اپنے مضمون ’’پابند ادب انفرادیت: دہلی اور لکھنؤ میں وضع داری کی مختصر تاریخ‘‘ (مطبوعہ ’اردو ادب‘ کتاب ۳۵۲) میں لکھنؤ کے بانکوں کے ذکر میں میں نے لکھا تھا کہ بانکوں کے بارے میں کوئی مطبوعہ تحریر مجھے دستیاب نہیں اگرچہ بچپن میں کئی کتابچے اس موضوع پر دیکھے تھے۔ میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ شررؔ نے بانکوں کا ذکر محض ایک خاص انداز کے پاجامے کے بیان میں کیا ہے اور یہ کہ شررؔ نہ تو وضع داری کے خاص مدح خواں تھے اور نہ بانکوں کے۔ ان کی مشہور کتاب جسے اب ’گذشتہ لکھنؤ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، بانکوں کے دل چسپ قصّوں سے عاری ہے جب کہ اور ہر طرح کے متعدد پُرلطف قصّے اس میں موجود ہیں۔
اس وقت تک میری نظر سے محمد قمر سلیم کی انتہائی مفید تالیف ’اشاریہ دلگداز‘ جلد اوّل، نہیں گزری تھی۔ اب اس کے مطالعے سے پتا چلا کہ شررؔ نے ایک پورا مضمون لکھنؤ کے بانکوں کے بارے میں لکھا تھا جو ’دلگداز‘ (ستمبر ۱۹۱۴ء) میں شائع ہوا تھا، اس کا عنوان تھا ’ہندوستان کے بانکے‘۔ یہ مضمون دراصل ایک ابتدائیہ تحریر تھا کیوں کہ شررؔ کا اصل موضوع تھا یورپ کے عہدِ وسطیٰ بالخصوص صلیبی جنگوں کے تعلق سے معروف وہ جنگجو افراد جن کو تاریخ میں Knights Templar یا Kinghts Hospitaler کہہ کر یاد کیا جاتا ہے، چناں چہ پہلے مضمون کے بعد اس سلسلے کے دوسرے مضامین کا عنوان ہے: ’یورپ کے بانکے، نائٹ ٹمپلرز‘۔
شررؔ کے یہ تمام مضامین ان کے مضامین کے قدیم مجموعوں میں شامل تھے جو نایاب ہیں۔ اب پاکستان میں نئے انتخاب شائع کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک کا نام ہی ’یورپ کے بانکے‘ ہے۔ اسے ڈاکٹر فاروق عثمان نے مرتّب کیا ہے اور بیکن ہاؤس، لاہور نے ۲۰۰۷ء میں شائع کیا ہے۔ وہاں سے لے کر شررؔ کا مضمون ’ہندوستان کے بانکے‘ یہاں دوبارہ شائع کیا جارہا ہے تاکہ یہ اہم تحریر ہندوستان میں بھی لوگوں کے سامنے آجائے۔
شررؔ کے مضمون سے نہ صرف میری بچپن کے قصّوں کی یادوں کی تائید ہوتی ہے بلکہ یہ بھی تسلّی ہوتی ہے کہ بانکوں اور وضع داری کے متعلق ان کی رائے جو میں نے قائم کی تھی وہ غلط نہ تھی۔ ساتھ ہی کچھ اور دل چسپ باتیں سامنے آتی ہیں۔ یاد رہے کہ یورپ کے نائٹوں کا ذکر اردو میں سب سے پہلے شررؔ نے کیا تھا اور طنز و مزاح کے ساتھ۔ سرشارؔ کے مدنظر سروانتے کا عظیم ناول ’ڈان کی ہوئے‘ تھا جس کو انھوں نے اردو میں ’خدائی فوجدار‘ کی شکل میں غلط صحیح اور انتہائی مختصر کرکے پیش کیا تھا۔ سرشارؔ کی نظر میں یورپ کے نائٹ تمسخر کے لائق تھے۔ شررؔ کی نظر میں نائٹ ٹمپلرز نہ صرف دلاور اور جنگجو تھے، وہ اپنی قوم کے محافظ بھی تھے اور ایک طرح کے ٹریجک ہیرو بھی۔ اس نقطۂ نظر کی تائید کی خاطر انھوں نے اپنے مضامین میں ان تمام اعتراضات کو یا تو نظر انداز کردیا یا پھر سرسری ذکر کرکے آگے بڑھ گئے جن سے یورپ کی تاریخیں بھری ہوئی ہیں اور جن کو سروانتے اور والتیئر نے مزے لے لے کر لکھا ہے۔ خود نائٹ ٹمپلرز کی تاریخ کے کئی باب سیاہ ہیں۔ لیکن شررؔ کے سامنے کچھ اور تھا جس کا اندازہ اس بات سے ہوجائے گا کہ انھوں نے لکھنؤ کے بانکوں کو اپنے مضمون کی ابتدا ہی میں ’ہمارے یہ قومی سپاہی‘ کہا ہے اور مضمون کے آخر میں وہ لکھتے ہیں:
’’اصلی بانکپن ملک و قوم کا ایک بہت ہی اعلا درجے کا شریفانہ جوہر تھا، جو مسلمانوں کے سوا آخر ایام میں بہت سے ہندوؤں سے بھی ظاہر ہوا... یہ گروہ مٹنے کے قابل نہ تھا، اور اسے مٹانے کی نہیں بلکہ باضابطہ بنانے کی ضرورت تھی‘‘۔
شررؔ کا مکمل مضمون آگے ملاحظہ ہو۔( چودھری محمد نعیم)
٭٭٭
انگریزی حکومت سے پہلے جب دہلی کا دربارِ مغلیہ برقرار تھا، پھر اُس کے بعد لکھنؤ میں جب اودھ کی چند روزہ سلطنت قائم تھی، ہمیں بانکوں کا ایک عجیب و غریب گروہ نظر آتا ہے جن کا انجام یہ ہے کہ اُن کا کہیں پتا نہیں اور آغاز یہ تھا کہ تاریخ سے کہیں سراغ نہیں لگتا کہ یہ گروہ کب پیدا ہوا اور اس کی بنیاد کیوں کر پڑی؟
ہمارے یہ قومی سپاہی جو ’بانکے‘ کہلاتے تھے اپنی زندگی سپہ گری کی نذر کردیتے، سوتے جاگتے، اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے ہر وقت پورے اسلحہ جنگ سے آراستہ اور اوپچی بنے رہتے۔ یک رنگی و یک وضعی کو اپنا شعار جانتے اور اس بات کی دُھن تھی کہ ہماری ہی بات سب پر بالا رہے۔ باوجودیکہ وہی مروّج و متداول اسلحہ سب کے پاس ہوتے مگر ساتھ ہی ہر ایک اپنی کوئی خاص دھج اور اپنا کوئی مخصوص بانا رکھتا جس کو مرتے دم تک نہ چھوڑتا اور اس کی تاب نہ لاسکتا کہ اس دھج شعار کو کوئی اور بھی اختیار کرے۔
پہلے پہل ان بانکوں کا نام محمد شاہ رنگیلے کے زمانے میں سُنا جاتا ہے۔ پُرانے راوی اور یادگارِ زمانہ بڈھے بیان کرتے ہیں کہ محمد شاہ کے پاس ایک لشکر بانکوں کا تھا اور ایک زنانوں کا اور نادر شاہ کے مقابلے میں اگر کچھ لڑے تو یہی لوگ لڑے۔ بانکے جانیں دینے پر تُلے ہوئے تھے اور زنانے عورتوں کی طرح ’اوہی‘ کہہ کے تلوار مارتے تھے۔ اُس زمانے کے بعد جب دہلی اپنے باکمالوں اور ہر فن کے استادوں کی قدر کرنے کے قابل نہ رہی تو اُن کا رُخ اودھ کی طرف پھر گیا اور قدردانی کی امید میں ہر ادنیٰ و اعلا دہلی چھوڑ چھوڑ کے یہاں آنے لگا۔ اب یہ لوگ فیض آباد اور لکھنؤ کی سڑکوں پر ٹہلتے نظر آتے تھے۔ مگر یہاں زنانے سپہ گروں کا تو پتا نہ تھا، ہاں بانکے تھے جن کی روز بروز کثرت ہوتی جاتی تھی۔
بادی النظر میں خیال ہوتا ہے کہ تمام بانکوں کی ایک سی وضع ہوگی، مگر ایسا نہ تھا، ان میں سے ہر فرد اپنے بانکپن کو ایک نئے عنوان سے اور نئی شان سے ظاہر کرتا۔ پہلے عام وضع یہ تھی کہ سر کو چندیا سے گُدّی تک مُنڈاتے اور دونوں طرف کے پٹوں میں سے ایک تو کانوں تک رہتا اور دوسرا شانوں تک لٹکتا، بلکہ کبھی اس کی چوٹی گوندھ کے ایک طرف سینے پر ڈال لی جاتی۔ اس کے بعد جدتیں ہونا شروع ہوئیں اور ہر بانکے نے اپنے لیے کوئی نئی دھج ایجاد کی۔ کسی صاحب نے ایک طرف کی مونچھ اس قدر بڑھائی کہ وہ بڑھتے بڑھتے چوٹی سے بوس و کنار کرنے لگی۔ کسی صاحب نے پگڑی کا شملہ بجائے پیٹھ کے ایک طرف شانے پر ڈال لیا۔ کسی صاحب نے پائجامے کا ایک پائنچا اس قدر نیچا کرلیا کہ زمین بوس ہورہا ہے اور دوسرا پائنچا اس قدر اُٹنگا رکھا کہ آدھی پنڈلی کھُلی ہوئی ہے۔کسی صاحب نے لوہے کی ایک بیڑی پاؤں میں ڈال کے اُس کی زنجیر کمر میں اٹکا لی اور اُسے کھڑکاتے ہوئے پھرنے لگے۔ کسی صاحب نے یہ ترقی کی کہ بہت سے روپوں میں دونوں طرف کُنڈے لگاکے اور اُنھیں باہم جوڑکے ایک نئی قطع کی نقرئی زنجیر بنائی۔ پھر اُس کے دونوں سروں پر چاندی کے دو حلقے لگائے۔ ایک حلقے کو ایک طرف کے پاؤں میں ڈال لیا اور دوسرے کو اُسی طرف کے بازو میں پہن کے شانے پر اٹکالیا اور نہایت غرور و تمکنت کے ساتھ زنجیر بجاتے ہوئے گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ غرض جتنے بانکے تھے اُتنی ہی دھجیں تھیں۔ اسی قسم کی جدت طرازیاں اسلحہ کے متعلق تھیں۔ کوئی صاحب دو دھارا تیغہ ہاتھ میں رکھتے جو ہر وقت برہنہ اور ہوا سے لڑتا رہتا۔ کوئی صاحب رستم و نریمان کے زمانے کا وزنی سلاخ گُرز لیے پھرتے۔ کوئی صاحب تبر کاندھے پر رکھے نظر آتے اور ساری دنیا کو اپنی نظر میں ہیچ خیال کرتے۔
ان لوگوں کے باہر نکلنے کی یہ شان تھی کہ تبختُر اور نخوت کے ٹھاٹھ سے اپنے اوپر ناز کرتے ہوئے چلتے۔ ہر ایک پر کڑوے تیور ڈالتے اور اگر کہیں کسی کو دیکھ لیتے کہ اُنھیں کا بانا اور شعار اُس نے بھی اختیار کرلیا ہے تو بلاتامل ٹوک بیٹھتے اور کہتے ’’آئیے ہم سے آپ سے دو دو ہاتھ ہوجائیں۔ یہ بانا یا تو ہمارا ہی ہوگا یا آپ ہی کا ہوگا‘‘۔
اس سے زیادہ قیامت یہ تھی کہ ان لوگوں کا تبختُر، ان کا فخر و ناز، ان کی چال ڈھال، ان کی وضع قطع اور ان کے مخصوص شعار سب چیزوں کی یہ حالت تھی کہ دیکھتے ہی انسان کو بے اختیار ہنسی آجائے، مگر کس کی مجال تھی کہ اُن کی طرف دیکھ کے مُسکرا بھی دے۔ انھوں نے کسی کو جھوٹوں بھی مسکراتے دیکھا اور قرابنچے پر ہاتھ جا پڑا۔ پھر اُس وقت اگر کوئی ایسے ہی بُردبار بانکے ہوئے تو اُسے خوشامد درآمد کرکے عفوِ تقصیر کا موقع بھی ملا ورنہ بلاتامل قرابنچہ بھونک دیا اور اپنی راہ لی۔
یہ مجال نہ تھی کہ کوئی بانکے صاحب کسی صحبت میں ہوں اور کوئی اُن کی بات ٹالتا یا اُن پر اعتراض کرے۔ نتیجہ یہ تھا کہ بڑھ بڑھ کے باتیں بناتے، لاف زنی کرتے، بے پر کی اور جھوٹ کے پُل باندھتے مگر کسی کو جرأت نہ ہوسکتی کہ چوں کرے یا مسکرائے۔ مشہور ہے کہ ایک بانکے صاحب چند مہذب لوگوں کی محفل میں کہنے لگے ’’اجی فلاں راجہ کی گڑھی پر جب ہم نے سو آدمیوں سے دھاوا کیا ہے تو ہر سپاہی کے گلے میں پانچ پانچ ڈھولیں تھیں اور ہمارے سو آدمی پانسو ڈھولیں بجاتے ہوئے جاپڑے‘‘۔ اور تو کس کی مجال تھی کہ ایک بانکے کی زبان پکڑے؟ سب خاموش بیٹھے رہے مگر ایک نوجوان کی زبان سے نکل گیا: ’’خیر پانچ ڈھولیں تو گلے میں ڈال کے شاید راون کے سر کی طرح چاروں طرف پھیلالی ہوں مگر ہر آدمی پانچ پانچ ڈھولیں کن ہاتھوں سے بجاتا ہوگا؟‘‘ یہ سنتے ہی بانکے حضرت آگ بگولا ہوگئے۔ تلوار سیدھی کی اور ڈانٹ کے کہا ’’ایں! یہ ہم پر اعتراض! تو ہم جھوٹے ہوئے؟‘‘ سب نے کہا ’’آپ کو جو جھوٹا کہے وہ خود جھوٹا۔ یہ لڑکا بزرگوں کی کیا قدر جانے؟ آپ اپنی طرف دیکھیں‘‘۔
دُھن کے اس قدر پکے تھے کہ کسی کا دباؤ ہی نہ مانتے۔ یہاں تک کہ بعض بعض بہت اعلا درجے کے بانکے، بادشاہوں اور حکامِ وقت کی بھی پروا نہ کرتے تھے۔ نواب سعادت علی خاں کے زمانے میں دہلی کے آئے ہوئے مشہور بانکوں میں ایک میرزا جہانگیر بیگ تھے۔ اُن کا نوعمری کا زمانہ تھا۔باپ نواب صاحب کے درباریوں میں تھے۔ جہانگیر بیگ کی جھگڑا و فساد* کی خبر کئی بار سُن کے نواب سعادت علی خاں خاموش ہورہے، مگر آخرکار ایک دن بہت برہم ہوئے اور اُن کے والد سے کہا ’’آپ کے صاحبزادے کی شورہ پشتیاں حد سے گزرتی جاتی ہیں اور انھوں نے سارے شہر میں اُدھم مچا رکھا ہے۔ اُن سے کہہ دیجیے گا کہ اپنے اس بانکپن پر نہ بھولیں۔ ناک نہ کٹوالی ہو تو میں سعادت علی خاں نہیں‘‘۔ باپ خود ہی بیٹے کی حرکتوں سے عاجز تھے۔ عرض کیا ’’خداوند! اُس کی شرارتوں سے غلام کا ناک میں دم ہے۔ ہزار سمجھاتا ہوں نہیں مانتا۔ شاید حضور کی یہ دھمکی سُن کے سیدھا ہوجائے‘‘۔ یہ کہہ کے گھر آئے اور بی بی سے کہا ’’تمھارے صاحبزادے کے ہاتھوں زندگی سے عاجز آگیا ہوں۔ دیکھیے اس نالائق کی حرکتوں سے ہماری کیا گت بنتی ہے؟ جی چاہتا ہے نوکری چھوڑ دوں اور کسی طرف منہ چھپاکے نکل جاؤں‘‘۔ بی بی نے کہا ’’اے تو کچھ کہو گے بھی؟ آخر ہوا کیا؟‘‘ کہا ’’ہوا یہ کہ آج نواب صاحب بہت ہی برہم بیٹھے تھے۔ میری صورت دیکھتے ہی کہنے لگے اپنے بیٹے سے کہہ دینا کہ میں سعادت علی خاں نہیں جو ناک نہ کٹوالی ہو‘‘۔ اتنے میں مرزا جہانگیر بیگ جو کہیں باہر گئے ہوئے تھے، گھر میں آگئے۔ ماں نے کہا ’’بیٹا خدا کے لیے اپنی یہ حرکتیں چھوڑدو، تمھارے ابا بہت ہی پریشان ہیں‘‘۔ مرزا صاحب نے کہا ’’میرا کچھ قصور بھی بتائیے گا یا خالی الزام ہی دیجیے گا‘‘۔ باپ نے کہا ’’کوئی ایک قصور ہو تو بتایا جائے؟ تم نے وہ سر اُٹھا رکھا ہے کہ سارے شہر میں آفت مچ گئی۔ آج نواب صاحب کہتے تھے کہ اپنے صاحبزادے سے کہہ دینا میں سعادت علی خاں نہیں جو ناک نہ کٹوالی ہو‘‘۔ باپ کی زبان سے اتنا سنتے ہی مرزا صاحب کو جو طیش آیا تو کمر سے خنجر نکال لی اور خود ہی اپنی ناک کاٹ کے باپ کی طرف پھینک دی اور بولے ’’بس اسی ناک کاٹنے کی نواب صاحب دھمکی دیتے ہیں؟ لیجیے یہ ناک لے جاکے انھیں دے دیجیے‘‘۔ یہ دیکھتے ہی ماں باپ دونوں سناٹے میں آگئے اور جب باپ نے بیٹے کی ناک نذر کے طریقے سے نواب صاحب کے سامنے پیش کی اور واقعہ بیان کیا تو وہ بھی دم بخود رہ گئے اور معذرت کرنے لگے کہ ’’بھئی میرا یہ منشا نہ تھا، میں تو سمجھا تھا کہ اس دھمکی سے انھیں تنبیہ ہوجائے گی‘‘۔ باپ نے کہا ’’خداوند! ایسا نالائق اور اپنی دُھن کا پکّا ہے کہ کسی کا زور ہی نہیں چلتا۔ جسے نہ جان کا خیال ہو نہ عزت آبرو کا، اُس کے منہ کون لگے؟‘‘
اس واقعے کے بعد مرزا جہانگیر بیگ نکٹے مشہور ہوگئے۔ اور اب اتنے بڑے زبردست اور سند یافتہ بانکے تھے کہ شہر کے سارے بانکے اُن سے دبتے تھے۔ سینکڑوں بانکے ان کے شاگرد ان کے حکم کے تابع، بے عذر فرماں بردار اور اُن کے جتھے میں بھی شریک تھے جن سے سارا شہر کانپتا تھا۔ یہاں تک کہ ایک مشہور بھانڈ نے نواب سعادت علی خاں کے سامنے کوئی گستاخانہ نقل کی تو اُنھوں نے ہنس کے کہا ’’میرے سامنے تو جو چاہتا ہے کہہ جاتا ہے جب جانوں کہ تو مرزا جہانگیر بیگ نکٹے پر کوئی فقرہ تیز کرے‘‘۔ اس نے عرض کیا ’’خدا وند کہہ تو جاؤں گا مگر حضور بچا لینے کا اقرار فرمائیں‘‘۔ نواب نے وعدہ کیا اور اُس کے دوچار روز بعد ایک دن مرزا جہانگیر بیگ پورے اسلحہ لگائے دریا کنارے اپنی نشست میں مونڈھے پر بیٹھے تھے۔ پچاس ساٹھ شاگردوں اور بانکوں کا مجمع گرد تھا کہ وہ بھانڈ ایک لُنگ باندھے ہوئے دریا سے نکل کے آیا۔ اس کی صورت دیکھتے ہی مرزا جہانگیر نے کہا ’’اخاہ تم ہو؟ اچھے تو رہے‘‘۔ یہ سنتے ہی وہ آداب بجالایا۔ سامنے آکے زمین پر بیٹھ گیا اور اُن کے چہرے کی طرف ہاتھ اٹھاکے کہنے لگا ’’خداوند اتنی کٹ گئی اور جو یہ رہی ہے یہ بھی کٹ جائے گی‘‘! ایک بھانڈ کی زبان سے یہ جملہ سنتے ہی مرزا جہانگیر کو ایسا طیش آیا کہ مارے غصے کے اس قدر کانپے کہ ہاتھ سے تلوار چھوٹ گئی اور وہ بے تحاشا بھاگ کے پانی میں کود پڑا، دو چار غوطے لگائے اور پانی ہی پانی میں کسی طرف نکل گیا۔ اب مرزا صاحب کے جتھے کے لوگ ڈھونڈتے پھرتے تھے کہ کہیں ملے تو حرام زادے کو مار ڈالیں۔ آخر ایک دن نواب سعادت علی خاں نے اُسے مرزا جہانگیر بیگ کے قدموں پر گراکے کہا ’’بھئی اس کی بات کا بُرا ماننا ہی کیا؟ یہ تو مجھے بھی کہہ جاتا ہے‘‘۔ اور اس کا قصور معاف کروادیا۔
شاہی کے آخری زمانے تک اِن لوگوں کا بڑا زور رہا۔ اور بانکپن میں کچھ ایسی امتیاز کی صورتیں تھیں کہ اکثر شریف زادے خصوصاً وہ جنھیں سپہ گری کا شوق ہوتا، بانکے بن جاتے اور اپنی کوئی خاص دھج بنالیتے۔ اگر قاعدے اور سلطنت کی قوت کے ساتھ کوئی ایسا گروہ موجود ہوتا تو دراصل یہ لوگ سلطنت کے قوتِ بازو ثابت ہوتے اور اُن کی ذات سے قوم و ملک کو بڑا نفع پہنچتا۔ لیکن بدنصیبی سے جن دنوں بانکوں کا گروہ پیدا ہوا تھا۔ دہلی و لکھنؤ کی دونوں سلطنتیں نہایت کمزور اور عجیب غیر منتظم حالت میں تھیں اور یہی بانکے جو مایۂ ناز اور ذریعۂ عروج ہوسکتے تھے اُن کے لیے باعثِ زوال بن گئے۔ سلطنت اُن کو دبا نہ سکتی تھی اور اُن کی خود سری و سرکشی سے آئے دن شہر کے گلی کوچوں میں خانہ جنگیاں ہوا کرتی تھیں۔ جن لوگوں کو اُن کے ہاتھ سے آزار پہنچتا سلطنت اُن کی دادرسی نہ کرسکتی اور انھوں نے اپنے ایسے ایسے جتھے بنالیے تھے کہ بڑے بڑے رسال داروں کو بھی اُن سے دب جانا پڑتا تھا۔
ان میں باوجود احمقانہ تفاخر و غرور کے یہ خاص بات تھی کہ ہندوستان کے بلکہ شاید ساری اگلی دنیا کے کج خانوں میں سپہ گروں کے خلاف یہ نہایت ہی مہذب سپاہی ہے۔ اور اُن لوازم اخلاق کو جو دو مہذب و شائستہ دوستوں میں ہوا کرتے ہیں اپنے حریف کے ساتھ برتتے تھے۔ کسی ادنیٰ درجے کے سپاہی سے لڑنا اور مقابلہ کرنا اپنا شان و وضع کے خلاف اور موجبِ توہین تصور کرتے۔ شریف حریف ہی سے لڑتے اور پھر اُس کے ساتھ شرفا کا سا برتاؤ بھی کرتے۔ اکثر یہ بھی ہوا کہ دو بانکوں میں لڑائی ہوئی اور لڑائی میں بھی دونوں کو اس کا لحاظ ہے کہ کوئی بات حریف کی عزت و حرمت یا مرضی و شان کے خلاف نہ ہونے پائے۔ ایک کہتا ’’پہلے آپ وار کریں‘‘۔ دوسرا کہتا ’’نہیں پہلے آپ۔ یہ نہیں ہوسکتا‘‘۔ پھر جب حریف کمزور ثابت ہوجاتا تو فوراً لڑائی سے ہاتھ روک لیتے اور پھر اُس کے حق میں اُن سے زیادہ کوئی مہربان نہ تھے۔ دنیا میں اس کے نہایت ہی سچے ہمدردیہ تھے۔ اگر مغلوب دشمن اپنے پاؤں سے جانے کے قابل نہ ہوتا تو اُس کے گھر تک اُس کی مشایعت کرتے۔ راستے میں بیسیوں جگہ یہ واقعہ پیش آتا کہ یہ کہتے آپ آگے چلیے۔ اور وہ کہتا آپ آگے چلیے۔ بعض بانکوں کے واقعات میں مشہور ہے کہ لڑائی کے بعد زخمی حریف کو اُس کے گھر تک پہنچانے گئے اور وہاں سے چلے تو حریف دوست نے کہا ’’تو کیا آپ تنہا جائیں گے؟ یہ نہیں ہوسکتا‘‘۔ وہ انھیں ان کے گھر تک پہنچانے کو آیا اور جب وہ پہنچا کے چلا تو اخلاقاً پھر اُس کے ساتھ ہولیتے۔ اسی اخلاق میں صبح ہوگئی کہ جب یہ اُس کے گھر پہنچتے ہیں تو وہ ان کی مشایعت کے لیے ان کے ساتھ ہولیتا ہے۔ اور جب وہ ان کے گھر پہنچتا ہے تو یہ اُس کی مشایعت کے لیے اُس کے ساتھ ہولیتے ہیں۔
اکثر بانکوں کی یہ وضع تھی کہ شربتی کے باریک انگرکھے کے سوا کوئی کپڑا نہ پہنتے اور لڑائی میں زرہ پہننا یا ڈھال سے کام لینا بُزدلی اور نامردی خیال کرتے۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ حریف کا سامنا ہوتا تو اُس کی تلوار کو گویا ننگے سینے پر لیتے۔ چرکے پر چرکے کھاتے اور اُف نہ کرتے۔ اسی طرح چلّوں کا جاڑا اُسی شربتی کے انگرکھے پر گزرتا اور مجال کیا کہ کانپیں، تھرتھرائیں یا زبان سے ’سُو! سُو! کی آواز نکلے۔ بعض اس پر بھی یہ قیامت کرتے کہ اُس کے باریک لباس پر باسی پانی چھڑکواتے اور جوں جوں سردی معلوم ہوتی اور اکڑتے جاتے۔
ان کی آخر زمانے کی عام وضع دکھانے کے لیے ہم ایک بانکے صاحب کی صورت اپنے ناظرین کو دکھائے دیتے ہیں جنھیں خوش نصیبی سے ہم نے اپنے بچپن میں غدر کے تیرہ چودہ برس بعد مٹیا برج (کلکتہ) میں اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ یہ صاحب عہدِ شاہی کے باقیات الصالحات میں سے تھے۔ غدر میں جابجا لڑے۔ جب انگریزوں کا تسلط ہوگیا تو ہتھیار پھینک کے بہت دنوں تک ادھر اُدھر چھپتے پھرے اور آخر جب پریشان ہوئے تو کلکتہ میں آئے کہ واجد علی شاہ کے ظلِ عاطفت میں باقی ماندہ زندگی بسر کردیں۔ اُن سے اگرچہ ہتھیار چھِن گئے تھے مگر وضع نہیں بدلی تھی۔ یہ ایک کشیدہ قامت دُبلے چھریرے آدمی تھے۔ پیشانی سے گُدی تک بیچ میں سرمُنڈا ہوا تھا۔ ایک پٹا بڑا تھا اور ایک چھوٹا اور دونوں دو پلڑی ٹوپی اور پگڑی کے نیچے نکلے ہوئے تھے۔ ڈاڑھی چڑھی تھی اور مونچھیں ہمیشہ کھڑی رہتیں۔ بدن میں کھنچا ہوا چُست نیچے دامنوں کا انگرکھا تھا۔ ٹانگوں میں عورتوں کا سا لمبے پائنچوں کا کلیوں دار پاجامہ۔ پیٹھ پر مثلث وضع کا رومال اوڑھے رہتے۔ ہاتھ میں ہر وقت ایک پنکھا رہتا اور لکھنؤ کا خورد نو کا جوتا پاؤں میں تھا، مگر یک رنگی کا سب سے زیادہ نمایاں ثبوت یہ تھا کہ یہ سب کپڑے چھینٹ کے تھے جس چھینٹ کا انگرکھا تھا اُسی کی ٹوپی اُسی کی پگڑی تھی۔ اسی کا رومال پیٹھ پر، اُسی کا پائجامہ تھا، اُسی کا پنکھا تھا اور وہی چھینٹ جوتے کے بیرونی رُخ پر بھی منڈھی ہوئی تھی۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سارے بانکوں کی یہی وضع تھی، ممکن ہے کہ اِنھیں بزرگ نے خاص اپنی یہ دھج رکھی ہو۔
مٹیابرج میں چند روز یہ اسی وضع میں رہے۔ جدھر سے نکل جاتے انگلیاں اُٹھنے لگتیں اور لوگ گھبرا گھبراکے ان کی صورت دیکھتے اور ہنستے۔ اب انگریزوں میں یہ تو مجال نہ تھی کہ کسی کو ہنسنے پر ٹوکیں۔ وہ جو مثل مشہور ہے کتاوبی بلی چوہوں سے کان کٹاتی رہے۔ یہ بے چارے خود ہی نظر نیچی کرلیتے اور کوئی چاہے کچھ کہے یا کچھ کرے یہ اپنی آنکھیں جھکائے چلے جاتے، مگر باوجود اس کے اکڑ اور تیوروں کا وہی حال تھا۔ کسی محفل میں بیٹھ کے باتیں کرتے تو معلوم ہوتا کہ ساری صحبت پر حکومت کررہے ہیں اور کسی کی اپنے سامنے کچھ ہستی نہیں سمجھتے۔ جب واجد علی شاہ کا سامنا ہوا تو بادشاہ نے کہا ’’بھئی چھوٹے خان... اور یہی ان بانکے صاحب کا نام تھا...‘‘۔ اب زمانہ بدل گیا، نہ وہ ہم رہے نہ وہ تم رہے، اس لیے جس طرح ہماری وضع بدل گئی ایسے ہی اب تم بھی اپنی وضع بدل دو‘‘۔ عرض کیا ’’خداوندا! اب تھوڑی سی رہ گئی ہے اسے اسی وضع میں گزر جانے دیجیے‘‘۔ بادشاہ نے کہا ’’نہیں تمھیں میرے سر کی قسم اب وضع بدل دو اور سمجھو کہ جو کچھ ہونا تھا سو ہوچکا‘‘۔ یہ کہہ کے بادشاہ نے ایک خواص کو اشارہ کیا جس نے ایک دوشالہ لاکے اُڑھا دیا۔ جب دوسری وضع کا کپڑا اُڑھاہی دیا گیا تو مجبور ہوگئے۔ آداب بجا لاکے وہ دوشالہ لے لیا اور گھر آئے، پھر اس کے بعد جو گھر سے نکلے تو سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے۔
چند سال بعد اُنھوں نے مٹیابرج میں انتقال کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ ان کی موت پر نہیں بلکہ اُن کی وضع بدلنے ہی پر پُرانے بانکوں کا خاتمہ ہوگیا۔
اس میں شک نہیں کہ جب شریف زادوں اور عام سپہ گروں میں بانکے بننے کا شوق بڑھا، ادنیٰ و اعلا ہر گروہ میں بانکے پیدا ہونے لگے اور شہر میں بانکوں کی کثرت ہوئی تو بہت سے ایسے بانکے بھی نظر آنے لگے جن میں نہ ویسی شرافت تھی اور نہ ویسی شجاعت اور جب موقع پڑتا اُن کی کمزوری کھُل جاتی۔ لیکن اصلی بانکپن ملک و قوم کا ایک بہت ہی اعلا درجے کا شریفانہ جوہر تھا جو مسلمانوں کے سوا آخر ایام میں بہت سے ہندوؤں سے بھی ظاہر ہوا۔ اس اعلا جوہر کا ہندوستان سے مٹ جانا اِس کی تاریخ کا ایک حسرت ناک ورق ہے۔
ہمیں اس سے انکار نہیں ہے کہ بانکوں کی کثرت اور ہتھیاروں کے بے روک بے ضرورت استعمال نے ملک کے امن و امان میں فرق ڈال دیا تھا۔ شہر میں روز خانہ جنگیاں ہوتیں اور اکثر رہ گذروں پر لاشیں پھڑکتی نظر آتیں۔ یہی نہیں بلکہ روز بروز ثابت ہوتا جاتا کہ بانکے سپہ گر خانہ جنگیوں اور باہمی جدال و قتال میں جس قدر زیادہ باکمال اور شجاع ہیں اُسی قدر غنیم کے حملے روکنے اور میدانِ جنگ میں اپنے ابنائے وطن کے ساتھ شریک ہوکے لڑنے میں ناقص و ناکارہ ہیں، لیکن اس پر بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ گروہ مٹنے کے قابل نہ تھا اور مٹانے کی نہیں بلکہ باضابطہ بنانے کی ضرورت تھی۔
یورپ میں بھی ہمیں قدیم الایام میں بانکوں کا ایک گروہ نظر آتا ہے جو ’نائٹ‘ کہلاتے تھے۔ موجودہ یورپ کے اعلا درباروں سے فی الحال معزز لوگوں کو جو نائٹ کا خطاب ملا کرتا ہے یہ اُسی پُرانے فنا شدہ گروہ کی یادگار ہے۔ ہم ان مغرب کے بانکوں کا حال آئندہ نمبر میں بیان کریں گے۔
ماخذ
’یورپ کے بانکے‘ مرتّبہ فاروق عثمان، لاہور، ۲۰۰۷ء۔
عبدالحلیم شرر:ؔ ’یورپ کے بانکے‘ مرتّبہ ڈاکٹر فاروق عثمان، لاہور، بیکن ہاؤس، ۲۰۰۷ء، ص۸۲۔۷۶۔
(مطبوعہ رسالہ ’دلگداز‘، ستمبر ۱۹۱۴ء)
٭٭٭
اس مضمون کے آغاز میں اردو ادب کے ایڈیٹر کی جانب سے یہ نوٹ لکھا گیا ہے۔
شررؔ کا یہ دل چسپ اور نایاب مضمون ہمیں چودھری محمد نعیم کی جانب سے ان کے وضاحتی نوٹ کے ساتھ عنایت ہوا ہے جسے ہم ان کے شکریے کے ساتھ ’اردو ادب‘ کے صفحات پر آراستہ کررہے ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو چودھری محمد نعیم کا وضاحتی نوٹ جو مضمون سے پہلے یہاں درج ہے۔
(اڈیٹر)
مشمولہ اردو ادب، شمارہ اکتوبر تا دسمبر 2011
بشکریہ اطہر فاروقی، جنرل سکریٹری، انجمن ترقی اردو (ہند)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں