی قطع برید کی گئی ہے تو میں نے اپنے افسانے کو ایک نئے روپ میں، مجھے دکھائے بغیر، شائع کرنے سے روک دیا۔ افسانے کا مسودہ مجھے بھیجاگیا۔ مجھے فی الواقع بڑا غصہ آیا۔ میرے افسانے کی اس سفاکی سے کانٹ چھانٹ کرنے والا منٹو کون تھا! میں اپنی حماقت میں یہ نہ سوچ سکا کہ یہ کتر بیونت فن کے ایک استاد نے کی تھی اور اس طرح ایک ژولیدہ اور پریشان رپورتاژ سے ایک نادر لطافت اور تاثر کا مختصر افسانہ بن گیا تھا۔ یہ افسانہ بعد میں ’’کھویا ہوا افق‘‘ کے عنوان سے ’’سویرا‘‘ میں چھپا۔ اب بھی میرا خیال ہے کہ میں شاید اس سے بہتر کہانی کبھی نہ لکھ سکوںگا۔ صرف منٹو کی کاٹ چھانٹ نے اسے ایک کامیاب کہانی بنادیا۔ مجھے یہ کہنا چاہیے کہ یہ میری نہیں بلکہ منٹو کی اچھی کہانیوں میں شمار ہوسکتی ہے، کیونکہ بات کہنے کی نسبت اسے اَن کہا چھوڑنا کہیں بڑا فن ہے۔ سچ ہے کہ چھوٹی سی چیز سے فن میں عظمت آجاتی ہے مگر عظمت کوئی چھوٹی چیز نہیں، اور ہمارے بہت سے افسانہ نگار بات کو بہت زیادہ کہہ کر اپنی تخلیقات پیدا نہیں کرتے بلکہ انھیں ہمیشہ کے لیے دفن کردیتے ہیں—مگر اُس وقت میں یہ سب کچھ نہ سمجھتا تھا اور مجھے منٹو سے اس کی اس بے رحم تصحیح کی وجہ سے کافی کد سی تھی۔ اب جب وہ مجھ سے ملنے کا خواہش مند تھا تو مجھے چار و ناچار اپنے دوست کے ہمراہ اس کے ہاں جانا پڑا۔ وہ ہال روڈ پر بنگلہ نما مکانوں کے بلاک میں سے ایک تھا۔ وہ اس کی نچلی منزل میں رہتا تھا۔ یہ چھوٹے خوشنما مکان نیم دائرے میں ایک سبز گول باغیچے کو احاطہ کیے ہوے تھے۔ جگہ یقینا ایسی تھی جسے انگریزی میں پاش (posh) کہا جاسکتا تھا— اردو کے ایک مصنف کے لیے بہت زیادہ پاش جس کی گزر محض اس کی تحریروں پر تھی۔ میں یہ توقع کر رہا تھا کہ منٹو غلیظ بالکنیوں والے ایک تنگ و تاریک فلیٹ میں رہتا ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ برآمدے کے باہر سبز جھلملیوں کی جافری بھی موجود تھی۔
میرے دوست کے دستک دینے پر ایک آدمی نے آکر دروازہ کھولا؛ ایک آدمی جس کا سر بڑا اور گنبد نما تھا اور جس کی آنکھیں اس کے کھلے فراخ ماتھے کے نیچے جیسے باہر نکلی ہوئی تھیں۔ یہ ایک انسان کی آنکھیں نہ تھیں۔ میں نے ایسی عجیب آنکھیں پہلے کسی انسانی چہرے میں نہ دیکھی تھیں۔ یہ آدمی ایک بے عیب، سپید پاجامے اور کرتے میں ملبوس تھا اور اپنے ایک ہاتھ میں ایک کھلا فائونٹین پین لیے ہوے تھا۔ خوشی اور اخلاص کی روشنی چمکی اور اس نے اتنی گرم محبت سے تمتماتا ہوا ہاتھ ملایا کہ اسی وقت میری ساری سرد مہری، سارا جھینپوپن دور ہوگیا۔ تاریک اجنبی دیوار جو دو انسانوں کے درمیان ہوتی ہے، پانی کی طرح بیٹھ گئی۔ میں اُسے جانتا تھا، وہ میرا برسوں کا دوست تھا۔ منٹو لمبے کاؤچ پر بیٹھ گیا۔ اس پر ایک کاپی بک کھلی رکھی تھی۔ ہمارے آنے سے پیشتر وہ ایک افسانہ لکھنے میں مصروف تھا۔ (یہ افسانہ اس کی کہانیوں کے مجموعے ’’چغد‘‘ میں شامل ہے۔) اُن دنوں وہ ہر روز ایک افسانہ مکمل کرکے اپنے ناشرکے حوالے کر رہا تھا۔ ایک افسانے کا معاوضہ اسے تیس یا بیس روپے مل جاتے تھے۔ یہ روپے آشفتہ مزاج بوہیمین کے لیے بڑے کام کی شے تھے۔ ان سے وہ ’کافر‘ حاصل کی جاسکتی تھی جو اس کے منھ سے لگی ہوئی تھی اور جو اس کی ’تنگی و ترشی‘ کے درد کو تسکین دیتی تھی۔ ان سے اس کی بیوی اور پیارے بچے آرام اور فراغت کی گھڑیوں سے ہمکنار ہوسکتے تھے۔ کمرے میں ہر چیز صاف ستھری اور قرینے سے رکھی ہوئی تھی۔ کائوچ کے پاس تپائی پر ایک گلدان تھا۔ (اس میں اصلی چمکیلے پھول تھے!) اور ایک ایش ٹرے بھی تھی۔ یہ آدمی نازک مزاج اور نفاست پسند ہے، میں نے سوچا۔ وہ اپنی زندگی میں بھی اسی نظم اور قرینے کا شیدائی ہے جسے وہ اپنی تخلیقات میں بروے کار لاتا ہے— ہر ایک لفظ تراش سے درست اور اپنی جگہ پر قرینے سے بیٹھا ہوا۔ یہ ایک بڑے مصنف کا کمرہ نہ تھا؛ یہ ایک شہر کے اچھے کھاتے پیتے وکیل یا آفس سپرنٹنڈنٹ کا کمرہ ہوسکتا تھا۔ ایک مصنف کے کمرے میں آدمی ایک پُرتصویر افراتفری کی توقع کرتا ہے — ہر چیز نیچے اوپر، میز پر کاغذوں اور کتابوں کے گڑبڑ انبار، باسی قہوے کے پیالے، فرش پر پیے ہوے سگریٹوں کے ٹکڑے۔ بعض عظیم ترین مصنفوں نے ایسے کمروں میں اپنی بڑی کتابیں تخلیق کی ہیں۔ بالزاک ایسے ہی ماحول میں کام کرتا تھا اور اپنے اردگرد کی بے نظمی میں خوش تھا۔ اسی طرح، مجھے یقین ہے، دوستووسکی لکھتا تھا جس کا لکھنے کا کمرہ (جب وہ جیل کا حجرہ نہ ہوتا تھا) ایک باقاعدہ پسارخانہ ہوتا تھا۔ اسی طرح بدنظمی اور افراتفری کا حامل ان کا عظیم فن ہے— ان کے بڑے ناول الجھے ہوے، طوفانی اور ناتراشیدہ ہیں، اچھی چیزوں سے بھرے ہوے، لیکن بہت کچھ کچرے اور ردی سے بھی اٹے ہوے۔ ان میں نظم اور تکنیک کا شائبہ نہ تھا۔ ان کے ناولوں کو پڑھنا گویا ایک وسیع کباڑخانے میں داخل ہونا ہے جہاں پہلے پہل تو انسان پریشان ہوجاتا ہے، پھر کباڑ کے ڈھیروں میں سے اس کی آنکھ نوادر پر پڑتی ہے—اور کیسے عجیب نوادر! پریشانی اور الجھن کے درمیان پڑھنے والے کے دماغ میں لَو جل اٹھتی ہے اور اُسے اپنی محنت اور کاوش کا خوبصورت صلہ مل جاتا ہے۔ منٹو اپنے فن میں پھیلائو اور بے ترتیبی سے نفرت کرتا تھا۔ یہی نفاست پسندی، نظم اور سلیقے سے محبت وہ اپنے اردگرد کی چیزوں میں پسند کرتا تھا۔ ہر چیز اپنی ٹھیک جگہ پر ہونی چاہیے۔ ہر شے صاف ستھری ہونی چاہیے۔ اس کے صفائی اور قرینے کے خبط کے بارے میں میرے ناشر دوست نے مجھے کئی ایک دلچسپ باتیں بتا رکھی تھیں۔ اب میں نے اس کا خود تجربہ کیا۔ میرے سامنے کاؤچ پر اپنی سپید لمبی مخروطی انگلیوں میں ایک جلتا ہوا سگریٹ پکڑے اور مجھے گائے جیسی بڑی آنکھوں سے دیکھتا ہوا جو بوٹے سے قد کا شخص بیٹھا تھا وہ اپنی ذات میں بھی ستھرے پن کا قائل تھا۔ اس کے کپڑے سپید اور اجلے تھے۔ اس کے ایک غیرقدرتی رنگت والے چہرے میں سب سے زیادہ اظہارکرنے والی اور مستحکم اس کی بڑی اُمڈتی ہوئی آنکھیں تھیں۔ وہ فی الواقع غیرانسانی اور خوفناک تھیں، جنھیں گویا دیوتائوں نے خصوصیت سے انسانوں کی روحوں میں جھانکنے، ان کی اچھائی اور کمینگی کی عکاسی کرنے کے لیے بنایا تھا... میں نے انھیں خوفناک کہا ہے، یہ پوری سچائی نہیں، چونکہ یہ ’’رِپ وَین وِنکل‘‘ کے گائوں کی پہاڑیوں کی طرح ہمیشہ ایک ہی رنگ اور یکساں کیفیت کی نہ رہتی تھیں۔ وہ خوشی اور محبت سے بھی لبریز ہوسکتی تھیں، اورپھر ان سے خوبصورت اور کوئی آنکھیں نہ ہوتی تھیں؛ وہ چلبلی ہنستی ہوئی آنکھیں بھی بن جاتی تھیں اور اتنی معصوم بھی جتنی ایک دودھ پیتے بچے کی آنکھیں؛ اور وہ پتھر کی آنکھیں بھی تھیں، تلخ اور سردمہر! میں نے بعد میں ان کی یہ سب مختلف کیفیات دیکھیں۔ اس کی آنکھ کے بدلنے سے وہ انسان بھی بدل جاتا تھا۔ بعض وقت اتنا مختلف کہ آپ اس کو پہچانتے نہ تھے اور ڈر جاتے تھے۔ مگر اُس روز اپنے اس کمرے میں منٹو سے زیادہ پیارا میٹھا دوست اور کوئی نہ ہوسکتا تھا۔
ہمارے معذرت کرنے پر کہ ہم اس کے کام میں مخل ہوے ہیں، اس نے خندہ پیشانی سے کہا، نہیں بالکل نہیں، اس کے لکھنے میں اس سے کوئی حرج نہیں ہوتا۔ ہمارے جانے کے بعد وہ افسانے کو اسی سرے سے پھر شروع کردے گا جہاں اس نے اسے چھوڑا تھا۔ اس نے مسودہ اٹھا کر ہمیں دکھایا۔ آخری فقرہ ابھی نامکمل تھا۔ وہ موڈ اور الہامی لمحے کا قائل نہ تھا۔ اس نے کہا کہ رات کو سوتے وقت وہ دوسرے روز کے افسانے کی کہانی کے موضوع کے لیے بڑے ہاتھ پائوں مارتا ہے مگر کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ صبح تک اسے کوئی پتا نہیں ہوتا کہ وہ کیا اور کیسا افسانہ لکھے گا۔ پھر حجامت بنانے کے لیے جاتے یا غسل کرتے ہوے اُسے کوئی خیال سوجھتا ہے، پلاٹ ذہن میں آتا ہے، پھر چند کردار ابھرتے ہیں اور وہ افسانہ لکھنے بیٹھ جاتا ہے— پھر لامحالہ کردار خود افسانے کا بیڑا اٹھا لیتے ہیں۔ منٹو ان کو تخلیق نہیں کرتا؛ وہ اس کی تخلیق کرتے ہیں۔ وہ اپنے کرداروں کے سامنے بے بس ہوتا ہے۔ منٹو ہمیشہ یہ بات اپنے دوستوں میں دہراتا تھا مگر اپنے آپ پر ’’نقوش‘‘ میں ایک چھوٹے سے خاکے میں اس نے اقبال کیا کہ یہ محض بکواس ہے... میری رائے میں صداقت ان دونوں انتہائوں کے درمیان ہے۔ منٹو پلاٹ اور کرداروں کو سوچتا تھا مگر ایک دفعہ جان پڑنے کے بعد کردار مصنف کو اپنے ساتھ ساتھ چلاتے تھے اور افسانہ اپنے آپ کو خود لکھتا جاتا تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جوہری کی صناعانہ نگاہ ہار میں پروئے جانے والے ایک ایک ہیرے کو پرکھنے سے بیگانہ ہوجاتی تھی۔ فن کار ہمیشہ چوکس اور ہوشیار رہتا تھا۔ چونکہ وہ جاندار کردار پیدا کرسکتا تھا اور الفاظ کی مصوری کا ماہر تھا، یہ کام اس کے لیے نسبتاً سہل تھا۔ لیکن اس کے نقادوں کا اس کے اپنے الفاظ کو چرا کر یہ سمجھ لینا کہ اس کا فن سہل تھا، بڑا حیرت ناک ہے۔
’’اوئے محمد خالد اختر یار،‘‘ اس نے اٹھ کر میری طرف سگریٹ کا پیکٹ بڑھاتے ہوے کہا، ’’توں سنیا اے میرے کولوں خواہ مخواہ بگڑیا ہویا ایں۔ بھائی، مینوں تیری چیز پسند آئی سی۔ میں اس دے وچ تبدیلی تے کوئی نہیں کیتی، صرف کٹ پھٹ کیتی اے۔‘‘
اس کی اس معذرت سے میں شرمسار ہوگیا۔ اس کی آنکھیں مجھے محبت سے، کچھ ’ملزمی‘ سے دیکھ رہی تھیں۔’’ نہیں منٹو صاحب! میں ناراض تو نہیں ہوا۔‘‘
’’ہن ایہہ چیز زندہ رہے گی!‘‘ اس نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
میں اسے اچھی طرح نہ جانتا تھا اس لیے میں نے اپنی اس تعریف کا قدرے برا مانا۔ یہ آدمی اپنے کو کیا سمجھتا ہے؟
’’اچھا، ہن ٹھیریں گانا کچھ دیر؟ میں کل آواں گا۔ تو مینوں بڑا پیارا لگنا ایں، ‘‘ منٹو نے ہمیں الوداع کرتے ہوے کہا۔ اس نے میرے کھچائو پر مکمل فتح پالی تھی۔ یہ منٹو کا ایک چہرہ تھا— لیکن جیساکہ میں نے پہلے کہا ہے، اس کے کئی چہرے تھے۔
اس پہلی ملاقات کے بعد میں لاہور میں اپنے مختصر قیام کے دوران اس سے کئی بار ملا۔ اُسے میری لکھنے کی کوشش سے دلچسپی ہوگئی تھی۔ لیکن مجھے یہ خدشہ لاحق رہتا تھا کہ کہیں اس کی بڑی بڑی وحشت ناک آنکھیں میرے اندر نہ جھانک رہی ہوں اور کہیں وہ سچائی کو نہ بھانپ لیں۔ شاید وہ مجھے اپنے کسی افسانے کا کردار بنانا چاہتا ہے،میں اس خیال سے کانپتا تھا۔ میں خوش قسمت ہوتا اگر وہ مجھے اپنی کسی کہانی کے کرداروں میں سے ایک بنالیتا— یوں میں جاوداں ہوجاتا۔ وہ انسانی فطرت کا طالب علم تھا، اور اس روکھی، ریاکار دنیا میں سچے اخلاص کا جویا۔ اس کی مجھ میں دلچسپی بھی زیادہ تر اس لیے تھی۔ پچّیس سال کی جوانی خود غرض ہوتی ہے۔ وہ کھلے بازوئوں سے آگے بڑھا۔ میں نذیر احمد اور اس کے مقلدوں کے چند نایاب پند و نصائح پر عمل کرتے ہوے پیچھے اپنے خول میں سکڑ گیا۔ ان پند و نصائح کے بغیر دنیا رہنے کے لیے سنہری جگہ بن سکتی ہے۔
پہلی ملاقات کے دوسرے روز ہی وہ میرے ناشر دوست کے ہاں مجھ سے ملنے آیا۔میں اس دن بخار میں اکیلا پڑا تپ رہا تھا۔ منٹو نے تقریباً سارا دن میرے پاس گزارا۔ مجھے یاد ہے کہ اس نے میری بیماری کا مذاق اڑایا اور اپنے کرتے کی جیب میں سے برانڈی کی ایک چھوٹی بوتل سے مجھے پانچ چھ گھونٹ چڑھا جانے پر مجبور کیا۔ مجھے مجبور کرنے کی خاص ضرورت نہ تھی اور میں نے اچھے لمبے گھونٹ لیے۔ منٹو نے مجھے یقین دلایا کہ اب میں ٹھیک ٹھاک ہوجائوںگا۔ اسے برانڈی کی چنگا کردینے والی تاثیر پر مکمل ایمان تھا۔ اسے وہ زکام سے لے کر گنوریا تک سب امراض کے لیے اکسیر سمجھتا تھا۔ اس کی باتیں اب مجھے یاد نہیں رہیں۔ ہاں وہ مجھے بہلانے کے لیے متواتر بولتا رہا۔ اس نے کسی سے ملاقات کا ایک طویل اور قدرے بے سر و پا قصہ شروع کیا جس نے اس وقت مجھے شدت سے بور کیا۔۔۔ منٹو کی زبان بہکی اور لڑکھڑاتی تھی، مگر اس کے دماغ کی صفائی دھندلائی نہ تھی اور اس کی پچھلی گفتگوئوں کی تفصیلات کی یاد کبھی غلطی نہیں کرتی تھی۔ اتنے گھنٹوں کی اس کی باتوں نے مجھے کچھ تھکا دیا۔
وہ دوسرے دن میرے ناشر دوست کے پاس شاید اپنے ایک افسانے کے پیسے مانگنے کے لیے آیا۔ اس دن وہ ایک بدلا ہوا منٹو تھا۔ اس کی آنکھیں پتھر اور برف کی تھیں۔ میں اس کے پاس بیٹھا اور اسے باتوں میں لگانے کی کوشش کی۔ ایک گھنٹے میں اس نے ایک لفظ نہ کہا اور مجھے اس طرح دیکھا جیسے ہم مکمل اجنبی ہوں۔ یہ میرے لیے ایک عجیب اور غیرمرئی تجربہ تھا۔ میں نے سوچا، کوئی تاریک قوت اس پر مسلط ہے۔ پیسے لے کر وہ ایک لفظ کہے بغیر چپ چاپ اٹھ کر چلا گیا۔
اسی شام وہ پھر آیا تو بڑے اچھے موڈ میں تھا اور بڑا زندہ دل دوست ثابت ہوا۔ اس سے اگلے دن ہی وہ مجھے اپنے ہمراہ لاہور کی فلمی دنیا کی سیر کرانے لے گیا۔ یہاں اُسے ہر کوئی جانتا تھا۔ کئی ڈائریکٹروں اور ایکٹروں کی شادیوں میں اس کا ہاتھ تھا۔ ایک بار میں نے اس کی آنکھوں کو بھڑکتے ہوے اور اس کے چہرے پر تمتماہٹ کو اچھلتے ہوے دیکھا۔ ایک فلم اسٹوڈیومیں منٹو سے تعارف کرائے جانے پر ایک ایکٹر نے اس مشہور نام سے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔ منٹو ہمیں ایک ایسے اسٹوڈیو میں بھی لے گیا جہاں اس کی ایک کہانی فلمائی جارہی تھی۔ باہر آنے پر میں نے اسے سخت غصے کی حالت میں دیکھا۔ اس کا مختصر جسم پتے کی طرح ہلتا تھا۔ ڈائریکٹر نے اپنے قبیلے کے طور کے مطابق منٹو کی کہانی کو زیادہ ’پاپولر‘ بنا دیا تھا۔ منٹو جلے ہوے دل سے اسے بے نقط سناتا رہا۔ ’’اختر، اے جگہ بکواس اے۔‘‘
ایک صبح میرا ناشر دوست مجھے اور منٹو کو اپنے ایک کام کے لیے ہمراہ لے گیا۔ اس نے ہومیوپیتھک کالج کا آغاز کرنے کی ٹھانی تھی اور وہ نئے وزیرِ صحت و تعلیم سے درخواست کرنا چاہتا تھا کہ وہ اس کے افتتاحی جلسے کی صدارت کرے۔ وزیر کی کوٹھی پر جاکر منٹو نے اپنا ارادہ تبدیل کردیا۔ ’’جائو بھئی تسیں وزیراں نوں ملن۔ اسیں ایتھے بیٹھے آں۔‘‘ جب ہم وزیر صاحب سے مل کر باہر آئے تو منٹو ہمیں کہیں نظر نہ آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ہم نے اُسے ایک فقیرنی کی کٹیا میں سے ہمیں پکارتے ہوے سنا جہاں وہ بڑے مزے سے اکڑوں بیٹھا انسانی فطرت کی کتاب پڑھ رہا تھا۔ میرا خیال ہے یہی اس کی عظمت تھی۔ انسانوں میں شدید طور سے دلچسپی کی وجہ سے اس کے تجربے اور تاثرات فرسٹ ہینڈ تھے۔ وہ اپنے ان ہم عصروں کی طرح نہ تھا جو انسانی فطرت کا علم کتابوں سے حاصل کرتے ہیں یا جو اونچے گھوڑوں پر سوار زرق برق راستوں پر سے گزرتے ہیں۔
انھی دنوں منٹو کے دو خوجے دوست چنیوٹ سے لاہور آئے تھے۔ یہ مجھے معلوم نہیں کہ منٹو نے انھیں کیسے دریافت کرلیا اور وہ اس کے دوست کیونکر تھے۔ منٹو ان کے متعلق بے حد پُرجوش تھا۔ ’’اختر!‘‘ اس نے مجھے کہا، ’’چل تینوں اُناں نال ملاواں۔ بڑے مزیدار آدمی نیں۔‘‘ اس نے بتایا کہ دو نوں خوجے فلیٹی ہوٹل میں ٹھہرے ہوے تھے۔ وہ اپنے ساتھ چاندی کا ایک ہاون دستہ لائے تھے، اُسے وہ بھنگ گھوٹنے کے لیے استعمال میں لاتے تھے۔ منٹو کے لیے وہ ایسے تھے جیسے ایک بچے کے لیے سونے کا خزانہ۔ وہ انھیں انسانیت کے دو دلچسپ نمونے سمجھتا تھا۔ مجھے ایسے لوگوں سے ملنے کا ذرہ بھر شوق نہ تھا۔ میں منٹو کے ساتھ فلیٹی میں نہ گیا۔ لیکن ایک روز مال روڈ پر منیاری کی ایک دکان میں ان دونوں کی زیارت نصیب ہو ہی گئی۔ ان میں سے ایک گیروے رنگ کا لاچا اور ایک لمبا کرتا پہنے ہوے تھا۔ منٹو ان کی مصاحبت میں تھا اور ان کی صحبت میں بڑا خوش اور مغرور لگتا تھا۔ وہ فی الواقع زندگی کے کوچوں کا کھلنڈرا شوخ لڑکا تھا۔ اسی اسکول میں اس نے ہر قسم اور ہر قماش کے لوگوں سے آسانی اور بے تکلفی سے دوست بنا لینے کا فن سیکھا۔ منٹو چنیوٹ کے ان خوجوں پر ایک افسانہ لکھنا چاہتا تھا۔ وہ افسانہ نہ لکھا جاسکا اور خوجے بدقسمتی سے ابدیت کا تمغہ پانے سے بال بال بچ نکلے۔
منٹو کی ایک ہولناک، دہلا دینے والی تصویر میرے لوحِ ذہن پر نقش ہے (ان سطروں کو لکھتے وقت بھی وہ تصویر، وہ منظر اصلی زندگی کی طرح میرے سامنے ابھر رہا ہے)۔
ایک چلچلاتی دوپہر کو میں اور میرے چند دوست تانگے سے مال روڈ کے چینیز ریستوراں کے سامنے اترے۔ پاس ایک برف بیچنے والے کی دکان کے سامنے سر پر تولیہ لیے اور لال پتھریلی نگاہوں سے خلا میں دیکھتا ہوا سعادت حسن منٹو کھڑا تھا— آشفتگی اور انسانی تنہائی کی مکمل تصویر۔ اسے اس طرح دیکھ کر ایک چاقو میرے کلیجے میں سے گزر گیا۔ اپنے دوستوں کو چھوڑ کر میں اس کے پاس گیا۔ اس نے مجھے کوری انجانی نظروں سے گھورا، ’’میں برف لینا پیاں،‘‘ اس نے لڑکھڑاتی زبان سے کہا۔ برف بیچنے والا اپنے شرابی گاہک کو عجیب طرح سے تک رہا تھا (اس بے چارے کو کیا پتا تھا کہ اس سے بڑا اور عظیم تر آدمی اس کی دکان پر کبھی نہ آئے گا)۔ منٹو نے برف کی بڑی سل کی سل خریدی، اسے تولیے میں لیٹا۔ ’’جائو تسیں، اپنے دوستاں نال چینیز جائو۔ جائو تساں۔‘‘ اس نے اپنا پتلا لمبا ہاتھ بڑھایا اور تولیے میں لپیٹی ہوئی برف کی سل کو بغل میں دابے وہ تھکے ہوے بے مقصد قدموں سے زمزمہ کی طرف چل پڑا۔ میرا دل چاہا میں اس کے ساتھ جائوں، مگر چینیز میں میرے دوست میرا انتظار کر رہے تھے۔
منٹو کی زندگی موپاساں کی ایک کہانی ’’بیرا، ایک جرعہ اور‘‘ کے ہیرو کی طرح خالی اور سونی تھی۔ وہ ایک ایسے جہاز کی مانند تھا جس کا لنگر ٹوٹ چکا ہو۔ اس کے لیے اس پُرآلام دنیا کے سمندر میں کوئی امن کا جزیرہ نہ تھا اور وہ اس خلا کو سستی تند شراب کے متواتر گھونٹوں سے پُر کرتا تھا۔یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ ’تنگی و ترشی‘ تھی یا اس کے ہم جنسوں کی کمینگی اور خود غرضی جس نے اُسے الکحل کے دروازے پر بے بس ڈال دیا۔ شاید اس کی اپنی (آرٹسٹ کی) تنہائی اس کے پینے کا سبب تھی۔ الفاظ کی مصوری ایک تھکا دینے والا، خون پی لینے والا کام ہے— اور اس میں کوئی شک نہیں کہ منٹو ہر لمحہ ایک آرٹسٹ تھا۔ صحیح لفظ کے لیے اس کی کاوش پیہم اور مسلسل تھی۔ بڑی آنکھیں ہمیشہ دوسرے انسانوں کے دلوں میں غوطے لگاتی تھیں اور اس کا ذہن بے رحمی سے چھوٹی سے چھوٹی تفصیل محفوظ کرتا جاتا تھا۔ اس کی یہ عادت بعض دفعہ اس کی صحبت کو بوجھل بنا دیتی تھی۔ اس کی صحبت ایک نارمل تجربہ نہ تھا۔
مجھے ۱۹۵۱ء کا وہ عجیب دہشت ناک دن اب تک یاد ہے جس کے خیال سے اب بھی میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایسا دن میری زندگی میں اچھوتا ہے۔ اس چمکیلے سورج کی دنیا کی بجاے کسی تاریک اور دیوانی دنیا سے اس کا تعلق معلوم ہوتا ہے۔ اسی سال کے کرسمس میں ہم کار میں لاہور آئے اور میکلوڈ روڈ پر لاہور ہوٹل میں اترے۔ ہم تین دوست تھے۔ ایک کو میں’ ایپی کیورس ‘کہوںگا چونکہ وہ اپنے کو بھی ایپی کیورس کہتا تھا اور فلسفیانہ مزاج رکھتا تھا۔ دوسرے کا نام ’پیٹر‘ ہوگا۔ پیٹر ایک شاعر تھا اور ایک کامریڈ بھی۔ ہم ایپی کیورس کی کار میں لاہور گل چھرے اڑانے کے واحد اور بلند مقصد سے آئے تھے۔ میں ایک پُرسکون، ٹھنڈے خون کا شخص ہوں— گل چھرے اڑانے کے لیے طبعاً اور جسمانی لحاظ سے ناموزوں۔ مگر شوریدہ ایپی کیورس اور پیٹر مجھے زبردستی اپنے ہمراہ گھسیٹ لائے تھے۔ لاہور، میری طالب علمی کا لاہور ،مجھے ہمیشہ ایک پُرکشش شہر لگا ہے۔ یہاں پہنچنے کے بعد دوسرے دن لوہاری دروازے کے باہر اپنے ناشر دوست کی دکان پر مجھے بتایا گیا کہ منٹو صاحب میرا اور ایپی کیورس کا انتظار کرکے ابھی ابھی گئے ہیں۔ میرے ناشر دوست نے منٹو کو ہماری آمد کی تاریخ سے مطلع کر رکھا تھا۔ ہم وہاں ابھی کھڑے ہی تھے کہ منٹو اور راہی تانگے میں وہاں آ پہنچے۔ منٹو اترتے ہی ہماری طرف لپکا۔ ’’اوئے اختر، میں تے بڑے دن دا تیرا انتظار کرریا آں۔ رشید کولوں پچھ ،کنے چکر لائے نیں۔‘‘
ایپی کیورس اور پیٹر نے اس بلاے ناگہانی کو پسند نہ کیا۔ ان کے دوسرے پروگرام تھے اور اب ظاہر تھا کہ منٹو ان کو نہ چھوڑے گا۔
منٹو نے کہا، ’’آئو چلیے، فیر گھر چلیے۔ پر اوتھے تے افریقہ اتریا ہویا اے۔‘‘ افریقہ اس کے چند قرابت دار تھے جن کا نیروبی میں کاروبار تھا۔
میں نے دیکھا کہ اس کے چہرے سے شراب چھلکی پڑ رہی تھی اور اس کی زبان معمول سے زیادہ لڑکھڑاتی تھی۔ منٹو کار میں بیٹھ گیا اور ہم نے لاہور ہوٹل میں جانے کا فیصلہ کیا۔ ’’پر یار راہی! ساڈا دارو تے ختم ہوگیا۔ اوتھے چل کے کراں گے کی؟ چلو لے لیاں گے۔ پر پیسے؟... چلو پیساں دی وی فکر نہ کرو۔‘‘ اس نے پیچھے ہماری طرف دیکھا۔ ’’اپنا خالد جو اے۔ ریاض اے۔ پندرہ روپے تے اناں کولوں نکل آن گے۔۔۔‘‘
پندرہ روپے سے ہاتھ دھونے کے خیال نے ہمیں زیادہ خوش نہ کیا۔ ’’منٹو صاحب،‘‘ میں نے کہا، ’’آپ کے لیے لاہور ہوٹل میں بلیک اینڈ وہائٹ پڑی ہے۔‘‘ پیٹر اپنے ساتھ وہسکی کی ایک بوتل لے کر آیا تھا۔
لاہور ہوٹل کے کمرے میں پہنچ کر منٹو بڑے مزے سے نیچے فرش کی دری پر بیٹھ گیا۔ ’’لیا بھئی فیر!‘‘ پیٹر نے بلیک اینڈ وہائٹ کی بوتل کھولی اور اس میں سے شراب ایک گلاس میں انڈیلی۔۔۔ منٹو اسے ایک گھونٹ میں چڑھا گیا۔ اسے پیتے دیکھ کر آدمی کو ڈر لگتا تھا۔ جتنا وہ پیتا تھا، اتنا ہی وہ زیادہ پیاسا ہو جاتا تھا۔ ہر پندرہ بیس منٹ کے بعد پیٹر اس کے لیے گلاس میں وہسکی ڈالتا اور وہ اسے اپنے اندر ڈال لیتا۔ اس کی گفتگو لکنت زدہ اور بے ربط تھی۔ اس کی بڑی، بوڑھے ہرن کی سی آنکھیں،جو اپنے افق سے بھٹکی ہوئی اور کسی کھوئی چیز کی متلاشی تھیں، اب اپنے اندر ایک چنچل بچے کی مسکراہٹ لیے ہوے تھیں۔ کچھ دیر تک وہ میرے ایک ناول کے مسودے کے بارے میں مجھ سے چھیڑ کرتا رہا۔ ’’اوئے اختر، میں تیرا ناول پڑھیا اے۔ نرا بکواس، بکواس— اوہ ساری گل جس واسطے توں دو سو صفحے لخے نیں، چھ صفحیاں وچ کہی جاسکدی سی۔ اوئے تو لکھیا کر، پر تھوڑا، تھوڑا...‘‘
میں نے اپنے شاہکار کے بکواس کا نام پانے کا ذرا بھی برا نہ منایا۔ یہ بکواس سہی مگر منٹو نے اسے پڑھا تھا! ہم مسحور اور کچھ سہمے ہوے اس عجیب آدمی کی بہکتی اور سیانی باتیں سنتے رہے۔ آنکھیں جلتے انگارے بن گئیں، اس کا ہاتھ رعشہ زدہ ہوگیا، پھر بھی اس نے اپنے ذہن کی صفائی ایک لمحے کے لیے نہ کھوئی۔ ہمارے لیے یہ ایک وحشت ناک خواب میں سانس لینا تھا۔
وہ کئی ایک بار اٹھا۔ ’’چل راہی چلیے۔ اِناں کدے جانا ہووے گا۔‘‘ وہ ہماری طرف ملزمانہ آنکھوں سے دیکھتا، پھر بیٹھ جاتا۔ ’’او اُتھے چل کے کی کراں گے۔ اُتھے افریقہ اتریا ہویا اے۔‘‘
چار گھنٹے کی بادہ نوشی کے بعد اُسے نیند سی آگئی، اور وہ پلنگ پر ایک بچے کی طرح اکٹھا ہوکر اور اپنی بانہہ کو اپنی آنکھوں پر رکھ کر سو گیا۔ اس پریشان بے قرار نیند سے وہ آدھ آدھ گھنٹے کے بعد بیدار ہوتا اور بستر پر اٹھ بیٹھتا۔ ’’ٹریژر آئی لینڈ‘‘ کے بحری قزاق بلی جونز کی طرح وہ ہم پر لال آنکھیں گاڑتا اور ہلاکت کی دوا کے ایک اور گلاس کا حکم دیتا۔ ڈر کے مارے ہمیں انکار کی جرأت نہ ہوتی تھی۔
ایک دفعہ اس نے مجھے اور ایپی کیورس کو آواز دی۔ ’’ایتھے آکے بیٹھ نایار!‘‘ ہم اس کے پاس جاکر بیٹھے— کچھ گھبرائے سے، کچھ سحر زدہ۔۔۔ ’’اوئے اختر، توں بکواس لکھیا اے۔ لکھیا کر لیکن مختصر، مختصر۔‘‘
ہم نے اس کی کہانیوں کا کسی طرح ذکر کردیا۔ وہ غصے میں بھڑک اٹھا۔ ناتواں جسم کپکپانے لگا۔ ’’میرا ذکر چھوڑ دیو،‘‘ اس نے کہا، ’’میری بات نہ کرو۔‘‘ اس نے اپنی ایک انگلی کا قلم بناکر دوسرے ہاتھ پر لکھنے کا اشارہ کیا، ’’میری بات چھوڑو۔ میں ایک سطر لکھ دوں وہ آرٹ ہے۔‘‘ وہ اپنی انانیت کے موڈ میں تھا۔ہم سہم کر دبک گئے۔ عجیب بات یہ تھی کہ یہ کوری شیخی نہ تھی۔ اس کا دعویٰ سو فیصدی درست تھا۔ جو کچھ وہ لکھ دیتا تھا، آرٹ تھا۔
اس کا غصہ فوراً اتر گیا اور اس نے ایک التجا کے لہجے سے کہا، ’’اختر، ایس بک بک توں میں نکلنا چاہنا۔ مینوں اپنے نال پہاڑاں تے لے چلو، دور... مینوں کڈ لَو اِتھوں۔۔۔‘‘
میں نے کہا کہ ہم اسے اپنے ساتھ کاغان کی وادی میں لے چلیںگے۔
’’مینوں اس بلا توں دور رکھنا،‘‘ اس نے وہسکی کی بوتل کی سمت اشارہ کیا۔ اس کی آنکھیں آزادی اور کوہستانی ہوائوں کے تخیل سے خواب آلود ہوگئیں۔ اچانک اس کا چہرہ اداس اور سنجیدہ ہوگیا۔ ’’میرے بیوی بچے... انہاں داں کی ہوے گا؟ انہاں دا انتظام کرنا پئے گا۔‘‘ ایک دفعہ اس نے یہ بھی کہا، ’’میں مرجائوں گا، منٹو مرجائے گا تو اختر تو وی روئیں گا، تساں سارے روئو گے۔‘‘
باہر گہری شام پڑنے پر وہ آخر گھر جانے کے لیے اٹھا۔ ’’چلیے بھئی افریقہ نوں ملیے۔‘‘
میں اسے اور راہی کو نیچے سڑک پر چھوڑنے آیا۔ میکلوڈ روڈ پر نیلے اندھیرے میں تانگوں اور موٹروں کی روشنیاں اچھل رہی تھیں اور زندگی کا پُررنگ،دلچسپ اور احمقانہ میلہ لگا تھا۔ راہی نے ایک تانگے کو آواز دی۔ منٹو نے مجھ سے اپنا ہاتھ ملایا، ’’او اچھا بھئی اختر!‘‘ پھر اچانک اجنبیت اور کھنچائو کی رسّی میرے اندر ٹوٹ گئی اور میں نے اس پیارے اکیلے آدمی کو گلے لگا لیا۔
جب میں اسے تانگے میں سوار کراکے لوٹا تو میری آنکھوں میں انسان کی تنہائی کے المیے کا خیال کرکے آنسو آگئے۔ میں نے منٹو کو پھر کبھی نہ دیکھا۔ جب اس کی کہانی ’’موذیل‘‘ چھپی تو میں نے منٹو کو ایک بے حد عقیدت مندانہ اور تعریفی خط لکھا— اس قسم کا خط جو ایک چیلا اپنے گرو کو لکھتا ہے۔ میں نے لکھا کہ وہ ایشیا کا یقینا سب سے بڑا آدمی ہے۔ اس خط سے اسے خوشی ہوئی اور اس نے مجھے اپنے واحد خط میں جواب دیا کہ میں منٹو کے غبارے میں اتنی ہوا نہ بھروں کہ وہ پھول کر آسمان کی پہنائیوں میں اوجھل ہوجائے۔ اس نے اسی رات کی بات کو دہرایا کہ اس نے اپنے کرداروں کو پیدا نہیں کیا بلکہ اس کے ہر نئے کردار کے بعد ایک نیا منٹو جنم لیتا ہے۔
یہ خط مجھ سے کھو گیا ہے۔ اب اسے حاصل کرنے کے لیے میں کیا کچھ دینے کو تیار نہیں ہوں! اس آخری ملاقات کے بعد میں دو تین بار لاہور گیا، منٹو سے نہ ملا۔ اس کے لیے میں عمر بھر اپنے کو کوستا رہوںگا۔ اس کی خبریں مجھے ملتی رہتیں— اس کی بیماریاں، اس کے شراب چھوڑنے کی خاطر دماغی اسپتالوں میں داخلے، اس کی اپنے بیوی اور بچوں کو آرام سے رکھنے کی تند کش مکش— مگر پچھلے چار پانچ مہینے سے مجھے اس کی کوئی خبر نہ ملی تھی۔
پھر سرما کی ایک سرخ اداس شام— پتے سڑک پر بکھرتے ہوے اور ایک آندھی چلتی ہوئی— اور پیٹر ایک غم زدہ چہرے سے تانگے میں سے چلاتا ہوا اترا، ’’منٹو مر گیا!‘‘
میں اس وقت گاڑی پکڑنے کے لیے اسٹیشن جارہا تھا۔پیٹر مذاق کر رہا ہوگا،جس طرح اس کی عادت تھی۔ مگر اس کے چہرے نے مجھے بتایا کہ یہ مذاق نہیں ہے۔ میرا دل ڈوبا، دنیا گویا اوپر نیچے ہوگئی۔ ہم میں سے کتنوں کے لیے زندگی کی لو اُس دن بجھ گئی۔
آرٹسٹ منٹو
’آرٹسٹ منٹو‘ ،’انسان سعادت حسن‘ سے الگ نہ تھا۔ ایک دوسرے کا پرتو اور عکس تھا۔ یہ چیز شاید ہر بڑے فن کار کے بارے میں کافی صداقت سے کہی جاسکتی ہے، لیکن منٹو کے بارے میں یہ بات ایک سے زیادہ لحاظ سے سچ تھی۔ اس کے آخری ایک دو سال میں آرٹسٹ اور انسان اس طرح غیرمنقسم طور پر گتھ گئے تھے کہ ایک کو دوسرے سے الگ بتانا مشکل تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بعض وقت (جیساکہ اس کے ایک نقاد دوست نے ایک دفعہ کہا) اس کی صحبت شریف رواجی فطرتوں کے لیے بوجھل ہونے لگتی تھی۔ وہ ہر وقت آرٹسٹ تھا، صحیح لفظ کی تلاش وار اپنے فن کی کارفرمائیوں سے اس درجہ پھنکتا ہوا کہ وہ لوگوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہوجاتا اور وہ اس سے بچ کر اپنی چین بھری سمجھ دار دنیا میں جانے کی خواہش کرنے لگتے۔ شریف دنیادارانہ معیار سے اس کا رویہ، اس کا طریقِ حیات یقینا کرینکش (crankish) اور نامناسب تھا اور اس کی صحبت میں سورج اور کھلی ہوا کی کمی تھی۔ ایک آرٹسٹ کی حیثیت سے وہ زندگی کا ایک ایک لمحہ بھرپور طریق سے جیتا تھا اور جب وہ کسی سے ملتا تو وہ محض رسمی واقفیت پر قانع نہ ہوتا بلکہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ وہ شخص کیا ہے، اور یہ چیز بھلے مانسوں کے لیے بڑی پریشان کن ہوتی۔ وہ اپنے اور اپنی کتاب (کل انسانیت اس کی کتاب تھی) کے درمیان کوئی تکلف اور ’اچھے‘ اخلاق کی دیوار برداشت نہ کرسکتا تھا۔ اس کے اندر کا آرٹسٹ ہمیشہ ہر ملنے والے کی روح میں جھانکتا رہتا تھا اور یہ پتا لگاتارہتا تھا کہ اس میں سونا کتنا ہے اور زنگ آلود لوہا کتنا۔ منٹو ہر لمحہ اپنے افسانے خود جیتا تھا اور اس ایک کہانی کے مقابلے میں جسے وہ حقیقتاً لفظوں میں لاتا تھا، بیسیوں اس کے ذہن میں ہوتی تھیں۔ میرا خیال ہے اس نے ڈیڑھ سو یا دو سو کے قریب مختصر افسانے لکھے ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ کئی ہزار افسانے پلاٹ اور کرداروں سے متعلق اس کے اندر جل رہے تھے جنھیں وہ نہ لکھ سکا۔ وہ بعض دفعہ بڑا کھرا اور ظاہراً بداخلاق ہوتا، جس کا بے سمجھ ظاہر میں برا مانتے۔ یہ اس کا لوگوں کو کھولنے کا طریقہ تھا۔ ہم سب بند کتابیں ہیں اور دیکھا جائے تو ہمارے بہترین دوست بھی ہمارے متعلق تاریکی میں ہوتے ہیں۔ ہم خود بھی یہی چاہتے ہیں کہ ہمارا اصل تاریکی میں رہے اور ہماری کمینگی اور غلاظت ان پر آشکارا نہ ہو۔ آرٹسٹ منٹو فوراً آدمی کو بھانپ جاتا تھا اور اس کی فطرت کو لاشعور کے آئینے میں منعکس کرلیتا تھا۔ بوڑھے ہرن کی سی آنکھیں سب کچھ دیکھ لیتی تھیں۔ موپاساں میں بھی یہ خدادا دخوفناک صفت تھی، مگر جہاں عظیم فرانسیسی کو اس کے علم نے فطرتِ انسانی کے متعلق حد درجہ تلخ اور سنکی بنا دیا تھا، منٹو نے آدمی کی کمینگی اور جھوٹ کے باوجود اس سے رشتہ ٔ محبت استوار رکھا۔ سارے انسانوں کا درد اور حزن اس اکیلے بادہ گسار میں تھا اور سب آدمی اس کے اپنے بھائی تھے۔ یہ محبت اور یہ درد اس کے ہر ترشے اور چھانٹے ہوے افسانے میں نواسنج ہے اور اس واحد چیز کی بدولت اسے فرانسیسی دیو سے ایک لحاظ سے بڑا افسانہ نگار کہا جاسکتا ہے۔
میں نے لکھا ہے کہ آرٹسٹ اور انسان ایک تھے؛ وہ ایک ضرور تھے لیکن ایک اہم فرق کے ساتھ۔ جہاں انسان سعادت اپنی دنیاوی زندگی میں بے حد جذباتی ہوجاتا تھا— احساسات کی انگلیوں کے نیچے ایک طرب آمیز ساز— وہاں آرٹسٹ منٹو سرد اور سخت اور بے رحم تھا۔ آرٹسٹ منٹو برف تھا اور اپنی تخلیقات سے جذبات کے خود رو گنجلک پودوں کو اس سفاکی سے چھانٹتا تھا جیسے ایک محتاط باغبان اپنی کیاریوں پر سے زہریلی بیلوں کو۔ یہ وہ شعوری طور پر، ارادتاً نہیں کرتا تھا بلکہ یہ اس کے لیے قدرتی تھا۔ ایسے کئی مصنف ہیں، غالباً بہت زیادہ، جو کسی مقصد میں خلوص کے ساتھ یقین رکھنے کی وجہ سے، یا ادبی فیشن کی خاطر، جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں۔ ان کی تخلیقات میں آبدار نثری ٹکڑے ہوتے ہیں، اور خوبصورت منظرنگاری کے صفحوں کے صفحے،لیکن ان پر مقصدی جذباتیت ایک چغے کی طرح پڑی ہوتی ہے۔ وہ اپنی تخلیقات کو اپنے ہاتھوں ایسے مکمل اور کامیاب طریق سے دفن کرتے ہیں کہ ہزار مسیحا بھی انھیں جِلا نہیں سکتے اور ان کی لکھی ہوئی چیزیں (گو وہ وقتی طور پر بھڑکدار چمکیلا تاثر پیدا کرتی ہیں) پیدائش ہی میں جان دے دیتی ہیں۔ آرٹسٹ منٹو جانتا تھا کہ ایک فن پارے کے لیے مقصدیت اور جذباتیت زہرِ قاتل ہے— ایک تخلیق بہت زیادہ کہی ہوئی باتوں سے مرتی ہے نہ کہ اَن کہی باتوں سے۔ اسی لیے وہ بے باکی سے، بے رحمی سے اختصار کرتا تھا۔ کہانی میں جو فقرہ ہو ضروری ہو، وہ کردار میں دم پھونکے یا کہانی کی سا لمیت میں معاونت کرے۔ اگر وہ فقرہ ان چیزوں میں سے کچھ بھی نہیں کرتا تو خواہ اس کا خیال کیسا ہی تازہ اور انوکھا ہو، کہانی میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ کہانی اس کے بغیر بہتر ہوگی۔ منٹو ایک بڑا آرٹسٹ تھا کیونکہ وہ ہم عصروں سے زیادہ قربانی کرسکتا تھا۔ مجھے یاد ہے، اس نے ایک دفعہ کہا تھا کہ وہ ’’کھول دو‘‘ کو اپنی عظیم ترین کہانی سمجھتا ہے کیونکہ اس میں ایک بھی فقرہ زائد نہیں۔ اب ’’کھول دو‘‘ بے حد مختصر’مختصر افسانہ‘ ہے، اور شاید مختصر ترین جو منٹو نے لکھا ہے۔ اس کے افسانے کبھی کتابی دس بارہ صفحوں سے لمبے نہیں ہوتے۔
وہ سومرسٹ ماہام کی طرح اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ ایک مختصر افسانے کا ایک ’شروع‘ ہونا چاہیے، ایک ’وسط‘ اور ایک ’انجام‘۔ اس کا واضح طور پرمتعین پلاٹ ہونا چاہیے۔ اگر اس لکھی ہوئی چیز کا ’شروع‘ اور ’وسط‘ تو ہے مگر آخیر میں کہانی کسی انجام کو نہیں پہنچتی اور راہ میں لٹکی رہ جاتی ہے تو یہ اور تو سب کچھ ہوسکتی ہے، ’مختصر افسانہ‘ نہیں ہوسکتی۔ منٹو اپنی کہانیوں کو صناعی سے ایک چونکا دینے والا انجام دیتا تھا۔ اس کی کئی کہانیوں کے انجام یقینا عظیم ہیں اور ان کا سارا ڈھانچا ان کے آخری فقروں میں ایستادہ ہے۔ ’’کھول دو‘‘، ’’موذیل‘‘ اور ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ کے خاتمے عظیم ہیں اور وہ دنیا کی عظیم ترین کہانیوں میں سے ہیں۔ اس کے حرف گیروں نے اس کی کہانیوں کے ان انجاموں کو محض مداری کے ہاتھوں کی صفائی کہہ کر تمسخر اڑایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کا فن زندگی کے مطابق نہیں ہے۔ دنیا کے بڑے مختصر افسانہ نگاروں کی مانند منٹو اس سچائی کو جانتا تھا کہ فن کبھی زندگی کے مطابق نہیں ہوتا۔ فن زندگی کی عکاسی نہیں ہے، جو الجھی ہوتی ہے، جس کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا اور جس میں مسلسل تخیل کی گزشتہ تصویروں، دوستوں کے ساتھ بے رنگ گفتگوئوں اور ایک لامحدود، بے منطقی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ایک فن پارہ ،اس کے برعکس، ایک مکمل، واضح اور موثر چیز ہے۔ شولنسن اپنے ایک مضمون میں فن پارے کو اقلیدس کے دائرے کی مانند بتاتا ہے۔یہ یاد رکھنا چاہیے کہ منٹو پہلے اور آخر ایک مختصر افسانہ نگار تھا۔ اس کی کہانیاں اتنی مختصر یعنی کٹی چھنٹی ہیں کہ ایک طرح وہ جسم کے بغیر ہیں۔ اس کی نثر چھوٹے ،نپے تلے فقروں پر مشتمل ہے اور حیران کن حد تک رنگینی سے دور ہے۔ اس کی لغت بھی ہم عصروں کی نسبت محدود ہے۔ منٹو کا جینیئس میری رائے میں ناول لکھنے کے لیے موزوں نہ تھا۔ منٹو کا خیال تھا کہ ناول اس بات کو کئی سو صفحے میں پھیلا کر کہنے کا فن ہے جو پانچ صفحوں میں سمیٹی جاسکتی ہو۔ مسلسل اور لگاتار محنت جو ایک ناول لکھنے کے لیے درکار ہے، منٹو کے مضطرب ذہن کو راس نہ آتی۔ مجھے یقین ہے کہ اگر وہ کوئی ناول شروع کرتا تو چند دن بعد اس سے تنگ آکر اسے بیچ میں چھوڑ دیتا۔ اس کا خیال تھا کہ بہت کم ایسے ناول ہیں جو زندہ رہ سکتے ہیں۔
اس کے فن کے بارے میں ایک اور نکتے کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ اس نے لامحالہ اپنے کرداروں کو روندے ہوے طبقے سے چنا۔ یہ بڑا انسانیت پرست طوائفوں ، ممد بھائیوں، موذیلوں سے محبت کرتا تھا اور ان کے متعلق لکھتا تھا۔ اب کچھ تو یہ اس وجہ سے تھا کہ اپنی ساری زندگی اس نے سوسائٹی سے دھتکارے ہوے لوگوں کے ساتھ گزاری۔ وہ اس زندگی کو اپنی ہتھیلی کی مانند جانتا تھا۔ وہ ان لوگوں سے ملا تھا اور ان سے باتیں کی تھیں۔ لیکن اصل وجہ اور تھی۔ مجھے یقین ہے اسے بڑے آدمیوں اور زندگی کے زرق برق راستوں سے کبیدگی تھی۔ اس کے نزدیک وہ بے روح، کھوکھلے اور شیخی خورے تھے۔ وہ دلچسپ نہ تھے، اس لیے اس نے ان کو شاذ و نادر ہی اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا۔ ان عزت دار اشراف کی بجاے اس نے طوائفوں اور غنڈوں اور تانگے والوں کے متعلق لکھا۔ اس نے ان کے اندر کے سونے کو نکالا اور انسانی روح کی عظمت اور خوبصورتی کی ایسی تصویر کھینچی کہ اس کے افسانوں کو پڑھنے والے یقینا بہتر انسان بن گئے۔ ان کو اس حقیقت کا احساس ہوا کہ آوارہ موذیل تمھاری باعفت، سگھڑ، دیندار خواتین سے کہیں عظیم اور خوبصورت عورت تھی۔ وہ اتنی اچھی اور نیک تھی کہ وہ خود بھی اس کی گرد کو نہ پا سکتے تھے۔ منٹو نے ہمیں انسانوں میں اصلی عظمت سے روشناس کیا۔ اس نے ادب میں دلیری اور بے باکی سے وہ کچھ کیا جو پہلے کسی نے کرنے کی جرأت نہ کی تھی۔ مجھے ان لوگوں کے ہوش و حواس کی سلامتی پر شک ہوتا ہے جو اصرار کرتے ہیں کہ وہ فحش نگار ہے۔ میرا دعویٰ ہے کہ منٹو نے کبھی کوئی فحش کہانی نہیں لکھی۔ کیا ’’کھول دو‘‘ ایک فحش کہانی ہے؟ کیا اس بے مثال تند و تلخ شاہکار کو پڑھنے کے بعد ہم یہ خواہش کرنے لگتے ہیں کہ کاش ہم اس بازیافتہ عورت کو ٹرک میں لانے والے بہادروں کے ساتھ ہوتے؟ اگر ہم یہ خواہش کرنے لگتے ہیں تو فحاشی ہمارے اندر ہے، منٹو میں نہیں۔ منٹو نے تو فحاشی پر اس زمانے میں سب سے دلیرانہ، سب سے تیکھا وار کیا ہے۔ ’’میں ایک سطر لکھ دوں، وہ آرٹ ہے‘‘— ایک فانی ناتواں آدمی کے لیے یقینا ایک اونچا دعویٰ! مگر حیرانی کی بات ہے کہ یہ کس قدر سچ ہے۔ ایک سطر بھی جو اس نے لکھی، آرٹ ہے۔
ایک خط
سو یہ تھا آرٹسٹ منٹو اور انسان سعادت۔ ایک دوست نے مجھے بتایا کہ دہلی میں ایک شام اس نے منٹو کو ایک بدرو کے کنارے پڑا پایا۔ منٹو نے اسے سرد پتھریلی نگاہوں سے دیکھا اور اپنے وہاں ہونے کو گویا سمجھانے کی خاطر کہا کہ وہ بدرو میں اچھائیاں ڈھونڈ رہا ہے۔ ’’اچھائیاں؟‘‘ میرے دوست نے حیرت سے پوچھا۔ ’’ہاں، اچھائیاں،‘‘ منٹو نے جواب دیا، ’’لیکن میں بدرو میں غلاظت اور گندگی کے سوا کچھ نہیں دیکھ رہا ہوں۔ میری زندگی بھی ایک ایسی ہی بدرو ہے، اور میرا عارف بیٹا تو ایک ستھری اور آلودگی سے پاک شے تھا اور وہ سات دن پہلے مرچکا ہے۔‘‘ جب منٹو نے یہ الفاظ کہے تو اس کا چہرہ رواقی غم و الم سے جامد اور خوفناک ہو رہا تھا۔ وہ ہمیشہ زندگی کی بدرو میں اچھائیاں ڈھونڈتا رہا تھا، کوئلوں کے انباروں میں لعل۔ یہ پیہم تلاش اکثر بے سود ہوتی تھی۔ اس جستجو میں اس کی آنکھیں کھوئی کھوئی سی رہتی تھیں۔ وہ کسی گنوائی ہوئی چیز کو ڈھونڈتا معلوم ہوتا تھا۔
وہ یہ کہنے کا مشتاق تھا کہ اگر ایک شخص لکھنا چاہتا ہے تو اسے پڑھنا بالکل نہیں چاہیے کہ اس سے مصنف کی اوریجنلٹی ختم ہوجاتی ہے؛ اسے زندگی کو ایک پُرجوش ولولے سے جینا اور زندگی کی کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ یہی اس کا اپنا طریقہ تھا اور اس نے عرصے سے پڑھنا ترک کر رکھا تھا۔ وہ گورکی کو بہت بڑا فنکار تصور کرتا تھا کیونکہ گورکی نے اپنا انسانی فطرت کا علم اور اپنا فن لمبی سڑک پر سے حاصل کیا تھا۔ منٹو جانتا تھا کہ کتابیں اصل زندگی کا بالکل بے خون بدل ہیں۔ لائبریریوں میں بیٹھ کر زندگی کا مطالعہ کرنے والے کبھی عظیم فن پیدا نہیں کرتے۔۔۔ میری رائے میں سارے اردو ادب میں غالب کی مثال کو چھوڑ کر کوئی اور اُس کے رتبے کو نہیں پہنچ سکتا۔ فطرتِ انسانی کے نباض ہونے کی حیثیت میں وہ شیکسپیئر کے پاس جگہ پانے کے لیے نااہل نہیں۔ ممکن ہے کتنوں کو میری یہ مدح سرائی مبالغہ آمیز اور انصاف سے کوسوں دور لگے، مگر وقت یہ ثابت کردے گا کہ منٹو کا فن باقی رہنے والا ہے۔
یہ مثال دینے کے لیے کہ اس کی موت نے سلجھے ہوے اور حساس ذہنوں پر کیا اثر کیا اور کتنے جذبوں کو ان کے دلوں میں ابھارا، نیچے میں اپنے ایک دوست کے ایک خط کا اقتباس تقریباً اسی کے الفاظ میں دیتا ہوں جو اس نے مجھے منٹو کی وفات کے چند دن بعد لکھا:
’’منٹو پر قلم اٹھانا کوئی آسان بات نہیں، خاص کر اس کے لیے جو اس بڑے انسان کے متعلق اس قدر کم جانتا ہو، اور جو کچھ تھوڑا بہت مجھے اس کے بارے میں علم ہے، تمھارے تعارف کی بدولت ہے۔ اس کی موت نے ادبی حلقوں میں غم اور محرومی کی چادر ڈال دی ہے، خصوصیت سے ان ناشروں پر جنھوں نے اس کی کتابوں سے ہاتھ رنگے۔ ان بے چاروں کا ٹکسال بند ہوگیا ہے اور سنہری انڈے دینے والی مرغی اب نہیں رہی۔ بہت سے چوٹی کے اخباروں نے اس خبر پر جلی سیاہ حاشیے چڑھائے۔ بہت سی سوگواری کی محفلیں بچھیں، ریڈیو پر تقریریں کی گئیں۔ مقالے پڑھے گئے اور پڑھے جائیں گے۔ منٹو یوم منائے جائیںگے، منٹو پر نمبر نکلیں گے۔ وہی لوگ جن کے نزدیک وہ راندۂ درگاہ اور قابلِ دار تھا، اب اچانک اس پر مہربان ہوگئے ہیں۔ اس سب ادبی شوراور ہمدردی کی ظاہرداری کے باوجود بہت تھوڑے ایسے تھے جنھوں نے اس انسان کی پاک روح کو پہچانا۔ یہ سب اونچی اور بلند بانگ باتیں بڑی بھلی اور خوش آئند ہیں لیکن اس درد سے بھرے ہوے انسان کا درد کسے ہے جو اپنے توانا قلم سے فن تخلیق کردیتا تھا؟ لوگ حالات سے فائدہ اٹھانے میں بے حد طاق تو ہیں لیکن قدرتوں کی طنز دیکھو،بالشتیے ایک دیو کو اپنے حقیر پیمانوں سے ناپتے ہیں۔ جب میں ان کی باتیں سنتا ہوں تو، معاف کرو، مجھے ایسا لگتا ہے جیسے ایک گھریلو بلونگڑا زرعی اصلاحات پر بولنے لگ جائے۔ کم آدمیوں کو اس ادبی شمع کے گل ہونے کا افسوس اور درد ہے اور بیشتر، جن کے دیے اس کے سامنے نہ جل سکتے تھے، اب اطمینان کا سانس لیںگے۔ دیو اب نہیں ہے، اس لیے بالشتیے اب اپنی ہستی کا احساس کراسکتے ہیں۔ تم اس خلا کو محسوس کرسکتے ہو یا وہ عام چھوٹے لوگ جن کا غمگسار اور سچا دوست وہ آشفتہ مزاج انسان تھا۔ ایسی درخشاں، ایسی بے باک زندگی خاتمے کو پہنچ گئی ہے۔ ایسا دلیر، ایسا خوبصورت انسان بنانے والے کے پاس جاچکا ہے۔ گلیوں کا آوارہ آدمی، عام کچلا ہوا آدمی، دکھ کی خزاں سے ستا ہوا آدمی اب اپنے سب سے بڑے اور پیارے دوست سے محروم ہوچکا ہے۔‘‘
اور اس آخری فقرے کو مرے ہوے عظیم آدمی پر ہمارا الوداعی سلام بن جانے دو۔ اس سے زیادہ اسے کوئی اور تعریف خوش نہیں کرسکتی۔ اس سے زیادہ اور کوئی کتبہ اس کے مناسبِ حال نہیں ہے۔
(فنون، لاہور،جنوری ۱۹۶۴ء)
***
دائیں طرف یا بائیں طرف
کھلنا کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی سفید لانچ چالنا کی دریائی بندرگاہ میں لنگر ڈالے کھڑی تھی۔ شام ڈھل رہی تھی اور پرلے کنارے کے جنگل کے اوپر ایک زرق برق رنگوں کا آسمان دریا کے پانیوں میں سونا اور گلاب گھول رہا تھا۔ ہم سب لانچ کے واحد کیبن میں جمع تھے۔ کسی طرح اردو کے مختصر افسانے پر بحث چل پڑی اور بیرن ہو چھانے یہ سوال کیا کہ اس دور کے اردو کے افسانہ نگاروں میں سب سے پہلے کس کا نام آنا چاہیے۔ بیدی، منٹو، کرشن، ندیم، بلونت سنگھ، اشفاق کے نام پیش کیے گئے۔ میں نے سعادت حسن منٹو کو بہترین افسانہ نگار کہا۔ میں نے اس استاد کے سادہ و شستہ اسلوب، بیان کے اختصار اور غیرجذباتی انداز کو سراہا۔ میں نے کہا کہ وہ ایک دو فقروں میں جیتے جاگتے کردار پیدا کرتا ہے اور اس کی کہانی کا ایک واضح چونکادینے والا انجام ہوتا ہے۔ کائونٹ بورِس (ایک اوریجنل بوہیمین اور اپنی طرز کا جینیئس) منٹو کور گید نے کے موڈ میں تھا۔ اس نے منٹو کو مداری کہا جو تھیلے میں سے خرگوش نکال کر ہاتھ کی صفائی دکھاتا ہے۔ اس نے کہا، ’’منٹو کے افسانے لنجے پن اور رجائیت کے مرض کے شکار ہیں اور تم انھیں دوبارہ نہیں پڑھ سکتے۔‘‘ میں نے کہا، ’’میں نے ’موذیل‘ کو چار دفعہ پڑھا ہے اور’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ کو سات آٹھ دفعہ، اور میں نہیں سمجھتا کہ اردو میں ان سے بہتر کہانیاں لکھی جاسکتی ہیں۔‘‘ کائونٹ بورس نے ناول کا تاج کرشن چندر کے سر پر رکھا۔ اس نے کہا،’’ اس کی تحریر میں رنگینی اور حلاوت ہے۔ اور اگر وہ جذباتی ہے تو اس کا کیا— ہم سب جذباتی ہیں، پھر ہم ادب میں جذباتیت سے کیوں بدکتے ہیں؟‘‘ کائونٹ بورس جھگڑنے اور اپنی منوانے کے موڈ میں تھا، اور میں نے اس سے جلد متفق ہونے میں عافیت سمجھی۔ شاید کائونٹ بورس ٹھیک ہی تھا۔
جوانی کے دنوں میں کرشن میرا محبوب ترین اردو مصنف تھا اور ہم اس کی رنگین تحریر کے طلسم میں اپنی اُمنگوں، دکھوں ور رومانی تمنائوں کی تسکین پاتے تھے۔ بحث شاید طول پکڑتی کہ نا ولسٹ پامپس (Pompus)،جو اپنی ڈھائی من کی لاش کو کیبن کے نرم گدگدے بنکر پر چت لٹائے پڑا تھا، چونکا اور پوچھنے لگا کہ ہمارا موضوعِ بحث کیا تھا۔ جب ہم نے اسے بتایا تو وہ برتری کے انداز میں مسکرایا۔ وہ یہ نہ سمجھ سکا کہ اردو کے بہترین ناولسٹ کی موجودگی میں کوئی کیسے منٹو اور کرشن کا ذکر کرسکتا ہے— جب مگرمچھ موجود ہو تو چھوٹی مچھلیوں کو کیوں اہمیت دی جائے۔ منٹو اس کے نزدیک ایک لچالفنگا، فحش نویس تھا اور کرشن محض ایک لالہ۔ مجھے یقین تھا کہ ناولسٹ پامپس نے منٹو، کرشن یا دوسرے جدید افسانہ نگاروں کو بالکل نہیں پڑھا تھا، اگرچہ ان کو پڑھنے کے بعد بھی اپنے متعلق اس کی اپنی رائے کبھی نہ بدلتی۔
وہ اپنا ذکر کرنے لگا، بالکل بے محل طور سے۔ اس نے ہمیں بتایا کہ کیسے جب وہ اپنا معرکۃ الآرا ناول ’’سعیدبن مجید‘‘ لکھ رہا تھا تو اس کے ایک مدّاح نے اس کے نام ایک خط میں تحریر کیا کہ وہ بسترِمرگ پر پڑا ہے، ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے۔ اس کی اب واحد تمنا یہ ہے کہ خداوند باری تعالیٰ اسے اتنی مہلت دے دے کہ وہ مرنے سے پہلے ’’سعیدبن مجید‘‘ پڑھ سکے۔
کائونٹ بورس نے چپکے سے مجھ سے کہا، ’’میں کہتا ہوں کامریڈ! اس فتنہ انگیز شخص پر ہلکا سا لاٹھی چارج نہ کیا جائے؟‘‘
ہم نے پھر ڈائننگ روم میں ناولسٹ پامپس کو ناولسٹ پامپس کے موضوع پر باتیں کرتے سنا— جہالت واقعی مہا آنند ہوتی ہے۔ کھانے کے بعد میں عرشے پر اکیلا گیا۔ ایک پیلا گول چاند جنگلوں کے اوپر نکل رہا تھا اور پانی میں اس کا عکس ہزاروں ریزوں میں ٹوٹ رہا تھا۔ میں کرشن چندر کے متعلق سوچنے لگا— وہ کون سا جادو تھا جس سے اس نے جوانی میں ہمارے دلوں کو مسخر کرلیا تھا اور ہمیں اپنا پجاری بنالیا تھا؟
ایسا فینامینا(phenomena) ہمارے ادب میں پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔
۲
غالباً ۱۹۳۸ء کے اوائل میں کرشن چندر کی پہلی کہانی ’’جہلم میں نائو پر‘‘ چھپی اور وہ اُس دن سے ایک مشہور مصنف بن گیا۔ اس کا نام ہمارے ادب میں ایک درخشاں ستارے کی طرح ابھرا اور ہم اس کی چکاچوند سے چندھیاگئے۔ وہ رات کو سوکر صبح اٹھا تو ہر کوئی اس کی باتیں کررہا تھا۔ ہم اس کی اچھوتی نثر، بیان کی رنگینی اور تخیل کی رومانیت کے جادو تلے آگئے اور کئی سال تک اس جادو کی تاثیر ہم پر چھائی رہی۔ وہ اردو ادب میں واقعی فینامیناہے، اور اگرچہ اس کا جادو اب قدرے مدھم اور پھیکا ہو چلا ہے مگر کرشن ہماری ہستی کا ایک اہم جز بن چکا ہے— ایک پیارے بھائی کی طرح۔ اس نے ہماری جوانی کے کرب وحزن سے بھرے ایام میں ہمیں اتنا کچھ دیا، اتنے سارے دیپ جلائے۔ کسی نے اردو میں اس سے پہلے ایسی نثر نہ لکھی تھی، اتنی لطیف اور مدھ بھری، ہر لفظ نئے ڈھلے ہوے سکے کی طرح چمکدار اور اپنی جگہ پر ہیرے کی مانند سجا ہوا۔ یہ نثر میں مرصع کاری تھی، الفاظ میں طلسمی مصوری، ہر فقرہ لال چہچہا اور پڑھنے والے کے ذہن میں بھڑکیلے اور رنگا رنگ کے سپنے جگاتا ہوا۔ ایک نئی نثر کا بادشاہ اردو زبان میں آگیا تھا، ایک نادر جادو گر، جس نے الفاظ کی بے جان مورتوں میں جان ڈال دی تھی۔ کوئی تعجب کی بات نہ تھی کہ ہم حسن و لطافت کے اس ریلے کے سامنے بہہ گئے— سرشار، خوش اوربے قابو۔ محمد حسین آزاد نے پیش گوئی کی تھی کہ زبان کے اہلِ ذوق بڑے بڑے صاحبِ قدرت ہیں، اور ہوں گے، کوئی نہ کوئی منزل مقصود تک پہنچے گا۔ کرشن چندر وہ لکھنے والا معلوم ہوتا تھا جس نے آزاد کی پیش گوئی پوری کردی تھی۔
ایک اچھا لکھنے والا ہمارے سامنے ایک نئی دنیا کھول دیتا ہے، اور کرشن چندر کی دنیا بے حد انوکھی، نئی نویلی اور پرکشش تھی۔ تشبیہیں اور استعارے جو وہ استعمال کرتا تھا، عام تام اور گھسے پٹے اور مردہ نہ تھے بلکہ اپنی دلآویزی اور لطافت سے تخیل کو روشن کردیتے تھے۔ ’’جہلم میں نائو پر‘‘ ہماری ادبی خزاں میں بہار کی تازہ ہوائوں کی طرح آئی اور گویا ایک معجزہ وقوع پذیر ہوا۔ اس کے بعد کہانیاں، خاکے اور مضامین اس کے زرخیز، انتھک قلم سے ایک کبھی نہ ختم ہونے والی ندی کی مانند بہنے لگے اور اردو پڑھنے والوں میں اس کی مقبولیت بڑھتی گئی۔ اُن دنوں ہمیں یقین تھا کہ جہاں کرشن چندر بیٹھا ہے وہی اردو ادب کا تخت ہے۔ اب میں یہ بات کہتے ہوے ہچکچائوں گا، لیکن اُن دنوں مجھے اس کا یقین تھا۔
اپنی اس سوچ میں میں اکیلا نہ تھا۔ کرشن کی ہر نئی کہانی کو ہم اس اضطراب، اس دل کی دھڑکن سے پڑھتے تھے کہ اب وہ عجیب بات معلوم ہوتی ہے۔ جب اس کی کوئی نئی کہانی ’’ادب لطیف‘‘ یا ’’سویرا‘‘ میں چھپتی تو یہ ایک اہم خبر ہوتی اور ہم بے تاب ہوکر لوہاری کے بک اسٹال پر رسالہ لینے کے لیے بھاگتے اور جب تک اسے پڑھ نہ لیتے چین سے نہ بیٹھتے۔ اورہم اسے ایک بار ہی نہ پڑھتے بلکہ دوبارہ اور سہ بارہ۔ اسے اپنے دوستوں کو پڑھ کر سناتے اور کئی کئی دن اس کے سحر میں رہتے۔ مجھے یوں یاد ہے جیسے کل کی بات ہو کہ میں لاکالج میں پڑھتا تھا اور ایک شام انار کلی میں گھوم رہا تھا۔ میرا ایک دوست سائیکل پر گاتا ہوا گزرا۔ میرے پوچھنے پر کہ وہ اتنی جلدی میں کیوں ہے، اس نے کہا کہ کسی نے اسے بتایا ہے کہ کرشن چندر کی نئی کہانی ’’دوفرلانگ لمبی سڑک‘‘، ’’ادب لطیف‘‘ میں چھپی ہے اور وہ یہ رسالہ لینے جا رہا ہے۔ میں بھی اس کے پیچھے بھاگا۔ میرا دل آنے والی خوشی کے خیال سے ایک پرندے کی طرح پھڑپھڑا رہا تھا۔
جب اس کی کہانیوں کی پہلی کتاب ’’طلسمِ خیال‘‘ شائع ہوئی تو یہ ہمارے ادب میں ایک سنگ میل سے کم نہ تھی۔ میں نے اس کی ہر کہانی کو کم از کم آدھا درجن بار ضرور پڑھا ہوگا۔ ’’جہلم میں نائو پر‘‘ اور ’’آنگی‘‘ میری چہیتی تھیں، اور ’’آنگی‘‘ تب جان کیٹس کی ’’لابیلے ڈیم سانزمرسی‘‘ کی طرح لطیف اور غیر مرئی اور انمٹ معلوم ہوتی تھی— نثر میں ایک مکمل نظم ۔ میں نہیں جانتا ’’آنگی‘‘ کو میں نے کتنی بار پڑھا۔ بہرحال وہ مجھے ’’لابیلے ڈیم سانزمرسی‘‘ کی طرح زبانی یاد ہوگئی۔ جان کیٹس کی لافانی نظم مجھے اب بھی زبانی یاد ہے، مگر ’’آنگی‘‘ مجھے بھول چکی ہے— صرف اس کی سحر آگیں خوابی خوبصورتی اب بھی ذہن میں ایک دمک بن کر اٹکی ہوئی ہے۔
کیسے وقت گزرتا ہے! ان کہانیوں کو پڑھے اب مجھے کم و بیش پچیس سال ہوچکے ہیں۔ اس وقت ان کا پڑھنا ایک زندہ روحانی تجربہ تھا جس نے یقینا میرے اور میرے دوستوں کے فکر و ذہن کو شدّت سے متاثر کیا۔ شاید میں ان کہانیوں کو اب کبھی نہیں پڑھوںگا۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں مجھے مایوسی اور ڈس الیوژن (disillusion)کا سامنا نہ ہو۔ ماضی کے حسین سپنے اسی طرح درخشاں اور خوشنما رہنے چاہییں۔ موپاساں نے ایک بار کہا تھا کہ آدمی کو جوانی میں پڑھی ہوئی کتابیں دوبارہ نہ پڑھنی چاہییں، نہ ہی اپنے دوستوں کے پرانے خطوط۔ تاہم چند دن ہوے، میں ریلیجس بک سوسائٹی کے سامنے پیومنٹ پر سیکنڈ ہینڈ کتابوں کو دیکھ رہا تھا۔ سیکنڈ ہینڈ کتابوں کو سونگھنا، ان کے ورق الٹنا، ان کو پرکھنا میرے لیے سب غموں اور دکھوں کا تریاق ہے۔ کیسے کیسے خزانے آدمی کو یہاں ملتے ہیں۔۔۔ میں نے ایک پھٹے ہوے سرورق کی کتاب اٹھائی۔ یہ ’’طلسم خیال‘‘ تھی، اس کا پہلا ایڈیشن۔ ایک بار مجھے زبردست تحریک ہوئی کہ میں اسے خریدوں اور ان کہانیوں کو دوبارہ پڑھ کے دیکھوں کہ کیا پرانا طلسم ان میں اب بھی باقی ہے۔ پھر موپاساں کی نصیحت کو یاد کرکے میں تذبذب میںپڑ گیا۔ اتنے میں ایک اونچی پیشانی والے کبڑے آدمی نے، جو میری طرح ان سیکنڈ ہینڈ کتابوں کی دکانوں پر اکثر منڈلاتا رہتا ہے اور غالباً کوئی کلرک ہے، اس کتاب کو آٹھ آنے میں خرید لیا اور مجھے اپنے شش و پنج سے نجات مل گئی۔ میں نے پھر احمد حسین صاحب کے رسالہ ’’شبابِ اردو‘‘ (جون ۱۹۱۲ء) کی بوسیدہ جلد خریدی، جس میں چکبست کا ایک مضمون تھا اور جس میں سب لکھنے والوں کے ناموں کے آگے القاب، ڈگریاں اور عہدے دیے ہوے تھے۔ اس سے مجھے یاد آیا کہ شروع شروع میں کرشن چندر بھی ’کرشن چندر ایم اے‘ ہوتا تھا (’’طلسم خیال‘‘ از کرشن چندر ایم اے، ’’شکست ‘‘از کرشن چندر ایم اے)— پچیس سال پہلے ایم اے کی کچھ تھوڑی بہت وقعت تھی اور ایم اے ہونے سے آدمی کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوجاتا تھا۔ اچھے پرانے دن!
کرشن نے نہ صرف ایک حیران کن زرخیز دماغی سے کہانیاں لکھیں، اس نے مزاحیہ خاکے بھی لکھے اور کئی کتابوں کے دیباچے بھی۔ اس نے ن م راشد کی ’’ماورا‘‘ کا دیباچہ لکھا۔ ’’ماورا‘‘ ایک طرح سے جدید اردو شاعری کی پہلی کتاب تھی جس کی نظمیں ایک مدت تک ’کافی ہائوس نقادوں‘ کا موضوع بحث بنی رہیں اور اب انھی کی رائے میں کچھ مضحکہ خیز دھوم دھام کی لفاظی لگتی ہیں۔ یہ دیباچہ ایک بناوٹ کی چیز تھا، اس قسم کی چیز جو فرمائش پر محض لکھنے کے لیے لکھی جاتی ہے۔ وہ لکھتا رہا۔ میری رائے میں ’’زندگی کے موڑ پر‘‘ میں اس کے فن نے اپنا سب سے اونچا مقام چھوا۔ پھر اس کا ناول ’’شکست‘‘ تھا جو یقینا اردو کے عمدہ ناولوں میں سے ہے اور جس میں بڑے حسین اور جاندار ٹکڑے ہیں۔ اس میں اس نے اپنے محبوب کشمیر کے نظاروں کی ایسی بھڑکتی ہوئی تصویریں کھینچ دی ہیں کہ قاری ان کے رنگوں میں کھوجاتا ہے۔ اس نے کشمیر کو اپنا خطہ بنالیا اسی طرح جیسے سسیکس (Sussex) ہارڈی کا ہے، اور سونے سرخ یارک شائرمورز(Moors) برانٹے بہنوں کے۔ وادی کی جھیلوں، بہتے ہوے جھرنوں، چیڑ سے ڈھکے ہوے پہاڑوں اور الھڑ گلابی رخساروں اور نرگسی آنکھوں والی دوشیزاؤں کو ا س نے اپنے تخیل کے طلسم سے زندۂ جاوید کردیا۔ اور صرف کشمیر ہی نہیں، جہلم بھی کرشن چندر کنٹری ہے۔ چند ماہ ہوے، میں اپنے دوستوں ایپی کیورس اور پیٹر کے ساتھ کار پر منگلا جارہا تھا۔ جب ہم جہلم کے پل پر پہنچے تو ہمیں یک طرفہ ٹریفک کی وجہ سے رکنا پڑا۔ دن ڈھل رہا تھا اور مغربی افق گلنار ہورہا تھا۔ دریا ایک جھیل کی طرح فراخ اور ساکت جھلمل جھلمل کرتا تھا۔ اس کے پانی پر گلاب اور عنبر سے چھڑکے ہوے تھے۔ بائیں طرف پرے ٹلہ جوگیاں کی تکونی پہاڑی، جہاں ہیر کے فراق میں جوگی بننے اور اپنے کان چھدوانے گیا تھا، پانی میں سے ایک ترشے ہوے نیلم کی طرح امڈی آئی تھی۔ اور ایک مچھیرے کی نائو چپ چاپ پانی اور افق کے درمیان لٹکی ہوئی تھی۔ ہمیں ’’جہلم میں نائو پر‘‘ یاد آگئی۔ یہ کرشن چندر کا جہلم تھا۔ اسی طرح کاغان اور سوات کی وادیاں بھی کرشن چندرکنٹریز ہیں اور ان خطوں میں سفر کرتے ہوے ہم اس کی ان پہلی کہانیوں کی بابت سوچے بغیر نہیں رہ سکتے— وہی گھراٹ، وہی چشمے، وہی ڈھکیاں، وہی وحشی آنگیاں۔
۳
پھر جادو رفتہ رفتہ پھیکا پڑنے لگا اور کرشن کی تحریروں کی آب و تاب مدھم ہونے لگی۔ یہ سارا اس کا قصور بھی نہ تھا— ہم جوانی کی جذباتی رومانیت سے نکل آئے تھے اور اب ہم ایک کہانی میں لفظی مصوری سے زیادہ اور بھی بہت کچھ کے طلبگار تھے۔ کرشن کی جذباتیت اور اس کی اپنے کرداروں کی امنگوں اور ارمانوں سے ذاتی اپنائیت (involvement) اب ہمیں کھلنے لگی۔۔۔ اور خود کرشن چندر کے افکار و نظریات میں بھی ایک عجیب تغیر آگیا تھا۔
اپنے اس دور میں اس نے افسانوی پمفلٹ تو بے شمار لکھے مگر اصل کہانی ایک بھی نہیں۔ وہ پہلے کی طرح کے مہکتے ہوے اسلوب میں لکھے ہوے پمفلٹ تھے، افسانوی شکل میں اور کافی دلچسپی کے حامل۔ کرشن چندر، ہم سب اچھی طرح جانتے تھے، اچھائی، حسن اور سادگی کی طرف ہے، اور اسی لیے ہم اس سے محبت کرتے تھے۔ اس کے دل میں انسانیت کے لیے بے پناہ تڑپ تھی، ایک کلبلاتا ہوا درد، اور وہ کہنگی، خود غرضی، ظلم اور برائی کے خلاف تھا— مگر یہ پمفلٹ تبلیغی تھے۔ اس نے ایک نیا مذہب دریافت کرلیا تھا اور وہ کھلم کھلا نعرے بازی پر اتر آیا تھا۔ اب ایک اچھا فن کار کبھی غصیلے جنونی کا روپ نہیں دھارتا، اور کرشن ایک سرگرم اور پرجوش لیفٹسٹ بن گیا۔ اپنی بے حد اُچھالی ہوئی کہانی ’’مہالکشمی کا پل‘‘ میں اس نے ہم سے ایک متعصب، بازاری مبلّغ کے لہجے میں سوال کیا کہ آیاہم مہالکشمی کے پل کے دائیں طرف تھے یا بائیں طرف۔ یہ اس جیسے تخلیقی مصنف کے لیے ایک بھونڈا سوال تھا، گو اُس وقت اس کی یہ کہانی ایک مخصوص طبقے میں ایک شاہکار کی حیثیت سے تسلیم کی گئی۔ ہمارے بہت سے لکھنے والے لیفٹسٹ ہوگئے— خواہ ذہنی یقین سے، خواہ دبائو سے، خواہ فیشن کے طور پر۔ وہ ایک دوسرے کو کامریڈ کہتے اور ایک دوسرے کی تیسرے درجے کی بناوٹی کہانیوں ور نظموں کو آسمان پر چڑھاتے۔ اُن دنوں بہت سے شاہکار لکھے گئے جو اب کسی کو یاد بھی نہیں۔ وہ لکھنے والے جنھوں نے پارٹی لائن میں گھٹنے سے انکار کردیا اور اپنے فن کی انفرادیت سے چمٹے رہے، انھیں تنزل پسند اور قابلِ تعزیر مجرم قراردیا گیا۔ جیسا کہ میرے دوست شفیق الرحمن نے اپنی ایک عمدہ پیروڈی میں لکھا، یہ ایک ’’ریکٹ‘‘ (racket) تھا۔ یہ لیفٹسٹ مصنف اپنے نئے دریافت کیے ہوے مذہب کے حلقے میں بچوں کی طرح خوش تھے۔ وہ خلوص سے سوچتے تھے کہ وہ خدا کے چنے ہوے ہیں اور انھیں روح کا من و سلویٰ مل گیا ہے۔
لیفٹسٹ اُن دنوں ہم سب تھے اور کئی ایک کو اشتراکیت انسان کے سب دکھوں اور غموں کا واحد حل معلوم ہوتی تھی۔ روسی انقلاب نے انسانیت کو ایک نیا وژن (vision)،انسانی برابری کا ایک نیا تصور دیا تھا۔ انسانی تاریخ میں یہ اشتراکی انقلاب کتنا پُر شوکت اور زلزلہ خیز تھا— ہزاروں برس کی غلامی اور جاگیریت کو بیخ و بُن سے ہلاتا ہوا۔ ایک چھوٹے سے، نوکیلی داڑھی اور گنبد نما سر والے آدمی نے دہقانوں اور مزدوروں کی خاطر خود سرزاروں سے ان کی وسیع قلمرو چھین لی تھی اور اس کے جانشین اسٹالن نے، جو ایک لوہار کا بیٹا تھا، ان کچلے ہوے لوگوں کو معاشی آزادی دے دی تھی اور سب انسانوں کو اصل معنی میں بھائی بھائی بنادیا تھا۔ ’سرخ فوج‘ صرف روسی دہقانوں اور مزدوروں کی فوج نہ تھی۔ یہ بہادر فوج ،افسروں اور زریں فیتوں یا لشکر کشی کے کسی نشان و علم کے بغیر، ساری دنیا کے مجبور اور راندے ہوے لوگوں کی اپنی فوج تھی۔ (ان دنوں ہمارے کئی شاعروں نے مقدس باپ اور سرخ فوج کے گیت گائے اور راتوں رات عظیم بن گئے۔) یورپ اور ایشیا کے کتنے ہی انٹلکچوئل، مصنف اور شاعر اس نئے انقلابی وژن سے متاثر ہوے— آرتھر کوئسلر سے مصنف، آڈن سے شاعر۔ زراعت کی اشتمالیت کے وقت ہم نے روس میں گھنائونی بربریت اور عذاب دہی کی خبریں پڑھیں کہ کیسے ہزاروں لاکھوں آدمی بے گھر ہوکر سائبیریا میں جلا وطن کیے گئے یا گولی سے اڑادیے گئے۔ ان خبروں نے ہمیں ڈس الیوژن ضرور کیا۔ گپھے دار مونچھوں والا، گٹھیلا، لوہار کا بیٹا زار سے کم بے درد اور سفاک نہ تھا۔ آرتھر کوئسلر نے اپنے ناول Darkness at Noon میں اشتراکیت کی ایک طاقتور نفسیاتی اٹاٹومی کی اور جارج آرویل نے ’’نائنٹین ایٹی فور‘‘ میں اس یوٹوپیا کی ایک خوفناک اور دل ہلادینے والی تصویر کھینچی— لیڈر کی اصل سائز سے دس گنا بڑی تصویریں دیواروں اور چوراہوں پر لگی ہوئی اور ان کے نیچے موٹے حروف میں یہ عبارت: ’’بڑا بھائی تمھیں دیکھ رہا ہے‘‘۔ پارٹی ورکرز کے ذاتی کمروں میں ٹیلی اسکرین جن میں سے ان کی سب حرکات وزارتِ محنت کے ہیڈ کوارٹرز میں نظر میں رکھی جاتی تھیں، گیلے بھربھرے عوامی سگریٹ، بے مسرت سیکس، ہر کوئی دوسرے سے خائف۔
جب ہم اپنے لیفٹسٹ دوستوں سے اس ناقابلِ یقین ظلم، اس فکر و خیال کی regimentation کا ذکر کرتے تو وہ ہمیں یقین دلاتے کہ یہ سب استعمار پسند پریس کا پروپیگنڈا ہے۔ بعض کف درد ہاں اس استبداد کی سرگرمی سے طرفداری کرتے: ’’یہ سب جلاوطنیاں اور قتل ضروری ہیں۔ ان سماج دشمنوں کی موجودگی میں اشتراکیت کو ہمیشہ خطرہ لاحق ہے۔ یہ ایک ضروری اور عبوری مرحلہ ہے۔‘‘ جب ہم پوچھتے کہ اگر وہ خود یا ان کے قریبی لوگ اس عبوری مرحلے کا شکار بنیں تو وہ اسے کیسے پسند کریںگے، تو وہ اپنا دماغی توازن کھوبیٹھتے۔ بہت سے انٹلکچوئل اور ادیب ایسے تھے جو اس لیے کمیونسٹ تھے کہ یہ ایک فیشن تھا۔ انھوں نے مارکس اور اینگلز کا ایک لفظ نہیں پڑھا تھا لیکن ان کے نام ان کے یوں وردِ زباں تھے جیسے وہ ان کے ساتھ اکٹھے سکول میں پڑھتے رہے ہوں۔
مجھے اپنا ایک دوست یاد ہے جو افسانے اور ناول لکھا کرتا تھا۔ وہ اپنے مسودے بریف کیس میں لیے الفنسٹن اسٹریٹ میں پھرتا تھا اور اگر اسے کوئی جاننے والا مل جاتا تو وہ اسے کسی اچھے ریستوراں میں لے جاتا اور اپنے ناول کے پہلے دو باب ایک خاص اختیار کیے ہوے لہجے میں سناتا۔ (یہ ناول دو باب سے کبھی آگے نہ بڑھا اور مصنف کی ایجادی قوتیں یہاں پہنچ کر فزِل آئوٹ ہوگئیں۔) یہ شخص اپنے طور طریقے میں قدرے زنانہ اور نخریلا، ایک مکمل ڈینڈی تھا۔ وہ بہترین سلائی کے سوٹ پہنتا اور اس کی قمیص کے اسٹڈ قیمتی ہوتے۔ وہ ہمیشہ اونچے ریستورانوں میں جاتا۔ اس کا ایک نوکر تھا جو اسے بوٹ پہناتا اور جس سے وہ نہایت سختی سے بولتا۔ یہ شخص خود کو کمیونسٹ کہتا تھا، انسانی برادری کی باتیں کرتا تھا اور استعماری نظام کو گالیاں دیتا تھا۔ ایک شام جب ہم سائیکل رکشا میں برنس گارڈن ایک دوست سے ملنے گئے تھے تو اس نے رکشا والے کو تیز نہ چلنے پر اتنا سخت سست کہا کہ میں سوچنے لگا، میرے دوست میں اصل انسانی احساسات ہیں ہی نہیں۔ ایک دفعہ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ خود کمیونسٹ کہتا ہے لیکن اس کا طور طریقہ، اس کے tastes ،اس کی بودوباش، اس کے عقیدے کے بالکل منافی ہے۔ اس پر وہ کٹ گیا اور مجھے اس طرح دیکھنے لگا جیسے میں ایک قابل ِرحم بے وقوف ہوں۔ اس نے مجھے مطلع کیا کہ میں اشتراکی تھیوری کو نہیں سمجھتا۔ کمیونزم میں کوئی ایسی بات نہیں جو تمھیں ٹھاٹھ سے رہنے سے روکے، بلکہ کمیونزم کا مقصد یہ ہے کہ سب آدمی اچھی زندگی گزاریں۔
کرشن چندر اور دوسروں کی اس عبوری دور کی اتنی مدح سرائی میرے لیے بے حد تکلیف دہ تھی۔ ایک اچھے فنکار میں ضعیف العقلی کا مظاہرہ افسوسناک تھا۔ کیا وہ یہ نہیں سمجھتا تھا کہ مطلق العنان حکومت اور طاقت اپنے استعمال کرنے والوں میں اسفل ترین جذبات اُبھارنے کا سبب بنتی ہے؟ بدھ اور یسوع سے لے کرکارل مارکس تک نے ایک بہتر، پاک اور ارفع انسانی زندگی کے خواب دیکھے؛ وہ خواب ابھی تک اتنے ہی دور ہیں جتنی آسمان کی دھنک۔
کرشن کی اپنے ان پمفلٹوں کے بارے میں رائے کافی اونچی تھی۔ جب اس لیفٹسٹ دور میں اس کے ایک دوست نے اس سے ایک خط میں شکایت کی کہ اس کی کہانیوں میں اب وہ لطف نہیں رہا، تو ایک سخت جلے بھنے ہوے کرشن چندر نے ایک تلخ جوابی خط شائع کیا۔ یہ خط بڑا مشہور ہوا۔ مجھے اس کے ابتدائی الفاظ تھوڑے تھوڑے یاد ہیں۔ کرشن نے لکھا کہ تم ٹھیک کہتے ہو میرے دوست! میری کہانیوں میں اب وہ مزہ نہیں رہا جو شراب کے نشے، افیون کی چسکی اور امساک کی گولی میں ہے۔۔۔ میں اب بھی سمجھتا ہوں کرشن اپنے دوست پر خواہ مخواہ برس پڑا۔ اس نے ایک سچی بات کہی تھی۔ ایک ادیب کا کام لکھنا ہے، اپنے پڑھنے والوں کو مسرت اور آگہی کے چند لمحے مہیا کرنا، نہ کہ پرچار کرنا۔ ہم سب کو وہی کام کرنا چاہیے جس کے لیے ہم بنے ہیں۔ مصلح اور مبلغ کا روپ دھارنا ایک کہانی کہنے والے کا کام نہیں۔ کرشن کے جوابی خط سے کیا ہم یہ سمجھیں کہ وہ اپنے لیفٹسٹ دور سے پہلے کے لکھے ہوے افسانوں اور ناولوں کو محض افیون کی چسکی اور امساک کی گولی کا درجہ دیتا ہے؟ نہیں نہیں، کرشن چندر! تم غلطی پر ہو۔ وہ کہانیاں جو تم نے جوانی کی حدت اور تازگیِ فکر سے لکھیں— ’’جہلم میں نائو پر‘‘، ’’آنگی‘‘، ’’زندگی کے موڑ پر‘‘ اور ’’کالو بھنگی‘‘ جیسی کہانیاں— وہی تمھیں زندہ رکھیںگی، انھی کی خاطر ہم تم سے محبت کرتے ہیں۔
(فنون، لاہور،اکتوبر ۱۹۶۵ء)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں