گوپی چند نارنگ نے محمد علوی کی نظمیہ شاعری کے تعلق سے ان کی کلیات ’رات ادھر ادھر روشن‘ کی ابتدا میں لکھا ہے:’’(محمد)علوی کی جس قدر پہچان ان کی غزل سے ہے اسی قدر پہچان نظم سے بھی ہے، اس لیے کہ مختصر نظم پر علوی کی دسترس میں کبھی کمی نہیں آئی۔علوی کو نظم کی تعمیر کا ہنر آتا ہے۔بالعموم وہ نظم کو سیدھے سادے بیان سے شروع کرتے ہیں، پھر ایک ہلکا سا موڑ دے کر توقعات کو پلٹ دیتے ہیں اور معنی یا فکر یا احساس کی ایک انوکھی کیفیت سامنے آجاتی ہے۔گویا احساس کے دوسرے پن یا معمولہ معنی سے ہٹ کر معنی پیدا کرنے کی کیفیت محمد علوی کی نظم بافی میں بھی ہے۔‘‘ لیکن ایک ہلکے موڑ سے چونکانا یا معمولی معنی سے ہٹ کر معنی پیدا کرنا ہی علوی کی نظم کی خصوصیت نہیں ہیں۔ان کے موضوعات، زندگی کے تعلق سے ان کی نہایت عمومی باتوں پر مضبوط گرفت اور چھوٹے چھوٹے غیر اہم واقعات کواپنے فن کے محدب عدسے سے دیکھ پانا اور آسان ترین لہجے میں اسے بیان کردینا بھی ان کا کارنامہ ہے۔ ان نظموں سے علوی کے یہاں موجود خالص فنکارانہ طرز زندگی اور اس کے اظہار کا مکمل طور پر احساس ہوتا ہے، خاص طور پر ان کی نظمیں جنم دن، تخلیق، ابن مریم وغیرہ جیسی نظمیں اس کی خاص مثالیں ہیں۔ شاعر کا اصل کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر طے شدہ امر اور تسلیم شدہ بات کو پلٹ کر دیکھتا ہے اور اس کی وہ حقیقت ہم پر ظاہر کرتا ہے جو سامنے ہوتے ہوئے بھی آنکھوں سے اوجھل ہے، علوی کے اسی کمال نے انہیں چونکانے کے عمل سے دور، نظم کے دریا میں بھی ایک گہری سانس لینے کے فن سے آشنا کیا ہے ۔ ہندوستان میں اردو نظم کے سنجیدہ شاعر بہت کم ہیں، زبیر رضوی کا حال ہی میں انتقال ہوگیا،خود علوی اب بہت کم کہتے ہیں ،شارق کیفی، شنہاز نبی، صدیق عالم جیسے سنجیدہ شاعر نظم کے میدان میں شاید ہی اور بھی کچھ رہ گئے ہوں اور یہ خلا نئے شاعروں کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں۔
ابن مریم
تو پھر یوں ہوا
ابن مریم نے اک اونچے ٹیلے پہ چڑھ کر کہا
سن رہے ہو
جہاں تم نے بویا نہیں ہے
وہاں کاٹنے کیوں چلے ہو
جہاں کچھ بکھیرا نہیں ہے
وہاں سے سمیٹو گے کیا
لائو اپنے گناہوں کے پشتارے لائو
کہاں تک انہیں لاد کر یوں پھرو گے
انہیں دفن کردو
تو ممکن ہے کل اس زمیں پر تمہیں
نیکیوں کے درختوں سے
لذت کے پھل مل سکیں گے
اور پھر یوں ہوا
ابن مریم نے دیکھا
تو میدان میں
چند بھیڑیں کھڑی تھیں
لوگ اپنے مکانوں کی جانب
گناہوں کو لادے
بڑھے جارہے تھے
اور ٹیلے پہ تنہا کھڑا ابن مریم عجب لگ رہا تھا
۰۰۰
اتفاق
تم سے بچھڑتے وقت میں نے
سوچا تھا کس طرح جیوں گا
کس کس سے چھپ کے رہ سکوں گا
آنسو کہاں کہاں پیوں گا
گھر میں اگر کسی نے پوچھا
’کیا بات ہے اداس کیوں ہو‘
ڈر تھا مجھے کہ رو پڑوں گا
لیکن یہ اتفاق دیکھو
میں گھر گیا تو میرے گھر کا
ایک ایک فرد رو رہا تھا
۰۰۰
انتقام
کھڑکی بند کرو آئو
آنکھیں میچ کے سو جائو
کل سورج آئے گا تو
کرنوں کی پچکاری سے
کھڑکی کے شیشے دھوکر
ٹھنڈے ٹھنڈے کمر ے میں
تم کو سویا دیکھے گا
اور بہت جھلائے گا
۰۰۰
اور پھر یوں ہوگا
ہاں یہ آخری صدی ہے
اس کے اختتام پر
یہ زمیں
سورج کی گرفت سے نکل کر
اندھیروں میں ڈوبتی چلی جائے گی
اور کسی تاریک سیارے سے ٹکراکر
ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی
اور پھر یوں ہوگا
زمیں کے ایک ٹکڑے پر
اک درخت ہوگا
اور اس کی چھائوں میں
اک بھائی
اور اک بہن
اک دوسرے سے لپٹ کر
سو رہے ہوں گے
اور شیطان
ان کے تلوے چاٹ رہا ہوگا
اور زمیں کا وہ ٹکڑا
اک نئے سورج کے گرد
چکر کاٹ رہا ہوگا
۰۰۰
اک تصور تجریدی
اک کونے میں کان بڑا سا
اک کونے میں لمبی ناک
اوپر کالے موٹے ہونٹ اور
نیچے انگارا سی آنکھ
بند مکاں کے بھوت رات کو
ٹوٹی کھڑکی سے مت جھانک
۰۰۰
اکیلی عورت اور ٹی وی
شوہر کی موت کے بعد
گھر میں وہ
اکیلی رہ گئی تھی
وقت کاٹے نہ کٹتا تھا
چھوٹا سا گھر
بہت بڑا لگتا تھا
گزرا ہوا
اچھا سمے یاد آتا تھا
تنہائی کا احساس
اندر ہی اندر
کھائے جاتا تھا
گھبرا کے اس نے
ٹی وی پال لیا
ہنستے گاتے ٹی وی نے
اسے سنبھال لیا!!
۰۰۰
ایسا ہو
ایک چھوٹا سا لکڑی کا گھر
اور آنگن میں پھرتی ہوئی مرغیاں
بیچ میں اک کنواں
اور چاروں طرف کھیت ہی کھیت
کھیتوں میں اک راستہ ہو
اور رستے پہ
اک پیڑ کی چھائوں میں
وقت سستا رہا ہو!
۰۰۰
ایک بچہ
آج سے پہلے میرا گھر
سویا سویا رہتا تھا
سورج روز نکلتا تھا
روز سویرا ہوتا تھا
آنگن میں دیواروں پر
دھوپ چمکتی رہتی تھی
گھر کی اک اک کھڑکی میں
نور کی ندی بہتی تھی
سارا سارا دن چھت پر
کاگے شور مچاتے تھے
نل نیچے پانی پینے
روز کبوتر آتے تھے
دروازے پر دستک کی
مہریں چمکا کرتی تھیں
سرد ہوائیں پردوں میں
ٹھنڈی آہیں بھرتی ہیں
ادھر ادھر جاتی گلیاں
دھوم مچایا کرتی تھیں
ان جانے جانے بوجھے
گیت سنایا کرتی تھیں
لیکن پھر بھی میرا گھر
سویا سویا رہتا تھا
گھر کا اک اک دروازہ
کھویا کھویا رہتا تھا
آج مگر اک نووارد
بچے کا رونا سن کر
چونک پڑے دیوار و در
جاگ اٹھا ہے میرا گھر
۰۰۰
ایک شام باغ میں
ننھے پودوں کے ہاتھوں میں رنگ برنگے جام
چھتنارے پیڑوں پہ گرتی چڑیوں کا کہرام
باغ، باغ میں حوض، حوض میں فوارے کا پیڑ
پتھر کی کرسی پر بیٹھی جلتی بجھتی شام
۰۰۰
بائیں آنکھ میں تل والے کی زبانی
اپنے خدا کو حاضر جان کے
میں جو کہوں گا سچ ہی کہوں گا
سچ کے علاوہ کچھ نہ کہوں گا
مجھ کو کچھ معلوم نہیں ہے
بس اتنا معلوم ہے صاحب
کمرے میں اک لاش پڑی تھی
لاش کے پاس اک شخص کھڑا تھا
اس کی بائیں آنکھ میں تل تھا
دودھ سے اجلا اس کا دل تھا
سب کہتے ہیں وہ قاتل تھا!
۰۰۰
بدن کا فیصلہ
یہ بدن
جسے میں
بہترین غذائیں کھلاتا رہا
پانی کی جگہ
شراب پلاتا رہا
یہی بدن
مجھ سے کہتا ہے
جائو
دفع ہوجائو
جنت کے مزے اڑائو
کہ دوزخ کے عذاب اٹھائو
میری بلا سے
میں تو اب
قبر میں سو رہوں گا
مٹی ہوں
مٹی کا ہورہوں گا
۰۰۰
پہلا خدا
اندھیرا تھا
چاروں طرف موت
منڈلارہی تھی
نگاہوں میں
مایوسیاں بس گئی تھیں
دلوں میں
کئی خوف گھر کرگئے تھے
تو اس وقت
ہم نے
نہایت عقیدت سے
پہلے خدا کو پکارا
وہ پہلا خدا جس نے ہم کو
اندھیروں سے باہر نکالا
اجالوں کی نعمت عطا کی
مگر ہم اسے بھول بیٹھے
کہاں ہے
وہ پہلا خدا اب کہاں ہے
چلو اس کو ڈھونڈیں
ہمیں پھر
ضرورت ہے پہلے خدا کی
۰۰۰
پیشکش
فریج کا ٹھنڈا پانی پینا
گھی والی روٹی کھانا
اجلے بستر پہ سو رہنا
ٹی وی سے جی بہلانا
اللہ میرے گھر آنا
میرے گھر میں چھپ جانا
۰۰۰
تخلیق
ایک زنگ آلودہ
توپ کے دہانے میں
ننھی منی چڑیا نے
گھونسلہ بنایا ہے
۰۰۰
تلاش
ایک آنکھ تھی آدھے لب تھے
اور اک چوٹی لمبی سی
ایک کان میں چمک رہی تھی
چاند سی بالی پڑی ہوئی
ایک حنائی ہاتھ تھا جس میں
لال کانچ کی چوڑی تھی
ایک گلی میں دروازے سے
جھانک رہی تھی اک لڑکی
جانے کون گلی تھی اب میں
چھان رہا ہوں گلی گلی
۰۰۰
تنہائی
کچھ دنوں سے اک چڑیا
چپ اداس گم سم سی
شام ہوتے آتی ہے
گھر میں ایک فوٹو پر
آکے بیٹھ جاتی ہے
اس سمے گھڑی میری
ٹھیک چھ بجاتی ہے
کچھ ہی دیر میں چڑیا
شام کے دھندلکے میں
ڈوب ڈوب جاتی ہے
اور گھر کا دروازہ
رات کھٹکھٹاتی ہے
۰۰۰
تیسری آنکھ
میں دونوں آنکھیں میچے
گرتا پڑتا دوڑ رہا ہوں
آگے کیا ہے
مجھ کو کچھ معلوم نہیں
لیکن میری تیسری آنکھ
پیچھے بھاگتے رات اور دن
سال اور صدیاں دیکھ رہی ہے
پیچھے دور بہت پیچھے
جھلمل کرتی
بجھتی خوشیاں دیکھ رہی ہے
میں دونوں آنکھیں میچے
تیسری آنکھ سے روتا ہوں
۰۰۰
جرم و سزا
مجھ کو اب بھی یاد ہے اک دن
گھروالوں کی آنکھ بچا کر
میں نے اک سونے کمرے میں
اک لڑکی کو چوم لیا تھا
اب وہ لڑکی ماں ہے، اس کے
کالے پیلے بچے ہیں
بچے میری گود میں آکر
مجھ کو ابا کہتے ہیں
۰۰۰
جنم دن
سال میں اک بار آتا ہے
آتے ہی مجھ سے کہتا ہے
کیسے ہو
اچھے تو ہو
لائو اس بات پہ کیک کھلائو
رات کے کھانے میں کیا ہے
اور کہو کیا چلتا ہے
پھر ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہتا ہے
پھر گھڑی دیکھ کے کہتا ہے
اچھا تو میں جاتا ہوں
پیارے اب میں
ایک سال کے بعد آئوں گا
کیک بنا کے رکھنا
ساتھ میں مچھلی بھی کھائوں گا
اور چلا جاتا ہے
اس سے مل کر
تھوڑی دیر مزا آتا ہے
لیکن پھر میں سوچتا ہوں
خاص مزا تو تب آئے گا
جب وہ آکر
مجھ کو ڈھونڈتا رہ جائے گا
۰۰۰
چوتھا آسمان
اور میں نے خدا سے کہا
دیکھ تیری مخلوق
چوتھے آسمان پر آگئی ہے
تو پردۂ غیب سے آواز آئی
کن
اور پلک جھپکتے میں
سات اور آسمان
چوتھے آسمان پر پھیل گئے
اور میرے اندر
اک اور جنگل اگ آیا
۰۰۰
چیل کا سایہ
دھوپ دیوار سے رینگتے رینگے
چارپائی کے نیچے
لٹکتے ہوئے پائوں پر آکے ڈسنے لگی
کھیلتے کھیلتے
منی چلائی روئی پھر ہنسنے لگی
چیل کا سایہ
آنگن سے
دیوار سے
چھت سے ہوتا ہوا
پاس والی گلی میں کہیں گر گیا
اور میں دھوپ میں
جھولتی چارپائی پہ لیٹا ہوا
الگنی پہ لٹکتی
پھٹی پینٹ کی خالی جیبوں کو تکتا رہا
پینٹ کی خالی جیبوں سے پانی ٹپکتا رہا
دھوپ کا زہر
پیڑوں سے ہوتا ہوا
دل کی جانب لپکتا رہا
چیل کا سایہ
سارے بدن میں بھٹکتا رہا
۰۰۰
خالی مکان
جالے تنے ہوئے ہیں گھر میں کوئی نہیں
’کوئی نہیں ‘ اک اک کونا چلاتا ہے
دیواریں اٹھ کر کہتی ہیں ’کوئی نہیں‘
’کوئی نہیں‘دروازہ شور مچاتا ہے
کوئی نہیں اس گھر میں کوئی نہیں لیکن
کوئی مجھے اس گھر میں روز بلاتا ہے
روز یہاں میں آتا ہوں ہر روز کوئی
میرے کان میں چپکے سے کہہ جاتا ہے
’کوئی نہیں اس گھر میں کوئی نہیں پگلے
کس سے ملنے روز یہاں تو آتا ہے‘
۰۰۰
خدا
مجھے اس کا دکھ ہے
کہ میں نے تجھے
آج تک کیوں نہ جانا
خدا اے خدا
میں سمجھتا تھا تو
ایک ظالم ہے جو
مجھ پہ ظلم و ستم ڈھارہا ہے
مجھے یہ خبر ہی نہیں تھی
کہ تو بھی
دکھی ہے
اکیلا ہے
میں اور تو
ایک ہی آگ میں جل رہے ہیں
۰۰۰
خدا کہاں ہے
نہ مسجدوں میں نہ مندروں میں
خدا کہاں ہے کدھر گیا ہے
چلو مرے ساتھ میں بتائوں
مگر سمے اب گزر گیا ہے
جلائے ہیں ہم نے ان گھروں میں
خدا بھی جل بجھ کے مرگیا ہے
۰۰۰
خلل
حوض میں
بے حرکت
پانی کی سطح پر
ایک مینڈک
پائوں لمبائے
آرام سے
اونگھ رہا ہے
ابھی کوئی
وضو کرنے آئے گا
اور
پانی میں
ہلچل مچائے گا
۰۰۰
دلی
دلی تیری آنکھ میں تنکا
قطب مینار
دلی تیرے دل کا پتھر
لال قلعہ
دلی تیرے بٹوے میں
غالب کا مزار
رہنے دے
بوڑھی دلی
کپڑے نہ اتار
۰۰۰
رد عمل
کھلی کھڑکی پہ اک بوڑھا کبوتر
پروں میں منہ لپیٹے سو رہا ہے
در و دیوار چپ سادھے ہوئے ہیں
گلی کا شور بجھ کر رہ گیا ہے
کوئی آواز اب آتی نہیں ہے
مرا کمرہ خموشی سے بھرا ہے
ابھی وہ مجھ سے باتیں کررہا تھا
مگر اب دیکھیے تو جاچکا ہے
۰۰۰
رشوت خور دہائی
پینسٹھ نے روکا اور پوچھا
’کون ہو کیسے آئے ہو
اچھا آگے جانا ہے
میرے لیے کیا لائے ہو‘
میں نے کہا کیا چاہتے ہو
دانت اکسٹھ نے مار لیے
باسٹھ تیسٹھ اور چوسٹھ نے
سر کے بال اتار لیے
اب دو آنکھیں باقی ہیں
آگے رستہ ٹھیک نہیں
تم چاہو تو بھائی مرے
آدھی بینائی لے لو
چھاسٹھ کا ویزا دے دو
۰۰۰
رو میں ہے رخش عمر
دستک دی
تو اندر سے آواز آئی
’کون ہو۔۔۔کس سے ملنا ہے‘
میں بولا اس لڑکی سے
جو ابھی ابھی گھر میں آئی ہے
اس نے کہا
آجائو
اندر جاکر دیکھا تو
کمرے میں اک صوفے پر
ایک ضعیفہ بیٹھی تھی
وہی لباس تھا اس کے بدن پر
جو لڑکی نے پہنا تھا
۰۰۰
روٹی
پڑوسی کی بکری نے
پھر گھر میں گھس کر
کوئی چیز کھالی
بیوی نے سر پہ قیامت اٹھالی
منے کو
رونے میں جیسے مزا آرہا ہے
برابر وہ روئے چلا جارہا ہے
فقیر ب بھی چوکھٹ سے چپکا ہوا ہے
وہی روز والی دعا دے رہا ہے
روٹی کے جلنے کی بو
اور اماں کی چیخوں سے
گھر بھر گیا ہے
پنجرے میں چکراتے مٹھو کی آواز
روٹی دو
بی بی جی روٹی دو
اس شور میں کھوگئی ہے
روٹی توے پر بھسم ہوگئی ہے
۰۰۰
سورج
وہ دیکھو سورج
زمیں کے اندر اتر رہا ہے
چلو اسے دفن کرکے
اپنے گھروں کو جائیں
تمام دن کا عذاب
کھونٹی پہ ٹانگ کر
میلے بستروں کو
چمکتے خوابوں سے جگمگائیں
یہ وقت
کیوں جاگ کر گنوائیں
کہ کل یہ سورج
اسی زمیں سے
نکل کے
اپنے سروں پہ ہوگا
چلو اسے دفن کرکے
اپنے گھروں کو جائیں
۰۰۰
شکست
دیواریں دروازے دریچے گم سم ہیں
باتیں کرتے بولتے کمرے گم سم ہیں
ہنستی شور مچاتی گلیاں چپ چپ ہیں
روز چہکنے والی چڑیاں چپ چپ ہیں
پاس پڑوسی ملنے آنا بھول گئے
برتن آپس میں ٹکرانا بھول گئے
الماری نے آہیں بھرنا چھوڑدیا
صندوقوں نے شکوہ کرنا چھوڑ دیا
مٹھو ’بی بی روٹی دو‘ کہتا ہی نہیں
سونی سیج پہ دل بس میں رہتا ہی نہیں
سنگر کی آواز کو کان ترستے ہیں
گھر میں جیسے سب گونگے ہی بستے ہیں
تم کیا بچھڑے سمے سہانے بیت گئے
لوٹ آئو میں ہارا لو تم جیت گئے
۰۰۰
قبر میں
میرے جسم پر رینگتی
چونٹیوں کے علاوہ
یہاں کوئی ہے
کوئی بھی تو نہیں ہے
مگر ایک آواز آتی ہے
مجھ سے کوئی پوچھتا ہے
بتا تیرا رب کون ہے
کون ہے؟
کون ہے
اور میں سوچتا ہوں
اگر میرا رب کوئی ہے تو
اسے میرے مرنے کا غم
کیوں نہیں ہے!
۰۰۰
قرب و بعد
رات کو جب بھی آنکھ کھلی ہے
مجھ کو یوں محسوس ہوا ہے
جیسے کوئی
میرے سرہانے کھڑا ہوا ہے
دو آنکھیں
میٹھی نظروں سے
میرا چہرہ چوم رہی ہیں
دو ہاتھوں کی نرمی
میرے رخساروں پر پھیل گئی ہے
دو ہونٹوں کی گرمی
میری پیشانی میں جذب ہوئی ہے
زلفوں کی لہراتی خوشبو
سانسوں میں رس بس سی گئی ہے
کمرے کی خاموش فضا میں
گیتوں کے کچھ بول پرانے
تیرے رہے ہیں
کھڑکی کے پردوں کو جیسے
ابھی کسی نے ٹھیک کیا ہے
آتش داں کے بجھتے شعلے
ابھی ابھی بھڑکائے گئے ہیں
تکیہ جو بستر سے گرا تھا
اب سر اس پہ دھرا ہوا ہے
کمبل جو پیروں میں پڑا تھا
سارا بدن اب ڈھانپ رہا ہے
مجھ کو یوں محسوس ہوا ہے
جیسے تم
اب بھی کمرے میں کھڑی ہوئی ہو
اب بھی گھر میں بسی ہوئی ہو
لیکن تم تو چھوڑ کے مجھ کو
دور پرانے قبرستاں کی
سمٹی سکڑی اک تربت میں
اک مدت سے چھپی ہوئی ہو
۰۰۰
گرمی
رات اب سیانی ہوگئی ہے
گڑیا کھوجائے
تو روتی نہیں
بخار میں مبتلا
بوڑھے آسمان میں
اتنی بھی سکت نہیں
کہ اٹھ کر وضو کرے
سورج خوں خوار بلے کی طرح
ایک ایک چیز پر
اپنے ناخن تیز کرتا ہے
ہوا کا جھونکا
چوہے کی مانند
بل سے باہر آتے ڈرتا ہے
وقت آج کل
دوز خ کے آس پاس سے گزرتا ہے
۰۰۰
گھر
اب میں گھر میں پائوں نہیں رکھوں گا کبھی
گھر کی اک اک چیز سے مجھ کو نفرت ہے
گھر والے سب کے سب میرے دشمن ہیں
جیل سے ملتی جلتی گھر کی صورت ہے
ابا مجھ سے روز یہی فرماتے ہیں
’کب تک میرا خون پسینہ چاٹو گے‘
اماں بھی ہرروز شکایت کرتی ہیں
’کیا یہ جوانی پڑے پڑے ہی کاٹو گے‘
بھائی کتابوں کو روتا رہتا ہے سدا
بہنیں اپنا جسم چرائے رہتی ہیں
میلے کپڑے تن پہ داغ لگاتے ہیں
بھیگی آنکھیں جانے کیا کیا کہتی ہیں
چولھے کو جی بھر کے آگ نہیں ملتی
کپڑوں کو صندوق ترستے رہتے ہیں
دروازہ کھڑکی منہ کھولے تکتے ہیں
دیواروں پر بھتنے ہنستے رہتے ہیں
اب میں گھر میں پائوں نہیں رکھوں گا کبھی
روز یہی میں سوچ کے گھر سے جاتا ہوں
سب رستے ہر پھر کے واپس آتے ہیں
روز میں اپنے آپ کو گھر میں پاتا ہوں
۰۰۰
گھر کی چنتا
گھر سے باہر
آنگن میں
کھاٹ پہ بیٹھی
تین عورتیں
کھسر پسر کرتی ہیں
ایک موٹی ہے
دوسری لمبی
تیسری قد کی چھوٹی ہے
چھوٹی دونوں ہاتھ ہلا کے
منہ ہی منہ میں
جانے کیا کہتی ہے
لمبی سر سے سر جوڑے
بڑے چائو سے سنتی ہے
موٹی ناک پہ انگلی دھر کے
بنا سنے ہی
مٹکی سا سر دھنتی ہے
پاس ہی اک ننھی سی چڑیا
گرے پڑے تنکے چنتی ہے
۰۰۰
گھوڑے پر اک لاش
گونج اٹھی ساری وادی زخمی گھوڑے کی ٹاپوں سے
ٹاپوں کی آواز پہاڑوں سے ٹکرائی بکھری
دھوپ کسی اونچی چوٹی سے گرتے پڑتے اتری
بڑے بڑے پتھروں کے نیچے سایوں نے حرکت کی
اڑتے گدھ کی آنکھوں میں تصویر بنی حیرت کی
ریت چمکتی ریت، ریت اور پتھر اور اک گھوڑا
گھوڑے پر اک لاش، لاش کو لے کر گھوڑا دوڑا
حیرت کی تصویر گری چکراتے گدھ کی آنکھوں سے
گونج اٹھی ساری وادی زخمی گھوڑے کی ٹاپوں سے
۰۰۰
مجھے ان جزیروں میں لے جائو
مجھے ان جزیروں میں لے جائو
جو کانچ جیسے
چمکتے ہوئے پانیوں میں گھرے ہیں
جہاں لڑکیاں
ناریل کے درختوں کے پتوں سے
اپنے بدن کے
خطرناک حصے چھپاتی ہیں
پھولوں کے گجرے پہن کر
بڑی شان سے مسکراتی ہیں
بچے جہاں
ریت کے گھر بناتے ہیں
اور ساحلوں کی چمکتی ہوئی ریت پر
لوگ سن ہاتھ لیتے ہیں
پانی میں غوطہ لگا کر
سیپیاں مچھلیاں اور گھونگھے پکڑتے ہیں
اور رات کو
چاندنی میں
ناچتے اور گاتے ہیں
اور پھونس کے
ننھے منے مکانوں میں
آرام کی نیند سو جاتے ہیں
مجھے ان جزیروں میں لے جائو
جو کانچ جیسے
چمکتے ہوئے پانیوں میں گھرے ہیں
تو ممکن ہے میں
اور کچھ روز جی لوں
کہ شہروں میں اب
میرا دم گھٹ رہا ہے
۰۰۰
مچھلی کی بو
بستر میں لیٹے لیٹے
اس نے سوچا
’میں موٹا ہوتا جاتا ہوں
کل میں اپنے نیلے سوٹ کو
آلٹر کرنے
درزی کے ہاں دے آئوں گا
نیا سوٹ دو چار مہینے بعد سہی!
درزی کی دوکان سے لگ کر
جو ہوٹل ہے
اس ہوٹل کی
مچھلی ٹیسٹی ہوتی ہے
کل کھائوں گا
لیکن مچھلی کی بو سالی
ہاتھوں میں بس جاتی ہے
کل صابن بھی لانا ہے
گھر آتے
لیتا آئوں گا
اب کے ’یارڈلی‘لائوں گا
آفس میں کل کام بہت ہے
باس اگر ناراض ہوا تو
دو دن کی چھٹی لے لوں گا
اور اگر موڈ ہوا تو
چھ کے شو میں
’رام اور شیام‘ بھی دیکھ آئوں گا
پکچر اچھی ہے سالی
کلب رمی
دو دون سے لک اچھا ہے
کل بھی ساٹھ روپے جیتا تھا
آج بھی تیس روپے جیتا ہوں
اور امید ہے
کل بھی جیت کے آئوں گا
بس اب نیند آئے تو اچھا
کل بھی
جیت کے
نیند آئے تو
اکا دکا نہلہ دہلہ
اینٹ کی بیگم
مچھلی کی بو
تاش کے پتے
جو کر جوکر
سو ٹ پہن کر
موٹا تگڑا جوکر۔۔۔‘
اتنا بہت سا سوچ کے وہ
سویا تھا مگر
پھر نہ اٹھا!!
دوسرے دن جب
اس کا جنازہ
درزی کی دوکان کے پاس سے گزرا تو
ہوٹل سے مچھلی کی بو
دور دور تک آئی تھی!!!
۰۰۰
مشورہ
راتوں کو سونے سے پہلے
نئی پرانی یادوں کو
الٹ پلٹ کرتے رہنا
ورنہ کالی پر جائیں گی
ادھر ادھر سے سڑجائیں گی
۰۰۰
مگر میں خدا سے کہوں گا
مگر میں خدا سے کہوں گا
خدا وند! میری سزا تو کسی اور کو دے
کہ میں نے یہاں
اس زمیں پر
سزائیں قبولیں ہیں ان کی
کہ جن سے مجھے صرف اتنا تعلق رہا ہے
کہ میں اور وہ
دونوں تجھ کو خدا مانتے تھے!
یہ سچ ہے
ترا عکس دیکھا تھا ہم نے الگ آئنوں میں
مگر میں خدا سے کہوںگا
خداوند! یہ دن قیامت کا دن ہے
یہ وہ دن ہے
جب تو نے ہم سب پہ اپنے کو ظاہر کیا ہے
تو اس وقت میرے گناہوں سے پردہ اٹھا کر
خداوند! تو اپنی نورانیوں
اپنی تابانیوں کو ملوث نہ کر
مجھے معاف کردے
اسے معاف کردے
کہ میں اور وہ دونوں تجھ کو خدا مانتے تھے
یہ سچ ہے
ترا عکس دیکھا تھا ہم نے الگ آئنوں میں
ہمیں معاف کردے
کہ ہم نے سزائیں قبولی ہیں اک دوسرے کی!
ہمیں معاف کردے
کہ سارے گنہ ساری تقصریں
سچ سچ بتائوں
اسی دن کی خاطر ہوئی تھیں
۰۰۰
میرے سامنے
میری تنہائی
دیوار بن کے کھڑی ہے
تو کیا میں اسے چاٹ جائوں
مگر اس طرف بھی
اگر میں ہوا تو!
۰۰۰
میں اور تو
خداوند۔۔۔مجھ میں کہاں حوصلہ ہے
کہ میں تجھ سے نظریں ملائوں
تری شان میں کچھ کہوں
تجھے اپنی نظروں سے نیچے گرائوں
خداوند مجھ میں کہاں حوصلہ ہے
کہ تو
روز اول سے پہلے بھی موجود تھا
آج بھی ہے
ہمیشہ رہے گا
اور میں
میری ہستی ہی کیا ہے
آج ہوں
کل نہیں ہوں
خداوند مجھ میں کہاں حوصلہ ہے
مگر آج اک بات کہنی ہے تجھ سے
کہ میں آج ہوں
کل نہیں ہوں
یہ سچ ہے مگر
کوئی ایسا نہیں ہے
کہ جو میرے ہونے سے انکار کردے
کسی میں یہ جرات نہیں ہے
مگر تو
بہت لوگ کہتے ہیں تجھ کو
کہ تو وہم ہے
اور کچھ بھی نہیں ہے
۰۰۰
نوحہ
نہ مرنے کا ڈر ہے
نہ جینے میں کوئی مزا ہے
خلا ہی خلا ہے
ہر اک چیز جیسے
اندھیرے میں گم ہوگئی ہے
اجالے کی اک اک کرن کھوگئی ہے
ہر اک آرزو سوگئی ہے
گنہ میں بھی اب کوئی لذت نہیں ہے
وہ دوزخ نہیں
اب وہ جنت نہیں ہے
کوئی بھی نہیں ہے
بس اب میں ہوں
اور میرا سنسان دل ہے
خدا کے نہ ہونے کا غم
کس قدر جاں گسل ہے
۰۰۰
نیند
رات اک گھر جل گیا!
گھر جلا تو آگ میں
گھر کے سب افراد بھی
جل کے کوئلہ ہوگئے
آگ ٹھنڈی پڑگئی تو
دیکھنے والوں نے دیکھا
گھر کے اک حصے میں جو
بچ گیا تھا آگ سے
ایک ننھی منی بچی
بھینچ کر چھاتی سے گڑیا
سو رہی تھی بے خبر!
۰۰۰
نیند آئے تو
خوف ناک جنگل میں جائوں
سانپ مار کے کچا کھائوں
ناچوں
گائوں
شور مچائوں
ننگی کالی حبشن کو
آنکھ مار کے پاس بلائوں
موٹے بھدے ہونٹوں کا
لمبا تگڑا بوسہ لوں
بڑے بڑے پستانوں پر
سر رکھ کر
گہری نیند میں سو جائوں
آنکھ کھلے تو
حبشی کے نیزے کی نوک
چھاتی میں چبھتی پائوں
ننگی کالی حبشن کی
پھٹی پھٹی بھوکی آنکھوں میں
ایک سے دو ہوجائوں
۰۰۰
وقت
ہم نے وقت کو
گھڑی میں قید کردیا ہے
جہاں وہ رات دن
ہاتھ پھیلا کے
ہاتھ اٹھاکے
ہاتھ جوڑ کے
فریاد کرتا رہتا ہے!
جب وہ آزاد تھا
وہ زمانہ
یاد کرتا رہتا ہے!!
۰۰۰
وُلف مین
آدھی رات ہوئی
اور پورا چاند نکل آیا
سوتے میں
ہونٹ چیر کے
اس کے دانت بڑھے
اور ناخن نکلے
تیز نکیلے بڑے بڑے!
پھر سارے بدن پر
بال ہی بال اگ آئے!
گائوں سے باہر
جنگل میں
بھیڑیے میں
بھیڑیے مل کے چلائے!
وہ اپنے بستر سے اٹھ کر
کھڑکی سے کود گیا!
پاس کے گھر میں
سوتے میں کوئی بچہ چونک اٹھا
دور گلی کے نکڑ پر
اک کتا بھونک اٹھا!
پھر دور
بہت ہی دور کہیں
اک چیخ سنائی دی!
پھر اس کے خالی بستر میں
اک لاش دکھائی دی!
پھر بادل گھر آئے
اور سارا منظر ڈوب گیا!!!
سورج نے آکر دیکھا تو
خالی بستر چمک رہا تھا
گہری نیند میں
وہ اپنے بستر سے نیچے لڑھک گیا تھا!!!
۰۰۰
ڈپریشن
کوئی حادثہ
کوئی سانحہ
کوئی بہت ہی بری خبر
ابھی کہیں سے آئے گی!
ایسی جان لیوا فکروں میں
سارا دن ڈوبارہتا ہوں
رات کو سونے سے پہلے
اپنے آپ سے کہتا ہوں
بھائی مرے
دن خیر سے گزرا
گھر میں سب آرام سے ہیں
کل کی فکریں
کل کے لیے اٹھا رکھو
ممکن ہو تو
اپنے آپ کو
موت کی نیند سلا رکھو!!
۰۰۰
ڈریکولا
کمرے کی دیوار توڑ کر میرے سامنے آیا تھا
اپنا سینہ چیر کے مجھ کو اپنا خون پلایا تھا
چمگادڑ سا اڑا کھلی کھڑکی سے باہر پہنچا تھا
آنکھ سے اوجھل ہوا نہیں اور میرے اندر پہنچا تھا
اس کے لیے میں روز رات کو خون چوس کر لاتا ہوں
۰۰۰
ڈوبنے سے پہلے
کوئی جانے والے جہازوں کو روکے
کوئی ان کو جاکر بتائے
مگر کون جانے
کہ چاروں طرف
چیختی بھاگتی اندھی پاگل ہوا کے علاوہ
میری ذات ہے
اور میں
اپنے اندر اترنے لگا ہوں
جہاز اب کہاں ہیں
کہاں ہے سمندر!
ہوا کس طرف بھاگتی ہے
سمندر جہاز اور ہوا اور میں
سب کے سب اپنے اندر اترنے لگے ہیں!
کوئی ان کو روکے
مگر کون روکے
کہ حد نظڑ تک مری ذات ہے
اور میں
اپنے اندر ہی اندر اترنے لگا ہوں!!
۰۰۰
کبھی کبھی
رات کو
آنکھ کھل جاتی ہے
تو سوچتا ہوں
سب برابر ہے؟
میں اور میرا گھر
بیوی بچے لاکر
کوئی چیز
ادھر ادھر تو نہیں ہوئی!
اور پھر
دیر تک
اس بات کا
افسوس کرتا ہوں
کہ میں
کتنا بکھر گیا ہوں!!
۰۰۰
کتبہ
قبر میں اترتے ہی
میں آرام سے دراز ہوگیا
اور سوچا
یہاں مجھے
کوئی خلل نہیں پہنچائے گا
یہ دو گز زمین
میری
اور صرف میری ملکیت ہے
اور میں مزے سے
مٹی میں گھلتا ملتا رہا
وقت کا احساس
یہاں آکر ختم ہوگیا
میں مطمئن تھا
لیکن بہت جلد
یہ اطمینان بھی مجھ سے چھین لیا گیا
ہوا یوں
کہ ابھی میں
پوری طرح مٹی بھی نہ ہوا تھا
کہ ایک اور شخص
میری قبر میں گھس آیا
اور اب
میری قبر پر
کسی اور کا
کتبہ نصب ہے!!
۰۰۰
کون؟
کبھی دل کے اندھے کنویں میں
پڑا چیختا ہے
کبھی دوڑتے خون میں
تیرتا ڈوبتا ہے
کبھی ہڈیوں کی سرنگوں میں بتی جلا کر
یوں ہی گھومتا ہے
کبھی کان میں آکے
چپکے سے کہتا ہے تو اب تلک جی رہا ہے؟
بڑا بے حیا ہے!
مرے جسم میں کون ہے یہ
جو مجھ سے خفا ہے
۰۰۰
کھلونے
موٹر دوڑ لگاتی ہے
چھک چھک گاڑی آتی ہے
توپ سے آگ نکلتی ہے
پلین میں بتی جلتی ہے
گڑیا آنکھیں کھولتی ہے
آگے پیچھے ڈولتی ہے
مرغی انڈے دیتی ہے
چڑیا دانے لیتی ہے
کتا باجا سنتا ہے
اونٹ کھڑا سر دھنتا ہے
بندر بینڈ بجاتا ہے
ہاتھی سونڈ نچاتا ہے
بھالو دارو پیتا ہے
گائے کے اوپر چیتا ہے
سارے کھلونے ہیں لیکن
یہ سب سچے لگتے ہیں
اور کھلونے جیسے تو
اپنے بچے لگتے ہیں
۰۰۰
کہاں دفن ہے وہ
نقاہت کے مارے برا حال تھا
پھر بھی بستر سے اٹھ کر
بڑے پیار سے اس نے مجھ کو بلایا
مرے سر پہ شفقت بھرا ہاتھ پھیرا
نہایت حلیمی سے مجھ کو کہا
سنو میرے بچے
تمہیں آج میں
اپنے پچپن برس دے رہا ہوں
اگر ہوسکے تو
کبھی ان کی قیمت چکانا
مری قبر پر تھوک جانا
بس اتنا کہا اور وہ مرگیا
اور میں
اس کے برسوں کی قیمت کو
منہ میں چھپائے
اسے ڈھونڈتا ہوں
کہاں دفن ہے وہ؟
۰۰۰
ہوا سرد ہے
ہوا سرد ہے
راستے کا دیازرد ہے
ہر طرف دھند ہے
گرد ہے
دور سے جو چلا آرہا ہے
وہ سایہ ہے لیکن
نہ جانے وہ عورت ہے
یا مرد ہے
میں دریچے میں
تنہا کھڑا سوچتا ہوں
رات کے پاس میرے لیے کیا ہے
ان جانی خوشیاں ہیں یا
کا کا باسی پرانا
پھپھوندی لگا درد ہے
ہوا سرد ہے
۰۰۰
یادیں
کھڑکی کے پردے سرکاکر
کمرے میں آجاتی ہیں
آپس میں چہلیں کرتی ہیں
میری ہنسی اڑاتی ہیں
میز پہ اک تصویر ہے اس کو
دیکھ کے شور مچاتی ہیں
میں گھبرا کے بھاگ اٹھتا ہوں
وہ مل کر چلاتی ہیں
کمرے سے ان کی آوازیں
دور دور تک آتی ہیں
دور دور تک آتی ہیں
اور پتھر برساتی ہیں
۰۰۰
یکم جنوری
پھر اک
سرد ٹھٹھرا ہوا دن
دبے پائوں چلتا ہوا
بالکنی سے
کمرے میں آیا
مجھے اپنے بستر میں
دبکا ہوا دیکھ کر
مسکرایا
اور آرام کرسی پہ بیٹھا
گھڑی گود میں رکھ کے
کانٹا گھمایا
تھکے پائوں چلتا ہوا
بالکنی کو لوٹا
تو چاروں طرف سے
اندھیروں نے بڑھ کے
اسے پھاڑ کھایا
۰۰۰
یہ سب کیا تھا
میں سمجھا تھا خواب ہے لیکن
آنکھ کھلی تو چونک کے دیکھا
میں اپنے بستر میں نہیں تھا
ننگے پائوں گائون پہنے
پنجوں کے بل کھڑا ہوا میں
اک کھڑکی سے منہ چپکائے
ایسے گھر میں جھانک رہا تھا
جو دس دن سے بند پڑا تھا
۰۰۰
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں