پیر، 25 اپریل، 2016

تنقیدی کتابوں کے تعلق سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں/ناصر عباس نیر

ڈئیر تصنیف !
آپ نے لکھا ہے کہ میں عالمی یوم کتاب کے موقع پرعالمی تنقید کی چندایسی کتابوں کا ذکر کروں ،جن کے بارے میں میری یہ رائے ہے کہ انھیں زندگی میں کم ازکم ایک بار پڑھنا ضروری ہے۔ کتاب کے عالمی دن (۲۳؍اپریل)کو منانے کا اس سے اچھا طریقہ کیا ہوسکتا ہے کہ دنیا کی بہترین کتابوں کا ذکر کیا جائے۔ آپ نے مجھے صرف تنقید کی چند کتابوں کے ذکر تک محدود رہنے کے لیے کہا ہے۔میں نے حساب نہیں لگایا کہ میں نے تنقید کی کتنی کتابیں پڑھی ہیں۔ ان میں سے کسی ایک یا چند کتابوں کا انتخاب ،اس کڑے معیار کے تحت کرنا کہ انھیں زندگی میں ایک بار ضرور پڑھا جائے، بہت مشکل کام ہے۔ کم ازکم میرے لیے بہت مشکل ہے۔ کیا میں دوسروں کو یہ تجویز کرنے کا مجاز ہوں کہ وہ عالمی تنقید میںارسطو، بھرت،جاحظ، رچرڈس، ولیم ایمپسن، ایذرا پائونڈ، ایلیٹ،ومساٹ،کلینتھ بروکس،ایم۔ایچ ابرام،لارنس، سارتر،بارت، دریدا، فوکو،ایڈورڈ سعید، ہیر لڈ بلوم،گائیری چکرورتی،ژولیا کرسٹیوا،التھیوسے،ٹیری ایگلٹن میں سے کسی ایک یا چند کی کتابیں ،حین حیات ایک مرتبہ ضرور پڑھیں۔ میں ان کی کتابوں کی فہرست ، اور ان کے مطالب واضح کرنے کی کوشش کرسکتا ہوں، مگر میں دوسرے لوگوں کی ذات میںبرپا اس بحران کا علم نہیں رکھتا، جسے پہچاننے ، جس سے نکلنے ،یا جسے قبول کرنے کی خاطر لوگ مخصوص کتابوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ میں ا س یقین کا اظہار کرسکتا ہوں کہ کتاب کے مطالعے کے بغیر خود کو اور دنیا کو سمجھنا خواب وخیال ہے ،اور کتاب پڑھے بغیرمنظم غور وفکرکی وہ صلاحیت نمو نہیں پاسکتی ،جو ایک معمولی شخصی مسئلے سے لے کر بڑے بڑے عالمی مسائل کے حل کے لیے ناگزیرہے۔ لیکن کسی شخص کو کون سی کتاب اپنی زندگی میں لازماًپڑھنی چاہیے ، اس کے بارے میں دوسرا شخص وثوق سے نہیں کہہ سکتا۔یہ فیصلہ ہر شخص کو خود کرنا ہے۔ یہاں مجھے بدھ کی ایک بات یاد آرہی ہے۔اس نے کہا کہ دکھ سے نجات کا کوئی واحد ،مقتدرطریقہ نہیں ہے۔ ہر طریقہ عارضی یعنیTransient ہے ۔ اس نے مزیدکہا کہ ہماری مثال اس مسافر کی طرح ہے جو دریا پارکرنا چاہتا ہے ،مگر دریاپر پل نہیں ہے۔ وہ خود ایک کشتی بناتا ہے۔ کشتی میں بیٹھتا ہے اور پار اتر جاتاہے۔ کیا وہ کشتی وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ جائے گا یا کشتی کو کاندھے پر لادے آگے کا سفر کرے گا کہ یہ کشتی اس کی تخلیق تھی؟تو بھائی ہر شخص کو اپنی کشتی خود بنانی ہے ،اور اسی کشتی کو کاندھے پر اٹھانے یا اس کا ملاح بننے کے بجائے ،آگے بڑھناہے۔ کشتی بنانے کا عمل ،کتاب کے انتخاب اور کتاب کی تخلیق دونوں کا استعارہ ہے۔اسی تمثیل کی روشنی میں ،میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ ایک نہیں ،کئی کتابیں منتخب کی جانی چاہییں اور کئی کتابیں لکھی جانی چاہییں۔ایک کتاب، ایک کشتی کی طرح ہے۔ چوں کہ آدمی کو کئی طرح کے دریائوں کا سامنا ہوتا ہے ، اس لیے اسے کئی کتابوں کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ ہاں،اگر کسی شخص کی زندگی میں صرف ایک دریا آیا ہے توپھر وہ ایک کتاب کو ہمیشہ کے لیے سینے سے لگا سکتاہے۔
کم ازکم رسمی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کتابوں کا انتخاب ،اتنا ہی اہم فیصلہ ہوتا ہے ،جتنا یہ فیصلہ کہ آدمی کو زندہ رہنا ہے یا خود کشی کرنی ہے۔ زندہ رہنے کا فیصلہ ایک طویل راستے کا انتخاب ہے ۔اس راستے پر آدمی کو صرف چلنا نہیں ہوتا، یعنی صرف سانس لیتے رہنا ،زندہ رہنے کی علامت نہیں،بلکہ بنیادی اور فوقی ضرورتوں کی طرح ،بنیادی اور فوقی سوالات کے جوابات بھی تلاش کرنے ہوتے ہیں۔ (کچھ لوگ محض تفریحاً ادب پڑھتے ہیں۔ان کے لیے ادب کی وہی حیثیت ہے جو کسی کھیل کی ہوتی ہے )۔اپنے سوالات کے مطابق ہی کتابوں کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ بغیر کتابوں کے اپنی ہستی اور دوسرے لوگوں اور دنیا کے ساتھ اپنے تعلق کی سب گرہیں کھول لے گا تو وہ شخص خود کو قدیم اساطیری عہد میں تصور کرتا ہے،جب آدمی کو یقین تھا کہ دیوتا اس کی مدد کو آئیں گے۔بڑی کتاب، انسانی ذہن کی اس اعلیٰ ترین سطح کی جدودجہد کی دستاویز ہے ،جو محدود وسائل سے لامحدود نتائج اخذ کرنے کی خاطر کی جاتی ہے۔لہٰذا کتاب سے مفر نہیں۔تاہم میرے خیال میں کسی کتاب کے نتائج سے زیادہ ،نتائج اخذ کرنے کی جدوجہد اور طریقے کہیں زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ ہم دوسروں کے نقش قدم پر چل کر اپنی منز ل تک پہنچ سکتے ہیں ،نہ دوسروں کی کشتیوں میں بیٹھ کر دریا پار کر سکتے ہیں۔ دوسروں کے نقوشِ قدم یا کشتیاں ،ہمیں اپنے نقش قدم ثبت کرنے اور اپنی کشتیاں بنانے کی انسپیریشن اور طریقوں سے آگا ہ کرسکتے ہیں۔
ایک اعتبار سے، تنقید کی کتابوں سے آدمی گمراہ ہوسکتا ہے کہ ان میں نتائج واضح اور کم بیش قطعی ہوتے ہیں۔ جب کہ آدمی کو خود اپنے اخذ کردہ نتائج درکار ہیں۔ تنقید کی کتابوں سے اخذ ِ نتائج کے طریقوں یا Approachesکا علم حاصل کرنا چاہیے۔ میں نے اس ضمن میں جن چند کتابوں سے یہ طریقے معلوم کیے ہیں، ان کی تعداد تو خاصی ہے ،مگر جنھیں میں فوری طور پر یاد کرسکتا ہوں،ان میں( قدیم یونانی ،عہد وسطیٰ کی یورپی ،سنسکرت اور فارسی کی کتابوں کے علاوہ) ولیم ایمپسن کی Seven Types of Ambiguity ،ایذرا پائونڈ کے Literary Essays،ایلیٹ کی The Sacred Woodہیرلڈ بلوم کی Anxiety of Influence،ایم ایم باختن کی The Dialogical Imagination،لوکاچ کی Theory of Novel، بارت کیMythologies ،اور Image Music Textدریدا کیActs of Literature ، میثل فوکو کی Archeology of Knowledge ،التھیوسے کی Ideology and Ideological State Apparatuses،فرانز فین کی The Wretched of the Earthایڈورڈ سعید کی Orientlaism ،The World ,The Text and The Critic،Culture and Imperialism،ٹیری ایگلٹن کی How to Read a Poem،ادونس کی Sufism and Surrealismشامل ہیں۔ حال ہی ایڈورڈ سعید کی ایک اور کتابOn The Late Style دیکھنے کا موقع ملا ہے تو سوچنے کا ایک نیا زاویہ ملا ہے؛ آخری عمر میں ادیبوں کے سٹائل میں کیا تبدیلیاں ،کن اسباب سے آتی ہیں ،اور ان کا ادیبوں کے خیالات سے کیا تعلق ہوتاہے۔ان مصنفین کی میں نے ایک سے زیادہ کتابیں پڑھی ہیں،مگر یہاں ان کتابوں کے نام درج کیے ہیں ،جو مجھے زیادہ پسند آئیں۔ کسی زمانے میں رلکے کے نوجوان شاعر کے نام خطوط پڑھے تھے ۔اسی طرح سقراط کی Apologyجسے افلاطون نے لکھا تھا۔ یہ دوکتابیں ایسی ہیں ،جنھیں میں نے ایک سے زیادہ بار پڑھاہے،اور میری حیرت وجستجو کم نہیں ہوئی۔ ہوسکتا ہے ،مذکورہ بالا کتابوں میں سے سب یا چند ایک بعض کے لیے بالکل بیکار ہوں،اور بعض کے لیے حد درجہ اہم ہوںکہ انھیں پڑھے بغیر ہم ان طریقوں سے آشنا نہیں ہوسکتے جو ادبی متون کے کثیر زایوں سے مطالعے کے لیے ناگزیرہیں۔تنقید کی وہ کتابیں مجھے زیادہ اچھی لگی ہیں جن میں ادبی متن کی ایک سے زیادہ تہوں کو نہ صرف دریافت کیا جاتاہے ،اور مسرت محسوس کی جاتی ہے ۔۔۔بلکہ ان تہوں کی تعبیر تاریخ ، ثقافت ،سیاست ،انسانی نفسیات کے تناظر میں کی جاتی ہے،اوربصیرت اخذ کی جاتی ہے۔۔۔ یوں ادبی متن کو انسانی ہستی کے فوقی سوالات اور سماج کے حقیقی مادی مسائل کو سمجھنے کا ایک تخیلی میدان تصور کیا جاتاہے۔ادب کے مطالعے کے دیگر یعنی محض ہیئتی،یا محض نفسیاتی ،یا محض عمرانی طریقوں میں یقین رکھنے والوں کے لیے تنقید کی دوسری کتابیں موجود ہیں!

ناصر عباس نیر ّ
لاہور، ۲۲؍اپریل ۲۰۱۶ء

3 تبصرے:

Mahender Kumar 'Sani' کہا...

Nasir abbas nayyar urdu ke aham naaqid hain. Jinki tasneefaat tanqeedi khushki se vara takhleeqi ilmi baseerton se labrez hain..

Sanskrit aur arabi farsi ke wisdom analysis ko apni tanqeed ka aadhaar bana kar mabaad e jadeed adab ki takhleeqi jihton ka ahaata kiya hai..

Behad aham kitabon ka zikr kiya hai nayyar sahab ne.. kash main apni zindgi me in kitabon ka mutalaa kar sakun..

Shukriya..
M k sani

Unknown کہا...

ناصر عباس نیر کی یہ تحریر بھی ایک بھر پور عالمانہ نظر کی غماز ہے. اگر ان کی تجویز کردہ کتابیں پڑھ لی جائیں تو ذہن نئی اڑان بھر سکتا ہے. اس تحریر کے حصول کے لیے تصنیف حیدر مبارک باد کے مستحق ہیں. یامین

Unknown کہا...

ناصر عباس نیر کی یہ تحریر بھی ایک بھر پور عالمانہ نظر کی غماز ہے. اگر ان کی تجویز کردہ کتابیں پڑھ لی جائیں تو ذہن نئی اڑان بھر سکتا ہے. اس تحریر کے حصول کے لیے تصنیف حیدر مبارک باد کے مستحق ہیں. یامین

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *